اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟20%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36887 / ڈاؤنلوڈ: 4875
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

کہ اس نے تم کو ایمان لانے کی ہدایت دے دی ہے اگر تم واقعا دعوائے ایمان میں سچے ہو.

( قُلْ‏ إِنْ‏ كانَ‏ آباؤُكُمْ‏ وَ أَبْناؤُكُمْ- وَ إِخْوانُكُمْ وَ أَزْواجُكُمْ وَ عَشِيرَتُكُمْ وَ أَمْوالٌ اقْتَرَفْتُمُوها- وَ تِجارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسادَها وَ مَساكِنُ تَرْضَوْنَها- أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ جِهادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ- وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفاسِقِينَ )

اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ، دادا، اولاد، برادران، ازواج، عشیرہ و قبیلہ اور وہ اموال جنہیں تم نے جمع کیا ہے اور وہ تجارت جس کے خسارہ کی طرف سے تم فکر مند رہتے ہو اور وہ مکانات جن کو تم پسند کرتے ہو تمہاری نگاہ میں اللہ، اس کے رسول(ص) اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو وقت کا انتظار کرو یہاں تک کہ امر الہی آجائے اور اللہ فاسق قوم کی ہدایت نہیں کرتا. توبہ، آیت/۲۴

( قالَتِ‏ الْأَعْرابُ‏ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَ لكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمانُ فِي قُلُوبِكُمْ ‏) حجرات، آیت/۱۴

یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو بلکہ یہ کہو کہ اسلام لے آئے ہیں کیونکہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے.

( إِنَّما يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ‏ بِاللَّهِ‏ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ ارْتابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ .) توبہ، آیت/۴۵

۲۰۱

یہ اجارت صرف وہ لوگ طلب کرتے ہیں جن کا ایمان اللہ اور روز آخرت پر نہیں ہے اور ان کے دلوں میں شبہہ ہے اور وہ اسی شبہہ میں چکر کاٹ رہے ہیں.

( لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ‏ ما زادُوكُمْ إِلَّا خَبالًا وَ لَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَ فِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَ اللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ) توبہ، آیت/۴۷

اگر یہ تمہارے درمیان نکل بھی پڑتے تو تمہاری وحشت میں اضافہ ہی کر دیتے اورتمہارے درمیان فتنہ کی تلاش میں گھوڑے دوڑاتے پھرتے اور تم میں ایسے لوگ بھی تھے جو ان کی سننے والے بھی تھے اور اللہ تو ظالمین کو خوب جاننے والا ہے.

( فَرِحَ‏ الْمُخَلَّفُونَ‏ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ وَ كَرِهُوا أَنْ يُجاهِدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَ أَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ- وَ قالُوا لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ- قُلْ نارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كانُوا يَفْقَهُونَ ‏)

جو لوگ جنگ تبوک میں نہیں گئے وہ رسول اللہ(ص) کے پیچھے بیٹھے رہ جانے پر خوش ہیں اور انہیں اپنے جان و مال سے رہ خدا میں جہاد ناگوار معلوم ہوتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ تم لوگ گرمی میں نہ نکلو تو پھر ( پیغمبر) آپ کہہ دیجئے کہ آتش جہنم اس سے زیادہ گرم ہے اگر یہ لوگ کچھ سمجھنے والے ہیں. ( توبہ، آیت۸۱)

( ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ‏ وَ كَرِهُوا رِضْوانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمالَهُمْ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغانَهُمْ وَ لَوْ نَشاءُ لَأَرَيْناكَهُمْ

۲۰۲

فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيماهُمْ وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ وَ اللَّهُ يَعْلَمُ أَعْمالَكُمْ ) محمد(ص)، آیت/۳۰

یہ اس لئے کہ انہوں نے ان باتوں کا اتباع کیا ہے جو خدا کو ناراض کرنے والی ہیں اور اس کی مرضی کو ناپسند کیا ہے تو خدا نے بھی ان کے اعمال کو برباد کر رکھا ہے کیا جن لوگوں کے دلوں میں بیماری پائی جاتی ہے ان کا خیال یہ ہے کہ خدا ان کے دلوں کے کینوں کو باہر نہیں لائے گا اور ہم چاہتے تو انہیں دکھلا دیتے اور آپ چہرے کے آثار ہی سے پہچان لیتے اور ان کی گفتگو کے انداز سے تو پہچان ہی لیں گے اور اللہ تم سب کے اعمال سے خوب واقف ہے.

( وَ إِنَ‏ فَرِيقاً مِنَ‏ الْمُؤْمِنِينَ‏ لَكارِهُونَ يُجادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ ما تَبَيَّنَ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَ هُمْ يَنْظُرُونَ ‏) انفال آیت/۶

اگرچہ مومنین کی ایک جماعت اسے نا پسند کر رہی تھی یہ لوگ آپ سے حق کے واضح ہو جانے کے بعد بھی اس کے بارے میں بحث کرتے ہیں جیسے کہ موت کی طرف بہکائے جا رہے ہوں اور حسرت و یاس سے دیکھ رہے ہوں.

( ها أَنْتُمْ‏ هؤُلاءِ تُدْعَوْنَ‏ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ، وَ مَنْ يَبْخَلْ فَإِنَّما يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ، وَ اللَّهُ الْغَنِيُّ وَ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ، وَ إِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ ثُمَّ لا يَكُونُوا أَمْثالَكُمْ ) محمد آیت/۳۸

۲۰۳

ہاں تم لوگ وہی ہو جنہیں راہ خدا میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے تو تم میں سے بعض لوگ بخل کرنے لگتے ہیں اور جو لوگ بخل کرتے ہیں وہ اپنے ہی حق میں بخل کرتے ہیں اور خدا سب سے بے نیاز ہے تم ہی سب اس کے محتاج ہو اگر تم منہ پھیر لوگے تو وہ تمہارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا جو اس کے بعد تم جیسے نہ ہوں گے.

( مَنْ‏ يَلْمِزُكَ‏ فِي الصَّدَقاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْها رَضُوا وَ إِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْها إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ .) توبہ، آیت/۵۸

اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو خیرات کے بارے میں الزام لگاتے ہیں کہ انہیں کچھ مل جائے تو راضی ہو جائیں گے اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوجائیں گے.

( وَ مِنْهُمْ مَنْ‏ يَسْتَمِعُ‏ إِلَيْكَ‏ حَتَّى إِذا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِكَ قالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ما ذا قالَ آنِفاً أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى‏ قُلُوبِهِمْ وَ اتَّبَعُوا أَهْواءَهُمْ .) محمد(ص)، آیت/۱۶

اور ان میں سے کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو آپ کی باتیں بظاہر غور سے سنتے ہیں اور جب آپ کے پاس سے باہر نکلتے ہیں تو جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے تو ان سے کہتے ہیں کہ انہوں نے ابھی کیا کہا تھا ہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر خدا نے مہر لگا دی ہے اور انہوں نے اپنی خواہشات کا اتباع کر لیا ہے.

۲۰۴

( وَ مِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ‏ النَّبِيَ‏ وَ يَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ يُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَ رَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ الَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ ) توبہ، آیت/۶۱

ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو صرف کان ہیں آپ کہہ دیجئیے کہ تمہارے حق میں بہتری کے کان ہیں کہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین کی تصدیق کرتے ہیں اور صاحبان ایمان کے لئے رحمت ہیں اور جو لوگ رسول خدا کو اذیت دیتے ہیں ان کے واسطے دردناک عذاب ہے.

تحقیق کرنے والوں کے لئے واضح آیات کی یہ مقدار کافی ہے اس طرح صحابہ کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں.

۱- جو خدا و رسول(ص) پر ایمان لائے اور اپنے امر و قیادت کو خدا ورسول(ص) کے سپرد کر دیا، ان کی اطاعت کی، ان کی صحبت میں زندگی گذاری اور ان کی خوشنودی میں جان دے دی، وہ کامیاب و رستگار ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے. قرآن انہیں شاکرین کے نام سے یاد کرتا ہے.

۲- جو لوگ ظاہر میں خدا و رسول(ص) پر ایمان لائے لیکن ان کے دلوں میں بیماری رہی اور انہوں نے اپنے امور کو خدا و رسول(ص) کے سپرد نہیں کیا. ہاں شخصی فوائد و دنیاوی مصلحت کے تحت خاموش رہے اور احکام و امر رسالت کے بارے میں رسول(ص)سے جھگڑتے رہے....

یہ گھاٹا اٹھانے والے ہیں ان کی اکثریت ہے قرآن نے انہیں بہت ہی حقیر تعبیر سے یاد کیا ہے. چنانچہ ارشاد ہے:

۲۰۵

( لَقَدْ جِئْناكُمْ‏ بِالْحَقِّ وَ لكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كارِهُونَ ‏) زخرف، آیت/۷۸

یقینا ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے لیکن تمہاری اکثریت تو حق کو ناپسند کرنے والی ہے.

اس سے محقق پر یہ بات منکشف ہو جائے گی کہ یہ اکثریت نبی(ص) کے ساتھ زندگی گزارتی تھی آپ کے پیچھے نماز پڑھتی تھی، حضر و سفر میں آپ کے ہمراہ رہتی تھی، اور آپ کے تقرب کا اس لئے ذریعہ ڈھونڈتی تھی تاکہ مخلص مومنین ان کی حالت سے واقف نہ ہوسکیں اور عبادت و تقوی کے لحاظ سے لوگوں کی نظروں میں خود کو ایسا بنا کر پیش کرتی تھی کہ جس پر مومنین رشک کرنے لگیں.(۱) جب حیات نبی(ص) میں ان کی یہ حالت تھی تو نبی(ص) کے بعد انہوں نے کیا کچھ نہ کیا ہوگا.

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ بہت چالاک تھے ان کی تعداد روز افزون تھی ان کے ہم خیال بہت زیادہ تھے اب کوئی نبی(ص) نہیں تھا جو انہیں پہچانتا اور نہ ہی وصی کا سلسلہ تھا جو ان کی حقیقت کا انکشاف کرتا خصوصا نبی(ص) کی وفات

____________________

۱.امام احمد نے اپنی مسند میں اور ابن حجر نے اصابہ میں ذی اللہ یہ کے حالات میں انس ابن مالک سے نقل کیا ہے کہ رسول(ص) کے زمانہ میں ہم اس عبادت و جانفشانی پر تعجب کیا کرتے تھے ایک مرتبہ اس کی حالات کی خدمت میں بیان کی گئی لیکن آپ(ص) اس کے نام سے نہ سمجھ سکے پھر صفت بیان کی گئی پھر بھی آپ متوجہ نہ ہوسکے کچھ دیر بعد جب وہ نکلا تو ہم نے آنحضرت(ص) سے کہا یہ ہے وہ شخص رسول(ص) نے فرمایا : مجھے اس شخص کے متعلق بتا رہے ہو جس کے چہرے سے شیطنت آشکار ہے یہ اور اس کے اصحاب قرآن پڑھتے ہیں لیکن اسے تسلیم نہیں کرتے. دینی معاملات سے ایسے گذر جاتے ہیں جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے انہیں قتل کردو یہی شریر ہیں.

۲۰۶

حسرت آیات کے بعد اہل مدینہ کے درمیان دیکھتے ہی دیکھتے افتراق پھیل گیا اسی طرح جزیرة العرب میں وہ لوگ مرتد ہوگئے جو کفر و نفاق میں بہت ہی سخت تھے، ان میں سے بعض نے تو نبوت کا دعوی کردیا جیسے مسیلمہ کذاب اور طلیحہ و سجاح بنت الحرث اور ان کے پیروکار، واضح رہے کہ یہ سب صحابہ تھے.

اگر ہم ان تمام باتوں سے چشم پوشی کر لیں اور صرف رسول(ص) کے ان صحابہ کو مورد نظر قرار دیں کہ جو مدینہ میں مقیم تھے تو ان کے بارے میں بھی ہمیں یقین ہے کہ ان میں بھی نفاق کے عناصر موجود تھے یہاں تک کہ ان میں بیشتر خلافت کے چکر میں اپنی پہلی حالت کی طرف پلٹ گئے تھے.

گذشتہ بحثوں میں ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ انہوں نے رسول(ص) اور ان کے جانشین کے خلاف کاروائی کی اور رسول(ص) کے احکام کی اس وقت مخالفت کی جب آپ بستر مرگ پر تھے.

یہ وہ حقیقت ہے جس کا اقرار تاریخ و سیرت نبی(ص) کی کتابوں کے مطالعہ کے وقت ہر ایک حق کا متلاشی کرے گا اور کتاب خدا میں اس بات کو جلی ترین عبارت میں بیان کیا گیا ہے. چنانچہ ارشاد ہے.

( وَ ما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ‏ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَ فَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى‏ أَعْقابِكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلِبْ عَلى‏ عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ) آل عمران، آیت/۱۴۴

اور محمد(ص) تو صرف رسول ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذرے ہیں کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو تم الٹے پیروں پلٹ جائو گے تو جو ایسا کرے گا وہ خدا کو کوئی نقصان

۲۰۷

نہ پہونچا سکے گا اور خدا شکر گزاروں کو عنقریب ان کی جزا دے گا.

پس صحابہ میں سے شکر گزار بہت تھے اور وہی دین پر باقی رہے اور اس زمانہ میں ثابت قدم رہے جب دوسرے رسول(ص) کے خلاف سازش میں مصروف تھے اور انہوں نے دین میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی.

یہ آیہ کریمہ اور اس کا محکم مفہوم اہل سنت کے اس دعوے کو باطل کر دیتا ہے کہ صحابہ کا منافقین سے کوئی تعلق نہ تھا اور اگر ہم ان کی اس بات کو قبول بھی کریں تو بھی باس آیت کا تعلق مخلص صحابہ سے صحابہ سے ہے کہ جو حیات نبی(ص) میں منافق نہیں تھے لیکن آپ کی وفات کے بعد الٹے پیروں اپنی پہلی حالت پر پلٹ گئے تھے.

ان کی کیفیت عنقریب اس وقت واضح ہوگی جب ہم حیات نبی(ص) میں اور ان کی حیات کے بعد صحابہ کے کارناموں کا جائزہ لیں گے اور ان کے بارے میں رسول(ص) کے اقوال کا تجزیہ کریں گے اور ان کے متعلق رسول(ص) کے اقوال سے تاریخ و حدیث و سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں.

حدیث نبی(ص) بعض صحابہ کا راز فاش کرتی ہے

مخالف ان احادیث نبوی میں کہ جو صحابہ کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کوئی خدشہ وارد نہیں کرسکے گا اور انہیں ضعیف قرار نہیں دے سکے گا، اس وقت ہم بخاری سے احادیث پیش کرتے ہیں جو اہل سنت کے نزدیک صحیح ترین کتاب ہے. اگر چہ بخاری نے صحابہ کی عزت بچانے کے لئے بہت احادیث کو چھپالیا ہے یہ بات تو ان کے متعلق مشہور ہے. اس لئے کہ بخاری کے علاوہ اہل سنت کی صحاح

۲۰۸

میں واضح عبارت میں ان کا ضعف بیان کیا گیا ہے اس کے باوجود ہم اپنی صحت کے استحکام کے لئے بخاری کی مختصر احادیث ہی پر اکتفا کرتے ہیں.

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۱ کی کتاب الایمان کے خوف المومن من یحبط عملہ و ہو لا یشعر میں تحریر کیا ہے کہ:

ابراہیم تمیمی نے کہا کہ میں نے اپنے قول کو اپنے عمل پر کبھی نہیں پرکھا، کیونکہ مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں میں جھوٹا ثابت نہ ہو جائوں. ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی(ص) کے ایسے تیس صحابہ سے ملاقات کی ہے کہ جنہیں اپنے بارے میں یہ خوف تھا کہ کہیں وہ منافق نہ ہوں. ان میں سے کوئی ایک بھی یہ دعوی نہیں کرتا تھا کہ ہم جبرئیل و میکائیل کے ایمان پر بر قرار ہیں.(۱)

اور جب ابن ابی ملیکہ نے تیس(۳۰) صحابہ نبی(ص) کو اپنے نفاق سے ڈراتا ہوا پایا اور وہ اپنے صحیح ایمان کا دعوی بھی نہیں کرسکتے تھے پھر اہل سنت کو کیا ہوگیا کہ وہ صحابہ کو انبیاء کی منزل تک پہونچاتے ہیں اور کسی کے متعلق تنقید سننا گوارا نہیں کرتے. بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۴ کی کتاب الجہاد و السیر کے جاسوس و تجسس والے باب میں تحریر کیا ہے کہ: حاطب ابن ابی بلتعہ رسول(ص) کے صحابی نے مشرکین مکہ کو رسول(ص) کے منصوبوں کی خبر دی جب اسے اس کے خط کے ساتھ رسول(ص) کی خدمت میں حاضر کیا گیا اور رسول(ص) نے اس سے دریافت کیا

____________________

۱.صحیح بخاری، جلد/۱ ص۱۷

۲۰۹

کہ یہ کیا ہے تو اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں مکہ میں اپنے قرابتداروں کی حمایت کرنا چاہتا تھا. رسول(ص) نے اس کی تصدیق کی عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ(ص) اجازت دیجئے میں اس منافق کی گردن اڑادوں. کہا: یہ بدر میں شریک تھا تم لو جانتے ہی ہو کہ خدا نے اہل بدر کے بارے میں کیا فرمایا ہے. کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کیا.(۱)

اور جب حاطب ایسا صحابی جو بدری صحابہ میں سے تھا نبی(ص) کے اسرار کو نبی(ص) کے دشمن و مشرکین کے پاس بھیج دیتا ہے اور اپنے قرابتداروں کی حمایت کی وجہ سے خدا و رسول(ص) کے ساتھ خیانت کرتا ہے اور عمر ابن خطاب اس کے نفاق کی گواہی دیتے ہیں تو ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو فتح خیبر و فتح حنین کے بعد یا فتح مکہ کے بعد جبرایا یا خوشی خواہ مسلمان ہوئے تھے.

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۶ کتاب فضائل القرآن کے( سَواءٌ عَلَيْهِمْ‏ أَسْتَغْفَرْتَ‏ لَهُمْ‏ أَمْ لَمْ‏ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ‏ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفاسِقِينَ ‏) والے باب میں تحریر کیا ہے کہ:

مہاجرین کے ایک شخص کا انصار کے کسی آدمی سے جھگڑا ہوگیا، انصاری نے انصار کو پکارا اور مہاجر نے مہاجرین سے مدد طلب کی جب رسول(ص) نے یہ سنا تو فرمایا: کیا جاہلیت کے جھگڑے لوٹ آئے؟ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ(ص)! مہاجرین کا ایک آدمی انصار سے لڑگیا. آپ نے فرمایا لڑائی جھگڑا ختم کرو کیونکہ یہ پوچ ( پوسیدہ) حرکت ہے.

رسول(ص) اس بات کے بعد فورا عبداللہ ابن ابی نے

۲۱۰

کہا قسم خدا کی جب ہم مدینہ واپس جائیں گے تو جو لوگ شریف طاقتور اور با عزت ہیں وہ یقینا ذلیل و خوار لوگوں کو مدینہ سے باہر نکال دیں گے، شدہ شدہ یہ خبر رسول(ص) تک پہونچی عمر نے کھڑے ہو کر کہا پیغمبر(ص) خدا اجازت دیجئے تو میں اس منافق کی گردن مار دوں، پیغمبر(ص) نے فرمایا: جانے دو تا کہ لوگ یہ نہ کہیں پیغمبر(ص) اپنے اصحاب کو قتل کر رہے ہیں.(۱)

اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ منافقین رسول(ص) کے اصحاب میں تھے، اسی لئے تو رسول(ص) نے عمر کی بات کی تائید کی عمر نے عبداللہ ابن ابی کو منافق کہا تھا، لیکن منافق ہونے کے باوجود پیغمبر(ص) نے عمر کو اس ( عبداللہ ابن ابی) کے قتل کرنے کی اجازت اس لئے نہیں دی کہ لوگ یہ کہنے لگیں گے کہ محمد(ص) اپنے اصحاب کو قتل کر رہے ہیں. محمد(ص) اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ میرے اصحاب زیادہ تر منافق ہیں اگر منافقوں کو قتل کیا جائے تو آپ(ص) کے اصحاب کی تعداد بہت کم رہ جائے گی. کہاں ہیں اہلسنت؟ کیا وہ اس تلخ حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں؟ ان کے خیالات کو باطل کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے.

بخاری نے کتاب الشہادات جلد/۳ باب حدیث افک میں تحریر کیا ہے کہ:

پیغمبر(ص) نے فرمایا: آیا کوئی ہے جو مجھے اس شخص سے نجات دلائے جو میرے اہل بیت(ع) کو اذیت دیتا ہے. یہ سن کر سعد ابی معاذ کھڑے ہوئے اور کہا اے پیغمبر(ص) قسم خدا کی

____________________

۱.بخاری جلد/۶ ص۶۵

۲۱۱

میں آپ کو اس سے نجات دلائوں گا خواہ اس کا تعلق اوس و خزرج کے قبیلہ ہی سے کیوں نہ ہو میں اس کی گردن مار دوں گا آپ ایسے موقعوں پر ہمیں بلائیے، ہم آپ کی مدد کو پہونچیں گے، حکم بجا لائیں گے، اس کے بعد سعد ابن عبادہ قبیلہ خرزج کے رئیس سے حمیت کے مارے نہ رہا گیا اور کھڑے ہو کر کہا تم جھوٹ کہتے ہو قسم خدا کی تم ان ( خزرج والوں) کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، ا ن کے بعد اسید ابن خضیر کھڑے ہوئے اور کہا قسم خدا کی تم جھوٹ کہتے ہو ہم اسے لازمی قتل کریں گے. اور چونکہ تم منافق ہو اس لئے منافقوں کی طرفداری کر رہے ہو. نتیجہ یہ ہوا کہ قبیلہ اوس و خزرج والے جنگ پر آمادہ ہوگئے. پیغمبر(ص) منبر پر تھے اور انہیں، ( اوس خزرج والوں کو) ٹھنڈا کرنے کوشش کر رہے تھے یہاں تک کہ ان کا غیظ و غضب ختم ہوا اور وہ جنگ و خونریزی سے باز رہے.(۱)

جب انصار کی بلند پایہ شخصیت سعد ابن عبادہ کو نبی(ص) کے سامنے منافق کہہ دیا گیا اور کسی نے ان کی حمایت تک نہ کی حالانکہ سعد ابن عبادة انہیں انصار کی فرد ہے جن کی خداوند عالم نے قرآن مجید میں توصیف بیان فرمائی ہے.یہ سب اوس و خزرج والے اس منافق کو قتل سے بچانے کے لئے جو پیغمبر(ص) کے اہل بیت(ع) کو اذیت دیتا ہے دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں آجاتے ہیں اور جنگ و پیکار کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور آن حضرت(ص) کے سامنے چیخنا چلانا شروع کردیتے ہیں.پس وہ لوگ کیونکر منافق نہیں ہوسکتے جنہوں نے زندگی بھر رسول خدا(ص) اور اسلام سے جنگ کی اور ان لوگوں کے منافق ہونے میں کیا شک ہے

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۳ ص۱۵۶ و جلد/ ۶ ص۸

۲۱۲

جنہوں نے آپ کی وفات کے بعد خلافت کے لئے آپ کی لخت جگر کے گھر کو جلانے کا ارادہ کر لیا تھا؟!!

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۸ کی کتاب التوجید میں خداوند عالم کے اس قول کے بارے" تعرج الملائکة والروح الیه" میں تحریر کیا ہے کہ:

علی ابن ابی طالب(ع) نے یمن سے رسول خدا(ص) کی خدمت میں سونا بھیجا آپ نے اسے بعض لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا تو قریش اور انصار کو یہ بات بری لگی تو انہوں نے کہا کہ: رسول(ص) نجد کے بڑے لوگوں کے درمیان سونا تقسیم کر دیا. اور ہمیں چھوڑ دیا؟ آپ نے فرمایا میں ان کے دلوں کو موہ لینے کے لئے ایسا کیا ہے. پس ایک شخص آگے بڑھا اور کہنے لگا. اے محمد(ص) خدا سے ڈرئے! نبی(ص) نے فرمایا اگر میں خدا کی معصیت کروں گا تو اس کی اطاعت کون کرے گا؟ اس نے مجھے دنیا والوں کے لئے امین بنایا ہے اور تم مجھے امیں نہیں سمجھتے؟ اس موقع پر خالد ابن ولید نے پیغمبر(ص) سے اس شخص کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی لیکن نبی(ص) نے اجازت نہ دی جب وہ شخص چلا گیا اس وقت آپ(ص) نے فرمایا یہ لوگ مجھ سے وابستہ اور میرے قریب رہنے والے لوگ ہیں. کہ جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا اسلام سے ایسے خارج ہوتے ہیں جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے یہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اور بت پرستوں کو اپنی مدد کے لئے بلاتے ہیں اگر ان پر میری دست رس ہوگی تو انہیں قوم عاد کی طرح قتل کروں گا. (صحیح بخاری جلد/۸ ص۱۷۸)

۲۱۳

یہ شخص رسول خدا(ص) کے اصحاب میں سے دوسرا منافق ہے جو بے ادبانہ آپ(ص) پرسونے کی تقسیم کے سلسلہ میں ظلم کا اتہام لگاتا ہے اور کہتا ہے اے محمد اللہ سے ڈرئیے باوجودیکہ نبی(ص) اس کے نفاق سے واقف ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ میرے پاس بیٹھنے والوں میں سے کچھ لوگ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر نکلتا ہے. اور وہ بت پرستوں سے مدد چاہیں گے ان تمام باتوں کے باوجود نبی(ص) نے خالد ابن ولید کو اس کے قتل سے باز رکھا.

یہ ان اہل سنت کا جواب ہے جو اکثر میرے اوپر یہ کہہ کر حجت قائم کرتے ہیں کہ اگر رسول(ص) یہ جانتے تھے کہ میرے صحابی منافق ہیں اور وہ عنقریب مسلمانوں کی گمراہی کا سبب قرار پائیں گے تو آپ پر دین کی حفاظت اور امت کی حمایت کی خاطر ان کا قتل واجب تھا.

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۳کتاب الصلح باب اذا اشار الامام بالصلح" میں روایت کی ہے کہ:

ابن زبیر بیان کرتے ہیں کہ وہ حسرہ کے ایک گھاٹ کے بارے میں انصار میں سے اس شخص سے جھگڑ رہے تھے جو رسول(ص) کے ساتھ جنگ بدر میں شریک تھا وہ دونوں ( پانی) پی رہے تھے رسول(ص) نے زبیر سے کہا کہ پہلے تم پی لو اس کے بعد اپنے ہمسایوں کے پینے دو، انصاری کو غصہ آگیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ(ص) اس لئے کہ وہ آپ کا چچا زاد بھائی ہے؟ یہ بات سن کر رسول(ص) کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور فرمایا پہلے تم پانی پی لو اور باقی کو محفوظ کر لو تا کہ اسے زمین پی جائے.

____________________

صحیح بخاری جلد/۳ ص۱۷۱

۲۱۴

یہ آپ(ص) کے اصحاب میں سے نفاق کا دوسرا نمونہ ہے کہ جو سمجھتا ہے کہ رسول(ص) پر عصبیت طاری ہوگئی ہے اس لئے وہ اپنے چچا زاد بھائی ( ابن زبیر) کی طرفداری کر رہے ہیں اور یہ بات اس نے اتنی بے حیائی سے کہی کہ شدت غضب سے رسول(ص) کے چہرہ کا رنگ متغیر ہوگیا. عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیغمبر(ص) نے روز حنین لوگوں میں مال (غنیمت) تقسیم کیا اقرع ابن حابس کو سو اونٹ عطا کئے اور اسی طرح عیینہ کو بھی سو اونٹ دئیے اور اشراف عرب کو بھی مال و دولت دیا اور اس روز تقسیم سے ان لوگوں کو متاثر کر لیا، اس شخص نے کہا کہ خدا کی قسم اس تقسیم میں نہ عدالت کا پاس و لحاظ رکھا گیا اور نہ ہی خدا کی رضا کا. راوی کہتا ہے میں نے کہا قسم خدا کی بہ بات میں ضرور پیغمبر(ص) کو بتائوں گا. میں رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کی اطلاع دی آپ(ص) نے فرمایا اگر خدا و رسول(ص) عادل نہیں ہیں تو پھر کون عادل ہوگا؟ خدا موسی پر رحم کرخ انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیفین دی گئیں اور انہوں نے صبر کیا.(۱) یہ اصحاب رسول(ص) میں سے دوسرا منافق ہے شاید یہ شخص قریش کے سربرآوردہ افراد میں سے ہے راوی نے ڈر کے مارے اس کا نام نہیں لیا ہے کیونکہ اس وقت وہ حکومت کا خاص آدمی تھا. آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس اعتماد کے ساتھ اس نے قسم کھا کر کہا ہے کہ پیغمبر(ص) عادل نہیں ہیں، اور تقسیم میں خدا کی رضا کا خیال نہیں رکھا ہے. خدا محمد(ص) پر رحمت نازل کرے ان پر اس سے کہیں زیادہ ظلم ہوا اور آپ نے صبر کیا.

بخاری و مسلم نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم تقسیم غنیمت کے وقت رسول(ص) کے پاس موجود تھے جب بنی تمیم میں سے ذوالخویصرہ

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۴ ص۶۱ باب بخشش عطایا بمولفة القلوب

۲۱۵

نامی شخص رسول(ص) کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ(ص) اللہ عدل کیجئے. آپ(ص) نے فرمایا خدا تجھے غارت کرے اگر میں عدل نہ کروں گا تو پھر کون عدل سے کام لے گا، اگر میں نے عدل نہ کیا ہوتا تو تم خسارہ میں رہتے. یہ بات سن کر عمر نے کہا: یا رسول اللہ(ص) مجھے اجازت بدیجئے کہ اس شخص کی گردن ماردوں آپ نے فرمایا چھوڑو جانے دو اس کے بہت سے دوست ایسے ہیں کہ اپنے روزے نماز کے مقابلے میں تم سب کے روزے نماز کو حقیر سمجھتے ہیں یہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا ہے یہ دین سے اس طرح نکل جاتے ہیں جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے.(۱)

یہ منافقین صحابہ میں سے ایک اور نمونہ ہے یہ لوگ مومنون کے سامنے اپنے تقوے اور خشوع کا بہت زیادہ اظہار کرتے ہیں. یہاں تک کہ نبی(ص) نے عمر سے فرمایا کہ وہ تمہارے روزے نماز کو اپنے روزے نماز کے سامنے ہیچ سمجھتے ہیں بیشک وہ اچھی طرح قرآن کو حفظ کرتے تھے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا اور پھر رسول(ص) کا یہ قول " چھوڑو ! جانے دو! ان کے بہت سے دوست ایسے ہیں" اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ صحابہ میں ایک بڑی تعداد منافقین کی تھی.

عائشہ کہتی ہیں کہ پیغمبر(ص) نے ایک دستور مرتب کیا اور لوگوں کو اس پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا لیکن لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا. پس رسول(ص) نے خطبہ دیا اور خدا کی حمد و ستائش کے بعد فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو میرے دستور کے مطابق عمل نہیں کرتے، میں اس پر عمل کرتا ہوں قسم خدا کی میں ان سے

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۴ ص۱۷۹" باب علامات النبوة فی الاسلام کتاب بدو الخلق

۲۱۶

زیادہ خدا کو پہچانتا ہوں اور ان سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں.(۱)

یہ ان صحابہ کا ایک نمونہ ہے جو رسول(ص) کی سنت سے پہلو تہی کیا کرتے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صحابہ رسول(ص) کے افعال کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور اس لئے تو ہم رسول(ص) کو ان کے درمیان خطبہ دیتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ جس میں آپ خدا کی قسم کھا کے کہتے ہیں " میں ان سے زیادہ خدا کو پہچانتا ہوں اور ان سے زیادہ خدا سے خوف کھاتا ہوں" بخاری نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ چوتھی ذی الحجہ کو نبی(ص) تہلیل کرتے ہوئے حج کے لئے تشریف لائے جب ہم آپ(ص) کے پاس پہونچے تو آپ(ص) نے ہمیں حج کو عمرے سے بدلنے کا حکم دیا سو ہم نے حج کو عمرے سے بدل دیا تاکہ ہم اپنی بیویوں کے ساتھ رہیں. اسی سلسلہ میں ایک خبر گشت کرنے لگی، عطا کہتے ہیں کہ جابر نے کہا کہ ہم میں سے کوئی آدمی منی کی طرف جانے لگا جب کہ اس کے عضو تناسل سے منی ٹپک رہی تھی تو جابر نے کہا کہ اسے روکو ! شدہ شدہ یہ خبر رسول خدا(ص) تک پہونچی، آپ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا : کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ لوگ ایسا ایسا کہہ رہے ہیں. قسم خدا کی میں ان سے کہیں زیادہ نیک اور خدا ترس ہوں.(۲) اصحاب رسول(ص( سے یہ ایک اور گروہ ہے جو احکام شرعیہ میں رسول(ص) کے حکم کی مخالفت کرتا ہے. اور آپ(ص) کا یہ قول کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ لوگ ایسا ایسا کہہ رہے ہیں اس بات پر دلالت کر رہی ہے اکثر لوگوں نے اپنی بیویوں کے لئے محل ہونے

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۷ ص۹۶ کتاب الادب باب "من لم یواجہ الناس بالعتاب"

۲.صحیح بخاری جلد/۳ ص۱۱۴

۲۱۷

سے انکار کر دیا تھا کہہ دیا تھا کہ ہم تو پاک ہیں منی جانے میں کیا اشکال ہے جب کہ منی ان کے عضہ تناسل سے ٹپک رہی تھی. ان نادانوں سے یہ بات پوشیدہ رہی کہ جنسی کام کے بعد خدا نے ان کے اوپر عشل و طہارت واجب کیا ہے. پس وہ کیسے منی چلے جا رہے ہیں جبکہ منی ان کے عضو تناسل سے ٹپک رہی ہے؟ کیا وہ احکام خدا کو رسول(ص) سے زیادہ بہتر جانتے ہیں؟ یا وہ خدا سے رسول(ص) کی بہ نسبت زیادہ ڈرتے ہیں؟

لاریب رسول(ص) کے بعد عمر نے متعہ حج اور متعہ نساء دونوں کو اسی لئے حرام قرار دے دیا. پس جب وہ حیات نبی(ص) میں ایام حج میں نبی(ص) کے اس حکم کو ٹھکرا سکتے ہیں کہ " تم اپنی بیویوں سے نکاح کرو" تو آپ کے بعد ان کا متعہ کو حرام قرار دینا کوئی بعید نہیں ہے. وہ نبی(ص) کےحکم کی تعمیل نہیں کرنا چاہتے اور عقد متعہ کو زنا تصور کرتے ہیں. آج تمام اہلسنت کا یہی مسلک ہے.

بخاری نے انس ابن مالک سے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ جب رسول(ص) کو خدا نے ہوازن کا مال غنیمت میں عطا کیا اور رسول(ص) نے وہ مال، ایک قریشی کو دے دیا تو انصار نے کہا خدا پیغمبر(ص) کی مغفرت کرے وہ تو سب کچھ قریش کو بخش دے رہے ہیں اور ہمیں محروم رکھ رہے ہیں. ہماری شمشیر سے قریش کا خون ٹپکتا ہے.پس رسول(ص) نے صرف انہیں ایک قبہ کے نیچے جمع کیا اور فرمایا کہ: اس بات کو پھر دہرائو جومجھ تک پہونچی ہے جب انہوں نے اپنی بات کا اعادہ کیا تو آپ(ص) نے فرمایا کہ میں نے انہیں لوگوں کو غنیمت دی ہے جو تازہ مسلمان ہیں کیا تم تاس بات سے راضی نہیں ہو کہ وہ لوگ اپنے وطن مال لے کر جائیں؟ کیا تم رسول خدا(ص) کے ساتھ اپنے گھروں کو( اسی طرح) نہیں پلٹے ہو. قسم خدا کی جو چیز تم لے کر اپنے گھروں کو پلٹے ہو وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ لوگ لے کر پلٹے ہیں

۲۱۸

آپ(ص) کی اس بات سے انصار نے کہا کہ اے پیغمبر(ص) خدا ہم مطمئن و راضی ہوگئے. اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا: تم لوگ میرے بعد حب نفس اور شہوت کا مشاہدہ کرو گے پس تم خدا و رسول(ص) سے ملاقات کے وقت تک صبر کرنا. انس کہتے ہیں کہ ہم نے اس پر صبر نہیں کیا ہے.(۱)

یہاں ہم ایک سوال کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ آیا پورے معاشرہ انصار میں کوئی شخص ایسا ہے جو رسول(ص) کے ہر کام سے مطمئن ہوگیا ہو اور یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ رسول(ص) خواہشات و عصبیت سے بری تھے اور اس سلسلہ میں خدا کے اس قول کو سمجھتا ہو:

( فَلا وَ رَبِّكَ‏ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوا تَسْلِيماً ) نساء، آیت/۶۵

قسم آپ کے پروردگار کی یہ ہرگز مومن نہ بن سکیں گے یہاں تک کہ اپنے اختلاف میں آپ کو حکم بنالیں اور جب آپ فیصلہ کر دیں تو پھر اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی کا احساس نہ کریں اور قطعی طور پر آپ کے فیصلہ پر راضی ہو جائیں. ان میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول(ص) کے بارے میں انصار کے اس قول کی تردید کی ہو کہ خدا و رسول(ص) کی مغفرت کرے؟ ہرگز ان میں کامل الایمان آیت کے اقتضاء کے لحاظ سے ایک شخص بھی نہیں ہے. اور اس کے بعد ان کا یہ کہنا " ہاں یا رسول اللہ(ص) اب ہم راضی ہوگئے

____________________

صحیح بخاری جلد/۴ ص۶۰ کتاب الجہاد والسیر

۲۱۹

سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ مطمئن نہیں ہوئے تھے. جیسا کہ اس سلسلہ میں انس ابن مالک کی گواہی موجود ہے کہ جو انصاری گذشتہ شہادت کے وقت موجود تھے انس کہتے ہیں کہ ہم سے صبر کرنے کی وصیت کی تھی لیکن ہم صبر نہیں کرتے. بخاری نے احمد ابن اشکاب سے اور انہوں نے محمد ابن فضیل سے انہوں نے علا ابن مسیب سے اور مسیب نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ میں نے برا ابن عازب رضی اللہ عنہا سے ملاقات کی اور کہا : آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ نبی(ص) کے ساتھ رہے اور درخت کے نیچے ان کی بیعت کی!

برا ابن عازب نے کہا: بھتیجے تمہیں نہیں معلوم کہ ہم نے ان( رسول(ص)) کے بعد کیا کیا.(۱)

یقینا برا ابن عازب نے سچ کہا ہے. بیشک اکثر لوگ اسے نہیں جانتے کہ صحابہ نے اپنے نبی(ص) کی وفات کے بعد کیا کیا؟ کسی نے ان کے جانشین پر ظلم کیا، انہیں خلافت سے دور رکھا، کسی نے ان کی پارہ جگر پر ظلم کیا اور انہیں جلا دینے کی دھمکی دی، ان کے خمس، عطیہ اور میراث کو غصب کر لیا، وصیت نبی(ص) کی مخالفت کی. احکام شریعت کو بدل ڈالا، حدیث نبوی(ص) کو جلا ڈالا، ان کے اہل بیت(ع) پر لعنت اور پراگندہ کر کے رسول(ص) کو اذیت دی اور حکومت منافقین و فاسقین و دشمنان خدا و رسول(ص) کو سونپ دی اور بہت سی بدعتیں ہیں جو انہوں نے رسول(ص) کے بعد کی ہیں. وہ عامہ ( اہلسنت) سے پوشیدہ ہیں اور وہ اتنے ہی حقائق سے واقف و با خبر ہیں جتنے مکتب خلفاء نے پیش کئے تھے، اس مکتب نے اپنی فنکاری اور شخصی اجتہاد سے احکام خدا و رسول(ص) میں تبدیلی کر دی اور اس تبدیلی کو بدعت حسنہ

____________________

۱.بخاری جلد/۵ ص۶۶ کتاب المغازی باب غروة حدیبیہ

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اس سے دل لگانا صحیح ہے ؟

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(مالی وللدنیا،انما مَثَلی کمثل راکبٍ مرّللقیلولة فی ظلّ شجرة فی یوم صائف ثم راح وترکها )( ۱ )

''دنیا سے میرا کیا تعلق ؟میری مثال تو اس سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے تھپیڑوں کے درمیان آرام کی خاطر کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتا ہے اور پھر اس جگہ کو چھوڑکر چل دیتا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی نے اپنے فرزند امام حسن کو یہ وصیت فرمائی ہے :

(یابنیّ انی قدأنباتک عن الدنیا وحالها،وزوالها،وانتقالها،وأنبأتک عن الآخرةومااُعدّ لأهلها فیها،وضربتلک فیهماالأمثال،لتعتبربها، وتحذو علیها،انمامثل من خبرالدنیاکمثل قوم سفرنبا بهم منزل جذیب فأمّوا منزلاًخصیباً، وجناباً مریعاً،فاحتملواوعثاء الطریق،وفراق الصدیق،وخشونةالسفرومَثَل من اغترّبهاکمثل قوم کانوابمنزل خصیب فنبابهم الیٰ منزل جذیب،فلیس شیء أکره الیهم ولاأفضع عندهم من مفارقة ماکانوا فیه الیٰ مایهجمون علیه ویصیرون الیه )( ۲ )

''۔۔۔اے فرزند میں نے تمہیں دنیااوراسکی حالت اوراسکی بے ثباتی و ناپائیداری سے خبردار کردیا ہے ۔اور آخرت اور آخرت والوں کے لئے جو سروسامان عشرت مہیّاہے اس سے بھی آگاہ کردیا ہے اور ان دونوں کی مثالیںبھی تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرو

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب ۳۱۔

۲۴۱

اور ان کے تقاضے پر عمل کرو۔جن لوگوں نے دنیا کو خوب سمجھ لیا ہے ان کی مثال ان مسافروںکی سی ہے جن کا قحط زدہ منزل سے دل اچاٹ ہوا،اور انھوں نے راستے کی دشواریوں کو جھیلا، دوستوںکی جدائی برداشت کی،سفر کی صعوبتیںگواراکیں،اور کھانے کی بد مزگیوںپر صبر کیاتاکہ اپنی منزل کی پہنائی اور دائمی قرارگاہ تک پہنچ جائیں ۔اس مقصد کی دھن میں انھیں ان سب چیزوں سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔اور جتنا بھی خرچ ہوجائے اس میں نقصان معلوم نہیں ہوتا۔انھیں سب سے زیادہ وہی چیز مرغوب ہے جو انہیں منزل کے قریب اور مقصدسے نزدیک کردے اور اسکے برخلاف ان لوگوں کی مثال جنہوں نے دنیا سے فریب کھایاان لوگوں کی سی ہے جو ایک شاداب سبزہ زار میں ہوں اور وہاں سے دل برداشتہ ہوجائیں اور اس جگہ کا رخ کرلیں جو خشک سالیوں سے تباہ ہو۔ان کے نزدیک سخت ترین حادثہ یہ ہوگا کہ وہ موجودہ حالت کو چھوڑکرادھر جائیںکہ جہاں انھیں اچانک پہنچناہے اور بہر صورت وہاںجاناہے ۔۔۔ ''

حضرت عمر ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا آپ ایک بورئیے پر آرام فرمارہے ہیں اور آپ کے پہلو پر اسکا نشان بن گیاہے توعرض کی اے نبی خدا:

(یانبیّ ﷲ،لواتخذت فراشاً أوثر منه؟فقال صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :مالی وللدنیا،مامَثلی ومثَل الدنیا الاکراکب سارفی یوم صائف فاستظلّ تحت شجرة ساعة من نهار،ثم راح وترکها )( ۱ )

اگر آپ اس سے بہتربستر بچھالیتے تو کیا تھا ؟پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''دنیا سے میرا کیا تعلق؟میری اور دنیا کی مثال ایک سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے درمیان چلا جارہا ہو اور دن میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے لئے کسی سایہ داردرخت کے نیچے رک جائے اور پھر اس جگہ کوچھوڑ کرآگے بڑھ جائے''

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۱۲۳۔

۲۴۲

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ان الدنیالیست بدارقرارولامحلّ اقامة،انّما أنتم فیهاکرکب عرشوا وارتاحوا،ثم استقلّوا فغدوا وراحوا،دخلوهاخفافاً،وارتحلواعنها ثقالاً،فلم یجدواعنهانزوعاً،ولاالی ما ترکوبهارجوعاً )( ۱ )

''یہ دنیا دار القرار اور دائمی قیام گا ہ نہیں ہے تم یہاں سوار کی مانند ہو 'جنہوں نے کچھ دیرکیلئے خیمہ لگایا اور پھر چل پڑے پھر دوسری منزل پر تھوڑا آرام کیا اور صبح ہوتے ہی کوچ کر گئے ، ہلکے پھلکے (آسانی سے)اترے اور لاد پھاندکر مشکل سے روانہ ہوئے نہ انہیں اسکا کبھی اشتیاق ہوا اور جس کو ترک کرکے آگئے نہ اسکی طرف واپسی ممکن ہوئی ''

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا :انسان دنیا میں کیسے زندگی بسر کرے ؟آپ نے فرمایا جیسے قافلہ گذرتا ہے۔ دریافت کیا گیا اس دنیا میں قیام کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا جتنی دیر قافلہ سے چھوٹ جانے والا رہتا ہے ۔دریافت کیا گیا! دنیا وآخرت میں فاصلہ کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا پلک جھپکنے کا۔( ۲ ) اور اس آیۂ کریمہ کی تلاوت فرمائی :

(کأنّهم یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا الاساعة من نهار )( ۳ )

''تو ایسا محسوس کرینگے جیسے دنیا میں ایک دن کی ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاظلّ الغمام،وحلم المنام )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۱۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۳)سورئہ احقاف آیت ۳۵۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۰۲۔

۲۴۳

''دنیا بادل کا سایہ اورسونے والے کا خواب ہے ''

امام محمد باقر نے فرمایا :

(انّ الدنیاعند العلماء مثل الظل )( ۱ )

''اہل علم کے نزدیک دنیا سایہ کے مانند ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ألاوان الدنیادارلایسلم منها الافیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،اُبتلی الناس فیها فتنة فماأخذوه منهالهاأخرجوامنه وحوسبواعلیه،وماأخذوهُ منها لغیرها، قدموا علیه وأقاموا فیه،فانهاعند ذوی العقول کفیٔ الظلّ بینا تراه سابغاً حتیٰ قلص،وزائداً حتیٰ نقص )( ۲ )

''یاد رکھو یہ دنیا ایسا گھر ہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کوئی ایسی شے وسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں جو لوگ دنیا کا سامان دنیا ہی کے لئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہیں ۔یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۶۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۶۳۔

۲۴۴

دنیا ایک پل

دین اسلام مسلمان کو دنیا کے بارے میں ایک ایسے نظریہ کا حامل بنانا چاہتا ہے کہ اگر اسکے دل میں یہ عقیدہ و نظریہ راسخ ہوجائے توپھر دنیا کو ایک ایسے پل کے مانند سمجھے گا جس کے اوپر سے گذر کر اسے جانا ہے اور اس مسلمان کی نگاہ میں یہ دنیا دار القرار نہیں ہوگی ۔جب ایسا عقیدہ ہوگا تو خود بخود مسلمان دنیا پرفریفتہ نہ ہوگا اور اسکی عملی زندگی میں بھی اس کے نتائج نمایاں نظر آئیںگے۔

حضرت عیسیٰ کا ارشاد ہے :

(انما الدنیا قنطرة )( ۱ )

''دنیا ایک پل ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے :

(أیهاالناس انماالدنیادارمجازوالآخرة دار قرار،فخذوامن ممرّکم لمقرّکم،ولاتهتکواأستارکم عند من یعلم أسرارکم )( ۲ )

''اے لوگو !یہ دنیا گذر گاہ ہے اور آخرت دار قرارہے لہٰذا اپنے راستہ سے اپنے ٹھکانے کے لئے تو شہ اکٹھا کرلواور جو تمہارے اسرار کو جانتا ہے اس کے سامنے اپنے پردوں کو چاک نہ کرو ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(الدنیا دارممرّولادار مقرّ،والناس فیهارجلان:رجل باع نفسه فأوبقها، ورجل ابتاع نفسه فأعتقها )( ۳ )

''دنیا گذرگاہ ہے دارالقرار نہیں اس میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں کچھ وہ ہیں جنھوں نے دنیا کے ہاتھوں اپنا نفس بیچ دیا تو وہ دنیا کے غلام ہوگئے کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنے نفس کوخرید لیااور دنیا کو آزاد کردیا''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۴ص۳۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۲۰۳۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ج۱۸ص۳۲۹۔

۲۴۵

اسباب ونتائج کا رابطہ

اسلامی فکر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ انسانی مسائل سے متعلق اسباب و نتائج کو ایک دوسرے سے لاتعلق قرار نہیں دیتی بلکہ انھیں آپس میں ملاکر دیکھنے اور پھراس سے نتیجہ اخذ کرنے کی قائل ہے جب ہم انسانی اسباب و نتائج کے بارے میں غورکرتے ہیں تو ان مسائل میں اکثر دو طرفہ رابطہ نظر آتا ہے یعنی دونوں ایک دوسرے پراثر انداز ہوتے ہیں ۔انسانی مسائل میںایسے دوطرفہ رابطوں کی مثالیں بکثرت موجود ہیں مثلاًآپ زہد اور بصیرت کو ہی دیکھئے کہ زہد سے بصیرت اور بصیرت سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے ۔

یہاں پر ہم ان دونوں سے متعلق چند روایات پیش کر رہے ہیں ۔

زہد وبصیرت

(أفمن شرح ﷲصدرہ للاسلام فھوعلیٰ نورٍمِن ربَّہِ)کی تفسیر کے ذیل میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(ان النوراذاوقع فی القلب انفسح له وانشرح)،قالوا یارسول ﷲ:فهل لذٰلک علامةیعرف بها؟قال:(التجافی من دارالغرور،والانابة الیٰ دارالخلود، والاستعداد للموت قبل نزول الموت )

''قلب پر جب نور کی تابش ہوتی ہے تو قلب کشادہ ہوجاتا ہے اور اس میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے عرض کیا گیا یا رسول ﷲ اسکی پہچان کیا ہے ؟

۲۴۶

آپ نے فرمایا :

''دار الغرور(دنیا)سے دوری ،دارالخلود(آخرت)کی طرف رجوع اور موت آنے سے پہلے اسکے لئے آمادہ ہوجانا ہے ''( ۱ )

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(أحقّ الناس بالزهادة،من عرف نقص الدنیا )( ۲ )

''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے اسے زیادہ زاہد ہونا چاہئے''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(من صوّرالموت بین عینیه،هان أمرالدنیا علیه )( ۳ )

''جس کی دونوں آنکھوں کے سامنے موت کھڑی رہتی ہے اس کے لئے دنیا کے امور آسان ہوجاتے ہیں ''

نیز آپ نے فرمایا :(زهدالمرء فیمایفنیٰ،علی قدر یقینه فیما یبقیٰ )( ۴ )

''فانی اشیائ(دنیا)کے بارے میں انسان اتناہی زاہد ہوتا ہے جتنا اسے باقی اشیاء (آخرت )کے بارے میں یقین ہوتا ہے ''

زہدو بصیرت کا رابطہ

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوذر (رح)سے فرمایا :

(یاأباذر:مازهد عبد فی الدنیا،الاأنبت ﷲ الحکمة فی قلبه،وأنطق بهالسانه ،ویبصّره عیوب الدنیا وداء ها ودواء ها،وأخرجه منهاسالماًالی دارالسلام )( ۵ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۲)غررالحکم۔

(۳)غررالحکم ۔

(۴)بحارالانوار ج۷۰ص۳۱۹۔

(۵)بحارالانوار ج۷۷ص۸۔

۲۴۷

''اے ابوذر جو شخص بھی زہداختیار کرتاہے ﷲ اس کے قلب میں حکمت کا پودا اگا دیتا ہے اور اسے اسکی زبان پر جاری کر دیتا ہے اسے دنیا کے عیوب ،اوردرد کے ساتھ انکاعلاج بھی دکھا دیتا ہے اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ دارالسلام لے جاتا ہے ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(من یرغب فی الدنیا فطال فیهاأمله،أعمیٰ ﷲ قلبه علیٰ قدررغبته فیها، ومن زهد فیها فقصُرأمله أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیً بغیرهدایة،وأذهب عنه العماء وجعله بصیراً )( ۱ )

جو دنیا سے رغبت رکھتا ہے اسکی آرزوئیں طویل ہوجاتی ہیں اوروہ جتنا راغب ہوتا ہے اسی مقدار میں خدا اسکے قلب کوا ندھا کر دیتا ہے اور جو زہد اختیار کر تا ہے اسکی آرزوئیں قلیل ہوتی ہیں ﷲ اسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنما ئی کے بغیرہدایت عطا کرتا ہے اور اس کے اند ھے پن کو ختم کر کے اسے بصیر بنا دیتا ہے ''

ایک دن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے درمیان آئے اور فرمایا:

(هل منکم من یریدأن یؤتیه ﷲ علماًبغیرتعلّم،وهدیاًبغیرهدایة؟هل منکم من یریدأن یذهب عنه العمیٰ و یجعله بصیراً؟ألاانه من زهد فی الدنیا،وقصرأمله فیها،أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیاً بغیرهدایة )( ۲ )

''کیا تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اور رہنمائی کے بغیرہدایت دیدے۔ تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اس کے اندھے پن کو دور کر کے اسے بصیر بنادے ؟آگاہ ہو جائو جو شخص بھی دنیا میں زہدا ختیار کر ے گااور اپنی آرزوئیں قلیل رکھے گا

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۲۶۳۔

(۲)درالمنثورج۱ص۶۷۔

۲۴۸

ﷲاسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنمائی کے بغیرہدایت عطاکر ے گا ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

(یاأباذراذارأیت أخاک قدزهد فی الدنیا فاستمع منه،فانه یُلقّیٰ الحکمة )( ۱ )

''اے ابوذراگر تم اپنے کسی بھائی کو دیکھو کہ وہ دنیا میں زاہد ہے تو اسکی باتوںکو(دھیان سے ) سنو کیونکہ اسے حکمت عطا کی گئی ہے ''

ان روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ زہد وبصیرت میں دو طرفہ رابطہ ہے ،یعنی زہد کا نتیجہ بصیرت اور بصیرت کا نتیجہ زہد ہے ۔اسی طرح زہد اور قلتِ آرزو کے مابین بھی دو طرفہ رابطہ ہے زہد سے آرزووں میں کمی اور اس کمی سے زہد پیدا ہوتا ہے زہد اورقلت آرزو کے درمیان رابطہ کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :(الزهدیخلق الابدان،ویحدّدالآمال،ویقرّب المنیة،ویباعدالاُمنیة،من ظفر به نصب،ومن فاته تعب )( ۲ )

'' زہد،بدن کو مناسب اور معتدل ،آرزووں کو محدود،موت کو نگاہوں سے نزدیک اور تمنائوں کو انسان سے دور کردیتا ہے جو اسکو پانے میں کامیاب ہوگیا وہ خوش نصیب ہے اور جو اسے کھو بیٹھا وہ در دسر میں مبتلاہوگیا''

آرزووں کی کمی اورزہد کے رابطہ کے بارے میں امام محمد باقر کا ارشاد ہے:

(استجلب حلاوة الزهادة بقصرالامل )( ۳ )

''آرزو کی قلت سے زہد کی حلاوت حاصل کرو''

ان متضاد صفات کے درمیان دو طرفہ رابطہ کا بیان اسلامی فکر کے امتیازات میں سے ہے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۷ص۸۰ ۔

(۲)بحارالانوارج ۷۰ص۳۱۷۔

(۳)بحارالانوار ج۷۸ص۱۶۴۔

۲۴۹

زہد وبصیرت یا زہد وقلتِ آرزو کے درمیان دو طرفہ رابطہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کے اندر ایک دوسرے کے ذریعہ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس سے انسان ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس طرح کہ بصیرت سے زہد کی کیفیت پیدا ہو تی ہے اور جب انسان زاہد ہو جاتا ہے تو بصیرت کے اعلیٰ مراتب حاصل ہو جاتے ہیں نیزبصیرت کے ان اعلیٰ مراتب سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے اور اس زہد سے پھر بصیرت کے مزید اعلیٰ مراتب وجود پاتے ہیں۔اسطرح انسان ان دونوں صفات وکمالات کے ذریعہ بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔

مذموم دنیا اور ممدوح دنیا

۱۔مذموم دنیا

اس سے قبل ہم نے ذکر کیا تھا کہ دنیا کے دو چہرے ہیں:

( ۱ ) ظاہری

( ۲ ) باطنی

دنیا کا ظاہر ی چہرہ فریب کا سر چشمہ ہے ۔یہ چہرہ انسانی نفس میں حب دنیا کا جذبہ پیدا کرتا ہے جبکہ باطنی چہرہ ذریعۂ عبرت ہے یہ انسان کے نفس میں زہدکا باعث ہوتا ہے روایات کے مطابق دنیا کا ظاہری چہرہ مذموم ہے اور باطنی چہرہ ممدوح ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ واقعاً دنیا کے دو چہرے ہیں یہ فرق در حقیقت دنیا کو دیکھنے کے انداز سے پیدا ہوتا ہے ورنہ دنیا اور اسکی حقیقت ایک ہی ہے ۔فریب خور د ہ نگاہ سے اگر دنیا کو دیکھا جائے تو یہ دنیا مذموم ہوجاتی ہے اور اگر دیدئہ عبرت سے دنیا پر نگاہ کی جائے تو یہی دنیاممدوح قرار پاتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لذات وخواہشات سے لبریز دنیا کا ظاہری چہرہ ہی مذموم ہے ۔

یہاں پر دنیا کے مذموم رخ کے بارے میں چند روایات پیش کی جارہی ہیں ۔

۲۵۰

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا:

(الدنیا سوق الخسران )( ۱ )

''دنیا گھاٹے کا بازار ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مصرع العقول )( ۲ )

''دنیا عقلوں کا میدان جنگ ہے ''

آپ کا ہی ارشاد ہے :

(الدنیا ضحکة مستعبر )( ۳ )

''دنیا چشم گریاں رکھنے والے کے لئے ایک ہنسی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُطَلَّقةُ الاکیاس )( ۴ )

''دنیاذہین لوگوں کی طلاق شدہ بیوی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا معدن الشرور،ومحل الغرور )( ۵ )

''دنیا شروفسا دکا معدن اور دھوکے کی جگہ ہے''

____________________

(۱)غررا لحکم ج ۱ص۲۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۴۵۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۷۳۔

۲۵۱

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیالا تصفولشارب،ولا تفی لصاحب )( ۱ )

''دنیا کسی پینے والے کے لئے صاف وشفاف اور کسی کے لئے باوفا ساتھی نہیں ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مزرعة الشر )( ۲ )

''دنیا شروفسا دکی کا شت کی جگہ ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُنیة الاشقیائ )( ۳ )

''دنیا اشقیا کی آرزوہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الد نیا تُسْلِمْ )( ۴ )

''دنیا دوسرے کے حوالے کر دیتی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا تُذِلّْ )( ۵ )

''دنیا ذلیل کرنے والی ہے''

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص ۸۵۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۳۷۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

۲۵۲

دنیا سے بچائو

امیر المو منین حضرت علی ہمیں دنیا سے اس انداز سے ڈراتے ہیں :

(أُحذّرکم الدنیافانّهالیست بدارغبطة،قدتزیّنت بغرورها،وغرّت بزینتهالمن ان ینظرالیها )( ۱ )

''میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہ فخرومباہات کاگھر نہیں ہے ۔یہ اپنے فریب سے مزین ہے اور جو شخص اسکی طرف دیکھتا ہے اسے اپنی زینت سے دھوکے میں مبتلاکردیتی ہے ''

ایک اور مقام پر آپ کا ارشاد گرامی ہے :

(أُحذّرکم الدنیافانها حُلوة خضرة،حُفّت بالشهوات )( ۲ )

''میں تمہیں اس دنیا سے بچنے کی تاکید کرتا ہوں کہ یہ دنیا سرسبز وشیریں اورشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(احذروا هذه الدنیا،الخدّاعة الغدّارة،التی قد تزیّنت بحلیّها،وفتنت بغرورها،فأصبحت کالعروسة المجلوة،والعیون الیها ناظرة )( ۳ )

''اس دھو کے باز مکار دنیا سے بچو یہ دنیا زیورات سے آراستہ اور فتنہ ساما نیوں کی وجہ سے سجی سجائی دلہن کی مانندہے کہ آنکھیں اسی کی طرف لگی رہتی ہیں ''

ب :ممدوح دنیا

دنیا کا دوسرا رخ اوراس کے بارے میں جو دوسرانظر یہ ہے وہ قابل مدح وستائش ہے البتہ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۲۱۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۹۶۔

(۳)بحارالانوارج۷۳ص۱۰۸۔

۲۵۳

یہ قابل ستائش رخ اس دنیا کے باطن سے نکلتا ہے جو قابل زوال ہے جبکہ مذموم رخ ظاہری دنیا سے متعلق تھا ۔

بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ دنیا کے دورخ ہیں ایک ممدوح اور دوسرا مذموم ۔ممدوح رخ کے اعتبار سے دنیا نقصان دہ نہیں ہے بلکہ نفع بخش ہے اورمضر ہونے کے بجائے مفید ہے اسی رخ سے دنیا آخرت تک پہو نچانے والی ،مومن کی سواری ،دارصدق اوراولیاء کی تجارت گاہ ہے۔لہٰذادنیا کے اس رخ کی مذمت صحیح نہیں ہے روایات کے آئینہ میں دنیا کے اس رخ کوبھی ملا حظہ فرما ئیں ۔

۱۔دنیا آخرت تک پہو نچانے والی

امام زین العابدین نے فرمایا :

(الدنیا دنیاءان،دنیابلاغ،ودنیاملعونة )( ۱ )

''دنیا کی دو قسمیں ہیں ؟دنیا ئے بلاغ اور دنیا ئے ملعونہ ''

دنیائے بلاغ سے مراد یہ ہے کہ دنیا انسان کو آخرت تک پہو نچاتی ہے اور خدا تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔بلاغ کے یہی معنی ہیں اوریہ دنیا کی پہلی قسم ہے ۔

دوسری دنیا جو ملعون ہے وہ دنیا وہ ہے جوانسان کو ﷲسے دورکرتی ہے اس لئے کہ لعن بھگانے اور دور کرنے کو کہتے ہیں اب ہرانسان کی دنیااِنھیں دومیں سے کوئی ایک ضرورہے یاوہ دنیا جو خدا تک پہونچاتی ہے یاوہ دنیا جو خدا سے دور کرتی ہے ۔

اسی سے ایک حقیقت اور واضح ہو جاتی ہے کہ انسان دنیا میں کسی ایک مقام پر ٹھہر انہیں رہتا ہے بلکہ یا تووہ قرب خداکی منزلیں طے کرتا رہتا ہے یا پھر اس سے دور ہوتا جاتا ہے ۔

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۳ص۲۰۔

۲۵۴

(لاتسألوافیها فوق الکفاف،ولاتطلبوامنها أکثرمن البلاغ )( ۱ )

''اس دنیا میں ضرورت سے زیادہ کا سوال مت کرو اور نہ ہی کفایت بھر سے زیادہ کا مطالبہ کرو ''

اس طرح اس دنیا کا مقصد (بلاغ)ہے اور انسان دنیا میں جو بھی مال ومتاع حاصل کرتا ہے وہ صرف اس مقصد تک پہونچنے کیلئے ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے اس طرح انسان کی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں صرف اتنا ہی طلب کرے جس سے اپنے مقصود تک پہنچ سکے لہٰذا اس مقدار سے زیادہ مانگنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وسیلہ کو مقصد بنانا چا ہئے اور یہ یادر کھنا چاہئے کہ دنیا وسیلہ ہے آخری مقصد نہیں ہے بلکہ آخری مقصد آخرت اور خدا تک رسائی ہے ۔

امیرا لمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاخلقت لغیرها،ولم تخلق لنفسها )( ۲ )

''دنیا اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے غیر (آخرت تک رسائی )کیلئے خلق کی گئی ہے''

وسیلہ کو مقصد قرار دے دیاجائے یہ بھی غلط ہے اسی طرح واسطہ کو وسیلہ اور مقصد(دونوں ) قرار دینا بھی غلط ہے اسی لئے امیرالمو منین نے فر مایا ہے کہ دنیاکو صرف اس مقدارمیںطلب کرو جس سے آخرت تک پہونچ سکو ۔

لیکن خود حصول دنیا کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ صرف بقدر ضرورت سوال کرو ۔امام کے اس مختصر سے جملے میں حصول رزق کے لئے سعی و کو شش کے سلسلہ میں اسلام کا مکمل نظریہ موجود ہے ۔چونکہ مال و متاع ِ دنیا آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے لہٰذا کسب معاش اور تحصیل رزق ضروری ہے لیکن اس تلاش و جستجو میں ''بقدر ضرورت ''کا خیال رکھنا ضروری ہے اور ''بقدر ''ضرورت سے مراد وہ

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۸۱۔

(۲)نہج البلاغہ حکمت ۴۵۵۔

۲۵۵

مقدار ہے کہ جس کے ذریعہ دنیاوی زندگی کی ضرورتیں پوری ہو تی رہیں اور آخرت تک رسائی ہو سکے

انسا نی ضرورت واقعی اور ضروری بھی ہو تی ہے اور غیر واقعی یا وہمی بھی ۔یعنی اسے زندہ رہنے اور آخرت تک رسائی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ حقیقی ضرورتیں ہیں ۔اوران کے علاوہ کچھ غیر ضروری چیزیں بھی احتیاج وضرورت کی شکل میں انسان کے سامنے آتی ہیںجو در حقیقت حرص و طمع ہے اوران کا سلسلہ کبھی ختم ہو نے والا نہیں ہے اگر انسان ایک مرتبہ ان کی گرفت میں آگیا تو پھر ان کی کو ئی انتہا ء نہیں ہوتی ۔ان کی راہ میں جد وجہد کرتے ہوئے انسان ہلاک ہو جاتا ہے مگر اس جد و جہد سے اذیت و طمع میں اضافہ ہی ہوتا ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق نے اپنے جد بزرگوار حضرت علی کا یہ قول نقل فرمایاہے:

یابن آدم:ان کنت ترید من الدنیامایکفیک فان أیسرما فیهایکفیک،و ان کنت انما ترید مالیکفیک فان کل ما فیهایکفیک ( ۱ )

''اے فرزند آدم اگر تو دنیا سے بقدر ضرورت کا خواہاں ہے تو تھوڑا بہت ،جو کچھ تیرے پاس ہے وہی کا فی ہے اور اگر تو اتنی مقدار میں دنیا کا خواہاں ہے جو تیری ضرورت سے زیادہ ہے تو پھر دنیا میں جو کچھ ہے وہ بھی نا کافی ہے ''

دنیا کے بارے میں یہ دقیق نظریہ متعدد اسلامی روایات اور احا دیث میں وارد ہوا ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے:

ألا وان الدنیادار لا یُسلَم منها الا فیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،ابتلی الناس بها فتنة،فما أخذوه منها لهااُخرجوا منه وحوسبوا علیه،

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ص۱۳۸۔

۲۵۶

وما أخذوه منهالغیرها قدمواعلیه وأقاموا فیه )( ۱ )

''آگاہ ہو جا ئو کہ یہ دنیا ایسا گھرہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کو ئی ایسی شئے وسیلۂ نجات نہیں ہو سکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو ۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں ۔جو لوگ دنیا کا سامان ،دنیا ہی کیلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسے چھوڑکر چلے جاتے ہیں اور پھر حساب بھی دینا ہوتا ہے اور جولوگ یہاں سے وہاںکیلئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہے یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

ان کلمات میں اختصار کے باوجود بے شمار معانی ومطالب پائے جاتے ہیں (دارلایسلم منها اِلا فیها )اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان سے فرار اور خدا تک رسائی کے لئے دنیا مومن کی سواری ہے اس کے بغیر اسکی بارگاہ میں رسائی ممکن نہیں ہے عجیب وغریب بات ہے کہ دنیا اور لوگوں سے کنا رہ کشی کرنے والا قرب خدا کی منزل مقصود تک نہیں پہونچ سکتا بلکہ ﷲ یہ چاہتا ہے کہ بندہ اسی دنیا میں رہ کر اسی دنیا کے سہارے اپنی منزل مقصود حاصل کرے۔لہٰذا ان کلمات سے پہلی حقیقت تو یہ آشکار ہوئی ہے کہ دنیا واسطہ اور وسیلہ ہے اس کو نظر انداز کرکے مقصدحاصل نہیںکیاجاسکتا۔

لیکن یہ بھی خیال رہے کہ دنیا مقصد نہ بننے پائے۔ اگر انسان دنیا کو وسیلہ کے بجائے ہدف اور مقصد بنالے گا تو ہرگز نجات حاصل نہیں کرسکتا (ولاینجی لشی کان لھا) اس طرح اگر انسان نے دنیا کواس کی اصل حیثیت ''واسطہ ووسیلہ''سے الگ کردیا اور اسی کو ہدف بنالیا تو پھر دنیاشیطان سے نجات اور خدا تک پہنچانے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے یہ دوسری حقیقت ہے جوان

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۶۲ ۔

۲۵۷

کلمات میں موجود ہے ۔

اور پھراگر انسان دنیا کو خدا ،قرب خدا اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کے بجائے خود دنیا کی خاطر اپناتا ہے تو یہی دنیا اسکو خدا سے دور کردیتی ہے ۔اس دنیا کا بھی عجیب و غریب معاملہ ہے یعنی اگر انسان اسے وسیلہ اور خدا تک رسائی کا ذریعہ قرار دیتا ہے تو یہ دنیا اس کے لئے ذخیرہ بن جاتی ہے اور اس کے لئے باقی رہتی ہے نیز دنیا وآخرت میں اس کے کام آتی ہے لیکن اگر وسیلہ کے بجائے اسے مقصد بنالے تو یہ ﷲ سے غافل کرتی ہے ۔خدا سے دور کردیتی ہے موت کے بعدانسان سے جدا ہوجاتی ہے اور بارگاہ الٰہی میں اسکا سخت ترین حساب لیا جاتاہے ۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ فرق کمیت اور مقدار کا نہیں ہے بلکہ کیفیت کا ہے اور عین ممکن ہے کہ انسان وسیع و عریض دنیا کا مالک ہو لیکن اسکا استعمال راہ خدا میں کرتا ہو اس کے ذریعہ قرب خدا کی منزلیں طے کرتا ہو ایسی صورت میں یہ دنیا اس کے لئے ''عمل صالح''شمار ہوگی اس کے برخلاف ہوسکتا ہے کہ مختصر سی دنیا اور اسباب دنیاہی انسان کے پاس ہوں لیکن اسکا مقصد خود وہی دنیا ہو تو یہ دنیا اس سے چھین لی جائے گی اسکا محاسبہ کیا جائے گا ۔یہ ہے ان کلمات کا تیسرا نتیجہ۔

اگر خود یہی دنیا انسان کے مد نظر ہوتو اسکی حیثیت ''عاجل''''نقد''کی سی ہے جو کہ اسی دنیا تک محدود ہے اور اس کا سلسلہ آخرت سے متصل نہ ہوگابلکہ زائل ہو کر جلد ختم ہوجائے گی لیکن اگر دنیا کو دوسرے (آخرت )کے لئے اختیار کیا جائے تو اسکی حیثیت''آجل''''ادھار''کی سی ہوگی کہ جب انسان حضور پروردگار میں پہونچے گا تو وہاںدنیا کو حاضر وموجود پائے گا ۔ایسی دنیا زائل ہونے والی نہیں بلکہ باقی رہے گی''وماعندﷲ خیر وأبقی''امیر المومنین کے اس فقرہ''وماأخذ وہ منھا لغیرھا قدموا علیہ وأقاموا فیہ'' سے یہ چوتھا نتیجہ برآمد ہوتا ہے ۔

۲۵۸

زیارت امام حسین سے متعلق دعا میں نقل ہوا ہے:

(ولاتشغلنی بالاکثارعلیّ من الدنیا،تلهینی عجائب بهجتها،وتفتننی زهرات زینتها،ولا بقلالٍ یضرّ بعملی،ویملأ صدری همّه )( ۱ )

''کثرت دنیا سے میرے قلب کو مشغول نہ کردینا کہ اسکے عجائبات مجھے تیری یاد سے غافل کردیں یا اسکی زینتیں مجھے اپنے فریب میں لے لیں اور نہ ہی دنیا میں میرا حصہ اتنا کم قرار دینا کہ میرے اعمال متاثر ہوجائیں اور میرا دل اسی کے ہم وغم میں مبتلا رہے ''

دنیا اوراس سے انسان کے تعلق، بقاء و زوال ،اسکے مفید ومضر ہونے کے بارے میں اس سے قبل جو کچھ بیان کیا گیا وہ کیفیت کے اعتبار سے تھا کمیت ومقدار سے اسکا تعلق نہیں تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمیت و مقدار بھی اس میں دخیل ہے کثرت دنیا اور اسکی آسا ئشیںانسان کو اپنے میں مشغول کرکے یاد خدا سے غافل بنادیتی ہیں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑاحصہ ہونے کے باوجود انسان دنیا میں گم نہ ہو یا یہ زیادتی اسے خدا سے دور نہ کردے اسکے لئے سخت جد وجہد درکار ہوتی ہے اور اسی طرح اگر دنیا وی حصہ کم ہو،دنیا روگردانی کر رہی ہو تو یہ بھی انسان کی آزمائش کا ایک انداز ہوتا ہے کہ انسان کا ہم وغم اور اس کی فکریں دنیا کے بارے میں ہوتی ہیں اور وہ خدا کو بھول جاتا ہے اسی لئے اس دعا میں حد متوسط کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ نہ تو اتنی کثرت ہو جس سے انسان یاد خدا سے غافل ہوجائے اور نہ اتنی قلت ہوکہ انسان اسی کی تلاش میں سرگرداں رہے اور خدا کو بھول بیٹھے۔

۲۔دنیا مومن کی سواری

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(لاتسبّوا الدنیا فنعمت مطیة المؤمن،فعلیها یبلغ الخیر وبها ینجو من الشر )( ۲ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۰۱ ص۲۰۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۷ص۱۷۸۔

۲۵۹

''دنیا کو برا مت کہو یہ مومن کی بہترین سواری ہے اسی پر سوار ہوکر خیر تک پہنچاجاتا ہے اور اسی کے ذریعہ شرسے نجات حاصل ہوتی ہے ''

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ دنیا سواری کی حیثیت رکھتی ہے جس پر سوار ہوکر انسان خدا تک پہونچتا اور جہنم سے فرار اختیار کرتا ہے ۔

یہ دنیاکاقابل ستائش رخ ہے اگر دنیانہ ہوتی توانسان رضائے الٰہی کے کام کیسے بجالاتا ، کیسے خدا تک پہونچتا ؟اولیاء خدا اگر قرب خداوند ی کے بلند مقامات تک پہونچے ہیں تو وہ بھی اسی دنیا کے سہارے سے پہونچے ہیں ۔

۳۔دنیا صداقت واعتبار کا گھر ہے ۔

۴۔دنیا دار عافیت۔

۵۔دنیا استغنا اور زاد راہ حاصل کرنے کی جگہ ہے ۔

۶۔دنیا موعظہ کا مقام ہے ۔

۷۔دنیا محبان خدا کی مسجدہے ۔

۸۔دنیا اولیاء الٰہی کے لئے محل تجارت ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی نے جب ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا :

(أیهاالذام للدنیاالمغترّبغرورهاالمنخدع بأباطیلها!أتغتر بالدنیاثم تذمّها،أنت المتجرّم علیهاأم هی المتجرّمةعلیک؟متیٰ استهوتک؟أم متیٰ غرّتک؟ )( ۱ )

''اے دنیا کی مذمت کرنے والے اور اسکے فریب میں مبتلا ہوکر اسکے مہملات میں دھوکا کھا

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۱۲۶۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291