اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 291
مشاہدے: 32570
ڈاؤنلوڈ: 3108


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32570 / ڈاؤنلوڈ: 3108
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کہ اس نے تم کو ایمان لانے کی ہدایت دے دی ہے اگر تم واقعا دعوائے ایمان میں سچے ہو.

( قُلْ‏ إِنْ‏ كانَ‏ آباؤُكُمْ‏ وَ أَبْناؤُكُمْ- وَ إِخْوانُكُمْ وَ أَزْواجُكُمْ وَ عَشِيرَتُكُمْ وَ أَمْوالٌ اقْتَرَفْتُمُوها- وَ تِجارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسادَها وَ مَساكِنُ تَرْضَوْنَها- أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ جِهادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ- وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفاسِقِينَ )

اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ، دادا، اولاد، برادران، ازواج، عشیرہ و قبیلہ اور وہ اموال جنہیں تم نے جمع کیا ہے اور وہ تجارت جس کے خسارہ کی طرف سے تم فکر مند رہتے ہو اور وہ مکانات جن کو تم پسند کرتے ہو تمہاری نگاہ میں اللہ، اس کے رسول(ص) اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو وقت کا انتظار کرو یہاں تک کہ امر الہی آجائے اور اللہ فاسق قوم کی ہدایت نہیں کرتا. توبہ، آیت/24

( قالَتِ‏ الْأَعْرابُ‏ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَ لكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمانُ فِي قُلُوبِكُمْ ‏) حجرات، آیت/14

یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو بلکہ یہ کہو کہ اسلام لے آئے ہیں کیونکہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے.

( إِنَّما يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ‏ بِاللَّهِ‏ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ ارْتابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ .) توبہ، آیت/45

۲۰۱

یہ اجارت صرف وہ لوگ طلب کرتے ہیں جن کا ایمان اللہ اور روز آخرت پر نہیں ہے اور ان کے دلوں میں شبہہ ہے اور وہ اسی شبہہ میں چکر کاٹ رہے ہیں.

( لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ‏ ما زادُوكُمْ إِلَّا خَبالًا وَ لَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَ فِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَ اللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ) توبہ، آیت/47

اگر یہ تمہارے درمیان نکل بھی پڑتے تو تمہاری وحشت میں اضافہ ہی کر دیتے اورتمہارے درمیان فتنہ کی تلاش میں گھوڑے دوڑاتے پھرتے اور تم میں ایسے لوگ بھی تھے جو ان کی سننے والے بھی تھے اور اللہ تو ظالمین کو خوب جاننے والا ہے.

( فَرِحَ‏ الْمُخَلَّفُونَ‏ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ وَ كَرِهُوا أَنْ يُجاهِدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَ أَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ- وَ قالُوا لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ- قُلْ نارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كانُوا يَفْقَهُونَ ‏)

جو لوگ جنگ تبوک میں نہیں گئے وہ رسول اللہ(ص) کے پیچھے بیٹھے رہ جانے پر خوش ہیں اور انہیں اپنے جان و مال سے رہ خدا میں جہاد ناگوار معلوم ہوتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ تم لوگ گرمی میں نہ نکلو تو پھر ( پیغمبر) آپ کہہ دیجئے کہ آتش جہنم اس سے زیادہ گرم ہے اگر یہ لوگ کچھ سمجھنے والے ہیں. ( توبہ، آیت81)

( ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ‏ وَ كَرِهُوا رِضْوانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمالَهُمْ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغانَهُمْ وَ لَوْ نَشاءُ لَأَرَيْناكَهُمْ

۲۰۲

فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيماهُمْ وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ وَ اللَّهُ يَعْلَمُ أَعْمالَكُمْ ) محمد(ص)، آیت/30

یہ اس لئے کہ انہوں نے ان باتوں کا اتباع کیا ہے جو خدا کو ناراض کرنے والی ہیں اور اس کی مرضی کو ناپسند کیا ہے تو خدا نے بھی ان کے اعمال کو برباد کر رکھا ہے کیا جن لوگوں کے دلوں میں بیماری پائی جاتی ہے ان کا خیال یہ ہے کہ خدا ان کے دلوں کے کینوں کو باہر نہیں لائے گا اور ہم چاہتے تو انہیں دکھلا دیتے اور آپ چہرے کے آثار ہی سے پہچان لیتے اور ان کی گفتگو کے انداز سے تو پہچان ہی لیں گے اور اللہ تم سب کے اعمال سے خوب واقف ہے.

( وَ إِنَ‏ فَرِيقاً مِنَ‏ الْمُؤْمِنِينَ‏ لَكارِهُونَ يُجادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ ما تَبَيَّنَ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَ هُمْ يَنْظُرُونَ ‏) انفال آیت/6

اگرچہ مومنین کی ایک جماعت اسے نا پسند کر رہی تھی یہ لوگ آپ سے حق کے واضح ہو جانے کے بعد بھی اس کے بارے میں بحث کرتے ہیں جیسے کہ موت کی طرف بہکائے جا رہے ہوں اور حسرت و یاس سے دیکھ رہے ہوں.

( ها أَنْتُمْ‏ هؤُلاءِ تُدْعَوْنَ‏ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ، وَ مَنْ يَبْخَلْ فَإِنَّما يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ، وَ اللَّهُ الْغَنِيُّ وَ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ، وَ إِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ ثُمَّ لا يَكُونُوا أَمْثالَكُمْ ) محمد آیت/38

۲۰۳

ہاں تم لوگ وہی ہو جنہیں راہ خدا میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے تو تم میں سے بعض لوگ بخل کرنے لگتے ہیں اور جو لوگ بخل کرتے ہیں وہ اپنے ہی حق میں بخل کرتے ہیں اور خدا سب سے بے نیاز ہے تم ہی سب اس کے محتاج ہو اگر تم منہ پھیر لوگے تو وہ تمہارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا جو اس کے بعد تم جیسے نہ ہوں گے.

( مَنْ‏ يَلْمِزُكَ‏ فِي الصَّدَقاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْها رَضُوا وَ إِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْها إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ .) توبہ، آیت/58

اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو خیرات کے بارے میں الزام لگاتے ہیں کہ انہیں کچھ مل جائے تو راضی ہو جائیں گے اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوجائیں گے.

( وَ مِنْهُمْ مَنْ‏ يَسْتَمِعُ‏ إِلَيْكَ‏ حَتَّى إِذا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِكَ قالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ما ذا قالَ آنِفاً أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى‏ قُلُوبِهِمْ وَ اتَّبَعُوا أَهْواءَهُمْ .) محمد(ص)، آیت/16

اور ان میں سے کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو آپ کی باتیں بظاہر غور سے سنتے ہیں اور جب آپ کے پاس سے باہر نکلتے ہیں تو جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے تو ان سے کہتے ہیں کہ انہوں نے ابھی کیا کہا تھا ہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر خدا نے مہر لگا دی ہے اور انہوں نے اپنی خواہشات کا اتباع کر لیا ہے.

۲۰۴

( وَ مِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ‏ النَّبِيَ‏ وَ يَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ يُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَ رَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ الَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ ) توبہ، آیت/61

ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو صرف کان ہیں آپ کہہ دیجئیے کہ تمہارے حق میں بہتری کے کان ہیں کہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین کی تصدیق کرتے ہیں اور صاحبان ایمان کے لئے رحمت ہیں اور جو لوگ رسول خدا کو اذیت دیتے ہیں ان کے واسطے دردناک عذاب ہے.

تحقیق کرنے والوں کے لئے واضح آیات کی یہ مقدار کافی ہے اس طرح صحابہ کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں.

1- جو خدا و رسول(ص) پر ایمان لائے اور اپنے امر و قیادت کو خدا ورسول(ص) کے سپرد کر دیا، ان کی اطاعت کی، ان کی صحبت میں زندگی گذاری اور ان کی خوشنودی میں جان دے دی، وہ کامیاب و رستگار ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے. قرآن انہیں شاکرین کے نام سے یاد کرتا ہے.

2- جو لوگ ظاہر میں خدا و رسول(ص) پر ایمان لائے لیکن ان کے دلوں میں بیماری رہی اور انہوں نے اپنے امور کو خدا و رسول(ص) کے سپرد نہیں کیا. ہاں شخصی فوائد و دنیاوی مصلحت کے تحت خاموش رہے اور احکام و امر رسالت کے بارے میں رسول(ص)سے جھگڑتے رہے....

یہ گھاٹا اٹھانے والے ہیں ان کی اکثریت ہے قرآن نے انہیں بہت ہی حقیر تعبیر سے یاد کیا ہے. چنانچہ ارشاد ہے:

۲۰۵

( لَقَدْ جِئْناكُمْ‏ بِالْحَقِّ وَ لكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كارِهُونَ ‏) زخرف، آیت/78

یقینا ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے لیکن تمہاری اکثریت تو حق کو ناپسند کرنے والی ہے.

اس سے محقق پر یہ بات منکشف ہو جائے گی کہ یہ اکثریت نبی(ص) کے ساتھ زندگی گزارتی تھی آپ کے پیچھے نماز پڑھتی تھی، حضر و سفر میں آپ کے ہمراہ رہتی تھی، اور آپ کے تقرب کا اس لئے ذریعہ ڈھونڈتی تھی تاکہ مخلص مومنین ان کی حالت سے واقف نہ ہوسکیں اور عبادت و تقوی کے لحاظ سے لوگوں کی نظروں میں خود کو ایسا بنا کر پیش کرتی تھی کہ جس پر مومنین رشک کرنے لگیں.(1) جب حیات نبی(ص) میں ان کی یہ حالت تھی تو نبی(ص) کے بعد انہوں نے کیا کچھ نہ کیا ہوگا.

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ بہت چالاک تھے ان کی تعداد روز افزون تھی ان کے ہم خیال بہت زیادہ تھے اب کوئی نبی(ص) نہیں تھا جو انہیں پہچانتا اور نہ ہی وصی کا سلسلہ تھا جو ان کی حقیقت کا انکشاف کرتا خصوصا نبی(ص) کی وفات

____________________

1.امام احمد نے اپنی مسند میں اور ابن حجر نے اصابہ میں ذی اللہ یہ کے حالات میں انس ابن مالک سے نقل کیا ہے کہ رسول(ص) کے زمانہ میں ہم اس عبادت و جانفشانی پر تعجب کیا کرتے تھے ایک مرتبہ اس کی حالات کی خدمت میں بیان کی گئی لیکن آپ(ص) اس کے نام سے نہ سمجھ سکے پھر صفت بیان کی گئی پھر بھی آپ متوجہ نہ ہوسکے کچھ دیر بعد جب وہ نکلا تو ہم نے آنحضرت(ص) سے کہا یہ ہے وہ شخص رسول(ص) نے فرمایا : مجھے اس شخص کے متعلق بتا رہے ہو جس کے چہرے سے شیطنت آشکار ہے یہ اور اس کے اصحاب قرآن پڑھتے ہیں لیکن اسے تسلیم نہیں کرتے. دینی معاملات سے ایسے گذر جاتے ہیں جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے انہیں قتل کردو یہی شریر ہیں.

۲۰۶

حسرت آیات کے بعد اہل مدینہ کے درمیان دیکھتے ہی دیکھتے افتراق پھیل گیا اسی طرح جزیرة العرب میں وہ لوگ مرتد ہوگئے جو کفر و نفاق میں بہت ہی سخت تھے، ان میں سے بعض نے تو نبوت کا دعوی کردیا جیسے مسیلمہ کذاب اور طلیحہ و سجاح بنت الحرث اور ان کے پیروکار، واضح رہے کہ یہ سب صحابہ تھے.

اگر ہم ان تمام باتوں سے چشم پوشی کر لیں اور صرف رسول(ص) کے ان صحابہ کو مورد نظر قرار دیں کہ جو مدینہ میں مقیم تھے تو ان کے بارے میں بھی ہمیں یقین ہے کہ ان میں بھی نفاق کے عناصر موجود تھے یہاں تک کہ ان میں بیشتر خلافت کے چکر میں اپنی پہلی حالت کی طرف پلٹ گئے تھے.

گذشتہ بحثوں میں ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ انہوں نے رسول(ص) اور ان کے جانشین کے خلاف کاروائی کی اور رسول(ص) کے احکام کی اس وقت مخالفت کی جب آپ بستر مرگ پر تھے.

یہ وہ حقیقت ہے جس کا اقرار تاریخ و سیرت نبی(ص) کی کتابوں کے مطالعہ کے وقت ہر ایک حق کا متلاشی کرے گا اور کتاب خدا میں اس بات کو جلی ترین عبارت میں بیان کیا گیا ہے. چنانچہ ارشاد ہے.

( وَ ما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ‏ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَ فَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى‏ أَعْقابِكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلِبْ عَلى‏ عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ) آل عمران، آیت/144

اور محمد(ص) تو صرف رسول ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذرے ہیں کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو تم الٹے پیروں پلٹ جائو گے تو جو ایسا کرے گا وہ خدا کو کوئی نقصان

۲۰۷

نہ پہونچا سکے گا اور خدا شکر گزاروں کو عنقریب ان کی جزا دے گا.

پس صحابہ میں سے شکر گزار بہت تھے اور وہی دین پر باقی رہے اور اس زمانہ میں ثابت قدم رہے جب دوسرے رسول(ص) کے خلاف سازش میں مصروف تھے اور انہوں نے دین میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی.

یہ آیہ کریمہ اور اس کا محکم مفہوم اہل سنت کے اس دعوے کو باطل کر دیتا ہے کہ صحابہ کا منافقین سے کوئی تعلق نہ تھا اور اگر ہم ان کی اس بات کو قبول بھی کریں تو بھی باس آیت کا تعلق مخلص صحابہ سے صحابہ سے ہے کہ جو حیات نبی(ص) میں منافق نہیں تھے لیکن آپ کی وفات کے بعد الٹے پیروں اپنی پہلی حالت پر پلٹ گئے تھے.

ان کی کیفیت عنقریب اس وقت واضح ہوگی جب ہم حیات نبی(ص) میں اور ان کی حیات کے بعد صحابہ کے کارناموں کا جائزہ لیں گے اور ان کے بارے میں رسول(ص) کے اقوال کا تجزیہ کریں گے اور ان کے متعلق رسول(ص) کے اقوال سے تاریخ و حدیث و سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں.

حدیث نبی(ص) بعض صحابہ کا راز فاش کرتی ہے

مخالف ان احادیث نبوی میں کہ جو صحابہ کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کوئی خدشہ وارد نہیں کرسکے گا اور انہیں ضعیف قرار نہیں دے سکے گا، اس وقت ہم بخاری سے احادیث پیش کرتے ہیں جو اہل سنت کے نزدیک صحیح ترین کتاب ہے. اگر چہ بخاری نے صحابہ کی عزت بچانے کے لئے بہت احادیث کو چھپالیا ہے یہ بات تو ان کے متعلق مشہور ہے. اس لئے کہ بخاری کے علاوہ اہل سنت کی صحاح

۲۰۸

میں واضح عبارت میں ان کا ضعف بیان کیا گیا ہے اس کے باوجود ہم اپنی صحت کے استحکام کے لئے بخاری کی مختصر احادیث ہی پر اکتفا کرتے ہیں.

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/1 کی کتاب الایمان کے خوف المومن من یحبط عملہ و ہو لا یشعر میں تحریر کیا ہے کہ:

ابراہیم تمیمی نے کہا کہ میں نے اپنے قول کو اپنے عمل پر کبھی نہیں پرکھا، کیونکہ مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں میں جھوٹا ثابت نہ ہو جائوں. ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی(ص) کے ایسے تیس صحابہ سے ملاقات کی ہے کہ جنہیں اپنے بارے میں یہ خوف تھا کہ کہیں وہ منافق نہ ہوں. ان میں سے کوئی ایک بھی یہ دعوی نہیں کرتا تھا کہ ہم جبرئیل و میکائیل کے ایمان پر بر قرار ہیں.(1)

اور جب ابن ابی ملیکہ نے تیس(30) صحابہ نبی(ص) کو اپنے نفاق سے ڈراتا ہوا پایا اور وہ اپنے صحیح ایمان کا دعوی بھی نہیں کرسکتے تھے پھر اہل سنت کو کیا ہوگیا کہ وہ صحابہ کو انبیاء کی منزل تک پہونچاتے ہیں اور کسی کے متعلق تنقید سننا گوارا نہیں کرتے. بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/4 کی کتاب الجہاد و السیر کے جاسوس و تجسس والے باب میں تحریر کیا ہے کہ: حاطب ابن ابی بلتعہ رسول(ص) کے صحابی نے مشرکین مکہ کو رسول(ص) کے منصوبوں کی خبر دی جب اسے اس کے خط کے ساتھ رسول(ص) کی خدمت میں حاضر کیا گیا اور رسول(ص) نے اس سے دریافت کیا

____________________

1.صحیح بخاری، جلد/1 ص17

۲۰۹

کہ یہ کیا ہے تو اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں مکہ میں اپنے قرابتداروں کی حمایت کرنا چاہتا تھا. رسول(ص) نے اس کی تصدیق کی عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ(ص) اجازت دیجئے میں اس منافق کی گردن اڑادوں. کہا: یہ بدر میں شریک تھا تم لو جانتے ہی ہو کہ خدا نے اہل بدر کے بارے میں کیا فرمایا ہے. کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کیا.(1)

اور جب حاطب ایسا صحابی جو بدری صحابہ میں سے تھا نبی(ص) کے اسرار کو نبی(ص) کے دشمن و مشرکین کے پاس بھیج دیتا ہے اور اپنے قرابتداروں کی حمایت کی وجہ سے خدا و رسول(ص) کے ساتھ خیانت کرتا ہے اور عمر ابن خطاب اس کے نفاق کی گواہی دیتے ہیں تو ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو فتح خیبر و فتح حنین کے بعد یا فتح مکہ کے بعد جبرایا یا خوشی خواہ مسلمان ہوئے تھے.

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/6 کتاب فضائل القرآن کے( سَواءٌ عَلَيْهِمْ‏ أَسْتَغْفَرْتَ‏ لَهُمْ‏ أَمْ لَمْ‏ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ‏ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفاسِقِينَ ‏) والے باب میں تحریر کیا ہے کہ:

مہاجرین کے ایک شخص کا انصار کے کسی آدمی سے جھگڑا ہوگیا، انصاری نے انصار کو پکارا اور مہاجر نے مہاجرین سے مدد طلب کی جب رسول(ص) نے یہ سنا تو فرمایا: کیا جاہلیت کے جھگڑے لوٹ آئے؟ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ(ص)! مہاجرین کا ایک آدمی انصار سے لڑگیا. آپ نے فرمایا لڑائی جھگڑا ختم کرو کیونکہ یہ پوچ ( پوسیدہ) حرکت ہے.

رسول(ص) اس بات کے بعد فورا عبداللہ ابن ابی نے

۲۱۰

کہا قسم خدا کی جب ہم مدینہ واپس جائیں گے تو جو لوگ شریف طاقتور اور با عزت ہیں وہ یقینا ذلیل و خوار لوگوں کو مدینہ سے باہر نکال دیں گے، شدہ شدہ یہ خبر رسول(ص) تک پہونچی عمر نے کھڑے ہو کر کہا پیغمبر(ص) خدا اجازت دیجئے تو میں اس منافق کی گردن مار دوں، پیغمبر(ص) نے فرمایا: جانے دو تا کہ لوگ یہ نہ کہیں پیغمبر(ص) اپنے اصحاب کو قتل کر رہے ہیں.(1)

اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ منافقین رسول(ص) کے اصحاب میں تھے، اسی لئے تو رسول(ص) نے عمر کی بات کی تائید کی عمر نے عبداللہ ابن ابی کو منافق کہا تھا، لیکن منافق ہونے کے باوجود پیغمبر(ص) نے عمر کو اس ( عبداللہ ابن ابی) کے قتل کرنے کی اجازت اس لئے نہیں دی کہ لوگ یہ کہنے لگیں گے کہ محمد(ص) اپنے اصحاب کو قتل کر رہے ہیں. محمد(ص) اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ میرے اصحاب زیادہ تر منافق ہیں اگر منافقوں کو قتل کیا جائے تو آپ(ص) کے اصحاب کی تعداد بہت کم رہ جائے گی. کہاں ہیں اہلسنت؟ کیا وہ اس تلخ حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں؟ ان کے خیالات کو باطل کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے.

بخاری نے کتاب الشہادات جلد/3 باب حدیث افک میں تحریر کیا ہے کہ:

پیغمبر(ص) نے فرمایا: آیا کوئی ہے جو مجھے اس شخص سے نجات دلائے جو میرے اہل بیت(ع) کو اذیت دیتا ہے. یہ سن کر سعد ابی معاذ کھڑے ہوئے اور کہا اے پیغمبر(ص) قسم خدا کی

____________________

1.بخاری جلد/6 ص65

۲۱۱

میں آپ کو اس سے نجات دلائوں گا خواہ اس کا تعلق اوس و خزرج کے قبیلہ ہی سے کیوں نہ ہو میں اس کی گردن مار دوں گا آپ ایسے موقعوں پر ہمیں بلائیے، ہم آپ کی مدد کو پہونچیں گے، حکم بجا لائیں گے، اس کے بعد سعد ابن عبادہ قبیلہ خرزج کے رئیس سے حمیت کے مارے نہ رہا گیا اور کھڑے ہو کر کہا تم جھوٹ کہتے ہو قسم خدا کی تم ان ( خزرج والوں) کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، ا ن کے بعد اسید ابن خضیر کھڑے ہوئے اور کہا قسم خدا کی تم جھوٹ کہتے ہو ہم اسے لازمی قتل کریں گے. اور چونکہ تم منافق ہو اس لئے منافقوں کی طرفداری کر رہے ہو. نتیجہ یہ ہوا کہ قبیلہ اوس و خزرج والے جنگ پر آمادہ ہوگئے. پیغمبر(ص) منبر پر تھے اور انہیں، ( اوس خزرج والوں کو) ٹھنڈا کرنے کوشش کر رہے تھے یہاں تک کہ ان کا غیظ و غضب ختم ہوا اور وہ جنگ و خونریزی سے باز رہے.(1)

جب انصار کی بلند پایہ شخصیت سعد ابن عبادہ کو نبی(ص) کے سامنے منافق کہہ دیا گیا اور کسی نے ان کی حمایت تک نہ کی حالانکہ سعد ابن عبادة انہیں انصار کی فرد ہے جن کی خداوند عالم نے قرآن مجید میں توصیف بیان فرمائی ہے.یہ سب اوس و خزرج والے اس منافق کو قتل سے بچانے کے لئے جو پیغمبر(ص) کے اہل بیت(ع) کو اذیت دیتا ہے دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں آجاتے ہیں اور جنگ و پیکار کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور آن حضرت(ص) کے سامنے چیخنا چلانا شروع کردیتے ہیں.پس وہ لوگ کیونکر منافق نہیں ہوسکتے جنہوں نے زندگی بھر رسول خدا(ص) اور اسلام سے جنگ کی اور ان لوگوں کے منافق ہونے میں کیا شک ہے

____________________

1.صحیح بخاری جلد/3 ص156 و جلد/ 6 ص8

۲۱۲

جنہوں نے آپ کی وفات کے بعد خلافت کے لئے آپ کی لخت جگر کے گھر کو جلانے کا ارادہ کر لیا تھا؟!!

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/8 کی کتاب التوجید میں خداوند عالم کے اس قول کے بارے" تعرج الملائکة والروح الیه" میں تحریر کیا ہے کہ:

علی ابن ابی طالب(ع) نے یمن سے رسول خدا(ص) کی خدمت میں سونا بھیجا آپ نے اسے بعض لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا تو قریش اور انصار کو یہ بات بری لگی تو انہوں نے کہا کہ: رسول(ص) نجد کے بڑے لوگوں کے درمیان سونا تقسیم کر دیا. اور ہمیں چھوڑ دیا؟ آپ نے فرمایا میں ان کے دلوں کو موہ لینے کے لئے ایسا کیا ہے. پس ایک شخص آگے بڑھا اور کہنے لگا. اے محمد(ص) خدا سے ڈرئے! نبی(ص) نے فرمایا اگر میں خدا کی معصیت کروں گا تو اس کی اطاعت کون کرے گا؟ اس نے مجھے دنیا والوں کے لئے امین بنایا ہے اور تم مجھے امیں نہیں سمجھتے؟ اس موقع پر خالد ابن ولید نے پیغمبر(ص) سے اس شخص کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی لیکن نبی(ص) نے اجازت نہ دی جب وہ شخص چلا گیا اس وقت آپ(ص) نے فرمایا یہ لوگ مجھ سے وابستہ اور میرے قریب رہنے والے لوگ ہیں. کہ جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا اسلام سے ایسے خارج ہوتے ہیں جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے یہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اور بت پرستوں کو اپنی مدد کے لئے بلاتے ہیں اگر ان پر میری دست رس ہوگی تو انہیں قوم عاد کی طرح قتل کروں گا. (صحیح بخاری جلد/8 ص178)

۲۱۳

یہ شخص رسول خدا(ص) کے اصحاب میں سے دوسرا منافق ہے جو بے ادبانہ آپ(ص) پرسونے کی تقسیم کے سلسلہ میں ظلم کا اتہام لگاتا ہے اور کہتا ہے اے محمد اللہ سے ڈرئیے باوجودیکہ نبی(ص) اس کے نفاق سے واقف ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ میرے پاس بیٹھنے والوں میں سے کچھ لوگ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر نکلتا ہے. اور وہ بت پرستوں سے مدد چاہیں گے ان تمام باتوں کے باوجود نبی(ص) نے خالد ابن ولید کو اس کے قتل سے باز رکھا.

یہ ان اہل سنت کا جواب ہے جو اکثر میرے اوپر یہ کہہ کر حجت قائم کرتے ہیں کہ اگر رسول(ص) یہ جانتے تھے کہ میرے صحابی منافق ہیں اور وہ عنقریب مسلمانوں کی گمراہی کا سبب قرار پائیں گے تو آپ پر دین کی حفاظت اور امت کی حمایت کی خاطر ان کا قتل واجب تھا.

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/3کتاب الصلح باب اذا اشار الامام بالصلح" میں روایت کی ہے کہ:

ابن زبیر بیان کرتے ہیں کہ وہ حسرہ کے ایک گھاٹ کے بارے میں انصار میں سے اس شخص سے جھگڑ رہے تھے جو رسول(ص) کے ساتھ جنگ بدر میں شریک تھا وہ دونوں ( پانی) پی رہے تھے رسول(ص) نے زبیر سے کہا کہ پہلے تم پی لو اس کے بعد اپنے ہمسایوں کے پینے دو، انصاری کو غصہ آگیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ(ص) اس لئے کہ وہ آپ کا چچا زاد بھائی ہے؟ یہ بات سن کر رسول(ص) کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور فرمایا پہلے تم پانی پی لو اور باقی کو محفوظ کر لو تا کہ اسے زمین پی جائے.

____________________

صحیح بخاری جلد/3 ص171

۲۱۴

یہ آپ(ص) کے اصحاب میں سے نفاق کا دوسرا نمونہ ہے کہ جو سمجھتا ہے کہ رسول(ص) پر عصبیت طاری ہوگئی ہے اس لئے وہ اپنے چچا زاد بھائی ( ابن زبیر) کی طرفداری کر رہے ہیں اور یہ بات اس نے اتنی بے حیائی سے کہی کہ شدت غضب سے رسول(ص) کے چہرہ کا رنگ متغیر ہوگیا. عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیغمبر(ص) نے روز حنین لوگوں میں مال (غنیمت) تقسیم کیا اقرع ابن حابس کو سو اونٹ عطا کئے اور اسی طرح عیینہ کو بھی سو اونٹ دئیے اور اشراف عرب کو بھی مال و دولت دیا اور اس روز تقسیم سے ان لوگوں کو متاثر کر لیا، اس شخص نے کہا کہ خدا کی قسم اس تقسیم میں نہ عدالت کا پاس و لحاظ رکھا گیا اور نہ ہی خدا کی رضا کا. راوی کہتا ہے میں نے کہا قسم خدا کی بہ بات میں ضرور پیغمبر(ص) کو بتائوں گا. میں رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کی اطلاع دی آپ(ص) نے فرمایا اگر خدا و رسول(ص) عادل نہیں ہیں تو پھر کون عادل ہوگا؟ خدا موسی پر رحم کرخ انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیفین دی گئیں اور انہوں نے صبر کیا.(1) یہ اصحاب رسول(ص) میں سے دوسرا منافق ہے شاید یہ شخص قریش کے سربرآوردہ افراد میں سے ہے راوی نے ڈر کے مارے اس کا نام نہیں لیا ہے کیونکہ اس وقت وہ حکومت کا خاص آدمی تھا. آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس اعتماد کے ساتھ اس نے قسم کھا کر کہا ہے کہ پیغمبر(ص) عادل نہیں ہیں، اور تقسیم میں خدا کی رضا کا خیال نہیں رکھا ہے. خدا محمد(ص) پر رحمت نازل کرے ان پر اس سے کہیں زیادہ ظلم ہوا اور آپ نے صبر کیا.

بخاری و مسلم نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم تقسیم غنیمت کے وقت رسول(ص) کے پاس موجود تھے جب بنی تمیم میں سے ذوالخویصرہ

____________________

1.صحیح بخاری جلد/4 ص61 باب بخشش عطایا بمولفة القلوب

۲۱۵

نامی شخص رسول(ص) کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ(ص) اللہ عدل کیجئے. آپ(ص) نے فرمایا خدا تجھے غارت کرے اگر میں عدل نہ کروں گا تو پھر کون عدل سے کام لے گا، اگر میں نے عدل نہ کیا ہوتا تو تم خسارہ میں رہتے. یہ بات سن کر عمر نے کہا: یا رسول اللہ(ص) مجھے اجازت بدیجئے کہ اس شخص کی گردن ماردوں آپ نے فرمایا چھوڑو جانے دو اس کے بہت سے دوست ایسے ہیں کہ اپنے روزے نماز کے مقابلے میں تم سب کے روزے نماز کو حقیر سمجھتے ہیں یہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا ہے یہ دین سے اس طرح نکل جاتے ہیں جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے.(1)

یہ منافقین صحابہ میں سے ایک اور نمونہ ہے یہ لوگ مومنون کے سامنے اپنے تقوے اور خشوع کا بہت زیادہ اظہار کرتے ہیں. یہاں تک کہ نبی(ص) نے عمر سے فرمایا کہ وہ تمہارے روزے نماز کو اپنے روزے نماز کے سامنے ہیچ سمجھتے ہیں بیشک وہ اچھی طرح قرآن کو حفظ کرتے تھے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا اور پھر رسول(ص) کا یہ قول " چھوڑو ! جانے دو! ان کے بہت سے دوست ایسے ہیں" اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ صحابہ میں ایک بڑی تعداد منافقین کی تھی.

عائشہ کہتی ہیں کہ پیغمبر(ص) نے ایک دستور مرتب کیا اور لوگوں کو اس پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا لیکن لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا. پس رسول(ص) نے خطبہ دیا اور خدا کی حمد و ستائش کے بعد فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو میرے دستور کے مطابق عمل نہیں کرتے، میں اس پر عمل کرتا ہوں قسم خدا کی میں ان سے

____________________

1.صحیح بخاری جلد/4 ص179" باب علامات النبوة فی الاسلام کتاب بدو الخلق

۲۱۶

زیادہ خدا کو پہچانتا ہوں اور ان سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں.(1)

یہ ان صحابہ کا ایک نمونہ ہے جو رسول(ص) کی سنت سے پہلو تہی کیا کرتے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صحابہ رسول(ص) کے افعال کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور اس لئے تو ہم رسول(ص) کو ان کے درمیان خطبہ دیتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ جس میں آپ خدا کی قسم کھا کے کہتے ہیں " میں ان سے زیادہ خدا کو پہچانتا ہوں اور ان سے زیادہ خدا سے خوف کھاتا ہوں" بخاری نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ چوتھی ذی الحجہ کو نبی(ص) تہلیل کرتے ہوئے حج کے لئے تشریف لائے جب ہم آپ(ص) کے پاس پہونچے تو آپ(ص) نے ہمیں حج کو عمرے سے بدلنے کا حکم دیا سو ہم نے حج کو عمرے سے بدل دیا تاکہ ہم اپنی بیویوں کے ساتھ رہیں. اسی سلسلہ میں ایک خبر گشت کرنے لگی، عطا کہتے ہیں کہ جابر نے کہا کہ ہم میں سے کوئی آدمی منی کی طرف جانے لگا جب کہ اس کے عضو تناسل سے منی ٹپک رہی تھی تو جابر نے کہا کہ اسے روکو ! شدہ شدہ یہ خبر رسول خدا(ص) تک پہونچی، آپ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا : کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ لوگ ایسا ایسا کہہ رہے ہیں. قسم خدا کی میں ان سے کہیں زیادہ نیک اور خدا ترس ہوں.(2) اصحاب رسول(ص( سے یہ ایک اور گروہ ہے جو احکام شرعیہ میں رسول(ص) کے حکم کی مخالفت کرتا ہے. اور آپ(ص) کا یہ قول کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ لوگ ایسا ایسا کہہ رہے ہیں اس بات پر دلالت کر رہی ہے اکثر لوگوں نے اپنی بیویوں کے لئے محل ہونے

____________________

1.صحیح بخاری جلد/7 ص96 کتاب الادب باب "من لم یواجہ الناس بالعتاب"

2.صحیح بخاری جلد/3 ص114

۲۱۷

سے انکار کر دیا تھا کہہ دیا تھا کہ ہم تو پاک ہیں منی جانے میں کیا اشکال ہے جب کہ منی ان کے عضہ تناسل سے ٹپک رہی تھی. ان نادانوں سے یہ بات پوشیدہ رہی کہ جنسی کام کے بعد خدا نے ان کے اوپر عشل و طہارت واجب کیا ہے. پس وہ کیسے منی چلے جا رہے ہیں جبکہ منی ان کے عضو تناسل سے ٹپک رہی ہے؟ کیا وہ احکام خدا کو رسول(ص) سے زیادہ بہتر جانتے ہیں؟ یا وہ خدا سے رسول(ص) کی بہ نسبت زیادہ ڈرتے ہیں؟

لاریب رسول(ص) کے بعد عمر نے متعہ حج اور متعہ نساء دونوں کو اسی لئے حرام قرار دے دیا. پس جب وہ حیات نبی(ص) میں ایام حج میں نبی(ص) کے اس حکم کو ٹھکرا سکتے ہیں کہ " تم اپنی بیویوں سے نکاح کرو" تو آپ کے بعد ان کا متعہ کو حرام قرار دینا کوئی بعید نہیں ہے. وہ نبی(ص) کےحکم کی تعمیل نہیں کرنا چاہتے اور عقد متعہ کو زنا تصور کرتے ہیں. آج تمام اہلسنت کا یہی مسلک ہے.

بخاری نے انس ابن مالک سے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ جب رسول(ص) کو خدا نے ہوازن کا مال غنیمت میں عطا کیا اور رسول(ص) نے وہ مال، ایک قریشی کو دے دیا تو انصار نے کہا خدا پیغمبر(ص) کی مغفرت کرے وہ تو سب کچھ قریش کو بخش دے رہے ہیں اور ہمیں محروم رکھ رہے ہیں. ہماری شمشیر سے قریش کا خون ٹپکتا ہے.پس رسول(ص) نے صرف انہیں ایک قبہ کے نیچے جمع کیا اور فرمایا کہ: اس بات کو پھر دہرائو جومجھ تک پہونچی ہے جب انہوں نے اپنی بات کا اعادہ کیا تو آپ(ص) نے فرمایا کہ میں نے انہیں لوگوں کو غنیمت دی ہے جو تازہ مسلمان ہیں کیا تم تاس بات سے راضی نہیں ہو کہ وہ لوگ اپنے وطن مال لے کر جائیں؟ کیا تم رسول خدا(ص) کے ساتھ اپنے گھروں کو( اسی طرح) نہیں پلٹے ہو. قسم خدا کی جو چیز تم لے کر اپنے گھروں کو پلٹے ہو وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ لوگ لے کر پلٹے ہیں

۲۱۸

آپ(ص) کی اس بات سے انصار نے کہا کہ اے پیغمبر(ص) خدا ہم مطمئن و راضی ہوگئے. اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا: تم لوگ میرے بعد حب نفس اور شہوت کا مشاہدہ کرو گے پس تم خدا و رسول(ص) سے ملاقات کے وقت تک صبر کرنا. انس کہتے ہیں کہ ہم نے اس پر صبر نہیں کیا ہے.(1)

یہاں ہم ایک سوال کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ آیا پورے معاشرہ انصار میں کوئی شخص ایسا ہے جو رسول(ص) کے ہر کام سے مطمئن ہوگیا ہو اور یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ رسول(ص) خواہشات و عصبیت سے بری تھے اور اس سلسلہ میں خدا کے اس قول کو سمجھتا ہو:

( فَلا وَ رَبِّكَ‏ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوا تَسْلِيماً ) نساء، آیت/65

قسم آپ کے پروردگار کی یہ ہرگز مومن نہ بن سکیں گے یہاں تک کہ اپنے اختلاف میں آپ کو حکم بنالیں اور جب آپ فیصلہ کر دیں تو پھر اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی کا احساس نہ کریں اور قطعی طور پر آپ کے فیصلہ پر راضی ہو جائیں. ان میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول(ص) کے بارے میں انصار کے اس قول کی تردید کی ہو کہ خدا و رسول(ص) کی مغفرت کرے؟ ہرگز ان میں کامل الایمان آیت کے اقتضاء کے لحاظ سے ایک شخص بھی نہیں ہے. اور اس کے بعد ان کا یہ کہنا " ہاں یا رسول اللہ(ص) اب ہم راضی ہوگئے

____________________

صحیح بخاری جلد/4 ص60 کتاب الجہاد والسیر

۲۱۹

سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ مطمئن نہیں ہوئے تھے. جیسا کہ اس سلسلہ میں انس ابن مالک کی گواہی موجود ہے کہ جو انصاری گذشتہ شہادت کے وقت موجود تھے انس کہتے ہیں کہ ہم سے صبر کرنے کی وصیت کی تھی لیکن ہم صبر نہیں کرتے. بخاری نے احمد ابن اشکاب سے اور انہوں نے محمد ابن فضیل سے انہوں نے علا ابن مسیب سے اور مسیب نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ میں نے برا ابن عازب رضی اللہ عنہا سے ملاقات کی اور کہا : آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ نبی(ص) کے ساتھ رہے اور درخت کے نیچے ان کی بیعت کی!

برا ابن عازب نے کہا: بھتیجے تمہیں نہیں معلوم کہ ہم نے ان( رسول(ص)) کے بعد کیا کیا.(1)

یقینا برا ابن عازب نے سچ کہا ہے. بیشک اکثر لوگ اسے نہیں جانتے کہ صحابہ نے اپنے نبی(ص) کی وفات کے بعد کیا کیا؟ کسی نے ان کے جانشین پر ظلم کیا، انہیں خلافت سے دور رکھا، کسی نے ان کی پارہ جگر پر ظلم کیا اور انہیں جلا دینے کی دھمکی دی، ان کے خمس، عطیہ اور میراث کو غصب کر لیا، وصیت نبی(ص) کی مخالفت کی. احکام شریعت کو بدل ڈالا، حدیث نبوی(ص) کو جلا ڈالا، ان کے اہل بیت(ع) پر لعنت اور پراگندہ کر کے رسول(ص) کو اذیت دی اور حکومت منافقین و فاسقین و دشمنان خدا و رسول(ص) کو سونپ دی اور بہت سی بدعتیں ہیں جو انہوں نے رسول(ص) کے بعد کی ہیں. وہ عامہ ( اہلسنت) سے پوشیدہ ہیں اور وہ اتنے ہی حقائق سے واقف و با خبر ہیں جتنے مکتب خلفاء نے پیش کئے تھے، اس مکتب نے اپنی فنکاری اور شخصی اجتہاد سے احکام خدا و رسول(ص) میں تبدیلی کر دی اور اس تبدیلی کو بدعت حسنہ

____________________

1.بخاری جلد/5 ص66 کتاب المغازی باب غروة حدیبیہ

۲۲۰