اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟20%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36895 / ڈاؤنلوڈ: 4877
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

کا نام دیا.

اسی لئے تو میں اپنے سنی بھائیوں سے کہتا ہوں کہ صحابہ کی صحبت سے فریب نہ کھانا. جب برا ابن عازب ایسے صف اوّل کے صحابی کہ جنہوں نے درخت کے نیچے پیغمبر(ص) کے ہاتھوں پر بیعت کی وہ کہتے ہیں کہ بھتیجے تمہیں میرا درخت کے نیچے بیعت کرنا اور پیغمبر(ص) کی صحبت سے شرفیاب ہونا دھوکہ میں نہ ڈال دے تمہیں نہیں معلوم میں نے ان کے بعد کیا کیا ہے جب کہ درخت کے نیچے بیعت کے بارے میں خدا کا ارشاد ہے:

( إِنَ‏ الَّذِينَ‏ يُبايِعُونَكَ‏ إِنَّما يُبايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّما يَنْكُثُ عَلى‏ نَفْسِهِ... ) سورہ فتح، آیت/۱۰

بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہاتھ ہے اس کے بعد جو بیعت توڑ دے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا.

بہت سے صحابہ نے زمانہ پیغمبر(ص) ہی میں بیعت توڑ دی تھی، رسول(ص) نے اپنے ابن عم علی ابن ابی طالب سے ان بیعت توڑنے والوں سے جہاد کرنے کا وعدہ لیا، جیسا کہ تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہے.

بخاری نے جابر ابن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ، شام سے تاجروں کا ایک قافلہ آیا جو اپنا کھانا وغیرہ ساتھ لایا تھا ہم پیغمبر(ص) کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے. (جب لوگوں نے قافلہ کی آمد کی آہٹ سنی تو) اکثر نماز توڑ کر بھاگ گئے. صرف بارہ افراد جماعت میں باقی بچے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:

۲۲۱

( وَ إِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها وَ تَرَكُوكَ قائِماً ) (۱)

یہ اصحاب رسول(ص) میں سے منافقین کا ایک اور گروہ ہے جس کے پاس نہ تقوی ہے نہ خوف خدا وخشوع بلکہ نئے آنے والے قافلہ اور تجارت کے لئے نماز جمعہ سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں اور رسول(ص) کو بارگاہ خدا میں عبادت کرتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں.

کیا یہ بھی مسلمان ہیں کامل الایمان ہیں؟ یا یہ منافق ہیں؟ جو نماز کا مذاق اڑاتے ہیں. اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے بھرے ہوتے ہیں. ان لوگوں میں سے انہیں کو مستثنی کیا جاسکتا ہے خو نماز تمام ہونے تک نبی(ص) کے ساتھ رہے. واضح رہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد صرف بارہ(۱۲) تھی.

اگر کوئی صحابہ کے حالات و اخبار کا بغور مطالعہ کرے گا تو ان کے کارناموں کو دیکھ کر انگشت بدندان ہو جائے گا. اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ نماز جمعہ سے متعدد بار فرار کر چکے تھے اسی لئے تو خدا نے قرآن مجید میں فرمایا ہے( قُلْ ما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجارَةِ )

قارئین محترم صحابہ کی نظر میں نماز جمعہ کا احترام عصر حاضر کے مسلمانوں سے زیادہ نہیں تھا. جس کا اندازہ آپ اس روایت سے لگا سکتے ہیں. بخاری نے سہیل ابن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ:

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۱ ص۲۲۵ و جلد/۳ ص۶و ۷ کتاب الجمعہ

۲۲۲

ہم روز جمعہ تفریح کر رہے تھے، ہمارے ساتھ ایک بڑھیا بھی تھی اس کا یہ وتیرہ تھا کہ وہ اس گھاس کی جڑ دیگچے میں ڈالتی تھی کہ جس کو ہم بدھ کے روز بوتے تھے اور اس میں جو کے دانے بھی ڈال دیتی تھی، اس کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا تھا مگر اتنا میں نے بڑھیا سے سنا کہ اس میں چربی نہیں ہے اور نہ ہی روغن نام کی کوئی چیز ہے جب ہم نماز جمعہ کے بعد اس کے پاس گئے تو اس نے وہی ہمارے سامنے پیش کیا. اس لئے ہم جمعہ کے روز تفریح کے لئے نکلتے تھے، لیکن نماز جمعہ سے قبل نہ ہم سوتے تھے اور نہ کچھ کھاتے تھے.

واہ واہ کیا کہنا ان صحابہ کا جو جمعہ کے روز رسول(ص) کی زیارت آپ(ص) کے خطبے اور موعظے کی سماعت اور آپ(ص) کی اقتدا میں نماز کی ادائیگی اور آپس میں ایک دوسرے کی ملاقات سے اور روز جمعہ کی مرحمت و برکت سے خوش نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کی تمام خوشیاں اس مخصوص کھانے کے لئے ہوتی تھیں جسے روز جمعہ بڑھیا تیار کرتی تھی. اگر آج کا کوئی مسلمان یہ کہے کہ روز جمعہ میری خوشی کا باعث کھانا ہوتا ہے تو اس کو لا خیرا سمجھا جائے گا.

اور جب ہم اس کی مزید تحقیق اور چھان بین کریں گے تو معلوم ہوگا کہ شکر گزار لوگوں کی قرآن نے مدح سرائی کی ہے وہ صرف بارہ ہیں جو نماز کو چھوڑ کر لہو لعب میں نہیں گئے. اور یہی وہ لوگ ہیں جو متعدد معرکوں میں نبی(ص) کے ساتھ ثابت قدم رہے اور دوسرے پیٹھ پھرا کر بھاگ گئے.

بخاری نے بر ابن عازب سے روایت کی ہے کہ جنگ احد میں نبی(ص) نے عبداللہ ابن جبیر کی معیت میں پچاس افراد کو ایک درہ پر تعینان کیا اور فرمایا کہ جب تک میں تمہارے پاس پیغام نہ بھیجوں اس وقت تک تم اپنی جگہ نہ چھوڑنا خواہ تم یہ دیکھو کہ پرندے ہمیں نوچ رہے ہیں. جب لشکر اسلام نے کفار کو شکست

۲۲۳

دے دی تو ابن جبیر کہتے ہیں میں نے عورتوں کو تیزی کے ساتھ بھاگتے ہوئے دیکھا کہ ان کی پنڈلیاں کھل گئی تھیں اور ا نہوں نے لباس سمیٹ لئے تھے عبداللہ ابن جبیر کے ساتھیوں نے غنیمت، غنیمت چلانا شروع کیا اور کہا تمہارا لشکر کامیاب ہوگیا اب کیا دیکھ رہے ہو؟ یہ حالت دیکھ کر عبداللہ ابن جبیر نے کہا کیا تم نے رسول(ص) کا قول بھلا دیا؟ لشکر والوں نے کہا قسم خدا کی ہم ضرور لوگوں کے مال غنیمت میں سے لیں گے پس جب یہ کفار کے قریب گئے تو انہوں نے پلٹ کر حملہ کر دیا اور مسلمان پسپا ہوگئے، جب رسول(ص) نے انہیں آواز دی تو اس وقت بھی آپ(ص) کے ساتھ بارہ افراد ہی تھے ( راوی کہتا ہے) اس معرکہ میں ہمارے ستر(۷۰) افراد مارے گئے.(۱) مورخین کا بیان ہے کہ اس غزوہ میں رسول(ص) کے ساتھ ایک ہزار(۱۰۰۰) صحابیوں نے شرکت کی تھی. اور سب جہاد فی سبیل اللہ کے شوق میں اور جنگ بدر کی کامیابی کے پیش نظر نکلے تھے لیکن انہوں نے حکم رسول(ص) کی مخالفت کی اور شکست فاش کا سبب بنے. اور انہیں کی وجہ۸ سے ستر افراد بھی قتل ہوگئے، قتل ہونے والوں میں سر فہرست رسول(ص) کے چچا جناب حمزہ ہیں، بخاری کا کہنا ہے کہ باقی فرار کر گئے اور میدان کار زار میں نبی(ص) کے ساتھ صرف بارہ افراد باقی بچے تھے اور باقی کا کہیں پتا نہ تھا.لیکن بخاری کے علاوہ دوسرے مورخین نے ثابت رہنے والوں کی تعداد چار بتائی ہے ان میں سر فہرست علی ابن ابی طالب(ع) ہیں جو سامنے سے رسول(ص) کا دفاع کر رہے تھے اور مشرکین کو آپ تک نہیں پہونچنے دیتے تھے اور پشت سے ابو دجانہ، طلحہ و زبیر حفاظت کر رہے تھے کہا گیا ہے سبیل ابن حنیف بھی ساتھ تھے.

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۴ ص۳۶ کتاب الجہاد و السیر " باب ما یکرہ من التفارع والاختلاف فی الحرب"

۲۲۴

ایسے ہی موقعوں پر رسول(ص) کا یہ قول ہماری سمجھ میں آتا ہے کہ میں ان (صحابہ) میں سے کسی کو مخلص نہیں پاتا ہوں( اس سلسلہ میں عنقریب بحث آئے گی)

حالانکہ جنگ سے فرار کرنے والوں کو خدا نے آتش جہنم سے ڈرایا ہے چنانچہ ارشاد ہے:

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَ اذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيراً لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ‏ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمُ‏ الَّذِينَ‏ كَفَرُوا زَحْفاً فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ وَ مَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفاً لِقِتالٍ أَوْ مُتَحَيِّزاً إِلى‏ فِئَةٍ فَقَدْ باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَ مَأْواهُ جَهَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِيرُ .) انفال، آیت/۱۵/۱۶

اے ایمان لانے والو جب کفار سے میدان جنگ میں ملاقات کرو تو خبردار انہیں پیٹھ نہ دکھانا، اور جو آج کے دن پیٹھ دکھائے گا وہ غضب الہی کا حقداد ہوگا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا جو بدترین انجام ہے علاوہ ان لوگوں کے جو جنگی حکمت عملی کی بنا پر پیچھے ہٹ جائیں یا کسی دوسرے گروہ کی پناہ لینے کے لئے اپنی جگہ چھوڑ دیں.

پس ان صحابہ کی کیا قدر و قیمت ہے جو لہو و لعب اور تجارت کے لئے نماز سے اور موت کے خوف سے میدان جنگ سے رسول(ص) کو نرغہ اعدا میں تنہا چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں. ان دونوں موقعوں پر تمام صحابہ پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوئے اور رسول(ص) کے ساتھ زیادہ سے زیادہ بارہ افراد باقی بچے، عقل والو! وہ صحابہ کہاں ہیں؟؟

ممکن ہے کہ بعض محققین ایسی روایات اور واقعات کو پڑھتے وقت ان(واقعات) کو ہلکا پھلکا سمجھیں اور یہ سوچین کبھی ایسا بھی ہوتا ہے، خدا انہیں

۲۲۵

معاف کرے گا لیکن اگر صحابہ دوبارہ اس کے مرتکب نہ ہوئے ہوں.

ہرگز نہیں! بیشک قرآن مجید نے ایسی پست حرکتوں سے ہمیں آگاہ کیا ہے. خداوند عالم نے جنگ احد سے ان کے فرار کرنے کو اس طرح بیان فرمایا ہے.(۱)

( وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ‏ اللَّهُ‏ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ حَتَّى إِذا فَشِلْتُمْ وَ تَنازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَ عَصَيْتُمْ مِنْ بَعْدِ ما أَراكُمْ ما تُحِبُّونَ مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيا وَ مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ وَ لَقَدْ عَفا عَنْكُمْ وَ اللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ. إِذْ تُصْعِدُونَ وَ لا تَلْوُونَ عَلى‏ أَحَدٍ وَ الرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْراكُمْ فَأَثابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى‏ ما فاتَكُمْ وَ لا ما أَصابَكُمْ وَ اللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ .) آل عمران، آیت/۱۵۳

خدا نے اپنا وعدہ اس وقت پورا کر دیا جب تم اس کے حکم سے کفار کو قتل کر رہے تھے. یہاں تک کہ تم نے کمزوری کا مظاہرہ کیا اور آپس میں جھگڑا کرنے لگے اور اس وقت خدا کی نافرمانی کی جب اس نے تمہاری محبوب شئی کو دکھا دیا تھا. تم میں کچھ دنیا کے طلبگار تھے. اور کچھ آخرت کے. اس کے بعد تم کو ان کفار کی طرف سے پھیر دیا تا کہ تمہارا امتحان لیا جائے

____________________

۱.طاہر ابن عاشور کی تفسیر المتحریر والتنویر جلد/۴ ص۱۲۶، تفسیر طبری میں بھی ایسے ہی مرقوم ہے اور یہی چیز بخاری نے بھی اپنی صحیح کی جلد/۵ ص۲۹ پر تحریر کیا ہے.

۲۲۶

اور پھر اس نے تمہیں معاف بھی کر دیا کہ وہ صاحبان ایمان پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے، اس وقت کو یاد کرو جب تم بلندی پر جارہے تھے اور مڑکر کسی کو دیکھتے بھی نہ تھے جب کہ رسول(ص) پیچھے کھڑے تمہیں آواز دے رہے تھے. جس کے نتیجہ میں خدا نے تمہیں غم کے بدلے غم دیا تاکہ نہ اس پر رنجیدہ ہو جو چیز ہاتھ سے نکل گئی اور نہ اس مصیبت پر جو نازل ہوگئی ہے اور تمہارے اعمال سے خوب با خبر ہے.

یہ آیتیں جنگ احد کے بعد نازل ہوئی ہیں، مسلمانوں کی شکست اور پسپائی کا سبب مال دنیا کی وہ رغبت تھی جو انہیں اس وقت لاحق ہوئی جب انہوں نے عورتوں کو اس طرح لباس اٹھائے ہوئے دیکھا کہ ان کی پنڈلیاں نظر آرہی تھیں. جیسا کہ بخاری نے تحریر کیا ہے. اور قرآن کے مطابق ان لوگوں نے خدا و رسول(ص) کے حکم کی نا فرمانی کی کیا صحابہ نے اس حادثہ کو اہمیت دی اور اس سلسلہ میں خدا کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کیا اور پھر اس کے مرتکب نہ ہوئے؟

ہرگز نہیں انہوں نے توبہ تو کی ہی نہیں بلکہ جنگ حنین میں اس سے بڑے جرم کے مرتکب ہوئے. یہ معرکہ نبی(ص) کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں ہوا تھا مورخین کا بیان ہے کہ اس معرکہ میں بارہ ہزار افراد شریک ہوئے تھے. اس کثرت کے باوجود اپنی عادت کے مطابق رسول اللہ(ص) کو دشمنان خدا مشرکین کے نرغہ میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے. اور آپ(ص) کے ہمراہ بنی ہاشم کے صرف نو دس افراد باقی بچے یہاں بھی نمایاں علی(ع) ہی نظر آتے ہیں جیسا کہ یعقوبی وغیرہ نے تحریر کیا ہے(۱)

____________________

۱.محمود عباس عقاد عبقریہ خالد ص۶۸

۲۲۷

جب جنگ احد سے ان کا فرار کرنا قبیح اور رکیک حرکت تھی تو جنگ حنین سے فرار کرنا قبیح ترین اور پست ترین حرکت تھی کیونکہ جنگ احد میں ایک ہزار صحابہ میں سے آپ(ص) کے ساتھ فقط چار صابر افراد ثابت قدم رہے گویا ہر دوسو پچاس(۲۵۰) میں سے ایک باقی بچا تھا.

لیکن حنین میں بارہ ہزار میں سے فقط دس(۱۰) افراد نے نبی(ص) کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا. گویا بارہ سو(۱۲۰۰) میں سے ایک باقی بچا تھا.

جب کہ معرکہ احد ہجرت کے ابتدائی زمانہ میں ہوا تھا اور اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور جاہلیت سے وہ زمانہ قریب تھا لیکن جنگ حنین آٹھویں ہجری نبوی کے آخر میں ہوئی تھی اور نبی(ص) کی صرف دو سال عمر باقی تھی. اس کثرت و آمادگی کے باوجود کون سی مشکل آن پڑی تھی کہ وہ لوگ سر پر پیر رکھ کر ایسے بھاگے کہ نبی(ص) کی جان کی بھی پرواہ نہ کی.

قرآن مجید ان کے ذلیل موقف اور میدان جنگ سے فرار کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے چنانچہ ارشاد ہے:

( وَ يَوْمَ‏ حُنَيْنٍ‏ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئاً وَ ضاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلى‏ رَسُولِهِ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَ أَنْزَلَ جُنُوداً لَمْ تَرَوْها وَ عَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ ذلِكَ جَزاءُ الْكافِرِينَ .) سورہ توبہ، آیت/۲۵/۲۶

اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر نار تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہوگئی اور اس کے بعد تم پیٹھ پھیر کر

۲۲۸

بھاگ نکلے، پھر اس کے بعد خدا نے اپنے رسول(ص) اور صاحبان ایمان پر سکون نازل کیا. اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور کفر اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کیا کہ یہی کافرین کی جزا اور ان کا انجام ہے.

خداوند عالم یہ بتا رہا ہے کہ ہم نے اپنے رسول(ص) اور صبر کرنے والوں پر سکینہ نازل کر کے ثابت قدم رکھا اور پھر ملائکہ کے ذریعہ ان کی مدد کی اور انہوں نے ان کے شانہ بشانہ جنگ کی اور کافروں پر فتحیاب ہوئے، پس ان مرتد لوگوں کی ضرورت نہیں ہے جو موت کے خوف سے دشمن کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور اس طرح اپنے پروردگار و رسول(ص) کی معصیت کی اور جب بھی خدا نے ان کا امتحان لیا اسی وقت ناکام ثابت ہوئے.

اس سے زیادہ وضاحت کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جنگ حنین میں شکست کے سلسلہ میں بخاری کی روایت کو پیش کروں:

بخاری نے خداوند عالم کے اس قول کے متعلق( وَ يَوْمَ‏ حُنَيْنٍ‏ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئاً ) کہ قتادہ سے روایت کی ہے. قتادہ کہتے ہیں کہ:

جنگ حنین میں جب میں نے ایک مسلمان کو ایک مشرک سے جنگ کرتے دیکھا اور اس (مشرک) کے پیچھے دوسرا( مشرک) چھپا ہوا تھا. جو دھوکے سے مسلمان کو قتل کرنا چاہتا تھا میں تیزی سے اس دھوکہ دینے والے کی طرف بڑھا تو اس نے مجھ پر وار کرنے کی غرض سے ہاتھ اٹھایا میں نے بھی اس کے ہاتھ پر وار کیا تو اس کا ہاتھ کٹ گیا، لیکن اس نے

۲۲۹

مجھے پکڑ لیا اور اتنے سخت طریقہ سے دبایا کہ مجھے ڈر لگنے لگا. جب اس نے مجھے تھوڑی مہلت دی تو میں نے اس کو ڈھکیل دیں اور پھر قتل کر دیا، بعد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو ان کے ساتھ میں بھی پسپا ہوگیا. جب مجھے عمر ابن خطاب ملے تو میں نے ان سے کہا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ انہوں نے کہا یہ تو حکم خدا ہے.(۱)

قسم خدا کی مجھے عمر ابن خطاب پر بہت تعجب ہوتا ہے کیونکہ وہ اہل ست کے نزدیک تمام اصحاب میں سب سے بڑے دلیر و شجاع شمار ہوتے ہیں " جبکہ وہ تمام صحابہ سے زیادہ دلیر و شجاع نہیں تھے" اہلسنت روایت کرتے ہیں کہ اللہ نے عمر کے ذریعہ اسلام کو عزت دی ہے، جب وہ اسلام لائے تو مسلمانوں نے لوگوں کو کھلم کھلا اسلام کی دعوت دی ہے جب کہ حقیقی اور واقعی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ عمرجنگ احد میں پیٹھ پھیر کر بھاگ کئے تھے، اسی طرح خیبر میں بھی پشت دکھا کر فرار کر گئے تھے اگر چہ رسول(ص) نے انہیں لشکر دے کر قلعہ خیبر فتح کرنے کے لئے بھیجا تھا، لیکن نا کام واپس آگئے، لشکر انہیں (عمر کو) اور یہ لشکر کو بزدل کہتے تھے.(۲)

اور حنین میں بھی تمام فراریوں کے قدم بقدم بھاگ گئے شاید سب سے پہلے یہی بھاگے تھے، دوسرے لوگوں نے ان کا اتباع کیا تھا. کیونکہ ( اہلسنت کے بقول) یہی شجاع تھے، جب بہادر و شجاع ہی بھاگ کھڑا ہوگا تو پھر کون ٹھہرے گا

____________________

۱. بخاری جلد/۵ ص۱۰۱ کتاب المغازی فی باب قول اللہ تعالی" اذ اعجبتکم کثرتکم...."

۲.مستدرک حاکم جلد/۳ ص۳۷ ذہبی نے اپنی تلخیص میں تحریر کیا ہے.

۲۳۰

اور شاید اسی لئے ہم ابو قتادہ کو پسپا ہونے والوں میں عمر ابن خطاب سے مخاطب پاتے ہیں، اور قتادہ ان سے تعجب سے پوچھتے ہیں لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ عمر ابن خطاب نے میدان جنگ سے بھاگنے اور رسول اللہ(ص) کو دشمنوں کے درمیان چھوڑنے ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ ابو قتادہ کو یہ فریب بھی دیا کہ یہ تو حکم خدا ہے کیا عمر ابن خطاب کو جنگ سے فرار کرنے کا حکم خدا نے دیا تھا.

یا خدا نے انہیں میدان جنگ میں ثابت قدمی اور صبر و استقامت سے جمے رہنے کا حکم دیا تھا؟ خدا نے انہیں اور ان کے اصحاب کو یہ حکم دیا تھا:

( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمُ‏ الَّذِينَ‏ كَفَرُوا زَحْفاً فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ ) انفال، آیت۱۴

اے ایمان لانے والو جب میدان جنگ میں کافروں سے مقابلہ ہو تو انہیں پیٹھ نہ دکھانا.

جیسا کہ خداوند عالم نے ان سے اور ان کے اصحاب سے جنگ سے نہ بھاگنے کا عہد لیا تھا، چنانچہ ارشاد ہے:

( وَ لَقَدْ كانُوا عاهَدُوا اللَّهَ‏ مِنْ‏ قَبْلُ‏ لا يُوَلُّونَ الْأَدْبارَ وَ كانَ عَهْدُ اللَّهِ مَسْؤُلًا. ) احزاب، آیت/۱۵

اور ان لوگوں نے اللہ سے یقینی عہد کیا تھا کہ ہرگز پیٹھ نہیں پھرائیں گے اور اللہ کے عہد کے بارے میں بہر حال سوال کیا جائے گا.

پس ابو حفصہ(عمر) کیسے میدان جنگ سے پشت پھرا کر بھاگ رہے ہیں اور طرہ یہ کہ اسے یہ خدا کا حکم کہہ رہے ہیں؟؟ وہ واضح آیات کہاں ہیں یا ان کے قلوب پر قفل لگے ہوئے ہیں؟

۲۳۱

فی الحال ہم عمر ابن خطاب کی شخصیت سے بحث نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس کے لئے ہم عنقریب مخصوص باب قائم کریں گے. لیکن بخاری کی یہ حدیث اس سے زیادہ تبصرہ چاہتی ہے جب کہ طائرانہ نظر اس کی اجازت نہیں دیتی ہے. اس وقت اہم چیز خود بخاری کی یہ گواہی ہے کہ صحابہ اپنی کثیر تعداد کے باوجود جنگ حنین سے فرار کر گئے تھے اور جو شخص ان جنگوں کے سلسلہ میں تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرے گا اس پر عجائبات کی دنیا آشکار ہو جائے گا.اور جب اکثر صحابہ خدا کے حکم کی اطاعت نہیں کرتے تھے جیسا کہ گذشتہ بخث میں ہم دیکھ چکے ہیں، تو ان کا حیات رسول(ص) میں حکم رسول(ص) سے اعراض کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن آپ(ص) کی وفات کے بعد آپ(ص) کے احکام میں رد و بدل اور ان سے چشم پوشی کی، اس سلسلہ میں یہاں چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں.

صحابہ اور رسول(ص) کی اطاعت!

ہم نبی(ص) کے ان اوامر سے ابتدا کر رہے ہیں جو آپ(ص) نے اپنی حیات میں صحابہ کو دئے اور صحابہ نے ان سے تمرد و سرکشی کی.ہم اختصار کے پیش نظر اور دیگر صحاح اہلسنت سے چشم پوشی کرتے ہوئے صرف بخاری کی روایتوں پر اکتفا کرتے ہیں اگر چہ ان(صحاح) میں بہت زیادہ اور واضح عبارتیں موجود ہیں.

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۳ کی " کتاب الشروط فی الجہاد والمصالحہ مع اہل الحرب" میں صلح حدیبیہ کے قصہ اور رسول(ص) سے عمر ابن خطاب کی بے ادبانہ

۲۳۲

گفتگو کے بعد اور صلح پر رسول(ص) کی موافقت، اس سلسلہ میں عمر کا شک یہاں تک کہ عمر نے کہدیا کہ کیا آپ(ص) خدا کے بر حق نبی(ص) نہیں ہیں؟ تحریر کیا ہے کہ: جب نبی(ص) صلح نامہ سے فراغت حاصل کرچکے تو اصحاب سے فرمایا کہ اٹھو! اپنی اپنی قربانی کرو اور سرمنڈوائو، بخاری لکھتے ہیں کہ صحابہ میں سے کوئی نہ اٹھا یہاں تک کہ نبی(ص) نے تین مرتبہ اسی جملہ کی تکرار کی اس کے باوجود کوئی نہ اٹھا. تو آپ(ص) ام سلمہ کے پاس تشریف لائے اور لوگوں کی حالت بتائی.(۱) قارئین محترم کیا آپ کو نبی(ص) کے حکم سے صحابہ کی سرکشی پر تعجب نہیں ہے حالانکہ نبی(ص) نے تین مرتبہ حکم دیا لیکن کسی نے بھی تعمیل نہ کی؟؟ میں یہاں اس گفتگو کو بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں جو میری کتاب " ثم اہتدیت" کے چھپ جانے کے بعد میرے اور تیونس کے بعض علماء کے درمیان ہوئی تھی. کیونکہ انہوں ن ے صلح حدیبیہ کے سلسلہ میں میرا حاشیہ پڑھا تھا. انہوں نے اپنے لحاظ سے اس فقرے پر " کہ صحابہ نے رسول(ص) کے حکم سے سرتابی کی تھی" اس طرح حاشیہ لگایا کہ صحابہ میں علی(ع) ابن ابی طالب بھی شامل ہیں انہوں نے بھی حکم رسول(ص) کی اطاعت نہیں کی، میں نے ان کے شایان شان جواب دیا:اولا - یہ کہ علی(ع) ابن ابی طالب صحابہ میں شمار نہیں ہوتے تھے، کیونکہ وہ رسول(ص) کے ابن عم آپ(ص) کی بیٹی کے شوہر اور آپ(ص) کے فزندوں کے والد تھے اور پھر علی(ع) رسول(ص) کے ہمراہ ایک طرف اور دیگر صحابہ ایک طرف تھے. پس جب راوی صحیح بخاری میں یہ کہتا ہے کہ نبی(ص) نے صحابہ کو قربانی اور تقصیر کا حکم دیا تو اس نے صحابہ کے ضمن میں

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۳ ص۱۸۳

۲۳۳

علی(ع) کو شمار نہیں کیا. کیونکہ وہ تو رسول(ص) کے لئے ہی تھے جیسے موسی کے لئے ہارون تھے. کیا تم نہیں دیکھتے کہ رسول(ص) پر صلواة اس وقت تک کامل نہیں ہوتی جب تک اس میں آل کوشامل نہ کیا جائے. اور بلا اختلاف علی(ع) آل محمد(ص) کے سردار ہیں. پس ابوبکر و عمر اور عثمان و دیگر صحابہ پر صلوات بھیجنا صحیح نہیں ہے. مگر یہ کہ اس صلوات میں علی(ع) ابن ابی طالب اور محمد(ص) ابن عبداللہ کا ذکر بھی ہو.

ثانیا - رسول(ص) ہمیشہ اپنے بھائی علی(ع) کو اپنے ہدیہ میں شریک رکھتے تھے جیسا کہ حجة الوداع اس کا منہ بولتا ثبوت ہے. جب حضرت علی علیہ السلام یمن سے حج کے لئے تشریف لائے تو رسول(ص) نے دریافت کیا اے علی(ع) تم نے کس نیت سے احرام باندھا. عرض کی جو رسول(ص) کی نیت ہے پس نبی(ص) نے انہیں اپنے ہدیہ میں شریک فرمایا، اس واقعہ کو تمام محدثین و مورخین نے تحریر کیا ہے. پس صلح حدیبیہ کے دن بھی علی(ع) آنحضرت(ص) کے شریک ہوں گے.

ثالثا حدیبیہ میں صلح نامہ رسول(ص) کے املاء سے علی(ع) ہی نے تحریر فرمایا تھا. اور آپ نے اپنی پوری حیات میں اس سلسلہ میں کوئی اعتراض نہیں کیا نہ حدیبیہ سے متعلق اور نہ ہی دوسری شئی کے بارے میں. اور نہ ہی تاریخ نے یہ بتایا ہے کہ علی(ع) نے رسول(ص) کے حکم کی تعمیل میں کوئی تاخیر کی ہو یا کبھی کسی حکم سے رو گردانی کی ہو. ہرگز نہیں. اور ایک مرتبہ بھی کسی میدان سے اپنے بھائی کو نرغہ اعداء میں چھوڑ کر فرار نہیں کیا. بلکہ ہمیشہ خود کو آپ(ص) پر قربان کرتے تھے. مختصر یہ کہ علی(ع) نفس رسول(ص) تھے، اسی لئے تو نبی(ص) فرماتے ہیں. میرے اور علی(ع) کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے مسجد میں مجنب ہونا جائز نہیں ہے.(۱)

____________________

۱.صحیح ترمذی جلد/۵ ص۳۰۴، تاریخ الخلفاء ص۱۷۲، صواعق محرقہ ابن حجر ص۱۲۱

۲۳۴

میں نے اپنے دوستوں میں سے اکثر افراد کو اس بات پر قانع کیا اور انہوں نے اعتراف کیا کہ علی(ع) نے اپنی پوری حیات میں کبھی حکم رسول(ص) کی مخالفت نہیں کی.

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۸ کی کتاب" الاعتصام بالکتاب والسنة" " کراهیة الخلافة.." والے باب میں عبداللہ ابن عباس سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ:

آپ(ص) کے احتضار کے وقت لوگوں سے گھر بھرا ہوا تھا ان میں عمر ابن خطاب بھی تھے رسول(ص) نے فرمایا کہ:

لائو تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھ دوں کہ جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے. عمر نے کہا: بیشک نبی(ص) پر درد کی شدت ہے اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے.( جب ہمارے پاس قرآن ہے تو) ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے. اس بات سے لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگیا، اور شور و غل بڑھ گیا، بعض نے کہا نبی(ص) سے وہ نوشتہ لکھوا لو کہ جس سے تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو. بعض نے عمر کا ہی قول دہرایا. جب نبی(ص) کے پاس شور و غل زیادہ ہوگیا تو آپ(ص) نے فرمایا: تم لوگ میرے پاس سے چلے جائو.

ابن عباس کہتے ہیں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ نبی(ص) کو وہ نوشتہ نہ لکھنے دیا.(۱)

نبی(ص) کا یہ دوسرا حکم ہے جس سے صحابہ نے آپ(ص) کے سامنے ہی انکار

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۸ ص۱۶۱ و جلد/۱ ص۳۷ و جلد/۵ ص۱۳۸

۲۳۵

کردیا اور اس طرح نبی(ص) کی اہانت کی.

یہ بات مد نظر رہے کہ عمر ابن خطاب نے نبی(ص) کے دوات و قلم طلب کرنے پر جسارت کے ساتھ لوگوں کو قلم و دوات دینے سے منع کر دیا اور کہہ دیا. معاذ اللہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں.

لیکن بخاری نے اس عبارت کو بہت ہی اچھے طریقہ سے بدل دیا اور لفظ ہذیان کو" غلب الوجع" سے بدل دیا کیونکہ اس جملہ کے قائل عمر ابن خطاب ہیں. آپ دیکھتے ہیں کہ بخاری جہاں روایت سے عمر کے نام کو جذف کرتے ہیں تو وہاں " جمع کا صیغہ " فقالوا! ہجر رسول اللہ یعنی لوگوں نے کہا رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں. نقل حدیث میں یہ ہے بخاری کی امانتداری ( اس سلسلہ میں ہم عنقریب ایک مخصوص باب تحریر کریں گے)

بہر حال یہ تو اکثر محدثین و مورخین نے لکھا ہے کہ عمر ابن خطاب نے نبی(ص) کے سامنے کہا: رسول(ص) (معاذ اللہ) ہذیان بک رہے ہیں اور بیشتر صحابہ نے عمر کا اتباع کیا اور ان لوگوں نے نبی(ص) کے سامنے وہی بات کہی تھی.ہم تصور کریں کہ رسول(ص) کی بزم میں جو اختلاف، شور و ہنگامہ اور یہ گستاخیاں ہوئیں ہیں اگر چہ تاریخ کی کتابوں نے انہیں ذکر کیا ہے مگر جو کچھ وہاں پیش آیا تھا اس کی مختصر سی جھلک ہے.(کیونکہ صحیح حالات کا اندازہ مشاہدہ ہی سے ہوتا ہے) مثلا ہم نے کتابوں میں جناب موسی کے واقعات پڑھے ہیں لیکن اگر اس کو فلم کی صورت میں ہمیں دکھایا جائے تو اس کی بات ہی دوسری ہوتی ہے. (شنیدہ کے بود مانند دیدہ)

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۷ کی کتاب الادب کے باب " ما یجوز ( من الغضب والشدة لامر اللہ عز وجل) میں روایت کی ہے کہ

۲۳۶

رسول(ص) نے ایک چٹائی بنائی اور جب رسول(ص) نماز کی غرض سے اس پرکھڑے ہوئے تو بہت سے لوگوں نے آپ(ص) کا اتباع کیا اور آپ کے ہمراہ نماز ادا کی رات میں وہ لوگ پھر جمع ہوئے لیکن رسول(ص) ان سے کبیدہ خاطر ہوچکے تھے اس لئے ان کے پاس نہیں گئے لیکن ان لوگوں نے شور مچانا اور دروازہ پیٹنا شروع کر دیا. تو آپ(ص) غیظ کے عالم میں نکلے اور فرمایا: تم اپنی بدعت پر ابھی تک باقی ہو. ایسا لگتا ہے کہ جیسے عنقریب تم اس نماز کو واجب سمجھنے لگو گے...........واجب نمازوں کے علاوہ نماز کے لئے سب سے بہترین جگہ گھر ہے.افسوس کہ عمر ابن خطاب نے رسول(ص) کے حکم کی مخالفت کی اور اپنی خلافت کے زمانہ میں لوگوں کو نماز نافلہ پر جمع کر لیا اور کہا کہ یہ بدعت ہے اور کتنی اچھی بدعت ہے.(۲)

اور اس بدعت میں ان صحابہ نے عمر کا اتباع کیا جو ان کی رائے کو صحیح سمجھتے اور ان کے ہر قول و فعل کی تائید کرتے تھے لیکن علی(ع) ابن ابی طالب اور اہل بیت(ع) کہ جو صرف اپنے سردار رسول(ص) کے حکم کی تعمیل کرتے تھے اور کسی چیز سے اس کا سودا نہیں کرتے تھے انہوں نے عمر کی مخالفت کی اور جب ہر بدعت، ضلالت اور جہنم کا باعث ہے تو تم اس بدعت کے بارے میں کیا کہتے ہو جو رسول(ص) کے حکم کی مخالفت کے سبب وجود میں آئی ہے.بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۵ کی کتاب المغازی کے " غزوة زید بن حارث" والے باب میں ابن عمر سے روایت کی ہے کہ ابن عمر نے کہا

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۷ ص۹۹ و جلد/۲ ص۲۵۲ و جلد/۴ ص۱۶۸

۲.صحیح بخاری جلد/۲ ص۲۵۲ کتاب صلاة التراویح

۲۳۷

رسول(ص) نے اسامہ کو ایک گروہ کا امیر بنایا تو ان لوگوں نے اس کی امارت کی مخالفت کی تو رسول(ص) نے فرمایا: اگر تم اس کی امارت سے خوش نہیں ہو تو اس کے والدین کی امارت سے بھی خوش نہیں تھے اور خدا کی قسم وہ امارت کے مستحق اور مجھے سب سے زیادہ عزیز تھے اور اس کے بعد مجھے یہ عزیز ہے.(۱)

اس واقعہ کو مورخین نے تفصیل سے لکھا ہے کہ انہوں نے رسول(ص) کو اس قدر غضبناک کیا تھا کہ آپ(ص) نے لشکر اسامہ کی مخالفت کرنے والوں پر لعنت کی. یہ وہ کمسن قائد و رہبر ہے جس کی عمر سترہ(۱۷) سال ہے اور رسول(ص) نے اس لشکر کا امیر بنایا ہے کہ جس میں ابوبکر و عمر، طلحہ و زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور قریش کی بہت سی بزرگ ہستیاں موجود ہیں لیکن اس لشکر میں علی ابن ابی طالب(ع) کو شامل نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے شیعوں میں سے کسی کو اس میں شریک ہونے کا رسول(ص) نے حکم دیا تھا.لیکن بخاری ہمیشہ صحابہ اسلف کی صرف بچانے کے لئے واقعات کو مختصر اور احادیث کو کتر وبیونت کے ساتھ نقل کرتے ہیں اس کے باوجود ان کی نقل کردہ احادیث میں اتنا کچھ موجود ہے. جو ایک حق کے طلبگار کے لئے کافی ہے.بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۲ کی کتاب الصوم کے باب التنکیل لمن اکثر الوصال" میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ:

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۵ ص۸۴

۲۳۸

رسول(ص) نے روزہ کی حالت میں ہمبستری کرنے سے روکا تو ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ(ص) آپ تو وصال کرتے ہیں آپ(ص) نے فرمایا کہ: تم میں میرے مثل کون ہے؟ مجھے میرے رب نے شکم سیر اور سیراب کیا ہے. جب انہوں نے وصال سے باز رہنے سے انکار کر دیا اور آئے دن توصال ہوتا رہا یہاں تک کہ رویت ہلال ہوگئی.اگر وہ ایسا ہی کرتے رہتے تو میں ان پر نفرین کرتا

کیا کہنا ان صحابہ کا کہ رسول(ص) جنہیں کسی چیز سے روکتے تھے لیکن وہ اس سے باز نہیں رہتے تھے آپ انہیں بار بار روکتے مگر وہ تھے کہ سنتے ہی نہ تھے کیا انہوں نے خدا کا یہ قول نہیں پڑھا تھا:

( ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ‏ وَ ما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ‏ .) حشر، آیت/۷

جو تم کو رسول(ص) دے دیں وہ لے لیا کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز آئو اور خدا سے ڈرتے رہو بیشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے.

باوجودیکہ اللہ تعالی نے اپنے رسول(ص) کی مخالفت پر شدید عذاب کی دھمکی دی ہے پھر بھی بعض صحابہ خدا کے وعدہ عذاب اور اس کی تہدید کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے تھے.

جب وہ اس صفت کے حامل تھے تو ان کے نفاق میں کیا شک ہے اگر چہ وہ ظاہر بظاہر بکثرت نماز پڑھتے اور روزے رکھتے تھے اور دین کے امور میں اتنے شدت پسند تھے کہ اپنی عورتوں سے نکاح تک کو حرام سمجھتے تھے کہ کہیں وہ ان عورتوں کے ساتھ جماع نہ کرے.

۲۳۹

وہ اس فعل سے پرہیز کرتے تھے جس کو خود رسول(ص) انجام دیتے تھے جیسا کہ گذشتہ بحث میں بیان ہوچکا ہے.

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/۵ کی کتاب المغازی کے باب " بعث النبی خالد بن ولید الی بنی جذیمہ" میں زہری سے اور انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

رسول(ص) نے خالد بن ولید کو بنی جذیمہ کے پاس بھیجا تا کہ انہیں اسلام کی دعوت دیں لیکن انہوں نے اسلمنا ( ہم اسلام لائے) کہنا پسند نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ ہم نے بت پرستی چھوڑ دی ہے. پس خالد نے ان میں سے بعض کو قتل کر دیا اور بعض کو قیدی بنا لیا اور ہم لوگوں میں سے ہر ایک کے سپرد ایک ایک قیدی کر دیا. یہاں تک کہ خالد نے ایک روز ان قیدیوں کے قتل کا حکم بھی دے دیا. تو میں نے کہا قسم خدا کی میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ ہی میرے دوسرے ساتھیوں نے اپنے قیدیوں کو قتل کیا یہاں تک کہ ہم رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بیان کیا تو رسول(ص) نے اپنے ہاتھوں کو بلند کر کے دو مرتبہ فرمایا: پروردگار میں خالد کے اس ظلم سے بری ہوں. ( صحیح بخاری جلد/۵ ص۱۰۷ و جلد/۸ ص۱۱۸)

مورخین نے اس واقعہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور اس کی علت بھی لکھی ہے کہ خالد بن ولید اور اس کی اطاعت کرنے والے صحابہ اس جرم کے کیوں مرتکب ہوئے. اور اس سلسلہ میں" کہ مسلمان کو قتل کرنا حرام ہے" رسول(ص) کے حکم کی تعمیل نہیں کی وہ قتل سب سے بڑا جرم ہے جس میں نیک افراد کا خون

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

سوالات

۱_ جس وقت رسول خد ا(ص) نے روميوں سے جنگ كيلئے سپاہ روانہ كرنے كا اقدام كيا تو آنحضرت (ص) كوكيا مشكلات اور دشوارياں پيش آئيں؟

۲_ جب رسول خد ا(ص) نے مسلمانوں كو روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كى دعوت دى تو ان كى طرف سے كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۳_ رسول خد ا(ص) جب غزوہ تبوك پر تشريف لے جارہے تھے تو آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں كسے اپنا جانشين مقرر رفرمايا اور اس شخص كے انتخاب كئے جانے كا كيا سبب تھا؟

۴_ اگر چہ غزوہ تبوك كے موقع پر جنگ تو نہيں ہوئي مگراسلام دشمنوں نے اس سے كچھ سبق ضرور حاصل كئے ان كے بارے ميں لكھئے وہ كيا تھے؟

۵_ غزوہ تبوك كا مسلمانوں كے دل ودماغ پر كيا اثر ہوا ؟

۶_ عزوہ تبوك كے موقع پر منافقين نے جو ريشہ دوانياں كيں اس كے دو نمونے پيش كيجئے_

۷_ غزوہ تبوك كو ''فاضحہ'' كس وجہ سے كہا گيا ؟ وضاحت كيجئے_

۸_ سورہ توبہ كى ابتدائي آيات ہجرت كے كس سال رسول خدا (ص) پر نازل ہوئيں اور آنحضرت (ص) نے كس شخص كے ذريعے انہيں مشركين تك پہنچايا ؟

۹_ سورہ توبہ كے علاوہ بھى كيا رسول خد ا(ص) كى طرف سے كوئي پيغام مشركين كو بھيجا گيا تھا ؟ وہ كيا پيغام تھا اس كے بارے ميں لكھئے_

۱۰_ كيا سورہ توبہ كى ابتدائي آيات اور اس كا مفہوم جو حضرت على (ع) كى جانب سے مشركين كو بھيجا گيا تھا ، ان پر كسى عقيدے كو مسلط كرنے اور ان كى آزادى سلب كرنے كے مترادف ہے يا نہيں ؟، اس كى وضاحب كيجئے_

۲۸۱

حوالہ جات

۱_يہ جگہ ''وادى القري'' اور شام كے درميان واقع ہے مدينہ سے اس جگہ تك بارہ منزل كا فاصلہ ہے ، معجم البلدان ج ۲ ص ۱۴_ ۱۵ ، مسعودى نے اپنى كتاب التنبيہ والاشراف ميں ص ۲۳۵ پر لكھا ہے كہ مذكورہ بارہ منزلوں كا فاصلہ نوے فرسخ ہے (تقريباً ۵۴۰ كلوميٹر)_

۲_يہ جگہ شام اور وادى القرى كے درميان دمشق كے علاقے ميں واقع ہے ، معجم البلدان ج ۱ ص ۴۸۹_

۳_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۹۰_

۴_علامہ ''مفيد'' مرحوم نے اپنى كتاب ''الارشاد'' ميں ص ۸۲ پر لكھتے ہيں كہ ''رسول خدا (ص) '' كو وحى كے ذريعے علم ہوگيا تھا كہ اس سفر ميں جنگ نہيں ہوگى ''اورتلوار چلائے بغير ہى كام آنحضرت (ص) كى مرضى كے مطابق انجام پذير ہوں گے ، سپاہ كو تبوك كى جانب روانہ كئے جانے كا حكم محض مسلمانو ں كى آزمائشے كى خاطر ديا گيا تھا تاكہ مومن ومنافق كى تشخيص ہوسكے، موصوف اپنى كتاب ميں دو صفحات كے بعد لكھتے ہيں كہ اگر اس سفر ميں جنگ واقع ہوتى او ر رسول خد ا(ص) كو مدد كى ضرورت پيش آتى تو خداوند تعالى كى طرف سے يہ حكم نازل نہ ہوتا كہ آپ (ص) حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر فرمائيںبلكہ انہيں مدينہ ٹھہرانے كى آپ(ص) كو اجازت ہى نہيں ملتي_

۵_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۹۰_

۶_ايضا ص ۱۰۰۲_

۷_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۱۰_

۸_سورہ توبہ كى ۴۲ سے ۱۱۰ تك كى آيات اسى سلسلے ميں نازل ہوئي ہيں_

۹_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيت ۹۲_

۱۰_ ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت ۸۱_

۱۱_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت ۷۹_

۱۲_ملاحظہ ہو : تفسير برہان ج ۲ ص ۱۴۸_

۱۳_سورہ توبہ آيت ۴۹و ۹۰_

۲۸۲

۱۴_ايضا آيت ۱۱۸_

۱۵_الارشاد ، مفيد ص ۸۲_

۱۶_ايضا ص ۸۳_

۱۷_التنبيہ والاشراف ص ۲۳۵_

۱۸_المغازى ج ۳ ص ۱۰۱۵_

۱۹_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۱۰۳۱ وسيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۹_

۲۰_يہ قلعہ شام كے نواح ميں تھا جس كا فاصلہ دمشق سے پانچ رات (تقريبا ۱۹۰ كلوميٹر) اور مدينہ تك اس كا سفر تقريباً پندرہ يا سولہ رات (تقريباً ۵۷۰ كلوميٹر) كا تھا_ الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۶۲ و وفاء الوفاء ج ۲ ص ۱۲۱۳_

۲۱_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۱۰۲۵ والسيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۹

۲۲_محمد بن سعد نے''الطبقات الكبري''كى جلد اول كے صفحات ۳۵ _۲۹۱ميں لكھا ہے كہ تہتر(۷۳) وفد رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے چنانچہ ہر وفد كى اس نے عليحدہ خصوصيات بھى بيان كى ہيں_

۲۳_ملاحظہ ہو: الكامل فى التاريخ ج ۳ ص ۲۸۶_

۲۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۲۰۵_

۲۵_ملاحظ ہو : الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۶۷ والمغازى ج ۳ ص ۱۰۵۷_

۲۶_ السيرة النبويہ ابن كثير ج ۴ ص ۴۱_۴۲_

۲۷_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۲۹_

۲۸_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۰_

۲۹_ملاحظہ ہو :المغازى ج ۳ ص ۹۹۵_

۳۰_ ملاحظہ ہو: تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۰۳_ ۱۰۴ و السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۳۲_

۲۱_بعض كتب ميں ان كى تعداد چودہ اور پندرہ بھى بتائي گئي ہے (السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۴۲_

۳۲_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۴۲ والمغازى ج ۳ ص ۱۰۴۲_ ۱۰۴۵_

۲۸۳

۳۳_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيات ۱۰۷ سے ۱۱۰ تك ، خداوند تعالى نے اس مسجد كو مسجد ضرار كے عنوان سے ياد كيا ہے اور اس مركز كے قائم كئے جانے كا سبب مسلمانوں كو زك پہنچانا ' كفر كى بنيادوں كو محكم كرنا اور ' مسلمانوں كى صفوں ميں تفرقہ ڈالنا بيان كيا ہے اور اسے دشمنان رسول خد ا(ص) كے مركز سے تعبير كياہے_

۳۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۷۳ وبحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۵۲ _ ۲۵۵_

۳۵_سورہ توبہ كى آيات ۴۲ سے ۱۱۰ تك ان منافقين كى خيانت كاريوں اور سازشوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہے جو جنگ تبوك كے دوران اپنى سازشوں ميں سرگرم عمل تھے ، مذكورہ آيات ميں خداوند تعالى كى طرف سے ان كى ذہنى كيفيات و خصوصيات بيان كى گئي ہيں_

۳۶_رسول خد ا(ص) ماہ رمضان ميں مدينہ واپس تشريف لائے ، عبداللہ بن ابى ماہ شوال ميں بيمار ہوا اور ماہ ذى القعدہ ميں مرگيا ، ملاحظہ ہو: المغازى ج ۳ ص ۱۰۵۶_ ۱۰۵۷_

۳۷_لَايُؤَديّ عَنكَ الَّا اَنتَ اَو رَجُلٌ منكَ _

۳۸_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ' ابن ہشام ج ۴ ص ۱۹۰ _ ۹۱ ۱' بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۶۵ _۲۷۵_

۲۸۴

سبق ۱۶:

حجة الوداع ، جانشين كا تعين اور رحلت پيغمبر(ص) اكرم

۲۸۵

حجة الوداع

اسلام كے ہاتھوں تبوك ميں سلطنت روم كى سياسى شكست، جزيرہ نمائے عرب ميں شرك و بت پرستى كى بيخ كنى(۱) اورمشركين كے نہ صرف مناسك حج ميں شركت كرنے بلكہ مكہ ميں داخل ہونے پر مكمل پابندى كے بعد جب زمانہ حج نزديك آيا تو رسول خد ا(ص) كو مامور كيا گيا كہ آنحضرت (ص) بذات خود ہجرت كے دسويں سال ميں مناسك حج ادا كريں تاكہ اسلام كى طاقت كو اور زيادہ نماياں كرنے كے ساتھ عہد جاہليت كے آداب و رسوم كو ترك كرنے اورسنت ابراہيمى كے اصول كے تحت حج كى بجا آورى بالخصوص مستقبل ميں مسئلہ قيادت اسلام كے بارے ميں براہ راست مسلمانوں كو ہدايت فرمائيں تاكہ سب پر حجت تمام ہوجائے_(۲)

رسول خد ا(ص) كو وحى كے ذريعے اس كام پر مامور كيا گيا كہ آنحضرت(ص) تمام مسلمانوں كو حج بيت اللہ پر چلنے كےلئے آمادہ كريں اور انہيں اس عظیم اسلامى اجتماع ميں شركت كرنے كى دعوت ديں چنانچہ اس بارے ميں خداوند تعالى اپنے نبى (ص) سے خطاب كرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے كہ :

( وَأَذّن فى النَّاس بالحَجّ يَأتُوكَ رجَالًا وَعَلَى كُلّ ضَامر: يَأتينَ من كُلّ فَجّ: عَميق )

''اور لوگوں كو حج كيلئے دعوت عام دو كہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پيدل اور

۲۸۶

سوار ى پر آئيں تاكہ وہ فائدے ديكھيں جو يہاں ان كيلئے ركھے گئے ہيں''(۳) _

جس وقت يہ اعلان كياگيا اگر چہ اس وقت مدينہ اور اس كے اطراف ميں چيچك كى وبا پھيلى ہوئي تھى اور بہت سے مسلمان اس مرض كى وجہ سے اركان حج ادا كرنے كيلئے شركت نہيں كرسكتے تھے(۴) مگر جيسے ہى انہوں نے رسول خد ا(ص) كا يہ پيغام سنا مسلمان دور و نزديك سے كثير تعداد ميں مدينہ كى جانب روانہ ہوگئے تاكہ رسول خدا (ص) كے ساتھ مناسك حج ادا كرنے كا فخر حاصل كرسكيں ، مورخین نے ان كى تعداد چاليس ہزار سے ايك لاكھ چوبيس ہزار تك اور بعض نے اس سے بھى زيادہ لكھى ہے_(۵)

رسول خدا (ص) نے حضرت ابودجانہ كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر فرمايا اور ہفتہ كے دن بتاريخ پچيس ذى القعدہ(۶) مكہ كى جانب روانہ ہوئے اس سفر ميں مسلمانون كا ذوق وشوق اس قدر زيادہ تھا كہ ان ميں سے كثير تعداد نے مدينہ و مكہ كے درميان كا فاصلہ پيدل چل كر طے كيا _(۷)

يہ قافلہ دس روز بعد منگل كے دن(۸) بتاريخ چہارم ذى الحجہ(۹) مكہ ميں داخل ہوا_(۹) جہاں اس نے عمرہ كے اركان ادا كئے _

آٹھ ذى الحجہ تك مسلمانوں كى دوسرى جماعت بھى مكہ پہنچ گئي جس ميں حضرت على (ع) اور آپ (ع) كے وہ ساتھى بھى شامل تھے جو اس وقت آپ (ع) يمن كے دورے پر تشريف لے گئے تھے_(۱۰)

رسول خدا (ص) نے اس عظیم اسلامى اجتماع ميں سنت ابراہيمى كے مطابق مناسك حج ادا كرنے كى تعليم دينے كے ساتھ يہ بھى ہدايت فرمائي كہ كس طرح صحيح طور پر اركان حج پر عمل پيرا ہوں ، آنحضرت (ص) نے ''مكہ''، ''منى '' اور ميدان ''عرفات '' ميں مختلف مواقع پر خطاب

۲۸۷

فرما كر آخرى مرتبہ مسلمانوں كو پند ونصائح اور ارشادات عاليہ سے نوازا(۱۱) ان تقارير ميں آپ(ص) نے انہيں يہ نصيحت فرمائي كہ لوگوں كے جان ومال كى حفاظت كريں ، قتل نفس كى حرمت كا خيال ركھيں ، سود كى رقم كھانے ، دوسروں كا مال غصب كرنے سے بچیں ، دورجاہليت ميں جو خون بہايا گيا تھا اس سے چشم پوشى كو ہى بہتر سمجھيں ، كتاب اللہ پر سختى سے عمل پيرا ہوں ، ايك دوسرے كے ساتھ برادرانہ سلوك كريں، نيز استقامت و پائيدارى كے ساتھ احكام الہى و قوانين دين مقدس اسلام پر كاربند رہيں ، اس ضمن ميں آنحضرت(ص) نے مزيد ارشاد فرمايا كہ : حاضرين ان لوگوں كو جو يہاں موجود نہيں ہيں يہ پيغام ديں كہ ميرے بعد كوئي نبى و پيغمبر نہيں ہوگا اور تمہارے بعد كوئي امت نہ ہوگي(۱۲) آنحضرت(ص) نے يہ بات تاكيدسے كہى كہ : اے لوگو ميرى بات كو اچھى طرح سے سنو اور اس پر خوب غورو فكر كرو كيونكہ يہ ممكن ہے كہ اس كے بعد يہ موقع نہ ملے كہ ميرى تم سے ملاقات ہوسكے(۱۳) چنانچہ ان الفاظ كے ذريعے آنحضرت (ص) لوگوں كو مطلع كر رہے تھے كہ وقت رحلت نزديك آگيا ہے اور شايد اسى وجہ سے اس حج كو ''حجة الوداع'' كے عنوان سے ياد كيا جاتاہے_

جانشين كا تعين

مناسك حج مكمل ہوگئے اور رسول خدا(ص) واپس مدينہ تشريف لے آرہے تھے ليكن جو فرض آنحضرت (ص) پر واجب تھا وہ ابھى پورا نہيں ہوا تھا، مسلمانوں نے يہ سمجھ كر كہ كام انجام پذير ہوچكا ہے اورہر شخص نے اس سفر سے معنوى فيض كسب كرليا ہے اب ان كے دلوں ميں يہى تمنا تھى كہ جس قدر جلد ہوسكے تپتے ہوئے بے آب وگيا صحرا اورويراں ريگزاروں كو پار كركے واپس اپنے وطن پہنچ جائيں ليكن رسول خد ا(ص) نے چونكہ اپنى عمر عزيز كے تئيس سال ،

۲۸۸

اول سے آخر تك رنج وتكاليف ميں گزار كر آسمانى دين يعنى دين اسلام كى اشاعت و ترويج كے ذريعے انسانوں كو پستى و گمراہى اور جہالت و نادانى كى دلدل سے نكالنے ميں صرف كئے تھے اور آپ (ص) اپنے اس مقصد ميں كامياب بھى ہوئے كہ پراكندہ انسانوں كو ايك پرچم كے نيچے جمع كرليں اورانہيں امت واحد كى شكل ميں لے آئيں انہيںاب دوسرا خيال درپيش تھا ،اب آنحضرت (ص) كے سامنے اسلام كے مستقبل اور قيادت كا مسئلہ تھا بالخصوص اس صورت ميں جبكہ آپ (ص) كے روبرو يہ حقيقت بھى تھى كہ اس پر افتخار زندگى كے صرف چند روز ہى باقى رہ گئے ہيں_

رسول خدا (ص) ہر شخص سے زيادہ اپنے معاشرے كى سياسى ، معاشرتي، اجتماعى اور ثقافتى وضع و كيفيت سے واقف تھے ، آنحضرت(ص) كو اس بات كا بخوبى علم تھا كہ آسمانى تعليمات ، آپ (ص) كى دانشورانہ قيادت و رہبرى اور حضرت على (ع) جيسے اصحاب كى قربانى كے باعث قبائل كے سردار و اشراف قريش اسلام كے زير پرچم جمع ہوگئے ہيں ليكن ابھى تك بعض كے دل و دماغ مكمل طور پر تسليم حق نہیں ہوئے اور وہ ہر وقت اس فكر ميں رہتے ہيں كہ كوئي موقع ملے اور وہ اندر سے اس دين پر ايسى كارى ضرب لگائيں كہ بيروى طاقتوں كيلئے اس پر حملہ كرنے كيلئے ميدان ہموار ہوجائے _

( اَلْيَومُ اَكْمَلْتُ لَكُمْ ديْنَكُمْ ) (۱۴) كے مصداق كوئي ايسا ہى لائق اور باصلاحيت شخص جو آنحضرت (ص) كى مقرر كردہ شرائط كو پورا كرسكے ،دين اسلام كو حد كمال تك پہنچا سكتا ہے نيز امت مسلمہ كى كشتى كو اختلافات كى تلاطم خيز لہروں سے نكال كر نجات كے ساحل كى طرف لے جاسكتاہے_

رسول اكرم (ص) اگر چہ جانتے تھے كہ امت مسلمہ ميں وہ كون شخص ہے جو آپ(ص) كى جانشينى اور

۲۸۹

مستقبل ميں اس امت كى رہبرى كيلئے مناسب وموزوں ہے اور خود آنحضرت (ص) نے كتنى ہى مرتبہ مختلف پيرائے ميں يہ بات لوگوں كے گوش گذار بھى كردى تھى ليكن ان حقائق كے باوجود اس وقت كے مختلف حالات اس امر كے متقاضى تھے كہ جانشينى كيلئے خداوند تعالى كى طرف سے واضح وصريح الفاظ ميں جديد حكم نازل ہو، آنحضرت (ص) يہ بات بھى خوب جانتے تھے كہ اس معاملے ميں اللہ تعالى آنحضرت (ص) كى مدد بھى فرمائے گا_كيونكہ رسالت كى طرح مقام خلافت و امامت بھى ايك الہى منصب ہے اور حكمت الہى اس امر كى متقاضى ہے كہ اس منصب كيلئے كسى لائق شخص كوہى منتخب كياجائے ليكن اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص) كو خدشہ بھى لاحق تھا كہ اگر يہ عظيم اجتماع پراكندہ ہوگيا اور ہر مسلمان اپنے اپنے وطن چلاگيا تو پھر كبھى ايسا موقع نہ مل سكے گا كہ كسى جانشين كے مقرر كئے جانے كا اعلان ہوسكے اور آپ (ص) كا پيغام لوگوں تك پہنچ سكے_

قافلہ اپنى منزل كى جانب رواں دواںتھا كہ بتاريخ ۱۸ ذى الحجہ ''جحفہ '' كے نزديك ''غدير خم'' پر پہنچا اور يہ وہ جگہ ہے جہاں سے مدينہ ،مصر اور عراق كى جانب جانے والى راہيں ايك دوسرے سے جدا ہوتى ہيں ، اس وقت فرشتہ وحى نازل ہو ااوررسول خدا (ص) كو جس پيغام كى توقع تھى اسے اس نے ان الفاظ ميں پہنچاديا :

( يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا أُنزلَ إلَيكَ من رَبّكَ وَإن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رسَالَتَهُ وَالله ُ يَعصمُكَ من النَّاس إنَّ الله َ لاَيَهدى القَومَ الكَافرينَ ) (۱۵) _

''اے پيغمبر (ص) جو كچھ تمہارے رب كى طرف سے تم پر نازل كيا گيا ہے اسے لوگوں تك پہنچا

۲۹۰

دو ، اگر تم نے ايسا نہ كيا تو تم نے اس كى پيغمبرى كا حق ادا نہيں كيا اللہ تم كو لوگوں كے شر سے بچائے گااور خدا كافروں كو ہدايت نہيں كرتا'' _

گرمى سخت تھى اور كافى طويل قافلہ زنجير كے حلقوں كى مانند پيوستہ اپنى منزل كى جانب گامزن تھا ، رسول خد ا(ص) كے حكم سے يہ قافلہ رك گيا اور سب لوگ ايك جگہ جمع ہوگئے اور يہ جاننے كے متمنى تھے كہ كون سا اہم واقعہ رونما ہونے والا ہے_

رسو-ل خد ا(ص) نے پہلے تو نماز ظہر كى امامت فرمائي اور اس كے بعد ايك (منبر نما) اونچى جگہ پر جو اونٹ كے كجاوئوں سے بنائي گئي تھى تشريف فرما ہوئے اس موقع پر آپ (ص) نے مختلف مسائل كے بارے ميں تفصيلى خطبہ ديا اور ايك بار پھر لوگوں كو يہ نصيحت فرمائي كہ كتاب اللہ اور اہلبيت رسول (ص) كى پورى ديانتدارى كے ساتھ پيروى كريں كيونكہ يہى دونوں ''متاع گرانمايہ'' يعنى بيش قيمت اثاثے ہيں ، اس كے بعد آنحضرت(ص) نے اصل مقصد كى جانب توجہ فرمائي_

آنحضرت (ص) نے حضرت على (ع) كا دست مبارك اپنے دست مبارك ميں لے كر اس طرح بلند كيا كہ سب لوگوں نے رسول خد ا(ص) نيز حضرت على (ع) كو ايك دوسرے كے دوش بدوش ديكھا چنانچہ انہوں نے سمجھ ليا كہ اس اجتماع ميں كسى ايسى بات كا اعلان كياجائے گا جو حضرت على (ع) كے متعلق ہے_

رسول خد ا(ص) نے مجمع سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا :

''اے مومنو تم لوگوں ميں سے كونسا شخص خود ان سے زيادہ اَولى اور ان كى جانوں كا زيادہ حق دار ہے ؟'' مجمع نے جواب ديا كہ خدا ا ور رسول خدا(ص) ہى بہتر جانتے ہيں _

اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا :'' ميرا مولا خدا ہے اور ميں مومنين كا مولا ہوں ميں خود ان

۲۹۱