اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 291
مشاہدے: 32408
ڈاؤنلوڈ: 3048


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32408 / ڈاؤنلوڈ: 3048
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اس وقت تک اہلسنت اپنے عقیدوں کو نہیں بدل سکتے ہیں مگر یہ کہ وہ اندھی تقلید سے آزادی حاصل کرلیں، اور ائمہ ہدی(ع)، عترت نبی(ص)، باب العلم سے رجوع کریں...

یہ دعوت اہلسنت کے بزرگ افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ذہین نوجوانوں سے بھی اس کا تعلق ہے بہتر ہے کہ وہ اندھی تقلید سے آزاد ہوجائیں، اور دلیل و برہان کا اتباع کریں.

دوسرا سوال

عدل الہی اور جبر سے متعلق

خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَ قُلِ‏ الْحَقُ‏ مِنْ رَبِّكُمْ- فَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَ مَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ ) الکہف آیت/29

اور کہدو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے، اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کافر ہوجائے.

( لا إِكْراهَ‏ فِي‏ الدِّينِ‏ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ) بقرہ آیت/256

دین میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہوچکی ہے.

۴۱

( فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ‏ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ. وَ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ‏ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ‏) زلزلہ آیت/8

اور جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا.

( إِنَّما أَنْتَ مُذَكِّرٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ ) غاشیہ آیت/22

تم صرف نصیحت کرنے والے ہو تم ان سب پر مسلط اور ان کے ذمہ دار نہیں ہو.

پھر تم ان احادیث کو کیوں قبول کرتے ہو جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہیں کہ خدا نے اپنے بندوں کے افعال کو ان کی پیدائش سے قبل ہی مقدر کر دیا تھا. بخاری نے اپنی صحیح(1) میں روایت کی ہے کہ:

آدم اور موسی میں حجت ہوگئی تو موسی نے فرمایا کہ:

اے آدم آپ ہمارے باپ ہیں لیکن آپ نے ہمیں مصیبت میں مبتلا کیا اور جنت سے نکلوا دیا.

جناب آدم نے فرمایا: اے موسی خدا نے تمہیں، اپنے کلام کے لئے منتخب کیا اور اپنے ہاتھ سے تمہارے لئے لکھا کیا تم مجھے اس بات پر ملامت کر رہے ہو جو خدا نے میرے لئے میری خلقت سے چالیس سال قبل ہی مقدر کر دی تھی.

____________________

1. صحیح بخاری جلد 7 ص214 کتاب القدر باب تحاج آدم و موسی، صحیح مسلم جلد 8، ص49

۴۲

پس آدم نے موسی پر تین حجتیں قائم کیں.

مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ(1) :

تم میں سے ہر ایک کی خلقت اس طرح ہوتی ہے کہ اپنی ماں کے بطن میں چالیس روز رہتا ہے پھر اس کا علقہ ( گوشت کا لوتھڑا) بن جاتا ہے. پھر اس حالت میں چالیس روز رہتا ہے اور اس کے بعد مضغہ بن جاتا ہے اور چالیس روز تک اسی حالت میں رہتا ہے پھر فرشتہ کو بھیجا جاتا ہے، وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار چیزوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا رزق، موت و عمل اور اس کی شقاوت و سعادت کو لکھ دی جائے، قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، تم میں سے جو بھی جنت کے لئے عمل انجام دے گا یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان فقط ایک گزر کا فاصلہ رہ جائے گا. تو وہ ( تقدیر کا) نوشتہ آگے بڑھ کر اس کی راہ روک دے گا اور وہ ایسے کام انجام دیگا جو جہنم میں لے جاتے ہیں، اور تم میں سے جو بھی برے کام انجام دے گا یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک گزر کا فاصلہ رہ جائے گا، تو وہ ( تقدیر کا) نوشتہ آگے بڑھے گا اور انسان اچھے کام انجام دینے لگے گا اور وہ اسے جنت میں لے جائیں گے.

____________________

1.صحیح مسلم جلد8،ص44 کتاب القدر بابکیفیة خلق الآدم فی بطن امه ، صحیح بخاری جلد7، ص210

۴۳

اسی طرح مسلم نے اپنی صحیح میں ام المومنین عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا رسول(ص) کو انصار میں سے کسی بچہ کی میت پر بلایا گیا تو میں نے کہا: خوشا نصیب اس کا کہ وہ جنت کا پرندہ ہے کیونکہ اس نے کوئی برا کام انجام نہیں دیا اور نہ اس سے واقف تھا. آپ نے فرمایا:

اے عائشہ اس کے علاوہ اور بہت کچھ! خدا نے جنت کے اہل پیدا کئے ہیں اور جنت کو ان کے لئے پیدا کیا ہے، اور جہنم کے بھی اہل پیدا کئے ہیں اور جہنم کو ان کے لئے پیدا کیا ہے در آنحالیکہ وہ اپنے آباء و اجداد کے صلبوں ہی میں تھے.(1) بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ(ص) کیا اہل بہشت اہل جہنم سے پہچانے جاتے ہیں؟ فرمایا ہاں: تو اس نے کہا کہ پس ہم لوگ عمل کیوں انجام دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو عمل انجام دیا جاتا ہے وہ اسی کے لئے خلق کیا گیا ہے یا اس کے انجام دینے پر مجبور ہے.(2) پروردگارا تو پاک ہے، حمد تیرے ہی لئے مخصوص ہے، تو اس ظلم سے پاک و بلند ہے. ہم ان حدیثوں کو کیسے قبول کر لیں جو تیری کتاب کے سراسر خلاف ہیں اور جس میں تو نے فرمایا ہے کہ:

( إِنَ‏ اللَّهَ‏ لا يَظْلِمُ‏ النَّاسَ شَيْئاً وَ لكِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ‏) یونس/44

اللہ انسانوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود ہی اپنے اوپر

____________________

1.صحیح مسلم جلد 8، ص55 کتاب القدر باب کل مولود یولد علی الفطرۃ

2 صحیح مسلم جلد 7، ص210 کتاب القدر باب جف القلم علی علم اللہ

۴۴

کیا کرتے ہیں.

( إِنَ‏ اللَّهَ‏ لا يَظْلِمُ‏ مِثْقالَ ذَرَّةٍ ) نساء/40

خدا کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے.

( وَ لا يَظْلِمُ‏ رَبُّكَ‏ أَحَداً) کہف/49 اور تمہارے پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے.

( وَ ما ظَلَمَهُمُ‏ اللَّهُ‏ وَ لكِنْ كانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ‏ ) آل عمران آیت/117

اور خدا نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں.

( وَ ما كانَ‏ اللَّهُ‏ لِيَظْلِمَهُمْ‏ وَ لكِنْ كانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ .) توبہ/70، عنکبوت/40، روم/9

خدا کسی پر ظلم کرنے والا نہیں ہے، لوگ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں.

( وَ ما ظَلَمْناهُمْ‏ وَ لكِنْ كانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ‏) زخرف آیت/76

اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا ہے یہ تو خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے.

( ذلِكَ‏ بِما قَدَّمَتْ‏ يَداكَ وَ أَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ) انفال آیت/51

یہ اس لئے کہ تمہارے پچھلے اعمال کا نتیجہ یہی ہے اور خدا اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے.

۴۵

( مَنْ‏ عَمِلَ‏ صالِحاً فَلِنَفْسِهِ وَ مَنْ أَساءَ فَعَلَيْها وَ ما رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ) فصلت/46

جو بھی نیک عمل کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا اور جو برا کرے گا اس کا ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہوگا اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے.

اور حدیث قدسی میں فرماتا ہے:

میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا ہے اور تمہارے لئے بھی حرام قرار دیا ہے پس ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو.

پس وہ مسلمان جو خدا اور اس کی عدالت و رحمت پر ایمان رکھتا ہے وہ اس بات کو کیسے تسلیم کرسکتا ہے کہ خدا نے لوگوں کو پیدا کیا اور ان میں سے بعض کو جنت نشین اور بعض کو جہنم مکین بنا دیا. اور ان کے تمام اعمال کو معین کردیا. پس ہر ایک شخص ان کاموں کے انجام دینے پر مجبور ہے. ان روایات کے لحاظ سے کہ جو قرآن کریم کے مخالف ہیں اور اس فطرت کے خلاف ہیں جس پر خدا نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اور عقل و وجدان کے خلاف بھی ہیں اور انسانوں کے حقوق وسیع نہیں ہیں.

ہم اس مذہب کو کیسے قبول کر لیں جو عقلوں کو اس بات میں محدود کرتا ہے کہ انسان خوف کا لوتھڑا ہے جو قدرت کے ہاتھوں کی کٹھپتلی ہے. وہ جیسے چاہتی ہے نچاتی ہے تاکہ اس کے بعد اسے جہنم میں ڈال دے. یہ وہ عقیدہ ہے جو عقلوں کوخلق و ایجاد اور تعجب خیز اختراع و ارتقا سے باز رکھتا ہے اور انسان بے حس و حرکت بن جاتا ہے. اور اسی حالت پر برقرار رہتا ہے جس میں

۴۶

ہے. یا جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر خوش رہتا ہے اس لئے کہ وہ مجبور پیدا کیا گیا ہے.

ہم ان روایات کو کیسے قبول کر لیں جو عقل سلیم کے خلاف ہیں جو ہمارے لئے ایسا تصور پیش کرتی ہیں کہ خدا خالق جبار، قوی ہے، اور اسے حق ہے کہ وہ اپنے کمزور بندوں کو اس لئے پیدا کرے کہ جہنم کی آگ میں جلایا جائے، کسی جرم کی بناء پر نہیں کیونکہ اسے یہ بھی اختیار ہے کہ وہ جو چاہے کرے. کیا عقلا ایسے خدا کو رحیم، حکیم اور عادل کہتے ہیں؟

اگر ہم غیر مسلم علما اور ذہین افراد سے گفتگو کریں اور انہیں یہ بتائیں کہ ہمارا پروردگار ان صفات کا حامل ہے، اور ہمارا دین لوگوں کی پیدائش سے قبل ہی ان کی شقاوت و سعادت کی فیصلہ کردیتا ہے تو کیا وہ اسلام قبول کر لیں گے؟ اور گروہ گروہ دین میں داخل ہوں گے؟؟

پروردگارا! تو پاک ہے، یہ وہ خرافات ہیں جنہیں امویوں نے اپنے عیوب کی پردہ پوشی کے لئے رواج دیا ہے، محقق اس راز سے بخوبی واقف ہے، یہ باطل قول ہے کیونکہ تیرے کلام کے مخالف ہے.

تیرے رسول(ص) نے تیری طرف جھوٹ کی نسبت نہیں دی ہے کہ جو تیری وحی کے خلاف ہو، یہ تو ثابت ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا کہ:

جب تمہارے پاس میری کوئی حدیث پہونچے تو اسے خدا کی کتاب سے ملائو، اگر کتاب خدا کے موافق ہے تو اسے لے لو اور اگر اس کے خلاف ہے تو اسے دیوار پر دے مارو!

یہ تمام اور ایسی ہی بہت سی حدیثیں ہیں کہ جو کتاب خدا، سنت

۴۷

رسول(ص) اور وجدان و عقل کے خلاف ہیں. لہذا انہیں دیوار پر مار دینا چاہیئے اور ان کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئیے. اگرچہ انہیں بخاری و مسلم ہی نے نقل کیا ہو، کیونکہ بخاری اور مسلم معصوم عن الخطا نہیں ہیں. اس جھوٹے دعوے کی رد کے لئے ہماری یہ دلیل کافی ہے کہ اللہ نے بشریت کی طویل تاریخ میں اپنی مخلوق کے پاس انبیاء و مرسلین بھیجے تاکہ مفسد بندوں کی اصلاح کریں، اور صراط مستقیم کی ہدایت کریں، اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیں. اور صالح بندوں کو جنت کی بشارت دیں، اور مفسد لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں.

خدا اپنے بندوں کے حق میں عادل و رحیم ہے، اور ان ہی لوگوں پر عذاب کرے گا جن کے پاس رسول بھیج کر حجت تمام کر دی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

( مَنِ‏ اهْتَدى‏ فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَ مَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها وَ لا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى‏ وَ ما كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا ) اسرا/15

جو شخص بھی ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے فائدہ کے لئے کرتا ہے، اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے وہ بھی اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے اور ہم تو اس وقت تک عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں.

پس جن روایات کو بخاری و مسلم نے جمع کیا ہے اور جن سے یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ خدا اپنے بندوں کے اعمال ان کی پیدائش سے قبل ہی لکھ دیتا ہے. ان میں سے بعض کو جنتی اور بعض کو جہنمی قرار دیتا ہے. جیسا کہ

۴۸

ہم پہلے بھی اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں. اور اس بات پر اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے.

میں کہتا ہوں اگر یہ صحیح ہے تو رسولوں کی، بعثت اور کتابوں کا نزول بے کار ہوگا! خداتوند عالم اس سے بزرگ و برتر ہے، خدا نے وہی مقدر کیا جو حق تھا. پس ہمیں اس قسم کی باتیں کہنے کا حق نہیں ہے، معبود! تو اس بہتان عظیم سے پاک ہے.

( تِلْكَ‏ آياتُ‏ اللَّهِ‏ نَتْلُوها عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَ مَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعالَمِينَ ‏) آل عمران/ 108

یہ آیات الہی ہیں جن کی ہم حق کے ساتھ تلاوت کر رہے ہیں اور اللہ عالمین کے بارے میں ہرگز ظلم نہیں چاہتا.

اس کا جواب ائمہ ہدی، مصابیح الدجی، منارة امت کے پاس یہ ہے کہ خداوند عالم ظلم اور کار عبث سے بری ہے.

آئیے ہم باب مدینة العلم امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے کچھ سنیں، وہ لوگوں کے لئے اس اعتقاد کی تشریح فرماتے ہیں کہ جو ان بعض مسلمانوں کے ذہن میں تھا جنہوں نے باب مدینة العلم کو چھوڑ دیا تھا. چنانچہ آپ نے ایک صحابی کے جواب میں اس وقت فرمایا جب اس نے یہ سوال کیا تھا کہ: کیا ہمارا شام جانا اللہ کی قضا و قدر کے مطابق ہے؟ فرمایا:

" وَيْحَكَ‏ لَعَلَّكَ‏ ظَنَنْتَ‏ قَضَاءً لَازِماً وَ قَدَراً حَاتِماً لَوْ كَانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ لَبَطَلَ الثَّوَابُ وَ الْعِقَابُ وَ سَقَطَ الْوَعْدُ وَ الْوَعِيدُ إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ أَمَرَ عِبَادَهُ

۴۹

تَخْيِيراً وَ نَهَاهُمْ تَحْذِيراً وَ كَلَّفَ يَسِيراً وَ لَمْ يُكَلِّفْ عَسِيراً وَ أَعْطَى عَلَى الْقَلِيلِ كَثِيراً وَ لَمْ يُعْصَ مَغْلُوباً وَ لَمْ يُطَعْ مُكْرِهاً وَ لَمْ يُرْسِلِ الْأَنْبِيَاءَ لَعِباً وَ لَمْ يُنْزِلِ الْكُتُبَ لِلْعِبَادِ عَبَثاً وَ لَا خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا( ذلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ ) (1)

خدا تم پر رحم کرے شاید تم نے حتمی و لازمی قضا و قدر سمجھ لیا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تھ پھر نہ ثواب کا سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی ہوتے نہ وعید کے، خداوند عالم نے بندوں کو مختار بنا کر مامور کیا ہے(عذاب سے) ڈراتے ہوئے نہی کی ہے، اس نے آسان تکلیف دی ہے، دشواریوں سے بچایا ہے، قلیل اعمال کا زیادہ اجر عطا کرتا ہے. اس کی نافرمانی اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ مغلوب ہوگیا ہے، اور نہ اس کی اطاعت اس لئے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کی رکھا ہے،اس نے انبیاء کو بطور تفریح نہیں بھیجا، اور نہ بندوں کے لئے کتابیں بے فائدہ نازل کی ہیں، اور نہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اسے بیکار پیدا کیا ہے، یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں

____________________

1.نہج البلاغہ، شرح محمد عبدہ جلد/4 ص673.674

۵۰

نے کفر اختیار کیا. افسوس ہے ان لوگوں پر جنہوں نے کفر اختیار کر کے آتش جہنم کمائی.

یہاں یہ بات ذکر کر دینا مناسب ہے کہ اہلسنت والجماعت خدا کو ظلم اور کار عبث سے پاک سمجھتے ہیں، اس سلسلہ میں جب آپ ان میں سے کسی سے سوال کریں گے تو وہ خدا کی طرف ظلم کی نسبت نہیں دے گا لیکن اس کا نفس ان احادیث کی تردید کرنے میں پس و پیش میں پڑ جاتا ہے کہ جن کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے وہ انہیں صحیح سمجھتا ہے. اسی لئے آپ اسے معقول بحث کے وقت دیکھیں گے کہ وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ خدا کے لئے اس(فعل) کو ظلم نہیں کہا جاتا، کیونکہ وہ خالق ہے اور خالق کو اپنی مخلوقات کے بارے میں سب کچھ کرنے کا حق ہے!

اور جب اس سے یہ سوال ہوتا ہے کہ خدا کسی بندے کی خلقت سے قبل اس کے جہنمی ہونے کا کیسے حکم لگاتا ہے، کیا اس لئے کہ اس نے اس بندے کے لئے پہلے ہی شقاوت لکھ دی تھی، اور دوسرے بندے کےلئے اس کی خلقت سے قبل ہی جنتی ہونے کا حکم لگا دیتا ہے کیا اس لئے کہ خدا نے پہلے ہی سعادت لکھ دی تھی، کیا اس میں دونوں کے لئے ظلم نہیں ہے؟ کیونکہ جو جنت میں داخل ہو رہا ہے وہ اپنے عمل کی بنا پر نہیں، بلکہ خدا نے اس کے لئے جنت کو مقرر کیا تھا، اسی طرح جہنم میں داخل ہونے والا بھی اپنے گناہوں کی بنا جہنم میں داخل نہیں ہو رہا ہے بلکہ یہ تو خدا نے اس کے لئے مقرر کر دیا تھا، کیا یہ ظلم اور کیا قرآن کے خلاف نہیں ہے؟ تو پاک و پاکیزہ ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے. اس کے اس متناقض موقف کے بارے میں آپ کچھ نہیں سمجھ سکتے. یہ تو واضح ہے اس لئے کہ وہ بخاری و مسلم کو قرآن کی

۵۱

مانند سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ کتاب خدا کے بعد صحیح ترین کتاب بخاری اور مسلم ہے، یہ ہیں وہ مصائب جن میں مسلمان مبتلا ہیں. اموی اور ان کے بعد عباسی اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے کہ ان کی بدعت اور عقائد پھیل گئے. ان کے آثار اور بے نتیجہ سیاست آج تک باقی ہے کیونکہ مسلمان اسے بہت بڑی میراث سمجھتے ہیں اس لئے کہ ان کے خیال میں انہوں نے نبی(ص) کی صحیح حدیثوں کو جمع کیا ہے اگر مسلمانوں کو یہ معلوم ہوجاتا کہ انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے رسول(ص) کی طرف کتنی جھوٹی باتوں کی نسبت دی ہے تو وہ کبھی ان حدیثوں کی تصدیق نہ کرتے خصوصا ان حدیثوں کی جو کتابِ خدا کی مخالف ہیں.

(قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ­داری خدا نے خود لی ہے وہ صحابہ کے پاس محفوظ تھا، صحابہ نبی(ص) کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے اس لئے وہ ( بنی امیہ و بنی عباس) قرآن میں تو تحریف نہ کرسکے لیکن سنت مطہرہ میں جیسی چاہی، جس کے لئے چاہی حدیث گڑھ لی، وہ محافظ قرآن و سنت، اہل بیت(ع) کے دشمن تھے، ہر حادثہ کے لئے ایک حدیث گڑھ لی، اور اسے نبی(ص) کی طرف منسوب کر دی اور مسلمانوں کو یہ فریب دیا کہ تمام حدیثوں سے زیادہ یہ حدیثیں صحیح ہیں، پس مسلمانوں نے حس ظن کرتے ہوئے انہیں مان لیا اور میراث کے طور پر انہیں ایک دوسرے کی طرف منتقل کرتے رہے، حق تو یہ ہے کہ شیعوں نے بھی رسول (ص) یا ائمہ(ع) میں سے کسی نہ کسی کی حدیث میں کمی زیادتی کی ہے اور اسے رسول(ص) کی طرف منسوب کر دیا،طول تاریخ اس فعل سے مسلمانوں میں سنی، شیعہ کوئی نہیں بچا، لیکن شیعہ اہلسنت والجماعت پر تین چیزوں میں فوقیت رکھتے ہیں. یہ تین چیزیں انہیں تمام اسلامی فرقوں پر امتیاز بخشتی ہیں.

۵۲

اور ان کے صحیح اور قرآن و سنت و عقل کے مطابق عقائد کو ظاہر کرتی ہیں. وہ تین چیزیں یہ ہیں:

اوّلا وہ اہلبیت(ع) سے محبت رکھتے ہیں اور ان پر کسی کو فوقیت نہیں دیتے، اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ اہلبیت(ع) وہ ہیں جن سے خدا نے رجس و کثافت کو دور رکھا ہے اور انہیں اس طرح پا ک فرمایا جس طرح حق تھا.

ثانیا ائمہ اہلبیت(ع) بارہ(12) ہیں جن کی حیات کا سلسلہ تین صدیوں پر محیط ہے، اور یہ سب کےسب تمام احکام و احادیث کے سلسلہ میں متفق ہیں، ان کے درمیان ان چیزوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے جو ان کے شیعوں نے علم و معرفت کے ذریعہ حاصل کی ہے. ان کے عقائد وغیرہ میں کوئی تناقض نہیں ہے.

ثالثا انہیں اپنی کتابوں میں خطا و صواب کے احتمال کا اعتراف ہے، کتاب خدا کے سوائ کہ جس میں کسی طرح سے باطل داخل نہیں ہوسکتا،، کسی بھی کتاب کو کلی طور پر صحیح نہیں سمجھتے ہیں. آپ کی اطلاع کے لئے اتنا کافی ہے کہ ان کی عظیم ترین کتابوں میں سے ایک اصول کافی ہے. وہ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں ہزاروں حدیثیں جھوٹی ہیں. لہذا آپ نے ان کے علماء و مجتہدین کو دیکھا ہوگا کہ وہ مستقل تحقیق اور چھان بین میں لگے رہتے ہیں پس ان کتابوں سے انہیں احادیث کو لیتے ہیں جو متن اور سند کے لحاظ سے صحیح ثابت ہوتی ہیں اور قرآن و عقل کے خلاف نہیں ہوتیں.

لیکن اہلسنت نے اپنے اوپر ان کتابوں کو لازم قرار دے

۵۳

لیا ہے وہ جنہیں صحاح ستہ کا نام دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان میں ہے وہ سب صحیح ہے اہلسنت کی اکثریت بغیر کسی تحقیق و جستجو کے یہ بات کہتی ہے، ورنہ ان کتابوں میں بہت سی ایسی احادیث مروی ہیں کہ جن کی بنیاد علمی دلیل پر استوار ہے، بلکہ ان میں صریح طور پر کفر موجود ہے. اور قرآن و اخلاق و افعال رسول(ص) کے سراسر خلاف ہیں اس سلسلہ میں قارئین کے لئے شیخ محمود ابوریہ مصری کی کتاب"اضوا علی السنة المحمدیة " کا مطالعہ کافی ہوگا اس سے معلوم ہوجائے گا کہ صحاح ستہ کی کیا قدر و قیمت ہے. بحمد اللہ اب بہت سے جوان محققین ان زنجیروں سے آزاد ہوگئے ہیں، اور حق و باطل میں فرق کرنے لگے ہیں بلکہ ان کے متعصب سرغنہ میں سے بھی بہت سے صحاح کی روایات کا انکار کرنے لگے ہیں، لیکن اس لئے نہیں کہ ان کے نزدیک ان بعض احادیث میں ضعف ثابت ہوگیا ہے بلکہ اس لئے کہ ان میں شیعوں کی حجت و دلیل موجود ہے کہ جن کے ذریعہ وہ فقہی احکام اور غیبت کے عقائد ثابت کرتے ہیں، جس عقیدہ و حکم کے شیعہ قائل ہیں وہ صحاح ستہ میں سے کسی نہ کسی میں آج بھی موجود ہے.

بعض متعصبوں نے مجھ سے کہا کہ جب تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ بخاری کی حدیثیں صحیح نہیں ہیں تو اس کی حدیثوں سے احتجاج کیوں کرتے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ نہ ہی بخاری کی ساری حدیثیں صحیح ہیں اور نہ ساری جھوٹی ہیں حق حق ہے باطل، باطل ہے اس میں فرق کرنا ہمارا کام ہے.

ایک صاحب نے کہا: کیا آپ کے پاس کوئی خاص خوردبین ہے کہ جو صحیح و غلط کو بتاتی ہے؟ میں نے کہا : جو تمہارے پاس ہے وہی ہمارے پاس ہے. جس بات پر سنی شیعہ متفق ہیں وہ صحیح ہے کیونکہ طرفین کے نزدیک اس کی صحت ثابت ہوچکی ہے. ہم اہلسنت سے انہیں کو قبول کرنے کے لئے کہتے ہیں.

۵۴

جن کو خود صحیح سمجھتے ہیں. جس حدیث میں اختلاف ہے خواہ وہ ایک کے نزدیک صحیح بھی ہو اس کو مدمقابل کے لئے حجت قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، اسے قبول کر لینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے، بالکل اسی طرح غیر مسلم کو بھی ہم اس کے قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کے ذریعہ اس پر حجت قائم کرسکتے ہیں....

اس سلسلہ میں میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ جس کے بعد کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا. اور نہ ہی متعدد طریقوں سے اس تنقید کو رد کیا جاسکے گا.

شیعوں کا دعوی ہے کہ رسول(ص) نے18 ذی الحجہ کو حجة الوداع کے روز غدیر خم میں علی(ع) کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا اور فرمایا:

" من‏ كنت‏ مولاه‏ فهذا مولاه اللّهمّ وال من والاه و عاد من عاداه "

جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع) مولا ہیں بار الہا علی(ع) کے دوست کو دوست اور علی(ع) کے دشمن کو دشمن رکھ.

اس حدیث اور واقعہ کو اہلسنت والجماعت کے بہت سے علماء نے اپنی صحاح و مسانید اور تواریخ میں نقل کیا ہے، پس شیعہ اس سے اہلسنت پر حجت قائم کرسکتے ہیں.

اہل سنت والجماعت کا دعوی ہے کہ رسول(ص) نے مرض موت میں ابوبکر کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں اور فرمایا: خدا و رسول(ص) اور مومنین صرف ابوبکر سے راضی ہیں.

شیعوں کی کتابوں میں اس حدیث و واقعہ کا کہیں وجود نہیں

۵۵

ملتا ہے، ہاں ان کے یہاں یہ روایت ملتی ہے کہ رسول(ص) نے علی علیہ السلام کو بلوایا لیکن عائشہ نے اپنے باپ ابوبکر کو بلایا، جب رسول(ص) نے یہ صورتحال دیکھی تو عائشہ سے فرمایا: " انکن لوبحیات یوسف" تم ہی جیسی عورتیں یوسف کے ساتھ بھی تھیں اور خود نماز پڑھانے کی غرض سے گھر سے نکلے اور ابوبکر کو مصلے سے ہٹا دیا: یہ انصاف نہیں ہے اہلسنت شیعوں پر ان احادیث سے احتجاج کریں کہ جو انہیں سے مخصوص ہیں، خصوصا ان احادیث سے جن میں تناقض پایا جاتا ہے اور واقعات و تاریخ ان کی تکذیب کرتی ہیں، اس لئے کہ رسول(ص) نے ابوبکر کو جیش اسامہ میں شریک ہونے کا حکم دیا تھا. اور اس لشکر کے سردار اسامہ تھے، اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ امیر لشکر ہی پیش امام ہوتا ہے. اور یہ بات تو تاریخ سے ثابت ہے کہ وفات رسول(ص) کے وقت ابوبکر مدینہ میں موجود نہیں تھے وہ تو سنح میں اپنے امیر اسامہ ابن زید کہ جن کی عمر سترہ(17) سال بھی نہیں تھی، کی قیادت میں روانہ ہونے کی تیاری کررہے تھے. کیا اس کے باوجود ہم اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ رسول(ص) نے نماز کی امامت کے لئے ابوبکر کو متعین فرمایا تھا؟ مگر یہ کہ ہم عمر خطاب کے اس قول کی تصدیق کریں کہ ( معاذ اللہ) رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں انہیں نہیں معلوم کہ میں کیا کر رہا ہوں اور کیا کہہ رہا ہوں؟ یہ تو آنحضرت(ص) کے لئے سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے بلکہ یہ محال ہے اور شیعہ اس کے قائل نہیں ہیں.

یہاں محقق کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی بحث میں خدا سے ڈرے عصبیت پرستی سے کام نہ لے کہ راہ حق سے ہٹ جائے اور ہوائے نفس کی پیروی کرنے کے نتیجہ میں گمراہ ہوجائے، حق کےسامنے سر تسلیم خم کردینا اس لئے واجب ہے خواہ حق فریق ثانی کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو. اسے اپنے نفس کو عواطف و انانیت سے آزاد کر کے ان لوگوں میں شامل ہوجانا چاہیئے کہ جن کی خدا نے اپنے اس قول میں

۵۶

تعریف کی ہے:

( فَبَشِّرْ عِبادِ الَّذِينَ‏ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولئِكَ الَّذِينَ هَداهُمُ اللَّهُ وَ أُولئِكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبابِ‏ .) زمر آیت:18

ان لوگوں کو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جوبات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو صاحب عقل ہیں.

اس وقت یہ بات معقول نہیں ہوگی جب یہودی کہیں کہ حق ہمارے پاس ہے، نصاری دعوی کریں کہ حق ہمارے پاس ہے. مسلمان دعوی کریں کہ حق ہمارے پاس ہے اور سب کے احکام و عقائد مختلف ہوں!

بحث کرنے والے کو تینوں ادیان کی تحقیق کرنا چاہئیے اور ان کا آپس میں موازنہ کرنا چاہئیے تاکہ حق آشکار ہوجائے.

اور یہ بات معقول نہیں ہے کہ اہلسنت یہ دعوی کریں کہ حق ہمارے ساتھ ہے. اور شیعہ کہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں. جبکہ ان کے احکام و عقائد میں اختلاف ہے. حق تو ایک ہی ہے اس کے ٹکڑے نہیں ہوسکتے.

اور بحث کرنے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ غیر جانبدار ( نیوٹرل) ہو کے طرفین کے اقوال کی تحقیق کرے. اور ایک دوسرے کا موازنہ کرے اور عقل سے فیصلہ کرے تاکہ اس پر حق آشکار ہوجائے. یہ تو ہر حق کے دعویدار فرقہ کے لئے خدا کی ندا ہے، چنانچہ فرماتا ہے:

( قُلْ‏ هاتُوا بُرْهانَكُمْ‏ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ ‏) بقرہ/111

۵۷

ان سے کہدیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل لے آئو.

اکثریت حق پر گامزن نہیں ہے. بلکہ مسئلہ اس کے برعکس ہے جو کہ صحیح ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( وَ إِنْ‏ تُطِعْ‏ أَكْثَرَ مَنْ‏ فِي‏ الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ) انعام/116

اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کر لیں گے تو یہ راہ خدا سے بہکا دیں گے.

نیز فرماتا ہے:

( وَ ماأ َكْ ثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْ تَ بِمُؤْ مِنِي نَ ) یوسف/103

آپ کسی قدر کیوں نہ چاہیں انسانوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے.

اور جس طرح تہذیب و تمدن اور ٹیکنالوجی و دولت مندی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مغرب حق پر اور مشرق باطل پر ہے خداوند عالم فرماتا ہے:

( فَلا تُعْجِبْكَ‏ أَمْوالُهُمْ وَ لا أَوْلادُهُمْ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِها فِي الْحَياةِ/ الدُّنْيا وَ تَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كافِرُونَ ‏) التوبة/ 55

تمہیں ان کے اموال اور اولاد حیرت میں نہ ڈال دیں. پس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکل جائے.

۵۸

خدا سے متعلق اہل ذکر کا نظریہ

حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بَطَنَ‏ خَفِيَّاتِ‏ الْأَمُوُرِ وَ دَلَّتْ عَلَيْهِ أَعْلَامُ الظُّهُورِ وَ امْتَنَعَ عَلَى عَيْنِ الْبَصِيرِ فَلَا قَلْبُ مَنْ لَمْ يَرَهُ يُنْكِرُهُ وَ لَا عَيْنُ مَنْ أَثْبَتَهُ تُبْصِرُهُ سَبَقَ فِي الْعُلُوِّ فَلَا شَيْ‏ءَ أَعْلَى مِنْهُ وَ قَرُبَ فِي الدُّنُوِّ فَلَا شَيْ‏ءَ أَقْرَبُ مِنْهُ فَلَا اسْتِعْلَاؤُهُ بَاعَدَهُ عَنْ شَيْ‏ءٍ مِنْ خَلْقِهِ وَ لَا قُرْبُهُ سَاوَاهُمْ فِي الْمَكَانِ بِهِ لَمْ يُطْلِعِ الْعُقُولَ عَلَى تَحْدِيدِ صِفَتِهِ وَ لَمْ يَحْجُبْهَا عَنْ وَاجِبِ مَعْرِفَتِهِ فَهُوَ الَّذِي تَشْهَدُ لَهُ أَعْلَامُ الْوُجُودِ عَلَى إِقْرَارِ قَلْبِ ذِي الْجُحُودِ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يَقُولُ الْمُشَبِّهُونَ بِهِ وَ الْجَاحِدُونَ لَهُ عُلُوّاً كَبِيراً.

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ‏ يَسْبِقْ‏ لَهُ‏ حَالٌ‏ حَالًا فَيَكُونَ أَوَّلًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ آخِراً وَ يَكُونَ ظَاهِراً قَبْلَ أَنْ يَكُونَ بَاطِناً كُلُّ مُسَمًّى بِالْوَحْدَةِ غَيْرَهُ قَلِيلٌ وَ كُلُّ عَزِيزٍ غَيْرَهُ ذَلِيلٌ وَ كُلُّ قَوِيٍّ غَيْرَهُ ضَعِيفٌ وَ كُلُّ مَالِكٍ غَيْرَهُ مَمْلُوكٌ وَ كُلُّ عَالِمٍ غَيْرَهُ مُتَعَلِّمٌ وَ كُلُّ قَادِرٍ غَيْرَهُ يَقْدِرُ وَ يَعْجِزُ وَ كُلُّ سَمِيعٍ غَيْرَهُ يَصَمُّ عَنْ لَطِيفِ الْأَصْوَاتِ وَ يُصِمُّهُ كَبِيرُهَا

۵۹

وَ يَذْهَبُ عَنْهُ مَا بَعُدَ مِنْهَا وَ كُلُّ بَصِيرٍ غَيْرَهُ يَعْمَى عَنْ خَفِيِّ الْأَلْوَانِ وَ لَطِيفِ الْأَجْسَامِ وَ كُلُّ ظَاهِرٍ غَيْرَهُ [غَيْرُ بَاطِنٍ‏] بَاطِنٌ وَ كُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَهُ غَيْرُ ظَاهِرٍ لَمْ يَخْلُقْ مَا خَلَقَهُ لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ وَ لَا تَخَوُّفٍ مِنْ عَوَاقِبِ زَمَانٍ وَ لَا اسْتِعَانَةٍ عَلَى نِدٍّ مُثَاوِرٍ وَ لَا شَرِيكٍ مُكَاثِرٍ وَ لَا ضِدٍّ مُنَافِرٍ وَ لَكِنْ خَلَائِقُ مَرْبُوبُونَ وَ عِبَادٌ دَاخِرُونَ لَمْ يَحْلُلْ فِي الْأَشْيَاءِ فَيُقَالَ هُوَ [فِيهَا] كَائِنٌ وَ لَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ لَمْ يَؤُدْهُ خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ وَ لَا تَدْبِيرُ مَا ذَرَأَ وَ لَا وَقَفَ بِهِ عَجْزٌ عَمَّا خَلَقَ وَ لَا وَلَجَتْ عَلَيْهِ شُبْهَةٌ فِيمَا قَضَى وَ قَدَّرَ بَلْ قَضَاءٌ مُتْقَنٌ وَ عِلْمٌ مُحْكَمٌ وَ أَمْرٌ مُبْرَمٌ الْمَأْمُولُ مَعَ النِّقَمِ الْمَرْهُوبُ مَعَ النِّعَمِ. لَيْسَ‏ لِأَوَّلِيَّتِهِ‏ ابْتِدَاءٌ وَ لَا لِأَزَلِيَّتِهِ انْقِضَاءٌ هُوَ الْأَوَّلُ وَ لَمْ يَزَلْ وَ الْبَاقِي بِلَا أَجَلٍ خَرَّتْ لَهُ الْجِبَاهُ وَ وَحَّدَتْهُ الشِّفَاهُ حَدَّ الْأَشْيَاءَ عِنْدَ خَلْقِهِ لَهَا إِبَانَةً لَهُ مِنْ شَبَهِهَا لَا تُقَدِّرُهُ الْأَوْهَامُ بِالْحُدُودِ وَ الْحَرَكَاتِ وَ لَا بِالْجَوَارِحِ وَ الْأَدَوَاتِ لَا يُقَالُ لَهُ مَتَى وَ لَا يُضْرَبُ لَهُ أَمَدٌ بِحَتَّى الظَّاهِرُ لَا يُقَالُ مِمَّ وَ الْبَاطِنُ لَا يُقَالُ فِيمَ لَا شَبَحٌ فَيُتَقَصَّى وَ لَا مَحْجُوبٌ فَيُحْوَى تَعَالَى عَمَّا يَنْحَلُهُ الْمُحَدِّدُونَ مِنْ صِفَاتِ الْأَقْدَارِ وَ نِهَايَاتِ الْأَقْطَارِ وَ تَأَثُّلِ الْمَسَاكِنِ وَ تَمَكُّنِ الْأَمَاكِنِ فَالْحَدُّ لِخَلْقِهِ مَضْرُوبٌ وَ إِلَى غَيْرِهِ مَنْسُوبٌ لَمْ يَخْلُقِ

۶۰