اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 291
مشاہدے: 32404
ڈاؤنلوڈ: 3045


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32404 / ڈاؤنلوڈ: 3045
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

الْأَشْيَاءَ مِنْ أُصُولٍ أَزَلِيَّةٍ وَ لَا مِنْ أَوَائِلَ أَبَدِيَّةٍ بَلْ خَلَقَ مَا خَلَقَ فَأَقَامَ‏ حَدَّهُ‏ وَ صَوَّرَ فَأَحْسَنَ صُورَتَهُ لَيْسَ لِشَيْ‏ءٍ مِنْهُ امْتِنَاعٌ وَ لَا لَهُ بِطَاعَةِ شَيْ‏ءٍ انْتِفَاعٌ عِلْمُهُ بِالْأَمْوَاتِ الْمَاضِينَ كَعِلْمِهِ بِالْأَحْيَاءِ الْبَاقِينَ وَ عِلْمُهُ بِمَا فِي السَّمَاوَاتِ الْعُلَى كَعِلْمِهِ بِمَا فِي الْأَرَضِينَ السُّفْلَى‏"

تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے جو چھپی ہوئی چیزوں کی گہرائیوں میں اترا ہوا ہے. اس کے ظاہر و ہویدہ ہونے کی نشانیاں اس کے وجود کا پتہ دیتی ہیں، گو وہ دیکھنے والے کی آنکھ سے نظر نہیں آتا، پھر بھی نہ دیکھنے والی آنکھ اس کا انکار نہیں کرسکتی اور جس نے اس کا اقرار کیا اس کا دل اس کی حقیقت کو نہیں پاسکتا وہ اتنا بلند و برتر ہے کہ کوئی چیز اس سے بلند­تر نہیں ہوسکتی اور اتنا قریب سے قریب­تر ہے کہ کوئی شئی اس سے قریب­تر نہیں ہے اور نہ اس کی بلندی نے اسے مخلوقات سے دور کردیا ہے. اور نہ اس کے قریب نے اسے دوسروں کی سطح پر لاکر ان کے برابر کردیا ہے. اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حدود نہایت پر مطلع نہیں کیا اور ضروری مقدار میں معرفت حاصل کرنے کے لئے ان کے آگے پردے بھی حائل نہیں کئے، وہ ذات ایسی ہے کہ جس کے وجود کے نشانات اس طرح کی شہادت دیتے ہیں کہ( زبان سے) انکار کرنے والے کا دل بھی اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا، اللہ ان لوگوں کی باتوں سے بہت بلند و برتر ہے،

۶۱

جو مخلوقات سے اس کی تشبیہ دیتے ہیں، اور اس کے وجود کا انکار کرتے ہیں.(1)

تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے کہ جس کی ایک صفت سے دوسری صفت کو تقدم نہیں کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اول اور باطن ہونے سے پہلے ظاہر رہا ہو، اللہ کے علاوہ جسے بھی ایک کہا جائے گا وہ قلت و کمی میں ہوگا، اس کے سوا ہر باعزت ذلیل اور ہر قوی کمزور و عاجز اور ہر مالک مملوک اور ہر جاننے والا سیکھنے والے کی منزل میں ہے، اس کے علاوہ ہر قدرت و تسلط والا کبھی قادر ہوتا ہے اور کبھی عاجز اور اس کے علاوہ ہر سننے والا خفیف آوازوں کے سننے سے قاصر ہوتا ہے اور بڑی آوازیں ( آپنی گونج سے) اسے بہرا کر دیتی ہیں اور دور کی آوازیں اس تک پہونچتی نہیں ہیں اور اس کے ماسوا ہر دیکھنے والا مخفی رنگوں اور لطیف جسموں کے دیکھنے سے نابینا ہوتا ہے. کوئی ظاہر اس کے علاوہ باطن نہیں ہوسکتا اور کوئی باطن اس کے سوا ظاہر نہیں ہوسکتا. اس نے اپنی کسی مخلوق کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ اپنے اقتدار کی بنیادوں کو مستحکم کرے یا زمانےکے عواقب و نتائج سے اسے کوئی خطرہ تھا، یا کسی برابر والے کے حملہ آور ہونے یا کثرت پر اترانے والے شریک یا بلندی میں ٹکرانے والے مد مقابل کے خلاف اسے مدد حاصل کرنا تھی.

____________________

1.خطبہ/49

۶۲

بلکہ یہ ساری مخلوق اسی کے قبضے میں ہے اور سب اس کے عاجز و ناتوان بندے ہیں. وہ دوسری چیزوں میں سمایا ہوا نہیں ہے. کہ یہ کہا جائے کہ وہ ان کے اندر ہے اور نہ ان چیزوں سے دور ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ ان چیزوں سے الگ ہے ایجاد خلق اور تدبیر عالم نے اسے خستہ و درماندہ نہیں کیا. اور نہ ( حسب منشای چیزوں کے پیدا کرنے سے عجز اسے دامن گیر ہوا ہے اور نہ اسے اپنے فیصلوں اور اندازوں میں شبہ لاحق ہوا ہے. بلکہ اس کے فیصلے مضبوط، علم محکم اور احکام قطعی ہیں. مصیبت کے وقت بھی اسی کی آس رہتی ہے، اور نعمت کے وقت بھی اس کا ڈر لگا رہتا ہے.(1)

اس کی اولیت کی کوئی ابتدا اور نہ اس کی ازلیت کی کوئی انتہا ہے، وہ ایسا اول ہے جو ہمیشہ سے ہے، اور بغیر کسی مدت کی حدبندی کے ہمیشہ رہنے والا ہے پیشانیاں اس کے آگے ( سجدہ میں) گری ہوئی ہیں، اور لب اس کی توحید کے معترف ہیں اس نے تمام چیزوں کو ان کے پیدا کرنے کے وقت ہی سے جداگانہ صورتوں اور شکلوں میں محدود کردیا، تا کہ اپنی ذات کو ا ن کی مشابہت سے الگ رکھے، تصورات اسے محدود و حرکات اور اعضاء و جوارح کے ساتھ متعین نہیں کرسکتے اس کے لئے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے وہ کب سے ہے اور نہ یہ کہہ کر اس کی مدت مقرر کی جاسکتی ہے کہ وہ کب تک ہے، وہ ظاہر ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کس سے ( ظاہر ہوا) وہ باطن ہے مگر

____________________

1.خطبہ/63

۶۳

یہ نہیں کہا جائیگا کہ (کس میں) وہ نہ دور سے نظر آنے والا کوئی ڈھانچہ جو کہ مٹ جائے اور نہ کسی حجاب میں ہے کہ محدود ہوجائے. اسے محدود سمجھ لینے والے جن اندازوں اور اطراف و جوانب کی حدوں اور مکانوں میں بسنے اور جگہوں میں ٹھہرنے کو اس کی طرف منسوب کردیتے ہیں، وہ ان نسبتوں سے بہت بلند ہے. حدیں تو اس کو مخلوق کے لئے قائم کی گئی ہیں اور دوسروں ہی کی طرف ان کی نسبت دی جایا کرتی ہے اس نے اشیاء کو کچھ ایسے مواد سے پیدا نہیں کیا کہ جو ہمیشہ سے ہو اور نہ ایسی مثالوں پر بنایا کہ جو پہلے سے موجود ہوں. بلکہ اس نے جو چیز پیدا کی اسے مستحکم کیا، اورجو ڈھانچہ بنایا اسے اچھی شکل و صورت دی، کوئی اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتا نہ اس کو کسی اطاعت سے، کوئی فائدہ پہونچتا ہے. اسے پہلے مرنے والوں کا ویسا ہی علم ہے جیسا باقی رہنے والے زندہ لوگوں کا اور جس طرح بلند آسمانوں کی چیزوں کو جانتا ہے. ویسے ہی زمینوں کی چیزوں کو پہچانتا ہے.(1)

____________________

1.خطبہ/161

۶۴

دوسری فصل

رسول(ص) سے متعلق

دوسرا سوال عصمت رسول(ص) کے بارے میں

خداوند عالم اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرماتا ہے:

( وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ‏ مِنَ‏ النَّاسِ ‏) مائدہ/67

اور خدا تمہیں لوگوں سے محفوظ رکھے گا.

نیز فرماتا ہے:

( وَ ما يَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحى ‏) نجم/3

وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے ہیں، جو وحی ہوتی ہے وہی کہتے ہیں.

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَ ما آتاكُمُ‏ الرَّسُولُ‏ فَخُذُوهُ وَ ما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ) حشر/7

۶۵

جس چیز کا رسول حکم دیں اسے بجا لائو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو.

ان آیات کو واضح دلالت رسول(ص) کی عصمت مطلقہ پر ہے، اور تم لوگ(اہلسنت) کہتے ہو کہ تبلیغ قرآن کے وقت رسول(ص) معصوم تھے. اور اس کے علاوہ دوسرے اوقات میں تمام لوگوں کو طرح صحیح کام بھی کرتے تھے اور غلط بھی اور متعدد واقعات و روایات سے اس پر استدلال کرتے ہو جیسا کہ تمہاری صحاح میں موجود ہے.

اس کے بعد آپ کے اس دعوے پر کون سی دلیل و حجت ہے کہ کتاب خدا اور سنت نبی(ص) سے تمسک کافی ہے جبکہ یہ سنت تمہارے نزدیک غیر محفوظ اور اس میں خدا کا امکان ہے.

تمہارے معتقدات کے لحاظ سے کتاب خدا اور حدیث نبی(ص) سے تمسک ضلالت و گمراہی سے محفوظ نہیں ہے، خصوصا جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ پورے قرآن کی تفسیر بیان کرنے والی حدیث نبی(ص) ہے، تمھارے پاس کون سی دلیل ہے کہ وہ تفسیر کتاب خدا کے مخالف نہیں ہے؟

ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ: رسول(ص) نے مصلحت کی بنا پر احکام میں بہت جگہوں پر قرآن کی مخالف کی ہے:

میں تعجب سے کہا: اس مخالفت کے سلسلے میں کوئی مثال ہے؟

اس نے کہا: قرآن کہتا ہے:

( الزَّانِيَةُ وَ الزَّانِي‏ فَاجْلِدُوا كُلَّ واحِدٍ مِنْهُما مِائَةَ جَلْدَةٍ .) نور/2

۶۶

جبکہ رسول(ص) نے زانی و زاینہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور یہ حکم قرآن میں نہیں ہے.

میں نے کہا : زنائے محصنہ کرنے والے ( شادی شدہ) کے لئے سنگسار کا حکم دیا ہے. خواہ مرد ہو یا عورت اورغیر شادی شدہ مرد وعورت کو کوڑے لگانے کا حکم دیا ہے.

اس نے کہا: قرآن میں شادی شدہ و غیر شادی شدہ نہیں ہے، خدا نے مخصوص طور پر نہیں بکلہ مطلق طور پر فرمایا ہے کہ : زانی و زانیہ.

میں نے کہا: اس لحاظ سے تو قرآن میں ہر حکم مطلق ہے اسے رسول(ص) نے مخصوص کیا ہے، اور یہ قرآن کے مخالف ہے. تم ہی تو کہہ رہے ہو کہ رسول(ص) نے اکثر احکام میں قرآن کی مخالفت کی ہے.

اس نے بوکھلا کے کہا: فقط قرآن معصوم ہے، کیونکہ اس کی حفاظت کی خود خدا نے ذمہ­داری لی ہے. لیکن رسول(ص) بشر ہیں، ا ن سے خطا بھی ہوسکتی ہے، جیسا کہ آپ کی شان میں قرآن فرماتا ہے:

( قُلْ إِنَّما أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ )

میں نے کہا: پھر تم صبح، ظہر و عصر اور مغرب و عشا کی نمازیں کیوں پڑھتے ہو کیونکہ قرآن نے بغیر وقت کی تخصیص کے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے؟

اس نے جواب دیا کہ: قرآن میں ہے کہ:

( إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً )

۶۷

نماز مومنین پر وقت کے ساتھ واجب کی گئی ہے. صرف رسول(ص) نماز کے اوقات بیان کردیتے ہیں.

میں نے کہا: اوقات نماز کے بارے میں رسول(ص) کی تصدیق کیوں کرتے ہو، جبکہ زانی کے لئے سنگسار کے حکم میں ان کی تردید کرتے ہو؟

موصوف نے مجھے بے نتیجہ اور متناقض فلسفہ سے مطمئن کرنے کی انتھک کوشش کی لیکن وہ اپنے مدعا پر کوئی عقلی و منطقی دلیل قائم نہ کرسکے، مثلا ان کا یہ قول کہ نماز متعلق شک کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ رسول(ص) نے اپنی پوری حیات میں ہر روز پانچ مرتبہ نماز ادا کی ہے، لیکن رجم ( سنگسار) پر اطمینان کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ آپ نے اپنی پوری زندگی میں ایک یا دو مرتبہ انجام دیا ہوگا. اسی طرح اس کا یہ کہنا کہ رسول(ص) سے اس وقت کوئی غلطی نہیں ہوتی تھی جب خدا رسول(ص) کو اپنے پیغام پہونچانے کا حکم دیتا تھا. لیکن جب اپنی طرف سے کوئی بات کہتے تھے تو وہ معصوم نہیں ہوتے تھے. اسی لئے صحابہ آپ سے ہر ایک بات میں یہ پوچھتے تھے کہ یہ آپ اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں یا خدا کا پیغام ہے، پس اگر رسول(ص) کہتے کہ خدا کی طرف سے ہے تو صحابہ بغیر چون و چرا قبول کر لیتے تھے. اور اگر یہ فرماتے کہ میں اپنی عقل سے کہہ رہا ہوں تو اس وقت صحابہ آپ(ص) سے بحث و مباحثہ کرتے اور آپ کو نصیحت کرتے تھے اور رسول(ص) صحابہ کی رائے کو تسلیم کر لیتے تھے اور کبھی تو بعض صحابہ کی رائے کی موافقت اور آپ کی رائے کی مخالفت میں قرآن نازل ہوتا تھا. جیسا کہ بدر کے قیدیوں کے سلسلہ میں ہوا ایسے اور بھی بہت سے مشہور واقعات ہیں. میں نے بھی اسے مطمئن کرنے کی پوری کوشش کی لیکن بے فائدہ ثابت ہوئی کیونکہ اہلسنت والجماعت اسی سے مطمئن ہوتے ہیں ان کی صحاح ایسی روایات سے بھری پڑی ہیں کہ جن سے رسول(ص) کی عصمت مخدوش ہوتی ہے. اور آپ کو عام

۶۸

انسانوں سے بھی پست قرار دیتی ہیں ایک ذہین یا فوج کے سپہ سالار سے یا صوفیوں کے شیخ طریقت بھی کم رتبہ انسان بنا کر پیش کرتی ہیں. میں نے اس بات میں مبالغہ نہیں کیا ہے کہ وہ عام لوگوں سے بھی رسول(ص) کو کم رتبہ سمجھتے ہیں کیونکہ جب ہم اہلسنت کی صحاح کی بعض روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان سے واضح طور پر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ امویوں کی فکر اس عہد سے آج تک مسلمانوں کی عقلوں میں کار فرما ہے.

جب ہم ان احادیث کی غرض وغایت کی تحقیق کریں گے تو ایک حتمی نتیجہ پر پہونچ جائیں گے. اور وہ یہ کہ امویوں نے اپنے عہد حکومت میں مسلمانوں سے حدیثیں گڑھوائیں، سب سے زیادہ معاویہ ابن ابو سفیان نے یہ کام کرایا. بنی امیہ ایک روز بھی اس بات کے معتقد نہیں ہوئے کہ محمد ابن عبداللہ، اللہ کے رسول(ص) یا وہ نبی برحق ہیں وہ تو زیادہ سے زیادہ آپ کو جادو گر سمجھتے تھے کہ جو لوگوں پر غالب آگئے تھے اور غریب و مستضعف لوگوں کے نام پر اپنی حکومت مضبوط کرتی تھی خصوصا غلاموں نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور مدد کی.

بنی امیہ کا یہی گمان تھا، اور بعض ظن و گمان گناہ ہوتے ہیں جب ہم تواریخ کی کتب کا مطالعہ کریں گے تو معاویہ اور اس کی شخصیت واضح ہوگی اور یہ بات بھی آشکار ہوجائے گی کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کیا خصوصا حکومت کے زمانہ میں کیا کارنامے تھے. اس وقت یہ گمان حقیقت میں بدل جائے گا.

ہم سب جانتے ہیں کہ معاویہ کون ہے، اس کی ولدیت کیا ہے، ابوسفیان، اس کی ماں ہندہ، وہ طلیق بن طلیق تھا کہ جس نے جوانی کو اپنے باپ کے ساتھ رسول(ص) سے جنگ اور ان کی تبلیغ کے خاتمہ کے لئے لشکر جمع کرنے میں گذار تھا. لیکن جب ان کی تمام کوششیں بے کار ہوگئیں اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غالب ہو گئے تو موقع غنیمت سمجھ کر اسلام قبول کر لیا. حالانکہ مطمئن نہ تھا. رسول(ص) نے بھی شرافت

۶۹

اور خلق عظیم کی بنا پر انہیں معاف کردیا اور کہدیا کہ تم آزاد ہو، لیکن رسول(ص) کی وفات حسرت آیات کے بعد ابوسفیان فتنہ پردازی اور اسلام کو نقصان پہونچانے کی کوشش کرنے لگا. ایک شب امام علی علیہ السلام کے پاس آیا اور آپ کو ابوبکر کی حکومت و خلافت کے بارے میں برانگیختہ کرنا چاہا اور کہنے لگا کہ اموال و افواج سے میں حاضر ہوں، لیکن حضرت علی علیہ السلام اس کے ارادے کو سمجھ گئے اور اس کی باتوں کو رد کردیا، ابوسفیان کی تمام عمر اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں گذری یہاں تک کہ جب خلافت کی باگ ڈور اس کے چچا زاد بھائی عثمان ابن عفان کے ہاتھوں میں آئی تو اس نے اپنے کفر و نفاق کا کھل کر اظہار کیا اور کہا: اے بنی امیہ! خلافت کو گیند کی طرح نچائو ابوسفیان قسم کھا کے کہتا ہے کہ جنت و جہنم کوئی چیز نہیں ہے.(1) ابن عساکر نے اپنی تاریخ کی جلد6 کے ص407 پر انس سے روایت کی ہے کہ جس زمانہ میں ابوسفیان کی آنکھوں کی بصارت ختم ہوچکی تھی، عثمان کے پاس آیا اور کہا کہ یہاں کوئی اور تو نہیں بیٹھا ہے؟ انھوں نے کہا کہ نہیں کوئی نہیں ہے: ابوسفیان نے کہا کہ: جاہلیت والا قانون جاری کرو، اور ملک کو آسودگی میں بدلو اور عظیم عہدوں کو بنی امیہ میں تقسیم کردو.ابوسفیان کے بیٹے معاویہ کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ معاویہ کون ہے؟ ہم یہاں اس کے حالات کو قلم بلند کر رہے ہیں. اور یہ کہ اس نے شام میں اپنی حکومت کے زمانہ میں امت محمدی(ص) کے ساتھ کیا سلوک کیا.مورخین لکھتے ہیں کہ جب معاویہ مسند خلافت پر جبرا متمکن ہوا تو اس نے قرآن و سنت کی ہتک کی، شریعت کی حدود کو پس پشت ڈال دیا اور ایسے افعال کا مرتکب ہوا جن کے لکھنے سے قلم کے تقدس پر حرف آتا ہے اور

____________________

1.طبری جلد11/ص357، مروج الذہب جلد1/ص440

۷۰

بیان کرنے سے زبان کی عظمت جاتی ہے، ہم ان عیوب پر اپنے سنی بھائیوں کی خاطر پردہ ڈالتے ہیں کیونکہ ان کے دل معاویہ کی محبت سے سرشار ہیں اور اس کا دفاع کرتے ہیں.

لیکن ہم معاویہ کے نفسیات اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں اس کے عقیدہ کو بیان کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے، عقیدہ کے سلسلہ میں معاویہ بھی اپنے باپ دادا سے جدا نہیں ہے اس نے ہندہ جگر خوار کا دودھ پیا ہے کہ جو زنا و فسق و فجور میں مشہور تھی(1) اسی طرح اسے اپنے باپ شیخ المنافقین سے میراث ملی تھی کہ جس نے دل سے کبھی اسلام قبول نہیں کیا تھا.

جیسا کہ ہم نے باپ کے نفسیات کے بارے میں بیان کیا تھا وہی آپ بیٹے کے لئے تصور کر لیجئے، لیکن معاویہ چالاکی اور نفاق میں اپنے باپ سے بھی آگے تھا.

زبیر ابن بکار مطوف ابن مغیرہ نے ابن شعبہ ثقفی سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ:

ایک روز میرے والد معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ سے گفتگو کر کے میرے پاس آئے اور معاویہ کا تذکرہ کر رہے تھے، ان کی عقل اس حرکت سے بہت پریشان تھی جو انہوں نے معاویہ سے سرزد ہوتے دیکھی تھی اور وہ یہ کہ جب ایک رات میرے والد واپس آئے تو میں نے انہیں رنجیدہ پایا، تھوڑی دیر تو میں خاموش رہا اور خیال کیا کہ کوئی بات ہوگئی ہوگی

____________________

1.ربیع الابرار جلد3/باب القربات والانسان، شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید جلد1/ ص111

۷۱

پھر میں نے کہا آج کی رات میں آپ کو رنجیدہ کیوں دیکھ رہا ہوں؟

انہوں نے جواب دیا: بیٹے میں خبیث ترین شخص کے پاس سے آرہا ہوں. میں نے کہا: کیا ہوا؟

انہوں نے کہا: کہ آج معاویہ کے پاس کوئی نہیں تھا میں نے معاویہ سے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ اپنی مراد کو پاگئے ہیں، اگر آپ عدل کا اظہار کریں، سخاوت سے کام لیں تو آپ کی عظمت و بزرگی میں اضافہ ہوگا اور اگر اپنے بھائی بنی ہاشم کو خبر گیری کریں تو ان کے لئے صلہ رحم ہوگا. قسم خدا کی آج ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تمہارے لئے باعث خوف ہو.

اس سے آپ کو دائمی ثواب ملے گا اور آپ کا ذکر باقی رہے گا. معاویہ نے کہا افسوس صد افسوس! میں کس ذکر کی بقا کی امید کروں، بنی تمیم کے ایک شخص کے ہاتھ میں حکومت و خلافت آئی تو اس نے عدل سے کام لیا، اور کچھ کرنا تھا کیا، جب وہ ہلاک ہوگیا تو اس کا ذکر بھی ختم ہوگیا، ہاں کوئی کہنے والا کبھی ابوبکر کہہ دیتا ہے، پھر بنی عدی کے ایک شخص کے ہاتھ میں زمام خلافت آئی تو اس نے اپنی سی کی اور دس سال سخاوت کی، قسم خدا کی جیسے وہ ہلاک ہوا ویسے ہی اس کا ذکر فنا ہوگیا مگر یہ کہ کبھی کوئی عمر کے نام سے یاد کر لینا ہے. پھر ہمارے خاندانی عثمان بن عفان خلافت کے مدار الہام بنے ان کے بعد مسند خلافت پر وہ شخص جلوہ افروز ہوا کہ نسب میں جس کی برابری کوئی نہیں کر سکتا، اس نے جو کچھ کیا کیا اور جو اس کے ساتھ ہوا ہوا، اور جب

۷۲

وہ ہلاک ہوگیا تو اس کا ذکر اور اس کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کا ذکر بھی ختم ہوگیا، لیکن بنی ہاشم کی فرد کا نام با آواز بلند ہر روز پانچ مرتبہ لیا جاتا ہے، اشہد ان محمدا رسول اللہ، بدبخت اس کے ہوتے ہوئے کون سا عمل اور کون سا تذکرہ باقی رہے گا؟ قسم خدا کی قتال کے علاوہ اب کوئی چارہ کار نہیں.(1)

بدبخت کمینہ خدا تجھے رسوا کرے، تو نے ذکر رسول(ص) کو دفن کرنے کی ٹھانی ہے، اور اس سلسلہ میں بے شمار دولت خرچ کی ہے، لیکن تیری ساری تگ و دد بے کار ہوگئی کیونکہ خدا تیری گھاٹ میں ہے. اور اپنے رسول(ص) کے لئے فرماتا ہے:

( وَ رَفَعْنا لَكَ‏ ذِكْرَكَ )

تم اس ذکر کو کبھی دفن نہیں کرسکتے جس کو رب العزت نے بلند کیا ہے، تم اپنی پوری کوشش اپنے ہمنوائوں کو جمع کرنے کے بعد بھی اس شمع کو نہیں بجھا سکتے جسے خدا نے روشن کیا ہے، خدا اپنے نور کو کامل اور تمہارے نفاق کو آشکار کر کے رہے گا. اگر تم مشرق و مغرب کے بھی بادشاہ بن جائو گے تو بھی تمہاری ہلاکت کے ساتھ ساتھ تمہارا نام مٹ جائے گا. مگر یہ کہ کوئی ذاکر تمہارے ان سیاہ کارناموں کا تذکرہ کرے گا کہ جن کے ذریعہ تم اسلام کو نابود کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ رسول(ص) نے فرمایا ہے.(2) ذریت ہاشم محمد(ص) ابن عبداللہ کا ذکر صدیوں اور نسلوں کے بعد

____________________

1.کتاب الموفقات، ص576، طبع وزارت الاوقاف بغداد، سنہ1392 مروج الذہب جلد1، ص321، شرح ابن ابی الحدید جلد5، ص130، الغدیر جلد10 ص283..

2.کتاب صفین ص44.

۷۳

بھی باقی رہے گا. یہاں تک کہ خدا پورے کرہ ارض پر ان کی حکومت قائم کرے گا. اور جب بھی ذاکر آپ کا ذکر کرے گا تو صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کرے گا.

تمہاری اور بنی امیہ کی ناک گھسی جاتی رہے گی کہ انہوں نے تمہاری حکومت و خلافت کو اہلبیت کے خلاف مستحکم بنانے کو کوشش کی اور ان کے فضائل کو چھپانا چاہا لیکن ان کے فضائل پھیلتے گئے روز قیامت جب تم خدا سے ملاقات کرو گے وہ تم پر غضبناک ہوگا کیونکہ اس کی شریعت میں تحریف کی لہذا اس کی سزا تمہیں ملے گی.

اور جب ہم ان کے خلف نا سلف یزید ابن معاویہ شراب خور، فاسق و فاجر کو دیکھتے ہیں تو جس طرح ان سے ذلت و رسوائی، شراب خوری، زناکاری قمار بازی میراث میں ملی تھی اسی طرح عقیدہ بھی معاویہ اور ابوسفیان سے میراث میں ملا تھا، اگر بیہودہ صفات اسے میراث میں نہ ملے ہوتے تو معاویہ اسے اپنا جانشین نہ بناتا اور مسلمانوں پر مسلط نہ کرتا، وہ سب اسے بخوبی جانتے تھے جب کہ ان میں فضلائے صحابہ حسین ابن علی(ع) سید شباب اہل جنت ایسے افراد موجود تھے میں یقین کےساتھ کہتا ہوں کہ معاویہ نے اسلام اور مسلمانوں کی توہین میں اپنی تمام عمر اور حرام طریقہ سے حاصل کی ہوئی کافی دولت صرف کی تھی اور ہم یہ دیکھ چکے کہ وہ رسول(ص) کے نام کو کس طرح مٹا دینا چاہتا تھا لیکن جب وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا تو وصی نبی(ص) حضرت علی علیہ السلام کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکائی اور اس وقت تک آپ سے لڑتا رہا جب تک جبرا بادشاہ نہ بن بیٹھا، بری باتوں کو رواج دیا، اپنی حکومت کے سارے عالوں کو منبروں سے ہر نماز کے بعد حضرت عل علیہ السلام اور اہلبیت نبی(ص) پر لعنت کرنے کے لئے لکھا، اصل میں معاویہ اس راستہ سے رسول(ص) پر لعنت کرنا چاہتا تھا، اور جب اس نے اپنی موت

۷۴

کو قریب دیکھا اور نامراد و ناکام دنیا سے رخت سفر بندھتے دیکھا تو اپنے بیٹے یزید کو بلاکر امت کاحاکم بنادیا تا کہ اس کے اور اس کے باپ ابوسفیان کے ارادوں کو یزید پورا کرے آگاہ ہو جائو! وہ مقاصد اسلام کی نابودی اور جاہلیت کی بازگشت تھی.(1)

فاسق و فاجر یزید نے زمام خلافت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے باپ کی ترغیب کےمطابق اپنے سرداروںکو اسلام کو نابود کرنے کا حکم دے دیا، پہلا اقدام اس نے یہ کیا کہ مدینہ رسول(ص) کو اپنے کافر لشکر کے لئے مباح کردیا، اشکر نے تین روز کی مدت میں جو کچھ کیا کیا، دس ہزار بہترین صحابہ کو قتل کیا اس بت پرست نے سید شباب اہل جنت، ریحانۃ النبی(ص) بلکہ تمام اہلبیت(ع) کو قتل کیا حالانکہ وہ امت کے چاند تھے، اور اہلبیت عصمت کی چادر چھین لی،( انا لله و انا الیه راجعون)

اگر خدا نے اسے جلد ہی جہنم واصل نہ کیا ہوتا تو یہ بدبخت و کمینہ مزید اسلام و مسلمانوں کے سرپر بلا لاتا، جس طرح ہم نے یزید کے باپ دادا کے عقیدہ کا انکشاف کیا اسی طرح اس بحث میں یزید کے عقیدہ کا بھی انکشاف کرنا اہمیت کا حامل ہے.مورخین کا بیان ہے کہ حسرہ وہ بدترین سانحہ ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان مرد و عورت قتل ہوئے ہیں اور ہزاروں باکرہ لڑکیوں کا افضا ہوا ہے، اور ہزاروں

____________________

1.العقد الفرید جلد/2 ص301 پر ابن عبدربہ نے نقل کیا ہے کہ معاویہ نے منبر سے حضرت علی(ع) پر لعنت کی اور اپنے کارندوں کو لکھا کہ منبر سے حضرت علی(ع) پر لعنت کیا کریں سو انھوں نے شروع کردی ام سلمہ نے معاویہ کو لکھا: تم منبروں سے خدا و رسول(ص) پر لعنت کررہے ہو، اس لئے کہ تم علی بن ابی طالب(ع) اور ان کے دوستوں پر لعنت کررہے ہو، اور میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا و رسول(ص) انہیں دوست رکھتے ہیں لیکن معاویہ نے ان باتوں پر اعتماد نہ کیا.

۷۵

اسی لشکر کے سپاہیوں سے حاملہ ہوئیں، اور اس درندگی کو دیکھ کر باقی لوگوں نے اس بات پر یزید کی بیعت کر لی کہ وہ یزید کے غلام ہیں اور جس نے بیعت سے انکار کیا وہ قتل کیا گیا. اور جب یزید کو اس شرمناک واقعہ کی اطلاع دی گئی کہ جس کی مثال تاریخ بھی پیش کرنے سے قاصر ہے. جس میں روا رکھے جانے والے مظالم کے سامنے مغلوں، تاتاریوں اور اسرائیلیوں کے جرائم ماند نظر آتے ہیں، تو وہ بہت خوش ہوا اور رسول اسلام(ص) کی شماتت کا اظہار کرتے ہوئے زبعری کے وہ اشعار پڑھتا ہے.(1) جو اس نے جنگ احد کے بعد پڑھے تھے.

ليت‏ أشياخي‏ ببدر شهدوا

 

جزع الخزرج من وقع الاسل‏

لأهلّوا و استهلّوا فرحا

 

ثم قالوا يا يزيد لا تشل‏

قد قتلنا القرم من ساداتهم‏

 

و عدلناه ببدر فاعتدل‏

لعبت هاشم بالملك فلا

 

خبر جاء و لا وحي نزل‏

لست من خندف إن لم أنتقم‏

 

من بني أحمد ما كان فعل‏

     

کاش بدر میں قتل ہونے والے بزرگ ہوتے تو آج تلور کی باڑ سے گھبرائے ہوئے خزرج کو دیکھنے اور خوشی سے اچھل پڑتے پھر کہتے اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں یقینا ہم نے( بنی ہاشم کے) سورمائوں کو قتل کیا اور ہی ہم نے بدر میں قتل ہونے والوں کا بدلہ لیا ہے. اگر میں اولاد احمد(ص) سے انتقام نہ لوں تو خذف سے نہیں ہوں یہ تو بنی ہاشم کا بادشاہت حاصل کرنے

____________________

1.انساب الاشراف بلاذری جلد5، ص43، لسان المیزان جلد6، ص294، تاریخ ابن کثیر جلد8، ص221، الاصابۃ جلد3، ص473.

۷۶

کے لئے ایک ڈھونگ تھا ورنہ نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی خبر آئی ہے.

اور اس کا دادا ابوسفیان خدا و رسول(ص) کا پہلا دشمن صاف لفظوں میں یہ کہتا ہے کہ:

اے بنی امیہ خلافت کو گیند کی طرح نچائو ابوسفیان قسم کھا کے کہتا ہے کہ جنت و جہنم کچھ نہیں ہے،

اور اس کا باپ معاویہ خدا و رسول(ص) کا دوسرا دشمن صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ:

اس وقت جب موذن آذان میں اشہد ان محمداً رسولُ اللہ کہتا ہے. کم بخت اس کے کون سا ذکر و عمل باقی ہے؟.

قسم خدا کی قتال کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے.

لعبت هاشم بالملك فلا

 

خبر جاء و لا وحي نزل‏

یہ تو ( بنی ہاشم کا بادشاہت حاصل کرنے کے لئے ایک ڈھونگ تھا. ورنہ نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی خبر آئی ہے.

۷۷

ہم خدا و رسول(ص) اور اسلام کے بارے میں ان کے عقائد سے آگاہ ہوچکے اور ان کے اعمال شنیعہ کا مطالعہ کرچکے کہ جن کے ذریعہ وہ اسلام کے ستون اور رسول اسلام(ص) کی شخصیت کو مخدوش کرنا چاہتے تھے اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان میں سے ہم نے بہت ہی مختصر کا تذکرہ کیا ہے اگر ہم وسعت دینا چاہیں تو صرف معاویہ کے ایسے اعمال کے لئے ایک ضخیم جلد درکار ہے، ایک زمانہ میں جن پر ننگ و عار اور فضیحت کی بنیاد ہے اگر چہ بنی امیہ سے بخشش و عطا وصولنے والے بغص علمائے سوء نے ان عیوب کی پردہ پوشی کی حتی المقدور کوشش کی ہے، ان علماء کو لالچ نے اندھا بنادیا تھا، انہوں نے دنیا کو آخرت کے عوض خریدا تھا اور باطل سے حق کا سودا کر لیا تھا، حالانکہ وہ حقیقت سے واقف تھے، اکثر مسلمان اس سازش کا شکار ہوگئے.

اس مختصر بحث میں جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ مسلمانوں پر بنی امیہ اور ان کے پیروکاروں کا کتنا اثر ہوا کہ جنہوں نے سو سال تک مسلمانوں پر حکومت کی ہے جب کہ انھوں نے اپنا پرانا مسلک نہیں چھوڑا تھا.

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ منافقوں کا مسلمانوں پر بہت برا اثر پڑا ان کے عقیدے بدل دیئے، اخلاق و معاملات اور راستوں میں تبدیلی پیدا کر دی یہاں تک کہ ان کی عبادات میں رخنہ ڈال دیا اور نہ یہ کیسے ممکن تھا کہ امت حق کو نصرت سے چشم پوشی کر کے دشمنان خدا و رسول(ص) کے شانہ بشانہ ہوتی اور اولیائے خدا کی ذلت و رسوائی نہ ہوتی. اور ہمارے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم طلیق ابن طلیق ، لعین ابن لعین معاویہ کی خلافت تک رسائی کی تفسیر کریں. کہ جو اپنے کو رسول(ص) کا خلیفہ کہہ رہا تھا، ایک وقت میں مورخین ہمیں فریب دیتے ہیں کہ لوگوں نے عمر ابن خطاب سے کہا کہ اگر ہم آپ کو کجروی پر دیکھے تو شورش برپا کردیتے (تلواروں سے آپ کامقابلہ کرتے) انہیں مورخین

۷۸

کو ہم یہ لکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ معاویہ نے قہر و غلبہ سے مسند خلافت پر قبضہ کر لیا اور اپنے پہلے خطبہ میں تمام صحابہ سے کہا کہ میں نے تم سے نماز پڑھنے روزے رکھنے کے لئے جنگ نہیں کی ہے میں نے تو تم پر اپنی حکومت کے استحکام کے لئے جنگ کی تھی سو آج میں تمہارا حاکم ہوں، صحابہ میں سے کسی نے جنبش نہ کی اور نہ ہی کسی نے کوئی اعتراض کیا بلکہ اس کے نقش قدم پر چلتے رہے، اور یہ ہی نہیں بلکہ جس سال معاویہ خلیفہ ہوا اس سال کا نام بھی عام الجماعت رکھ دیا حالانکہ وہ سال عام الفرقہ تھا.

اس کے بعد ہم صحابہ کو اس بات پر راضی دیکھتے ہیں کہ معاویہ اپنے بیٹے کو ولی بنا دے جس کے بارے میں وہ نا واقف نہ تھے، معاویہ کے اس فعل سے بھی ان میں کوئی تحریک پیدا نہ ہوئی، ہاں جن صالح افراد میں پیدا ہوئی تھی انہیں یزید نے حادثہ حرہ میں قتل کرادیا اور باقی بچ جانے والوں سے اس بات پر بیعت لی کہ وہ یزید کے غلام ہیں، ان تمام باتوں کا کیا جواب ہوسکتا ہے؟ اس کے بعد ہم مومنوں کی امارت و رسالت کی باگ ڈور بنی امیہ کے فاسق ترین اشخاص مروان ابن حکم اور ولید ابن عقبہ وغیرہ کے ہاتھوں میں دیکھتے ہیں.

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مومنوں کے حاکم و امیر نے مدینہ رسول(ص) کو مباح قرار دے دیا لشکر نے جو کچھ کیا، کیا، عصمت دری کی خانہ خدا کو آگ لگائی، حرم خدا میں بہترین صحابہ کا قتل عام کیا، مومنوں کے حاکم نے ذریت رسول(ص) کا خون بہایا یعنی ریحانہ و ذریت رسول(ص) کو تہ تیغ کیا، ان کی بیٹیوں کو قید کیا، امت میں سے کسی میں جرائت نہ ہوئی اور کسی نے بھی جوانان جنت کے سردار کی مدد نہ کی.

انہی مومنوں کے امیروں میں سے ولید نے کتاب خدا کو پارہ پارہ کیا اور قرآن کو مخاطب کر کے کہا، جب روز حشر خدا کے پاس جانا تو کہدینا کہ پروردگارا مجھے ولید نے پارہ پارہ کیا.

۷۹

انہی مومنوں کے امیروں نے حضرت علی ابن ابی طالب(ع) پر منبروں سے لعنت کی اور اپنی حکومت کے لوگوں کو علی علیہ السلام پر لعنت کا حکم دیا اس طریقہ سے وہ رسول(ص) پر لعنت کرتے تھے پھر بھی ان مومنوں میں کوئی حرکت و جنبش پیدا نہ ہوئی، اور اگر کسی نے علی علیہ السلام پر لعنت کرنے سے انکار کردیا تو اسے قتل کردیا گیا. دار پر چڑھا دیا گیا.انہی مومنوں کے امیروں نے کھلم کھلا شراب خوری، زناکاری، لہو و لعب، ناچ وغیرہ کا ارتکاب کیا. لیکن کوئی اہمیت نہ دی گئی. پس جب امت اسعدیہ کے حاکموں کے اخلاقی انحطاط کی یہ حالت ہے تو ان میں ایسے عوامل بھی ہوں گے جنہوں نے ان کے عقیدوں کو متاثر کیا ہوگا ہماری اس بحث کا یہ مہم عنصر ہے کیونکہ اس کا تعلق عصمت اور رسول(ص) کی شخصیت سے ہے.

اوّلاً جس سے ہماری تنبیہ کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ ابوبکر و عمر و عثمان نے حدیث نبی(ص) کو قلم بند کرنے سے منع کر دیا تھا بلکہ بیان کرنے سے بھی روک دیا تھا.ابوبکر نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ایک روز لوگوں کو جمع کیا اور کہا تم لوگ رسول(ص) سے احادیث نقل کرتے ہو اور ان میں اختلاف کرتے ہو، اس سے تمہارے بعد لوگوں میں شدید اختلاف ہوگا لہذا آج سے تم رسول(ص) کی کوئی حدیث بیان نہ کرنا اور جو شخص تم سے سوال کرے اس سے کہدو ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب خدا موجود ہے. اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو.(1) اسی طرح عمر ابن خطاب نے لوگوں کو حدیث رسول(ص) بیان کرنے سے منع کیا، قرظہ ابن کعب کہتے ہیں جب ہم عمر ابن خطاب کے ساتھ عراق جارہے تھے اس

____________________

1.تذکرۃ الحفاظ، "ذہبی" جلد1، ص3002.

۸۰