اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 291
مشاہدے: 32506
ڈاؤنلوڈ: 3088


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32506 / ڈاؤنلوڈ: 3088
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

وقت درمیان راہ عمر نے کہا کہ تم لوگ جانتے ہو میں تمہارے ساتھ ساتھ کیوں چل رہا ہوں؟ سب نے کہا کہ ہماری عزت افزائی کے لئے انہوں نے کہا اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ جب تم دیہاتوں سے گذرو تو قرآن کو اس طرح پڑھنا جس طرح مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے انہیں احادیث سے آگاہ نہ کرنا کہ اس میں مشغول ہوجائیں، قرآن کو زیادہ پڑھو اور رسول(ص) سے کم روایت نقل کرو میں بھی تمہارا شریک کار ہوں.یہی راوی کہتا ہے کہ میں نے اس کے بعد کوئی حدیث نقل نہیں کی جب ہم لوگ عراق پہونچے تولوگ تیزی سے ہمارے پاس آئے تاکہ ہم سے حدیث کے بارے میں سوال کریں قرظہ نے ان سے کہا کہ ہمیں اس سے عمر نے منع کر دیا ہے.(1) عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ عمر ابن خطاب نے چپہ چپہ سے صحابہ کو جمع کر کے کہا: رسول(ص) کی حدیث بیان نہ کیا کرو. اور کہا کہ اس سلسلہ میں تا زندگی میرا ساتھ دینا اور مجھ سے جدا نہ ہونا پس صحابہ نے ان ک زندگی میں کوئی حدیث بیان نہ کی.(2) خطیب بغدادی اور ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں تحریر کیا ہے کہ: عمر ابن خطاب نے مدینہ میں تین صحابہ یعنی ابو درداء، ابن مسعود اور ابو مسعود انصاری کو جمع کرنے کا حکم دیا، صحابہ نے سوچا شاید عمر انہیں ایک انداز سے مرتب کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان میں کوئی اختلاف باقی نہ رہے اس لئے انہوں نے اپنی کتاب کو عمر کے حوالے کردیا اور عمر نے سب کو جلا دیا.(3)

____________________

1.مستدرک الحاکم جلد،1، ص110، کنز العمال جلد5، ص236.

2.سنن ابن ماجہ جلد1، ص12، سنن داری، جلد1، ص85، تذکرۃ الحفاظ جلد1.

3.الطبقات الکبری ابن سعد، جلد5، ص140.

۸۱

اس کے بعد عثمان مسند خلافت پر آتے ہیں اور وہ تمام لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ کسی کو اجازت نہیں ہے کہ وہ ان حدیثوں کو بیان کرے جو ابوبکر و عمر کے زمانہ میں نہیں سنی گئیں.(1)

اس کے بعد معاویہ ابن ابوسفیان کا زمانہ آتا ہے جب وہ مسند خلافت پر متمکن ہوا تو منبر پر جاکر کہا: لوگو! خبر دار تم نے رسول(ص) سے کوئی حدیث نقل کی مگر وہ حدیث جو عہد عمر میں بیان کی گئی.(2)

رسول(ص) کو حدیثوں کے نقل کرنے پر پابندی میں کوئی نہ کوئی راز ضرور تھا اور وہ یہ کہ کوئی ان حدیثوں پرعمل نہ کرے ورنہ اس طویل مدت میں رسول(ص) کی حدیثوں کو نقل کرنے پر کیوں پابندی لگائی تھی. اور حدیثوں کا لکھنا بھی عمر ابن عبدالعزیز کے زمانہ میں شروع ہوا.

گذشتہ بحثوں سے خصوصا اس نص صریح سے خلافت کے بارے میں جس کا رسول(ص) نے اعلان کیا تھا. ابوبکر و عمر نے اس حدیث کو رسول(ص) سے نقل کرنے سے اس لئے منع کر دیا تھا کہ کہیں یہ نصوص دنیا کے گوشہ و کنار میں یہاپ تک کہ دیہاتوں میں نہ پہونچ جائیں کہ لوگوں پر یہ بات آشکار ہو جائے گی کہ عمر و ابوبکر کی خلافت شرعی نہیں ہے. بلکہ اس کے حقیقی وارث توعلی بن ابی طالب(ع) ہیں اور ان کے اس حق کو غصب کر لیا گیا ہے اس موضوع پر ہم اپنی کتاب. "لاکون مع الصادقین" میں سیر حاصل بحث کرچکے ہیں. مزید اطمینان کے لئے اس کا مطالعہ فرمائیں.عمر بن خطاب کے بارے میں تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہ ہر اس

____________________

1.منتخب کنز العمال حاشیہ مسند احمد، جلد4، ص64.

2.خطیب بغدادی، شرف اصحاب الحدیث، ص91.

۸۲

اور آپ کی طرف بھی ذکر(قرآن) کو نازل کیا ہے، ان کے لئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں. یا یہ صاحب قرآن کو رسول(ص) سے بھی زیادہ جانتے تھے.یہ ان لوگوں کی کوشش ہے کہ جو کہتے ہیں کہ قرآن مجید اکثر عمر کی رائے کے موافق اور رسول(ص) کی رائے کے مخالف نازل ہوتا تھا، ان نا سمجھوں نے بہت بڑی بات کہہ دی. صحیح بخاری میں مجھے یہ واقعہ پڑھتے ہوئے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ عمر نے عمار یاسر کی روایت قبول کرنے سے انکار کردیا. خصوصا اس روایت کو جس میں نبی(ص) نے انہیں تیمم کا طریقہ تعلیم دیا تھا. اسی طرح عمار کے اس قول سے بھی مجھے تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے عمر کے خوف سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اسے بیان نہ کروں، یہ بات تو واضح ہے کہ عمر حدیث رسول(ص) بیان کرنے والے پر غضبناک ہوتے تھے. اور راوی کو مصائب کا سامنا کرنا پڑتا تھا.

جب خلیفہ سے وہ صحابہ بھی خوف کھاتے تھے جن کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا وہ مدینہ سے باہر نہیں حاسکتے تھے. یہاں تک کہ جو لوگ کہیں جاتے تھے انہیں حدیث بیان کرنے سے شدت کے ساتھ منع کیا جاتا تھا. ان کی ان کتابوں کو جن میں انہوں نے حدیثیں جمع کی تھیں جلا دیا گیا تھا. اور ان میں کچھ کہنے کی جرات بھی نہیں تھی. تو بے چارے عمار کی حیثیت ہی کیا تھی اور علی(ع) ابن ابی طالب کے شیعہ ہونے کے سبب ویسے بھی قریش کی نظروں میں خار تھے. اور جب ہم ٹھنڈے دل سے تامل کے ساتھ " یوم الخمیس" کہ جس روز رسول(ص) معبود حقیقی سے جاملے. کہ جس دن کو ابن عباس نے روز مصیبت کا نام دیا ہے. اس روز رسول(ص) نے حاضرین سے قلم و دوات طلب کیا تاکہ ان لوگوں کے لئے ایک نوشتہ لکھ دیں جس سے ان کے بعد کبھی گمراہ نہ ہوں، اس روز بھی ہم عمر ابن خطاب کو رسول(ص) پر اعتراض کرتے ہوئے دیکھتے ہیں." معاذ اللہ رسول(ص) پر ہذیان کا الزام لگاتے ہیں اور

۸۳

متناقض رائے کا موافق تھا جس کا تعلق خلافت سے ہوتا تھا. ایک جگہ ہم انہیں ابوبکر کی بیعت کو استوار کرتے اور لوگوں سے جبرا بیعت لیتے دیکھتے ہیں جو اتفاقی امر تھا. اور خدا ہی نے اس کے شر سے محفوظ رکھا پھر انہیں خلافت سے متعلق چھ رکنی کمیٹی بناتے اور یہ کہتے دیکھتے ہیں کہ اگر میں علی(ع) ابن ابی طالب کو خلیفہ بنادوں تو وہ لوگوں کو صحیح راستہ پرچلائیں گے. پس جب انہیں خلیفہ کیوں نہیں بنایا اور قصہ پاک کیوں نہیں کیا. تاکہ اس سے امت محمد(ص) کی اصلاح و حفاظت ہوجاتی.اس کے بعد ہم پھر تناقض دیکھتے ہیں اور عمر ابن عوف کو ترجیح دیتے ہیں پھر تناقض دیکھتے ہیں اور عمر کہتے ہیں کہ اگر حذیفہ کا غلام سالم زندہ ہوتا تو میں اس کو خلیفہ بنا دینا.(1)

اس سے زیادہ تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ ابوحفصہ عمر نے نبی(ص) سے حدیث نقل کرنے پر پابندی لگا دی، اور صحابہ کو مقید کردیا، باہر نکلنے سے منع کردیا اور جن لوگوں کو وہ کہیں تعینات کرتے تھے انھیں بھی لوگوں کے سامنے حدیث بیان کرنے سے پہلے ہی منع کر دیتے تھے. صحابہ کی ان کتابوں کو جلادیتے تھے جن میں نبی(ص) کی احادیث مرقوم تھیں، کیا عمر نہیں جانتے تھےکہ سنت نبی(ص) قرآن کو بیان کرتی ہے؟ کیا ان نظروں سے خدا کا یہ قول نہیں گذرا تھا:

( وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ‏ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ .) نحل/44

____________________

1.اسی حدیث سے ابوحنیفہ نے لوگوں کی خلافت پر حجت قائم کی ہے اور اس طرح انہوں نے رسول(ص) کی اس حدیث کی مخالفت کی ہے کہ خلافت قریش ہی میں رہے گی اور شاید یہی وجہ ہے کہ ترکیوں نے خلافت حاصل کرنے کے لئے ابوحنیفہ کے مذہب کو قبول کر لیا اور نہیں امام اعظم کا نام دے دیا.

۸۴

کہتے ہیں کہ ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے، اس واقعہ کو بخاری، مسلم، ابن ماجہ، نسائی، ابو دائود، اور امام احمد وغیرہ کے علاوہ بہت سے مورخین نے بھی نقل کیا ہے.

جب عمر خود رسول(ص) کو اپنی حدیث لکھنے سے منع کرسکتے ہیں اور وہ بھی صحابہ اور اہلبیت(ع) کے ایک جم غفیر کے سامنے جسارت کے ساتھ رسول(ص) کی شان میں گستاخی کرسکتے ہیں اور ان پر ہذیان کی تہمت لگاسکتے ہیں کہ جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ انہوں نے رسول(ص) کی وفات کے بعد زر خرید غلاموں اور لوگوں کو رسول(ص) کی احادیث نقل کرنے سے منع کردیا ہو اور پھر وہ خلیفہ (حاکم) وقت تھے جن کے پاس طاقت و ثروت موجود تھی. اور اس میں بھی شک نہیں ہے. کہ صحابہ کی کثیر تعدا کی تعالق انصار اور قریش سے تھا یہیہ بہترین افراد تھے، قبیلوں میں ان کا اثر و رسوخ تھا یہ قبیلے خوف، طمع یا نفاق کی وجہ سے آنحضرت(ص) کے ساتھ رہتے تھے ان صحابہ کی اکثریت کو بھی ہم عمر کی ہاں میں ہاں ملاتے دیکھتے ہیں کہ وہ نبی(ص) پر ہذیان کا الزام لگا رہے ہیں اور احادیث رسول(ص) کے لکھنے کی پابندی میں بھی ہم انہیں عمر کے شانہ بہ شانہ دیکھتے ہیں میرا عقیدہ ہے کہ نبی(ص) نے جو حدیث لکھوانے کو نظر انداز کیا ہے اس کا سب سے بڑا سبب یہی تھا کیونکہ وہ وحی کے ذریعہ اس بات کو جانتے تھے کہ منصوبے قوی ہیں اگر اس سلسلہ میں کوئی کتاب لکھی جائے گی تو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے. رسول(ص) وہ چیز لکھنا چاہتے تھے جو امت کو ضلالت و گمراہی سے محفوظ، رکھنے والی تھی یعنی اگر امیر و خلفا موقف بدل دیں گے تو وہ کتاب ( اگر لکھی جائے) ضلالت و گمراہی سے محفوظ رہنے کا باعث ہوگی. پس رسول(ص) کے چہرہ اقدس کا رنگ کیسے متغیر نہ ہوتا جب کہ آپ بستر مرگ پر تھے اور آپ کے کان میں پروردگار کی طرف سے وحی کی مسلسل آواز آرہی تھی اپنی امت کی سرکشی دیکھ کر آپ کا دل حسرت و یاس سے بھر گیا.

۸۵

( أَ فَإِنْ‏ ماتَ‏ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى‏ أَعْقابِكُمْ )

یہ آیت عبث تو نازل نہیں ہوئی بلکہ یہ ایک حتمی نتیجہ ہے، کیونکہ خداوند عالم نے اپنے نبی(ص) کو امت کی دسیسہ کاریوں اور ان کے مکر و فریب سے آگاہ کردیا تھا. پس وہ تو آنکھوں کی خیانت اور دلوں میں چھپے ہوئے رازوں سے آگاہ ہے، اور قسم ہے اس ذات کی جس نے اپنے رسول(ص) کو عزت بخشی اور ان کو ہر ایک چیز سے با خبر کیا. اور ان کو اس سے کہیں بہتر جزا دی کہ جو ان کی امت کی طرف سے مل سکتی تھی. اور ان کو امت کے ارتداد و کفر کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا بلکہ آپ سے فرمایا:

( وَ يَوْمَ‏ يَعَضُ‏ الظَّالِمُ‏ عَلى‏ يَدَيْهِ يَقُولُ يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يا وَيْلَتى‏ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جاءَنِي وَ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا، وَ قالَ الرَّسُولُ يا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً، وَ كَذلِكَ جَعَلْنا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ وَ كَفى‏ بِرَبِّكَ هادِياً وَ نَصِيراً .) فرقان/27-31

اس روز ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا کہ کاش میں نے رسول(ص) کے ساتھ ہی راستہ اختیار کیا ہوتا. ہائے افسوس کاش میں نے فلان شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا اس نے تو ذکر کے آنے کے بعد بھی مجھے گمراہ کر دیا اور شیطان انسان کو رسوا کرنے والا ہی ہے اور اس روز رسول(ص) آواز دے گا کہ پروردگارا اس میری قوم نے اس قرآن کو بھی نظر انداز کر دیا ہے اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے مجرمین میں سے

۸۶

کچھ دشمن قرار دیئے ہیں اور ہدایت و امداد کے لئے تمھارا پروردگار کافی ہے.

اس بحث میں جس چیز کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے وہ یہ غم انگیز نتیجہ ہے کہ جس تک ہم پہونچ چکے ہیں وہ نتیجہ یہ ہے کہ ابوسفیان اور معاویہ نبی(ص) کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات نہ کرتے اگر ان کے سامنے عمر ابن خطاب کا رسول(ص) کے خلاف سابقہ مذموم موقف اور جسارت نہ ہوتی. خصوصا جب ہم رسول(ص) کے طول حیات میں عمر کے موقف کو دیکھتے ہیں تو عمر بے شمار موقعوں پر رسول(ص) کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مخالفت کے پس پشت ضرور کوئی بڑا راز مخفی تھا. اور وہ راز رسول(ص) کی شخصیت کو گرانا اور لوگوں کی نظروں میں ان کو ایک عام شخص ثابت کرنا تھا. اس میں نژاد پرستی، گمراہی اور خواہش نفس کی پیروی شامل تھی اور یہ سب کچھ اس لئے کیا جارہا تھا تاکہ لوگوں کو یہ باور کرادیں کہ رسول(ص) معصوم نہیں ہیں. اس کی دلیل یہ ہے کہ عمر این خطاب نے متعدد مواقع پر رسول(ص) کی مخالفت کی اور کہا گیا ہے کہ قرآن عمرابن خطاب کی تائید میں نازل ہوا، نوبت یہاں تک آپہونچی کہ خداوند عالم نے اپنے نبی(ص) کو ڈرایا. پس آپ(ص) رونے لگے اور کہنے لگے:

اگر خداوند عالم ہم کو مصیبت میں مبتلا کردے تو سوائے عمر ابن خطاب کے کوئی نجات دلانے والا نہیں ہے.(1)

کبھی عمر رسول(ص) کو حکم دیا کرتے تھے کہ آپ اپنی بیویوں سے پردہ کروائیں

____________________

1.ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں، مسلم، احمد بن حنبل، ابی دائود اور ترمذی سے نقل کیا ہے اور اسی طرح سیرت حلبیہ اور سیرت وحدانیہ کی جلد1 ص512 پر مرقوم ہے.

۸۷

لیکن رسول(ص) عمر ابن خطاب کے کہنے کے مطابق عمل نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ عمر ابن خطاب کی تائید میں قرآن نازل ہوا ا ور نبی(ص) کو حکم دیا کہ آپ اپنی بیویوں سے پردہ کروائیں.(1)

شیطان رسول(ص) سے نہیں ڈرتا تھا لیکن عمر سے بھاگتا ہی نظر آتا تھا، اس کے علاوہ اور بہت سی مضحکہ خیز روایات ہیں کہ جو رسول(ص) کی عظمت و شخصیت کو مجروح کرتی ہیں اور صحابہ کی قدر ومنزلت میں اضافہ کرتی ہیں لیکن عمر کو اس سلسلہ میں زیادہ ہی اہمیت حاصل ہے. یہاں تک کہ ان کے چاہنے والوں نے خدا ان کو رسوا کرے رسول(ص) کے بارے میں یہ روایت بھی گڑھ دی کہ رسول(ص) کو عمر کی نبوت میں شک تھا. اور یہ حدیث انہوں نے اس لئے گڑھی ہے کہ ایک مرتبہ رسول(ص) نے فرمایا کہ جب بھی جبرئیل کو میرے پاس آنے میں تاخیر ہوتی ہے تو میں یہ ہی سمجھتا ہوں کہ وہ عمر ابن خطاب کے پاس گئے ہوں گے!! میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ اس قسم کی حدیثیں معاویہ ابن ابوسفیان کے زمانہ میں اس لئے گڑھی گئیں تا کہ حضرت علی(ع) کی عظمت و فضیلت پر پردہ ڈالا جاسکے اس لئے اس نے ابوبکر، عمر، عثمان کی تعریف اور ان کے فضائل کے سلسلے میں حدیثیں گڑھوائیں تاکہ لوگوں کی نظروں میں ان کی عظمت بڑھ جائے اور علی علیہ السلام کی شخصیت مجروح ہوجائے. اس سے دو مقصد سامنے آتے ہیں.

پہلا مقصد یہ کہ: علی علیہ السلام کی عظمت کو گھٹانا جیسا کہ ان کو ابوتراب کہتے ہیں. اور لوگوں کو ان کی طرف سے بدظن کرنا اور خلفائے ثلاثہ مو ان پر فوقیت دینا.

دوسرا مقصد یہ کہ: احادیث وضع کرانا تاکہ خلافت کے سلسلہ میں

____________________

1. صحیح بخاری جلد1، ص46.

۸۸

حکم رسول(ص) اور ان کی وصیتوں کو پس پشت ڈال دیں بالخصوص حسنین(ع) کی خلافت کہ جو معاویہ کے ہمعصر تھے پس جب علی(ع) کے بارے میں خلفائے ثلاثہ نے حکم رسول(ص) کی پروا نہ کی تو معاویہ کے لئے اولاد علی(ع) کےبارے میں حکم رسول(ص) کی مخالفت کیا مشکل تھی.

پسر ہندہ نے اپنے مقصد میں بڑی کامیابی حاصل کی اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ہم آج حضرت علی علیہ السلام کے علم و شجاعت، قرابت اور اسلام و مسلمانوں پر آپ کے احسان کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے سامنے "کسی کا یہ قول آتا ہے کہ" رسول اسلام(ص) نے فرمایا:

" اگر ابوبکر کے ایمان کو پوری امت کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو بھی ابوبکر کے ایمان کا پلہ بھاری رہے گا." اور کبھی ہماری نظروں ے سامنے کسی کا یہ قول آتا ہے کہ: عمر فاروق وہ ہیں جو حق کو باطل سے الگ کرتے ہیں.اور کبھی ہماری نظروں کے سامنے عثمان کے بارے میں کسی کا یہ قول آتا ہے کہ: عثمان ذوالنورین ہیں اور ان سے ملائکہ بھی شرم کرتے ہیں.

ان بحثوں کی تحقیق کرنے والے پر یہ بات آشکار ہوجائے گی کہ عمر ابن خطاب کو زیادہ فضیلت دی گئی ہے یہ کوئی اتفاقی امر نہیں ہے، ہرگز، کیونکہ اس کا موقف ہی رسالتمآب(ص) سے جھگڑنا اور ان کے حکم کی مخالفت کرنا تھا اس لئے قریش عمر کو بہت دوست رکھتے تھے. خصوصا قریش کی نگاہوں میں عمر کی اہمیت اسی وقت اور زیاہ بڑھ گئی تھی جب انھوں نے حضرت علی علیہ السلام سے خلافت چھین کر قریش کو دوبارہ حاکم بنا دیا تھا. پھر کیا تھا خلافت کی طمع بنی امیہ کے طلقا اور ملعون قسم کے لوگوں میں بھی پیدا ہوگئی اور سارے قریش اور ان کے راس و رئیس ابوبکر بخوبی جانتے تھے

۸۹

مسلمانوں پر ہماری حکومت عمر ابن خطاب کی مرہون منت ہے. رسول(ص) کی مخالفت میں عمر بڑے جسور تھے اور عمر ہی نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا نوشتہ لکھنے سے رسول(ص) کو باز رکھا تھا.عمر ہی وہ ہے جس نے لوگوں کو ڈرایا اور نبی(ص) کی وفات کے سلسلہ میں انہیں ابوبکر کی بیعت ہونے تک شک میں مبتلا رکھا تاکہ لوگ علی(ع) کی بیعت نہ کر لیں.سقیفہ کے چیمپین عمر ہی تھے. عمر ہی نے ابوبکر کی بیعت کو استحکام بخشا ور ان ہی نے ابوبکر کی بیعت سے منکر اور حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں پناہ گزین افراد سے کہا کہ گھر سے باہر نکل آئو اور ابوبکر کی بیعت کر لو ورنہ میں گھر میں آگ لگا کر سب کو جلا دونگا. اسی عمر نے لوگوں سے جبرا ابوبکر کی بیعت لی، ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں خود عمر ہی نے عہدے تقسیم کئے، اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ابوبکر کے دور خلافت میں عمر ہی اصل حاکم تھے بعض مورخین نے لکھا ہے کہ جب مولفۃ القلوب ابوبکر کے پاس اپنا وہ حصہ لینے آئے جو خدا نے مقرر کیا اور رسول(ص) نے نوشتہ لے کر پھاڑ دیا. اور کہا ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے، خدا نے اسلام کو عزت و سر افرازی عطا کی ہے، وہ تمہارا محتاج نہیں ہے. اگر تم اسلام قبول کرتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار ہے. عمر کا رویہ دیکھ کر وہ لوگ ابوبکر کے پاس آئے اور کہا کہ خلیفہ وہ ہیں یا آپ؟ تو ابوبکر نے عمر کے فعل سے خوش ہو کر کہا کہ وہی ہیں.(1) ایک مرتبہ ابوبکر نے دو صحابہ کے لئے ایک زمین کا قطعہ لکھ دیا اور اسے دستخط کے لئے عمر کے پاس بھیج دیا جب عمر کے پاس پہونچا تو انہوں نے اس پر تھوک دیا اور تحریر کو مٹا دیا، ان لوگوں نے عمر کو برابر بھلا کہا اور پھر ابوبکر کے پاس آئے اور ان سے

____________________

1.کتاب الجوہرة النیرہ فی الفقہ الحنفی جلد1، ص164.

۹۰

غصہ میں کہا کہ: ہمیں نہیں معلوم خلیفہ آپ ہیں یا وہ؟ ابوبکر نے کہا کہ عمر، اس کے بعد عمر غضب کے عالم میں ابوبکر کے پاس آئے اور کہا کہ: تمہیں ان دونوں کو زمین دینے کا کوئی حق نہیں پہونچتا. ابوبکر نے کہا کہ میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ اس کلام کے لئے مجھ سے زیادہ مناسب ہیں. لیکن آپ نے مجھ پر زور دیا.(1) یہاں پر یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ عمر ابن خطاب کی بالعموم قریش میں اور خصوصا بنی امیہ میں تقویت کا راز کیا تھا. کہ وہ ان کو عبقری کے نام سے پکارنے لگے اور فاروق کے لقب سے نوازنے لگے، عدل مطلق کا خطاب دیا جانے لگا یہاں تک کہ رسول(ص) پر بھی ان کو فضیلت دینے لگے.یہیں سے دشمنان اسلام اور مستشرقین کے لئے دروازہ کھل گیا اور وہ کہنے لگے کہ محمد(ص) مرد عبقری تھے. اور ان کی قوم بت پرست تھی، پتھروں کے خدائووں کو پوجنا ان کی عادت تھی. محمد(ص) نے ان کی یہ عادت تو ختم کردی لیکن پرستش کے لئے حجر اسود چھوڑ گئے.ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ ہم عمر ابن خطاب کو حدیث رسول(ص) لکھنے سے منع کرنے میں پیش پیش دیکھتے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے صحابہ کو مدینہ میں مجبوس کردیا. حدیثوں کی کتابوں کو نذر آتش کر دیا تاکہ سنت نبی(ص) لوگوں میں رواج نہ پائیے.انہیں باتوں سے یہ نکتہ بھی ہماری سمجھ میں آجاتا ہے کہ علی(ع) کیوں گھر میں بیٹھ رہے تھے. اور آپ صرف اس وقت گھر سے نکلتے تھے جب صحابہ کسی مسئلہ کے حل کرنے سے عاجز ہوکر آپ کو مشکل کشائی کے لئے بلاتے تھے. عمر نے علی(ع) کو نہ شہر کا ولی بنایا اور نہ کوئی دوسرا منصب دیا. بلکہ انہیں میراث فاطمہ(ع) سے بھی محروم کردیا. آپ کے پاس

____________________

1.الاصابہ فی معرفۃ الصحابہ للحجر عسقلانی نے عیینہ کے حالات میں لکھا ہے نیز ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کی ج2، ص108پر درج کیا ہے.

۹۱

مال دنیا میں سے کچھ نہ تھا.شاید اسی لئے مورخوں نے یہ بھی لکھ دیا کہ جب آپ نے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد لوگوں کی بے رخی دیکھی تو آپ بیعت کرنے پر مجبور ہوگئے.

اے ابوالحسن آپ کو مبارک ہو یہ لوگ آپ کے کیونکر دشمن نہ ہوتے اس لئے آپ نے ان کے بڑے بڑے سور مائوں اور عزیزوں کو تہ تیغ کیا تھا. ان کے شیرازہ کو منتشر کیا تھا، ان کی نیندیں حرام کر دی تھیں، ان کے فضائل کا سد باب کر دیا تھا، نیکیوں کے میدان میں ان کے لئے کوئی جگہ نہ چھوڑی تھی اس کے علاوہ آپ(ع) رسول(ص) کے ابن عم اور ان سے سب سے زیادہ قریب ہیں، فاطمہ زہرا(ع) کے شوہر اور سبطین سیدا شباب اہل الجنہ(ع) کے والد ہیں سب سے پہلے اسلام لائے اور سب سے زیادہ علم والے ہیں.

آپ کے چچا حمزہ سید الشہدا ہیں اور آپ کے حقیقی بھائی جعفر طیار ہیں، سید البطحا نبی(ص) کے کفیل ابو طالب آپ کے والد ہیں، سارے ائمہ آپ ہی کے صلب سے ہیں آپ سابقوں میں سابق اور لاحقوں میں لاحق ہیں، آپ شیر خدا اور اس کے رسول(ص) کے محافظ ہیں. آپ اللہ اور اس کے رسول(ص) کی شمشیر ہیں، آپ خدا و رسول(ص) کے امین ہیں چنانچہ آپ کو سورہ برائت دے کر بھیجا اور آپ کے بغیر وہ محفوظ بھی نہیں رہ سکتا تھا. آپ ہی صدیق اکبر ہیں، آپ کے بعد اس کا دعویدار مہا جھوٹا ہے. آپ فاروق اعظم ہیں کہ جس کے ساتھ ساتھ حق مڑتا تھا، باطل کی تاریکیوں میں آپ ہی سے حق کی شناخت ہوتی تھی، آپ کھلی اور واضح نشانی ہیں کہ جس کی محبت سے مومن کا ایمان اور دشمن سے منافق کا نقاق پہچانا جاتا ہے. آپ شہر علم کے دروازہ ہیں اور (رسول(ص) کے پاس) آنے والا اسی سے آئے گا، آپ تک رسائی کے بغیر رسول(ص) تک رسائی کا دعویدار جھوٹا ہے.پس اے ابوالحسن(ع) ان میں سے کون آپ کی برابری کرسکتا ہے

۹۲

آپ جیسی فضیلتوں کا حامل کون ہے. اگر شرافت کا کوئی نمونہ ہے تو آپ عظمت و بزرگی کا آغاز و انجام ہیں. یقینا خدا نے جو اپنے فضل سے آپ کو عطا کیا ہے. اس پر حسد ہوگا. اور آپ کو اس لئے دور رکھا جائے گا کہ خدا نے اپنے قرب سے آپ کو محفوظ کیا ہے.

( وَ سَيَعْلَمُ‏ الَّذِينَ‏ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ... )

ہمارا قلم یقینا حضرت امیرالمومنین(ع) کی تعریف کی طرف مڑ گیا جو اپنی زندگی میں بھی مظلوم تھے اور موت کے بعد بھی مظلوم رہے.یقینا آپ کے لئے رسول(ص) میں اسوة حسنہ تھے وہ بھی اپنی زندگی اور مرنے کے بعد مظلوم تھے.کیونکہ آپ نے پوری زندگی جہاد، نصیحت اور مومنین کی نجات کی کوشش میں گذاری، لیکن لوگوں نے آخری وقت انہیں برے الفاظ سے نوازا، اپ پر ہذیان کا بہتان لگایا اور جب آپ نے لشکر اسامہ میں شرکت کا حکم دیا تو سرکشی و تمرد سے پیش آئے اور خلافت کی طمع میں سقیفہ میں جا بیٹھے اور آپ(ص) کے جسد مبارک کو بے گور و کفن چھوڑ دیا اور وفات کے بعد لوگوں کی نظروں میں آپ کی شخصیت کو گرانے کی کوشش میں لگ گئے. آپ(ع) کو غیر معصوم قرار دیا جبکہ قرآن و وجدان آپ(ع) کی عصمت کو گواہی دے رہے ہیں. اور یہ سب اس لئے تھا کہ ہر حکم زائل اور دنیا فانی ہے.

گذشتہ بحث سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ صحابہ خلافت کے چکر میں رسول(ص) کی شخصیت مجروح کیا. پس جب خلافت میراث کے طور پر بنی امیہ ان کے راس و رئیس معاویہ کے ہاتھ میں پہونچی تو وہ اس کی طرف سے مطمئن ہوگئے لیکن وہ ان میں سے ایک کے گرد گھومنے والی نہیں تھی کسی نہ کسی دن ان کے ہاتھ سے جانی تھی، اسی لئے بنی امیہ نے رسول(ص) کی شخصیت و عظمت کی تنقیص

۹۳

میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور ان کی شخصیت کے منافی احادیث گڑھوائیں. میرا عقیدہ ہے کہ اس کے دو(2) بڑے اسباب تھے:

پہلا سبب

رسول(ص) کی عظمت گھٹانا قبائل عرب کے درمیان نبی ہاشم کو رسول(ص) کی بدولت حاصل شدہ عزت و شرافت کو خالک میں ملانا اور نبی ہاشم کو ذلیل و خوار کرنا خصوصا جب ہمیں یہ علم ہے کہ بنی امیہ اپنے بھائی ہاشم سے ہمیشہ حسد کرتا رہا، اور ان کے خلاف مستقل نبردآزما رہا. سونے پہ سہاگہ یہ کہ علی(ع) رسول(ص) کے بلا تردید بنی ہاشم کے سردار تھے اور اس بات کو خاص وعام سب ہی جانتے ہیں کہ معاویہ کو حضرت(ع) سے سخت بغض تھا ان سے خلافت چھیننے کے لئے فسادات اور جنگوں کی آگ بھڑکاتا رہا، اور آپ کی شہادت کے بعد منبروں سے آپ پر لعنت کرائی. معاویہ کے لحاظ سے رسول(ص) کی شخصیت کی ہتک علی(ع) کی شخصیت کی شکست و ریخت میں منحصر تھی، بالکل اسی طرح جس طرح حضرت علی(ع) پر سب وشتم کرنا در حقیقت رسول(ص) پر سب وشتم کرنا ہے.

دوسرا سبب

رسول(ع) کی عزت اور قدر و قیمت گرانا اس لئے تھا کہ بنی امیہ اپنے ان سیاہ کرتوتوں، برے اعمال کی پردہ پوشی کرسکیں جن سے تاریخ بھری پڑِی ہے. جس طرح بنی امیہ نے رسول(ص) کی تصویر کشی کی کہ( معاذ اللہ) آپ خواہش نفس کے تابع، عورتوں کے ایسے ریسا تھے کہ واجبات تک کو چھوڑ دیتے تھے اور بعض کے تو ایسے عاشق ہوتے تھے کہ دوسری ازواج کی طرف مڑکر بھی نہ دیکھتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے عدل کا مطالبہ کیا.

۹۴

پس جب رسول(ص) کی یہ کیفیت ہوگی تو پھر معاویہ و یزید ایسے (بدکار) لوگوں پر کیسے لعنت و ملامت کی جاسکے گی.

ممکن ہے دوسرے سبب میں یہ راز بھی پوشیدہ ہو کہ امویوں نے رسول(ص) کے لئے وہ روایات و احادیث گڑھیں کہ جن پر قبل اسلام عمل ہوتا تھا. اور مسلمان انہیں مسلم و صحیح رسول(ص) کے اقوال و افعال سمجھتے ہیں کہ سو وہ ان کے نزدیک سنتِ نبی(ص) ہیں.مثال کے طور پر بعض احادیث آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ جو رسول(ص) کی عظمت کو گھٹائے اور ان کے مرتبہ کو کم کرنے کے لئے گڑھی گئی ہیں. میں اس موضوع کو پھیلانا نہیں چاہتا ہوں بلکہ اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے وہی تحریر کرونگا جو بخاری و مسلم نے اپنی صحاح میں روایت کی ہے.نبی(ص) کے بارے میں ذلت آمیز حدیثیں!

1.بخاری نے کتاب الغسل کے جماع کرکے دوبارہ جماع کرنے والے باب میں روایت کی ہے کہ انس نے کہا کہ:

نبی(ص) رات دن میں گیارہ بیویوں سے ایک گھنٹے کے اندر اندر مجامعت کرتے تھے، راوی کہتا ہے کہ میں نے انس سے پوچھا کہ نبی(ص) اس کی طاقت رکھتے تھے؟ انس نے کہا: ہم یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ انہیں تیس کی قوت عطا کی گئی تھی.

قارئین محترم اس اہانت آمیز روایت کو ملاحظہ فرمائیے کہ جو ہمارے سامنے رسول(ص) کو خواہشات کا پیکر بنا کر پیش کرتی ہے. (معاذ اللہ) آپ گیارہ بیویوں سے ایک گھنٹہ میں رات یا دن میں جماع کیا کرتے تھے. اس سرعت سے اور بغیر غسل کے پہلی سے فراغت حاصل کر کے دوسری سے جماع کرنے لگتے تھے.

۹۵

قارئین محترم آپ تصور کیجئے، سوچئے کہ کیا انسان اپنی بیوی پر کسی حیوان کی جھپٹ پڑتا ہے. نہ اس کے ساتھ خوش فعلی کرتا ہے نہ اسے آمادہ کرتا ہے جبکہ یہ چیز ہم نے حیوانات میں بھی دیکھی ہے کہ وہ جماع کے عمل کو کافی دیر تک جاری رکھتے ہیں، پہلے اس کے مقدمات مہیا کرتے ہیں، تیار ہوتے ہیں تو رسول اعظم ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟ خدا انہیں غارت کرے اور ان پر لعنت کرے....

اور یہ کہ اس زمانہ میں عرب جماع پر فخر کیا کرتے تھے، اور اسی کو مردانگی کی علامت قرار دیتے تھے. پس لوگوں نے رسول(ص) کے لئے یہ قصہ گڑھ دیا حاشا آپ خود فرماتے ہیں کہ:

اپنی بیویوں سے حیوانوں جیسا سلوک نہ کرو بلکہ اپنے اور ان کے درمیان کے مسائل ثالث سے حل کرو.

اس قسم کی روایات ہی نے نبی(ص) کے خلاف دشمنان اسلام کی زبان درازی کی جرات دلائی ہے کہ رسول(ص) جنس پرستی، جماع کے شوقین، عورتوں کے رسیا ایسی تہمتیں لگائی ہیں.

کیا اہم اس قصہ کے راوی انس ابن مالک سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کو یہ واقعہ کس نے سنایا؟ آپ کو یہ کس نے بتایا کہ رسول(ص) اپنی گیارہ بیویوں سے ایک گھنٹے میں ہمبستری کر لیتے تھے؟

کیا نبی(ص) ہی نے یہ واقعہ سنایا تھا؟ کیا ہم میں سے کسی کے شایان شان یہ بات ہے کہ وہ اپنی زوجہ سے ہمبستری کی روداد کو لوگوں کے سامنے سنائے؟ کیا ازواج نبی(ص) نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے؟ کیا کسی مسلمان عورت کے لئے یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے شوہر سے مباشرت کی کیفیت کو مردوں کے سامنے بیان کرے؟ یا انس ابن مالک خود نبی(ص) کے تجسس میں رہتا تھا اور جب نبی(ص) اپنی بیویوں کےساتھ خلوت

۹۶

میں ہوتے تو انس دروازوں کےسوراخوں سے جھانک کر دیکھا کرتے تھے؟ میں شیطانی وسوسوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں، جھوٹوں پر خدا کی لعنت کرے.

مجھے اس سلسلہ میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے حکام کہ جو عورتوں اور کنیزوں کے رسیا ہونے میں مشہور تھے انھوں نے اپنی گلو خلاصی کے لئے یہ واقعہ گڑھا ہے.

2.بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/3 ص132 اسی طرح مسلم نے اپنی صحیح کی جلد/7ص136 پر عائشہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ:

ایک روز چند ازواج نبی(ص) نے جناب فاطمہ(س) کو آپ کی خدمت میں بھیجا. فاطمہ(س) آئیں اور اجازت چاہی، آپ(ص) میرے پاس لیٹے ہوئے تھے. رسول(ص) نے اجازت دی، فاطمہ(س) نے عرض کی کہ یا رسول اللہ(ص) آپ کی ازواج نے مجھے آپ کی خدمت میں یہ پیغام دیکر بھیجا ہے کہ آپ اپنی ازواج اور بنت ابوبکر عائشہ کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیں.

عائشہ کہتی ہیں کہ میں خاموش تھی، پھر عائشہ کہتی ہیں کہ رسول(ص) نے فاطمہ(س) سے فرمایا: میری لخت جگر کیا وہ چیز تمہیں پسند نہیں جو مجھے محبوب ہے. فاطمہ(س) نے عرض کی بالکل محبوب ہے آپ نے فرمایا تو اس(عائشہ) سے محبت کرو. روایت آگے بڑھ کر پھر کہتی ہے کہ:

دوسری مرتبہ ازواج نبی(ص) نے زوجہ نبی(ص) زینب بنت جحش کو بھیجا کہ آپ(ص) سے عائشہ اور دوسری ازواج کے درمیان عدل و انصاف کا تقاضا کرے زینب رسول(ص) کی خدمت میں آتی ہیں اور

۹۷

رسول(ص) عائشہ کے پاس لیٹے ہیں اور عائشہ کی ٹانگوں پڑ کپڑا نہیں ہے، زینب ازواج نبی(ص) کی طرف سے ابوبکر کی بیٹی کے سلسلہ میں انصاف کا مطالبہ کرتی ہیں اور پھر عائشہ پر برس پڑتی ہیں، پھر عائشہ زینب پر لعن طعن کر کے جب خاموش ہوئی ہیں تو رسول(ص) کو ہنسی آجاتی ہے اور کہتے ہیں" یہ ابوبکر کی بیٹی ہے"

میں بلا خوف کے یہ بات کہتا ہوں کہ یہ روایت کہ جو رسول(ص) کو ہوا و ہوس کا شیدائی، بیویوں کے سلسلہ میں غیر عادل ہونا قرار دیتی ہے گڑھی ہوئی ہے، یہ وہ رسول(ص) ہے جس کی زبان سے قرآن کی یہ آیت بھی آئی ہے.

( فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ)

اگر تمہیں ان میں انصاف نہ کرسکنے کا خطرہ ہو تو صرف ایک یا جو کنیزیں تمہاری ملکیت ہیں.

اور پھر رسول(ص) اپنی بیٹی فاطمہ(س) کو داخل ہونے کی کیسے اجارت دیتے ہیں جبکہ وہ اپنی زوجہ کے پاس اور اس عالم میں کہ عائشہ کے پیر پر چادر بھی نہیں تھی، اور رسول(ص) نہ اٹھ کے بیٹھتے ہیں نہ کھڑے ہوتے ہیں بلکہ لیٹے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیٹی کیا تمہیں وہ چیز پسند نہیں جو مجھے محبوب ہے؟ اور بالکل یہی حادثہ زینب کے داخل ہونے پر سامنے آتا ہے، جب وہ انصاف کا تقاضا کرتی ہیں تو آپ مسکراتے ہیں اور یہ کہکر ٹال دیتے ہیں کہ یہ ابوبکر کی بیٹی ہے.

قارئین کرام ان اہانت آمیز باتوں کو ملاحظہ فرمائیں کہ جن کو رسول(ص) سے منسوب کردیا گیا ہے. عدالت و مساوات کے بارے میں اہلسنت کا نظریہ دیکھئے وہ کہتے ہیں کہ عدل تو عمر ابن خطاب کے ساتھ دفن ہوگیا اور رسول(ص) کی ایسی تصور کشی کرتے ہیں کہ جو اخلاقی اقدار سے عاری ہے، بے حیائی کی کوئی حد ہے؟

۹۸

اس روایت کی صحاح اہلسنت میں اور بہت سی مثالیں مل جائیں گی کہ جن سے راویوں کا مقصد یا تو کسی صحابی کی عزت افزائی ہے یا عائشہ کی فضیلت بڑھانا کیونکہ ابوبکر کی دختر ہے. پس اہلسنت جان بوجھ کر یا لا شعور طور پر رسول(ص) کی منقصت کرتے ہیں جیسا کہ میں گذشتہ بحث میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ احادیث و روایات رسول(ص) کی عظمت و منزلت کم کرنے کے لئے گڑھی گئی ہیں. اسی کے مثل آپ کے سامنے تیسری روایت پیش کرتا ہوں.

3.مسلم نے اپنی صحیح میں فضائل عثمان ابن عفان کے باب میں عائشہ اور عثمان سے روایت کی ہے کہ:

ابوبکر نے رسول(ص) کے پاس آنے کی اجازت چاہی جبکہ آپ عائشہ کے پاس لیٹے ہوئے تھے آپ نے ابوبکر کو اجازت دی اور ایسے ہی لیٹے رہے، جب ابوبکر کی حاجت پوری ہوگئی اور وہ واپس چلے گئے تو عمر نے داخل ہونے کی اجازت طلب کی انہیں بھی اجازت دی لیکن ایسے ہی لیٹے رہے، ان کی ضرورت پوری ہوگئی تو وہ بھی لوٹ گئے. عثمان کہتے ہیں کہ پھر میں نے اجازت طلب کی تو آپ(ص) اٹھ کر بیٹھ گئے اور عائشہ سے فرمایا اپنے کپڑے صحیح کر کے بیٹھو. پس جب میری حاجت پوری ہوگئی تو میں بھی واپس آگیا عائشہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول(ص) میں نے آپ کو ابوبکر و عمر کی آمد پر اس طرح گھبراتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح آپ عثمان کی آمد سے گھبرا گئے. رسول(ص) نے جواب دیا اے عائشہ عثمان شرم و حیا والے آدمی ہیں مجھے یہ خوف تھا کہ اگر میں ایسے لیٹا رہا تو عثمان میرے پاس نہیں آئیں گے. اور ان کی احتیاج پوری نہ ہوسکے گی.

۹۹

یہ روایت بھی اسی روایت کے مثل ہے جس کو بخاری نے فضائل عثمان ابن عفان میں نقل کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

رسول(ص) ران کھولے ہوئے لیٹے تھے کہ ابوبکر نے باریابی کے لئے اجازت طلب کی آپ نے اجازت دی لیکن رانوں پر کپڑا نہ ڈالا پھر عمر نے اجازت چاہی آپ نے ان کو بھی اجازت دی اور ایسے ہی لیٹے رہے لیکن جب عثمان نے اجازت طلب کی تو رسول(ص) نے رانوں کو چھپایا اور کپڑے درست کر کے بیٹھ گئے جب عائشہ نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کیا میں اس شخص سے شرم نہ کروں جس سے ملائکہ بھی شرم کرتے ہیں.

بنی امیہ کو خدا غارت کرے وہ اپنے سردار کی فضیلت بڑھانے کے لئے رسول(ص) کی منقصت کرتے تھے.

4.مسلم نے اپنی صحیح کے التقاء ختانین سے غسل واجب ہو جانے والے باب میں زوجہ نبی(ص) سے روایت کی ہے کہ:

ایک شخص نے رسول(ص) سے دریافت کیا کہ ایک شخص اپنی بیوی سے جماع کرتا ہے اس کا بدن سست پڑ جاتا ہے کیا دونوں (میاں بیوی) پر غسل واجب ہے؟ عائشہ پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی رسول(ص) نے فرمایا کہ میں اور یہ (عائشہ) ایسے ہی کرتے ہیں پھر غسل کرتے ہیں.

اس روایت کی حاشیہ آرائی ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں. رسول(ص) کی راہنمائی سے آپ کی زوجہ عائشہ کے لئے جواز پیدا ہوگیا کہ وہ اپنے جماع کو خاص و عام سے بیان کریں. عائشہ بنت ابوبکر کی بیان کردہ ایسی اور بہت سی احادیث ہیں جن

۱۰۰