حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں 60%

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 85

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 85 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32262 / ڈاؤنلوڈ: 4163
سائز سائز سائز
حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ بستر میں پر چھا گیا ہے۔ بخدا میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لیے کہ:

۱. وہ (مرکز ) باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ و منتشر۔

۲. تم امر حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں ۔

۳. وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے۔

۴. وہ اپنے شہروں میں امن برقرار رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو۔

میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤ ، تو ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لےجائے گا۔

امام اس حد تک ان سے خوف محسوس کر رہے ہیں کہ ایک لکڑی کا پیالہ بھی انہیں دیتے ہوئے امن محسوس نہیں کرتے ہیں۔ چہ جائے کہ ان کی اطاعت اور پیروی پر اعتماد کریں۔ یہ مظلومیت امام علی علیہ السلام کی انتہاء ہے۔ اس کے بعد آپ اللہ کے حضور اس طرح شکوہ کرتے ہیں:

اللَّهُمَّ إِنِّي قَدْ مَلِلْتُهُمْ وَ مَلُّونِي وَ سَئِمْتُهُمْ وَ سَئِمُونِي فَإَبْدِلْنِي بِهِمْ خَيراً مِنْهُمْ وَ إَبْدِلْهُمْ بِي شَرّاً مِنِّي اللَّهُمَّ مِثْ قُلُوبَهُمْ كَمَا يُمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ إَمَا وَ اللَّهِ لَوَدِدْتُ إَنَّ لِي بِكُمْ إَلْفَ فَارِسٍ مِنْ بَنِي فِرَاسِ بْنِ غَنْم‏: هُنَالِكَ لَوْ دَعَوْتَ‏ إَتَاكَ‏ مِنْهُمْ‏ ****** فَوَارِسُ مِثْلُ إَرْمِيَةِ الْحَمِيم

۲۱

اے اللہ! وہ مجھ سے تنگ دل ہو چکے ہیں اور میں ان سے۔ وہ مجھ سے اکتا چکے ہیں اور میں ان سے، مجھے ان کے بدلے میں اچھے لوگ عطا کر او رمیرے بدلے میں انہیں کوئی اور برا حاکم دے۔ خدا یا! ان کے دلوں کو اس طرح (اپنے غضب سے) پگھلا دے جس طرح نمک پانی میں گھول دیا جاتا ہے۔ خدا کی قسم میں اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ تمہارے بجائے میرے پاس نبی فراس ابن غنم کے ایک ہی ہزار سوار ہوتے ایسے (جن کا وصف شاعر نے بیان کیا) اگر تم کسی وقت انہیں پکارو، تو تمہارے پاس ایسے سوار پہنچیں جو تیز روئی میں گرمیوں کے ابر کے مانند ہیں۔(۱۶)

امت کے درمیان امام کا وجود چکی میں کیل کی طرح ہےکہ لوگ اس کے ارد گرد نظم و نسق کے ساتھ رہتے ہیں ان میں کوئی بھی اگر اپنی گردش سے منحرف ہو جائے تو اس کا بنیادی ڈھانچہ منہدم ہو جائے گا۔ امام فرماتے ہیں:

وَ إِنَّمَا إَنَا قُطْبُ الرَّحَى‏تَدُورُ عَلَيَّ وَ إَنَا بِمَكَانِي فَإِذَا فَارَقْتُهُ‏ اسْتَحَارَ مَدَارُهَا وَ اضْطَرَبَ ثِفَالُهَا هَذَا لَعَمْرُ اللَّهِ الرَّإيُ السُّوءُ

میں چکی کے اندر کا وہ قطب ہوں جس کے گرد چکی گھومتی ہے جب تک میں اپنی جگہ پر ٹھہرا رہوں اور اگر میں نے اپنا مقام چھوڑ دیا ، تو اس کے گھومنے کا دائرہ متزلزل ہو جائے گا۔ خدا کی قسم یہ بہت برا مشورہ ہے ۔

امام اور رہبر کی اطاعت اور پیروی امت کو گرداب حوادث میں حیران اور سرگردان ہونے سے بچاتی ہےتاکہ اپنے زمانے اور اس کے حوادث سے انسان امان میں رہیں اور ٹیڑھے راستے پر جانے سے خود کو بچا کے رکھ سکیں، جیسا کہ بنی اسرائیل کے قوم حضرت موسی علیہ السلام کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے حیرانی اور پریشانی کی گرداب میں پھنس گئے۔ امام فرماتے ہیں:

-------------

(۱۶)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۱۳۶ و ۱۳۷ خ ۲۵

۲۲

لَكِنَّكُمْ تِهتُمْ مَتَاهَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ لَعَمْرِي لَيُضَعَّفَنَ‏ لَكُمُ‏ التِّيهُ‏ مِنْ بَعْدِي إَضْعَافاً بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ وَ قَطَعْتُمُ الْإَدْنَى وَ وَصَلْتُمُ الْإَبْعَدَ وَ اعْلَمُوا إَنَّكُمْ إِنِ اتَّبَعْتُمُ الدَّاعِيَ لَكُمْ سَلَكَ بِكُمْ مِنْهَاجَ الرَّسُولِ وَ كُفِيتُمْ مَئُونَةَ الِاعْتِسَافِ وَ نَبَذْتُمُ الثِّقْلَ الْفَادِحَ عَنِ الْإَعْنَاق‏

تم بنی اسرائیل کی طرح صحرائے تیہ میں بھٹک گئے اور اپنی جان کی قسم میرے بعدتمہاری سرگردانی و پریشانی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ کیونکہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے اور قریبیوں سے قطع تعلق کر لیا اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے ۔ یقین رکھو کہ اگر تم دعوت دینے والے کی پیروی کرتے تو وہ تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے راستہ پر لے چلتا اور تم بے راہ روی کی زحمتوں سے بچ جاتے اور اپنی گردنوں سے بھاری بوجھ اتار پھینکتے۔ (۱۷)

-----------------

(۱۷)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۳۹۰ خ۱۵۹

۲۳

ج- رہبر اور عوام کے ایک دوسرے پر حقوق

کسی بھی معاشرے میں امام اور امت کے ایک دوسرے کے اوپر حقوق ہیں، کہ ان کی رعایت کرنے سے وہ معاشرہ ترقی، کمال اور ہمیشہ کی سعادت اور خوشبختی حاصل کر لے گا۔ان حقوق کی دو قسم ہیں: ایک وہ حقوق ہیں جو امام اور رہبر کی نسبت لوگوں کے گردنوں پر ہیں۔ دوسرے وہ حقوق جو معاشرے میں رہنے والوں کی نسبت امام اور رہبر کی گردن پر ہیں یہ امام کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی سعادت کی طرف رہنمائی کرے۔ ایک جگہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

إَيُّهَا النَّاسُ إِنَ‏ لِي‏ عَلَيكُمْ‏ حَقّاً وَ لَكُمْ عَلَيَّ حَقٌّ فَإَمَّا حَقُّكُمْ عَلَيَّ: ۱- فَالنَّصِيحَةُ لَكُمْ ۲-وَ تَوْفِيرُ فَيئِكُمْ عَلَيكُمْ ۳- وَ تَعْلِيمُكُمْ كَيلَا تَجْهَلُوا ۴- وَ تَإدِيبُكُمْ كَيمَا تَعْلَمُوا

وَ إَمَّا حَقِّي عَلَيكُمْ ۱- فَالْوَفَاءُ بِالْبَيعَةِ۲- وَ النَّصِيحَةُ فِي الْمَشْهَدِ وَ الْمَغِيبِ ۳- وَ الْإِجَابَةُ حِينَ إَدْعُوكُمْ ۴- وَ الطَّاعَةُ حِينَ آمُرُكُم‏

اے لوگو! ایک تو میرا تم پر حق ہے اور ایک تمہارا مجھ پر حق ہے کہ ۱- میں تمہاری خیر خواہی کو پیش نظر رکھوں۲- اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں، ۳- تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو۴- اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں جس پر تم عمل کرو ۔

اور میرا تم پر یہ حق ہے کہ ۱- بیعت کی ذمہ داریوں کو پوا کرو۲- اور سامنے اور پس پشت خیر خواہی کرو۔ ۳- جب بلاؤں تو میری صدا پر لبیک کہو،۴- اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو۔(۱۸)

---------------

(۱۸)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۱۵۸ خ ۳۴

۲۴

ہر چیز سے پہلے جس کی اہمیت زیادہ ہے وہ لوگوں کا امام کے اوامر و نواہی کی اطاعت کرنا ہے۔ اسی اطاعت کے چھاؤں میں سماج میں نظم و نسق برقرار رہے گا، معاشرہ دشمنوں کی کھلے اور چھپے حملوں سے محفوظ رہے گا۔ فرمان امام علیہ السلام کے آخری دونوں جملے اسی مطلب کو بیان کر رہے ہیں۔ یہی بے چون و چرا اطاعت معاشرے کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ معاشرے کی نشو ونما کرے گا۔ اور یہی اطاعت معاشرے کو دشمنوں کی شر سے محفوظ رکھنے کی ضامن ہے۔اسی اطاعت کے سائے میں دشمنوں کے منحوس عزائم سے پردہ اٹھ جائے گا اور ان کے نقشوں کا شکست فاش ہوگا۔

دوسری جانب اس اطاعت اور پیروی ہی کی برکت سے معاشرہ ترقی کرے گا۔ لوگوں کے لیے ترقی کی راہیں کھل جائیں گی۔ علمی چوٹیاں سر ہوں گی۔ انسانوں کا تزکیہ بھی اسی اطاعت کے اندر ہے؛ وہی تزکیہ جس کے انجام دہی پر انبیاء علیہم السلام مامور تھے اور اہداف نبوت و رسالت میں سے ایک یہی تھا:

﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ﴾

وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔(۲۱)

واضح ہے کہ تعلیم او رتزکیہ اہداف رسالت میں سے دو اہم ہدف ہیں کہ جو آیت میں صراحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ امام علی علیہ السلام کا وہ فرمان جس میں آپ امام کے اوپر لوگوں کے حقوق کو بیان فرما رہے ہیں ٹھیک اسی نکتہ کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ لوگوں کو تعلیم سکھانے اور ان کی تربیت کرنے کے علاوہ تزکیہ بھی امام پر ضروری ہے۔

--------------

(۲۱)- سورہ جمعہ : ۲

۲۵

اس بنا پر امام اور رہبر کی اطاعت کرنا حقیقت میں ان دو اہم اہداف کی حفاظت کرنا ہے:

الامامة نظاما للامة و الطاعة تعظيما للامامة

امامت امت کا نظام درست رکھنے کے لیے ہے اور اطاعت کو امامت کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔(۲۲)

ان تمام باتوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ کسی معاشرے کے لیے امام اور رہبرکا ہونا دین اسلام کی ضروریات میں سے ہے۔ اس اہم منصب میں کسی قسم کا شبہہ ایجاد کرنامعاشرے کو تباہی اور بربادی کی کھائی میں دھکیل دینے کا سبب بن سکتا ہے؛ لہذا رہبر کو طاقتور بنانا ہر ایک کی ذمہ داری ہے اوربغیر چون و چرا رہبر اور امام کی اطاعت کے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں ہو گا۔ اگر معاشرے اس اہم ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام رہا تو تباہی کی کنویں میں گر نا یقینی ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرہ اس مشکل میں پھنس گیا ۔ اسلامی معاشرہ ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا جس کا علاج سالوں بعد بھی ممکن نہ ہو سکا۔

۲- اختلاف اور انتشار کا شکار ہونا

اختلاف و انتشار حکومتوں کی بربادی کا ایک اہم سبب ہے۔ اگر لوگوں کے دل کسی بھی سیاسی اور پارٹی رجحان کے با وجود ایک ہو جائیں، زبان پر ایک ہی نعرہ رہے، سب کے ہاتھ ایک ہی مقصد کے لیے اٹھیں ، تو وہاں یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ بنیادی پیشرفت ہوگی اور حکومتی نظام کو بدلا جا سکے گا۔

------------

(۲۲)- حلوانی، حسین بن محمد بن حسن بن نصر، نزہة الناظر و تنبیہ الخاطر ص۴۶

۲۶

اسلام ابتداء ہی سے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتا چلا آیا ہے۔قرآن کریم میں خدا فرماتا ہے:

﴿وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِاللَّهِ جَمِيعاً وَ لاَ تَفَرَّقُو وَ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً وَ كُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ (۲۳)

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔(۲۴)

-------------

(۲۳)- سورہ آل عمران : ۱۰۳

(۲۴)- شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں : جب یہ حکم آتا ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو تو فوراً ذہنوں میں ایک خطرے کا احساس ہوتا ہے کہ کوئی سیلاب آنے والا ہے، غرق ہونے کا خطرہ ہے، کوئی طوفان آنے والا ہے کہ اس امت کی کشتی کا شیرازہ بکھرنے والا ہے، کوئی آندھی آنے والی ہے جو اس انجمن کو منتشر کر دے۔ اللہ کی رسی کو تھام لو،وَّلَا تَفَرَّقُوْا سے پتہ چلا کہ فرقہ پرستی کس قسم کا سیلاب ہے، کس قدر خطرناک طوفان اور کتنی مہلک آندھی ہے۔ چنانچہ رسولِ اسلامؐ کے بعد سے آج تک ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ اپنے مسلک سے ذرا اختلاف رکھنے والوں کو کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔ دین سے زیادہ انہیں مسلک عزیز ہے اور دوسروں کو زیر کرنے کی خاطر اپنے دین تک سے ہاتھ دھونے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔

۲۷

خدا نے سختی کے ساتھ اختلاف اور انتشار سے منع کیا ہے:

﴿وَ لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَ إُولئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾

اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو واضح دلائل آجانے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے اور ایسے لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہو گا ۔(۲۵)

قرآن کریم اتحاد ، اتفاق اور دلوں کے ایک ہونے کو کامیابی اور سعادت کی کنجی کے طور پر بیان کر رہا ہے:

﴿يَا إَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَ صَابِرُوا وَ رَابِطُوا وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾

اے ایمان والو!صبرسے کام لو استقامت کا مظاہرہ کرو، مورچہ بند رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو۔ (۲۶ و ۲۷)

----------------

(۲۵)- سورہ آل عمران : ۱۰۵

(۲۶)- سورہ آل عمران : ۲۰۰

(۲۷)- شیخ محسن نجفی فرماتے ہیں: صبر و تحمل ہر تحریک کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، لیکن امت مسلمہ نے ایک جامع نظام حیات کی تحریک چلانی ہے۔ یہ راستہ خون کی ندیوں، مخالف آندھیوں، مصائب کے پہاڑوں اور دوستوں کی لاشوں پر سے گزرتا ہے۔ ساتھ دینے والوں کی قلت، دشمنوں کی کثرت، قریبیوں کی بے وفائی اور دشمنوں کی چالاکی، ساتھیوں کی سہل انگاری اور مدمقابل کی نیرنگی جیسے کٹھن مراحل طے کرنا پڑتے ہیں، لہٰذا اس کے اراکین کے صبر و تحمل کا دائرہ بھی جامع اور وسیع ہونا چاہیے۔ اللہ کی نافرمانی سے بچنے کے لیے بھی صبر درکار ہے۔ بھوک اور ناداری میں بھی مال حرام سے اجتناب، غیظ و غضب، جذبۂ انتقام اور قوت کے باوجود تجاوز اور ظلم سے پرہیز اور دیگر ہر قسم کی خواہشات کا مقابلہ بھی صبر و تحمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اطاعت و فرمانبرداری کی بنیاد بھی صبر ہے۔جب تک صبر و حوصلہ نہ ہو اطاعت رب کا بوجھ اٹھانا ممکن نہ ہو گا۔

۲۸

اختلاف، انتشار، فرقہ واریت، پارٹی بازی، دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف دشمنی اور کینہ توزی مومنوں کی طاقت کو نابود کرنے والی ہیں؛ اسی لیے مومنین کو سفارش کی جارہی ہے کہ اسلام کے پرچم تلے جمع ہو جائیں، خدا اور اس کے رسول کے اوامر کو بے چون چرا مان لیں:

﴿وَ إَطِيعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَ اصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾

اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(۲۸ و ۲۹)

امام علی علیہ السلام کوفہ والوں کی شکست کے اسباب میں سے ایک سبب ان کے درمیان اختلاف، پارٹی بازی،فرقہ واریت اور انتشار کو قرار دے رہے ہیں:

---------------

(۲۸)- سورہ انفال : ۴۶

(۲۹)- اطاعت اور تعمیل حکم۔ دوسرے لفظوں میں تنظیم اور ڈسپلن کو جنگی حکمت عملی میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے جیساکہ تمام عسکری قوانین میں اس بات کو اولیت دی جاتی ہے۔ باہمی نزاع سے احتراز کرنا۔ اگرچہ ہر معاشرے کو اتحاد کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے تاہم اس کی ضرورت جنگ میں زیادہ ہوتی ہے ۔ باہمی نزاع اطاعت اور قیادت کے فقدان کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ (بلاغ القرآن - شیخ محسن علی نجفی)

۲۹

إَلَا وَ إِنَّكُمْ قَدْ نَفَضْتُمْ إَيدِيَكُمْ‏ مِنْ‏ حَبْلِ‏ الطَّاعَةِ وَ ثَلَمْتُمْ حِصْنَ اللَّهِ الْمَضْرُوبَ عَلَيكُمْ بِإَحْكَامِ الْجَاهِلِيَّةِ فَإِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ قَدِ امْتَنَ‏ عَلَى جَمَاعَةِ هَذِهِ الْإُمَّةِ فِيمَا عَقَدَ بَينَهُمْ مِنْ حَبْلِ هَذِهِ الْإُلْفَةِ الَّتِي يَنْتَقِلُونَ فِي ظِلِّهَا وَ يَإوُونَ إِلَى كَنَفِهَا بِنِعْمَةٍ لَا يَعْرِفُ إَحَدٌ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ لَهَا قِيمَةً لِإَنَّهَا إَرْجَحُ مِنْ كُلِّ ثَمَنٍ وَ إَجَلُّ مِنْ كُلِّ خَطَرٍ وَ اعْلَمُوا إَنَّكُمْ صِرْتُمْ بَعْدَ الْهِجْرَةِ إَعْرَاباً وَ بَعْدَ الْمُوَالاةِ إَحْزَابا مَا تَتَعَلَّقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا بِاسْمِهِ وَ لَا تَعْرِفُونَ مِنَ الْإِيمَانِ إِلَّا رَسْمَه‏

دیکھو تم نے اطاعت کے بندھنوں سے اپنے ہاتھوں کو چھڑا لیا اور زمانہ جاہلیت کے طور و طریقوں سے اپنے گرچ گچھے ہوئے حصار میں رخنہ ڈال دیا۔ خدا وند عالم نے اس امت کے لوگوں پر اس نعمت بے بہا کے ذریعہ سے لطف و احسان فرمایا کہ جس کی قدر و قیمت کو مخلوقات میں سے کوئی نہیں پہچانتا؛ کیونکہ وہ ہر (ٹھہرائی ہوئی) قیمت سے گراں تر اور ہر شرف و بلندی دے بالا تر ہے۔ اور وہ یہ کہ ان کے درمیان انس و یکجہتی کا رابطہ (اسلام) قائم کیا کہ جس کے سایہ میں وہ منزل کرتے ہیں او رجس کے کنار (عاطفیت) میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ جانے رہو کہ تم (جہالت و نادانی) کو خیر باد کہہ دینے کے بعد پھر صحرائی بدو اور باہمی دوستی کے بعد پھر مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہو۔ اسلام سے تمہارا واسطہ نام کو رہ گیا ہے اور ایمان سے چند ظاہری لکیروں کے علاوہ تمہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ (۳۰)

--------------

(۳۰)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۴۶۶ خ ۱۹۰ خطبہ قاصعہ۔

۳۰

امام علیہ السلام نے اپنے اس نورانی کلام میں امت مسلمہ اور کوفہ والوں کی انحراف اور نابودی کے بعض اسباب و عوامل کی طرف اشارہ فرمایا:

۱. امام اور رہبر کی اطاعت نہ کرنا۔

۲. جاہلیت کے طور طریقوں کو زندہ کرنا اور اسلامی اقدار کو پامال کرنا۔

۳. برادری اور یکجہتی کی نعمت کو کھو دینا۔

۴. پارٹی بازی اور فرقہ واریت کو فروغ دینا۔

۵. اسلام کے اقدار کو نابود کر کےصرف نام کو باقی رکھنا۔

ان علتوں میں ہر ایک زنجیر کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تعجب کا مقام وہ ہے جہاں اہل حق اپنے حق اور حقانیت کی دفاع میں انتشار اور اختلاف کے شکار ہیں جبکہ باطل والے اپنے باطل کی حمایت میں متحد ہیں۔یہ غم بہت ہی دردناک ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے زبان سے کئی مرتبہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے سنا گیا ہے:

فَيَا عَجَباً عَجَباً وَ اللَّهِ‏ يُمِيتُ‏ الْقَلْبَ‏ وَ يَجْلِبُ الْهَمَّ مِنَ اجْتِمَاعِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ عَلَى بَاطِلِهِمْ وَ تَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ فَقُبْحاً لَكُمْ وَ تَرَحاً حِينَ صِرْتُمْ غَرَضاً يُرْمَى يُغَارُ

العجب ثم العجب خدا کی قسم ان لوگوں کا باطل پر ایکا کر لینا اور تمہارے جمعیت کا حق سے منتشر ہوجانا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے تم تو تیروں کا از خود نشانہ بنے ہوئے ہو۔

بسر بن ارطات کے یمن پر غلبہ پانے کی خبریں سننے کے بعد آپ نے پھر ارشاد فرمایا کہ : میں جانتا تھا کہ شامی تم پر غالب آئیں گے؛ کیونکہ وہ اپنے باطل کی حمایت پر متحد ہیں جبکہ تم اپنے حق کی دفاع میں اختلاف او رانتشار کا شکار ہو۔(۳۱)

------------

(۳۱)- ترجمہ مفتی خ ۲۵

۳۱

اس بنا پر کامیابی اور فتح کی علت لوگوں کا کم یا زیادہ ہونا نہیں ہے بلکہ مقصد اور ہدف کے راہ میں یکجہت اور متحد ہونا ہے۔ امام ایک جگہ فرماتے ہیں:

وَ الْعَرَبُ‏ الْيَوْمَ‏ وَ إِنْ‏ كَانُوا قَلِيلًا فَهُمْ كَثِيرُونَ بِالْإِسْلَامِ عَزِيزُونَ بِالاجْتِمَاعِ فَكُنْ قُطْباً وَ اسْتَدِرِ الرَّحَى بِالْعَرَب‏ وَ إَصْلِهِمْ دُونَكَ نَارَ الْحَرْب‏

آج عرب والے اگر چہ گنتی میں کم ہیں مگر اسلام کی وجہ سے وہ بہت ہیں ا وراتحاد باہمی کے سبب سے (فتح و) غلبہ پانے والے ہیں تم اپنے مقام کھونٹی کی طرح جمے رہو اور عرف کا نظم و نسق بر قرار رکھو اور ان ہی کو جنگ کی آگ کا مقابلہ کرنے دو۔(۳۲)

خدا نے ایمان کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک کر دیاجو کسی کی بس کی بات نہیں تھی اپنے رسول سے فرما رہا ہے:

﴿وَ إَلَّفَ بَينَ قُلُوبِهِمْ لَوْ إَنْفَقْتَ مَا فِي الْإَرْضِ جَمِيعاً مَا إَلَّفْتَ بَينَ قُلُوبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللَّهَ إَلَّفَ بَينَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾

اور اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی ہے، اگر آپ روئے زمین کی ساری دولت خرچ کرتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن اللہ نے ان (کے دلوں) کو جوڑ دیا، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔ (۳۳)

--------------------

(۳۲)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۳۴۰ خ ۱۴۴

(۳۳)- سورہ مبارکہ انفال : ۶۳

۳۲

اتحاد و یکجہتی ایک ایسی عظیم نعمت ہے جسے اللہ نے مسلمانوں کو عطا کیا ہے، اور مسلمانوں کو بھی چاہیئے کہ اس نعمت کی قدر کریں اور کسی بھی قیمت پر اسے ہاتھ سے جانے نہ دیں:

﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَإَزِيدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾

اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔ (۳۴ و ۳۵)

۳- دنیا داری

دنیا اور اس کی تجلیات و تجملات کی طرف رخ کرنا، دولت جمع کرنا ان عوامل و اسباب میں سےایک ہے جو کسی بھی حکومت کی نابودی اور مٹ جانے کا سبب بنتا ہے۔ دنیا پرستی یا سیکولرازم دو قسم کے بنیادی اور کلیدی افراد کے پاس پائی جاتی ہے:

الف : کمیونٹی رہنماؤں اور سیاستدانوں کی دنیا طلبی

اگر معاشرے کے رہنما او رحکمراں طبقہ دنیا پرستی میں مبتلا ہوگئے تو سماج میں رہنے والے اور رہنما کے درمیان ایک خلیج ایجاد ہو جائے گا؛ اس وقت معاشرے کے کمزور طبقہ ان کو اپنے سے الگ سمجھیں گے اور اس کی حمایت اور مدد سے ہاتھ اٹھا لیں گے، دوسری طرف سے یہ منحوس صفت ایسے لوگوں کو وجود میں لائے گی جو کبھی بھی معاشرے کے کمزور طبقہ کی مصیبت اور درد کو نہیں سمجھیں گے۔

---------------

(۳۴)- سورہ مبارکہ ابراہیم : ۷

(۳۵)- شکر کی صورت میں زیادہ کے وعدے کو تاکیدی لفظوں لام اور نون تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ شکر کی صورت میں اضافہ و فراوانی اللہ کا ایک لازمی قانون ہے، جو خود اپنی جگہ ایک رحمت ہے۔ جبکہ نا شکری کی صورت میں عذاب کے لیے تاکیدی الفاظ اختیار نہیں فرمائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کفرانِ نعمت کی صورت میں عذاب ایک لازمی قانون نہیں ہے اور یہاں عفو کے لیے گنجائش ہے۔ اسی لیےلَاَزِيْدَنَّكُمْ فرمایا،لاعذبنکم نہیں فرمایا۔ نعمتوں پر شکر کرنا ایک صحیح طرز فکر، متوازن سوچ اور اعلیٰ قدروں کا مالک ہونے کی دلیل ہے۔ ایسے لوگ نعمتوں کی قدر دانی کرتے ہیں۔ شیخ محسن علی نجفی؛ بلاغ القرآن۔

۳۳

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت علیہ السلام اور باقی ائمہ علیہم السلام کا دنیا داری سے بچ کر غریبوں مسکینوں اور فقیروں کے ساتھ رہنا تنگدستی اور پیسہ نہ ملنے کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ کمزور اور ناتوان لوگوں کی مصائب کو سمجھنے کے لیے تھا۔ قرآن کریم کبھی کسی قوم کے لالچی حکمران کو "ملاء " کہ کر خطاب کر رہا ہے اور انہیں طغیان گری اور کفر و نفاق کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے:

﴿و قَالَ الْمَلَإُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَ إَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هٰذَا إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يَإكُلُ مِمَّا تَإكُلُونَ مِنْهُ وَ يَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ﴾

اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے جو آخرت کی ملاقات کی تکذیب کرتے تھے اور جنہیں ہم نے دنیاوی زندگی میں آسائش فراہم کررکھی تھی کہا : یہ تو بس تم جیسا بشر ہے، وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔(۳۶)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے حضور فریاد کر رہے ہیں:

﴿ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيتَ فِرْعَوْنَ وَ مَلَإَهُ زِينَةً وَ إَمْوَالاً فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى إَمْوَالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلاَ يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْإَلِيمَ﴾

اے ہمارے پروردگار! تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیاوی زندگی میں زینت بخشی اور دولت سے نوازا ہے پروردگارا! کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ (دوسروں کو ) تیری راہ سے بھٹکائیں؟ پروردگارا ان کی دولت کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ یہ لوگ دردناک عذاب کا سامنا کرنے تک ایمان نہ لائیں۔ (۳۷)

---------------

(۳۶)- سورہ مومنون : ۳۳

(۳۷)- سورہ مبارکہ یونس :۸۸

۳۴

دوسرا لفظ جسے قرآن نے دنیا پرست رہنماؤں کے لیے استعمال کیا وہ "مترف یعنی عیاش" اور اس کے دیگر مشتقات ہیں۔ جیسے :سورہ سبأ آیت ۳۴ اور ۳۵ میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ مَا إَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلاَّ قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا إُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ وَ قَالُوا نَحْنُ إَكثَرُ إَمْوَالاً وَ إَوْلاَداً وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ﴾

اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگریہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ لوگ کہتے تھے: جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔ اور کہتے تھے: ہم اموال اور اولاد میں بڑھ کر ہیں ہم پر عذاب نہیں ہو گا۔

اسی طرح سورہ اسراء آیت نمبر ۱۶ میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ إِذَا إَرَدْنَا إَنْ نُهلِكَ قَرْيَةً إَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيراً﴾

اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، تب اس بستی پر فیصلہ عذاب لازم ہو جاتا ہے پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔(۳۸)

امام علی علیہ السلام بھی اپنے گورنروں اور والیوں سمیت تمام کارکنوں کو عیاشی، دنیا پرستی، سیکولرازم اور اشرافیت سے نہی فرماتے تھے، اور ان کاموں میں ہمیشہ ان کے اوپر نگراں رہتے تھے ۔ اپنے کسی والی -عثمان بن حنیف - کے نام خط میں لکھتے ہیں :

----------------

(۳۸)- شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں: قرآن کے مطابق ہر قوم کی تباہی اس کے مراعات یافتہ طبقہ مترفین کی طرف سے آتی ہے، وہ تمام تر وسائل اور سہولیات کو اپنا حق تصور کرتے ہیں اور محروم طبقہ کے حقوق کو پامال کرتے ہیں۔ یہاں سے بقائے باہمی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور قومیں ہلاکت کا شکار ہو تی ہیں۔

۳۵

إَمَّا بَعْدُ يَا ابْنَ حُنَيفٍ فَقَدْ بَلَغَنِي‏ إَنَ‏ رَجُلًا مِنْ‏ فِتْيَةِ إَهلِ‏ الْبَصْرَةِ دَعَاكَ إِلَى مَإدُبَةٍ فَإَسْرَعْتَ إِلَيهَا تُسْتَطَابُ لَكَ الْإَلْوَانُ وَ تُنْقَلُ إِلَيكَ الْجِفَانُوَ مَا ظَنَنْتُ إَنَّكَ تُجِيبُ إِلَى طَعَامِ قَوْمٍ عَائِلُهُمْ مَجْفُوٌّ وَ غَنِيُّهُمْ مَدْعُوٌّ فَانْظُرْ إِلَى مَا تَقْضَمُهُ‏ مِنْ هَذَا الْمَقْضَم فَمَا اشْتَبَهَ عَلَيكَ عِلْمُهُ فَالْفِظْهُ وَ مَا إَيقَنْتَ بِطِيبِ وُجُوهِهِ فَنَلْ مِنْه‏

اے ابن حنیف! مجھے یہ اطلاع ملی ہے بصرہ کے جوانوں میں سے ایک شخص نے تمہیں کھانے پر بلایا اور تم لپک کر پہنچ گئے کہ رنگا رنگ کے عمدہ عمدہ کھانے تمہارے لیے چن چن کر لائے جا رہے تھے اور بڑے بڑے پیالے تمہاری طرف بڑھائے جا رہے تھے۔ مجھے امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن کے یہاں سے فقیر و نادار دھتکارے گئے ہوں اور دولت مند مدعو ہوں۔ جو لقمے چباتے ہو انہیں دیکھ لیا کرو، اور جس کے متعلق شبہ بھی اسے چھوڑدیا کرو اور جس کے پاک و پاکیزہ طریق سے حاصل ہونے کا یقین ہو اس میں سے کھاؤ۔(۳۹)

اس کے بعد امام علیہ السلام اپنی پاک سیرت کو بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:

تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہر مقتدی کا ایک پیشوا ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے، اور جس کے نور علم سے کسب ضیاء کرتا ہے۔ دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس دنیا کے ساز و سامان میں سے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تمہارے بس کی یہ بات نہیں۔ لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیز گاری سعی و کوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو۔ خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا او رنہ اس کی مال و متاع میںسے انبارجمع کر رکھے ہیں، اور نہ ان کپڑوں کے بدلے میں (جو پہنے ہوئے ہوں) اور کوئی پرانا کپڑا میں نے مہیا کیا ہے۔(۴۰)

--------------

(۳۹)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۳۶۱ مکتوب ۴۵

(۴۰)- ایضا ص ۳۶۲

۳۶

اس کے بعد امام فرماتے ہیں:

اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد، عمدہ گیہوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کے لیے ذرائع مہیا کر سکتا تھا لیکن ایسا کہاں ہوسکتا ہے کہ خواہشیں مجھے مغلوب بنالیں، اور حرص مجھےاچھے اچھے کھانوں کے چن لینے کی دعوت دے جبکہ حجاز و یمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں کہ جنہیں ایک روٹی کے ملنے کی بھی آس نہ ہو، اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ہوا ہو۔ کیا میں شکم سیر ہو کر پڑا رہا ہوں؟ در آنحالیکہ میرے گرد و پیش بھوک اور پیا سے جگر تڑپتے ہوں یا میں ویسا ہو جاؤن جیسے کہنے والے نے کہا کہ تمہاری بیماری یہ کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو اور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کو ترس رہے ہوں، کیا میں اسی میں مگن رہوں کہ مجھے امیر المومنین کہا جاتا ہے مگر میں زمانہ کی سختیوں میں مومنوں کا شریک و ہمدم اور زندگی کے بد مزگیوں میں ان کے لیے نمونہ نہ بنوں! میں اس لیے پیدا نہیں ہوا ہوں کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہوں۔ اس بندھے ہوئے مغلوب چوپایہ کی طرح جسے صرف پنے چارے ہی کی فکر لگی رہتی ہے یا اس کھلے ہوئے جانور کی طرح جس کا کام منہ مارنا ہوتا ہے، وہ گھاس سے پیٹ بھر لیتا ہے اور جو اس سے مقصد پیش نظر ہوتا ہے اس سے غافل رہتا ہے کیا میں بے قید و بند چھوڑ دیا گیا ہوں؟ یا بیکار کھلے بندوں رہا کر دیا گیا ہوں کہ کمراہی کی رسیوں کو کھینچتا رہوں اور بھٹکے جگہوں میں منہ اٹھائے پھرتا رہوں؟(۴۱)

------------------

(۴۱)- ایضا ص ۳۶۳

۳۷

امام علیہ السلام کے اس نورانی کلام میں غور و فکر کرنا اسلامی معاشرے کے حکمرانوں کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے مولا کی پیروی کرتے ہوئے دنیا کی زیب و زینت اور تجملات سے پرہیز کریں، ان لوگوں کی بھی فکر کریں جن کے پاس کھانے کے لیے روٹی کا ایک نوالہ بھی نہیں ہے؛ اس صورت میں حکمرانوں کی انسانی جذبہ میں طوفان آئے گا اور معاشرے کی مشکلات کو حل کرنے کی فکر میں پڑیں گے۔ اسی خط میں امام علیہ السلام دنیا کی مکر اور دھوکہ بازی کو بھی بیان کرتے ہیں اور اپنے حکمرانوں سے فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں کے حالات پر غور و فکر کریں جوزمین کےاندر دفن ہو چکے ہیں اور اپنی دنیا کو دوسروں کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ اس کے بعد امام علیہ السلام دنیا داری سے دور رہنے کی سخت تاکید کرتے ہیں اور دنیا پرستوں کو وارننگ دیتے ہیں۔ ساتھ ہی دنیا میں اپنی حالت کو بھی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح آپ ؑ نے دنیا کی مہار کو اپنے ہاتھ میں لیا نہ کہ اپنی مہار کو دنیا کے ہاتھ میں دیا۔ اور آخر میں عثمان بن حنیف کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَاتَّقِ اللَّهَ يَا ابْنَ حُنَيفٍ وَ لْتَكفُفْ إَقْرَاصُكَ لِيَكُونَ مِنَ النَّارِ خَلَاصُك‏

پس اللہ سے ڈرو اے ابن حنیف!اور اپنی روٹی کے نوالوں پر بس کرو تا کہ تو دوزخ کی آگ سے بچ سکے۔

دنیا کی زینتوں کی طرف دل لبھاناذاتی نقصانات اور برے اثرات کے علاوہ سماج میں اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جو انسان دنیا پرست بن جائے وہ خود کو تباہ و برباد کرنے کے علاوہ معاشرہ کو بھی تباہ و بربادی کے کنویں میں دھکیل دے گا، امام علیہ السلام مالک اشتر کے عہد نامہ میں لکھتے ہیں:

۳۸

فَإِنَّ الْعُمْرَانَ مُحْتَمِلٌ مَا حَمَّلْتَه‏ وَ إِنَّمَا يُؤْتَى‏ خَرَابُ‏ الْإَرْضِ‏ مِنْ إِعْوَازِ إَهلِهَا وَ إِنَّمَا يُعْوِزُ إَهلُهَا لِإِشْرَافِ إَنْفُسِ الْوُلَاةِ عَلَى الْجَمْعِ وَ سُوءِ ظَنِّهِمْ بِالْبَقَاءِ وَ قِلَّةِ انْتِفَاعِهِمْ بِالْعِبَرِ

کیونکہ ملک آباد ہے تو جیسا بوجھ اس پر لا دوگے، وہ اٹھالے گا اور زمین کی تباہی تو اس سے آتی ہے کہ کاشتکاروں کے ہاتھ تنگ ہو جائیں اور ان کی تنگ دستی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ حکام مال و دولت کو سمیٹنے پر تل جاتے ہیں اور انہیں اپنے اقتدار کے ختم ہونے کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور عبرتوں سے بہت کم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔(۴۲)

امام علیہ السلام اپنی پوری حکومت کے کے دوران دنیا کی مذمت اور آپ کے دنیا سے تعلق کے علاوہ اپنے گورنروں او رحکمرانوں کو بھی دنیا کی زینتوں او ررنگینیوں سے دور رہنے کی تاکید فرماتے تھے، اور انہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طرز زندگی کی یاد دہانی فرماتے تھے۔(۴۳)

----------------

(۴۲)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۴۵۹ مکتوب ۵۳

(۴۳)- ایضا ص ۳۷۳ خ ۱۵۹

۳۹

ب: سماج میں رہنے والے عام لوگوں کی دنیا پرستی

یہ بات واضح ہے کہ صرف حکمرانوں، گورنروں اور صاحب اقتدار لوگوں کی دنیا کی طرف رغبت اور تمایل مذموم نہیں ہے بلکہ اس مشکل میں اگر امت مسلمہ بھی پڑ جائے تو بھی حکومتیں ہی نابود اور برباد ہوں گی۔

حضرت علی علیہ السلام خطبہ ۱۳۱ میں لوگ اور معاشرے کی تباہی کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَ تَعَادَيْتُمْ‏ فِي‏ كَسْبِ‏ الْأَمْوَالِ‏

اور مال کے کمانے پر ایک دوسرے سے دشمنی رکھتے ہو۔(۴۴)

اگر کوئی امت دنیا پرستی میں مبتلاء ہونے کے بعد متزلزل ہو جائے اور پر معنی بلندیوں کو سر کرنے کے بجائے ذلت و پستی کے گہرائی کھائی میں گر پڑے تو آپ ع کی نظر میں وہ امت کبھی بھی فلاح و سعادت حاصل نہیں کر سکے گی:

فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ تَغَيَّرَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ‏ عَنْ‏ كَثِيرٍ مِنْ حَظِّهِمْ فَمَالُوا مَعَ الدُّنْيَا وَ نَطَقُوا بِالْهَوَى وَ إِنِّي نَزَلْتُ مِنْ هَذَا الْإَمْرِ مَنْزِلًا مُعْجِبا اجْتَمَعَ بِهِ إَقْوَامٌ إَعْجَبَتْهُمْ إَنْفُسُهُمْ وَ إَنَا إُدَاوِي مِنْهُمْ قَرْحاً إَخَافُ إَنْ يَكُونَ عَلَقاً

کتنے ہی لوگ ہیں جو آخرت کی بہت سی سعادتوں سے محروم ہو کر رہ گئے ۔ وہ دنیا کے ساتھ ہو لیے۔ خواہش نفسانی سے بولنے لگے۔ میں اس معاملے میں ایک حیرت و استعجاب کی منزل میں ہوں کہ جہان ایسے لوگ اکھٹے ہوں گے جو خود بینی، اور خود پسندی میں مبتلا ہیں۔ میں ان کے زخم کا مداوا تو کر رہا ہوں مگر ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ منجمد خون کی صورت اختیار کر کے لا علاج نہ ہوئے۔ (۴۵)

----------------

(۴۴)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۳۲۵ خ ۱۳۱

(۴۵)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۶۹۵ مکتوب ۷۸۔

۴۰

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں ان سے شفاعت کا طلب کرنا

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں موجود روایات پر نگاہ ڈالنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ صحابہ کرام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت کی درخواست کیا کرتے تھے جن میں سے دو مورد کی طرف اشارہ کررہے ہیں :

۱۔انس کی روایت:

انس بن مالک کہتے ہیں : میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ وہ روز قیامت میری شفاعت کریں

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میری درخواست کوقبول کرلیا اور فرمایا: میں اسے انجام دوں گا

میں نے عرض کیا : اس دن میں کس مقام پر آپ سے ملاقات کروں ؟

فرمایا : پل صراط کے کنارے. ۔

میں نے عرض کیا : اگر وہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہ پا سکوں تو پھر ؟( ۱ )

فرمایا : میزان کے کنارے۔

میں نے پھر عرض کیا : اگر وہاں بھی آپ کو نہ پا سکا تو پھر ؟

فرمایا : حوض کے کنارے اس لیے کہ میں ان تین مقامات کے علاوہ کہیں اور نہیں ہوں گا.

____________________

۱۔سنن ترمذی ۴: ۶۲۱ ، ح ۲۴۳۳. اس روایت کا متن یوں ہے : انس بن مالک کہتے ہیں : سألت النبی صلی الله علیه وآله وسلم أن یشفع لی یوم القیامة ؟

فقال : أنا فاعل .......قلت : فأین اطلبک ؟

قال: اولا علی الصراط

قلت : فان لم ألقک ؟

قال : عند المیزان

قلت: فان لم ألقک ؟

قال : عند الحوض ؛ فانّی لا أخطی هذا المواضع

۴۱

۲۔سواد بن قارب کی روایت:

روایت میں آیا ہے کہ ایک دن سواد بن قارب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور اشعار کی صورت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت طلب کرتے ہوئے کہا :

وکن لی شفیعا یوم لا ذو شفاعة

سواک بمغن فتیلا عن سواد بن قارب ( ۱ )

اے پیغمبر ! روز قیامت میری شفاعت کرنا ، اس روز کہ جب دوسروں کی شفاعت خرما کے برابر بھی میرے کام نہ آئے گی

____________________

۱۔ الاصابة ۲: ۶۷۵،ح ۱۱۰۹؛ الاحادیث الطوال طبرانی : ۲۵۶ ؛ الدّرر السّنیة فی الرد علی الوھابیة: ۲۷

۴۲

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعدان سے شفاعت کی درخواست

ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت صرف ان کی زندگی ہی میں محدود نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام وصال کے بعد بھی پیغمبر رحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت کی درخواست کرتے رہتے اس بارے میں چند روایات نقل کر رہے ہیں :

۱۔ حضرت علی علیہ السلام کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت طلب کرنا :

محمد بن حبیب کہتا ہے : جب حضرت علی علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل وکفن دے چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ مبارک سے کفن کو ہٹاتے ہوئے عرض کیا :

بأبی أنت و امّی طبت حیّاو طبت میّتا بأبی أنت و امّی أذکرنا عند ربّک (۱)

میرے ماں باپ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہوں آپ نے پاک و پاکیزہ زندگی کی اور پا ک و پاکیزہ ربّ کی بارگاہ میں منتقل ہوئے .. میرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہوں اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہمیں بھی یاد رکھنا.

۱۔ التمہید ، ابن عبد البر ۲: ۱۶۲؛شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۱۳: ۴۲، ح۲۳.

۲۔ ابوبکر کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت طلب کرنا :

حضرت عائشہ کہتی ہیں : جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کی خبر ابو بکر تک پہنچی ...تو اس نے اپنے کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے (بدن مبارک )کے اوپر گرایا ، چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹاکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صورت و پیشانی اور رخساروں پر ہاتھ ملتے ہوئے رو کر کہا :.اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ہمیں اپنے پرور دگار کی بارگاہ میں یاد رکھنا( ۱ )

____________________

۱۔ تمہید الأوائل و تلخیص الدلا ئل ، باقلانی ۱: ۴۸۸؛ الدرر السنیّة فی الرد ّ علی الوبابیة : ۳۴؛سبل الھدی والرشاد ۲:۲۹۹، باب ۲۸. اس حدیث کا متن یہ ہے :قالت عائشه وغیرها من الصحابة : انّ الناس أفحموا ودهشوا حیث ارتفعت الرنة حتی جاء الخبر أبا بکر حتی دخل علی رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم فأکبّ علیه و کشف عن وجهه و مسحه و قبّل جبینه و خدّیه و جعل یبکی و یقول : بأبی أنت وأمی و نفسی وأهلی طبت حیّا و مشیا أذکرنا یا محمد عند ربّک

۴۳

۳۔ اعرابی کا صحابہ کی موجودگی میں شفاعت طلب کرنا:

احمد زینی دحلان ( امام الحرمین ) نے اس بارے میں ابن حجر عسقلانی سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے : روایت میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے تین بعد ایک عر ب بادیہ نشین مدینے میں وار د ہوا اورقبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جا کر اپنے کو اس پر گرایا اور قبر کی خاک کو سر میں ڈال کر کہنے لگا : یا رسول اللہ ! آپ نے اپنی زندگی میں کچھ باتیں بیان فرمائیں ، ہم نے انہیں قبول کیا جس طرح آپ نے دستورات دینی کو خدا سے لیا اسی طرح ہم نے ان دستورات کو آپ سے لیا وہ آیات جو خدا وند متعال نے آپ پر نازل فرمائیں ان میں سے ایک یہ آیت بھی ہے :

( ولو أنهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفروا الله واستغفرلهم الرسول لوجدوا الله توّابا رحیما ) ۔

اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے لیے استغفار کرتے اور رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے.( ۱)

یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! میں نے اپنے اوپر ستم کیا ہے اور آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں تا کہ خدا سے میری بخشش کی دعا کریں

اتنے میں قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آواز آئی کہ خد انے تجھے بخش دیا ہے( ۲ )

____________________

۱۔سورہ نساء : ۶۴

۲۔الدرر السنیّة فی الردّ علی الوہابیة : ۲۱، نقل از جواہر الکلام ؛ تفسیر قرطبی ۵: ۲۶۵، ذیل آیت ۶۴ سورہ نساء ؛ تفسیر بحر المحیط ابو حیّان اندلسی ۴: ۱۸۰، باب ۶۴ ذیل سورہ نساء ان کتب میں یوں نقل ہوا ہے :قال العلاّمة ابن حجر فی جوهر المنّظم : وروی بعض الحفاظ عن أبی سعید السمعانی أنّه روی عن علی رضی الله عنه وکرّم الله وجهه : انّهم بعد دفنه صلی الله علیه وآله وسلم بثلاثة ایّام ، جائهم أعرابی ، فرمی بنفسه علی القبر الشریف و حثی ترابه علی رأسه ، وقال : یا رسول الله ! قلت فسمعنا قولک و وعیت عن الله ما وعینا عنک ، وکان فیما أنزل الله علیک قوله تعالی : ولو أنهم اذ ظلموا وقد ظلمت

۴۴

حیات انبیاء

اس میں شک نہیں ہے کہ انبیائے الہی اور خاص طور پر آخری سفیر الہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحلت کے بعد بھی حیات ابدی کے مالک ہیں وہ دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں اور امّت کے اعمال ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں

ان کی یہ زندگی شہداء کی زندگی سے بالا تر ہے اس لیے کہ یقینا مقام نبوت مقام شہادت سے بلند وبالا ہے اس اعتبار سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ان سے شفاعت طلب کرنا کسی مردے سے شفاعت طلب کرنا نہیں ہے.

اس بارے میں مسلمان علماء و مفکرین نے اپنی آراء بیان کی ہیں جن میں سے چند ایک کو یہاں بیان کر رہے ہیں :

قسطلانی کہتے ہیں :لا شک ّ أنّ حیاة الأنبیاء علیهم الصلاة و السلام ثابتة معلومة مستمرّة و نبیّنا أفضلهم ، و اذا کا ن کذالک فینبغی أن تکون حیاته أکمل و أتمّ من حیاة سائرهم

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انبیاء کا وفات کے بعد بھی زندہ ہونا ایک ثابت، معلوم اور دائمی امر ہے دوسر ی طرف ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم باقی انبیاء سے افضل ہیں تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی بھی رحلت کے بعد ان سے اکمل ہو گی( ۱ )

____________________

۱۔المواھب اللدنیّة ۳: ۴۱۳.

۴۵

شوکانی اپنی کتا ب نیل الأوطار فصل صلا ة المخلوقات علی النبی ّ وهو فی قبره حیّمیں لکھتا هے : وقد ذهب جماعة من المحققین الی انّ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم حیّ بعد وفاته و أنّه یسرّ بطاعات أمته ، وأنّ الأنبیاء لا بیلون ، مع أنّ مطلق الادراک کالعلم والسماع ثابت لسائر الموتی ، وورد النصّ فی کتاب الله فی حق ّ الشهدا ء أنّهم أحیاء یرزقون و أنّ الحیاة فیهم متعلقة بالجسد ، فکیف بالأنبیاء والمرسلین وقد ثبت فی حدیث : أنّ الأنبیاء أحیاء فی قبورهم و رواه المنذری و صحّحه البیهقی

محققین کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحلت کے بعد بھی زندہ ہیں اور اپنی امّت کی اطاعا ت سے خوش ہوتے ہیں .انبیاء کے بدن قبر میں بوسیدہ نہیں ہوتے مطلقا ادراک جیسے علم وسماعت تمام مردوں کے لیے ثابت ہے اور قرآ ن کریم کی واضح نص کے مطابق شہدا ء زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے تو ان کی زندگی ان کے بدن سے متعلق ہے پس جب شھداء ایسے ہیں تو انبیاء و رسول تو بدرجہ اولیٰ زندہ ہیں اور ان کی زندگی ان کے جسم سے مربوط ہے

ابن حجرہیثمی اپنی کتاب میں عبد اللہ بن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات کے بعد اپنی حیات کے بارے میں یوں فرمایا :حیاتی خیر لکم تحدثون و یحدث لکم ، ووفاتی خیر لکم ، تعرض علیّ أعمالکم فما رأیت من خیر حمدت الله علیه وما رأیت من شرّ أستغفرت الله لکم

میری زندگی بھی تمہارے لیے با عث برکت ہے اور میری وفات بھی تمہارے اعمال میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں جب تمہارے نیک اعمال کو دیکھتا ہوں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور جب تمہارے برے اعمال کو دیکھتا ہوں تو تمہارے لیے استغفار کرتا ہوں

۴۶

ابن حجر اس حدیث کی سند کے معتبر ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اس حدیث کے راوی وہی صحیح بخاری اور صحیح مسلم والے ہیں( ۱ )

مسلم نیشاپوری نے بھی اپنی کتاب میں اس بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :مررت علی موسیٰ لیلة اسری بی عند الکثیب الأحمر وهو قائم یصلّی فی قبره

جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا وہ اپنی قبر میں نماز میں مشغول تھے.( ۲ )

____________________

۱۔ مجمع الزوائد ۹ : ۲۴؛ الجامع الصغیر : ۵۸۲؛ کنز العمّال ۱۱: ۴۰۷.

۲۔ صحیح مسلم ۷: ۱۰۲کتاب فضائل موسیٰ علیہ السلام ؛ المصنف عبد الرزّاق ۳:۵۷۷.

۴۷

استغفارآیات کی روشنی میں

اب چونکہ استغفار کی بات آگئی تو مناسب یہی ہے کہ اس موضوع کو آیات و روایات کی روشنی میں پرکھا جائے اس بارے میں قرآن کریم کی بہت سی آیات موجود ہیں جن میں سے چند ایک کو بیان کر رہے ہیں :

۱۔ ہم سورہ منافقون میں پڑھتے ہیں :

( واذا قیل لهم تعالوا یستغفر لکم رسول الله لوّوا رؤسهم و رأیتهم یصّدون وهم مستکبرون ) ( ۱)

ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے حق میں استغفار کریں گے تو سر پھرا لیتے ہیں اور تم دیکھو گے کہ استکبار کی بناء پر منہ بھی موڑ لیتے ہیں

خدا وند متعال نے اس آیت مجیدہ میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاعت طلب کرنے سے رو گردانی کرنے کو نفاق کی علامت بیان کیا ہے .تو اس کی ضد یا نقیض وہی دنیا میں شفاعت کی درخواست کرنا ہے جو ایمان کی علامت ہے

۱۔ سورہ نساء میں بیان ہوا ہے :( ولو أنّهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفرواالله واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توّابا رحیما ) ( ۲)

ترجمہ: اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا توآپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا او ر مہربان پاتے.

نیز یہ آیت بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بخشش کے طلب کرنے کو واضح طور پر بیان کررہی ہے جو حقیقت میں وہی طلب شفاعت ہے

____________________

۱۔سورہ منافقون : ۵.

۲۔سورہ نساء : ۶۴.

۴۸

شفاعت کے بارے میں وہابی نظریہ

وبابی فرقہ اس بات کا مدعی ہے کہ دنیا میں شفاعت کا طلب کرنا حرام ہے .ابن عبد الوھاب کہتا ہے :(من جعل بینه و بین الله وسائط یدعوهم و یسألهم الشفاعة کفراجماعا )( ۱ )

جو شخص اپنے اور خدا کے درمیان واسطے قرار دے ، انہیں پکارے اور ان سے شفاعت طلب کرے تو اجماع کے مطابق اس نے کفر کیا ...؛

ہم ان کے اس نظریہ کو ردّ کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے مدعا پر محکم و قاطع ادلّہ بیان کریں گے اور پھر علمی وعقلی ادلّہ کے ساتھ ان کے نظریہ کو ردّ کریں گے

واضح ہے کہ وہابی دونوں اعتبار سے عاجز و ناتوان ہیں اب ہم فقط ان کی ادلّہ کو بیان کرنے پر اکتفا کریں گے

سب سے پہلی آیت جس سے وہابی استدلال کرتے ہیں وہ یہ آیت مجیدہ ہے کہ خدا وند متعال فرماتا ہے: (( ویعبدون من دون الله مالا یضرّهم ولا ینفعهم و یقولون هٰؤلاء شفعائنا عند الله قل أتنبئون الله بما لا یعلم فی السماوات ولا فی الأرض سبحانه وتعالی عمّا یشرکون ) )( ۲ )

ترجمہ:اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ا ن کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں تو آپ کہہ دیجیے کہ تم تو خدا کو اس بات کی اطلاع کر رہے ہو جس کا علم اسے زمین و آسمان میں کہیں نہیں ہے وہ پاک وپاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے

محمد بن عبد الوہاب اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتاہے : خدا نے اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ جو شخص کسی کو خدا اور اپنے درمیان واسطہ قرار دے تو اس نے در حقیقت اس کی پرستش کی اور اسے خدا کا شریک ٹھہرایا ہے.

____________________

۱۔ مجموعة المؤلفات ۱: ۳۸۵؛ اور ۶: ۶۸ ،۲۔ سورہ یونس : ۱۸.

۴۹

اس نظریہ کا جواب

ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس آیت سے اس طرح کا مفہوم لینا بہت عجیب اور خدا پر جھوٹ و افتراء کا واضح مصداق ہے اس آیت میں کہاں یہ کہا گیا ہے کہ کسی کو خدا اور اپنے درمیان واسطہ قرار دینا شرک ہے؟ کیا اس طرح کا مفہوم لینا اس آیت مجیدہ کا مصداق نہیں ہے :

( آلله أذن لکم أم علی الله تفترون ) ( ۱ )

کیا خدا نے تمہیں اس کی اجازت دی ہے یا خدا پر افترا کررہے ہو ؟

اس لیے کہ آیت کا محورغیر خدا کی عبادت ہے نہ کہ کسی کو شفیع و واسطہ قرار دینا .آیت مجیدہ سے اس طرح کا مفہوم لینا اپنے مدعا کے اثبات کی خاطر ایک طرح کا مغالطہ یا کج فہمی ہے چونکہ یقینا جو لوگ انبیاء و آئمہ اطہار اورصالحین کو واسطہ قرار دیتے ہیں وہ ان کی پرستش نہیں کرتے.

اور پھر اس آیت مجیدہ کا شان نزول بھی اس بات کی حکایت کررہا ہے کہ جن کی مذمت کی گئی وہ وہ افراد تھے جو واسطوں کی پرستش کیا کرتے تھے نہ کہ صرف ان کو واسطہ قرار دیتے تھے چند ایک نمونوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں

جلال الدین سیوطی لکھتاہے: نضر ( جو مشرک تھا ) نے کہا :

روز قیامت لات وعزیٰ میری شفاعت کریں گے .اس وقت خدا وند متعال نے یہ آیت نازل کی :( فمن أظلم ممن افتری علی الله کذبا أو کذب بآیاته انّه لا یفلح المجرمون. و یعبدون من دون الله مالا یضرّهم ولا ینفعهم ..؛ ) ( ۲ )

ترجمہ : اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پرجھوٹا الزام لگائے یا اس کی آیتوں کی تکذیب کرے جب کہ وہ مجرمین کو نجات دینے والا نہیں ہے اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں نہ فائدہ ...؛

____________________

۱۔ سورہ یونس : ۵۹.

۲۔سورہ یونس : ۱۷و ۱۸.

۵۰

ابن کثیر اس آیت کی تفسیر اور شان نزول کے بارے میں لکھتاہے:

خداوند متعال اس آیت میں ان مشرکین کوردّکررہا جو اس کا شریک قرار دیتے اور ان کی پرستش کیا کرتے .وہ یہ گمان کرتے کہ ان کے خیالی خداان کو پروردگار حقیقی کے ہاں نفع پہنچائیں گے لہذا خدا وند متعال نے ان کے اس باطل عقیدے کے مقابلہ میں ان سے فرمایا : بتوں کی شفاعت نہ تو تمہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان کو تم سے دور کر سکتی ہے وہ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں تمہارا گمان درست واقع ہو گا( ۱ )

ابو حیّان اندلسی نے بھی اس بارے میں یوں اظہار نظر کیا ہے :

فعل یعبدون کی ضمیر کفار کی طرف پلٹ رہی ہے اور( مالا یضرّهم ولا ینفعهم ) سے مراد بت ہیں جو نفع پہنچانے یا ضرر کو دفع کرنے کی قدرت نہیں رکھتے. اہل طائف لات کی پوجا کیا کرتے اور اہل مکہ عزٰی ، منات ، آسافا ، نائلہ اور ہبل کی پرستش کیا کرتے( ۲ )

____________________

۱۔ تفسیر القرّن العظیم ۲:۶۲۴ ذیل آیت سورہ یونس ، اس منبع میں اس طرح سے وارد ہوا ہے ۔ینکر تعالی علی المشرکین الذین عبدوا مع الله غیره ظانین ان تلک الالهة تنفعهم شفاعتها عند الله فأخبر تعالیٰ انها لا تنفع و لا تضر و لا تملک شیئا و لا یقع شیء مما یزعمون فیها و لا یکون هذ ابدا

۲۔ تفسیر البحر المحیط ؛ ج۵ ، ص ۱۳۳ سورہ یونس کی اٹھار ویں آیت کے ضمن میں اس منبع میں اس طرح سے نقل ہوا ہے :الضمیر فی و یعبدون عائد علی کفار قریش الذین تقدمت محاورتهم وما لا یضرهم و لا ینفعهم هو الاصنام ، جماد لا تقدر علی نفع و لا ضرر وکان أهل الطائف یعبدون اللات و أهل مکة العزی و مناة و أسافا و و نائلة وهبل

۵۱

آلوسی مشرکین کی اس طرح کی عبادت کو ظلم شمار کرتے ہوئے لکھتا ہے:

یہ آیت مشرکین کے ایک اور ظلم کی حکایت کر رہی ہے اور اس جملہ کا عطف آیت نمبر ۱۵ پر ہے جس میں یہ فرمایا :( واذاتتلی علیهم ) کہ یہ آیت بھی مشرکین کے بارے میں تھی اور خدا وند متعال اس آیت کے قصہ کو اس آیت کے قصہ پر عطف کر رہا ہے اور پھر لفظ ما اس آیت میں یا تو موصولہ ہے یا موصوفہ کہ جس سے مراد بت ہیں اور انہی کی طرف اشارہ ہے اور اس جملہ نہ تمہیں نفع پہنچاسکتے ہیں اور نہ ہی تم سے ضرر کو دور کر سکتے ہیں کا معنی یہ ہے وہ شفاعت کی قدرت نہیں رکھتے اس لیے وہ جمادات کے سوا کچھ نہیںہیں

اس کے بعد آلوسی نے مزید لکھاہے :

اہل طائف لات کی پوجا کیاکرتے اور اہل مکہ رزی ، منات ، آسافا ، نائلہ اور ہبل کی پوجا کیا کرتے اور کہتے کہ یہ خدا کے ہاں ہمارے شفیع ہیں

ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے یو ں نقل کیا ہے :

نضر بن حارث کہتا ہے : جب روز قیامت آئے گا تو لات و عزٰی ہماری شفاعت کریں گے اس کی اس گفتگو کے بعد یہ آیت نازل ہوئی( ۱ )

____________________

۱۔ تفسر روح المعانی ۱۱: ۸۸، ذیل آیت ۱۸ سورہ یونس اس میں یوں بیان ہوا ہے :ویعبدون من دون الله حکایة لجنایة أخرٰی لهم ، وهی عطف علی قوله سبحانه : واذا تتلی علیهم ، ( یونس : ۱۵) الآیة عطف قصّة علی قصّة وما امّا موصولة أو موصوفة والمراد بها الأصنام و معنی کونها لا تضرّ ولا تنفع أنّها لا تقدر علی ذلک لأنّها جمادات ، وکان أهل الطائف یعبدون اللات ، وأهل مکّة العزٰی ومناة و هبل و أسافا ونائلة و یقولون : هٰؤلاء شفعائنا عند الله ٔخرج ابن أبی حاتم عن عکرمة قال:کان نضر بن الحارث یقول: اذاکان یوم القیامة شفعت لی اللات والعزٰی ، وفیه نزلت الآیة.

۵۲

حرمت شفاعت پردوسری دلیل

وہابیوں نے غیر خداسے شفاعت طلب کرنے کے حرام ہونے کی دوسری دلیل یو ں بیان کی ہے :

المیّت لا یملک لنفسه نفعا و لا ضرّا فضلا لمن سأله أن یشفع له الی الله ؛( ۱ )

میّت نہ تو اپنے نفع کا مالک ہے اور نہ ہی نقصان کا چہ جائیکہ وہ سوال کرنے والے کی خدا کے ہاںشفاعت کر سکے

ہم ان کی اس دلیل کے جواب میں کہیں گے : ہم اس سے پہلے تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے کہ انبیاء ، آئمہ ہدٰی اور شہداء زندہ ہیں اور نعمات الہی سے بہرہ مند ہیںجو ان کی حیات مجدد کی علامت ہے

جبکہ اس فرقے کا اشتباہ اسی مقام پر ہے کہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ انبیاء کی رحلت کے بعد ان سے شفاعت کی درخواست کرنا ایساہی ہے جیسے کسی مردے سے شفاعت کی درخواست کی جائے گویا انہوں نے قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت ہی نہیں کی ہے یا اس کے معنیٰ میں تدبّر نہیں کیا یا پھر باقی آیات کی مانند اس آیت کی تفسیر بھی اپنی کج فہمی کے ساتھ کی ہے خد اوند متعال فرماتا ہے :

( ولا تحسبنّ الّذین قتلوا فی سبیل الله أمواتا بل أحیاء عند ربّهم یرزقون فرحین بما آتاهم الله من فضله و یستبشرون بالّذین لم یلحقوا بهم من خلفهم ألّا خوف علیهم ولا هم یحزنون یستبشرون بنعمة من الله و فضل و أنّ الله لا یضیع أجر المؤمنین ) ( ۲ )

ترجمہ: او ر خبر دار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ مت کہنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں خدا کی طرف سے ملنے والے فضل و کرم سے خوش ہیں اور جو ابھی تک ان سے ملحق نہیں ہو سکے ہیں ان کے بارے میں خوش خبری رکھتے ہیں کہ ان کے واسطے بھی نہ کوئی خوف ہے نہ حزن وہ اپنے پرور دگار کی نعمت ، اس کے فضل اور اس کے وعدے سے خوش ہیں کہ وہ صاحبان ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا

____________________

۱۔ مجموعة المؤلفات ۱: ۲۹۶؛ اور ۴: ۴۲.

۲۔ سورہ آل عمران : ۱۶۹ تا ۱۷۱.

۵۳

سمھودی نے بھی کتابوفاء الوفاء بأحوال دار المصطفیٰ میں ان روایات کو نقل کیا ہے جو انبیاء کی رحلت کے بعد بھی ان کے زندہ ہونے پر دلالت کررہی ہیں جن میں سے ایک روایت یہ ہے :

ألأنبیاء أحیاء فی قبورهم یصلّون

انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں.

دوسری روایت یہ ہے :

انّ الله حرّم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیائ ؛( ۱ )

خدا وند متعال نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجساد کو نقصان پہنچائے

اس بارے میں اور بھی روایات وارد ہوئی ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی رحلت کے بعد ان کے زندہ و جاوید ہونے پر دلالت کرتی ہیں جو کچھ بیان کیا گیا اس کی بناء پر اس فرقہ کا عقیدہ مسلمانوں کے ان مسلّمہ عقائد کے خلاف ہے جو انہوں نے دسیوں آیات و روایات سے لیے ہیں

دوسری جانب چونکہ وہابی ان واضح و قاطع ادلّہ کو ردّ یا ان کی توجیہ نہیں کرسکتے لہذا ان کا تفکّر مسلمانوں کے تفکّر کے مقابل قرار پاتا ہے اور عبد الکافی سبکی کے بقول ابن تیمیہ :شذّ عن جماعة المسلمین ؛ وہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہو گیا( ۲ )

ہم انحراف کے شر، شیطان کے وسوسے اورنفاق سے بچنے کے لیے خداوند متعا ل سے پناہ چاہتے ہیں

____________________

۱۔ وفاء الوفاء بأحوال دار المصطفیٰ ۴: ۱۳۴۹.

۲۔ طبقات الشافعیة الکبرٰی ۱۰: ۱۴۹؛ مقدمة الدرّة المضیئة فی الردّ علی ابن تیمیہ بحوث فی الملل والنحل سبحانی ۴: ۴۲ ؛ سلفیان در گذر تاریخ : ۲۳.

Internet Download Manager

Internet Download Manager has been registered with a fake Serial Number

OK

۵۴

خاک مدینہ سے علاج

نقل شدہ روایات کے مطابق مسلمان خاک مدینہ کو بطور تبرّک استعمال کیا کرتے سمھودی کہتے ہیں :

ابن نجّار کی کتاب اور ابن جوزی کی کتاب الوفاء سے ہم تک یہ روایت پہنچی ہے:

غبار المدینة شفاء من الجذام (۱)

____________________

۱۔ فیض القدیر ۴: ۴۰۰؛ التیسیر بشرح الجامع الصغیر ۲: ۱۵۹.

۵۵

مناوی فیض القدیر میں لکھتے ہیں: ابوسلمہ کہتے ہیں : مجھ سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : غبارالمدینة شفاء من الجذامیعنی مدینہ منورہ کا غبار جذام کی بیماری کے لئے شفاء کا باعث ہے

وہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

ایک شخص جذام کے مرض میں مبتلا تھا ہم نے دیکھا کہ بیماری سے اس کی حالت بہت بری ہوچکی تھی اس نے مدینہ منوّرہ کی خاک شفاء کے طور پر استعمال کی ،ایک دن گھر سے باہر آیا اور ( قبا کے راستہ میں وادی بطحان کے اندر)کومة البیضاء نامی ریت کے ٹیلہ پر جاکر اپنے بدن کو زمین پر ملا جس سے اسے شفا مل گئی ۔( ۱ )

تبرّک اور اہل سنّت فقہاء کا نظریہ

گزشتہ صفحات میں ہم نے بیان کیا کہ فقہائے اہل سنت نے تبرّک کے جائز ہونے کا فتوی دیا ہے .عبداللہ بن حنبل کہتے ہیں : میں نے اپنے والد سے پوچھا : ایک شخص منبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تبرّک کے طور پر مس کررہا تھا اور اسے چوم رہا تھا اور یہی عمل قبر مبارک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی بجا لا رہا تھا ،کیا یہ عمل جائز ہے؟

فرمایا : اس میں کوئی عیب نہیں ہے( ۲ )

یہی روایت کتابالجامع فی العلل و معرفة الرجال میں اس اضافہ کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ : یہ شخص ان اعمال کو خداوند متعال کی بارگاہ میں تقرّب کا وسیلہ بھی قرار دیتا ہے؟

احمد بن حنبل نے جواب میں کہا : اس میں کوئی مشکل نہیں ہے( ۳ )

____________________

۱۔فیض القدیر ۴: ۴۰۰

۲۔بحوالہ سابق۴: ۱۴۱۴؛سبل الھدی والرشاد ۱۲: ۳۹۸؛ عمدة القاری ۹: ۲۴۱

۵۶

ابن العلا کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کا نظریہ ابن تیمیہ کو دکھایا تو وہ اسے دیکھ کر تعجب میں پڑ گیا اور کہنے لگا : مجھے احمد سے تعجب ہو رہا ہے اس لئے کہ میرے نزدیک وہ ایک باعظمت شخص ہیں.کیا واقعا یہ انہی کا جملہ ہے ۔( ۱ )

رملی شافعی نے بھی تبرّک کے بارے میں اسی طرح کا فتوٰی دیا ہے : اگرکوئی شخص کسی نبی یا ولی یاعالم کی قبر پر تبرّک کے قصد سے ہاتھ پھیرے یا اسے چومے تو اس میں کوئی عیب نہیں ہے.( ۲ )

محب الدین طبری شافعی کہتے ہیں : قبر کو چومنا اور اسے مس کرنا جائز ہے اور علماء وصالحین کی بھی یہی عادت رہی ہے.( ۳ )

آثار پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تبرّک

تبرّک کے دیگر نمونوں میں سے ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان کے باقیماندہ آثار سے تبرّک حاصل کرنا ہے منبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کے ہاں ایک خاص عظمت و مقام ر کھتا ہے یہاں تک کہ بعض فقہاء نے اس منبر کی عظمت واحترام کی وجہ سے اس کے پاس قسم کھانے سے منع کیا ہے اور ہمیشہ اس سے تبرّک حاصل کیا کرتے

کتاب آثار النّبوة میں نقل ہوا ہے کہ منبر پیغمبر وصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی جگہ پر موجود تھا کہ آگ کی لپیٹ میں آگیا جس سے اہل مدینہ کو بہت صدمہ پہنچا ؛ اسی آتش سوزی میں منبر کا دستہ جس پر آنحضرت اپنادست مبارک رکھا کرتے اور پاؤں مبارک کے رکھنے کی جگہ بھی جل گئی( ۴ )

____________________

۱۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۴۱۴.

۲۔ کنز المطالب ،حمزاوی :۲۱۹؛یہ فتوی شراملسی نے شیخ ابو ضیاء سے ''مواہب اللدنیہ ''کے حاشیہ میں نقل کیا. ۳۔اسنی المطالب ۱: ۳۳۱؛وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۴۰۷ ۴۔الآثارالنّبویة :

۵۷

سمہودی کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منبر پر غلاف کے مانند ایک کپڑا چڑھا کر روضہ آنحضرت کے پاس محراب میں رکھ دیا گیا ، لوگ اس محراب سے ہاتھ بڑھا کرتبرّک کے طور پر منبر مبارک کو مس کیا کرتے تھے( ۱ )

انہی روایات کی بناء پر فقہاء تبرّک اور منبر کے مس کرنے کے جواز کا فتوٰی دیا کرتے.امام مالک کے استاد یعنی یحیی بن سعید انصاری ،مالک ، ابن عمر اور مسیب سے نقل ہوا ہے کہ وہ منبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دستے کو مس کرنا جائز قرار دیتے اور اسی طرح اس کا جائز ہونا اہل بیت علیہم السلام سے بھی نقل ہوا ہے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

واذا فرغت من الدّعا ء عند قبر النبیّ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فآت المنبر فامسحه بیدک وخذ برمّانتیه ، وهما السفلان ، وامسح عینیک ووجهک به ، فانّه یقال : انّه شفاء للعین .( ۲ )

جب قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دعا سے فارغ ہوں تو منبر کے پاس جا کر اسے مس کریں اور پھر اسکے دونوں دستوں کو تھام کر اپنی صورت اور آنکھیں اس سے مس کریں ،اس لئے کہ یہ عمل آنکھوں کی شفا کا موجب ہے۔

امام غزالی نے بھی اس بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے لکھا ہے: جو شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں ان کو دیکھ کر تبرّک حاصل کر سکتا ہے وہ ان کی وفات کے بعد ان کی زیارت کرکے بھی تبرّک حاصل کر سکتا ہے اوریہی چیز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کے لئے سفر کر نے کے جواز کا باعث بنتی ہے.( ۳ )

____________________

۱۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی۲: ۳۹.

۲۔ وسائل الشیعة ۱: ۲۷۰،باب ۷.

۳۔احیا ء العلوم ۱: ۲۵۸.

۵۸

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مس شدہ سکوں سے تبرّک

نقل شدہ روایات کے مطابق صحابہ کرام ان سکوں سے تبرّک حاصل کیا کرتے جنہیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مس کیا تھا جابر بن عبداللہ کہتے ہیں: ایک سفر میں میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھاتو میرا اونٹ مریض ہو گیا اور میں قافلہ سے پیچھے رہ گیا ،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے پوچھا : اے جابر ! کیا ہوا ؟

میں نے عرض کیا : میرا اونٹ مریض ہو گیا ہے. آنحضرت نے اسے ہاتھ پھیرا تو وہ اس قدر تندرست ہوگیا کہ پورے قافلے سے آگے آگے چلنے لگا. اور پھر آنحضرت نے اسے خریدنے کا فرمایا : تو میں نے عرض کیا : آپ کے لئے حاضر ہے لیکن آپ نے قبول نہ کیا

اس کے بعد جابر کہتے ہیں : میں اسی اونٹ پر مدینہ گیا تو آنحضرت نے بلال سے فرمایا کہ اسے اونٹ کی قیمت سے کچھ زیادہ پیسے دے دو

جابر کہتے ہیں میں نے ارادہ کیا کہ یہ اضافی پیسے مرتے دم تک اپنے سے جدا نہیں کروں گا .میں نے انہیں اپنے تھیلے میں رکھ لیا یہاں تک کہ واقعہ حرّہ( یہ وہ دن تھا جب سپاہ یزید نے مدینہ منوّرہ پر حملہ کر کے لوگوں کا وحشیانہ طریقہ سے قتل عام کیااوران کا مال لوٹ لیا ) میں شامی فوجیوں نے مجھ سے چھین لئے۔( ۱ )

ایک اور روایت میں ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں : ایک دن حجام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بال تراش رہا تھا تو صحابہ کرام اس کے ارد گرد جمع تھے او رہر ایک نے آنحضرت کا ایک ایک بال پکڑ رکھا تھا۔( ۲ )

نیز ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ احمد بن حنبل ہمیشہ اپنے پاس ایک بال رکھا کرتے اور کہتے کہ یہ پیغمبر کا ہے( ۳ )

____________________

۱۔ مسند احمد بن حنبل ۳: ۳۱۴،ح ۱۴۴۱۶؛ صحیح بخاری ۲: ۸۱۰،ح ۲۱۸۵.

۲. جامع االأصول۴:۱۰۲.

۳۔ سیر أعلام النبلاء ۱۱: ۲۵۶و۲۳۰.

۵۹

نقل ہوا ہے کہ معاویہ نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ مجھے پیغمبر کے پیراہن اور چادر میں دفن کیاجائے اور ساتھ آنحضرت کا بال مبارک رکھا جائے( ۱ )

اگرچہ یہ وصیت ریا کاری کی بناء پر تھی یایہ کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے چونکہ اس کا راوی عبدالاعلی بن میمون ہے جو مجہول الحال اور رجال کی معتبر کتب میں اس کا نام ونشان تک نہیں ہے البتہ تبرّک ایک ایساامر ہے جو مسلمانوں کے درمیان رائج رہا ہے

کہا گیاہے کہ تاریخ میں یہ بھی نقل ہوا ہے کہ صحابہ کرام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آب وضو کے قطرات سے شفاطلب کرنے کی خاطر آپس میں جھگڑا کرتے( ۲ )

حضرت عائشہ کہتی ہیں : لوگ اپنے بچوں کو تبرک کے طور پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس لایا کرتے( ۳ )

ابن منکدر تابعی ہمیشہ مسجد نبوی کے صحن میں آکر لیٹ جایا کرتے اور اپنا بدن وہاں پر رگڑاکرتے، جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو کہا : میں نے یہاں پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا ہے

البتہ چونکہ وہ تابعی ہیں اور پیغمبر کو درک نہیں کیا لہذا ان کا یہ کہنا کہ میں نے دیکھا ہے اس سے مراد خواب میں دیکھنا ہے.( ۴ )

روایت میں آیا ہے کہ کبشہ نامی عورت کہتی ہیں : ایک دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور لٹکی ہوئی مشک کے دہانے سے پانی پیاتو میں نے اٹھ کر مشک کے دہانے کو کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا

ابن ماجہ نے اس روایت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : مناسب یہی ہے کہ جس جگہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا دہن مبارک رکھا اس سے تبرّک حاصل کیا جائے .ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا اور اسے صحیح و معتبر قراردیتے ہوئے کہا ہے : یہ روایت احمد بن حنبل نے انس سے اور اس نے امّ سلیم سے نقل کی ہے ۔( ۵ )

____________________

۱۔ تہذیب الکمال ۱۸: ۵۲۶.

۲۔ تاریخ بخاری ۳: ۳۵،ح ۱۸۷؛تاریخ طبری ۳: ۴۷۵.

۳۔مسند احمد بن حنبل ۶: ۲۱۲؛ح ۲۵۸۱۲؛ صحیح مسلم۱: ۲۳۷،ح ۲۸۶.

۴۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴:۱۴۰۶؛ سیر أعلام النبلاء ۵: ۳۵۹.،

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85