حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں 0%

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 85

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: فاطمہ نقیبی
زمرہ جات: صفحے: 85
مشاہدے: 30103
ڈاؤنلوڈ: 3750

تبصرے:

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 85 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30103 / ڈاؤنلوڈ: 3750
سائز سائز سائز
حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پس امام ع کی نظر میں دنیا پرستی ایک ایسی بیماری ہے جس کا اگر بر وقت علاج نہ ہو تو بہت ہی گہرے زخم میں تبدیل ہو سکتی ہے اس کے بعد پھر اس کا علاج ممکن نہیں ہوگا اور یہ بیماری اپنے بیمار کو مار ڈالے گی:

إَمَّا بَعْدُ فَإِنَّمَا إَهلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ‏ إَنَّهُمْ‏ مَنَعُوا النَّاسَ‏ الْحَقَ‏ فَاشْتَرَوْهُ‏ وَ إَخَذُوهُمْ بِالْبَاطِلِ فَاقْتَدَوْه‏

اگلے لوگوں کو اس بات نے تباہ کیا کہ انہوں نے لوگوں کے حق روک لئے تو انہوں نے (رشوتیں دے دے کر) اسے خریدا اور انہیں باطل کا پابندبنایا، تو وہ ان کے پیچھے انہی راستوں پر چل کھڑے ہوئے۔ (46)

دنیا داری سے جنم لینے والی بیماریاں

دنیا پرستی شیطانی نقش قدم ہے کہ انسان اس پر چل کر قدم بہ قدم ہلاکت اور نا بودی کے نزدیک ہوجاتے ہیں اور انسان کو دوسرے نابود کرنے والے عوامل سے نزدیک کرتی ہے۔ ان عوامل میں سے کچھ یہ ہیں:

لوگوں کا حق نہ دینا

حرام طریقےسے دولت کمانا

لوگوں کو گمراہ کر کے انہیں باطل کی طرف لے جانا

ان تینوں بیماریوں کی ماں دنیا پرستی، زر اندوزی اور دنیا داری ہے، ایسے انسانوں کو شیطان لمحہ بہ لمحہ نابودی اور ہلاکت کی طرف لے جا تا ہے، قرآن کریم نے حلال طریقے سے کمانے کا حکم دیا ہے اور شیطانی نقش قدم چلنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے:

---------------

(46)- ایضا ص 696 مکتوب 79

۴۱

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَ لاَ تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَ الْفَحْشَاءِ وَ أَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ﴾ (47)

لوگو ! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں برائی اور بے حیائی کا ہی حکم دیتا ہے اور اس بات کا کہ تم اللہ کی طرف وہ باتیں منسوب کرو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے۔(48)

دنیا داری یک لخت انسان کو خراب نہیں کرتی ہے بلکہ آہستہ آہستہ اسے برائی کی طرف دعوت دیتی ہے اور ان برائیوں کو انجام دینے کے نتیجے میں وہ ہلاکت کی گھاٹی میں گر جاتا ہے؛ اسی لیے دنیا داری اس بھنور کی طرح ہے جس میں جنتا زیادہ پاؤں ڈالے غرق ہوتے جاتے ہیں۔ امام علی علیہ السلام ہمیشہ دنیا کی مذمت کرتے تھے اور خود کو دنیا سے دور رکھتے تھے ۔

--------------------

(47)- سورہ مبارکہ بقرہ : 168 - 169

(48)- اس آیت سے اصل حِلّیّت ثابت ہوتی ہے کہ زمین میں موجود چیزیں دو شرطوں کے ساتھ انسان کے لیے مباح ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ حلال ہوں، دوسری شرط یہ ہے کہ پاکیزہ ہوں۔ شیطان کی گمراہ کن تحریک کے دو عناصر ہیں: ایک یہ کہ انسان کو بے حیائی کے ارتکاب پر آمادہ کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ بغیر علمی سند کے اللہ کی طرف باتیں منسوب کرے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:إیّاک و خصلتین ففیهما هلک من هلک : ان تفتی برأیک و تدین بما لا تعلم (وسائل الشیعہ27:21)۔دو باتوں سے اجتناب کیا کرو، ان دو باتوں کی وجہ سے لو گ ہلاکت میں پڑتے رہے ہیں: اپنی ذاتی رائے سے حکم نہ بتایا کرو اور جن چیزوں کا تمہیں علم نہیں ہے انہیں اپنے دین کا حصہ نہ بناؤ۔

۴۲

امام علیہ السلام اور دنیا کی ستائش

ہاں امام علی علیہ السلام کے دنیا سے دور رہنے کا مطلب اس کی زینتوں اور رنگینیوں سے دور رہنا ہے کہ جس میں پڑنے سے انسان طغیان گر اور ستم گر ہو جاتا ہے دوسروں کے حقوق کو پامال کرتا ہے۔ لیکن اگر دنیا کو آخرت کے لیے مقدمہ قرار دیا جائے اور یہاں سے آخرت کے لیے ذخیرہ کیا جائے تو دنیا خدا کے اولیاء کے تجارتگاہیں ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَة (49)

دنیا آخرت کی کھتی ہے

امام علی ایک جگہ دنیا کی تعریف اور تمجید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ صِدْقٍ لِمَنْ صَدَقَهَا وَ دَارُ عَافِيَةٍ لِمَنْ فَهِمَ عَنْهَا وَ دَارُ غِنًى لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا وَ دَارُ مَوْعِظَةٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِهَا مَسْجِدُ إَحِبَّاءِ اللَّهِ‏ وَ مُصَلَّى مَلَائِكَةِ اللَّهِ وَ مَهبِطُ وَحْيِ اللَّهِ وَ مَتْجَرُ إَوْلِيَاءِ اللَّهِ اكتَسَبُوا فِيهَا الرَّحْمَةَ وَ رَبِحُوا فِيهَا الْجَنَّةَ

یقیناً دنیا سچائی کا گھر ہے اور جو اس کی ان باتوں کو سمجھے اس کے لیے امن و عافیت کی منزل ہے اور اس سے زاد راہ حاصل کر لے ،اس کے لیے دولتمندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصیحت حاصل کر ے ،اس کے لیے وعظ و نصیحت کا محل ہے۔وہ دوستان خدا کے لیے عبادت کی جگہ ،اللہ کے فرشتوں کے لیے نماز پڑھنے کا مقام وحی الہی کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے انہوں نے اس میں فضل و رحمت کا سودا کیا اور اس میں رہتے ہوئے جنت کو فائدہ میں حاصل کیا۔ (50)

---------------

(49)- ورام بن ابی فراس، مسعود بن عیسی، تنبیہ الخواطر و نزہة النواظر ج1 ؛ ص183

(50)- کلمات قصار 131

۴۳

4- اقدار کا چہرہ بگاڑنا

کسی غیر اسلامی حکومت کا اسلامی حکومت میں تبدیل ہونے کی اصلی اور بنیادی وجہ اس غیر اسلامی حکومت کی خرابیاں اور اسلامی حکومت کی خوبیاں اور اقدار ہے۔جب کوئی غیر اسلامی حکومت میں لوگ اس حکومت کی خرابیوں اور غلط قوانین کو دیکھتے ہیں اور اسلامی حکومت کی خوبیوں کو بھی مشاہدی کرتے ہیں تو انقلاب اور تبدیلی کا آغاز ہو جاتا ہے، بالآخر وہ کامیاب بھی ہو جاتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اسلامی اقداریں دینی حکومت کی قیام کی بنیادی علتیں ہیں اگر چہ اس کے قیام میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے مقابلے میں مزاحمت کرنے کے بعد ہی کامیابی ممکن ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيهِمُ الْمَلاَئِكَةُ إَلاَّ تَخَافُوا وَ لاَ تَحْزَنُوا وَ إَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُون﴾

جو کہتے ہیں: ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر ثابت قدم رہتے ہیں ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں) نہ خوف کرو نہ غم کرو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا تھا۔

چنانچہ اگر کسی معاشرے میں دینی اقدار کمزور ہو گئے یا اس کی روشنی ماند پڑ جائے اور اس معاشرے میں رہنے والے لوگ اس مسئلے سے لاتعلقی کا اظہار کریں تو اس معاشرے کی نابودی ، ہلاکت اور بربادی کا انتظار کرنا چاہئے۔ اس بناء پر کسی اسلامی حکومت کی حفاظت اس کو وجود میں لانے سے زیادہ اہم اور سخت بھی ہے۔

اس سے بھی افسوس کا مقام وہاں ہے جہاں کسی حکومت کی قیام کے لیے جانوں کا نذرانہ دیا ہوں اولاد قربان کی ہو مال اور دولت خرچ کئے ہوں اور پھر اپنے ہاتھوں سے اسے تباہ و برباد کردیں۔

۴۴

اس طرح کے تحولات تمام انسانوں کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں۔ ائمہ معصومین علیہم السلام اور خاص کر امام علی علیہ السلام کے زمانے میں آپ کے بہت سارے رفقاء ایک مدت کے بعد دشمن سے جا ملے؛ یعنی ایک مدت حضرت کی خدمت کرنے کے بعد دشمن کے صفوں میں جا پہنچیں۔

امام علی علیہ السلام اپنے بیانات میں بہت ذرہ بینی کے ساتھ اس بات کی طرف اشارہ فرماتے تھے اور انہیں نصیحت کیا کرتے تھے تاکہ بعض لوگوں کے دل گمراہی اور غفلت سے نکل آئیں اور راہ ہدایت کو پا لیں۔ ایک جگہ امام فرماتے ہیں:

عِبَادَ اللَّهِ إِنَّكُمْ وَ مَا تَإمُلُونَ مِنْ هَذِهِ الدُّنْيَا إَثْوِيَاءُ مُؤَجَّلُونَ وَ مَدِينُونَ مُقْتَضَوْنَ إَجَلٌ مَنْقُوصٌ وَ عَمَلٌ مَحْفُوظٌ فَرُبَ‏ دَائِبٍ‏ مُضَيَّعٌ‏ وَ رُبَّ كَادِحٍ خَاسِرٌ وَ قَدْ إَصْبَحْتُمْ فِي زَمَنٍ لَا يَزْدَادُ الْخَيرُ فِيهِ إِلَّا إِدْبَاراً وَ لَا الشَّرُّ فِيهِ إِلَّا إِقْبَالًا وَ لَا الشَّيطَانُ فِي هَلَاكِ النَّاسِ إِلَّا طَمَعاً فَهَذَا إَوَانٌ قَوِيَتْ عُدَّتُهُ وَ عَمَّتْ مَكِيدَتُهُ وَ إَمْكَنَتْ فَرِيسَتُهُ

اللہ کے بندو! تم اور تمہاری اس دنیا سے بندھی ہوئی امیدیں مقررہ مدت کی مہمان ہیں اور ایسے قرض دار جن سے ادائیگی کا تقاضا کیا جا رہا ہے عمر ہے جو گھٹتی جا رہی ہے اور اعمال ہیں جو محفوظ ہو رہے ہیں ۔ بہت دوڑ دھوپ کرنے والے اپنی محنت اکارت کرنے والے ہیں اور بہت سے سعی و کوشش میں لگے رہنے والے گھاٹے میں جا رہے ہیں تم ایسے زمانہ میں ہو کہ جس میں بھلائی کے قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں اور برائی آگے بڑھ رہی ہے۔ اور لوگوں کو تباہ کرنے میں شیطان کی حرص تیز ہوتی جا رہی ہے چنانچہ یہی وہ وقت ہے کہ اس کے (ہتھکنڈوں کا) سر و سامان مضبوط ہو چکا ہے اور اس کی سازشیں پھیل رہی ہیں اور اس کے شکار آسانی سے پھنس رہے رہیں۔ (51)

-----------------

(51)- ترجمہ مفتی جعفر ص 317 ۔ 318 خ 131

۴۵

اس کے بعد امام ع معاشرے کی ستم ظریفی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں معاشرے میں کیا کیا گزر رہے ہیں آپ اسی خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

جدھر چاہو لوگوں پر نگاہ دوڑاؤ تم یہی دیکھو گے کہ ایک طرف کوئی فقیر فقر و فاقہ جھیل رہا ہے اور دوسری طرف دولت مند نعمتوں کو کفران نعمت سے بدل رہا ہےاور کوئی بخیل اللہ کے حق کو دبا کر مال بڑھا رہا ہے اور کوئی سرکش پند و نصیحت سے کان بند کئے پڑا ہے۔

اس کے بعد امام ع معاشرے کے صالح او رآزاد لوگوں کو یاد کرتے ہیں ؛ یعنی ایک طرح سے لوگوں کو متوجہ کرا رہے ہیں کہ تمہارے اندر صالح لوگ بھی تھے ۔ آپ اسی خطبے میں ایک جگہ فرماتے ہیں:

کہاں ہیں تمہارے نیک اور صالح افراد اور کہاں ہیں تمہارے عالی حوصلہ اور کریم النفس لوگ؟ کہاں ہیں کاروبار میں (دغا و فریب سے) بچنے والے اور اپنے طور طریقوں میں پاک و پاکیزہ رہنے والے لوگ؟ کیا وہ سب کے سب اس ذلیل اور زندگی کا مزا کر کرا کرنے والی تیز رو دنیا سے گزر نہیں گئےاور کیاتم اس کے بعد ایسے رذیل اور ادنی لوگوں میں نہیں رہ گئے کہ جن کے مرتبہ پست و حقیر سمجھتے ہوئے اور ان کے ذکر سے پہلو بچاتے ہوئے ہونٹ ان کی مذمت میں کھلنا گوارا نہیں کرتے

۴۶

یہاں امام علیہ السلام کلمہ استرجاع زبان پہ جاری کرتے ہیں اور دور فساد کے آغاز کا ذکر کرتے ہیں:

فَ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيهِ راجِعُونَ‏ ظَهَرَ الْفَسَادُ فَلَا مُنْكِرٌ مُغَيِّرٌ وَ لَا زَاجِرٌ مُزْدَجِرٌ إَ فَبِهَذَا تُرِيدُونَ إَنْ تُجَاوِرُوا اللَّهَفِي دَارِ قُدْسِهِ وَ تَكُونُوا إَعَزَّ إَوْلِيَائِهِ عِنْدَهُ هَيهَاتَ لَا يُخْدَعُ اللَّهُ عَنْ‏ جَنَّتِهِ وَ لَا تُنَالُ مَرْضَاتُهُ إِلَّا بِطَاعَتِه‏

پس ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ فساد ابھر آیاہے برائی کا وہ دور ایسا ہے کہ انقلاب کے کوئی آثار نہیں اور نہ کوئی روک تھام کرنے والا ہے جو خود بھی باز رہے کیا انہیں کرتوتوں سے جنت میں اللہ کے پڑوس میں بسنے اور اس کا گہرا دوست بننے کا ارادہ ہے۔ ارے توبہ! اللہ کو دھوکہ دے کر اس سے جنت نہیں لی جا سکتی اور بغیر اس کی اطاعت کے اس کی رضا مندی حاصل نہیں ہو سکتی ۔

یہاں امام علیہ السلام ان بے لوگوں پر لعنت کر رہے ہیں جو باتیں تو کرتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے ہیں:

لَعَنَ اللَّهُ الْآمِرِينَ بِالْمَعْرُوفِ التَّارِكِينَ لَهُ وَ النَّاهِينَ عَنِ الْمُنْكَرِ الْعَامِلِينَ بِه‏

خدا ان لوگوں پر لعنت کرے کہ جو اوروں کو بھلائی کاحکم دیں اور خود اسے چھوڑ بیٹھیں اور دوسروں کو بری باتوں سے روکیں اور خود ان پر عمل کرتے رہیں۔ (52)

----------------

(52)- ایضا ص 318 ۔ 319

۴۷

امام علیہ السلام لوگوں کی حالات بیان کرتے ہوئے حقیقت میں کسی انسانی معاشرے کی تباہی کے اسباب و عوامل بیان فرما رہے ہیں:

وَ اعْلَمُوا رَحِمَكُمُ‏ اللَّهُ‏ إَنَّكُمْ‏ فِي‏ زَمَانٍ‏ الْقَائِلُ‏ فِيهِ بِالْحَقِّ قَلِيلٌ وَ اللِّسَانُ عَنِ الصِّدْقِ كَلِيلٌ وَ اللَّازِمُ لِلْحَقِّ ذَلِيلٌ إَهلُهُ مُعْتَكِفُونَ عَلَى الْعِصْيَانِ مُصْطَلِحُونَ عَلَى الْإِدْهَانِ فَتَاهُمْ عَارِمٌ وَ شَائِبُهُمْ آثِمٌ وَ عَالِمُهُمْ مُنَافِقٌ وَ [فَارِئُهُمْ‏] قَارِنُهُمْ مُمَاذِقٌ لَا يُعَظِّمُ صَغِيرُهُمْ كَبِيرَهُمْ وَ لَا يَعُولُ غَنِيُّهُمْ فَقِيرَهُم‏

جان لیں خدا تم پر رحم کرے- کہ تم ایسے دور میں ہو جس میں حق گوئی کم، زبانیں صدق بیانی سے کند اور حق والے ذلیل و خوار ہیں۔ یہ لوگ گناہ و نا فرمانی پر جمے ہوئے ہیں اور ظاہر داری و نفاق کی بناء پر ایک دوسرے سے صلح و صفائی رکھتے ہیں ان کے جوان بد خو، ان کے بوڑھے گنہگار، ان کے عالم منافق اوران کے واعظ چاپلوس ہیں ، نہ چھوٹوں بڑوں کی تعظیم کرتے ہیں اور نہ مال دار فقیر و بے نوا کی دستگیری کرتے ہیں۔(53)

مگر رحلت رسول خدا ص کے بعد سے کتنا عرصہ گزر گیا تھا کہ امت ایسی سخت بیماری میں مبتلا ہو گئی؟ کیا قرآن جیسا دستور زندگی مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہیں تھا؟!کیا نفس رسول جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ان کے جانشین تھے، جو حدیث ثقلین کی رو سے ثقل اصغر تھے قرآن ناطق تھے، مسلمانوں کے درمیان نہیں تھے؟!کیوں قرآن اور علی ع کے ہوتے ہوئے امت طغیان گری اور سر کشی میں مبتلا ہو گئے؟! انہوں نے علی ؑ سے پشت کیا قرآن سے منہ موڑ لیا اسلامی اقدار کو پامال کیا یہاں تک کہ دین سے کچھ بھی نہیں بچا۔

---------------

(53)- ایضا ص 547 خ 230

۴۸

جب الہی دستورات اور خدائی عہد و پیمان ذاتی منافع کی خاطر پامال کی جاتی ہیں تو حکومت کے ستون ہل جاتے ہیں۔ رحمتیں اور برکتیں نازل ہونے کے بجائے عذاب اور بلائیں نازل ہوتی ہیں یہی اللہ کا انتقام ہے خدا اگر کسی سے انتقام لینا چاہتا ہے تو اس سے برکت او ررحمت کو اٹھا لیتا ہے ۔ مولا ایک جگہ اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَ قَدْ بَلَغْتُمْ مِنْ كَرَامَةِ اللَّهِ تَعَالَى لَكُمْ مَنْزِلَةً تُكرَمُ بِهَا إِمَاؤُكُمْ وَ تُوصَلُ بِهَا جِيرَانُكُمْ وَ يُعَظِّمُكُمْ مَنْ لَا فَضْلَ لَكُمْ عَلَيهِ وَ لَا يَدَ لَكُمْ عِنْدَهُ وَ يَهَابُكُمْ مَنْ لَا يَخَافُ لَكُمْ سَطْوَةً وَ لَا لَكُمْ عَلَيهِ إِمْرَةٌ وَ قَدْ تَرَوْنَ عُهُودَ اللَّهِ مَنْقُوضَةًفَلَا تَغْضَبُونَ وَ إَنْتُمْ لِنَقْضِ ذِمَمِ آبَائِكُمْ تَإنَفُونَ وَ كَانَتْ إُمُورُ اللَّهِ عَلَيكُمْ تَرِدُ وَ عَنْكُمْ‏ تَصْدُرُ وَ إِلَيكُمْ‏ تَرْجِعُ فَمَكَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِكُمْ وَ إَلْقَيتُمْ إِلَيهِمْ إَزِمَّتَكُمْ وَ إَسْلَمْتُمْ إُمُورَ اللَّهِ فِي إَيدِيهِمْ يَعْمَلُون بِالشُّبُهَاتِ وَ يَسِيرُونَ فِي الشَّهَوَاتِ وَ ايمُ اللَّهِ لَوْ فَرَّقُوكُمْ تَحْتَ كُلِّ كَوْكَبٍ لَجَمَعَكُمُ اللَّهُ لِشَرِّ يَوْمٍ لَهُم‏

تم اپنے اللہ کے لطف و کرم کی بدولت ایسے مرتبے پر پہنچ گئے کہ تمہاری کنیزیں بھی محترم سمجھی جانے لگیں اور تمہارے ہمسایوں سے بھی اچھا برتاؤ کیا جانے لگا اور وہ لوگ بھی تمہاری تعظیم کرنے لگے جن پر تمہیں نہ کوئی فضیلت تھی نہ تمہارا کوئی ان پر احسان تھا، اور وہ لوگ بھی تم سے دہشت کھانے لگے جنہیں تمہارے حملے کا کوئی اندیشہ نہ تھا، اور نہ تمہارا ان پر تسلط تھا۔ مگر اس وقت تم دیکھ رہے ہو کہ اللہ کے عہد توڑٰے جا رہے ہیں، اور تم غیظ میں نہیں آتے۔ حالانکہ اپنے آباء و اجداد کے قائم کردہ رسم و آئین کے توڑ جانے سے تمہاری رگ حمیت جنبش میں آجاتی ہے۔

۴۹

حالانکہ اب تک اللہ کے معاملات تمہارے ہی سامنے پیش ہوتے رہے اور تمہارے ہی (ذریعہ سے) ان کا حل ہوتا رہا، اور تمہاری ہی طرف ہر پھر کر آتے ہیں۔ لیکن تم نے اپنی جگہ ظالموں کے حوالے کردی ہے، اور اپنی باگ دوڑ انہیں تھما دی ہے اور اللہ کے معاملات انہیں سونپ دئیے ہیں کہ وہ شبہوں پر عمل پیرا او رنفسانی خواہشوں پر گامزن ہیں۔ خدا کی قسم! اگر وہ تمہیں ہر ستارے کے نیچے بکھیر دیں تو اللہ تمہیں اس دن (ضرور) جمع کرے گا جو ان کےلئے بہت برا دن ہوگا۔(54)

ایسے لوگوں سے آس لگائے بیٹھنا شکست اور ناکامی کے علاہ کچھ نہیں ہے جنہوں نے طاقت اور مضبوطی کے بعد سستی اور کمزوری کا مظاہرہ کیا خدا کو طلب کرنے کے بجائے شہوت پرستی اور شکم پروری کو اپنا شیوہ بنا رکھا، صرف باتوں پر اکتفاء کیا میدان عمل میں کچھ بھی نہیں، ایسے لوگوں پر آس لگا ئے بیٹھنا ان پر بھروسہ رکھنا ایسے ہیں جیسے کسی کند تلوار یا ٹوٹے ہوئے تیر کے سہارے میدان جنگ میں جانا۔ اس صورت میں شکست یقینی ہے۔امام ایک جگہ فرماتے ہیں:

ذلیل آدمی ذلت آمیز زیادتیوں کی روک تھام نہیں کر سکتا اور حق تو بغیر تلاش کے نہیں ملا کرتا۔ اس گھر کے بعد اور کس امام کے ساتھ ہو کے جہاد کرو گے۔ خدا کی قسم جسے تم نے دھوکا دے دیا ہو اس کے فریب خوردہ ہونے میں کوئی شک نہیں اور جسے تم جیسے ملے ہوں تو اس کے حصے میں وہ تیر آتا ہے جو خالی ہوتا ہے اور جس نے تم (تیروں کی طرح) دشمنوں پر پھینکا ہو ، اس نے گویا ایسا تیر پھینکا ہے جس کا سوفار ٹوٹ چکا ہو اور پیکان بھی شکستہ ہو۔

--------------------

(54)- ایضا ص 269 - 270 خ 104

۵۰

خدا کی قسم! میری کیفیت تو اب یہ ہے کہ نہ میں تمہاری کسی بات کی تصدیق کر سکتا ہوں اور نہ تمہاری نصرت کی مجھے آس باقی رہی ہے، اور نہ تمہاری وجہ سے دشمن کو جنگ کی دھمکی دے سکتا ہوں، تمہیں کیا ہو گیا ، تمہارا مرض کیا ہے ؟ اور اس کا چارہ کیا ؟ اس قوم (اہل شام) کے افراد بھی تمہاری ہی شکل و صورت کے مرد ہیں، کیا باتیں ہی باتیں رہیں گی؟ جانے بوجھے بغیر اور صرف غفلت اور مدہوشی ہے۔ تقوی و پرہیزگاری کے بغیر (بلندی) کی حرص ہی حرص ہے مگر بالکل ناحق۔(55)

یہ کمزور اور ناتوان لوگ (ضعفاء) فرقہ واریت، زر اندوزی، ذاتی مفادات، زر پرستی اور تعصب کے پیداوار ہیں ، ایک عرصہ کے بعد اسلامی حکومتوں اور رہنماؤں کے گلے پڑ سکتے ہیں۔

اس بنا پر اگر امت مسلمہ میں اقدار کی پامالی کی سوچ پروان چڑھنے لگا اور یہ سوچ عملی میدان میں بھی انفکشن ہوگیا تو دشمن کے لیے راستہ کھول دیتا ہےکہ وہ ان اقدار کو مٹانے کی تاک میں رہیں۔ امت مسلمہ کو خیال رکھنا چاہئے کہ ایسے حالات میں خدا بھی اس کی مدد نہیں کرے گا کیونکہ یہ خدا کی سنت ہے کہ:

﴿إِنَّ اللَّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِإَنْفُسِهِمْ وَ إِذَا إَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوْءاً فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَ مَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ﴾

اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے اور جب اللہ کسی قوم کو برے حال سے دوچار کرنے کا ارادہ کر لے تو اس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار ہوتا ہے۔ (56 و 57)

----------------

(55)- ایضا ص 145 ، 146 خ 29

(56)- سورہ مبارکہ رعد : 11

(57)- شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں:اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ : حالات میں تغیر کی دو صورتیں ممکن ہیں: ٭اصلاح احوال کی صورت میں دوام نعمت۔ اس صورت کے بارے میں یہ آیت ایک ضابطہ قائم کرتی ہے کہ جب تک اصلاح احوال موجود ہے، اس صورت میں اللہ کوئی تبدیلی نہیں لائے گا، جب تک لوگ خود تبدیلی نہ لائیں۔ ٭فساد احوال کی صورت میں زوال نعمت۔ متعدد آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ظلم کا نتیجہ ہلاکت اور گناہوں کا نتیجہ ذلت و خواری ہے۔ تاہم یہ لطف خداوندی ہے کہ اس نتیجہ کو لازمی قرار نہیں دیا بلکہ بعض حالات میں در گزر فرماتا ہے:وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ (نحل: 61) اگر اللہ لوگوں کا ان کے ظلم پر مؤاخذہ فرماتا تو روئے زمین پر کوئی جاندار نہ چھوڑتا۔

۵۱

یہ خدا کا وعدہ ہے جو بر حق ہے خدا کی سنت کسی کے لیے بدل تو نہیں جاتی ہے گذشتہ قوموں کی تاریخ اس بات کا گواہ ہے ۔

ہم امید کرتے ہیں خدا وند عالم امت مسلمہ کو اقدار کی پامالی سے بچائے، انہیں بر وقت دشمن کو پہچاننے کی توفیق دے، ہر حال میں امت مسلمہ کی مدد فرما کر انہیں کافروں کے مقابلے میں کامیاب ہونے کی توفیق دے۔

5- راہ خدا میں جہاد سے منہ موڑنا

قرآن کریم میں جہاد کی فضیلت

قرآن کریم میں خدا وند عالم نے جگہ جگہ جہاد کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، جن اجر و ثواب کا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لئے وعدہ کیاہے کسی اور کے لئے وعدہ نہیں کیا ہے:

﴿لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيرُ إُولِي الضَّرَرِ وَ الْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِإَمْوَالِهِمْ وَ إَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِإَمْوَالِهِمْ وَ إَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَ كُلاًّ وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ إَجْراً عَظِيماً﴾

۵۲

بغیر کسی معذوری کے گھر میں بیٹھنے والے مؤمنین اور راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کرنے والے یکساں نہیں ہو سکتے، اللہ نے بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ زیادہ رکھا ہے، گو اللہ نے سب کے لیے نیک وعدہ فرمایا ہے، مگر بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔(58 و 59)

جہاد کرنے والوں کی جانوں کا خریدار خود ذات پر وردگار ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ إَنْفُسَهُمْ وَ إَمْوَالَهُمْ بِإَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَ يُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَيهِ حَقّاً فِي التَّوْرَاةِ وَ الْإِنْجِيلِ وَ الْقُرْآنِ وَ مَنْ إَوْفَى بِعَهدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَ ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾

یقینا اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے عوض خرید لیے ہیں، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں، یہ توریت و انجیل اور قرآن میں اللہ کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنا عہدپورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ پس تم نے اللہ کے ساتھ جو سودا کیا ہے اس پرخوشی مناؤ اور یہ تو بہت بڑی کامیابی ہے۔ (60)

----------------

(58)- سورہ مبارکہ نساء : 95

(59)- شیخ محسن فرماتے ہیں: گو اللہ نے سب کے لیے نیک وعدہ فرمایا ہے۔ یہ جہاد فرض کفایہ ہونے کی صورت میں ہے کہ دشمنوں کے مقابلے کے لیے کفایت کے لڑنے والے موجود ہیں۔ اس صورت میں جہاد میں شرکت نہ کرنے والوں کا درجہ اگرچہ کم ہے تاہم ان کے لیے بھی نیک وعدہ ہے، لیکن اگر جہاد کے لیے کفایت کے لوگ موجود نہ ہوں یہ جہاد واجب عینی ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں جہاد میں شرکت نہ کرنے والے میدان جنگ سے فرار کرنے والوں کی طرح ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے نیک وعدوں میں شامل نہیں ہوتے۔

(60)- سورہ مبارکہ توبہ : 111

۵۳

اسلام میں جہاد دفاع ہے

دین مقدس اسلام میں جہاد کا دفاعی پہلو ہے ائمہ معصومین علیہم السلام ، اسلامی حکمرانوں او ر دیگر بزرگوں کی سیرتیں ہمیشہ سے یہ رہی ہیں کہ خودجنگ کو شروع نہ کریں:

لَا تُقَاتِلُوا الْقَوْمَ حَتّى‏ يَبْدَؤُوكُمْ‏،

ان کے ساتھ جنگ کریں یہاں تک وہ خود شروع نہ کریں۔(61)

ایک جگہ امام علیہ السلام جہاد کو جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ قرار دے رہے ہیں او ر جو لوگ جہاد میں جانے سے انکار کر رہے ہیں ان کے انجام کو بھی بیان فرما رہے ہیں:

إَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْجِهَادَ بَابٌ‏ مِنْ‏ إَبْوَابِ‏ الْجَنَّةِ فَتَحَهُ اللَّهُ لِخَاصَّةِ إَوْلِيَائِهِ وَ هُوَ لِبَاسُ التَّقْوَى وَ دِرْعُ اللَّهِ الْحَصِينَةُ وَ جُنَّتُهُ الْوَثِيقَةُ فَمَنْ تَرَكَهُ رَغْبَةً عَنْهُ إَلْبَسَهُ اللَّهُ ثَوْبَ الذُّلِّ وَ شَمِلَهُ الْبَلَاءُ وَ دُيِّثَ بِالصَّغَارِ وَ الْقَمَاءَةِ وَ ضُرِبَ عَلَى قَلْبِهِ بِالْإِسْهَابِ وَ إُدِيلَ الْحَقُّ مِنْهُ بِتَضْيِيعِ الْجِهَادِ وَ سِيمَ الْخَسْفَ وَ مُنِعَ النَّصَف‏

جہاد جنت کے دروازوں میں ایک دروازہ ہے جسے اللہ نے اپنے خاص دوستوں کے لئےکھولا ہے ۔ یہ پرہیزگاری کا لباس، اللہ کی محکم زرہ، او رمضبوط سپر ہے جو اس سے پہلو بچاتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا ہے خدا اسے ذلت و خواری کا لباس پہنا اور مصیبت و ابتلا کی ردا اوڑھا دیتا ہے او رزلت و خواری کے ساتھ ٹھکرا دیا جاتا ہے او رجہاد کو ضائع و برباد کرنے سے حق اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ ذلت اسے سہنا پڑتا ہے او رانصاف اس سے روک لیا جاتا ہے۔ (62)

--------------

(61)- کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الکافی (ط - دارالحدیث)، 15 ج9 ؛ ص435

(62)- ترجمہ مفتی جعفر ص 140 خ 27

۵۴

جہاد میں سستی کا انجام

چنانچہ اگر مسلمانوں نے دشمنوں سے جہاد کرنے سے سرپیچی کیا اور سستی اور کمزوری کا مظاہر کیا تو اسلامی ممالک میں دشمنوں کو قدم جمانے کی جگہ ملے گی اور وہ اسلامی ممالک میں مستقر ہو جائیں گے۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں:

إَلَا وَ إِنِّي قَدْ دَعَوْتُكُمْ إِلَى قِتَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَيلًا وَ نَهَاراً وَ سِرّاً وَ إِعْلَاناً وَ قُلْتُ لَكُمُ اغْزُوهُمْ قَبْلَ إَنْ يَغْزُوكُمْ فَوَاللَّهِ مَا غُزِيَ قَوْمٌ قَطُّ فِي عُقْرِ دَارِهِمْ إِلَّا ذَلُّوا فَتَوَاكَلْتُمْ وَ تَخَاذَلْتُمْ حَتَّى شُنَّتْ عَلَيكُمُ الْغَارَاتُ وَ مُلِكَتْ عَلَيكُمُ الْإَوْطَانُ

میں نے اس قوم سے لڑنے کے لئے دن رات اور علانیہ و پوشیدہ تمہیں پکارا اور للکارا، اور تم سے کہا کہ قبل اس کے وہ جنگ کے لئے بڑھیں تم ان پر دھاوا بول دو۔ خدا کی قسم جن افراد پر ان کے گھروں کے حدود کے اندر ہی حملہ ہو جاتا ہے وہ ذلیل و خوار ہو تے ہیں۔لیکن تم نے جہاد کو دوسروں پر ٹال دیا اور ایک دوسرے کی مدد سے پہلو بچانے لگے یہاں تک کہ تم پر غارت گریاں ہوئیں اور تمہارے شہروں پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا۔(63)

امام علیہ السلام اس خطبہ کے آخر میں امت کی سستی اور سرکشی اور جہاد کو ترک کرنے پر اس حد تک دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں کہ انہیں بد دعا دیتے ہیں اور اپنے دل کے عقدے کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

------------

(63)- ایضا

۵۵

اے مردوں کی شکل و صورت والے نا مردو! تمہاری عقلیں بچوں کی سی ، اور تمہاری سمجھ حجلہ نشین عورتوں کے مانند ہے۔ میں تو یہی چاہتا تھا کہ نہ تم کو دیکھتا ، نہ تم سے جان پہچان ہوتی۔ ایسی شناسائی جو ندامت کا سبب اور رنج و اندوہ کا باعث بنی ہے ۔ اللہ تمہیں مارے، میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینے کو غیظ و غضب سے چھلکا دیا ہے۔ تم نے مجھے غم و حزن کے گھونٹ پے در پے پلائے، نا فرمانی کر کے میری تدبیر و رائے کو تباہ کر دیا یہاں تک کہ قریش کہنے لگے کہ علی ہےتو مرد شجاع لیکن جنگ کے طور و طریقوں سے واقف نہیں۔ اللہ ان کا بھلا کرے کیا ان میں سے کوئی ہے جو مجھ سے زیادہ جنگ کی مزاولت رکھنے والا اور میدان وغا میں میرے پہلے سے کار نمایاں کئے ہوئےہو۔ میں تو ابھی بیس برس کا بھی نہ تھاکہ حرب و ضرب کے لیے اٹھ کھڑا ہو او راب تو ساٹھ سے بھی اوپر ہو گیا ہوں لیکن اس کی رائے ہی کیا جس کی بات نہ مانی جائے۔(64)

-------------

(63)- ایضا ص 141 - 142

۵۶

کوفیوں کی شکست کے اسباب

امام علیہ السلام کوفہ والوں کی شکست اور دشمنوں کی کامیابی کی علت کوفہ والوں کی جہاد میں جانےسے سرپیچی کو بیان کر رہے ہیں:

اگر اللہ نے ظالم کو مہلت دے رکھی ہے تو اس کی گرفت سے تو وہ ہرگز نہیں نکل سکتا، اور وہ اس کی گزر گاہ اور گلے میں ہڈی پھنسنے کی جگہ پر موقع کا منتظر ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، یہ قوم (اہل شام) تم پر غالب آکر رہے گی۔ اس لیے نہیں کہ ان کا حق تم سے فائق ہے ۔ بلکہ اسی لیے کہ وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کی طرف باطل پر ہونے کے باوجود تیزی سے لپکتے ہیں اور تم میرے حق پر ہونے کے باوجود سستی کرتے ہو۔ رعیتیں اپنے حکمرانوں کے ظلم وجور سے ڈرا کرتی تھیں اور میں اپنی رعیت کے ظلم سے ڈرتا ہوں۔ میں نے تمہیں جہاد کے لیے ابھار ا ، لیکن تم (اپنے گھروں سے ) نہ نکلے ۔ میں نے تمہیں (کارآمد باتوں کو) سنانا چاہا مگر تم نے ایک نہ سنی اور میں نے پوشیدہ بھی اور علانیہ بھی تمہیں جہاد کے لیے پکارا اور للکارا۔ لیکن تم نے ایک نہ مانی اور سمجھایا بجھایا مگر تم نے میری نصیحتیں قبول نہ کیں ۔ کیا تم موجود ہوتے ہوئے بھی غائب رہتے ہو، حلقہ بگوش ہوتے ہوئے گویا خود مالک ہو، میں تمہارے سامنے حکمت اور دانائی کی باتیں بیان کرتا ہوں اور تم ان سے بھڑکتے ہو۔ تمہیں بلند پایہ نصیحتیں کرتا ہوں اور تم پراگندہ خاطر ہو جاتے ہو ۔ میں ان باغیوں سے جہاد کرنے کے لیے تمہیں آمادہ کرتا ہوں، تو ابھی میری بات ختم بھی نہیں ہوتی کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم اولاد سبا کی طرح تتر بتر ہو ہو گئے۔(65)

---------------

(65)- ایضا ص 253- 254 خ 95

۵۷

امام ع جہاد چھوڑٰنے والوں حاضر نما بیان کررہے ہیں کہ غایب ہیں ؛ کیونکہ نفسیاتی حوالے سے کسی قیمت کا نہیں رہا صرف ان کے اجسام باقی ہیں۔ یہ لوگ مالکیت کا دعوی بھی کریں اور اپنے کو دوسروں سے برتر بھی سمجھیں تو چونکہ اپنی ہوائے نفس کے اسیر ہیں، اپنے قفس میں زندان ہیں۔

دشمن سے مقابلہ کرنے کا وقت آنے کے بعد جہاد کا ترک کرنا اپنے سردار کی حکم کی مخالفت کرناامت کے درمیان ضعف و ناتوانی پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہےایسے لوگوں میں دس آدمی کو دے کر مولا دشمن کے ایک آدمی کو لینے پر آمادہ ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ جو چیز مسلمانوں کی قوت ہے او ر انہیں دشمن کے مد مقابل فاتح بنانے کی ضامن ہے وہ ایمان اور حوصلہ ہےاگر یہ طاقت مسلمانوں سے سلب ہو جائےتو وہ قابل اعتماد نہیں رہ جاتا ہے۔ امام فرماتے ہیں:

صبح کو میں تمہیں سیدھا کرتا ہوں اور شام کو جب آتے ہو تو (ویسے کے ویسے) کمان کی پشت کی طرح ٹیڑھے ۔ سیدھاکرنے والا عاجز آگیا، اور جسے سیدھا کیا جارہا ہے ۔ وہ لاعلاج ثابت ہوا ، اے وہ لوگو! جن کے جسم تو حاضر ہیں اور عقلیں غائب اور خواہشیں جُدا جدا ہیں۔ ان پر حکومت کرنے والے ان کے ہاتھوں آزمائش میں پڑے ہوئے ہیں۔ تمہارا حاکم اللہ کی اطاعت کرتا ہے ۔ اور تم اس کی نافرمانی کرتے ہو، اور اہل شام کا حاکم اللہ کی نافرمانی کرتا ہے ۔ مگر وہ اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ معاویہ تم میں سے دس مجھ سے لے لے ، اور بدلے میں اپنا ایک آدمی مجھے دے دے ، جس طرح دینار کا تبادلہ در ہموں سے ہوتا ہے۔(66)

-------------

(66)- ایضا ص 254 خ 95

۵۸

اسی خطبے میں ایک جگہ مولا فرماتے ہیں:

اے اہل کوُفہ میں تمہاری تین اور ان کے علاوہ دو باتوں میں مبتلا ہوں پہلے تو یہ کہ تم کان رکھتے ہوئے بہرے ہو، اور بولنے کے باوجود گونگے ہو، اور آنکھیں ہوتے ہوئے اندھے ہو۔ اور پھر یہ کہ نہ تم جنگ کے موقعہ پر سچے جوانمرد ہو، اور نہ قابل اعتماد بھائی ہو۔ اے ان اونٹوں کی چال ڈھال والو کہ جن کے چرواہے گم ہو چکے ہوں اور انہیں ایک طرف سے گھیر کر لایا جاتا ہے تو دوسری طرف سے بکھر جاتے ہیں۔ خدا کی قسم! جیسا کہ میرا تمہارے متعلق خیال ہے ۔ گویا یہ منظر میرے سامنے ہے کہ اگر جنگ شدت اختیار کر لے اور میدان کا راز گرم ہو جائے ، تو تم ابن ابی طالب ع سے ایسے شرمناک طریقے پر علیحدہ ہو جیسے عورت بالکل برہنہ ہو جائے ۔(67)

امام علیہ السلام مختلف میدانوں میں کوفہ والوں کی نافرمانی او رجہاد میں جانے سے انکار کو ذلت کے مترادف سمجھتے ہیں اور امت کی اس ذلت آمیز کام کی وجہ سے اللہ سے اپنی موت کو مانگ رہے ہیں۔یقینا ایک ایسے مرد دلاور کے لئے جس نے صدر اسلام کی جنگوں میں جرأت اور بہادری کے وہ جوہر دکھائے ہوں جنہیں دیکھ کر دشمنوں کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے اور کبھی بھی راہ خدا میں جہاد کرنےسے ذرہ برابر سستی نہیں دکھاتے تھےکوفیوں کی اس ذلت کو قبول کرنا بہت ہی دشوار مرحلہ تھاکہ معاویہ کے مقابلے میں پیچھے ہٹیں! ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:

------------

(67)- ایضا ص 255

۵۹

إَحْمَدُ اللَّهَ عَلَى مَا قَضَى مِنْ إَمْرٍ وَ قَدَّرَ مِنْ فِعْلٍ وَ عَلَى ابْتِلَائِي بِكُمْ إَيَّتُهَا الْفِرْقَةُ الَّتِي إِذَا إَمَرْتُ لَمْ تُطِعْ وَ إِذَا دَعَوْتُ لَمْ تُجِبْ إِنْ [إُهمِلْتُمْ‏] إُمْهِلْتُمْ خُضْتُمْ وَ إِنْ حُورِبْتُمْ خُرْتُمْ وَ إِنِ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَى إِمَامٍ طَعَنْتُمْ وَ إِنْ إُجِئْتُمْ إِلَى مُشَاقَّةٍ نَكَصْتُمْ. لَا إَبَا لِغَيرِكُمْ مَا تَنْتَظِرُونَ بِنَصْرِكُمْ وَ الْجِهَادِ عَلَى حَقِّكُمْ الْمَوْتَ إَوِ الذُّلَّ لَكُمْ فَوَاللَّهِ لَئِنْ جَاءَ يَومِي وَ لَيَإتِيَنِّي لَيُفَرِّقَنَّ بَينِي وَ بَينَكُمْ وَ إَنَا لِصُحْبَتِكُمْ قَالٍ وَ بِكُمْ غَيرُ كَثِيرٍ لِلَّهِ إَنْتُم‏

میں اللہ کی حمد و ثناء کرتا ہوں ہر اس امر پر جس کا اس نے فیصلہ کیا اور ہر اس کا م پر جو ا س کی تقدیر نے طے کیاہو اور اس آزمائش پر جو تمہار ے ہاتھوں اس نے میری کی ہے ۔اے لوگو! کہ جنہیں کوئی حکم دیتا ہوں تو نافرمانی کرتے ہیں اور پکارتا ہوں تو میری آواز پر لبیک نہیں کہتے ۔اگر تمہیں (جنگ سے)کچھ مہلت ملتی ہے تو ڈینگیں مارنے لگتے ہو او ر اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو بزدلی دکھاتے ہو ۔اور جب لوگ امام پر ایکا کر لیتے ہیں تو تم طعن و تشنیع کرنے لگتے ہو اگر تمہیں (جکڑ کر باندھ کر) جنگ کی طرف لایا جاتا ہے۔تو الٹے پیروں لوٹ جاتے ہو تمہارے دشمنوں کا برا ہو ۔تم اب نصرت کے لےے آمادہ ہو نے اور اپنے حق کے لےے جہاد کرنے میں کس چیز کے منتظر ہو ۔موت کا دن آئے گا اور البتہ آکر رہے گا تو وہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا ۔درآنحالانکہ میں تمہاری ہم نشینی سے بیزار اور (تمہاری کثرت کے باوجود ) اکیلا ہو ں ۔اب تمہیں اللہ ہی اجر دے کیا کوئی دین تمہیں ایک مرکز پر جمع نہیں کرتا اور غیرت تمہیں (دشمن کی روک تھا م پر ) آمادہ نہیں کرتی ۔ (68)

--------------

(68)- ایضا ص 413 خ 178

۶۰