حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں 40%

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 85

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 85 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32252 / ڈاؤنلوڈ: 4158
سائز سائز سائز
حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پس امام ع کی نظر میں دنیا پرستی ایک ایسی بیماری ہے جس کا اگر بر وقت علاج نہ ہو تو بہت ہی گہرے زخم میں تبدیل ہو سکتی ہے اس کے بعد پھر اس کا علاج ممکن نہیں ہوگا اور یہ بیماری اپنے بیمار کو مار ڈالے گی:

إَمَّا بَعْدُ فَإِنَّمَا إَهلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ‏ إَنَّهُمْ‏ مَنَعُوا النَّاسَ‏ الْحَقَ‏ فَاشْتَرَوْهُ‏ وَ إَخَذُوهُمْ بِالْبَاطِلِ فَاقْتَدَوْه‏

اگلے لوگوں کو اس بات نے تباہ کیا کہ انہوں نے لوگوں کے حق روک لئے تو انہوں نے (رشوتیں دے دے کر) اسے خریدا اور انہیں باطل کا پابندبنایا، تو وہ ان کے پیچھے انہی راستوں پر چل کھڑے ہوئے۔ (۴۶)

دنیا داری سے جنم لینے والی بیماریاں

دنیا پرستی شیطانی نقش قدم ہے کہ انسان اس پر چل کر قدم بہ قدم ہلاکت اور نا بودی کے نزدیک ہوجاتے ہیں اور انسان کو دوسرے نابود کرنے والے عوامل سے نزدیک کرتی ہے۔ ان عوامل میں سے کچھ یہ ہیں:

لوگوں کا حق نہ دینا

حرام طریقےسے دولت کمانا

لوگوں کو گمراہ کر کے انہیں باطل کی طرف لے جانا

ان تینوں بیماریوں کی ماں دنیا پرستی، زر اندوزی اور دنیا داری ہے، ایسے انسانوں کو شیطان لمحہ بہ لمحہ نابودی اور ہلاکت کی طرف لے جا تا ہے، قرآن کریم نے حلال طریقے سے کمانے کا حکم دیا ہے اور شیطانی نقش قدم چلنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے:

---------------

(۴۶)- ایضا ص ۶۹۶ مکتوب ۷۹

۴۱

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَ لاَ تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَ الْفَحْشَاءِ وَ أَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ﴾ (۴۷)

لوگو ! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں برائی اور بے حیائی کا ہی حکم دیتا ہے اور اس بات کا کہ تم اللہ کی طرف وہ باتیں منسوب کرو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے۔(۴۸)

دنیا داری یک لخت انسان کو خراب نہیں کرتی ہے بلکہ آہستہ آہستہ اسے برائی کی طرف دعوت دیتی ہے اور ان برائیوں کو انجام دینے کے نتیجے میں وہ ہلاکت کی گھاٹی میں گر جاتا ہے؛ اسی لیے دنیا داری اس بھنور کی طرح ہے جس میں جنتا زیادہ پاؤں ڈالے غرق ہوتے جاتے ہیں۔ امام علی علیہ السلام ہمیشہ دنیا کی مذمت کرتے تھے اور خود کو دنیا سے دور رکھتے تھے ۔

--------------------

(۴۷)- سورہ مبارکہ بقرہ : ۱۶۸ - ۱۶۹

(۴۸)- اس آیت سے اصل حِلّیّت ثابت ہوتی ہے کہ زمین میں موجود چیزیں دو شرطوں کے ساتھ انسان کے لیے مباح ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ حلال ہوں، دوسری شرط یہ ہے کہ پاکیزہ ہوں۔ شیطان کی گمراہ کن تحریک کے دو عناصر ہیں: ایک یہ کہ انسان کو بے حیائی کے ارتکاب پر آمادہ کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ بغیر علمی سند کے اللہ کی طرف باتیں منسوب کرے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:إیّاک و خصلتین ففیهما هلک من هلک : ان تفتی برأیک و تدین بما لا تعلم (وسائل الشیعہ۲۷:۲۱)۔دو باتوں سے اجتناب کیا کرو، ان دو باتوں کی وجہ سے لو گ ہلاکت میں پڑتے رہے ہیں: اپنی ذاتی رائے سے حکم نہ بتایا کرو اور جن چیزوں کا تمہیں علم نہیں ہے انہیں اپنے دین کا حصہ نہ بناؤ۔

۴۲

امام علیہ السلام اور دنیا کی ستائش

ہاں امام علی علیہ السلام کے دنیا سے دور رہنے کا مطلب اس کی زینتوں اور رنگینیوں سے دور رہنا ہے کہ جس میں پڑنے سے انسان طغیان گر اور ستم گر ہو جاتا ہے دوسروں کے حقوق کو پامال کرتا ہے۔ لیکن اگر دنیا کو آخرت کے لیے مقدمہ قرار دیا جائے اور یہاں سے آخرت کے لیے ذخیرہ کیا جائے تو دنیا خدا کے اولیاء کے تجارتگاہیں ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَة (۴۹)

دنیا آخرت کی کھتی ہے

امام علی ایک جگہ دنیا کی تعریف اور تمجید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ صِدْقٍ لِمَنْ صَدَقَهَا وَ دَارُ عَافِيَةٍ لِمَنْ فَهِمَ عَنْهَا وَ دَارُ غِنًى لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا وَ دَارُ مَوْعِظَةٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِهَا مَسْجِدُ إَحِبَّاءِ اللَّهِ‏ وَ مُصَلَّى مَلَائِكَةِ اللَّهِ وَ مَهبِطُ وَحْيِ اللَّهِ وَ مَتْجَرُ إَوْلِيَاءِ اللَّهِ اكتَسَبُوا فِيهَا الرَّحْمَةَ وَ رَبِحُوا فِيهَا الْجَنَّةَ

یقیناً دنیا سچائی کا گھر ہے اور جو اس کی ان باتوں کو سمجھے اس کے لیے امن و عافیت کی منزل ہے اور اس سے زاد راہ حاصل کر لے ،اس کے لیے دولتمندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصیحت حاصل کر ے ،اس کے لیے وعظ و نصیحت کا محل ہے۔وہ دوستان خدا کے لیے عبادت کی جگہ ،اللہ کے فرشتوں کے لیے نماز پڑھنے کا مقام وحی الہی کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے انہوں نے اس میں فضل و رحمت کا سودا کیا اور اس میں رہتے ہوئے جنت کو فائدہ میں حاصل کیا۔ (۵۰)

---------------

(۴۹)- ورام بن ابی فراس، مسعود بن عیسی، تنبیہ الخواطر و نزہة النواظر ج۱ ؛ ص۱۸۳

(۵۰)- کلمات قصار ۱۳۱

۴۳

۴- اقدار کا چہرہ بگاڑنا

کسی غیر اسلامی حکومت کا اسلامی حکومت میں تبدیل ہونے کی اصلی اور بنیادی وجہ اس غیر اسلامی حکومت کی خرابیاں اور اسلامی حکومت کی خوبیاں اور اقدار ہے۔جب کوئی غیر اسلامی حکومت میں لوگ اس حکومت کی خرابیوں اور غلط قوانین کو دیکھتے ہیں اور اسلامی حکومت کی خوبیوں کو بھی مشاہدی کرتے ہیں تو انقلاب اور تبدیلی کا آغاز ہو جاتا ہے، بالآخر وہ کامیاب بھی ہو جاتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اسلامی اقداریں دینی حکومت کی قیام کی بنیادی علتیں ہیں اگر چہ اس کے قیام میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے مقابلے میں مزاحمت کرنے کے بعد ہی کامیابی ممکن ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيهِمُ الْمَلاَئِكَةُ إَلاَّ تَخَافُوا وَ لاَ تَحْزَنُوا وَ إَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُون﴾

جو کہتے ہیں: ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر ثابت قدم رہتے ہیں ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں) نہ خوف کرو نہ غم کرو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا تھا۔

چنانچہ اگر کسی معاشرے میں دینی اقدار کمزور ہو گئے یا اس کی روشنی ماند پڑ جائے اور اس معاشرے میں رہنے والے لوگ اس مسئلے سے لاتعلقی کا اظہار کریں تو اس معاشرے کی نابودی ، ہلاکت اور بربادی کا انتظار کرنا چاہئے۔ اس بناء پر کسی اسلامی حکومت کی حفاظت اس کو وجود میں لانے سے زیادہ اہم اور سخت بھی ہے۔

اس سے بھی افسوس کا مقام وہاں ہے جہاں کسی حکومت کی قیام کے لیے جانوں کا نذرانہ دیا ہوں اولاد قربان کی ہو مال اور دولت خرچ کئے ہوں اور پھر اپنے ہاتھوں سے اسے تباہ و برباد کردیں۔

۴۴

اس طرح کے تحولات تمام انسانوں کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں۔ ائمہ معصومین علیہم السلام اور خاص کر امام علی علیہ السلام کے زمانے میں آپ کے بہت سارے رفقاء ایک مدت کے بعد دشمن سے جا ملے؛ یعنی ایک مدت حضرت کی خدمت کرنے کے بعد دشمن کے صفوں میں جا پہنچیں۔

امام علی علیہ السلام اپنے بیانات میں بہت ذرہ بینی کے ساتھ اس بات کی طرف اشارہ فرماتے تھے اور انہیں نصیحت کیا کرتے تھے تاکہ بعض لوگوں کے دل گمراہی اور غفلت سے نکل آئیں اور راہ ہدایت کو پا لیں۔ ایک جگہ امام فرماتے ہیں:

عِبَادَ اللَّهِ إِنَّكُمْ وَ مَا تَإمُلُونَ مِنْ هَذِهِ الدُّنْيَا إَثْوِيَاءُ مُؤَجَّلُونَ وَ مَدِينُونَ مُقْتَضَوْنَ إَجَلٌ مَنْقُوصٌ وَ عَمَلٌ مَحْفُوظٌ فَرُبَ‏ دَائِبٍ‏ مُضَيَّعٌ‏ وَ رُبَّ كَادِحٍ خَاسِرٌ وَ قَدْ إَصْبَحْتُمْ فِي زَمَنٍ لَا يَزْدَادُ الْخَيرُ فِيهِ إِلَّا إِدْبَاراً وَ لَا الشَّرُّ فِيهِ إِلَّا إِقْبَالًا وَ لَا الشَّيطَانُ فِي هَلَاكِ النَّاسِ إِلَّا طَمَعاً فَهَذَا إَوَانٌ قَوِيَتْ عُدَّتُهُ وَ عَمَّتْ مَكِيدَتُهُ وَ إَمْكَنَتْ فَرِيسَتُهُ

اللہ کے بندو! تم اور تمہاری اس دنیا سے بندھی ہوئی امیدیں مقررہ مدت کی مہمان ہیں اور ایسے قرض دار جن سے ادائیگی کا تقاضا کیا جا رہا ہے عمر ہے جو گھٹتی جا رہی ہے اور اعمال ہیں جو محفوظ ہو رہے ہیں ۔ بہت دوڑ دھوپ کرنے والے اپنی محنت اکارت کرنے والے ہیں اور بہت سے سعی و کوشش میں لگے رہنے والے گھاٹے میں جا رہے ہیں تم ایسے زمانہ میں ہو کہ جس میں بھلائی کے قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں اور برائی آگے بڑھ رہی ہے۔ اور لوگوں کو تباہ کرنے میں شیطان کی حرص تیز ہوتی جا رہی ہے چنانچہ یہی وہ وقت ہے کہ اس کے (ہتھکنڈوں کا) سر و سامان مضبوط ہو چکا ہے اور اس کی سازشیں پھیل رہی ہیں اور اس کے شکار آسانی سے پھنس رہے رہیں۔ (۵۱)

-----------------

(۵۱)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۳۱۷ ۔ ۳۱۸ خ ۱۳۱

۴۵

اس کے بعد امام ع معاشرے کی ستم ظریفی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں معاشرے میں کیا کیا گزر رہے ہیں آپ اسی خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

جدھر چاہو لوگوں پر نگاہ دوڑاؤ تم یہی دیکھو گے کہ ایک طرف کوئی فقیر فقر و فاقہ جھیل رہا ہے اور دوسری طرف دولت مند نعمتوں کو کفران نعمت سے بدل رہا ہےاور کوئی بخیل اللہ کے حق کو دبا کر مال بڑھا رہا ہے اور کوئی سرکش پند و نصیحت سے کان بند کئے پڑا ہے۔

اس کے بعد امام ع معاشرے کے صالح او رآزاد لوگوں کو یاد کرتے ہیں ؛ یعنی ایک طرح سے لوگوں کو متوجہ کرا رہے ہیں کہ تمہارے اندر صالح لوگ بھی تھے ۔ آپ اسی خطبے میں ایک جگہ فرماتے ہیں:

کہاں ہیں تمہارے نیک اور صالح افراد اور کہاں ہیں تمہارے عالی حوصلہ اور کریم النفس لوگ؟ کہاں ہیں کاروبار میں (دغا و فریب سے) بچنے والے اور اپنے طور طریقوں میں پاک و پاکیزہ رہنے والے لوگ؟ کیا وہ سب کے سب اس ذلیل اور زندگی کا مزا کر کرا کرنے والی تیز رو دنیا سے گزر نہیں گئےاور کیاتم اس کے بعد ایسے رذیل اور ادنی لوگوں میں نہیں رہ گئے کہ جن کے مرتبہ پست و حقیر سمجھتے ہوئے اور ان کے ذکر سے پہلو بچاتے ہوئے ہونٹ ان کی مذمت میں کھلنا گوارا نہیں کرتے

۴۶

یہاں امام علیہ السلام کلمہ استرجاع زبان پہ جاری کرتے ہیں اور دور فساد کے آغاز کا ذکر کرتے ہیں:

فَ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيهِ راجِعُونَ‏ ظَهَرَ الْفَسَادُ فَلَا مُنْكِرٌ مُغَيِّرٌ وَ لَا زَاجِرٌ مُزْدَجِرٌ إَ فَبِهَذَا تُرِيدُونَ إَنْ تُجَاوِرُوا اللَّهَفِي دَارِ قُدْسِهِ وَ تَكُونُوا إَعَزَّ إَوْلِيَائِهِ عِنْدَهُ هَيهَاتَ لَا يُخْدَعُ اللَّهُ عَنْ‏ جَنَّتِهِ وَ لَا تُنَالُ مَرْضَاتُهُ إِلَّا بِطَاعَتِه‏

پس ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ فساد ابھر آیاہے برائی کا وہ دور ایسا ہے کہ انقلاب کے کوئی آثار نہیں اور نہ کوئی روک تھام کرنے والا ہے جو خود بھی باز رہے کیا انہیں کرتوتوں سے جنت میں اللہ کے پڑوس میں بسنے اور اس کا گہرا دوست بننے کا ارادہ ہے۔ ارے توبہ! اللہ کو دھوکہ دے کر اس سے جنت نہیں لی جا سکتی اور بغیر اس کی اطاعت کے اس کی رضا مندی حاصل نہیں ہو سکتی ۔

یہاں امام علیہ السلام ان بے لوگوں پر لعنت کر رہے ہیں جو باتیں تو کرتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے ہیں:

لَعَنَ اللَّهُ الْآمِرِينَ بِالْمَعْرُوفِ التَّارِكِينَ لَهُ وَ النَّاهِينَ عَنِ الْمُنْكَرِ الْعَامِلِينَ بِه‏

خدا ان لوگوں پر لعنت کرے کہ جو اوروں کو بھلائی کاحکم دیں اور خود اسے چھوڑ بیٹھیں اور دوسروں کو بری باتوں سے روکیں اور خود ان پر عمل کرتے رہیں۔ (۵۲)

----------------

(۵۲)- ایضا ص ۳۱۸ ۔ ۳۱۹

۴۷

امام علیہ السلام لوگوں کی حالات بیان کرتے ہوئے حقیقت میں کسی انسانی معاشرے کی تباہی کے اسباب و عوامل بیان فرما رہے ہیں:

وَ اعْلَمُوا رَحِمَكُمُ‏ اللَّهُ‏ إَنَّكُمْ‏ فِي‏ زَمَانٍ‏ الْقَائِلُ‏ فِيهِ بِالْحَقِّ قَلِيلٌ وَ اللِّسَانُ عَنِ الصِّدْقِ كَلِيلٌ وَ اللَّازِمُ لِلْحَقِّ ذَلِيلٌ إَهلُهُ مُعْتَكِفُونَ عَلَى الْعِصْيَانِ مُصْطَلِحُونَ عَلَى الْإِدْهَانِ فَتَاهُمْ عَارِمٌ وَ شَائِبُهُمْ آثِمٌ وَ عَالِمُهُمْ مُنَافِقٌ وَ [فَارِئُهُمْ‏] قَارِنُهُمْ مُمَاذِقٌ لَا يُعَظِّمُ صَغِيرُهُمْ كَبِيرَهُمْ وَ لَا يَعُولُ غَنِيُّهُمْ فَقِيرَهُم‏

جان لیں خدا تم پر رحم کرے- کہ تم ایسے دور میں ہو جس میں حق گوئی کم، زبانیں صدق بیانی سے کند اور حق والے ذلیل و خوار ہیں۔ یہ لوگ گناہ و نا فرمانی پر جمے ہوئے ہیں اور ظاہر داری و نفاق کی بناء پر ایک دوسرے سے صلح و صفائی رکھتے ہیں ان کے جوان بد خو، ان کے بوڑھے گنہگار، ان کے عالم منافق اوران کے واعظ چاپلوس ہیں ، نہ چھوٹوں بڑوں کی تعظیم کرتے ہیں اور نہ مال دار فقیر و بے نوا کی دستگیری کرتے ہیں۔(۵۳)

مگر رحلت رسول خدا ص کے بعد سے کتنا عرصہ گزر گیا تھا کہ امت ایسی سخت بیماری میں مبتلا ہو گئی؟ کیا قرآن جیسا دستور زندگی مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہیں تھا؟!کیا نفس رسول جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ان کے جانشین تھے، جو حدیث ثقلین کی رو سے ثقل اصغر تھے قرآن ناطق تھے، مسلمانوں کے درمیان نہیں تھے؟!کیوں قرآن اور علی ع کے ہوتے ہوئے امت طغیان گری اور سر کشی میں مبتلا ہو گئے؟! انہوں نے علی ؑ سے پشت کیا قرآن سے منہ موڑ لیا اسلامی اقدار کو پامال کیا یہاں تک کہ دین سے کچھ بھی نہیں بچا۔

---------------

(۵۳)- ایضا ص ۵۴۷ خ ۲۳۰

۴۸

جب الہی دستورات اور خدائی عہد و پیمان ذاتی منافع کی خاطر پامال کی جاتی ہیں تو حکومت کے ستون ہل جاتے ہیں۔ رحمتیں اور برکتیں نازل ہونے کے بجائے عذاب اور بلائیں نازل ہوتی ہیں یہی اللہ کا انتقام ہے خدا اگر کسی سے انتقام لینا چاہتا ہے تو اس سے برکت او ررحمت کو اٹھا لیتا ہے ۔ مولا ایک جگہ اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَ قَدْ بَلَغْتُمْ مِنْ كَرَامَةِ اللَّهِ تَعَالَى لَكُمْ مَنْزِلَةً تُكرَمُ بِهَا إِمَاؤُكُمْ وَ تُوصَلُ بِهَا جِيرَانُكُمْ وَ يُعَظِّمُكُمْ مَنْ لَا فَضْلَ لَكُمْ عَلَيهِ وَ لَا يَدَ لَكُمْ عِنْدَهُ وَ يَهَابُكُمْ مَنْ لَا يَخَافُ لَكُمْ سَطْوَةً وَ لَا لَكُمْ عَلَيهِ إِمْرَةٌ وَ قَدْ تَرَوْنَ عُهُودَ اللَّهِ مَنْقُوضَةًفَلَا تَغْضَبُونَ وَ إَنْتُمْ لِنَقْضِ ذِمَمِ آبَائِكُمْ تَإنَفُونَ وَ كَانَتْ إُمُورُ اللَّهِ عَلَيكُمْ تَرِدُ وَ عَنْكُمْ‏ تَصْدُرُ وَ إِلَيكُمْ‏ تَرْجِعُ فَمَكَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِكُمْ وَ إَلْقَيتُمْ إِلَيهِمْ إَزِمَّتَكُمْ وَ إَسْلَمْتُمْ إُمُورَ اللَّهِ فِي إَيدِيهِمْ يَعْمَلُون بِالشُّبُهَاتِ وَ يَسِيرُونَ فِي الشَّهَوَاتِ وَ ايمُ اللَّهِ لَوْ فَرَّقُوكُمْ تَحْتَ كُلِّ كَوْكَبٍ لَجَمَعَكُمُ اللَّهُ لِشَرِّ يَوْمٍ لَهُم‏

تم اپنے اللہ کے لطف و کرم کی بدولت ایسے مرتبے پر پہنچ گئے کہ تمہاری کنیزیں بھی محترم سمجھی جانے لگیں اور تمہارے ہمسایوں سے بھی اچھا برتاؤ کیا جانے لگا اور وہ لوگ بھی تمہاری تعظیم کرنے لگے جن پر تمہیں نہ کوئی فضیلت تھی نہ تمہارا کوئی ان پر احسان تھا، اور وہ لوگ بھی تم سے دہشت کھانے لگے جنہیں تمہارے حملے کا کوئی اندیشہ نہ تھا، اور نہ تمہارا ان پر تسلط تھا۔ مگر اس وقت تم دیکھ رہے ہو کہ اللہ کے عہد توڑٰے جا رہے ہیں، اور تم غیظ میں نہیں آتے۔ حالانکہ اپنے آباء و اجداد کے قائم کردہ رسم و آئین کے توڑ جانے سے تمہاری رگ حمیت جنبش میں آجاتی ہے۔

۴۹

حالانکہ اب تک اللہ کے معاملات تمہارے ہی سامنے پیش ہوتے رہے اور تمہارے ہی (ذریعہ سے) ان کا حل ہوتا رہا، اور تمہاری ہی طرف ہر پھر کر آتے ہیں۔ لیکن تم نے اپنی جگہ ظالموں کے حوالے کردی ہے، اور اپنی باگ دوڑ انہیں تھما دی ہے اور اللہ کے معاملات انہیں سونپ دئیے ہیں کہ وہ شبہوں پر عمل پیرا او رنفسانی خواہشوں پر گامزن ہیں۔ خدا کی قسم! اگر وہ تمہیں ہر ستارے کے نیچے بکھیر دیں تو اللہ تمہیں اس دن (ضرور) جمع کرے گا جو ان کےلئے بہت برا دن ہوگا۔(۵۴)

ایسے لوگوں سے آس لگائے بیٹھنا شکست اور ناکامی کے علاہ کچھ نہیں ہے جنہوں نے طاقت اور مضبوطی کے بعد سستی اور کمزوری کا مظاہرہ کیا خدا کو طلب کرنے کے بجائے شہوت پرستی اور شکم پروری کو اپنا شیوہ بنا رکھا، صرف باتوں پر اکتفاء کیا میدان عمل میں کچھ بھی نہیں، ایسے لوگوں پر آس لگا ئے بیٹھنا ان پر بھروسہ رکھنا ایسے ہیں جیسے کسی کند تلوار یا ٹوٹے ہوئے تیر کے سہارے میدان جنگ میں جانا۔ اس صورت میں شکست یقینی ہے۔امام ایک جگہ فرماتے ہیں:

ذلیل آدمی ذلت آمیز زیادتیوں کی روک تھام نہیں کر سکتا اور حق تو بغیر تلاش کے نہیں ملا کرتا۔ اس گھر کے بعد اور کس امام کے ساتھ ہو کے جہاد کرو گے۔ خدا کی قسم جسے تم نے دھوکا دے دیا ہو اس کے فریب خوردہ ہونے میں کوئی شک نہیں اور جسے تم جیسے ملے ہوں تو اس کے حصے میں وہ تیر آتا ہے جو خالی ہوتا ہے اور جس نے تم (تیروں کی طرح) دشمنوں پر پھینکا ہو ، اس نے گویا ایسا تیر پھینکا ہے جس کا سوفار ٹوٹ چکا ہو اور پیکان بھی شکستہ ہو۔

--------------------

(۵۴)- ایضا ص ۲۶۹ - ۲۷۰ خ ۱۰۴

۵۰

خدا کی قسم! میری کیفیت تو اب یہ ہے کہ نہ میں تمہاری کسی بات کی تصدیق کر سکتا ہوں اور نہ تمہاری نصرت کی مجھے آس باقی رہی ہے، اور نہ تمہاری وجہ سے دشمن کو جنگ کی دھمکی دے سکتا ہوں، تمہیں کیا ہو گیا ، تمہارا مرض کیا ہے ؟ اور اس کا چارہ کیا ؟ اس قوم (اہل شام) کے افراد بھی تمہاری ہی شکل و صورت کے مرد ہیں، کیا باتیں ہی باتیں رہیں گی؟ جانے بوجھے بغیر اور صرف غفلت اور مدہوشی ہے۔ تقوی و پرہیزگاری کے بغیر (بلندی) کی حرص ہی حرص ہے مگر بالکل ناحق۔(۵۵)

یہ کمزور اور ناتوان لوگ (ضعفاء) فرقہ واریت، زر اندوزی، ذاتی مفادات، زر پرستی اور تعصب کے پیداوار ہیں ، ایک عرصہ کے بعد اسلامی حکومتوں اور رہنماؤں کے گلے پڑ سکتے ہیں۔

اس بنا پر اگر امت مسلمہ میں اقدار کی پامالی کی سوچ پروان چڑھنے لگا اور یہ سوچ عملی میدان میں بھی انفکشن ہوگیا تو دشمن کے لیے راستہ کھول دیتا ہےکہ وہ ان اقدار کو مٹانے کی تاک میں رہیں۔ امت مسلمہ کو خیال رکھنا چاہئے کہ ایسے حالات میں خدا بھی اس کی مدد نہیں کرے گا کیونکہ یہ خدا کی سنت ہے کہ:

﴿إِنَّ اللَّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِإَنْفُسِهِمْ وَ إِذَا إَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوْءاً فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَ مَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ﴾

اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے اور جب اللہ کسی قوم کو برے حال سے دوچار کرنے کا ارادہ کر لے تو اس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار ہوتا ہے۔ (۵۶ و ۵۷)

----------------

(۵۵)- ایضا ص ۱۴۵ ، ۱۴۶ خ ۲۹

(۵۶)- سورہ مبارکہ رعد : ۱۱

(۵۷)- شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں:اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ : حالات میں تغیر کی دو صورتیں ممکن ہیں: ٭اصلاح احوال کی صورت میں دوام نعمت۔ اس صورت کے بارے میں یہ آیت ایک ضابطہ قائم کرتی ہے کہ جب تک اصلاح احوال موجود ہے، اس صورت میں اللہ کوئی تبدیلی نہیں لائے گا، جب تک لوگ خود تبدیلی نہ لائیں۔ ٭فساد احوال کی صورت میں زوال نعمت۔ متعدد آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ظلم کا نتیجہ ہلاکت اور گناہوں کا نتیجہ ذلت و خواری ہے۔ تاہم یہ لطف خداوندی ہے کہ اس نتیجہ کو لازمی قرار نہیں دیا بلکہ بعض حالات میں در گزر فرماتا ہے:وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ (نحل: ۶۱) اگر اللہ لوگوں کا ان کے ظلم پر مؤاخذہ فرماتا تو روئے زمین پر کوئی جاندار نہ چھوڑتا۔

۵۱

یہ خدا کا وعدہ ہے جو بر حق ہے خدا کی سنت کسی کے لیے بدل تو نہیں جاتی ہے گذشتہ قوموں کی تاریخ اس بات کا گواہ ہے ۔

ہم امید کرتے ہیں خدا وند عالم امت مسلمہ کو اقدار کی پامالی سے بچائے، انہیں بر وقت دشمن کو پہچاننے کی توفیق دے، ہر حال میں امت مسلمہ کی مدد فرما کر انہیں کافروں کے مقابلے میں کامیاب ہونے کی توفیق دے۔

۵- راہ خدا میں جہاد سے منہ موڑنا

قرآن کریم میں جہاد کی فضیلت

قرآن کریم میں خدا وند عالم نے جگہ جگہ جہاد کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، جن اجر و ثواب کا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لئے وعدہ کیاہے کسی اور کے لئے وعدہ نہیں کیا ہے:

﴿لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيرُ إُولِي الضَّرَرِ وَ الْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِإَمْوَالِهِمْ وَ إَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِإَمْوَالِهِمْ وَ إَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَ كُلاًّ وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ إَجْراً عَظِيماً﴾

۵۲

بغیر کسی معذوری کے گھر میں بیٹھنے والے مؤمنین اور راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کرنے والے یکساں نہیں ہو سکتے، اللہ نے بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ زیادہ رکھا ہے، گو اللہ نے سب کے لیے نیک وعدہ فرمایا ہے، مگر بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔(۵۸ و ۵۹)

جہاد کرنے والوں کی جانوں کا خریدار خود ذات پر وردگار ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ إَنْفُسَهُمْ وَ إَمْوَالَهُمْ بِإَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَ يُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَيهِ حَقّاً فِي التَّوْرَاةِ وَ الْإِنْجِيلِ وَ الْقُرْآنِ وَ مَنْ إَوْفَى بِعَهدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَ ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾

یقینا اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے عوض خرید لیے ہیں، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں، یہ توریت و انجیل اور قرآن میں اللہ کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنا عہدپورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ پس تم نے اللہ کے ساتھ جو سودا کیا ہے اس پرخوشی مناؤ اور یہ تو بہت بڑی کامیابی ہے۔ (۶۰)

----------------

(۵۸)- سورہ مبارکہ نساء : ۹۵

(۵۹)- شیخ محسن فرماتے ہیں: گو اللہ نے سب کے لیے نیک وعدہ فرمایا ہے۔ یہ جہاد فرض کفایہ ہونے کی صورت میں ہے کہ دشمنوں کے مقابلے کے لیے کفایت کے لڑنے والے موجود ہیں۔ اس صورت میں جہاد میں شرکت نہ کرنے والوں کا درجہ اگرچہ کم ہے تاہم ان کے لیے بھی نیک وعدہ ہے، لیکن اگر جہاد کے لیے کفایت کے لوگ موجود نہ ہوں یہ جہاد واجب عینی ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں جہاد میں شرکت نہ کرنے والے میدان جنگ سے فرار کرنے والوں کی طرح ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے نیک وعدوں میں شامل نہیں ہوتے۔

(۶۰)- سورہ مبارکہ توبہ : ۱۱۱

۵۳

اسلام میں جہاد دفاع ہے

دین مقدس اسلام میں جہاد کا دفاعی پہلو ہے ائمہ معصومین علیہم السلام ، اسلامی حکمرانوں او ر دیگر بزرگوں کی سیرتیں ہمیشہ سے یہ رہی ہیں کہ خودجنگ کو شروع نہ کریں:

لَا تُقَاتِلُوا الْقَوْمَ حَتّى‏ يَبْدَؤُوكُمْ‏،

ان کے ساتھ جنگ کریں یہاں تک وہ خود شروع نہ کریں۔(۶۱)

ایک جگہ امام علیہ السلام جہاد کو جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ قرار دے رہے ہیں او ر جو لوگ جہاد میں جانے سے انکار کر رہے ہیں ان کے انجام کو بھی بیان فرما رہے ہیں:

إَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْجِهَادَ بَابٌ‏ مِنْ‏ إَبْوَابِ‏ الْجَنَّةِ فَتَحَهُ اللَّهُ لِخَاصَّةِ إَوْلِيَائِهِ وَ هُوَ لِبَاسُ التَّقْوَى وَ دِرْعُ اللَّهِ الْحَصِينَةُ وَ جُنَّتُهُ الْوَثِيقَةُ فَمَنْ تَرَكَهُ رَغْبَةً عَنْهُ إَلْبَسَهُ اللَّهُ ثَوْبَ الذُّلِّ وَ شَمِلَهُ الْبَلَاءُ وَ دُيِّثَ بِالصَّغَارِ وَ الْقَمَاءَةِ وَ ضُرِبَ عَلَى قَلْبِهِ بِالْإِسْهَابِ وَ إُدِيلَ الْحَقُّ مِنْهُ بِتَضْيِيعِ الْجِهَادِ وَ سِيمَ الْخَسْفَ وَ مُنِعَ النَّصَف‏

جہاد جنت کے دروازوں میں ایک دروازہ ہے جسے اللہ نے اپنے خاص دوستوں کے لئےکھولا ہے ۔ یہ پرہیزگاری کا لباس، اللہ کی محکم زرہ، او رمضبوط سپر ہے جو اس سے پہلو بچاتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا ہے خدا اسے ذلت و خواری کا لباس پہنا اور مصیبت و ابتلا کی ردا اوڑھا دیتا ہے او رزلت و خواری کے ساتھ ٹھکرا دیا جاتا ہے او رجہاد کو ضائع و برباد کرنے سے حق اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ ذلت اسے سہنا پڑتا ہے او رانصاف اس سے روک لیا جاتا ہے۔ (۶۲)

--------------

(۶۱)- کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الکافی (ط - دارالحدیث)، ۱۵ ج۹ ؛ ص۴۳۵

(۶۲)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۱۴۰ خ ۲۷

۵۴

جہاد میں سستی کا انجام

چنانچہ اگر مسلمانوں نے دشمنوں سے جہاد کرنے سے سرپیچی کیا اور سستی اور کمزوری کا مظاہر کیا تو اسلامی ممالک میں دشمنوں کو قدم جمانے کی جگہ ملے گی اور وہ اسلامی ممالک میں مستقر ہو جائیں گے۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں:

إَلَا وَ إِنِّي قَدْ دَعَوْتُكُمْ إِلَى قِتَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَيلًا وَ نَهَاراً وَ سِرّاً وَ إِعْلَاناً وَ قُلْتُ لَكُمُ اغْزُوهُمْ قَبْلَ إَنْ يَغْزُوكُمْ فَوَاللَّهِ مَا غُزِيَ قَوْمٌ قَطُّ فِي عُقْرِ دَارِهِمْ إِلَّا ذَلُّوا فَتَوَاكَلْتُمْ وَ تَخَاذَلْتُمْ حَتَّى شُنَّتْ عَلَيكُمُ الْغَارَاتُ وَ مُلِكَتْ عَلَيكُمُ الْإَوْطَانُ

میں نے اس قوم سے لڑنے کے لئے دن رات اور علانیہ و پوشیدہ تمہیں پکارا اور للکارا، اور تم سے کہا کہ قبل اس کے وہ جنگ کے لئے بڑھیں تم ان پر دھاوا بول دو۔ خدا کی قسم جن افراد پر ان کے گھروں کے حدود کے اندر ہی حملہ ہو جاتا ہے وہ ذلیل و خوار ہو تے ہیں۔لیکن تم نے جہاد کو دوسروں پر ٹال دیا اور ایک دوسرے کی مدد سے پہلو بچانے لگے یہاں تک کہ تم پر غارت گریاں ہوئیں اور تمہارے شہروں پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا۔(۶۳)

امام علیہ السلام اس خطبہ کے آخر میں امت کی سستی اور سرکشی اور جہاد کو ترک کرنے پر اس حد تک دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں کہ انہیں بد دعا دیتے ہیں اور اپنے دل کے عقدے کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

------------

(۶۳)- ایضا

۵۵

اے مردوں کی شکل و صورت والے نا مردو! تمہاری عقلیں بچوں کی سی ، اور تمہاری سمجھ حجلہ نشین عورتوں کے مانند ہے۔ میں تو یہی چاہتا تھا کہ نہ تم کو دیکھتا ، نہ تم سے جان پہچان ہوتی۔ ایسی شناسائی جو ندامت کا سبب اور رنج و اندوہ کا باعث بنی ہے ۔ اللہ تمہیں مارے، میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینے کو غیظ و غضب سے چھلکا دیا ہے۔ تم نے مجھے غم و حزن کے گھونٹ پے در پے پلائے، نا فرمانی کر کے میری تدبیر و رائے کو تباہ کر دیا یہاں تک کہ قریش کہنے لگے کہ علی ہےتو مرد شجاع لیکن جنگ کے طور و طریقوں سے واقف نہیں۔ اللہ ان کا بھلا کرے کیا ان میں سے کوئی ہے جو مجھ سے زیادہ جنگ کی مزاولت رکھنے والا اور میدان وغا میں میرے پہلے سے کار نمایاں کئے ہوئےہو۔ میں تو ابھی بیس برس کا بھی نہ تھاکہ حرب و ضرب کے لیے اٹھ کھڑا ہو او راب تو ساٹھ سے بھی اوپر ہو گیا ہوں لیکن اس کی رائے ہی کیا جس کی بات نہ مانی جائے۔(۶۴)

-------------

(۶۳)- ایضا ص ۱۴۱ - ۱۴۲

۵۶

کوفیوں کی شکست کے اسباب

امام علیہ السلام کوفہ والوں کی شکست اور دشمنوں کی کامیابی کی علت کوفہ والوں کی جہاد میں جانےسے سرپیچی کو بیان کر رہے ہیں:

اگر اللہ نے ظالم کو مہلت دے رکھی ہے تو اس کی گرفت سے تو وہ ہرگز نہیں نکل سکتا، اور وہ اس کی گزر گاہ اور گلے میں ہڈی پھنسنے کی جگہ پر موقع کا منتظر ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، یہ قوم (اہل شام) تم پر غالب آکر رہے گی۔ اس لیے نہیں کہ ان کا حق تم سے فائق ہے ۔ بلکہ اسی لیے کہ وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کی طرف باطل پر ہونے کے باوجود تیزی سے لپکتے ہیں اور تم میرے حق پر ہونے کے باوجود سستی کرتے ہو۔ رعیتیں اپنے حکمرانوں کے ظلم وجور سے ڈرا کرتی تھیں اور میں اپنی رعیت کے ظلم سے ڈرتا ہوں۔ میں نے تمہیں جہاد کے لیے ابھار ا ، لیکن تم (اپنے گھروں سے ) نہ نکلے ۔ میں نے تمہیں (کارآمد باتوں کو) سنانا چاہا مگر تم نے ایک نہ سنی اور میں نے پوشیدہ بھی اور علانیہ بھی تمہیں جہاد کے لیے پکارا اور للکارا۔ لیکن تم نے ایک نہ مانی اور سمجھایا بجھایا مگر تم نے میری نصیحتیں قبول نہ کیں ۔ کیا تم موجود ہوتے ہوئے بھی غائب رہتے ہو، حلقہ بگوش ہوتے ہوئے گویا خود مالک ہو، میں تمہارے سامنے حکمت اور دانائی کی باتیں بیان کرتا ہوں اور تم ان سے بھڑکتے ہو۔ تمہیں بلند پایہ نصیحتیں کرتا ہوں اور تم پراگندہ خاطر ہو جاتے ہو ۔ میں ان باغیوں سے جہاد کرنے کے لیے تمہیں آمادہ کرتا ہوں، تو ابھی میری بات ختم بھی نہیں ہوتی کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم اولاد سبا کی طرح تتر بتر ہو ہو گئے۔(۶۵)

---------------

(۶۵)- ایضا ص ۲۵۳- ۲۵۴ خ ۹۵

۵۷

امام ع جہاد چھوڑٰنے والوں حاضر نما بیان کررہے ہیں کہ غایب ہیں ؛ کیونکہ نفسیاتی حوالے سے کسی قیمت کا نہیں رہا صرف ان کے اجسام باقی ہیں۔ یہ لوگ مالکیت کا دعوی بھی کریں اور اپنے کو دوسروں سے برتر بھی سمجھیں تو چونکہ اپنی ہوائے نفس کے اسیر ہیں، اپنے قفس میں زندان ہیں۔

دشمن سے مقابلہ کرنے کا وقت آنے کے بعد جہاد کا ترک کرنا اپنے سردار کی حکم کی مخالفت کرناامت کے درمیان ضعف و ناتوانی پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہےایسے لوگوں میں دس آدمی کو دے کر مولا دشمن کے ایک آدمی کو لینے پر آمادہ ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ جو چیز مسلمانوں کی قوت ہے او ر انہیں دشمن کے مد مقابل فاتح بنانے کی ضامن ہے وہ ایمان اور حوصلہ ہےاگر یہ طاقت مسلمانوں سے سلب ہو جائےتو وہ قابل اعتماد نہیں رہ جاتا ہے۔ امام فرماتے ہیں:

صبح کو میں تمہیں سیدھا کرتا ہوں اور شام کو جب آتے ہو تو (ویسے کے ویسے) کمان کی پشت کی طرح ٹیڑھے ۔ سیدھاکرنے والا عاجز آگیا، اور جسے سیدھا کیا جارہا ہے ۔ وہ لاعلاج ثابت ہوا ، اے وہ لوگو! جن کے جسم تو حاضر ہیں اور عقلیں غائب اور خواہشیں جُدا جدا ہیں۔ ان پر حکومت کرنے والے ان کے ہاتھوں آزمائش میں پڑے ہوئے ہیں۔ تمہارا حاکم اللہ کی اطاعت کرتا ہے ۔ اور تم اس کی نافرمانی کرتے ہو، اور اہل شام کا حاکم اللہ کی نافرمانی کرتا ہے ۔ مگر وہ اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ معاویہ تم میں سے دس مجھ سے لے لے ، اور بدلے میں اپنا ایک آدمی مجھے دے دے ، جس طرح دینار کا تبادلہ در ہموں سے ہوتا ہے۔(۶۶)

-------------

(۶۶)- ایضا ص ۲۵۴ خ ۹۵

۵۸

اسی خطبے میں ایک جگہ مولا فرماتے ہیں:

اے اہل کوُفہ میں تمہاری تین اور ان کے علاوہ دو باتوں میں مبتلا ہوں پہلے تو یہ کہ تم کان رکھتے ہوئے بہرے ہو، اور بولنے کے باوجود گونگے ہو، اور آنکھیں ہوتے ہوئے اندھے ہو۔ اور پھر یہ کہ نہ تم جنگ کے موقعہ پر سچے جوانمرد ہو، اور نہ قابل اعتماد بھائی ہو۔ اے ان اونٹوں کی چال ڈھال والو کہ جن کے چرواہے گم ہو چکے ہوں اور انہیں ایک طرف سے گھیر کر لایا جاتا ہے تو دوسری طرف سے بکھر جاتے ہیں۔ خدا کی قسم! جیسا کہ میرا تمہارے متعلق خیال ہے ۔ گویا یہ منظر میرے سامنے ہے کہ اگر جنگ شدت اختیار کر لے اور میدان کا راز گرم ہو جائے ، تو تم ابن ابی طالب ع سے ایسے شرمناک طریقے پر علیحدہ ہو جیسے عورت بالکل برہنہ ہو جائے ۔(۶۷)

امام علیہ السلام مختلف میدانوں میں کوفہ والوں کی نافرمانی او رجہاد میں جانے سے انکار کو ذلت کے مترادف سمجھتے ہیں اور امت کی اس ذلت آمیز کام کی وجہ سے اللہ سے اپنی موت کو مانگ رہے ہیں۔یقینا ایک ایسے مرد دلاور کے لئے جس نے صدر اسلام کی جنگوں میں جرأت اور بہادری کے وہ جوہر دکھائے ہوں جنہیں دیکھ کر دشمنوں کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے اور کبھی بھی راہ خدا میں جہاد کرنےسے ذرہ برابر سستی نہیں دکھاتے تھےکوفیوں کی اس ذلت کو قبول کرنا بہت ہی دشوار مرحلہ تھاکہ معاویہ کے مقابلے میں پیچھے ہٹیں! ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:

------------

(۶۷)- ایضا ص ۲۵۵

۵۹

إَحْمَدُ اللَّهَ عَلَى مَا قَضَى مِنْ إَمْرٍ وَ قَدَّرَ مِنْ فِعْلٍ وَ عَلَى ابْتِلَائِي بِكُمْ إَيَّتُهَا الْفِرْقَةُ الَّتِي إِذَا إَمَرْتُ لَمْ تُطِعْ وَ إِذَا دَعَوْتُ لَمْ تُجِبْ إِنْ [إُهمِلْتُمْ‏] إُمْهِلْتُمْ خُضْتُمْ وَ إِنْ حُورِبْتُمْ خُرْتُمْ وَ إِنِ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَى إِمَامٍ طَعَنْتُمْ وَ إِنْ إُجِئْتُمْ إِلَى مُشَاقَّةٍ نَكَصْتُمْ. لَا إَبَا لِغَيرِكُمْ مَا تَنْتَظِرُونَ بِنَصْرِكُمْ وَ الْجِهَادِ عَلَى حَقِّكُمْ الْمَوْتَ إَوِ الذُّلَّ لَكُمْ فَوَاللَّهِ لَئِنْ جَاءَ يَومِي وَ لَيَإتِيَنِّي لَيُفَرِّقَنَّ بَينِي وَ بَينَكُمْ وَ إَنَا لِصُحْبَتِكُمْ قَالٍ وَ بِكُمْ غَيرُ كَثِيرٍ لِلَّهِ إَنْتُم‏

میں اللہ کی حمد و ثناء کرتا ہوں ہر اس امر پر جس کا اس نے فیصلہ کیا اور ہر اس کا م پر جو ا س کی تقدیر نے طے کیاہو اور اس آزمائش پر جو تمہار ے ہاتھوں اس نے میری کی ہے ۔اے لوگو! کہ جنہیں کوئی حکم دیتا ہوں تو نافرمانی کرتے ہیں اور پکارتا ہوں تو میری آواز پر لبیک نہیں کہتے ۔اگر تمہیں (جنگ سے)کچھ مہلت ملتی ہے تو ڈینگیں مارنے لگتے ہو او ر اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو بزدلی دکھاتے ہو ۔اور جب لوگ امام پر ایکا کر لیتے ہیں تو تم طعن و تشنیع کرنے لگتے ہو اگر تمہیں (جکڑ کر باندھ کر) جنگ کی طرف لایا جاتا ہے۔تو الٹے پیروں لوٹ جاتے ہو تمہارے دشمنوں کا برا ہو ۔تم اب نصرت کے لےے آمادہ ہو نے اور اپنے حق کے لےے جہاد کرنے میں کس چیز کے منتظر ہو ۔موت کا دن آئے گا اور البتہ آکر رہے گا تو وہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا ۔درآنحالانکہ میں تمہاری ہم نشینی سے بیزار اور (تمہاری کثرت کے باوجود ) اکیلا ہو ں ۔اب تمہیں اللہ ہی اجر دے کیا کوئی دین تمہیں ایک مرکز پر جمع نہیں کرتا اور غیرت تمہیں (دشمن کی روک تھا م پر ) آمادہ نہیں کرتی ۔ (۶۸)

--------------

(۶۸)- ایضا ص ۴۱۳ خ ۱۷۸

۶۰

6- غربت اور نا انصافی

معاشرے کے کمزور طبقوں میں غربت اور بد حالی کی وبا کا پھیل جاناانہیں حکمرانوں سے دور کرنے کا سبب بنتا ہے، ان بیماریوں کی وجہ سے غریبوں اور حکمرانوں کے درمیان ایک خلیج وجود میں آتا ہے، اور یہ خلیج اس معاشرے میں رہنے والے تمام لوگوں کے لئے نقصان دہ ہے، اسی حکمراں طبقہ بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں۔غربت و افلاسی ان اہم اسباب و عوامل میں سے ایک ہے جو حکومتوں کی زوال او ربربادی کا سبب بن سکتا ہے؛ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انقلابات کی لہریں ہمیشہ معاشرے کے کمزور طبقے سے اٹھتے ہیں۔

اگر کسی معاشرہ میں رہنے والے لوگ غربت و افلاسی کا شکار ہو جائیں تو آہستہ آہستہ اس معاشرہ میں اقدار ختم ہو جاتے ہیں کہ جن اقدار پر حکومتوں کی ستونیں رکھی گئی ہیں۔ہمیشہ روزگاری او رمعاش کی فکر میں رہنے، غربت و افلاسی کے خوف میں مبتلا رہنے سے کئی ایک اخلاقی بیماریاں جنم لیتی ہیں؛ اسی لیے فقر او رغربت کو روایتوں میں کفر اور موت سے بھی تعبیر کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

كَادَ الْفَقْرُ إَنْ‏ يَكُونَ‏ كُفْراً

فقر اور غربت انسان کو کافر بنا دیتے ہیں۔ (69)

---------------

(69)- الکافی (ط - الاسلامیة) ؛ ج2 ؛ ص307

۶۱

اسی طرح ایک جگہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

وَ الْفَقْرُ الْمَوْتُ‏ الْإَكبَر

فقر سب سے بڑی موت ہے۔(70)

امام علی علیہ السلام اپنے بیٹے محم بن حنفیہ سے فرماتے ہیں:

يَا بُنَيَّ إِنِّي‏ إَخَافُ‏ عَلَيكَ‏ الْفَقْرَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْهُ

اے فرزند ! میں تمہارے لیے فقر و تنگدستی سے ڈرتا ہوں لہٰذا فقر و ناداری سے اللہ کی پناہ مانگو۔(71)

اگر غربت صرف اس حد تک ہو کہ انسان کو ایمان سے دور نہ کرے اور اس کی زندگی کو مشکلات میں نہ ڈالے تو یہ پسندیدہ چیز ہے ، اسے اللہ کا امتحان ہی سمجھنا چاہئےجس کے بارے میں خدا فرماتا ہے:

﴿وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَي‌ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْإَمْوَالِ وَ الْإَنْفُسِ وَ الثَّمَرَاتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ﴾

اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور جان و مال اور ثمرات (کے نقصانات) سے ضرور آزمائیں گے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔ (72)

---------------

(70)- برقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، جی2 ؛ ص601

(71)- ح 319

(72)- سورہ مبارکہ بقرہ : 155

۶۲

لیکن اگر غربت حد سے گزرجائے اور یہ خطرے کی گھنٹی ہے؛ جب مالداروں کی عمارتیں بلند و بالا ہو جائیں اور یہی لوگ حکمران بن جائیں ، معاشرے کے مختلف لوگوں کے درمیان طبقاتی افکار جنم لینے لگیں تو وہ معاشرہ ہر لحاظ (ثقافتی اخلاق) سے برباد ہو جائے گا اس معاشرہ میں اقدار اور انسانیت پامال ہو جائیں گے۔ امام ع فرماتے ہیں:

إِنَّمَا يُؤْتَى‏ خَرَابُ‏ الْإَرْضِ‏ مِنْ إِعْوَازِ إَهلِهَا

اور زمین کی تباہی تو اس سے آتی ہے کہ کاشتکاروں کے ہاتھ تنگ ہو جائیں ۔ (73) "اعواز" "عوز" سے مشتق ہے اس سے مراد وہ ضرورت مند اور محتاج جس کے ہاتھ ہر لحاظ سے خالی ہیں۔ (74)

--------------

(73)- ترجمہ مفتی جعفر ص 459 مکتوب 53

(74)- دیکھئے: عوامل سقوط حکومتہا در قرآن و نہج البلاغہ، ص 216

۶۳

عہدنامہ مالک اشتر کے بعض اقتباسات

امام علیہ السلام جب معاشرےکےمختلف طبقوں اور ان میں سے نچلے طبقے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ایک جگہ ارشادفرماتے ہیں:

ثُمَ‏ اللَّهَ‏ اللَّهَ‏ فِي‏ الطَّبَقَةِ السُّفْلَى‏ مِنَ الَّذِينَ لَا حِيلَةَ لَهُمْ مِنَ الْمَسَاكِينِ وَ الْمُحْتَاجِينَ وَ إَهلِ الْبُؤْسَى وَ الزَّمْنَى فَإِنَّ فِي هَذِهِ الطَّبَقَةِ قَانِعاً وَ مُعْتَرّاً فَإِنَّ هَؤُلَاءِ مِنْ بَينِ الرَّعِيَّةِ إَحْوَجُ إِلَى الْإِنْصَافِ مِنْ غَيرِهِم‏

۔ اس کے بعد اللہ سے ڈرو اس پسماندہ طبقہ کے بارے میں جو مساکین 'محتاج فقراء اور مغدور افراد کا طبقہ ہے جن کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ اس طبقہ میں مانگنے والے بھی ہیں اور غیرت داربھی ہیں جن کی صورت سوال ہے۔ ان کے جس حق اللہ نے تمھیں محافظ بنا یا ہے اس کی حفاظت کرو اور ان کے لئے بیت المال اورارض غنیمت کے غلات میں سے ایک حصہ مخصوص کر دو کہ ان کے دو ر افتادہ کا بھی وہی حق ہے جوقریب والوں کا ہے اور تمھیں سب کا نگراں بنا یا گیا ہے اہٰذا خبر دار کہیں غروتکبرّ تمھیں ان کی طرف سے غافل نہ بنادے کہ تمھیں بڑے کا موں کے مستحکم کر دینے سے چھوٹے کاموں کی بربادی سے معاف نہ کیا جائے گا۔ (75)

--------------

(75)- عہدنامہ مالک اشتر

۶۴

اس کے بعد امام فرماتے ہیں:

نہ اپنی توجہ کوان کی طرف سے ہٹانا اور نہ غرور کی بناپر اپنا منھ موڑلینا۔ جن لوگوں کی رسائی تم تک نہیں ہے اور انھیں نگاہوں نے گرادیا ہے اور شخصیتوں نے حقیر بنادیا۔

ان کے حالات کی دیکھ بھال بھی تمھارا ہی فریضہ ہے لہٰذا ان کے لئے متواضع اور خوفِ خدا رکھنے والے معتبر افراد کو مخصوص کردو جوتم تک ان کے معاملات کو پہونچاتے رہیں اور تم ایسے اعمال انجام دیتے رہو جن کی بنا پر روز قیامت پیش پروردگار معذور کہے جا سکو کہ یہی لوگ سب سے زیادہ انصاف کے محتاج ہیں۔

اور دیکھو صاحبانِ ضرورت کے لئے ایک وقت معین کر دو جس میں اپنے کو ان کے لئے خالی کر لو ۔

ایک عمومی مجلس میں ان کے ساتھ بیٹھو۔

اپنے تمام نگہبان' پولیس ' فوج اعوان وانصار سب کو دور بٹھا دو تا کہ بولنے والا آزادی سے بول سکے اور کسی طرح کی لکنت کا شکارنہ ہو ۔

میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سُنا ہے کہ آپؐ نے بار بار فرمایا ہے کہ "وہ امت پاکیزہ کردار نہیں ہو سکتی ہے جس میں کمزور کو آزادی کے ساتھ طاقتور سے اپنا حق لینے کا موقع نہ دیا جائے "۔

ان سے بد کلامی یا عاجزی کلام کا مظاہرہ ہو تو اسے برداشت کرو ۔

دل تنگی اور غرورکو دور رکھو تا کہ خدا تمھارے لئے رحمت کے اطراف کشادہ کرے اور اطاعت کے ثواب کو لازم قرار دیدے۔

جسے جو کچھ دو خوشگوار کے ساتھ دو اور جسے منع کرو اسے خوبصورتی کے ساتھ ٹال دو۔اس کے بعدتمہارے معاملا ت میں بعض ایسے معاملات بھی ہیں جنہیں تمہیں خودبراہ راست انجام دینا ہے۔(76)

---------------

(76)- عہدنامہ مالک اشتر

۶۵

امام علیہ السلام اپنی ان نصیحتوں میں تمام حکمرانوں کے لیے درست راستے کی نشاندہی فرما رہے ہیں۔ اگر حکمرانوں اور عوام کے حقوق کی رعایت ہو جائے تو کبھی بھی وہ معاشرہ زوال کی طرف نہیں جائے گا؛ کیونکہ معاشرے کا بڑا حصہ انہی کمزور اور ضعیف لوگوں کا ہے ، اور یہی حکومتوں کے حمایتی اور دین کے ستون ہیں:

وَ إِنَّمَا عِمَادُ الدِّينِ‏ وَ جِمَاعُ‏ الْمُسْلِمِينَ‏ وَ الْعُدَّةُ لِلْإَعْدَاءِ الْعَامَّةُ مِنَ الْإُمَّةِ فَلْيَكُنْ صِغْوُكَ لَهُمْ وَ مَيلُكَ مَعَهُم‏

دین کا ستون۔ مسلمانوں کی اجتماعی طاقت دشمنوں کے مقابلہ میں سامان دفاع عوام الناس ہی ہوتے ہیں لہٰذا تمھارا جھکاؤ انھیں کی طرف ہونا چاہئے اور تمھارا رجحان انھیں کی طرف ضروری ہے۔(77)

اسلامی حکمرانوں کا جھکاؤ عوام کی طرف ہونا چاہیے نہ خواص کی طرف؛ کیونکہ یہی عام لوگ اور متوسط طبقے کے لوگ ہیں جو سخت حالات میں اپنے حکمران کا ساتھ نہیں چھوڑتے ہیں اور ہر وقت ان کے شانہ بشانہ چلتے ہیں:

۔ تمھارے لئے پسندیدہ کام وہ ہونا چا ہئے جو حق کے اعتبار سے بہترین انصاف کے اعتبار سے سب کو شامل اور رعایا کو مرضی سے اکثریت کے لئے پسندیدہ ہو کہ عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے اور خاص لوگوں کی ناراضگی عام افراد کی رضامند کے ساتھ قابل معافی ہو جاتی ہے۔ رعایا ہیں خواص سے زیادہ والی پر خوشحال میں بوجھ نبنے والا اور بلاؤں میں کم سے کم مدد کرنے والا۔ انصاف کو نا پسند کرنے والا اور اصرار کے ساتھ مطالبہ کرنے والا عطا کے موقع پر کم سے کم شکریہ ادا کرنے والا اور نہ دینے کے موقع پر بمشکل عذر قبول کرنے والا۔ زمانہ کے مصائب میں کم سے کم صبر کرنے والا۔کوئی نہیں ہوتا ہے ۔(78)

-------------

(77)- ایضا

(78)- ایضا

۶۶

امام علیہ السلام مالک کو تین اہم اور قیمتی چیزوں کی طرف دعوت دے رہے ہیں:

٭ حق کے اعتبار سے بہترین

٭ انصاف کے اعتبار سے سب کو شامل

٭ لوگوں کی خوشنودی کے لیے وسعت نظری سے کام لینا

رعایا کے حقوق کی پاسداری کرنا اور انصاف حکومت کے تجلیات اور خوبصورتیوں میں سے ہے کہ آپ ع اپنے گورنروں کی اس کی تاکید کر رہے ہیں۔ آپ ہمیشہ اپنے والیوں اور گورنروں کو غربت کے خاتمے اور لوگوں کی حاجات روائی کی تاکید کرتے تھے، ایک طرف سے آپ عدل و انصاف اور اعتدال پسندی کی تاکید بھی کرتے تھے؛ کیونکہ عدل و انصاف اور اعتدال ہی کے ذریعے فقر و غربت جیسی بیماریوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

اسْتَعْمِلِ‏ الْعَدْلَ‏ وَ احْذَرِ الْعَسْفَ‏ وَ الْحَيفَ فَإِنَّ الْعَسْفَ يَعُودُ بِالْجَلَاءِ وَ الْحَيفَ يَدْعُو إِلَى السَّيف‏

عدل کی روش پر چلو۔ بے راہ روی اور ظلم سے کنارہ کشی کرو کیونکہ بے راہ روی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انہیں گھر بار چھوڑنا پڑے گا اور ظلم انہیں تلوار اٹھانے کی دعوت دے گا۔ (79)

----------------

(79)- ح 476۔

۶۷

امام علیہ السلام اپنے والیوں کو یہاں تک تاکید فرماتے تھے کہ معاشرے کے مختلف طبقے میں لوگوں کو دیکھتے ہوئے بھی عدل و انصاف کی رعایت کریں کہیں ایسا نہ کہ رعایا اور خواص کے درمیان امتیازی سلوک اور نا انصافی کا سبب بنے۔ آپ محمد بن ابی بکر رح سے فرماتے ہیں:

فَاخْفِضْ‏ لَهُمْ‏ جَنَاحَكَ‏ وَ إَلِنْ لَهُمْ جَانِبَكَ وَ ابْسُطْ لَهُمْ وَجْهَكَ وَ آسِ بَينَهُمْ فِي اللَّحْظَةِ وَ النَّظْرَةِ حَتَّى لَا يَطْمَعَ الْعُظَمَاءُ فِي حَيفِكَ لَهُمْ وَ لَا يَيإَسَ الضُّعَفَاءُ مِنْ عَدْلِكَ عَلَيهِمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُسَائِلُكُمْ مَعْشَرَ عِبَادِهِ عَنِ الصَّغِيرَةِ مِنْ إَعْمَالِكُمْ وَ الْكَبِيرَةِ وَ الظَّاهِرَةِ وَ الْمَسْتُورَةِ فَإِنْ يُعَذِّبْ فَإَنْتُمْ إَظْلَمُ وَ إِنْ يَعْفُ فَهُوَ إَكرَم

لوگوں سے تواضع کے ساتھ ملنا، ان سے نرمی کا برتاؤ کرنا، کشادہ روئی سے پیش آنا اور سب کو ایک نظر سے دیکھنا تاکہ بڑے لوگ تم سے اپنی ناحق طرف داری کی امید نہ رکھیں اور چھوٹے لوگ تمہارے عدل و انصاف سے ان (بڑوں) کے مقابلے میں ناامید نہ ہو جائیں۔ کیونکہ اے اللہ کے بندو! اللہ تمہارے چھوٹے، بڑے، کھلے، ڈھکے اعمال کی تم سے باز پرس کرے گا، اور اس کے بعد اگر وہ عذاب کرے، تو یہ تمہارے خود ظلم کا نتیجہ ہے اور اگر وہ معاف کردے تو وہ اس کے کرم کا تقاضا ہے۔ (80)

-------------

(80)- ترجمہ مفتی جعفر ص 590 مکتوب 27

۶۸

ظلم و نا انصافی کہ جس کا نتیجہ فقر اور غربت میں اضافہ، بھوکے لوگوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ، ظالموں کی تعداد میں اضافہ ہے،اس حد تک خدا کے ہاں قبیح ہے کہ وہ علما سے مظلوموں کے حقوق دلانے اور ظالموں سے مقابلہ کرنے کا وعدہ لیتا ہے۔ امام خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں:

وَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَإَ النَّسَمَةَ لَوْ لَا حُضُورُ الْحَاضِرِ وَ قِيَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِ النَّاصِرِ وَ مَا إَخَذَ اللَّهُ عَلَى الْعُلَمَاءِ إَلَّا يُقَارُّوا عَلَى كِظَّةِ ظَالِمٍ وَ لَا سَغَبِ مَظْلُومٍ لَإَلْقَيتُ حَبْلَهَا عَلَى غَارِبِهَا وَ لَسَقَيتُ آخِرَهَا بِكَإسِ إَوَّلِهَا وَ لَإَلْفَيتُمْ دُنْيَاكُمْ هَذِهِ إَزْهَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَةِ عَنْز

اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں۔ اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پرسکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ دوڑ اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اس پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اول کو سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابل اعتناء پاتے ۔ (81)

------------------

(81)- ترجمہ مفتی جعفر ص 85 خ 3

۶۹

پس اسلامی معاشرے کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ ظالموں اور دولتمندوں سے غریبوں او ربھوکے لوگوں کے حقوق لا کر انہیں دلائیں اگر ایسا نہیں کیا تو خدا کی نعمتیں بدل جائیں گی۔ امام فرماتے ہیں:

وَ لَيسَ شَي‏ءٌ إَدْعَى إِلَى تَغْيِيرِ نِعْمَةِ اللَّهِ‏ وَ تَعْجِيلِ نِقْمَتِهِ مِنْ إِقَامَةٍ عَلَى ظُلْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ [يَسْمَعُ‏] سَمِيعٌ دَعْوَةَ الْمُضْطَهَدِينَ وَ هُوَ لِلظَّالِمِينَ بِالْمِرْصَاد

اللہ کی نعمتوں کی بر بادی اور اس کے عذاب میں عجلت کا کوئی سبب ظلم پر قائم رہنے سے بڑا نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ مظلوموں کی فریاد کا سننے والا ہے اور ظالموں کے لئے موقع کا انتظار کر رہا ہے۔ (82)

7- گذشتہ امتوں کی تباہیوں سے عبرت نہ لینا

گذشتہ امتوں اور حکمرانوں سے عبرت نہ لینا خود تو حکومتوں کے سقوط کے اسباب میں سے نہیں ہے لیکن گذشتہ لوگوں کی حالات کے مطالعہ کرنے اور ان کی تباہیوں سے عبرت حاصل کرنے سے معاشرہ تباہ و بربادی سے بچ سکتا ہے، اور ناقابل شکست بن جاتا ہے؛ کیونکہ تاریخیں ہمیشہ دہرائی جاتی ہیں، وہی موضوعات، وہی حالات، وہی فتح و شکست، سب کے سب وہی کے وہی ہیں لیکن صرف انسان آتے جاتے ہیں۔ (83)

----------------

(82)- عہد نامہ مالگ اشتر

(83)- مترجم : جیسے ایک فٹبال کا میدان جہاں مختلف ٹیمیں آتی ہیں اور کھیل کر چلی جاتی ہیں تاریخ بھی اسی طرح ہے۔ بقول شکسپئیر یہ دنیا ایک سٹیج ہے جہاں ہر فنکار اپنے اپنے فن کا مظًاہرہ کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

۷۰

پس تاریخ سے نصیحت لے سکتے ہیں، اور اس کے تجربوں سے کسی معاشرے کی بقا کے لیے سامان تیار کر سکتے ہیں۔

عِبَادَ اللَّهِ إِنَّ الدَّهرَ يَجْرِي‏ بِالْبَاقِينَ‏ كَجَرْيِهِ بِالْمَاضِينَ لَا يَعُودُ مَا قَدْ وَلَّى مِنْهُ وَ لَا يَبْقَى سَرْمَداً مَا فِيهِ آخِرُ فَعَالِهِ كَإَوَّلِهِ مُتَشَابِهَةٌ إُمُورُهُ مُتَظَاهِرَةٌ إَعْلَامُهُ فَكَإَنَّكُمْ بِالسَّاعَةِ تَحْدُوكُمْ حَدْوَ الزَّاجِرِ بِشَوْلِه‏ فَمَنْ شَغَلَ نَفْسَهُ بِغَيرِ نَفْسِهِ تَحَيَّرَ فِي الظُّلُمَاتِ وَ ارْتَبَكَ فِي الْهَلَكَاتِ وَ مَدَّتْ بِهِ شَيَاطِينُهُ فِي طُغْيَانِهِ وَ زَيَّنَتْ لَهُ سَيِّئَ إَعْمَالِهِ فَالْجَنَّةُ غَايَةُ السَّابِقِينَ وَ النَّارُ غَايَةُ الْمُفَرِّطِين‏

اے اللہ کے بندو! باقی ماندہ لوگوں کے ساتھ بھی زمانہ کی وہی روش رہے گی جو گزر جانے والے کے ساتھ تھی جتنا زمانہ گزر چکا ہے وہ پلٹ کر نہیں آئے گا اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ہمیشہ رہنے والا نہیں آخر میں بھی اس کی مصیبتیں ایک دوسرے سے بڑھ جانا چاہتی ہیں اور اس کے جھنڈے ایک دوسرے کے عقب میں ہیں‘ گویا تم قیامت کے دامن سے وابستہ ہو کہ وہ تمہیں دھکیل کر اس طرح لیے جا رہی ہے جس طرح للکارنے والا اپنی اونٹنیوں کو جو شخص اپنے نفس کو سنوارنے کے بجائے اور چیزوں میں پڑ جاتا ہے وہ تیرگیوں میں سرگرداں اور ہلاکتوں میں پھنسا رہتا ہے اور شیاطین اسے سرکشیوں میں کھینچ کر لے جاتے ہیں اور اس کی بداعمالیوں کو اس کے سامنے سجا دیتے ہیں آگے بڑھنے والوں کی آخری منزل جنت ہے اور عمداً کوتاہیاں کرنے والوں کی حد جہنم ہے۔ (84)

---------------

(84)- ترجمہ مفتی جعفر ص 365 خ ا155

۷۱

صرف گہری نگاہ ، صاف و شفاف دل، منطقی عقل اور تحقیق سوچ رکھنے والے انسان ہی گذشتہ لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل کر سکتے ہیں،اور اس دریا میں غوطہ ور ہو گر موتی حاصل کر سکتے ہیں، اور پھر ان حاصل شدہ موتیوں سے اپنی دونوں جہانوں کی زندگیاں سنوار سکتے ہیں۔سورہ مبارکہ یوسف میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

﴿لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثاً يُفْتَرَى وَ لكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَ تَفْصِيلَ كُلِّ شَيْ‌ءٍ وَ هُدًى وَ رَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (85)

بتحقیق ان (رسولوں) کے قصوں میں عقل رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے، یہ (قرآن) گھڑی ہوئی باتیں نہیں بلکہ اس سے پہلے آئے ہوئے کلام کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل (بتانے والا) ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے:

﴿قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْإَرْضِ فَانْظُروا كَيفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ﴾

تم سے پہلے مختلف روشیں گزر چکی ہیں پس تم روئے زمین پرچلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کاکیا انجام ہوا۔ (86)

---------------

(85)- سورہ مبارکہ یوسف 111

(86)- سورہ مبارکہ آل عمران : 137

۷۲

قرآن اقوام عالم کی سرگزشت کا مطالعہ کرنے کے لیے (سیر فی الارض) زمین کے مطالعاتی سفر کی دعوت دیتا ہے۔جابر بادشاہوں، ظالم حکمرانوں اور خونخوار فرعونوں کے باقی ماندہ آثار بتلاتے ہیں کہ کسی زمانے میں ان قصور و محلات میں کچھ لوگ انا ربکم الاعلی کے مدعی تھے اور اپنی ہوسرانی میں بدمست ہو کر انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا کرتے تھے اورکسی قسم کی اقدار پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ آج انہی لوگوں کے محلات ویرانوں میں بدل گئے ہیں۔ ان کی ہڈیاں خاک ہو چکی ہیں، جو آنے والی نسلوں کے لیے عبرت بن گئی ہیں۔ انہوں نے چند روزہ عیش و نوش میں اپنی ابدی زندگی کو برباد کیا اور آخرکار اس دنیا کی زندگی بھی ہار بیٹھے۔ آج ان ویرانوں سے ان کی بوسیدہ ہڈیاں آواز دے رہی ہیں کہ دیکھ لو تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔

قرآن کی تمام داستانیں نصیحت لینے اور عبرت حاصل کرنے کے لئے ہیں قرآن کے اول سے آخر تک انبیاء علیہم السلام کے قصے ، کبھی کنواں کا تذکرہ، کبھی بطن ماہی کا ذکر، کبھی آگ میں پھینکنے کا واقعہ، کبھی طوفان اور کشتی کی کہانی، کبھی برادر کشی کی داستان یہ سب عبرت کے لیے ہیں، جو امتیں نابود ہوئی ہیں ان کی نابودی میں غور و فکر کرو، جو اللہ کے عذاب سے وقت آخر بچ گئے ہیں اس میں سوچو۔ امام علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:

فَاعْتَبِرُوا بِحَالِ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ وَ بَنِي إِسْحَاقَ وَ بَنِي إِسْرَائِيلَ ع فَمَا إَشَدَّ اعْتِدَالَ‏ الْإَحْوَالِ‏ وَ إَقْرَبَ‏ اشْتِبَاهَ الْإَمْثَالِ وَ إَصْنَامٍ مَعْبُودَةٍ وَ إَرْحَامٍ مَقْطُوعَةٍ وَ غَارَاتٍ مَشْنُونَة

(اب ذرا ) اسماعیل کی اولاد اسحاق کے فرزندوں اوریعقوب کے بیٹوں کے حالات سے عبرت حاصل کرو ۔حالات کتنے ملتے جلتے ہیں اور طور طریقے کتنے یکساں ہیں ۔ان کے منتشر و پراگند ہ ہو جانے کی صورت میں جو واقعات رو نما ہو ئے ،ان میں غور و فکر کرو کہ جب شاہا ن عجم اور سلاطین روم پر حکمران تھے وہ انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں عراق کے دریاؤں اور دنیا کی شادابیوںسے خار دار جھاڑیوں ہواؤں کے بے روگ گزر گاہوں اور معیشت کی دشواریوں کی طرف دھکیل دیتے تھے اور آخر کار انہیں فقیرو نادار او رزخمی پیٹھ والے اونٹوںکا چرواہا اور بالوں کی جھونپڑیوں کا با شند ہ بنا چھوڑتے تھے ۔

۷۳

ان کے گھر بار دنیا جہاں سے بڑھ کر خستہ و خراب اور ان کے ٹھکانے خشک سالیو ں سے تباہ حال تھے ،نہ ان کی کوئی آواز تھی جس کے پرو بال کا سہارا لیں ،نہ انس و محبت کی چھاؤں تھی جس کے بل بوتے پر بھروسا کریں ۔ان کے حالات پراگندہ ہاتھ الگ الگ تھے کثرت و جمعیت بٹی ہوئی ، جانگدار مصیبتوں اورجہالت کی تہ بہ تہ تہوں میں پڑے ہو ئے تھے یوں کہ لڑکیا ں زندہ درگور تھیں (گھر گھر مورتی پوجا ہوتی تھی)رشتے ناتے توڑے جا چکے تھے اورلوٹ کھسوٹ کی گر م با زاری تھی ۔(87)

ایک جگہ امام فرماتے ہیں

وَ احْذَرُوا مَا نَزَلَ بِالْإُمَمِ قَبْلَكُمْ مِنَ الْمَثُلَاتِ بِسُوءِ الْإَفْعَالِ وَ ذَمِيمِ الْإَعْمَالِ فَتَذَكَّرُوا فِي‏ الْخَيرِ وَ الشَّرِّ إَحْوَالَهُمْ‏ وَ احْذَرُوا إَنْ تَكُونُوا إَمْثَالَهُم‏

زمین میں شر انگیزی سے دامن بچانا تمہیں ان عذابوں او ر بد کرداریوں کی وجہ سے نازل ہو ئے اور (اپنے)اچھے اوربر ے حالا ت میں ان کے احوال و وار دات کو پیش نظر رکھو اور اس امر سے خائف و ترساں رہو کہ کہیں تمہیں بھی انہی کے جیسے نہ ہو جاؤ۔ (88)

--------------

(87)- ترجمہ مفتی جعفر ص 453 ۔ 455 خ 190 خطبہ قاصعہ

(88)- ایضا

۷۴

اسی خطبے میں امام ایک جگہ فرماتے ہیں:

وَ اعْتَبِرُوا بِمَا قَدْ رَإَيتُمْ مِنْ مَصَارِعِ‏ الْقُرُونِ‏ قَبْلَكُمْ‏ ----- فَإِنَّ الْإَمْرَ وَاضِحٌ وَ الْعَلَمَ قَائِمٌ وَ الطَّرِيقَ جَدَدٌ وَ السَّبِيلَ قَصْد

تم نے اپنے سے پہلے لوگوں کے جو گرنے کی جگہیں دیکھی ہیں ان سے عبرت حاصل کرو کہ ان کے جوڑ بند الگ الگ ہوگئے۔ نہ ان کی آنکھیں رہی اور نہ کان۔ ان کا شرف و وقار مٹ گیا‘ ان کی مسرتیں اور نعمتیں جاتی رہیں اور بال بچوں کے قرب کے بجائے علیحدگی اور بیویوں سے ہم نشینی کے بجائے ان سے جدائی ہوگئی۔ اب نہ وہ فخر کرتے ہیں اور نہ انکے اولاد ہوتی ہے۔ نہ ایک دوسرے سے ملتے ملاتے ہیں اور نہ آپس میں ایک دوسرے کے ہمسایہ بن کر رہتے ہیں۔ اے اللہ کے بندو! ڈرو جس طرح اپنے نفس پر قابو پالینے والا اور اپنی خواہشوں کو دبانے والا اور چشم بصیرت سے دیکھنے والا ڈرتا ہے کیونکہ (ہر) چیز واضح ہوچکی ہے۔ نشانات قائم ہیں راستہ ہموار ہے اور راہ سیدھی ہے۔(88)

امام علیہ السلام نے خطبہ قاصعہ میں بعض نہایت ہی قیمتی باتیں فرمائی ہیں، جن کی طرف محترم قارئین کی توجہ کے طالب ہیں۔

امام خطبہ قاصعہ کے آخر میں لوگوں سے گذشتہ امتوں کی حالات سے عبرت حاصل کرنے کی طرف دعوت دے رہے ہیں:

--------------

(88)- ترجمہ مفتی جعفر ص 374 خ 159

۷۵

زمین میں شر انگیزی سے دامن بچانا تمہیں ان عذابوں او ر بد کرداریوں کی وجہ سے نازل ہو ئے اور (اپنے)اچھے اوربر ے حالا ت میں ان کے احوال و وار دات کو پیش نظر رکھو اور اس امر سے خائف و ترساں رہو کہ کہیں تم بھی انہی کے جیسے نہ ہو جاؤ۔اگر تم نے ان کی دونوں (اچھی بری ) حالتوںپر غور کرلیا ہے تو پھر ہراس چیز کی پابندی کرو کہ جس کی وجہ سے عزت و برتری نے ہر حال میں ان کاساتھ دیا اور دشمن ان سے دور دور رہے اور عیش و سکون کے دامن ان پرپھیل گئے ۔اور نعمتیں سرنگوں ہو کر ان کے ساتھ ہو لیں اور عزت و سرفرازی نے اپنے بندھن ان سے جوڑ لئے ۔(وہ کیاچیز یں تھیں )یہ کہ وہ افتراق سے بچے اور اتفاق و یکجہتی پر قائم رہے ۔اسی پرایک دوسرے کو ابھارتے تھے او راسی کی باہم سفارش کرتے تھے۔

ور تم ہر اس امر سے بچ کر رہو کہ جس نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ ڈالا اور قوت و توانائی کو ضعف سے بدل دیا ۔(اور وہ یہ تھا )کہ انہوں نے دلوں میں کینہ اور سینوں میں بغض رکھا ایک دوسرے کی مدد سے پیٹھ پھر الی او ر باہمی تعاون سے ہاتھ اٹھا لیا ۔اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ گزشتہ زمانہ کے اہل ایمان کے وقائع و حالات پر غور و فکرکرو،کہ (صبر آزما) ابتلاؤں اور (جانکاہ )مصیبتوں میں ان کی کیا حالت تھی کیا وہ ساری کائنات سے زیادہ گرانبار تمام لوگوں سے زائد مبتلائے تعب و مشقت اور دنیاجہان سے زیادہ تنگی و ضیق کے عالم میں نہ تھے ؟کہ جنہیں دنیا کے فرعون نے اپنا غلام بنارکھاتھا اور انہیں سخت سے سخت اذیتیں پہنچاتے اور تلخیوں کے گھونٹ پلاتے تھے ا ور ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ وہ تباہی و ہلاکت کی ذلتوں اورغلبہ و تسلّط کی قہر سامانیوں میں گھرتے چلے جارہے تھے ۔نہ انہیں بچاؤ کی کو ئی تدبیر اور نہ روک تھام کا کوئی ذریعہ سو جھتا تھا ۔ یہاں تک کہ جب اللہ سبحانہ نے دیکھا کہ یہ میری محبت میں اذیتوں پر پوری کدو کاوش سے صبر کئے جارہے ہیں اور میرے خیال سے مصیبتوں کو جھیل رہے ہیں تو ان کے لےے مصیبت و ابتلاء کی تنگنائے سے وسعت کی راہیں نکالیں اور ان کی ذلت کو عز ت و سرفرازی حاصل ہوئی ۔

۷۶

غور کرو !کہ جب ان کی جمعیتیں یک جا ،خیالات یکسو اور دل یکساں تھے او ران کے ہاتھ ایک دوسرے کو سہارا دیتے اور تلواریں ایک دوسرے کی معین و مددگار تھیں اور ان کی بصیرتیں تیز اور ارادے متحد تھے ،تو اس وقت ان کا کیا عالم تھا ،کیا وہ اطراف زمین میں فرمانروا اور دنیا والوں کی گردنوں پر حکمرا ن نہ تھے؟اور تصویر کا یہ رخ بھی دیکھو !جب ان میں پھوٹ پڑگئی ۔یکجہتی درہم برہم ہو گئی ۔ان کی باتوں اور دلوں میں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے ،او ر وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے اور الگ جتھے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے تو ان کی نوبت یہ ہوگئی کہ اللہ نے ان سے عزت و بزرگی کا پیراہن اتار لیا اور نعمتوں کی آسائش ان سے چھین لی اور تمہارے درمیان ان کے واقعات کی حکایتیں عبر ت بن کر رہ گئیں ۔

تتمۂ مؤلف

مذکورہ بیانات کی روشنی میں یہ نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے:

کسی اسلامی معاشرے کی بیماری کی پہچان میں مولا کی نظر بہت ہی وسیع اور گہری ہے، اس گہرے دریا میں غوطہ لگانے کے لئے بہت زیادہ فہم و فراست اور تیز بینی کی ضرورت ہے۔ امام ع کے ہر ہر نکتوں پر غور و فکر کرنا ہمارے لئے علوم و معارف کا دروازہ کھول سکتا ہے۔

جوکچھ اس کتابچہ میں بیان ہوا ہے، ان اہم اہم بیماریوں کی فہرست تھی جن کی طرف اگر توجہ نہ دی جائے تو ان میں سے ہر ایک کسی حکومت کی نابودی کے لئے کافی ہے۔

۷۷

ہم نے یہاں ان بیماریوں کو ان کی اہمیت کے حساب سے ترتیب دے کر بیان کیا ۔ اگر چہ ان میں سے ہر ایک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور کبھی امام علیہ السلام ایک ہی کلام میں کئی بیماریوں کا تذکرہ فرماتے تھے۔

اگر امام علیہ السلام نے کہیں اپنی حکومت پر حق سے متعلق بات کی ہے تو اس حکومت پر قبضہ جمانے کے لئے نہیں ہے بلکہ آپ اس بات سے ڈرتے تھے کہیں یہ بیماریاں اسلامی حکمرانوں کو لاحق نہ ہوجائیں۔ امام خود حاکم بن کر ان کو نہ صرف حکمرانوں سے بلکہ عوام اور رعایا سے بھی دور کر سکتے تھے۔ اسی لئے جب تک آپ زندہ تھے امت کو مشکلات میں پڑنے نہیں دیااگر کہیں کسی مشکل میں پھنس بھی جاتی تو آپ ع کی ہوشیاری اور وقت پر قدم اٹھانے کی وجہ سے وہ بلا ٹل جاتی تھی۔ لیکن جوں ہی آپ نے اس دنیا سے کوچ فرمایا امت ان تمام بلاؤں میں مبتلا ہو گئی جن سے حضرت ہمیشہ امت کو ڈراتے تھے۔

آخر میں ہم امید کرتے ہیں معاشرے کی بیماریوں کی بروقت پہچان کے لئے امام علیہ السلام کےباتوں میں غور وفکر کریں اور وقت پر ان کی علاج کے سلسلے میں قدم اٹھائیں، تاکہ خود اور معاشرے کو مختلف قسم کی اذیتوں سے بچایا جا سکے، اور خدا کی اس امانت اور اس کے اصلی مالک یعنی حضرت حجت ابن الحسن عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے دست مبارک میں پیش کرنےکی سعادت حاصل کر سکیں۔ انشاء اللہ

۷۸

تتمۂ مترجم

بہر حال حضرت علی علیہ السلام کو مہلت نہیں ملی کہ ایک الہی حکومت کو برپا کر سکیں لیکن آپ یہ خوشخبری سنا کے گئے کہ امام مہدی عج کے دست مبارک پر ایسی حکومت قائم ہوگی۔ جس میں انصاف کا دور دورا ہوگا اور ظلم کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ذیل میں اس عظیم حکومت کی بعض اہم خصوصتیں عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں:

حضرت امام مہدی (عج) کی حکومت کی خصوصیتیں

پہلی خصوصیت

حضرت امام مہدی (عج) کی حکومت کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حکومت زمین کے کسی ایک خاص حصہ پرنہیں بلکہ پوری دنیاپرہوگی۔ اس بارے میں بہت سی آیات و روایات موجودہیں جن میں سے ہم یہاں پر صرف ایک آیت کی طرف اشارہ کررہے ہیں :

﴿وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكرِ إَنَّ الْإَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾

اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ دنیا میں ہر شخص موجودہ صورت حال سے نالاں ہے، کوئی مالی فقر میں مبتلا ہے تو کوئی روحانی محرومیت سے دوچار ہے۔ اس لیے ہر شخص کا ضمیر ایک عدل و انصاف اور امن وآشتی پر مبنی نظام کا طالب ہے۔ ظاہر ہے جس چیز کا سرے سے کوئی وجود نہ ہو انسانی ضمیر اسے طلب نہیں کرتا۔ اگر پانی کا وجود نہ ہوتا تو اس کی کسی کو طلب بھی نہ ہوتی۔ لہٰذا انسانی ضمیر کی طلب اس بات کی دلیل ہے کہ انسانیت کوایک ایسا نظام ملنے والا ہے جس میں اللہ کے نیک بندے ہی زمین کے وارث ہوں گے اور زمین عدل و انصاف سے اس طرح پر ہو جائے گی جس طرح یہ ظلم وجور سے پر ہو گئی تھی۔

دنیا کو ہے اس مہدیؑ بر حق کی ضرورت ******** ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار

۷۹

اس کے علاوہ دوسری آیتیں بھی ہیں جواس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ایک زمانہ میں نیک لوگ زمین پرحاکم ہوں گے۔ اس حکومت کی ایک خصوصیت جو دوسری حکومتوں سے مختلف ہے وہ یہ ہے کہ پوری دنیاپرصرف ایک ہی حکومت ہوگی ،دنیاکی حکومت مختلف حصوں میں نہیں بٹے گی۔ ہم شیعوں کایہی عقیدہ ہے کہ دنیاکی مختلف حکومتیں ختم ہوں اور ایک انٹرنیشنل حکومت بنے ،جس میں سب کوحصہ ملے۔

دوسری خصوصیت

حضرت امام مہدی (عج) کی حکومت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس وقت اسلام پوری دنیامیں پھیل جائے گا،کوئی بستی ایسی نظرنہ آئے گی جس سے آذان کی آوازنہ آئے۔

سوال : اس وقت مختلف آسمانی دین جیسے یہودی وعیسائی باقی رہیں گے یانہیں؟

جواب : ابھی ہم اس بارے میں بحث نہیں کررہے ہیں اس کے بارے میں بعدمیں بحث کریں گے ابھی توہم صرف یہی بتاناچاہتے ہیں کہ اسلام پور ی دنیامیں پھیل جائے گا۔

آپ سب جانتے ہیں کہ اس وقت دنیامیں مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے ،آج دنیامیں 6/1 مسلمان ہیں آج دنیاکازیادہ حصہ غیرمسلم لوگوں کے ہاتھ میں ہے لیکن حضرت امام مہدی (عج) کی حکومت کے وقت پوری دنیامسلمانوں کے ہاتھ میں ہوگی ۔

تیسری خصوصیت

حضرت امام مہدی(عج) کی حکومت کی تیسری خصوصیت ظلم کامقابلہ اوراس کومٹاناہے اس کام میں حضرت کوپوری طرح سے کامیابی ملے گی وہ زمین سے ظلم کوبالکل مٹادیں گے ۔ روایات میں ملتاہے کہ حضرت ظلم کاصفایاکردیں گے۔ نہ عوام ایک دوسرے پرظلم کرے گے اورنہ حکومت عوام پرظلم کرے گی۔

۸۰

81

82

83

84

85