حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں 80%

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 85

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 85 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32222 / ڈاؤنلوڈ: 4152
سائز سائز سائز
حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

مولف : فاطمہ نقیبی

مترجم: محمد عیسی روح اللہ

پیشکش:امام حسین (ع) فاؤنڈیشن قم

۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول از مترجم

نہج البلاغہ امام علی(ع) کے کلام و مکتوبات کا منتخب مجموعہ ہے جو چوتھی صدی ہجری میں سید رضی کے ہاتھوں تدوین ہوچکا ہے۔ (اس کتاب کی تالیف و تحریر کا کام سنہ ۴۰۰ ہجری میں مکمل ہوا ہے)۔ سید رضی نے ادبی بلاغت کو کلام و مکتوبات کے انتخاب کا معیار قرار دیا تھا۔ اس کتاب میں جمع کردہ کلام کی بلاغت و نفاست اس حد تک ہے کہ سید رضی ـ جو خود ایک عظیم شاعر اور نامور ادیب اور نامی گرامی کاوشوں کے مالک تھے ـ اس تالیف شدہ کاوش کو اپنے لئے باعث فخر و اعزاز سمجھتے ہیں اور لکھتے ہیں:

یہ کام دنیا میں میرے نام کی بلندی اور میری شہرت کا سبب بھی ہے اور میری آخرت کے لئے ایک ذخیرہ بھی ہے؛ نیز امام علی(ع) کے دیگر فضائل و مناقب کے علاوہ فصاحت و بلاغت میں بھی آپ کی عظمت کو پہچانا جائے گا؛ کہ آپ نے اپنے سابقین سے اس حوالے سے سبقت حاصل کی ہے۔ سابقین کے فصیح و بلیغ کلام میں سے بہت تھوڑا سا حصہ ہم تک پہنچ سکا ہے لیکن امیرالمؤمنین(ع) کا کلام ایک بحر بےکراں ہے کہ کسی بھی سخنور میں اس کا سامنا اور تقابل کرنے کی قوت نہیں ہے، اور مجموعہ ہے فضائل کا جن کی ہمسری کسی کے بس میں نہیں ہے۔

۳

امام علی(ع) کا کلام عرب دنیا کے درجہ اول کے ادیبوں ـ منجملہ حاحظ، عبدالحمید اور ابن نباتہ ـ میں خاصا نفوذ رکھتا ہے۔ جاحظ نے سید رضی سے قبل امیرالمؤمنین(ع) کے ۱۰۰ مختصر کلمات تالیف کئے تھے اور رشید وطواط اور ابن میثم بحرانی نے ان کلمات پر شرحیں لکھی ہیں۔ ان ہی نے آپ کے کئی خطبات اپنی مشہور کتاب "البیان والتبیین" میں نقل کئے ہیں۔ فارسی ادب کے اکابرین کی تالیفات بھی امیرالمؤمنین(ع) کے کلام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی ہیں۔

نہج البلاغہ اسلامی تہذیب و تعلیمات کا ایک عظیم مجموعہ ہے:

اصل نکتہ یہ کہ اس پورے کلام سے امیرالمؤمنین علیہ السلام کا مقصد طبیعیات، حیوانیات، فلسفی یا تاریخی نقاط کی تدریس و تفہیم، نہ تھا۔ نہج البلاغہ میں اس قسم کے موضوعات کی طرف اشارے قرآن کریم میں ان ہی موضوعات کی طرف ہونے والے اشاروں کی مانند ہیں جو موعظت و نصیحت کی زبان میں ہر محسوس یا معقول موضوعات کے سلسلے میں روشن اور و قابل ادراک نمونے سننے اور پڑھنے والے کے سامنے رکھتا ہے؛ اور پھر قدم بہ قدم آگے بڑھ کر اس کو اپنے ساتھ اس منزل کی جانب لے جاتا ہے جہاں اس کو پہنچنا چاہئیے، اللہ کی درگاہ اور آستان پروردگار یکتا کی جانب۔

امام علیہ السلام خطبے کے ضمن میں لوگوں کی توجہ اللہ کے اوامر و نواہی اور اس کے واجبات و محرمات کی طرف مبذول کراتے ہیں اور واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز کی دعوت دیتے ہیں اور اپنے ماتحت حکام کے نام خطوط لکھ کر انہیں عوام کے حقوق کو ملحوظ رکھنے کے سلسلے میں ہدایات دیتے ہیں۔ نہج البلاغہ کے کلمات قصار (مختصر کلمات) امیرالمؤمنین (ع) کے حکیمانہ اور نصیحت آموز اور سبق آموز کلمات و جملات کا مجموعہ ہے جو ادبی بلاغت کا مرقع ہیں۔

۴

مقالہ اور مقالہ نگار

اس عظیم سمندر کا ایک حصہ گذشتہ اقوام کی داستانوں اور ان سے عبرت لینے پر مشتمل ہے۔ امام علی نہج البلاغہ میں جگہ جگہ گذشتہ حکومتوں کی نابودی کے اسباب و عوامل کا تذکرہ فرما رہے ہیں۔ زیر نظر مقالہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے خانم فاطمہ نقیبی نے فارسی میں تحریر کیا تھا ، ان کے اکثر مقالات نہج البلاغہ کے بارے میں ہی ہیں جیسے ۱- نہج البلاغہ و شؤون انسانی زن (نہج البلاغہ اور عورتوں کا انسانی احترام) ۲- بررسی ادلہ جامعیت و جاودانگی قرآن کریم در نہج البلاغہ (قرآن کی جامعیت اور ابدیت کے دلیلوں کا تجزیہ و تحلیل نہج البلاغہ میں) وغیرہ ۔

وہ اس وقت ایک اسلامی اسکالر ہیں اور ساتھ ہی وکالت کا کام بھی کرتی ہیں۔

ترجمہ اور اس کی خصوصیات

اس مقالہ کو اردو میں ترجمہ وقت کئی ایک باتوں کو خیا رکھا گیا ہے:

۱. جہاں تک ممکن ہو سادہ اور سلیس انداز میں لکھا جائے۔

۲. امام علیہ السلام کے اقوال کے ترجمہ کا زیادہ تر حصہ مرحوم علامہ مفتی جعفر اعلی اللہ مقامہ کے ترجمہ سے لیا گیا ہے

۳. عربی عبارات کے سلسلے میں کوشش یہ کی انہیں اعراب کے ساتھ نقل کروں اورتمام عربی عبارتیں نور سافٹ وئیر جامع الاحادیث سے لیا ہے۔

۴. کئی جگہ عبارتیں لمبی ہونے کی وجہ سے صرف اس کے ابتداء اور انتہاء کا ایک ایک جملہ نقل کیا ہے اور درمیان میں بعض نقطے سے خالی جگہ کی نشاندہی کی ہے۔

۵

۵. خاتمہ میں مناسبت کی وجہ سے حکومت امام زمانہ کے بعض اہم خصوصیتوں کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اور ساتھ امام کے ۳۱۳ اصحاب کی بعض اہم خصوصیتوں کو ایک صفحہ میں ذکر کرنے کی کوشش کی ہے۔

۶. بعض جگہوں پر بعض مطالب کی کمی تھی جسے مقالہ نگار نے ذکر نہیں کیاتھا اسے حقیر نے مقالہ میں شامل کیا ہے لیکن ان کی عربی عبارات طولانی ہونے کی خوف سے نقل نہیں کی ہیں۔

۷. قرآن کریم کا ترجمہ شیخ محسن علی نجفی کے بلاغ القرآن سے لیا ہے۔

خلاصہ

اسلامی نقطہ نظر سے حکومت کا نظام اپنی تمام جہات میں دوسرے نظاموں سے مختلف ہے، اس واضح نقطہ نظر کو نہج البلاغہ سے واضح اور دقیق انداز میں لیا جا سکتا ہے۔ "اسلامی حکومت کی ضرورت اور اہمیت" بہت ہی اہمیت والے موضوعات میں سے ہے؛ اگر اس کی اچھی طرح وضاحت ہو جائے تو اسلامی نظام میں حکومت کا مقام اور دوسرے نظاموں میں اس کے مقام کے درمیان واضح فرق کو درک کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت کسی بھی حکومت کی اچھائی اور برائی یا کمی بیشی کا اندازہ کسی نظام میں اس حکومت کے مقام و منزلت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ اس مقالہ کے افتتاحیہ یا دیباچہ میں اس موضوع کی اہمیت کو نہج البلاغہ کی نگاہ سے بیان کیا ہے

ہمیشہ سے کسی بھی حادثہ یا واقعہ کے وجود میں آنے، یا کسی بھی نظام کے زوال اور نابود ہونے میں مختلف اسباب و عوامل موثر رہے ہیں۔ یقینا حکومت بھی اس اصول سے خارج نہیں ہے ، حکومت کے عروج اور زوال بھی ہمیشہ سے اسباب و عوامل کے تابع ہے۔

۶

حکومتوں کے زوال اور نابودی کے اسباب و عوامل کی شناخت اسلامی معاشرے کو زوال اور نابودی سے دور کرکے اصلی اور حقیقی نظام کی طرف لے جانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

اس مختصر تحقیق میں انہی عوامل و اسباب کو زیر بحث لایا گیا ہے جو کسی بھی حکومت کے زوال اور خاتمے میں بڑا کردار ادا کر سکتی ہیں؛ البتہ بعض جزوی اسباب بھی اس میں موثر واقع ہو سکتے ہیں۔ 

اسلامی حکومت کا مقام

حکومت کا مفہوم

مفہوم حکومت کو کئی زایے اور نظریے کی بنا پر مودر بحث قرار دیا جا سکتا ہے۔ انسانوں کی تاریخ میں ہر ایک نے اپنے طور پر مفہوم حکومت سے معنی لیا ہے۔ بسا اوقات یہ لفظ اپنے حقیقی معنی سے دور ہو گیا کہ اس سے لجاجت، ہٹ دھرمی، ظلم و ستم نا انصافی، غلبہ اور غیر انسانی سلوک کے علاوہ کسی اور چیز کی بو نہیں آتی تھی۔اس معنی کی بنا پر حکومت، حکمرانوں کے لیے دوسروں کو مغلوب کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

۷

نہج البلاغہ میں حکومت کا معنی

حکومت ، نہج البلاغہ کی رو سے حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں انتظام، نظم و نسق، مخلوق کی خدمت، ہدایت، الفت اور محبت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حکومت کا یہی مفہوم حضرت امیر علیہ السلام کے بیانات میں اپنی پوری خوبصورتی کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ اشعث بن قیس، جو عثمان کی طرف سے آذربائیجان کا والی مقرر ہوا تھا، حکومت سے صرف غلبہ کا مفہوم اخذ کرتا تھا ؛ اسی لیے امام اسے مخاطب ہو کر لکھتے ہیں:

« وَ إِنَ‏ عَمَلَكَ‏ لَيسَ‏ لَكَ‏ بِطُعْمَةٍ وَ لَكِنَّهُ إَمَانَةٌ وَ فِي يَدَيكَ‏ مَالٌ مِنْ مَالِ اللَّهِ وَ إَنْتَ مِنْ خُزَّانِ اللَّهِ عَلَيهِ حَتَّى تُسَلِّمَهُ إِلَيَّ وَ لَعَلِّي إَلَّا إَكُونَ شَرَّ وُلَاتِكَ لَك‏»

یہ عہدہ تمہارے لیے کوئی آزوقہ نہیں ہے بلکہ وہ تمہاری گردن میں ایک امانت کا پھندا ہے اور تم اپنے حکمران بالا کی طرف سے حفاظت پر مامور ہو۔ تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ رعیت کے معاملے میں جو چاہو کر گزرو۔ خبردار! کسی مضبوط دلیل کے بغیر کسی بڑے کام میں ہاتھ نہ ڈالا کرو۔ تمہارے ہاتھوں میں خدائے بزرگ و برتر کے اموال میں سے ایک مال ہے اور تم اس وقت تک اس کی خزانچی ہو جب تک میرے حوالے نہ کر دو، بہر حال میں غالباً تمہارے لئے براحکمران نہیں ہوں والسلام- (۱)

----------------

(۱)- نہج البلاغہ ترجمہ علامہ مفتی جعفر ص ۵۶۱۔ علامہ مفتی جعفر مرحوم اس کی شرح میں فرماتے ہیں: جب امیر المومنین علیہ السلام جنگ جمل سے فارغ ہوئے تو اشعث بن قیس کو جو حضرت عثمان کے زمانہ سے آذر بائیجان کا عامل چلا آرہا تھا تحریر فرمایا کہ وہ اپنے صوبہ کا مال خراج و صدقات روانہ کرے۔ مگر چونکہ اسے اپنا عہدہ و منصب خطرہ میں نظر آرہا تھا، اس لئے وہ حضرت عثمان کے دوسرے عمال کی طرح اس مال کو ہضم کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس خط کے پہنچنے کے بعد اس نے اپنے مخصوصین کو بلایا اور ان سے اس خط کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ مال مجھ سے چھیں نہ لیا جائے۔ لہذا میرا ارادہ ہے کہ میں معاویہ کے پاس چلا جاؤں۔ جس پر ان لوگوں نے یہ کہا کہ یہ تمہارے لئے باعث ننگ و عار ہے کہ اپنے قوم قبیلے کو چھوڑ کر معاویہ کے دامن میں پناہ لو۔چنانچہ ان لوگوں کے کہنے پر اس نے جانے کا ارادہ تو ملتوی کردیا مگر اس مال کے دینے پر آمادہ نہ ہوا۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اسے طلب کرنے کے لئے حجر ابن عدی کندی کو روانہ کیا جو اسے سمجھا بجھا کر کوفہ لے آئے۔ یہاں پہنچنے پر اس کا سامان دیکھا گیا تو اس میں چار لاکھ درہم پائے گئے جس میں سے تیس ۳۰ ہزار حضر نے اسے دے دئیے اور بقیہ بیت المال میں داخل کر دئیے۔

۸

امیر المومنین علیہ السلام اس خط میں حکومت سے متعلق اس پرانی سوچ کی طرف اشارہ فرماتے ہیں جو بہت عرصہ سے رائج تھا۔ اس فکر کے مقابلے میں حکومت کو ایک امانت ذمہ داری بیان کرتے ہیں کو حاکموں کے ہاتھوں دی گئی ہے کہ اس کی حفاظت گورنر کے اوپر قوم کے ناگزیز حقوق میں سے ایک حق ہے۔ یہ ذمہ داری خدا کی طرف سے گورنر اور عامل پر فرض ہے؛ کیونکہ تمام چیزیں اسی کے ہیں۔

کسی دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں:

«إِنَ‏ السُّلْطَانَ‏ لَأَمِينُ‏ اللَّهِ‏ فِي الْخَلْقِ وَ مُقِيمُ الْعَدْلِ فِي الْبِلَادِ وَ الْعِبَادِ وَ ظِلُّهُ‏ فِي الْأَرْضِ»

بے شک حاکم زمین پر اللہ کا امین ہے ملک میں عدل و انصاف قائم کرنے والا اور معاشرے کو گناہ اور فساد سے بچانے والا ہے-(۲)

امام علیہ السلام اس فرمان میں مفہوم حکومت کو مدیریت اور نظم و نسق قرار دے رہے ہیں کہ اپنے بروکروں اور گورنروں کو صحیح کام کر کے مدیرت ادا کرنے کی اہمیت پر سخت تاکید فرما رہے ہیں۔ مالک اشتر کے عہدنامہ میں آپ مالک کو لکھتے ہیں:

«وَ لَا تَقُولَنَ‏ إِنِّي‏ مُؤَمَّرٌ آمُرُ فَإُطَاعُ فَإِنَّ ذَلِكَ إِدْغَالٌ فِي الْقَلْبِ وَ مَنْهَكَةٌ لِلدِّينِ وَ تَقَرُّبٌ مِنَ الْغِيَر»

کبھی یہ نہ کہنا کہ میں حاکم بنایا گیا ہوں، لہذا میرے حکم کے آگے سر تسلیم خم ہونا چاہئے؛ کیونکہ یہ دل میں فساد پیدا کرنے، دین کو کمزور بنانے اور بربادیوں کو قریب لانے کا سبب ہے- (۳)

-------------------

(۲) -شرح غرر الحکم و دررالکلم، ص ۶۰۴ ; بہ نقل از حکومت حکمت، ص ۴۴

(۳)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۶۴۹

۹

حکومتوں کی زوال اور انحطاط کے اسباب امیر المومنین ؑ کی نگاہ میں

۱- قائد کی اطاعت سے سرپیچی

الف: معاشرے کا حقیقی قائد اور الہی رہبر

یقیناً ہر معاشرہ قائد رہبر اور امام کا محتاج ہے:

وَ إِنَّهُ لَا بُدَّ لِلنَّاسِ‏ مِنْ‏ إَمِيرٍ بَرٍّ إَوْ فَاجِرٍ يَعْمَلُ فِي إِمْرَتِهِ الْمُؤْمِنُ وَ يَسْتَمْتِعُ فِيهَا الْكَافِرُ وَ يُبَلِّغُ اللَّهُ فِيهَا الْإَجَلَ وَ يُجْمَعُ بِهِ الْفَي‏ءُ وَ يُقَاتَلُ بِهِ الْعَدُوُّ وَ تَإمَنُ بِهِ السُّبُلُ وَ يُؤْخَذُ بِهِ لِلضَّعِيفِ مِنَ الْقَوِيِّ حَتَّى يَسْتَرِيحَ بَرٌّ وَ يُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِر

لوگوں کے لئے حاکم کا ہونا ضروری ہے۔ خواہ اچھا ہو یا برا (اگر اچھا ہوگا تو) مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا اور( برا ہو گا تو ) کافر اس کے عہد میں لذائذ سے بہرہ اندوز ہو گا۔اور اللہ اس نظام حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حدوں تک پہنچا دے گا ۔ اسی حاکم کی وجہ سے مال (خراج و غنیمت) جمع ہوتا ہے۔ دشن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ نیک حاکم (مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے، اور برے حاکم کے مرنے یا معزول ہونے سے دوسروں کو راحت پہنچے۔ (۴)

---------------

(۴)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۱۶۷

۱۰

کسی معاشرہ کے لیے ایک رہبر اور قائد کا ہونا دین مبین اسلام میں مسلمات میں سے ہے۔ سب سے اعلی رہبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے۔ آپؐ نے اپنے بعد اپنی عترت اور اہل بیت علیہم السلام کو امت اسلامی کے لئے رہبر کے عنوان سے متعارف کرایا اور حدیث ثقلین میں انہیں قرآن کے برابر قرار دیا اور فرمایا کہ میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرآن ہے اور دوسرا میر ی عترت۔

اسی لیے امام علی علیہ السلام نے اہل بیت علیہم السلام کو اسرار الہی کے خزانےاوردین کے ستون کے ساتھ متصف کیا:

هُمْ مَوْضِعُ سِرِّهِ وَ لَجَإُ إَمْرِهِ وَ عَيبَةُ عِلْمِهِ وَ مَوْئِلُ حُكمِهِ وَ كُهُوفُ كُتُبِهِ وَ جِبَالُ دِينِهِ بِهِمْ إَقَامَ انْحِنَاءَ ظَهرِهِ وَ إَذْهَبَ ارْتِعَادَ فَرَائِصِهِ‏

وہ سر خدا کے امین اور اس کے دین کی پناہگاہ ہیں علم الہی کے مخزن اور حکمتوں کے مرجع ہیں۔ کتب (آسمانی) کی گھاٹیاں اور دین کے پہاڑ ہیں۔ انہی کے ذریعے اللہ نے اس کی پشت کو مضبوط کیا اور اس کے پہلوؤں سے ضعف کو دور کیا۔(۵)

دوسری جگہ امامت ، وصایت اور رہبری کے لائق صرف انہی ہستیوں کو جانتے ہیں:

لَا يُقَاسُ‏ بِآلِ‏ مُحَمَّدٍ ص مِنْ هَذِهِ الْإُمَّةِ إَحَدٌ وَ لَا يُسَوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَيهِ إَبَداً هُمْ إَسَاسُ الدِّينِ وَ عِمَادُ الْيَقِينِ إِلَيهِمْ يَفِي‏ءُ الْغَالِي وَ بِهِمْ يُلْحَقُ التَّالِي وَ لَهُمْ خَصَائِصُ حَقِّ الْوِلَايَةِ وَ فِيهِمُ الْوَصِيَّةُ وَ الْوِرَاثَة

اس امت میں کسی کو آل محمد پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں وہ ان کے برابر نہیں ہو سکتے۔ دین کے بنیاد اور یقین کے ستون ہیں۔ آگے بڑھ جانے والے کو ان طرف پلٹ کر آنا اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ہے۔ حق ولایت کی خصوصیت انہی کے لیے ہے، اور انہی کے بارے میں پیغمبرؐ کی وصیت او رانہی کے لئے (نبی کی) وراثت ہے۔

-------------

(۵)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۸۰ خ ۲

۱۱

حضرت علی علیہ السلام قرآن اور عترت کے بارے میں جوکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے یاد گار چھوڑے ہیں، فرماتے ہیں:

وَ خَلَّفَ‏ فِينَا رَايَةَ الْحَقِ‏ مَنْ تَقَدَّمَهَا مَرَقَ وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا زَهَقَ وَ مَنْ لَزِمَهَا لَحِق‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم میں حق کا وہ پرچم چھوڑ گئے کہ جو اس سے آگے بڑھے گا وہ (دین سے) نکل جائے گا اور جو پیچھے رہ جائے وہ مٹ جائے گا اور جو اس سے چمٹا رہے گا وہ حق کے ساتھ رہے گا۔(۶)

نہج البلاغہ کی شرح لکھنے والوں( چاہے ہو سنی ہو یا شیعہ ) کا کہنا ہے کہ حق کے پرچم سے مراد ثقلین یعنی قرآن و عترت ہیں۔(۷)

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر امت اسلامی عترت رسول اللہ علیہم السلام کو امامت اور رہبری کے لیے انتخاب کرتے تو کبھی بھی شکست اور حیرانی کا شکار نہ ہوتے، ۔ عترت رسول اللہ اس صاف شفاف چشمے کی طر ح ہے کہ جس کی طرف پوری تیزی اور طاقت کے ساتھ دوڑنے کی ضرورت ہے:

فَإَينَ تَذْهَبُونَ‏ وَ إَنَّى تُؤْفَكُونَ وَ الْإَعْلَامُ قَائِمَةٌ وَ الْآيَاتُ وَاضِحَةٌ وَ الْمَنَارُ مَنْصُوبَةٌ فَإَينَ‏ يُتَاهُ‏ بِكُمْ‏ وَ كَيفَ تَعْمَهُونَ‏ وَ بَينَكُمْ عِتْرَةُ نَبِيِّكُمْ وَ هُمْ إَزِمَّةُ الْحَقِّ وَ إَعْلَامُ الدِّينِ وَ إَلْسِنَةُ الصِّدْقِ فَإَنْزِلُوهُمْ بِإَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْآنِ وَ رِدُوهُمْ وُرُودَ الْهِيمِ الْعِطَاش‏

-------------------------

(۶)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۲۶۰ خ ۹۸

(۷)- شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۷، ص ۸۵

۱۲

اب تم کہاں جا رہے ہو، اور تمہیں کدھر موڑا جا رہا ہے؟ حالانکہ ہدایت کے جھنڈے بلند، نشانات ظاہر و روشن اور حق کے مینار نصب ہیں اور تمہیں کہاں بہکایا جا رہا ہے اور کیوں ادھر ادھر بھٹک رہے ہو؟ جب کہ تمہارے نبی ؐ کی عترت تمہارے اندر موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچی زبانیں ہیں۔ جو قرآن کی بہترسے بہتر منزل سمجھ سکو، وہیں انہی بھی جگہ دو، اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سرچشمہ ہدایت پر اترو۔

ابن ابی الحدید، سنی عالم دین اور نہج البلاغہ کے عظیم شارح اس خطبہ کے ذیل میں حدیث ثقلین اور آیت تطہیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کرتے ہیں کہ عترت علیہم السلام خدا کی طرف سے معین ہے۔ اس کے بعد "ازمة الحق حق کی باگیں"والی عبارت کی شرح میں لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ: «فانزلوهم باحسن منازل القرآن» والے جملے میں ایک بہت ہی بڑا سر اور راز چھپا ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ تمام لوگوں کو حکم دے رہے ہیں کہ اہل بیت علیہم السلام کے آگے سر تسلیم خم کریں، ان کے فرامین کی اطاعت کریں اور قرآن ناطق مان لیں؛ یعنی اہل بیت علیہم السلام کی تعظیم اور ان سے تمسک کریں، انہیں اپنے دل اور سینہ میں جگہ دے دیں؛ وہی دل و جان جس میں تم قرآن کو جگہ دیتے ہو۔ یا حضرت علیہ السلام کی مراد یہ ہو کہ اہل کو وہی مقام دے دیں جسے قرآن نے ان کے لیے مقرر کیا ہے۔ (۸)

--------------

(۸)- شرح ابن ابی الحدید ج ۶، ص ۳۷۶

۱۳

"وردوہم ورود الہیم العطاش اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سرچشمہ ہدایت پر اترو " والی عبارت میں بھی ان کی پیروی کرنے کے انداز کو بیان کیا ہے کہ جس طرح پیاسا اونٹ پانی کے چشمہ کر طرف دوڑتی ہے تم بھی سر چشمہ ہدایت کی طرف اسی طرح دوڑیں۔

کہا جاتا ہے: وردوہ م ورود سے ہے یعنی خوشگوار چشمہ پر وارد ہونا، اپنے کو پہنچانا، اور الہی م العطاش پیاسے اونٹ کو کہا جاتا ہے۔ اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام سے دین اوعلم حاصل کرنے میں حد سے زیادہ لالچی بنیں؛ جیسے پیاسا اونٹ پانی پر پہنچنے کے لیے لالچی بنتا ہے۔ (۹)

ان کی اطاعت کے سلسلے میں ان سے آگے نکل جانا یا پیچھے رہ جانا دونوں ناقابل تلافی ہیں اور شاہراہ ہدایت سے منحرف ہونے کا سبب بنتا ہے:

انْظُرُوا إَهلَ‏ بَيتِ‏ نَبِيِّكُمْ‏ فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ‏ وَ اتَّبِعُوا إَثَرَهُمْ فَلَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ هُدًى وَ لَنْ يُعِيدُوكُمْ فِي رَدًى فَإِنْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا وَ إِنْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا وَ لَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا وَ لَا تَتَإَخَّرُوا عَنْهُمْ فَتَهلِكُو

اپنے نبی ؐ کے اہل بیت کو دیکھو، ان کی سیرت پر چلو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ اور نہ گمراہی اور ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔ اگروہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو ۔ ان سے آگے نہ بڑھو۔۔۔ ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے، اور نہ (انہیں چھوڑ کر) پیچھے رہ جاؤ، ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔(۱۰)

پس اسلامی معاشرے کے حقیقی رہبر اور حاکم ائمہ علیہم السلام ہیں۔ ان کا وجود ستون کی طرح ہے کہ اگر یہ ستون محفوظ رہیں تو عمارت بھی محفوظ رہے گی ۔

------------

(۹)- بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج ۱، ص ۲۴۳

(۱۰)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۲۵۵ خ ۹۵

۱۴

ب۔ غیبت کے زمانے میں قائد کا کردار

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے زمانے میں معاشرے کا حاکم قائد اوررہبر ولی فقیہ ہے جس کے بارے میں اما م زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نے فرمایا:

وَ أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِيهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِيثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي‏ عَلَيْكُمْ‏ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْكُم (۱۱)

غیبت کے زمانے میں پیش آنے والے واقعات اورحادثات میں ہماری احادیث نقل کرنے والوں کی طرف رجوع کرو کیونکہ یہ میرے طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی طرف سے تم حجت ہوں۔

پس جامع الشرائط مجتہدین معصوم علیہم السلام کے نائب ہیں، غیبت کے زمانے میں یہ لوگ اللہ کے فرمان کو معاشرے میں نافذ کرتے ہیں۔

قائداور رہبر کو وجود اس حد تک اہمیت کا حامل ہے کہ ہمارے دینی شہ سرخیوں میں بہت زیادہ اس کی تصریح اور تاکید ہوئی ہے:

«وَ الْإِمَامَةَ نِظَاماً لِلْأُمَّةِ، وَ الطَّاعَةَ تَعْظِيماً لِلْإِمَامَةِ» (۱۲)

اور امامت امت کے نظم و نسق کے لیے ہے اطاعت کرنا امامت کی تعظیم ہے؛ یعنی اگر امت امام کے بغیر رہ جائے تو تفرقہ اختلاف اور ہرج و مرج کا شکار ہو گی۔

---------------

(۱۱)- طوسی، محمد بن الحسن، الغیبة (للطوسی)/ کتاب الغیبة للحجة، النص ؛ ص۲۹۱

(۱۲)- حلوانی، حسین بن محمد بن حسن بن نصر، نزہة الناظر و تنبیہ الخاطر ص۴۶

۱۵

اسلامی معاشرے میں رہبر کی حیثیت تسبیح کے دھاگے کی طرح ہے جس میں تسبیح کے دانے پروئے گئے ہیں؛ اگر یہ دھاگہ نہ ہوتا تو دانے ادھر ادھر بکھر جاتے اور شاید اسے تسبیح ہی نہ کہا جائے۔ نہج البلاغہ میں ایک جگہ امام فرماتے ہیں:

وَ مَكَانُ‏ الْقَيِّمِ‏ بِالْإَمْرِ مَكَانُ النِّظَامِ مِنَ الْخَرَزِ يَجْمَعُهُ وَ يَضُمُّهُ فَإِنِ انْقَطَعَ النِّظَامُ تَفَرَّقَ الْخَرَزُ وَ ذَهَبَ ثُمَّ لَمْ يَجْتَمِعْ بِحَذَافِيرِهِ إَبَدا

امور (سلطنت) میں حاکم کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مہروں میں ڈورے کی جو انہیں سمیٹ کر رکھتا ہے۔ جب ڈورا ٹوٹ جائے تو سب مہرے بکھر جائیں گے اور پھر کبھی سمٹ نہ سکیں گے۔(۱۳)

پس قائد اوررہبر کا کام امت کو پراکندہ ہونے اور تفرقہ کے شکار ہونے سے بچانا اور ان کے درمیان وحدت ایجاد کرنا ہے۔

اگر کوئی معاشرہ تباہ و برباد ہو نا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اس معاشرے میں رہنے والے لوگ اختلاف کا شکار ہو جائیں گےاسی لیے تاریخ میں دشمنوں نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ لوگوں کو اختلاف اور تفرقہ میں مبتلا کریں انہیں اپنے رہبر اور قائد سے دور رکھا جائے، اس ہدف کے لیے انہوں نے نہایت ہی پیچیدہ پروگرام بنائے ہیں ، اس پراجیکٹ پر بہت زیادہ سرمایہ خرچ ہوا ہے؛ اور چونکہ ایک لائق اور الہی رہبر کے ہوتے ہوئے وہ اپنے منحوس عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے اسی لئے ہمیشہ سے رہبر کو ہی نشانہ بنایا ہے؛ ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن اپنے ان اہداف کی حصول کے لیے طرح طرح کے شبہات ایجاد کر رہے ہیں جیسے ایک رہبر الہی اور ایک ڈیکٹر کا ایک جیسا ہونا وغیرہ۔(۱۴)

-------------

(۱۳)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۳۴۰ خ ۱۴۴

۱۶

قائد اس وقت معاشرے میں مضبوط ہو سکتا ہے جب اس معاشرے میں رہنے والے تمام لوگ اسے غیبت کے زمانے میں امام معصوم کے نمائندہ اور نائب کے عنوان سے قبول کریں، اور دل و جان سے اس کے ارشادات پر عمل کریں۔

تاریخ میں جب بھی قائد اور رہبر کو چاہے وہ امام معصوم ہو یا نائب امام- امت کی طرف سے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور اس کے اوامر و نواہی کی اطاعت نہیں کی گئی وہ امت نابود ہوگئی اور ہمیشہ کے لیے صفحہ تاریخ سے محو ہو گئی۔

حکومت امام علی علیہ السلام میں کوفیوں کے منحرف ہونے کی اصلی وجہ اپنے امام کی اطاعت سے سر پیچی تھی یہ نافرمانی سخت منفی حالات کا پیش خیمہ بنی کہ امام علی علیہ السلام کےبعد بھی سالوں سال شکست ہی شکست ان کا مقدر بنا۔ بلکہ کہا جا سکتا ہے اس کے بعد سے خوش قسمتی کے دروازے ان پر بند ہوگئے۔ حجاج بن یوسف جیسے شقی کے حکومت (کہ امام علی علیہ السلام نے اس کی حکومت پر پہچنے کی پیشن گوئی کی تھی) پر پہنچنے کے بعد سے بہت زیادہ قتل و غارت گری ہوئی کہ انسان کا سر ان کو بیان کرتے ہوئے شرم سے جھک جاتا ہے، اسی شقی انسان کے حکومت پر پہنچنے کے نتیجے میں معاویہ کی حکومت کو اور زیادہ تقویت ملی۔ اس کے بعد خلافت کا یزید لعین کے پاس پہنچنا، کوفہ والوں کا کوئی ایکشن نہ لینا، واقعہ کربلا اور دیگر تاریخی اہم واقعات کوفہ والوں امام علی علیہ السلام کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے رونما ہوئے۔جب تحکیم کےسلسلے میں آپ کے اصحاب پر پیچ و تاب کھانے لگے تو آپ نے ارشاد فرمایا:

۱۷

إَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ إَمْرِي مَعَكُمْ عَلَى مَا إُحِبُّ حَتَّى نَهِكَتْكُمُ‏الْحَرْبُ وَ قَدْ وَ اللَّهِ إَخَذَتْ مِنْكُمْ وَ تَرَكَتْ وَ هِيَ لِعَدُوِّكُمْ إَنْهَكُ. لَقَدْ كُنْتُ إَمْسِ إَمِيراً فَإَصْبَحْتُ‏ الْيَوْمَ‏ مَإمُوراً وَ كُنْتُ إَمْسِ نَاهِياً فَإَصْبَحْتُ الْيَوْمَ مَنْهِيّاً وَ قَدْ إَحْبَبْتُمُ الْبَقَاءَ وَ لَيسَ لِي إَنْ إَحْمِلَكُمْ عَلَى مَا تَكرَهُون‏

اے لوگو! جب تک جنگ نے تمہیں بے حال نہیں کردیا میرے حسب منشاء میری بات تم سے بنی رہی۔ خدا کی قسم!اس نے تم سے کچھ تو اپنی گرفت میں لے لیا اور کچھ کو چھوڑ دیا۔ اور تمہارے دشمنوں کو تو اس نے بالکل ہی نڈھال کر دیا۔ اگر تم جمے رہتے تو پھر جیت تمہاری تھی۔ مگر اس کا کیا علاج کہ میں کل تک امر و نہی کا مالک تھا او رآج دوسروں کےامر و نہی پر مجھے چلنا پڑ رہا ہے۔ تم (دنیا کی ) زندگانی چاہنے لگے اور یہ چیز میرے بس میں نہ رہی کہ جس چیز (جنگ) سے بیزار ہو چکے تھے اس پر تمہیں بر قرار رکھتا۔ (۱۴)

---------------

(۱۴)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۵۰۱ خ ۲۰۶

۱۸

دوسری جگہ معاشرےکے رہبر ہونے کی حیثیت سے معاشرے میں موجودامور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إَيُّهَا النَّاسُ‏ إِنِّي‏ قَدْ بَثَثْتُ‏ لَكُمُ‏ الْمَوَاعِظَ الَّتِي وَعَظَ [بِهَا الْإَنْبِيَاءُ] الْإَنْبِيَاءُ بِهَا إُمَمَهُمْ وَ إَدَّيتُ إِلَيكُمْ مَا إَدَّتِ الْإَوْصِيَاءُ إِلَى مَنْ بَعْدَهُمْ وَ إَدَّبْتُكُمْ بِسَوْطِي فَلَمْ تَسْتَقِيمُوا وَ حَدَوْتُكُمْ بِالزَّوَاجِرِ فَلَمْ تَسْتَوْسِقُوا لِلَّهِ إَنْتُمْ إَ تَتَوَقَّعُونَ إِمَاماً غَيرِي يَطَإُ بِكُمُ الطَّرِيقَ وَ يُرْشِدُكُمُ السَّبِيلَ إَلَا إِنَّهُ قَدْ إَدْبَرَ مِنَ الدُّنْيَا مَا كَانَ مُقْبِلًا وَ إَقْبَلَ مِنْهَا مَا كَانَ مُدْبِراً- وَ إَزْمَعَ التَّرْحَالَ عِبَادُ اللَّهِ الْإَخْيَارُ وَ بَاعُوا قَلِيلًا مِنَ الدُّنْيَا لَا يَبْقَى بِكَثِيرٍ مِنَ الْآخِرَةِ لَا يَفْنَى

اے لوگو! میں نے تمہیں اس طرح نصیحتیں کی ہیں جس طرح کی ابنیاء اپنی امتوں کو کرتے چلے آئے ہیں او ران چیزوں کو تم تک پہنچایا ہے جو اوصیاء بعد والوں تک پہنچایا گئے ہیں۔ میں نے تمہیں اپنے تازیانہ سے ادب سکھانا چاہا مگر تم سیدھے نہ ہوئے اور زجر و توبیخ سے تمہیں ہنکایا لیکن تم ایک جا نہ ہوئے۔ اللہ تمہیں سمجھے کیا میرے علاوہ کسی اور امام کے امید وار ہو جو تمہیں سیدھی راہ پر چلائےاور صحیح راستہ دکھائے۔ دیکھو! دنیا کی طرف رخ کرنے والی چیزوں نے جو رخ کئے ہوئے تھیں پیٹھ پھرالی ، جو پیٹھ پھرائے ہوئے تھیں انہوں نے رخ کر لیا۔ اللہ کے نیک بندوں نے (دنیا سے)کوچ کرنے کا تہیا کر لیا اور فنا ہونے والی تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے دے کر ہمیشہ رہنے والی بہت سی آخرت مول لے لی۔ (۱۵)

-------------

(۱۵)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۴۱۹ ، ۴۲۰ خ ۱۸۰

۱۹

امام علی علیہ السلام اپنی حکومت کے سقوط اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کی پیشن گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مَا هِيَ‏ إِلَّا الْكُوفَةُ إَقْبِضُهَا وَ إَبْسُطُهَا إِنْ لَمْ تَكُونِي إِلَّا إَنْتِ تَهُبُّ إَعَاصِيرُكِ فَقَبَّحَكِ اللَّهُ-

یہ عالم ہے اس کوفہ کا جس کا بندو بست میرے ہاتھ میں ہے ۔( اے شہر کوفہ) اگر تیرا یہی عالم رہا کہ تجھ میں آندھیاں چلتی رہیں، تو خدا تجھے غارت کرے ۔ پھر آپ ؑنے شاعر کا یہ شعر بطور تمثیل پڑھا:

لَعَمْرُ إَبِيكَ الْخَيرِ يَا عَمْرُو إِنَّنِي ****** عَلَى وَضَرٍ مِنْ ذَا الْإِنَاءِ قَلِيل‏

اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم ! مجھے اس برتن سے تھوڑی سی چکناہٹ ہی ملی ہے (جو برتن کے خالی ہونے کے بعد اس میں لگی رہ جاتی ہے)

اس کے بعد فرمایا:

إُنْبِئْتُ بُسْراً قَدِ اطَّلَعَ الْيَمَنَ وَ إِنِّي وَ اللَّهِ لَإَظُنُّ إَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ سَيُدَالُونَ مِنْكُمْ بِاجْتِمَاعِهِمْ عَلَى بَاطِلِهِمْ وَ تَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ وَ بِمَعْصِيَتِكُمْ إِمَامَكُمْ فِي الْحَقِّ وَ طَاعَتِهِمْ إِمَامَهُمْ فِي الْبَاطِلِ وَ بِإَدَائِهِمُ الْإَمَانَةَ إِلَى صَاحِبِهِمْ وَ خِيَانَتِكُمْ وَ بِصَلَاحِهِمْ فِي بِلَادِهِمْ وَ فَسَادِكُمْ فَلَوِ ائْتَمَنْتُ إَحَدَكُمْ عَلَى قَعْبٍ لَخَشِيتُ إَنْ يَذْهَبَ بِعِلَاقَتِهِ اللَّهُمَّ إِنِّي قَدْ مَلِلْتُهُمْ وَ مَلُّونِي وَ سَئِمْتُهُمْ وَ سَئِمُونِي فَإَبْدِلْنِي بِهِمْ خَيراً مِنْهُمْ وَ إَبْدِلْهُمْ بِي شَرّاً مِنِّي اللَّهُمَّ مِثْ قُلُوبَهُمْ كَمَا يُمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ إَمَا وَ اللَّهِ لَوَدِدْتُ إَنَّ لِي بِكُمْ إَلْفَ فَارِسٍ مِنْ بَنِي فِرَاسِ بْنِ غَنْم‏

۲۰

جگہ جگہ شیعوں کے نام ان کے قبیلوں اور دشمنان اہل بیت کے ناموں کو ذکر کیا ہے، اسی طرح ائمہ اطھار علیہم السلام کی وفات کے تمام سال کو ان کی مختصرحیات طیبہ کے ساتھ بیان کیا ہے خصوصی طور سے دوسری صدی ہجری میں علویوں کے قیام کی بطورمفصل وضاحت کی ہے۔(١)

٢)ائمہ علیہم السلام کی زندگانی

ائمہ علیہم السلام کی زندگی سے مربوط جو کتابیں ہیں ان میں شیخ مفید کی کتاب الارشاد ، ابن جوزی کی تذکرةالخواص کی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ۔

کتاب الارشاد مہم ترین شیعوں کا پہلا مآخذ ہے جس میں بارہ اماموں کی زندگی موجود ہے اس اعتبار سے کہ امیرالمومنین کی زندگی کا بعض حصہ رسول اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں تھا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو بھی اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے خصو صاًآنحضرت کی جنگیں ، جنگ تبوک کے علاوہ حضرت علی تمام جنگوں میں موجود تھے، اس کتاب کے بارے میں صرف اتنا ہی کہناکافی ہے کہ تاریخ تشیع اور امام معصوم کی زندگی کی تاریخ کے بارے میں کوئی بھی محقق اس کتاب سے بے نیاز نہیں ہے ۔

٣) کتب فتن و حروب

یہ کتاب ان جنگوں کے بیا ن سے مخصوص ہے جو مسلمانوں کی تاریخ نگاری میں کافی

____________________

(١)مروج الذہب ،ج٢،ص٣٢٤ ۔ ٣٢٦ ۔ ٣٥٨۔

۲۱

اہمیت کی حامل ہیں ، ان میں سے قدیم ترین کتاب وقعةالصفین ہے جونصربن مزاحم منقری (متوفی ٢١٢ھ ) کی تالیف ہے۔ جس میں صفین کے واقعہ میں اور جنگ کو بیان کیا گیا ہے، اس کتاب میں حضرت علی اور معاویہ کے درمیان مکاتبات اور حضرت کے خطبات اور مختلف تقریروں کے سلسلہ میں اہم اطلاعات موجود ہیں ، اس کتاب کے مطالب کے درمیان مفید معلومات اصحا ب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضرت علی سے متعلق خیا لات اور عرب کے مختلف قبائل کے درمیان تشیع کے نفوذ کی عکاسی پائی جاتی ہے ۔

کتاب الغارات مؤلف ابراہیم ثقفی کوفی٢٨٣ھ یہ کتاب بھی ایک اہم منابع میں سے ہے جو اسی سلسلے میں لکھی گئی ہے اس کتاب میں امیر المو منین کی خلافت کے زمانے کے حالات بیان کئے گئے ہیں ،اس کتاب میں معاویہ کے کا رندوں اور غارت گروں کے بارے میں کہ جوحضرت علی کی حکومت میں تھے تحقیق کی گئی ہے، اس کتاب سے امیرالمومنین کے دور کے شیعوں کے حالات کو سمجھا جا سکتا ہے۔

الجمل یا نصرةالجمل شیخ مفیدکی یہ کتاب ارزش مند منابع میں سے ایک ہے کہ جس میں جنگ جمل کے حالات کی تحقیق کی گئی ہے چونکہ یہ کتاب حضرت علی کی پہلی جنگ جو آپ کی خلافت کے زمانے میں واقع ہوئی ہے اس کے متعلق ہے لہٰذا اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا مرتبہ عراق کے لوگوں کے درمیان آپ کے وہاں جانے سے پہلے کیا تھا ۔

۲۲

(٤)کتب رجال و طبقات

علم رجال ان علوم میں سے ہے کہ جن کاربط علم حدیث سے ہے اور اس علم کا استعمال احادیث کی سند سے مربوط ہے، اس علم کے ذریعہ راویان حدیث اور اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات زندگی کا پتہ چلتا ہے،رجال شیعہ میں اصحا ب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ ائمہ معصومین کے اصحاب کو بھی مورد بحث قرار دیا گیا ہے ، علم رجال شناسی دوسری صدی ہجری سے شروع ہو ااور آج تک جاری ہے اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ا س میں تکامل وترقی ہوتی جارہی ہے ، اہل سنت کی بعض معروف ومعتبر کتابیں اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل ہیں :

(١)الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ، ابن عبدالبرقرطبی ٤٦٣ھ

(٢) اسد الغابہ فی معرفةالصحابہ، ابن اثیر جزری ٦٣٠ھ

(٣) تاریخ بغداد، خطیب بغدادی ٤٦٣ ھ

(٤) ا لاصابہ فی معرفة الصحابہ، ابن حجر عسقلانی

اسی طرح شیعوں کی بھی اہم ترین کتابیں درج ذیل ہیں :

(١)اختیار معرفة الرجال کشی،شیخ طوسی ٤٦٠ھ

(٢)رجال نجاشی(فہرست اسماء مصنفی الشیعة)

(٣)کتاب رجال یا فہرست شیخ طوسی

(٤)رجال برقی،احمد بن محمد بن خالد برقی٢٨٠ھ

(٥)مشیخہ ،شیخ صدوق ٣٨١ھ

۲۳

(٦)معالم العلما ئ،ابن شہر آشوب مازندرانی٥٨٨ ھ

(٧)رجال ابن دائود،تقی الدین حسن بن علی بن دائود حلی٧٠٧ھ

البتہ شیعوں کے درمیان علم رجال نے زیادہ تکامل وارتقاپیدا کیا ہے اور مختلف حصوں میں تقسیم ہوا ہے۔

بعض کتب رجال جیسے اسد الغابہ ،فہرست شیخ ،رجال نجاشی اور معالم العلماء کو حروف کی ترتیب کے لحاظ سے لکھا گیا ہے اور کچھ کتابیں جیسے رجال شیخ اور رجال برقی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم اور ائمہ کے اصحاب کے طبقات حساب سے لکھی گئی ہیں ،علم رجال پر اور بھی کتابیں ہیں جن میں لو گوں کو مختلف طبقات کی بنیاد پر پرکھا گیا ہے ان میں سے اہم کتاب طبقات ابن سعد ہے ۔

(٥) کتب جغرافیہ

کچھ جغرافیائی کتابیں سفر نا موں سے متعلق ہیں ، جن میں اکثر کتابیں تیسری صدی ہجری کے بعد لکھی گئی ہیں چونکہ اس کتاب میں تاریخ تشیّع کی تحقیق شروع کی تین ہجری صدیوں میں ہوئی ہے ،اس بنا پر ان سے بہت زیادہ استفا دہ نہیں کیا گیا ہے،ہاں بعض جغرافیائی کتابیں جن میں سند کی شناخت کرائی گئی ہے اس تحقیق کے منابع میں سے ہیں ، ان کتابوں میں معجم البلدان جامع ہونے کے اعتبار سے زیادہ مورد استفادہ قرار پائی ہے، اگر چہ مؤلف کتاب''یاقوت حموی'' نے شیعوں کے متعلق تعصب سے کام لیا ہے اور کوفہ کے بڑے خاندان کا ذکر کرتے وقت کسی بھی شیعہ عالم اور بڑے شیعہ خاندانوں کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

۲۴

(٦)کتب اخبار

کتب اخبارسے مراداحادیث کی وہ کتابیں نہیں ہیں جن میں حلال و حرام سے گفتگو کی گئی ہے بلکہ ان سے مراد وہ قدیم ترین تاریخی کتابیں ہیں جو تاریخ کی تدوین کے عنوان سے اسلامی دور میں لکھی گئی ہیں کہ ان کتابوں میں تاریخی اخباراور حوادث کو راویوں کے سلسلہ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، یعنی تاریخی اخبار کے ضبط ونقل میں اہل حدیث کا طرز اپنایا گیاہے ۔ اس طرح کی تاریخ نگاری کی چند خصوصیات ہیں ،پہلی خصوصیت یہ کہ ایک واقعہ سے متعلق تمام اخبار کو دوسرے واقعہ سے الگ ذکر کیاجاتا ہے وہ تنہا طور پر مکمل ہے اورکسی دوسری خبر اور حادثہ سے ربط نہیں ہے،دوسری خصوصیت یہ کہ اس میں ادبی پہلوئوں کا لحاظ کیا گیاہے یعنی مؤلف کبھی کبھی شعر، داستان مناظرے سے استفادہ کرتا ہے یہ خصوصیت خاص طور پر سے ان اخبار یین کے آثار میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے جو ''ایام العرب'' کی روایات سے متاثر تھے ، اسی وجہ سے بعض محققین نے ''خبر '' کی تاریخ نگاری کو زمانۂ جاہلیت کے واقعات کے اسلوب و انداز سے ماخوذ جانا ہے۔تیسری خصوصیت یہ کہ ان میں روایات کی سند کا ذکر ہوتا ہے ۔

۲۵

در حقیقت تاریخ نگاری کا یہ پہلا طرز خصوصاً اسلام کی پہلی دو دصدیوں میں کہ جس میں اکثرتاریخ کے خام موادو مطالب کا پیش کرنا ہوتا تھا اسلامی دور کے مکتوب آثار کا ایک اہم حصہ رہاہے۔اسی طرح سے اخبار کی کتابوں کے درمیان کتاب الاخبارالموفقیات جو زبیر بن بکارکی تالیف کردہ ہے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ،اس کتاب کا لکھنے والا خاندان زبیر سے ہے کہ جس کی اہل بیت سے پرانی دشمنی تھی اس کے علاوہ اس کے ، متوکل عباسی( جو امیر المومنین اور ان کی اولاد کا سخت ترین دشمن تھا) سے اچھے تعلقات تھے اور اس کے بچوں کا استاد بھی تھا۔(١) نیز اس کی جانب سے مکہ میں قا ضی کے عہدے پر فائز تھا(٢) ان سب کے باوجوداس کتاب میں ابوبکر کی خلافت پر اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعتراضات کے بارے میں اہم معلومات ہیں خصوصاً اس میں ان کے وہ اشعاربھی نقل کئے گئے ہیں جو حضرت علی کی جانشینی اور وصایت پر دلالت کرتے ہیں ۔

(٧)کتب نسب

نسب کی کتابوں میں انساب الاشراف بلاذری سب سے زیادہ قابل استفادہ قرار پائی ہے جو نسب کے سلسلہ میں سب سے بہترین ماخذ جانی جاتی ہے ،دوسری طرف اس کتاب کو سوانح حیات کی کتابوں میں بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ اگر چہ علم نسب کے لحاظ سے کتاب جمہرة الانساب العرب جامع ترین کتاب ہے کہ جس میں مختصر وضاحت بھی بعض لوگوں کے بارے میں میں کی گئی ہے ۔

کتاب منتقلہ الطالبیین میں ذریت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور سادات کی مہاجرت سے متعلق تحقیق کی گئی ہے، ان مطالب سے استفادہ کرتے ہوئے ابتدائی صدیوں میں اسلامی سرزمینوں پر تشیع سے متعلق تحقیق کی جا سکتی ہے۔

____________________

(١)خطیب بغدادی،الحافظ ابی بکر احمد بن علی ،تاریخ بغداد،مطبعة السعادہ،مصر،١٣٤٩ھ ج٨،ص٤٦٧

(٢) ابن ندیم ،الفہرست،بیروت،(بی تا)ص١٦٠

۲۶

(٨)کتب ا حادیث

تاریخ تشیع کے دوسرے منابع میں سے حدیث کی کتابیں ہیں عرف اہل سنت میں حدیث سے مراد قول ،فعل اور تقریر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے ،لیکن شیعوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ائمہ معصومین کو بھی شامل کیا ہے اور شیعہ رسول کے ساتھ ائمہ معصومین کے قول ،فعل اورتقریر کوبھی حجت مانتے ہیں ،اہل سنت کی کتابوں میں صحیح بخاری (١٩٤۔٢٥٦)مسند احمد بن حنبل (١٦٤۔٢٤١) مستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری (ف٤٥٠)صحابہ کے درمیان تشیع اور امیرالمومنین کی حقانیت( جو تشیع کی بنیادہے) کی تحقیق کے لئے بہترین کتابیں ہیں ۔

شیعہ حضرات کی حدیث کی کتابیں جیسے کتب اربعہ :الکافی کلینی(٣٢٩ھ )، من لا یحضرہ الفقیہ صدوق (ف٣٨١ھ) تہذیب الاحکام و استبصارشیخ طوسی (وفات ٣٦٠ھ)اوردوسری کتابیں جیسے امالی ،غررالفوائدو درر القلائدسید مرتضیٰ (٣٥٥۔٤٣٦) الاحتجاج طبرسی( چھٹی صدی )شیعہ احادیث کا عظیم دائرة المعارف (انسائیکلوپیڈیا) بحارالانوار مجلسی (١١١١ھ) وغیرہ کہ جو اہل سنت کی کتابوں پر امتیازی حیثیت رکھتی ہیں ، اس کے علاوہ شیعوں کے فروغ ، ان کے رہائشی علاقے، ان کے اجتماعی روابط اور ائمۂ معصومین کے ساتھ انکے اربتاط کے طریقہ کار کا اندازہ ان کی حدیثوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔

۲۷

(٩)کتب ملل ونحل

اس سلسلہ میں اہم ترین ماخذشہرستانی (٤٧٩ ۔٥٤٨ ) کی کتاب ملل ونحل ہے، یہ کتاب جامعیت اورماخذ کے قدیم ہونے کے اعتبار سے بہترین منابع میں شمار ہوتی ہے بلکہ یہ کتاب محققین اور دانشمندوں کے لئے مرجع ہے اگرچہ مؤلف نے مطالب کو بیان کی میں تعصب سے کام لیا ہے،اس نے کتاب کے مقدمہ میں ٧٣فرقہ والی حدیث کا ذکر کیا ہے اور اہل سنت کو فرقہ ناجیہ قرار دیا ہے حتی الامکان شیعہ فرقوں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ثابت کرے کہ شیعہ فرقوں کی کثرت شیعوں کے بطلان پر دلیل ہے، شہرستانی نے مختاریہ ،باقریہ ،جعفریہ ،مفضلہ ،نعمانیہ ، ہشامیہ ،یونسیہ جیسے فرقوں کو بھی شیعہ فرقوں میں شمار کیا ہے جب کہ ان فرقوں کا خارج میں کوئی وجود ہی نہیں ہے، جیسا کہ مقریزی نے اپنی کتاب خطط میں کہاہے کہ شیعہ فرقوں کی تعدادتین سو ہے لیکن ان کو بیان کرتے وقت بیس سے زیادہ فرقہ نہیں بیان کرسکا ۔

ملل ونحل کی جملہ قدیم ترین ا ور اہم ترین ، اشعری قمی کی المقالات والفرق او ر نو بختی کی فرق الشیعہ ہے۔ اشعری قمی اور نو بختی کا شمارشیعہ علماء اوردانشوروں میں ہوتاہے جن کا زمانہ تیسری صدی ہجری کا نصف دوم ہے ۔

کتاب'' المقالات و الفرق ''معلومات کے لحاظ سے کافی وسیع ہے اور جامعیت رکھتی ہے لیکن اس کے مطالب پراگندہ ہیں اورمناسب ترتیب کی حامل نہیں ہے۔ بعض محققین کی نظر میں نوبختی کی کتاب فرق الشیعہ حقیقت میں کتاب المقالات والفرق ہی ہے ۔

۲۸

دوسری فصل

شیعوں کے آغاز کی کیفیت

شیعہ:لغت اور قرآن میں

لفظ شیعہ لغت میں مادہ شیع سے ہے جس کے معنی پیچھے پیچھے چلنے اور کامیابی اور شجاعت کے ہیں ۔(١)

اسی طرح اکثر لفظ شیعہ کا اطلاق حضرت علی کی پیروی کرنے والوں اور ان کے دوستوں پر ہوتا ہے۔(٢)

جیساکہ ازہری نے کہا ہے: شیعہ یعنی وہ گروہ جو عترت اور خاندان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوست رکھتا ہے۔(٣)

ابن خلدون نے کہا ہے : لغت میں شیعہ دوست اور پیروکار کو کہتے ہیں ، لیکن فقہااور

____________________

(١)اس شعر کی طرح:

والخزرجی قلبه مشیع

لیس من الامر الجلیل یفزع

ترجمہ: خزرجی لوگ شجاع اور بہادر ہیں اور بڑے سے بڑا کام انجام دینے سے بھی نہیں ڈرتے۔ الفراہیدی'الخلیل بن احمد' ترتیب کتاب العین'انتشارات اسوہ'تھران، ج٢،ص٩٦٠

(٢)فیروزہ آبادی'قاموس اللغة'طبع سنگی ص ٣٣٢۔

(٣)الحسینی الواسطی الزبیدی الحنفی،ابو فیض السید مرتضیٰ،تاج العروس ،ج١١ص٢٥٧

۲۹

گذشتہ متکلمین کی نظر میں علی اور ان کی اولاد کی پیروی کرنے والوں پراطلاق ہوتاہے(١) لیکن شہرستانی نے معنا ی شیعہ کے سلسلے میں دائرہ کو تنگ اور محدودکرتے ہوئے کہاہے : شیعہ وہ ہیں جو صرف علی کی پیروی کرتے ہیں اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ علی کی امامت اور خلافت نص سے ثابت ہے اور کہتے ہیں کہ امامت ان سے خارج نہیں ہو گی مگر ظلم کے ذریعہ ۔(٢)

قرآن میں بھی لفظ شیعہ متعدد مقامات پر پیروی کرنے والوں اور مدد گار کے معنی میں آیا ہے جیسے''انّ من شیعتہ لابراھیم،،(٣) (نوح کی پیروی کرنے والوں میں ابراہیم ہیں )دوسری جگہ ہے ''فاستغاثه الذی من شیعته علی الذی من عدوه ،،(٤) موسیٰ کے شیعوں میں سے ایک شخص نے اپنے دشمن کے خلاف جناب موسیٰ سے نصرت کی درخواست کی ،روایت نبوی میں بھی لفظ شیعہ پیروان اور علی کے دوستوں کے معنی میں ہے(٥) لفظ شیعہ شیعوں کے منابع میں صرف ایک ہی معنی اور مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ شیعہ، علی اور ان کے گیارہ فرزندوں کی جانشینی کے معتقدہیں جن میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد سے لے کر غیبت صغریٰ تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، جس طرح سے تیسری ہجری کے دوسرے حصہ کے نصف میں مکمل بارہ اماموں پر یقین

____________________

(١)ابن خلدون،عبدالرحمٰن بن محمد،مقدمہ ،دار احیا التراث العربی بیروت ١٤٠٨ھ ص١٩٦

(٢)شہرستانی،الملل والنحل ،منشورات الشریف الرضی ،قم ،١٣٦٤ ھ ش،ج١ص١٣١

(٣)سورہ صافات٣٧،٨٣

(٤)سورہ قصص٢٨،١٥

(٥)بعد والی فصل میں اس روایت پر اشارہ کیا جائے گا۔

۳۰

رکھتے تھے ،پہلے دور کے شیعہ جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب تھے و ہ بھی اس بات کے معتقد تھے۔

اس لئے کہ انہوں نے بارہ اماموں کے نام حدیث نبوی سے یاد کئے تھے اگرچہ ستمگار حاکموں کے خوف کی بنا پر کچھ شیعہ ان روایات کو حاصل نہیں کر پائے جواس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت واجب ہے جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:(من مات لایعرف امامه مات میتة جاهلیة )(١) جو اپنے زمان کے امام کو نہ پہچانے اور مر جائے تو ا س کی موت جاہلیت کی موت ہے۔

اس رو سے ہم دیکھتے ہیں جس وقت امام جعفرصادق ـ کی شہادت واقع ہوئی

____________________

(١)ابن حجر ہیثمی جو اہل سنت کے دانشمندوں میں سے ایک ہیں انہوں نے اس حدیث کوجو بارہ اماموں کے بارے میں آئی ہے ذکر کیا ہے اور اس حدیث کے صحیح ہو نے پر اجماع کا دعویٰ بھی کیا ہے جو مختلف طریقوں سے نقل ہوا ہے، وہ اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے اہل سنت کے علماء اور دانشوروں کے متضاد و متناقض اقوال پیش کرتے ہیں کہ جو اس سلسلہ میں وارد ہوئے ہیں اور آخر میں کسی نتیجہ تک نہیں پہونچتے ہیں ،ان میں سے قاضی عیاض نے کہا :شاید اس سے مراد بارہ خلیفہ ہیں کہ جو اسلام کی خلافت کے زمانہ میں حاکم تھے کہ جو ولیدبن یزید کے زمانہ تک جاری رہا ،بعض دوسروں نے کہا: بارہ سے مراد خلیفہ بر حق ہیں کہ جو قیامت تک حکومت کریں گے جن میں سے چند کا دور گزر چکا ہے جیسے خلفائے راشدین ،امام حسن ،معاویہ عبداللہ بن زبیر ،عمر بن عبد العزیز اور مھدی عباسی، دوسرے اورجو دو با قی ہیں ان میں سے ایک مھدی منتظر ہیں جو اہل بیت میں سے ہوں گے،نیز بعض علما ء نے بارہ ائمہ کی حدیث کی تفسیربارہ اماموں سے کی ہے کہ جو مہدی کے بعد آئیں گے ان میں سے چھ امام حسن کے فرزندوں میں سے اور پانچ امام حسین کے فرزندوں میں سے ہوں گے(الصواعق المحرقہ ، مکتبةقاہرہ، طبع دوم، ١٣٨٥،ص٣٧٧)

۳۱

زرارہ جو کہ بوڑھے تھے انہوں نے اپنے فرزند عبید کو مدینہ بھیجا تاکہ امام صادق کے جانشین کا پتہ لگائیں لیکن اس سے پہلے کہ عبید کوفہ واپس آتے،زرارہ دنیا سے جاچکے تھے، آپ نے موت کے وقت قرآن کو ہاتھ میں لے کر فرمایا : اے خدا !گواہ رہنا میں گواہی دیتاہوں اس امام کی امامت کی جس کو قرآن میں معین کیا گیا ہے۔(٢)

البتہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ لفظ شیعہ کا معنی اور مفہوم اپنی اصلی شکل اختیار کرنا ہو گیا اور اس کے حدو د مشخص ہوگئے ،اسی لئے ائمہ اطہار نے باطل فرقوں اور گروہوں کی طرف منسو ب لوگوں کو شیعہ ہونے سے خارج جانا ہے ، چنانچہ شیخ طوسی حمران بن اعین سے نقل کرتے ہیں ، میں نے اما م محمد باقر سے عرض کیا:کیا میں آپ کے واقعی شیعوں میں سے ہوں ؟امام نے فرمایا:ہاں تم دنیااورآخرت دونوں میں ہمارے شیعوں میں سے ہواورہمارے پاس شیعوں کے نام ان کے باپ کے نام کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں ،مگر یہ کہ وہ ہم سے روگردانی کریں ،پھر وہ کہتے ہیں ، میں نے کہا : میں آپ پر قربان ہوجاؤں کیا کوئی آپ کا شیعہ ایسا ہے کہ جو آپ کے حق کی معرفت رکھتا ہو اور ایسی صورت میں آپ سے روگردانی بھی کر ے ؟امام نے فرمایا: ہاں حمران تم ان کو نہیں دیکھو گے ۔

حمزہ زیّات جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک ہے ،وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس حدیث کے سلسلہ میں بحث کی لیکن ہم امام کے مقصد کو نہیں سمجھ سکے لہذاہم نے امام رضاکو خط لکھا اور امام سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو امام نے فرمایا : امام صادق

____________________

(١) کلینی ،اصول کافی ،دارالکتب ا لاسلامیہ طبع پنجم تھران ،١٣٦٣ش،ج١ ص٣٧٧

(٢)شیخ طوسی ، اختیارمعرفةالرجال ،مؤسسہ آل البیت لاحیا ء التراث ،قم ١٤٠٤ ھ، ص،٣٧١

۳۲

کا مقصود، فرقہ واقفیہ تھا(١)

اس بنا پر رجال شیعی میں صرف شیعہ اثنا عشری پر عنوانِ شیعہ کا اطلاق ہوتا ہے،اورفقہا کبھی کبھی اس کو اصحابنا یا اصحابناالامامیہ سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ لوگ جو صحیح راستہ یعنی راہ تشیع سے منحرف ہوگئے تھے ان کوفطحی ،واقفی ،ناؤوسی وغیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اگر ان کا نام شیعوں کی کتب رجال میں آیا بھی ہے توانہوں نے منحرف ہونے سے قبل روایتیں نقل کی ہیں ،چنانچہ اہل سنت کے چند راویوں کے نام اس کتاب میں آئے ہیں جنہوں نے ائمہ اطہار سے روایتیں نقل کی ہیں لیکن اہل سنت کے دانشمندوں اور علماء رجال نے شیعہ کے معنی کو وسیع قرار دیا ہے اور تمام وہ فرقے جو شیعوں سے ظاہر ہوئے ہیں جیسے غلاة وغیرہ ان پر بھی شیعہ کا اطلاق کیا ہے، اس کے علاوہ اہلبیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوستوں اور محبوں کو بھی شیعہ کہا ہے جب کہ ان میں سے بعض اہل بیت کی امامت اور عصمت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے ،جیسے سفیان ثوری جومفتیان عراق میں سے تھا اور اہلسنت کے مبنیٰ پر فتویٰ دیتاتھا لیکن ابن قتیبہ نے اس کو شیعوں کی فہرست میں شمار کیا ہے۔(۲)

ابن ندیم کہ جو اہل سنت کے چار فقہامیں سے ایکہے شافعیوں ان کے بارے میں یوں کہتا ہے کہ شافعیوں میں تشیع کی شدت تھی(٣) البتہ دوسری ا ور تیسری صدی ہجری میں شیعہ اثناعشری کے بعد شیعوں کی زیادہ تعداد کو زیدیوں نے تشکیل دیا ہے، وہ لوگ اکثر سیاسی معنیٰ

____________________

(١) شیخ طوسی،معرفة الرجال موسسہ آل البیت لاحیاء التراث ، ج٢ص٧٦٣۔

(٢) ابن قتیبہ ،المعارف منشورات شریف الرضی ،قم ،طبع اول ،١٤١٥،١٣٧٣،ص ٦٢٤۔

(٣)ابن ندیم ،ا لفہرست ،دارالمعرفة للطبع والنشر ،بیروت،ص٢٩٥،(کان الشافعی شدیداًفی التشیع)

۳۳

میں شیعہ تھے نہ کہ اعتقادی معنیٰ میں ، اس لئے کہ فقہی اعتبار سے وہ فقہ جعفری کے پیروی نہیں کرتے تھے بلکہ فقہ حنفی کے پیرو تھے،(٢) اصول اعتقادی کے اعتبار سے شہرستانی نقل کرتا ہے، زید ایک مدت تک واصل بن عطا کا شاگرد تھا جس نے مذہب معتزلہ کی بنیاد ڈالی اور اصول مذہب معتزلہ کو زید نے پھیلایا ہے، اس وجہ سے زیدیہ اصول میں معتزلی ہیں اسی باعث یہ مفضول کی امامت کوافضل کے ہوتے ہوئے جائز جانتے ہیں اور شیخین کو برا بھی نہیں کہتے ہیں اور اعتقادات کے اعتبار سے اہل سنت سے نزدیک ہیں ۔(٣)

چنانچہ ابن قتیبہ کہتا ہے: زیدیہ رافضیوں کے تمام فرقوں سے کم تر غلو کرتے ہیں ۔(٤)

اس دلیل کی بنا پر محمد نفس زکیہ کے قیام(جو زیدیوں کے قائدین میں سے ایک تھے) کو بعض اہل سنت فقہاکی تاکید اور رہنمائی حاصل تھی اور واقدی نے نقل کیا ہے، ابوبکر بن ابیسیرہ(٥) ابن عجلان(٦) عبد اللہ بن جعفر(٧) مکتب مدینہ کے بڑے محدثین میں سے تھے اور خود واقدی نے ان سے حدیث نقل کی ہے ،وہ سب محمد نفس زکیہ کے قیام میں شریک تھے ،اسی طرح شہرستانی کہتاہے محمد نفس زکیہ کے شیعوں میں ابوحنیفہ بھی تھے ۔(٨)

____________________

(٢)شہرستانی ،ملل و نحل، منشورات شریف الرضی ،قم ١٣٦٤ھ ش ،ج ١، ص١٤٣

(٣)شہرستانی ،ملل و نحل، منشورات شریف الرضی ،قم ١٣٦٤ھ ش ،ج ١، ص ١٣٨

(٤)ابن قتیبہ ،المعارف ،ص ٦٢٣

(٥)ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم ١٣٧٤ص٢٥١

(٦)گزشتہ حوالہ ص،٥٤

(٧)گزشتہ حوالہ ص،٢٥٦ ٢

(٨ )شہرستانی ،ملل و نحل ،منشورات شریف الرضی ،قم ،١٣٦٤ ھ ش مج ١ ص١٤٠

۳۴

بصرہ کے معتزلی بھی محمد کے قیام کے موافق تھے اور ابو الفرج اصفہانی کے نقل کے مطابق بصرہ میں معتزلیوں کی ایک جماعت نے جن میں واصل بن عطا اور عمرو بن عبید تھے ان لوگوں نے ان کی بیعت کی تھی(١) اس لحاظ سے زیدیہ صرف سیاسی اعتبار سے شیعوں میں شمار ہوتے تھے اگر چہ وہ اولاد فاطمہ سلام اللہ علیہا کی افضلیت واولویت کے معتقد بھی تھے ۔

آغاز تشیّع

آغاز تشیع کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ، جنہیں اجمالی طور پر دو طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

(١) وہ صاحبان قلم اور محققین جن کا کہنا ہے: شیعیت کا آغاز رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ہوا، خود وہ بھی چند گروہ میں تقسیم ہوجاتے ہیں ۔

(الف )پہلے گروہ کا کہنا ہے : شیعیت کا آغاز سقیفہ کے دن ہوا ، جب بزرگ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے کہا :حضرت علی علیہ السلام امامت و خلافت کے لئے اولویت رکھتے ہیں ۔(٢)

____________________

(١)ابوالفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین، ص ٢٥٨

(٢)یعقوبی بیان کرتے ہیں :چند بزرگ صحابہ نے ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کیااور کہا: حضرت علی خلافت کے لئے اولویت رکھتے ہیں ، تاریخ یعقوبی، جلد ٢،ص ١٢٤،طبع، منشورات الشریف الرضی قم ١٤١٤ھ

۳۵

(ب)دوسرے گروہ کا کہنا ہے : آغاز تشیع خلافت عثمان کے آخری زمانے سے مربوط ہے اور یہ لوگ اس زمانہ میں ، عبد اللہ بن سبا کے نظریات کے منتشر ہونے کوآغاز تشیع سے مربوط جانتے ہیں ۔(١)

(ج)تیسرا گروہ معتقد ہے کہ شیعیت کا آغاز اس دن سے ہوا جس دن عثمان قتل ہوئے ،اس کے بعد حضرت علی کی پیروی کرنے والے شیعہ حضرات ان لوگوں کے مدمقابل قرار پائے ،جو خون عثمان کا مطالبہ کررہے تھے ، چنانچہ ابن ندیم ر قم طراز ہیں :جب طلحہ و زبیر نے حضرت علی کی مخالفت کی اور وہ انتقام خون عثمان کے علاوہ کسی دوسری چیز پر قانع نہ تھے ، نیز حضرت علی بھی ان سے جنگ کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ حق کے سامنے تسلیم ہوجائیں ،اس دن جن لوگوں نے حضرت علی کی پیروی کی وہ شیعہ کے نام سے مشہور ہوگئے اور حضرت علی بھی خود ان سے فرماتے تھے:یہ میرے شیعہ ہیں ،(٢) نیز ابن عبدربہ اندلسی ر قم طراز ہیں :

''شیعہ وہ لوگ ہیں جو حضرت علی کو عثمان سے افضل قرار دیتے ہیں ۔(٣)

(د)چوتھا گروہ معتقد ہے کہ شیعہ فرقہ روز حکمیت کے بعدسے شہادت حضرت علی تک وجود میں آیا۔(٤)

____________________

(١)مختار اللیثی، سمیرہ ، جہاد الشیعہ ، دار الجیل ، بیروت ، ١٣٩٦ھ، ص :٢٥

(٢)ابن ندیم الفہرست ''دار المعرفة''طبع،بیروت(بی تا) ص٢٤٩

(٣)ابن عبدربہ اندلسی احمد بن محمد ، العقد الفرید ،دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت ١٤٠٩ھ ج٢ ص٢٣٠

(٤)بغدادی ، ابو منصور عبد القادر بن طاہر بن محمد ''الفرق بین الفرق'' طبع،قاہرہ،١٣٩٧، ص١٣٤

۳۶

(ھ )پانچواں گروہ آغاز تشیع کو واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین سے مربوط قرار دیتاہے۔(١)

(٢) دوسرا طبقہ ان محققین کا ہے جو معتقد ہیں کہ شیعیت کا ریشہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں پایا جا تا تھا،تمام شیعہ علما بھی اس کے قائل ہیں ۔(٢)

بعض اہل سنت دانشوروں کابھی یہی کہنا ہے ،چنانچہ محمد کردعلی جو اکابرعلمائے اہل سنت سے ہیں ،کہتے ہیں :''رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں بعض صحابہ کرام شیعیان علی کے نام سے مشہور تھے۔(٣)

مذکورہ بالا نظریات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ روز سقیفہ ، خلافت عثمان کا آخری دور،جنگ جمل ، حکمیت اور واقعہ کربلا وغیرہ وہ موارد ہیں جن میں رونما ہونے والے کچھ حادثات تاریخ تشیع میں مؤثر ثابت ہوئے ،چونکہ عبداللہ بن سبا نامی کے وجود کے بارے میں شک و ابہام پایا جاتاہے،لہٰذا ان ادوار میں شیعیت کا تشکیل پا نا بعید ہے ۔

کیونکہ اگر احادیث پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر محققانہ نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سب سے پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانی بہت سی احادیث میں لفظ شیعہ حضرت علی کے چاہنے والوں کے لئے استعمال ہوا ہے ،جن میں سے ہم بعض کی طرف اشارہ کررہے ہیں ، نیز یہ تمام احادیث اہل سنت و الجماعت کے نزدیک مقبول ہیں اور منابع احادیث میں ہیں ،جیسا کہ سیوطی جو کہ اہل سنت والجماعت کے مفسروں

____________________

(١)مختار اللیثی، ڈاکٹر سمیرہ '' جہاد الشیعہ '' ٣٥ ۔ نقل از برنا '' رولویس '' اصول الاسماعیلیہ ص٨٤

(٢)دفاع از حقانیت شیعہ، ترجمہ غلام حسن محرمی ، مومنین ، طبع اول ١٣٧٨ ص ٤٨، اورشیعہ در تاریخ،، ترجمہ محمد رضا عطائی ، انتشارات آستانہ قدس رضوی ، طبع دوم ، ١٣٧٥ ، ش ، ص ، ٣٤

(٣)خطط الشام ، مکتبة النوری ، دمشق ، طبع سوم ، ١٤٠٣ ھ ۔ ١٩٨٣ ، ج ٦ ، ص ٢٤٥

۳۷

میں سے ہیں اس آیۂ کریمہ:''اولٰئکٔ هم خیر البریة '' کی تفسیر میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حدیث نقل کرتے ہیں ، منجملہ یہ حدیث کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے فرمایا : اس آیۂ کریمہ: ''اولٰئکٔ هم خیر البریة '' میں خیرالبریہ سے مراد حضرت علی اور ان کے شیعہ ہیں اور وہ قیامت کے دن کامیاب ہیں ۔(١)

ر سول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی سے فرمایا : خداوند کریم نے آپ کے شیعوں کے اور شیعوں کو دوست رکھنے والے افراد کے گناہوں کو بخش دیا ہے ،(٢) نیز پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی سے فر مایا :آپ اور آپ کے شیعہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے در حالانکہ آپ حوض کوثر سے سیراب ہوں گے اور آپ کے چہرے (نور سے ) سفیدہوں گے اور آپ کے دشمن پیاسے اور طوق و زنجیر میں گرفتا رہوکر میرے پاس آئیں گے(٣) رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک طولانی حدیث میں حضرت علی کے فضائل بیان کرتے ہوئے اپنی صاحبزادی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا: اے فاطمہ! علی اور ان کے شیعہ کل (قیامت میں ) کامیاب(نجات پانے والوں میں ) ہیں ۔(٤)

اسی طرح ایک دوسری حدیث میں رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

اے علی ! خداوند عالم نے آپ کے اور آپ کے خاندان اور آپ کے شیعوں کو

____________________

(١) الدر المنثور فی التفسیر بالمأ ثور،ج :٦ ،ص :٣٧٩، منشورات مکتبةآیة اللہ مرعشی نجفی ، قم ١٤٠٤ھ

(٢) ابن حجر ھیثمی المکی صواعق محرقہ ،ص ٢٣٢ طبع دوم مکتب قاہرہ، ١٣٨٥

(٣)ابن حجرمجمع الزوائد، نورالدین علی ابن ابی بکر ۔ ج ٩ ، ص ١٧٧ ، دار الفکر ١٤١٤ھ

(٤) المناقب ، ص ٢٠٦ ، اخطب خوارزمی منشورات مکتبةالحیدریہ ، نجف ١٣٨٥

۳۸

دوست رکھنے والوں کے گناہوں کو بخش دیا ہے ۔(١)

نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

اے علی !جب قیامت برپا ہوگی تو میں خدا سے متمسک ہوں گا اورتم میرے دامن سے اورتمہارے فرزندتمہارے دامن سے اورتمہاری اولاد کے چاہنے والے تمہاری اولاد کے دامن سے متمسک ہوں گے۔(٢)

نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا :

تم قیامت میں سب سے زیادہ مجھ سے نزدیک ہو گے اور (تمہارے) شیعہ نورکے منبر پر ہوں گے ۔(٣)

ابن عباس نے روایت کی ہے کہ جناب جبرئیل نے خبر دی کہ (حضرت) علی اور ان کے شیعہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جنت میں لے جائے جائیں گے ۔(٤)

جناب سلمان فارسی نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا : اے علی !سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنو تاکہ مقرب لوگوں میں قرار پاؤ، حضرت علی نے پوچھا : مقربین کون ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

____________________

(١) مذکورہ مصدر کے علاوہ، ینابیع المودة ، قندوزی حنفی ، منشورات مؤسسہ اعلمی طبع اول، ١٤١٨ ھ ج ١، ص ٣٠٢

(٢) المناقب ، ص ٢١٠ ، اخطب خوارزمی

(٣) المناقب ، ص ١٥٨، ١٣٨٥ھ

( ٤) مذکورہ مصدر ،ص ٣٢٢ ۔ ٣٢٩ حدیث کے ضمن میں ، فصل ١٩

۳۹

جبرئیل و میکائیل، پھر حضرت علی نے پوچھا :کون سی انگوٹھی ہاتھ میں پہنوں ؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : وہ انگوٹھی جس میں سرخ عقیق ہو ، کیونکہ عقیق وہ پہاڑ ہے ،جس نے خدائے یکتا کی عبودیت ، میری نبوت ، آپ کی وصایت اور آپ کے فرزندوں کی امامت کا اقرار و اعتراف کیا ہے اور آپ کو دوست رکھنے والے اہل جنت ہیں اور آپ کے شیعوں کی جگہ فردوس بریں ہے ،(١) پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :ستر ہزار (٧٠٠٠٠)افراد میری امت سے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ،حضرت علی نے دریافت کیا : وہ کون ہیں ؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:وہ تمہارے شیعہ ہیں اورتم ان کے امام ہو۔(٢)

انس ابن مالک حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:''جبرئیل نے مجھ سے کہا :خدائے کریم حضرت علی کواسقدر دوست رکھتا ہے کہ ملائکہ کو بھی اتنا دوست نہیں رکھتا ،جتنی تسبیحیں پڑھی جاتی ہیں ، خدائے کریم اتنے ہی فرشتوں کو پیدا کرتا ہے تاکہ وہ حضرت علی کے دوستوں اور ان کے شیعوں کے لئے تاقیامت استغفار کریں ۔(٣)

جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :خدائے یکتا کی قسم جس نے مجھے پیغمبر بنا کر مبعوث کیاکہ خدا وند عالم کے مقرب بارگاہ

____________________

(١) مذکورہ مصدر ص ٢٣٤

(٢) مذکورہ مصدر ص ٢٣٥

(٣) ینابیع المودة ، القندوزی الحنفی ، شیخ سلمان ،ص ٣٠١

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85