حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں 0%

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 85

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: فاطمہ نقیبی
زمرہ جات: صفحے: 85
مشاہدے: 30167
ڈاؤنلوڈ: 3755

تبصرے:

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 85 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30167 / ڈاؤنلوڈ: 3755
سائز سائز سائز
حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

6- غربت اور نا انصافی

معاشرے کے کمزور طبقوں میں غربت اور بد حالی کی وبا کا پھیل جاناانہیں حکمرانوں سے دور کرنے کا سبب بنتا ہے، ان بیماریوں کی وجہ سے غریبوں اور حکمرانوں کے درمیان ایک خلیج وجود میں آتا ہے، اور یہ خلیج اس معاشرے میں رہنے والے تمام لوگوں کے لئے نقصان دہ ہے، اسی حکمراں طبقہ بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں۔غربت و افلاسی ان اہم اسباب و عوامل میں سے ایک ہے جو حکومتوں کی زوال او ربربادی کا سبب بن سکتا ہے؛ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انقلابات کی لہریں ہمیشہ معاشرے کے کمزور طبقے سے اٹھتے ہیں۔

اگر کسی معاشرہ میں رہنے والے لوگ غربت و افلاسی کا شکار ہو جائیں تو آہستہ آہستہ اس معاشرہ میں اقدار ختم ہو جاتے ہیں کہ جن اقدار پر حکومتوں کی ستونیں رکھی گئی ہیں۔ہمیشہ روزگاری او رمعاش کی فکر میں رہنے، غربت و افلاسی کے خوف میں مبتلا رہنے سے کئی ایک اخلاقی بیماریاں جنم لیتی ہیں؛ اسی لیے فقر او رغربت کو روایتوں میں کفر اور موت سے بھی تعبیر کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

كَادَ الْفَقْرُ إَنْ‏ يَكُونَ‏ كُفْراً

فقر اور غربت انسان کو کافر بنا دیتے ہیں۔ (69)

---------------

(69)- الکافی (ط - الاسلامیة) ؛ ج2 ؛ ص307

۶۱

اسی طرح ایک جگہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

وَ الْفَقْرُ الْمَوْتُ‏ الْإَكبَر

فقر سب سے بڑی موت ہے۔(70)

امام علی علیہ السلام اپنے بیٹے محم بن حنفیہ سے فرماتے ہیں:

يَا بُنَيَّ إِنِّي‏ إَخَافُ‏ عَلَيكَ‏ الْفَقْرَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْهُ

اے فرزند ! میں تمہارے لیے فقر و تنگدستی سے ڈرتا ہوں لہٰذا فقر و ناداری سے اللہ کی پناہ مانگو۔(71)

اگر غربت صرف اس حد تک ہو کہ انسان کو ایمان سے دور نہ کرے اور اس کی زندگی کو مشکلات میں نہ ڈالے تو یہ پسندیدہ چیز ہے ، اسے اللہ کا امتحان ہی سمجھنا چاہئےجس کے بارے میں خدا فرماتا ہے:

﴿وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَي‌ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْإَمْوَالِ وَ الْإَنْفُسِ وَ الثَّمَرَاتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ﴾

اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور جان و مال اور ثمرات (کے نقصانات) سے ضرور آزمائیں گے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔ (72)

---------------

(70)- برقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، جی2 ؛ ص601

(71)- ح 319

(72)- سورہ مبارکہ بقرہ : 155

۶۲

لیکن اگر غربت حد سے گزرجائے اور یہ خطرے کی گھنٹی ہے؛ جب مالداروں کی عمارتیں بلند و بالا ہو جائیں اور یہی لوگ حکمران بن جائیں ، معاشرے کے مختلف لوگوں کے درمیان طبقاتی افکار جنم لینے لگیں تو وہ معاشرہ ہر لحاظ (ثقافتی اخلاق) سے برباد ہو جائے گا اس معاشرہ میں اقدار اور انسانیت پامال ہو جائیں گے۔ امام ع فرماتے ہیں:

إِنَّمَا يُؤْتَى‏ خَرَابُ‏ الْإَرْضِ‏ مِنْ إِعْوَازِ إَهلِهَا

اور زمین کی تباہی تو اس سے آتی ہے کہ کاشتکاروں کے ہاتھ تنگ ہو جائیں ۔ (73) "اعواز" "عوز" سے مشتق ہے اس سے مراد وہ ضرورت مند اور محتاج جس کے ہاتھ ہر لحاظ سے خالی ہیں۔ (74)

--------------

(73)- ترجمہ مفتی جعفر ص 459 مکتوب 53

(74)- دیکھئے: عوامل سقوط حکومتہا در قرآن و نہج البلاغہ، ص 216

۶۳

عہدنامہ مالک اشتر کے بعض اقتباسات

امام علیہ السلام جب معاشرےکےمختلف طبقوں اور ان میں سے نچلے طبقے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ایک جگہ ارشادفرماتے ہیں:

ثُمَ‏ اللَّهَ‏ اللَّهَ‏ فِي‏ الطَّبَقَةِ السُّفْلَى‏ مِنَ الَّذِينَ لَا حِيلَةَ لَهُمْ مِنَ الْمَسَاكِينِ وَ الْمُحْتَاجِينَ وَ إَهلِ الْبُؤْسَى وَ الزَّمْنَى فَإِنَّ فِي هَذِهِ الطَّبَقَةِ قَانِعاً وَ مُعْتَرّاً فَإِنَّ هَؤُلَاءِ مِنْ بَينِ الرَّعِيَّةِ إَحْوَجُ إِلَى الْإِنْصَافِ مِنْ غَيرِهِم‏

۔ اس کے بعد اللہ سے ڈرو اس پسماندہ طبقہ کے بارے میں جو مساکین 'محتاج فقراء اور مغدور افراد کا طبقہ ہے جن کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ اس طبقہ میں مانگنے والے بھی ہیں اور غیرت داربھی ہیں جن کی صورت سوال ہے۔ ان کے جس حق اللہ نے تمھیں محافظ بنا یا ہے اس کی حفاظت کرو اور ان کے لئے بیت المال اورارض غنیمت کے غلات میں سے ایک حصہ مخصوص کر دو کہ ان کے دو ر افتادہ کا بھی وہی حق ہے جوقریب والوں کا ہے اور تمھیں سب کا نگراں بنا یا گیا ہے اہٰذا خبر دار کہیں غروتکبرّ تمھیں ان کی طرف سے غافل نہ بنادے کہ تمھیں بڑے کا موں کے مستحکم کر دینے سے چھوٹے کاموں کی بربادی سے معاف نہ کیا جائے گا۔ (75)

--------------

(75)- عہدنامہ مالک اشتر

۶۴

اس کے بعد امام فرماتے ہیں:

نہ اپنی توجہ کوان کی طرف سے ہٹانا اور نہ غرور کی بناپر اپنا منھ موڑلینا۔ جن لوگوں کی رسائی تم تک نہیں ہے اور انھیں نگاہوں نے گرادیا ہے اور شخصیتوں نے حقیر بنادیا۔

ان کے حالات کی دیکھ بھال بھی تمھارا ہی فریضہ ہے لہٰذا ان کے لئے متواضع اور خوفِ خدا رکھنے والے معتبر افراد کو مخصوص کردو جوتم تک ان کے معاملات کو پہونچاتے رہیں اور تم ایسے اعمال انجام دیتے رہو جن کی بنا پر روز قیامت پیش پروردگار معذور کہے جا سکو کہ یہی لوگ سب سے زیادہ انصاف کے محتاج ہیں۔

اور دیکھو صاحبانِ ضرورت کے لئے ایک وقت معین کر دو جس میں اپنے کو ان کے لئے خالی کر لو ۔

ایک عمومی مجلس میں ان کے ساتھ بیٹھو۔

اپنے تمام نگہبان' پولیس ' فوج اعوان وانصار سب کو دور بٹھا دو تا کہ بولنے والا آزادی سے بول سکے اور کسی طرح کی لکنت کا شکارنہ ہو ۔

میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سُنا ہے کہ آپؐ نے بار بار فرمایا ہے کہ "وہ امت پاکیزہ کردار نہیں ہو سکتی ہے جس میں کمزور کو آزادی کے ساتھ طاقتور سے اپنا حق لینے کا موقع نہ دیا جائے "۔

ان سے بد کلامی یا عاجزی کلام کا مظاہرہ ہو تو اسے برداشت کرو ۔

دل تنگی اور غرورکو دور رکھو تا کہ خدا تمھارے لئے رحمت کے اطراف کشادہ کرے اور اطاعت کے ثواب کو لازم قرار دیدے۔

جسے جو کچھ دو خوشگوار کے ساتھ دو اور جسے منع کرو اسے خوبصورتی کے ساتھ ٹال دو۔اس کے بعدتمہارے معاملا ت میں بعض ایسے معاملات بھی ہیں جنہیں تمہیں خودبراہ راست انجام دینا ہے۔(76)

---------------

(76)- عہدنامہ مالک اشتر

۶۵

امام علیہ السلام اپنی ان نصیحتوں میں تمام حکمرانوں کے لیے درست راستے کی نشاندہی فرما رہے ہیں۔ اگر حکمرانوں اور عوام کے حقوق کی رعایت ہو جائے تو کبھی بھی وہ معاشرہ زوال کی طرف نہیں جائے گا؛ کیونکہ معاشرے کا بڑا حصہ انہی کمزور اور ضعیف لوگوں کا ہے ، اور یہی حکومتوں کے حمایتی اور دین کے ستون ہیں:

وَ إِنَّمَا عِمَادُ الدِّينِ‏ وَ جِمَاعُ‏ الْمُسْلِمِينَ‏ وَ الْعُدَّةُ لِلْإَعْدَاءِ الْعَامَّةُ مِنَ الْإُمَّةِ فَلْيَكُنْ صِغْوُكَ لَهُمْ وَ مَيلُكَ مَعَهُم‏

دین کا ستون۔ مسلمانوں کی اجتماعی طاقت دشمنوں کے مقابلہ میں سامان دفاع عوام الناس ہی ہوتے ہیں لہٰذا تمھارا جھکاؤ انھیں کی طرف ہونا چاہئے اور تمھارا رجحان انھیں کی طرف ضروری ہے۔(77)

اسلامی حکمرانوں کا جھکاؤ عوام کی طرف ہونا چاہیے نہ خواص کی طرف؛ کیونکہ یہی عام لوگ اور متوسط طبقے کے لوگ ہیں جو سخت حالات میں اپنے حکمران کا ساتھ نہیں چھوڑتے ہیں اور ہر وقت ان کے شانہ بشانہ چلتے ہیں:

۔ تمھارے لئے پسندیدہ کام وہ ہونا چا ہئے جو حق کے اعتبار سے بہترین انصاف کے اعتبار سے سب کو شامل اور رعایا کو مرضی سے اکثریت کے لئے پسندیدہ ہو کہ عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے اور خاص لوگوں کی ناراضگی عام افراد کی رضامند کے ساتھ قابل معافی ہو جاتی ہے۔ رعایا ہیں خواص سے زیادہ والی پر خوشحال میں بوجھ نبنے والا اور بلاؤں میں کم سے کم مدد کرنے والا۔ انصاف کو نا پسند کرنے والا اور اصرار کے ساتھ مطالبہ کرنے والا عطا کے موقع پر کم سے کم شکریہ ادا کرنے والا اور نہ دینے کے موقع پر بمشکل عذر قبول کرنے والا۔ زمانہ کے مصائب میں کم سے کم صبر کرنے والا۔کوئی نہیں ہوتا ہے ۔(78)

-------------

(77)- ایضا

(78)- ایضا

۶۶

امام علیہ السلام مالک کو تین اہم اور قیمتی چیزوں کی طرف دعوت دے رہے ہیں:

٭ حق کے اعتبار سے بہترین

٭ انصاف کے اعتبار سے سب کو شامل

٭ لوگوں کی خوشنودی کے لیے وسعت نظری سے کام لینا

رعایا کے حقوق کی پاسداری کرنا اور انصاف حکومت کے تجلیات اور خوبصورتیوں میں سے ہے کہ آپ ع اپنے گورنروں کی اس کی تاکید کر رہے ہیں۔ آپ ہمیشہ اپنے والیوں اور گورنروں کو غربت کے خاتمے اور لوگوں کی حاجات روائی کی تاکید کرتے تھے، ایک طرف سے آپ عدل و انصاف اور اعتدال پسندی کی تاکید بھی کرتے تھے؛ کیونکہ عدل و انصاف اور اعتدال ہی کے ذریعے فقر و غربت جیسی بیماریوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

اسْتَعْمِلِ‏ الْعَدْلَ‏ وَ احْذَرِ الْعَسْفَ‏ وَ الْحَيفَ فَإِنَّ الْعَسْفَ يَعُودُ بِالْجَلَاءِ وَ الْحَيفَ يَدْعُو إِلَى السَّيف‏

عدل کی روش پر چلو۔ بے راہ روی اور ظلم سے کنارہ کشی کرو کیونکہ بے راہ روی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انہیں گھر بار چھوڑنا پڑے گا اور ظلم انہیں تلوار اٹھانے کی دعوت دے گا۔ (79)

----------------

(79)- ح 476۔

۶۷

امام علیہ السلام اپنے والیوں کو یہاں تک تاکید فرماتے تھے کہ معاشرے کے مختلف طبقے میں لوگوں کو دیکھتے ہوئے بھی عدل و انصاف کی رعایت کریں کہیں ایسا نہ کہ رعایا اور خواص کے درمیان امتیازی سلوک اور نا انصافی کا سبب بنے۔ آپ محمد بن ابی بکر رح سے فرماتے ہیں:

فَاخْفِضْ‏ لَهُمْ‏ جَنَاحَكَ‏ وَ إَلِنْ لَهُمْ جَانِبَكَ وَ ابْسُطْ لَهُمْ وَجْهَكَ وَ آسِ بَينَهُمْ فِي اللَّحْظَةِ وَ النَّظْرَةِ حَتَّى لَا يَطْمَعَ الْعُظَمَاءُ فِي حَيفِكَ لَهُمْ وَ لَا يَيإَسَ الضُّعَفَاءُ مِنْ عَدْلِكَ عَلَيهِمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُسَائِلُكُمْ مَعْشَرَ عِبَادِهِ عَنِ الصَّغِيرَةِ مِنْ إَعْمَالِكُمْ وَ الْكَبِيرَةِ وَ الظَّاهِرَةِ وَ الْمَسْتُورَةِ فَإِنْ يُعَذِّبْ فَإَنْتُمْ إَظْلَمُ وَ إِنْ يَعْفُ فَهُوَ إَكرَم

لوگوں سے تواضع کے ساتھ ملنا، ان سے نرمی کا برتاؤ کرنا، کشادہ روئی سے پیش آنا اور سب کو ایک نظر سے دیکھنا تاکہ بڑے لوگ تم سے اپنی ناحق طرف داری کی امید نہ رکھیں اور چھوٹے لوگ تمہارے عدل و انصاف سے ان (بڑوں) کے مقابلے میں ناامید نہ ہو جائیں۔ کیونکہ اے اللہ کے بندو! اللہ تمہارے چھوٹے، بڑے، کھلے، ڈھکے اعمال کی تم سے باز پرس کرے گا، اور اس کے بعد اگر وہ عذاب کرے، تو یہ تمہارے خود ظلم کا نتیجہ ہے اور اگر وہ معاف کردے تو وہ اس کے کرم کا تقاضا ہے۔ (80)

-------------

(80)- ترجمہ مفتی جعفر ص 590 مکتوب 27

۶۸

ظلم و نا انصافی کہ جس کا نتیجہ فقر اور غربت میں اضافہ، بھوکے لوگوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ، ظالموں کی تعداد میں اضافہ ہے،اس حد تک خدا کے ہاں قبیح ہے کہ وہ علما سے مظلوموں کے حقوق دلانے اور ظالموں سے مقابلہ کرنے کا وعدہ لیتا ہے۔ امام خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں:

وَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَإَ النَّسَمَةَ لَوْ لَا حُضُورُ الْحَاضِرِ وَ قِيَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِ النَّاصِرِ وَ مَا إَخَذَ اللَّهُ عَلَى الْعُلَمَاءِ إَلَّا يُقَارُّوا عَلَى كِظَّةِ ظَالِمٍ وَ لَا سَغَبِ مَظْلُومٍ لَإَلْقَيتُ حَبْلَهَا عَلَى غَارِبِهَا وَ لَسَقَيتُ آخِرَهَا بِكَإسِ إَوَّلِهَا وَ لَإَلْفَيتُمْ دُنْيَاكُمْ هَذِهِ إَزْهَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَةِ عَنْز

اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں۔ اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پرسکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ دوڑ اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اس پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اول کو سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابل اعتناء پاتے ۔ (81)

------------------

(81)- ترجمہ مفتی جعفر ص 85 خ 3

۶۹

پس اسلامی معاشرے کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ ظالموں اور دولتمندوں سے غریبوں او ربھوکے لوگوں کے حقوق لا کر انہیں دلائیں اگر ایسا نہیں کیا تو خدا کی نعمتیں بدل جائیں گی۔ امام فرماتے ہیں:

وَ لَيسَ شَي‏ءٌ إَدْعَى إِلَى تَغْيِيرِ نِعْمَةِ اللَّهِ‏ وَ تَعْجِيلِ نِقْمَتِهِ مِنْ إِقَامَةٍ عَلَى ظُلْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ [يَسْمَعُ‏] سَمِيعٌ دَعْوَةَ الْمُضْطَهَدِينَ وَ هُوَ لِلظَّالِمِينَ بِالْمِرْصَاد

اللہ کی نعمتوں کی بر بادی اور اس کے عذاب میں عجلت کا کوئی سبب ظلم پر قائم رہنے سے بڑا نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ مظلوموں کی فریاد کا سننے والا ہے اور ظالموں کے لئے موقع کا انتظار کر رہا ہے۔ (82)

7- گذشتہ امتوں کی تباہیوں سے عبرت نہ لینا

گذشتہ امتوں اور حکمرانوں سے عبرت نہ لینا خود تو حکومتوں کے سقوط کے اسباب میں سے نہیں ہے لیکن گذشتہ لوگوں کی حالات کے مطالعہ کرنے اور ان کی تباہیوں سے عبرت حاصل کرنے سے معاشرہ تباہ و بربادی سے بچ سکتا ہے، اور ناقابل شکست بن جاتا ہے؛ کیونکہ تاریخیں ہمیشہ دہرائی جاتی ہیں، وہی موضوعات، وہی حالات، وہی فتح و شکست، سب کے سب وہی کے وہی ہیں لیکن صرف انسان آتے جاتے ہیں۔ (83)

----------------

(82)- عہد نامہ مالگ اشتر

(83)- مترجم : جیسے ایک فٹبال کا میدان جہاں مختلف ٹیمیں آتی ہیں اور کھیل کر چلی جاتی ہیں تاریخ بھی اسی طرح ہے۔ بقول شکسپئیر یہ دنیا ایک سٹیج ہے جہاں ہر فنکار اپنے اپنے فن کا مظًاہرہ کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

۷۰

پس تاریخ سے نصیحت لے سکتے ہیں، اور اس کے تجربوں سے کسی معاشرے کی بقا کے لیے سامان تیار کر سکتے ہیں۔

عِبَادَ اللَّهِ إِنَّ الدَّهرَ يَجْرِي‏ بِالْبَاقِينَ‏ كَجَرْيِهِ بِالْمَاضِينَ لَا يَعُودُ مَا قَدْ وَلَّى مِنْهُ وَ لَا يَبْقَى سَرْمَداً مَا فِيهِ آخِرُ فَعَالِهِ كَإَوَّلِهِ مُتَشَابِهَةٌ إُمُورُهُ مُتَظَاهِرَةٌ إَعْلَامُهُ فَكَإَنَّكُمْ بِالسَّاعَةِ تَحْدُوكُمْ حَدْوَ الزَّاجِرِ بِشَوْلِه‏ فَمَنْ شَغَلَ نَفْسَهُ بِغَيرِ نَفْسِهِ تَحَيَّرَ فِي الظُّلُمَاتِ وَ ارْتَبَكَ فِي الْهَلَكَاتِ وَ مَدَّتْ بِهِ شَيَاطِينُهُ فِي طُغْيَانِهِ وَ زَيَّنَتْ لَهُ سَيِّئَ إَعْمَالِهِ فَالْجَنَّةُ غَايَةُ السَّابِقِينَ وَ النَّارُ غَايَةُ الْمُفَرِّطِين‏

اے اللہ کے بندو! باقی ماندہ لوگوں کے ساتھ بھی زمانہ کی وہی روش رہے گی جو گزر جانے والے کے ساتھ تھی جتنا زمانہ گزر چکا ہے وہ پلٹ کر نہیں آئے گا اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ہمیشہ رہنے والا نہیں آخر میں بھی اس کی مصیبتیں ایک دوسرے سے بڑھ جانا چاہتی ہیں اور اس کے جھنڈے ایک دوسرے کے عقب میں ہیں‘ گویا تم قیامت کے دامن سے وابستہ ہو کہ وہ تمہیں دھکیل کر اس طرح لیے جا رہی ہے جس طرح للکارنے والا اپنی اونٹنیوں کو جو شخص اپنے نفس کو سنوارنے کے بجائے اور چیزوں میں پڑ جاتا ہے وہ تیرگیوں میں سرگرداں اور ہلاکتوں میں پھنسا رہتا ہے اور شیاطین اسے سرکشیوں میں کھینچ کر لے جاتے ہیں اور اس کی بداعمالیوں کو اس کے سامنے سجا دیتے ہیں آگے بڑھنے والوں کی آخری منزل جنت ہے اور عمداً کوتاہیاں کرنے والوں کی حد جہنم ہے۔ (84)

---------------

(84)- ترجمہ مفتی جعفر ص 365 خ ا155

۷۱

صرف گہری نگاہ ، صاف و شفاف دل، منطقی عقل اور تحقیق سوچ رکھنے والے انسان ہی گذشتہ لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل کر سکتے ہیں،اور اس دریا میں غوطہ ور ہو گر موتی حاصل کر سکتے ہیں، اور پھر ان حاصل شدہ موتیوں سے اپنی دونوں جہانوں کی زندگیاں سنوار سکتے ہیں۔سورہ مبارکہ یوسف میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

﴿لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثاً يُفْتَرَى وَ لكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَ تَفْصِيلَ كُلِّ شَيْ‌ءٍ وَ هُدًى وَ رَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (85)

بتحقیق ان (رسولوں) کے قصوں میں عقل رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے، یہ (قرآن) گھڑی ہوئی باتیں نہیں بلکہ اس سے پہلے آئے ہوئے کلام کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل (بتانے والا) ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے:

﴿قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْإَرْضِ فَانْظُروا كَيفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ﴾

تم سے پہلے مختلف روشیں گزر چکی ہیں پس تم روئے زمین پرچلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کاکیا انجام ہوا۔ (86)

---------------

(85)- سورہ مبارکہ یوسف 111

(86)- سورہ مبارکہ آل عمران : 137

۷۲

قرآن اقوام عالم کی سرگزشت کا مطالعہ کرنے کے لیے (سیر فی الارض) زمین کے مطالعاتی سفر کی دعوت دیتا ہے۔جابر بادشاہوں، ظالم حکمرانوں اور خونخوار فرعونوں کے باقی ماندہ آثار بتلاتے ہیں کہ کسی زمانے میں ان قصور و محلات میں کچھ لوگ انا ربکم الاعلی کے مدعی تھے اور اپنی ہوسرانی میں بدمست ہو کر انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا کرتے تھے اورکسی قسم کی اقدار پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ آج انہی لوگوں کے محلات ویرانوں میں بدل گئے ہیں۔ ان کی ہڈیاں خاک ہو چکی ہیں، جو آنے والی نسلوں کے لیے عبرت بن گئی ہیں۔ انہوں نے چند روزہ عیش و نوش میں اپنی ابدی زندگی کو برباد کیا اور آخرکار اس دنیا کی زندگی بھی ہار بیٹھے۔ آج ان ویرانوں سے ان کی بوسیدہ ہڈیاں آواز دے رہی ہیں کہ دیکھ لو تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔

قرآن کی تمام داستانیں نصیحت لینے اور عبرت حاصل کرنے کے لئے ہیں قرآن کے اول سے آخر تک انبیاء علیہم السلام کے قصے ، کبھی کنواں کا تذکرہ، کبھی بطن ماہی کا ذکر، کبھی آگ میں پھینکنے کا واقعہ، کبھی طوفان اور کشتی کی کہانی، کبھی برادر کشی کی داستان یہ سب عبرت کے لیے ہیں، جو امتیں نابود ہوئی ہیں ان کی نابودی میں غور و فکر کرو، جو اللہ کے عذاب سے وقت آخر بچ گئے ہیں اس میں سوچو۔ امام علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:

فَاعْتَبِرُوا بِحَالِ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ وَ بَنِي إِسْحَاقَ وَ بَنِي إِسْرَائِيلَ ع فَمَا إَشَدَّ اعْتِدَالَ‏ الْإَحْوَالِ‏ وَ إَقْرَبَ‏ اشْتِبَاهَ الْإَمْثَالِ وَ إَصْنَامٍ مَعْبُودَةٍ وَ إَرْحَامٍ مَقْطُوعَةٍ وَ غَارَاتٍ مَشْنُونَة

(اب ذرا ) اسماعیل کی اولاد اسحاق کے فرزندوں اوریعقوب کے بیٹوں کے حالات سے عبرت حاصل کرو ۔حالات کتنے ملتے جلتے ہیں اور طور طریقے کتنے یکساں ہیں ۔ان کے منتشر و پراگند ہ ہو جانے کی صورت میں جو واقعات رو نما ہو ئے ،ان میں غور و فکر کرو کہ جب شاہا ن عجم اور سلاطین روم پر حکمران تھے وہ انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں عراق کے دریاؤں اور دنیا کی شادابیوںسے خار دار جھاڑیوں ہواؤں کے بے روگ گزر گاہوں اور معیشت کی دشواریوں کی طرف دھکیل دیتے تھے اور آخر کار انہیں فقیرو نادار او رزخمی پیٹھ والے اونٹوںکا چرواہا اور بالوں کی جھونپڑیوں کا با شند ہ بنا چھوڑتے تھے ۔

۷۳

ان کے گھر بار دنیا جہاں سے بڑھ کر خستہ و خراب اور ان کے ٹھکانے خشک سالیو ں سے تباہ حال تھے ،نہ ان کی کوئی آواز تھی جس کے پرو بال کا سہارا لیں ،نہ انس و محبت کی چھاؤں تھی جس کے بل بوتے پر بھروسا کریں ۔ان کے حالات پراگندہ ہاتھ الگ الگ تھے کثرت و جمعیت بٹی ہوئی ، جانگدار مصیبتوں اورجہالت کی تہ بہ تہ تہوں میں پڑے ہو ئے تھے یوں کہ لڑکیا ں زندہ درگور تھیں (گھر گھر مورتی پوجا ہوتی تھی)رشتے ناتے توڑے جا چکے تھے اورلوٹ کھسوٹ کی گر م با زاری تھی ۔(87)

ایک جگہ امام فرماتے ہیں

وَ احْذَرُوا مَا نَزَلَ بِالْإُمَمِ قَبْلَكُمْ مِنَ الْمَثُلَاتِ بِسُوءِ الْإَفْعَالِ وَ ذَمِيمِ الْإَعْمَالِ فَتَذَكَّرُوا فِي‏ الْخَيرِ وَ الشَّرِّ إَحْوَالَهُمْ‏ وَ احْذَرُوا إَنْ تَكُونُوا إَمْثَالَهُم‏

زمین میں شر انگیزی سے دامن بچانا تمہیں ان عذابوں او ر بد کرداریوں کی وجہ سے نازل ہو ئے اور (اپنے)اچھے اوربر ے حالا ت میں ان کے احوال و وار دات کو پیش نظر رکھو اور اس امر سے خائف و ترساں رہو کہ کہیں تمہیں بھی انہی کے جیسے نہ ہو جاؤ۔ (88)

--------------

(87)- ترجمہ مفتی جعفر ص 453 ۔ 455 خ 190 خطبہ قاصعہ

(88)- ایضا

۷۴

اسی خطبے میں امام ایک جگہ فرماتے ہیں:

وَ اعْتَبِرُوا بِمَا قَدْ رَإَيتُمْ مِنْ مَصَارِعِ‏ الْقُرُونِ‏ قَبْلَكُمْ‏ ----- فَإِنَّ الْإَمْرَ وَاضِحٌ وَ الْعَلَمَ قَائِمٌ وَ الطَّرِيقَ جَدَدٌ وَ السَّبِيلَ قَصْد

تم نے اپنے سے پہلے لوگوں کے جو گرنے کی جگہیں دیکھی ہیں ان سے عبرت حاصل کرو کہ ان کے جوڑ بند الگ الگ ہوگئے۔ نہ ان کی آنکھیں رہی اور نہ کان۔ ان کا شرف و وقار مٹ گیا‘ ان کی مسرتیں اور نعمتیں جاتی رہیں اور بال بچوں کے قرب کے بجائے علیحدگی اور بیویوں سے ہم نشینی کے بجائے ان سے جدائی ہوگئی۔ اب نہ وہ فخر کرتے ہیں اور نہ انکے اولاد ہوتی ہے۔ نہ ایک دوسرے سے ملتے ملاتے ہیں اور نہ آپس میں ایک دوسرے کے ہمسایہ بن کر رہتے ہیں۔ اے اللہ کے بندو! ڈرو جس طرح اپنے نفس پر قابو پالینے والا اور اپنی خواہشوں کو دبانے والا اور چشم بصیرت سے دیکھنے والا ڈرتا ہے کیونکہ (ہر) چیز واضح ہوچکی ہے۔ نشانات قائم ہیں راستہ ہموار ہے اور راہ سیدھی ہے۔(88)

امام علیہ السلام نے خطبہ قاصعہ میں بعض نہایت ہی قیمتی باتیں فرمائی ہیں، جن کی طرف محترم قارئین کی توجہ کے طالب ہیں۔

امام خطبہ قاصعہ کے آخر میں لوگوں سے گذشتہ امتوں کی حالات سے عبرت حاصل کرنے کی طرف دعوت دے رہے ہیں:

--------------

(88)- ترجمہ مفتی جعفر ص 374 خ 159

۷۵

زمین میں شر انگیزی سے دامن بچانا تمہیں ان عذابوں او ر بد کرداریوں کی وجہ سے نازل ہو ئے اور (اپنے)اچھے اوربر ے حالا ت میں ان کے احوال و وار دات کو پیش نظر رکھو اور اس امر سے خائف و ترساں رہو کہ کہیں تم بھی انہی کے جیسے نہ ہو جاؤ۔اگر تم نے ان کی دونوں (اچھی بری ) حالتوںپر غور کرلیا ہے تو پھر ہراس چیز کی پابندی کرو کہ جس کی وجہ سے عزت و برتری نے ہر حال میں ان کاساتھ دیا اور دشمن ان سے دور دور رہے اور عیش و سکون کے دامن ان پرپھیل گئے ۔اور نعمتیں سرنگوں ہو کر ان کے ساتھ ہو لیں اور عزت و سرفرازی نے اپنے بندھن ان سے جوڑ لئے ۔(وہ کیاچیز یں تھیں )یہ کہ وہ افتراق سے بچے اور اتفاق و یکجہتی پر قائم رہے ۔اسی پرایک دوسرے کو ابھارتے تھے او راسی کی باہم سفارش کرتے تھے۔

ور تم ہر اس امر سے بچ کر رہو کہ جس نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ ڈالا اور قوت و توانائی کو ضعف سے بدل دیا ۔(اور وہ یہ تھا )کہ انہوں نے دلوں میں کینہ اور سینوں میں بغض رکھا ایک دوسرے کی مدد سے پیٹھ پھر الی او ر باہمی تعاون سے ہاتھ اٹھا لیا ۔اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ گزشتہ زمانہ کے اہل ایمان کے وقائع و حالات پر غور و فکرکرو،کہ (صبر آزما) ابتلاؤں اور (جانکاہ )مصیبتوں میں ان کی کیا حالت تھی کیا وہ ساری کائنات سے زیادہ گرانبار تمام لوگوں سے زائد مبتلائے تعب و مشقت اور دنیاجہان سے زیادہ تنگی و ضیق کے عالم میں نہ تھے ؟کہ جنہیں دنیا کے فرعون نے اپنا غلام بنارکھاتھا اور انہیں سخت سے سخت اذیتیں پہنچاتے اور تلخیوں کے گھونٹ پلاتے تھے ا ور ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ وہ تباہی و ہلاکت کی ذلتوں اورغلبہ و تسلّط کی قہر سامانیوں میں گھرتے چلے جارہے تھے ۔نہ انہیں بچاؤ کی کو ئی تدبیر اور نہ روک تھام کا کوئی ذریعہ سو جھتا تھا ۔ یہاں تک کہ جب اللہ سبحانہ نے دیکھا کہ یہ میری محبت میں اذیتوں پر پوری کدو کاوش سے صبر کئے جارہے ہیں اور میرے خیال سے مصیبتوں کو جھیل رہے ہیں تو ان کے لےے مصیبت و ابتلاء کی تنگنائے سے وسعت کی راہیں نکالیں اور ان کی ذلت کو عز ت و سرفرازی حاصل ہوئی ۔

۷۶

غور کرو !کہ جب ان کی جمعیتیں یک جا ،خیالات یکسو اور دل یکساں تھے او ران کے ہاتھ ایک دوسرے کو سہارا دیتے اور تلواریں ایک دوسرے کی معین و مددگار تھیں اور ان کی بصیرتیں تیز اور ارادے متحد تھے ،تو اس وقت ان کا کیا عالم تھا ،کیا وہ اطراف زمین میں فرمانروا اور دنیا والوں کی گردنوں پر حکمرا ن نہ تھے؟اور تصویر کا یہ رخ بھی دیکھو !جب ان میں پھوٹ پڑگئی ۔یکجہتی درہم برہم ہو گئی ۔ان کی باتوں اور دلوں میں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے ،او ر وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے اور الگ جتھے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے تو ان کی نوبت یہ ہوگئی کہ اللہ نے ان سے عزت و بزرگی کا پیراہن اتار لیا اور نعمتوں کی آسائش ان سے چھین لی اور تمہارے درمیان ان کے واقعات کی حکایتیں عبر ت بن کر رہ گئیں ۔

تتمۂ مؤلف

مذکورہ بیانات کی روشنی میں یہ نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے:

کسی اسلامی معاشرے کی بیماری کی پہچان میں مولا کی نظر بہت ہی وسیع اور گہری ہے، اس گہرے دریا میں غوطہ لگانے کے لئے بہت زیادہ فہم و فراست اور تیز بینی کی ضرورت ہے۔ امام ع کے ہر ہر نکتوں پر غور و فکر کرنا ہمارے لئے علوم و معارف کا دروازہ کھول سکتا ہے۔

جوکچھ اس کتابچہ میں بیان ہوا ہے، ان اہم اہم بیماریوں کی فہرست تھی جن کی طرف اگر توجہ نہ دی جائے تو ان میں سے ہر ایک کسی حکومت کی نابودی کے لئے کافی ہے۔

۷۷

ہم نے یہاں ان بیماریوں کو ان کی اہمیت کے حساب سے ترتیب دے کر بیان کیا ۔ اگر چہ ان میں سے ہر ایک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور کبھی امام علیہ السلام ایک ہی کلام میں کئی بیماریوں کا تذکرہ فرماتے تھے۔

اگر امام علیہ السلام نے کہیں اپنی حکومت پر حق سے متعلق بات کی ہے تو اس حکومت پر قبضہ جمانے کے لئے نہیں ہے بلکہ آپ اس بات سے ڈرتے تھے کہیں یہ بیماریاں اسلامی حکمرانوں کو لاحق نہ ہوجائیں۔ امام خود حاکم بن کر ان کو نہ صرف حکمرانوں سے بلکہ عوام اور رعایا سے بھی دور کر سکتے تھے۔ اسی لئے جب تک آپ زندہ تھے امت کو مشکلات میں پڑنے نہیں دیااگر کہیں کسی مشکل میں پھنس بھی جاتی تو آپ ع کی ہوشیاری اور وقت پر قدم اٹھانے کی وجہ سے وہ بلا ٹل جاتی تھی۔ لیکن جوں ہی آپ نے اس دنیا سے کوچ فرمایا امت ان تمام بلاؤں میں مبتلا ہو گئی جن سے حضرت ہمیشہ امت کو ڈراتے تھے۔

آخر میں ہم امید کرتے ہیں معاشرے کی بیماریوں کی بروقت پہچان کے لئے امام علیہ السلام کےباتوں میں غور وفکر کریں اور وقت پر ان کی علاج کے سلسلے میں قدم اٹھائیں، تاکہ خود اور معاشرے کو مختلف قسم کی اذیتوں سے بچایا جا سکے، اور خدا کی اس امانت اور اس کے اصلی مالک یعنی حضرت حجت ابن الحسن عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے دست مبارک میں پیش کرنےکی سعادت حاصل کر سکیں۔ انشاء اللہ

۷۸

تتمۂ مترجم

بہر حال حضرت علی علیہ السلام کو مہلت نہیں ملی کہ ایک الہی حکومت کو برپا کر سکیں لیکن آپ یہ خوشخبری سنا کے گئے کہ امام مہدی عج کے دست مبارک پر ایسی حکومت قائم ہوگی۔ جس میں انصاف کا دور دورا ہوگا اور ظلم کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ذیل میں اس عظیم حکومت کی بعض اہم خصوصتیں عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں:

حضرت امام مہدی (عج) کی حکومت کی خصوصیتیں

پہلی خصوصیت

حضرت امام مہدی (عج) کی حکومت کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حکومت زمین کے کسی ایک خاص حصہ پرنہیں بلکہ پوری دنیاپرہوگی۔ اس بارے میں بہت سی آیات و روایات موجودہیں جن میں سے ہم یہاں پر صرف ایک آیت کی طرف اشارہ کررہے ہیں :

﴿وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكرِ إَنَّ الْإَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾

اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ دنیا میں ہر شخص موجودہ صورت حال سے نالاں ہے، کوئی مالی فقر میں مبتلا ہے تو کوئی روحانی محرومیت سے دوچار ہے۔ اس لیے ہر شخص کا ضمیر ایک عدل و انصاف اور امن وآشتی پر مبنی نظام کا طالب ہے۔ ظاہر ہے جس چیز کا سرے سے کوئی وجود نہ ہو انسانی ضمیر اسے طلب نہیں کرتا۔ اگر پانی کا وجود نہ ہوتا تو اس کی کسی کو طلب بھی نہ ہوتی۔ لہٰذا انسانی ضمیر کی طلب اس بات کی دلیل ہے کہ انسانیت کوایک ایسا نظام ملنے والا ہے جس میں اللہ کے نیک بندے ہی زمین کے وارث ہوں گے اور زمین عدل و انصاف سے اس طرح پر ہو جائے گی جس طرح یہ ظلم وجور سے پر ہو گئی تھی۔

دنیا کو ہے اس مہدیؑ بر حق کی ضرورت ******** ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار

۷۹

اس کے علاوہ دوسری آیتیں بھی ہیں جواس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ایک زمانہ میں نیک لوگ زمین پرحاکم ہوں گے۔ اس حکومت کی ایک خصوصیت جو دوسری حکومتوں سے مختلف ہے وہ یہ ہے کہ پوری دنیاپرصرف ایک ہی حکومت ہوگی ،دنیاکی حکومت مختلف حصوں میں نہیں بٹے گی۔ ہم شیعوں کایہی عقیدہ ہے کہ دنیاکی مختلف حکومتیں ختم ہوں اور ایک انٹرنیشنل حکومت بنے ،جس میں سب کوحصہ ملے۔

دوسری خصوصیت

حضرت امام مہدی (عج) کی حکومت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس وقت اسلام پوری دنیامیں پھیل جائے گا،کوئی بستی ایسی نظرنہ آئے گی جس سے آذان کی آوازنہ آئے۔

سوال : اس وقت مختلف آسمانی دین جیسے یہودی وعیسائی باقی رہیں گے یانہیں؟

جواب : ابھی ہم اس بارے میں بحث نہیں کررہے ہیں اس کے بارے میں بعدمیں بحث کریں گے ابھی توہم صرف یہی بتاناچاہتے ہیں کہ اسلام پور ی دنیامیں پھیل جائے گا۔

آپ سب جانتے ہیں کہ اس وقت دنیامیں مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے ،آج دنیامیں 6/1 مسلمان ہیں آج دنیاکازیادہ حصہ غیرمسلم لوگوں کے ہاتھ میں ہے لیکن حضرت امام مہدی (عج) کی حکومت کے وقت پوری دنیامسلمانوں کے ہاتھ میں ہوگی ۔

تیسری خصوصیت

حضرت امام مہدی(عج) کی حکومت کی تیسری خصوصیت ظلم کامقابلہ اوراس کومٹاناہے اس کام میں حضرت کوپوری طرح سے کامیابی ملے گی وہ زمین سے ظلم کوبالکل مٹادیں گے ۔ روایات میں ملتاہے کہ حضرت ظلم کاصفایاکردیں گے۔ نہ عوام ایک دوسرے پرظلم کرے گے اورنہ حکومت عوام پرظلم کرے گی۔

۸۰