حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں 0%

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 85

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: فاطمہ نقیبی
زمرہ جات: صفحے: 85
مشاہدے: 27299
ڈاؤنلوڈ: 2760

تبصرے:

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 85 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27299 / ڈاؤنلوڈ: 2760
سائز سائز سائز
حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

مولف : فاطمہ نقیبی

مترجم: محمد عیسی روح اللہ

پیشکش:امام حسین (ع) فاؤنڈیشن قم

۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول از مترجم

نہج البلاغہ امام علی(ع) کے کلام و مکتوبات کا منتخب مجموعہ ہے جو چوتھی صدی ہجری میں سید رضی کے ہاتھوں تدوین ہوچکا ہے۔ (اس کتاب کی تالیف و تحریر کا کام سنہ 400 ہجری میں مکمل ہوا ہے)۔ سید رضی نے ادبی بلاغت کو کلام و مکتوبات کے انتخاب کا معیار قرار دیا تھا۔ اس کتاب میں جمع کردہ کلام کی بلاغت و نفاست اس حد تک ہے کہ سید رضی ـ جو خود ایک عظیم شاعر اور نامور ادیب اور نامی گرامی کاوشوں کے مالک تھے ـ اس تالیف شدہ کاوش کو اپنے لئے باعث فخر و اعزاز سمجھتے ہیں اور لکھتے ہیں:

یہ کام دنیا میں میرے نام کی بلندی اور میری شہرت کا سبب بھی ہے اور میری آخرت کے لئے ایک ذخیرہ بھی ہے؛ نیز امام علی(ع) کے دیگر فضائل و مناقب کے علاوہ فصاحت و بلاغت میں بھی آپ کی عظمت کو پہچانا جائے گا؛ کہ آپ نے اپنے سابقین سے اس حوالے سے سبقت حاصل کی ہے۔ سابقین کے فصیح و بلیغ کلام میں سے بہت تھوڑا سا حصہ ہم تک پہنچ سکا ہے لیکن امیرالمؤمنین(ع) کا کلام ایک بحر بےکراں ہے کہ کسی بھی سخنور میں اس کا سامنا اور تقابل کرنے کی قوت نہیں ہے، اور مجموعہ ہے فضائل کا جن کی ہمسری کسی کے بس میں نہیں ہے۔

۳

امام علی(ع) کا کلام عرب دنیا کے درجہ اول کے ادیبوں ـ منجملہ حاحظ، عبدالحمید اور ابن نباتہ ـ میں خاصا نفوذ رکھتا ہے۔ جاحظ نے سید رضی سے قبل امیرالمؤمنین(ع) کے 100 مختصر کلمات تالیف کئے تھے اور رشید وطواط اور ابن میثم بحرانی نے ان کلمات پر شرحیں لکھی ہیں۔ ان ہی نے آپ کے کئی خطبات اپنی مشہور کتاب "البیان والتبیین" میں نقل کئے ہیں۔ فارسی ادب کے اکابرین کی تالیفات بھی امیرالمؤمنین(ع) کے کلام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی ہیں۔

نہج البلاغہ اسلامی تہذیب و تعلیمات کا ایک عظیم مجموعہ ہے:

اصل نکتہ یہ کہ اس پورے کلام سے امیرالمؤمنین علیہ السلام کا مقصد طبیعیات، حیوانیات، فلسفی یا تاریخی نقاط کی تدریس و تفہیم، نہ تھا۔ نہج البلاغہ میں اس قسم کے موضوعات کی طرف اشارے قرآن کریم میں ان ہی موضوعات کی طرف ہونے والے اشاروں کی مانند ہیں جو موعظت و نصیحت کی زبان میں ہر محسوس یا معقول موضوعات کے سلسلے میں روشن اور و قابل ادراک نمونے سننے اور پڑھنے والے کے سامنے رکھتا ہے؛ اور پھر قدم بہ قدم آگے بڑھ کر اس کو اپنے ساتھ اس منزل کی جانب لے جاتا ہے جہاں اس کو پہنچنا چاہئیے، اللہ کی درگاہ اور آستان پروردگار یکتا کی جانب۔

امام علیہ السلام خطبے کے ضمن میں لوگوں کی توجہ اللہ کے اوامر و نواہی اور اس کے واجبات و محرمات کی طرف مبذول کراتے ہیں اور واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز کی دعوت دیتے ہیں اور اپنے ماتحت حکام کے نام خطوط لکھ کر انہیں عوام کے حقوق کو ملحوظ رکھنے کے سلسلے میں ہدایات دیتے ہیں۔ نہج البلاغہ کے کلمات قصار (مختصر کلمات) امیرالمؤمنین (ع) کے حکیمانہ اور نصیحت آموز اور سبق آموز کلمات و جملات کا مجموعہ ہے جو ادبی بلاغت کا مرقع ہیں۔

۴

مقالہ اور مقالہ نگار

اس عظیم سمندر کا ایک حصہ گذشتہ اقوام کی داستانوں اور ان سے عبرت لینے پر مشتمل ہے۔ امام علی نہج البلاغہ میں جگہ جگہ گذشتہ حکومتوں کی نابودی کے اسباب و عوامل کا تذکرہ فرما رہے ہیں۔ زیر نظر مقالہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے خانم فاطمہ نقیبی نے فارسی میں تحریر کیا تھا ، ان کے اکثر مقالات نہج البلاغہ کے بارے میں ہی ہیں جیسے 1- نہج البلاغہ و شؤون انسانی زن (نہج البلاغہ اور عورتوں کا انسانی احترام) 2- بررسی ادلہ جامعیت و جاودانگی قرآن کریم در نہج البلاغہ (قرآن کی جامعیت اور ابدیت کے دلیلوں کا تجزیہ و تحلیل نہج البلاغہ میں) وغیرہ ۔

وہ اس وقت ایک اسلامی اسکالر ہیں اور ساتھ ہی وکالت کا کام بھی کرتی ہیں۔

ترجمہ اور اس کی خصوصیات

اس مقالہ کو اردو میں ترجمہ وقت کئی ایک باتوں کو خیا رکھا گیا ہے:

1. جہاں تک ممکن ہو سادہ اور سلیس انداز میں لکھا جائے۔

2. امام علیہ السلام کے اقوال کے ترجمہ کا زیادہ تر حصہ مرحوم علامہ مفتی جعفر اعلی اللہ مقامہ کے ترجمہ سے لیا گیا ہے

3. عربی عبارات کے سلسلے میں کوشش یہ کی انہیں اعراب کے ساتھ نقل کروں اورتمام عربی عبارتیں نور سافٹ وئیر جامع الاحادیث سے لیا ہے۔

4. کئی جگہ عبارتیں لمبی ہونے کی وجہ سے صرف اس کے ابتداء اور انتہاء کا ایک ایک جملہ نقل کیا ہے اور درمیان میں بعض نقطے سے خالی جگہ کی نشاندہی کی ہے۔

۵

5. خاتمہ میں مناسبت کی وجہ سے حکومت امام زمانہ کے بعض اہم خصوصیتوں کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اور ساتھ امام کے 313 اصحاب کی بعض اہم خصوصیتوں کو ایک صفحہ میں ذکر کرنے کی کوشش کی ہے۔

6. بعض جگہوں پر بعض مطالب کی کمی تھی جسے مقالہ نگار نے ذکر نہیں کیاتھا اسے حقیر نے مقالہ میں شامل کیا ہے لیکن ان کی عربی عبارات طولانی ہونے کی خوف سے نقل نہیں کی ہیں۔

7. قرآن کریم کا ترجمہ شیخ محسن علی نجفی کے بلاغ القرآن سے لیا ہے۔

خلاصہ

اسلامی نقطہ نظر سے حکومت کا نظام اپنی تمام جہات میں دوسرے نظاموں سے مختلف ہے، اس واضح نقطہ نظر کو نہج البلاغہ سے واضح اور دقیق انداز میں لیا جا سکتا ہے۔ "اسلامی حکومت کی ضرورت اور اہمیت" بہت ہی اہمیت والے موضوعات میں سے ہے؛ اگر اس کی اچھی طرح وضاحت ہو جائے تو اسلامی نظام میں حکومت کا مقام اور دوسرے نظاموں میں اس کے مقام کے درمیان واضح فرق کو درک کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت کسی بھی حکومت کی اچھائی اور برائی یا کمی بیشی کا اندازہ کسی نظام میں اس حکومت کے مقام و منزلت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ اس مقالہ کے افتتاحیہ یا دیباچہ میں اس موضوع کی اہمیت کو نہج البلاغہ کی نگاہ سے بیان کیا ہے

ہمیشہ سے کسی بھی حادثہ یا واقعہ کے وجود میں آنے، یا کسی بھی نظام کے زوال اور نابود ہونے میں مختلف اسباب و عوامل موثر رہے ہیں۔ یقینا حکومت بھی اس اصول سے خارج نہیں ہے ، حکومت کے عروج اور زوال بھی ہمیشہ سے اسباب و عوامل کے تابع ہے۔

۶

حکومتوں کے زوال اور نابودی کے اسباب و عوامل کی شناخت اسلامی معاشرے کو زوال اور نابودی سے دور کرکے اصلی اور حقیقی نظام کی طرف لے جانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

اس مختصر تحقیق میں انہی عوامل و اسباب کو زیر بحث لایا گیا ہے جو کسی بھی حکومت کے زوال اور خاتمے میں بڑا کردار ادا کر سکتی ہیں؛ البتہ بعض جزوی اسباب بھی اس میں موثر واقع ہو سکتے ہیں۔ 

اسلامی حکومت کا مقام

حکومت کا مفہوم

مفہوم حکومت کو کئی زایے اور نظریے کی بنا پر مودر بحث قرار دیا جا سکتا ہے۔ انسانوں کی تاریخ میں ہر ایک نے اپنے طور پر مفہوم حکومت سے معنی لیا ہے۔ بسا اوقات یہ لفظ اپنے حقیقی معنی سے دور ہو گیا کہ اس سے لجاجت، ہٹ دھرمی، ظلم و ستم نا انصافی، غلبہ اور غیر انسانی سلوک کے علاوہ کسی اور چیز کی بو نہیں آتی تھی۔اس معنی کی بنا پر حکومت، حکمرانوں کے لیے دوسروں کو مغلوب کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

۷

نہج البلاغہ میں حکومت کا معنی

حکومت ، نہج البلاغہ کی رو سے حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں انتظام، نظم و نسق، مخلوق کی خدمت، ہدایت، الفت اور محبت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حکومت کا یہی مفہوم حضرت امیر علیہ السلام کے بیانات میں اپنی پوری خوبصورتی کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ اشعث بن قیس، جو عثمان کی طرف سے آذربائیجان کا والی مقرر ہوا تھا، حکومت سے صرف غلبہ کا مفہوم اخذ کرتا تھا ؛ اسی لیے امام اسے مخاطب ہو کر لکھتے ہیں:

« وَ إِنَ‏ عَمَلَكَ‏ لَيسَ‏ لَكَ‏ بِطُعْمَةٍ وَ لَكِنَّهُ إَمَانَةٌ وَ فِي يَدَيكَ‏ مَالٌ مِنْ مَالِ اللَّهِ وَ إَنْتَ مِنْ خُزَّانِ اللَّهِ عَلَيهِ حَتَّى تُسَلِّمَهُ إِلَيَّ وَ لَعَلِّي إَلَّا إَكُونَ شَرَّ وُلَاتِكَ لَك‏»

یہ عہدہ تمہارے لیے کوئی آزوقہ نہیں ہے بلکہ وہ تمہاری گردن میں ایک امانت کا پھندا ہے اور تم اپنے حکمران بالا کی طرف سے حفاظت پر مامور ہو۔ تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ رعیت کے معاملے میں جو چاہو کر گزرو۔ خبردار! کسی مضبوط دلیل کے بغیر کسی بڑے کام میں ہاتھ نہ ڈالا کرو۔ تمہارے ہاتھوں میں خدائے بزرگ و برتر کے اموال میں سے ایک مال ہے اور تم اس وقت تک اس کی خزانچی ہو جب تک میرے حوالے نہ کر دو، بہر حال میں غالباً تمہارے لئے براحکمران نہیں ہوں والسلام- (1)

----------------

(1)- نہج البلاغہ ترجمہ علامہ مفتی جعفر ص 561۔ علامہ مفتی جعفر مرحوم اس کی شرح میں فرماتے ہیں: جب امیر المومنین علیہ السلام جنگ جمل سے فارغ ہوئے تو اشعث بن قیس کو جو حضرت عثمان کے زمانہ سے آذر بائیجان کا عامل چلا آرہا تھا تحریر فرمایا کہ وہ اپنے صوبہ کا مال خراج و صدقات روانہ کرے۔ مگر چونکہ اسے اپنا عہدہ و منصب خطرہ میں نظر آرہا تھا، اس لئے وہ حضرت عثمان کے دوسرے عمال کی طرح اس مال کو ہضم کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس خط کے پہنچنے کے بعد اس نے اپنے مخصوصین کو بلایا اور ان سے اس خط کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ مال مجھ سے چھیں نہ لیا جائے۔ لہذا میرا ارادہ ہے کہ میں معاویہ کے پاس چلا جاؤں۔ جس پر ان لوگوں نے یہ کہا کہ یہ تمہارے لئے باعث ننگ و عار ہے کہ اپنے قوم قبیلے کو چھوڑ کر معاویہ کے دامن میں پناہ لو۔چنانچہ ان لوگوں کے کہنے پر اس نے جانے کا ارادہ تو ملتوی کردیا مگر اس مال کے دینے پر آمادہ نہ ہوا۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اسے طلب کرنے کے لئے حجر ابن عدی کندی کو روانہ کیا جو اسے سمجھا بجھا کر کوفہ لے آئے۔ یہاں پہنچنے پر اس کا سامان دیکھا گیا تو اس میں چار لاکھ درہم پائے گئے جس میں سے تیس 30 ہزار حضر نے اسے دے دئیے اور بقیہ بیت المال میں داخل کر دئیے۔

۸

امیر المومنین علیہ السلام اس خط میں حکومت سے متعلق اس پرانی سوچ کی طرف اشارہ فرماتے ہیں جو بہت عرصہ سے رائج تھا۔ اس فکر کے مقابلے میں حکومت کو ایک امانت ذمہ داری بیان کرتے ہیں کو حاکموں کے ہاتھوں دی گئی ہے کہ اس کی حفاظت گورنر کے اوپر قوم کے ناگزیز حقوق میں سے ایک حق ہے۔ یہ ذمہ داری خدا کی طرف سے گورنر اور عامل پر فرض ہے؛ کیونکہ تمام چیزیں اسی کے ہیں۔

کسی دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں:

«إِنَ‏ السُّلْطَانَ‏ لَأَمِينُ‏ اللَّهِ‏ فِي الْخَلْقِ وَ مُقِيمُ الْعَدْلِ فِي الْبِلَادِ وَ الْعِبَادِ وَ ظِلُّهُ‏ فِي الْأَرْضِ»

بے شک حاکم زمین پر اللہ کا امین ہے ملک میں عدل و انصاف قائم کرنے والا اور معاشرے کو گناہ اور فساد سے بچانے والا ہے-(2)

امام علیہ السلام اس فرمان میں مفہوم حکومت کو مدیریت اور نظم و نسق قرار دے رہے ہیں کہ اپنے بروکروں اور گورنروں کو صحیح کام کر کے مدیرت ادا کرنے کی اہمیت پر سخت تاکید فرما رہے ہیں۔ مالک اشتر کے عہدنامہ میں آپ مالک کو لکھتے ہیں:

«وَ لَا تَقُولَنَ‏ إِنِّي‏ مُؤَمَّرٌ آمُرُ فَإُطَاعُ فَإِنَّ ذَلِكَ إِدْغَالٌ فِي الْقَلْبِ وَ مَنْهَكَةٌ لِلدِّينِ وَ تَقَرُّبٌ مِنَ الْغِيَر»

کبھی یہ نہ کہنا کہ میں حاکم بنایا گیا ہوں، لہذا میرے حکم کے آگے سر تسلیم خم ہونا چاہئے؛ کیونکہ یہ دل میں فساد پیدا کرنے، دین کو کمزور بنانے اور بربادیوں کو قریب لانے کا سبب ہے- (3)

-------------------

(2) -شرح غرر الحکم و دررالکلم، ص 604 ; بہ نقل از حکومت حکمت، ص 44

(3)- ترجمہ مفتی جعفر ص 649

۹

حکومتوں کی زوال اور انحطاط کے اسباب امیر المومنین ؑ کی نگاہ میں

1- قائد کی اطاعت سے سرپیچی

الف: معاشرے کا حقیقی قائد اور الہی رہبر

یقیناً ہر معاشرہ قائد رہبر اور امام کا محتاج ہے:

وَ إِنَّهُ لَا بُدَّ لِلنَّاسِ‏ مِنْ‏ إَمِيرٍ بَرٍّ إَوْ فَاجِرٍ يَعْمَلُ فِي إِمْرَتِهِ الْمُؤْمِنُ وَ يَسْتَمْتِعُ فِيهَا الْكَافِرُ وَ يُبَلِّغُ اللَّهُ فِيهَا الْإَجَلَ وَ يُجْمَعُ بِهِ الْفَي‏ءُ وَ يُقَاتَلُ بِهِ الْعَدُوُّ وَ تَإمَنُ بِهِ السُّبُلُ وَ يُؤْخَذُ بِهِ لِلضَّعِيفِ مِنَ الْقَوِيِّ حَتَّى يَسْتَرِيحَ بَرٌّ وَ يُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِر

لوگوں کے لئے حاکم کا ہونا ضروری ہے۔ خواہ اچھا ہو یا برا (اگر اچھا ہوگا تو) مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا اور( برا ہو گا تو ) کافر اس کے عہد میں لذائذ سے بہرہ اندوز ہو گا۔اور اللہ اس نظام حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حدوں تک پہنچا دے گا ۔ اسی حاکم کی وجہ سے مال (خراج و غنیمت) جمع ہوتا ہے۔ دشن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ نیک حاکم (مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے، اور برے حاکم کے مرنے یا معزول ہونے سے دوسروں کو راحت پہنچے۔ (4)

---------------

(4)- ترجمہ مفتی جعفر ص 167

۱۰

کسی معاشرہ کے لیے ایک رہبر اور قائد کا ہونا دین مبین اسلام میں مسلمات میں سے ہے۔ سب سے اعلی رہبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے۔ آپؐ نے اپنے بعد اپنی عترت اور اہل بیت علیہم السلام کو امت اسلامی کے لئے رہبر کے عنوان سے متعارف کرایا اور حدیث ثقلین میں انہیں قرآن کے برابر قرار دیا اور فرمایا کہ میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرآن ہے اور دوسرا میر ی عترت۔

اسی لیے امام علی علیہ السلام نے اہل بیت علیہم السلام کو اسرار الہی کے خزانےاوردین کے ستون کے ساتھ متصف کیا:

هُمْ مَوْضِعُ سِرِّهِ وَ لَجَإُ إَمْرِهِ وَ عَيبَةُ عِلْمِهِ وَ مَوْئِلُ حُكمِهِ وَ كُهُوفُ كُتُبِهِ وَ جِبَالُ دِينِهِ بِهِمْ إَقَامَ انْحِنَاءَ ظَهرِهِ وَ إَذْهَبَ ارْتِعَادَ فَرَائِصِهِ‏

وہ سر خدا کے امین اور اس کے دین کی پناہگاہ ہیں علم الہی کے مخزن اور حکمتوں کے مرجع ہیں۔ کتب (آسمانی) کی گھاٹیاں اور دین کے پہاڑ ہیں۔ انہی کے ذریعے اللہ نے اس کی پشت کو مضبوط کیا اور اس کے پہلوؤں سے ضعف کو دور کیا۔(5)

دوسری جگہ امامت ، وصایت اور رہبری کے لائق صرف انہی ہستیوں کو جانتے ہیں:

لَا يُقَاسُ‏ بِآلِ‏ مُحَمَّدٍ ص مِنْ هَذِهِ الْإُمَّةِ إَحَدٌ وَ لَا يُسَوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَيهِ إَبَداً هُمْ إَسَاسُ الدِّينِ وَ عِمَادُ الْيَقِينِ إِلَيهِمْ يَفِي‏ءُ الْغَالِي وَ بِهِمْ يُلْحَقُ التَّالِي وَ لَهُمْ خَصَائِصُ حَقِّ الْوِلَايَةِ وَ فِيهِمُ الْوَصِيَّةُ وَ الْوِرَاثَة

اس امت میں کسی کو آل محمد پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں وہ ان کے برابر نہیں ہو سکتے۔ دین کے بنیاد اور یقین کے ستون ہیں۔ آگے بڑھ جانے والے کو ان طرف پلٹ کر آنا اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ہے۔ حق ولایت کی خصوصیت انہی کے لیے ہے، اور انہی کے بارے میں پیغمبرؐ کی وصیت او رانہی کے لئے (نبی کی) وراثت ہے۔

-------------

(5)- ترجمہ مفتی جعفر ص 80 خ 2

۱۱

حضرت علی علیہ السلام قرآن اور عترت کے بارے میں جوکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے یاد گار چھوڑے ہیں، فرماتے ہیں:

وَ خَلَّفَ‏ فِينَا رَايَةَ الْحَقِ‏ مَنْ تَقَدَّمَهَا مَرَقَ وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا زَهَقَ وَ مَنْ لَزِمَهَا لَحِق‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم میں حق کا وہ پرچم چھوڑ گئے کہ جو اس سے آگے بڑھے گا وہ (دین سے) نکل جائے گا اور جو پیچھے رہ جائے وہ مٹ جائے گا اور جو اس سے چمٹا رہے گا وہ حق کے ساتھ رہے گا۔(6)

نہج البلاغہ کی شرح لکھنے والوں( چاہے ہو سنی ہو یا شیعہ ) کا کہنا ہے کہ حق کے پرچم سے مراد ثقلین یعنی قرآن و عترت ہیں۔(7)

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر امت اسلامی عترت رسول اللہ علیہم السلام کو امامت اور رہبری کے لیے انتخاب کرتے تو کبھی بھی شکست اور حیرانی کا شکار نہ ہوتے، ۔ عترت رسول اللہ اس صاف شفاف چشمے کی طر ح ہے کہ جس کی طرف پوری تیزی اور طاقت کے ساتھ دوڑنے کی ضرورت ہے:

فَإَينَ تَذْهَبُونَ‏ وَ إَنَّى تُؤْفَكُونَ وَ الْإَعْلَامُ قَائِمَةٌ وَ الْآيَاتُ وَاضِحَةٌ وَ الْمَنَارُ مَنْصُوبَةٌ فَإَينَ‏ يُتَاهُ‏ بِكُمْ‏ وَ كَيفَ تَعْمَهُونَ‏ وَ بَينَكُمْ عِتْرَةُ نَبِيِّكُمْ وَ هُمْ إَزِمَّةُ الْحَقِّ وَ إَعْلَامُ الدِّينِ وَ إَلْسِنَةُ الصِّدْقِ فَإَنْزِلُوهُمْ بِإَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْآنِ وَ رِدُوهُمْ وُرُودَ الْهِيمِ الْعِطَاش‏

-------------------------

(6)- ترجمہ مفتی جعفر ص 260 خ 98

(7)- شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج 7، ص 85

۱۲

اب تم کہاں جا رہے ہو، اور تمہیں کدھر موڑا جا رہا ہے؟ حالانکہ ہدایت کے جھنڈے بلند، نشانات ظاہر و روشن اور حق کے مینار نصب ہیں اور تمہیں کہاں بہکایا جا رہا ہے اور کیوں ادھر ادھر بھٹک رہے ہو؟ جب کہ تمہارے نبی ؐ کی عترت تمہارے اندر موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچی زبانیں ہیں۔ جو قرآن کی بہترسے بہتر منزل سمجھ سکو، وہیں انہی بھی جگہ دو، اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سرچشمہ ہدایت پر اترو۔

ابن ابی الحدید، سنی عالم دین اور نہج البلاغہ کے عظیم شارح اس خطبہ کے ذیل میں حدیث ثقلین اور آیت تطہیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کرتے ہیں کہ عترت علیہم السلام خدا کی طرف سے معین ہے۔ اس کے بعد "ازمة الحق حق کی باگیں"والی عبارت کی شرح میں لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ: «فانزلوهم باحسن منازل القرآن» والے جملے میں ایک بہت ہی بڑا سر اور راز چھپا ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ تمام لوگوں کو حکم دے رہے ہیں کہ اہل بیت علیہم السلام کے آگے سر تسلیم خم کریں، ان کے فرامین کی اطاعت کریں اور قرآن ناطق مان لیں؛ یعنی اہل بیت علیہم السلام کی تعظیم اور ان سے تمسک کریں، انہیں اپنے دل اور سینہ میں جگہ دے دیں؛ وہی دل و جان جس میں تم قرآن کو جگہ دیتے ہو۔ یا حضرت علیہ السلام کی مراد یہ ہو کہ اہل کو وہی مقام دے دیں جسے قرآن نے ان کے لیے مقرر کیا ہے۔ (8)

--------------

(8)- شرح ابن ابی الحدید ج 6، ص 376

۱۳

"وردوہم ورود الہیم العطاش اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سرچشمہ ہدایت پر اترو " والی عبارت میں بھی ان کی پیروی کرنے کے انداز کو بیان کیا ہے کہ جس طرح پیاسا اونٹ پانی کے چشمہ کر طرف دوڑتی ہے تم بھی سر چشمہ ہدایت کی طرف اسی طرح دوڑیں۔

کہا جاتا ہے: وردوہ م ورود سے ہے یعنی خوشگوار چشمہ پر وارد ہونا، اپنے کو پہنچانا، اور الہی م العطاش پیاسے اونٹ کو کہا جاتا ہے۔ اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام سے دین اوعلم حاصل کرنے میں حد سے زیادہ لالچی بنیں؛ جیسے پیاسا اونٹ پانی پر پہنچنے کے لیے لالچی بنتا ہے۔ (9)

ان کی اطاعت کے سلسلے میں ان سے آگے نکل جانا یا پیچھے رہ جانا دونوں ناقابل تلافی ہیں اور شاہراہ ہدایت سے منحرف ہونے کا سبب بنتا ہے:

انْظُرُوا إَهلَ‏ بَيتِ‏ نَبِيِّكُمْ‏ فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ‏ وَ اتَّبِعُوا إَثَرَهُمْ فَلَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ هُدًى وَ لَنْ يُعِيدُوكُمْ فِي رَدًى فَإِنْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا وَ إِنْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا وَ لَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا وَ لَا تَتَإَخَّرُوا عَنْهُمْ فَتَهلِكُو

اپنے نبی ؐ کے اہل بیت کو دیکھو، ان کی سیرت پر چلو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ اور نہ گمراہی اور ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔ اگروہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو ۔ ان سے آگے نہ بڑھو۔۔۔ ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے، اور نہ (انہیں چھوڑ کر) پیچھے رہ جاؤ، ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔(10)

پس اسلامی معاشرے کے حقیقی رہبر اور حاکم ائمہ علیہم السلام ہیں۔ ان کا وجود ستون کی طرح ہے کہ اگر یہ ستون محفوظ رہیں تو عمارت بھی محفوظ رہے گی ۔

------------

(9)- بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج 1، ص 243

(10)- ترجمہ مفتی جعفر ص 255 خ 95

۱۴

ب۔ غیبت کے زمانے میں قائد کا کردار

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے زمانے میں معاشرے کا حاکم قائد اوررہبر ولی فقیہ ہے جس کے بارے میں اما م زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نے فرمایا:

وَ أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِيهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِيثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي‏ عَلَيْكُمْ‏ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْكُم (11)

غیبت کے زمانے میں پیش آنے والے واقعات اورحادثات میں ہماری احادیث نقل کرنے والوں کی طرف رجوع کرو کیونکہ یہ میرے طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی طرف سے تم حجت ہوں۔

پس جامع الشرائط مجتہدین معصوم علیہم السلام کے نائب ہیں، غیبت کے زمانے میں یہ لوگ اللہ کے فرمان کو معاشرے میں نافذ کرتے ہیں۔

قائداور رہبر کو وجود اس حد تک اہمیت کا حامل ہے کہ ہمارے دینی شہ سرخیوں میں بہت زیادہ اس کی تصریح اور تاکید ہوئی ہے:

«وَ الْإِمَامَةَ نِظَاماً لِلْأُمَّةِ، وَ الطَّاعَةَ تَعْظِيماً لِلْإِمَامَةِ» (12)

اور امامت امت کے نظم و نسق کے لیے ہے اطاعت کرنا امامت کی تعظیم ہے؛ یعنی اگر امت امام کے بغیر رہ جائے تو تفرقہ اختلاف اور ہرج و مرج کا شکار ہو گی۔

---------------

(11)- طوسی، محمد بن الحسن، الغیبة (للطوسی)/ کتاب الغیبة للحجة، النص ؛ ص291

(12)- حلوانی، حسین بن محمد بن حسن بن نصر، نزہة الناظر و تنبیہ الخاطر ص46

۱۵

اسلامی معاشرے میں رہبر کی حیثیت تسبیح کے دھاگے کی طرح ہے جس میں تسبیح کے دانے پروئے گئے ہیں؛ اگر یہ دھاگہ نہ ہوتا تو دانے ادھر ادھر بکھر جاتے اور شاید اسے تسبیح ہی نہ کہا جائے۔ نہج البلاغہ میں ایک جگہ امام فرماتے ہیں:

وَ مَكَانُ‏ الْقَيِّمِ‏ بِالْإَمْرِ مَكَانُ النِّظَامِ مِنَ الْخَرَزِ يَجْمَعُهُ وَ يَضُمُّهُ فَإِنِ انْقَطَعَ النِّظَامُ تَفَرَّقَ الْخَرَزُ وَ ذَهَبَ ثُمَّ لَمْ يَجْتَمِعْ بِحَذَافِيرِهِ إَبَدا

امور (سلطنت) میں حاکم کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مہروں میں ڈورے کی جو انہیں سمیٹ کر رکھتا ہے۔ جب ڈورا ٹوٹ جائے تو سب مہرے بکھر جائیں گے اور پھر کبھی سمٹ نہ سکیں گے۔(13)

پس قائد اوررہبر کا کام امت کو پراکندہ ہونے اور تفرقہ کے شکار ہونے سے بچانا اور ان کے درمیان وحدت ایجاد کرنا ہے۔

اگر کوئی معاشرہ تباہ و برباد ہو نا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اس معاشرے میں رہنے والے لوگ اختلاف کا شکار ہو جائیں گےاسی لیے تاریخ میں دشمنوں نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ لوگوں کو اختلاف اور تفرقہ میں مبتلا کریں انہیں اپنے رہبر اور قائد سے دور رکھا جائے، اس ہدف کے لیے انہوں نے نہایت ہی پیچیدہ پروگرام بنائے ہیں ، اس پراجیکٹ پر بہت زیادہ سرمایہ خرچ ہوا ہے؛ اور چونکہ ایک لائق اور الہی رہبر کے ہوتے ہوئے وہ اپنے منحوس عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے اسی لئے ہمیشہ سے رہبر کو ہی نشانہ بنایا ہے؛ ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن اپنے ان اہداف کی حصول کے لیے طرح طرح کے شبہات ایجاد کر رہے ہیں جیسے ایک رہبر الہی اور ایک ڈیکٹر کا ایک جیسا ہونا وغیرہ۔(14)

-------------

(13)- ترجمہ مفتی جعفر ص 340 خ 144

۱۶

قائد اس وقت معاشرے میں مضبوط ہو سکتا ہے جب اس معاشرے میں رہنے والے تمام لوگ اسے غیبت کے زمانے میں امام معصوم کے نمائندہ اور نائب کے عنوان سے قبول کریں، اور دل و جان سے اس کے ارشادات پر عمل کریں۔

تاریخ میں جب بھی قائد اور رہبر کو چاہے وہ امام معصوم ہو یا نائب امام- امت کی طرف سے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور اس کے اوامر و نواہی کی اطاعت نہیں کی گئی وہ امت نابود ہوگئی اور ہمیشہ کے لیے صفحہ تاریخ سے محو ہو گئی۔

حکومت امام علی علیہ السلام میں کوفیوں کے منحرف ہونے کی اصلی وجہ اپنے امام کی اطاعت سے سر پیچی تھی یہ نافرمانی سخت منفی حالات کا پیش خیمہ بنی کہ امام علی علیہ السلام کےبعد بھی سالوں سال شکست ہی شکست ان کا مقدر بنا۔ بلکہ کہا جا سکتا ہے اس کے بعد سے خوش قسمتی کے دروازے ان پر بند ہوگئے۔ حجاج بن یوسف جیسے شقی کے حکومت (کہ امام علی علیہ السلام نے اس کی حکومت پر پہچنے کی پیشن گوئی کی تھی) پر پہنچنے کے بعد سے بہت زیادہ قتل و غارت گری ہوئی کہ انسان کا سر ان کو بیان کرتے ہوئے شرم سے جھک جاتا ہے، اسی شقی انسان کے حکومت پر پہنچنے کے نتیجے میں معاویہ کی حکومت کو اور زیادہ تقویت ملی۔ اس کے بعد خلافت کا یزید لعین کے پاس پہنچنا، کوفہ والوں کا کوئی ایکشن نہ لینا، واقعہ کربلا اور دیگر تاریخی اہم واقعات کوفہ والوں امام علی علیہ السلام کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے رونما ہوئے۔جب تحکیم کےسلسلے میں آپ کے اصحاب پر پیچ و تاب کھانے لگے تو آپ نے ارشاد فرمایا:

۱۷

إَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ إَمْرِي مَعَكُمْ عَلَى مَا إُحِبُّ حَتَّى نَهِكَتْكُمُ‏الْحَرْبُ وَ قَدْ وَ اللَّهِ إَخَذَتْ مِنْكُمْ وَ تَرَكَتْ وَ هِيَ لِعَدُوِّكُمْ إَنْهَكُ. لَقَدْ كُنْتُ إَمْسِ إَمِيراً فَإَصْبَحْتُ‏ الْيَوْمَ‏ مَإمُوراً وَ كُنْتُ إَمْسِ نَاهِياً فَإَصْبَحْتُ الْيَوْمَ مَنْهِيّاً وَ قَدْ إَحْبَبْتُمُ الْبَقَاءَ وَ لَيسَ لِي إَنْ إَحْمِلَكُمْ عَلَى مَا تَكرَهُون‏

اے لوگو! جب تک جنگ نے تمہیں بے حال نہیں کردیا میرے حسب منشاء میری بات تم سے بنی رہی۔ خدا کی قسم!اس نے تم سے کچھ تو اپنی گرفت میں لے لیا اور کچھ کو چھوڑ دیا۔ اور تمہارے دشمنوں کو تو اس نے بالکل ہی نڈھال کر دیا۔ اگر تم جمے رہتے تو پھر جیت تمہاری تھی۔ مگر اس کا کیا علاج کہ میں کل تک امر و نہی کا مالک تھا او رآج دوسروں کےامر و نہی پر مجھے چلنا پڑ رہا ہے۔ تم (دنیا کی ) زندگانی چاہنے لگے اور یہ چیز میرے بس میں نہ رہی کہ جس چیز (جنگ) سے بیزار ہو چکے تھے اس پر تمہیں بر قرار رکھتا۔ (14)

---------------

(14)- ترجمہ مفتی جعفر ص 501 خ 206

۱۸

دوسری جگہ معاشرےکے رہبر ہونے کی حیثیت سے معاشرے میں موجودامور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إَيُّهَا النَّاسُ‏ إِنِّي‏ قَدْ بَثَثْتُ‏ لَكُمُ‏ الْمَوَاعِظَ الَّتِي وَعَظَ [بِهَا الْإَنْبِيَاءُ] الْإَنْبِيَاءُ بِهَا إُمَمَهُمْ وَ إَدَّيتُ إِلَيكُمْ مَا إَدَّتِ الْإَوْصِيَاءُ إِلَى مَنْ بَعْدَهُمْ وَ إَدَّبْتُكُمْ بِسَوْطِي فَلَمْ تَسْتَقِيمُوا وَ حَدَوْتُكُمْ بِالزَّوَاجِرِ فَلَمْ تَسْتَوْسِقُوا لِلَّهِ إَنْتُمْ إَ تَتَوَقَّعُونَ إِمَاماً غَيرِي يَطَإُ بِكُمُ الطَّرِيقَ وَ يُرْشِدُكُمُ السَّبِيلَ إَلَا إِنَّهُ قَدْ إَدْبَرَ مِنَ الدُّنْيَا مَا كَانَ مُقْبِلًا وَ إَقْبَلَ مِنْهَا مَا كَانَ مُدْبِراً- وَ إَزْمَعَ التَّرْحَالَ عِبَادُ اللَّهِ الْإَخْيَارُ وَ بَاعُوا قَلِيلًا مِنَ الدُّنْيَا لَا يَبْقَى بِكَثِيرٍ مِنَ الْآخِرَةِ لَا يَفْنَى

اے لوگو! میں نے تمہیں اس طرح نصیحتیں کی ہیں جس طرح کی ابنیاء اپنی امتوں کو کرتے چلے آئے ہیں او ران چیزوں کو تم تک پہنچایا ہے جو اوصیاء بعد والوں تک پہنچایا گئے ہیں۔ میں نے تمہیں اپنے تازیانہ سے ادب سکھانا چاہا مگر تم سیدھے نہ ہوئے اور زجر و توبیخ سے تمہیں ہنکایا لیکن تم ایک جا نہ ہوئے۔ اللہ تمہیں سمجھے کیا میرے علاوہ کسی اور امام کے امید وار ہو جو تمہیں سیدھی راہ پر چلائےاور صحیح راستہ دکھائے۔ دیکھو! دنیا کی طرف رخ کرنے والی چیزوں نے جو رخ کئے ہوئے تھیں پیٹھ پھرالی ، جو پیٹھ پھرائے ہوئے تھیں انہوں نے رخ کر لیا۔ اللہ کے نیک بندوں نے (دنیا سے)کوچ کرنے کا تہیا کر لیا اور فنا ہونے والی تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے دے کر ہمیشہ رہنے والی بہت سی آخرت مول لے لی۔ (15)

-------------

(15)- ترجمہ مفتی جعفر ص 419 ، 420 خ 180

۱۹

امام علی علیہ السلام اپنی حکومت کے سقوط اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کی پیشن گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مَا هِيَ‏ إِلَّا الْكُوفَةُ إَقْبِضُهَا وَ إَبْسُطُهَا إِنْ لَمْ تَكُونِي إِلَّا إَنْتِ تَهُبُّ إَعَاصِيرُكِ فَقَبَّحَكِ اللَّهُ-

یہ عالم ہے اس کوفہ کا جس کا بندو بست میرے ہاتھ میں ہے ۔( اے شہر کوفہ) اگر تیرا یہی عالم رہا کہ تجھ میں آندھیاں چلتی رہیں، تو خدا تجھے غارت کرے ۔ پھر آپ ؑنے شاعر کا یہ شعر بطور تمثیل پڑھا:

لَعَمْرُ إَبِيكَ الْخَيرِ يَا عَمْرُو إِنَّنِي ****** عَلَى وَضَرٍ مِنْ ذَا الْإِنَاءِ قَلِيل‏

اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم ! مجھے اس برتن سے تھوڑی سی چکناہٹ ہی ملی ہے (جو برتن کے خالی ہونے کے بعد اس میں لگی رہ جاتی ہے)

اس کے بعد فرمایا:

إُنْبِئْتُ بُسْراً قَدِ اطَّلَعَ الْيَمَنَ وَ إِنِّي وَ اللَّهِ لَإَظُنُّ إَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ سَيُدَالُونَ مِنْكُمْ بِاجْتِمَاعِهِمْ عَلَى بَاطِلِهِمْ وَ تَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ وَ بِمَعْصِيَتِكُمْ إِمَامَكُمْ فِي الْحَقِّ وَ طَاعَتِهِمْ إِمَامَهُمْ فِي الْبَاطِلِ وَ بِإَدَائِهِمُ الْإَمَانَةَ إِلَى صَاحِبِهِمْ وَ خِيَانَتِكُمْ وَ بِصَلَاحِهِمْ فِي بِلَادِهِمْ وَ فَسَادِكُمْ فَلَوِ ائْتَمَنْتُ إَحَدَكُمْ عَلَى قَعْبٍ لَخَشِيتُ إَنْ يَذْهَبَ بِعِلَاقَتِهِ اللَّهُمَّ إِنِّي قَدْ مَلِلْتُهُمْ وَ مَلُّونِي وَ سَئِمْتُهُمْ وَ سَئِمُونِي فَإَبْدِلْنِي بِهِمْ خَيراً مِنْهُمْ وَ إَبْدِلْهُمْ بِي شَرّاً مِنِّي اللَّهُمَّ مِثْ قُلُوبَهُمْ كَمَا يُمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ إَمَا وَ اللَّهِ لَوَدِدْتُ إَنَّ لِي بِكُمْ إَلْفَ فَارِسٍ مِنْ بَنِي فِرَاسِ بْنِ غَنْم‏

۲۰