حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں 40%

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 85

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 85 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32220 / ڈاؤنلوڈ: 4150
سائز سائز سائز
حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

حکومتوں کے زوال اور خاتمے کے اسباب نہج البلاغہ کی نظر میں

مولف : فاطمہ نقیبی

مترجم: محمد عیسی روح اللہ

پیشکش:امام حسین (ع) فاؤنڈیشن قم

۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول از مترجم

نہج البلاغہ امام علی(ع) کے کلام و مکتوبات کا منتخب مجموعہ ہے جو چوتھی صدی ہجری میں سید رضی کے ہاتھوں تدوین ہوچکا ہے۔ (اس کتاب کی تالیف و تحریر کا کام سنہ ۴۰۰ ہجری میں مکمل ہوا ہے)۔ سید رضی نے ادبی بلاغت کو کلام و مکتوبات کے انتخاب کا معیار قرار دیا تھا۔ اس کتاب میں جمع کردہ کلام کی بلاغت و نفاست اس حد تک ہے کہ سید رضی ـ جو خود ایک عظیم شاعر اور نامور ادیب اور نامی گرامی کاوشوں کے مالک تھے ـ اس تالیف شدہ کاوش کو اپنے لئے باعث فخر و اعزاز سمجھتے ہیں اور لکھتے ہیں:

یہ کام دنیا میں میرے نام کی بلندی اور میری شہرت کا سبب بھی ہے اور میری آخرت کے لئے ایک ذخیرہ بھی ہے؛ نیز امام علی(ع) کے دیگر فضائل و مناقب کے علاوہ فصاحت و بلاغت میں بھی آپ کی عظمت کو پہچانا جائے گا؛ کہ آپ نے اپنے سابقین سے اس حوالے سے سبقت حاصل کی ہے۔ سابقین کے فصیح و بلیغ کلام میں سے بہت تھوڑا سا حصہ ہم تک پہنچ سکا ہے لیکن امیرالمؤمنین(ع) کا کلام ایک بحر بےکراں ہے کہ کسی بھی سخنور میں اس کا سامنا اور تقابل کرنے کی قوت نہیں ہے، اور مجموعہ ہے فضائل کا جن کی ہمسری کسی کے بس میں نہیں ہے۔

۳

امام علی(ع) کا کلام عرب دنیا کے درجہ اول کے ادیبوں ـ منجملہ حاحظ، عبدالحمید اور ابن نباتہ ـ میں خاصا نفوذ رکھتا ہے۔ جاحظ نے سید رضی سے قبل امیرالمؤمنین(ع) کے ۱۰۰ مختصر کلمات تالیف کئے تھے اور رشید وطواط اور ابن میثم بحرانی نے ان کلمات پر شرحیں لکھی ہیں۔ ان ہی نے آپ کے کئی خطبات اپنی مشہور کتاب "البیان والتبیین" میں نقل کئے ہیں۔ فارسی ادب کے اکابرین کی تالیفات بھی امیرالمؤمنین(ع) کے کلام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی ہیں۔

نہج البلاغہ اسلامی تہذیب و تعلیمات کا ایک عظیم مجموعہ ہے:

اصل نکتہ یہ کہ اس پورے کلام سے امیرالمؤمنین علیہ السلام کا مقصد طبیعیات، حیوانیات، فلسفی یا تاریخی نقاط کی تدریس و تفہیم، نہ تھا۔ نہج البلاغہ میں اس قسم کے موضوعات کی طرف اشارے قرآن کریم میں ان ہی موضوعات کی طرف ہونے والے اشاروں کی مانند ہیں جو موعظت و نصیحت کی زبان میں ہر محسوس یا معقول موضوعات کے سلسلے میں روشن اور و قابل ادراک نمونے سننے اور پڑھنے والے کے سامنے رکھتا ہے؛ اور پھر قدم بہ قدم آگے بڑھ کر اس کو اپنے ساتھ اس منزل کی جانب لے جاتا ہے جہاں اس کو پہنچنا چاہئیے، اللہ کی درگاہ اور آستان پروردگار یکتا کی جانب۔

امام علیہ السلام خطبے کے ضمن میں لوگوں کی توجہ اللہ کے اوامر و نواہی اور اس کے واجبات و محرمات کی طرف مبذول کراتے ہیں اور واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز کی دعوت دیتے ہیں اور اپنے ماتحت حکام کے نام خطوط لکھ کر انہیں عوام کے حقوق کو ملحوظ رکھنے کے سلسلے میں ہدایات دیتے ہیں۔ نہج البلاغہ کے کلمات قصار (مختصر کلمات) امیرالمؤمنین (ع) کے حکیمانہ اور نصیحت آموز اور سبق آموز کلمات و جملات کا مجموعہ ہے جو ادبی بلاغت کا مرقع ہیں۔

۴

مقالہ اور مقالہ نگار

اس عظیم سمندر کا ایک حصہ گذشتہ اقوام کی داستانوں اور ان سے عبرت لینے پر مشتمل ہے۔ امام علی نہج البلاغہ میں جگہ جگہ گذشتہ حکومتوں کی نابودی کے اسباب و عوامل کا تذکرہ فرما رہے ہیں۔ زیر نظر مقالہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے خانم فاطمہ نقیبی نے فارسی میں تحریر کیا تھا ، ان کے اکثر مقالات نہج البلاغہ کے بارے میں ہی ہیں جیسے ۱- نہج البلاغہ و شؤون انسانی زن (نہج البلاغہ اور عورتوں کا انسانی احترام) ۲- بررسی ادلہ جامعیت و جاودانگی قرآن کریم در نہج البلاغہ (قرآن کی جامعیت اور ابدیت کے دلیلوں کا تجزیہ و تحلیل نہج البلاغہ میں) وغیرہ ۔

وہ اس وقت ایک اسلامی اسکالر ہیں اور ساتھ ہی وکالت کا کام بھی کرتی ہیں۔

ترجمہ اور اس کی خصوصیات

اس مقالہ کو اردو میں ترجمہ وقت کئی ایک باتوں کو خیا رکھا گیا ہے:

۱. جہاں تک ممکن ہو سادہ اور سلیس انداز میں لکھا جائے۔

۲. امام علیہ السلام کے اقوال کے ترجمہ کا زیادہ تر حصہ مرحوم علامہ مفتی جعفر اعلی اللہ مقامہ کے ترجمہ سے لیا گیا ہے

۳. عربی عبارات کے سلسلے میں کوشش یہ کی انہیں اعراب کے ساتھ نقل کروں اورتمام عربی عبارتیں نور سافٹ وئیر جامع الاحادیث سے لیا ہے۔

۴. کئی جگہ عبارتیں لمبی ہونے کی وجہ سے صرف اس کے ابتداء اور انتہاء کا ایک ایک جملہ نقل کیا ہے اور درمیان میں بعض نقطے سے خالی جگہ کی نشاندہی کی ہے۔

۵

۵. خاتمہ میں مناسبت کی وجہ سے حکومت امام زمانہ کے بعض اہم خصوصیتوں کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اور ساتھ امام کے ۳۱۳ اصحاب کی بعض اہم خصوصیتوں کو ایک صفحہ میں ذکر کرنے کی کوشش کی ہے۔

۶. بعض جگہوں پر بعض مطالب کی کمی تھی جسے مقالہ نگار نے ذکر نہیں کیاتھا اسے حقیر نے مقالہ میں شامل کیا ہے لیکن ان کی عربی عبارات طولانی ہونے کی خوف سے نقل نہیں کی ہیں۔

۷. قرآن کریم کا ترجمہ شیخ محسن علی نجفی کے بلاغ القرآن سے لیا ہے۔

خلاصہ

اسلامی نقطہ نظر سے حکومت کا نظام اپنی تمام جہات میں دوسرے نظاموں سے مختلف ہے، اس واضح نقطہ نظر کو نہج البلاغہ سے واضح اور دقیق انداز میں لیا جا سکتا ہے۔ "اسلامی حکومت کی ضرورت اور اہمیت" بہت ہی اہمیت والے موضوعات میں سے ہے؛ اگر اس کی اچھی طرح وضاحت ہو جائے تو اسلامی نظام میں حکومت کا مقام اور دوسرے نظاموں میں اس کے مقام کے درمیان واضح فرق کو درک کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت کسی بھی حکومت کی اچھائی اور برائی یا کمی بیشی کا اندازہ کسی نظام میں اس حکومت کے مقام و منزلت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ اس مقالہ کے افتتاحیہ یا دیباچہ میں اس موضوع کی اہمیت کو نہج البلاغہ کی نگاہ سے بیان کیا ہے

ہمیشہ سے کسی بھی حادثہ یا واقعہ کے وجود میں آنے، یا کسی بھی نظام کے زوال اور نابود ہونے میں مختلف اسباب و عوامل موثر رہے ہیں۔ یقینا حکومت بھی اس اصول سے خارج نہیں ہے ، حکومت کے عروج اور زوال بھی ہمیشہ سے اسباب و عوامل کے تابع ہے۔

۶

حکومتوں کے زوال اور نابودی کے اسباب و عوامل کی شناخت اسلامی معاشرے کو زوال اور نابودی سے دور کرکے اصلی اور حقیقی نظام کی طرف لے جانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

اس مختصر تحقیق میں انہی عوامل و اسباب کو زیر بحث لایا گیا ہے جو کسی بھی حکومت کے زوال اور خاتمے میں بڑا کردار ادا کر سکتی ہیں؛ البتہ بعض جزوی اسباب بھی اس میں موثر واقع ہو سکتے ہیں۔ 

اسلامی حکومت کا مقام

حکومت کا مفہوم

مفہوم حکومت کو کئی زایے اور نظریے کی بنا پر مودر بحث قرار دیا جا سکتا ہے۔ انسانوں کی تاریخ میں ہر ایک نے اپنے طور پر مفہوم حکومت سے معنی لیا ہے۔ بسا اوقات یہ لفظ اپنے حقیقی معنی سے دور ہو گیا کہ اس سے لجاجت، ہٹ دھرمی، ظلم و ستم نا انصافی، غلبہ اور غیر انسانی سلوک کے علاوہ کسی اور چیز کی بو نہیں آتی تھی۔اس معنی کی بنا پر حکومت، حکمرانوں کے لیے دوسروں کو مغلوب کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

۷

نہج البلاغہ میں حکومت کا معنی

حکومت ، نہج البلاغہ کی رو سے حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں انتظام، نظم و نسق، مخلوق کی خدمت، ہدایت، الفت اور محبت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حکومت کا یہی مفہوم حضرت امیر علیہ السلام کے بیانات میں اپنی پوری خوبصورتی کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ اشعث بن قیس، جو عثمان کی طرف سے آذربائیجان کا والی مقرر ہوا تھا، حکومت سے صرف غلبہ کا مفہوم اخذ کرتا تھا ؛ اسی لیے امام اسے مخاطب ہو کر لکھتے ہیں:

« وَ إِنَ‏ عَمَلَكَ‏ لَيسَ‏ لَكَ‏ بِطُعْمَةٍ وَ لَكِنَّهُ إَمَانَةٌ وَ فِي يَدَيكَ‏ مَالٌ مِنْ مَالِ اللَّهِ وَ إَنْتَ مِنْ خُزَّانِ اللَّهِ عَلَيهِ حَتَّى تُسَلِّمَهُ إِلَيَّ وَ لَعَلِّي إَلَّا إَكُونَ شَرَّ وُلَاتِكَ لَك‏»

یہ عہدہ تمہارے لیے کوئی آزوقہ نہیں ہے بلکہ وہ تمہاری گردن میں ایک امانت کا پھندا ہے اور تم اپنے حکمران بالا کی طرف سے حفاظت پر مامور ہو۔ تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ رعیت کے معاملے میں جو چاہو کر گزرو۔ خبردار! کسی مضبوط دلیل کے بغیر کسی بڑے کام میں ہاتھ نہ ڈالا کرو۔ تمہارے ہاتھوں میں خدائے بزرگ و برتر کے اموال میں سے ایک مال ہے اور تم اس وقت تک اس کی خزانچی ہو جب تک میرے حوالے نہ کر دو، بہر حال میں غالباً تمہارے لئے براحکمران نہیں ہوں والسلام- (۱)

----------------

(۱)- نہج البلاغہ ترجمہ علامہ مفتی جعفر ص ۵۶۱۔ علامہ مفتی جعفر مرحوم اس کی شرح میں فرماتے ہیں: جب امیر المومنین علیہ السلام جنگ جمل سے فارغ ہوئے تو اشعث بن قیس کو جو حضرت عثمان کے زمانہ سے آذر بائیجان کا عامل چلا آرہا تھا تحریر فرمایا کہ وہ اپنے صوبہ کا مال خراج و صدقات روانہ کرے۔ مگر چونکہ اسے اپنا عہدہ و منصب خطرہ میں نظر آرہا تھا، اس لئے وہ حضرت عثمان کے دوسرے عمال کی طرح اس مال کو ہضم کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس خط کے پہنچنے کے بعد اس نے اپنے مخصوصین کو بلایا اور ان سے اس خط کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ مال مجھ سے چھیں نہ لیا جائے۔ لہذا میرا ارادہ ہے کہ میں معاویہ کے پاس چلا جاؤں۔ جس پر ان لوگوں نے یہ کہا کہ یہ تمہارے لئے باعث ننگ و عار ہے کہ اپنے قوم قبیلے کو چھوڑ کر معاویہ کے دامن میں پناہ لو۔چنانچہ ان لوگوں کے کہنے پر اس نے جانے کا ارادہ تو ملتوی کردیا مگر اس مال کے دینے پر آمادہ نہ ہوا۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اسے طلب کرنے کے لئے حجر ابن عدی کندی کو روانہ کیا جو اسے سمجھا بجھا کر کوفہ لے آئے۔ یہاں پہنچنے پر اس کا سامان دیکھا گیا تو اس میں چار لاکھ درہم پائے گئے جس میں سے تیس ۳۰ ہزار حضر نے اسے دے دئیے اور بقیہ بیت المال میں داخل کر دئیے۔

۸

امیر المومنین علیہ السلام اس خط میں حکومت سے متعلق اس پرانی سوچ کی طرف اشارہ فرماتے ہیں جو بہت عرصہ سے رائج تھا۔ اس فکر کے مقابلے میں حکومت کو ایک امانت ذمہ داری بیان کرتے ہیں کو حاکموں کے ہاتھوں دی گئی ہے کہ اس کی حفاظت گورنر کے اوپر قوم کے ناگزیز حقوق میں سے ایک حق ہے۔ یہ ذمہ داری خدا کی طرف سے گورنر اور عامل پر فرض ہے؛ کیونکہ تمام چیزیں اسی کے ہیں۔

کسی دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں:

«إِنَ‏ السُّلْطَانَ‏ لَأَمِينُ‏ اللَّهِ‏ فِي الْخَلْقِ وَ مُقِيمُ الْعَدْلِ فِي الْبِلَادِ وَ الْعِبَادِ وَ ظِلُّهُ‏ فِي الْأَرْضِ»

بے شک حاکم زمین پر اللہ کا امین ہے ملک میں عدل و انصاف قائم کرنے والا اور معاشرے کو گناہ اور فساد سے بچانے والا ہے-(۲)

امام علیہ السلام اس فرمان میں مفہوم حکومت کو مدیریت اور نظم و نسق قرار دے رہے ہیں کہ اپنے بروکروں اور گورنروں کو صحیح کام کر کے مدیرت ادا کرنے کی اہمیت پر سخت تاکید فرما رہے ہیں۔ مالک اشتر کے عہدنامہ میں آپ مالک کو لکھتے ہیں:

«وَ لَا تَقُولَنَ‏ إِنِّي‏ مُؤَمَّرٌ آمُرُ فَإُطَاعُ فَإِنَّ ذَلِكَ إِدْغَالٌ فِي الْقَلْبِ وَ مَنْهَكَةٌ لِلدِّينِ وَ تَقَرُّبٌ مِنَ الْغِيَر»

کبھی یہ نہ کہنا کہ میں حاکم بنایا گیا ہوں، لہذا میرے حکم کے آگے سر تسلیم خم ہونا چاہئے؛ کیونکہ یہ دل میں فساد پیدا کرنے، دین کو کمزور بنانے اور بربادیوں کو قریب لانے کا سبب ہے- (۳)

-------------------

(۲) -شرح غرر الحکم و دررالکلم، ص ۶۰۴ ; بہ نقل از حکومت حکمت، ص ۴۴

(۳)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۶۴۹

۹

حکومتوں کی زوال اور انحطاط کے اسباب امیر المومنین ؑ کی نگاہ میں

۱- قائد کی اطاعت سے سرپیچی

الف: معاشرے کا حقیقی قائد اور الہی رہبر

یقیناً ہر معاشرہ قائد رہبر اور امام کا محتاج ہے:

وَ إِنَّهُ لَا بُدَّ لِلنَّاسِ‏ مِنْ‏ إَمِيرٍ بَرٍّ إَوْ فَاجِرٍ يَعْمَلُ فِي إِمْرَتِهِ الْمُؤْمِنُ وَ يَسْتَمْتِعُ فِيهَا الْكَافِرُ وَ يُبَلِّغُ اللَّهُ فِيهَا الْإَجَلَ وَ يُجْمَعُ بِهِ الْفَي‏ءُ وَ يُقَاتَلُ بِهِ الْعَدُوُّ وَ تَإمَنُ بِهِ السُّبُلُ وَ يُؤْخَذُ بِهِ لِلضَّعِيفِ مِنَ الْقَوِيِّ حَتَّى يَسْتَرِيحَ بَرٌّ وَ يُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِر

لوگوں کے لئے حاکم کا ہونا ضروری ہے۔ خواہ اچھا ہو یا برا (اگر اچھا ہوگا تو) مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا اور( برا ہو گا تو ) کافر اس کے عہد میں لذائذ سے بہرہ اندوز ہو گا۔اور اللہ اس نظام حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حدوں تک پہنچا دے گا ۔ اسی حاکم کی وجہ سے مال (خراج و غنیمت) جمع ہوتا ہے۔ دشن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ نیک حاکم (مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے، اور برے حاکم کے مرنے یا معزول ہونے سے دوسروں کو راحت پہنچے۔ (۴)

---------------

(۴)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۱۶۷

۱۰

کسی معاشرہ کے لیے ایک رہبر اور قائد کا ہونا دین مبین اسلام میں مسلمات میں سے ہے۔ سب سے اعلی رہبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے۔ آپؐ نے اپنے بعد اپنی عترت اور اہل بیت علیہم السلام کو امت اسلامی کے لئے رہبر کے عنوان سے متعارف کرایا اور حدیث ثقلین میں انہیں قرآن کے برابر قرار دیا اور فرمایا کہ میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرآن ہے اور دوسرا میر ی عترت۔

اسی لیے امام علی علیہ السلام نے اہل بیت علیہم السلام کو اسرار الہی کے خزانےاوردین کے ستون کے ساتھ متصف کیا:

هُمْ مَوْضِعُ سِرِّهِ وَ لَجَإُ إَمْرِهِ وَ عَيبَةُ عِلْمِهِ وَ مَوْئِلُ حُكمِهِ وَ كُهُوفُ كُتُبِهِ وَ جِبَالُ دِينِهِ بِهِمْ إَقَامَ انْحِنَاءَ ظَهرِهِ وَ إَذْهَبَ ارْتِعَادَ فَرَائِصِهِ‏

وہ سر خدا کے امین اور اس کے دین کی پناہگاہ ہیں علم الہی کے مخزن اور حکمتوں کے مرجع ہیں۔ کتب (آسمانی) کی گھاٹیاں اور دین کے پہاڑ ہیں۔ انہی کے ذریعے اللہ نے اس کی پشت کو مضبوط کیا اور اس کے پہلوؤں سے ضعف کو دور کیا۔(۵)

دوسری جگہ امامت ، وصایت اور رہبری کے لائق صرف انہی ہستیوں کو جانتے ہیں:

لَا يُقَاسُ‏ بِآلِ‏ مُحَمَّدٍ ص مِنْ هَذِهِ الْإُمَّةِ إَحَدٌ وَ لَا يُسَوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَيهِ إَبَداً هُمْ إَسَاسُ الدِّينِ وَ عِمَادُ الْيَقِينِ إِلَيهِمْ يَفِي‏ءُ الْغَالِي وَ بِهِمْ يُلْحَقُ التَّالِي وَ لَهُمْ خَصَائِصُ حَقِّ الْوِلَايَةِ وَ فِيهِمُ الْوَصِيَّةُ وَ الْوِرَاثَة

اس امت میں کسی کو آل محمد پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں وہ ان کے برابر نہیں ہو سکتے۔ دین کے بنیاد اور یقین کے ستون ہیں۔ آگے بڑھ جانے والے کو ان طرف پلٹ کر آنا اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ہے۔ حق ولایت کی خصوصیت انہی کے لیے ہے، اور انہی کے بارے میں پیغمبرؐ کی وصیت او رانہی کے لئے (نبی کی) وراثت ہے۔

-------------

(۵)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۸۰ خ ۲

۱۱

حضرت علی علیہ السلام قرآن اور عترت کے بارے میں جوکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے یاد گار چھوڑے ہیں، فرماتے ہیں:

وَ خَلَّفَ‏ فِينَا رَايَةَ الْحَقِ‏ مَنْ تَقَدَّمَهَا مَرَقَ وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا زَهَقَ وَ مَنْ لَزِمَهَا لَحِق‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم میں حق کا وہ پرچم چھوڑ گئے کہ جو اس سے آگے بڑھے گا وہ (دین سے) نکل جائے گا اور جو پیچھے رہ جائے وہ مٹ جائے گا اور جو اس سے چمٹا رہے گا وہ حق کے ساتھ رہے گا۔(۶)

نہج البلاغہ کی شرح لکھنے والوں( چاہے ہو سنی ہو یا شیعہ ) کا کہنا ہے کہ حق کے پرچم سے مراد ثقلین یعنی قرآن و عترت ہیں۔(۷)

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر امت اسلامی عترت رسول اللہ علیہم السلام کو امامت اور رہبری کے لیے انتخاب کرتے تو کبھی بھی شکست اور حیرانی کا شکار نہ ہوتے، ۔ عترت رسول اللہ اس صاف شفاف چشمے کی طر ح ہے کہ جس کی طرف پوری تیزی اور طاقت کے ساتھ دوڑنے کی ضرورت ہے:

فَإَينَ تَذْهَبُونَ‏ وَ إَنَّى تُؤْفَكُونَ وَ الْإَعْلَامُ قَائِمَةٌ وَ الْآيَاتُ وَاضِحَةٌ وَ الْمَنَارُ مَنْصُوبَةٌ فَإَينَ‏ يُتَاهُ‏ بِكُمْ‏ وَ كَيفَ تَعْمَهُونَ‏ وَ بَينَكُمْ عِتْرَةُ نَبِيِّكُمْ وَ هُمْ إَزِمَّةُ الْحَقِّ وَ إَعْلَامُ الدِّينِ وَ إَلْسِنَةُ الصِّدْقِ فَإَنْزِلُوهُمْ بِإَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْآنِ وَ رِدُوهُمْ وُرُودَ الْهِيمِ الْعِطَاش‏

-------------------------

(۶)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۲۶۰ خ ۹۸

(۷)- شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۷، ص ۸۵

۱۲

اب تم کہاں جا رہے ہو، اور تمہیں کدھر موڑا جا رہا ہے؟ حالانکہ ہدایت کے جھنڈے بلند، نشانات ظاہر و روشن اور حق کے مینار نصب ہیں اور تمہیں کہاں بہکایا جا رہا ہے اور کیوں ادھر ادھر بھٹک رہے ہو؟ جب کہ تمہارے نبی ؐ کی عترت تمہارے اندر موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچی زبانیں ہیں۔ جو قرآن کی بہترسے بہتر منزل سمجھ سکو، وہیں انہی بھی جگہ دو، اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سرچشمہ ہدایت پر اترو۔

ابن ابی الحدید، سنی عالم دین اور نہج البلاغہ کے عظیم شارح اس خطبہ کے ذیل میں حدیث ثقلین اور آیت تطہیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کرتے ہیں کہ عترت علیہم السلام خدا کی طرف سے معین ہے۔ اس کے بعد "ازمة الحق حق کی باگیں"والی عبارت کی شرح میں لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ: «فانزلوهم باحسن منازل القرآن» والے جملے میں ایک بہت ہی بڑا سر اور راز چھپا ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ تمام لوگوں کو حکم دے رہے ہیں کہ اہل بیت علیہم السلام کے آگے سر تسلیم خم کریں، ان کے فرامین کی اطاعت کریں اور قرآن ناطق مان لیں؛ یعنی اہل بیت علیہم السلام کی تعظیم اور ان سے تمسک کریں، انہیں اپنے دل اور سینہ میں جگہ دے دیں؛ وہی دل و جان جس میں تم قرآن کو جگہ دیتے ہو۔ یا حضرت علیہ السلام کی مراد یہ ہو کہ اہل کو وہی مقام دے دیں جسے قرآن نے ان کے لیے مقرر کیا ہے۔ (۸)

--------------

(۸)- شرح ابن ابی الحدید ج ۶، ص ۳۷۶

۱۳

"وردوہم ورود الہیم العطاش اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سرچشمہ ہدایت پر اترو " والی عبارت میں بھی ان کی پیروی کرنے کے انداز کو بیان کیا ہے کہ جس طرح پیاسا اونٹ پانی کے چشمہ کر طرف دوڑتی ہے تم بھی سر چشمہ ہدایت کی طرف اسی طرح دوڑیں۔

کہا جاتا ہے: وردوہ م ورود سے ہے یعنی خوشگوار چشمہ پر وارد ہونا، اپنے کو پہنچانا، اور الہی م العطاش پیاسے اونٹ کو کہا جاتا ہے۔ اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام سے دین اوعلم حاصل کرنے میں حد سے زیادہ لالچی بنیں؛ جیسے پیاسا اونٹ پانی پر پہنچنے کے لیے لالچی بنتا ہے۔ (۹)

ان کی اطاعت کے سلسلے میں ان سے آگے نکل جانا یا پیچھے رہ جانا دونوں ناقابل تلافی ہیں اور شاہراہ ہدایت سے منحرف ہونے کا سبب بنتا ہے:

انْظُرُوا إَهلَ‏ بَيتِ‏ نَبِيِّكُمْ‏ فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ‏ وَ اتَّبِعُوا إَثَرَهُمْ فَلَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ هُدًى وَ لَنْ يُعِيدُوكُمْ فِي رَدًى فَإِنْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا وَ إِنْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا وَ لَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا وَ لَا تَتَإَخَّرُوا عَنْهُمْ فَتَهلِكُو

اپنے نبی ؐ کے اہل بیت کو دیکھو، ان کی سیرت پر چلو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ اور نہ گمراہی اور ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔ اگروہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو ۔ ان سے آگے نہ بڑھو۔۔۔ ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے، اور نہ (انہیں چھوڑ کر) پیچھے رہ جاؤ، ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔(۱۰)

پس اسلامی معاشرے کے حقیقی رہبر اور حاکم ائمہ علیہم السلام ہیں۔ ان کا وجود ستون کی طرح ہے کہ اگر یہ ستون محفوظ رہیں تو عمارت بھی محفوظ رہے گی ۔

------------

(۹)- بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج ۱، ص ۲۴۳

(۱۰)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۲۵۵ خ ۹۵

۱۴

ب۔ غیبت کے زمانے میں قائد کا کردار

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے زمانے میں معاشرے کا حاکم قائد اوررہبر ولی فقیہ ہے جس کے بارے میں اما م زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نے فرمایا:

وَ أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِيهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِيثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي‏ عَلَيْكُمْ‏ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْكُم (۱۱)

غیبت کے زمانے میں پیش آنے والے واقعات اورحادثات میں ہماری احادیث نقل کرنے والوں کی طرف رجوع کرو کیونکہ یہ میرے طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی طرف سے تم حجت ہوں۔

پس جامع الشرائط مجتہدین معصوم علیہم السلام کے نائب ہیں، غیبت کے زمانے میں یہ لوگ اللہ کے فرمان کو معاشرے میں نافذ کرتے ہیں۔

قائداور رہبر کو وجود اس حد تک اہمیت کا حامل ہے کہ ہمارے دینی شہ سرخیوں میں بہت زیادہ اس کی تصریح اور تاکید ہوئی ہے:

«وَ الْإِمَامَةَ نِظَاماً لِلْأُمَّةِ، وَ الطَّاعَةَ تَعْظِيماً لِلْإِمَامَةِ» (۱۲)

اور امامت امت کے نظم و نسق کے لیے ہے اطاعت کرنا امامت کی تعظیم ہے؛ یعنی اگر امت امام کے بغیر رہ جائے تو تفرقہ اختلاف اور ہرج و مرج کا شکار ہو گی۔

---------------

(۱۱)- طوسی، محمد بن الحسن، الغیبة (للطوسی)/ کتاب الغیبة للحجة، النص ؛ ص۲۹۱

(۱۲)- حلوانی، حسین بن محمد بن حسن بن نصر، نزہة الناظر و تنبیہ الخاطر ص۴۶

۱۵

اسلامی معاشرے میں رہبر کی حیثیت تسبیح کے دھاگے کی طرح ہے جس میں تسبیح کے دانے پروئے گئے ہیں؛ اگر یہ دھاگہ نہ ہوتا تو دانے ادھر ادھر بکھر جاتے اور شاید اسے تسبیح ہی نہ کہا جائے۔ نہج البلاغہ میں ایک جگہ امام فرماتے ہیں:

وَ مَكَانُ‏ الْقَيِّمِ‏ بِالْإَمْرِ مَكَانُ النِّظَامِ مِنَ الْخَرَزِ يَجْمَعُهُ وَ يَضُمُّهُ فَإِنِ انْقَطَعَ النِّظَامُ تَفَرَّقَ الْخَرَزُ وَ ذَهَبَ ثُمَّ لَمْ يَجْتَمِعْ بِحَذَافِيرِهِ إَبَدا

امور (سلطنت) میں حاکم کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مہروں میں ڈورے کی جو انہیں سمیٹ کر رکھتا ہے۔ جب ڈورا ٹوٹ جائے تو سب مہرے بکھر جائیں گے اور پھر کبھی سمٹ نہ سکیں گے۔(۱۳)

پس قائد اوررہبر کا کام امت کو پراکندہ ہونے اور تفرقہ کے شکار ہونے سے بچانا اور ان کے درمیان وحدت ایجاد کرنا ہے۔

اگر کوئی معاشرہ تباہ و برباد ہو نا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اس معاشرے میں رہنے والے لوگ اختلاف کا شکار ہو جائیں گےاسی لیے تاریخ میں دشمنوں نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ لوگوں کو اختلاف اور تفرقہ میں مبتلا کریں انہیں اپنے رہبر اور قائد سے دور رکھا جائے، اس ہدف کے لیے انہوں نے نہایت ہی پیچیدہ پروگرام بنائے ہیں ، اس پراجیکٹ پر بہت زیادہ سرمایہ خرچ ہوا ہے؛ اور چونکہ ایک لائق اور الہی رہبر کے ہوتے ہوئے وہ اپنے منحوس عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے اسی لئے ہمیشہ سے رہبر کو ہی نشانہ بنایا ہے؛ ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن اپنے ان اہداف کی حصول کے لیے طرح طرح کے شبہات ایجاد کر رہے ہیں جیسے ایک رہبر الہی اور ایک ڈیکٹر کا ایک جیسا ہونا وغیرہ۔(۱۴)

-------------

(۱۳)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۳۴۰ خ ۱۴۴

۱۶

قائد اس وقت معاشرے میں مضبوط ہو سکتا ہے جب اس معاشرے میں رہنے والے تمام لوگ اسے غیبت کے زمانے میں امام معصوم کے نمائندہ اور نائب کے عنوان سے قبول کریں، اور دل و جان سے اس کے ارشادات پر عمل کریں۔

تاریخ میں جب بھی قائد اور رہبر کو چاہے وہ امام معصوم ہو یا نائب امام- امت کی طرف سے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور اس کے اوامر و نواہی کی اطاعت نہیں کی گئی وہ امت نابود ہوگئی اور ہمیشہ کے لیے صفحہ تاریخ سے محو ہو گئی۔

حکومت امام علی علیہ السلام میں کوفیوں کے منحرف ہونے کی اصلی وجہ اپنے امام کی اطاعت سے سر پیچی تھی یہ نافرمانی سخت منفی حالات کا پیش خیمہ بنی کہ امام علی علیہ السلام کےبعد بھی سالوں سال شکست ہی شکست ان کا مقدر بنا۔ بلکہ کہا جا سکتا ہے اس کے بعد سے خوش قسمتی کے دروازے ان پر بند ہوگئے۔ حجاج بن یوسف جیسے شقی کے حکومت (کہ امام علی علیہ السلام نے اس کی حکومت پر پہچنے کی پیشن گوئی کی تھی) پر پہنچنے کے بعد سے بہت زیادہ قتل و غارت گری ہوئی کہ انسان کا سر ان کو بیان کرتے ہوئے شرم سے جھک جاتا ہے، اسی شقی انسان کے حکومت پر پہنچنے کے نتیجے میں معاویہ کی حکومت کو اور زیادہ تقویت ملی۔ اس کے بعد خلافت کا یزید لعین کے پاس پہنچنا، کوفہ والوں کا کوئی ایکشن نہ لینا، واقعہ کربلا اور دیگر تاریخی اہم واقعات کوفہ والوں امام علی علیہ السلام کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے رونما ہوئے۔جب تحکیم کےسلسلے میں آپ کے اصحاب پر پیچ و تاب کھانے لگے تو آپ نے ارشاد فرمایا:

۱۷

إَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ إَمْرِي مَعَكُمْ عَلَى مَا إُحِبُّ حَتَّى نَهِكَتْكُمُ‏الْحَرْبُ وَ قَدْ وَ اللَّهِ إَخَذَتْ مِنْكُمْ وَ تَرَكَتْ وَ هِيَ لِعَدُوِّكُمْ إَنْهَكُ. لَقَدْ كُنْتُ إَمْسِ إَمِيراً فَإَصْبَحْتُ‏ الْيَوْمَ‏ مَإمُوراً وَ كُنْتُ إَمْسِ نَاهِياً فَإَصْبَحْتُ الْيَوْمَ مَنْهِيّاً وَ قَدْ إَحْبَبْتُمُ الْبَقَاءَ وَ لَيسَ لِي إَنْ إَحْمِلَكُمْ عَلَى مَا تَكرَهُون‏

اے لوگو! جب تک جنگ نے تمہیں بے حال نہیں کردیا میرے حسب منشاء میری بات تم سے بنی رہی۔ خدا کی قسم!اس نے تم سے کچھ تو اپنی گرفت میں لے لیا اور کچھ کو چھوڑ دیا۔ اور تمہارے دشمنوں کو تو اس نے بالکل ہی نڈھال کر دیا۔ اگر تم جمے رہتے تو پھر جیت تمہاری تھی۔ مگر اس کا کیا علاج کہ میں کل تک امر و نہی کا مالک تھا او رآج دوسروں کےامر و نہی پر مجھے چلنا پڑ رہا ہے۔ تم (دنیا کی ) زندگانی چاہنے لگے اور یہ چیز میرے بس میں نہ رہی کہ جس چیز (جنگ) سے بیزار ہو چکے تھے اس پر تمہیں بر قرار رکھتا۔ (۱۴)

---------------

(۱۴)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۵۰۱ خ ۲۰۶

۱۸

دوسری جگہ معاشرےکے رہبر ہونے کی حیثیت سے معاشرے میں موجودامور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إَيُّهَا النَّاسُ‏ إِنِّي‏ قَدْ بَثَثْتُ‏ لَكُمُ‏ الْمَوَاعِظَ الَّتِي وَعَظَ [بِهَا الْإَنْبِيَاءُ] الْإَنْبِيَاءُ بِهَا إُمَمَهُمْ وَ إَدَّيتُ إِلَيكُمْ مَا إَدَّتِ الْإَوْصِيَاءُ إِلَى مَنْ بَعْدَهُمْ وَ إَدَّبْتُكُمْ بِسَوْطِي فَلَمْ تَسْتَقِيمُوا وَ حَدَوْتُكُمْ بِالزَّوَاجِرِ فَلَمْ تَسْتَوْسِقُوا لِلَّهِ إَنْتُمْ إَ تَتَوَقَّعُونَ إِمَاماً غَيرِي يَطَإُ بِكُمُ الطَّرِيقَ وَ يُرْشِدُكُمُ السَّبِيلَ إَلَا إِنَّهُ قَدْ إَدْبَرَ مِنَ الدُّنْيَا مَا كَانَ مُقْبِلًا وَ إَقْبَلَ مِنْهَا مَا كَانَ مُدْبِراً- وَ إَزْمَعَ التَّرْحَالَ عِبَادُ اللَّهِ الْإَخْيَارُ وَ بَاعُوا قَلِيلًا مِنَ الدُّنْيَا لَا يَبْقَى بِكَثِيرٍ مِنَ الْآخِرَةِ لَا يَفْنَى

اے لوگو! میں نے تمہیں اس طرح نصیحتیں کی ہیں جس طرح کی ابنیاء اپنی امتوں کو کرتے چلے آئے ہیں او ران چیزوں کو تم تک پہنچایا ہے جو اوصیاء بعد والوں تک پہنچایا گئے ہیں۔ میں نے تمہیں اپنے تازیانہ سے ادب سکھانا چاہا مگر تم سیدھے نہ ہوئے اور زجر و توبیخ سے تمہیں ہنکایا لیکن تم ایک جا نہ ہوئے۔ اللہ تمہیں سمجھے کیا میرے علاوہ کسی اور امام کے امید وار ہو جو تمہیں سیدھی راہ پر چلائےاور صحیح راستہ دکھائے۔ دیکھو! دنیا کی طرف رخ کرنے والی چیزوں نے جو رخ کئے ہوئے تھیں پیٹھ پھرالی ، جو پیٹھ پھرائے ہوئے تھیں انہوں نے رخ کر لیا۔ اللہ کے نیک بندوں نے (دنیا سے)کوچ کرنے کا تہیا کر لیا اور فنا ہونے والی تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے دے کر ہمیشہ رہنے والی بہت سی آخرت مول لے لی۔ (۱۵)

-------------

(۱۵)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۴۱۹ ، ۴۲۰ خ ۱۸۰

۱۹

امام علی علیہ السلام اپنی حکومت کے سقوط اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کی پیشن گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مَا هِيَ‏ إِلَّا الْكُوفَةُ إَقْبِضُهَا وَ إَبْسُطُهَا إِنْ لَمْ تَكُونِي إِلَّا إَنْتِ تَهُبُّ إَعَاصِيرُكِ فَقَبَّحَكِ اللَّهُ-

یہ عالم ہے اس کوفہ کا جس کا بندو بست میرے ہاتھ میں ہے ۔( اے شہر کوفہ) اگر تیرا یہی عالم رہا کہ تجھ میں آندھیاں چلتی رہیں، تو خدا تجھے غارت کرے ۔ پھر آپ ؑنے شاعر کا یہ شعر بطور تمثیل پڑھا:

لَعَمْرُ إَبِيكَ الْخَيرِ يَا عَمْرُو إِنَّنِي ****** عَلَى وَضَرٍ مِنْ ذَا الْإِنَاءِ قَلِيل‏

اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم ! مجھے اس برتن سے تھوڑی سی چکناہٹ ہی ملی ہے (جو برتن کے خالی ہونے کے بعد اس میں لگی رہ جاتی ہے)

اس کے بعد فرمایا:

إُنْبِئْتُ بُسْراً قَدِ اطَّلَعَ الْيَمَنَ وَ إِنِّي وَ اللَّهِ لَإَظُنُّ إَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ سَيُدَالُونَ مِنْكُمْ بِاجْتِمَاعِهِمْ عَلَى بَاطِلِهِمْ وَ تَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ وَ بِمَعْصِيَتِكُمْ إِمَامَكُمْ فِي الْحَقِّ وَ طَاعَتِهِمْ إِمَامَهُمْ فِي الْبَاطِلِ وَ بِإَدَائِهِمُ الْإَمَانَةَ إِلَى صَاحِبِهِمْ وَ خِيَانَتِكُمْ وَ بِصَلَاحِهِمْ فِي بِلَادِهِمْ وَ فَسَادِكُمْ فَلَوِ ائْتَمَنْتُ إَحَدَكُمْ عَلَى قَعْبٍ لَخَشِيتُ إَنْ يَذْهَبَ بِعِلَاقَتِهِ اللَّهُمَّ إِنِّي قَدْ مَلِلْتُهُمْ وَ مَلُّونِي وَ سَئِمْتُهُمْ وَ سَئِمُونِي فَإَبْدِلْنِي بِهِمْ خَيراً مِنْهُمْ وَ إَبْدِلْهُمْ بِي شَرّاً مِنِّي اللَّهُمَّ مِثْ قُلُوبَهُمْ كَمَا يُمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ إَمَا وَ اللَّهِ لَوَدِدْتُ إَنَّ لِي بِكُمْ إَلْفَ فَارِسٍ مِنْ بَنِي فِرَاسِ بْنِ غَنْم‏

۲۰

مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ بستر میں پر چھا گیا ہے۔ بخدا میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لیے کہ:

1. وہ (مرکز ) باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ و منتشر۔

2. تم امر حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں ۔

3. وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے۔

4. وہ اپنے شہروں میں امن برقرار رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو۔

میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤ ، تو ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لےجائے گا۔

امام اس حد تک ان سے خوف محسوس کر رہے ہیں کہ ایک لکڑی کا پیالہ بھی انہیں دیتے ہوئے امن محسوس نہیں کرتے ہیں۔ چہ جائے کہ ان کی اطاعت اور پیروی پر اعتماد کریں۔ یہ مظلومیت امام علی علیہ السلام کی انتہاء ہے۔ اس کے بعد آپ اللہ کے حضور اس طرح شکوہ کرتے ہیں:

اللَّهُمَّ إِنِّي قَدْ مَلِلْتُهُمْ وَ مَلُّونِي وَ سَئِمْتُهُمْ وَ سَئِمُونِي فَإَبْدِلْنِي بِهِمْ خَيراً مِنْهُمْ وَ إَبْدِلْهُمْ بِي شَرّاً مِنِّي اللَّهُمَّ مِثْ قُلُوبَهُمْ كَمَا يُمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ إَمَا وَ اللَّهِ لَوَدِدْتُ إَنَّ لِي بِكُمْ إَلْفَ فَارِسٍ مِنْ بَنِي فِرَاسِ بْنِ غَنْم‏: هُنَالِكَ لَوْ دَعَوْتَ‏ إَتَاكَ‏ مِنْهُمْ‏ ****** فَوَارِسُ مِثْلُ إَرْمِيَةِ الْحَمِيم

۲۱

اے اللہ! وہ مجھ سے تنگ دل ہو چکے ہیں اور میں ان سے۔ وہ مجھ سے اکتا چکے ہیں اور میں ان سے، مجھے ان کے بدلے میں اچھے لوگ عطا کر او رمیرے بدلے میں انہیں کوئی اور برا حاکم دے۔ خدا یا! ان کے دلوں کو اس طرح (اپنے غضب سے) پگھلا دے جس طرح نمک پانی میں گھول دیا جاتا ہے۔ خدا کی قسم میں اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ تمہارے بجائے میرے پاس نبی فراس ابن غنم کے ایک ہی ہزار سوار ہوتے ایسے (جن کا وصف شاعر نے بیان کیا) اگر تم کسی وقت انہیں پکارو، تو تمہارے پاس ایسے سوار پہنچیں جو تیز روئی میں گرمیوں کے ابر کے مانند ہیں۔(16)

امت کے درمیان امام کا وجود چکی میں کیل کی طرح ہےکہ لوگ اس کے ارد گرد نظم و نسق کے ساتھ رہتے ہیں ان میں کوئی بھی اگر اپنی گردش سے منحرف ہو جائے تو اس کا بنیادی ڈھانچہ منہدم ہو جائے گا۔ امام فرماتے ہیں:

وَ إِنَّمَا إَنَا قُطْبُ الرَّحَى‏تَدُورُ عَلَيَّ وَ إَنَا بِمَكَانِي فَإِذَا فَارَقْتُهُ‏ اسْتَحَارَ مَدَارُهَا وَ اضْطَرَبَ ثِفَالُهَا هَذَا لَعَمْرُ اللَّهِ الرَّإيُ السُّوءُ

میں چکی کے اندر کا وہ قطب ہوں جس کے گرد چکی گھومتی ہے جب تک میں اپنی جگہ پر ٹھہرا رہوں اور اگر میں نے اپنا مقام چھوڑ دیا ، تو اس کے گھومنے کا دائرہ متزلزل ہو جائے گا۔ خدا کی قسم یہ بہت برا مشورہ ہے ۔

امام اور رہبر کی اطاعت اور پیروی امت کو گرداب حوادث میں حیران اور سرگردان ہونے سے بچاتی ہےتاکہ اپنے زمانے اور اس کے حوادث سے انسان امان میں رہیں اور ٹیڑھے راستے پر جانے سے خود کو بچا کے رکھ سکیں، جیسا کہ بنی اسرائیل کے قوم حضرت موسی علیہ السلام کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے حیرانی اور پریشانی کی گرداب میں پھنس گئے۔ امام فرماتے ہیں:

-------------

(16)- ترجمہ مفتی جعفر ص 136 و 137 خ 25

۲۲

لَكِنَّكُمْ تِهتُمْ مَتَاهَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ لَعَمْرِي لَيُضَعَّفَنَ‏ لَكُمُ‏ التِّيهُ‏ مِنْ بَعْدِي إَضْعَافاً بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ وَ قَطَعْتُمُ الْإَدْنَى وَ وَصَلْتُمُ الْإَبْعَدَ وَ اعْلَمُوا إَنَّكُمْ إِنِ اتَّبَعْتُمُ الدَّاعِيَ لَكُمْ سَلَكَ بِكُمْ مِنْهَاجَ الرَّسُولِ وَ كُفِيتُمْ مَئُونَةَ الِاعْتِسَافِ وَ نَبَذْتُمُ الثِّقْلَ الْفَادِحَ عَنِ الْإَعْنَاق‏

تم بنی اسرائیل کی طرح صحرائے تیہ میں بھٹک گئے اور اپنی جان کی قسم میرے بعدتمہاری سرگردانی و پریشانی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ کیونکہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے اور قریبیوں سے قطع تعلق کر لیا اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے ۔ یقین رکھو کہ اگر تم دعوت دینے والے کی پیروی کرتے تو وہ تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے راستہ پر لے چلتا اور تم بے راہ روی کی زحمتوں سے بچ جاتے اور اپنی گردنوں سے بھاری بوجھ اتار پھینکتے۔ (17)

-----------------

(17)- ترجمہ مفتی جعفر ص 390 خ159

۲۳

ج- رہبر اور عوام کے ایک دوسرے پر حقوق

کسی بھی معاشرے میں امام اور امت کے ایک دوسرے کے اوپر حقوق ہیں، کہ ان کی رعایت کرنے سے وہ معاشرہ ترقی، کمال اور ہمیشہ کی سعادت اور خوشبختی حاصل کر لے گا۔ان حقوق کی دو قسم ہیں: ایک وہ حقوق ہیں جو امام اور رہبر کی نسبت لوگوں کے گردنوں پر ہیں۔ دوسرے وہ حقوق جو معاشرے میں رہنے والوں کی نسبت امام اور رہبر کی گردن پر ہیں یہ امام کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی سعادت کی طرف رہنمائی کرے۔ ایک جگہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

إَيُّهَا النَّاسُ إِنَ‏ لِي‏ عَلَيكُمْ‏ حَقّاً وَ لَكُمْ عَلَيَّ حَقٌّ فَإَمَّا حَقُّكُمْ عَلَيَّ: 1- فَالنَّصِيحَةُ لَكُمْ 2-وَ تَوْفِيرُ فَيئِكُمْ عَلَيكُمْ 3- وَ تَعْلِيمُكُمْ كَيلَا تَجْهَلُوا 4- وَ تَإدِيبُكُمْ كَيمَا تَعْلَمُوا

وَ إَمَّا حَقِّي عَلَيكُمْ 1- فَالْوَفَاءُ بِالْبَيعَةِ2- وَ النَّصِيحَةُ فِي الْمَشْهَدِ وَ الْمَغِيبِ 3- وَ الْإِجَابَةُ حِينَ إَدْعُوكُمْ 4- وَ الطَّاعَةُ حِينَ آمُرُكُم‏

اے لوگو! ایک تو میرا تم پر حق ہے اور ایک تمہارا مجھ پر حق ہے کہ 1- میں تمہاری خیر خواہی کو پیش نظر رکھوں2- اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں، 3- تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو4- اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں جس پر تم عمل کرو ۔

اور میرا تم پر یہ حق ہے کہ 1- بیعت کی ذمہ داریوں کو پوا کرو2- اور سامنے اور پس پشت خیر خواہی کرو۔ 3- جب بلاؤں تو میری صدا پر لبیک کہو،4- اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو۔(18)

---------------

(18)- ترجمہ مفتی جعفر ص 158 خ 34

۲۴

ہر چیز سے پہلے جس کی اہمیت زیادہ ہے وہ لوگوں کا امام کے اوامر و نواہی کی اطاعت کرنا ہے۔ اسی اطاعت کے چھاؤں میں سماج میں نظم و نسق برقرار رہے گا، معاشرہ دشمنوں کی کھلے اور چھپے حملوں سے محفوظ رہے گا۔ فرمان امام علیہ السلام کے آخری دونوں جملے اسی مطلب کو بیان کر رہے ہیں۔ یہی بے چون و چرا اطاعت معاشرے کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ معاشرے کی نشو ونما کرے گا۔ اور یہی اطاعت معاشرے کو دشمنوں کی شر سے محفوظ رکھنے کی ضامن ہے۔اسی اطاعت کے سائے میں دشمنوں کے منحوس عزائم سے پردہ اٹھ جائے گا اور ان کے نقشوں کا شکست فاش ہوگا۔

دوسری جانب اس اطاعت اور پیروی ہی کی برکت سے معاشرہ ترقی کرے گا۔ لوگوں کے لیے ترقی کی راہیں کھل جائیں گی۔ علمی چوٹیاں سر ہوں گی۔ انسانوں کا تزکیہ بھی اسی اطاعت کے اندر ہے؛ وہی تزکیہ جس کے انجام دہی پر انبیاء علیہم السلام مامور تھے اور اہداف نبوت و رسالت میں سے ایک یہی تھا:

﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ﴾

وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔(21)

واضح ہے کہ تعلیم او رتزکیہ اہداف رسالت میں سے دو اہم ہدف ہیں کہ جو آیت میں صراحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ امام علی علیہ السلام کا وہ فرمان جس میں آپ امام کے اوپر لوگوں کے حقوق کو بیان فرما رہے ہیں ٹھیک اسی نکتہ کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ لوگوں کو تعلیم سکھانے اور ان کی تربیت کرنے کے علاوہ تزکیہ بھی امام پر ضروری ہے۔

--------------

(21)- سورہ جمعہ : 2

۲۵

اس بنا پر امام اور رہبر کی اطاعت کرنا حقیقت میں ان دو اہم اہداف کی حفاظت کرنا ہے:

الامامة نظاما للامة و الطاعة تعظيما للامامة

امامت امت کا نظام درست رکھنے کے لیے ہے اور اطاعت کو امامت کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔(22)

ان تمام باتوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ کسی معاشرے کے لیے امام اور رہبرکا ہونا دین اسلام کی ضروریات میں سے ہے۔ اس اہم منصب میں کسی قسم کا شبہہ ایجاد کرنامعاشرے کو تباہی اور بربادی کی کھائی میں دھکیل دینے کا سبب بن سکتا ہے؛ لہذا رہبر کو طاقتور بنانا ہر ایک کی ذمہ داری ہے اوربغیر چون و چرا رہبر اور امام کی اطاعت کے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں ہو گا۔ اگر معاشرے اس اہم ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام رہا تو تباہی کی کنویں میں گر نا یقینی ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرہ اس مشکل میں پھنس گیا ۔ اسلامی معاشرہ ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا جس کا علاج سالوں بعد بھی ممکن نہ ہو سکا۔

2- اختلاف اور انتشار کا شکار ہونا

اختلاف و انتشار حکومتوں کی بربادی کا ایک اہم سبب ہے۔ اگر لوگوں کے دل کسی بھی سیاسی اور پارٹی رجحان کے با وجود ایک ہو جائیں، زبان پر ایک ہی نعرہ رہے، سب کے ہاتھ ایک ہی مقصد کے لیے اٹھیں ، تو وہاں یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ بنیادی پیشرفت ہوگی اور حکومتی نظام کو بدلا جا سکے گا۔

------------

(22)- حلوانی، حسین بن محمد بن حسن بن نصر، نزہة الناظر و تنبیہ الخاطر ص46

۲۶

اسلام ابتداء ہی سے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتا چلا آیا ہے۔قرآن کریم میں خدا فرماتا ہے:

﴿وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِاللَّهِ جَمِيعاً وَ لاَ تَفَرَّقُو وَ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً وَ كُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ (23)

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔(24)

-------------

(23)- سورہ آل عمران : 103

(24)- شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں : جب یہ حکم آتا ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو تو فوراً ذہنوں میں ایک خطرے کا احساس ہوتا ہے کہ کوئی سیلاب آنے والا ہے، غرق ہونے کا خطرہ ہے، کوئی طوفان آنے والا ہے کہ اس امت کی کشتی کا شیرازہ بکھرنے والا ہے، کوئی آندھی آنے والی ہے جو اس انجمن کو منتشر کر دے۔ اللہ کی رسی کو تھام لو،وَّلَا تَفَرَّقُوْا سے پتہ چلا کہ فرقہ پرستی کس قسم کا سیلاب ہے، کس قدر خطرناک طوفان اور کتنی مہلک آندھی ہے۔ چنانچہ رسولِ اسلامؐ کے بعد سے آج تک ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ اپنے مسلک سے ذرا اختلاف رکھنے والوں کو کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔ دین سے زیادہ انہیں مسلک عزیز ہے اور دوسروں کو زیر کرنے کی خاطر اپنے دین تک سے ہاتھ دھونے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔

۲۷

خدا نے سختی کے ساتھ اختلاف اور انتشار سے منع کیا ہے:

﴿وَ لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَ إُولئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾

اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو واضح دلائل آجانے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے اور ایسے لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہو گا ۔(25)

قرآن کریم اتحاد ، اتفاق اور دلوں کے ایک ہونے کو کامیابی اور سعادت کی کنجی کے طور پر بیان کر رہا ہے:

﴿يَا إَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَ صَابِرُوا وَ رَابِطُوا وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾

اے ایمان والو!صبرسے کام لو استقامت کا مظاہرہ کرو، مورچہ بند رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو۔ (26 و 27)

----------------

(25)- سورہ آل عمران : 105

(26)- سورہ آل عمران : 200

(27)- شیخ محسن نجفی فرماتے ہیں: صبر و تحمل ہر تحریک کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، لیکن امت مسلمہ نے ایک جامع نظام حیات کی تحریک چلانی ہے۔ یہ راستہ خون کی ندیوں، مخالف آندھیوں، مصائب کے پہاڑوں اور دوستوں کی لاشوں پر سے گزرتا ہے۔ ساتھ دینے والوں کی قلت، دشمنوں کی کثرت، قریبیوں کی بے وفائی اور دشمنوں کی چالاکی، ساتھیوں کی سہل انگاری اور مدمقابل کی نیرنگی جیسے کٹھن مراحل طے کرنا پڑتے ہیں، لہٰذا اس کے اراکین کے صبر و تحمل کا دائرہ بھی جامع اور وسیع ہونا چاہیے۔ اللہ کی نافرمانی سے بچنے کے لیے بھی صبر درکار ہے۔ بھوک اور ناداری میں بھی مال حرام سے اجتناب، غیظ و غضب، جذبۂ انتقام اور قوت کے باوجود تجاوز اور ظلم سے پرہیز اور دیگر ہر قسم کی خواہشات کا مقابلہ بھی صبر و تحمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اطاعت و فرمانبرداری کی بنیاد بھی صبر ہے۔جب تک صبر و حوصلہ نہ ہو اطاعت رب کا بوجھ اٹھانا ممکن نہ ہو گا۔

۲۸

اختلاف، انتشار، فرقہ واریت، پارٹی بازی، دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف دشمنی اور کینہ توزی مومنوں کی طاقت کو نابود کرنے والی ہیں؛ اسی لیے مومنین کو سفارش کی جارہی ہے کہ اسلام کے پرچم تلے جمع ہو جائیں، خدا اور اس کے رسول کے اوامر کو بے چون چرا مان لیں:

﴿وَ إَطِيعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَ اصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾

اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(28 و 29)

امام علی علیہ السلام کوفہ والوں کی شکست کے اسباب میں سے ایک سبب ان کے درمیان اختلاف، پارٹی بازی،فرقہ واریت اور انتشار کو قرار دے رہے ہیں:

---------------

(28)- سورہ انفال : 46

(29)- اطاعت اور تعمیل حکم۔ دوسرے لفظوں میں تنظیم اور ڈسپلن کو جنگی حکمت عملی میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے جیساکہ تمام عسکری قوانین میں اس بات کو اولیت دی جاتی ہے۔ باہمی نزاع سے احتراز کرنا۔ اگرچہ ہر معاشرے کو اتحاد کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے تاہم اس کی ضرورت جنگ میں زیادہ ہوتی ہے ۔ باہمی نزاع اطاعت اور قیادت کے فقدان کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ (بلاغ القرآن - شیخ محسن علی نجفی)

۲۹

إَلَا وَ إِنَّكُمْ قَدْ نَفَضْتُمْ إَيدِيَكُمْ‏ مِنْ‏ حَبْلِ‏ الطَّاعَةِ وَ ثَلَمْتُمْ حِصْنَ اللَّهِ الْمَضْرُوبَ عَلَيكُمْ بِإَحْكَامِ الْجَاهِلِيَّةِ فَإِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ قَدِ امْتَنَ‏ عَلَى جَمَاعَةِ هَذِهِ الْإُمَّةِ فِيمَا عَقَدَ بَينَهُمْ مِنْ حَبْلِ هَذِهِ الْإُلْفَةِ الَّتِي يَنْتَقِلُونَ فِي ظِلِّهَا وَ يَإوُونَ إِلَى كَنَفِهَا بِنِعْمَةٍ لَا يَعْرِفُ إَحَدٌ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ لَهَا قِيمَةً لِإَنَّهَا إَرْجَحُ مِنْ كُلِّ ثَمَنٍ وَ إَجَلُّ مِنْ كُلِّ خَطَرٍ وَ اعْلَمُوا إَنَّكُمْ صِرْتُمْ بَعْدَ الْهِجْرَةِ إَعْرَاباً وَ بَعْدَ الْمُوَالاةِ إَحْزَابا مَا تَتَعَلَّقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا بِاسْمِهِ وَ لَا تَعْرِفُونَ مِنَ الْإِيمَانِ إِلَّا رَسْمَه‏

دیکھو تم نے اطاعت کے بندھنوں سے اپنے ہاتھوں کو چھڑا لیا اور زمانہ جاہلیت کے طور و طریقوں سے اپنے گرچ گچھے ہوئے حصار میں رخنہ ڈال دیا۔ خدا وند عالم نے اس امت کے لوگوں پر اس نعمت بے بہا کے ذریعہ سے لطف و احسان فرمایا کہ جس کی قدر و قیمت کو مخلوقات میں سے کوئی نہیں پہچانتا؛ کیونکہ وہ ہر (ٹھہرائی ہوئی) قیمت سے گراں تر اور ہر شرف و بلندی دے بالا تر ہے۔ اور وہ یہ کہ ان کے درمیان انس و یکجہتی کا رابطہ (اسلام) قائم کیا کہ جس کے سایہ میں وہ منزل کرتے ہیں او رجس کے کنار (عاطفیت) میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ جانے رہو کہ تم (جہالت و نادانی) کو خیر باد کہہ دینے کے بعد پھر صحرائی بدو اور باہمی دوستی کے بعد پھر مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہو۔ اسلام سے تمہارا واسطہ نام کو رہ گیا ہے اور ایمان سے چند ظاہری لکیروں کے علاوہ تمہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ (30)

--------------

(30)- ترجمہ مفتی جعفر ص 466 خ 190 خطبہ قاصعہ۔

۳۰

امام علیہ السلام نے اپنے اس نورانی کلام میں امت مسلمہ اور کوفہ والوں کی انحراف اور نابودی کے بعض اسباب و عوامل کی طرف اشارہ فرمایا:

1. امام اور رہبر کی اطاعت نہ کرنا۔

2. جاہلیت کے طور طریقوں کو زندہ کرنا اور اسلامی اقدار کو پامال کرنا۔

3. برادری اور یکجہتی کی نعمت کو کھو دینا۔

4. پارٹی بازی اور فرقہ واریت کو فروغ دینا۔

5. اسلام کے اقدار کو نابود کر کےصرف نام کو باقی رکھنا۔

ان علتوں میں ہر ایک زنجیر کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تعجب کا مقام وہ ہے جہاں اہل حق اپنے حق اور حقانیت کی دفاع میں انتشار اور اختلاف کے شکار ہیں جبکہ باطل والے اپنے باطل کی حمایت میں متحد ہیں۔یہ غم بہت ہی دردناک ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے زبان سے کئی مرتبہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے سنا گیا ہے:

فَيَا عَجَباً عَجَباً وَ اللَّهِ‏ يُمِيتُ‏ الْقَلْبَ‏ وَ يَجْلِبُ الْهَمَّ مِنَ اجْتِمَاعِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ عَلَى بَاطِلِهِمْ وَ تَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ فَقُبْحاً لَكُمْ وَ تَرَحاً حِينَ صِرْتُمْ غَرَضاً يُرْمَى يُغَارُ

العجب ثم العجب خدا کی قسم ان لوگوں کا باطل پر ایکا کر لینا اور تمہارے جمعیت کا حق سے منتشر ہوجانا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے تم تو تیروں کا از خود نشانہ بنے ہوئے ہو۔

بسر بن ارطات کے یمن پر غلبہ پانے کی خبریں سننے کے بعد آپ نے پھر ارشاد فرمایا کہ : میں جانتا تھا کہ شامی تم پر غالب آئیں گے؛ کیونکہ وہ اپنے باطل کی حمایت پر متحد ہیں جبکہ تم اپنے حق کی دفاع میں اختلاف او رانتشار کا شکار ہو۔(31)

------------

(31)- ترجمہ مفتی خ 25

۳۱

اس بنا پر کامیابی اور فتح کی علت لوگوں کا کم یا زیادہ ہونا نہیں ہے بلکہ مقصد اور ہدف کے راہ میں یکجہت اور متحد ہونا ہے۔ امام ایک جگہ فرماتے ہیں:

وَ الْعَرَبُ‏ الْيَوْمَ‏ وَ إِنْ‏ كَانُوا قَلِيلًا فَهُمْ كَثِيرُونَ بِالْإِسْلَامِ عَزِيزُونَ بِالاجْتِمَاعِ فَكُنْ قُطْباً وَ اسْتَدِرِ الرَّحَى بِالْعَرَب‏ وَ إَصْلِهِمْ دُونَكَ نَارَ الْحَرْب‏

آج عرب والے اگر چہ گنتی میں کم ہیں مگر اسلام کی وجہ سے وہ بہت ہیں ا وراتحاد باہمی کے سبب سے (فتح و) غلبہ پانے والے ہیں تم اپنے مقام کھونٹی کی طرح جمے رہو اور عرف کا نظم و نسق بر قرار رکھو اور ان ہی کو جنگ کی آگ کا مقابلہ کرنے دو۔(32)

خدا نے ایمان کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک کر دیاجو کسی کی بس کی بات نہیں تھی اپنے رسول سے فرما رہا ہے:

﴿وَ إَلَّفَ بَينَ قُلُوبِهِمْ لَوْ إَنْفَقْتَ مَا فِي الْإَرْضِ جَمِيعاً مَا إَلَّفْتَ بَينَ قُلُوبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللَّهَ إَلَّفَ بَينَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾

اور اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی ہے، اگر آپ روئے زمین کی ساری دولت خرچ کرتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن اللہ نے ان (کے دلوں) کو جوڑ دیا، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔ (33)

--------------------

(32)- ترجمہ مفتی جعفر ص 340 خ 144

(33)- سورہ مبارکہ انفال : 63

۳۲

اتحاد و یکجہتی ایک ایسی عظیم نعمت ہے جسے اللہ نے مسلمانوں کو عطا کیا ہے، اور مسلمانوں کو بھی چاہیئے کہ اس نعمت کی قدر کریں اور کسی بھی قیمت پر اسے ہاتھ سے جانے نہ دیں:

﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَإَزِيدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾

اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔ (34 و 35)

3- دنیا داری

دنیا اور اس کی تجلیات و تجملات کی طرف رخ کرنا، دولت جمع کرنا ان عوامل و اسباب میں سےایک ہے جو کسی بھی حکومت کی نابودی اور مٹ جانے کا سبب بنتا ہے۔ دنیا پرستی یا سیکولرازم دو قسم کے بنیادی اور کلیدی افراد کے پاس پائی جاتی ہے:

الف : کمیونٹی رہنماؤں اور سیاستدانوں کی دنیا طلبی

اگر معاشرے کے رہنما او رحکمراں طبقہ دنیا پرستی میں مبتلا ہوگئے تو سماج میں رہنے والے اور رہنما کے درمیان ایک خلیج ایجاد ہو جائے گا؛ اس وقت معاشرے کے کمزور طبقہ ان کو اپنے سے الگ سمجھیں گے اور اس کی حمایت اور مدد سے ہاتھ اٹھا لیں گے، دوسری طرف سے یہ منحوس صفت ایسے لوگوں کو وجود میں لائے گی جو کبھی بھی معاشرے کے کمزور طبقہ کی مصیبت اور درد کو نہیں سمجھیں گے۔

---------------

(34)- سورہ مبارکہ ابراہیم : 7

(35)- شکر کی صورت میں زیادہ کے وعدے کو تاکیدی لفظوں لام اور نون تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ شکر کی صورت میں اضافہ و فراوانی اللہ کا ایک لازمی قانون ہے، جو خود اپنی جگہ ایک رحمت ہے۔ جبکہ نا شکری کی صورت میں عذاب کے لیے تاکیدی الفاظ اختیار نہیں فرمائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کفرانِ نعمت کی صورت میں عذاب ایک لازمی قانون نہیں ہے اور یہاں عفو کے لیے گنجائش ہے۔ اسی لیےلَاَزِيْدَنَّكُمْ فرمایا،لاعذبنکم نہیں فرمایا۔ نعمتوں پر شکر کرنا ایک صحیح طرز فکر، متوازن سوچ اور اعلیٰ قدروں کا مالک ہونے کی دلیل ہے۔ ایسے لوگ نعمتوں کی قدر دانی کرتے ہیں۔ شیخ محسن علی نجفی؛ بلاغ القرآن۔

۳۳

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت علیہ السلام اور باقی ائمہ علیہم السلام کا دنیا داری سے بچ کر غریبوں مسکینوں اور فقیروں کے ساتھ رہنا تنگدستی اور پیسہ نہ ملنے کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ کمزور اور ناتوان لوگوں کی مصائب کو سمجھنے کے لیے تھا۔ قرآن کریم کبھی کسی قوم کے لالچی حکمران کو "ملاء " کہ کر خطاب کر رہا ہے اور انہیں طغیان گری اور کفر و نفاق کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے:

﴿و قَالَ الْمَلَإُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَ إَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هٰذَا إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يَإكُلُ مِمَّا تَإكُلُونَ مِنْهُ وَ يَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ﴾

اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے جو آخرت کی ملاقات کی تکذیب کرتے تھے اور جنہیں ہم نے دنیاوی زندگی میں آسائش فراہم کررکھی تھی کہا : یہ تو بس تم جیسا بشر ہے، وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔(36)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے حضور فریاد کر رہے ہیں:

﴿ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيتَ فِرْعَوْنَ وَ مَلَإَهُ زِينَةً وَ إَمْوَالاً فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى إَمْوَالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلاَ يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْإَلِيمَ﴾

اے ہمارے پروردگار! تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیاوی زندگی میں زینت بخشی اور دولت سے نوازا ہے پروردگارا! کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ (دوسروں کو ) تیری راہ سے بھٹکائیں؟ پروردگارا ان کی دولت کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ یہ لوگ دردناک عذاب کا سامنا کرنے تک ایمان نہ لائیں۔ (37)

---------------

(36)- سورہ مومنون : 33

(37)- سورہ مبارکہ یونس :88

۳۴

دوسرا لفظ جسے قرآن نے دنیا پرست رہنماؤں کے لیے استعمال کیا وہ "مترف یعنی عیاش" اور اس کے دیگر مشتقات ہیں۔ جیسے :سورہ سبأ آیت 34 اور 35 میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ مَا إَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلاَّ قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا إُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ وَ قَالُوا نَحْنُ إَكثَرُ إَمْوَالاً وَ إَوْلاَداً وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ﴾

اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگریہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ لوگ کہتے تھے: جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔ اور کہتے تھے: ہم اموال اور اولاد میں بڑھ کر ہیں ہم پر عذاب نہیں ہو گا۔

اسی طرح سورہ اسراء آیت نمبر 16 میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ إِذَا إَرَدْنَا إَنْ نُهلِكَ قَرْيَةً إَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيراً﴾

اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، تب اس بستی پر فیصلہ عذاب لازم ہو جاتا ہے پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔(38)

امام علی علیہ السلام بھی اپنے گورنروں اور والیوں سمیت تمام کارکنوں کو عیاشی، دنیا پرستی، سیکولرازم اور اشرافیت سے نہی فرماتے تھے، اور ان کاموں میں ہمیشہ ان کے اوپر نگراں رہتے تھے ۔ اپنے کسی والی -عثمان بن حنیف - کے نام خط میں لکھتے ہیں :

----------------

(38)- شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں: قرآن کے مطابق ہر قوم کی تباہی اس کے مراعات یافتہ طبقہ مترفین کی طرف سے آتی ہے، وہ تمام تر وسائل اور سہولیات کو اپنا حق تصور کرتے ہیں اور محروم طبقہ کے حقوق کو پامال کرتے ہیں۔ یہاں سے بقائے باہمی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور قومیں ہلاکت کا شکار ہو تی ہیں۔

۳۵

إَمَّا بَعْدُ يَا ابْنَ حُنَيفٍ فَقَدْ بَلَغَنِي‏ إَنَ‏ رَجُلًا مِنْ‏ فِتْيَةِ إَهلِ‏ الْبَصْرَةِ دَعَاكَ إِلَى مَإدُبَةٍ فَإَسْرَعْتَ إِلَيهَا تُسْتَطَابُ لَكَ الْإَلْوَانُ وَ تُنْقَلُ إِلَيكَ الْجِفَانُوَ مَا ظَنَنْتُ إَنَّكَ تُجِيبُ إِلَى طَعَامِ قَوْمٍ عَائِلُهُمْ مَجْفُوٌّ وَ غَنِيُّهُمْ مَدْعُوٌّ فَانْظُرْ إِلَى مَا تَقْضَمُهُ‏ مِنْ هَذَا الْمَقْضَم فَمَا اشْتَبَهَ عَلَيكَ عِلْمُهُ فَالْفِظْهُ وَ مَا إَيقَنْتَ بِطِيبِ وُجُوهِهِ فَنَلْ مِنْه‏

اے ابن حنیف! مجھے یہ اطلاع ملی ہے بصرہ کے جوانوں میں سے ایک شخص نے تمہیں کھانے پر بلایا اور تم لپک کر پہنچ گئے کہ رنگا رنگ کے عمدہ عمدہ کھانے تمہارے لیے چن چن کر لائے جا رہے تھے اور بڑے بڑے پیالے تمہاری طرف بڑھائے جا رہے تھے۔ مجھے امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن کے یہاں سے فقیر و نادار دھتکارے گئے ہوں اور دولت مند مدعو ہوں۔ جو لقمے چباتے ہو انہیں دیکھ لیا کرو، اور جس کے متعلق شبہ بھی اسے چھوڑدیا کرو اور جس کے پاک و پاکیزہ طریق سے حاصل ہونے کا یقین ہو اس میں سے کھاؤ۔(39)

اس کے بعد امام علیہ السلام اپنی پاک سیرت کو بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:

تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہر مقتدی کا ایک پیشوا ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے، اور جس کے نور علم سے کسب ضیاء کرتا ہے۔ دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس دنیا کے ساز و سامان میں سے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تمہارے بس کی یہ بات نہیں۔ لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیز گاری سعی و کوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو۔ خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا او رنہ اس کی مال و متاع میںسے انبارجمع کر رکھے ہیں، اور نہ ان کپڑوں کے بدلے میں (جو پہنے ہوئے ہوں) اور کوئی پرانا کپڑا میں نے مہیا کیا ہے۔(40)

--------------

(39)- ترجمہ مفتی جعفر ص 361 مکتوب 45

(40)- ایضا ص 362

۳۶

اس کے بعد امام فرماتے ہیں:

اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد، عمدہ گیہوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کے لیے ذرائع مہیا کر سکتا تھا لیکن ایسا کہاں ہوسکتا ہے کہ خواہشیں مجھے مغلوب بنالیں، اور حرص مجھےاچھے اچھے کھانوں کے چن لینے کی دعوت دے جبکہ حجاز و یمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں کہ جنہیں ایک روٹی کے ملنے کی بھی آس نہ ہو، اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ہوا ہو۔ کیا میں شکم سیر ہو کر پڑا رہا ہوں؟ در آنحالیکہ میرے گرد و پیش بھوک اور پیا سے جگر تڑپتے ہوں یا میں ویسا ہو جاؤن جیسے کہنے والے نے کہا کہ تمہاری بیماری یہ کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو اور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کو ترس رہے ہوں، کیا میں اسی میں مگن رہوں کہ مجھے امیر المومنین کہا جاتا ہے مگر میں زمانہ کی سختیوں میں مومنوں کا شریک و ہمدم اور زندگی کے بد مزگیوں میں ان کے لیے نمونہ نہ بنوں! میں اس لیے پیدا نہیں ہوا ہوں کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہوں۔ اس بندھے ہوئے مغلوب چوپایہ کی طرح جسے صرف پنے چارے ہی کی فکر لگی رہتی ہے یا اس کھلے ہوئے جانور کی طرح جس کا کام منہ مارنا ہوتا ہے، وہ گھاس سے پیٹ بھر لیتا ہے اور جو اس سے مقصد پیش نظر ہوتا ہے اس سے غافل رہتا ہے کیا میں بے قید و بند چھوڑ دیا گیا ہوں؟ یا بیکار کھلے بندوں رہا کر دیا گیا ہوں کہ کمراہی کی رسیوں کو کھینچتا رہوں اور بھٹکے جگہوں میں منہ اٹھائے پھرتا رہوں؟(41)

------------------

(41)- ایضا ص 363

۳۷

امام علیہ السلام کے اس نورانی کلام میں غور و فکر کرنا اسلامی معاشرے کے حکمرانوں کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے مولا کی پیروی کرتے ہوئے دنیا کی زیب و زینت اور تجملات سے پرہیز کریں، ان لوگوں کی بھی فکر کریں جن کے پاس کھانے کے لیے روٹی کا ایک نوالہ بھی نہیں ہے؛ اس صورت میں حکمرانوں کی انسانی جذبہ میں طوفان آئے گا اور معاشرے کی مشکلات کو حل کرنے کی فکر میں پڑیں گے۔ اسی خط میں امام علیہ السلام دنیا کی مکر اور دھوکہ بازی کو بھی بیان کرتے ہیں اور اپنے حکمرانوں سے فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں کے حالات پر غور و فکر کریں جوزمین کےاندر دفن ہو چکے ہیں اور اپنی دنیا کو دوسروں کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ اس کے بعد امام علیہ السلام دنیا داری سے دور رہنے کی سخت تاکید کرتے ہیں اور دنیا پرستوں کو وارننگ دیتے ہیں۔ ساتھ ہی دنیا میں اپنی حالت کو بھی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح آپ ؑ نے دنیا کی مہار کو اپنے ہاتھ میں لیا نہ کہ اپنی مہار کو دنیا کے ہاتھ میں دیا۔ اور آخر میں عثمان بن حنیف کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَاتَّقِ اللَّهَ يَا ابْنَ حُنَيفٍ وَ لْتَكفُفْ إَقْرَاصُكَ لِيَكُونَ مِنَ النَّارِ خَلَاصُك‏

پس اللہ سے ڈرو اے ابن حنیف!اور اپنی روٹی کے نوالوں پر بس کرو تا کہ تو دوزخ کی آگ سے بچ سکے۔

دنیا کی زینتوں کی طرف دل لبھاناذاتی نقصانات اور برے اثرات کے علاوہ سماج میں اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جو انسان دنیا پرست بن جائے وہ خود کو تباہ و برباد کرنے کے علاوہ معاشرہ کو بھی تباہ و بربادی کے کنویں میں دھکیل دے گا، امام علیہ السلام مالک اشتر کے عہد نامہ میں لکھتے ہیں:

۳۸

فَإِنَّ الْعُمْرَانَ مُحْتَمِلٌ مَا حَمَّلْتَه‏ وَ إِنَّمَا يُؤْتَى‏ خَرَابُ‏ الْإَرْضِ‏ مِنْ إِعْوَازِ إَهلِهَا وَ إِنَّمَا يُعْوِزُ إَهلُهَا لِإِشْرَافِ إَنْفُسِ الْوُلَاةِ عَلَى الْجَمْعِ وَ سُوءِ ظَنِّهِمْ بِالْبَقَاءِ وَ قِلَّةِ انْتِفَاعِهِمْ بِالْعِبَرِ

کیونکہ ملک آباد ہے تو جیسا بوجھ اس پر لا دوگے، وہ اٹھالے گا اور زمین کی تباہی تو اس سے آتی ہے کہ کاشتکاروں کے ہاتھ تنگ ہو جائیں اور ان کی تنگ دستی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ حکام مال و دولت کو سمیٹنے پر تل جاتے ہیں اور انہیں اپنے اقتدار کے ختم ہونے کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور عبرتوں سے بہت کم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔(42)

امام علیہ السلام اپنی پوری حکومت کے کے دوران دنیا کی مذمت اور آپ کے دنیا سے تعلق کے علاوہ اپنے گورنروں او رحکمرانوں کو بھی دنیا کی زینتوں او ررنگینیوں سے دور رہنے کی تاکید فرماتے تھے، اور انہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طرز زندگی کی یاد دہانی فرماتے تھے۔(43)

----------------

(42)- ترجمہ مفتی جعفر ص 459 مکتوب 53

(43)- ایضا ص 373 خ 159

۳۹

ب: سماج میں رہنے والے عام لوگوں کی دنیا پرستی

یہ بات واضح ہے کہ صرف حکمرانوں، گورنروں اور صاحب اقتدار لوگوں کی دنیا کی طرف رغبت اور تمایل مذموم نہیں ہے بلکہ اس مشکل میں اگر امت مسلمہ بھی پڑ جائے تو بھی حکومتیں ہی نابود اور برباد ہوں گی۔

حضرت علی علیہ السلام خطبہ 131 میں لوگ اور معاشرے کی تباہی کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَ تَعَادَيْتُمْ‏ فِي‏ كَسْبِ‏ الْأَمْوَالِ‏

اور مال کے کمانے پر ایک دوسرے سے دشمنی رکھتے ہو۔(44)

اگر کوئی امت دنیا پرستی میں مبتلاء ہونے کے بعد متزلزل ہو جائے اور پر معنی بلندیوں کو سر کرنے کے بجائے ذلت و پستی کے گہرائی کھائی میں گر پڑے تو آپ ع کی نظر میں وہ امت کبھی بھی فلاح و سعادت حاصل نہیں کر سکے گی:

فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ تَغَيَّرَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ‏ عَنْ‏ كَثِيرٍ مِنْ حَظِّهِمْ فَمَالُوا مَعَ الدُّنْيَا وَ نَطَقُوا بِالْهَوَى وَ إِنِّي نَزَلْتُ مِنْ هَذَا الْإَمْرِ مَنْزِلًا مُعْجِبا اجْتَمَعَ بِهِ إَقْوَامٌ إَعْجَبَتْهُمْ إَنْفُسُهُمْ وَ إَنَا إُدَاوِي مِنْهُمْ قَرْحاً إَخَافُ إَنْ يَكُونَ عَلَقاً

کتنے ہی لوگ ہیں جو آخرت کی بہت سی سعادتوں سے محروم ہو کر رہ گئے ۔ وہ دنیا کے ساتھ ہو لیے۔ خواہش نفسانی سے بولنے لگے۔ میں اس معاملے میں ایک حیرت و استعجاب کی منزل میں ہوں کہ جہان ایسے لوگ اکھٹے ہوں گے جو خود بینی، اور خود پسندی میں مبتلا ہیں۔ میں ان کے زخم کا مداوا تو کر رہا ہوں مگر ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ منجمد خون کی صورت اختیار کر کے لا علاج نہ ہوئے۔ (45)

----------------

(44)- ترجمہ مفتی جعفر ص 325 خ 131

(45)- ترجمہ مفتی جعفر ص 695 مکتوب 78۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85