ایک سو بیس درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے

ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے0%

ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 72

ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد رضا کفاش
زمرہ جات: صفحے: 72
مشاہدے: 51203
ڈاؤنلوڈ: 2661

تبصرے:

ایک سو بیس درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51203 / ڈاؤنلوڈ: 2661
سائز سائز سائز
ایک سو بیس  درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے

ایک سو بیس درس حضرت محمد (ص) کی زندگی سے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مومن کی نماز کا اجر

آپ ( ص ) مسکراتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے، کسی نے اس کی وجہ پوچھی،تو آپ نے فرمایا:میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مجھے دو فرشتہ نظر آئے جو زمین کی طرف آرہے تھے تاکہ مومن کی رات اور دن کی عبادتوں کا اجر لکھیں، وہ بندہ جو ہر روز اپنی عبادتگاہ میں نماز میں مشغول رہتے تھے لیکن اس وقت اسے اپنی عبادتگاہ میں نہیں پایا بلکہ بیماری کے عالم میں بستر بیماری پر پایا، یہ دونوں فرشتے آسمان کی طرف گئے اور خدا سے عرض کرنےلگے کہ ہم ہر روز کی طرح آج بھی اس کی عبادتوں کا اجر لکھنے اس کی عبادتگاہ میں گئے لیکن اسے وہاں نہیں پایابلکہ اسے بیماری کے بستر پر پایا۔

خداوند عالم ان دونوں فرشتوں سے کہے گا: جب تک وہ بیماری کے بستر پر رہے گا اس کے لیے عبادت کا ثواب لکھتے رہیں ، یہ مجھ پر ہے کہ جب تک وہ بستر بیماری پر ہےعبادتوں کا اجر اسے دیتا رہوں۔(29)

نماز کی تأثیر

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:ہم رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ساتھ مسجد میں وقت نماز کے داخل ہونے کا انتظار کر رہے تھے ، اس دوران ایک آدمی اٹھا اور کہا: اے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! میں نے ایک گناہ کیا ہے اس کی مغفرت کے لیے کیا کروں؟ آپ ( ص ) نے اس سے منہ پھیر لیا۔ جب نماز تمام ہو گئی تو اس آدمی نےپھر سے اپنی بات کو دہرایاتو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: کیا تم نے ابھی ابھی ہمارے ساتھ نماز ادا نہیں کی؟ کیا نماز کے لیے اچھی طرح وضو نہیں کیا؟ اس نےعرض کیا: ہاں یا رسول اللہ! میں نے ایسا ہی کیا۔ اس وقت آپ ( ص ) نے فرمایا: نماز تیرے گناہ کا کفارہ اور بخشش کا سامان ہو جائے گی۔(30)

----------------------

(29)- فروع کافی ، ج 1، ص 31.

(30)-بحارالانوار، ج 82، ص 319.

۲۱

تحفہ

ایک دن ابن عباس رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں حاضر ہوا ، مہاجرین او رانصار میں سے بھی بعض لوگ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: جو بھی بازار جائے اور اپنے گھر والوں کے لیے کوئی تحفہ خرید لے وہ اس انسان کی طرح ہے جس نے فقیروں کیلئے اپنے کاندھے پر صدقہ اٹھایا ہوا ہو۔

نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: جب میوہ، کھانا یا کوئی دوسرا تحفہ بانٹنا شروع کرو تو پہلے بیٹی سے شروع کرو پھر بیٹے کو دو، بتحقیق جو کوئی اپنی بیٹی کو خوش کرے گا وہ اس انسان کی مانند ہے جس نے اسماعیل کی اولاد میں سے ایک غلام کو آزاد کیا ہو اور جو کوئی اپنے بیٹے کو خوش کرے اور اسے دوسروں کے ہاتھوں کی طرف دیکھنےسے بے نیاز کرے تو وہ اس انسان کی مانند ہے جو خوف خدا میں رویا ہو اور جو کوئی خوف خدا میں روئے خدا اسے جنت میں داخل کر دے گا۔(31)

سیکھنا سکھانا

ایک دن مدینہ منورہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)مسجد میں وارد ہوئے، آپ ( ص ) کی نگاہیں دو گروہوں پر پڑیں ، ایک گروہ عبادت اور ذکر خدا میں مصروت تھا ، جبکہ دوسرا گروہ تعلیم اور تعلم ، سیکھنے اور سکھانے میں مصروف تھا، آپ ( ص ) ان دونوں گروہوں کے دیکھنے سے مسرور ہوئے اور اپنے اصحاب سے فرمایا: یہ دونوں گروہ نیک کام کر رہے ہیں لیکن میں لوگوں کو تعلیم دینے اور علم سکھانے کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ پس آپ ( ص ) بھی اس گروہ میں شامل ہو گئے جو تعلیم و تعلم میں مصروف تھا۔(32)

------------------

(31)-تحفة الواعظین ، ج 6، ص 109، نقل از وسائل الشیعہ ، ج 7، ص 227.

(32)-در سایہ اولیاء خدا، محمود شریعت زادہ ، ص 40.

۲۲

جسمانی سزا

ابو مسعود انصاری کہتا ہے: میرا ایک غلام تھاکہ میں اسے زدوکوب کر رہا تھا ، پیچھے سے ایک آواز آئی کوئی کہہ رہا تھا: اے ابو مسعود! خدا نے تجھے اس پر توانائی دی ہے۔ (اسے تیرا غلام بنایا ہے) میں نے پلٹ کر دیکھا تو دیکھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ہیں۔

میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے عرض کیا : میں نے اسے خدا کی راہ میں آزاد کیا ۔

اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا : اگر تم یہ کام نہ کرتے تو آگ کے شعلے تجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتے ۔(33)

دوسروں کی طرف دھیان

آپ ( ص ) کسی کی طرف بھی رخ کرتے تھے تو کبھی بھی اس کے سامنے آدھے رخ سے نہیں بیٹھتے تھے بلکہ تمام بدن کو اس کی طرف رکھتے تھے کسی کے ساتھ بھی جفا نہیں کرتے تھے، دوسروں کے عذر کو بہت جلد مان لیتے تھے۔(34)

کام کا ثواب

کسی سفر میں آنحضرت کے بعض اصحاب روزہ دار تھے، سخت گرمی کی وجہ سے ان روزہ داروں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی کونے میں بے حال پڑاہوا تھا، باقی لوگ خیموں کو نصب کرنے، جانوروں کو پانی دینے اور دوسرے کاموں میں مصروف تھے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: پورے کا پورا اجر و ثواب ان لوگوں کو ملے گا جو کسی نہ کسی کام کو انجاد ینے میں مصروف ہیں۔(35)

--------------------

(33)-بحارالانوار 74 / 142، ح 12.

(34)-بحارالانوار، ج 16، ص 228.

(35)-صحیح مسلم ، ج 3، ص 144.

۲۳

سلام کا جواب

کوئی شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا اور کہا "السلام علیک" تو آپ نے جواب میں فرمایا: "و علیک السلام و رحمۃ اللہ " دوسرا آیا اور اس نے یوں سلام کیا: "السلام علیک و رحمۃ اللہ " آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے جواب دیا "و علیک السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ " تیسرا آدمی آیا او راس نے اس طرح سلام کیا"السلام علیک و رحمۃ اللہ و برکاتہ" تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے جواب دیا " علیک" اس وقت اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)میرا جواب کم کیوں دیا؟ کیا خدا کا حکم نہیں ہے کہ اگر گوئی تم پر سلام کرے تو اس سے بہتر انداز میں یا اسی کی طرح ہی جواب دے دیں؟ تو آپ ( ص ) نے فرمایا: تم نے میرے لیے جواب دینے کی کوئی چیز باقی نہیں رکھی لا محالہ مجھے تمہارے سلام کی طرح ہی جواب دینا پڑا۔(36)

جوانان

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اہم ثقافتی،سماجی اور فوجی ذمہ داریوں کو جوانوں کے سپردکرتے تھے۔ہجرت سے پہلے مصعب بن عمیر کو جو کہ ایک نوجوان تھا،آپ (ص) کی طرف سے ثقافتی اور تبلیغی امور کو انجام دینے کے لیے مدینہ بھیجا گیا۔

و قال رسول الله صلى الله عليه و آله لمصعب و كان فتا حدثا و امره رسول الله صلى الله عليه و آله بالخروج ۔(37)

آپ ( ص ) نے مصعب بن عمیر سے جو کہ نوجوان تھے، بات کی اور اسے نکلنے کا حکم دیا۔

یہی جوان جنگ بدر و احد میں اسلامی فوج کا سپہ سالار تھا ، یہ جوان جنگ احد میں بہادری کا مظاہر کرتے ہوئے بدرجۂ شہادت فائز ہوا۔

---------------

(36)-تفسیر المیزان ج 5، ص 33 بہ نقل از تفسیر صافی

(37)-بحارالانوار، ج 6، ص 405.

۲۴

علی کی محبت

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)فرماتے ہیں:معراج کی رات جب مجھے آسمانوں پر لے جا رہے تھے، جہاں جہاں میں پہنچتا تھا فرشتے گروہوں کی شکل میں جوق درجوق میرےاستقبال کو آتے تھے، اس دن جبریل علیہ السلام نے ایک بہت ہی خوبصورت بات کی: اگر آپ ( ص ) کی امت علی علیہ السلام کی محبت پر ایک ہوجاتی تو خدا جہنم کو خلق ہی نہیں کرتا ۔(38)

حسن معاشرت

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنے لباس اور جوتوں کی خود ہی مرمت فرماتے تھے۔ بھیڑ بکریوں کو خود دوہتے تھے۔غلاموں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، خاک پر بیٹھتے تھے اور اس میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ اپنی ضرورت کی چیزوں کو خود ہی بازار سے خریدتےتھے۔ ہاتھ ملاتے وقت جب تک سامنے والا اپنے ہاتھوں کو کھینچ نہیں لیتا آپ ( ص ) اپنے ہاتھوں کو نہیں کھینچتے تھے۔ہر ایک کو سلام کرتے تھے چاہے وہ مالدار ہو یا درویش، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ اگر کسی کھانے پر آپ (ص) کو بلایا جاتا تھا آپ (ص) اسے چھوٹا اور حقیر نہیں سمجھتے تھے چاہے وہ چند عدد خرما ہی کیوں نہ ہو۔

آپ ( ص ) کا روز مرہ کا خرچہ بہت ہی کم تھا، آپ عظیم مزاج ،شائستہ اور خوشگوار چہرہ والے تھے۔ ہنسے بغیر لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ غمگین ہو جاتے تھے لیکن چہرہ نہیں بگھاڑتے تھے۔ متواضع اور فروتن تھے لیکن کبھی بھی حقارت اور ذلت کی بو تک نہیں آتی تھی۔ سخاوت مند تھےلیکن اسراف سے بچ کر۔ قلب نازک کے مالک تھے اور تمام مسلمانوں کے ساتھ نہایت ہی مہربانی سے پیش آتے تھے۔(39)

---------------

(38)-بحارالانوار، ج 40، ص 35.

(39)-سنن النبی ، ص 41، ح 52، از ارشادالقلوب

۲۵

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا پندرہ سال آپ ( ص ) سے بڑی تھی ۔ رحلت کے بعد سے جب بھی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا نام لیا جاتا تھا آپ (ص) عظمت اور احترام کےساتھ اسے یاد کرتے تھے۔ کبھی کبھار آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے، جناب عایشہ کو یہ گوارا نہیں ہوتا تھا۔(40)

آپ ( ص ) فرماتے ہیں: بتحقیق میں خدیجہ کو اپنی امت کی عورتوں پر برتری اور فضیلت دیتا ہوں، جس طرح حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو اپنے زمانے کی عورتوں پر برتری تھی ۔ خدا کی قسم مجھے خدیجہ سلام اللہ علیہا کے بعد اس جیسی خاتون نہیں ملی۔

( مترجم ) تحقیق کرنے والوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ حضرت خدیجہ سلام علیہا عمر میں آنحضرت سے بڑی نہیں تھی اور شادی کے وقت کنواری بھی تھی۔ یہ تاریخ لکھنے والوں کی ستم ظریفی یا بغض و عداوت یا کچھ دوسری علتیں تھیں کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہاکو : 1- مطلقہ 2- چالیس سال کا بیان کیا، حالانکہ شادی کے وقت آپ کی عمر پچیس سال تھی اور آپ سلام اللہ علیہا دوشیزہ بھی تھیں۔

------------------

(40)-بحارالانوار، ج 16، ص 81.

۲۶

رابطے کی حفاظت کرنا

ایک شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! میرے رشتے داروں نے مجھ سے ناطے توڑ دیے ہیں اور میرے اوپر حملہ کیا اور مجھے شماتت بھی کی، کیا میں بھی ان کے ساتھ رابطہ توڑ دوں؟

آپ ( ص ) نے فرمایا: اگر تم نے ایسا کیا تو خدا وند عالم رحمت کی نظر تم سب سے ہٹا لے گا۔

اس نے عرض کیا : تو میں کیا کروں ؟آپ (ص) نے فرمایا: جن جن لوگوں نے تجھ سے رابطہ توڑ دیا ہے ان کے ساتھ دوبارہ رابطہ برقرار کرو۔ جس نے تجھے محروم رکھا اسے عطا کرو۔ جس نےتم پر ستم کیا اس کو معاف کرو؛ اس صوت میں خدا ان لوگوں کے مقابلے میں تیری حمایت کرے گا۔(41)

پیدل چلنے والے کا حق

آپ ( ص ) جب سوار ہوتے تھے اصحاب میں سے کسی کو پیدل چلنے نہیں دیتے تھے ، اگر اپنے ساتھ سواری میں جگہ ہوتی تھی تو اسے بھی بٹھا لیتے تھے لیکن اگر جگہ نہیں ہوتی تھی تو اس سے فرماتے تھے کہ فلان جگہ میرا انتظار کرنا۔(42)

فرزند کا حق

آپ ( ص ) سے پوچھا گیا کہ : مجھ پر میرے فرزند کا حق کیاہے؟

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: اس کا اچھا سا نام رکھ دو، اس کو با ادب بناو، اسے مناسب اور نیک کاموں پر مامور کرو۔(43)

--------------------

(41)-محجة البیضاء، ج 3، ص 430.

(42)-سنن النبی ، ص 50، ح 68 از مکارم الاخلاق ، ج 1، ص 22.

(43)-وسائل الشیعہ ، ج 15، ص 198، ح 1.

۲۷

حلال اور حرام

کوئی عرب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حضور مشرف ہوا، اور آپ ( ص ) سے عرض کیا : خدا سے عرض کریں کہ وہ میری دعاکو مستجاب فرمائے۔

آپ ( ص ) نے فرمایا:تم اگر اپنیدعاؤں کو قبول ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہو تو کسب حلال کرو اور حرام سے اپنے اموال کو پاک کرو اور اپنے پیٹ کو بھی حرام سے بچاؤ۔(44)

نرم مزاجی

انس بن مالک کہتا ہے : میں پورے دس سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت اقدس میں رہا۔آپ ( ص ) نے کبھی بھی مجھ سے یہ نہیں فرمایا تم نے کیوں یہ کام انجام دیا؟ یا کیوں تم نے وہ کام انجام نہیں دیا؟(45)

نیز انس سے مروی ہے : میں کئی سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں رہا ، کبھی بھی آپ (ص) نے میری توہین یا تحقیر نہیں کی ۔ کبھی بھی مجھے نہیں مارا۔ کبھی بھی مجھےاپنے پاس سے نہیں بھگایا۔ کبھی بھی مجھ پر غصہ نہیں اتارا۔ کبھی میری خامیوں اور سستیوں کے باعث مجھ پر سختی نہیں کی ۔ جب آپ ( ص ) کے خاندان کا کوئی فرد مجھ پر تشدد کرتا تھا تو آپ ( ص ) اس سےفرماتے تھے : اسے چھوڑ دو ، جو ہونا ہوگا وہ ہوکر رہے گا۔

-----------------

(44)-سفینة البحار، ج 1، ص 448.

(45)-اخلاق النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و آدابہ ، ص 36.

۲۸

حمد

جب بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو کوئی خوشخبری دی جاتی تھی اور آپ ( ص ) خوشحال ہو جاتے تھے تو خدا کا شکر بجا لاتے تھے اور فرماتے تھے :الحمد لله على كل نعمة ۔ہر نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں ۔ اور جب کوئی مصیبت یا آفت پڑتی تھی اور آپ ( ص ) غمگین ہو جاتے تھے تو فرماتے تھے:الحمد لله على كل حال ۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔

خلاصہ یہ ہے کہ کبھی بھی حمد اور شکر آپ کی زبان سے نہیں چھوٹتے تھے۔(46)

غصہ

ایک آدمی حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! کوئی ایسی چیز مجھے سکھائیں کہ خدا اس سے مجھے فائدہ پہنچائے ، اور کوئی مختصر بات کہہ دیں کہ میں اسے آسانی سے یاد رکھ سکوں۔

آپ ( ص ) نے فرمایا: غصہ نہ کرو۔ اس نے پھر عرض کیا : کوئی ایسی چیز مجھے سکھائیں کو میرے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔ اور وہ شخص اپنی بات کو بار بار دہراتا تھا آپ (ص) ہر بار اسے فرماتے تھے : غصہ نہ کرو۔(47)

نیند

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نیند سے جاگنے کے بعد سجدے میں چلے جاتے تھے اور اس دعا کو پڑھتے تھے:

الحمدلله بعثى مرقدى هذا و لوشاء لجعله الى يوم القيمة

تمام تعریفیں اس خدا کے لیے جس نے مجھے نیند سے جگایا اگر وہ چاہتا تھا تو مجھے اسی حالت میں روز قیامت تک باقی رکھتا تھا۔

اور نقل ہوا ہے کہ آپ (ص) سوتے وقت اور نیند سے جاگنے کے بعد مسواک( دانتوں کو برش) کرتے تھے۔(48)

--------------

(46)-اصول کافی ، ج 1، صص 503 - 490.

(47)-سنن بیہقی ، ج 10، ص 105.

(48)-بحارالانوار، ج 73، ص 202.

۲۹

عجب یا خود بینی

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے سامنے کسی کی تعریف کی گئی۔ ایک دن وہ شخص پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی محضر میں پہنچا۔ اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! یہ وہی شخص ہے جس کی ہم تعریف کر رہے تھے۔

آپ ( ص ) نے فرمایا: میں تیرے چہرے پر ایک قسم کا کالا شیطان دیکھ رہا ہوں ، وہ نزدیک آیا اور رسول اللہ کو سلام کیا، آپ نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم! کیا تم نے نہیں کہا تھا کہ : لوگوں میں مجھ سے بہتر کوئی نہیں؟

اس نے جواب میں کہا ہاں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! بجا فرمایا آپ نے۔(49)

کھانا

عصربن ابی سلمہ ، ام المومنین ام سلمی کا بیٹا کہتا ہے: میں ایک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا ، میں برتن کے ہر طرف سے کھا رہا تھا ۔ آپ ( ص ) نے مجھ سے فرمایا: جو کچھ تیرے سامنے ہے اس سے کھاؤ۔(50)

امداد خانہ

عبد اللہ جزعان جو ایک بوڑھا اور فقیر تھا، ایک گھر بنا رہا تھا، حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے جو ان دنوں سات سال کے تھے، بچوں کو جمع کیا اور عبد اللہ کی مدد کو تشریف لے گئے تاکہ اس کا گھر بن جائے۔ یہاں تک کہ اس گھر کا نام امداد خانہ رکھا اور بعض لوگوں کو مظلوموں کی مدد کرنے پر مامور کیا۔(51)

-----------------

(49)-محجة البیضاء، ج 6، ص 240.

(50)-صحیح بخاری ، ج 7، ص 88.

(51)-حیوة القلوب ، ج 2، ص 67.

۳۰

ماں کے پاس

ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں آیا اور کہا : میں ایک چست و چالاک جوان ہوں اور چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں جہاد کروں؛ لیکن میری ماں اس کام پر راضی نہیں ہے۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا جاؤ اور جا کر اپنی ماں کی خدمت کرو ، اس خدا کی قسم جس نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے ماں کی ایک رات کی خدمت ایک سال خدا ہ کی راہ میں جہاد سے افضل ہے۔(52)

ہاتھوں کا بوسہ لینا

ایک آدمی نے چاہا کہ آپ ( ص ) کے ہاتھوں کو چوم لے ، آپ ( ص ) نے ہاتھ کھینچ لیا اور فرمایا : یہ کام عجم والے اپنے بادشاہوں سے کرتے ہیں میں بادشاہ نہیں ہوں بلکہ میں تم میں سے ایک آدمی ہوں۔(53)

میزبان کے لیے دعا

جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں: ابوالہیثم نے کھانا بنایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو اصحاب سمیت کھانے پر دعوت دی ، جب اصحاب کھانے سے فارغ ہو گئے تو آپ ( ص ) نے ان سے کہا اپنے میزبان بھائی کو ثواب پہنچائیں۔ اصحاب نے کہا : میزبان کو کس طرح ثواب پہنچائیں؟ آپ (ص) نے فرمایا: جب کسی گھر میں داخل ہوجائیں اس کے گھر سے کھائیں پئیں تو اس کےلیےدعائے خیر کریں، اس کام سے میزبان کو ثواب حاصل ہوتا ہے۔(54)

--------------

(52)-اصول کافی ، ج 4، ص 50، ح 8.

(53)-خیانت در گزارش تاریخ ، ج 3، ص 271.

(54)-جامع الاصول من احادیث الرسول ، ج 5، ص 101.

۳۱

آبروئے مومن سے دفاع

ابو درداء کہتا ہے: ایک آدمی نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں کسی کے بارے میں برا بھلا کہا، کسی ایک نے اس سے دفاع کیا ۔ اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: جو کوئی اپنے مومن بھائی کی آبرو کا دفاع کرے یہ آتش جہنم کے لیے ڈھال اور سپر بنے گا۔(55)

دنیا داری

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:قیامت کے دن ایک گروہ کو حساب کتاب کے لیے لایا جائے گاجن کے اعمال تہامہ کے پہاڑ کی مانند ایک دوسرے پر سجا کر رکھے ہوئے ہیں! لیکن خدا کی طرف سے حکم آئے گا کہ انہیں جہنم لے جائیں ۔ اصحاب نے سوال کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! کیا یہ لوگ نماز پڑھتے تھے؟ آپ ( ص ) نے فرمایا:

ہاں، یہ لوگ نماز پڑھتے تھے روزہ رکھتے تھے رات کا کچھ حصہ عبادت میں گزارتےتھے ، لیکن جونہی دنیا داری کا کوئی موقع ملتا تھا جلدی سے اس پر جھپٹ پڑتے تھے۔(56)

جنگ و جدال سے دوری

ایک دن رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنے اصحاب کے پاس آئے تو دیکھا وہ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ و جدال کر رہے ہیں ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سخت ناراض ہوئے اورچہرہ مبارک سرخ ہوگیا جیسے انار کا کوئی دانہ رخسار پر پھٹ گیا ہو ، اور فرمایا:کیا تم لوگ اسی کام کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور اسی کام پر مامور ہو کہ قرآن کے بعض کو دوسرے بعض سے مخلوط کرتے ہو؟ سوچو تم کن کاموں پر مامور ہو کہ انہیں بجا لاو! کن کاموں سے نہی کی گئی ہے کہ ان سے اجتناب کرو!(57)

-----------------

(55)-وسائل الشیعہ ، ج 7، ص 607.

(56)-امالی الاخبار، ص /465.

(57)-محجة البیضاء، ج 6، ص 321.

۳۲

اہل بیت علیہم السلام سے دوستی

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: جو کوئی یہ چاہتا ہو کہ میری طرح زندگی گزارےمیری طرح اس کو موت آجائے اور مرنے کے بعد جنت کے باغوں میں جنہیں پروردگار نے میرے لیے بنایا ہے جگہ حاصل کرے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ میرے بعد علی علیہ السلام کو دوست رکھے اور اس کے بعد والے اماموں کی اقتداء کرے کہ یہ ہستیاں میری عترت ہیں میری طینت (مٹی) سے انہیں خلق کیا ہےاور انہیں علم عطا کیا گیا ہے، میری امت میں ان پر افسوس ہو جو میری عترت کی برتری اور مقام و منزلت کا انکار کریں، اور میرے ساتھ ناطہ توڑ دیں ، خدا وند ان لوگوں کو میری شفاعت سے محروم کرے گا۔(58)

مومن کی زیارت

انس بن مالک کہتا ہے : رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی سیرت یہ تھی کہ اگر تین دن کسی مومن بھائی کو نہیں دیکھتے تو اس کی خبر لیتے تھے، چنانچہ اگر وہ مومن بھائی سفر پر گیا ہوا ہوتا تو اس کے حق میں دعا کرتے تھے۔ اور اگر گھر میں ہوتا تھا تو اس کے دیدا ر کو تشریف لے جاتے تھےاور جب بھی کسی کی بیماری کی خبر مل جاتی تھی تو اس کی عیادت کو جاتے تھے۔(59)

-----------------

(58)-حلیة الاولیاء ج 1، ص 86.

(59)-بحارالانوار، ج 16، ص 223 و اخلاق النبی ، ص 74.

۳۳

حقیقی پاگل

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: ہم پیغمر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ساتھ کسی گروہ سے گزرے، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان سے فرمایا:تم لوگ کس لیے اکھٹے ہوئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یہ آدمی پاگل ہے اور بے ہوش ہو جاتا ہے ہم اس کے ادر گرد جمع ہوئے ہیں۔ آپ ( ص ) نے فرمایا: یہ پاگل نہیں ہے بلکہ بیمار ہے ۔ اس کے بعد فرمایا: کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ اصلی پاگل کو پہچان لو؟ سب نے عرض کیا ہاں! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)۔

آپ ( ص ) نے فرمایا: پاگل وہ شخص ہے جو فخر اور تکبر کے ساتھ زمین پر چلتا ہےاور ٹیڑی آنکھوں سے دوسروں کو دیکھتا ہے،مستی اور نخرہ کے ساتھ کاندھا ہلاتا ہے، اور گناہ کرنے کے ساتھ ساتھ خدا سے جنت کا متمنی بھی رہتا ہے۔ لوگ اس کےشر سے امان میں نہیں ہوتے، اور اس سے کسی خیر اور نیکی کی امید نہیں کرتے ، وہ اصلی پاگل ہے لیکن یہ آدمی صرف بیمار اور ذہنی پریشانی میں مبتلا ہے۔(60)

ذکر اور دعا

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ذکر اور دعا کے لیے آواز اونچی کرنے کو جو کہ اکثر ریاکاروں کا طریقہ ہے پسند نہیں فرماتے تھے۔ سفر میں آپ کے اصحاب جب درہ میں پہنچتےتھے اونچی آواز میں تکبیر اور تہلیل پڑھتے تھے۔ آپ ( ص ) نے فرمایا: آہستہ پڑھیں، جس کو تم پکار رہے ہیں نہ بہرا ہے اور نہ وہ دور ہے، وہ ہر جگہ تمہارے ساتھ ہےسننے والا اور وہ تمہارے بہت قریب ہے۔(61)

--------------------

(60)-خصال شیخ صدوق (قدس سرہ )، ص 295.

(61)-صحیح بخاری ، ج 4، ص 57.

۳۴

چلنا

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب مرکب پر سوار ہو کر کہیں تشریف لے جاتے تھے تو اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئی ان کے ساتھ پیدل چلے۔چلتے وقت تواضع، وقار اور تیزی کے ساتھ چلتے تھے، اور خود کو ناتوان، کمزور اور سست نہیں دکھاتے تھے۔(62)

جانوروں کے ساتھ مہربانی

عبد الرحمن بن عبد اللہ کہتا ہے: کسی سفر میں ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ساتھ تھےآپ ( ص ) کی نگاہیں کسی حمرہ (چڑیا جیسا کوئی پرندہ) پر پڑیں کہ اس کے ساتھ دو چوزے بھی تھے، ہم نے چوزوں کو اٹھا لیا وہ پرندہ آکر ہماے ادر گرد پر مارنے لگا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے یہ منظر دیکھا تو فرمایا: تم میں سے کون اس کے بچوں کی نسبت خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے؟اس کے بچوں کو اسے لوٹا دیں۔(63)

لوگوں کی رعایت

معاذ بن جبل سے روایت ہوئی ہے، وہ کہتا ہے کہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مجھے یمن بھیجا اور مجھ سے فرمایا: معاذ! جب بھی سردیوں کا موسم آجائے تو صبح کی نماز صبح طلوع ہونے کی شروع میں بجا لاؤ حمد اور سورہ کو لوگوں کی توانائی اور ان کے حوصلے کے مطابق پڑھو، حمد و سورہ کو لمبا کرکے انہیں نہ تھکاؤ۔اور گرمیوں میں صبح کی نماز کو روشنی پھیل جانے کے بعد پڑھو، کیونکہ رات مختصر ہے اور لوگوں کو آرام کرنے کی ضرورت ہے انہیں چھوڑ دیں کہ اپنی ضرورت کو پورا کریں ۔(64) (یعنی ان کی تھکاوٹ دور ہونے تک صبر کریں )

---------------------

(62)-بحارالانوار، ج 16، ص 236.

(63)-الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ ، ج 1، ص 144

(64)-اخلاق النبی صلی اللہ علیہ و آلہ ، ص 75.

۳۵

دوسروں کے حقوق کی رعایت

ابو ایوب انصاری، مدینہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کا میزبان، کہتا ہے: ایک رات میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لیے کھانے کے ساتھ پیاز اور لہسن بھی تیار کیا اور آپ ( ص ) کے سامنے پیش کیا۔ آپ ( ص ) نے اس سے نہیں کھایا اور اسے واپس کر دیا۔ ہم نے انگلیوں کی نشان بھی کھانے میں نہیں پائے۔ میں بے چینی کے عالم میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں گیااور عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! کیوں کھانا تناول نہیں فرمایا؟ آپ اس سے تھوڑا سا تناول فرماتے تاکہ ہم اس سے برکت طلب کرتے؟

آپ ( ص ) نے جواب میں فرمایا: آج کے کھانے میں لہسن تھا اور چونکہ میں کسی اجتماع میں شرکت کرنے جا رہا ہوں اور لوگ مجھ سے ملتے ہیں میرے ساتھ باتیں کرتے ہیں؛ لہذا اس کو کھانے سے معذرت چاہتا ہوں۔

ہم نے اس کو کھالیا اور اس کے بعد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لیے کبھی ایسا کھانا نہیں بنایا۔(65)

لوگوں سے برتاؤ

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جنگ کے میدان میں تھے ، ایک عرب آپ ( ص ) کی خدمت میں آیا اور آپ کی راہوار کے لگام کو تھام لیا اور کہا؛ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ! کوئی ایسا عمل مجھے سکھائیں جس سے میں جنت میں جا سکوں۔

آپ (ص) نے فرمایا:لوگوں سے اس طرح پیش آؤ جیسا کہ تم چاہتے ہو وہ تمہارے ساتھ اسی طرح سے پیش آئیں،اور اس سلوک سے بچو جو اگر لوگ تمہارے ساتھ کریں تو تم ان سے ناراض ہو جاؤ۔(66)

--------------

(65)-سیرہ ابن ہشام ، ج 2، ص 144.

(66)-اصول کافی ، باب انصاف و عدل ، ج 10.

۳۶

مشکلات کو رفع کرنا

حذیفہ کہتا ہے: آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی سیرت یہ تھی کہ جب انہیں کوئی مشکل پیش آتی تھی تو نماز سے پناہ لیتے تھے، اور نماز سے مدد مانگتے تھے۔(67)

روزہ

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ماہ رمضان اور ماہ شعبان کے اکثر ایام کے علاوہ سال کے باقی ایام میں سے بعض ایام بھی روزہ رکھتے تھے۔(68) اسی طرح آپ ( ص ) ماہ رمضان کا آخری عشرہ مسجد میں اعتکاف میں گزارتےتھے۔(69) لیکن دوسروں کے لیے فرماتےتھے کہ :ہرمہینے میں تین دن روزہ رکھیں، اپنی توانائی کے مطابق عبادت کریں۔ وہ عمل جو مسلسل اور بلاناغہ انجام دیا جاتا ہے اللہ کے ہاں اس عمل سے زیادہ پسندیدہ ہے جو انسان کو تھکا دیتا ہے۔(70)

ریاکاری

شداد بن اوس کہتا ہے: میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میں پہنچا، آپ کے چہرہ اطہر پر چھائی ہوئی اداسی نے مجھے مغموم کیا۔ میں نے عرض کیا : آپ کو کیا ہو گیا ہے؟فرمایا: اپنی امت کی نسبت شرک سے ڈرتا ہوں۔

میں نے عرض کیا: کیا آپ کے بعد آپ کی امت مشرک ہو جائے گی؟ آپ ( ص ) نے فرمایا:میرے امتی چاند، سورج اور پتھر کی پوجا تو نہیں کریں گے لیکن ریاکاری کریں گے اور ریاکاری بھی ایک قسم کاشرک ہے۔(71)

---------------

(67)-اصول کافی ، باب انصاف و عدل ، ج 10.

(68)-صحیح بخاری ، ج 2، ص 50

(69)-صحیح بخاری ، ج 2، ص 48.

(70)-صحیح مسلم ، ج 3، ص 161 - 162.

(71)-مجموعہ ورام ، ص 423

۳۷

اس کے بعد سورہ مبارکہ کہف کی اس آیت کی تلاوت کی:

﴿فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَ لاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَداً ﴾ (72)

جو اللہ کے حضور جانے کا امید وار ہے اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ ٹھہرائے۔

گناہوں کا مٹ جانا

سلمان کہتے ہیں: ہم رسول للہ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے ساتھ کسی درخت کے سایے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس درخت کی کسی شاخ کو ہلانا شروع کیا ، اس کے پتے زمین پر گرے۔ آپ ( ص ) نے وہاں موجود لوگوں سے فرمایا: کیا نہیں پوچھو گے کہ میں نے کیا کیا؟میں نے عرض کیا اس کی وجہ آپ ( ص ) ہی بتائیں۔ آپ ( ص ) نے فرمایا:

ان العبد المسلم اذا قام الى الصلاة تحتاتت عنه خطاياه كما تحتاتت ورق هذه الشجرة

جب کوئی بندہ مسلمان نما ز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح گر جاتے ہیں جس طرح سے اس درخت کے پتے گرگئے۔(73)

-----------------

(72)-سورہ کہف : 110 ۔

(73)-امالی شیخ طوسی ، چاپ سنگی ، جزء 6، ص 105.

۳۸

سادہ زندگی

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی بعض بیویاں کہتی ہیں کہ: ہماری زندگیاں بہت ہی سادہ ہیں۔ ہمیں زیورات کی خواہش ہے جنگی غنیمت کے اموال سے ہمیں بھی حصہ دیجیئے۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: میری زندگی نہایت ہی سادہ زندگی ہے۔ میں تمہیں طلاق دے دوں قرآنی دستور کے مطابق مطلقہ کو اتنا کچھ دے دینا چاہیے کو وہ آسانی سے زندگی بسر کر سکے، میں تمہیں کچھ چیزیں بھی دوں گا میری طرح سادہ زندگی گزارنا چاہتی ہیں تو ٹھیک ہے ۔ اگر ایسا نہیں چاہتی ہو توتمہیں آزاد کر دوں گا۔

البتہ سب نے کہا: نہیں، ہم سادہ زندگی گزاریں گی۔(74)

علم و دانش کی ابتداء

ایک آدمی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! مجھے علم و دانش کے عجائبات سکھائیں۔ آپ (ص) نے پوچھا : علم کی ابتداء کے بارے میں کیا جانتے ہو کہ اس کی انتہاء کے بارے میں پوچھتے ہو؟ عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! دانش کی ابتداء کیا ہے؟ آپ ( ص ) نے فرمایا: دانش کی ابتدا ء یہ ہے خدا کی معرفت کا حق ادا کیا جائے۔ اعرابی نے کہا: معرفت کا حق کیا ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا: معرفت کا حق یہ ہے کہ جان لو وہ بے مثل ہے اس کا کوئی مثل،اس کا کوئی ضد اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور یہ بھی جان لو کہ وہ ایک، اکیلا، یکتا، ظاہر ، باطن ، اول اور آخر ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اور اس کی طرح کوئی چیز نہیں ۔ یہ معرفت کا حق اور علم و دانش کی ابتدا ہے۔(75)

----------------

(74)-المیزان فی تفسیرالقرآن ، ج 16، ص 314.

(75)-تفسیر نورالثقلین ، ج 3، ص 399

۳۹

سلام

جب بھی کوئی مسلمان آپ کے پاس آتا تھا تو وہ آپ ( ص ) کو یوں سلام کرتا ہے ؛سلام عليك ، تو آپ ( ص ) اس کے جواب میں کہتے تھےو عليك السلام و رحمة الله، اور اگر وہ سلام میں کہتا ہے کہالسلام عليك و رحمة الله ، تو آپ ( ص ) جواب میں کہتے تھے؛و عليك السلام و رحمة الله و بركاته ، اس طرح آپ ( ص ) سلام کے جواب میں کسی چیز کا اضافہ کرتے تھے۔(76)

بچوں کو سلا کرنا

انس بن مالک سے نقل ہواہے وہ کہتا ہے: جب بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کا گزر بچوں سے ہوتا تھا تو آپ ( ص ) ان کو سلام کرتے تھے۔(77)

تین حکمتیں

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی کسی تلوار پر یہ تین جملے لکھے ہوئےتھے؛ 1- اس سے رابطہ برقرار کرو جو تجھ سے رابطہ توڑ دیتا ہے۔ حق بات کرو چاہے تمہارے نقصان میں ہو، نیکی کرو اس کے ساتھ جو تمہارے ساتھ بدی کرے۔(78)

-----------------

(76)-مستدرک الوسایل ، ج 2، ص 70.

(77)-مکارم الاخلاق ، ص 16.

(78)-سفینة البحار، ج 1، ص 516.

۴۰