اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 93963
ڈاؤنلوڈ: 2587

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 93963 / ڈاؤنلوڈ: 2587
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے اور یہ محسوس ہوتاہے کہ اسلامی اخلاقیت کس طرح ایک فعال طاقت اور تعمیری اقدام کا کام دیتی ہے۔

اسلامی نظام کا رواج اس اخلاقیت سے فائدہ اٹھاسکتاہے۔اسے پسماندگی کے خلاف جدوجہد میں استعمال کرسکتاہے اور دوسرا نظام اس سے کوئی استفادہ نہیں کرسکتابلکہ اس کے لئے یہ نظریات ونفسیات ایک سنگ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔جیسا کہ یورپ کے بعض مفکرین نے احساس کیاہے اور انہوں نے کہا ہے کہ ہمارا اقتصادی نظام اسلامی طبیعت وعقلیت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوسکتا۔

''جوک اسٹروی''اپنی کتاب''اقتصادی ارتقائ''میں اس حقیقت کا کھلاہوا اعتراف کرتاہے۔یہ اور بات ہے کہ وہ اس کے منطقی تسلسل کا ادراک نہیں کرسکا اور اسے یہ نہیں معلوم ہے کہ یورپین اخلاقیت اور اسلامی ذہنیت کے بنیادی عناصر کیا ہیں؟

ان کی کڑیاں اور حدود اربعہ کہاں سے کہاں تک پھیلے ہوئے ہیں اور اسی لئے اس نے قدم قدم پر ٹھوکریں کھائی ہیںجن کی طرف استاد محمد المبارک نے مقدمۂ کتاب ہی میں اشارہ کر دیاہے۔اور استاد نبیل صبحی الطویل نے عربی ترجمہ میں واضح کردیاہے۔

میرادل چاہتاہے کہ میں آئندہ کسی فرصت میں اس موضوع کو تفصیل سے لکھوں اور یہ واضح کروں کہ اس کے اسباب وعوامل کیاہیں؟

لیکن اس وقت تو اختصار کے ساتھ صرف اتنا کہنا ہے کہ عالم اسلامی کا آسمان کی طرف متوجہ رہنا۔اس کے قضاوقدر کے سپردہوکراپنے کو حالات کے حوالے کردینے کے مرادف نہیں ہے۔

آسمانی غیبیات پر عقیدہ اس کی قوت عمل کو مفلوج ومشلول نہیں بناتاجیساکہ جوک اسٹروی نے خیال کیاہے بلکہ یہ عقیدہ انسان میں آسمانی خلافت کے تصور کو مستحکم بناتاہے اور اسے یہ احساس دلاتاہے کہ وہ زمین پر اللہ کاخلیفہ اور جانشین ہے اس کی ذمہ داری روئے

۱۲۱

زمین کو آبادومعمور رکھنا ہے۔

میری نظرمیں انسانی طاقت وقدرت کی کوئی ضمانت اس سے بالاتر نہیں ہے کہ وہ کائنات کے مالک اور احکم الحاکمین کا نمائندہ ہے اور اس کی مسئولیت وذمہ داری کی اس سے بلند تر کوئی دلیل نہیں ہے جتنی خلافت ونیابت کی مسئولیت ہے۔خلافت مملکت میں مسئولیت کا تقاضہ کرتی ہے اور مسئولیت حریت و ارادہ۔شعور واختیار کے ساتھ حالات کو بدلنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

وہ خلافت بے معنی ہے جس کے ساتھ اختیار واقتدار نہ ہو اور وہ نیابت بے مقصد ومفہوم ہے جو کسی مقیدواسیر کے حوالہ کر دی جائے۔اسی لئے میں نے یہ دعویٰ کیاہے کہ زمین کو آسمان کا رنگ دے دینا مرد مسلم کی طاقتوں کو ابھاردینے اور اس کے امکانات کو بیدار کردینے کے مرادف ہے۔اورزمین کا آسمان سے جداکرکے اس کے رشتے کو منقطع کردینا معنیٰ خلافت کو معطل کرکے اسے جامد بنادینے کے برابر ہے۔

انسان کی سلبیت اور ا س کی طاقتوں کا منفی پہلو آسمان کے رابطہ سے نہیں پیدا ہوتا بلکہ قوائے عمل کے سست ہوجانے سے پیداہوتاہے جو زمین کو اسلامی عقلیت واخلاقیت کے مخالف رنگ دے دینے کا واضح نتیجہ ہے۔

اس کے علاوہ اسلام کوپوری زندگی کی بنیاد قراردینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح زندگی کے مادی اور روحانی دونوں پہلو ایک بنیاد پر قائم ہوں گے اور روح وجسم دونوں کی تسکین کا مکمل سامان ہوگا اور دوسرے نظاموں کے اپنانے میں اجتماعی تعلقات اور مادی حیات کی اصلاح ہوسکے گی لیکن روحانیت پامال ہوجائے گی اور اس کے لئے دوسرے نظام کی تلاش کرنا پڑے گی۔جو دور حاضر میں اسلام کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔

مقصد یہ ہے کہ اجتماعی تنظیم میں کسی ایسے دستور کا اپنانا جس سے اسلام کے روحانی نظام کی ضرورت باقی رہ جائے انتہائی مہمل کام ہے جب کہ اسلام جیساجامع اور ہمہ گیر نظام

۱۲۲

موجود ہے جو روح وجسم کی بیک وقت تسکین کرتاہے اور ایک کودوسرے سے الگ نہیں ہونے دیتا۔اسلام وہ واحد دستور حیات ہے جو اپنی ضرورت کو اس وقت تک محسوس کرتارہے گا جب تک اسلام میں روحانی اور اجتماعی نشاط کی ضرورت باقی ہے اور دونوں باہمی اتفاق واتحاد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

محمد باقرالصدر

۱۲۳

۱۲۴

ابتدائیہ

ناظرین کرام !کتاب'' فلسفتنا'' کے خاتمہ میں ہم نے یہ ذکر کیا تھا کہ یہ کتاب ان اسلامی درسیات کی پہلی کڑی ہے جن کا تعلق براہ راست اسلام کی بنیادی عقیدہ ''توحید''سے ہے اور اس کے بعد اس تعمیر کے دیگر طبقات سے بحث کی جائے گی تاکہ اس طرح انسا ن کے ذہن میں اسلام کی ایک مکمل تصویر آ جائے اور وہ یہ اندازہ کر سکے کہ اسلام ایک زندہ عقیدہ اور زندگی کے لئے ایک مکمل نظام ہے جس میں تربیت فکر کے صحیح طریقے بیان کئے گئے ہیں۔

''فلسفتنا''کے اختتام پر یہ تذکرہ کرتے ہوئے ہمارے ذہن میں یہ تھا کہ اس سلسلہ کی دوسری کڑی اسلامی اجتماعیات کو قرار دیا جائے گاتاکہ اس سے حیات کے بارے میں اسلامی افکار اور پھر ان کے تحت تشکیل پانے والے عملی نظام کا صحیح تجزیہ کیا جا سکے لیکن بعض احباب کے اصرار نے اس بات پر مجبور کر دیا کہ معاشیات کی بحث کو اجتماعیات پر مقدم کر دیا جائے۔

اس لئے کہ معاشیات عصر حاضر کا حساس ترین موضوع ہے اور اس کے بارے میں اسلام کے افکار واقدار، تعلیمات وامتیازات کا سامنے آنا انتہائی ضروری ہے۔ ہم نے

۱۲۵

اسی اصرار کا لحاظ کرتے ہوئے انتہائی کوشش سے اس سلسلہ کو قلیل مدت میں مکمل کر دیا تاکہ کتاب بر وقت منظر عام پر آ سکے۔ یہ اور بات ہے کہ بعض نا گزیر حالات کی بناء پر کسی نہ کسی قدر تاخیر ضرورہو گئی تاہم علامہ جلیل السید محمدباقر الحکیم کے خدمات کاتذکرہ بھی انتہائی ضروری ہے ۔ جن کے ذریعے ان سخت حالات کا مقابلہ کرکے کتاب کو منظر عام پرلایا گیا ہے۔

اقتصادیات کے بارے میں بحث کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتاہے کہ اس لفظ کے سلسلہ میں بعض ان اشتباہات کا ازالہ کردیاجائے جن میں اکثر اہل قلم مبتلا ہوگئے ہیںاور اس طرح یہ موضوع اپنے تاریخی ابہام پر باقی رہ گیاہے۔

یادرکھئے اقتصادیات کے بارے میں دوقسم کی بحثیں ہوتی ہیں۔جن میں سے ایک کو دوسرے سے جداکرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ مطلوب نہایت ہی واضح شکل میں ہمارے سامنے آسکے۔ان دونوں قسموں کا عنوان ہے نظری اقتصاد اور عملی اقتصاد جس کو علمی اور مذہبی کے عنوان سے بھی دیا کیاجاسکتاہے۔

نظری یا علمی اقتصاد سے مراد ان قوانین کا معلوم کرناہے جن کے ذریعہ اقتصادی زندگی کے آثار وظواہر کے اسباب وعلل کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔

ظاہر ہے کہ اس پہلو کے اعتبار سے یہ علم بالکل نوزائیدہ ہے اس کا وجود چار صدی قبل بھی نہ تھا۔یہ اور بات ہے کہ تاریخ کے ہردور میں انسان نے لاشعوری طور پر ان اسباب وعلل کو معلوم کرنے کی کوشش کی ہے خواہ وہ ان نتائج تک نہ پہنچ سکا ہوجو قدرت نے آخری صدیوں کے لئے محفوظ کر رکھے تھے۔

عملی یا مذہبی اعتبار سے اقتصاد سے مراد اس طریقۂ زندگی کا معلوم کرنا ہے جس سے انسان کے اجتماعی حالات خوشگوار ہوسکیں اور وہ اپنے عملی مشکلات کو حل کرسکے۔

اس پہلو کے اعتبار سے کوئی ایسا معاشرہ متصور ہی نہیں ہوسکتاجو عملی اقتصادیات سے خالی رہاہو۔ اسلئے کہ جب بھی کسی معاشرہ نے پیداوار اور تقسیم ثروت کے اعمال انجام

۱۲۶

دئے ہوں گے تو ان کے لئے کوئی نہ کوئی نظام یا دستور ضرورمرتب ہوگا اسی نظام سے اس کے عملی اقتصاد کی تحدید ہوسکتی ہے۔

اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ اقتصادی زندگی کی تنظیم کے لئے کسی ایک طریقہ کاا ختیار کرلینا کوئی اتفاقی بات نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر کچھ اخلاقی ،عملی یا کسی دوسرے قسم کے افکار ہوتے ہیں جو اس طریقہ کے خطوط ونشانات معین کرتے ہیں لہٰذا ہر عملی بحث سے پہلے ان افکار کا جائزہ لینا ضروری ہے جن کی بناپر کوئی طریقۂ کار اپنایاگیاہے یا کسی نظام معیشت کو حتمی قرار دیاگیاہے۔

مثال کے طور پر اگر ہم سرمایہ دار نظام کی اقتصادی آزادی پر تبصرہ کرنا چاہیں تو ہمیں سب سے پہلے ان افکار کا جائزہ لینا پڑے گا جن کی بناپر سرمایہ دار نظام آزادی کا احترام کرتاہے اور اس کی بقاء کی راہیں پیداکرتاہے۔

نظری اقتصاد نے جب سے انسانی فکر کی راہوں پر تسلط پیداکرنا شروع کیاہے اسی وقت سے ایسا ہونے لگاہے کہ عملی اقتصادیات ان نظری فکروں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔

مثال کے لئے یوں سمجھ لیجئے کہ اہل تجارت نے جب یہ طے کر لیاکہ نظری اعتبار سے ثروت وسرمایہ نقد مال کا نام ہے تو انہوں نے فوراً یہ عملی نظام تشکیل دے دیاکہ تجارت کو فروغ دیاجائے۔زیادہ سے زیادہ مقدار میں مال باہر بھیجا جائے۔درآمد کی قیمت برآمد سے کم لگائی جائے تاکہ اس طرح ثروت یعنی نقدمال کا اضافہ ہوسکے۔

مالتھس نے مردم شماری کی بناپر یہ فیصلہ کیا کہ انسانی پیدائش غلہ کی پیداوار سے کہیں زیادہ ہے اور اس طرح مستقبل میں ایک ہولناک قحط کا اندیشہ ہے۔چنانچہ اس نے تحدید نسل کا قانون وضع کر دیااور اس کے سیاسی واخلاقی احکام بھی بناڈالے۔

اشتراکی مفکرین نے مال کی قدروقیمت کو مزدور کی محنت ومشقت کا نتیجہ قرار دیا اس لئے ان کی نظرمیں سرمایہ دارانہ منافع حرام ہوگئے اور مال تمام ترمزدوروں کاحق

۱۲۷

ہوگیااس لئے کہ انہیں کے تواناہاتھوں نے مادر گیتی کے شکم سے قیمت کو پیداکیاہے۔

مارکس نے اپنے دور میں اتنا اضافہ اور کر دیا کہ تاریخ کے جملہ تغیرات زمانہ کے بعض مادی حالات کے تغیر کا نتیجہ ہیں۔چنانچہ اس کی اس تازہ فکر کی بناپر یہ ضروری ہوگیاکہ عملی اقتصاد کی بحث سے پہلے ان تاریخی عناصر کا تجزیہ کیاجائے جن کی بناپر مارکس کے خیال میں نظام زندگی کا بروئے کارآناقہری اور لازمی تھا۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہاجاسکتاہے کہ اب تک عملی اقتصادیات کے قوانین پر تجارتی طبیعیاتی اور جنسی قوانین حکومت کر رہے تھے اور اب مارکس کے نظریہ کی بناپر تاریخ کے قوانین بھی ان اقتصادی قوانین میں دخل اندازی کرنے لگے اوران کا تجزیہ بھی ضروری ہوگیا۔

اس تمہید سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلامی اقتصادیات سے مراد نظری اقتصاد نہیں ہے۔اس لئے کہ یہ علم صفحۂ تاریخ پر بالکل نوزائندہ ہے بلکہ اس سے مراد علمی اور مذہبی اقتصاد ہے کہ جس کا موضوع بحث وہ احکام وتعلیمات ہیں جنہیں اسلام نے انسان کی اقتصادی زندگی کے لئے وضع کئے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ انہیں احکام کی روشنی میں علوم جدیدہ کے قوانین کا سہارا لیتے ہوئے ان بنیادی نظریات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے جو اسلام نے نظری اقتصاد کے میدان میں اختیارکئے ہیں۔

اقتصادیات کے بارے میں اسلام نے اپنا نظریہ کبھی توبراہ راست ظاہر کر دیا ہے اور کبھی ضمنی طور پر دیگر تعلیمات کے ساتھ ملاکر بیان کیاہے۔مثال کے طورپر یوں سمجھ لیجئے کہ سرمایہ کے بارے میںاسلام کا نقطۂ نظر معلوم کرنے کے لئے ہمیں اس معاملہ پر نظر کرنا پڑے گی جو اس نے سرمایہ دارانہ منافع کے ساتھ کیاہے۔

پیداوار کے آلات ووسائل کے بارے میں اس کا نظریہ ان احکام سے معلوم ہوگاجو اس نے اجارہ(کرایہ پرکسی شیء کودے دینا)،مضاربہ(کسی شخص کو تجارت کے لئے

۱۲۸

مال دینا اور پھر منافع کی فیصدی تقسیم کرنا)،مزارعہ(کسی شخص کوزراعت کے لئے زمین دینا پھر منافع کی بانسبت تقسیم کرنا) وغیرہ کے ابواب میں تقسیم ثروت کے موقع پر وضع کئے ہیں۔

مالتھسکے نظریہ کے بارے میں اس کا نصب العین تحدید نسل کے قانون سے معلوم ہوسکے گا۔اسی طرح تاریخی مادیت کے بارے میں اس کا عقیدہ اس کی اس ثابت و پائیدار طبیعت سے معلوم کیاجائے گا جو تاریخ کے ہر دور کی رہبری کرتی رہی ہے اور اس کے کسی دور سے بھی متاثر نہیں ہوئی۔

اب جب کہ ہم اسلامی اقتصادیات کے مفہوم کو بقدرضرورت واضح کر چکے ہیں تو اصل موضوع کی طرف توجہ کرتے ہوئے کتاب کے اجزاء کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں، کتاب کی پہلی فصل میں مارکس کے نظریہ سے بحث کی گئی ہے اور چونکہ اس نظریہ کا دارومدار تاریخی مادیت پرہے۔اس لئے پہلے اس کا تجزیہ کیاگیاہے۔اس کے بعد اصل موضوع کو چھیڑاگیاہے۔

دوسری فصل کا تعلق سرمایہ داری سے ہے جس میں اس نظام کے اصول اور اس کے نظری اقتصاد سے ارتباط کو واضح کیاگیاہے۔تیسری فصل میں اسلامی اقتصاد کے بنیادی افکار کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔

چوتھی اور پانچویں فصل میں انہیں افکار کے تفصیلات کو عنوان قرار دیتے ہوئے طبیعی ثروت کی تقسیم، شخصی ملکیت کی تحدید،توازن اجتماعی، کفالت باہمی،ضمانت معاشرتی ، صلاحیات حکومت، سیاست مال،وسائل پیداوار وغیرہ سے بحث کی گئی ہے اور اس طرح اسلامی معاشیات کا مکمل نقشہ بالبصیرت حضرات کے سامنے پیش کیاگیاہے۔

آخر کلام میں چند اہم نکات کی طرف اشارہ بھی ضروری ہے جن کی طرف متوجہ رہنا اصل کتاب کے سمجھنے کے لئے بیحد ضروری ہے:

(1) اقتصادیات کے بارے میں اسلام کے افکار کو کتاب میں استدلالی رنگ نہیں دیا گیا

۱۲۹

اس لئے کہ یہ بات موضوع کتاب سے خارج ہے بلکہ اگر کسی مقام پر آیت یا روایت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے تو اس کا مقصد بھی اجمالی اشارہ ہے۔اصل استدلال اپنی پوری تفصیل کے ساتھ فقہ کی کتابوں سے معلوم کیاجاسکتاہے۔

(2) فقہ کے اکثرمسائل اس کتاب میں صرف اس لئے اختیارکئے گئے ہیں کہ انہیں دیگر فقہاء کرام نے پسند فرمایاہے۔اگرچہ مؤلف کی ذاتی رائے اس کے خلاف ہے۔

(3) کتاب کے اکثرمقامات پر شرعی احکام صرف قوانین واصول کی شکل میں بیان کردیئے گئے ہیں اس لئے کہ تفصیلات کا بیان کرنا ہمارے موضوع سے خارج تھا۔

(4) کتاب کے اکثر مقامات پر یہ اشارہ کیاگیاہے کہ اسلام کے جملہ احکام ایک باہمی تسلسل وارتباط رکھتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ احکام صرف ارتباطی قسم کے ہیں کہ ایک حکم کے ساقط ہوجانے سے پوری شریعت ساقط ہوجائے۔بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان احکام سے صحیح استفادہ اسی وقت ہوسکتاہے جب انہیں مکمل طورپر اپنی زندگی پر منطبق کر لیاجائے۔

(5) بعض مقامات پر اسلامی اقتصادیات کی ایسی تقسیم کی گئی ہیں۔جنہیں آپ صریحی طورپر کسی آیت وروایت میں نہ دیکھیں گے۔یہ خیال رکھیں کہ ان باتوں کو اسلام کے مجموعی احکام سے اخذ کیاگیاہے۔اگرچہ اس مطلب کے سمجھنے کے لئے کافی غور وفکر کی ضرورت ہے۔

(6) کتاب میں بعض ایسی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جن سے شبہہ کا احتمال تھا اسلئے ہم نے بقدرضرورت ان کی توضیح کردی ہے چنانچہ حکومتی ملکیت کے بارے میں ہم نے واضح کردیاہے کہ اس سے مراد خدائی منصب کی ملکیت ہے،جس میں صاحب منصب یا اس کا وکیل تصرف کرتاہے۔اس کا تعلق عام حکومتوں سے نہیں ہے۔

خاتمۂ کلام میں یہ بات بھی واضح کردی جائے کہ اس کتاب میں نہ سطحی مطالب

۱۳۰

ہیں اور نہ ادبی رنگ،نہ ضخیم کلمات ہیں نہ مغلق الفاظ۔یہ تو ہماراایک بنیادی اقدام ہے اسلامی اقتصادیات کے ان اسرار کو معلوم کرنے کا جن پر اس نظام کی بنیادیں قائم ہیں(اب ہم جس قدر بھی کامیاب ہوسکیں)۔

آپ سے التماس ہے کہ کتاب کا مطالعہ ایک بنیادی اقدام کی نظر سے کریں تاکہ آپ پر یہ واضح ہوسکے کہ اقتصادی زندگی اور تاریخ انسانیت کے حدود اسلام کی نظرمیں کیاہیں؟

اس کے بعد ہماری توفیقات ذات واجب سے وابستہ ہیں اسی پر ہمارا اعتماد ہے اور اسی کی طرف ہماری توجہ۔

محمد باقرالصدر ،النجف الاشرف

۱۳۱

مارکسیت کے ساتھ

WITH MARXISM

نظریۂ مادیت تاریخ:

1۔تمہید

2۔نظریہ، فلسفہ کی روشنی میں

3۔نظریہ،اجمالی رنگ میں

4۔نظریہ، تفصیلی تبصرہ کے ساتھ

مارکسی مذاہب

1۔اشتراکیت

2۔اشتمالیت

۱۳۲

نظریۂ مادیت تاریخ

تمہید

جب ہم مارکسیت کے اقتصادی نظام کا جائزہ لینا چاہتے ہیں تویہ بالکل غیر ممکن ہے کہ اس کے اقتصادی نظام یعنی اشتراکیت واشتمالیت کو اس کے نظری اقتصاد(جس کی روح رواں تاریخی مادیت ہے)سے الگ کردیں اس لئے کہ یہی مادیت وہ اہم اصول ہے جس کے تحت پورا کاروانِ تاریخ چل رہاہے اور اسی کے قواعدوہ محکم قواعد ہیں جو تاریخ بشریت کے ہردور کے لئے ایک حتمی نظام تشکیل دے رہے ہیں۔

مارکسیت اور تاریخی مادیت کاگہراارتباط ہی ہے جو اس کے بارے میں کوئی موافق یا مخالف فیصلہ دینے سے اس وقت تک مانع رہے گا جب تک کہ اس مادیت کی صحیح تحلیل نہ ہوجائے اس لئے کہ تحقیقی اعتبار سے مارکسیت اس مادیت کے قہری نتیجہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

مادیت تاریخ اپنے امتحان میں کامیاب ہوگئی اور اس نے یہ ثابت کردیاکہ تاریخ کے جملہ انقلابات اسی کے ممنون کرم ہیں تو ہر اس مذہب کو قبول کرلینا پڑے گا جو اس مادیت کا نتیجہ ہوں اور ہر اس نظام کو ترک کر دینا پڑے گا جو اس بات کا مدعی ہوکہ ہمارے اجتماعی

۱۳۳

اصول ہمارے سیاسی قوانین اور ہمارے اقتصادی قواعد تاریخ کے ہر دور کے لئے کافی ہیں۔ جیسا کہ نظام اسلامی کادعویٰ ہے کہ وہ چودہ صدیوں کے تغیرات وانقلابات کے باوجود آج بھی انسانیت کے مشکلات کو حل کرسکتاہے۔

اسی مادیت کی روشنی میں انگلز نے یہ دعویٰ کیاتھاکہ:

انسان جن حالات میں پیدا ہوتاہے وہ ہر قطر زمین کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں بلکہ ایک ہی گوشہ میں نسلوں کے تغیر وتبدل سے بدل جاتے ہیں۔ بنابریں مختلف اطراف وادوار کے لئے ایک ہی اقتصادی نظام کا کافی ہونا غیر ممکن ہے۔ (صنددوہرنگ،ج2،ص5)

لیکن اگرتاریخی مادیت اپنے علمی جائزہ میں کامیاب نہ ہوسکی اور اس نے یہ ثابت نہ کیا کہ اس کے قوانین ابدی اور حتمی حیثیت رکھتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگاکہ مارکسیت کی عمارت منہدم ہوجائے اور وہ مذہب برسرکارآجائے جو تاریخی تغیرات سے اپنے اندر کوئی ضعف محسوس نہیںکرتااور اپنی وسعت وہمہ گیری کو ہر دور کے لئے کافی تصور کرتاہے۔

مقصد یہ ہے کہ اقتصادیات کے موضوع پر بحث کرنا اور مارکسیت کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ دینا اس وقت تک ناممکن ہے ۔جب تک کہ تاریخی مادیت کا صحیح تجزیہ نہ کرلیا جائے اس لئے اب ہم اسی مادیت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تاکہ مارکسیت کی بنیادوں کی کمزوری کا اندازہ لگایاجاسکے اور اس کے بارے میں آسانی سے فیصلہ دیاجاسکے۔

مارکسیت کے بارے میں ہمارے بحث کے دو حصہ ہیں:

(1) مارکسیت نظری اقتصاد کی روشنی میں

(2) مارکسیت عملی میدان میں

۱۳۴

یگانہ محرک تاریخ

تاریخی مادیت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ پوری تاریخ کو ایک ہی محرک کی تاثیر کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔اس کا خیال ہے کہ اس نے عالم غیب سے ایک ایسے راز کا پتہ لگا لیاہے جس سے تمام تاریخی مشکلات کا حل مل سکتاہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اس نے یہ کوئی نئی بات نہیں کہی بلکہ اس سے پہلے بھی ایسے مفکرین گزرے ہیں جو تاریخ کو کسی ایک ہی عامل کی تحریک کا نتیجہ قرار دیتے رہے ہیں۔

چنانچہ انہیں مفکرین میں سے بعض نظریۂ جنس کے قائل تھے اور ان کا خیال تھاکہ معاشرہ کی تبدیلی وترقی کا راز جنس کے اندر مخفی قوتوں میں مضمر ہے۔اسی جنس سے تاریخی ادوارتشکیل پاتے ہیں اور اسی سے انسان کی عضوی ونفسی ترکیب کا عمل انجام پاتاہے،گویاکہ پوری تاریخ اس جنسی جہاد کا نتیجہ ہے جس میں قوی اجناس کو فتح اور ضعیف جنس کو شکست دواماندگی نصیب ہوتی ہے۔

بعض دوسرے مفکرین نے''تاریخ تغیرات''کا سرچشمہ جغرافیائی حالات کو قرار دیاہے۔ان کا خیال تھاکہ تاریخ کے تمام تغیرات کا منشاء طبیعی جغرافیہ ہے اس لئے کہ اسی کے تغیر سے راحت وآسائش کے اسباب میں تغیر ہوتاہے اسی سے معاشرہ آگے بڑھتاہے اور اسی کی بے رخی سے انحطاط کی منزلوں میں جاگرتاہے گویا جغرافیہ ہی پوری تاریخ کو اپنے اشاروں پر چلارہاہے۔

علماء نفسیات کا خیال یہ ہے کہ تاریخ میں تغیر کا سلسلہ انسان کے شعوری یالاشعوری جذبات واحساسات سے شروع ہوتاہے۔انہیں احساسات کے مختلف حالات سے تاریخ کے مختلف ادوار وجود میں آتے ہیں۔

۱۳۵

مادیت تاریخ بھی انہیں''یگانہ''محرک تاریخ کے نظریات میں سے ایک نظریہ ہے جس کی بشارت کارل مارکس نے دی ہے جس کے متعلق اس کا خیال ہے کہ اقتصادیات ہی وہ بنیادی محرک ہیں جن کی بناپر تاریخ کے تمام تغیرات رونما ہوتے ہیں۔انہیں سے انسان کے جذبات واحساسات پیداہوتے ہیں اور یہی اس کے افکار تشکیل دیتے ہیں۔اس کے علاوہ تمام عوامل وموثرات ثانوی درجہ رکھتے ہیں جو خود بھی بنیادی محرک کے تغیر کے ساتھ متغیر ہوتے رہتے ہیں۔

ہمارا خیال ہے کہ یہ تمام ہی نظریات وافکار وہ ہیں جن کی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہ انہیں اسلام ہی قبول کرتاہے اس لئے کہ یہ تمام نظریات کسی ایک عامل ومحرک کو اتنی طاقت دینا چاہتے ہیں جو قطعاً اس کے لئے مناسب نہیں ہے۔لیکن اس وقت ہماراروئے سخن صرف مادیت تاریخ کی طرف ہے ۔ہم اسی سے بحث کرنا چاہتے ہیں اور اسی کی حقیقت کو واضح کرنا چاہتے ہیں۔باقی نظریات کی بنیادیوں بھی ختم ہوجائے گی کہ ہم آخر کلام میں ''محرک یگانہ''کے نظریہ ہی کو باطل ومہمل ثابت کر دیں گے۔

اقتصادی محرک یا تاریخی مادیت

مارکس نے ہمارے سامنے تاریخی تغیرات کاجو فلسفہ پیش کیاہے اس میں اقتصادی محرک کو پوری تاریخ کی قیادت سپرد کی گئی ہے۔اس کا خیال یہہے کہ معاشرہ کے دینی، اجتماعی، سیاسی اور اخلاقی اقدار کا سرچشمہ اس کا اقتصادی توازن ہے۔اسی اقتصاد سے اس کے مستقبل کا تعین ہوتاہے اور اس سے اس کے حال کی توجیہ وتفسیر کا کام بھی لیاجاتاہے۔

۱۳۶

یہ اور بات ہے کہ دنیا کی دیگر اشیاء کی طرح اقتصاد کی بھی ایک علت ہے جو واقعاً قافلۂ تاریخ کی قیادت کی حامل ہے اور اس کا نام ہے''وسائل پیداوار''در حقیقت یہی وسائل وہ ہیں جو تاریخ کے جملہ تغیرات،انقلابات اور ادوار ے موجود ہواکرتے ہیں۔اس مقام پر فطری طور پر دو سوال اٹھے ہیں۔

اول یہ کہ وسائل پیداوار سے مراد کیاہے؟

اور دوسرے یہ کہ ان وسائل کو تاریخ حرکات وتغیرات سے کیاربط ہے اور یہ اجتماعی زندگی پر کیونکر اثراندازہوتے ہیں۔

مارکس نے پہلے سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ کہاہے کہ وسائل پیداوار ان آلات کا نام ہے جن کی مدد سے انسان طبیعی اشیاء کو حاصل کرتاہے۔چونکہ انسان اس دنیا میں جینے کے لئے طبیعت سے استفادہ کرنے کا محتاج ہے اور طبیعت سہولت سے اپنے برکات پیش کرنے پرآمادہ نہیں ہے لہٰذا جن آلات کے ذریعہ اس سرکشی کا مقابلہ کیاجاسکے اور جن کی طاقت سے طبیعی مواد سے استفادہ کیاجاسکے۔انہیں وسائل پیداوار کانام دیا جائے گا۔

سب سے پہلے ان وسائل کا ظہور ہاتھوں کی شکل میں ہواجب انسان دستکاری کرکے اپناپیٹ پالتاتھا۔اس کے بعد پتھر کے ٹکڑوں نے اس کی جگہ لی جن سے قطع وبرید کا کام لیاگیا۔آگے چل کر اس میں دستہ لگاکر ہتھوڑابنالیاگیا یعنی پیداوار کے ساتھ پیداوار کے وسائل بنائے گئے۔پھر مزید ترقی تیروکمان ،نیزہ وشمشیر وغیرہ کی شکل میں ظاہر ہوئی اور پھر انسانیت کی ترقی بظاہر رینگنے لگی۔یہاں تک کہ آخری دنوں میں بخاروبرق وذرات کے آلات کاپتہ لگالیاگیاجن پر آج کی ترقی کادارومدار ہے اور جن سے تاریخ کاموجودہ دور قائم ہے۔

دوسرے سوال کے جواب میں مارکسیت نے یہ بیان دیاہے کہ وسائل پیداوار ہمیشہ ترقی کرتے رہتے ہیں اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ پیداوار بھی بدلتی جائے۔ظاہر ہے

۱۳۷

کہ صیادکے ہاتھوں کی پیداوار اور ہوگی اور کاشتکار کے ہاتھوں کی پیداوار اور۔پھر طبیعت سے مقابلہ کرنے کے لئے انسان تن تنہا قیام بھی نہیں کرسکتابلکہ اپنے ابناء نوع کا محتاج ہے۔

اس لئے پیداوار کے بدلنے سے اجتماع کا رنگ بدل جانابھی ناگزیر ہے۔جو شخص اس کام میں جس قدر حصہ لے گا اسی قدر اس کی ملکیت تصور کی جائے گی۔ملکیت کے حدود کام کی نوعیت ہی سے مقرر کئے جاتے ہیں چاہے ان حدود کی شکل غلامی کی ہویا مساوات کی،جاگیرداری کی ہویاسرمایہ داری کی،اشتراکیت کی ہو یا اشتمالیت کی۔

مارکس کی نظرمیں انسان کے تمام سیاسی،دینی ،فکری اور اخلاقی تعلقات کی بنیاد انہیں پیداواری تعلقات سے وابستہ ہے۔انہیںتعلقات سے ملکیت کی تحدید ہوتی ہے اور اسی ملکیت سے تقسیم ثروت ہی سے یہ تمام تعلقات قائم ہیں۔

اس مقام پر ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر تاریخ کے جملہ تغیرات ملکیتی تعلقات کے اختلاف سے وابستہ ہیں تو خودان ملکیتوں کے اختلاف کا سبب کیا ہے؟مارکس نے اس سوال کا جواب یہ دیاہے کہ یہ اختلاف ایک قہری اور لازمی شیء ہے۔جیسے جیسے وسائل پیداوار ترقی کرتے جائیں گے اسی اعتبار سے ملکیت کے حدود بھی بدلتے جائیں گے اور ملکیت کے تغیر کے ساتھ تاریخی انقلابات لازمی حیثیت رکھتے ہیں۔

ان وسائل کی ترقی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوگاکہ تازہ ترین وسائل ایک جدید نظام معیشت کے طالب ہوں گے جو موجودہ نظام سے مختلف ہو اور اس طرح موجودہ نظام اور مناسب نظام میں ٹکراؤ ہوگا جس کے نتیجہ میں تیسرا نظام بروئے کارآئے گا اور ساتھ ہی ساتھ طبقاتی نظام کی بھی بنیاد پڑجائے گی۔مطمئن طبقہ موجودہ نظام کا ہم آہنگ ہوگا اور پامال شدہ طبقہ آئندہ نظام کادمساز۔

چنانچہ آج کی دنیا میں مزدور اور سرمایہ دار کی جنگ کا تمام تردارومدار اسی طبقاتی نزاع پر ہے۔سرمایہ دار کی منشاء ہے کہ سابق نظام معیشت باقی رہے تاکہ اس کو منافع سے

۱۳۸

باقاعدہ استفادہ کا موقع مل سکے اور مزدور کی آرزوہے کہ جدید وسائل کے ساتھ ایک جدید نظام تشکیل پائے جس میں اس کے حقوق کی صحیح رعایت کی گئی ہو۔

اس تجزیہ کا حاصل یہ ہے کہ تاریخ کے تمام ادوار میں دو قسم کے نزاعوں کا ہونا انتہائی ضروری ہے ۔ایک نزاع قدیم وجدید وسائل پیدا وار میں اور ایک اسی کے زیر اثر قدیم وجدید طبقات میں۔

اب چونکہ پیداوار کے وسائل ہی کی قوت پرپوری تاریخ گردش کرہی ہے لہٰذا ہر میدان میں اس کی فتح لازمی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ عالمی حالات کا تغیر وتبدل ناگزیر ہے۔

علم الاجتماع کی اصطلاح میں اسے یوں بیان کیاجاسکتاہے کہ وسائل معیشت کا حامی طبقہ فاتح قرار پاتاہے اور سابقہ تعلقات کا دلدادہ طبقہ شکست خوردہ ۔

اور ظاہر ہے کہ جب وسائل کی فتح ہوتی ہے تو اس کے نتیجہ میں اقتصادی حالات ترقی کرتے ہیں اور جب اقتصادی حالات ترقی کرتے ہیں تو اس کے زیر اثرپوری تاریخ بدل جاتی ہے اس لئے کہ سب کی بنیاد انہیں اقتصادیات پر قائم تھی۔

یادرہے کہ یہ سلسلہ اسی فتح وشکست پر تمام نہیں ہوتابلکہ یہ وسائل پھر بھی روبہ ترقی کرتے ہیں اور ان کے آگے بڑھ جانے سے نظام کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں اور اس طرح پھر ایک نئی جنگ قائم ہوجاتی ہے جو خود بھی کسی دوسری جنگ کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور اسی طبقاتی حرب وضرب اور طبیعاتی جنگ وجدل کا نام جدلیت یا دیا لکٹیک ہے جس پر مادیت تاریخ کی بنیادیں قائم ہیں۔

۱۳۹

تاریخی مادیت اور واقعیت

بعض مارکسی نظریہ کے حضرات کا خیال ہے کہ تاریخ کے جملہ حرکات کا علم صرف اسی مادیت سے حاصل ہو سکتا ہے اس کے علاوہ اس علم کاکوئی دوسرا وسیلہ و ذریعہ نہیں ہے۔چنانچہ بعض فریفتگان مارکسیت نے اس مادیت کے منکرین کو دشمن تاریخ اور عدو حقیقت کے القاب سے سرفراز فرمایا ہے اور اس سرفرازی کا سبب یہ قرار دیا ہے کہ مادیت کی بنیا ددو باتوں پر ہے ۔ اعتراف حقیقت اور اقرار قانون علت ومعلول اور ظاہر ہے کہ دونوں ہی باتیں واضحات میں سے ہیں۔ لہٰذا مادیت کا انکار یا تو مثالیت کی دمسازی کا نتیجہ ہوگا یا علت و معلول کے قوانین سے انحراف ہوگا اور یہ باتیں تاریخ وحقیقت کی واقعی دشمنی کا نتیجہ ہیں۔

بعض مارکسیت کے پرستار افراد کا خیال ہے کہ یہ علم تاریخ کے دشمنوں کا طریقہ ہے کہ وہ کسی واقعہ کے ادراک کے سلسلے میں واقع ہونے والے اختلافات کو اس کی بے بنیادی کی دلیل قرار دیتے ہیں اور یہ کہہ بیٹھتے ہیں کہ جب کل کے حوادث کا صحیح ادراک نہیں ہو پاتا تو صدیوں قبل کے واقعات کے متعلق ادراک کا دعویٰ کیا قیمت رکھتا ہے۔''

(الثقافة الجدیدہ سال ہفتم ،عدد11،ص10)

اس مقالہ نگار کی کوشش یہ ہے کہ تاریخی مادیت کو اصل تاریخ و حقیقت سے اس طرح متحد کر دے کہ ایک کا انکار خود بخود دوسرے کے انکار کے مرادف ہو جائے اور اس طرح اصل حقیقت کا واسطہ دے کر اپنی مادیت کا اقرار کرالے لیکن اس نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ مادیت کا منکر حقیقت تاریخ کا منکر نہیں ہے بلکہ اس میں شک کر رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ علمائے مارکسیت نے اس قسم کے مغالطات اکثر مقامات پر

۱۴۰