اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 93960
ڈاؤنلوڈ: 2587

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 93960 / ڈاؤنلوڈ: 2587
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

استعمال کئے ہیں اور ان کے فریب سے اپنا مقصد حاصل کرنے کی مکمل کوشش کی ہے ۔ فلسفی میدان میں عالم کے مادی مفہوم کے منوانے کے لئے بھی ان لوگوں نے یہی طریقہ کار اختیار کیا تھا اور یہ کہہ دیا تھا کہ اگر مثالیت کے مقابلہ میں واقعیت کوئی چیز ہے تو عالم بھی کل کا کل مادی ہے۔

ہم نے اپنی فلسفہ کی کتاب میں اس مطلب کو پوری طرح واضح کر دیا کہ یہ ایک کھلا ہوا مغالطہ ہے جس میں سادہ لوح افراد کو گرفتار کیا جا رہا ہے ۔ اس لئے کہ اگر ہمارے سامنے صرف دو ہی صورتیں ہوتیں کہ ہم یا تو حقیقت ہی کے منکر ہو جاتے اور مثالیت کے فلسفہ کو اپنا لیتے یا پھر مادیت کے فریفتہ ہو جاتے تو یہ بات بڑی حد تک معقول ہوتی ۔لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے سامنے اور بھی راستے موجود ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے اس مفہوم کا قبول کر لینا ایک بے جا اقدام کی حیثیت رکھتا ہے ۔آپ خود ملاحظہ کر لیں کہ مثالیت کے مخالفین جو حقیقت واقعہ پر ایمان لائے ہوئے ہیں وہ بھی عالم کے مادی مفہوم پر متفق نہیں ہیں جس طرح کہ اس مقام پر حقیقت تاریخ کے ماننے والے سب ایک بات کے قائل نہیں ہیں بلکہ کوئی جنس کو محرک تاریخ قرار دیتا ہے اور کوئی اخلاق ونفسیات کو۔ معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت کا ایمان اور ہے اور مادیت کا اعتراف اور۔پہلا مسئلہ تمام مثالیت کے مخالفین کی نظر میں مسلم ہے۔لیکن دوسرا مسئلہ ان کی نظر میں بھی محل اختلاف ہے۔

رہ گیا استدلال کا یہ جزء کہ عالم قانون علت ومعلول کا تابع ہے تو حقیقتاً اسے اصل مطلب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ اس پر تو ہر صاحب عقل وشعور ایمان لائے ہوئے ہے۔ اصل نزاع تو یہ ہے وہ علت کیا ہے اور وہ محرک کون ہے جس کے اشاروں پر قافلہ تاریخ سیر کر رہا ہے۔

اس اجمال کے بعد ہم مادیت تاریخ پر ایک تفصیلی بحث کرنا چاہتے ہیں جس کے تین حصے ہوں گے:

۱۴۱

1۔ مادیت ؛فلسفہ اور منطق کی روشنی میں

2۔ مادیت؛ایک عام نظریہ کی حیثیت سے

3۔ مادیت؛کا انطباق تاریخ کے ادوار پر

۱۴۲

مادیت تاریخ (فلسفہ مادی کی روشنی میں)

مارکسیت کا خیال ہے کہ تاریخ کی مادی تفسیر عالم کے مادی مفہوم کی ایک فرع ہے اس لئے کہ تاریخ عالم کے حوادث کا ایک جزء ہے اور جب سارا عالم مادی فرض کر لیا جائے گا تو تاریخ کا مادی ہونا ایک قہری اور لازمی شے ہوگا۔چنانچہ اس نے اسی بنیاد پر اٹھارہویں صدی کی مادیت پر سخت تنقید کی ہے کہ ان مادیت پرستوں نے اپنے بعض روحانی افکار اور اخلاقی اقدار پر ایمان کی وجہ سے انہیں بھی تاریخ کے محرکات میں شمار کر لیا ہے اور یہ بات مارکسیت کی نظر میں مادیت پرست شخص کے لئے انتہائی افسوس ناک ہے۔

چنانچہ انگلزنے اسی سطحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ :

ہم میدان تاریخ میں دیکھ رہے ہیں کہ قدیم مادیت آپ اپنی مخالفت کر رہی ہے ، وہ مثالی قوتوں کو تاریخ کی محرک مانتی ہے اور حقیقی عوامل ومحرکات کی تلاش نہیں کرتی۔نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اسے ایک عجیب تضاد سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔ نہ صرف اس لئے کہ وہ مثالی قوتوں کو تسلیم کر تی تھی بلکہ اس لئے کہ وہ عالم کو مادی بھی جانتی تھی ۔'' (تاریخ کی اشتراکی تفسیر ،ص57)

میں اس وقت عالم کے مادی مفہوم کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اس موضوع پر سیر حاصل تبصرہ میں نے اس سلسلہ کی پہلی کتاب یعنی ''ہمارا فلسفہ'' میں کر دیا ہے

۱۴۳

اس وقت تو اس ارتباط سے بحث کرنا ہے جو عالم کے مادی ہونے اور تاریخ کے مادی ہونے میں قائم کیا گیاہے اور جس کی بنیاد پر اٹھارہویں صدی کی مادیت مورد الزام قرار پائی ہے۔

اس سلسلہ میں سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ مارکسیت کی نظر میں عالمی مادیت اور تاریخی مادیت کے مفاہیم میں بڑا فرق ہے اور شاید اسی فرق کے ادراک نہ کر سکنے کا نتیجہ یہ تھا کہ اس کے پرستاروں نے دونوں کو لازم و ملزوم قرار دے کر ایک کے ساتھ دوسرے کا اقرار بھی ضروری بنا دیا۔

حالانکہ حقیقت امر یہ ہے کہ مارکسیت کی نظر میں عالم کے مادی ہونے کا مفہوم صرف یہ ہے کہ عالم کے جملہ حوادث و کیفیات اسی ایک مادہ کے تلون وتنوع کا نتیجہ ہیں۔ اس کے علاوہ مجرد افکار وغیر مادی مشاعر (ادراکات) کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ فکر کو کسی قدر بلند کیوں نہ فرض کر لیا جائے اس کی حیثیت ایک دماغی نشاط سے زیادہ نہ ہوگی۔

ظاہر ہے کہ اس مادیت کے اعتبار سے تمام عالم کو مادی ہونا چاہئے ۔ چاہے وہ وسائل پیداوار سے آگے بڑھے اور چاہے وسائل پیداوار اس کے دست وبازو کی قوت سے ترقی کریں ۔ بس دونوں مادی ہیں اور مادی رہیں گے۔ایسی صورت میں اس نظریہ کی بناء پر تاریخ کی ابتدائی کڑی وسائل کو قرار دینا اور انسان کے سر سے اس تاج کرامت کا سلب کر لینا ایک زبردستی کے سواکچھ نہیں ہے۔

اس کے بر خلاف تاریخی مادیت کا تمام ترتقاضہ یہ ہے کہ سیر تاریخ کی ابتدا ء وسائل پیداوار سے ہو، انہیں کو اولیت کا شرف دیا جائے اور انہیں کو محرک تاریخ کے زریں لقب سے یاد کیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں باتوں میں دور کا بھی رابطہ نہیں ہے چہ جائیکہ ایک کو دوسرے کا لازمی اثر قرار دیا جائے۔

۱۴۴

قوانین جدلیت کی روشنی میں

قوانین جدلیت وہ قوانین ہیں جو عالم کے ہر تغیر وانقلاب کی توجیہ اس کے باطنی تنازع کی بنا پر کرتے ہیں۔

ان قوانین کا واضح مفہوم یہ ہے کہ ہر شے اپنے اندر اپنے مخالف جراثیم بھی رکھتی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک دن موجودہ شکل سے بر سر پیکار ہو جاتے ہیں اور اس نزاع کے نتیجہ میں ایک نئی مثال ظہور میں آتی ہے جو پہلی صورت سے اجنبی اور اس سے ترقی یافتہ ہوتی ہے۔

مارکسیت کا خیال ہے کہ تاریخ کے جملہ تغیرات کی تفسیر بھی انہیں قوانین کی روشنی میں کی جائے اور یہ اعتراف کیا جائے کہ تاریخی ادوار ، طبقاتی نزاع سے تشکیل پاتے ہیں ہر موجودہ طبقہ اپنے اندر مخالف جراثیم رکھتا ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک کیفیتی تغیر پیدا کر دیتے ہیں اور تاریخ ایک نئے موڑ پر پہنچ جاتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس مقام پر ایک لمحہ ٹھہر کر یہ دیکھ لیں کہ آیا مارکسیت تاریخ پر ان قوانین کے انطباق میں کامیاب ہوئی ہے یا نہیں۔

بظاہر ایسا معلوم ہوا ہے کہ اس نے ابتدائی منزلوں میں ان قوانین کو منطبق کرنے میں کسی حد تک کامیابی ضرور حاصل کی تھی لیکن نتیجہ تک پہنچتے پہنچتے اپنے ان قوانین کو بالکل فراموش کر بیٹھی بلکہ انہیں سے بر سر پیکار ہو گئی ۔جس کی تفصیل یہ ہے :

طریقۂ جدلیت

مارکسیت نے اس طریقہ کو فقط تاریخ کے تجزیہ میں نہیں اپنایا بلکہ اس نے عالم کے

۱۴۵

ہر حادثہ کی تحلیل اسی طریقہ کی بنیاد پر کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ایک عجیب تضاد اور کشمکش میں مبتلا ہو گئی ہے۔

اسے ایک طرف قانون جدلیت کی بناء پر یہ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کا ہر انقلاب داخلی نزاع کی بناء پر ہوتا ہے اور دوسری طرف قانون علت ومعلول کے ایمان کی بناء پر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان حوادث کی ایک خارجی علت بھی ہے جن سے یہ وجود میں آتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ کشمکش اس کے ساتھ لگ کر دامن تاریخ تک چلی آئی ہے وہ جہاں تاریخ کے ہر حادثہ کو طبقاتی نزاع کا نتیجہ بناناچاہتی ہے وہاں ان سب کی ایک علت ''وسائل پیداوار'' پر بھی ایمان لانا چاہتی ہے تاکہ اس کے علاوہ تمام اسباب ثانوی حیثیت اختیار کر لیں۔

مزید یہ کہ تاریخ کا محرک در حقیقت طبقاتی اختلاف نہیں ہے بلکہ قدیم ملکیت کا نظام اور جدید وسائل پیداوار کا اختلاف ہے کہ جسے طبقاتی نزاع سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

مارکسیت نے اپنے دہرے ایمان میں جب اس کشمکش کا صحیح احساس کر لیا تو اس کا یہ حل نکالا کہ علت ومعلول کے فلسفی مفہوم سے انکار کرکے اسے بھی جدلیت کا رنگ دے دیا جائے۔ فلسفی اعتبار سے علت معلول سے جدا شے ہوتی تھی ۔ اس کی صلاحیتیں معلول سے زیادہ ہوا کرتی تھیں لیکن جدلیت کی بناء پر یہ سارا نظام بدل گیا ہے ۔ یہاں معلول علت کے شکم سے بر آمد ہوتا ہے اور اس کی صلاحیتیں علت سے زیادہ ہوتی ہیں اور اسی لئے وہ اس سے ٹکرا کر نئے نظام کو تشکیل دیتا ہے۔

یہاں علت کو اثبات معلول کو نفی اور نتیجہ کو نفی نفی کہا جاتا ہے۔یہی طریقہ مارکسیت نے تاریخ کی تشریح میں بھی استعمال کیا ہے اور جملہ حوادث کو ایک شے کا نتیجہ قرار دیا ہے جو اس سے بطریقۂ جدلیت ظہور میں آئے ہیں۔

ہم مارکسیت کی اس تشریح کو بسر وچشم قبول کر لیتے اور ہمیں یہ باور ہو جاتا کہ سارا کاروان تاریخ جدلی اصولوں پر چل رہا ہے اور پوری تاریخ داخلی نزاعات سے بدلتی جا رہی

۱۴۶

ہے لیکن افسوس کہ خود مارکسی قلمکاروں نے ہمارا ساتھ نہ دیا اور آخرکار یہ اعتراف کر لیا کہ مارکسیت کا یہ نظریہ ہمہ گیر نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ نقائص ضرور ہیں چنانچہ انگلزبیان کرتا ہے:

قدیمی معاشروں کے لئے یہ بات ممکن تھی کہ وہ ہزاروں برس تک زندہ و قائم رہتے جیسا کہ ہندو وغیرہ اس وقت تک باقی رہے جب تک کہ ان لوگوں نے خارجی دنیا سے تعلقات قائم نہیں کئے ، اس کے بعد خارجی معاملات سے ان میں مساوات کا خاتمہ ہو گیا اور طبقاتی اختلاف پیدا ہو گیا۔''

(ضددوہرنگ ،2،ص8)

تاریخی جدلیت کی کمزوری

بات کے یہاں تک پہنچ جانے کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس جدلیت کے بارے میں ہم اپنی رائے بھی ظاہر کر دیں ۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ طریقہ نہ تو فلسفہ کے میدان میں کامیاب ہو سکا ہے اور نہ تاریخ کے میدان میں۔

فلسفی بحث کے تفصیلات ہماری پہلی کتاب میں موجود ہیں۔ تاریخ کے سلسلہ میں ہم صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔ جہاں مارکس نے خود بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ تاریخ کی صحیح توجیہ اپنے جدلی قوانین کی بناء پر نہیں کر سکا۔ وہاں وہ سرمایہ داری سے اشتراکیت کی طرف رخ بدلنے کی توجیہ ان الفاظ میں کرتا ہے:

''سرمایہ دارانہ پیداوار سے جو سرمایہ دارانہ ملکیت پیدا ہوئی تھی وہ درحقیقت دستکاری کے اعمال کے نتائج کی نفی تھی ۔ پھر اس سرمایہ داری نے خود

۱۴۷

اپنی نفی کی بنیاد ڈالی۔اس لئے کہ نظام کائنات اسی طریقہ پر چل رہا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شخصی ملکیت پلٹ آئی لیکن پہلی شکل میں نہیں بلکہ اس انداز سے کہ پیداوار میں ایک باہمی اشتراک وتعاون تھا اور تمام وسائل پیداوار مع زمین کے مشترک تھے ۔'' (راس المال،ج3،ق2،ص128)

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مارکس نے کاریگری کو علت اور سرمایہ داری کو معلول قرار دے کر اپنی نظر میں طریقۂ جدلیت کو استدلالی رنگ دے دیا ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقۂ استدلال ذہنی تاریخ کے لئے تو بھلا معلوم ہوتا ہے لیکن واقعی تاریخ کے اعتبار سے بڑا افسوسناک ہے ۔ کوئی مارکس سے یہ پوچھے کہ کاریگری نے کب علت کے فرائض انجام دئیے تھے اور سرمایہ داری کب اس سے پیدا ہوئی ہے ۔ کیا صرف ایک طریقہ کا دوسرے کی جگہ پر آ جانا علت ومعلول ہونے کے لئے کافی ہے چاہے اس کے اسباب وعلل کچھ ہی کیوں نہ ہوں؟

حقیقت امر یہ ہے کہ تاجروں نے اپنے سرمایہ کی فراوانی کی بنا پر اس قسم کی پیدوار کا کام شروع کیا ۔ کاریگروں نے اپنے تحفظ کے لئے ان کا مقابلہ کیا لیکن سرمایہ کی طاقت سے مجبور ہو گئے۔ان لوگوں نے بازاروں پر قبضہ کر لیا۔ان غریبوں کے وسائل سلب کر لئے اور اس طرح سرمایہ داری وجود میں آ گئی۔

واضح الفاظ میں یہ کہا جائے کہ تجارت کا فروغ ، زمینوں کی لوٹ مار ، معاون کا ظہور یہ سب وہ اسباب تھے جن کی بنا پر کاریگری کی جگہ سرمایہ دارانہ پیداوار کو مل گئی ۔ کاریگری کو اس نظام کی علت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اس میں ایسی کوئی طاقت تھی ۔ یہ تمام کام خارجی طاقت کی بنا پر انجام پاتے ہیں۔

مقصد یہ ہے کہ ہم نے اب تک فلسفہ میں کوئی ایسی مثال دیکھی ہے جہاں مارکس کا یہ قانون منطبق ہوتا ہو اور نہ تاریخ میں کوئی ایسا حادثہ دیکھا ہے جس کی صحیح توجیہ اس قانون

۱۴۸

کی بنا پر کی جا سکے۔جیسا کہ آئندہ ہم اس مطلب کی مزید وضاحت کریں گے۔

دلیل ونتیجہ کا تضاد

مارکسیت کے لئے سب سے اہم حادثہ پیش آیا کہ اس نے جدلیت کو جس مقصد کے لئے اپنایا تھا وہ حاصل نہ ہو سکا۔بلکہ آخری منزل تک پہنچتے پہنچتے نتیجہ اصل جدلیت سے بالکل متضاد ہوگیا۔اس کا خیال تھا کہ تاریخ کا واحد محرک قانون جدلیت ہے جو طبقاتی نزاع کی بنیاد پر قافلۂ تاریخ کو تا ابد رواں دواں رکھے گا لیکن اس نے اسی کے ساتھ یہ بشارت بھی دے دی کہ عنقریب ایک ایسا دورآنے والا ہے جب یہ طبقاتی نزاع ختم ہو جائے گا اور عالم یک رنگ ہو کر زندگی بسر کرے گا مزدور کی فتح ہوگی اور سرمایہ داری کی شکست ، اشتراکیت اور اشتمالیت کی زندگی ہوگی اور پھر چین ہی چین۔

یہ بشارت سنتے ہی انسان چونک پڑا اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر قانون جدلیت کا کیا حشر ہوگا۔یہ شعلۂ جوالہ کیونکر خاموش ہو جائے گا؟ یہ رواں دواں قافلہ کیوں کر تھک کر موت کی نیند سو جائے گا؟ اور اگر یہ سب کچھ نہ ہوگا تو پھر اشتراکیت ایک اثبات ہوگی تو اس کی نفی کیا ہوگی اور ان دونوں کے باہمی تنازع سے کون سا نظام وجود میں آئے گا؟ یہی وہ سوالات ہیں جن کی بنا پر اشتراکیت سر بگریباں ہے اور مارکسیت متحیر۔آخر ان بنیادی سوالات کا کیا جواب دیا جائے گا۔

۱۴۹

۱۵۰

مادیت تاریخ کی روشنی میں

اب ہم تاریخی مادیت کو خود اسی کی روشنی میں لا کر دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسکے اصول و قوانین میں کتنا زور اور کتنا استحکام ہے۔

ظاہر ہے کہ ابتدائے امر میں آپ کو یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوگی لیکن ہمیں یقین ہے کہ نتیجہ پر پہنچ کر آپ کا یہ تعجب دور ہو جائے گا۔ چونکہ مارکسیت کا خیال یہ ہے کہ تاریخی مادیت دنیا کے تمام علوم وافکار کا تجزیہ کرتی ہے۔ وہ انسانی معرفت کے پیدا ہونے کا صحیح سبب بیان کرتی ہے اور پھر اسی قانون کی روشنی میں اس نے فیصلہ دیا ہے کہ عالم کے جملہ حوادث کی آخری علت دنیا کی اقتصادی حالت ہے۔ جیسے جیسے اقتصادی حالات ترقی کرتے جائیں گے انسان کے علوم ومعارف میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

علوم درحقیقت اقتصادی حالات کا ذہنی انعکاس ہیں جو معاشرہ کے بدلنے سے بدلتے رہتے ہیں۔

مارکسیت نے تمام حقائق کے بارے میں نسبیت کا عقیدہ اسی تاریخی مادیت کی روشنی میں اختیار کیا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ جب ہر عقیدہ اپنے حالات کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے تو اس کی قدر وقیمت بھی اسی وقت تک باقی رہے گی جب تک وہ حالات باقی رہیں گے پھر اس کے بعد اس فکر ونظر کی کوئی وقعت نہیں رہ جائے گی۔اس کی نظر میں دنیا میں کوئی فکر ایسی نہیں ہے جوتاریخ کے ہر دور میں باوزن وقیمت اور باحیثیت واہمیت ہو۔

۱۵۱

ہم مارکسیت کے نظریہ کو بھی تسلیم کر لیتے مگر افسوس کہ وہ اپنے اس نظریہ کو ''تاریخی مادیت ''پر منطبق کرنے پر تیار نہیں ہے وہ اسے ایک مطلق حقیقت کا درجہ دے کر یہ خیال کرتی ہے کہ اس کی قدر وقیمت ہمیشہ ہر ماحول میں باقی رہے گی۔

ضرورت اس بات کی تھی کہ مارکسیت خود ہی یہ سوال اٹھاتی کہ یہ نظریہ کیونکر پیدا ہوا؟اور اس میں یہ دوام وثبات کہاں سے آ گیا ۔ لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہ سوال اس کے دماغ میں پیدا ہو جاتا تو وہ خود بھی اس بات کی قائل ہو جاتی کہ یہ نظریہ ایک خاص ماحول کی پیداوار تھا جو اس ماحول کے ساتھ بے قدر وقیمت ہو گیا۔

معلوم ہوتا ہے کہ مادیت تاریخ نے خود ہی اپنے گھر کو آگ لگا دی۔اس نے ایک طرف تمام نظر یات وافکار کو وقتی اور ایک خاص معاشرہ کی پیداوار قرار دیا اور دوسری طرف اپنے اندر ابدی طاقت محسوس کر لی جو اسے قیام تاریخ تک قائم رکھ سکے۔

ہم اگر چہ اقتصادی حالات کونظریات وافکار کی تشکیل کا واحد سبب تسلیم نہیں کرتے لیکن ہمیں اس سے بھی انکار نہیں ہے کہ خارجی حالات کو انسان کے افکار میں یک گونہ دخل ضرور ہوتا ہے ۔ ہم اس کی مثال کارل مارکس ہی کے کلام سے پیش کئے دیتے ہیں۔

مارکس کا کہنا ہے کہ'' سرمایہ دار نظام کا ختم کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ مزدور اور سرمایہ دار کے درمیان ایک انقلابی جنگ نہ ہو۔''

مارکس نے اپنے اس بیان میں انقلاب کو تغیر تاریخ کا واحد ذریعہ قرار دیا ہے اور اس کے پرستاروں نے بلا چون وچرا اسی حقیقت کو تسلیم بھی کر لیا ہے ۔ ان لوگوںنے اس بات کی طرف توجہ کی زحمت بھی نہیں کی کہ مارکس کی یہ فکر چند خاص حالات کا نتیجہ تھی اور اب یہ حالات بدل چکے ہیں۔

مارکس نے انیسویں صدی کے سرمایہ دارانہ نظام میں آنکھیں کھولیں جہاں ایک طرف سرمایہ اور تعیش کی فراوانی تھی اوردوسری طرف فقر وفاقہ کا تسلط۔سیاسی حالات انتہائی

۱۵۲

تنگ و تاریک تھے ۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ایک انقلابی تصور کا ذہن میں پیدا ہو جانا ناگریز تھا ۔ لیکن مارکس کے مرنے کے بعد اب وہ حالات بدل چکے ہیں۔اب نہ عیش و عشرت کی فراوانی ہے اور نہ فقر وفاقہ کی ارزانی ۔ اب تو سیاسی تجربات یہ بات صاف طور پر واضح کر چکے ہیں کہ فقیر طبقہ کے لئے زندگی کے وسائل مہیا کر دینا ہی اصلاح مملکت کے لئے کافی ہے۔ نہ کسی خونی انقلاب کی ضرورت ہے اورنہ کسی طوفانی جنگ کی۔

بظاہر یہی وجہ ہے کہ اب مارکسیت پرست افراد خود بھی دو گروہوں پر تقسیم ہو چکے ہیں ۔ مغربی یورپ کے لوگ اصلاحی ڈیموکریسی کے حامی ہیں۔ان کے یہاں کے ترقی یافتہ سیاسی اور اقتصادی حالات نے انقلاب کو قطعی طور پر غیر ضرروی قرار دے دیا ہے۔

لیکن مشرقی یورپ میں انقلاب کے جراثیم ابھی تک موجود ہیںان لوگوں نے اقتصادی اعتبار سے مغرب کے برابر ترقی نہیں کی ہے یہ اور بات ہے کہ مشرق کے انقلابی تصور نے کامیابی حاصل کر لی اور اب یہ بات عمومی طور پر سمجھی جانے لگی ہے کہ مارکس کا صحیح تصور '' انقلابی '' تھا۔

افسوس کہ ان تمام حضرات نے اس اصل نکتہ کی طرف توجہ نہیں کی کہ اس نظریہ کی پیداوار چند خاص حالات میں ہوئی تھی۔ اسے آج مارکسیت کا دوام نہیں قرار دیا جا سکتا لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہ با ت خود مارکس کے ذہن میں نہیں آئی ت اس کے پرستاروں کا کیا حال ہوگا۔

مارکسیت کے وقتی نظریہ ہونے کی سب سے اہم دلیل یہی اختلاف ہے جو اس کی تفسیر کے بارے میں واقع ہوا ہے ۔ درحقیقت یہ اختلاف مارکسیت کی تفسیر میں نہ تھا بلکہ اس کی محدودیت کی بنا پر تھا۔یہ اور بات ہے کہ فکر کی محدودیت کی طرف توجہ کے نہ ہونے ی وجہ سے مشرق نے اسے انقلابی رنگ پر باقی رکھا اور مغرب نے اپنی ترقی سے متاثر ہو کر اسے اصلاحی رنگ دے دیا۔

۱۵۳

ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ تمام ہی افکار اقتصادی حالات سے پیدا ہوتے ہیں بلکہ ہمیں واضح کرنا ہے کہ بعض افکار کی پیدائش میں حالات زمانہ کو دخل ہوتا ہے اور انہیں افکار میں مارکس کی وہ انقلابی فکر تھی جو انیسویں صدی کے ناگفتہ بہ حالات کے پیش نظر پیدا ہوئی تھی اور پھر بعد کے حالات اس کا صحیح صحیح ساتھ نہ دے سکے۔

دوسری بات یہ ہے کہ مارکس تمام افکار کو نسبی اور حالات کا تابع تصور کرتا ہے تو اس کی اس فکر کو حقیقت مطلق اور ابدی خیال کرنا خود اس کے نظریہ کی صریحی مخالفت ہے جس کے بارے میں میں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ تاریخی مادیت غوروفکر کے بعد خود ہی اپنے ابطال کے لئے کافی ہے۔

۱۵۴

مادیت تاریخ(ایک عام نظریہ کی حیثیت سے)

تاریخی مادیت کا تجزیہ فلسفہ جدلیت بلکہ خود اسی کی روشنی میں کر لینے کے بعد اس بات کا موقع ہے کہ گفتگو کو دوسرے موضوع کی طرف موڑ دیا جائے جو فی الحال اس مادیت کی عمومیت ہے۔

تاریخی مادیت کے شیدائیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ تاریخ کے تمام حوادث کی توجیہ و تعلیل کر سکتی ہے ۔ ضرورت ہے کہ ہم اسے میدان بحث میں لا کر دیکھیں کہ آیا اس میں اتنی وسعت وہمہ گیری ہے بھی یا نہیں۔

اس وقت ہمارے سامنے تین سوالات آ رہے ہیں:

(1) تاریخی مادیت کی بنیاد یعنی وسائل پیداوار کا پوری تاریخ بشریت پر اثر انداز ہونا کیونکر ثابت ہو سکتا ہے؟

(2) کیا علمی نظریات کو پرکھنے کا کوئی معیار موجود ہے؟اگر ہے تو اس پر اس مادیت کا کیا وزن قائم ہوتا ہے؟

(3) کیا اس مادیت نے دنیائے تاریخ کے تمام شعبوں کا احاطہ کر لیا ہے؟یا ابھی کچھ گوشے تشنہ تفسیر وتوجیہ رہ گئے ہیں؟

۱۵۵

ہماری پوری بحث کا تعلق انہیں بنیای سوالات سے ہے ۔یہ اور بات ہے کہ ان سے فارغ ہونے کے بعد ہم مارکسیت کے تفصیلات سے بھی تعرض کریں گے۔

مادیت تاریخ کے دلائل

جب ہم مارکسیت کے ان دلائل کو معلوم کرنا چاہتے ہیں جو اس نے اس مادیت کے اثبات کے لئے مہیا کئے ہیں تو ہمیں مختلف کتابوں کا جائزہ لینا پڑتا ہے اور ان سے مختلف دلیلوں کا خلاصہ تین دلیلوں کی شکل میں حاصل ہوتا ہے ۔ ان کتابوں میں اگر چہ دلیلوں کی شکل اور ان کا یہ انداز نہیں لیکن علمی رنگ میں لانے کے بعد ان سب کا ماحصل یہی ہے جو اس وقت ذکر کیا جا رہا ہے۔

فلسفی دلیل

فلسفی دلیل سے مراد وہ دلیل ہے جو ہر واقعہ کی فلسفی تحصیل کرتی ہے اور اس کو عالم کے تجربات وحالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اس دلیل کے تحت مادیت تاریخ کو یوں ثابت کیا جا سکتا ہے کہ عالم میں ایک قانون سببیت ہے جو اس کے رگ وپے میں سرایت کئے ہوئے ہے ، کوئی شے ایسی نہیں ہے جو بغیر سبب کے عالم وجود میں آگئی ہو ۔ اس لئے ہم ہر شے کو دیکھ کر اس کے اسباب کی تلاش

۱۵۶

شروع کر دیتے ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ کا آج کا معاشرہ ہزار سال قبل کے معاشرہ سے کہیں بہتر ہے تو ہمیں فوراً یہ فکر ہو جاتی ہے کہ آخر یہ ترقی کیسے ہوئی ہے۔

پھر یہ طے کرتے ہیں کہ اس ترقی کا راز فکر کی بلندی میں مضمر ہے ۔ جب تک یورپ کی فکر ابتدائی منازل میں تھی اس کا معاشرہ پست تھا اور جب سے اس نے فکری منازل طے کرنا شروع کئے ہیں اس کا معاشرہ آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارا ذہن اسی مقام پر نہیں ٹھہرتا بلکہ آگے بڑھ کر پھر یہ سوال کرتا ہے کہ آخر اس فکری ارتقاء کا سبب کیا ہے؟

کیا یہ سب بلا سبب پیدا ہو گیا ہے ؟ یا یہ انسان کے ساتھ پیدا ہوا تھا ؟ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی بات نہ تھی ۔

پھر آخر یہ بلندی کہاں سے آئی اور یہ تغیر کیسے پیدا ہو گیا؟

اب ہمارا ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس فکری ارتقاء کے پس منظر میں بھی ایک علت پوشیدہ ہے جو علت اول کا مرتبہ رکھتی ہے اور جس کے فیض سے یہ سارا نظام تاریخ قائم ہے۔

اس وقت یہ ممکن ہے کہ ہم اس ارتقاء کا سبب اقتصادی حالات کو قرار دیں لیکن سوال یہ ہے کہ پھر اقتصادی حالات کے تغیر کا کیا سبب ہوگا؟ اگر ہم پلٹ کر پھر افکار کا نام لے لیں تو افکار اقتصاد کا نام لینے پر مجبور کریں گے اور اس طرح یہ ایک دوری نظام ہو جائے گا اور انسان ہمیشہ اسی دائرہ میں گردش کرتا رہے گا۔ جیسا کہ فلسفہ مثالیت کا انجام ہوا ہے۔ چنانچہ بلخا نوف کہتا ہے کہ ہیگل اپنی ذات کو ایک دائرہ میں گرفتار پا رہا تھا:

وہ فرانسیسی مورخین کی طرح اقتصادیات کے انقلاب کو افکار کا نتیجہ قرار دیتا ہے اور افکار کے تغیرات وترقیات کو اقتصادیات کا نتیجہ ۔ جس کا واضح اثر یہ تھا کہ وہ فکری انجام سے محروم ہو کر ایک دائرہ کے اندر گردش کر رہا تھا۔''

(فلسفہ تاریخ ،ص44)

۱۵۷

اب اس کے بعد ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں ہے کہ ہم میدان تحقیق میں ایک قدم آگے بڑھائیں اور یہ پتہ لگائیں کہ آخر ان اقتصادی حالات کی علت کیا ہے جو تاریخ کی محرک ہو اور تاریخ سے باہر؟ ہمارے سامنے ایسے وقت میں پیداواری طاقتوں کے علاوہ کوئی اور نام نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہی وہ آخری علت ہے جس کے اشاروں پر سارا نظام تاریخ گردش کر رہا ہے۔

خلاصۂ دلیل یہ ہے کہ اگر عالم کی ہر شے کسی نہ کسی علت وسبب کی محتاج ہے تو سوائے ''پیداواری طاقتوں'' کے اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جسے تاریخ کے جملہ انقلابات کی علت قرار دیا جا سکے لہٰذا انہیں طاقتوں کو علت العلل اور محرک اول کا درجہ عطا ہونا چاہئے۔ مارکسیت کی اس دلیل کو ہم نے مختلف کتابوں سے جمع کرکے نہایت ہی متین اور سنجیدہ شکل میں پیش کیا ہے ورنہ بلخانوف کی کتاب '' فلسفہ تاریخ'' جس کا موضوع ہی یہ تھا اس نے بھی اس دلیل کو اس حسین وشکیل انداز میں ترتیب نہیں دیا۔

اس دلیل پر تبصرہ کرنے کے لئے پہلے قانون علت کاجائزہ لینا پڑے گا تاکہ دلیل کی صحت وعدم صحت کا باقاعدہ اندازہ ہو سکے اور یہ معلوم کیا جا سکے کہ تاریخ کا سبب اول ان طاقتوں کے علاوہ کسی اور شے کو قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

تمہید ی طور پر یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ '' وسائل پیداوار '' کوئی جامد وثابت شے نہیں ہیں بلکہ زمانہ کے ساتھ ساتھ یہ خود بھی تغیر پذیر اور رو بہ ارتقاء ہیں ۔ کل کا وسیلہ کچھ اور تھا اور آج کا وسیلہ کچھ اور۔کل کے اسباب اور تھے اور آ ج کے اور۔ لہٰذا ہمیں یہ حق پہنچتا ہے ہم ان مفکرین سے وسائل میں پیدا ہونے والے تغیرات کے بارے میں بھی سوال کریں اور یہ پوچھیں کہ آخر ان وسائل میں ترقی وتغیر کے اسباب وعلل کیا ہیں؟

ظاہر ہے کہ بلخا نوف جیسے مورخین تو اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں ۔ اس لئے کہ یہ سوال خود ہی ان کی فلسفی تعمیر کو منہدم کر دیتا ہے لیکن پھر بھی مارکسیت نے اتنی جرأت کی

۱۵۸

ہے کہ ان وسائل کی علت خود انہیں وسائل کو قرار دیا ہے ۔آپ تعجب کریں گے کہ یہ کیسے ہو گیا؟ لیکن مارکس پرستوں کا کہنا ہے کہ یہ وسائل اپنی ترقی کے ساتھ ساتھ ذہن انسانی میں علوم ومعارف کا ایک خزانہ تحویل دیتے جاتے ہیں اور یہ معارف انسان میں اتنی استعداد و صلاحیت پیدا کرتے جاتے ہیں کہ وہ نئے وسائل ایجاد کرسکے اور جدید طاقتوں کو بروئے کار لا سکے۔

مقصد یہ ہے کہ یہی وسائل انسانی افکار کی تخلیق کرکے انہیں اس قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ جدید وسائل کی ایجاد کر سکے اور اس طرح کاروان تاریخ باقی منازل طے کرلے۔

انگلز نے اس مقام پر اس بیان کے امکانات پر زور دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ گردش قائم رہ سکتی ہے لیکن اس کے باوجود اس نے صاف لفظوں میں یہ اعلان کر دیاہے کہ یہ طریقہ قوانین جدلیت کے خلاف ہے۔

ہماری اس تمہید سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ مارکسیت کا یہ طریقہ استدلال انتہائی کمزور اوربے جان ہے ۔ اس لئے کہ اگر مارکس اس قسم کا گردشی نظام تیار کر سکتا ہے تو دوسرے صاحب فکر کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ان وسائل کو میدان حساب سے بالکل الگ کرکے یہ کہہ دے کہ اجتماعی حالات باہمی تجربات سے پیدا ہوتے ہیں ۔پھر یہی حالات ترقی کرکے جدید تجربات تشکیل دیتے ہیں اور اس طرح جدید افکار کے وسیلہ سے معاشرہ سے معاشرہ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ظاہر ہے کہ مارکس کو ہمارے اس بیان پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اس لئے کہ اس نے وسائل پیداوار کے بارے میں اسی گردش پذیر نظام کو قبول کیا ہے۔

اگر کوئی شخص قانون علیت کا سہارا لے کر ہماری رد کرنا چاہے تو وہ بھی بالکل غلط اقدام ہوگا ۔ اس لئے کہ یہ قانون ہر شے کی ایک علت چاہتا ہے جس کی برکت سے وہ شے عالم وجود میں آئی ہو ،چاہے وہ وسائل پیداوار ہوں یا اجتماعی حالات ۔ قانون علیت کو ان

۱۵۹

باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ مارکس تاریخی اعتبار سے اس بات پر یہ اعتراض کرے کہ یہ طریقہ تجربات کے خلاف ہے تو اس کا جواب تاریخی اور تجرباتی دلیل کے ذیل میں دیا جا سکتا ہے ۔ فلسفی بحثوں کو ان تجربات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۱۶۰