اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 93968
ڈاؤنلوڈ: 2587

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 93968 / ڈاؤنلوڈ: 2587
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تجربیاتی علوم

ہمارے خیال میں اس مقام پر زیادہ توقف اس لئے مناسب نہیں ہے کہ ہم نے مارکسیت کی زبانی اب تک ایک ہی نغمہ سناہے جسے وہ تاریخ کے ہر موڑپر گایاکرتی ہے۔

علوم کے بارے میں بھی اس کا یہی خیال ہے کہ یہ مادی اور اقتصادی حالات کا نتیجہ ہیں ان کا تنوع اور ارتقاء بھی ذرائع پیداوار کے رنگارنگ کیفیات کا اثر ہیں۔

اس کا نظریہ یہ ہے کہ اٹھارہویں صدی کے بخاری آلات اس وقت کی سرمایہ دارانہ ضرورتوں کا نتیجہ ہیں۔چنانچہ روجیہ غارودی نے اس مطلب کی صراحت بھی کردی ہے کہ:

ذرائع پیداوار کی ترقی طبیعی علوم کے سامنے مسائل پیش کرتی ہے تاکہ وہ ان میں بحث وفکر کرکے ترقی کریں اور یہی وجہ ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی خیال مختلف علماء کے ذہن میں پیداہوتاہے جیساکہ عمل اور حرارت کے توازن کا نظریہ ہے کہ وہ فرانس میں کارنو، انگلینڈ میں گول اور جرمنی میں مایر کے ذہن میں ایک ہی وقت پیداہواتھا،یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ یہ ذرائع جس طرح مسائل کا اضافہ کرتے ہیں اسی طرح آلات ووسائل مہیاکرکے ان کے حل کرنے کی صورتیں بہم پہنچاتے ہیں گویا کہ یہی ذرائع اول وآخر تجربہ کی بنیاد ہیں۔ (الروح الخربیہ فی العلوم،ص11تا13)

مارکسیت کے اس بیان پر ہمارے ملاحظات درج ذیل ہیں:

الف: دور حاضر کو الگ کرلیاجائے تویہ کہاجاسکتاہے کہ آج سے پہلے دنیا کے تمام معاشرے ذرائع پیداوار کے اعتبار سے ایک ہی منزل میں تھے۔ہر مقام پر معمولی زراعت اور دستکاری کا دور دورہ تھا۔مختلف شکلوں میں کوئی جوہری اور واقعی فرق نہ تھا۔ایسے

۲۰۱

حالات میں مارکسی نظریہ کی بناپر تمام ممالک کی علمی رفتار بھی متساوی اور متوازن ہونی چاہئے تھی حالانکہ ایسا ہرگزنہ تھا۔

قرون وسطیٰ میں اندلس، عراق،مصر یورپ سے بالکل مختلف تھے۔ اسلامی ممالک علمی شعاعوں سے منور تھے اور یورپ میں ان کی کوئی کرن نہ تھی۔چین نے طباعت کا کام ایجاد کیاتھا۔ دیگر ممالک محروم تھے مسلمانوںنے آٹھویں صدی عیسوی میں اس فن کو چین سے حاصل کیااور تیر ہویں صدی میں یورپ کے حوالہ کیا۔علوم کی یہ مختلف رفتار اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ذرائع پیداوار سے اس کا کوئی قانونی ارتباط نہیں ہے۔

ب: اس میں شکل نہیں ہے کہ عام طور سے علمی کوششیں مادی ضرورتوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ضرورت ہی ایجاد کی ماں ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ضرورت کو تاریخی بنیاد کا درجہ دے دیا جائے اس لئے کہ ہمارے سامنے بہت سی ضرورتیں ایسی ہیں جنہیں ایک مدت درازتک علوم وفنون کی زیارت نہیں ہوسکی اور ایک عرصہ کے بعد ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکا۔چنانچہ اس کی ایک واضح مثال ہے عینک۔ انسان نہ جانے کس زمانے سے ضعف بصارت کا شکار تھا اور اسے ایسے آلات کی ضرورت تھی جو اس کمی کو پورا کر سکیں لیکن علم نے اس کا ساتھ نہ دیاتھایہاں تک کہ تیرہویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے روشنی کے الغکاس کا نظریہ ایجاد کرکے ہزاروں قسم کے چشمے بناڈالے ۔ظاہرہے کہ یہ ایجاد وقتی ضرورت کا نتیجہ نہ تھی بلکہ ان علمی ترقیوں کا نتیجہ تھی جو اپنی خاص رفتار سے آگے بڑھ رہی تھیں۔

اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ علمی انکشافات کی بنیاد اقتصادی حالات ہی پر قائم ہوتی ہے تو ہمیں یہ سوچناپڑے گا کہ یورپ نے کشتیوں کے واسطے متفاطیسی سوئی کی ایجاد تیرہویں صدی میں کیوں کی جبکہ کشتیوں کے ذریعہ تجارت کا کاروبار مدتوں سے چل

۲۰۲

رہاتھا بلکہ رومان کی توپوری تجارت اسی ایک نکتہ پر چل رہی تھی۔

کیا اس کی بناپر یہ نہیں کہا جاسکتاکہ علم کی رفتار اقتصاد سے الگ ہوتی ہے؟جب کہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ چین نے اس سوئی کا انکشاف یورپ سے دوہزار سال پہلے کرلیا تھا۔

بلکہ اس سے بہتر مثال خود بخاری قوت کی ہے کہ اسے تیرہویں صدی عیسوی میں کشف کرلیاگیاتھا۔یہ اور بات ہے کہ آج کے جیسے آلات ایجاد نہ ہوسکے تھے لیکن ظاہر ہے کہ ہماری بحث صرف علمی انکشاف سے ہے اختراع وایجاد سے ہماراکوئی تعلق نہیں ہے۔

ج: مارکسیت کا یہ دعویٰ کہ طبیعی علوم کے مسائل ذرائع پیداوار کے ذریعہ ہمارے سامنے آتے ہیں ایک ایسا دعویٰ ہے جس کا مکمل ثبوت بہم پہچاناغیر ممکن ہے اس لئے کہ ان علوم سے متعلق دوچیزیں ہیں:

ایک فنکاری علوم تو ظاہر ہے کہ انہیں ذرائع پیداوار کا تابع کہاجاسکتاہے اس لئے کہ فن ان ذرائع سے پیداہونے والی مشکلات کا علاج کرتاہے۔

دوسرے نظریاتی تجربات! تو ظاہر ہے کہ ان علوم کو پیداوار کے مشاکل سے کوئی ربط نہیں ہے کہ نظریات اور فن کے راستے بالکل مختلف ہیں۔سولہویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک نظریات پیداہوتے رہے لیکن ان سے استفادہ کرنے سے قاصر رہا۔یہاں تک کہ 1870ء میں برقی صنعت ایجاد ہوئی اور فنکاری کو نظریات سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔

آپ دیکھیں کہ کیمیا کے بارے میں لافوازیہ نے اٹھارہویں صدی میں کتنے انقلابات برپاکئے اور انہیں کسی نے قبول نہ کیا۔''فنکاری''لوہے اور فولاد کی صنعتیں بھی ایجاد کرتی رہی لیکن سخت ونرم لوہے کے کیمیاوی فرق کے نہ سمجھنے اور کاربون کی

۲۰۳

مقدار سے ناواقفیت کی بناپر ان سے مکمل استفادہ نہ کرسکی۔

رہ گیاغارودی کا یہ دعویٰ کہ اگر علمی انکشافات وقتی تقاضوں کے تابع نہ ہوتے تووقت واحد میں ایک نظریہ چند آدمیوں کے ذہن میں نہ پیدا ہوتاتو اس کے بار ے میں صاف سی بات یہ ہے کہ تاریخ اس دعویٰ کی صریحی مخالف ہے۔

اس نے ہمیں یہی بتایاہے کہ نظریات میں اتحاد یا اختلاف انسان کی فکری اور ذہنی صلاحیتوں کے قرب وبعد سے پیداہوتاہے ۔ٹکنیکل حالات سے ان باتوں کا کوئی ربط نہیں ہے۔چنانچہ اس کاواضح ثبوت یہ ہے کہ قیمت کے بارے میں محدودمنافع کے معیار بننے کا نظریہ وقت واحد میں تین افراد نے تین ممالک میں ایجاد کیا۔ حالانکہ یہ قدیم اقتصادیات کے معیار قیمت سے متعلق تھا۔اسے پیداواری مشاکل سے کوئی ربط نہ تھا۔

آپ ملاحظہ کریں 1871ء میں انگلستان میں جیفونر،نمسامیں کارل سنجر اور 1874ء میں سولیرامیں فاراس نے ایک ہی نظریہ ایجاد کرلیاحالانکہ اس کا کوئی ربط ذرائع پیداوار سے نہ تھا۔

معلوم ہوتاہے کہ علم کے گوناگوں انکشافات انسانی صلاحیتوں کے تابع ہیں۔دنیا کے حالات سے ان کا کوئی قانونی ربط نہیں ہے۔

د: طبیعی علوم کا ذرائع پیداوار کے لئے اس طرح تابع ہوناکہ یہی ذرائع علمی مشکلات کے حل تلاش کریں ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی حمایت سے عقل وتاریخ دونوں عاجز ہیں۔

عقل کا کھالا ہوا فیصلہ ہے کہ علوم اگرچہ اپنے ارتقاء وتکامل میں ان آلات کے تابع ہوتے ہیں جن سے علمی مشکلات حل کی جاتی ہیں لیکن اسی کے ساتھ یہ آلات بھی اسی علم کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

۲۰۴

یہ صحیح ہے کہ اگر آج خوردبین،دور بین اور ٹیپ ریکارڈر وغیرہ نہ ہوتے تو بہت سی علمی ترقیاں رک جاتیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ یہ تام چیزیں بھی علمی ارتقاء کا نتیجہ ہیں اور اسی علمی ترقی نے سترہویں صدی میں روشنی اور اس کے انعکاس سے بحث کرکے خوردبین ایجاد کردی جس پر آج کی ترقی کا تمام تر دارومدار ہے اور ایک نئی دنیا کا وجود وظہور نظر آرہاہے۔

یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ علم کی ساری داستان انہیں ذرائع وآلات ہی میں پوشیدہ نہیں ہے بلکہ بہت سے حقائق ایسے بھی ہیں جن کا انکشاف فکر بشری نے اس وقت کر لیاتھا جب اس انکشاف کے وسائل موجودہ نہ تھے۔انہیں حقائق میں سے ایک خلائی دباؤ ہے جس سے آج سیکڑوں اختراعات عالم وجود میں آگئے ہیں اور اس کا پتہ سترہویں صدی میں تورتشیلی نے اس طرح لگایاتھاکہ پمپ 34 قدم تک پانی کو بلند کرتاہے اور جب پانی اس سے اوپر نہیں جاسکتاتو پارہ کی بلندی تو اور بھی کم ہوگی اس لئے کہ اس کا وزن زیادہ ہوتاہے اور اس طرح رفتہ رفتہ یہ ثابت کردیاکہ خلاء میں ایک دباؤ اور فضامیں ایک تنگی پائی جاتی ہے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس انکشاف میں دیگر علماء نے حصہ کیوں نہیں لیا۔گلیلو نے تو اس موضوع پر گفتگو بھی کی تھی پھر سترہویں صدی سے پہلے اس نے یہ راز کیوں نہ منکشف کر لیا۔کیا انسان کو اس تحقیق ضرورت نہ تھی؟کیا ان چیزوں کا استعمال پہلے نہ تھا؟کیا اس قسم کا تجربہ دیگر علماء کے لئے ممکن نہ تھا۔

حقیقتاً یہ سب کچھ تھا لیکن اسے کیاکیاجائے کہ علم وفکر کی ایک مستقل تاریخ ہے جس کی رفتار انسان کے نفسیاتی اور داخلی کیفیات کے ساتھ رہتی ہے۔اسے نہ ذرائع پیداوار سے کوئی ربط ہے نہ اقتصادی حالات سے۔

مارکسیت میں اس قسم کی بے شمار کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور انہیں میں سے ایک اہم موضوع تھا''اجتماعیت کا اقتصادی حالات سے پیداہونا''لیکن ہم سردست اس نکتہ سے

۲۰۵

قطع نظر کرتے ہیں اس لئے کہ اس موضوع پر ہمیں مکمل کتاب تالیف کرنی ہے۔

مارکسی طبقیت

مارکسیت کے افکار میں طبقات کو ایک مرکزی جگہ حاصل ہے اور مارکس نے اسے بھی اجتماعیت سے الگ کرکے اقتصادی رنگ دینے کی فکر کی ہے۔چنانچہ اس کا کہنا ہے کہ طبقات اگرچہ معاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں اوربظاہر اقتصادیات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتالیکن در حقیقت ان کی پشت پر بھی اقتصادیات ہی کام کرتے ہیں جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ معاشرہ کے بعض افرادذرائع پیداوار کے مالک ہوتے ہیں اور بعض نہیں۔اس طرح مالک طبقہ حاکم کی جگہ لے لیتاہے اور فقیر طبقہ محکوم کی۔اب چاہے اس حکومت کی شکل نوکری کی ہویا غلامی کی۔

ظاہرہے کہ جب مارکسیت نے طبقات کی تشریح ہی اقتصادیات کے نام پر کی ہے تو اب اس سے کسی قسم کی بحث کرنا بیکار ہے لیکن ہم یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے انسانی معاشرہ میں جوطبقات پائے جاتے ہیں ان کی بنیاد صرف اقتصاد پر نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی عوامل رہے ہیں جن کے زیر اثریہ طبقات عالم وجود میں آئے ہیں۔

منطقی اعتبار سے تویہ بھی کہاجاسکتاہے کہ اگر طبقات کا وجود اقتصادیات کی بنیاد پر ہے اور اقتصادیات کا قیام عمل کی سرگرمی پرتو اس نظریہ کے اعتبار سے ہونا یہ چاہئے تھاکہ معاشرہ میں حکومت اسی طبقہ کا حق ہوجو ہمیشہ سرگرم عمل رہے اور عملی نشاط کی منزل میں انتہائی عروج پر ہو۔حالانکہ تاریخ اس کا ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہے۔

۲۰۶

سرمایہ داری کے بارے میں تو اتنا کہا جاسکتاہے کہ سرمایہ داروں نے اپنا اجتماعی مقام عمل کی سرگرمی اور سعی پیہم سے حاصل کیاتھالیکن اس کے علاوہ دیگر ادوار تاریخ میں یہ تصور انتہائی مہمل ہے۔وہاں تویہ دیکھاگیاہے کہ حکومت کی بناپر طبقات پیداہوگئے ہیں اور طبقات کو معلول کا درجہ دیاگیاہے۔

چنانچہ آپ رومان کو ملاحظہ کریں یہاں اشراف کا طبقہ عوام سے اجتماعی اور سیاسی ہر اعتبار سے ممتاز تھا حالانکہ سرگرمی عمل عوام کا حصہ تھا اور اکثر لوگ تو دولت میں بھی ان اشراف کے ہم پایہ تھے۔

اسی طرح سے جاپان کا سامرائی طبقہ تھا جس کی عظمت جاگیراروں سے کم نہ تھی حالانکہ اس کے پاس سوائے شمشیرزنی اور شہسواری کے کچھ نہ تھا۔

خود ہندوستان کی دو ہزار سال قبل کی تاریخ میں آریوں کے طبقاتی نظام میں رنگ ونسل کے امتیاز کے سوااور کیا تھا۔

پھراسی بلند طبقہ کے دو حصہ ہوئے کشٹریہ اور برہمن، کشٹریہ کے پاس طاقت قوت،فوج واسلحہ اور برہمن کے پاس دین ومذہب،دیانت وعبادت کے علاوہ اور کیا تھا؟

ذرائع پیداوار عوام کے ہاتھوں میں تھے اور حکومت ان مجاہدین یا دینداروں کے ہاتھ میں۔کیا اس کے بعد بھی یہ کہا جاسکتاہے کہ معاشرہ میں طبقات کی بنیاد اقتصادیات پر قائم ہے۔

اگر آپ یورپ کا جائزہ لیں گے تووہاں بھی جرمانی فتح کے زیر اثر جاگیردارطبقہ کا قیام سیاست وطاقت کے علاوہ کسی اور بنیاد پر نہ ملے گا جیساکہ انگلز نے کہاہے کہ جاگیردار طبقہ پہلے صرف فاتح تھا بعدمیں اسے یہ حیثیت بھی حاصل ہوگئی۔

یعنی انگلز کے اس اعتراف کے مطابق دولت وقوت طبقہ سے حاصل ہوئی ہے نہ کہ طبقہ دولت سے۔

۲۰۷

مارکسیت نے اس مقام پر اپنی بات زندہ رکھنے کے لئے ایک نیا شگوفہ چھوڑاہے کہ ذرائع پیداوار اگرچہ طبقاتی نظام کی روح رواں ہیں لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ معاشرہ کے دیگر عوامل بھی طبقات کی تشکیل میں حصہ لے لیتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ بنیادی حیثیت صرف ذرائع پیداوار کی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مارکسیت نے اس بات سے اپنا سارا بھرم کھودیاہے اور اس تاویل کی بناپر دیگر نظریات کی ہم رنگ ہوگئی ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس نے پیداوار پرزیادہ زوردیاہے ورنہ دوسرے عوامل کی اثراندازی کا بھی اعتراف کر لیاہے۔

اور جب ہم نے یہ واضح کردیاہے کہ مارکسیت کی توجیہ طبقات کے بارے میں خلاف قانون تاریخ ہے تو یہ بھی واضح ہوجاتاہے کہ طبقات کی تشریح اقتصادیات کی بنیاد پر بھی غلط ہے۔ورنہ اس نظریہ کا ایک بھونڈاسا نتیجہ یہ ہوگاکہ تمام کام کرنے والے ایک طبقہ میں شمار ہوں اور تمام ذرائع پیداوار سے استفادہ کرنے والے دوسرے طبقہ میں۔

اور اس کامنظر یہ ہوگاکہ بڑے بڑے ڈاکٹر،انجینئر اور تجار، مزدرو اور کاشتکار سب برابر ہوں اس لئے کہ سب کام کرتے ہیں اور سب کی زندگی اپنے عمل سے بسر ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ بات انتہائی مہمل ہے اور ہمارا اجتماعی فرض ہے کہ ڈاکٹر، انجینئر اور تجار جیسے افراد کو مزدوروں اور کاشتکاروں سے الگ درجہ میں رکھیں۔

دوسرا بھیانک منظریہ بھی ہے کہ مارکسیت طبقاتی نزاع کو بھی لازم قرار دیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ ایک دن کارخانوں کے مالک، جاگیردار افراد چھوٹے چھوٹے کاشتکاروں سے مقابلہ کریں گے اور اسی طرح بڑے بڑے ڈاکٹر اور انجینئر معمولی معمولی کارکن لوگوں سے معارضہ کریں گے تاکہ اس طبقاتی نزاع سے کوئی معقول نتیجہ برآمد ہوسکے اور یہی وہ انقلاب ہوگاجو اجتماعیت کو اقتصادیات سے محفوظ کردینے کے نتیجہ میں پیداہوگا ورنہ اگر دونوں کا حساب الگ رکھاجائے تو اس قسم کی کوئی بات پیدا نہ ہوگی۔

۲۰۸

مارکسیت کے اس اختلاط سے دواہم نتائج برآمد ہوتے ہیں:

(1) وہ شخصی ملکیت جس کے خاتمہ کی مارکسیت کوشش کررہی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اس کے خاتمہ کے بعد طبقاتی نظام ختم ہوجائے گا اور پورا معاشرہ ایک طبقہ کی شکل میں آجائے گا۔اگر ختم بھی ہوجائے گا تو طبقات کا خاتمہ نہ ہوگا اس لئے کہ طبقات کا مسئلہ اقتصادی نہیں ہے بلکہ اجتماعی اور معاشرتی ہے۔ اس کے اسباب وعوامل کچھ اور ہیں جن کا انفرادی ملکیت کے ساتھ ختم ہوجاناکوئی ضروری امر نہیں ہے۔

(2) معاشرہ میں اگر کبھی طبقاتی نزاع قائم بھی ہوجائے تو اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ اس کی بنیاد اقتصادیات پر ہواور یہ طے کر لیاجائے کہ طبقاتی نزاع کا سرچشمہ مزدور اور منفعت کے خواہاں افراد کے جذبات کا اختلاف ہے بلکہ اس کے علل واسباب اور بھی ہوسکتے ہیں جنہیں اقتصادی حالات سے کوئی ربط نہ ہوگا۔

مارکسیت اور طبیعی عوامل

مارکسیت کا سب سے بڑاقصور یہ ہے کہ اس نے انسان کے نفسیاتی،حیاتی اور تشریحی خصوصیات کو بالکل نظرانداز کردیاہے اور تاریخی حرکت میں اسے کوئی درجہ نہیں دیاحالانکہ تاریخ خود ہی شاہد ہے کہ اس کے گوناگوں اور رنگارنگ انقلابات میں ذاتی اور طبیعی عوامل وموثرات کو بڑادخل رہاہے۔بھلا کون نہیں جانتاکہ یورپ کی تاریخ میں نپولین کی بہادری کے کارناموں کا بہت بڑاہاتھ ہے؟

کون اس امر سے واقف نہیں ہے کہ پندرہویں لویس کی نرم مزاجی ہی نے

۲۰۹

فرانس کو نمسا کا ہم آہنگ بنادیاجب کہ مادام لمبارڈر نے شاہی عزائم پر تسلط حاصل کرکے اسے نمسا کی حمایت پر مجبور کر دیا اور اس کے غیر متوازن نتائج برآمد ہوئے۔

کسے اس بات سے انکار ہے کہ ہنری کے عشق ہی نے انگلینڈ سے کیتھولک مذہب کا خاتمہ کرادیا۔

کسے نہیں معلوم کہ پدری محبت ہی نے معاویہ بن ابی سفیان کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ یزید کو عالم اسلام پر مسلط کر دے اور اس طرح اسلامی تاریخ کا رخ مڑ جائے۔

کیاکوئی شخص یہ کہہ سکتاہے کہ اگر نپولین کی بہادی،لویس کی نرم مزاجی، ہنری کا عشق اور معاویہ کی محبت نہ ہوتی تو تاریخ کا یہی رخ ہوتا جس رخ پر اب تک چلی آرہی ہے اور جس دھارے پر ان باطنی حالات نے اسے لگادیاہے۔

آپ تاریخ دیکھیں تومعلوم ہوگاکہ اگر رومان کے طبیعی حالات عین وقت پر ایک وباکاباعث نہ بن گئے ہوتے،اگر ایک مقدونی سپاہی نے اسکندر کو بچانہ لیاہوتا اور اس کے ہاتھ قطع ہوگئے ہوتے تو آج تاریخ کا یہ عالم ہرگز نہ ہوتاجو ہمارے نظروں کے سامنے ہے۔

اور جب یہ بات مسلم ہے کہ انسان کے داخلی کیفیات بھی عالمی تاریخی پر اثرانداز رہے ہیں تو مارکسیت کو کیاحق پہنچتاہے کہ وہ تمام عوامل وموثرات کا انکار کرکے ساراشرف اقتصادی حالات کے حوالے کر دے اور کاروان تاریخ کی قیادت کا سہرا انہیں کے سر باندھ دے۔

پھر یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ ان داخلی کیفیات کی کوئی تفسیر اقتصادی بنیادوںپر نہیں ہوسکتی اور نہ مارکسیت کو یہ حق ہے کہ وہ ان تمام داخلیات کو اقتصاد کے حوالے کر دے اس لئے کہ یہ بالکل واضح ہے کہ اگرلویس پانزدہم کے پاس وہ عزم محکم ہوتاجو لویس چہاردہم کے پاس تھا یا اس کے دل میں وہی ارادہ ہوتاجو نپولین کے سینے میں تھا تو تاریخ منقلب ہوجاتی ۔اقتصادیات کیاتھے اور کیاہوتے اس سے کوئی فرق نہ پڑتا۔

۲۱۰

مارکسیت عاجزآکر یہ کہہ دیاکرتی ہے کہ:

فرانس کے اقتصادی حالات ہی نے یہ قانون بنادیاتھاکہ شاہی ''وراثت''کے طور پر چلے ورنہ اگر یہ اقتصاد زدہ قانون نہ ہوتاتو لویس اس ریاست سے محروم رہتااور اس کی نرم مزاجی سے تاریخ متاثر نہ ہوسکتی۔معلوم ہوتاہے کہ یہ تمام تر اثر اس قانون کا ہے جس سے وہ حاکم بنا اور جس کی پیداوار اقتصادیات کے زیر اثرہوئی ہے۔ (دورالفرد فی التاریخ،ص68)

لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہم نے یہ بحث اب تک نہیں اٹھائی کہ لویس کو تاریخ پر اثرانداز ہونے کے امکانات کب فراہم ہوئے۔ہم تو اس بات پر گفتگو کررہے ہیں کہ یہی وارث تخت وتاج اگر اپنے پہلے بادشاہ کی طرح قوی الارادہ اور عظیم القلب ہوتاتو آج تاریخ کا کیارخ ہوتااور فرانس کے سیاسی حالات کیا ہوتے؟

واضح الفاظ میں یہ کہاجائے کہ لویس کی حکومت کے سلسلہ میں فرانس میں تین احتمالات تھے ایک یہ کہ موروثی ختم ہوجاتی اور ایک جمہوری نظام تشکیل پاتا۔

دوسرے یہ کہ شاہی نظام باقی رہتااور یہ لویس اپنے سابق لوگوں کی طرح ایک مضبوط دل اور محکم ارادہ کا انسان ہوتا۔

تیسرے یہ کہ لویس ویساہی ہوتاجیساکہ تھا۔

مارکسیت کے بیان سے اتنا تومعلوم ہوگیاکہ اگر اقتصادی حالات خراب نہ ہوتے تو بجائے شاہی کے جموریت ہوتی لیکن یہ سوال رہ جاتاہے کہ علم الاقتصاد کا وہ کون سا قانون ہے جو تخت وتاج کے وارث بادشاہوں کے دلوں میں نرمی وسختی اور ارادوں میں ضعف وقوت پیداکرتاہے،اور اگرایسی کوئی بات نہیں ہے تویہ کہاجاسکتاہے کہ اس پوری تاریخ فرانس کا موثر انسان کا داخل وباطن تھا اقتصادیات سے اس کا کوئی ربط نہ تھا۔

یہیں سے یہ بھی معلوم ہوجاتاہے کہ بلخانوف کا افراد کی کارکردگی کو تاریخی تغیرات

۲۱۱

میں ثانوی حیثیت دے دینا ایک ظالم صریح سے کم نہیں ہے اس لئے کہ ہم نے پوری پوری تاریخ افراد کے داخلی کیفیات پر رقص کرتے دیکھی ہے۔

بلخانوف کہتاہے کہ:

تاریخی افراد کے ذاتی خصوصیات نے حوادث کا رخ تومعین کیاہے لیکن ان کا یہ اثر ایک جزئی حیثیت رکھتاہے،حقیقی رخ واقعی اسباب یعنی اقتصادی حالات سے معین ہوتاہے۔ (دور الفرد فی التاریخ)

ہمارادل یہ چاہتاہے کہ بلخانوف کی اس تحقیق کے بارے میں ایک مثال پیش کردیںجہاں تاریخی اثراندازی کا تمام ترحصہ افراد ہی کے ہاتھ رہاہو۔

آپ فرمائیں کہ اگر جرمنی نے ایٹم کا راز اپنے وقت انکشاف سے چند سال پہلے معلوم کرلیاہوتاتو آج تاریخ کا کیاعالم ہوتا۔

کیا ہٹلر یورپ سے اشتراکیت کا جنازہ نہ نکال دیتا یقینا ایسا ہی ہوتا ایسا نہ ہوسکانہ اس لئے کہ اقتصادی حالات سازگار نہ تھے بلکہ صرف اس لئے کہ علماء کے داخلی کیفیات نے ساتھ نہ دیا اور وہ علم کی اس منزل پر نہ پہنچ سکے جس پر چند مہینہ کے اندر ہی فائز ہوگئے۔

بلکہ یہاں یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ اگرروس کے علماء اس راز سے ناواقف ہوتے تو سرمایہ داری اس کا خاتمہ کر دیتی اور اشتراکیت کا نام ونشان بھی نہ ہوتا،کیا ان حالات کے باوجود یہ دعویٰ کیاجاسکتاہے کہ تاریخ اقتصادیات کے دم قدم سے چل رہی ہے اور انسانی خصوصیات کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے؟

۲۱۲

مارکسیت اور فنون لطیفہ

فنون لطیفہ کا ذوق انسان کا وہ فطری جذبہ ہے جس میں دنیا کے ہر معاشرہ نے حصہ لیاہے خواہ اقتصادی اعتبار سے وہ کتنا ہی پست وبلند کیوں نہ رہاہو لیکن تاریخی مادیت نے اس ہمہ گیرذوق کے سامنے بھی اپنے کو حیران وسرگردان بنالیاہے۔

ہم جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک مصور نے کسی سیاسی لیڈر کی تصویر بنائی ہے یا ایک نقاش نے کسی میدان جنگ کا نقشہ کھینچا ہے تو ہمارے سامنے تین قسم کے سوالات ابھرتے ہیں۔یہ نقشہ کن آلات کے ذریعہ بنایاگیاہے؟اس کے بنانے کی کیاغرض تھی؟اسے دیکھ کر ہمیں ایک باطنی کیف اور نفسیاتی لطف کیوں حاصل ہوا؟

مارکسیت کے سامنے جب یہ سوالات پیش کئے گئے تو اس نے پہلے کا یہ جواب دیا کہ اقتصادی حالات کی ترقی نے انسان کو ایسے آلات بخش دیئے ہیں جن سے وہ یہ نقوش تیار کر سکے لہٰذا یہ تو اقتصاد کا طفیل اور صدقہ ہے۔

دوسرے سوال کے بارے میں یہ کہہ دیاہے کہ نقاش نے خوشامدکے طور پر یہ نقشہ تیار کیاہے اور اس سے مادی فوائد حاصل کرنا چاہتاہے۔

تیسرے سوال کے جواب میں وہ سربگر یباں ہوگئی ہے اس لئے کہ اس داخلی ذوق کو اقتصادیات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور مارکسیت اقتصادیات کے علاوہ کسی شے پر ایمان نہیں رکھتی۔

ظاہر ہے کہ اگر یہ تمام کیف ولطف اقتصادیات یا طبقات کا نتیجہ ہوتے تو اسی معاشرہ کے ساتھ فنا ہوجاتے جس کا نقش تھاحالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے فن قدیم کی لطافت انسان کی جمالیاتی حس کو آج بھی دعوت نظردے رہی ہے۔

۲۱۳

سرمایہ دار معاشرہ جاگیردار یا غلام معاشرہ کی فنکاریوں سے آج بھی لطف اندوز ہورہاہے۔

معلوم ہوتاہے کہ ذوق کوئی ایسا داخلی جذبہ ہے جو مادیت کے پنجوں میں گرفتار نہیں ہوسکا اور وہ ہر معاشرہ پر مسلط ہوگیاہے۔

مارکس نے تاریخ کے ان ادوار کو فنی ذوق کے ساتھ اس طرح جمع کیاہے کہ:

انسان قدیم فن سے صرف اس لئے دلچسپی لیتاہے کہ وہ انسانیت کے بچپن کا دور تھا اور ہر شخص کو اپنے بچپن سے محبت ہوتی ہے۔(راس المال،ص243)

افسوس کہ مارکس نے یہ نہ بتایاکہ اقتصادی اعتبار سے انسان کو اپنے بچپن سے کیوں محبت ہوتی ہے اور وہ اسے دیکھنے کے لئے کیوں بے چین رہتاہے؟

پھر یہ بھی نہ بتایا کہ اپنے بچپن کے بنائے ہوئے گھروندوں سے اتنی دلچسپی کیوں نہیں ہوتی جس قدردلچسپی یونان کے ذوق نقش ونگار سے ہوتی ہے جبکہ دونوں ہی بچپن کے آئینہ دار ہیں۔

پھراگر بات بچپن اور جوانی ہی کی ہوتی تو انسان کو قدیم طبیعی مناظردیکھ کر حظ حاصل نہ ہوتاحالانکہ وہ بہرنوع حاصل ہوتاہے اور وہ نہ کسی بچپن کا شاہکار ہے اور نہ کسی جوانی کا فن۔

کیا اس کے بعد بھی یہ کہنے میں تامل ہے کہ ان ہزار سالہ مناظر قدرت سے لطف وکیف کا حاصل ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ مارکس کا افسانہ غلط ہے اور انسانی ذوق ہمہ گیر حیثیت کا مالک ہے۔

خیراب ہم اپنی اس بحث کو ختم کرتے ہیں اور خاتمۂ کلام میں انگلز کے اس کلام کو نقل کرنے کا شرف حاصل کررہے ہیں جس کا انتظار ابتدائے بحث سے کررہے تھے۔یعنی علمی میدان میں اس کا اعتراف شکست۔چنانچہ اس نے صاف لفظوں میں اعلان کر دیاہے

۲۱۴

کہ ہماری یہ زبردستی اور اقتصادیات پر یہ پرزور ایمان کسی علمی سند کا نتیجہ نہیں ہے اس نے 1980ء میں یوسف بلاخ کو لکھاتھاکہ:

جدید قلمکاروں کا اقتصادیات پر ضرورت سے زیادہ زوردینا ایک ایسا امر ہے جس کی تمام تر ملامت میری اور مارکس کی گردن پر ہے، ہم لوگوں کا فرض تھاکہ ہم اقتصادیات کی صحیح جگہ معین کرتے اور اس کے اثرات کو سند کے ساتھ پیش کرتے ۔ہم نے ایسا ضرور کیالیکن ہمیں اس بات کا وقت،موقع یامحل نہ مل سکا کہ ہم ان دیگر عناصر وعوامل کے اثرات کی تحدید کرتے جو اقتصادیات کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ (التفسیر الاشتراکی للتاریخ،ص116)

۲۱۵

۲۱۶

مارکسی نظریہ کے تفصیلات

اب ہم تاریخی مادیت کے تفصیلات کی بحث کا آغاز کرتے ہیں۔

اس سلسلہ کے لئے ہم نے تاریخی ادوارمیں سب سے پہلے دور کا انتخاب کیاہے جس کے متعلق مارکسیت کا خیال ہے کہ وہ معاشرہ اشتراکی تھایہ اور بات ہے کہ جد لیاتی قوانین کی بناپر اپنے اندر مخالف جراثیم بھی رکھتاتھا۔وہ جراثیم جنہوں نے بڑھتے بڑھتے اس اشتراکی معاشرہ کو غلامی اور بندگی کا رنگ دے دیا۔

س: کیاکوئی معاشرہ اشتراکی بھی تھا؟

اس بحث کی تفصیلات میںجانے سے پہلے یہ طے کرنا ہوگاکہ تاریخ کے پہلے دور کے اشتراکی ہونے کی دلیل کیاہے ؟بلکہ ماقبل تاریخ کے ادوار کے بارے میں استدلال ہی کیونکر کیاجاسکتاہے؟

مارکسیت کا کہناہے کہ ماقبل تاریخ کے ادوار پر استدلال کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آج کے دن پست معاشروں کا مطالعہ کیاجائے جو ابھی ثقافت اور تمدن کی ابتدائی منزلوں میں ہیں اور پھر انہیں کے ذریعہ تاریخ بشریت کے بچپن کا اندازہ کیاجائے اور چونکہ ان پست معاشروں میں اشتراکی نظام رائج ہے۔لہٰذا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تاریخ کا ابتدائی دور اشتراکی تھا۔

مارکسیت نے بزعم خود اپنے مطلب کو ثابت کردیاہے لیکن یہ واضح رہے کہ اس

۲۱۷

نے ان پست معاشروں کا بھی مطالعہ از خود نہیں کیاہے بلکہ ان کے سلسلہ میں بھی ان سیاحوں کی روایات پر اعتماد کیاہے جنہوں نے ان معاشروں کو دیکھ کر ان کے حالات قلم بند کئے ہیں اور پھر ان بیانات میں سے بھی صرف ان اجزاء پر اعتماد کیاہے جو اس کے لئے مفید مطلب تھے۔باقی اجزاء کو تحریف شدہ قرار دے کر نظرانداز کر دیاہے اور اس طرح اپنے نظریہ کو تاریخ کی صحت کا معیار بنادیاہے اور تاریخ کو نظریات کے جانچنے کا موقع نہیں دیا جیساکہ اس کا اعتراف خود ایک مارکسی قلمکار نے کیاہے کہ:

ہم ماضی کے متعلق اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ان کی زندگی اجتماعی تھی پھر ان کے اجتماع کی کیفیت آج کے ابتدائی معاشروں سے معلوم کرلیتے ہیں یہ معاشرے افریقہ، بولونیزہ، مالنیزہ، آسٹریلیا، اسکیمو، لاجون او رقبل انکشاف امریکہ کے ہنود کے تھے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری یہ معلومات بھی دوسروں سے حاصل شدہ ہیں۔اور ان لوگوں نے ان میں شعوری یاغیر شعوری طور پر تحریف کردی ہے۔ (القوانین الاساسیڈلااقتصادالرسمالی،ص10)

ہم اگریہ تسلیم بھی کرلیں کہ مارکسیت کی معلومات ان معاشروں کے بارے میں بالکل حتمی اور یقینی ہیں تو یہ سوال بہرحال رہ جائے گا کہ خود ان معاشروں کے ابتدائی ہونے کی کیا دلیل ہے۔

مارکسیت کے پاس اس سوال کا کوئی منطقی جواب نہیں ہے سوااس کے کہ قانون جدلیت ہمیں یہ بتاتاہے کہ معاشرہ بدلتے بدلتے آج پھر اصلی حالت پر آگیاہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ ہمیں قانون کی صحت ہی میں کلام ہے جبکہ ہم ایک ہی معاشرہ کو ہزارسال سے قائم دیکھتے ہیں اور اس میں کوئی تغیر نہیں پاتے۔

س: ابتدائی اشتراکیت کے معنی کیاہیں؟

دیکھنا یہ ہے کہ مارکسیت تاریخ کے اس ابتدائی دور کو اشتراکی ثابت کرنے کا

۲۱۸

کیاطریقہ اختیار کرتی ہے اور اس کے اشتراکی ہونے کا کیامفہوم قرار دیتی ہے؟مارکسیت کا کہنا ہے کہ:

چونکہ ابتدائی ادوار میں ذرائع پیداوار ترقی یافتہ نہ تھے اس لئے ہرشیء کی پیداوار ایک جماعتی عمل کی محتاج تھی اور ظاہر ہے کہ جب پیداوار میں سب شریک ہوں گے تو تقسیم بھی برابر کی ہوگی اس لئے کہ اگر ایسا نہ ہوگاتو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک کی زیادتی دوسرے کی موت کا باعث بن جائے۔

(تطور الملکیتہ الفردیة،ص14)

یادرکئے مارکسیت کا یہ انداز بیان مورجان کے ان بیانات سے ماخوذ ہے جو اس نے شمالی امریکہ کے صحراؤں کو دیکھ کر قلم بندکئے تھے اور اس میں یہ ذکر کیاگیاتھا کہ وہ لوگ گوشت کو برابر سے تقسیم کرتے تھے۔

لیکن افسوس ہے کہ مارکسیت نے اسی کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقیات کو اس انداز سے بیان کیاہے جس سے اس کی پوری عمارت منہدم ہوجاتی ہے اور اس کے استدلال کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہ جاتی چنانچہ جمیس آرڈریز کے حوالہ سے قدیم امریکہ کے ہنود کے حالات یوں نقل کرتی ہے کہ:

وہ لوگ ضرورتمندکی ضرورت کوپورانہ کرناایک جرم عظیم خیال کرتے تھے۔

پھرکانٹیا کے حوالہ سے بیان کرتی ہے کہ:

ہندی دیہاتیوں کے ہر مردوعورت کمسن ومسن کو یہ حق تھا کہ وہ جس گھر میں چاہے داخل ہوجائے اور جو چاہے کھالے بلکہ اس طرح عاجز اور کام چور قسم کے لوگ بھی حصہ لگالیاکرتے تھے جس کا نتیجہ یہ تھاکہ کھانے کی طرف سے ہر شخص مطمئن تھا چاہے وہ کوئی کام کرے یانہ کرے اتنا ضرور تھاکہ کام چور لوگوں کو اپنی ہیبت کے فقدان کا احساس تھا۔

(تطور الملکیتہ الفردیہ،ص18)

۲۱۹

مارکسیت کے اس بیان سے معلوم ہوجاتاہے کہ ان لوگوں کی پیداواری حالت اتنی سقیم نہ تھی کہ ایک کی زیادتی دوسرے کے لئے موت کا سبب بن جاتی بلکہ پیداوار کی اس قدر فراوانی تھی کہ عاجز وضعیف وغیرہ بھی استفادہ کرلیاکرتے تھے اور ظاہر ہے کہ جب معاشرہ اتنا مطمئن ہوتو پھر اس کے اشتراکی ہونے پر کیا دلیل رہ جاتی ہے؟

پھر یہ سوال بھی پیداہوتاہے کہ جب سامان معیشت اتنا فراواں تھاتو ان لوگوں نے ایک دوسرے سے چھین جھپٹ کیوں نہیںکی معلوم ہوتاہے کہ ان تمام باتوں کا سرچشمہ ان ابتدائی انسانوں کا شعور تھاجو انہیں اس قسم کے حرکات سے روک رہاتھا۔

اگر مارکسیت کا خیال یہ ہے کہ تقسیم میں مساوات پیداوار کی قلت کی بناپر تھی تو پھر ان کام چور لوگوں کے متعلق کیاکہاجائے گاجو گھر بیٹھے کھارہے تھے اور انہیں بھوک کا احساس بھی نہ ہوتاتھا، کیا اشتراکی پیداوار کام چور لوگوں کا پیٹ بھی بھر سکتی ہے؟

اگر یہ کہاجائے کہ وہ ایسے افراد کو صرف اس لئے کھلاتے تھے کہ کاریگروں میں کمی نہ ہونے پائے تو پھر سوال یہ پیداہوگاکہ ان افراد کو کیوں کھلاتے تھے جن کے مرجانے سے پیداوار پر کوئی برااثر نہ پڑتا؟

س: اشتراکی معاشرہ کی نقیض کیاہے؟

مارکسیت اپنے نظریہ کی بناپر یہ کہہ سکتی ہے کہ ابتدائی اشتراکیت اپنے سینے کے اندرکچھ مخالف جراثیم چھپائے ہوئے تھی۔جنہوں نے آگے چل کر اس کا خاتمہ کر دیاتھا۔

ظاہر ہے کہ ان جراثیم کا سرچشمہ طبقاتی نزاع نہ تھا اس لئے کہ اشتراکی نظام میں طبقات کاوجود نہیں ہوتابلکہ اس کا حقیقی منشا یہ تھا کہ قدیم پیداوار کی بناپر ملکیت کے تعلقات جدید ذرائع پیداوار سے ہم آہنگ نہ ہوپاتے تھے۔اب انسان اپنے وسائل کی بناپر اس قابل ہوگیاتھاکہ جانوروں کی تربیت یامعمولی زراعت کرکے اپنا پیٹ پال لیتالہٰذااب اسے کوئی ضرورت اس امر کی نہ تھی کہ اپنا پورا وقت ان باتوں میں صرف کرتااور اپنی پوری

۲۲۰