اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 93979
ڈاؤنلوڈ: 2588

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 93979 / ڈاؤنلوڈ: 2588
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فائدہ کا کوئی موقع نظرنہیں آتا جس سے انسان سرمایہ دار بن سکے۔مالک پہلے تاجر سے تمام آلات خریدتاہے اس کے بعد مزدور سے اس کی طاقتیں خریدتاہے۔ظاہرہے کہ استعمالی منفعت کے اعتبار سے یہ معاملہ دونوں کے حق میں برابر ہے اس لئے کہ طرفین نے ایک شیء دی اور اس کے مقابلہ میں دوسری شیء لی لیکن تبادلی قیمت کے اعتبار سے ایسا نہیں ہے۔ تبادلہ عام طور سے برابر کی چیزوں میں ہوتاہے اور واضح سی بات ہے کہ معاملہ برابر کاہوا تو فائدہ کا کوئی سوال ہی پیدانہ ہوتا سوال یہ ہے کہ پھر فائدہ کہاں سے آگیا ۔

اس کے متعلق چند احتمالات دیئے جاسکتے ہیں۔ایک بات تویہ کہی جاسکتی ہے کہ فائدہ فروخت کرنے والے کی طرف سے پیداہوتاہے اس لئے کہ جب وہ اپنی جنس کو زیادہ قیمت پر فروخت کرے گا تو اسے فائدہ ضرور حاصل ہوگالیکن یہ بات مارکس کی نظرمیں غلط ہے اس لئے کہ یہ فائدہ اس دن ختم ہوجائے گا جب اس بیچنے والے کو جنس خریدنا پڑے گی اور بائع مشتری کی شکل اختیار کرلے گا۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ فائدہ پیداوار والوں کی طرف سے ہو۔اس وقت جب ضرورت مند افرد جنس کو اس سے زیادہ قیمت پر خریدلیں۔لیکن مارکس کی نظرمیں یہ بھی غیر صحیح ہے اس لئے کہ آج کا پیداوار والا انسان کل ضرورت مند ہوسکتاہے لہٰذا وہ تمام فائدہ کل ختم ہوجائے گا جب طرفین کی حیثیت بدل جائے گی۔

مقصد یہ ہے کہ اس فائدہ کا راز ازیادہ قیمت پر بیچنے میں مضمر ہے اور نہ وقت ضرورت زیادہ قیمت پر خریدنے میں بلکہ اس کا رازصرف یہ ہے کہ مالک مزدور سے دس گھنٹہ کاکام لے کر اس پورے وقت کی اجرت نہیں دیتا۔

صرف اس خیال کی بناپر کہ ہم نے عمل نہیں خریداہے بلکہ وہ طاقت خریدی ہے جس کی بناپر یہ عمل ظہور میں آیاہے اور ظاہرہے کہ طاقت کے عوض میں اتنا مال دے دینا کافی ہے جس سے آئندہ کام کرنے کے لئے طاقت محفوظ رہے پوری قیمت کا دینا ضروری نہیں

۲۶۱

ہے اگرچہ وہ اسی کے عمل سے پیداہوئی ہے۔

مارکس نے اپنے اس بیان سے یہ واضح کر دیاہے کہ سرمایہ دار مزدور سے اس کی طاقت خریدتاہے اور اسی کی قیمت ادا کرتاہے۔حالانکہ جنس کو تحویل لیتے وقت اسے عمل کی صورت میں وصول کرتاہے۔

ظاہرہے کہ اگر وہ عمل کو لے کر اس سے پیداشدہ پوری قیمت کو مزدور کے حوالے کردے تو کوئی نزاع ہی واقع نہ ہو لیکن چونکہ ایسا نہیں ہوتا اس لئے سرمایہ دار اور مزدور کی طبقاتی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔

کھلی ہوئی بات ہے کہ مارکس کا یہ پورا بیان اس کے مقرر کئے ہوئے معیار پر مبنی ہے۔اس لئے کہ وہ قیمت کو عمل کے اعتبار سے معین کرتاہے اور اسی لئے یہ دعویٰ کرتاہے کہ سرمایہ دار مزدورسے اس کی پیداکردہ قیمت کا ایک حصہ غصب کرلیتاہے۔

لہٰذا اگر یہ ثابت ہوجائے کہ قیمت کا معیار صرف عمل نہیں ہے بلکہ اس میں اور عناصر بھی شریک ہیں تو مارکس کی پوری بنیاد منہدم ہوجائے گی اور اس کا نظریہ باطل محض ہوکر رہ جائے گا۔

ہم نے گذشتہ بحث میں یہ واضح کردیاہے کہ قیمت کا عمل معیار نہیں ہے بلکہ ایک سیکالوجی صفت ہے۔جس میں پورا معاشرہ شریک ہوتاہے اور وہ ہے رغبت۔لہٰذااس زائد قیمت کی تفسیر کے لئے ہمیں غصب وسلب کے داخل کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم خام مواد کی اہمیت کو پیش نظررکھ کر اس کے راز کو واضح کر سکتے ہیں۔

یادرکھئے کہ جو خام مواد بھی فطری اعتبار سے قدرے ندرت رکھتاہے جیسے لکڑی کہ وہ ہواکہ نسبت سے کمیاب ہے اس کی خود بھی ایک قیمت ہوتی ہے خواہ اس میں کوئی انسانی عمل شریک ہواہویانہ ہواہو اور یہی وہ بات ہے جسے مارکس نے ٹھکرا کر یہ طے کر دیاہے کہ جب تک عمل شریک نہ ہوجائے خام مواد کی کوئی قیمت ہی نہی ہوتی ہے۔

۲۶۲

ہم یہ تسلیم کرتے ہیںکہ خام مواد تک ظاہرنہ ہوجائے زیر زمین اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور جب انسانی محنت سے سامنے آجاتاہے تو اس کی ایک قدروقیمت پیداہوجاتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پوری قیمت عمل کے زور پر پیداہوئی ہے۔

اس لئے کہ اگر مارکس کو یہ کہنے کا حق ہوگاتو ہم بھی یہ کہیں گے کہ عمل جب تک کسی خام مواد سے معلق نہ ہو اس وقت تک اس کی بھی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی۔تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم عمل کی اہمیت سے بھی انکار کر دیں۔ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ہمارافرض ہے کہ ہم دونوں عناصر کی اہمیت کو پیش نظررکھ کر یہ دیکھیں کہ جس طرح زیرزمین سونے کی کوئی وقعت نہیں ہے اسی طرح بالائے زمین مہمل مواد میں صرف ہونے والے عمل کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔دونوں اپنا صحیح مرتبہ اسی وقت پاسکتے ہیں جب ایک دوسرے سے منظم ہوجائیں اور اپنے صحیح انداز میں معاشرہ کے سامنے آئیں۔

اور جب یہ با ت واضح ہوگئی کہ نفسیاتی معیار یعنی عمومی رغبت کے اعتبار سے عمل کے ساتھ خام مواد کو بھی قیمت کی ایجادمیں دخل ہوتاہے تو اب ہمارا فرض ہے کہ ہم ان تمام عناصر کو پیش نظررکھیں اور یہ سمجھیں کہ قیمت صرف عمل کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس میں زمین کا بھی دخل ہوتاہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک ہی عمل جب باصلاحیت زمین پر صرف ہوجاتاہے تو زیادہ قیمت پیداہوجاتی ہے اور جب بے صلاحیت اراضیات پر لگ جاتاہے تو کم قیمت وجود میں آتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قیمت کی تشکیل میں زمین کا بھی حصہ ہے اور جب یہ ثابت ہوگیاکہ تمام قیمت عمل کی پیداوار نہیں ہے تو پھر یہ کہنا صحیح نہ ہوگاکہ سرمایہ دار کا فائدہ مزدور سے چرایاہواہوتاہے بلکہ اسے زمین کی صلاحیت یا خام مواد کی طرف بھی منسوب کرسکتے ہیں۔

آپ یہ سوال نہ کریں کہ اس عالم طبیعت سے حاصل شدہ قیمت کا مالک کون ہے مزدور یاکوئی اور۔

۲۶۳

اس لئے کہ یہ بات ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ہم تو صرف اتنا واضح کرنا چاہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ فائدوں کی تفسیر کے لئے مزدور کے حقوق کا تذکرہ کوئی ضروری شیء نہیں ہے بلکہ اس کی توجیہ اس کے علاوہ دوسرے اسباب کی بناپر بھی ہوسکتی ہے۔

یہ تو صرف مارکس کے نظریہ کی مجبوری تھی کہ وہ مزدور کے حقوق کی زبردستی حمایت کرے ورنہ عمومی رغبت کے معیار پر یہ توجیہ مہمل ہے اور اس کے علاوہ دیگر توجیہوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔

اس مقام پر ایک اور شیء بھی قابل توجہ تھی جسے مارکس نے نظرانداز کر دیاہے اور وہ ہے قیمت کی وہ مقدار جو کارخانہ کے مالک کی تنظیمی صلاحیتوں سے پیداہوتی ہے۔

مارکس کو چاہئے تھاکہ اپنے نظریہ کی بناپر اس عمل کی بھی ایک قیمت لگاتااور سرمایہ دار کے تمام فائدوں کو لوٹ مار پر محمول نہ کرتالیکن اس نے بنیاد ہی ایسی قائم کی تھی جس کی بناپراتنے اہم کام سے بھی غفلت کرنا پڑی اور اس طرح مزدوروں،آلات خام مواد، درآمد، برآمد جیسے تمام اہم کاموں کی اہمیت کا انکار کرناپڑا۔

اور جب ہم نے یہ واضح کردیاہے کہ مارکس کا قانون قیمت اور نظریۂ''قیمت زائد'' دونوں باطل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہواکہ طبقات میں قائم ہونے والی داخلی نزاع بھی بے بنیاد ہوگئی اور مارکسی تحقیق کی پوری عمارت مسمار ہوگئی لیکن تاہم اس تفصیل کی طرف ایک مختصر اشارہ ضروری ہے۔

یادرکھئے مارکس کی نظرمیں دوقسم کے تناقض ہیں۔ایک مالک اور مزدور کا تناقض۔

ایک طاقت اور تناقض۔

مالک اور مزدور کے تنازع کا سبب یہ ہے کہ مالک مزدور کی پیداکردہ قیمت کا ایک حصہ مارلیتاہے اور اسے اس کا پورا حق نہیں دیتا۔اس بنیادکے باطل ہونے کا رازیہ ہے کہ قیمت کا تمام تر تعلق عمل سے نہیں ہے۔

۲۶۴

لہٰذا اس حصہ کا مزدور کی طرف منسوب ہونا ہی ثابت نہیں ہے کہ مزید کسی غصب سلب یالوٹ مار کا سوال پیداہو۔

یہ صحیح ہے کہ مالک کی مصلحت یہ ہوتی ہے کہ مزدوری کم ہواور مزدور کی مصلحت یہ ہوتی ہے کہ مزدوری زیادہ ہو اور یہ بھی صحیح ہے کہ ایک کے فائدہ سے دوسرے کا نقصان ہوگا اور اس طرح دونون میں ایک قسم کی کشاکش ہوگی لیکن یادرکئے کہ اسے اس طبقاتی نزاع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جسے مارکسیت کی اصلاح میں داخلی تناقض کہتے ہیں بلکہ یہ مصالح کا اختلاف ہے جو دکاندار اور خریدار کے درمیان بھی ہوتاہے اور فنکار وغیر فنکار کے درمیان بھی۔

اول الذکر کا مطلوب یہ ہوتاہے کہ قیمت یا اجرت زیادہ ہواور آخر الذکر کا مقصد یہ ہوتاہے کہ قیمت کم یااجرت مساوی ہو۔

ظاہر ہے کہ اس اختلاف کو کسی مارکسی نظریہ کے انسان نے داخلی تناقض یا طبقاتی نزاع سے تعبیر نہیں کیا اور نہ کسی کو اس بات کا حق ہی پہنچتاہے۔

طاقت اور عمل کے تناقض کا سبب یہ ہے کہ مالک مزدور سے اس کی طاقت خریدتا ہے اور پھر وقت تحویل عمل وصول کرتاہے جس کی بناپر ایک باہمی طبقاتی نزاع پیداہوجاتی ہے۔

طاقت کے خریدنے کے سلسلہ میں مارکسیت کا فلسفہ یہ ہے کہ مزدور کے پاس دو ہی چیزیں ہوتی ہیں ایک عمل اور ایک اس کی طاقت۔

ظاہر ہے کہ عمل خریداری کے قابل نہیں ہے اس لئے کہ خریداری کے لئے قیمت کا تعین ضروری ہے اور قیمت کا تعین عمل سے ہواکرتاہے ۔لہٰذابراہ راست عمل کی خریداری غیر ممکن ہے اور جب عمل کسی معیار کے نہ ہونے کی بناپر خریداری کے قابل نہ رہاتو اب خرید و فروخت اس طاقت میں منحصر ہوگئی جو اس کی پشت پر کارفرماہے۔

اسلامی اقتصادیات سے باخبرافراد جانتے ہیں کہ وہ مارکس کے اس تجربہ کا پورے

۲۶۵

طور پر مخالف ہے اس کی نظرمیں مزدور سے نہ اس کا عمل خریداجاتاہے اور نہ اس کی طاقت بلکہ خریدوفروخت کا تمام تر تعلق اس منفعت سے ہوتاہے جو عمل کے نتیجہ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے مثال کے طورپریوں سمجھ لیں کہ اگر لکڑی کا مالک نجار سے تخت بنواکراسے اجرت دے تو اس اجرت کا تعلق نہ اس کے عمل سے ہوگا اور نہ اس کی طاقت سے بلکہ اس کا پورا پورا تعلق اس کیفیت اور ہیئت سے ہوگا جو نجار کے عمل کے نتیجہ میں ان لکڑیوں میں ظاہر ہوئی ہے یعنی صورت تخت اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ ہیئت نہ عمل سے تعلق ہے اور نہ طاقت سے بلکہ اس کا کوئی تعلق انسانی اجزاء سے بھی نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستقل شیء ہے جس کی قیمت نفسیاتی معیار یعنی عمومی رغبت کی بناپر لگائی جائے گی جیساکہ سابق میں واضح کیا جاچکاہے۔

(غنیتہ الطالب فی حاشیہ المکاسب،ص16)

اس مقام پر یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ قیمت کی تشکیل میں اگرچہ منفعت اور خام مواد دونوں کا دخل ہوتاہے لیکن اس کے باوجود دونوں میں ایک مختصر سافرق بھی ہے اور وہ یہ کہ منفعت ایک اختیاری کام ہے اس لئے انسان اس بات پر قادر ہے کہ اس منفعت میں قدرت پیداکرکے اس کی قیمت بڑھادے جیساکہ عام طور پر ہر طبقہ کی یونین کی طرف سے ہوتاہے اور لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس وقت قیمت کا اضافہ سیاسی بنیاد پر ہوگیاہے۔

حالانکہ ایساکچھ نہیں ہوتا۔اس کا راز بھی اسی عمومی رغبت میں پوشیدہ ہوتاہے سیاسی مصالح کا کام صرف یہ ہوتاہے کہ جنس کو نادرا لوجودبنادیں۔اس کے بعدرغبت کا زیادہ ہوجانا تو ایک فطری اور لازمی قانون ہے۔

سرمایہ داری کے تجربے کے سلسلہ میں مارکس کے بنیادی نقطہ کی تحلیل کرکے یہ بتایا جاچکاہے کہ''زائد قیمت کی مارکسی تفسیر جس پر اس کی نظر میں پورے نظام کی بنیاد ہے ایک بے بنیاد شیء ہے۔''

مناسب معلوم ہوتاہے کہ مارکسیت کے دیگر مراحل پر بھی ایک نظرکرلی جائے

۲۶۶

تاکہ بحث کے خاتمہ سے پہلے ہی مارکسیت کی پوری حقیقت طشت ازبام ہوجائے۔

مارکسیت نے''قیمت''اور''قیمت زائد''کے بارے میں اپنے قوانین مقرر کرنے کے بعد ان سے استنتاج شروع کیا اور یہ بیان کیاکہ ان قوانین کا سب سے پہلا نتیجہ یہ ہوگاکہ معاشرہ میںایک طبقاتی نزاع قائم ہوجائے گی۔ایک طرف وہ مالک ہوگاجو مزدور کی پیداکردہ قیمت کا ایک حصہ غصب کررہاہوگا اور دوسری طرف مزدور ہوگا جس کے حقوق پامال ہورہے ہوں گے۔نتیجہ یہ ہوگاکہ یہ کشمکش بڑھتی جائے گی اور آخر کار معاشرہ انحطاط کی اس منزل پر پہنچ جائے گا اور جنگ اتنی شدید ہوجائے گی کہ موجودہ نظام کو کرسی زعامت سے دست بردار ہوجانا پڑے گا اور جدید نظام کے لئے راستہ ہموار ہوجائے گا۔

دوسرا نتیجہ ہوگا''قلت فائدہ''اس لئے کہ جب سرمایہ داروں میں باہمی مقابلہ ہوگا اور ہر شخص اپنے کارخانے کو ترقی دینے کے لئے نئے آلات خریدے گا تو اس کا واضح اثر یہ ہوگاکہ فائدہ کا زیادہ حصہ دوبارہ سرمایہ بنادیاجائے گا اور فائدہ کی مقدار کم ہوجائے گی اس لئے کہ فائدہ عمل کا تابع ہوتاہے اور جب آلات زیادہ ہوجائیں گے تو فائدہ کی مقدار کم ہوجائے گی اور پھر عمل بھی کم ہوجائے گا۔

اب یاتو مزدوروں سے مقررہ قیمت پر زیادہ کام لیاجائے گا یا ان کی اجرت میں کمی کر دی جائے گی اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں اس طبقاتی جنگ کے شعلوں کو تیز تر کر دینے کیلئے کافی ہیں جس کے بعد سرمایہ دار کے خاتمہ کے امکانات قوی تر ہوجائیں گے۔

تیسرا نتیجہ ہوگا''عمومی فقر وفاقہ''اس لئے کہ جب نئے نئے آلات برسرکار آجائیں گے تو مزدوروں کی ضرورت کم ہوجائے گی ان کی جگہ آلات سے کام لیاجائے گا اور انجام یہ ہوگاکہ مزدورطبقہ عمومی فقر وفاقہ میں مبتلا ہوجائے گا اور طبقاتی جنگ کے عوامل و موثرات میں کچھ اور بھی اضافہ ہوجائے گا۔

چوتھا اور پانچواں نتیجہ احتکارواستعمار کی شکل میں ظاہرہوگا۔اس لئے کہ جب ملک

۲۶۷

کی پبلک عمومی تندرستی میں مبتلا ہوجائے گی تو ان اجناس کے خریدار کم ہوجائیں گے اور سرمایہ دار کو ضرورت ہوگی کہ اپنے مال کا احتکار کرے اور خارج حدود مملکت دوسرے بازاروں پر قبضہ کرے جسے استعماری حرکت کہتے ہیں اور یہ تمام باتیں وہ ہوں گی جو انقلاب کے اسباب مہیاکریں گی اور مزدور کے ہاتھوں سرمایہ دار نظام کا خاتمہ ہوگا۔

مارکسیت کے اس استنتاج کو نقل کرنے کے بعد ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ ان نتائج کی بنیادوں کو واضح کرکے ان کی حقیقت کو بے نقاب کیاجائے۔

ظاہر ہے کہ پہلے نتیجہ کاتمام تر تعلق قانون قیمت سے ہے۔اگریہ تسلیم ہوجائے گا کہ قیمت کا معیار صرف عمل ہی ہے تو یہ کہاجاسکتاہے کہ مالک مزدور کی پیداکردہ قیمت میں سے ایک حصہ سرقہ کرلیتاہے۔

لیکن واضح ہے ہم نے اس معیار کو باطل کر دیاہے اور ہماری نظرمیں اس نتیجہ کی کوئی وقعت نہیں ہے۔

دوسرا نتیجہ بھی اسی قانون کی ایک فرع ہے اس میں بھی یہی فرض کیاگیاہے کہ قیمت عمل سے پیداہوتی ہے اورجب آلات کی زیادتی سے عمل کم ہوجائے گاتو قیمت بھی کم ہوجائے گی اورسرمایہ دار کو بقدر ضرورت فائدہ حاصل نہیں ہوسکے گا جس کا خمیازہ مزدور کو بھگتنا پڑے گا۔

ظاہر ہے کہ جب یہ بنیاد ہی ختم کر دی گئی ہے تو اب اس نتیجہ پر بحث کرنا عبث اور مہمل ہے۔

تیسرا نتیجہ مارکس کی اس تقلید کا اثر ہے جسے اس نے ریکارڈو سے حاصل کرکے اس پر اپنی تحقیقات کا اضافہ کیاہے ،ریکارڈو نے مزدور اور آلات کے تعلق پر بحث کرتے ہوئے یہ بیان کیاہے کہ آلات کی فراوانی مزدور کے حق میں ہمیشہ مضر ہواکرتی ہے اس لئے کہ اس طرح مزدور کی ضرورت کم ہوجاتی ہے اور وہ تنگ دستی کاشکار ہوجاتاہے۔مارکس نے

۲۶۸

اس تحقیق کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر ایک نکتہ کا اضافہ کردیاہے کہ آلات کی فراوانی سے فقط مزدور کی کمی ہی نہیں ہوگی بلکہ ایک دوسرا نقصان یہ بھی ہوگاکہ آلات کے باعث بڑے سے بڑا کام عورتیں اور بچے بھی کرنے لگیں گے اور اس طرح قومی اور ماہر مزدور بیکار ہوجائیں گے ۔جوان کی موت کا پیش خیمہ ہوگا۔

مارکس تو اسپنی تحقیقات نذر کا غذ کرکے رخصت ہوگیالیکن جب اس کے پرستاروں نے یہ دیکھاکہ یورپ اور امریکہ کے سرمایہ دار ممالک میں یہ تنگ دستی، یہ فقر وفاقہ نہیں ہے تو وہ متحیر ہوگئے اور انہوں نے اس امر کی ضرورت محسوس کی کہ مارکس کے کلام کی تاویل کی جائے چنانچہ یہ کہاگیاکہ لوگ اگرچہ مستقل طور پر مطمئن نظرآتے ہیں لیکن سرمایہ داروں کے مقابلہ میں انہیں تنگ دست اور فقیرہی کہاجائے گا اور یہ نسبت یوں ہی بڑھتی رہے گی یہاں تک کہ آخری نقطہ پر پہنچ جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ مارکسیت کی یہ تاویل اسی غلط بنیادکی بناپر ہے جس کی طرف ہم نے متعددباراشارہ کیاہے کہ مارکس نے اپنے بیانات میں انسانی اقتصادیات کو اس کے اجتماعیات کے ساتھ بالکل مخلوط کردیاہے اور اس طرح ایک کا عذاب دوسرے کے سر ڈال دیاہے ورنہ ہر صاحب عقل وانصاف سمجھ سکتاہے کہ فقروفاقہ کا ایک مفہوم ہے جو انسان کی ذاتی پریشانی سے پیداہوتاہے اسے کسی دوسرے شخص کی مالی حالت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ایک شخص اپنے حالات کے اعتبار سے مطمئن زندگی بسر کررہاہے تو اسے فقیر نہیں کہاجا سکتا خواہ اس کی مالیت اور آمدنی ہزاروں آدمیوں سے کم ہو۔

یہ فقراور یہ تنگ دستی اجتماعی اعتبار سے تو فرض کی جاسکتی ہے لیکن اقتصادیات میں اس کا کوئی مرتبہ نہیں ہے مارکس چونکہ تمام عالم کو اقتصادی بناناچاہتاہے اس لئے وہ اپنے کو اس قسم کے بیانات پرمجبور پارہاہے۔

بہرحال اب یہ سوال رہ جائے گا کہ یہ عمومی تنگ دستی کہاں سے پیدا ہوتی ہے اور

۲۶۹

اس کا سرچشمہ کیاہے؟اس کے متعلق یادرکھئے کہ اس کا تعلق انفرادی ملکیت سے نہیں ہے بلکہ اس کا سبب سرمایہ دارانہ منافع کی وہ آزادی ہے جوکسی محدودیت اور پابندی سے دوچار نہیں ہوئی۔نہ اس میں باہمی تعاون کا کوئی سوال ہے اور نہ پست طبقہ کی کفالت کا، ورنہ اگر کوئی نظام انفرادی ملکیت کے ساتھ اس قسم کے اجتماعی قوانین کا بھی حامل ہوتو اس میں اس قسم کی خرابیاں نہیں پیداہوسکتیں۔

چوتھا نتیجہ ہے کہ استعمار، مارکسیت نے اپنی عادت کے مطابق اسے بھی اقتصادیات سے مربوط کرتے ہوئے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ شخصی ملکیت کے طفیل میں جب سرمایہ داری آخری نقطۂ عروج پر پہنچ جاتی ہے تو اس کے واسطے ملکی بازار ناکافی ہوجاتے ہیں اور اسے غیر ملکی بازاروں پرقبضہ جمانے کی فکر ہوتی ہے اور اسی غاصبانہ حرکت کا نام استعمار ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ مارکس کا یہ بیان بھی خلاف واقع ہے۔اگر استعمارکا تعلق سرمایہ داری کی ترقی سے ہوتاتو اس کا وجود صرف ان ممالک میں ہوتا جہاں سرمایہ داری آخری منزل پرہو، حالانکہ تاریخ نے ہمیں یہ بتایاہے کہ استعمار سرمایہ داری کے وجود کے ساتھ چلتاہے وہ اس کی ترقی کا انتظار نہیں کرتا۔چنانچہ آپ ملاحظہ کریں گے یورپ میںسرمایہ داری کے آتے ہی استعمار کی فکر شروع ہوگئی۔برطانیہ نے ہندوستان، برما، جنوبی افریقہ، مصر، سوڈان وغیرہ پر قبضہ جمایا، فرانس نے ہند چینی، جزائر،مراکش، تونس، مڈغاسکر وغیرہ کو لیا، جرمنی ے مغربی افریقہ اور جزائرباسفیک پر چھاپہ مارا، اٹلی نے غربی طرابلس اور صومال پر اپنا رنگ جمایا، بلجیک نے کانگو، روس نے ایشاء کے بعض حصے اور ہالینڈ نے جزائر ہند کو اپنے استعمارمیں داخل کرلیا۔

کیا ان حالات کے باوجود بھی مارکس کی تفسیر کو قبول کیاجاسکتاہے؟نہیں ہرگز نہیں۔ استعمار کا تمام ترتعلق معاشرہ کے اخلاقی اور روحانی انحطاط سے ہوتاہے جس معاشرہ کی نظرمیں مادہ ہی مادہ ہوتاہے وہ اپنی اس مادی ترقی کے استحصال کے لئے اس قسم کے

۲۷۰

ناجائز اقدامات کیاکرتاہے۔اگرکوئی ایسا نظام تلاش کرلیاجائے جس میں انفرادی ملکیت کے ساتھ اخلاقی اقدارا اور روحانی افکار کا بھی لحاظ ہوتوا س میں اس قسم کے اقدامات کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔

پانچواں نتیجہ ہے احتکار، ماکسیت نے اسے بھی انفرادی ملکیت کا نتیجہ قرار دیاہے کہ جب ملک میں فقر وفاقہ عام ہوجائے گا اور لوگ بقدر ضرورت قیمت نہ دے سکیں گے تو سرمایہ دار اپنے مال کا ذخیرہ کرے گا اور اس طرح لوگ بھوک سے ہلاک ہوجائیں گے۔

حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے احتکار اور ذخیرہ اندوزی کو انفرادی ملکیت سے کیاتعلق ہے، یہ ملکیت تو صرف انسان کو مالدار بناتی ہے،احتکار کی فکر تو اس وقت پیداہوسکتی ہے جب اس کی یہ ثروت مندی اور مالداری بالکل ہی مطلق العنان ہو اور اس پر کسی قسم کی قانونی اورا خلاقی پابند ی نہ ہو۔

لیکن اگر نظام ایسا ہوجس میں انفرادی ملکیت کے ساتھ بڑھتی ہوئی سرمایہ داری کے روکنے کے قوانین بھی ہوں تو پھر اس نظام میں احتکار ااور ذخیرہ اندوزی کا تصور غلط ہوگا۔

مقصد یہ ہے کہ مارکسیت کے بیان کردہ مفاسد کا کوئی تعلق انفرادی ملکیت سے نہیں ہے بلکہ اس کے اسباب وعوامل کچھ اور ہی ہیں لہٰذا اس ملکیت سے بدظنی خلاف قانون ہے۔

۲۷۱

مارکسی مذاہب

تمہید

ابتدائے کتاب میں ہم یہ کہہ آئے ہیں کہ اقتصادی مذہب اس مکمل تنظیم اور دستور زندگی کا نام ہے جس کے انطباق سے معاشرہ کی اقتصادی حالت سنور سکے اور وہ خیر و برکت سے ہم آغوش ہوسکے اور علم الاقتصاد اس طریقۂ تحقیق کا نام ہے جس کے ذریعہ ان فطری قوانین کا انکشاف کیاجائے جو عالم طبیعت پر حکومت کررہے ہیں۔ظاہرہے کہ اس تقسیم کی بناپر مذہب دعوت عمل کا نام ہے اور علم انکشاف حقیقت کا، مذہب ایک تخلیقی عنصر ہے اور علم ایک تحقیقی میدان۔

یہی وجہ ہے کہ ہم نے ابتدائے مارکسیت کے بارے میں تاریخی مادیت کو اس کی تنظیمات سے الگ کر دیاتھا کہ تاریخی مادیت پیداوار کے فطری تکامل اور تاریخی ارتقاء سے بحث کرتی ہے اور مذہب انسانیت کو ان تقاضوں پر عمل کرنے کی دعوت دیتاہے مادیت محقق ومفکر ہے اور مذہب داعی ومبشر۔

لیکن اس سے یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہئے کہ مارکسی تنظیمات کو مادیت تاریخ سے کوئی ربط نہیں ہے بلکہ یہ مذاہب درحقیقت اسی مادیت کے فطری نتائج ہیں جو جدلی قوانین کی بناپر

۲۷۲

مستقبل میں رونما ہوں گے۔ان دونوں میں ایک بنیادی اتحاد ہے جس کی بناپر ایک دوسرے کی تعبیر اور اس کا ترجمان کہہ سکتے ہیں،اشتراکیت واشتمالیت در حقیقت اسی تاریخی ارادے کو پورا کرنا چاہتی ہیں۔جو مادیت کی روشنی میں حتمی ہوچکاہے اور جس پر عمل درآمد تاریخ کی ایک اہم ضرورت ہے۔

شائد اسی باطنی اتحاد کا اثر تھا کہ مارکس نے اپنی اشتراکیت کو''علمی اشتراکیت'' کے نام سے موسوم کیاہے اور باقی تمام اشتراکیتوں کو ذہنی خیالات کا درجہ دیاہے صرف اس لئے کہ ان کی بنیاد کسی علمی قانون پر نہ تھی اور وہ جلد ہی تباہی کے گھاٹ اتر گئیں۔

مارکسی تنظیم کے دو مرحلے ہیں۔جنہیں وہ تدریجی حیثیت سے رائج کرنا چاہتی ہے پہلے مرحلے کانام ہے اشتراکیت اور دوسرے کا نام ہے اشتمالیت، تاریخ مادیت کے لحاظ سے اشتمالیت تاریخ کا وہ آخری درجہ ہے جہاں پہنچ کر قافلۂ بشریت ٹھہر جائے گا اور تاریخ اپنا آخری فیصلہ سنادے گی،معجزہ ظاہر ہوجائے گا اور عالم کو اطمینان کی سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔

اشتراکیت درحقیقت اسی مستقبل کی ایک تمہید ہے جس کا مقصد سرمایہ داری کا خاتمہ کرکے اشتمالیت کے لئے راستہ ہموار کرناہے۔

اشتراکیت واشتمالیت کیاہیں؟

مارکسیت نے تاریخ کے ہر مرحلہ کے لئے کچھ قواعد وقوانین وضع کئے ہیں جن پر تاریخ کو سیرکرنا ہے۔اشتراکیت کے لئے چار اصول ہیں:

۲۷۳

(1) طبقات کو ختم کرکے ایک غیر طبقاتی معاشرہ کی ایجاد۔

(2) مزدور طبقہ کی طرف سے اشتراکیت کے استحکام کے لئے ایک ڈکٹیٹر شپ کا قیام۔

(3) ثروت اور ذرائع پیداوار پر اشتراکی قبضہ۔

(4) بقدر طاقت عمل اور بقدر عمل اجرت کی بنیاد پر ثروت کی تقسیم۔

اس کے بعد تاریخ جب ترقی کرے گی اور اشتمالیت کی منزل میں قدم رکھے گی تو ان اصولوں میں کسی قدر تغیر ہوجائے گا۔

دوسرے میں اتنا تغیر ہوگاکہ ڈکٹیٹر شپ کا تصور بھی ختم ہوجائے گا اور لوگ حکومتی قید وبند سے بالکل آزاد ہوجائیں گے۔

تیسرے قانون میں فقط سرمایہ دارانہ وسائل پر قبضہ نہ ہوگا بلکہ شخصی پیداوار بھی مجموعی حیثیت پیداکرے گی اور انفرادی ملکیت کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔

چوتھے قانون میں تقسیم کا معیار عمل کے بجائے ضرورت کو قرار دیاجائے گا اور ہر شخص کو بقدرحاجت مال ملاکرے گا۔

یادرکھئے کہ کسی نظام پر تنقید کرنے کے لئے تین قسم کے طریقے استعمال ہوتے ہیں:

(1) ان اصولوں پر تنقید کی جائے جن پر اس نظام کی بنیاد ہے۔

(2) یہ دیکھاجائے کہ آیا یہ اصول اس نظام پر منطبق بھی ہوتے ہیں یا نہیں۔

(3) اس بات پر غور کیاجائے کہ آیایہ نظام معاشرہ پر انطباق کے قابل بھی ہے یا نہیں؟

ہم بھی انہیں طریقوں کو پیش نظررکھ کر مارکسیت کے ان مذاہب وتنظیمات پرتبصرہ کریں گے۔

۲۷۴

مارکسی مذہب پر عمومی تنقید

مارکسی مذاہب کے سلسلہ میں سب سے پہلااور خطرناک سوال یہ اٹھتاہے کہ ان مذاہب کی دلیل کیاہے۔جس کی بناپرسارے عالم کو ان کی پابندی کی دعوت دی جارہی ہے۔

ظاہرہے کہ مارکس اپنی اس مساوات کو اخلاقی قدروں کا نتیجہ قرار دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔اس لئے کہ اخلاقیات اس کی نظرمیں ادہام کا نتیجہ ہیں۔درحقیقت چند اقتصادی ضروریات ہیں جن کو اخلاقیات کا نام دیاجاتاہے یادیاجانا چاہئے۔اس کے علاوہ اخلاق کا کوئی اور مفہوم نہیں ہے۔

اس نقطۂ خیال کے ماتحت وہ اپنے مذاہب پر تاریخی مادیت سے استدلال کرتی ہے۔ اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یہ مادیت فطری طور پر سرمایہ داری کو ختم کرکے اشتراکیت کی بنیاد ڈال دینا چاہتی ہے۔

اس مقام پر ایک جدید سوال یہ ابھرتاہے کہ مادیت اشتراکیت کو کس طرح چاہتی ہے اس کا جواب دیاجاچکاہے جس کا خلاصہ یہ تھاکہ تاریخ اپنے مخصوص عوامل ومحرکات کے تحت چلتی ہے جو اس کا مستقبل معین کرتے ہیں اور چونکہ سرمایہ داری کے دور تک پہنچ کر اس میں زائد قیمت کا دخل ہوجاتاہے۔اس لئے اسے ایک دن طبقاتی نزاع سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اور اس کے نتیجہ میں مزدوروں کی فتح ہوگی جس کا دوسرا نام اشتراکیت ہوگا۔

ہم اپنی سابق گفتگو میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ مادیت ایک بے بنیاد نظریہ ہے اور تاریخ اس کے قوانین کا اتباع کرنے پر راضی نہیں ہے۔

ہم نے یہ بھی بتادیاہے کہ سرمایہ داری کے تناقضات میں زائد قیمت وغیرہ کا نام لینا غلط ہے۔ان سب کی ایک قانونی بنیاد ہے جو ان کے ماسواہے۔لہٰذا ان اسباب کی بنا پر

۲۷۵

سرمایہ داری کا خاتمہ غیر معقول ہے اور اگر بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو یہ سوال بہرحال باقی رہے گا کہ اشتراکیت کی خلافت کی دلیل کیاہے؟

کیایہ ممکن نہیں ہے کہ سرمایہ داری کے خاتمہ کے بعد حکومتی اشتراکیت قائم ہوجائے یاایسی تنظیم آجائے جس میں مختلف قسم کی ملکیتیں ہوں یا ایسا نظام حکومت کرے جس میں مظلوموں کے اموال واپس دلادیئے جائیں۔

اور اگر یہ تمام امکانات پائے جاتے ہیں تو اشتراکیت کے حتمی ہونے کا خواب کیونکر شرمندۂ تعبیر ہوگا اور مارکسی استدلال کس طرح درجہ تکمیل کو پہنچے گا؟یہ مسئلہ جواب طلب ہے۔

اشتراکیت

اس اجمالی تجزیہ کے بعد ہم اشتراکیت کے قوانین کا ایک تفصیلی جائزہ لینا چاہتے ہیں، آپ کویاد ہوگاکہ اس کا پہلا قانون ہے طبقات کا خاتمہ اور غیر طبقاتی معاشرہ کی ایجاد ۔

اس کا یہ سبب بیان کیاگیاہے کہ تاریخ کے تمام ادوار جد لیاتی مادیت کے تحت چل رہے ہیں۔ہردور کاایک تقاضہ ہوتاہے جس کے مطابق نظام برسرکارآتاہے۔اب چونکہ سابق کے نظاموں میں انفرادی ملکیت کا ایک مقام تھا اس لئے اس کا لازمی نتیجہ یہ تھاکہ ایک شخص سرمایہ دار ہو اور دوسرا مزدور،ایک امیرہواور دوسرا فقیر، اور اس طرح طبقات کی بنیاد پڑجائے گی۔

اشتراکی معاشرہ چونکہ ان خرافات کو قبول نہیں کرتااور انفرادی ملکیت کی کسی

۲۷۶

حیثیت کا قائل نہیں ہے۔اس لئے اس میں طبقات کا وجود غیر ممکن ہی ہونا چاہئے۔

ہم نے تاریخ مادیت کا جائزہ لیتے وقت ہی اس بات کا اظہار کردیاتھا کہ مارکسیت تمام طبقات کو اقتصاد میں منحصر کردینے میں سخت غلطی پر ہے۔معاشرہ میں اس کے اور بھی عوامل واسباب ہوسکتے ہیں جیساکہ ہوابھی ہے کہ کبھی طبقات دین کی بنیاد پر قائم ہوئے ہیں اور کبھی سیاست کی بنیاد پر۔

اور جب یہ امکانات پائے جاتے ہیں تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ اشتراکی معاشرہ میں یہ اسباب پیدانہ ہوں گے اور ان کے زیر اثر طبقاتی نظام وجود میں میں نہ آئے گا؟بلکہ میں تویہاں تک کہہ سکتاہوں کہ اس نظام میں بحسب عمل دولت کی تقسیم خود بھی ایک طبقاتی معاشرہ کی ایجاد کا سبب ہے۔اس لئے کہ لوگ اعمال کے اعتبار سے مختلف صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔

لہٰذا ان کے منافع مختلف ہوں گے اور اس طرح طبقات پیداہوجائیں گے بلکہ اشتراکیت میں توسیاسی بنیاد پر بھی طبقات پیداہوسکتے ہیں اس لئے کہ یہاں ایک جماعت انقلابی پارٹی کی قیادت کرتی ہے۔جسے بست وکشاد کے تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ لینن نے1905ء میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اصل انقلاب کی خود بھی ایک جماعت ہوتی ہے جس طرح سابق میں کاشتکاروں کے انقلاب کی لیڈری ایک جماعت اقتصادی امتیازکی بناپر کررہی تھی۔اسی طرح اس مزدور جماعت کی لیڈی فکری اور انقلابی شعور کی بناپر ہوگی۔

ظاہرہے کہ جب معاشرہ میں ایک ایسی خود مختار جماعت پیدا ہوجائے گی جو سرمایہ داری سے تصیفۂ حساب کے لئے ہر قسم کا تصرف کر سکتی ہو جیسا کہ لینن نے کہا تھا ''خانہ جنگی سے محفوظ زمانہ میں اشتراکیت اس وقت تک اپنا فریضہ ادا نہیں کرسکتی جب تک کہ اس پر ایک آہنی نظام نہ مسلط کیاجائے جو فوجی نظام کے مانند ہو اور اس کی صلا حیتیں پوری

۲۷۷

پوری وسعت رکھتی ہوں ۔عوامی اعتماد بھی درجۂ کمال پر ہو۔''

اسٹالین نے اس بیان پر اتنا اضافہ اور کر دیا کہ''پرسکون دور میں ڈکٹیٹر شپ کے قیام کے لئے اس قسم کی تنظیم ہونی چاہئے بلکہ یہی تنظیم ڈکٹیٹر شپ کے قیام کے بعد بھی مناسب بلکہ ضروری ہے۔ ''

ان بیانات سے معلوم ہوتاہے کہ اشتراکیت اپنے انقلابی مفہوم کی بناپر ہمیشہ ایک ایسی جماعت کی ضرورت محسوس کرتی ہے جو بست وکشاد کے تمام اختیارا ت رکھتی ہو تاکہ وہ اپنے جابرانہ طرز حکومت سے لوگوں کے''اشتراکی مزاج''بنائے، نئے انسان ڈھالے اور ان کی فطرت میں اشتراکیت بھر دے۔

ظاہر ہے کہ تاریخ نے آج تک ایسے مطلق العنان اور آزاد طبقہ کی نشاندہی نہیں کی جس کے اختیارات اتنے زیادہ وسیع ہوں تو کیا طبقات کا اس سے بہترکوئی مفہوم ہو سکتاہے؟

اشتراکی اور غیر اشتراکی طبقیت میں اتنا فرق ضرورہوتاہے کہ غیر اشتراکی معاشروں میں طبقات اقتصادکا نتیجہ تھے۔جس شخص کے پاس سرمایہ زیادہ تھا وہ حکومت کا حق رکھتاتھا اور اشتراکی معاشرہ اس کے بالکل برعکس ہوگا۔

یہاں صاحبان فکر وانقلاب حکومت کریں گے اور پھر اس کے نتیجہ میں سرمایہ پیدا کریں گے۔

ظاہر ہے کہ جب اس منتظم جماعت کے امتیازات حکومت، کارخانے اور دیگر فردعات حیات تک پھیلے ہوئے ہیں اور پوری جماعت کو ایسے اختیارات حاصل نہیں ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگاکہ مزدوروں کی اجرت اور حکام کی تنخواہ میں تناقض شروع ہوجائے اور اس کے نتیجہ میں پارٹی کی طہارت کا عمل سامنے آجائے۔جیسا کہ مارکسیت میں اکثر ہوا ہے اور ہوتارہتاہے۔

اس کا واضح سبب یہ ہے کہ یہ ممتاز طبقہ اپنی فکری صلاحیتوں کی بناپر ضرورت سے

۲۷۸

زیادہ تصرف کرنے لگتاہے۔اس کے ہاتھ باہر تک پہنچ جاتے ہیں اور نتیجہ میں ان کے مقابلہ میں پارٹی کے افراد کھڑے ہوجاتے ہیں۔یہ دیکھ کر کہ انہیں یہ امتیازات حاصل نہیں ہیں یا انہیں پارٹی سے الگ کر دیا گیاہے۔ اور پھر اس طبقہ کو خیانت سے متہم کرتے ہیں اور کبھی ان کا مقابلہ وہ افراد کرتے ہیں جو پارٹی سے خارج ہیں لیکن حاکم جماعت اپنے اختیارات کی بناپر ان سے بھی استفادہ کرنا چاہتی ہے۔

نتیجہ یہ ہوتاہے کہ پارٹی کو پاکیزہ بنانا ضروری ہوجاتاہے اور یہ کام انتہائی دشوار گذار ہوتاہے اس لئے کہ حاکم پارٹی پہلے ہی سے اپنا رنگ جماچکی ہوتی ہے اب اس کی علیحدگی آسان نہیں ہوتی۔

اس کا مشاہدہ اس طرح سے ہوسکتاہے کہ ایک ایک مرتبہ کی تطہیر میںپورا پورا نظام بدل کررہ جاتاہے وہ حادثہ جو طبقاتی نظام میں بھی پیش نہیں آتا چنانچہ 1936ء میں سودیت دیس کے 11 وزیروں میں سے 9کر نکال دیا گیا۔ قانون ساز جماعت کے سات افراد میں سے 5 کو الگ کیاگیا۔ مرکزی خفیہ جماعت کے 53 رئیسوں یں سے 43 نکالے گئے۔ جنگی ریاست کے 80افراد میں سے 70 الگ کئے گئے، پانچ مارشل افراد میں سے تین کو ہٹادیا گیا۔ 60 فیصد جنرل الگ کئے گئے، لینن لے سیاسی مکتب کے تمام ممبران علاوہ اسٹالین کے سب علیحدہ کر دیئے گئے، بیس لاکھ پارٹی ممبروں کو نکالاگیا۔یہاں تک کہ 1939ء میں پارٹی کے ممبران 15لاکھ اور خارج شدہ بیس لاکھ تھے۔

یہ تمام حالات وہ تھے جو ڈکٹیٹر شپ کی تشکیل میں پیش آئے۔ہمارا مقصد ان کے بیان سے اشتراکیت کی توہین نہیں ہے اس لئے کہ یہ بات اس کتاب کے موضوع سے باہر ہے بلکہ ہمارا مقصد صرف ان نتائج کو واضح کرناہے۔جو اس قسم کی سیاسی طبقیت کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

اشتراکیت کا دوسرا رکن ہے ڈکٹیٹر حکومت، مارکسیت کا خیال ہے کہ اس کی

۲۷۹

ضرورت صرف وقتی ہوتی ہے تاکہ اس کے ذریعہ سرمایہ داری کے جملہ اثرات ختم کردیئے جائیں اور فضاصاف ہوجائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ ایک فریب کی حیثیت رکھتاہے اس جماعت کی ضرورت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک انسان میں عام انسانی جزیات پائے جائیں گے۔ا س لئے کہ جب بھی مناسب تقسیم دولت کا سوال پیدا ہوگا ایک نہایت ہی جابراور بااختیار حکومت کی ضرورت ہوگی جو تمام حالات پر قبضہ کرکے ان میں مناسب طریقہ سے بحسب عمل تقسیم کرے اور ظاہرہے کہ یہ سوال استمراری حیثیت رکھتاہے۔لہٰذا اس حکومت کی ضرورت بھی دوامی حیثیت کی ہوگی۔

اشتراکیت کا تیسرارکن ہے تامیم املاک۔اس قانون کا علمی پہلو یہ ہے کہ جب سرمایہ داری کے مظالم اور ا س کے تناقضات حد سے بڑھ جائیں گے تو تاریخ ایک ایسا رخ اختیار کرے گی جہاں تمام املاک پوری قوم سے متعلق ہوں اور کسی شخص کو اس قسم کی پس اندازی کا موقع نہ ملے۔

عملی اعتبار سے اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ انفرادی ملکیت کو ختم کرکے تمام مملکت کے حاصلات کو عام کردیاجائے اور ہر شخص کو اس کا مالک تصور کیا جائے البتہ تنہا نہیں بلکہ امت کا ایک جزء ہونے کی حیثیت سے۔

جہاں تک علمی پہلو کا تعلق ہے ہم پہلے ظاہر کرچکے ہیں کہ مارکس کی قائم کردہ بنیاد بے اصل ہے لہٰذا اس پر جو عمارت بھی کھڑی کیجائے گی وہ منہدم ہوجائے گی۔

عملی پہلو کے متعلق یہ عرض کرناہے کہ یہ قانون مارکسیت کے اشتراکی مرحلہ پر منطبق ہوتا نظرنہیں آتا اس لئے کہ جب تک سیاسی میدان میں حاکم پارٹی کا وجود باقی رہے گا اور اس کے اختیارات غیر محدود رہیں گے۔

اس وقت تک عملی اعتبار سے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں لی جاسکتی کہ وہ پارٹی اپنے اختیارات سے فائدہ نہیں اٹھائے گی اور تمام پیداوار کو قاعدہ سے تقسیم کردے گی جبکہ

۲۸۰