اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 93931
ڈاؤنلوڈ: 2586

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 93931 / ڈاؤنلوڈ: 2586
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ہے لیکن تاہم ہمیں ہر قانون کواس کوحالات پر منطبق کرکے دیکھناپڑے گا کہ اس معاشرہ پر اس کا کیا اثر ظاہرہوتاہے۔

مثال کے طور پر اس بنیاد کو لے لیجئے جس پر اکثر اقتصادی قوانین کو مبنی کیاگیاہے یعنی انسان کا مادی اور اقتصادی ہونا۔ ظاہرہے کہ جب تک یہ فکر انسان کے ذہن میں رہے گی کہ وہ صرف مادی ہے۔اس کا مقصد حیات عیش وعشرت اور لذت اندوزی ہے۔ اس کے طریقے اور ہوں گے اور جب نظام اس میں یہ شعور پیداکردے گاکہ وہ مادی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے کچھ روحانی افکار اور اخلاقی اقدار بھی ہیں تو اس کا اقتصادی نظام بدل جائے گا اور اس کے طریقۂ زندگی میں نمایاں فرق پیداہوجائے گا۔

میرے خیال میں یہ بات اس وقت زیادہ واضح ہوجائے گی جب آپ سرمایہ دار سماج کو اسلامی معاشرہ سے ملاکر دیکھیں گے اور اس بات کو ملاحظہ کریں گے کہ افکار کے تغیر نے اقتصادی زندگی کو کس طرح متاثر کیاہے۔

ظاہرہے کہ اسلامی پرچم کے زیر سایہ پرورش پانے والے بھی گوشت وپوست ہی کے انسان تھے لیکن اس کے باوجود ان کے دلوں میں وہ افکار جلوہ گر تھے جو ان کو تمام عالم سے ایک ممتاز حیثیت دے رہے تھے۔ان کا کردار ایک انسان ہونے کی حیثیت سے اقتصادی قوانین کی حقیقت وغیر حقیقت کا فیصلہ کررہاتھا۔ وہ اپنے وجود سے بتارہے تھے کہ سرمایہ داری جیسے مزعومات حتمی نہیں ہیں بلکہ افکار واقدار کے بدل جانے سے بدل سکتے ہیں چنانچہ تاریخ نے اس مختصر مدت کی حالت بھی بیان کی ہے جس میں اسلامی قوانین کا تجربہ ہو رہاتھا۔اور انسان ایک روحانی مخلوق کی حیثیت سے روئے زمین پر اپنی زندگی گذاررہاتھا۔ اس میں ایک رسالتی اسپرٹ تھی جو اسے آفاق میں گم ہونے سے روک رہی تھی۔ اس کا عالم یہ تھاکہ: فقیروں کی ایک جماعت سرکار رسالت کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگی، یارسول اللہ سارا اجر تو مالداروں کو مل گیا۔وہ ہماری طرح نمازروزہ بھی کرتے تھے اور اسی

۳۰۱

کے ساتھ صدقہ بھی دیتے ہیں۔

جو ہمارے امکان سے باہرہے ہم کیاکریں؟تو آپ نے فرمایاکہ تمہاری تسبیح وتکبیر اور تمہارا امرباالمعروف ونہی عن المنکر سب صدقہ ہے۔

ظاہرہے کہ اس جماعت کا مقصد دولت حاصل کرنا نہ تھا وہ اس اجر آخرت سے محرومی پر فریادی تھی جو امراء کو ان کے صدقات سے حاسل ہورہاتھا اور یہی وجہ تھی کہ جب ایک صدقہ کا سراغ مل گیا تو مطمئن ہوگئے۔

شاطبی نے اس دور کی تجارت اور اس کے اجارہ کی یوں تصویر کشی کی ہے کہ:

آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ کم سے کم اجرت یافائدہ لیتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ کاروبار سے ان کا مقصد دوسروں کو فائدہ پہنچاناہوتاہے۔یہ نصیحت میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں۔جیسے دوسروں کے وکیل ہوں۔یہ اپنے لئے زیادہ لینا دوسرے کے حق میں خیانت تصور کرتے ہیں۔

باہمی تعاون کے متعلق محمد بن زیاد کا بیان ہے:

اکثر ایسا ہوتاہے کہ کسی کے گھر مہمان آگیااور اس نے دوسرے کی پتیلی آگ پرسے اتارکر مہمان کردے دی اور مالک کو معلوم ہواتو وہ میزبان سے کہتاہے اللہ مبارک کرے۔

اب آپ خود ہی اندازہ کریں کہ کیاایسے معاشرہ کے قوانین کسی دوسرے سماج میں نافذ ہوسکتے ہیں؟اور کیا اس کے بعد اقتصادیات کے جملہ قوانین حتمی قرار دیئے جاسکتے ہیں؟ہرگزنہیں۔

اس قسم کا ایک دوسرا قانون بھی ہے جس کا تعلق عرض وطلب اور تقسیم منافع سے ہے جس کی شرح ریکارڈو نے اس طرح کی ہے کہ مزدور کو اجرت میں سے ایک حصہ ملنا چاہئے جس سے وہ اپنی طاقت عمل کو محفوظ رکھ سکے۔اس حصہ کی تحدید بھی بازار کی قیمت کے اعتبار سے ہونی چاہئے اور باقی منافع کو مختلف انداز سے تقسیم کرلینا چاہئے۔

۳۰۲

اس قانون کا علمی پہلو یہ قرار دیاگیاہے کہ اگر اجرت زیادہ ہوگی تو مزدور اپنی رفاہیت کی بناپر نکاح ونسل کی طرف متوجہ ہوں گے اور اس طرح اولاد کی زیادتی سے مزدوروں کی زیادتی ہوگی اور مزدوروں کی زیادتی سے قیمت کم ہوجائے گی اور جب قیمت کم ہوگی تو فقر وفاقہ بڑھے گا او رجب فقر وفاقہ کی فراوانی ہوگی تو مزدور کم ہوجائیں گے اور جب مزدر کم ہوجائیں گے تو اجرت پھرزیادہ ہوجائے گی۔

سرمایہ دار اہل اقتصاد نے خیال کیاہے کہ ان کایہ قانون کوئی حتمی پہلو رکھتاہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔یہ قانون اسی وقت کارگر ہوگاجب معاشرہ میں پسماندہ طبقہ کا کوئی ذمہ دار نہ ہو اور قیمت کا معیار بازار کو قرار دیاجائے لیکن اگر کسی معاشرہ میں عمومی ذمہ داری کا قانون موجود ہوا (جیساکہ اسلام میں ہے)یابازار کاکوئی اعتبار نہ ہوجیسا کہ اشتراکیت میں ہے، تووہاں یہ قانون بالکل لغو ہوجائے گا۔

خلاصہ یہ ہے کہ سرمایہ دار علم اقتصاد نے جتنے قوانین بھی وضع کئے ہیں سب کا تعلق دوسری قسم سے ہے اور چونکہ اس قسم کے قوانین کا تعلق ارادہ، افکار ،مفاہیم،اقدار، معاشرہ اور نظریات وغیرہ سے ہوتاہے لہٰذا ان کا انطباق صرف ایک معاشرہ پر ہوسکتاہے کسی دوسرے معاشرہ کے لئے بالکل لغواور بے کار ہوں گے۔

(4)مذہبی سرمایہ داری کے افکار واقدار پر نقد ونظر

سرمایہ دار تنظیم سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس کاسنگ بنیاد انسان کی اقتصادی زندگی ہے۔اسی پر جملہ قوانین کی بنیاد ہے اور اسی رنگ میں علمی قوانین ڈھالے گئے ہیں۔ایسے

۳۰۳

حالات میں ایک نقاد کا فریضہ ہے کہ اس آزادی کا تجزیہ کرے تاکہ اس بنیاد کی حقیقت معلوم ہوسکے جس پر پوری عمارت قائم ہے۔

اس سلسلہ میں سب سے پہلاسوال یہ ابھرتاہے کہ سماج میں اقتصادی آزادی کیوں ضروری ہے؟انسان کو یہ حق کہاں سے حاصل ہواہے؟

سرمایہ دار نظریات نے اس سوال کے جواب میں چند طریقے اختیار کئے ہیں اور اس کی بناپر آزادی کا احترام واجب قرار دیاہے:

(1) انسان کے انفرادی اور اجتماعی مصالح میں موافقت ہوتی ہے لہٰذا ہر اجتماع پسند نظام کے لئے ضروری ہے کہ وہ افراد کو مکمل آزادی دے تاکہ وہ اپنے ذاتی اغراض کے پیش نظر کام کریں اور آٹومیٹکل طریقہ سے اجتماعی مصالح وجود میں آئیں۔اور چونکہ انفرادی آزادی ہی تمام اجتماعی اور سماجی مصالح کا سرچشمہ ہے اس لئے اس کا پورا پورا تحفظ ضروری ہے۔

(2) آزادی کے عالم میں انسان پورے طور سے پیداوار پرزوردے سکتاہے اس لئے ہر شخص کو اس آزادی سے بہرہ ور ہونا چاہئے تاکہ اپنے ذاتی اغراض کی بناپر پیداوار سے پوری پوری دلچسپی لے اور اس طرح معاشرہ میں ثروت کااضافہ ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ فکر پہلی فکر سے الگ کوئی شیء نہیں ہے بلکہ اسی کا ایک شعبہ ہے۔وہاںانفرادی مصالح کو تمام اجتماعی مصالح کا وسیلہ قرار دیاگیاتھا اور یہاں صرف پیداوار کی حد تک محدود کر دیاگیاہے۔

(3) آزادی انسان کا ایک فطری حق ہے جو اسے ملنا چاہئے۔چاہے اس سے مصالح عامہ روبراہ ہوں یا نہ ہوں۔پیداوار کی اصلاح ہو یا نہ ہو۔اس لئے کہ کسی شخص کو بھی اس کے فطری حق سے محروم کر دینا انسانیت ے خلاف ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ انداز فکر سابق کے طریقوں سے مختلف ہے اس لئے کہ اب تک

۳۰۴

آزادی کو واقعی اور خارجی حیثیت حاصل تھی اور اب یہ انسان کی داخلی طلب ہو گئی جس کا قبول کرنا انسانی فرض ہے۔

سرمایہ داری کے ان تمام افکار کا خلاصہ تین باتیں ہیں:

(1) حریت مصالح عامہ کا وسیلہ ہے۔

(2) آزادی پیداوار کے اضافہ کا باعث ہے۔

(3) آزادی انسان کا فطری حق ہے۔

ہمیں اس مقام پر انہیں تینوں کا حقیقی تجزیہ کرناہے۔

۳۰۵

۳۰۶

حریت مصالح عامہ کا وسیلہ ہے

اس دعویٰ کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ انسان کے ذاتی مصالح ہمیشہ اجتماعی مصالح سے ہمرنگ ہوتے ہیں لہٰذااگر انسان کو انفرادی آزادی دے دی جائے کہ وہ اپنے لئے ہی کوئی کام کرے تو اس کا فائدہ اجتماع کو بھی پہنچ جائے گا اور اس کے لئے نہ اخلاقیات کی ضرورت ہوگی اور نہ رسوم وتقالید کی۔اس لئے کہ انسان کسی قدر بھی بداخلاق کیوں نہ ہوجائے اپنی ذات کے لئے کام ضرور کرے گا یہ طے شدہ ہے کہ ذاتی فائدہ کا اثر بھی اجتماعی مصلحت پر پڑتاہے لہٰذا اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ معاشرہ غیبی طریقہ سے اس کام سے استفادہ کرلے گا۔

شاید یہی وجہ ہے سرمایہ دار معاشرہ میں روحانیت اور اخلاقیات کا کوئی درجہ نہیں ہے ان کا تمام کام بغیر ان پابندیوں کے بھی چل جاتاہے۔تو ان پابندیوں کو اپنے سرلے لینا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔

میرامطلب یہ نہیں ہے کہ اس معاشرہ میں اخلاقی قدروں کا وجود نہیں ہے کہ کوئی شخص اس پر اعتراض کردے بلکہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ اس نظام کو ان اخلاقی اقدار کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کا کام بغیر ان اقدار کے بھی چل سکتاہے۔

سرمایہ دار نظام کے ہواخواہوں نے اس کویوں بھی بیان کیاہے کہ آزادی کے دور میں ہر کارخانے والا اپنے خارکانے کو ترقی دینے کی کوشش کرے گا۔مقابلہ کا بازار گرم ہوگا۔

۳۰۷

ہر شخص کو دوسرے کے آگے بڑھ جانے کا خطرہ ہوگا اور نتیجہ میں وہ عمدہ سے عمدہ آلات استعمال کرے گا۔اچھی سے اچھی ایجادیں کرے گا اور اس طرح صرف ذاتی اغراض کی بناپر انسانی ضرورت کی تمام چیزیں بہتر سے بہتر عالم وجود میں آسکیں گی۔

اس کے بعد اور کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ اخلاقی اور روحانی افکار کی بھی پابندی کی جائے۔نصیحت وموعظے بھی سنائے جائیں۔دعوت عمل بھی دی جائے؟جبکہ تمام کام بغیر ان زحمتوں کے بھی ہورہاہے اور بہتر سے بہتر ہورہاہے۔ان کے لئے سب سے بڑاموعظہ اور سب سے موثر نصیحت مقابل کا وجود ہے جس کے آگے بڑھ جانے کا خطرہ ہر آن لگاہواہے اور جس کے پس منظر میں اپنی موت بھی لکھی ہوئی ہے۔

سرمایہ داری اپنی فکر کو پیش کرکے چل بسی لیکن آج دنیا اس فکر پر خندہ بہ لب ہے کیا تاریخ کے وہ تمام صفحات محوکردیئے جائیں گے جن میں اس سرمایہ داری کے مظالم کی داستانیں ہیں۔

کیاوہ خوشگوار حالات نظروں سے غائب ہوجائیںگے جن میں انفرادی اور اجتماعی مصالح کا تضاد نمایاں طور پرنظر آرہاتھا۔

کیا اخلاق واقدار کے انکار کی یہ بدنظمی فراموش کر دینے کے قابل ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسے معاشرہ کا اندازہ بڑی سہولت سے ہوسکتاہے جس نے تمام افکار واقدار کا انکار کردیاہو خواہ اقتصادی زندگی میں اس کا اندازہ کیاجائے یا اخلاقی انحطاط میں یادیگر معاشروں سے تعلقات میں۔

اور یہی وجہ تھی کہ سرمایہ پرست افراد نے بھی اس بدنظمی کا احساس کیا اور آزادی میں ترمیم شروع کی۔لیکن ظاہر ہے کہ بنیاد ی افکار سے خالی افکار کی ترمیم بھی ایک تاریخی خیال سے زیادہ حیثیت نہ رکھے گی۔

آپ ملاحظہ کریں تو معلوم ہوگاکہ اسی محدود آزادی کا نتیجہ تھا کہ ہر صاحب

۳۰۸

صلاحیت انسان نے اسے اپنے ہاتھ میں ایک بہترین اسلحہ خیال کیا اور اس کے ذریعہ پست طبقہ کی گردن کاٹنا شروع کر دی۔اسے اپنے مصالح سے غرض تھی دوسروں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔فطری اعتبار سے صلاحیت بھی زیادہ پائی جاتی تھی۔

لہٰذا استفادہ کے مواقع بھی زیادہ تھے۔اب باقی افراد کا فرض ہے کہ اس کے زیردست رہیں اور اسی کے کرم کا سہارا لے کر زندگی گذاریں۔جس کا آخری انجام یہ ہواکہ خود انسان بھی ایک متاع بن گیا اور اس کی خریدوفروخت شروع ہوگئی۔جب انسانوں کی زیادتی ہوگئی تو ان کی قیمت گھٹ گئی۔اور اس حد تک کہ لوگ بھوک سے تباہ ہونے لگے۔ سٹرکوں پر ان کے جنازے نظرآنے لگے لیکن بنیادی فکر محفوظ رہی کہ مکمل آزادی ہونی چاہئے۔

چنانچہ ایک طبقہ آزادی سے استفادہ کرتارہااور دوسرا موت کے گھاٹ اترتارہا۔ ہر شخص اس امیدپر جیتارہاکہ اگر ہماری قوم کے چند افرادیوں ہی بھوک سے مرجائیں تو اچھا ہوتاکہ کام کرنے والوں کی تعداد کم ہو اور اس طرح اجرت میں کچھ اضافہ ہو سکے۔

ظاہر ہے کہ جب انفرادی اور اجتماعی مصالح کی مطابقت کا یہ رنگ اقتصادیات کے بارے میں ہے تو روحانیت واخلاقیات کے حق میں تونتیجہ اور بھی بدتر ہوگا۔یہاں نہ احسان کے جذبات ہوں گے اور نہ صلۂ رحم کے حوصلے۔ نفسی نفسی کی دنیا ہوگی اور انانیت کا بازار، باہمی امداد کی جگہ جنگ وجدل کو ملے گی اور اجتماعی کفالت کا درجہ اقتصادی گھوڑدوڑ کو۔

آپ یہ خیال نہ کریں کہ اخلاقی اقدار کا منکر ہمیشہ خود غرضی ہی سے کام لے گا۔ نہیں نہیں یہ بھی ہوسکتاکہ وہ کسی بناپر اپنے ذاتی مصالح کو قربان کردے۔یااس کے ذاتی مصالح کو اجتماع کی طرف کھینچ لائیں تو ایسے وقت میں اس کے کام اجتماعی بھی ہوں گے۔لیکن وہ انسان نفس پر ست ہوگا اخلاق پر ست نہ ہوگا۔اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا فرق انسان کی زندگی میں کسی نہ کسی وقت ضرورظاہر ہوگا۔جیسا کہ ہم آئندہ تفصیل کے ساتھ

۳۰۹

بیان کریں گے۔

ہم سرمایہ داری کے ان آثار سے قطع نظربھی کرلیں جو ملک کے اندر ظاہر ہوتے ہیں۔توہمیں ایک نظر ان حالات پر ضرورکرنی ہوگی جو بیرونی ممالک میں پیش آتے ہیں تاکہ یہ بھی دیکھ لیاجائے کہ یہ انفرادی مصالح صرف اپنے معاشرہ کے اجتماعیات سے مطابقت کرتے ہیں یا ان میں دیگر معاشروں پر حادی ہونے کی قوت بھی ہے۔

اس مسئلہ کا سب سے بہتر حل خود سرمایہ داری کی تاریخ ہے۔جس میں انسانیت نے بڑی ہولناک منزلیں طے کی ہیں۔اور روحانیت واخلاقیات نے بڑے صبر آزما مواقع دیکھے ہیں۔جہاں آزادی تاریخ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ ہے اور حریت انسانیت کی تباہی کا بہترین وسیلہ۔

آزادی ہی کا اثرتھاکہ یورپ کے ممالک نے دیوانہ وار ہمسایہ ممالک پر قبضہ جمانا شروع کردیاتھا۔اور ان کے ساکنین کو غلام بنارہے تھے۔ذراافریقہ کی تاریخ کے خونچکاں اوراق ملاحظہ کیجئے۔

شقادت وسنگدلی کا وہ طوفان جس میں برطانیہ،فرانس اور ہالینڈ جیسے ممالک ملک کے مختلف رہنے والوں کو غلام بنابناکربازاروں میں بچ رہے تھے۔عالم یہ تھاکہ دیہاتوں میں آگ لگادی جاتی تھی۔اور جب بیچارے گاؤں سے باہر نکل پڑتے تھے تو انہیں گرفتار کرکے کشتیوں کے ذریعہ اس پار لاکر بیچ دیاجاتاتھا۔

19دیں صدی تک یہ مظالم جاری رہے یہاں تک کہ برطانیہ نے ظاہری ہمدردی کی بناپر ایک شدید اقدام کیا۔اور ایسے معاہدات کی بنیاد ڈالی جس میں بردہ فروشی ممنوع ہولیکن ظاہرہے کہ یہ تمام باتیں صرف ظاہری تھیں جس کا نتیجہ یہ ہواکہ برطانیہ نے افریقہ کے ساحلوں پر اپناا سطول مقرر کردیاتاکہ وہ جائز تجارتوں کی کڑی نگرانی کرے۔

بظاہر اس اقدام سے افریقی اقوام کی حمایت کی گئی لیکن اندر ہی اندر استعماری

۳۱۰

حرکت شروع ہوگئی کہ اور اب ان اقوام پر ان کے گھروں میں قبضہ ہونے لگا۔یورپ کے بازاروں کی ضرورت بھی نہ رہی اور کام بھی بننے لگا۔کیا ان حالات کے بعد بھی کوئی انصاف پسند انسان یہ کہہ سکتاہے کہ اخلاقیات سے عاری سرمایہ دار معاشرہ اپنے مصالح کی تحصیل کے لئے عمومی مصالح کی ایجاد میں حصہ لے گا؟

آزادی پیداوار کی زیادتی کا ذریعہ ہے

آپ کو یادہوگاکہ سرمایہ دار نظام میں مطلق آزادی کا دوسراجوازاس امر کو قرار دیا گیاتھا کہ آزاد معاشرہ میں کارخانوں کا مقابلہ ہوتاہے اور ہر شخص اپنی اجتماعی حالت کو خوشگوار بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر جنس ایجاد کرتاہے۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ یہی آزادی ملک کو جنس ومتاع کی فراوانی سے مالامال کر دیتی ہے۔

لیکن افسوس کہ سرمایہ داری نے اس مقام پر نہ سرمایہ دار آزادی کے مفہوم پر غور کیاہے اور نہ پیداوار کی قدروقیمت پر۔

آزادی کے مفہوم سے غفلت کا مقصد یہ ہے کہ اس معاشرہ میں تمام کارخانے برابر کے تونہیں ہوتے کہ سب مقابلہ میں شریک ہوجائیں اور اس طرح پیداوار پر اچھا اثر پڑے بلکہ کارخانے اپنی صلاحیت واستعداد کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔لہٰذا اس آزادی کا اثر یہ ہوگاکہ بڑے بڑے کارخانوں کے مالک چھوٹے چھوٹے سرمایہ داروں کو ہڑپ کر جائیں اور معاشرہ تباہی کے آخری درجہ پر پہنچ جائے۔احتکار کی فراوانی ہواور مالک طبقہ کے لئے موت کی ارزانی۔

۳۱۱

پیداوار کی قدروقیمت نہ سمجھنے کا مفہوم یہ ہے کہ ان مفکرین نے اپنی تمام فکروں کو پیدا وار کی زیادتی کی طرف مبذول کر دیاہے اور اس بات پر غور نہیں کیا کہ معاشرہ کی اصلاح اور اس کی رفاہیت کا تعلق صرف پیداوار کے اضافہ سے نہیں ہے بلکہ اس میں دوسرے عناصر بھی شریک ہیں۔اور ان میں سب سے اہم عنصر ہے پیداوار کی صحیح تقسیم اور یہی وہ منزل ہے جہاں سرمایہ داری کو اپنی عاجزی کا اعتراف کرنا پڑتاہے۔

اس لئے اس کی نظر میں تقسیم ثروت کا معیار ہے قیمت، جس کے پاس جنس کی قیمت ہووہ خریدلے اور کھائے۔اور جس کے پاس قیمت نہ ہو، خواہ اس کے اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں،اسے نہ کھانے کا حق ہے اور نہ جینے کا۔

ظاہر ہے کہ آزادی سے متاثر افراداتنی قیمت کے مالک نہ رہیں گے کہ اپنی زندگی سکون و اطمینان کے ساتھ گذارسکیں۔ان کی ساری دولت ناکام مقابلہ کی نذر ہوگئی ہوگی یا سرمایہ دار نے ان کے خدمات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہوگا۔ایسے عالم میں پست طبقہ کا آخری انجام موت اور تباہی کے سوااور کیاہوسکتاہے؟

معلوم ہوتاہے کہ معاشرہ کی اقتصادی اصلاح کی ذمہ داری صرف پیداوار پر نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ ثروت کی تقسیم پر ہے۔

اور یہی وہ نکتہ ہے جو سرمایہ داری کے بس سے باہر ہے اس لئے کہ اس نے مطلق آزادی کا قانون وضع کر دیاہے۔

۳۱۲

حریت انسان کا فطری حق ہے

سرمایہ داری کا آخری حربہ جسے اس نے آزادی کی حماعت کے لئے استعمال کیاہے یہ ہے کہ آزادی انسان کا فطری حق ہے جو اسے ملنا چاہئے۔آزادی کے بغیر انسانیت ایک بے معنی لفظ ہے۔

ہم اس حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لئے پہلے حریت اور آزادی کا مفہوم سمجھانا چاہتے ہیں تاکہ اسی کی روشنی میں اس بیان کی صحت کا اندازہ ہوسکے۔

یادرکھئے حریت کی دو قسمیں ہیں:طبیعی اور اجتماعی۔

طبیعی حریت عالم طبیعت کے دیئے ہوئے فطری اقتدار کی بناپر ہوتی ہے۔ اور اجتماعی حریت نظام زندگی کے ذمہ ہوتی ہے اس کے مہیا کرنے کی مسئولیت نظام اجتماعی کی گردن پر ہوتی ہے۔

ان دونوں قستموں کو الگ کر دینے سے ہمارامقصد یہ ہے کہ آپ کسی وقت بھی ایک قسم کی خصوصیات کو دوسرے پر منطبق نہ کریں۔جیساکہ خود سرمایہ داری نے کیاہے۔

طبیعی حریت سے مراد حیات کا وہ اقتدار ہے جو ہر جاندار کو دیاگیاہے اور چونکہ انسان ان تمام انواع سے مافوق ہے لہٰذا اس کی حریت بھی زیادہ وسیع ہوگی۔ اس حریت کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان جانداروں کا مقابلہ بے جان اشیاء سے کریں تاکہ حیات کے اختیارات کی وضاحت ہوسکے۔پتھر ایک بے جان شیء ہے آپ جب تک نہ پھینکیں گے نہیں جائے گا۔جب پھینک دیں گے تو راستہ نہیں بدلے گا اگر سامنے کوئی مزاحم پیداہوگیاتوواپس نہیں آئے گا۔اس لئے کہ اس میں حیاتی قوت کا فقدان ہے اور وہی امور کا سرچشمہ ہوتی ہے لیکن اگر نبات کو دیکھیں تو وہ حیات کے پست ترین طبقہ میں ہونے

۳۱۳

کے باوجود مزاحمت پیداہوجانے سے اپنا رخ بدل سکتاہے۔حیوان کا رتبہ اس سے زیادہ بلند ہے وہ اپنی طبیعت اور خواہش کی بناپر راہیں بھی نکال سکتاہے۔طریقہ بھی بدل سکتاہے، دفاع بھی کرسکتاہے لیکن اس میں بھی اتنا اختیار نہیں ہے کہ طبیعی خواہشات سے مقابلہ کرسکے۔ اس لئے کہ اس کی قوت حیات بھی کم ہے۔یہ مرتبہ تو قدرت نے صرف انسان کو عطاکیاہے کہ اسے آزادی کے آخری درجہ پر فائز کردیاہے۔وہ تمام تصرفات کے ساتھ طبیعی تقاضوں کو بھی بدل سکتاہے اور خواہشات کو ٹھکراکرایک نئی راہ نکال سکتاہے۔

طبیعی آزادی حیات کی پابندہے اسی کی وسعت سے وسیع اور اسی کی تنگی سے تنگ ہوجاتی ہے۔غیر جاندار اشیاء کاموقف اس کے مقابلہ میں سلبی ہے اور جاندار کا موقف ایجابی۔

یہی وہ حریت ہے جس کو جوہر انسانیت قرار دیاجاسکتاہے اور یہی وہ آزادی ہے جس کے بغیر انسانیت ایک بے معنی لفظ ہے۔

لیکن ظاہرہے کہ اس کے بارے میں کوئی اجتماعی بحث بیکار ہے اس لئے کہ یہ قدرت کا ایک عطیہ ہے جو بقدر صلاحیت عطاہوچکاہے۔اس کی تحدید غیبی انداز سے ہوچکی ہے اب اس پر مزید غور وفکر کی گنجائش نہیں ہے۔

سرمایہ داری کا طبیعی حریت کو محل بحث میں لانا اور پھر اجتماعی حریت کو انسانی جوہر کا ایک جزو قرار دینا اسی اشتباہ کا نتیجہ ہے کہ اس نے دونوں کے احکام کو مخلوط کردیاہے۔

اجتماعی حریت کا مفہوم سمجھنے کے لئے یہ سمجھنا ہوگاکہ اس آزادی کی بھی دوقسمیں ہیں واقعی اور صوری۔

واقعی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی نظام اپنے افراد کے لئے تمام صلاحیتیں مہیا کرے کہ وہ اس آزادی سے استفادہ کرسکیں۔کوئی شیء خرید نا چاہتے ہیں تو نظام زندگی اس کی قیمت کا انتظام کرے۔جنس کو بازار تک پہنچائے۔احتکار کی ممانعت کرے اور اس

۳۱۴

طرح لوگوں کو واقعی معنی میں آزاد قرار دے ورنہ اگر قیمت پاس نہ ہویا جنس ہی موجود نہ ہو اور عوام کو مکمل اختیار بھی دے دیاجائے تو یہ واقعی آزادی نہ ہوگی بلکہ صرف ایک صوری اعلان ہوگا جس کا فی الحال کوئی مقصد نہ ہوگا۔

اس لئے کہ صوری حریت میں کسی قسم کے انتظام کی ضرورت نہیں ہوتی ہے وہ اس شخص کوبھی دی جاسکتی ہے جس کے لئے عمل کرنا محال ہویا وہ کسی کام کے قابل نہ ہو۔اس آزادی کے اعتبار سے آپ ایک قلم کی خریداری میں اسی طرح آزاد ہیں جس طرح ایک کروڑ روپیہ کے کارخانے کی خریداری کے بارے میں۔اس لئے کہ حکومت کا فریضہ نہ اس کا انتظام کرناہے اور نہ اس کا۔یہ صرف انسان کی قسمت سے وابستہ ہے اگر تقدیر نے یاوری کی اور اسباب مہیا ہوگئے تو یہ واقعی آزاد ہوجائے گا اور خریدلے گا۔ورنہ صوری اور لفظی آزادی پر مسرت کا اظہار کرتارہے گا۔

اس مقام پر یہ بھی واضح رہے کہ صوری آزادی صرف لفظ نہیں ہے بلکہ کبھی کبھی اس کا موقف ایجابی بھی ہوجایاکرتاہے اور یہ انسان کے حق میں مفید ہوجایاکرتی ہے اس لئے کہ اگر کوئی شخص تمام اسباب رکھتاہو اور قانونی حیثیت سے کارخانہ خریدنے میں آزاد نہ ہوتو اس کے لئے یہ تمام اسباب بیکار ہیں۔

اب ایسے حالات میں صوری آزادی دے دینا ایک پورے کارخانہ کی خریداری کا باعث ہوسکتاہے۔

مطلب یہ ہے کہ صوری آزادی قدرت کے مرادف نہیں ہے لیکن قدرت کے لئے ضروری ضرور ہے۔درحقیقت یہ انسانی صلاحیتوں کے امتحان کا ایک وسیلہ ہے جو شخص بھی اپنی صلاحیتوں کا امتحان کرنا چاہتاہے اور اپنی طاقتوں کو آزمانا چاہتاہے اسے چاہئے کہ اس آزادی کا سہارالے کر کھڑاہوجائے اور اسباب مہیاکرکے حقیقی آزادی حاصل کرلے۔

سرمایہ دار نظام نے جس آزادی کو اپنایاہے۔وہ صوری اور ظاہری آزادی ہے۔

۳۱۵

حقیقی آزادی کے متعلق اس کا خیال یہ ہے کہ یہ آزادی کی کوئی قسم نہیں ہے۔بلکہ آزادی کا نتیجہ ہے۔نظام اجتماع کا فریضہ صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کی راہ میں حائل نہ ہو اور انہیں آزادی سے کام کرنے دے اس کا کام یہ نہیں ہے کہ ہر شخص کے لئے وسائل معیشت کا بھی انتظام کرے۔

واقعی آزادی کے غیرممکن یا غیر مناسب ہونے کے لئے سرمایہ داری کے پاس دو دلیلیں ہیں:

(1) کسی اجتماعی نظام کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوسکتی کہ وہ ہر شخص کے تمام مطالبات کو پورا کردے اس لئے کہ اکثر افراد کے پاس تو اس بات کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے مصالح کا تحفظ کرسکیں اور کسی نظام حیات کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ بیوقوف کو عقل مند اور کندذہن کو ذہین بنادے۔اس کے علاوہ بہت سے مطالبات ایسے ہوتے ہیں جن کا پورا کرنا غیر معقول ہے کہ ہر شخص کو ملک کا بادشاہ نہیں بنایا جاسکتا اور ہر شخص کو ریاست نہیں دی جاسکتی۔حالانکہ اس کی تڑپ ہر انسان کے دل میں ہوتی ہے۔نظام زندگی صرف اتنا ہی کرسکتا ہے کہ تمام افراد کے لئے اقتصادی میدان صاف کردے کہ وہ اپنی اپنی استعداد آزمائیں کامیاب ہوں یا وسط راہ ہی میں گرجائیں جو انجام بھی ہو اس کی ذمہ داری خود ان کے سرہوگی۔حکومت کسی بات کی مسئول نہ ہوگی۔

(2) ہرشخص کے لئے واقعی آزادی کے جملہ اسباب کا مہیا کردینا اور اس کی گردن سے مسئولیت کا بارااٹھالینا ایک ایسا کام ہے جس سے اس کی عملی سرگرمی ختم ہوجائے گی اور وہ دوسروں پر اعتماد کرتے کرتے خود اعتمادی کی دولت سے محروم ہوجائے گا۔ نتیجہ یہ ہوگاکہ وہ اپنی قسمت آزمائی نہ کر سکے گا اور اس کی عملی طاقتیں شل ہوجائیں گی۔

اس میں شک نہیں ہے کہ ان دلائل میں کسی حد تک معقولیت ضرورپائی جاتی ہے

۳۱۶

لیکن اس انداز سے سرمایہ دارانہ طریقہ پر واقعی آزادی کا ختم کرنا ایک غیر مناسب اقدام ہے۔جبکہ ایک ایسا حل بھی موجود ہے جس کی بناپر ان تمام خرابیوں کا علاج ہو سکتاہے۔

پوری پوری آزادی انسان کو نہیں دی جاسکتی ۔وہ اس طرح بے اعتماد ہوجائے گا لیکن یہ تو ممکن ہے کہ اسے بڑی حد تک آزاد کردیاجائے تاکہ اسے اپنی ذمہ داری کا احساس بھی رہے اور وہ بڑے بڑے ترقی یافتہ معاشروں کے مقابلہ میں جدوجہد بھی کرتارہے۔

حقیقت امر یہ ہے کہ سرمایہ داری کا واقعی حریت کے بارے میں یہ سلبی موقف اس ایجابی موقف کا نتیجہ ہے جو اس نے صوری اور ظاہری حریت کے بارے میں اختیار کیاہے اس لئے کہ جب معاشرہ میں تمام اشخاص کو ظاہری آزادی دے دی جائے گی اور ان کے لئے کسی قسم کی روک ٹوک نہ ہوگی تو غیرترقی یافتہ افراد کے لئے آزادی اور معیشت کا مکمل سامان مہیا کرنا غیر ممکن ہوجائے گا۔

اس لئے کہ تمام افراد کے لئے سامان کا مہیا کرنا اس بات پر موقف ہے کہ سب سے پہلے بڑھتی ہوئی دولت پرپابندی لگائی جائی۔اور یہی وہ بات ہے جو ظاہری آزادی کے دور میں نہیں ہوسکتی۔

اب نظام حیات کے سامنے دوہی راستے رہ جاتے ہیں:

(1) تمام افراد کو مکمل طور سے آزاد کردیاجائے اور ان پرکسی قسم کی پابندی نہ لگائی جائے۔

ظاہر ہے کہ ان حالات میں غیردولت مند افراد کی ضمانت کا کوئی انتظام نہیں ہو سکتاہے اس لئے کہ وہ ثروت مندوں کی پابندی پرہی ممکن ہے۔

(2) غریب طبقہ کی ضمانت لی جائے اور ان کے لئے سامان معیشت مہیا کیاجائے۔

ظاہر ہے کہ اس صورت میں وہ آزادی نہیں محفوظ رہ سکتی جو مطلق طور پر ثروت مندوں کو دی گئی ہے اور جس پرپورے نظام کی بنیاد ہے۔

سرمایہ داری کی طرف سے صوری آزادی کی یہ حمایت اس بات کی موجب ہوئی ہے

۳۱۷

کہ اشتراکیت اس سے بالکل متضادموقف اختیارکرے۔چنانچہ اس نے ڈکٹیٹر نظام قائم کرکے اس بات کا ذمہ لیاہے کہ وہ واقعی آزادی کا انتظام کرے گی اور اب یہ دونوں نظام ایک طرفہ حساب رکھتے ہیں۔ایک ظاہری آزادی کا حامی ہے تو دوسرا واقعی حریت کا۔

دین اسلام نے ان دونوں سے الگ ایک راستہ اختیار کیاہے جس میں دونوں قسم کی آزادی کا بھی تحفظ کیاہے اور ان کے باہمی تضاد کو بھی دور کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اس نے ایک طرف پورے معاشرے کو آزادی دی ہے تو دوسری طرف ضمانت کا ایک معیار مقررکرکے تمام افرادپر اس کی رعایت بھی ضروری قرار دی ہے۔

اس کی نظرمیں ثروت مندافراد اپنے معاملات میں آزاد ہیں لیکن اس لحاظ کے ساتھ کہ ان کی اس آزادی سے پسماندہ طبقات کی معیشت کو نقصان نہ پہنچے اور ان کی زندگی ضیق میں نہ پڑجائے۔

آزادی اور ضمانت کا یہی وہ حسین امتزاج ہے۔جس کی ضرورت آج بھی محسوس کی جارہی ہے۔اور لوگ اس مفہوم کو ایجاد کرنے کے لئے آزادیوں پر پابندیوں کے پہرے بٹھارہے ہیں۔

اس مقام پر ایک سوال ضرور ابھرتاہے کہ سرمایہ داری کی نظرمیں اس شکلی اور ظاہری آزادی کی بنیاد کیاہے اور اسے کن اقدار پر قائم کیا گیاہے؟ضمانت اور واقعی آزادی کو کیوں پس پشت ڈال دیاگیاہے؟

سرمایہ داری نے اجتماعی نظام کے اعتبارسے تووہی جوابات دیئے ہیں جو ہم ابھی نقل کرآئے ہیں۔اور ان پرایک مناسب تبصرہ بھی کرچکے ہیں البتہ ذاتی اور شخصی اعتبار سے جو دلیل دی ہے وہ یہ ہے کہ طبیعی آزادی انسان کا فطری حق ہے اور اس کا انکار گویا انسانی کرامت وشرافت کا انکا رہے۔

ظاہر ہے کہ اس دلیل سے وہ شخص مطمئن ہوسکتاہے جو لفظی بازی گری کا عادی

۳۱۸

ہو۔ حقیقت پسند انسان اس قسم کی خطابت سے مطمئن نہیں ہوسکتا۔

اس لئے کہ اس پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ انسان کا فطری حق اس کی فطری اور طبیعی آزادی ہے نہ کہ اجتماعی اور سماجی آزادی۔

اکثر اس مقام پر یہ بھی کہہ دیاجاتاہے کہ جب طبیعی آزادی انسان کا فطری حق ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فطری طور پر آزاد رہنا چاہتاہے لہٰذا اب اگر اسے اجتماعی قید و بند میں گرفتار کرلیاجائے گا تویہ فطرت سے مقابلہ ہوگا اور فطرت سے مقابلہ کسی نظام کے لئے بھی مناسب نہیں ہے۔

بظاہر یہ بات کسی حدتک صحیح معلوم ہوتی ہے اور یہ حق بھی ہے کہ اجتماعی نظام کو انسانی جذبات کا احترام کرنا چاہئے لیکن مشکل یہ ہے کہ انسان کے نفس ناطقہ میں گوناگوں جذبات پائے جاتے ہیں اور یہ غیر ممکن ہے کہ ایک جذبہ کا احترام کیاجائے اور دوسرے کو ٹھکرا دیاجائے۔اجتماعی نظام کا جہاں یہ فرض ہے کہ جذبۂ حریت کا تحفظ کرے وہیں یہ بھی فرض ہے کہ جذبۂ سکون واطمینان کا لحاظ رکھے۔اور واضح سی بات ہے کہ اس جذبہ کا پوراپورا خیال اسی وقت ہو سکتاہے جب جذبۂ حریت کو پابند بنادیاجائے ورنہ بڑے طبقہ کی آزادی چھوٹے طبقہ کی دولت سکون کو تباہ وبرباد کردے گی۔

آخرکلام میں یہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ ظاہری آزادی کے اختیار کرنے میں سرمایہ داری کا نظریہ صحیح ہویا غلط لیکن اپنی بنیادوں کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے اس لئے کہ اس کے بنیادی نظریات کا لحاظ رکھتے ہوئے واقعی حریت کا اعتراف ممکن ہی نہیں ہے واقعی آزادی ایک پابندی کی طالب ہے اور پابندی کے تین ہی راستے ہیں:

(1) اس پابندی کوتاریخی ضرورت قرار دیاجائے اور یہ کہاجائے کہ تاریخ اس دور میں اسی قید وبندکی طالب ہے جیساکہ اشتراکیت نے اپنی ڈکٹیٹر حکومت کے لئے دعویٰ کیاہے۔ لیکن یہ دعویٰ سرمایہ دار نظام کے لئے غیر ممکن ہے اس لئے کہ وہ تاریخی

۳۱۹

مادیت کے مارکسی مفہوم کی منکر ہے۔

(2) اس پابندی کو کسی بلند وبالا ذات کے اعتقاد کا نتیجہ قرار دیاجائے اور یہ کہاجائے کہ اس کائنات شعور کا کوئی خالق ہے جسے انسنان نظام حیات کے پورے پورے اختیارات حاصل ہیں اور انسان کا فریضہ ہے کہ اس کے بنائے ہوئے اصولوں پر عمل کرے جیساکہ دینی تعلیم کا تقاضہ ہے۔

لیکن ظاہرہے کہ سرمایہ داری اس مسلک سے بھی مجبور ہے۔اس نے دین کو اپنے فلسفۂ مادیت سے پہلے ہی جداکردیاہے۔

(3) اس پابندی کو اس ضمیر کی آواز قرار دیاجائے جو انسان کو روحانی افکار اور اخلاقی اقدار پرمجبور کرتاہے اور اس کے لئے ایک عادل نظام کا مطالبہ کرتاہے لیکن ظاہرہے کہ سرمایہ داری اس راستہ پر بھی چلنے سے معذور ہے۔اس کے یہاں ضمیر کاکوئی مفہوم ہی نہیں ہے وہ وجدان کے تقاضوں کو عرف وعادت اور رسم ورواج کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔

ایسے حالات میں انسان خود ہی سوچ سکتاہے کہ واقعی آزادی کی کوئی راہ باقی نہیں رہ گئی ہے اور حکومت کا بھی صرف اتنا ہی فریضہ ہے کہ وہ عوام کی آزادی کا تحفظ کرے۔اسے ان کے معاملات میں اس وقت تک دخل دینے کا حق نہیں ہے جب تک کہ اجتماعی نظام پر کوئی افتاد نہ پڑجائے۔

۳۲۰