اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 93951
ڈاؤنلوڈ: 2586

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 93951 / ڈاؤنلوڈ: 2586
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں دونوں کے مصالح میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا اسلامی نظام کے انطباق سے پہلے اس بات کا اندازہ صرف اس امر سے ہوگیاکہ اسلام نے سود کو حرام قرار دیاہے جس طرح کہ اسی ایک قانون سے یہ بھی معلوم ہوگیاکہ اسلامی معاشرہ میں وہ مصائب ومشکلات بھی نہ پیداہوں گے جن میں سرمایہ داری مبتلا ہوئی ہے۔اس لئے کہ سودی نظام میں ہر شخص دولت جمع کرنے کی فکر کرے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ سود حاصل کرسکے۔اس طرح نہ پیداوار میں اضافہ ہوگا اور نہ مال ہی تقسیم ہوسکے گا۔معاشرہ ایک کساد بازاری کا شکار ہوجائے گا۔لیکن اگر سود کو حرام کرکے ذخیرہ اندوزی کو بھی حرام کردیاجائے اور اس پر کوئی ٹیکس لگادیاجائے تو اس کا لازمی اثریہ ہوگاکہ لوگ دولت کو صرف کریں گے اور ان تمام مشکلات سے نجات مل جائے گی جو سرمایہ داری کے زیر اثر پیداہوتے ہیں۔

ان طریقوں سے یہ بات توممکن ہے کہ اسلام کے لئے ایک معاشرہ فرض کرکے اس کے قوانین کے نتائج معلوم کرلئے جائیں لیکن ظاہر ہے کہ اسے علمی استنتاج نہیں کہاجاسکتاہے اس لئے کہ فرضی معاشرہ واقعی سماج سے مختلف ہواکرتاہے جیساکہ سرمایہ داروں نے دیکھاہے کہ انہوں نے اپنی تنظیم کے لئے جو نتائج فرض کئے تھے انطباق کے وقت وہ سب بدل گئے اور اس کے برعکس نتائج برآمد ہوئے۔

دوسری بات یہ بھی ہے کہ اسلامی معاشرہ کا روحانی مزاج بھی اقتصادی حالات پر بڑی حدتک اثرانداز ہوتاہے اور چونکہ اس مزاج کا کوئی درجہ معین نہیں ہے اس لئے اس کے نتائج بھی حتمی نہیں ہوسکتے۔

مقصد یہ ہے کہ اسلام کا علم الاقتصاداس وقت تک مرتب نہیں ہوسکتاجب تک کہ اس نظام کو کسی ایک معاشرہ پر منطبق کرکے اس کے نتائج اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لئے جائیں۔

۳۶۱

(5)تقسیم پیداوار سے الگ شکل میں

انسان اپنی اقتصادی زندگی میں دوقسم کے اعمال انجام دیتاہے ایک پیداوار اور ایک تقسیم،وہ ایک طرف اپنے معلومات بھرذرائع پیداوار سے مسلح ہوکر عالم طبیعت کا مقابلہ کرتاہے اور اس سے طبیعی نعمتیں حاصل کرتاہے اور دوسری طرف باہمی تعلقات قائم کرکے مختلف شئون زندگی کے لحاظ سے انسانی روابط کی تحدید کرتاہے،انہیں باہمی تعلقات کا نام اجتماعی نظام ہے جس میں ہرقسم کے اجتماعی تعلقات مع تقسیم ثروت کے داخل ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ بنی نوع انسان پیداوار کے مسئلہ میں عالم طبیعت سے منافع حاصل کرتے ہیں اور نظام اجتماع کے اعتبار سے ان منافع کو اپنے اجتماعی تعلقات کی بنیاد پر تقسیم کر لیتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ پیداوار کا کام علمی ترقیوں کے ساتھ روبہ ارتقاء ہے۔ایک زمانہ تھا جب انسان بیلچے سے کام لیاکرتاتھا اور ایک زمانہ ہے کہ جب ایٹم کی طاقت سے کام لیا جارہاہے لیکن یادرکھئے کہ اجتماعی نظام کے باہمی تعلقات بھی جامدوساکت نہیں ہیں بلکہ ان میں بھی حالات اور ادوار کے اعتبار سے تغیر ہوتاچلا جارہاہے کل کے تعلقات اور تھے اور آج کے تعلقات اور ہیں۔یہ ضرور ہے کہ اس مقام پر ایک سوال یہ پیداہوجاتاہے کہ ان دونوں قسم کے تغیرات میں کوئی بنیادی رابطہ ہے یا نہیں؟

اور یہی وہ عمیق مسئلہ ہے جہاں آکر اسلام اور مارکسیت کی راہیں بدل جاتی ہے۔ مارکسیت اپنے بنیادی اصولوں کی بنا پر یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ذرائع پیداوار کے ساتھ اجتماعی تعلقات اور طریقۂ تقسیم کا بدل جانا ضروری اور قہری ہے۔یہ غیر ممکن ہے کہ ذرائع پیداوار ترقی کر جائیں اور اجتماعی نظام اپنی حالت پر باقی رہے۔

۳۶۲

ایک اجتماعی نظام تاریخ کے مختلف ادوار میں کارآمد نہیں ہوسکتااور نہ اس سے کوئی فائدہ اٹھایا جاسکتاہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ پیداوار کی شکلیں تیزی کے ساتھ بدلتی جارہی ہیں یہاں تک کہ اب ایٹم والیکٹرک تک نوبت پہنچ چکی ہے۔لہٰذا آج کے نظام کو دستکاری کے نظام سے الگ ہونا چاہئے۔آج کا دستور کل کے دستور سے جداگانہ حیثیت کا حامل ہونا چاہئے اور یہی وجہ تھی کہ مارکسیت نے اشتراکیت کو تاریخ کے اس دور کا حتمی نظام قرار دیاہے۔

ظاہر ہے کہ اسلام حتمی اتحاد کو تسلیم نہیں کرسکتا۔وہ اپنے ایک نظام کو مختلف ادوار تاریخ پر منطبق کرناچاہتاہے اس کا نظریہ یہ ہے کہ پیداوار اور تقسیم دو مختلف میدان ہیں۔ ایک میں انسان کا مقابلہ طبیعی مواد سے ہوتاہے اور وہ ان سے استفادہ کرتاہے اور دوسرے کاتعلق دیگر افراد نوع سے ہوتاہے اوروہ ان سے اتصال وارتباط قائم کرتاہے۔

پہلی قسم کا نتیجہ پیداوار کی مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتاہے اور دوسری قسم کا اثرنظام زندگی کی مختلف صورتوں میں۔

تاریخ نے دونوں قسموں کی ترقی کا تذکرہ کیاہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں کے درمیان ایک حتمی اور یقینی رشتہ تسلیم کر لیاہے۔ اس لئے کہ اسلام اپنے اجتماعی نظام کو ایٹم کے دور میں اسی طرح صالح خیال کرتاہے جس طرح وہ دستکاری کے دور میں تھا۔

اسلام اور مارکسیت کے اس اختلاف کی برگشت ایک دوسرے نقطہ کی طرف ہے اور وہ ہے اجتماعی نظام کی تحدید وتعریف، مارکسیت کے نزدیک اجتماعی زندگی ذرائع پیداوار کی پیداکردہ ہوتی ہے۔لہٰذا ان کے تغیر کے ساتھ اس کا متغیر ہوجانا ضروری ہے۔ذرائع پیداوار تاریخ کے محرک اور قافلہ بشریت کے قائدہیں۔ان کے چشم وابرو کے اشاروں پہ اجتماعی نظام کا گردش کرنا ایک ضروری اور لازمی امر ہے۔جس کا مکمل تجزیہ تاریخی مادیت کی بحث میں ہوچکا ہے اور حتمی اتصال واتحاد کے تاروپود بکھیرے جا چکے ہیں لہٰذا اب دوبارہ

۳۶۳

بحث کرنا غیر ضروری ہے۔

اسلام کی نظرمیں اجتماعی زندگی پیداوار کی تابع نہیں ہے بلکہ ذرائع پیداوار خود بھی انسانی ضروریات کے تابع ہیں۔اس کے نزدیک تاریخ کا محرک اقتصادنہیں بلکہ انسان ہے۔وہی اپنی ضروریات کے مطابق تاریخ کو حرکت دیتاہے اور وہی اس قافلہ کی قیادت کرتاہے۔

اس کی فطرت میں اپنی ذات سے محبت داخل ہے۔وہ اس محبت کی خاطر ہر شیء کو اپنا خادم بناکر اس سے استفادہ کرنا چاہتاہے۔ہر شخص دوسرے شخص سے اپنا کام نکالنا چاہتاہے وہ اپنے اندر اتنی سکت محسوس نہیں کرتاکہ اپنے جملہ ضروریات تنہافراہم کرسکے اور یہی ضرورتیں وہ ہوتی ہیں جن سے اجتماعی تعلقات پیداہوتے ہیں اور پھر انہیں کے ساتھ ترقی بھی کرتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی زندگی ضرورتوں کی تابع ہے اور صالح نظام وہی ہے جو زندگی کو ضرورت کے مطابق منظم کر سکے۔

جب ہم انسانی ضروریات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ نظرآتاہے کہ اس کے بعض ضروریات ہر دور کے اعتبار سے ثابت وجامد ہیں اور بعض ضروریات ادوارکے اختلاف کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔

انسان کی جسمانی ترکیب،اس کا نظام ہضم وتولید، اس کا قانون احساس وادراک ایسا مشترک امر ہے جو ہردور میں انسانی ضروریات میں اتحاد کا خواہاں رہاہے اور یہی وہ عمومی ضرورتیں ہیں جن کی بناپر تمام انسان ایک امت شمار کئے جاتے ہیں۔جیساکہ قرآن کریم کاا علان ہے:

إِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ ﴿٩٢﴾

یہ تمہاری امت سب ایک ہی ہے اور میں سب کا ہی رب ہوں۔لہٰذا

۳۶۴

میری ہی عبادت کرو۔ (انبیائ92)

اسی کے مقابلہ میں بہت سے ایسے ضروریات بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً انسانی زندگی میں داخل ہوتے جارہے ہیں اور پھر معلومات اور تجربات کے ساتھ بڑھتے بھی جارہے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہاجائے کہ بنیادی ضروتیں ثابت وجامد ہیں اور خارجی ضرورتیں متغیر ومتطور۔

جب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اجتماعی نظام ضرورتوں سے تشکیل پاتاہے اور یہ بھی معلوم ہوگیاہے کہ صالح نظام کے لئے تمام اجتماعی ضرورتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے تو اب یہ کہاجاسکتاہے کہ اجتماعی نظام نہ ثابت ہوسکتاہے اور نہ متغیر۔اس لئے کہ انسان کی ضرورتیں دونوں قسم کی ہیںاور نظام صالح کے لئے لازم ہے کہ اس کے دوپہلو ہوں۔ایک پہلو ثابت ہو جولازمی اور بنیادی ضروریات کا علاج کرے اور ایک پہلو متغیر ہوجو روز افزوں نوزائیدہ مشکلات کو حل کرے۔

اسلام نے اسی طریقۂ تنظیم کو اختیار کیاہے اس نے ایک طرف اپنے قانون کو ثبات کارخ دیاہے اور نبیادی ضرورتوں کے علاج کے لئے تقسیم ثروت،نکاح،طلاق، حدود، قصاص جیسے احکام وضع کئے ہیںاور دوسری طرف تغیر کا پہلو بھی باقی رکھاہے اور اس میں ولی امر کو مصلحت وقت کے مطابق فیصلہ کرنے کا موقع دیاہے۔اس نے مارکسیت کی بنیاد کو ٹھکراکر یہ ثابت کر دیاہے کہ صالح نظام تاریخ کے مختلف ادوار کے لئے کارآمد ہوسکتاہے وہ کسی وقت بھی پیداوار کی زنجیروں میں نہیں جکڑاجاسکتا۔

یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ تاریخ میں تقسیم ثروت کے جتنے بھی طریقے بیان کئے گئے ہیں ان سب کے بارے میں نظریہ مارکسیت سے مختلف ہے۔

مارکسیت صرف ان طریقوں کوپسند کرتی ہے جو ذرائع پیداوار کے مطابق ہوں

۳۶۵

اور ہر اس طریقہ کو مسترد کردیتی ہے جو اس سے ایک قدم آگے بڑھ جائے یا پیچھے رہ جائے۔

اور یہی سبب ہے کہ دستکاری کے دور کے لئے اس نے غلامانہ نظام زندگی کو ممدوح قرار دیاہے اور اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ اس دور میں اکثریت کے سروں پر تلوار کا علم کرنا، ان کا کوڑوں سے اذیت دینا ضروری ہوگیاتھا اس لئے کہ ذرائع پیداوار اور زیادہ مشقت کے طالب تھے اور لوگ اس کے تحمل کے لئے تیار نہ تھے۔

ایسے وقت میں اس شدت اور ظلم کو ترقی اور اس عمل کے انجام دینے والے کو ''بیدار مغز انقلابی''انسان کہاجائے گااور اس کی مخالفت کرنے والے کو ہر اس لقب سے یادکیاجائے گاجو اشتراکیت کے دورمیں سرمایہ دار کو دیاجاتاہے۔

اسلام اس کے بالکل برعکس نظام زندگی کی صلاحیت کو ذرائع پیداوار سے الگ کرکے ضروریات کے معیار پر رکھتاہے اگر وہ نظام انسانی ضرورتوں کی تکمیل کرسکتاہے تو صالح ومناسب ہے ورنہ فاسد۔پیداوار کی حالت ایک ہی رنگ پر ہویامختلف ہوجائے۔

اسلام اس مارکسی اتحاد کو فقط نظری اعتبار سے باطل نہیں قرار دیتابلکہ اس پر تاریخی شواہد بھی پیش کرتاہے اس نے خود اپنے تجربہ میں وہ کامیابی حاصل کی ہے جو اس کی حقانیت کی دلیل اور مارکسیت کے بطلان پر برہان ہے۔اس نے اپنے وجود سے یہ ثابت کر دیاتھاکہ معاشرہ میں ذرائع پیداوار کے جمودوسکوت کے باوجود اجماعی نظام میں انقلاب لایاجاسکتاہے اور اس کو نئی شکل دی جاسکتی ہے۔

چنانچہ اسلام کا وہ خارجی وجود جس میں وہ ایک مخصوص سماج پر منطبق ہواتھا اور اس نے ایک ایسا انقلاب برپاکردیاتھا جو آج تک تاریخ میں ثبت ہے۔اس نے ایک نئی امت پیداکرکے ایک جدید تمدن کی بنیاد ڈال کرتاریخ کی رفتار بدل دی اور یہ ثابت کردیاکہ ذرائع پیداوار کے اس دور میں اتنا عظیم انقلاب مارکسی فکر کے تصورمیں بھی نہیں آسکتاتھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظام کے اس مختصر دور نے مارکسی منطق کو ہراعتبار سے

۳۶۶

چیلنج دے دیاتھا۔

مساوات کے بارے میں مارکسیت کا خیال تھاکہ یہ اس وقت تک نہیں پیداہو سکتی جب تک بورژوائی طبقہ نہ پیداہوجائے اور یہ اس وقت ہوگا جب صنعتی نظام بر سرکار آجائے گا لیکن اسلام نے اپنے موقف میں اس فکر کو ہنسی میں اڑادیا۔اس نے علم مساوات بلند کیا، انسان میں صحیح شعور وادراک پیدا کیا،ا جتماعی تعلقات کو مساوات کے سانچہ میں ڈھالا اور یہ سب اس وقت کیاجب بورژوایت کو خطۂ ارض پر قدم رکھنے کی اجازت بھی نہ ملی تھی اور اس کی پیدائش کو ہزار سال باقی تھے۔اسلام کا کھلاہوا اعلان تھا:

تم سب آدم سے ہواور آدم مٹی سے ہیں۔

لوگ کنگھی کے دندانوں کے مثل برابر ہیں۔

عرب کو عجم پر تقویٰ کے علاوہ کسی بنیاد پر فضیلت حاصل نہیں ہے۔

کیا اسلام نے یہ خیالات ان بورژوائی ذرائع پیداوار سے حاصل کئے تھے جو ایک ہزار سال بعد پیداہونے والے تھے۔ یہ سب ان ابتدائی ذرائع معیشت کے دور میں ہورہاتھا جس سے حجازی معاشرہ گزررہاتھا۔

اس وقت توعرب تمام عالم سے بدتر حالت میں تھے پھر اس مساوات کی بنیاد حجاز کے پسماندہ خطہ میں کیوں رکھی گئی۔اس فکر کی ابتداء یمن، حیرہ اور شام کے ترقی یافتہ معاشروں سے کیوں نہیں ہوئی۔

اس کے بعد اسلام نے تاریخی مادیت کو چیلنج کیااور یہ بتایاکہ ایک عالمی نظام پوری انسانیت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتاہے اور اس نے اس فکر کے لئے بھی ایک ایسے خطہ کو اختیار کیاجہاں قبائلی جنگوں کی بھرمارتھی اور ایک قوی حکومت کا بھی تصورنہ تھا لیکن اس نے سب کو انسانیت عظمیٰ کی منزلت پرلاکر متحد کر دیا اور مسلمانوں کو اس قبائلی فکر سے بلند وبالا کر دیا۔جس کی بنیاد خون،قرابت،ہمسائیگی وغیرہ پر تھی۔اس نے انسان کو وہاں پہنچادیاجہاں

۳۶۷

ان عناصر کا وجود بھی نہ تھا۔بلکہ اسلام کے فکری قوانین کی حکومت تھی۔

اب آپ بتائیں کہ جس قوم میں قوی اجتماع کی بھی صلاحیت نہ تھی اسے عالمی اجتماع کی امامت کن ذرائع پیداوار نے سپرد کی تھی؟

اسلام نے اس کے بعد تاریخی منطق کو چیلنج کیا او رتقسیم ثروت کے وہ اصول وضع کئے جو مارکسیت کی نظرمیں ایک عظیم صنعتی انقلاب کے بغیر ناممکن تھے۔اس نے انفرادی ملکیت کی تحدید کرکے اس کے مفہوم کو پاکیزہ بنایا۔اس کے حدود قائم کرکے فقراء ومساکین کی کفالت کا انتظام کیا۔

اجتماعی عدالت وتوازن کی ذمہ داریاں وضع کیں اور یہ سب اس دور میں کیاجب مادی شرائط کے وجود کے آثار دور دور تک نظر نہ آتے تھے اور اٹھارہویں صدی میں یہ کہا جارہاتھاکہ :

سوائے احمقوں کے ہر شخص جانتاہے کہ پست طبقہ کو فقیر رہنا چاہئے تاکہ عمل میں زحمت ومحنت کریں۔ (ارثریونج کاتب قرن ہیچدہم)

انیسویں صدی کا یہ قول تھاکہ:

جو شخص ایسے عالم میں پیدا ہوجہاں ملکیت طے ہوچکی ہواسے وسائل معیشت کے نہ ہونے کی صورت میں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔وہ سماج میں ایک طفیلی کی حیثیت رکھتاہے جس کا وجود بالکل غیر ضروری ہے اس لئے کہ عالم طبیعت کے دسترخوان پر اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔طبیعت اسے بھگانا چاہتی ہے اور اس کے حکم میں سستی مناسب نہیں ہے۔

(ماتس کاتب قرن نوزدہم، ولادت 1766ء ،وفات 1834ء :مترجم)

آج عالم صدیوں کے بعد اس ضمانت کی فکر کررہاہے جس کا اعلان اسلام نے برسہابرس پہلے کردیاتھا:

جو شخص اپنے لاوارث بچے چھوڑدے گا میں اس کا ذمہ دارہوں،جو شخص

۳۶۸

مقروض مرے گامیں اس کا ضامن ہوں۔

اسلام واضح لفظوں میںا س بات کا اعلان کرتاہے کہ فقروفاقہ عالم طبیعت کے بخل کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ غلط طریقۂ تقسیم اور صالح نظام سے انحراف کا نتیجہ ہے۔جہاں فقیر کو غنی سے الگ کر دیا گیا ہے اس کا قول ہے کہ:

کوئی شخص اس وقت تک بھوکا نہیں ہوگا جب تک کہ اس کے پہلو میں کوئی آسائش پسند نہ ہو۔

ظاہر ہے کہ اجتماعی عدالت کے بارے میں اسلام کے یہ ترقی پسند اور بلند پایہ افکار اور اس دور کے بیلچہ وکدال،کاریگری اور دستکاری کا نتیجہ نہیں ہوسکتے۔

کہایہ جاتاہے کہ یہ بلند فکر، یہ اجتماعی انقلاب اور یہ جاذبیت سب کے سب مکہ کی اس بڑھتی ہوئی تجارت کا نتیجہ ہیں جو ایک بڑی حکومت کے متقاضی تھے۔ایک ایسی حکومت جس کے اجتماعی احکام اس ترقی یافتہ تجارت کے لئے سازگار ہوں۔

کیاخوب! پوری انسانی زندگی کا وبالا ہوجانا اس ایک تجارت کا نتیجہ ہے جو جزیرۂ عرب کے شہروں میں سے ایک معمولی شہر میں ترقی کر رہی تھی ۔میں نہیں سمجھ سکتاکہ فقط مکہ کہ تجارت نے اتنا زور کیسے دکھایاکہ دیگر عرب وغیرعرب ترقی یافتہ متمدن شہر اس کے پیچھے رہ گئے۔آخر ترقی پسند مہذب ممالک کہاں سورہے تھے؟

کیا جدلیاتی منطق کا تقاضہ یہ نہ تھا کہ یہ انقلاب ایسے ہی کسی بڑے ترقی یافتہ شہر سے اٹھے؟

پھر اس انقلاب کے جراثیم مکہ میں کیسے بڑھے جوان تمام شہروں سے زیادہ پست اور فلاکت زدہ تھا؟

اگر مکہ کے تجارتی حالات فقط شام ویمن کے سفر کی بناپر خوشگوار تھے تو نبیطوں کے حالات تواور بھی بہتر رہے ہوں گے اس لئے کہ انہوں نے بطر(بحیرۂ لوط اور بحر احمر کے

۳۶۹

درمیان نبیطوں کی مملکت کا پایۂ تخت عرب اس کو ملع کہتے ہیں۔مترجم) کو تجارتی اڈہ قرار دے کر وہاں ایسی شہریت قائم کردی تھی جس کی اس وقت میں نظیر بھی نہ تھی۔ان کا نفوذہمسایہ ممالک تک پہنچ چکا تھا۔انہوں نے وہاں تجارتی قافلوں کے لئے حامیات قائم کرکے کانوں پر قبضہ کرنے کے اڈے جمادیئے تھے۔چنانچہ یہ شہریت ایک عرصۂ درازتک برقرار رہی اور تجارت روز افزوں ترقی کرتی رہی،یہاں تک کہ اس کے آثار سلوقیہ، شام اور اسکندریہ میں بھی پائے جانے لگے،یہ لوگ تجارتی سلسلے میں یمن سے افادیہ(ایک خوشبوکانام ہے۔مترجم)،چین سے ریشم، عقلان سے حنا،صیدادصور سے شیشہ رنگ، خلیج فارس سے موتی، روم سے خرف وغیرہ خریدتے تھے اور اپنے یہاں سوناچاندی، تارکول،تل وتیل وغیرہ پیداکرتے تھے، تعجب یہ ہے کہ ان تمام مساوی ترقیوں کے باوجود ان کا اجتماعی نظام اپنی حالت پر باقی تھا اوررِحْلَةَ الشِّتَائِ وَالصَّیْفِ پر گذر کرنے والی قوم انقلاب سے کھیل رہی تھی۔

اس کے علاوہ مناذرہ(حیرہ کے بادشوہوں کا لقب ہے۔مترجم) کے عہد میں حیرہ( کوفہ کے قریب ایک مقام ہے جہاں عہدقدیم کے آثارخود مترجم نے مشاہدہ کئے ہیں۔مترجم) کی بے پناہ ترقی جہاں لباس ،اسلحہ، خرف اور مٹی کے برتنوں کا زوروشور تھا اور ان کا تجارتی نفوذ جنوب وغرب جزیرہ عرب تک پہنچ چکا تھا۔ان کے قافلے ہر بازار میں کلی سامان لئے حاضر رہتے تھے۔اس طرح تدمر(دمشق کے شمال مشرق میں ایک شہر تھا جس کانام PALMYRE ۔مترجم) کی ترقی جو صدیوں قائم رہی جس میں تجارت عالمی پیمانہ پر ہوتی رہی۔چین،ہند،بابل، فینقیہ (ساحل لبنان کے قدیم شہروں کا نام ہے PHENICIE ۔مترجم) اور جزیرہ کے ممالک سے تجارت ہوتی رہی۔خودیمن کی شہرت تاریخ کاایک اہم واقعہ ہے۔کیا ان تمام حالات میں اتنی صلاحیت نہ تھی کہ کسی انقلاب سے آشنا ہوتے؟یہ بات صرف مکہ کے لئے رہ گئی تھی کہ اس کی تجارت بابرکت ثابت ہوتی اور اسلام انقلاب عظیم

۳۷۰

برپاکردیتا۔

حقیقت یہ ہے کہ ان گوناگوں حالات کے بعداسلام کو یہ حق پہنچتاہے کہ وہ پورے وثوق واطمینان کے ساتھ تاریخی مادیت کے حتمی فیصلوں کا انکار کرے اور یہ اعلان کر دے کہ اجتماعی تعلقات کو پیداوار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔دونوں کی رفتارجداگانہ اور دونوں کاراستہ الگ الگ۔لہٰذا یہ قطعی طورپرممکن ہے کہ پیداوار سے جداگانہ سلوب سے ثروت کو تقسیم کیاجائے اور اس طرح سے کوئی غلط نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔

(6)اقتصادی مشکلات اور ان کا حل

مسئلہ کیاہے؟

اقتصادیات کے بارے میں دنیا کے جملہ نظریات اس بات پرمتفق ہیں کہ معاشی زندگی میں بعض اہم مسائل ومشاکل پیش آتے ہیں اوران کا علاج بھی ممکن ہے لیکن اختلاف اس نقطہ پر ہے کہ یہ مشکلات کیاہیں؟اور کیوں؟

سرمایہ داروں کا عقیدہ ہے کہ یہ مشکل طبیعی مواد کی قلت کی بناپر پیداہوتی ہے عالم کی روزافزوں آبادی کے لئے زمین کا یہ محدود رقبہ اور خام مواد کی یہ قلیل مقدار کافی نہیں ہے۔لہٰذااس قلت کی بناپر عالم اقتصادکو ایک اہم مشکل سے دوچارہونا پڑتاہے۔

مارکسیت کا خیال یہ ہے کہ یہ مشکل پیداوار اور تقسم کے اختلاف کی بناپر پیداہوتی ہے۔لہٰذا اگردونوں میں اتفاق واتحاد قائم کردیاجائے تو عالم میں سکون واطمینان پیداہو جائے گا۔

۳۷۱

اسلام ان دونوں نظریات کا مخالف ہے۔وہ عالم طبیعت کو جملہ ضروریا ت کا کفیل تصور کرتاہے۔اس کی نظرمیں عالم امکان میں کسی قسم کا بخل یا قصور نہیں ہے۔وہ ان اقتصادی مشکلات کو طبقاتی نزاع کا نتیجہ بھی نہیں قرار دیتابلکہ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ مشکل صرف انسان سے پیداہوتی ہے۔

قرآن کریم نے اس امر کی صاف وضاحت کردی ہے:

اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ ﴿٣٢﴾ وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ﴿٣٣﴾وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ ﴿٣٤﴾

اللہ نے تمہارے لئے زمین وآسمان کو پیداکیاپھر آسمان سے پانی برساکر میوے پیداکئے جو تمہارا رزق ہے،تمہارے لئے کشتیوں کو مسخر کردیاتاکہ حکم الٰہی سے سمندرمیں سیر کریں۔نہروں کو مسخرکیا،شمس وقمر کے حرکات مسخر کئے، لیل ونہارکو مسخرکیا اور وہ سب کچھ دے دیا جس کا تم نے سوال کیاتھا۔اب اگر اس کی نعمتوں کا حساب کرنا چاہوتونہیں کرسکتے ہو۔(لیکن اسے کیا کیاجائے کہ)انسان بڑاظالم وناشکراہے۔(ابراہیم32تا34)

ان فقرات سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ خالق کائنات نے عالم کی اس وسیع فضا کو مصالح ومنافع سے پرکردیاہے۔اس کی ضرورت کے مطابق چیزیں پیداکردی ہیں لیکن انسان نے ان مواقع کو اپنے ہاتھ سے دے دیاہے اور وہ ظالم ومنکربن گیاہے۔

جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام اقتصادی مشکلات کا سرچشمہ یہی عملی زندگی کا ظلم اور نظرحیات کا انکار ہے۔اگر ظلم کے ذریعہ غلط تقسیم اور کفران نعمت کے ذریعہ پیداوار میں سستی

۳۷۲

اور کاہلی نہ برتی جائے تو کوئی معنی نہیں کہ انسان اقتصادی مشکلات میں گرفتار ہو۔ اسلام نے اسی نقطۂ نظر سے ظلم وجود کے خاتمہ کے لئے تقسیم وتبادلہ کے احکا م وضع کئے اور کفران نعمت کے علاج کے لئے پیداوار کے احکام ومفاہیم مقررکئے۔ہماری بحث اس مقام پر صرف ظلم سے متعلق ہوگی۔کفران نعمت کے بارے میں ہماری تفصیلی گفتگو دوسری جلد میں ہوگی۔

طریق تقسیم (تقسیم میں عمل کا حصہ)

دولت کی تقسیم کے بارے میں انسانیت ہردور میں کسی نہ کسی مشکل میں گرفتار رہی ہے۔کبھی افراد کی بنیاد پر تقسیم ہوئی تومعاشرہ پر ظلم ہوا،کبھی اجتماع کی بنیاد پر تقسیم ہوئی تو افراد پر ظلم ہوا۔

اسلام نے تقسیم کا ایک ایسا عادلانہ انداز اختیار کیاہے جہاں فردواجتماع دونوں کے حقوق کی رعایت ہو۔نہ فرد کے خواہشات کا درمیان حائل ہواجائے اور نہ اجتماع کی کرامت واہمیت کا انکار ہو اور اس طرح تقسیم کے جملہ طریقوں سے امتیاز پیداہوجائے۔

اسلام نے اپنے نظام تقسیم کو دواسباب سے مرکب کیاہے۔''عمل اور ضرورت'' اور دونوں کے معاشرہ میں مخصوص آثار ونتائج قرار دیئے ہیں۔ہمارا موضوع سخن بھی یہی ہوگاکہ ان اسباب کو تقسیم میں کیادخل ہے؟ اور اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب نے ان اسباب کو جودرجہ دیاہے اسلام نے اس سے کس قدر اختلاف کیاہے؟

۳۷۳

تقسیم میں عمل کا حصہ

اس سلسلہ میں ہمیں سب سے پہلے اس اجتماعی تعلق کو دیکھنا ہوگا جوعمل اور ثروت کے درمیان قائم ہوتا ہے۔یہ تو معلوم ہے کہ عمل مختلف طبیعی مواد پر صرف ہواکرتاہے۔یہی زمین سے معدنیات نکالتاہے،یہی درخت سے لکڑیاں قطع کرتاہے،یہی دریاسے موتی حاصل کرتاہے،یہی فضاسے طائروں کا شکار کرتاہے،یہی طبیعت کے جملہ منافع مہیا کرتاہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عمل سے ان تمام خام مواد میں کیارنگ پیداہوتاہے؟ اورعامل(کارکن) کا اس ثروت سے کیارشتہ ہوتاہے جو اس کی محنت سے پیداہوتی ہے؟

بعض حضرات کا خیال ہے کہ عمل اور عامل میں کوئی اجتماعی تعلق نہیں ہوتااسے بقدر حاجت ثروت مل سکتی ہے۔خواہ پیداوار کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ا س لئے کہ محنت اور مشقت اس کا اجتماعی فریضہ تھا اس نے ادا کردیا۔اب اس کے ضروریات کا پورا کرنا معاشرہ کا فرض ہے لہٰذا اسے بھی اداہونا چاہئے۔

یہ خیال اشتمالیت سے بڑی حد تک متحد ہے اس لئے کہ وہ معاشرہ کو ایک ایسی مخلوق فرض کرتی ہے جس میں سارے افراد فنا ہوچکے ہوں اور ان کی حیثیت کا خاتمہ ہوچکا ہو، یہاں ہر فرد انسانی نطفہ کے ایک کیڑے کی حیثیت رکھتاہے جو باہمی جنگ وجدل سے ایک کیڑے کی شکل میں آتے ہیں۔

گویا افراد کی حیثیت کو ''کل حکمت''کرکے پگھلادیاگیاہے اور اس سے ایک ''انسان اکبر''تشکیل پایاہے جس کا نام ہے معاشرہ اور سماج، اب یہی معاشرہ پوری ثروت کا مالک ہے اور یہی افراد کی معیشت وزندگانی کا ذمہ دار، یہ افراد ایک کارگاہ میں ایک مشین کے پرزوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

۳۷۴

جس طرح پرزے مالک نہیں ہوتے بلکہ انہیں بقدر ضرورت تیل دے دیاجاتا ہے اسی طرح بنی نوع انسان کو بقدر حاجت غذامہیا کردی جائے گی اور انہیں مالک نہیں فرض کیاجائے گا۔

اس طرزفکر کی بنیادیہ ہے کہ انسان ذریعۂ پیداوار ہے لیکن وسیلۂ تقسیم نہیں ہے۔ تقسیم کی میزان میں فقط ضرورت کا حصہ ہے عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اشتراکی اقتصاد کا خیال ہے کہ عمل وعامل میں ایک بڑاعمیق ربط ہے۔عامل ہی اپنے عمل سے مواد کی قیمت پیداکرتاہے ۔اسی کی وجہ سے خام مواد میں جان آتی ہے۔لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اسے اس کے نتیجۂ عمل سے محروم کردیاجائے، تقسیم کا معیار حاجت وضرورت کو نہ ہونا چاہئے بلکہ اس کا تمام تردارومدار عمل پر ہوناچاہئے جو جس قدر عمل کرے اسی قدر حقدار ہو۔

اسلام ان دونوں نظریات سے الگ عقیدہ کا حامل ہے وہ اشتمالیت کی طرح عامل کو اپنے نتیجۂ عمل سے الگ کرکے معاشرہ کو اس کی دولت پر قابض نہیں بناناچاہتا۔اس لئے کہ اس کی نظرمیں معاشرہ کسی مستقل شیء کا نام ہے بلکہ انہیں افراد کے اجتماع کی ایک تعبیر ہے لہٰذا افراد کو بے حیثیت قراردے کر معاشرہ کی ہمدردی ایک بے معنیٰ شے ہے۔

وہ اشتراکیت کے مانند عامل کو خلاقِ قیمت بھی تعلیم نہیں کرتابلکہ قیمت کی تخلیق میں خام مواد کو حقدار قرار دیتاہے اور اس کی قدروقیمت کا معیار اجتماعی رغبت ومیلان کو سمجھتا ہے۔اس کی نظرمیں عامل کو اپنے عمل کے نتائج سے استفادہ کرنے کا پورا پورا حق ہے۔اس لئے کہ ایہ انسان کی فطری خواہش ہے اور انسان چاہتاہے کہ جس طرح اس نے اپنی زحمت سے عمل کیاہے اسی طرح اپنی خواہش کے مطابق اس کے نتائج پر تصرف کرے۔وہ اس انفرادی شعور سے کسی وقت بھی الگ نہیںہوسکتاخواہ اس کی زندگی تمام تر مارکسی ماحول میں کیوں نہ گذری ہو۔

۳۷۵

یہی وجہ ہے کہ مارکس ماحول میں ابتداسے کام ہی معاشرہ کے لئے کیاجاتاہے تاکہ انفرادیت کی رگ حمیت نہ پھڑکنے پائے ورنہ اگرانسان اپنے نام پرکام کرے گا تو یہ برادشت نہیں کرسکتاکہ اس کے ثمرات ونتائج دوسرے شخص کے زیر تصرف آجائیں۔

اس بیان سے واضح ہوجاتاہے کہ اسلام ملکیت کے بارے میںعمل کو خاطر خواہ اہمیت دیتاہے اور عامل کو اپنے نتائج عمل سے پوراپورا استفادہ کرنے کا موقع دیتاہے۔وہ انفرادیت کے شعور کو پامال نہیں کرناچاہتااور نہ اس کا مقصد انسان کی داخلیت سے نبرد آزمائی ہے۔

مختصر یہ ہے کہ عمل کے بارے میں تین مسلک ہیں:

اِشْتِمَالِیَّتْ اس کا خیال ہے کہ عمل کے نتائج سماج کی ملکیت ہیں افراد سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

اِشْتِرَاکِیَّتْ اس کا خیال ہے کہ عمل بنیاد قیمت ہے لہٰذا پوری قیمت عامل کو ملنی چاہئے۔

اِسْلَام اس کا عقیدہ یہ ہے کہ عمل موجب ملکیت ضرور ہے لیکن خلاق قیمت نہیں، قیمت دیگر عناصر سے بھی پیداہوتی ہے۔

موتی اپنی آب وتاب ذاتی طور پر رکھتاہے اور وہ ایک قدر وقیمت رکھتاہے۔دریا سے نکالنے والا اسے یہ قدروقیمت نہیں دے سکتا۔

۳۷۶

تقسیم میں ضرورت کا حصہ

نظام تقسیم میں جس طرح عمل ایک اہم عنصر ہے۔اسی طرح ضرورت بھی ایک بڑا درجہ رکھتی ہے۔اسلامی معاشرہ میں یہی دونوں عنصر ایسے ہیں جن کی اجتماعی کار گذاری سے نظام تقسیم کی تشکیل ہوتی ہے۔اس اجتماعی کار گذاری کی تفصیل کے لئے معاشرہ کو تین حصوں میں تقسیم کرناپڑے گا۔

(1) وہ لوگ جو اپنی فکر اور فطری صلاحیتوں کی بناپر اپنی معیشت کے اسباب مہیا کرنے پر پوری پوری قدرت رکھتے ہیں۔

(2) وہ لوگ جو صرف بقدرشکم سیری کام کرسکتے ہیں اس سے زیادہ محنت کرنے کی صلاحیت ان کے اندر نہیں ہے۔

(3) وہ لوگ جو بدنی کمزوری یا عقلی مرض کی بناپر کسی کام کے کرنے سے عاجزہیں اور سماج کی گردن پر ایک بار ہیں۔

اسلامی نظام اقتصادمیں پہلا گروہ اپناپوراحصہ اپنے عمل کی بنیاد پر حاصل کرے گا اس لئے کہ اس نے کام کیاہے اور کام ہی ملکیت کا وسیلہ ہے۔ اس کے بارے میں ضرورت کا کوئی لحاظ نہیں ہوگا بلکہ اسلامی حدود کے اندر پوری مشقت کا پورا ثمر قرار دیاجائے گا۔

دوسرا فرقہ بقدر ضرورت خود ہی کسب کرسکتاہے لہٰذا اس کی بنیادی ملکیت کا دارو مدار عمل پرہوگا لیکن چونکہ دیگر ضروریات کے اعتبارسے عاجز ہے لہٰذا اس سلسلے کی املاک کا معیار ضرورت کو قرار دیاجائے گا۔

تیسرے فرقہ کی تمام تر ذمہ داری معاشرہ پر ہے وہ کسی قسم کے کام پر قادر نہیں ہے لہٰذا اس کی ساری ملکیت حاجت وضرورت کی ممنون کرم ہوگی۔

۳۷۷

یہیں سے یہ بھی واضح ہوجائے گاکہ اسلامی اقتصاد میں ضرورت کا کیامرتبہ ہے اور اس کو نظام تقسیم میں کس قدر دخل اندازی کا حق ہے؟

ضرورت اسلام واشتمالیت کی نظر میں

اشتمالیت اپنے مخصوص نظریہ کی بناپر ضرورت کو نظام تقسیم کی بنیاد قرار دیتی ہے۔ اس کی نظرمیں کسی شخص کو بھی اپنی ضرورت سے زیادہ املاک کا استحقاق نہیں ہے خواہ اس کے عمل کی مقدار کسی قدر زیادہ کیوں نہ ہو لیکن اسلام عمل کو بھی ذریعۂ تقسیم قرار دیتاہے اور اس کی اہمیت کا قائل ہے۔اس لئے کہ اس کے ذریعہ انسان کی صلاحیتوں کا اظہار ہوتاہے۔مقابلہ اور سبقت کے جذبات کام کرتے ہیں۔ہر شخص اپنے پورے امکانات کو صرف کرتاہے اور نظام اشتمالیت کی طرح اس کے فطری محرکات پسپا نہیں ہوتے۔اس کے عملی جذبات کو فنا نہیں کیاجاتا۔ضرورت بھر ملکیت پر اکتفا کرنے کی پابندی لگاکر عملی قوتوں کومشلول نہیں بنایا جاتااور ہمت شکنی کے ذریعہ اقتصادی زندگی کو تباہ نہیں کیاجاتا۔

ضرورت اسلام واشتراکیت کی نظر میں

اشتراکیت اپنے مخصوص طرز فکر کی بناپر عمل کو قیمت کی بنیاد قرار دے کر ضرورت کو بالکل مہمل وعبث تصور کرتی ہے۔اس کی نظرمیں اگر عامل نے اپنی ضرور ت سے زیادہ پیداکر

۳۷۸

لیاہے تو وہ بھی اسی کا ہے اور اگر کم پیداکیاہے تو بھوکا رہنا بھی اسی کا حصہ ہے سماج اس کی ضرورت کا ذمہ دار نہیں ہے۔

اسلام نے اس کی شدید مخالفت کی ہے۔وہ بااستعداد عامل کو اس کے نتائج عمل سے محروم نہیں کرتالیکن اسی کے ساتھ ساتھ بے استعداد اور عاجز انسان کی زندگی کی بھی ذمہ داری لیتاہے۔

اشتراکیت صرف اپنے نتیجۂ عمل پر اکتفار کرنے اور بالائی طبقہ کے امتیازات پر صبر کرنے کی دعوت دیتی ہے اور اسلام عمل کے ساتھ ضرورت کو معیارقرار دے کر اس کی معیشت کے اسباب مہیاکرتاہے،اس نے نہ تو صاحب استعداد کی صلاحیت کو ضائع کیاہے اور نہ عاجز ومسکین کی زندگی کو۔ اسلام واشتراکیت جہاں دوسرے فرقہ(بقدر ضرورت کام کرنے والا گروہ)کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں وہاں تیسرا فرقہ بھی ان کے درمیان محل نزاع بناہواہے۔میرا مقصد یہ نہیںہے کہ میں آج کے اشتراکی سماج پر تبصرہ کروں اور ان اخبار کو نقل کروں جو مخالفین اشتراکیت نے درج کئے ہیں اور جن میں اس طبقہ کے لئے موت کے حتمی ہونے کا اظہار کیاگیاہے۔اس لئے کہ میراکام نظریات پر تنقید کرنے کا ہے۔

مجھے خارجی ماحول سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ میراکہنا یہ ہے کہ اشتراکیت اپنے نظریات کی بناپر اس فرقہ کو زندگی کا حق نہیں دے سکتی،اس لئے کہ اس کے یہاں تقسیم ثروت پیداوار کے اعتبار سے ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ فرقہ اپنی بے لیاقتی کی بناپر ہر قسم کی پیداوار سے عاجز ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے قدیم معاشروں میں غلاموں کی موت اور ان کی نتائج اعمال سے محرومی کو ممدوح ومستحسن شے قرار دیاہے اس لئے کہ وہ طبقاتی نزاع کا نتیجہ تھی اور جب طبقات ہی معاشرہ کی جان ہوں تو یہ غریب فرقہ تو کہیں کا نہ رہے گا۔یہ نہ سرمایہ دار کہے جانے کا مستحق ہے اور مزدور۔اسے نہ سرمایہ ملے گا اور نہ اجرت اور ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں موت کا حتمی ولازمی ہونا ایک یقینی امر ہے۔

۳۷۹

لیکن اسلام نے اپنے طریقۂ تقسیم کو طبقات سے الگ کرلیاہے اور اسے اپنے اعلیٰ اقدار ومفاہیم کی روشنی میں مرتب کیاہے اس کے یہاں قادر وعاجز، بااستعداد و بے لیاقت سب کو جینے کا حق ہے۔

یہاں تیسرے فرقہ کی زندگی کا بھی تحفظ کیاجائے گا اس لئے کہ وہ بھی انسانوں ہی کا ایک جز ہے اور اسی سماج کا ایک حصہ ہے۔

یہاں اچھے معاشرہ کا تصور اسی وقت مکمل ہوگاجب اس عاجز ومسکین فرقہ کی ضروریات زندگی کی ذمہ داری لے لی جائے۔

ان کے اموال میں سائل اور محروم دونوں کا حق ہے۔(قرآن کریم)

ضرورت اسلام وسرمایہ داری کی نظر میں

سرمایہ دار اقتصاد ضرورت کے سلسلہ میں اسلام کا بالکل مخالف ہے۔وہ تقسیم ثروت میں ضرورت کوکوئی مرتبہ نہیں دیتا۔اس کے یہاں ضرورت کی زیادتی مزید محرومی کاباعث بن جاتی ہے یہاں تک کہ اکثر افراد تقسیم کے میدان سے الگ کردیئے جاتے ہیں اور وہ ہلاکت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں اور اس کا رازیہ ہے کہ ضروریات زندگی کی زیادتی کے ساتھ سرمایہ دار بازار میں کاریگروں اور مزدوروں کی زیادتی ہوجاتی ہے اور چونکہ مزدور عام جنس کے بھاؤبکتے ہیں۔اس لئے جنس کی زیادتی سے کم قیمت ہوجاتے ہیں۔یہاں تک کہ جب بازار کوجنس کی ضرورت نہیں رہی تو اکثر صاحبان ضرورت بیکاری کا شکار ہوجاتے ہیں اب یہ لوگ یاتو محالات کو ممکن بناکر جئیں گے یا پھر موت کی آغوش میں آرام کریں گے۔

۳۸۰