اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 93940
ڈاؤنلوڈ: 2586

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 93940 / ڈاؤنلوڈ: 2586
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دیاہے کہ انسان فطری طورپر آزاد پیدا ہواہے۔اجتماعی طورپر آزاد نہیں پیداہوا۔اس کی زندگی میں دوقسم کے معاملات ہیں۔ایک کا تعلق اس کے انفرادی حالات سے ہے اور دوسرے کا تعلق اجتماعی معاملات سے۔انفرادی حالات کے اعتبار سے وہ بالکل آزاد ہے۔ اس پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی لیکن اجتماعی معاملات میں کسی ایک انسان کو بھی آزاد نہیں کیاجاسکتا۔یہاں ہر شخص کو دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھنا ہوگا اور ہر شخص پر دوسرے ابنائے نوع کی زندگی کی ذمہ داری ہوگی۔یہاں فطری اور انفرادی آزادی سے اجتماعی آزادی پر استدلال نہیں کیاجاسکتا۔انفرادی اور اجتماعی حالات کی تشریح انتہائی تفصیل طلب ہے ہم اسے''علم اجتماع''کاموضوع سمجھتے ہیں اس لئے قاریٔ محترم کے ذہن پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے استدلال کو روزانہ کے مشاہدات وتجربات اور عقل سلیم کے فیصلے کے حوالے کئے دیتے ہیں۔

سرمایہ داری نے آزادی کی حمایت میں فطری جذبات کے احترام کے علاوہ ایک اقتصادی نکتہ بھی پیش کیاہے کہ آزاد معاشرہ میں ہرشخص حسب خواہش کام کرتاہے،حسب خواہش تجارت کرتاہے،حسب خواہش کارخانے قائم کرتاہے اور ہر شخص کو یہ خیال ہوتاہے کہ اپنے پیدا کئے ہوئے منافع سے ہمیں خود ہی مستفیض ہونا ہے۔وہ اپنے کاروبار کو زیادہ سے زیادہ آگے بڑھاتاہے۔اقتصادیات میں ترقی ہوتی ہے اور ملک تیزی سے خوشحالی کی طرف بڑھ جاتاہے۔

بظاہر یہ بات بھی کچھ کم حسین نہیں ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اقتصادی مسئلہ کا مقصود فقروفاقہ اور عوامی تباہ حالی کو دور کرناہے یا ذرائع پیدا وارکا بڑھا دینا خواہ اس کا تعلق کسی ایک طبقہ ہی سے کیوں نہ ہو۔دنیا جانتی ہے کہ معاشیات کا علم عمومی بدحالی کو دور کرنے کے وسائل سے بحث کرتاہے اس کا مقصد کسی ایک طبقہ کے ذرائع آمدنی کو بڑھا دینا یا گھٹادینا نہیں ہے اور سرمایہ داری کی یہ فکر اسی ایک نکتہ کی طرف لے جارہی ہے۔اس فکر میں اقتصادی نشاط،

۶۱

ذرائع پیداوار کی وسعت کا انتظام ضرور کیاگیاہے لیکن اس سرمایہ کے عوام تک پہنچنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔اقتصادی نقطۂ نظر سے یہ فکر انتہائی مہمل ہے اور معاشیات کا علم کسی طرح بھی اس کی تائید نہیں کرسکتا۔

سرمایہ داری نے اس نکتہ کو بھی فراموش نہیں کیاہے اور ہمت کرکے یہ دعویٰ بھی کر دیا ہے کہ انفرادی آزادی،اجتمالی خوشحالی کا وسیلہ بھی بن جاتی ہے انفرادی آزادی میں تاجروں ادرمل مالکوں کے درمیان باہمی مقابلہ ہوتاہے اور اس مقابلہ میں ہر ایک کو زیادہ سے زیادہ اور جلد سے جلد سرمایہ مہیا کرنا پڑتاہے۔مزدوروں کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور انہیں بھی زیادہ سے زیادہ کام اور زیادہ سے زیادہ اجرت کے مطالبہ کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ایک طرف ملک کی پیداوار بڑھتی جاتی ہے اور دوسری طرف مزدوروں کے حالات بھی بہتر سے بہتر ہوتے جاتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں انفرادی آزادی، اجتماعی خوشحالی کا سبب بنتی جاتی ہے۔

سرمایہ دار مفکرین کا یہ مغالطہ کسی اور معاشرہ میں توصحیح بھی ہوسکتاتھالیکن آج کے ایٹمی اور بخاری دور میں انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتاہے۔ان لوگوں نے عوام کو یہ فریب دیا ہے کہ کارخانوں کی ترقی سے مزدوروں کی ضرورت بڑھ جائے گی اور اس نکتہ کو نظرانداز کردیاہے کہ آج کے دور میں کارخانوں کی بڑھتی ہوئی ترقی مزدوروں کے دم قدم سے نہیں ہے بلکہ اس میں مشینری کی طاقت کام کرتی ہے جس کی وجہ سے مزدوروں کی ضرورت گھٹتی جارہی ہے اور ایک وقت وہ بھی آسکتاہے جب کارخانے سے مزدور یکسر نکال دیئے جائیں اور انفرادی ترقی اجتماعی خوشحالی کے لئے سم قاتل بن جائے۔مشینی دور میں ایک مصیبت یہ بھی آتی ہے کہ مشین میں کام کرنے کے لئے جوانوں کی ضرورت نہیں رہ جاتی بلکہ یہ کام بچے،بوڑھے اور عورتیں تک کرنے لگتی ہیں اور اس طرح جوانوں کی بیکاری بڑھ جاتی ہے اور سرمایہ دار کو ان سے زیادہ سے زیادہ کام لینے کا موقع مل جاتاہے۔ان کی قسمت مکمل طور پر

۶۲

ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ جتنا چاہتاہے کام لیتاہے اور جس قدرچاہتاہے مزدوری دیتاہے۔

سرمایہ دارانہ نظام سے محاسبہ کرنے میں سب سے بڑی دشواری یہ ہوتی ہے کہ اس نظام کی پشت پر کوئی فلسفہ یابنیادی فکر نہیں ہے۔یہ ایک چلتی پھرتی گاڑی ہے جس کے لئے ہر اسٹیشن سے کوئلہ پانی لیاجاسکتاہے۔اس کا کوئی مستقل فلسفہ ہوتاتو اسے زیر بحث لاکر اس کی اچھائی یابرائی کا فیصلہ کیاجاتالیکن جب کوئی بنیادی اصول ہی نہیں ہے تومذکورہ جوابات ہی پراکتفا کرلینا زیادہ مناسب ہے۔واقعی طور پر بحث صرف مارکس ازم کے ساتھ ہوسکتی ہے۔جس نے اقتصادیات کے اصول بھی متعین کئے ہیں اور انہیں اجتماعیات سے الگ کرنے کی کوشش بھی کی ہے اور اس طرح دنیا کو ایک مکمل معاشی نظام سے آشنا کیاہے۔

٭٭٭

۶۳

۶۴

اسلامی معاشرہ(معیارِ قیمت )

ہماری گذشتہ بحثوں سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مارکس نے قیمت کے تعین میں صرف مزدور کی محنت کا حساب کیاہے اور اس کے علاوہ پیداوار کے جملہ عناصر کو نظرانداز کر دیاہے یا کھینچ تان کر کسی سابقہ محنت کا نتیجہ قرار دینے کی کوشش کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہواکہ کبھی ذخیرہ اندوزی کے حالات کو مستثنیٰ کرنا پڑاہے۔کبھی محنت کے معیار پر بحث کرنا پڑی ہے اور کبھی سپلائی اور مانگ کے توازن کو درست کرناپڑاہے۔اور ان سب کے علاوہ بھی نہ جانے کتنے ایسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑاہے جو ابتدائے امر سے غیر متوقع تھے۔

اسلام نے قیمت کا معیار متعین کرتے ہوئے زمینوں کی خدادادصلاحیت کو نظر انداز نہیں کیاہے۔اس نے مزدوروں کے جسم ودماغ کے باہمی تفاوت کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔اس کی نظر میں قیمت کے تعین میں یہ سارے عناصر کام کرتے ہیں۔مزدور کی محنت کا وقت بھی دیکھاجاتاہے۔کام کرنے والے کے حالات بھی پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔ زمینوں کی صلاحیت پر بھی نگاہ رکھی جاتی ہے اور ان سب کے مجموعہ کو انسانی نفسیات کے معیار پر بھی تولا جاتاہے۔نفسیات کا فیصلہ ہی حرف آخر ہوتاہے اور اسی پر قیمت واجرت کے

۶۵

تعین کا دارومدار ہوتاہے۔واضح لفظوں میں مارکس ازم میں قیمت کا معیار''محنت کی مقدار'' جس کاتعین عمل کے وقت ہی ہو جاتاہے۔اس لئے قیمت کا تعین بھی اسی وقت ہوسکتاہے لیکن اسلام کی نظرمیں قیمت کا معیار ''عمومی رغبت وتوجہ''اس لئے یہاں قیمت کا تعین اس وقت تک نہیں ہوسکتاجب تک چیز بازار میں نہ آجائے اور لوگ اس کے فائدہ ونقصان کو باقاعدہ سمجھ نہ لیں۔

اسلام نے متاع بازار کو''مال''سے تعبیر کیاہے اور مال کے معنی عربی زبان میں ''مایمیل اللّٰہ النفس''کے ہیں۔یعنی جس کی طرف نفس کا میلان اور اس کی رغبت توجہ ہو۔ظاہر ہے کہ جب مال کی تعبیر ہی توجہ ورغبت کی محتاج ہے تو جیسے جیسے رغبت میلان کے درجات میں فرق آتا جائے گا بازار کی قیمت بھی گھٹتی بڑھتی جائے گی اور وہ تمام اعتراضات بھی درمیان سے ہٹ جائیں گے۔جن سے مارکس کے نظریۂ قیمت کی بنیادیں متزلزل ہورہی تھیں۔

مارکس کے نظریہ پر پہلا اعتراض یہ تھاکہ اس نے فنون لطیفہ کو نظرانداز کردیاہے جن میں محنت زیادہ صرف نہیں ہوتی لیکن ان کی قدروقیمت بازار میں عام سماجی محنت کے نتائج سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

اسلام کے سامنے یہ زحمت نہیں ہے۔وہ یک چشم نہیں ہے کہ دنیا کی ہر بات کو ایک ہی آنکھ سے دیکھے اور اسے معاشیات کے علاوہ کچھ اور دکھائی ہی نہ دے۔ا س نے کھل کر یہ اعلان کر دیا ہے کہ فنون لطیفہ کا ذوق انسان کا فطری سرمایہ ہے جسے کسی وقت بھی اس سے سلب نہیں کیاجاسکتا۔''مہترانی ہوکہ رانی مسکرائے گی ضرور۔'' اسے نہ سرمایہ دار کی جاگیر ٹھہرایا جاسکتاہے اور نہ غربت زدہ عوام کی میراث۔اس میں پورا معاشرہ برابر کا شریک ہے۔ اس کی زیادہ قیمت لگانے میں بھی سرمایہ دار ذوق کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ عمومی رغبت کا ہاتھ ہے۔جیسے جیسے یہ رغبت بڑھتی جائے گی قیمت میں برابرا ضافہ ہوتاجائے گااور یہی وجہ

۶۶

ہے کہ ایک ہی قسم کی حسین تصویر کسی سیاسی لیڈر یا مذہبی رہنما کی ہوتی ہے تو اس کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور وہی تصویر کسی غیر متعلق شخصیت کی ہوتی ہے تو اس کی وہ قیمت نہیں لگائی جاتی۔ پہلی قسم کی جذبات واحساسات کا میلان زیادہ ہوتاہے اور دوسری قسم کی طرف کم۔

مارکس پر دوسرا اعتراض یہ تھاکہ اس نے آثار قدیمہ کی طرف توجہ نہیں دی۔جن پر آج کی بعض صنعتوں کی نسبت زیادہ محنت نہیں صرف کی گئی لیکن اس کے باوجود ان کی قیمت بہت زیادہ ہے۔

مارکس نے اس کا جواب بھی اقتصادی بنیادپر دیاتھا اور اس کا خیال تھا کہ یہ تمام باتیں سرمایہ دار طبقہ کی انفرادیت پسندی کا نتیجہ ہیں۔ان لوگوں کا خیال یہ ہوتاہے کہ ہمارے یہاں وہ تمام چیزیں محفوظ رہیں جو عام افراد کے یہاں نہ ہوں تاکہ سماج میں ہماری شخصیت مرکز توجہ بنی رہے۔آثار قدیمہ بھی انہیں چیزوں میں سے ہیں جن کے ذریعہ انفرادیت کا مظاہرہ ہوسکتاہے۔اس لئے سرمایہ دار افراد ان کی قیمت بڑھاکر انہیں اپنے خزانہ کی زینت بنالیتے ہیں اور اس طرح اپنے جذبہ نفس کی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔

لیکن مارکس کی اس تاویل کا بھرم بھی اسی وقت کھل جاتاہے جب انسانی نفسیات پر بھی ایک ہلکی سی نظرڈالی جاتی ہے۔دنیا کا وہ کون سا انسان ہے جو اپنے سے متعلق آثار قدیمہ کی قدروقیمت کا انکار کرسکے اور اس پر زیادہ سے زیادہ پیسہ لگانے کی کوشش نہ کرے۔ ایک تماشائی کو بابل ک کھنڈرات سے کوئی دلچسپی ہویانہ ہولیکن ایک''ماقبل تاریخ دور''کا محقق انہیں کھنڈرات پر اپنی ساری کائنات لٹاسکتاہے اور اپنی تحقیق کے اس سرمایہ کو برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ایک ملحدوبے دین انسان کو مذہبی آثار سے کوئی تعلق ہویانہ ہو لیکن مذہب سے ربط رکھنے والا مفلس ایک ایک اثر کے تحفظ پر اپنا گھر بار قربان کر سکتاہے۔

آثار قدیمہ کی مالیت اور ان کی قدروقیمت کو سرمایہ دارانہ جذبات کی تسکین کا ذریعہ کہنا ایک تجاہل عارفانہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔مارکس نے معاشیات کے سمندر میں

۶۷

غوطہ لگاتے وقت انسان کے اخلاقی،سماجی،تحقیقی، مذہبی اور اجتماعی قسم کے تمام جذبات کو بالکل فراموش کر دیا ہے اور اس بات پر مطلق توجہ نہیں دی کہ اگر میری نظر میں روٹی ،کپڑے کے سوال کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو دنیامیں ایسے انسان بھی ہوسکتے ہیں جو اپنے مذہبی جذبات پر روٹی،کپڑابلکہ اپنی ساری کائنات لٹاسکتے ہوں اور اس کانہ سرمایہ داری سے کوئی تعلق ہو اور نہ مزدوری سے۔مذہب میں محمود وایاز ایک ہی صف میںکھڑے ہوتے ہیں وہ بندہ اور بندہ نوار کے فرق کو مٹادیا کرتاہے۔

مطبوعات کے مقابلہ میں مخطوطات کی اہمیت کاراز بھی عمومی رغبت وتوجہ ہی میں مضمر ہے چاہے اس توجہ کا سرچشمہ مذہب ہویا اخلاق،فلسفہ ہویاتمدن، معاشیات سے اس کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔

رسدوطلب کا توازن بگڑجانے سے قیمت کے توازن پر اثرپڑجانے کا سبب بھی یہی نفسیاتی اصول ہے کہ انسان جس چیز کو بھی اپنی زندگی یا زندگی کے کسی جذبے کی تسکین کا ذریعہ سمجھتاہے۔اس کی فراوانی توجہ کو زیادہ مبذول نہیںکراسکتی۔پانی آزادی سے مل جاتا ہے ا س لئے مرکز توجہ نہیں بنتا۔سوناکم نظرآتاہے اس لئے اس کی طرف رغبت زیادہ ہوتی ہے لیکن ایک وقت وہ بھی آجاتاہے جب مخصوص حالات کے پیش نظر یہ انداز بدل جاتاہے اور قیمت کے معاملات بھی درہم برہم ہوجاتے ہیں۔صحرامیں پانی سونے سے زیادہ قیمتی ہوتاہے اور زکوٰة کے واجب ہوجانے کے بعد سونا پانی سے زیادہ ارزاں ہوجاتاہے کہ ایک مسلمان پانی دینے میں تکلف کر سکتاہے لیکن سونا دینے میں تامل نہیں کر سکتا۔اس کے علاوہ سیکڑوں مثالیں ہیں۔جہاں رسد اور طلب کا توازن قیمت پر اثر انداز ہوتاہے اور اس کی پشت پر کوئی معاشی نکتہ نہیں ہوتا۔

۶۸

تقسیم

مارکس کے مذکورہ بالا نظریہ پر ایک اعتراض یہ بھی تھاکہ اگر قیمت کو پیداوار کا باعث صرف محنت کو قرار دیاجائے گا توقاعدہ کی رو سے صر ف انہیں لوگوں کو کھانے کا حق ہوگاجو محنت کر سکتے ہوں ۔کسی وجہ سے محنت سے عاجزہوجانے والے انسانوں کا قانونی طور پر کوئی حصہ نہ ہونا چاہئے۔حالانکہ یہ قطعی غلط ہے۔زندگی کا حق سب کو ملنا چاہئے۔اسلام نے اپنے نظریۂ قیمت سے اس عقدہ کو بھی حل کر دیا۔اس کے نظام میں مزدور کی محنت کے ساتھ خام مواد اور زمین کی صلاحیت کو بھی قیمت کی پیداوار میں بہت بڑادخل ہے۔اس لئے ساری پیداوار کو صرف مزدور کے حوالے نہیں کیاجاسکتا۔بلکہ ایک حصہ زمین کی صلاحیت کے پیدا کرنے والے کا بھی ہوگا۔جو اس نے اپنے غریب وعاجز اور کمزوروناتواں بندوں کے لئے مخصوص کردیاہے اور اس طرح اجتماع میں ایک توازن پیداکرنے کا صالح اقدام کیاہے واضح لفظوں میں یوں کہاجاے کہ افراد مملکت کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری مارکس نے بھی لی ہے اور اسلام نے بھی۔مارکس ایک کی ضرورت کو دوسرے کی پیداوار سے پوراکرنا چاہتاہے۔اور اسلام سب کی ضرورت کو رب العالمین کے دئے ہوئے ایک عطیہ سے۔مارکسیت میں غصب وسلب کا تصور پیدا ہوگیاہے اس لئے کہ اس نے زمین کے خالق کا انکار کرکے اس کے مالکانہ حق کو فراموش کر دیاہے۔اس کی نظرمیں پروردگارکا کوئی حصہ نہیں ہے اور مزدور کا سب کچھ ہے۔اسلام نے اپنے عقیدہ ''رب العالمین''و ''لہ الملک'' سے واضح کر دیاہے۔کہ زمین اللہ کی پیداکی ہوئی ہے اس کے نتائج میں اس کا بھی حصہ ہونا چاہئے اور یہی وہ حصہ ہے جو اس نے اپنے ضعیف وناتواں بندوں کے حوالے کیاہے۔جس کی تعبیر حدیث قدسی میں ان الفاظ سے ہوئی ہے:''فقراء میرے عیال ہیں

۶۹

اور مالدار میرے وکیل۔''

لفظ وکیل کاا ستعمال بتارہاہے کہ مالدار بھی اپنے پورے مال کا مالک نہیں ہے اس کے مال میں بھی کچھ حصہ پروردگار کا ہوتاہے۔جسے اس نے اپنے غریب بندوں تک پہنچانے کے لئے اس کو اپنا وکیل بنایاہے۔بلکہ لفظ وکیل سے اس نکتہ کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے کہ اگر پروردگار عالم کو اپنے غریب بندوں کا رزق مالداروں کی پیداوار سے دلوانا ہوتاتو وہ انہیں وکیل بنانے کی ضرورت محسوس نہ کرتابلکہ کسی اور وسیلے سے غرباء تک پہنچادیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیاجس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے شروع ہی سے مالداروں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی ہے کہ آپ پوری پیداوار کے مالک نہیں ہیں۔آپ اپنی مزدوری بھر حصہ لے سکتے ہیں۔باقی زمین کا حصہ ہماراہے جو ہمارے بندوں کو ملنا چاہئے۔

اس مقام پر یہ خیال نہ کیاجائے کہ زیر زمین چھپے ہوئے جواہرات کی اس وقت تک کوئی قیمت نہیں ہوتی جب تک اس پر انسانی محنت صرف نہ ہوجائے اس لئے قیمت کا خالق تومزدور ہی ہے ۔کسی اور کے حصہ دار بننے کا کیاسوال پیداہوتاہے؟اس لئے کہ کسی شیء کا وسیلہ ہونا اور ہے اور خالق صلاحیت ہونا اور۔مزدور کی محنت زمین کے جواہر کے اظہار کا وسیلہ ضرور ہے۔لیکن زمین کی استعداد کی خلاق نہیں ہے زمین کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کا حق ان کے حقدار کو بہرحال ملنا چائیے۔

اسی طرز فکر سے سرمایہ داری کے فساد کا بھی قلع قمع ہوجاتاہے جسے مارکس کی ہزار فلسفیانہ موشگافیاں رفع نہ کرسکیں۔اس نے سرمایہ داری کو''انفرادی ملکیت''کا نتیجہ قراردے کر اس کو مٹانے کی فکر شروع کر دی اور بالآخر ہزار تجربات کے بعد بھی کسی نہ کسی مقدار میں اس کا اعتراف کر لینا پڑا۔اسلام نے اس مسئلہ کو روز اول ہی حل کر لیا تھا۔اس کا قانون تھا کہ ہر انسان اپنی ذاتی ملکیت کا مالک ہے اس پرکوئی جبرعائد نہیں کیا جاسکتاہے۔اسے صرف اتنا پیش نظررکھنا چاہئے کہ وہ صرف اپنی پیداوار یعنی اپنی محنت کے نتیجہ کی ملکیت میں

۷۰

آزاد ہے۔دوسرے کے مال کو غصب کرنے کا مجاز نہیں ہے۔اس کی محنت کا نتیجہ اس کا ہے لیکن زمین کی صلاحیت واستعداد کا نتیجہ اس کا نہیں ہے۔اس لئے اس میں تصرف کرنے کے لئے اسے مطلق العنان نہیں بنایاجاسکتا۔

مارکس ازم کوعقائد سے الگ کرکے دیکھنے والے اشتراکی مسلمان اس نکتہ پر غور کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ کوئی معاشی نظام اس کے مخصوص نظریات وعقائد سے الگ کیا جا سکتاہے یا نہیں؟

انفرادی ملکیت

اسلامی اقدار ومفاہیم سے ناآشنا اربابِ قلم اپنی تحریر کی رومیں یہ بھی لکھ جاتے ہیں کہ اسلام واشتراکیت کا فرق صرف یہ ہے کہ اشتراکیت''انفرادی ملکیت''کی علمبردار ہے اور اسلام اس کے مقابلہ میں''انفرادی ملکیت''کا پرستار۔حالانکہ یہ خیال ایک عمومی شہرت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔اسلامی تصریحات اس سے قطعاًبیگانہ وبے تعلق ہیںاور حقیقت یہ ہے کہ ملکیت کے سلسلہ میں اسلام کا موقف اشتراکیت اور سرمایہ داری دونوں سے الگ ہے۔اشتراکیت نے ملکیت کا قانون مارکس کے مخصوص اقتصادی نظریات کی روشنی میں مرتب کیاہے۔سرمایہ داری نے ملکیت کو فطری آزادی کا نتیجہ قرار دیاہے اور اسلام نے ملکیت کا قانون بناتے وقت دواہم بنیادی نکات کو مرکزنظربنایاہے۔

(1)عقیدۂ توحید

(2)اقسامِ اراضیات

۷۱

(1)عقیدۂ توحید:

عقیدۂ توحید کے تحت یہ فیصلہ کیاگیاہے کہ زمین اور اس کی تمام نعمتیں آسمان اور اس کی تمام برکتیں ایک ذات واجب کی نظرعنایت کا صدقہ ہیں۔اس نے اس کائنات کو پیداکرکے ایک اشرف المخلوقات نوع کی ترقی کا وسیلہ بنادیاہے اور اسے کائنات سے استفادہ کرنے کی پوری پوری اجازت دے دی ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھادیا ہے کہ زندگی کے کسی لمحہ میں اور معیشت کے کسی میدان میں اس ذات کو فراموش نہیں کیاجا سکتاجس نے ان تمام نعمتوں کی بارش کی ہے اور جس کی نگاہِ لطف کے اشارے سے یہ پوری کائنات قائم ودائم ہے۔

(2)اقسامِ اراضیات:

اقسامِ اراضیات کے سلسلہ میں''اسلامی قانون''ملکیت کا فیصلہ کرنے سے پہلے اس زمین کا جائزہ لیتاہے جس کی ملکیت کا قانون وضع کیاجارہاہے اس کے یہاں انفرادی ملکیت ے ساتھ عموعی ملکیت اور حکومتی ملکیت جیسے مختلف تصورات بھی موجود ہیں اور ہر ایک کے لئے الگ الگ موردتلاش کیاگیاہے۔اس نے مطلق طورپر ہر چیز کو نہ اجتماعی ملکیت قرار دیاہے نہ انفرادی ۔زمینوں کی اس تقسیم کا فلسفہ یہ ہے کہ بعض زمینیں عام انسانی دسترس سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں جیسے بلندیٔ کوہ دامنِ کوہ،قعردریاوغیرہ۔

ایسی زمینوں کو خالص اسٹیٹ قرار دیا گیاہے۔بعض زمینیں کسی جہاد کے نتیجہ میں فوج مخالف کے قبضہ سے نکالی جاتی ہیں۔ان میں سے بھی بعض آباد ہوتی ہیں اور بعض بنجر۔ آباد زمینوں کی ملکیت کا قانون الگ ہے۔اور بنجر زمینوں کی ملکیت کا قانون الگ۔ بنجر زمینیں مکمل طورپر محنت کی محتاج ہوتی ہیں اس لئے انہیں ان زمینوں کا ہمسر نہیں قرار

۷۲

دیاجاسکتاجن پر انسانی محنت صرف ہو چکی ہے اور جنہیں دشمن فوج کی آبادی نے کسی حدتک معمور بنالیاہے۔انفرادی ملکیت کے لئے صرف ان زمینوں کو مخصوص کیاگیاہے۔جو دوست ودشمن اور جنگ وجہاد کے تصورات سے الگ ہوکر انسان کے قبضہ میں آتی ہیں۔

باقی زمینوں کے لئے حالات اور مواقع دیکھ کر قوانین وضع کئے گئے ہیں۔ مارکسیت اور سرمایہ داری نے زمینوں کی اس تقسیم کو بالکل نظرانداز کر دیاہے۔حالانکہ کم ازکم مارکس کو اس تقسیم کو پیش نظررکھنا چاہئے تھا اور ملکیت کا فیصلہ کرتے وقت یہ نکتہ نظرانداز نہیں کرنا چاہئے تھاکہ انفرادی زحمت سے انفرادی ملکیت پیداہوتی ہے اور اجتماعی محنت سے اجتماعی ملکیت۔محنت کی اہمیت کے اعتبار سے اسلام اور اشتراکیت دونوں متحد تھے لیکن آگے چل کر دونوں کا راستہ الگ ہوگیا۔اشتراکیت نے زمینوں کی آباد کاری کے سلسلہ میں اجتماعی اور انفرادی محنت کو یکساں کردیا۔اور اسلام نے دونوں کے تفاوت کو باقاعدہ پیش نظر رکھا۔ اور اسی لئے اس نے کھلے لفظوں میں اعلان کر دیا:

(اَلنَّاسُ مُسَلِّطُوْنَ عَلیٰ اَمْوَالِهِمْ)

لوگ اپنے اپنے مال پر پورا پورا اختیار رکھتے ہیں۔

قرآن مجید کی متعدد آیتوں نے بھی نتیجۂ عمل کو افراد کی طرف منسوب کرکے یہ واضح کردیاہے کہ ہر شخص انفرادی طور پر اپنے نتیجۂ عمل کا مالک ہوتاہے ۔کسی دوسرے شخص کو اس کے عمل اور اس کی محنت میں حصہ دار بننے کا حق نہیں ہے۔

سرمایہ داری کا فساد

مارکسیت اور اسلام کا ایک امتیازی نقطہ یہ بھی ہے کہ دونوں نے سرمایہ داری کے مفاسد کے اسباب کی تعین میں الگ الگ راہیں اختیار کی ہیں اور اس مہلک مرض کا علاج

۷۳

بھی علیحدہ تجویز کیاہے۔مارکسیت کی نظرمیں سرمایہ داری انفرادی ملکیت سے پیداہوتی ہے۔ اس لئے اس کے ختم کرنے کا واحد ذریعہ ''انفرادی ملکیت'' کے تصور کو باطل یا محدود بناکر اس کے بڑے حصے کو اجتماعی ملکیت میں تبدیل کر دینا ہے اور اسلام کی نظر اس سے بالکل مختلف ہے۔وہ ان تمام خرابیوں کی ذمہ داری انفرادی ملکیت کے سرنہیں ڈالتاہے بلکہ اس کی نظرمیں سرمایہ داری کی پیداوار اس کی مفاسد ''انفرادی ملکیت''کے قانون سے ہٹ جانے کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔انفرادی ملکیت اپنی راہوں پر چلتی رہے تو یہ مفاسد کسی وقت بھی پیدا نہیں ہوسکتے۔

اس مقام پر سب سے زیادہ حیرت انگیز موقف مارکس کا ہے جس نے''محنت'' کو قیمت اور ملکیت کی بنیاد تسلیم کرنے کے بعد بھی سرمایہ داری کے خاتمہ کی کوئی بہتر صورت نہیں نکالی اور محنت کرنے والے کی اس کے نتیجۂ عمل سے محرومی ہی کو وجہ عافیت تصور کیاہے۔ حالانکہ سرمایہ داری کے مقابلہ میں مارکس کا صحیح موقف یہ تھا کہ ہر انسان اپنے نتیجۂ عمل کا مالک ہو۔اسے تجارت،کاروبار اور اس قسم کے جملہ اقدامات کا اختیار دیاجائے تاکہ اس کا سرمایہ دو چند یادہ چند ہوسکے اور ان تمام اضافوں سے روک دیاجائے جس میں اس کی کوئی محنت شریک نہ ہو۔مارکس کے اس بنیادی قانون سے غفلت کا نتیجہ یہ تھاکہ اسے اپنے سیدھے سادھے قانون میں ذہنی اجبار یا خارجی دباؤ کو شامل کرنا پڑا۔اور قانون اپنے راستے سے ہٹ گیا اسلام عمل کی اہمیت کا آخر تک قائل رہا۔اس لئے اسے کسی جبر واکراہ کا سہارا نہیں لینا پڑا۔

۷۴

ذخیرہ اندوزی

اسلام نے ثروتمند افراد کو ہر کاروبار کی کھلی اجازت دینے کے باوجود ''ذخیرہ اندوزی''کو ایک جرم عظیم قرار دیاہے اس کا راز صرف یہ نہیں ہے کہ اس طرح سماج کا غلہ چند گھروں میں محفوظ ہوجائے گا اور عوام بھوک سے تباہ ہونے لگیں گے یہ تو ایک اخلاقی نکتہ ہے جسے اقتصادیات سے تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا راز یہ ہے کہ ذخیراندوزی کرنے والا فصل پر غلہ خرید کرایک مقام پر محفوظ کرلیتاہے اور جب چھوٹے چھوٹے تا جروں اور کسانوں کا غلہ ختم ہوجاتاہے تو اسے منظر عام پر لاکر دگنی اور چوگنی رقم وصول کرتاہے۔ظاہر ہے کہ جس نظام نے سرمایہ کی اصل محنت کو قرار دیاہے وہ اس طرز عمل سے اتفاق نہیں کرسکتا کہ مال کی قیمت کسی محنت کے بغیر بڑھے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا اپنے مال کو بغیر کسی محنت ہی کے بڑھانا چاہتاہے۔اس مقام پر یہ نہیں کہاجاسکتاکہ مال کی حفاظت بھی ایک انسانی محنت ہے لہٰذا اس کا بھی حساب ہونا چاہئے۔اس لئے کہ علم اقتصادیات میں محنت سے مراد زحمت نہیں ہے ورنہ کھانا پینا بھی ایک محنت ہے اور بینک میں روپیہ رکھنا اور اس کا نکالنا بھی ایک محنت ہے بلکہ محنت سے مراد وہ جدوجہد ہے جو سرمایہ کی ترقی کے سلسلہ میں صرف کی جائے۔ حفاظت پر صرف ہونے والی محنت کو اقتصادی محنت نہیں کہاجاسکتا۔اس سے پیداوار میںکسی اضافہ کا امکان نہیں ہے۔تجارت کی محنت سرمایہ کی ترقی کا باعث ہوتی ہے اس لئے وہاں قیمت میں اضافہ کیاجاسکتاہے۔اس کے علاوہ خود سرمایہ دار ممالک بھی یہی کہتے ہیں کہ انسان اپنے معاملات میں اسی حد تک آزاد کیاجاسکتاہے جب تک اس کی آزادی سے معاشرہ کے دوسرے افراد متاثر نہ ہوں۔اور ظاہر ہے کہ یہاں آزادی کو دوسرے افراد کے متاثر بنانے ہی کی راہ میں صرف کیاجارہاہے۔اس لئے ایسی آزادی پرپابندی عائد

۷۵

کرنا قانون اور حکومت کا اولین فرض ہے۔

سود

سرمایہ کے اضافہ کی دوسری ناجائز صور ت ہے سود۔سود کے ناجائز ہونے میں بھی وہی دونوں اقتصادی اور اخلاقی عناصر کارفرماہیں۔اقتصادی اعتبار سے دولت کا اضافہ محنت کے زور پرہونا چاہئے اور اخلاقی اعتبار سے محنت کو اجتماع کی صلاح پر صرف ہونا چاہئے۔معاشرہ کی بربادی کو اس کا ہدف ومقصد نہیں بننا چاہئے اور سود میں یہ تمام باتیں قہری طور پر پائی جاتی ہیں۔

سود خواری کا ایک اہم عیب یہ بھی ہے کہ سود خوارتاجرزیادہ ہوتاہے اور آدمی کم۔ اس میں انسانی اخلاق وکردار کا فقدان ہوجاتاہے اور اس کے سامنے پیسے کے علاوہ کوئی دوسرا مطمح نظر نہیں رہ جاتا۔اسلام اس نظریہ سے دو جہتوں سے اختلاف رکھتاہے۔وہ ایک طرف انسان کو انسان دیکھنا چاہتاہے اور اس کا مقصد ہے کہ ہر دل میں قوم کا دردر ہے اور ہر انسان دوسرے کے رنج وغم اور دکھ درد کا پاس ولحاظ رکھے۔جبکہ سودخوار اپنی مقررہ مدت کے پورے ہوجانے کے بعد رحم وکرم کے تمام مفاہیم کو فراموش کر دیتاہے۔وہ ہر امکانی طریقہ سے اپنا سود چاہتاہے اب گھر بکتاہے تو بک جائے،بچے فاقہ سے مررہے ہیں تو مرجائیں لیکن سودمل جائے اور اگر کسی سور خوار میں اتنی شقاوت نہیں بھی ہے تو وہ یہ بہرحال نہیں کرسکتا کہ انسان کی مجبوری کے پیش نظر اس مہینہ یا اس سال کا سودمعاف کردے۔وہ اپنے حساب کو بڑھاتاہی رہے گاچاہے رقم کسی منزل پر کیوں نہ پہنچ جائے۔

۷۶

دوسری طرف اسلام نے اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیاکہ انسان اپنے سماجی حالات کا اسیر ہوتاہے۔معاشرہ میں کوئی شہزور ہوتاہے اور کوئی کمزور،کوئی غنی ہوتاہے اور کوئی فقیر، کوئی ذہنی نشاط رکھتاہے اور کوئی غبی وکندذہن ہوتاہے۔اس لئے ہر ایک کے ساتھ اسی کے حالات کے مطابق برتاؤ ہوناچاہئے۔کسی پر کوئی دباؤ ڈالنا انسانی شرافت وغیرت کے خلاف ہے۔سرمایہ دار کو اللہ نے پیسہ دیاہے تو کھائے عیش کرے،لطف اٹھائے،جو چاہے کرے لیکن یہ اجازت نہیں ہے کہ دوسرے کی عزت کا مذاق اڑائے، اس کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھائے، اسے اپنی دولت کے شکنجہ میں جکڑلے اور اس پر ایسے حالا ت کا بوجھ ڈال دے کہ وہ سراٹھانے کے لائق نہ رہ جائے۔

اسلام اور سودخواری کے نظام میں اتنا فاصلہ ہے کہ اسلام اصل قرض کے بارے میں بھی یہ تعلیم دیتاہے کہ اگر قرض دار کے پاس پیسہ نہیں ہے تو اس سے مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

(وَإنْ کَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَة ِلَی مَیْسَرَةٍ)

اگر کوئی شخص تنگ دست ہے تو اس کی کشائش حال کا انتظار کرنا چاہئے۔ (بقرہ/280)

اور نظام سودخواری کا یہ تقاضہ ہے کہ اصل مال کجاسود بھی معاف نہ ہوناچاہئے۔ ظاہر ہے کہ یہ طرز عمل ان اعلیٰ اقدار ومفاہیم سے کسی طرح ہم آہنگ نہیں ہوسکتاجن پر اسلام نے اپنے احکام وتعلیمات کی بنیاد رکھی ہے۔

۷۷

بینک

سود کے سلسلہ کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر سود کا کاروبار ختم کر دیاجائے گا تو بینک کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور ملک کی آبادی،عوام کی خوشحالی کا کوئی امکان نہ رہ جائے گا۔پھر سود میں جو بھی اقتصادی یا اخلاقی خرابی فرض کی گئی ہے وہ سود لینے سے متعلق ہے کہ سرمایہ دار کا سود لینا مناسب نہیں ہے لیکن اس سے یہ کہیں ظاہر نہیں ہوتاکہ سرمایہ دار کے لئے سود دینا بھی جائز نہیں ہے یا اس میں بھی کوئی اقتصادی یا اخلاقی کمزوری ہے۔اور بینک کا سارا نظام سرمایہ دارکے سوددینے پر ہی چلتاہے سودلینے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

بینک کے نظام کی صحت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بینک کا مالک عوام سے روپیہ جمع کرکے اس سے بڑی بڑی تجارتیں کرتاہے اور یہ تجارتیں اکثر حالات میں منفعت بخش اور مفید ثابت ہوتی ہیں اس لئے مالک اس بات کو گوارانہیں کرتاکہ عوام کے پیسے سے ملنے والے فائدہ کو تن تنہا ہڑپ کرجائے بلکہ ان تمام حصہ داروں کو شریک کرنا چاہتاہے جن کے پیسے سے یہ فائدہ حاصل ہواہے۔

ایسے اخلاقی اور سود مند اقدام کی ممانعت کسی طرح مناسب نہیں ہوسکتی ۔اس نظام کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح غریب عوام کو اپنا سرمایہ بڑھانے کا موقع مل جاتا ہے۔وہ بھی اپنی قلیل رقم سے اس بڑی تجارت میں حصہ لے سکتے ہیںجوبینک کے بغیر ممکن نہ تھی۔ان کی تھوڑی رقم بھی تھورے عرصہ میں دگنی ہو سکتی ہے۔جو بینک کا سہارا لئے بغیر کبھی نہیں ہوسکتی تھی۔بینک کا کاروبار جہاں سرمایہ دار کی دولت میں اضافہ کا سبب ہوتاہے وہاں غریب عوام کے لئے بھی فائدہ بخش ہوتاہے۔یہاں محنت اور قیمت کے توازن کا سوال بھی نہیں اٹھ سکتااس لئے کہ ایک جماعت کا پیسہ ہوتاہے اور ایک جماعت کی محنت۔اب اگر

۷۸

عوام کو اپنے مال کا فائدہ لینے کا حق ہے تو سرمایہ دار کو اپنی محنت کا پھل بھی ملنا چاہئے۔

اس پوری توجیہہ وتشریح کے باوجود بینک کے سلسلہ میں دوباتیں تشریح طلب ہیں۔

(1) بینک کا مالک اگراپنی شخصیت کو صرف ایک محنت کش مزدور اور ایک ایجنٹ کی شکل میں پیش کرتاہے تو اسے یہ حق کسی طرح نہیں دیاجاسکتاکہ وہ مالک کے تمام حقوق وفرائض کو اپنے ذمہ لے لے۔ایجنٹ کاکام تجارت کرکے اپنی محنت کی اجرت لینا ہوتاہے۔اس کا یہ حق نہیں ہوتاکہ وہ تجارت سے حاصل ہونے والے فائدہ میںمالک کا حق معین کرے۔اور بینک کے کاروبار میں بعینہ یہی شکل ہوتی ہے۔یہاں مالک بینک ہی یہ طے کرتاہے کہ روپیہ جمع کرنے والوں کو کتنی مقدار میں سودیعنی فائدہ دیاجائے گا۔

سوال یہ ہے کہ کسی کے مال میں فائدہ کے معین کرنے کا حق اس کے مزدور کو کیسے مل سکتاہے؟اور پھر وہ بھی قبل ازوقت آج آپ نے اپنا سرمایہ بینک کے حوالے کیااور مالک نے آج ہی یہ فیصلہ کردیاکہ آپ کو اتنے فیصد فائدہ دیاجائے گا۔

مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ فائدہ میرے ہی مال کا ہے تو ابھی میرا مال بینک سے باہر بھی نہیں نکلا۔اس کے سال بھرکے بعدکا فیصلہ اسی وقت سے کیونکر ہوگیا اور اگر یہ فیصلہ سرمایہ دار نے اپنے ذاتی پیسے یادوسروں کے پیسے کی بنیادپر کر دیا ہے تو وہ ہمارے پیسے سے تجارت کرنے کا ایجنٹ نہیںہے۔بلکہ اپنے پیسے سے ہمارے پیسے کو خریدرہاہے یا ہمارے پیسے کو ایک سال کے لئے8۔10فیصدی کرایہ پر لے رہاہے جو درحقیقت اس تقریر سے بالکل مختلف ہے جو بینک کے جوازمیں کی گئی ہے۔پھر یہ بھی بحث طلب مسئلہ ہے کہ پیسے کو زیادہ پیسے پر بیچنا یاپیسے کو کرایہ پر اٹھانا صحیح بھی ہے یا نہیں۔جس پر حسب موقع آئندہ روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔

۷۹

(2) بینک کا مالک اگر عوام کے پیسے سے تجارت کرنے میں ان کا ایجنٹ ہے اور واقعاً عوام ہی اس کے مالک ہیں تو فائدہ ونقصان کی ذمہ داری بھی عوام ہی کے سرہونی چاہئے۔یہ غیر ممکن ہے کہ سوروپیہ جمع کرنے والا سال بھر کے بعد ایک سو پانچ لے کر الگ ہوجائے چاہے تجارت میں فائدہ ہو یا نقصان،اس لئے کہ اس سلسلہ میں اگر کوئی فائدہ ہواہے تو وہ بھی اسی کے مال سے اور اگر کوئی نقصان ہواہے تو وہ بھی اسی کے سرمایہ میں ہے۔ایسی حالت میں ایجنٹ کے نقصان برداشت کرنے کاکیا جواز ہے۔بینک کے نظام کی ان ہی خرابیوں کے پیش نظر اسلام نے ایک نیااصول یہ پیش کیاہے کہ بینک کا ذمہ دار پیسے جمع کرکے تجارت کرے اور فائدہ ونقصان کا کوئی فیصلہ نہ ہو۔تجارت کا سال ختم ہونے کے بعد فائدہ کا حساب کیاجائے۔اور جتنی مقدار میں اضافہ ہواہواسے حسب حصہ تقسیم کرلیاجائے۔تجارت میں نقصان کی کوئی ذمہ داری ایجنٹ پر نہ ہو۔اس لئے کہ وہ صرف دیانت داری سے کام کرنے کا ذمہ دار ہوتاہے۔اسے نہ مال ومتاع سے کوئی تعلق ہوتاہے اور نہ اس کے فائدہ ونقصان سے اور ظاہر ہے کہ یہ توجیہ وتعلیل آج کے نظام بینک سے بالکل مختلف ہے۔

بینک کے سلسلہ میں یہ نکتہ بھی قابل لحاظ ہے کہ یہ ساری گفتگوان لوگوں کے پیسے کے بارے میں ہے جوبینک کے قائم ہوجانے کے بعد اس میں تحفظ اور اضافہ کی غرض سے رقم جمع کرتے ہیں۔رہ گئے وہ لوگ جن کی رقم سے بینک قائم ہوتاہے۔مثلاً اصلی سرمایہ دار یا وہ لوگ جو بینک کے SHAREHOLDER یا حصہ دار ہوتے ہیں۔جن کا کام سود تقسیم کرنا اپنے پیسے کے ساکھ پر معاملات کرنا،چیزوںکو رہن رکھنا،عالمی بینک میں پیسہ جمع کرنا اور تجارت وغیرہ ہوتاہے۔ان کے بارے میں لمحۂ فکر یہ یہ نہیں ہے کہ ان کے درمیان منافع کی تقسیم کس معیار اور کس انداز پر ہوگی۔ان کے کاروبار پر اس لحاظ سے نظرہوگی کہ انہوں نے دوسروں کی رقم کے ساتھ وہ قانونی سلوک کیوں نہیں کیاجو علم اقتصادیات کی رو سے

۸۰