اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 93955
ڈاؤنلوڈ: 2587

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 93955 / ڈاؤنلوڈ: 2587
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ہوناچاہئے تھایاکہ ان کا سرمایہ کس انداز سے جمع ہواہے اور اس کے جواز وغیرجوازکے ذرائع کیاتھے؟اس پورے سرمایہ میں ان غربت زدہ عوام کا کیا حصہ ہے جو اس دولت کے جمع ہوجانے سے بھوکے مررہے ہیں۔جن کی زندگی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور جن کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ انہیں بینک میں جمع کرکے ان کے رحم وکرم کے مستحق بن سکیں۔

حیات وکائنات

حیات وکائنات پر الگ الگ بحثیں توبہت ہوئی ہیں ان موضوعات پر پوری پوری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ان مسائل کے لئے فلسفہ، نفسیات،فزیالوجی جیسے علوم مرتب کئے گئے ہیںلیکن ان دونوں کے باہمی رشتے کو اس انداز سے کم قابل توجہ سمجھاگیاہے جس سے اقتصادی مسائل حل ہوسکتے۔حیات وکائنات کے فلسفی تعلقات سے قطع نظران کے اقتصادی ربط کو اس انداز سے سمجھاجاسکتاہے کہ فطرت یا قدرت نے یہ کائنات اسی انسان کی خاطر پیداکی ہے جو کچھ اس کائنات میں ہے سب اسی خاص مخلوق کے لئے ہے۔ہر فرد بشر کو اس کائنات سے استفادہ کرنے کا پوراپورا حق ہے چاہے وہ عالم ہویاجاہل،ضعیف ہو یا طاقتور، ذہین ہو یا غبی، گوراہویاکالا،لمباہویاپستہ قد،کچھ بھی اور کیسا بھی ہواگر اس کائنات سے تعلق رکھتاہے تو اس کا ایک حصہ ہونا چاہئے۔فطرت کا یہ کتنا بڑاظلم ہوگاکہ باشندے زیادہ پیداکردے اور زمین کم،پیاسے زیادہ ہوں اور پانی کم،بھوکے زیادہ ہوں اور غذاکم ایسا نہیں ہوسکتا۔

فطرت نے کائنات میں وہ سب کچھ بھردیاہے جو بنی نوع انسان کے لئے

۸۱

ضروری اور لازمی تھا۔اس نے اپنے فیوض میں کوئی کوتاہی اور اپنی عطامیں کوئی بخل نہیں کیا۔ اب ان فیوض وبرکات سے فائدہ اٹھانا انسان کا اپنا کام ہے وہ چاہے تو ساری کائنات کی تسخیر کرے اور چاہے تو ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہے اور ایک وقت کی روٹی کا بھی انتظام نہ کر سکے۔

حیات وکائنات کا یہ رشتہ اس بات کا کھلاہوااعلان ہے کہ دنیامیں فقروفاقہ غربت وافلاس کا سبب فطرت کی کوتاہی یا اس کا قصور نہیں ہے۔اس میں تمام ترانسان کی غفلت، اس کی کاہلی اور اس کے ظلم وتعدی کا دخل ہے۔اس نے اس نکتۂ تخلیق کو فراموش نہ کیاہوتا اور اپنے علاوہ دوسروں کو بھی جینے کا حقدار سمجھاہوتاتو آج دنیا کی وہ حالت نہ ہوتی جس سے یہ دنیا گذررہی ہے۔آج تویہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ فقر وفاقہ اور غربت وافلاس میں جہاں سرمایہ داروں کے مظالم کا حصہ ہے وہاں انسانوں کے ہوس اقتدار کا بھی کچھ کم دخل نہیں ہے۔قدرت نے انسانوں کو پوری زمین پر بکھرایاتھا تو ان کے لئے نعمتیں بھی سارے کرۂ ارض پر بکھیردی تھیں۔خدا براکرے اس ہوس اقتدار کا کہ اس نے کائنات کو سینکڑوں حصوں میں تقسیم کر دیا۔سات سات اقلیم ہراقلیم میں متعدد ملک،ہر ملک میں متعدد صوبے،ہر صوبے میں متعدد شہر، ہر شہر میں متعدد قصبے، ہر قصبے میں متعدد گاؤں اور ہر گاؤں میں الگ الگ نظام۔کوئی نہ اپنے یہاں کا مال منتقل کرنا چاہتاہے۔اور نہ آگے کچھ سوچنے کی ضرورت محسوس کرتاہے۔گھر گھر کے چھوٹے چھوٹے اقتدار نے اپنی گرفت کو مضبوط رکھنے کیلئے دوسروں سے اس کے رشتے کو جوڑنے کی بجائے توڑنے ہی پرزوردیا ہے۔

ایسے حالات میں اگر کائنات کی نعمتیں کسی ایک مرکز پر جمع ہوجائیں اور دوسرے افراد کو بھوکا اور ننگارہنا پڑے تو تعجب کیاہے؟یہ ضرور ہوگاکہ اپنے دامن کے دھبہ کو چھپانے کے لئے انسان کبھی فطرت کی دین پر اعتراض کرے گا اور کبھی دوسرے ملکوں کے مظالم پر۔وہ کسی وقت یہ نہیں سوچنا چاہتاکہ اگر ایک اعتبار سے دوسرے نے ہمارے اوپر ظلم کیا ہے

۸۲

تو دوسرے اعتبار سے ہم نے بھی اس کے اوپر کچھ کم ظلم نہیں کیاہے۔

کہایہ جاتاہے کہ آج اور کل کے اقتصادی مسائل میں بڑافرق ہے۔کل زمین کا رقبہ اتنا ہی تھا لیکن آبادی کم تھی اور ضروریات زندگی محدود تھے۔اور آج آبادی ہزاروں گنازیادہ ہوچکی ہے۔اب اگراسی اعتبار سے زمین کا رقبہ اور اس کی قوت بھی بڑھ جاتی تو کوئی اقتصادی مسئلہ نہ پیداہوتا۔لیکن مشکل تویہ ہے کہ ہر شیء میں اضافہ ہوتارہااور اضافہ نہیں ہواتو صرف زمین کے رقبہ اور اس کی قوت میں۔اس لئے دور حاضر کی کشمکش کو انسانی ہویٰ وہوس کا نتیجہ نہیں قرار دیاجاسکتااس میں فطرت کی کوتاہی کا بھی بہت بڑادخل ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ زمین کے رقبہ میں پیمائش کے اعتبار سے کوئی اضافہ نہ ہونے کے باوجود اس زمین نے ایسے جواہرات اور خزانے اگل دیئے ہیں جن کا اگلی قوموں کو کوئی تصور بھی نہ تھا۔پٹرول کی برآمد کا کام حال ہی میں شروع ہواہے اور اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک کا دارومدار اسی پٹرول پر ہے۔نئی نئی گیسیں حال ہی میں ایجاد ہوئی ہیں۔زمین میں چھپی ہوئی طاقتوں سے استفادہ کرنے کے نئے نئے وسائل کا انکشاف بھی کچھ زیادہ عرصہ قبل نہیں ہوا۔اور ان سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دولت کا خزانہ اور ثروت کا مرکز یعنی امریکہ جیسے عظیم ملک کا انکشاف بھی کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ امریکہ کے سینے میں جتنی دولت کے خزانے جمع ہیں وہاں کی آبادی کی ضروریات سے یقینا زیادہ اور بہت زیادہ ہیں۔تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کے ہوس اقتدار نے ممالک کو تقسیم نہ کیاہوتااور ذرائع پیداوار سے ہرایک کو فائدہ اٹھانے کا موقع دیاجاتاتو آج کسی بھی ملک یا قوم کی وہ حالت نہ ہوتی جس کی وجہ سے علماء اقتصادیات حیران وسرگردان نظر آرہے ہیں۔

اے روشنی طبع توبرمن بلاشدی

ہوس پرستی کے انہیں مفاسد کے پیش نظر اسلام نے انسان کو اقتدار اعلیٰ سے بالکل الگ کرکے کل کائنات کا حاکم ومالک صرف ذات احدیت کو تسلیم کیاہے اور اس کے بعد

۸۳

حکومت کرنے کا حق صرف ان لوگوں کے لئے رکھاہے جو نفسانیت سے مافوق اور ہوس اقتدار سے بلند وبالا ہوں۔جن کا کام صحیح حکمرانی ہوا ور حکومت کے پردے میں خدمتکے نام پر ہوس رانی نہ ہو۔

دوسری طرف اس نے سیاسی تقسیم کو بھی کالعدم بنادیاہے اور اپنے کسی قانون میں بھی قوم عرب یاملک حجاز کے باشندوں کو خطاب نہیں کیابلکہ ہمیشہ قوانین کے اعلان میں''یَاَیُّ ه َا النَّاسُ'' اے گروہِ انسان کا لفظ استعمال کیاہے۔ہم نے اپنے اصولوں کو ان تمام لوگوں کے لئے وضع کیاہے جن پر یہ مقدس ومحترم لفظ صادق آتی ہو۔ہمارے معاشی نظام سے صحیح فائدہ اسی وقت اٹھایا جاسکتاہے جب اسے ملک وملت کے حدود سے بلند تر ہوکر دیکھاجائے اور اس کے دفعات کو تمام انسانوں پر منطبق کیاجائے۔عرب وعجم کے تصورات مہمل ہوں اور قوم وقبیلہ کے امتیازات لغو۔اسلام میں یہ سب باتیں اس وقت کی ہیں جب عالم انسانیت کے وسیع تر تصور سے دنیا قطعاً ناآشنا تھی اور قبائل وبلاد سے بالاتر ہوکر سوچنے کی صلاحیت بھی پیدانہ ہوسکی تھی۔

سرمایہ داری اور اقتدار پرستی کے اسی ظلم کی طرف امیرالمومنین حضرت علی ـنے ان لفظوں میں اشارہ کیاتھا:

ماجاع فقیراه ما متع به غنی

مارایت نعمة موفورة الا والیٰ جانبهاحق مضیع

کوئی فقیر اس وقت تک بھوکا نہیں ہوتا جب تک کوئی غنی اس کے حصۂ دولت سے بہرہ ورنہ ہوجائے۔میں نے کہیں بھی نعمت کی فراوانی نہیں دیکھی مگر اس کے پہلو میں ایک حق کو برباد ہوتے بھی دیکھاہے۔

پہلافقرہ سرمایہ داری کے ظلم کا اعلان ہے اور دوسرا فقرہ ہوس اقتدار کی تعدی کا اظہار ۔برباد ہونے والے حق کی تعبیر بھی اپنی بلاغت میں بڑی وسعت رکھتی ہے۔اس میں

۸۴

ثروت مندوں کے ظلم کے ساتھ اقتدار والوں کے واقعی احکام پر ظلم کے اشارے بھی پائے جاتے ہیں۔

انشورنس

سرمایہ میں اضافہ کی ایک نئی ترکیب انشورنس بھی ہے۔انشورنس کے مختلف طریقہ ہوتے ہیں۔بعض کی شرح منفعت کا حساب ہوتاہے اور بعض کا غیر معلوم ظاہر ہے کہ اس علم ولاعلمی کے اعتبار سے دونوں کی نوعیت بھی مختلف ہوگی۔جہاں شرح منفعت معلوم ہوگی وہاں جواز کی دلیل کچھ اور ہوگی اورجہاں شرح مجہول ہوگی وہاں بحث کا انداز کچھ اور ہوگا۔

انشورنس کی ایک صور ت یہ ہوتی ہے کہ آپ کچھ رقم کمپنی سے طے کر لیں اور کمپنی آپ سے اس رقم کو قسط وار وصول کرتی رہے۔اس کے بعد اگر آپ کی زندگی نے رقم پوری ہوجانے کے بعدبھی وفاکی تو آپ کو رقم مع سود کے دے دی جائے گی لیکن آپ کو آئندہ بھی قسط وار رقم دیتے رہنا پڑے گی۔جسے آج کی اصطلاح میں زندگی کا بیمہ کہتے ہیں۔اس کی خطرناک شکل یہ ہوتی ہے کہ اگر خدا نخواستہ آپ کی زندگی نے طبیعی قانون یاکسی حادثہ کی بناپر آپ کاساتھ چھوڑبھی دیاتو آپ کے ورثہ کو یہ ساری رقم مع اضافہ کے دے دی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ قانونی طور پر اس معاملہ کے صحت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔قانونی معاملہ وہی ہوتاہے جس میں معاملہ کے دونوں طرف معلوم ہوتے ہیں۔اور یہاں ایسا نہیں ہے۔آپ کسی چیز کو خریدتے ہیں تو اس چیز کی مقدار بھی معلوم کرتے ہیں اور اس کے عوض میں دی جانے والی رقم کی مقدار بھی معلوم کرتے ہیں۔ایسا نہیں ہوتاکہ نہ اس چیز کی مقدار معلوم ہو

۸۵

اورنہ اس کی قیمت کی مقدار معلوم ہواور معاملہ تمام ہوجائے۔یہی حال کرایہ کا بھی ہے کہ جب کسی چیز کو کرایہ پر دیتے ہیں یا کوئی رقم بطور قرض دیتے ہیں تومال وقیمت دونوں کو معلوم کرلیتے ہیں۔

بیمہ میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔یہاں یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ ملنے والے دس ہزار کے مقابلہ میں ہمیں ایک آنہ دینا پڑے گا یابیس ہزار،ممکن ہے زندگی باقی رہ جائے اور بیس ہزار دیناپڑ جائے۔اور ممکن ہے کل ہی ساتھ چھوڑ دے اور ایک دو قسط بھی نہ دینا پڑے۔ظاہر ہے کہ ایسے نامعلوم معاملہ کو کسی طرح جائز نہیں کہاجاسکتا۔یہ اور بات ہے کہ طرفین کے راضی ہو جانے کی بناپر مصالحت کی کوئی شکل نکال لی جائے یا بیمہ کمپنی زیادہ رقم کے مقابلہ میں اپنے کچھ مخصوص خدمات پیش کردے یااسے مال کی حفاظت کی اجرت قرار دے لیکن یہ قانون نہیںہے۔

بیمہ کی دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنی کسی ضرورت کی بناپر بیمہ کمپنی سے یہ معاہدہ کرے کہ ہمیں دس سال کے بعد کسی خاص ضرورت کے لئے پانچ ہزار روپیہ کی ضرورت ہے اور کمپنی اس سے یہ کہے کہ آپ دس سال میں قسط وار ساڑھے چار ہزار روپیہ دے دیجئے ہم آپ کو اس موقع پر پانچ ہزار روپیہ کامل دے دیں گے بلکہ اگر ممکن ہوگااور ہمارے تجارت ترقی کر جائے گی تو پانچ ہزار سے زیادہ بھی دے دیں گے۔یعنی پانچ ہزار تو بہر حال دیں گے۔زیادہ کا امکان حالات کے اوپر موقوف ہے۔زیر نظرمعاملہ میں قانونی طورپر خوددو خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ایک یہ کہ ہماری رقم کے مقابلہ میں ملنے والی رقم کی کوئی مقدار معین نہیں ہے اور بغیر تعین کے اسے دورقموںکا معاوضہ تو بہرحال نہیں قرار دیا جاسکتا۔

رہ گیا بینک والوں کی طرح ایجنٹ بن کر تجارت کرنا تو اس کے بارے میں پہلے ہی واضح کیاجاچکاہے کہ ایسا معاملہ صرف اس وقت صحیح ہوسکتاہے جب مال کے فائدہ یانقصان کی ذمہ داری مالک پر ہو،ایجنٹ پر نہ ہو اور یہاں پانچ ہزار کا قطعی ہونا

۸۶

اس بات کا ثبوت ہے کہ تجارت کے نقصان سے بیمہ کرانے والے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اس کا حساب صرف فائدہ کے اعتبار سے مختلف ہوسکتاہے۔ورنہ ایک معینہ رقم دے کر تو اسے بہرحال رخصت کر دیا جائے گا۔

اس مقام پر یہ بات نظرانداز نہ کرنا چاہئے کہ سودیا بیمہ کے معلق جو کچھ درج کیاجارہاہے وہ ایک قانونی بحث کے تحت ہے اور اس میں صرف یہ واضح کرنا ہے کہ اسلامی معاشیات میں سرمایہ داری کو توڑنے اور ثروت کو ایک مقام پر جامد نہ رکھنے کے لئے مذکورہ بالا وسائل اختیار کئے گئے ہیں اب اگر فقہی مسئلہ کے اعتبا رسے شرعی حیلوں کی بنا پر اس کی نوعیت بدل جائے تو اس کی ذمہ داری قانون پر نہ ہوگی۔اس لئے کہ شرعی حیلے یا قانون کی استثنائی صورتیں ضرورت کے مواقع کے لئے ہواکرتی ہیں ان سے اصل قانون کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

فیملی پلاننگ

اقتدار کی گرفت کو مضبوط کرنے والے اور سرمایہ کو بیش از بیش بڑھانے والے افراد نے حیات وکائنات کے رشتے کو توڑکر عوامی بدحالی کے لئے نئے نئے اسباب تلاش کئے ہیں۔انہوں نے سماج کو یہ سوچنے کا موقع نہیںدیاکہ اس معاشی بدحالی اور اقتصادی کشمکش میں ان کی جغرافیائی تقسیم یا ان کی سرمایہ داری کا بھی کوئی ہاتھ ہے بلکہ ہمیشہ یہی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ زمین کی ناقابل اضافہ پیمائش آبادی کی بڑھتی ہوئی رفتار کو برداشت نہیں کرسکتی۔اس پر پابندی لگانے کی شدید ضرورت ہے اور حسن اتفاق سے ایسا بھی

۸۷

ہواکہ حکومت کے پرستار،دولت کے ایجنٹ اہل فکر ونظر نے بھی اپنی قوت استنباط کو خیر باد کہہ کے نظام زر کی تائید کے لئے نت نئے افکار تراشنا شروع کر دیئے اور سب کا سارا زور اس بات پر صرف ہوگیا کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکاجائے۔اس سلسلہ میں بہت سے فلاسفہ بھی میدان میں آئے لیکن سب سے زیادہ نام مالتھسنے پیداکیا۔اس نے اس بگڑے ہوئے توازن کو سائنٹیفک انداز سے دیکھااور باقاعدہ ریاضی قواعد سے یہ ثابت کردیاکہ اگر بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام نہ کی گئی تو آئندہ چند برس کے اندر دنیا کا نقشہ کچھ اور ہی ہوجائے گا۔

مالتھسکا کہنا ہے کہ زمین کی پیمائش میں اضافہ ناممکن ہے۔اس کی طاقت روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔غلہ کی پیداوار یازمین سے استفادہ صرف جدید ترین وسائل پیداوار کے ذریعہ ممکن ہے اور وسائل پیداوار اور پیداوار میں اضافہ کے تناسب کی کیفیت یہ ہے کہ پیداوار ہر پچیس سال کے اندر صرف اتنی ہی بڑھتی ہے جتنی پچیس سال پہلے تھی جب کہ آبادی کی مقدار ہر پچیس سال کے بعد دگنی چوگنی ہوجاتی ہے۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ پہلے پچیس سال تک تو دونوں کا توازن برقرار رہتاہے اور اقتصادیات میں کوئی کشمکش نہیں پیدا ہوتی۔لیکن دوسرے پچیس سال سے یہ کشمکش شروع ہوجاتی ہے۔غلہ صرف تگنا ہوتاہے اور آبادی چوگنی ہوجاتی ہے۔اور پھر یہ غیر متوازن سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتاچلاجاتاہے۔

دونوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے آبادی کو کم کرنے کی شدید ضرورت ہے اور اس کمی کے دوہی وسیلے ہوسکتے ہیں۔ایک قبل ازوقت اختیار کیاجائے گا اور دوسرا بعد ازوقت، قبل ازوقت اقدام یہ ہونا چاہئے کہ شادیاں کم ہوں،دیر سے ہوں،لوگ اپنے نفس پر کنٹرول کریں۔عورتوں سے جنسی ارتباط کم کیاجائے اور بچے اسی اعتبار سے پیداکئے جائیں جس اعتبار سے پیداوار کاتناسب بڑھ رہاہو۔مثال کے طور پر پچاس سال کے بعد جب غلہ تگنا اور آبادی چوگنی ہونے والی ہوتواس وقت کے لئے پچیس سال بعد ہی سے یہ انتظام

۸۸

شروع کر دیاجائے کہ آئندہ پچیس سال میں جتنا غلہ پیداہونے والا ہو اسی اعتبار سے بچے بھی پیداکئے جائیں۔

اگرآج غلہ ایک من پیداہورہاہے اور انسانی آبادی دس افراد پر مشتمل ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ پچیس سال کے بعد غلہ دومن ہوجائے گا۔اور آدمی بیس افراداور توازن برقرار رہے گا لیکن اس کے بعد پچیس سال میں غلہ تین ہی من رہے گا اورآدمی چالیس ہوجائیں گے۔ظاہر ہے کہ اگر یہ تعداد تیس ہی رہتی توکوئی اقتصادی مسئلہ نہ پیداہوتا اور سب اسی طرح مطمئن رہتے جیسے پہلے پچیس برس میں رہ چکے تھے۔لیکن ایسا نہ ہو سکا اس لئے اب صحیح علاج یہی ہے کہ پچیس سال سے پچاس سال کے درمیان بیس کے بجائے دس ہی بچے پیداکئے جائیں۔

طریقۂ کاریہ ہوکہ جن کے یہاں آبادی بڑھ چکی ہے وہ آئندہ پچیس سال کے لئے دوسروں کو موقع دیں اور اپنے نفس پر کنٹرول کریںپھر آئندہ وقفہ میں اگر کوئی آسمانی آفت نازل نہ ہوئی توانہیںبھی کوئی موقع دیاجائے گا ورنہ نہیں۔

بعد از وقت اقدام کا مطلب یہ ہے کہ اگر خدا نخواستہ پہلی تدبیر کے بعدبھی کسی آسمانی آفت کی بناپر آبادی اور پیداوار کاتناسب بگڑجائے گا تو اسے پھر اپنی منزل پر لانے کے لئے ملک میں جنگ وغیرہ چھڑجائے،یا فطرت سے مددمانگی جائے اور کوئی سیلاب، زلزلہ وغیرہ آجائے تاکہ دونوں کاتناسب اپنی اصلی شکل پر پلٹ آئے۔

مالتھسکے اس نظریہ پر علمائے اقتصادیات نے سخت تنقید کی ہے اور اس کے تاروپودبکھیرکر رکھ دیئے ہیں لیکن ہماری تنقید صرف یہ ہے کہ مالتھس کا یہ پورا بیان صرف تخمینی ہے اس کی کوئی علمی یا قانونی بنیاد نہیں ہے اور ایسے بیان پر بھروسہ کرکے آئندہ نسلوں کے لئے راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ممکن ہے کہ مالتھس نے اپنے دور میں اپنے ملک کی یہی کیفیت دیکھی ہو اور اس سے متاثر ہوکر یہ فلسفہ تیار کر دیا ہولیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے ناقص

۸۹

تجربات کو ایسے عظیم مسائل کی بنیاد نہیں قرار دیاجاسکتا۔

مالتھس کا کہناہے کہ انسانوں کی پیداوار پچیس سال کے اندر دوگنی اور چونگی ہوجاتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تخمینہ صرف اپنے ملک کیلئے ہے یا تمام دنیا کے لئے۔ اگر اپنے ملک کے لئے ہے تو کسی ملک کے حالات کو اقتصادیات کا قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ بلکہ یہ خود ہی میرے دعویٰ کا ایک ثبوت ہوگاکہ انسان نے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لئے دنیا کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیاہے اور اس طرح اکثر ممالک فقر وفاقہ کا شکار ہوگئے ہیں۔

اور اگر یہ مشاہدہ تمام دنیا کے لئے ہے تو اسے تمام دنیا کی پیداوار پر بھی غور کرنا ہوگا جو ایک انسان کیا ایک دنیا کے لئے بھی ممکن نہیں ہے آج کی حکومت کسی ایک چھوٹے سے دیہات کی پیداوار کا بھی صحیح اندازہ نہیں کرسکتی اور قانون پیداوار سے پہلے ہی زمین کے رقبے کے حساب سے وضع کردئے جاتے ہیں۔

قانون بنانے والے یہ نہیں سوچتے کہ یہ قانون کس پر نافذ کیاجارہاہے۔اس کے یہاں اتنا غلہ پیدا بھی ہواہے یا نہیں۔سرکاری انسپکٹر کا بیان صحیح بھی ہے یا نہیں۔زمین پر کوئی داخلی آفت تونازل نہیں ہوئی ہے۔

ظاہر ہے کہ جب ایک دیہات کی پیداوا ر کا صحیح اندازہ نہیں لگایاجاسکتاتوساری دنیا کا اندازہ کیالگایاجاسکتاہے۔پھر زمین کی پیداوار سے مراد فقط غلہ کی پیداوار ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ترکاریاں،فروٹ،پھل،گھاس،درختوں کے پتے وغیرہ بھی شامل ہیں جن کی صحیح مقدار کا اندازہ لگاناناممکن ہے۔ان چیزوں کے علاوہ حیوانات کی تعداد کا شمار کرنا بھی ضروری ہے۔اس لئے کہ ملک کے بہت سے باشندوں کی گذراوقات صرف گوشت پرہوتی ہے۔اس کے بعددریائی پیداوار کا بھی حساب کیاجائے گا۔اس لئے کہ مچھلی کے علاوہ بھی دریاؤں میں اکثر ایسے حیوانات پائے جاتے ہیں جو کسی نہ کسی ملک کے باشندوں کی غذابنا کرتے ہیں۔

۹۰

اس کے علاوہ دنیاکی شاید ہی کوئی ایسی چیز ہوجو کسی نہ کسی ملک کی غذانہ بنتی ہو۔ ایسے حیوانات جن کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے بعض ممالک میں بڑے شوق سے استعمال کئے جاتے ہیں۔دنیا کی غذائی صورتِ حال کا صحیح اندازہ کرنے کے لئے سوراخوں میں چھپے ہوئے ان جانوروں کا بھی حساب کرنا پڑے گا جو اکثر اوقات بعض پست اقوام کی غذا بن جایا کرتے ہیں۔اور کھلی ہوئی بات ہے کہ اتنا طویل وعریض حساب سوائے کسی غیب داں ہستی سے کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔

مالتھسکے سلسلہ میں ایک انتہائی تعجب خیزبات یہ بھی ہے کہ اس نے نسل بندی کے قانون کی بنیادیں طے کرتے ہوئے زمین کی طاقت اور اس کی پیمائش کے علاوہ دنیاکی ہرغذا کو نظرانداز کردیاہے اور اپنے قانون کو ایک بازیچۂ اطفال سے زیادہ کوئی مرتبہ نہیں دیا۔

زیر نظر بحث کا تمام تر تعلق اقتصادیات سے ہے اس لئے فیملی پلاننگ کے دیگر سماجی اخلاقی اور نفسیاتی عیوب کی طرف اشارہ نہیں کیاجاسکتاورنہ پوری تحقیق کے ساتھ یہ ثابت کیاجاسکتاتھاکہ فیملی پلاننگ عیاشتی کی ترویج، نفسیات کی موت اور اخلاق کی تباہی کے سواکچھ نہیں ہے۔تاہم بحث کو خاتمہ دیتے ہوئے تین اہم نکات کی طرف متوجہ کرنا ضروری ہے:

(1) غذائی صورت حال کو درست کرنے کے لئے نسل بندی کا جو ذریعہ اختیار کیاگیاہے۔ اس سے کسی بھی ملک کی معاشی حالت نہیں درست ہوسکتی۔اس لئے کہ پیدا ہونے والا بچہ ابتدائی ایک دوسال تک ملک سے کسی قسم کی غذاکا مطالبہ نہیں کرتا۔اس کے بعد تھوڑی تھوڑی غذاکاتقاضہ شروع کرتاہے اور عمر کی ایک منزل پر پہنچ کر سماج سے پوری غذا کا مطالبہ کرتاہے۔جب کہ اس کی پیدائش کو روکنے کے لئے روز اول ہی سے اتنا سرمایہ صرف کر دیاجاتاہے جو اگر ملک کی پیداوار یاتجارت کو فروغ دینے پر

۹۱

صرف کردیاجاتاتو شاید صورتِ حال پیدانہ ہوتی اور وہ وہمی خطرہ سامنے نہ آسکتا۔

خالص اقتصادی نقطۂ نظر سے تویہ بھی کہاجاسکتاہے کہ ملک کا جتنا سرمایہ آئندہ نسلوں کی روک تھام پر صر ف کیاجارہاہے یہی سرمایہ اگر قدیم نسل کے بچے ہوئے بیکار، ضعیف وناتواں افراد کے خاتمہ پر صرف کردیاجاتاتو شاید مسئلہ جلدی آسان ہوجاتا۔ اس لئے کہ یہ طبقہ موجودہ صورتِ حال میں بھی پورا غذاکا مطالبہ کرتاہے۔ اور سماج کو کچھ دینے سے بالکل قاصر ومجبور ہے لیکن افسوس کہ آج کی حکومتیں ذہنی اعتبار سے اتنی پست ہوگئی ہیں کہ جو سامنے آجاتاہے اس سے خوفزدہ ہوجاتی ہیں اور جو عدم کے اندھیرے میں خاموش بیٹھا رہتاہے اسے اس دنیا میں قدم رکھنے کی جگہ بھی نہیں دیتیں۔

(2) مالتھسنے اپنے بیان میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیاہے کہ اگر ملک میں وقتاً فوقتاً جنگ چھڑجایاکرے یا کوئی زلزلہ آجایاکرے یاکچھ سیلاب وغیرہ کا شکار ہوجایاکریں تو پیداوار آبادی کاتناسب برقراررہ سکتاہے لیکن میرے خیال میں یہ بات بھی انتہائی عجیب اور مضحکہ خیز ہے۔اس کے حادثات کے آئینہ میں آدمیوں کی تباہی پرتو نظرکی لیکن یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی آج کی جنگ میں آدمی سے کہیں زیادہ سامان ضائع ہوجاتاہے۔زمین دار برباد ہوجاتے ہیں،حیوانات مرجاتے ہیں،پیداوارتباہ ہوجاتی ہے،فصلیں برباد ہوجاتی ہیں اور توازن راہِ راست پر آنے کے بجائے مزید خراب ہوجاتاہے۔یہی حال زلزلہ اور سیلاب وغیرہ کاہوتاہے۔ ایسی چیزوں کو توپیداوار کی قلت کے اسباب میں شمار کرنا زیادہ بہتر تھا۔آبادی کی کمی میں ان کا حساب کرنا ان کی واقعی کیفیت سے چشم پوشی کے سوااور کچھ نہیں ہے۔

(3) کسی بھی ملک کی غذائی صورت حال کے بگڑجانے کی بہت بڑی ذمہ داری وہاں کے باشندوں کی عشرت پرستی اور عیش پرستی پر بھی ہوتی ہے۔دور حاضر کے انسان

۹۲

نے اپنے رہنے سہنے اور کھانے پینے کے لوازم اتنے زیادہ بڑھالئے ہیں کہ کسی بھی آدمی کی آمدنی اس کے خرچ کے لئے کافی ہوتی نظرنہیں آتی۔بہتر سے بہتر غذ ااور عمدہ سے عمدہ لباس کے پاک صاف، بلند بالااسبابِ راحت سے معمور مکانات بھی ضروری ہیں۔پھر سنیما، عیاشی،فنونِ لطیفہ کے ذوق کی تسکین، تفریح گاہوں کی سیر اور اس قسم کے دیگر غیر ضروری یا غیر جائز کام بھی ابتدائی ضروریات میں شامل ہوگئے ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی آمدنی سے نالاں اور اپنے خرچ سے پریشان ہے کوئی شخص بھی اپنے طبقہ کی سطحِ زندگی پر آنے کے لائق نہیں رہ گیاہے اور یہ انسان کی خودغرضی کی آخری منزل ہے کہ وہ اپنے موجودہ حالات کو دیکھ کر آئندہ آنے والی نسلوں پر پابندی لگانا چاہتاہے۔اسے خطرہ یہ ہے کہ اگر انسانوں کا اضافہ ہوگیاتو ان کے خرچ کے لئے سامان کہاں سے مہیاکیاجائے گا۔یعنی اپنے عیش وطرب اور اپنی سطحِ زندگی کو محفوظ رکھنے کے لئے دوسروں کو اس زمین پر قدم رکھنے کی جگہ نہیں دی جاسکتی۔ اس کے آنے کے بعد اپنے وسائل راحت باقی نہ رہ سکیں گے۔اور گوناگوں مشکلات کا شکار ہونا پڑے گا،زیادہ محنت کرنی پڑے گی،زیادہ غلہ پیداکرنا پڑے گا،زیادہ سامان مہیا کرنا پڑے گا،وسائل راحت میں کمی ہوجائے گی اور مزید بے حساب پریشانیاں لاحق ہوجائیں گی۔اس منزل پرآنے کے بعد ہر انسان ایک دوراہے پر کھڑاہوجاتاہے ۔ایک طرف اپنا سکون واطمینان،اپنی سطحِ زندگی،اپنی معاشرت کے اصول اور اپنی موجودہ صورتِ حال ہوتی ہے اور دوسری طرف آنے والی نسل کے وجود کا سوال؟

کتنی بڑی ناانصافی ہے کہ انسان دوسروں کے وجود کو مٹادیتاہے لیکن اپنی راحت کو قربان نہیں کرسکتا۔ اپنے ہاتھوں اپنی نسل کا خون بہادیتاہے لیکن اپنی سطحِ زندگی کو نہیں

۹۳

گراسکتا۔کیا ایسے انسان سے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ آگے چل کر ایک پورے سماج کا قاتل بن جائے گا اس لئے جس نے آج اپنی نسل کے تباہ کرنے میں کوئی درد محسوس نہیں کیاوہ کل دوسروں کی گود کے پالے ہوئے بچوں کو تہ تیغ کرنے میں کیا تکلیف محسوس کرسکتاہے؟انسان کی ایک نفسیاتی کمزوری یہ بھی ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے عیوب سے چشم پوشی کرکے دوسروں کے اندر عیب تلاش کرتاہے اور حتیٰ الامکان اس بات کی کوشش کرتاہے کہ دوسروں کے عیب کو جلد ہی عالم آشکار کردے تاکہ لوگ میرے عیوب کی طرف متوجہ نہ ہوسکیں۔

فیملی پلاننگ پر زوردینے والے افراد کا طرز عمل یہی ہے کہ وہ اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ آنے والی نسلیں ملک کی غذائی صورت حال کو بگاڑدیں گی اور ان کے ہوتے ہوئے آبادی اور پیداوار کاتناسب برقرار نہ رہ سکے گا۔لیکن اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اس عدم توازن میں اپنا بھی''بقدر حصۂ رسدی''ہاتھ ہے۔اور مالتھس کے فلسفہ کی روشنی میں یوں کہاجائے کہ بالفرض آج کی آبادی دس سے بیس ہوچکی ہے۔پیداوار ایک من سے دومن ہوگئی ہے اور حساب برابر چل رہاہے۔لیکن اب آئندہ خطرہ یہ ہے کہ غلہ ایک ہی من بڑھے گا اور آبادی 20 آدمیوں کی بڑھے گی۔ اوراس طرح دس آدمیوں کی خوراک کا مسئلہ ایک مصیبت بن جائے گا۔اس لئے دس آدمیوں کوآنے سے روک دیاجائے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آئندہ کی آبادی کے بڑھنے میں صرف آئندہ آنے والی نسل ہی کاہاتھ تو نہیں ہے۔اس میں موجودہ نسل کا بھی حصہ ہے۔

اگر یہ لوگ دس سے بیس نہ ہوئے ہوتے اور پندرہ ہی رہ جاتے تو آئندہ کے لوگ بھی چالیس نہ ہوتے اور مصیبت پیدانہ ہوتی۔اس لئے مسئلہ کو حل کرنے کی دو صورتیںہیں۔آنے والی نسل کو چالیس کے بجائے تیس بنادیاجائے یاموجودہ نسل کو

۹۴

بیس سے کم کر دیاجائے۔یہ انسان کی خودغرضی ہے کہ وہ خود دنیا کو چھوڑنا نہیں چاہتااور دوسروں کو آنے سے روک دیتاہے اور وہ بھی صرف اس لئے کہ قدرت نے آنے والی نسل کا سلسلہ وجود اسی کے حوالے کر دیاہے۔اس اختیار سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتاہے۔کاش ان فیملی پلاننگ پر زوردینے والے افراد نے یہ بھی سوچاہوتا کہ اگر یہی ترقی پسندی اور عیش پرستی ایک پشت پہلے پیداہوگئی ہوتی تو آج ان کا وجود کتمِ عدم کے گوشے میں ہوتااور ان کی پلاننگ کا پرچم کس دنیا میں لہراتا؟

خود غرض دنیا اپنے وجود کی یہ تاویل کرسکتی ہے کہ ہم موجودہ صورتِ حال کو سدھارنے کے لئے ایک سماجی ضرورت بن چکے ہیں اس لئے ہمیں دنیا سے نہیں ہٹایاجا سکتا۔آئندہ آنے والے تو ااج کی نسل کی گردن پر ایک زبردستی کو بوجھ بن کر آرہے ہیں۔ان سے ایک مدت تک کوئی کام نہیں لیاجاسکتا۔اس لئے ان کا روکنا ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس نسل نے بھی دنیا میں قدم رکھتے ہی سماج کے مشکلات کو حل کرنے میں حصہ نہیں لیا۔بلکہ اپنے پہلے کی نسل کی گردن پر بوجھ ہی بنی رہی۔وہ تو اس نسل کا رحم وکرم تھاکہ اسے اتنے دنوں تک رہنانصیب ہوااور اس نے آنے والی نسل کے بارے میں یہ ناروافیصلے کرنا شروع کردیئے۔

اس موجودہ نسل کو تو اپنی کیفیت پر بھی توجہ دینا چاہئے تھا۔وہی نسل ہے جس نے برسہابرس دنیا کا سرمایہ صرف کرنے کے بعد بھی صرف ایک مشکل کا اندازہ کیاہے اور اس کا کوئی حل نہیں تلاش کیا۔ایسی نسل کو تو آنے والی نسل کے نام پرقربان ہوجانا چاہئے تھاکہ اس میں مسئلہ کے ادراک کے ساتھ مسئلہ کے حل کے بھی امکانات پائے جاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ فیملی پلاننگ کی ایجاد کسی اقتصادی بنیاد پر نہیں کی گئی اس کی پشت پر صرف چند سرمایہ داروں کا مفاد،چند اقتدار کے بھوکوں کی ہوس کارفرماہے۔ان کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ہمارے بڑھتے ہوئے سرمایہ اور ہماری ملکی تقسیم کی طرف متوجہ نہ ہوسکیں اور انہیں

۹۵

یہ باورکرادیاجائے کہ ملک کی بگڑتی ہوئی غذائی صورتِ حال کی ذمہ داری ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی پر ہے۔اس میں نہ بنیوں کے گودام کا کوئی ہاتھ ہے نہ بینکوں کے لاکرزکا، اس کا حل نہ اقتدار کی گرفت کو ڈھیلا کردینے سے نکل سکتاہے اور نہ ایک ملک کا سرمایہ دوسرے ملک کو مفت سپلائی کرنے سے۔

آپ یہ نہ پوچھیں کہ اگر فیملی پلاننگ کی بنیاد سرمایہ کے تحفظ پر ہے تو امریکہ جیسے سرمایہ دار ملک میں ایسا قانون کیوں نہیں ہے اور وہاں جبری طور پر بچوں کی پیدائش کو کیوں نہیں روکا جاتا۔

امریکہ والے جن حالات سے دوچارہیں اور جن نعمتوں میں زندگی بسرکرہے ہیں ان میں فی الحال کسی پلاننگ کی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن پھر بھی وہ مستقبل سے غافل نہیں ہیں۔انہوں نے مستقبل کے لئے دواہم تدبیریں سوچ لی ہیں۔ایک طرف دوسرے ممالک کی توجہ اپنے سرمایہ کی طرف سے ہٹانے کے لئے انہیں ملک کے حالات میں مبتلا کردیاہے۔اور فیملی پلاننگ جیسے قوانین رائج کردیئے ہیں۔اور دوسری طرف اپنے ملک کے قانون میں عیاشی اور بدکاری کو اتنا عام کر دیاہے کہ ہر شخص اپنی جنسی پیاس بجھانے کو زیادہ اہم سمجھتاہے۔بچہ پیداکرنے کو غیراہم چونکہ بچہ ماں باپ کی جنسی آزادی میں بہرحال کسی حدتک مخل ہوتاہے اس لئے وہ اپنے راستے سے کانٹے کوہٹانے کے لئے خودہی تیار ہوجاتے ہیں۔کسی قانون اور قاعدہ کے وضع کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

مختصر یہ ہے کہ سرمایہ دار ممالک نے اپنے سرمایہ کے تحفظ اور اپنے اقتدار کی گرفت کو مضبوط رکھنے کے لئے دوسرے کمزورو ناتوان ممالک میں نسل بندی کے قوانین رائج کردیئے ہیں تاکہ ان ممالک کے آدمی اپنی پریشانیوں اور الجھنوں کا سبب ملک کے اندر اور آنے والی نسل میں تلاش کریں۔ ملک کے باہر کائنات کے بیشتر سرمایہ پر قابض صاحبانِ

۹۶

اقتدارکی طرف متوجہ نہ ہونے پائیں۔

اسلام نے ایسے ہی سینکڑوں نکات کو پیش نظررکھ کر یہ اعلان کیاتھا:

(إنْ مِنْ شَیْئٍ ِلاَّ عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ ِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ)

ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں اور ہم صرف بقدر معلوم نازل کیا کرتے ہیں۔ (حجر/21)

یعنی اس کائنات کے واقعی ذخیرے تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں ہم ان سب سے آگاہ اور باخبر ہیں۔جب جس قدر ضرورت محسوس کرتے ہیں نازل فرماتے ہیں۔دنیا اس اعلان پر اعتماد کرتی اور مالتھس جیسے دوسرے علماء اقتصادیات کے مجہول افکار نے اسے گمراہ نہ کردیاہوتاتو اس کے سامنے اقتصادی مسئلہ نہ ہوتااور وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتی کہ کائنات میں بقدر ضرورت سامان آج بھی موجود ہے اور قرآنی وعدے کے مطابق کل جب نسل بڑھے گی تو اس کی ضروریات کے مطابق مزید نعمتیں نازل ہوں گی۔

دوسری طر ف اس نے یہ بھی سمجھادیاتھاکہ:

اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو۔ہم تمہیںبھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی۔

یعنی اگر تخلیق کا کام تم نے انجام دیاہوتااور رزق پہنچانا تمہارا کام ہوتاتو تمہیں یہ اختیار ہوتاکہ جسے اپنے عیش وعشرت کی راہ میں رکاوٹ پیداکرتے دیکھو اسے تباہ وبرباد کر دو لیکن جب ہم نے رزق کی ذمہ داری تمہارے سر نہیں ڈالی ہے اور خلقت کاکام تمہارے حوالے نہیں کیاہے تو تمہیں کیاحق پہنچاہے کہ ہماری مخلوق کو ہمارے اوپر اعتماد نہ کرتے ہوئے تباہ برباد کردو۔یادکھو یہ فیملی پلاننگ اپنے نفس پر تصرف کا نام نہیں ہے بلکہ آنے والی نسل کا راستہ روکنے کی دوسری تعبیر ہے۔اپنے نفس پر تصرف کا مطلب تویہ ہے کہ عیاشی کے راستے رک جائیں،ناجائز تعلقات بند ہوجائیں،شادی کے بعدعورتوں سے انسانوں جیسے

۹۷

تعلقات ہی رہیں۔بہیمیت غالب نہ آنے پائے نہ کہ اس میں نسل کشی جیسے وسیع اختیارات بھی شامل ہوجائیں۔

۹۸

زیر نظرکتاب

زیر نظرکتاب کیاہے؟اس کا اندازہ توآپ کو کتاب کے پڑھنے کے بعدہی ہوسکے گا۔لیکن عراق وحجاز اور مصر وشام کے ارباب جرائد ورسائل کے تبصروں کی روشنی میں کہا جاسکتاہے کہ معاشیات کے ایسے اہم موضوع پر عالم اسلام میں اب تک کوئی ایسی جامع کتاب نہیں پیش کی گئی ہے جس میں اسلام کے علاوہ دیگر نظامہائے معاشیات پر مکمل علمی تبصرہ بھی ہواور اسلامی معاشیات کو وسیع اور ہمہ گیر خاکہ بھی۔

زیر نظرکتاب پہلی کتاب ہے جو اس جامعیت اور ہمہ گیری کے ساتھ تصنیف کی گئی ہے اس کتاب کو بیسویں صدی کے معجزۂ فکروفن سے تعبیر کیاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ اس کی تصنیف کا کام ایک ایسے دماغ نے انجام دیاہے جو نجف اشرف کے فقہی ماحول کا پرورش یافتہ ہے۔

اس کی تحریر وتمحیص کا فریضہ ایک ایسے ذہن نے اداکیاہے جو تمام ترفقہ واصول کے سانچہ میں ڈھلاہواہے۔جہاں ایک مخصوص زاویۂ فکر سے بحث کی جاتی ہے اور ایک

۹۹

مخصوص میدان کو فکر کی جولانگاہ بنایاجاتاہے،لیکن استاد محترم دام ظلہ نے ماحول کے شکنجوں کو توڑکر ایک طویل وعریض دنیا میں قدم رکھاہے۔دنیا کے قدیم وجدید معاشی نظریات کا مطالعہ کیاہے۔ان کے افکار واصول کوعقل ومنطق کی میزان پہ تولااور پرکھاہے اور آخر میں اس پوری جدوجہد کو کتابی شکل میں پیش کردیاہے جو دور حاضر کا شاہکار بھی ہے اور مصنف کی وسعت نظرکا برہان قاطع بھی۔

کتاب کے مطالعہ کے وقت اس بات کا پیش نظررکھنا ضروری ہے کہ یہ کوئی افسانوی کتاب یارومانی ناول نہیں ہے۔جس میں ادب کی چاشنی یازبان وبیان کا لطف تلاش کیاجائے۔یہ دور حاضر کے سب سے اہم مسئلہ کا علمی حل اور کائنات کے سب سے زیادہ بنیادی مرض کا سمجھابوجھاعلاج ہے۔اس کا مطالعہ ایک ذی شعور دماغ اور صاحب فکر ذہن کے ساتھ کرنا چاہئے۔

اس کے آئینہ میں سماج کی خرابیاں اور دنیا کے نظاموں کے نقائص کا مشاہدہ کرنا چاہئے۔اور اسلام کے اس آئین کی عظمت کا اعتراف کرنا چاہئے جسے چودہ صدیوں کا فرسودہ نظام کہاجاتاہے۔

کتاب کے پہلے حصہ میں معاشیات کے علمی پہلو کو محور بحث بنایاگیاہے جہاں آدم اسمتھ،ریکارڈو، کارل مارکس سے لے کرلنین اور اسٹالین تک کے اشتراکی نظریات اور جدید ترین امریکہ کے راسمالی تصورات کا تجزیہ کیاگیاہے۔قیمت کی بنیاد،قیمت کے اقسام ذاتی ملکیت کے فوائد ونقائص،سرمایہ داری کی بنیادیں، اشتراکیت کے اصول،اسلام کے امتیازی نشانات وغیرہ سے بحث کرکے یہ واضح کیاگیاہے کہ علمی اصول وقوانین کی روشنی میں اشتراکیت وراسمالیت کے اصول وتعلیمات نامکمل ہیںاور اسلام دنیا کا وہ واحد نظام ہے جس کے اصول وآئین کسی دور معاشیات میں ناکام نہیں ہوسکتے ہیں۔

دوسری جلد میں اسلام کے احکام کی تفصیلات سے بحث کی گئی ہے اور یہ واضح

۱۰۰