نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 655069 / ڈاؤنلوڈ: 15898
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

۲

نھج البلاغہ

مکمل اردو ترجمہ

مترجم علامہ ذیشان حیدر جوادی

ای بک کمپوزنگ : الحسنین علیھما السلام نیٹ ورک

۳

نهج البلاغة

باب المختار من خطب مولانا امیر المومنین

علی بن ابی طالب علیه التحیة والسلام الخطب

(١)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

یذکر فیها ابتداء خلق السلماء والارض، وخلق آدم

وفیها ذکر الحج

وتحتوی علی حمد الله،خلق العالم، وخلق الملائکة، واختیار الانبیائ، ومبعث النبی، والقران، والاحکام الشرعیة

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اَلَّذِي لاَ يَبْلُغُ مِدْحَتَهُ اَلْقَائِلُونَ وَ لاَ يُحْصِي نَعْمَاءَهُ اَلْعَادُّونَ وَ لاَ يُؤَدِّي حَقَّهُ اَلْمُجْتَهِدُونَ [ اَلْجَاهِدُونَ ] اَلَّذِي لاَ يُدْرِكُهُ بُعْدُ اَلْهِمَمِ وَ لاَ يَنَالُهُ غَوْصُ اَلْفِطَنِ اَلَّذِي لَيْسَ لِصِفَتِهِ حَدٌّ مَحْدُودٌ وَ لاَ نَعْتٌ مَوْجُودٌ وَ لاَ وَقْتٌ مَعْدُودٌ وَ لاَ أَجْلٌ مَمْدُودٌ فَطَرَ اَلْخَلاَئِقَ بِقُدْرَتِهِ وَ نَشَرَ اَلرِّيَاحَ بِرَحْمَتِهِ وَ وَتَّدَ بِالصُّخُورِ مَيَدَانَ أَرْضِهِ

امیر المومنین کے منتخب خطبات

اور احکام کا سلسلہ کلام

(۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آسمان کی خلقت کی ابتدا اور خلقت آدم ۔ کے تذکرہ کے ساتھ حج بیت اللہ کی عظمت کا بھی ذکر کیا گیاہے)

یہ خطبہ حمدو ثنائے پرودگار۔خلقت عالم۔ تخلیق ملائکہ انتخاب انبیا بعثت سرکا ر دوعالم، عظمت قرآن اور مختلف احکام شرعیہ پرمشتمل ہے۔

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی مدحت تک بولنے والوں کے تکلم کی رسائی نہیں ہے اور اس کی نعمتوں کوگننے والے شمار نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے حق کو کو ش ش کرنے والے بھی ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ نہ ہمتوں کی بلندیوں اس کا ادراک کرسکتی ہیں اور نہ ذہانتوں کی گہرائیوں اس کی تہ تک جا سکتی ہیں۔ اس کی صفت ذات کے لئے نہ کوئی معین حد ہے نہ توصیفی کلمات۔نہ مقررہ وقت ہے اور نہ آخری مدت۔اس نے تمام مخلوقات کو صرف اپنی قدرت کا ملہ سے پیدا کیا ہے اور پھر اپنی رحمت ہی سے ہوائیں چلائی ہیں اور زمین کی حرکت کو پہاڑوں کی میخوں سے سنبھال کر رکھا ہے۔

حواشی-مصادر خطبہ۱عیون الحکم والمواعظ الواسطی،بخار۷۷،۳۰۰و۴۲۳۔ربیع الا برارزمحشری باب السماءوالکواکب،شرح نہج البلاغہ قطب راوندی تحف العقول حرانی۔اصول کافی۱۔۱۴۰احتجاج طبرسی۱۔۱۵۰،مطالب السئول محمد بن طلحہ الشافعی دستور معالم الحکم القاضی القاضعی ۱۵۔تفسیر فخررازی۲۔۱۲۴۔ارشادمفید ۱۰۵و۱۰۶ توحید صدوق عیون الا خبار صدوق امالی طوسی ۱۔۲۲مصادر خطبہ ۳ الجمل شیخ مفید ۶۲، فہرست بنی ۔۶۲ فہرست ابن ۔

۴

أَوَّلُ اَلدِّينِ مَعْرِفَتُهُ وَ كَمَالُ مَعْرِفَتِهِ اَلتَّصْدِيقُ بِهِ وَ كَمَالُ اَلتَّصْدِيقِ بِهِ تَوْحِيدُهُ وَ كَمَالُ تَوْحِيدِهِ اَلْإِخْلاَصُ لَهُ وَ كَمَالُ اَلْإِخْلاَصِ لَهُ نَفْيُ اَلصِّفَاتِ عَنْهُ لِشَهَادَةِ كُلِّ صِفَةٍ أَنَّهَا غَيْرُ اَلْمَوْصُوفِ وَ شَهَادَةِ كُلِّ مَوْصُوفٍ أَنَّهُ غَيْرُ اَلصِّفَةِ فَمَنْ وَصَفَ اَللَّهَ سُبْحَانَهُ فَقَدْ قَرَنَهُ وَ مَنْ قَرَنَهُ فَقَدْ ثَنَّاهُ وَ مَنْ ثَنَّاهُ فَقَدْ جَزَّأَهُ وَ مَنْ جَزَّأَهُ فَقَدْ جَهِلَهُ

وَ مَنْ جَهِلَهُ فَقَدْ أَشَارَ إِلَيْهِ وَ مَنْ أَشَارَ إِلَيْهِ فَقَدْ حَدَّهُ وَ مَنْ حَدَّهُ فَقَدْ عَدَّهُ وَ مَنْ قَالَ فِيمَ

دین کی ابتداء اس کی معرفت سے ہے اور معرفت کا کمال اس کی تصدیق ہے۔تصدیق کا کمال توحید کا اقرار ہے اور توحید کا کمال اخلاص عقیدہ ہے اور اخلاص کا کمال زائد بر ذات صفات کی نفی ہے' کہ صفت کا مفہوم خود ہی گواہ ہے کہ وہ موصوف سے الگ کوئی شے ہے اورموصوف کا مفہوم ہی یہ ہے کہ وہ صفت سے جدا گانہ کوئی ذات ہے۔اس کے لئے الگ سے صفات کا اثبات ایک شریک کا اثبات ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ذات کا تعدد ہے اور تعدد کا مقصد اس کے لئے اجزاء کا عقیدہ ہے اوراجزاء کا عقیدہ صرف جہالت ہے معرفت نہیں ہے اور جو بے معرفت ہوگیا اس نے اشارہ کرنا شروع کردیا اور جس نے اس کیطرف اشارہ کیا اس نے اسے ایک سمت میں محدود کردیا اورجس نے محدود کردیا اس نے اسے گنتی کا ایک شمار کرلیا

( جو سراسر خلاف توحید ذات ہے)

جس نے یہ سوال اٹھایاکہ وہ کس چیز میں ہے

خطبہ کا پہلا حصہ ذات واجب کی عظمتوں سے متعلق ہے جس میں اس کی بلندیوں اور گہرائیوں کے تذکرہ کے ساتھ اس کے بے پایاں نعمتوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس کی ذات مقدس لا محدود ہے اور اس کی ابتداء وانتہا کا تصور بھی محال ہے۔البتہ اس کے احسانات کی فہرست میں سر فہرست تین چیزیں ہیں :

(۱) اسنے اپنی قدرت کاملہ سے مخلوقات کوپیدا کیا ہے۔(۲) اسنے اپنی رحمت شاملہ سے سانس لینے کے لئے ہوائیں چلائی ہیں۔(۳) انسان کے قرار و استقراء کے لئے زمین کی تھر تھراہٹ کو پہاڑوں کی میخوں کے ذریعہ روک دیا ہے ورنہ انسان کا ایک لمحہ بھی کھڑا رہنا محال ہوجاتا اور اس کے ہر لمحہ گر پڑنے اور الٹ جانے کا امکان بر قرا رہتا۔دوسرے حصہ میں دین و مذہب کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس طرح کائنات کا آغاز ذات واجب سے ہے اسی طرح دین کا آغاز بھی اسی کی معرفت سے ہوتا ہے اور معرفت میں حسب ذیل امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔دل و جان سے اس کی تصدیق کی جائے۔فکرو نظر سے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا جائے اور خالق و مخلوق کے امتیاز سے اس کے صنعاف کو عین ذات تصور کیا جائے۔

۵

فَقَدْ ضَمَّنَهُ وَ مَنْ قَالَ عَلاَمَ فَقَدْ أَخْلَى مِنْهُ كَائِنٌ لاَ عَنْ حَدَثٍ مَوْجُودٌ لاَ عَنْ عَدَمٍ مَعَ كُلِّ شَيْ‏ءٍ لاَ بِمُقَارَنَةٍ وَ غَيْرُ كُلِّ شَيْ‏ءٍ لاَ بِمُزَايَلَةٍ فَاعِلٌ لاَ بِمَعْنَى اَلْحَرَكَاتِ وَ اَلآْلَةِ بَصِيرٌ إِذْ لاَ مَنْظُورَ إِلَيْهِ مِنْ خَلْقِهِ مُتَوَحِّدٌ إِذْ لاَ سَكَنَ يَسْتَأْنِسُ بِهِ وَ لاَ يَسْتَوْحِشُ لِفَقْدِهِ

خلق العالم

أَنْشَأَ الْخَلْقَ إِنْشَاءً وابْتَدَأَه ابْتِدَاءً، بِلَا رَوِيَّةٍ أَجَالَهَا ولَا تَجْرِبَةٍ اسْتَفَادَهَا، ولَا حَرَكَةٍ أَحْدَثَهَا ولَا هَمَامَةِ نَفْسٍ اضْطَرَبَ فِيهَا، أَحَالَ الأَشْيَاءَ لأَوْقَاتِهَا

اس نے اسے کسی کے ضمن میں قرار دے دیا اور جس نے یہ کہا کہ وہ کس کے اوپر قائم ہے اسنے نیچے کا علاقہ خالی کرالیا۔ اس کی ہستی حادث نہیں ہے اور اس کا وجودعدم کی تاریکیوں سے نہیں نکلا ہے ۔وہ ہر شے کے ساتھ ہے لیکن مل کرنہیں ' اور ہر شے سے الگ ہے لیکن جدائی کی بنیادپر نہیں۔ وہ فاعل ہے لیکن حرکات و آلات کے ذریعہ نہیں اور وہ اس وقت بھی بصیر تھا جب دیکھی جانے والی مخلوق کا پتہ نہیں تھا۔وہ اپنی ذات میں بالکل اکیلا ہے اور اس کا کوئی ایسا ساتھی نہیں ہے جس کو پاکر انس محسوس کرے اور کھو کر پریشان ہو جانے کا احسان کرے۔

اس ن ے مخلوقات کو از غیب ایجاد کیا اور ان کی تخلیق کی ابدا کی بغیر کسی فکر کی جو لانی کے اور بغیر کسی تجربہ سے فائدہ اٹھائے ہوئے یا حرکت کی ایجاد کئے ہوئے یا نفس کے افکار کی الجھن میں پڑے ہوئے ۔

تما م اشیاء کو ان کے اوقات کے حوالے کردیا

ورنہ ہر غلط عقیدہ انسان کو ایک جہالت سے دوچار کردے گا اور ہر مہمل سوال کے نتیجہ میں معرفت سے شروع ہونے والا سلسلہ جہالت پر تمام ہوگا اور یہ بد بختی کی آخری منزل ہے۔ اس کی عظمت کے ساتھ اس نکتہ کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ جملہ اعمال کی نگرانی کر رہا ہے اور اپنی یکتائی میں کسی کے وہم و گمان کا محتاج نہیں ہے۔

تخلیق کائنات کے بارے میں اب تک جونظریات سامنے آئے ہیں' ان کا تعلق دو موضوعات سے ہے:

ایک موضوع یہ ہے کہ اس کائنات کا مادہ کیا ہے ؟ تمام عناصر اربعہ ہیں یا صرف آگ ہے یا صرف پانی سے یہ کائنات خلق ہوئی ہے یا کچھ دوسرے عناصر اربعہ بھی کارفرما تھے یا کسی گیس سے یہ کائنات پیدا ہوئی ہے یا کسی بھاپ اور کہرے نے اسے جنم دیا ہے؟ دوسرا موضوع یہ ہے کہ اس کی تخلیق دفعتاً ہوئی ہے یا یہ بتدریج عالم وجود میں آئی ہے اور اس کی عمردس ملین سال ہے یا ۶۰ ہزار ملین سال ہے؟

چنانچہ ہر شخص نے اپنے اندازہ کے مطابق ایک رائے قائم کی ہے اور اسی رائے کی بنا پراسے محقق کا درجہ دیا گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت امر یہ ہے کہ اس قسم کے موضوعات میں تحقیق کا کوئیامکان نہیں ہے اور نہ کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔

۶

ولأَمَ بَيْنَ مُخْتَلِفَاتِهَا، وغَرَّزَ غَرَائِزَهَا وأَلْزَمَهَا أَشْبَاحَهَا، عَالِماً بِهَا قَبْلَ ابْتِدَائِهَا، مُحِيطاً بِحُدُودِهَا وانْتِهَائِهَا عَارِفاً بِقَرَائِنِهَا وأَحْنَائِهَا: ثُمَّ أَنْشَأَ سُبْحَانَه فَتْقَ الأَجْوَاءِ، وشَقَّ الأَرْجَاءِ وسَكَائِكَ الْهَوَاءِ، فَأَجْرَى فِيهَا مَاءً مُتَلَاطِماً تَيَّارُه ، مُتَرَاكِماً زَخَّارُه حَمَلَه عَلَى مَتْنِ الرِّيحِ الْعَاصِفَةِ، والزَّعْزَعِ الْقَاصِفَةِ فَأَمَرَهَا بِرَدِّه، وسَلَّطَهَا عَلَى شَدِّه وقَرَنَهَا إِلَى حَدِّه، الْهَوَاءُ مِنْ تَحْتِهَا فَتِيقٌ والْمَاءُ مِنْ فَوْقِهَا دَفِيقٌ ، ثُمَّ أَنْشَأَ سُبْحَانَه رِيحاً

اور پھر ان کے اختلاف میں تناسب پیدا کردیا سب کی طبیعتیں مقرر کردیں اور پھر انہیں شکلیں عطا کردیں۔اسے یہ تمام باتیں ایجاد کے پہلے سے معلوم تھیں اور وہ ان کے حدود اور ان کی انتہا کو خوب جانتا تھا۔اسے ہرشے کے ذاتی اطراف کا بھی علم تھا اوراس کے ساتھ شامل ہو جانے والی اشیاء کا بھی علم تھا۔

اس کے بعد اس نے فضا کی وسعتیں۔اس کے اطراف واکناف اورہوائوں کے طبقات ایجاد کئے اور ان کے درمیان وہ پانی بہا دیا جس کی لہروں میں تلاطم تھا اور جس کی موجیں تہ بہ تہ تھیں اور اسے ایک تیز و تند ہوا کے کاندھے پر لا د دیا اور پھر ہوا کو الٹنے پلٹنے اور روک کر رکھنے کا حکم دے دیا اور اس کی حدوں کو پانی کی حدوں سے یوں ملا دیا کے نیچے ہوا کی وستعیں تھیں اور اوپر پانی کا طلاطم۔

اس کے بعد ایک اور ہوا ایجاد کی جس

صرف اندازے میں جن پر ساراکاروبار چل رہا ہے اور ایسے ماحول میں ہر شخص کوایک نئی رائے قائم کرنے کاحق ہے اور کسی کو یہ چیلنج کرنے کا حق نہیں ہے کہ یہ رائے آلات اور وسائل سے پہلے کی ہے لہٰذا اس کی کوئی قیمت نہیں ہے امیر المومنین نے اصل کائنات پانی کو قرار دیا ہے اور اسی کی طرف قرآن مجید نے بھی اشارہ کیاہے اور آپ کی رائے دیگر آراء کے مقابلہ میں اس لئے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ اس کی بنیاد تحقیق۔انکشاف 'تجربہ اور اندازہ پر نہیں ہے بلکہ یہ اس مالک کا دیا ہوا بے پناہ علم ہے جس نے اس کائنات کو بنایا ہے اورکھلی بات ہے کہ مالک سے زیادہ مخلوقات سے با خبر اور کون ہو سکتا ہے۔امیر المومنین نے اپنے بیان میں تین نکات کی طرف توجہ دلائی ہے:(۱) اصل کائنات پانی ہے اور پانی کو قابل استعمال ہوا نے بنایا ے۔(۲) اس فضائے بسیط کے تین رخ ہیں، بلندی جس کو اجواء کہا جاتا ہے اور اطراف جسے ارجاء سی تعبیر کیا جاتا ہے اور طبقات جنہیں سکائک کا نام دیا جاتا ہے۔عام طور سے علماء فلک کو اکب کے ہر مجموعہ کو سکہ کا نام دیتے ہیں جس می ایک ارب سے زیادہ ستارے پائے جاتے ہیں جس طرح کہ ہمارے اپنے نظام شمسی کا حال ہے کہ اس میں ایک ارب سے زیادہ ستاروں کا انکشاف کیا جا چکا ہے۔(۳) آسمانی مخلوقات میں ایک مزکزی شے ہے جسے اس کی حرکت کی بنا پرچراغ کہا جاتا ہے اورایک اس کے گرد حرکت کرنے والی زمین ہے اور ایک زمین کے گرد حرکت کرنے والا ستارہ ہے جسے قمر کہا جاتا ہے اورعلماء فلک اس تابع در تابع کو قمر کہتے ہیں کو کب نہیں کہتے ہیں

۷

اعْتَقَمَ مَهَبَّهَا ، وأَدَامَ مُرَبَّهَا وأَعْصَفَ مَجْرَاهَا، وأَبْعَدَ مَنْشَأَهَا فَأَمَرَهَا بِتَصْفِيقِ الْمَاءِ الزَّخَّارِ، وإِثَارَةِ مَوْجِ الْبِحَارِ فَمَخَضَتْه مَخْض السِّقَاءِ، وعَصَفَتْ بِه عَصْفَهَا بِالْفَضَاءِ، تَرُدُّ أَوَّلَه إِلَى آخِرِه وسَاجِيَه إِلَى مَائِرِه حَتَّى عَبَّ عُبَابُه ورَمَى بِالزَّبَدِ رُكَامُه ، فَرَفَعَه فِي هَوَاءٍ مُنْفَتِقٍ وجَوٍّ مُنْفَهِقٍ، فَسَوَّى مِنْه سَبْعَ سَمَوَاتٍ، جَعَلَ سُفْلَاهُنَّ مَوْجاً مَكْفُوفاً ، وعُلْيَاهُنَّ سَقْفاً مَحْفُوظاً وسَمْكاً مَرْفُوعاً، بِغَيْرِ عَمَدٍ يَدْعَمُهَا ولَا دِسَارٍ يَنْظِمُهَا ثُمَّ زَيَّنَهَا بِزِينَةِ الْكَوَاكِبِ وضِيَاءِ الثَّوَاقِبِ ، وأَجْرَى فِيهَا سِرَاجاً مُسْتَطِيراً وقَمَراً مُنِيراً، فِي فَلَكٍ دَائِرٍ وسَقْفٍ سَائِرٍ ورَقِيمٍ مَائِرٍ.

خلق الملائكة

ثُمَّ فَتَقَ مَا بَيْنَ السَّمَوَاتِ الْعُلَا،

کی حرکت میں کوئی تولیدی صلاحیت نہیں تھی اور اسے مرکز پر روک کراس کے جھونکوں کو تیز کردیا اور اس کے میدان کو وسیع تر بنادیا اور پھراسے حکم دیدیا کہ اس بحر زخار کو متھ ڈالے اور موجوں کو الٹ پلٹ کردے۔چنانچہ اس نے سارے پانی کو ایک مشکیزہ کی طف متھ ڈالا اوراسے فضائے بسیط میں اس طرح لے کرچلی کہ اول کو آخر پر الٹ دیا اور ساکن کو متحرک پر پلٹ دیا اور اسکے نتیجہ میں پانی کی ایک سطح بلند ہوگئی اور اس کے اوپر ایک جھاگ کی تہہ بن گئی۔پھر اس جھاگ کو پھیلی ہوئی ہوا اور کھلی ہوئی فضا میں بلند کردیا اوراس سے سات آسمان پیدا کردئیے جس کی نچلی سطح ایک ٹھہری ہوئی موج کی طرح تھی اور اوپر کا حصہ ایک محفوظ سقف اوربلند عمارت کے مانند تھا۔نہ اس کا کوئی ستون تھا جو سہارا دے سکے اور نہ کوئی بندھن تھا جو منظم کر سکے ۔پھر ان آسمانوں کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا اور ان میں تا بندہ نجوم کی روشنی پھیلادی اور ان کے درمیان ایک ضوفگن چراغ اور ایک روشن ماہتاب رواں کردیا جس کی حرکت ایک گھومنے والے فلک اور ایک متحرک چھت اور جنبش کرنے والی تختی میں تھی۔

پھر اس نے بلند ترین آسمانوں کے درمیان شگاف پیدا کئے

۸

فَمَلأَهُنَّ أَطْوَاراً مِنْ مَلَائِكَتِه، مِنْهُمْ سُجُودٌ لَا يَرْكَعُونَ ورُكُوعٌ لَا يَنْتَصِبُونَ، وصَافُّونَ لَا يَتَزَايَلُونَ ومُسَبِّحُونَ لَا يَسْأَمُونَ، لَا يَغْشَاهُمْ نَوْمُ الْعُيُونِ ولَا سَهْوُ الْعُقُولِ، ولَا فَتْرَةُ الأَبْدَانِ ولَا غَفْلَةُ

النِّسْيَانِ، ومِنْهُمْ أُمَنَاءُ عَلَى وَحْيِه وأَلْسِنَةٌ إِلَى رُسُلِه، ومُخْتَلِفُونَ بِقَضَائِه وأَمْرِه، ومِنْهُمُ الْحَفَظَةُ لِعِبَادِه والسَّدَنَةُ لأَبْوَابِ جِنَانِه، ومِنْهُمُ الثَّابِتَةُ فِي الأَرَضِينَ السُّفْلَى أَقْدَامُهُمْ، والْمَارِقَةُ مِنَ السَّمَاءِ الْعُلْيَا أَعْنَاقُهُمْ، والْخَارِجَةُ مِنَ الأَقْطَارِ أَرْكَانُهُمْ، والْمُنَاسِبَةُ لِقَوَائِمِ الْعَرْشِ أَكْتَافُهُمْ،

اور انہیں طرح طرح کے فرشتوں سے بھر دیا

جن میں سے بعض سجدہ میں ہیں تو رکوع کی نوبت نہیں آتی ہے اور بعض رکوع میں ہیں تو سر نہیں اٹھاتے ہیں اور بعض صف باندھے ہوئے ہیں تو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتے

ہیں بعض مشغول تسبیح ہیں تو خستہ حال نہیں ہوتے ہیں سب کے سب وہ ہیں کہ ان کی آنکھوں پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے اورنہ عقلوں پر سہوو نسیان کا۔ نہ بدن میں سستی پیدا ہوتی ہے اور نہ دماغ میں نسیان کی غفلت۔

ان میں سے بعض کو وحی کا امین اور رسولوں کی طرف قدرت کی زبان بنایا گیا ہے جو اس کے فصیلوں اور احکام کو برابر لاتے رہتے ہیں اور کچھ اس کے بندوں کے محافظ اور جنت کے دروازوں کے دربان ہیں اور بعض وہ بھی ہیں جن کے قدم زمین کے آخری طبقہ میں ثابت ہیں اور گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باہرنکلی ہوئی ہیں۔ان کے اطراف بدن اقطار عالم سے وسیع تر ہیں اور ان کے کاندھے پایہ ہائے عرش کے اٹھانے کے قابل ہیں۔

۹

نَاكِسَةٌ دُونَه أَبْصَارُهُمْ مُتَلَفِّعُونَ تَحْتَه بِأَجْنِحَتِهِمْ، مَضْرُوبَةٌ بَيْنَهُمْ وبَيْنَ مَنْ دُونَهُمْ حُجُبُ الْعِزَّةِ، وأَسْتَارُ الْقُدْرَةِ، لَا يَتَوَهَّمُونَ رَبَّهُمْ بِالتَّصْوِيرِ،ولَا يُجْرُونَ عَلَيْه صِفَاتِ الْمَصْنُوعِينَ، ولَا يَحُدُّونَه بِالأَمَاكِنِ ولَا يُشِيرُونَ إِلَيْه بِالنَّظَائِرِ.

صفة خلق آدمعليه‌السلام

ثُمَّ جَمَعَ سُبْحَانَه مِنْ حَزْنِ الأَرْضِ وسَهْلِهَا، وعَذْبِهَا وسَبَخِهَا ، تُرْبَةً سَنَّهَا بِالْمَاءِ حَتَّى خَلَصَتْ، ولَاطَهَا بِالْبَلَّةِ حَتَّى لَزَبَتْ ، فَجَبَلَ مِنْهَا صُورَةً ذَاتَ أَحْنَاءٍ ووُصُولٍ وأَعْضَاءٍ، وفُصُولٍ أَجْمَدَهَا حَتَّى اسْتَمْسَكَتْ، وأَصْلَدَهَا حَتَّى صَلْصَلَتْ لِوَقْتٍ مَعْدُودٍ وأَمَدٍ مَعْلُومٍ، ثُمَّ نَفَخَ فِيهَا مِنْ رُوحِه، فَمَثُلَتْ إِنْسَاناً

ان کی نگاہیں عرش الٰہی کے سامنے جھکی ہوئی ہیں اوروہ اس کے نیچے پروں کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ان کے اور دیر مخلوقات کے درمیان عزت کے حجاب اور قدرت کے پردے حائل ہیں۔وہ اپنے پروردگار کے بارے میں شکل و صورت کا تص و ر بھی نہیں کرتے ہیں اور نہ اس کے حق میں مخلوقات کے صفات کو جاری کرتے ہیں۔وہ نہ اسے مکان میں محود کرتے ہیں اور نہ اس کی طرف اشباہ ونظائر سے اشارہ کرتے ہیں۔

تخلیق جناب آدم کی کیفیت

اس کے بعد پروردگار(۱) نے زمین کے سخت و نرم اور شورو شیریں حصوں سے خاک کو جمع کیا اور اسے پانی سے اس قدر بھگویا کہ بالکل خالص ہوگئی اور پھر تری میں اس قدر گوندھا کہ لسدار بن گئی اور اس سے ایک ایسی صورت بنائی جس میں موڑ بھی تھے اور جوڑ بھی۔اعضاء بھی تھے اور جوڑ بند بھی۔پھر اسے اس قدر سکھایا کہ مضبوط ہوگئیاور اس قدر سخت کیا کہ کنکھنانے لگی اور یہ صورت حال ایک وقت معین اور مدت خاص تک برقرار رہی جس کے بعد اس میں مالک نے اپنی روح کمال پھونک دی اور اسے ایسا انسان بنادیا

(۱) انسان کی کمزوری کے سلسلہ میں اتنا ہی کافی ہے کہ اسے اپنی اصل کے بارے میں اتنا بھی معلوم نہیں ہے جتنا دوسری مخلوقات کے بارے میں علم ہے۔وہ نہ اپنے مادہ کی اصل سے با خبر ہے اورنہ اپنی رو ح کی حقیقت سے۔مالک نے اسے متضاد عناصر سے ایسا جامع بنادیا ہے کہ جسم صغیرمیں عالم اکبر سما گیا ہے اور بقول شخصے اس میں جمادات جیسا کون و فساد، نباتات جیسا نمو حیوان جیسی حرکت اور ملائکہ جیسی اطاعت و حیات سے پائی جاتی ہے اوراوصاف کے اعتبار سے بھی اس میں کتے جیسی خوشامد' مکرڑی جیسے تانے بانے، قنفذ جیسے اسلحے، پرندوں جیسا تحفظ، حشر ات الارض جیسا تحفظ' ہرن جیسی اچھل کود، چوہے ،چوہے جیسی چوری، مور جیسا غرور'اونٹ جیسا کینہ، خچر جیسی شرارت'بلبل جیسا ترنم' بچھو جیسا ڈنگ سب کچھ پایا جاتا ہے

۱۰

ذَا أَذْهَانٍ يُجِيلُهَا، وفِكَرٍ يَتَصَرَّفُ بِهَا وجَوَارِحَ يَخْتَدِمُهَا ، وأَدَوَاتٍ يُقَلِّبُهَا ومَعْرِفَةٍ يَفْرُقُ بِهَا بَيْنَ الْحَقِّ والْبَاطِلِ، والأَذْوَاقِ والْمَشَامِّ والأَلْوَانِ والأَجْنَاسِ، مَعْجُوناً بِطِينَةِ الأَلْوَانِ الْمُخْتَلِفَةِ، والأَشْبَاه الْمُؤْتَلِفَةِ والأَضْدَادِ الْمُتَعَادِيَةِ، والأَخْلَاطِ الْمُتَبَايِنَةِ مِنَ الْحَرِّ والْبَرْدِ، والْبَلَّةِ والْجُمُودِ، واسْتَأْدَى اللَّه سُبْحَانَه الْمَلَائِكَةَ وَدِيعَتَه لَدَيْهِمْ، وعَهْدَ وَصِيَّتِه إِلَيْهِمْ فِي الإِذْعَانِ بِالسُّجُودِ لَه، والْخُنُوعِ لِتَكْرِمَتِه، فَقَالَ سُبْحَانَه:( اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ ) ، اعْتَرَتْه الْحَمِيَّةُ، وغَلَبَتْ عَلَيْه الشِّقْوَةُ، وتَعَزَّزَ بِخِلْقَةِ النَّارِ واسْتَوْهَنَ خَلْقَ الصَّلْصَالِ، فَأَعْطَاه اللَّه النَّظِرَةَ اسْتِحْقَاقاً لِلسُّخْطَةِ، واسْتِتْمَاماً لِلْبَلِيَّةِ وإِنْجَازاً لِلْعِدَةِ، فَقَالَ:( فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ إِلى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ) .

ثُمَّ أَسْكَنَ سُبْحَانَه آدَمَ دَاراً أَرْغَدَ فِيهَا، عَيْشَه وآمَنَ فِيهَا مَحَلَّتَه وحَذَّرَه إِبْلِيسَ وعَدَاوَتَه،

.

جس میں ذہن کی جولانیاں بھی تھیں اورفکر کے تصرفات بھی۔کام کرنے والے اعضاء و جوارح بھی تھے اور حرکت کرنے والے ادوات و آلات بھی حق و باطل میں فرق کرنے والی معرفت بھی تھی اورمختلف ذائقوں ' خوشبووں' رنگ و روغن میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی۔ اسے مختلف قسم کی مٹی سے بنایا گیا جس میں موافق اجزاء بھی پائے جاتے تھے اورمتضاد و عناصربھی اور گرمی ' سردی' تری خشکی جیسے کیفیات بھی۔ پھر پروردگار نے ملائکہ سے مطالبہ کیا کہ اس کی امانت کو واپس کریں اور اس کی معہودہ وصیت پرعمل کریں یعنی اس مخلوق کے سامنے سر جھکادیں اور اس کی کرامت کا اقرار کرلیں۔چنانچہ اس نے صاف صاف اعلان کردیا کہ آدم کو سجدہ کرو اور سب نے سجدہ بھی کرلیا سوائے ابلیس کے کہ اسے تعصب نے گھیر لیااور بد بختی غالب آگئی اور اس نے آگ کی خلقت کو وجہ عزت اور خاک کی خلقت کو وجہ ذلت قراردے دیا۔مگر پروردگار نے اسے غضب الٰہی کے مکمل استحقاق ،آزمائش کی تکمیل اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے یہ کہہ کر مہلت دے دی کہ'' تجھے روز وقت معلوم تک کے لئے مہلت دی جا رہی ہے''۔

اس کے بعد پروردگار نے آدم کو ایک ایسے گھرمیں ساکن کردیا جہاں کی زندگی خوش گوار اور مامون و محفوظ تھی اور پھر انہیں ابلیس اور اس کی عداوت سے بھی با خبر کردیا۔

۱۱

فَاغْتَرَّه عَدُوُّه نَفَاسَةً عَلَيْه بِدَارِ الْمُقَامِ، ومُرَافَقَةِ الأَبْرَارِ، فَبَاعَ الْيَقِينَ بِشَكِّه والْعَزِيمَةَ بِوَهْنِه، واسْتَبْدَلَ بِالْجَذَلِ وَجَلًا وبِالِاغْتِرَارِ نَدَماً، ثُمَّ بَسَطَ اللَّه سُبْحَانَه لَه فِي تَوْبَتِه، ولَقَّاه كَلِمَةَ رَحْمَتِه ووَعَدَه الْمَرَدَّ إِلَى جَنَّتِه، وأَهْبَطَه إِلَى دَارِ الْبَلِيَّةِ وتَنَاسُلِ الذُّرِّيَّةِ.

اختيار الأنبياء

واصْطَفَى سُبْحَانَه مِنْ وَلَدِه أَنْبِيَاءَ، أَخَذَ عَلَى الْوَحْيِ مِيثَاقَهُمْ وعَلَى تَبْلِيغِ الرِّسَالَةِ أَمَانَتَهُمْ، لَمَّا بَدَّلَ أَكْثَرُ خَلْقِه عَهْدَ اللَّه إِلَيْهِمْ، فَجَهِلُوا حَقَّه واتَّخَذُوا الأَنْدَادَ مَعَه، واجْتَالَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ عَنْ مَعْرِفَتِه، واقْتَطَعَتْهُمْ عَنْ عِبَادَتِه فَبَعَثَ فِيهِمْ رُسُلَه، ووَاتَرَ إِلَيْهِمْ أَنْبِيَاءَه لِيَسْتَأْدُوهُمْ مِيثَاقَ فِطْرَتِه، ويُذَكِّرُوهُمْ مَنْسِيَّ نِعْمَتِه، ويَحْتَجُّوا عَلَيْهِمْ بِالتَّبْلِيغِ، ويُثِيرُوا لَهُمْ دَفَائِنَ الْعُقُولِ، ويُرُوهُمْ آيَاتِ الْمَقْدِرَةِ،

مِنْ سَقْفٍ فَوْقَهُمْ مَرْفُوعٍ

لیکن دشمن نے ان کے جنت کے قیام اورنیک بندوں کی رفاقت سے جل کر انہیں دھوکہ دے دیا اور انہو ں نے بھی اپنے یقین محکم کو شک اور عزم مستحکم کو کمزوری کے ہاتھوں فروخت کردیا اور اس طرح مسرت کے بدلے خوف کو لے لیا اورابلیس کے کہنے میں آکر ندامت کا سامان فراہم کرلیا۔پھر پروردگار نے ان کے لئے توبہ کا سامان فراہم کردیا اور اپنے کلمات رحمت کی تلقن کردی اور ان سے جنت میں واپسی کاوعدہ کرکے انہیں آزمائش کی دنیامیں اتار دیا جہاں نسلوں کا سلسلہ قائم ہونے والا تھا۔

انبیاء کرام کا انتخاب

اس کے بعد اس نے ان کی اولاد میں سے ان انبیاء کا انتخاب کیا جن سے وحی کی حفاظت اور پیغام کی تبلیغ کی امانت کا عہد لیا اس لئے کہ اکثر مخلوقات نے عہد الٰہی کو تبدیل کر دیا تھا۔اس کے حق سے نا واقف ہوگئے تھے۔اس کے ساتھ دوسرے خدا بنالئے تھے اور شیطان نے انہیں معرفت کی راہ سے ہٹا کر عبادت سے یکسر جدا کردیا تھا۔ پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے۔ انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کی امانت کو واپس لیں اور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کویاد دلائیں تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کوباہرلائیں اور انہیں قدرت الٰہی کی نشانیاں دکھلائیں۔ یہ سروں پر بلند ترین چھت۔

۱۲

ومِهَادٍ تَحْتَهُمْ مَوْضُوعٍ، ومَعَايِشَ تُحْيِيهِمْ وآجَالٍ تُفْنِيهِمْ وأَوْصَابٍ تُهْرِمُهُمْ، وأَحْدَاثٍ تَتَابَعُ عَلَيْهِمْ، ولَمْ يُخْلِ اللَّه سُبْحَانَه خَلْقَه مِنْ نَبِيٍّ مُرْسَلٍ، أَوْ كِتَابٍ مُنْزَلٍ أَوْ حُجَّةٍ لَازِمَةٍ أَوْ مَحَجَّةٍ قَائِمَةٍ، رُسُلٌ لَا تُقَصِّرُ بِهِمْ قِلَّةُ عَدَدِهِمْ، ولَا كَثْرَةُ الْمُكَذِّبِينَ لَهُمْ، مِنْ سَابِقٍ سُمِّيَ لَه مَنْ بَعْدَه،

أَوْ غَابِرٍ عَرَّفَه مَنْ قَبْلَه عَلَى ذَلِكَ نَسَلَتِ الْقُرُونُ ومَضَتِ الدُّهُورُ، وسَلَفَتِ الآبَاءُ وخَلَفَتِ الأَبْنَاءُ.

مبعث النبي

إِلَى أَنْ بَعَثَ اللَّه سُبْحَانَه مُحَمَّداً، رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله لإِنْجَازِ عِدَتِه وإِتْمَامِ نُبُوَّتِه، مَأْخُوذاً عَلَى النَّبِيِّينَ مِيثَاقُه، مَشْهُورَةً سِمَاتُه كَرِيماً مِيلَادُه، وأَهْلُ الأَرْضِ يَوْمَئِذٍ مِلَلٌ مُتَفَرِّقَةٌ، وأَهْوَاءٌ مُنْتَشِرَةٌ وطَرَائِقُ مُتَشَتِّتَةٌ، بَيْنَ مُشَبِّه لِلَّه بِخَلْقِه أَوْ مُلْحِدٍ فِي اسْمِه، أَوْ مُشِيرٍ إِلَى غَيْرِه، فَهَدَاهُمْ بِه مِنَ الضَّلَالَةِ وأَنْقَذَهُمْ بِمَكَانِه مِنَ الْجَهَالَةِ، ثُمَّ اخْتَارَ سُبْحَانَه لِمُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله لِقَاءَه، ورَضِيَ لَه مَا عِنْدَه وأَكْرَمَه عَنْ دَارِ الدُّنْيَا،

یہ زیر قدم گہوارہ۔یہ زندگی کے اسباب۔یہ فنا کرنے والی اجل۔یہ بوڑھا بنا دینے والے امراض اور یہ پے پر دپے پیشآنے والے حادثات

اس نے کبھی اپنی مخلوقات کو بنی مرسل یا کتاب منزل یا حجت لازم یا طریق واضح سے محروم نہیں رکھا ہے۔ ایسے رسول بھیجے ہیں جنہیں نہ عدد کی قلت کام سے روک سکتی تھی اورنہ جھٹلانے والوں کی کثرت۔ان میں جو پہلے تھا اس بعد والے کا حال معلوم تھا اور جو بعد میں آیا اسے پہلے والے نے پہنچوادیا تھا اور یوں ہی صدیاں گزرتی رہیں اور زمانے بیتتے رہے۔آباء و اجداد جاتے رہے اور اولاد و احفاد آتے رہے۔

بعثت رسول اکرم (ص)

یہاں تک کہ مالک نے اپنے وعدہ کو پورا کرنے اور اپنے نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد(ص) کو بھیج دیا جن کے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اور جن کی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود و مبارک تھی۔اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب'منتشر خواہشات اورمختلف راستوں پر گامزن تھے۔کوئی خدا کو مخلوقات کی شبیہ بتا رہا تھا۔کوئی اس کے ناموں کوبگاڑ رہا تھا۔اور کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا۔مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اورجہالت سے باہر نکال لیا۔

اس کے بعد اس نے آپ کی ملاقات کو پسند کیا اور انعامات سے نوازنے کے لئے اس دار دنیا سے بلند کرلیا۔

۱۳

ورَغِبَ بِه عَنْ مَقَامِ الْبَلْوَى، فَقَبَضَه إِلَيْه كَرِيماً، وخَلَّفَ فِيكُمْ مَا خَلَّفَتِ الأَنْبِيَاءُ فِي أُمَمِهَا، إِذْ لَمْ يَتْرُكُوهُمْ هَمَلًا بِغَيْرِ طَرِيقٍ وَاضِحٍ ولَا عَلَمٍ قَائِمٍ

القرآن والأحكام الشرعية

كِتَابَ رَبِّكُمْ فِيكُمْ مُبَيِّناً حَلَالَه وحَرَامَه، وفَرَائِضَه وفَضَائِلَه ونَاسِخَه ومَنْسُوخَه ورُخَصَه وعَزَائِمَه وخَاصَّه وعَامَّه، وعِبَرَه وأَمْثَالَه ومُرْسَلَه ومَحْدُودَه ومُحْكَمَه ومُتَشَابِهَه مُفَسِّراً مُجْمَلَه ومُبَيِّناً غَوَامِضَه، بَيْنَ مَأْخُوذٍ مِيثَاقُ عِلْمِه ومُوَسَّعٍ

عَلَى الْعِبَادِ فِي جَهْلِه، وبَيْنَ مُثْبَتٍ فِي الْكِتَابِ فَرْضُه، ومَعْلُومٍ فِي السُّنَّةِ نَسْخُه، ووَاجِبٍ فِي السُّنَّةِ أَخْذُه، ومُرَخَّصٍ فِي الْكِتَابِ تَرْكُه، وبَيْنَ وَاجِبٍ بِوَقْتِه وزَائِلٍ فِي مُسْتَقْبَلِه، ومُبَايَنٌ بَيْنَ مَحَارِمِه مِنْ كَبِيرٍ أَوْعَدَ عَلَيْه نِيرَانَه، أَوْ صَغِيرٍ أَرْصَدَ لَه غُفْرَانَه، وبَيْنَ مَقْبُولٍ فِي أَدْنَاه مُوَسَّعٍ فِي أَقْصَاه.

آپ کو مصائب سے نجات دلادی اور نہایت احترام سے اپنی بارگاہ میں طلب کرلیا اور امت میں ویسا ہی انتظام کردیا جیسا کہ دیگر انبیاء نے کیا تھا کہ انہوں نے بھی قوم کو لاوارث نہیں چھوڑا تھا جس کے لئے کوئی واضح راستہ اورمستحکم نشان نہ ہو۔

قرآن اور احکام شرعیہ

انہوں نے تمہارے درمیان تمہارے پروردگار کی کتاب کو چھوڑا ہے جس کے حلال و حرام۔ فرائض و فضائل ناسخ و منسوخ۔رخصت و عزیمت۔خاص و عام۔عبرت و امثال ۔مطلق و مقید۔محکم و متشابہ سب کو واضح کردیا تھا۔مجمل کی تفسیرکردی تھی گتھیوں کو سلجھا دیاتھا۔اس میں بعض آیات ہیں جن کے علم کا عہد لیا گیا ہے اور بعض سے نا واقفیت کومعاف کردیا گیا ہے۔بعض احکام کے فرض کا کتاب میں ذکر کیا گیا ہے اور سنت سے ان کے منسوخ ہونے کا علم حاصل ہوا ہے یا سنت میں ان کے وجوب کا ذکرہوا ہے جب کہ کتاب میں ترک کرنے کی آزادی کا ذکرتھا۔بعض احکام ایک وقت میں واجب ہوئے ہیں اور مستقبل میں ختم کردئیے گئے ہیں۔اس کے محرمات میں بعض پر جہنم کی سزا سنائی گئی ہے اور بعض گناہ صغیرہ ہیں جن کی بخشش کی امید دلائی گئی ہے۔بعض احکام ہیں جن کا مختصر بھی قابل قبول ہے اور زیادہ کی بھی گنجائش پائی جاتی ہے۔

۱۴

ومنها في ذكر الحج

وفَرَضَ عَلَيْكُمْ حَجَّ بَيْتِه الْحَرَامِ، الَّذِي جَعَلَه قِبْلَةً لِلأَنَامِ، يَرِدُونَه وُرُودَ الأَنْعَامِ ويَأْلَهُونَ إِلَيْه وُلُوه الْحَمَامِ، وجَعَلَه سُبْحَانَه عَلَامَةً لِتَوَاضُعِهِمْ لِعَظَمَتِه، وإِذْعَانِهِمْ لِعِزَّتِه، واخْتَارَ مِنْ خَلْقِه سُمَّاعاً أَجَابُوا إِلَيْه دَعْوَتَه، وصَدَّقُوا كَلِمَتَه ووَقَفُوا مَوَاقِفَ أَنْبِيَائِه، وتَشَبَّهُوا بِمَلَائِكَتِه الْمُطِيفِينَ بِعَرْشِه، يُحْرِزُونَ الأَرْبَاحَ فِي مَتْجَرِ عِبَادَتِه، ويَتَبَادَرُونَ عِنْدَه مَوْعِدَ مَغْفِرَتِه، جَعَلَه سُبْحَانَه وتَعَالَى لِلإِسْلَامِ عَلَماً، ولِلْعَائِذِينَ حَرَماً فَرَضَ حَقَّه وأَوْجَبَ حَجَّه، وكَتَبَ عَلَيْكُمْ وِفَادَتَه ، فَقَالَ سُبْحَانَه:( ولِلَّه عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْه سَبِيلًا، ومَنْ كَفَرَ فَإِنَّ الله غَنِيٌّ عَنِ الْعالَمِينَ )

ذکر حج بیت اللہ

پروردگار نے تم لوگوں پر حج بیت الحرام کو واجب قرار دیا ہے جسے لوگوں کے لئے قبلہ بنایا ہے اور جہاں لوگ پیاسے جانوروں کی طرح بے تابانہ وارد ہوتے ہیں اورویسا انس رکھتے ہیں جیسے کبوتر اپنے آشیانہ سے رکھتا ہے۔ ح ج بییت اللہ کو مالک نے اپنی عظمت کے سامنے جھکنے کی علامت اور اپنی عزت کے ایقان کی نشانی قراردیا ہے۔اس نے مخلوقات میں سے ان بندوں کا انتخاب کیا ہے جواس کی آواز سن کرلبیک کہتے ہیں اوراس کے کلمات کی تصدیق کرتے ہیں۔انہوں نے انبیاء کے مواقف ہیں وقوف کیا ہے اور طواف عرش کرنے والے فرشتوں کا انداز اختیار کیا ہے۔یہ لوگ اپنی عبادت کے معاملہ میں برابر فائدے حاصل کر رہے ہیں اورمغفرت کی وعدہ گاہ کی طرف تیزی سے سبقت کر رہے ہیں۔

پروردگار نے کعبہ کو اسلام کی نشانی اور بے پناہ افراد کی پناہ گاہ قرار دیا ہے۔اس کے حج کو فرض کیا ہے اور اس کے حق کو واجب قرار دیا ہے۔تمہارے اوپر اس گھر کی حاضری کو لکھ دیا ہے اور صاف اعلان کردیا ہے کہ'' اللہ کے لئے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کے گھر کا حج کریں جس کے پاس بھی اس راہ کو طے کرنے کی استطاعت پائی جاتی ہو۔ اور جس نے انکار کیا تو اللہ تعالی عالمین سے بے نیاز ہے

۱۵

(۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد انصرافه من صفين

وفيها حال الناس قبل البعثة وصفة آل النبي ثم صفة قوم آخرين

أَحْمَدُه اسْتِتْمَاماً لِنِعْمَتِه واسْتِسْلَاماً لِعِزَّتِه، واسْتِعْصَاماً مِنْ مَعْصِيَتِه، وأَسْتَعِينُه فَاقَةً إِلَى كِفَايَتِه، إِنَّه لَا يَضِلُّ مَنْ هَدَاه ولَا يَئِلُ مَنْ عَادَاه، ولَا يَفْتَقِرُ مَنْ كَفَاه، فَإِنَّه أَرْجَحُ مَا وُزِنَ وأَفْضَلُ مَا خُزِنَ، وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وَحْدَه لَا شَرِيكَ لَه، شَهَادَةً مُمْتَحَناً إِخْلَاصُهَا مُعْتَقَداً مُصَاصُهَا، نَتَمَسَّكُ بِهَا أَبَداً مَا أَبْقَانَا، ونَدَّخِرُهَا لأَهَاوِيلِ مَا يَلْقَانَا، فَإِنَّهَا عَزِيمَةُ الإِيمَانِ وفَاتِحَةُ الإِحْسَانِ، ومَرْضَاةُ الرَّحْمَنِ ومَدْحَرَةُ الشَّيْطَانِ

(۲)

صفیں سے واپسی پرآپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جس میں بعثت پیغمبر(ص) کے وقت لوگوں کے حالات' آل رسول (ص) کے اوصاف اور دوسرے افراد کے کیفیات کاذکر کیا گیا ہے۔

میں پروردگار کی حمد کرتا ہوں اس کی نعمتوں کی تکمیل کے لئے اور اس کی عزت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے۔ میں اس کی نا فرمانی سے تحفظ چاہتا ہوں اور اس سے مدد مانگتا ہوں کہ میں اسی کی کفایت و کفالت کا محتاج ہوں۔وہ جسے ہدایت دیدے وہ گمراہ نہیں ہو سکتا ہے اور جس کا وہ دشمن ہو جائے اسے کہیں پناہ نہیں مل سکتی ہے۔

جس کے لئے وہ کافی ہو جائے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔اس حمد کا پلہ ہر باوزن شے سے گراں تر ہے اور یہ سرمایہ ہرخزانہ سے زیادہ قیمتی ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور یہ وہ گواہی ہے جس کے اخلاص کا امتحان ہو چکا ہے اور جس کا نچوڑ عقیدہ کا جزء بن چکا ہے۔میں اس گواہی سے تا حیات وابستہ رہوں گا اور اسی کو روز قیامت کے ہولناک مراحل کے لئے ذخیرہ بنائوں گا۔یہی ایمان کی مستحکم بنیاد ہے اوریہی نیکیوں کا آغاز ہے اور اسی میں رحمان کی مرضی اور شیطان کی تباہی کا راز مضمر ہے۔

۱۶

وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه، أَرْسَلَه بِالدِّينِ الْمَشْهُورِ والْعَلَمِ الْمَأْثُورِ، والْكِتَابِ الْمَسْطُورِ والنُّورِ السَّاطِعِ، والضِّيَاءِ اللَّامِعِ والأَمْرِ الصَّادِعِ، إِزَاحَةً لِلشُّبُهَاتِ واحْتِجَاجاً بِالْبَيِّنَاتِ، وتَحْذِيراً بِالآيَاتِ وتَخْوِيفاً بِالْمَثُلَاتِ ، والنَّاسُ فِي فِتَنٍ انْجَذَمَ فِيهَا حَبْلُ الدِّينِ، وتَزَعْزَعَتْ سَوَارِي الْيَقِينِ ، واخْتَلَفَ النَّجْرُ وتَشَتَّتَ الأَمْرُ، وضَاقَ الْمَخْرَجُ وعَمِيَ الْمَصْدَرُ، فَالْهُدَى خَامِلٌ والْعَمَى شَامِلٌ، عُصِيَ الرَّحْمَنُ ونُصِرَ الشَّيْطَانُ وخُذِلَ الإِيمَانُ، فَانْهَارَتْ دَعَائِمُه وتَنَكَّرَتْ مَعَالِمُه، ودَرَسَتْ

سُبُلُه وعَفَتْ شُرُكُه ، أَطَاعُوا الشَّيْطَانَ فَسَلَكُوا مَسَالِكَه ووَرَدُوا مَنَاهِلَه ، بِهِمْ سَارَتْ أَعْلَامُه وقَامَ لِوَاؤُه فِي فِتَنٍ دَاسَتْهُمْ بِأَخْفَافِهَا ووَطِئَتْهُمْ بِأَظْلَافِهَا ، وقَامَتْ عَلَى سَنَابِكِهَا فَهُمْ فِيهَا تَائِهُونَ حَائِرُونَ جَاهِلُونَ مَفْتُونُونَ، فِي خَيْرِ دَارٍ وشَرِّ جِيرَانٍ، نَوْمُهُمْ سُهُودٌ وكُحْلُهُمْ دُمُوعٌ، بِأَرْضٍ عَالِمُهَا مُلْجَمٌ وجَاهِلُهَا مُكْرَمٌ.

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد(ص) اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔انہیں پروردگار نے مشہور دین' ماثور نشانی' روشن کتاب' ضیاء پاش نور' چمکدار روشنی اور واضح امر کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ شبہات زائل ہو جائیں اور دلائل کے ذریعہ حجت تمام کی جاسکے' آیات کے ذریعہ ہو شیار بنایا جا سکے اورمثالوں کے ذریعہ ڈرایا جا سکے۔

یہ بعثت اس وقت ہوئی ہے جب لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمان دین ٹوٹ چکی تھی۔یقین کے ستون ہل گئے تھے۔اصول میں شدید اختلاف تھا اور امور میں سخت انتشار۔مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہوگئے تھے۔ہدایت گمنام تھی اور گمراہی برسر عام۔،رحمان کی معصیت ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت' ایمان یکسر نظر انداز ہوگیا تھا' اس کے ستون گر گئے تھے اورآثار ناقابل شناخت ہوگئے تھے' راستے مٹ گئے تھے اور شاہراہیں بے نشان ہوگئی تھیں۔لوگ شیطان کی اطاعت میں اس کے راستہ پر چل رہے تھے۔ یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوں نے انہیں پیروں تلے روند دیا تھا اور سموں سے کچل دیا تھا اور خود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے تھے۔یہ لوگ فتنوں میں حیران و سر گرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے۔ پروردگار نے انہیں اس گھر ( مکہ) میں بھیجا جو بہترین مکان تھا لیکن بدترین ہمسائے۔جن کی نیند بیداری تھی اور جن کا سرمہ آنسو۔ وہ سر زمین جہاں عالم کو لگام لگی ہوئی تھی اور جاہل محترم تھا

۱۷

ومنها يعني آل النبي عليه الصلاة والسلام

هُمْ مَوْضِعُ سِرِّه ولَجَأُ أَمْرِه وعَيْبَةُ عِلْمِه ومَوْئِلُ حُكْمِه، وكُهُوفُ كُتُبِه وجِبَالُ دِينِه، بِهِمْ أَقَامَ انْحِنَاءَ ظَهْرِه وأَذْهَبَ ارْتِعَادَ فَرَائِصِه

ومِنْهَا يَعْنِي قَوْماً آخَرِينَ

زَرَعُوا الْفُجُورَ وسَقَوْه الْغُرُورَ وحَصَدُوا الثُّبُورَ، لَا يُقَاسُ بِآلِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله مِنْ هَذِه الأُمَّةِ أَحَدٌ، ولَا يُسَوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَيْه أَبَداً، هُمْ أَسَاسُ الدِّينِ وعِمَادُ الْيَقِينِ، إِلَيْهِمْ يَفِيءُ الْغَالِي وبِهِمْ يُلْحَقُ التَّالِي، ولَهُمْ خَصَائِصُ حَقِّ الْوِلَايَةِ، وفِيهِمُ الْوَصِيَّةُ والْوِرَاثَةُ، الآنَ إِذْ رَجَعَ الْحَقُّ إِلَى أَهْلِه ونُقِلَ إِلَى مُنْتَقَلِه!

آل رسول اکرم (ص)

یہ لوگ راز الٰہی کی منزل اورامر دین کا ملجاء و ماویٰ ہیں۔یہی علم خداکے مرکز اورحکم خداکی پناہ گاہ ہیں۔کتابوں نے یہیں پناہ لی ہے اور دین کے یہی کوہ گراں ہیں۔انہیں کے ذریعہ پرورگار نے دین کی پشت کی کجی سیدھی کی ہے اور انہیں کےذریعہ اس کے جوڑ بند کے رعشہ کا علاج کیا ہے ۔

ایک دوسری قوم

ان لوگوں نے فجور کا بیج بویا ہے اور اسے غرور کے پانی سے سینچا ہے اور نتیجہ میں ہلاکت کو کاٹاہے۔یادرکھو کہ آل محمد(ص) پر اس امت میں کس کا قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ان لوگوں کو ان کے بر قرار دیا جا سکتا ہے جن پر ہمیشہ ان کی نعمتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

آل محمد(ص) دین کی اساس اوریقین کا ستون ہیں۔ ان سے آگے بڑھ جانے والا پلٹ کرانہیں کی طرف آتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا بھی انہیں سے آکر ملتا ہے۔ان کے پاس حق و لایت کے خصوصیات ہیں اور انہیں کے درمیان

پیغمبر(ص) کی وصیت اور ان کی وراثت ہے۔اب جب کہ حق اپنے اہل کے پاس واپس آگیا ہے اور اپنی منزل کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔

۱۸

(۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي المعروفة بالشقشقية

وتشتمل على الشكوى من أمر الخلافة ثم ترجيح صبره عنها ثم مبايعة الناس له

أَمَا واللَّه لَقَدْ تَقَمَّصَهَا فُلَانٌ وإِنَّه لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى، يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ ولَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ، فَسَدَلْتُ دُونَهَا ثَوْباً وطَوَيْتُ عَنْهَا كَشْحاً وطَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَةٍ عَمْيَاءَ ، يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ ويَشِيبُ فِيهَا الصَّغِيرُ، ويَكْدَحُ فِيهَا مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّه،

ترجيح الصبر

فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى هَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وفِي الْعَيْنِ قَذًى وفِي الْحَلْقِ شَجًا أَرَى تُرَاثِي نَهْباً حَتَّى مَضَى الأَوَّلُ لِسَبِيلِه، فَأَدْلَى بِهَا إِلَى فُلَانٍ بَعْدَه، ثُمَّ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الأَعْشَى:

شَتَّانَ مَا يَوْمِي عَلَى كُورِهَا

ويَوْمُ حَيَّانَ أَخِي جَابِرِ

فَيَا عَجَباً بَيْنَا هُوَ يَسْتَقِيلُهَا فِي حَيَاتِه، إِذْ عَقَدَهَا لِآخَرَ بَعْدَ وَفَاتِه

(۳)

آپ کے ایک خطبہ کا حصہ

جسے شقشقیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے

آگاہ ہو جائو کہ خداکی قسم فلاں شخص ( ابن ابی قحافہ) نے قمیص خلافت کو کھینچ تان کر پہن لیا ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ خلات کی چکی کے لئے میری حیثیت مرکزی کیل کی ہے۔علم کا سیلاب میری ذات سے گزر کرنیچے جاتا ہے اور میری بلندی تک کسی کا طائر فکر بھی پرواز نہیں کر سکتا ہے۔پھر بھی میں نے خلافت کے آگے پردہ ڈا ل دیا اور اس سے پہلے تہی کرلی اوریہ سوچنا شروع کردیا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کردوں یا اسی بھیانک اندھیرے پرصبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف ہو جائے اوربچہ بوڑھا ہو جائے اور مومن محنت کرتے کرتے خدا کی بارگاہ تک پہنچ جائے۔

تو میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کرلیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اورگلے میں رنج و غم کے پھندے تھے۔میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا ۔یہاں تک کہ پہلے خلیفہ نے اپنا راستہ لیا اور خلافت کو اپنے بعد فلاں کے حوالے کردیا بقول اعشی:''کہاں وہ دن جو گزرتا تھا میرا اونٹوں پر۔کہاں یہ دن کہ میں حیان کے جوار میں ہوں '' حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں استعفا دے رہا تھا اور مرنے کے بعد کے لئے دوسرے کے لئے طے کرگیا

۱۹

لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا ضَرْعَيْهَا ، فَصَيَّرَهَا فِي حَوْزَةٍ خَشْنَاءَ يَغْلُظُ كَلْمُهَا ، ويَخْشُنُ مَسُّهَا ويَكْثُرُ الْعِثَارُ فِيهَا والِاعْتِذَارُ مِنْهَا، فَصَاحِبُهَا كَرَاكِبِ الصَّعْبَةِ ، إِنْ أَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وإِنْ أَسْلَسَ

لَهَا تَقَحَّمَ ، فَمُنِيَ النَّاسُ لَعَمْرُ اللَّه بِخَبْطٍ وشِمَاسٍ وتَلَوُّنٍ واعْتِرَاضٍ ، فَصَبَرْتُ عَلَى طُولِ الْمُدَّةِ وشِدَّةِ الْمِحْنَةِ حَتَّى إِذَا مَضَى لِسَبِيلِه، جَعَلَهَا فِي جَمَاعَةٍ زَعَمَ أَنِّي أَحَدُهُمْ فَيَا لَلَّه ولِلشُّورَى ، مَتَى اعْتَرَضَ الرَّيْبُ فِيَّ مَعَ الأَوَّلِ مِنْهُمْ، حَتَّى صِرْتُ أُقْرَنُ إِلَى هَذِه النَّظَائِرِ ، لَكِنِّي أَسْفَفْتُ إِذْ أَسَفُّوا وطِرْتُ إِذْ طَارُوا، فَصَغَا رَجُلٌ مِنْهُمْ لِضِغْنِه ، ومَالَ الآخَرُ لِصِهْرِه مَعَ هَنٍ وهَنٍ إِلَى أَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ نَافِجاً حِضْنَيْه ، بَيْنَ نَثِيلِه ومُعْتَلَفِه ، وقَامَ مَعَه بَنُو أَبِيه يَخْضَمُونَ مَالَ اللَّه،

بیشک دونوں نے مل کر شدت سے اس کے تھنوں کو دوہا ہے۔اور اب ایک ایسی درشت اور سخت منزل میں رکھ دیا ہے جس کے زخم کاری ہیں اورجس کو چھونے سے بھی درشتی کا احساس ہوتا ہے۔لغزشوں کی کثرت ہے اورمعذرتوں کی بہتات! اس کو برداشت کرنے والا ایس ہی ہے جیسے سر کش اونٹنی کا سوار کہ مہار کھنیچ لے تو ناک زخمی ہو جائے اور ڈھیل دیدے تو ہلاکتوں میں کود پڑے۔تو خدا کی قسم لوگ ایک کجروی' سر کشی' تلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہوگئے ہیں اور میں نے بھی سخت حالات میں طویل مدت تک صبر کیا یہاں تک کہ وہ بھی اپنے راستہ چلا گیا لیکن خلافت کو ایک جماعت میں قرار دے گیا جن میں ایک مجھے بھی شمار کرگیا جب کہ میرا اس شوریٰ سے کیا تعلق تھا؟مجھ میں پہلے دن کون سا عیب و ریب تھا کہ آج مجھے ایسے لوگوں کے ساتھ ملایا جا رہا ہے۔لیکن اس کے باوجود میں نے انہیں کی فضا میں پرواز کی اور یہ نزدیک فضا میں اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا اور اونچے اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا مگرپھر بھی ایک شخص اپنے کینہ کی بنا پرمجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسری دامادی کی طرف جھک گیا اور کچھ اوربھی ناقابل ذکراسباب واشخاص تھے جس کے نتجیہ میں تیسرا شخص سرگین اورچارہ کے درمیان پیٹ پھلائے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے اہل خاندان بھی کھڑے ہوئے جو مال خا کو اس طرح ہضم کر رہے تھے

۲۰

اور جس طرف ہم نے اشارہ کیا ہے، ایک دوسرا فرق قوت کشش (جذب) کی مقدار کا ہے۔ جس طرح کہ نیوٹن کے ''نظریہ کشش '' کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی شئے کی جسامت اور کمتر فاصلے کی نسبت سے کشش اور جذب کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے۔ انسانوں میں جذب کرنے والی شخصیت کے اعتبار سے جذب اور دباؤ (دفع) کی مقدار میں فرق پیدا ہوتا ہے۔

علی علیہ السّلام۔ دوہری قوت والی شخصیت

علی(ع) ان لوگوں میں سے ہیں جو جاذبہ بھی رکھتے ہیں اور دافعہ بھی اور ان کا جاذبہ و دافعہ سخت قوی ہیں۔ شاید تمام صدیوں اور زمانوں میں علی (ع) کے جاذبہ و دافعہ کی طرح کا قوی جاذبہ و دافعہ ہم پیدا نہ کر سکیں۔ وہ ایسے عجیب تاریخی، فداکار اور درگزر کرنے والے دوست رکھتے ہیں جو ان کے عشق میںآتش خرمن کے شعلوں کی طرح بھڑکتے اور دمکتے ہیں۔ وہ اس کی راہ میں جان دینے کواپنی آرزو اور اپنا سرمایہئ افتخار سجھتے ہیں اور جنہوں نے ان کی محبت میں ہر شئے کو بھلا دیا ہے۔ علی(ع) کی موت کو سالہا سال بلکہ صدیاں گزر چکی ہیں لیکن یہ جاذبہ و افعہ اسی طرح اپنا جلوہ دکھا رہا ہے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔

ان کی زندگی میں ایسے شریف و نجیب، خدا پرست، فداکار، بے لوث عناصر اور عفو و درگزر کرنے والے مہربان، عادل اور خدمت خلق کرنے والے لوگ ان کی ذات کے محور پر اس طرح گھومتے تھے کہ ان میں سے ہرایک، ایک سبق آموز تاریخ رکھتا ہے اور ان کی موت کے بعد معاویہ و دیگر اموی خلفاء کے دور میں بے شمار لوگ ان کی دوستی کی پاداش میں سخت ترین شکنجوں میں کسے گئے، لیکن علی (ع) کی دوستی اور عشق میں ان کے قدم نہ لڑکھڑائے اور آخری سانس تک وہ ثابت قدم رہے۔

دنیاوی شخصیتیں جب مرتی ہیں تو ان کے ساتھ ساری چیزیں مرجاتی ہیں اور ان کے جسم کے ساتھ زمین کے اندر پنہاں ہوجاتی ہیں۔ جبکہ حق والی شخصیتیں خود مر جاتی ہیںلیکن ان کا مکتب اور ان کے ساتھ لوگوں کا عشق صدیاںگزرنے کے باوجود تابندہ تر ہوجاتا ہے۔

۲۱

ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ علی (ع) کی موت کے سالہا سال بلکہ صدیوں بعد بھی لوگ دل و جان سے ان کے دشمنوں کے تیروں کو سینے سے لگاتے ہیں۔

علی علیہ السّلام کے مجذوبین اور عاشقوں میں سے ایک میثم تمار کوہم دیکھتے ہیں کہ مولیٰ (ع)ٰؑ کی شہادت کے بیس برس بعد بھی سولی پر علی (ع) کے فضائل اور بلند انسانی اوصاف بیان کرتے ہیں۔ ان دنوں جبکہ تمام اسلامی دنیا گھٹن کا شکار ہے،تمام آزادیاں سلب ہیں، سانسیں سینوں میں بند ہیں، موت کا ساسکوت اس طرح طاری ہے جیسے چہروں پر موت کا غبار چھایا ہوا ہو، وہ تختہئ دار پر سے فریاد کرتا ہے کہ آجاؤ میں تمہیں علی (ع) کے بارے میں بتادوں! لوگ میثم کی باتیں سننے کے لیے چاروں طرف سے ٹوٹ پڑتے ہیں۔

بنی امیہ اپنی آہنی حکومت اوراپنے مفاد کو خطرہ میں دیکھ کر حکم دیتی ہے کہ میثم کا منہ بند کر دیا جائے اور اس طرح انہوں نے چند روز میں میثم کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ تاریخ علی (ع) کے بہت سے ایسے عاشقوں کا پتہ دیتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ جذبے باقی زمانوں کو چھوڑ کر صرف کسی ایک عصر سے مختص ہوںٍ۔ ایسے طاقتور جذبوں کے جلوے ہم ہر دور میں دیکھتے ہیں کہ سخت مؤثر رہے ہیں۔

ابن سکیّت عربی ادب کے بڑے علماء میں سے ایک ہیں اور آج بھی عربی ادب کے ماہرین ان کو سیبویہ جیسے لوگوں کا ہم رتبہ سجھتے ہیںٍ۔ یہ عباسی خلیفہ متوکل کے دور کاآدمی ہے۔ یعنی علی علیہ السّلام کی شہادت کے تقریباً دو سو سال بعد کا۔ متوکل کے دربار میں اس پر شیعہ ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا۔ مگر چونکہ بہت ممتاز عالم تھا اس لیے متوکّل نے اسے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے منتخب کیا۔ ایک دن جب متوکل کے بچے اس کے دربار میں آئے تو ابن سکیّت بھی ساتھ تھا۔ اس سے پہلے اسی دن ان کا امتحان بھی ہوا تھا جس میں انہوں نے اچھی کارکردگی دکھائی تھی۔ متوکل نے اپنی خوشی کا اظہار کرنے کے لیے یاپہلے سے اس کے ذہن میں جوبات ڈالی گئی تھی کہ اس کا میلان شیعیت کی طرف ہے، اس کی تصدیق کے لیے،ابن سکیّتسے پوچھا کہ یہ دوبچے تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہیں یا علی کے فرزند حسن اور حسین علیہم السلام؟

۲۲

اس جملے اور اس موازنہ سے ابن سکیت سخت برہم ہوا۔ اس کا خون کھولنے لگا اور اپنے آپ سے کہا کہ مغرور شحص کے کرتوت یہاں تک پہنچ گئے کہ اپنے بچوں کا حسن اور حسین علیہما السلام کے ساتھ موازنہ کرتا ہے۔ یہ میرا قصور ہے کہ ان کی تعلیم کی ذمہ داری قبول کر رکھی ہے، اس نے متوکل کو جواب دیتے ہوئے کہا:

خدا کی قسم علی(ع) کا غلام قنبر میرے نزدیک ان دونوں بچوں اور ان کے باپ سے زیادہ محبوب ہے۔

متوکل نے اسی جگہ حکم دیا کہ ابن سکیت کی زبان پشت گردن سے کھینچ لی جائے۔

تاریخ بہت سے ایسے دیوانوں کو جانتی ہے جنہوں نے اپنی جانوں کو بے اختیار علی(ع) کی محبت کی راہ میں قربان کر دیا۔ یہ جاذبہ اور کہاں ملے گا؟ سوچا نہیں جا سکتا کہ دنیا میں اس کی کوئی اور نظیر ہو۔

علی (ع) کے دشمن بھی اتنے ہی شدید ہیں۔ ایسے دشمن جو ان کے نام سے پیچ و تاب کھاتے ہیں۔ علی (ع) ایک فرد کی شکل میں اب دنیا میں نہیں، لیکن ایک مکتب کی صورت میں موجود ہیں اور اسی وجہ سے ایک گروہ کو اپنی طرف جذب کرتے ہیں اور ایک گروہ کواپنے سے دور پھینکتے ہیں۔

جی ہاں! علی (ع) کی شخصیت میں دوہری طاقت ہے۔

۲۳

جاذبہئ علی علیہ السلام کی قوت

طاقت ور جاذبے

خاتم پیمبران (ص) کی پہلی جلد کے مقدمہ میں تعلیمات کے بارے میں ہم یوں پڑھتے ہیں:

انسانیت کے درمیان ظاہرہونے والی تعلیمات ساری یکساں نہ تھیں اور یہ کہ ان کی تاثیر کا دائرہ بھی ایک جیسا نہیں تھا۔

بعض تعلیمات اور فکری نظاموں کا صرف ایک ہی پہلو ہے اور انکی پیشرفت ایک ہی جانب ہے۔ اپنے زمانے میں ایک وسیع سطح کو اپنی لپیت میں لیا، لاکھوں کی تعداد میں پیروکاروں کی جماعت پیدا کی، لیکن ان کا زمانہ ختم ہونے کے بعد ان کی بساط ہستی لپیٹ دی گئی اور وہ طاقِ نسیان میں ڈال دی گئیں۔

بعض تعلیمات اور فکری نظاموںکے دو پہلوہیں، ان کی روشنی دو سمتوںمیں آگے بڑھی جس نے ایک وسیع سطح کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ اسی طرح بعد کے زمانوں میںبھی پیش رفت کی یعنی صرف ''مکان '' کا ہی پہلو نہ تھا بلکہ ''زمان '' پربھی وہ حاوی تھیں۔

اور بعض (تعلیمات اور فکری نظاموں) نے مختلف پہلوؤں سے پیش رفت کی ہے۔ وسیع سطح پر انسانی گروہوں کو لپیٹ میں لے کر اپنے زیر اثر کیا ہے۔ چنانچہ ہم دنیا کے ہر براعظم میں ان کا اثر و نفوذ دیکھتے ہیں اور '' زمان،، کا پہلو بھی۔ یعنی ایک عصر یا ایک زمانے سے مخصوص نہیں بلکہ صدیوں تک پورے اقتدار کے ساتھ ان کی حکمرانی رہی ہے۔ ان کی جڑیں انسانی روح کی گہرائیوں میں ہیں۔

انسانی ضمیر کے رازوں پر ان کا قبضہ ہے۔ قلب کی گہرائیوں پران کی حکمرانی ہے اور احساس کی نبض پران کا ہاتھ ہے۔ یہ سہ پہلو تعلیمات سلسلہئ انبیاء کے ساتھ مخصوص ہیں۔

ایسا کون سا فکری یا فلسفی مکتب پیدا کیا جا سکتا ہے جس نے دنیا کے بڑے ادیان کی مانند، کروڑوں انسانوں پر تیس، بیس، یا کم از کم چودہ صدیاں حکومت کی ہو اور انسانی ضمیر کو جھنجھورا ہو؟؟!

۲۴

جاذبے بھی اسی طرح ہیں۔ یعنی کبھی یک پہلو۔ کبھی دو پہلو اور کبھی سہ پہلو۔

علی (ع) کا جاذبہ آخری قسم (سہ پہلو) سے ہے۔ انسانی جمعیت کی ایک وسیع سطح کو اپنا دیوانہ بھی بنایا اور یہ بھی کہ ایسا صرف ایک یا دو صدیوں کے لیے نہیں، وہ وقت کے ساتھ باقی رہا بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو صدیوں اور عصروں سے درخشاں ہے اوراس طرح دل کی گہرائیوں اورباطن کو پنہائی میں پیوستہ ہے کہ صدیوں بعد بھی جب ان کو یاد کرتے ہیں اور ان کی اخلاقی بلندیوں کے بارے میں سنتے ہیں تو اشک شوق بہاتے ہیں اور ان کے مصائب پر گریہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ دشمن بھی متاثر ہو جاتے ہیں اور آنسو بہانے لگتے ہیں۔ یہ انتہائی طاقتور جاذبہ ہے۔

یہاں سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ دین کے ساتھ انسان کا رشہ کمروز مادی رشتوں کی طرح نہیں ہے بلکہ ایک ایسا رشتہ ہے کہ انسانی روح کے ساتھ اس طرح کا کوئی دوسرا رشتہ نہیں۔ علی(ع) اگر خدا کے رنگ میں رنگے ہوئے اور مرد خدا نہ ہوتے تو فراموش ہوچکے ہوتے۔ انسانی تاریخ میں ایسے بہت سے سپتوں کا سراغ ملتا ہے۔ میدان خطابت کے سپوت، مردان علم و فلسفہ، قدرت و سلطنت کے داتا، میدان جنگ کے ہیرو، لیکن یاان کو انسان نے بھلا دیا ہے یا سرے سے پہچانا ہی نہیں۔ مگر علی (ع) نہ صرف یہ کہ قتل ہونے کے باوجود نہیں مرے بلکہ آپ (ع) زندہ تر ہوگئے۔ خود فرماتے ہیں :

هلک خزان الاموال و هم احیاءٌ و العملاء باقون ما بقی الدهر اعیانهم مفقودة و امثالهم فی القلوب موجودة ۔(۱)

مال جمع کرنے والے زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہیں اور علماء باقی ہیں جب تک زمانہ باقی ہے۔ ان کے جسم نظروں سے اوجھل ہیں لیکن ان کے آثار دلوں میں موجود ہیں۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت: ۱

۲۵

اپنی ذات کے بارے میں فرماتے ہیں:

غدا ترون ایامی و یکشف لکم عن سرائری، و تعرفو ننی بعد خلو مکانی و قیام غیری مقامی ۔(۱)

کل تم میرے ایام دیکھو گے اور میری وہ خصوصیات تمہارے اوپر آشکار ہو جائیں گی جنہیں (آج) نہیں پہچانا گیا اور میری جگہ کے خالی ہونے اور میری جگہ پر میرے غیر کے بیٹھنے کے بعد تم مجھے پہچانو گے۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ: ۱۴۹

۲۶

عصرِ من ، دانندہئ اسرار نیست

میرا زمانہ اسرار کو جاننے والا نہیں

یوسف من بہر این بازار نیست

میرا یوسف اس بازار کے لیے نہیں ہے

نامید استم ز یا ران قدیم

میں اپنے پرانے دوستوں سے مایوس ہوں

طور من سوزدکہ می آید کلیم

میرا طور کلیم کے انتظار میں جل رہا ہے

قلزم یاران چوشبنم بی خروش

دوستوں کاسمندرشبنم کی طرح خاموش ہے

شبنم من مثل یمّ طوفان بہ دوش

میری شبنم موجوں کی طرح طوفانی ہے

۲۷

نغمہئ من ازجہان دیگر است

میرا نغمہ کسی اور ہی سے دنیا ہے

این جرس راکاروان دیگر است

یہ صدائے جرس کسی اور ہی کارواں کی ہے

ای بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد

بہت سے شاعر مرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں

چشم خود بربست و چشم ماگشاد

وہ اپنی آنکھوں بند کر کے ہماری آنکھیں کھولتے ہیں

رخت ناز از نیستی بیرون کشید

ان کا حسن نیستی سے نکھرتا ہے

چون گل از خاک مزار خود دمید

اپنے مزار کی خاک سے پھولوں کی طرح کھلتے ہیں

۲۸

درنمی گنجد بہ جو عمان من

میرا عمان ندی میں نہیں سماتا

بحرہا باید پی طوفان من

میرے طوفان کو سمندروں کی ضرورت ہے

برقہا خوابیدہ درجان من است

میرے دل میں بجلیاں سو رہی ہیں

کوہ و صحرا باب جولان من است

پہاڑاور بیابان میری دوڑ کےلئے دروازے ہیں

چشمہئِ حیوان کردہ اند

انہوں نے مجھے آب حیات بخشا ہے

محرم راز حیاتم کردہ اند

انہوں نے مجھے زندگی کا راز سمجھا دیا ہے

۲۹

ہیچ کس رازی کہ من گفتم نہ گفت

جوراز میں نے بتایا وہ کسی نے نہ بتایا

ہم چو فکر من در معنی نہ سفت

میری فکر کی طرح کسی نے معنی کے موتی نہ پروئے

پیرگردون با من این اسرار گفت

بوڑھے آسمان نے مجھے یہ راز سمجھائے

از ندیمان راز ہا نتوان نہفت(۱)

دوستوںسے کوئی چیزپوشیدہ نہیں رکھی جا سکتی

درحقیقت علی علیہ السّلام قوانین فطرت کی طرح ہیں جو جاودانی ہیں۔ وہ فیض کا ایسا سرچشمہ ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ دن بہ دن بڑھتا جاتا ہے اور بقول جبران خلیل جبران '' وہ ان شخصیتوں میں سے ہیں جو اپنے وقت سے پہلے ہی دنیا میں آگئیں۔''

بعض لوگ صرف اپنے زمانے کے رہنما ہیں۔ بعض اپنے بعد بھی تھوڑے سے عرصے کے لیے رہنما ہیں اور رفتہ رفتہ ان کی رہنمائی یاد سے محو ہوجاتی ہے۔ لیکن علی علیہ السّلام اور گنے چنے انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہادی اور رہنما ہیں۔

____________________

(۱)کلیات اشعار فارسی علامہ اقبال ص ۶۔ ۷

۳۰

تشیّع ۔ مکتب عشق و محبت

تمام مذاہب میں مذہب شیعہ کوجو سب سے بڑا امتیاز حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اس کی اساس اور بنیاد محبت پر ہے۔ خود نبی اکرم(ص) کے زمانے سے، جب سے اس مذہب کی بنیاد پڑی ہے، یہ محبت اور دوستی کا سرچشمہ رہا ہے ۔جہاں ہم رسول اکرم (ص) کی زبان سےعلی و شیعته هم الفائزون (۱) '' علی (ع) اور ان کے شیعہ کامیاب ہیں '' سنتے ہیں وہاں ایک ایسے گروہ کو ان کا گروہ دیکھتے ہیں کہ جو ان کا عاشق، ان کے ساتھ گرم جوشی رکھنے والا اور ان کا دیوانہ ہے۔ اس لحاظ سے تشیع عشق و شیفتگی کا مذہب ہے، ان حضرت (ع) کے ساتھ تو لا، عشق و محبت کا مکتب ہے۔ محبت کے عنصر کو تشیع میں مکمل دخل ہے۔ تشیع کی تاریخ عاشقوں، شیدائیوں، جانبازوں اور دیوانوں کے ایک سلسلے کا دوسرا نام ہے۔

____________________

(۱)جلال الدین سیوطی درمنشور میں سورہئ مبینہ کی آیت ۷ کے ذیل میں ابن عساکر سے اور وہ جابر عبد اللہ انصاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم پیغمبر (ص)کے دربار میں حاضر تھے کہ علی(ع) بھی حضور (ص) کی خدمت میں پہنچے ۔ حضور (ص) نے فرمایا: والذی نفسی بیدہ ان ھذا و شیعتہ ھم الفائزون یوم القیٰمۃ یعنی اس ذات کی قسم جس کے قبضہئ قدرت میں میری جان ہے یہ شخص اور اس کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہوں گے ۔ مناوی کنوز الحقائق میں اسے دو روایتوں سے نقل کرتے ہیں اور ہیثمی مجمع الزوائد میں اور ابن حجر صواعق محرقہ میں اسی مضمون کو دوسرے طریقے سے نقل کرتے ہیں۔

۳۱

علی(ع) وہ ہستی ہیں جو لوگوںپر خدائی حدود جاری کرتے، انہیں تازیانہ مارتے اور یقینی شرعی حد کے مطابق کسی کا ہاتھ کاٹتے لیکن اس کے باوجود لوگ ان سے منہ نہ پھیرتے اور ان کی محبت میں کوئی کمی نہ آتی۔ آپ (ع) خود فرماتے ہیں:

لو ضربت خیشوم المؤمن بسیفی هذا علیٰ ان یبغضنی ما ابغضنی، و

اگر تو دیکھے کہ میں اپنی اس تلوار سے مومن کو ماروں کہ وہ میرا دشمن ہو جائے تب بھی وہ میرے ساتھ دشمنی نہیں کرے

لو صببت الدنیا بجماتها علی المنافق علی ان یحبّنی ما احبنی، و ذٰلک انه قضی فانقضی علی لسان النبی الا می انه قال: یا علی لا یبعضک مؤمن و لا یحبک منافق ۔(۱)

گا اور اگر ساری دنیا کسی منافق کو دے دوں کہ وہ مجھے دوست رکھے تب بھی ہرگز میرے ساتھ محبت نہیں کرے گا کیونکہ یہ بات گزر چکی اور پیغمبر امی (ص) کی زبان پر جاری ہو چکی ہے۔ فرمایا: اے علی( ع ) مومن تجھ سے دشمنی نہیں رکھے گا اور منافق دوستی نہیں رکھے گا ۔

علی(ع) فطرتوں اور طینتوں کی پرکھ کے لیے ایک معیار اور میزان ہیں۔ جس کی فطرت صحیح اور طینت پاکیزہ ہو وہ ان سے ناراض نہیں ہوتا خواہ ان کی شمشیر اس پر ٹوٹے اور جو آلودہ فطرت رکھتا ہے ا سے ان سے محبت نہیں ہوتی اگرچہ وہ اس پر احسان بھی کریں۔ کیونکہ وہ مجسم حقیقت کے علاوہ کچھ اور نہیں۔

۳۲

امیر المؤ منین (ع) کے دوستداروں میں ایک شریف اور ایماندار شخص تھا بدقسمتی سے ایک لغزش اس سے سرزد ہوگئی اور اس پر حد جاری کرنا ضروری ہوگیا۔ امیرالمؤمنین(ع) نے اس کا داہنا ہاتھ قطع کیا۔ اس نے اس (قطع شدہ ہاتھ) کو بائیں ہاتھ سے پکڑا۔ خون بہ رہا تھا اور وہ جارہا تھا۔ ابن الکواء باغی خارجی نے اس موقعہ سے اپنے گروہ کے حق میں اور علی (ع) کے خلاف فائدہ اٹھانا چاہا، ہمدردانہ قیافہ بنا کر نزدیک گیااور کہا: تیرا ہاتھ کس نے قطع کیا؟ اس نے کہا:

قطع الیمینی سیّد الوصین و قائد الغر المحجلین و اولی الناس بالمؤمنین علی ابن ابی طالب، امام الهدیٰ، السابق الی جنات النعیم ،مصادم الابطال، المنتقم من الجهال معطی الزکاة،

میرا ہاتھ پیغمبروں کے جانشینوں کے سردار، قیامت کے دن سرخرو ہونے والوں کے پیشوا، مؤمنوں پر سب سے زیادہ حق رکھنے والے علی ابن ابی طالب علیہ السّلام، ہدایت کے امام، نعمت والی جنتوں کی طرف پہل کرنے والے، بہادروں کا مقابلہ کرنے والے، جاہلوں

الهادی الی الرشاد، و الناطق بالسّداد، شجاع مکی، جتحجاج و فی (۱)

سے انتقام لینے والے، زکوٰۃ ادا کرنے والے، رشد و کمال کا راستہ دکھانے والے، سچ بات کہنے والے، مکہ کے شجاع اور بزرگوار وفا نے قطع کیا ہے۔

ابن الکواء نے کہا:افسوس ہے تجھ پر!اس نے تیرا ہاتھ قطع کیا اور تو اس کی اس طرح تعریفیں کرتا ہے؟

کہا: میں کیونکر اس کی تعریف نہ کروں۔ اس کی محبت میرے گوشت اور خون میں سرایت کرچکی ہے۔ خدا کی قسم اس نے میرا ہاتھ قطع نہیں کیا ہے مگر یہ کہ خدا کے مقرر کردہ قانون کے تحت۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج۔۴۰، ص ۲۸۱۔۲۸۲، جدید ایڈیشن و تفسیر کبیر فخر رازی ذیل آیت ۹، سورہئ کہف ام حسبت...

۳۳

اس قسم کے عشق اور اس طرح کی محبتیں جو علی(ع) اور ان کے دوستوں کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں، ہمیں عشق و محبت کے مسئلہ اور اس کے آثار کی طرف متوجہ کرتی ہیں ۔

اکسیرِ محبت

فارسی زبان کے شعراء نے عشق کو اکسیر کا نام دیا ہے۔ کیمیا گروں کا اعتقاد تھا کہ دنیا میں ایک ایسا مادہ اکسیر(۱) یا کیمیاکے نام سے موجود ہے جو ایک مادہ کو دوسرے مادہ میں تبدیل کر سکتا ہے۔ صدیوں وہ اس کے پیچھے پھرتے رہے۔شعراء نے اس اصطلاح کو مستعاراور کہا ہے کہ حقیقت میں وہ اکسیر جو

____________________

(۱) برہان قاطع میں اکسیر کے بارے میں کہا گیا ہے: ''ا یک جوہر ہے جو پگھلانے، آمیزش اور کامل کرنے والا ہے '' یعنی تانبے کو سونا بناتا ہے اور فائدہ مند دواؤں اور مرشد کامل کی نظر کو بھی مجازاً اکسیر کہتے ہیں۔ اتفاق سے عشق میں بھی یہ تینوں خصوصیات موجود ہیں۔ پگھلانے والا بھی ہے، آمیزش بھی ہوتی ہے اور کامل کنندہ بھی ہے لیکن مشہور و معروف وجہ شبہ تیسری ہی ہے۔ یعنی مکمل بدل دینا اور اسی لیے شعراء نے کبھی عشق کو طبیب، دوا، افلاطون اور جالینوس بھی کہا ہے۔ مولانا روم مثنوی کے دیباچے میں کہتے ہیں:

شادباش ای عشق خوش سودای ما

اے ہمارے عشق خوش سودا تو خوش رہ

ای طبیب جملہ علتہای ما

اے ہماری تمام بیماریوں کے طبیب

ای دوای نخوت و ناموس ما

اے ہمارے فحر اور وقار کی دوا

ای تو افلاطون و جالینوس ما

اے ہمارے افلاطون اور جالینوس

۳۴

(ایک مادہ کو دوسرے مادہ میں) تبدیل کرسکتا ہے وہ عشق و محبت ہے۔ جو (کسی شئے کی) ماہیت کو تبدیل کر سکتا ہے۔ عشق مطلقاً اکسیر ہے اور اس میں کیمیا کی خاصیت ہے۔ یعنی ایک دھات کو دوسری دھات میں تبدیل کر دیتا ہے۔ انسان بھی مختلف دھات ہیں:

الناس کمعدن الذھب و الفضۃ ۔

انسان سونے اور چاندی کے معدن کی طرح ہیں۔

عشق ہی دل کو دل بناتا ہے۔ اگر عشق نہیں تو دل ہی نہیں آب و گل ہے۔

ہرآںدل را سوزی نیست دل نیست

جس دل میں درد نہیں وہ دل ہی نہیں

دل افسردہ غیر از مشت گل نیست

افسردہ دل مٹھی بھر مٹی کے علاوہ اور کچھ نہیں

لہٰی! سینہئِ دہ آتش افروز

خدایا! ایک بھڑکتا ہوا سینہ دے

در آں سینہ دلی و ان دل ہمہ سوز(۱)

اور اس سینے میں سلگتا ہوا دل دے

____________________

(۱) وحشی کرمانی

۳۵

طاقت و قدرت عشق کی پیداوار ہیں۔ محبت طاقت پیدا کرتی ہے اور بزدلوں کو بہادر بنا دیتی ہے۔ ایک پالتو مرغی جب تک تنہا ہے اپنے بال و پر اپنی پشت پر جمع کرلیتی ہے۔ آہستہ آہستہ چلتی ہے۔ اپنی گردن موڑ کر کوئی مکوڑا تلاش کرتی ہے تاکہ اسے کھائے۔ ذرا سی آواز سن کر بھاگ جاتی ہے۔ ایک کمزور بچے سے مقابلہ کرنے کی ہمت بھی اپنے اندر نہیں پاتی۔ لیکن یہی مرغی جب چوزے نکالتی ہے اور عشق و محبت اس کے پیکر وجود میں گھر کرتی ہے تو اس کی حالت ہی بدل جاتی ہے۔ پشت پر جمع شدہ بال و پر دفاع کے لیے اپنی آمادگی کی علامت کے طور پر نیچے گرا دیتی ہے، اپنے اوپر جنگ کی سی حالت طاری کردیتی ہے، یہاں تک کہ ا س کی آواز کا آہنگ بھی پہلے سے طاقت وراور دلیرانہ ہو جاتا ہے۔ پہلے کسی خطرے کے خیال سے ہی بھاگ جاتی تھی لیکن اب خطرے کے احتمال سے ہی حملہ کر دیتی ہے، دلیرانہ حملہ کرتی ہے۔ یہ محبت اور عش ہے جو ڈرپوک مرغی کو ایک دلیر جانور کا روپ دیتا ہے۔

عشق و محبت کاہل اور سست کو چالاک اور ذہین بنا دیتی ہے حتیٰ کہ کاہل کو تیز فہم بنا دیتی ہے۔

وہ لڑکا اور لڑکی جو شادی سے پہلے کسی چیز کے بارے میں نہیں سوچتے تھے سوائے ان چیزوں کے جو براہ راست ان کی اپنی ذات سے مربوط ہوں، وہی جونہی ایک دوسرے سے دل وابستگی پیدا ہوئی اور انہوں نے خاندان کا ادارہ تشکیل دیا، پہلی بار کسی اور کی قسمت کے بارے میں دلچسپی لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی دلچسپیوں کا دائرہ وسیع تر ہو جاتا ہے اور جیسے ہی ان کے ہاں بچے نے جنم لیا ان کی فطرت بالکل بدل جاتی ہے۔ اب وہی سست اور کاہل لڑکا چالاک اور فعال ہوگیاہے اور وہی لڑکی جوبزور بھی اپنے بستر سے نہیں جاگتی تھی اب اپنے گہوارہ نشین بچے کی آواز سنتے ہی بجلی کی طرح لپکتی ہے۔ وہ کون سی طاقت ہے جس نے سستی ا ور کاہلی کو ختم کیا اور اس جوان کو اس قدر حساس بنا دیا؟ وہ عشق و محبت کے علاوہ کچھ نہیں۔

۳۶

عشق ہی ہے جو بخیل کو سخی اور کمزور اور بے صبرے کو متحمل (مزاج) اور صابر بناتا ہے۔ یہ عشق کا ہی اثر ہے کہ ایک خود غرض مرغی جو صر ف اپنے لیے سوچتی تھی کہ کوئی دانہ جمع کرے اور اپنی حفاظت کرے، اب ایک سخی وجود بن گئی ہے کہ جب کوئی دانہ پیدا کیا اپنے چوزوں کو آواز دیتی ہے یا ایک ماں کو جو کل تک ایک بے نام صرف کھانے اور سونے والی زود رنج اور کمزور لڑکی تھی، بھوک، بے خوابی اور جسمانی تھکاوت کے مقابلے میں صبر اور تحمل کی عظیم قوت دی اور ممتا کی تمام زحمتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیا۔

روح کی سختی و تندخوئی ختم کرکے نرمی و رقت کا پیدا ہونااور دوسرے لفظوں میں (دوسروں سے) مہربانی و نرم خوئی سے پیش آنا اور اسی طرح صلاحیتوںکے انتشار و افتراق کو ختم کرے انہیں یکجا کرنااور اس یکجہتی کے نتیجے میں قدرت و طاقت کا حصول سب عشق و محبت کے آثار ہیں۔

۳۷

شعر و ادب کی زبان میں عشق کے جس اثر کا بیشتر ذکر ہم دیکھتے ہیں وہ وجدان اور عشق کی فیاضی ہے۔

بلبل از فیض گل آموخت سخن ورنہ نہ بود

این ہمہ قول و غزل تعبیہ در منقارش(۱)

بلبل نے نغمہ سنجی گل کے فیض سے سیکھی ورنہ یہ فصاحت و نغمگی اس کی منقار میں نہ ہوتی

فیض گل اگرچہ ظاہری لفظ کے اعتبار سے بلبل کی ذات سے خارج ایک امر ہے لیکن در حقیقت خود عشق کی قوت کے علاوہ کچھ نہیں۔

تو مپندار کہ مجنون سر خود مجنون شد

از سمک تابہ سماکش کشش لیلیٰ بود(۲)

یہ خیال نہ کرنا کہ مجنوں خود بہ خود مجنون بن گیا بلکہ لیلیٰ کی کشش نے سمک (مچھلی) سے سماء (آسمان) تک پہنچایا

____________________

(۱) لسان الغیب حافظ

(۲) علامہ طباطبائی

۳۸

عشق خوابیدہ صلاحیتوں کوبیدار اور بند جکڑی ہوئی قوتوں کو آزاد کر دیتا ہے جس طرح ایٹم کے پھٹنے پر ایٹمی توانائیاں آزاد ہوجاتی ہےں۔

عشق وجدان عطا کرتااور ہیرو پیدا کرتا ہے۔ کتنے ہی شاعر، فلسفی اور ہنرمند ایک طاقت ور عشق و محبت کی پیداوار ہیں۔

عشق روح کی تکمیل کرتااور حیرت انگیز باطنی صلاحیتوں کو آشکار کرتا ہے۔ ادارک کی قوتوں کے نقطہئ نگاہ سے یہ وجدان عطا کرتااور احساس کی قوتوں کے نقطہئ نظر سے ارادہ اور ہمت کو تقویت دیتا ہے اور جب یہ عروج کی طرف بڑھتا ہے تو کرامت اور معجزہ ظاہر کرنے لگتا ہے۔ روح کو بیماریوں اور آلودگیوں سے پاک کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں عشق صفائی (باطن) کرنے والا ہے۔ خود غرضی سے پیدا ہونے والی پست صفات یا بخل، کنجوسی، بزدلی، کاہلی، تکبر و خود پسندی جیسے ٹھنڈے جذبات کو ختم کر دیتا ہے۔ آپس کی نفرتوں اور کینوں کو زائل کرتا ہے۔اگرچہ عشق میں محرومیت اور ناکامی کابھی امکان ہے۔ تب یہ مشکلات اور عداوتیں پیدا کرتا ہے۔

از محبت تلخہا شیرین شود

از محبت مسہا زرین شود(۱)

محبت تلخیوں کو شیرینی میں بدل دیتی ہے۔ محبت تانبے کو سونے میں بدلتی ہے۔

____________________

(۱) مثنوی معنوی

۳۹

عشق کا اثر روح کے لیے اس کی آبادی اور شادابی ہے اور جسم کے لیے زوال اور خرابی ہے۔ جسم کے لیے عشق ویرانی کا باعث اور چہرے کی زردی، جسم کی کمزوری، ہاضمے کی خرابی اور اعصاب کے لےے تناؤ کا موجب ہے۔ شاید جسم کے لےے تمام آثار تخریبی ہوں، لیکن روح کے لےے ایسا نہیں ہے۔

پھر عشق کا موضوع کیا ہو؟ اور کس طرح ایک شخص اس سے فائدہ اٹھائے؟

اس کے اجتماعی آثار سے قطع نظر، روح اور فرد کے نقطہئ نظر سے یہ تکمیلی ہے کیونکہ یہ قوت، نرمی، صفا، یکجہتی اور ہمت پیدا کرتا ہے۔ کمزوری، زبونی، کدورت، افتراق اور کاہلی کو ختم کر دیتا ہے۔ آلودگیوں جنہیں قرآن دسَّ کا نام دیتا ہے، ختم کرتا، آمیزشوں کو زائل کرتااور فریب کو خلوص سے بدل دیتا ہے۔

شاہ جان مرجسم را ویران کند

دل کا بادشاہ جسم ویران کرتا ہے

بعد ویرانش آبادان کند

اور اس کے بعد اسے آباد کرتا ہے

ای خنک جانی کہ بھر عشق و حال

نیک دل وہ ہے جو عشق اور خوشی کی خاطر

بذل کرد او خان و مان و ملک و مال

اپنا گھر بار جائداد اور مال صرف کرے

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863