نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 692407 / ڈاؤنلوڈ: 16724
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

(۷۰)

وقالعليه‌السلام

في سحرة اليوم الذي ضرب فيه

مَلَكَتْنِي عَيْنِي وأَنَا جَالِسٌ - فَسَنَحَ لِي رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه - مَا ذَا لَقِيتُ مِنْ أُمَّتِكَ مِنَ الأَوَدِ واللَّدَدِ فَقَالَ ادْعُ عَلَيْهِمْ فَقُلْتُ أَبْدَلَنِي اللَّه بِهِمْ خَيْراً مِنْهُمْ - وأَبْدَلَهُمْ بِي شَرّاً لَهُمْ مِنِّي.

قال الشريف - يعني بالأود الاعوجاج وباللدد الخصام - وهذا من أفصح الكلام.

(۷۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم أهل العراق

وفيها يوبخهم على ترك القتال والنصر يكاد يتم ثم تكذيبهم له

أَمَّا بَعْدُ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ فَإِنَّمَا أَنْتُمْ كَالْمَرْأَةِ الْحَامِلِ - حَمَلَتْ فَلَمَّا أَتَمَّتْ أَمْلَصَتْ

(۷۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس سحرکے ہنگام جب آپکےسر اقدس پر ضربت لگائی گئی)

ابھی میں بیٹھا(۱) ہواتھا کہ اچانک آنکھ لگ گئی اور ایسا محسوس ہوا کہ رسول اکرم (ص) سامنے تشریف فرما ہیں۔میں نے عرض کی کہ میں نے آپ کی امت سے بے پناہ کجروی اوردشمنی کامشاہدہ کیا ہے۔فرمایا کہ بد دعا کرو ؟ تو میں نے یہ دعا کی۔خدایا مجھے ان سے بہتر قوم دیدے اور انہیں مجھ سے سخت تر رہنما دیدے۔

سید رضی فرماتا ہے اود سے مراد کجروی اور لدد سے مراد دشمنی ہے اور یہ فصیح ترین کلام میں سے ہے

(۷۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(اہل عراق کی مذمت کے بارے میں)

اما بعد!اے اہل عراق ! بس تمہاری مثال اس حاملہ عورت کی ہے جو(۹) ماہ تک بچہ کو شکم میں رکھے اور جب ولادت کا وقت آئے تو ساقط کردے

(۱)یہ بھی رویا ئے صادقہ کی ایک قسم ہے جہاں انسان واقعاً یہ دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے جیسے خواب کی باتوں کو بیداری کے عالم میں دیکھ رہا رسول اکرم (ص) کا خواب میں آاا کسی طرح کی تردید اور تشکیک کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے لیکن یہ مسئلہ بہر حال قابل غور ہے کہ جس وصی نے اتنے سارے مصائب برداشت کرلئے اوراف تک نہیں کی اس نے خواب میں رسول اکرم(ص)کو دیکھتے ہیں فریاد کیوں شروع کردی اورجس نبی نے ساری زندگی مظالم و مصائب کا سامنا کیا اور بد دعا نہیں کی' اس نے بد دعا کرنے کاحکم کس طرح دے دیا؟حقیقت امر یہ ہے کہ حالات اس منزل پرتھے جس کے بعد فریاد بھی برحق تھی اور بد دعا بھی لازم تھی۔اب یہ مولائے کائنات کا کمال کردار ہے کہ براہ راست قوم کی تباہی اور بربادی کی دعا نہیں کی بلکہ انہیں خود انہیں کے نظریات کے حوالہ کردیا کہ خدایا!یہ میری نظرمیں برے ہیں تو مجھے ان سے بہتر اصحاب دیدے اور میں ان کی نظرمیں برا ہوںتو انہیں مجھ سے بدترحاکم دیدے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ برا حاکم کیسا ہوتا ہے۔

مولائے کائنات کی یہ دعا فی الفور قبول ہوگی اورچند لمحوں کے بعد آپ کو معصوم بندگان خدا کا جوار حاصل ہوگیا اور شریر قوم سے نجات مل گئی۔

۱۰۱

ومَاتَ قَيِّمُهَا وطَالَ تَأَيُّمُهَا ووَرِثَهَا أَبْعَدُهَا -. أَمَا واللَّه مَا أَتَيْتُكُمُ اخْتِيَاراً - ولَكِنْ جِئْتُ إِلَيْكُمْ سَوْقاً - ولَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّكُمْ تَقُولُونَ عَلِيٌّ يَكْذِبُ قَاتَلَكُمُ اللَّه تَعَالَى - فَعَلَى مَنْ أَكْذِبُ أَعَلَى اللَّه فَأَنَا أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِه - أَمْ عَلَى نَبِيِّه فَأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَه - كَلَّا واللَّه لَكِنَّهَا لَهْجَةٌ غِبْتُمْ عَنْهَا - ولَمْ تَكُونُوا مِنْ أَهْلِهَا - وَيْلُ أُمِّه كَيْلًا بِغَيْرِ ثَمَنٍ لَوْ كَانَ لَه وِعَاءٌ - «ولَتَعْلَمُنَّ نَبَأَه بَعْدَ حِينٍ».

(۷۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

علم فيها الناس الصلاة على النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

وفيها بيان صفات الله سبحانه وصفة النبي والدعاء له

اور پھر اس کا شوہربھی مرجائے اوربیوگی کی مدت بھی طویل ہو جائے کہ قریب کا کوئی وارث نہ رہ جائے اور دور والے وارث ہو جائیں

خدا گواہ ہے کہ میں تمہارے پاس اپنے اختیارسے نہیں آیا ہوں بلکہ حالات کے جبر سے آیا ہوں اور مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم لوگ مجھ پرجھوٹ کا الزام لگاتے ہو۔خدا تمہیں غارت کرے۔میں کس کے خلاف غلط بیانی کروں گا؟

خدا کے خلاف؟ جب کہ میں نے سب سے پہلے ان کی تصدیق کی ہے۔

ہر گز نہیں ! بلکہ یہ بات ایسی تھی جو تمہاری سمجھ سے بالا تر تھی اور تم اس کے اہل نہیں تھے ۔خدا تم سے سمجھے۔میں تمہیں جواہر پارے ناپ ناپ کردے رہا ہوں اور کوئی قیمت نہیں مانگ رہا ہوں۔مگر اے کاش تمہارے پاس اس کا ظرف ہوتا۔اورعنقریب تمہیں اس کی حقیقت معلوم ہوجائے گی۔

(۷۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کو صلوات کی تعلیم دی گئی ہے اور صفات خدا و رسول (ص) کا ذکر کیا گیا ہے )

۱۰۲

صفات الله

اللَّهُمَّ دَاحِيَ الْمَدْحُوَّاتِ ودَاعِمَ الْمَسْمُوكَاتِ وجَابِلَ الْقُلُوبِ عَلَى فِطْرَتِهَا شَقِيِّهَا وسَعِيدِهَا.

صفات النبي

اجْعَلْ شَرَائِفَ صَلَوَاتِكَ - ونَوَامِيَ بَرَكَاتِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ ورَسُولِكَ - الْخَاتِمِ لِمَا سَبَقَ والْفَاتِحِ لِمَا انْغَلَقَ والْمُعْلِنِ الْحَقَّ بِالْحَقِّ والدَّافِعِ جَيْشَاتِ الأَبَاطِيلِ والدَّامِغِ صَوْلَاتِ الأَضَالِيلِ كَمَا حُمِّلَ فَاضْطَلَعَ قَائِماً بِأَمْرِكَ

اے خدا! اے فرش زمین کے بچھانے) ۱) والے اور بلند ترین آسمانوں کو روکنے والے اوردلوں کو ان کی نیک بخت یا بد بخت فطرتوں پر پیدا کرنے والے '

اپنی پاکیزہ ترین اور مسلسل بڑھنے والے برکات کو اپنے بندہ اور رسول حضرت محمد (ص) پر قراردے جو سابق نبوتوں کے ختم کرنے والے ' دل و دماغ کے بند دروازوں کو کھولنے والے ' حق کے ذریعہ(۲) حق کا اعلان کرنے والے' باطل کے جوش و خروش کودفع کرنے والے اور گمراہیوں کے حملوں کا سر کچلنے والے تھے۔جو بار جس طرح ان کے حوالہ کیا گیا انہوں نے اٹھالیا۔تیرے امر کے ساتھ قیام کیا۔

(۱)وحوالارض کے بارے میں دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔بعض حضرت کاخیال ہے کہ زمین کوآفتاب سے الگ کرکے فضائے بسیط میں لڑھکا دیا گیا اوراسی کا نام دحوالارض ہے اوربعض حضرات کا کہنا ہے کہ دحو کے معنی فرش بچھانے کے ہیں۔گویا کہ زمین کو ہموار بنا کر قابل سکونت بنادیا گیا اور یہی دحوالارض ہے۔بہر حال روایات میں اس کی تاریخ ۲۵ ذی قعدہ بتائی گئی ہے جس تاریخ کو سرکار دو عالم (ص)حجة الوداع کے لئے مدینہ سے برآمد ہوئے تھے اورتخلیق ارض کی تاریخ مقصد تخلیق سے ہم آہنگ ہوگئی تھی۔اس تاریخ میں روزہ رکھنا بے پناہ ثواب کا حامل ہے اوریہ تاریخ سال کے ان چار دنوں میں شامل ہے جس کا روزہ اجربے حساب رکھتا ہے۔ ۲۵ ذی قعدہ۔۱۷ ربیع الاول۔۲۷ رجب۔۱۸ ذی الحجہ

غور کیجئے ' تو یہ نہایت درجہ حسین انتخاب قدرت ہے کہ پہلا دن وہ ہے جس میں زمین کا فرش بچھایا گیا ۔دوسرا دن وہ ہے جب مقصد تخلیق کائنات کو زمین پر بھیجا گیاتیسرا دن وہ ہے جب اس کے منصب کا اعلان کرکے اس کا کام شروع کرایا گیا اور آخری دن وہ ہے جب اس کا کام مکمل ہوگیا اورصاحب منصب کو''اکملت لکم دینکم'' کی سند مل گئی۔

(۲)یہ اسلام کا مخصوص فلسفہ ہے جو دنیا داری کے کسی نظام میں نہیں پایا جاتاہے۔دنیا داری کا مشہور و معروف نظام و اصول یہ ہے کہ مقصد ہرذریعہ کو جائز بنادیتا ہے۔انسانت کوفقط یہ دیکھنا چاہیے کہ مقصد صحیح اوربلند ہو۔اس کے بعد اس مقصد تک پہنچنے کے لئے کوئی بھی راستہ اختیار کرلے اس میں کوئی حرج اورمضائقہ نہیں ہے لیکن اسلام کا نظام اس سے بالکل مختلف ہے۔وہ دنیا میں مقصد اور مذہب دونوں کا پیغام لے کرآیا ہے۔اس نے'' ان الدین '' کہہ کر اعلان کیا ہے کہ اسلام طریقہ حیات ہے اورعند الله '' کہہ کر واضح کیا ہے کہ اس کا ہدف حقیقی ذات پروردگار سے۔لہٰذا وہ نہ غلط مقصد کو مقصد قرا دینے کی اجازت دے سکتا ہے اورنہ غلط راستہ کو راستہ قرار دینے کی۔اس کا منشاء یہ ہے کہ اس کے ماننے والے صحیح راستہ پرچلیں اور اسی راستہ کے ذریعہ منزل تک پہنچیں۔چنانچہ مولائے کائنات نے سرکاردو عالم (ص) کی اسی فضیلت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ نے جاہلیت کے نقار خانہ میں آواز حق بلند کی ہے لیکن اسآواز کو بلند کرنے کا طریقہ اور راستہ بھی صحیح اختیار کیا ہے ورنہ جاہلیت میں آواز بلند کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ اس قدرش ور مچائو کہ دوسرے کی آواز نہ سنائی دے۔اسلام ایسے احمقانہ انداز فکر کی حمایت نہیں کر سکتا ہے۔وہ اپنے فاتحین سے بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ حق کا پیغام حق کے راستہ ے پہنچائوں' غارت گری اور لو ٹ مار کے ذریعہ نہیں۔یہ اسلام کی پیغام رسانی نہیں ہے۔خدا اور رسول (ص) کے لئے ایذا رسانی ہے جس کا جرم انتہائی سنگین ہے اور اس کی سزا دنیا و آخرت دونوں کی لعنت ہے۔

۱۰۳

مُسْتَوْفِزاً فِي مَرْضَاتِكَ - غَيْرَ نَاكِلٍ عَنْ قُدُمٍ ولَا وَاه فِي عَزْمٍ - وَاعِياً لِوَحْيِكَ حَافِظاً لِعَهْدِكَ - مَاضِياً عَلَى نَفَاذِ أَمْرِكَ حَتَّى أَوْرَى قَبَسَ الْقَابِسِ وأَضَاءَ الطَّرِيقَ لِلْخَابِطِ وهُدِيَتْ بِه الْقُلُوبُ بَعْدَ خَوْضَاتِ الْفِتَنِ والآثَامِ - وأَقَامَ بِمُوضِحَاتِ الأَعْلَامِ ونَيِّرَاتِ الأَحْكَامِ - فَهُوَ أَمِينُكَ الْمَأْمُونُ وخَازِنُ عِلْمِكَ الْمَخْزُونِ وشَهِيدُكَ يَوْمَ الدِّينِ وبَعِيثُكَ بِالْحَقِّ - ورَسُولُكَ إِلَى الْخَلْقِ.

الدعاء للنبي

اللَّهُمَّ افْسَحْ لَه مَفْسَحاً فِي ظِلِّكَ واجْزِه مُضَاعَفَاتِ الْخَيْرِ مِنْ فَضْلِكَ - اللَّهُمَّ وأَعْلِ عَلَى بِنَاءِ الْبَانِينَ بِنَاءَه - وأَكْرِمْ لَدَيْكَ مَنْزِلَتَه وأَتْمِمْ لَه نُورَه - واجْزِه مِنِ ابْتِعَاثِكَ لَه مَقْبُولَ الشَّهَادَةِ - مَرْضِيَّ الْمَقَالَةِ ذَا مَنْطِقٍ عَدْلٍ وخُطْبَةٍ فَصْلٍ - اللَّهُمَّ اجْمَعْ بَيْنَنَا وبَيْنَه فِي بَرْدِ الْعَيْشِ وقَرَارِ النِّعْمَةِ ومُنَى الشَّهَوَاتِ وأَهْوَاءِ اللَّذَّاتِ، ورَخَاءِ الدَّعَةِ ومُنْتَهَى الطُّمَأْنِينَةِ وتُحَفِ الْكَرَامَةِ

تیری مرضی کی راہ میں تیز قدم بڑھاتے رہے۔نہ آگے بڑھنے سے انکارکیا اور نہ ان کے ارادوں میں کمزوری آئی۔تیری وحی کو محفوظ کیا۔تیرے عہد کی حفاظت کی تیرے حکم کے نفاذ کی راہمیں بڑھتے رہے۔یہاں تک کہ روشنی کی جستجو کرنے والوں کے لئے آگ روشن کردی اور گم کر دہ راہ کے لئے راستہ واضح کردیا۔ان کے ذریعہ دلوں نے فتنوں اور گناہوں میں غرق رہنے کے بعد بھی ہدایت پالی اور انہوں نے راستہ دکھانے والے نشانات اور واضح احکام قائم کردئیے۔وہ تیرے امانت داربندہ' تیرے پوشیدہ علوم کے خزانہ دار' روز قیامت کے لئے تیرے گواہ' حق کے ساتھ بھیجے ہوئے اورمخلوقات کی طرف تیرے نمائندہ تھے۔

خدایا ان کے لئے اپنے سایہ رحمت میں وسیع ترین منزل قراردیدے اور ان کے خیر کو اپنے فضل سے دگنا چوگنا کردے۔خدایا ان کی عمارت کو تمام عمارتوں سے بلند تر اور ان کی منزل کو اپنے پاس بزرگ تربنادے۔ان کے نورکی تکمیل فرما اور اپنی رسالت کے صلہ میں انہیں مقبول شہادت اور پسندیدہ اقوال کا انعام عنایت کرکہ ان کی گفتگو ہمیشہ عادلانہ اور ان کا فیصلہ ہمیشہ حق و باطل کے درمیان حد فاصل رہا ہے۔

خدایا ہمیں ان کے ساتھ خوشگوارزندگی' نعمات کی منزل ' خواہشات و لذات کی تکمیل کے مرکز۔آرائش و طمانیت کے مقام اور کرامت و شرافت کے تحفوں کی منزل پر جمع کردے ۔

۱۰۴

(۷۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لمروان بن الحكم بالبصرة

قَالُوا: أُخِذَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ أَسِيراً يَوْمَ الْجَمَلِ - فَاسْتَشْفَعَ الْحَسَنَ والْحُسَيْنَعليه‌السلام إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام - فَكَلَّمَاه فِيه فَخَلَّى سَبِيلَه فَقَالَا لَه - يُبَايِعُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ

قَالَعليه‌السلام :

أَولَمْ يُبَايِعْنِي بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ - لَا حَاجَةَ لِي فِي بَيْعَتِه إِنَّهَا كَفٌّ يَهُودِيَّةٌ لَوْ بَايَعَنِي بِكَفِّه لَغَدَرَ بِسَبَّتِه أَمَا إِنَّ لَه إِمْرَةً كَلَعْقَةِ الْكَلْبِ أَنْفَه - وهُوَ أَبُو الأَكْبُشِ الأَرْبَعَةِ وسَتَلْقَى الأُمَّةُ مِنْه ومِنْ وَلَدِه يَوْماً أَحْمَرَ.

(۷۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما عزموا على بيعة عثمان

(۷۳)

(جو مروان بن الحکم سے بصرہ میں فرمایا)

کہا جاتا ہے کہ جب مروان بن الحکم جنگ جمل میں گرفتار ہوگیا تو امام حسن و حسین) ۱ ( نے امیرالمومنین سے اس کی سفارش کی اور آپ نے اسے آزاد کردیا تو دونوں حضرت نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین ! یہ اب آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے۔تو آپ نے فرمایا:

کیا اس نے قتل عثمان کے بعد میری بیعت نہیں کی تھی؟ مجھے اس کے بیعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہ ایک یہودی قسم کا ہاتھ ہے۔اگر ہاتھ سے بیعت کر بھی لے گا تو رکیک طریقہ سے اسے توڑ ڈالے گا۔یاد رکھو اسے بھی حکومت ملے گی مگر صر ف اتنی دیر جتنی دیرمیں کتا اپنی ناک چاٹتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ چار بیٹیوں کا باپ بھی ہے اور امت اسلامیہ اس سے اور اس کی اولاد سے بد ترین دن دیکھنے والی ہے۔

(۷۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا)

(۱)آل محمد (ص) کے اس کردار کا تاریخ کائنات میں کوئی جواب نہیں ہے۔انہوں نے ہمیشہ فضل و کرم سے کام لیا ہے۔حد یہ ہے کہ اگر معاذ اللہ امام حسن و امام حسین کی سفارش کو مستقبل کے حالات سے نا واقفیت بھی تصور کرلیا جائے تو امام زین العابدین کے طرز عمل کو کیا کہا جا سکتا ہے جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد بھی مروان کے گھر والوں کو پناہ دی ہے اور اس بے حیا نے حضرت سے پناہ کی درخواست کی ہے۔درحقیقت یہ بھی یہودیت کی ایک شاخ ہے کہ وقت پڑنے پر ہر ایک کے سامنے ذلیل بن جائو اور کام نکلنے کے بعد پروردگار کی نصیحتوں کی بھی پرواہ نہ کرو۔اللہ دین اسلام کو ہر دور کی یہودیت سے محفوظ رکھے۔

۱۰۵

لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَحَقُّ النَّاسِ بِهَا مِنْ غَيْرِي - ووَ اللَّه لأُسْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُورُ الْمُسْلِمِينَ - ولَمْ يَكُنْ فِيهَا جَوْرٌ إِلَّا عَلَيَّ خَاصَّةً - الْتِمَاساً لأَجْرِ ذَلِكَ وفَضْلِه - وزُهْداً فِيمَا تَنَافَسْتُمُوه مِنْ زُخْرُفِه وزِبْرِجِه

(۷۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما بلغه اتهام بني أمية له بالمشاركة في دم عثمان

أَولَمْ يَنْه بَنِي أُمَيَّةَ عِلْمُهَا بِي عَنْ قَرْفِي أَومَا وَزَعَ الْجُهَّالَ سَابِقَتِي عَنْ تُهَمَتِي - ولَمَا وَعَظَهُمُ اللَّه بِه أَبْلَغُ مِنْ لِسَانِي - أَنَا حَجِيجُ الْمَارِقِينَ وخَصِيمُ النَّاكِثِينَ الْمُرْتَابِينَ وعَلَى كِتَابِ اللَّه تُعْرَضُ الأَمْثَالُ وبِمَا فِي الصُّدُورِ تُجَازَى الْعِبَادُ!

تمہیں معلوم ہے کہ میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خلافت کا حقدار ہوں اور خدا گواہ ہے کہ میں اس وقت تک حالات(۲) کاساتھ دیتا رہوں گا جب تک مسلمانوں کے مسائل ٹھیک رہیں اور ظلم صرف میری ذات تک محدود رہے تاکہ میں اس کا اجرو ثواب حاصل کر سکوں اور اس زیب و زینت دنیا سے اپنی بے نیازی کا اظہار کر سکوں جس کے لئے تم سب مرے جا رہے ہو۔

(۷۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو خبر ملی کہ بنی امیہ آپ پر خون عثمان کا الزام لگا رہے ہیں)

کیا بنی امیہ کے واقعی معلومات انہیں مجھ پر الزام تراشی سے نہیں روک سکے اور کیا جاہلوں کو میرے کارنامے اس اتہام سے باز نہیں رکھ سکے؟ یقینا پروردگار نے تہمت و افترا کے خلاف جو نصیحت فرمائی ہے وہ میرے بیان سے کہیں زیادہ بلیغ ہے۔میں بہر حال ان بے دینوں پرحجت تمام کرنے والا'ان عہد شکن مبتلائے تشکیک افراد کا دشمن ہوں۔اور تمام مشتبہ معاملات کو کتاب خداپرپیش کرنا چاہیے۔اور روز قیامت بندوں کا حساب ان کے دلوں کے مضمرات (نیتوں) ہی پر ہوگا۔

(۲)امیر المومنین کا مقصد یہ ہے کہ خلافت میرے لئے کسی ہدف اور مقصد حیات کا مرتبہ نہیں رکھتی ہے۔یہ در حقیقت عام انسانیت کے لئے سکون و اطمینان فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔لہٰذا اگر یہ مقصد کسی بھی ذریعہ سے حاصل ہوگیا تو میرے لئے سکوت جائز ہو جائے گا اور میں اپنے اوپر ظلم کو برداشت کرلوں گا۔دوسرا فقرہ اس بات کی دلیل ہے کہ باطل خلافت سے مکمل عدل و اناصف اور سکون و اطمینان کی توقع محال ہے لیکن مولائے کائنات کا منشاء یہ ہے کہ اگر ظلم کا نشانہ میری ذات ہوگی تو برداشت کرلوں گا لیکن عوام الناس ہوں گے اور میرے پاس مادی طاقت ہوگی تو ہرگز برداشت نہ کروں گا کہ یہ عہد الٰہی کے خلاف ہے۔

۱۰۶

(۷۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الحث على العمل الصالح

رَحِمَ اللَّه امْرَأً سَمِعَ حُكْماً فَوَعَىودُعِيَ إِلَى رَشَادٍ فَدَنَا وأَخَذَ بِحُجْزَةِ هَادٍ فَنَجَا - رَاقَبَ رَبَّه وخَافَ ذَنْبَه قَدَّمَ خَالِصاً وعَمِلَ صَالِحاً - اكْتَسَبَ مَذْخُوراً واجْتَنَبَ مَحْذُوراً - ورَمَى غَرَضاً وأَحْرَزَ عِوَضاً كَابَرَ هَوَاه وكَذَّبَ مُنَاه - جَعَلَ الصَّبْرَ مَطِيَّةَ نَجَاتِه والتَّقْوَى عُدَّةَ وَفَاتِه - رَكِبَ الطَّرِيقَةَ الْغَرَّاءَ ولَزِمَ الْمَحَجَّةَ الْبَيْضَاءَ - اغْتَنَمَ الْمَهَلَ وبَادَرَ الأَجَلَ وتَزَوَّدَ مِنَ الْعَمَلِ.

(۷۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں عمل صالح پرآمادہ کیا گیا ہے)

خدا رحمت نازل(۱) کرے اس بندہ پر جو کسی حکمت کو سنے تو محفوظ کرلے اور اسے کسی ہدایت کی دعوت دی جائے تو اس سے قریب تر ہو جائے اور کسی راہنما سے وابستہ ہو جائے تو نجات حاصل کرلے۔اپنے پروردگار کو ہر وقت نظر میں رکھے اور گناہوں سے ڈرتا رہے۔خالص اعمال کوآگے بڑھائے اور نیک اعمال کرتا رہے۔قابل ذخیرہ ثواب حاصل کرے۔قابل پرہیز چیزوں سے اجتناب کرے۔مقصد کو نگاہوں میں رکھے۔اجرسمیٹ لے۔خواہشات پر غالب آجائے اورتمنائوں کو جھٹلادے ۔صبر کو نجات کا مرکب بنالے اورتقویٰ کو وفات کاذخیرہ قرار دے لے۔روشن راستہ پر چلے اور واضح شاہراہ کو اختیار کرلے۔مہلت حیات کو غنیمت قراردے اور موت کی طرف خود سبقت کرے اور عمل کا زاد راہ لے کرآگے بڑھے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رحمت الٰہی کا دائرہ بے حد وسیع ہے اور مسلم و کافر۔دین دارو بے دین سب کو شامل ہے۔یہ ہمیشہ غضب الٰہی سے آگے آگے چلتی ہے۔لیکن روز قیامت اس رحمت کا استحقاق آسان نہیں ہے۔وہ حساب کادن ہے اور خدائے واحد قہار کی حکومت کا دن ہے۔لہٰذا اس دن رحمت خداکے استحقاق کے لئے ان تمام چیزوں کواختیارکرنا ہوگا جن کی طرف مولائے کائنات نے اشارہ کیا ہے اور ان کے بغیر رحمة اللعالمین کا کلمہ اور ان کی محبت کا دعویٰ بھی کام نہیں آسکتا ہے۔دنیا کے احکام الگ ہیں اور آخرت کے احکام الگ ہیں۔یہاں کا نظام رحمت الگ ہے اور وہاں کا نظام مکافات و مجازات الگ۔

۱۰۷

(۷۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وذلك حين منعه سعيد بن العاص حقه

إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ لَيُفَوِّقُونَنِي تُرَاثَ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تَفْوِيقاً - واللَّه لَئِنْ بَقِيتُ لَهُمْ - لأَنْفُضَنَّهُمْ نَفْضَ اللَّحَّامِ الْوِذَامَ التَّرِبَةَ!

قال الشريف - ويروى التراب الوذمة وهو على القلب

قال الشريف وقولهعليه‌السلام ليفوقونني - أي يعطونني من المال قليلا كفواق الناقة - وهو الحلبة الواحدة من لبنها -. والوذام جمع وذمة - وهي الحزة من الكرش أو الكبد تقع في التراب فتنفض.

(۷۸)

من كلمات كانعليه‌السلام

من كلمات كانعليه‌السلام يدعو بها

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِه مِنِّي - فَإِنْ عُدْتُ فَعُدْ عَلَيَّ بِالْمَغْفِرَةِ

(۷۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب سعید بن العاص نے آپ کو آپ کے حق سے محروم کردیا)

یہ بنی امیہ مجھے میراث پیغمبر(ص) کوبھی تھوڑا تھوڑا کرکے دے رہے ہیں حالانکہ اگر میں زندہ رہ گیا تو اس طرح جھاڑ کرپھینک(۱) دوں گاجس طرح قصاب گوشت کے ٹکڑے سے مٹی کوجھاڑ دیتا ہے۔

سید رضی :بعض روایات میں '' وذام تربہ''کے بجائے ''تراب الوذمہ''ہے جو معنی کے اعتبارسےمعکوس ترکیب ہے۔''لیفو قوفنی''کامفہوم ہے مال کا تھوڑا تھوڑا کرکے دنیا جس طرح کہ اونٹ کا دودھ نکالا جاتا ہے۔فواق اونٹ کا ایک مرتبہ کا دوھا ہوا دودھ ہے اوروذام وذمہ کی جمع ہے جس کے معنی ٹکڑےکےہیں یعنی جگہ یاآنتوں کاوہ ٹکڑا جوزمین پر گر جائے۔

(۷۸)

آپ کی دعا

(جسے برابر تکرار فرمایا کرتے تھے)

خدایا میری خاطر ان چیزوں کو معاف کردے جنہیں تو مجھ سے بہتر جانتا ہے اور اگر پھران امور کی تکرار ہوتو تو ' بھی مغفرت کی تکرار فرما:

(۱)کتنی حسین تشبیہ ہے کہ بنی امیہ کی حیثیت اسلام میں نہ جگر کی ہے نہ معدہ کی اورنہ جگر کے ٹکڑے کی ۔یہ وہ گروہیں جو الگ ہو جانے والے کپڑے سے چپک جاتی ہے لیکن گوشت کا استعمال کرنے والا اسے بھی برداشت نہیں کرتا ہے اوراسے جھاڑنے کے بعد ہی خریدار کے حوالے کر تا ہے تاکہ دکان بد نام نہ ہونے پائے اور تاجر نا تجربہ کار اور بذ ذوق نہ کہا جاسکے !

۱۰۸

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا وَأَيْتُ مِنْ نَفْسِي ولَمْ تَجِدْ لَه وَفَاءً عِنْدِي - اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا تَقَرَّبْتُ بِه إِلَيْكَ بِلِسَانِي ثُمَّ خَالَفَه قَلْبِي اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي رَمَزَاتِ الأَلْحَاظِ وسَقَطَاتِ الأَلْفَاظِ وشَهَوَاتِ الْجَنَانِ وهَفَوَاتِ اللِّسَانِ

(۷۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لبعض أصحابه - لما عزم على المسير إلى الخوارج، وقد قال له: إن سرت يا أمير المؤمنين، في هذا الوقت، خشيت ألا تظفر بمرادك، من طريق علم النجوم

فقالعليه‌السلام : أَتَزْعُمُ أَنَّكَ تَهْدِي إِلَى السَّاعَةِ الَّتِي مَنْ سَارَ فِيهَا صُرِفَ عَنْه السُّوءُ - وتُخَوِّفُ مِنَ السَّاعَةِ الَّتِي مَنْ سَارَ فِيهَا حَاقَ بِه الضُّرُّ فَمَنْ صَدَّقَكَ بِهَذَا فَقَدْ كَذَّبَ الْقُرْآنَ - واسْتَغْنَى عَنِ الِاسْتِعَانَةِ بِاللَّه - فِي نَيْلِ الْمَحْبُوبِ ودَفْعِ الْمَكْرُوه وتَبْتَغِي فِي قَوْلِكَ لِلْعَامِلِ بِأَمْرِكَ - أَنْ يُولِيَكَ الْحَمْدَ دُونَ رَبِّه - لأَنَّكَ بِزَعْمِكَ أَنْتَ هَدَيْتَه إِلَى السَّاعَةِ - الَّتِي نَالَ فِيهَا النَّفْعَ وأَمِنَ الضُّرَّ.

خدایا ان وعدوں کے بارے میں بھی مغفرت فرما جن کا تجھ سے وعدہ کیا گیا لیکن انہیں وفا نہ کیا جاسکا۔خدایا ان اعمال کی بھی غفرت فرما جن میں زبان سے تیری قربت اختیار کی گئی لیکن دل نے اس کی مخالفت ہی کی۔

خدایا آنکھوں کے طنز یہ اشاروں ۔دہن کے ناشائستہ کلمات۔دل کی بے جا خواہشات اور زبان کی ہر زہ سرائیوں کو بھی معاف فرمادے۔

(۷۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب جنگ خوارج کے لئے نکلتے وقت بعض اصحاب نے کہا کہ امیر المومنین اس سفر کے لئے کوئی دوسرا وقت اختیار فرمائیں۔اس وقت کامیابی کے امکانات نہیں ہیں کہ علم نجوم کے حسابات سے یہی اندازہ ہوتا ہے)

کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ تمہیں وہ ساعت معلوم ہے جس میں نکلنے والے سے بلائیں ٹل جائیں گی اورتم اس ساعت سے ڈرانا چاہتے ہو جس میں سفر کرنے والا نقصانات میں گھرجائے گا؟ یاد رکھو جو تمہارے اس بیان کی تصدیق کرے گا وہ قرآن کی تکذیب کرنے والا ہوگا اور محبوب اشیاء کے حصول اور نا پسندیدہ امور کے دفع کرنے میں مدد خدا سے بے نیاز ہو جائے گا۔کیا تمہاریخواہش یہ ہے کہ تمہارے افعال کے مطابق عمل کرنے والا پروردگار کے بجائے تمہاری ہی تعریف کرے اس لئے کہ تم نے اپنے خیال میں اسے اس ساعت کا پتہ بتا دیا ہے جس میں منفعت حاصل کی جاتی ہے اور نقصانات سے محفوظ رہا جاتا ہے۔

۱۰۹

ثم أقبلعليه‌السلام على الناس فقال:

أَيُّهَا النَّاسُ - إِيَّاكُمْ وتَعَلُّمَ النُّجُومِ إِلَّا مَا يُهْتَدَى بِه فِي بَرٍّ أَوْ بَحْرٍ - فَإِنَّهَا تَدْعُو إِلَى الْكَهَانَةِ - والْمُنَجِّمُ كَالْكَاهِنِ والْكَاهِنُ كَالسَّاحِرِ والسَّاحِرُ كَالْكَافِرِ - والْكَافِرُ فِي النَّارِ سِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّه

(۸۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد فراغه من حرب الجمل في ذم النساء ببيان نقصهن

مَعَاشِرَ النَّاسِ إِنَّ النِّسَاءَ نَوَاقِصُ الإِيمَانِ - نَوَاقِصُ الْحُظُوظِ، نَوَاقِصُ الْعُقُولِ

ایہا الناس! خبر دار نجوم کا(۱) مت حاصل کرو مگر اتنا ہی جس سے برو بحر میں راستے دریافت کئے جا سکیں۔ کہ یہ علم کہانت کی طرف لے جاتا ہے اور منجم بھی ایک طرح کا کاہن ( غیب کی خبر دینے والا ) ہو جاتا ہے جب کہ کاہن جادوگرجیسا ہوتا ہے اور جادو گر کافر جیسا ہوتا ہے اور کافر کا انجام جہنم ہے۔چلو نام خدا لے کرنکل پڑو۔

(۸۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جنگ جمل سے فراغت کے بعد عورتوں کی مذمت کے بارے میں)

لوگو! یاد رکھو کہ عورتیں ایمان کے اعتبارسے' میراث کے حصہ کے اعتبار سے اور عقل کے اعتبارسے ناقص ہوتی ہیں۔

(۱)واضح رہے کہ علم نجوم حاصل کرنے سے مراوان اثرات ونتائج کا معلوم کرنا ہے جو ستاروں کی حرکات کے بارے میں اس علم کے مدعی حضرات نے بیان کئے ہیں ورنہ اصل ستاروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا کوئی عیب نہیں ہے۔اس سے انسان کے ایمان اورعقیدہ میں بھی استحکام پیدا ہوتا ہے اور بہت سے دوسرے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں۔اور ستاروں کاوہ علم جو ان کے حقیقی اثرات پرمبنی ہے ایک فضل و شرف ہے اورعلم پروردگارکا ایک شعبہ ہے وہ جسے چاہتا ہے عنایت کر دیتا ہے۔

امام علیہ السلام نے اولا علم نجوم کو کہانت کا ایک شعبہ قرار دیا کہ غیب کی خبر دینے والے اپنے اخبار کے مختلف مآخذ ومدارک بیان کرتے ہیں۔جن میں سے ایک علم نجوم بھی ہے۔اس کے بعد جب ہ غیب کی خبریں بیان کر دیتے ہیں تو انہیں خبروں کے ذریعہ انسان کے دل و دماغ پر مسلط ہو جانا چاہتے ہیں جو جادوگری کا ایک شعبہ ہے اور جادوگری انسان کو یہ محسوس کرانا چاہتی ہے کہ اس کائنات میں عمل دخل ہمارا ہی ہے اور اس جادو کا چڑھانا اوراتارنا ہمارے ہی بس کا کام ہے' دوسرا کوئی یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتا ہے اور اسی کا نام کفر ہے۔

۱۱۰

فَأَمَّا نُقْصَانُ إِيمَانِهِنَّ - فَقُعُودُهُنَّ عَنِ الصَّلَاةِ والصِّيَامِ فِي أَيَّامِ حَيْضِهِنَّ - وأَمَّا نُقْصَانُ عُقُولِهِنَّ فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ كَشَهَادَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ - وأَمَّا نُقْصَانُ حُظُوظِهِنَّ - فَمَوَارِيثُهُنَّ عَلَى الأَنْصَافِ مِنْ مَوَارِيثِ الرِّجَالِ - فَاتَّقُوا شِرَارَ النِّسَاءِ وكُونُوا مِنْ خِيَارِهِنَّ عَلَى حَذَرٍ - ولَا تُطِيعُوهُنَّ فِي الْمَعْرُوفِ حَتَّى لَا يَطْمَعْنَ فِي الْمُنْكَرِ.

(۸۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الزهد

أَيُّهَا النَّاسُ الزَّهَادَةُ قِصَرُ الأَمَلِ - والشُّكْرُ عِنْدَ النِّعَمِ والتَّوَرُّعُ عِنْدَ الْمَحَارِمِ - فَإِنْ عَزَبَ ذَلِكَ عَنْكُمْ فَلَا يَغْلِبِ الْحَرَامُ صَبْرَكُمْ - ولَا تَنْسَوْا عِنْدَ النِّعَمِ شُكْرَكُمْ

ایمان کے اعتبار(۱) سے ناقص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ امام حیض میں نماز روزہ سے بیٹھ جاتی ہیں اور عقلوں کے اعتبار سے ناقص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں دو عورتوں کی گواہی ایک مردکے برابر ( ہوتی ہے۔حصہ کی کمی یہ ہے کہ انہیں میراث میں حصہ مردوں کے آدھے حصہ کے برابر ملتا ہے ۔ لہٰذا تم بدترین عورتوں سے بچتے رہو اور بہترین عورتوں سے بھی ہوشیار رہو اورخبردار نیک کام بھی ان کی اطاعت کی بنا پر انجام نہ دینا کہ انہیں برے کام کا حکم دینے کاخیال پیدا ہو جائے۔

(۸۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(زہد کے بارے میں)

ایہاالناس! زاہد امیدوں کے کم کرنے' نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اورمحرمات سے پرہیز کرنے کا نام ہے۔اب اگر یہ کام تمہارے لئے مشکل ہو جائے تو کم از کم اتنا کرناکہ حرام تمہاری قوت برداشت پر غالب نہ آنے پائے اور نعمتوں کے موقع پر شکریہ کو فراموش نہ کر دینا

(۱)اس خطبہ میں اس نکتہ پر نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ جنگ جمل کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے اور اس کے مفاہیم میں کلیات کی طرح صورت حال اور تجربات کابھی دخل ہو سکتا ہے یعنی یہ کوئی لازم نہیں ہے کہ اس کا اطلاق ہر عورت پر ہو جائے۔دنیا میں ایسی خاتون بھی ہو سکتی ہے جو نسوانی عوارض سے پاک ہو۔اس کی گواہی بنض قرآن تنہا قابل قبول ہو اور وہ اپنے باپ کی تنہا وارث ہو۔ظاہر ہے کہ اس خاتون میں کسی طرح کا نقص نہیں پایا جاتا ہے جیسے جناب فاطمہ اور ایسی عورت بھی ہو سکتی ہے جس میں سارے نقائص پائے جاتے ہوں اور ان فطری نقائص کے ساتھ کرداری اور ایمانی نقائص بھی ہوں کہ یہ عورت ہر اعتبار سے قابل لعنت و مذمت ہو۔قوانین کا دارومدار نہ قسم اول پر ہوسکتا ہے اورنہ قسم دوم پر۔قوانین کا اطلاق درمیانی قسم پر ہوتا ہے۔جس میں کسی طرح کا امتیاز نہ پایا جاتا ہو اور صرف فطرت نسوانی کی کارفرمائی ہواور امیر المومنین کی اطاعت کی تھی یا انہیں بھڑکایا تھا۔پھر امیر المومنین امام معصوم ہیں کوئی جذباتی انسان نہیں ہیں اور ان سے پہلے رسول اکرم (ص) بھی یہ بات فرماچکے ہیں۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس اعلان کے لئے ایک مناسب موقع ہاتھ آگیا جہاں اپنی بات کو بخوبی واضح کیا جا سکتا ہے اور عورت کے اتباع کے نتائج سے باخبر کیا جا سکتا ہے۔

۱۱۱

فَقَدْ أَعْذَرَ اللَّه إِلَيْكُمْ بِحُجَجٍ مُسْفِرَةٍ ظَاهِرَةٍ - وكُتُبٍ بَارِزَةِ الْعُذْرِ وَاضِحَةٍ.

(۸۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذم صفة الدنيا

مَا أَصِفُ مِنْ دَارٍ أَوَّلُهَا عَنَاءٌ وآخِرُهَا فَنَاءٌ - فِي حَلَالِهَا حِسَابٌ وفِي حَرَامِهَا عِقَابٌ - مَنِ اسْتَغْنَى فِيهَا فُتِنَ - ومَنِ افْتَقَرَ فِيهَا حَزِنَ ومَنْ سَاعَاهَا فَاتَتْه - ومَنْ قَعَدَ عَنْهَا وَاتَتْه ومَنْ أَبْصَرَ بِهَا بَصَّرَتْه ومَنْ أَبْصَرَ إِلَيْهَا أَعْمَتْه.

قال الشريف - أقول وإذا تأمل المتأمل قولهعليه‌السلام ومن أبصر بها بصرته - وجد تحته من المعنى العجيب والغرض البعيد - ما لا تبلغ غايته ولا يدرك غوره - لا سيما إذا قرن إليه قوله ومن أبصر إليها أعمته - فإنه يجد الفرق بين أبصر بها - وأبصر إليها واضحا نيرا وعجيبا باهرا

کہ پروردگار نے نہایت درجہ واضح اور روشن دلیلوں اورحجت تمام کرنے والی کتابوں کے ذریعہ تمہارے ہر عذر کا خاتمہ کردیا ہے۔

(۸۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(دنیا کے صفات کے بارے میں )

میں اس دنیا کے بارے میں کیا کہوں جس کی ابتدا رنج و غم اورانتہا فنا ونیستی ہے۔اس کے حلال میں حساب میں ہے اور حرام میں عقاب ۔جو اس میں غنی ہو جائے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہو جائے اور جو فقیر ہو جائے وہ رنجیدہ و افسردہ ہو جائے۔جو اس کی طرف دوڑ لگائے اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور جو منہ پھیر کر بیٹھ رہے اس کے پاس حاضر ہو جائے۔جو اس کو ذریعہ بنا کر آگے دیکھے اسے بینا بنا دے اور جو اس کو منظور نظر بنالے اسے اندھا بنادے۔

سید رضی : اگر کوئی شخص حضرت کے اس ارشاد گرامی'' من ابصر بها بصرته'' میں غورکرے تو عجیب و غریب معانی اور دور رس حقائق کا ادراک کرلے گا جن کی بلندیوں اورگہرائیوں کا ادراک ممکن نہیں ہے۔خصوصیت کے ساتھ اگر دوسرے فقرہ'' من ابصر الیها اعتمه'' کوملایا جائے تو''ابصر بها '' اور ''ابصر الیها '' کا فرق اور نمایاں ہو جائے گا اور عقل مدہوش ہو جائے گی۔

۱۱۲

(۸۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي الخطبة العجيبة تسمى «الغراء»

وفيها نعوت اللَّه جل شأنه، ثم الوصية بتقواهثم التنفير من الدنيا، ثم ما يلحق من دخولالقيامة، ثم تنبيه الخلق إلى ما هم فيه من الأعراض، ثم فضلهعليه‌السلام في التذكير

صفته جل شأنه

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي عَلَا بِحَوْلِه ودَنَا بِطَوْلِه مَانِحِ كُلِّ غَنِيمَةٍ وفَضْلٍ وكَاشِفِ كُلِّ عَظِيمَةٍ وأَزْلٍ أَحْمَدُه عَلَى عَوَاطِفِ كَرَمِه وسَوَابِغِ نِعَمِه وأُومِنُ بِه أَوَّلًا بَادِياً وأَسْتَهْدِيه قَرِيباً هَادِياً - وأَسْتَعِينُه قَاهِراً قَادِراً وأَتَوَكَّلُ عَلَيْه كَافِياً نَاصِراً - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَبْدُه ورَسُولُه

(۸۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

اس خطبہ میں پروردگارکے صفات 'تقویٰ کی نصیحت ' دنیا سے بیزاری کاسبق قیامت کےحالات لوگوں کی بے رخی پر تنبیہ اورپھر یادخدا دلانے میں اپنی فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے۔

ساری تعریف(۱) اس اللہ کے لئے ہے جو اپنی طاقت کی بنا پر بلند اور اپنے احسانات کی بنا پر بندوں سے قریب تر ہے۔وہ ہر فائدہ اورفضل کا عطا کرنے والا اور ہر مصیبت اوررنج کا ٹالنے والا ہے۔میں اس کی کرم نوازیوں اورنعمتوں کی فراوانیوں کی بنا پر اس کی تعریف کرتا ہوں اور اس پر ایمان رکھتا ہوں کہ وہی اول اور ظاہر ہے اور اسی سے ہدایت طلب کرتا ہو کہ وہی قریب اور ہادی ہے۔اسی سے مددچاہتا ہوں کہ وہی قادر اور قاہر ہے۔اور اسی پر بھروسہ کرتا ہوں کہ وہی کافی اور ناصر ہے۔اور میں گواہی دیتا ہو کہ حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں

(۱) یوں تو امیر المومنین کے کسی بھی خطبہ کی تعریف کرنا سورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ یہ خطبہ غراء کہے جانے کے قابل ہے جس میں اس قدرحقائق و معارف اور معانی و مفاہیم کو جمع کردیا گیا ہے کہ ان کا شمار کرنا بھی طاقت بشر سے بالا تر ہے ۔ آغاز خطبہ میں مالک کائنات کے بظاہر دو متضاد صفات و کمالات کاذکر کیا یا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے اعتبارسے انتہائی بلند تر ہے لیکن اس کے بعد بھی بندوں سے دورنہیں ہے اس لئے کہ ہرآن اپنے بندوں پر ایسا کرم کرتا رہتا ہے کہ یہ کرم اسے بندوں سے قریب تر بنائے ہوئے ہے اور اسے دورنہیں ہونے دیتا ہے۔لفظ'' بحولہ'' میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس کی بلندی کسی وسیلہ اورذریعہ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ یہ اپنی ذاتی طاقت اور قدرت کا نتجیہ ہے ورنہ اس کے علاوہ ہر ایک کوبلندی اس کے فضل و کرم سے وابستہ ہے اور اس کے بغیر بلندی کا کوئی امکان نہیں ہے۔وہ اگر چاہے تو بندہ کو قاب قوسین کی منزلوں تک بلند کردے ''اسری بعبدہ'' اوراگر چاہے تو '' صاحب معراج '' کے کاندھوں پربلند کردے ''وعلی واضع اقدامہ ۔فی محل وضع اللہ یدہ ''۔اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت کے تین بنیادی مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس بعثت کا اصل مقصد یہ تھا کہ الٰہی احکام نافذہو جائیں بندوں پرحجت تمام ہو جائے اورانہیں قیامت میں پیش آنے والے حالات سے قبل از وقت با خبر کردیا جائے کہ یہ کام نمائندہ پروردگار کے علاوہ کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا ہے اوری ہخدائی نمائندگی کے فوائد میں سب سے عظیم تر فائدہ ہے جس کی بنا پرانسان رسالت الہیہ سے کسی وقت بھی بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔

۱۱۳

أَرْسَلَه لإِنْفَاذِ أَمْرِه وإِنْهَاءِ عُذْرِه وتَقْدِيمِ نُذُرِه

الوصية بالتقوى

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه الَّذِي ضَرَبَ الأَمْثَالَ ووَقَّتَ لَكُمُ الآجَالَ وأَلْبَسَكُمُ الرِّيَاشَ وأَرْفَغَ لَكُمُ الْمَعَاشَ وأَحَاطَ بِكُمُ الإِحْصَاءَ وأَرْصَدَ لَكُمُ الْجَزَاءَ وآثَرَكُمْ بِالنِّعَمِ السَّوَابِغِ، والرِّفَدِ الرَّوَافِغِ وأَنْذَرَكُمْ بِالْحُجَجِ الْبَوَالِغِ فَأَحْصَاكُمْ عَدَداً - ووَظَّفَ لَكُمْ مُدَداً فِي قَرَارِ خِبْرَةٍ ودَارِ عِبْرَةٍ - أَنْتُمْ مُخْتَبَرُونَ فِيهَا ومُحَاسَبُونَ عَلَيْهَا.

التنفير من الدنيا

فَإِنَّ الدُّنْيَا رَنِقٌ مَشْرَبُهَا رَدِغٌ مَشْرَعُهَا - يُونِقُ مَنْظَرُهَا ويُوبِقُ مَخْبَرُهَا - غُرُورٌ حَائِلٌ

انہیں پروردگارنے اپنے حکم کو نافذ کرنے ' اپنی حجت کوت مام کرنے اورعذاب کی خبریں پیش کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ بند گان خدا!میں تمہیں اس خدا سے ڈرنے کی دعوت دیتا ہوں جس نے تمہاری ہدایت کے لئے مثالیں بیان کی ہیں تمہاری زندگی کے لئے مدت معین کی ہے تمہیں مختلف قسم کے لباس پہنائے ہیں۔ تمہارے لئے اسباب معیشت کو فراواں کردیا ہے۔تمہارے اعمال کا مکمل احاطہ کر رکھا ہے اور تمہارے لئے جزا کا انتظام کر دیا ہے۔تمہیں مکمل نعمتوں اوروسیع تر عطیوں سے نوازاہے اورموثردلیلوں کے ذریعہ عذاب آخرت سے ڈرایا ہے۔تمہار ے اعداد کو شمار کرلیا ہے اور تمہارے لئے اس امتحان گاہ اور مقام عبرت میں مدتیں معین کردی ہیں۔یہیں تمہارا امتحان لیا جائے گا اور اسی کے اقوال و اعمال پر تمہارا حساب کیا جائے گا۔ یاد رکھو اس دنیا کا سرچشمہ گندہ اور اس کا گھاٹ گل آلود ہے۔اس کا منظر خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔لیکن اندر کے حالات انتہائی درجہ خطر ناک ہیں۔یہ دنیا ایک مٹ جانے والا دھوکہ(۱) ہے

(۱)ایک ایک لفظ پرغور کیا جائے اور دنیا کی حقیقت سے آشنائی پیدا کی جائے ۔صورت حال یہ ہے کہ یہ ایک دھوکہ ہے جو رہنے والا نہیں ہے ایک روشنی ہے جو بجھ جانے والی ہے۔ایک سایہ ہے جوڈھل جانے والا ہے اور ایک سہارا ہے جو گر جانے والا ہے۔انصاف سے بتائو کیا ایسی دنیا بھی دل گلانے کے قابل اور اعتبار کرنے کے لائق ہے۔حقیقت امر یہ ہے کہ دنیا سے عشق و محبت صرف جہالت اورناواقفیت کا نتیجہ ہے ورنہ انسان اس کی حقیقت و بیوفائی سے با خبر ہو جائے تو طلاق دئیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔

قیامت یہ ہے کہ انسان دنیا کی بیوفائی ۔موت کی چیرہ دستی کا برابر مشاہدہ کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود کوئی عبرت حاصل کرنیوالا نہیں ہے اور ہرآنے والا دور گزشتہ دورکا انجام دیکھنے کے بعد بھی اسی راستہ پر چل رہاہے۔ یہ حقیقت عام انسانوں کی زندگی میں واضح نہ بھی ہو تو ظالموں اورستمگروں کی زندگی میں صبح و شام واضح ہوتی رہتی ہے کہ ہر ستمگر اپنے پہلے والے ستمگروں کا انجام دیکھنے کے بعد بھی اسی راستہ پر چل رہا ہے اور ہر مسئلہ حیات کا حل ظلم و ستم کے علاوہ کسی اور چیز کو نہیں قرار دیتا ہے۔خدا جانے ان ظالموں کی آنکھیں کب کھلیں گی اور یہ اندھا انسان کب بینا بنے گا۔مولائے کائنات ہی نے سچ فرمایا تھا کہ '' سارے انسان سو رہے ہیں جب موت آجائے گی تو بیدار ہو جائیں گے ''یعنی جب تک آنکھ کھلی رہے گی بند رہے گی اور جب بند ہو جائے گی تو کھل جائے گی۔استغفر اللہ ربی واتوب الیہ

۱۱۴

وضَوْءٌ آفِلٌ وظِلٌّ زَائِلٌ وسِنَادٌ مَائِلٌ حَتَّى إِذَا أَنِسَ نَافِرُهَا واطْمَأَنَّ نَاكِرُهَاقَمَصَتْ بِأَرْجُلِهَا وقَنَصَتْ بِأَحْبُلِهَا وأَقْصَدَتْ بِأَسْهُمِهَا وأَعْلَقَتِ الْمَرْءَ أَوْهَاقَ الْمَنِيَّةِ قَائِدَةً لَه إِلَى ضَنْكِ الْمَضْجَعِ ووَحْشَةِ الْمَرْجِعِ - ومُعَايَنَةِ الْمَحَلِّ وثَوَابِ الْعَمَلِ وكَذَلِكَ الْخَلَفُ بِعَقْبِ السَّلَفِ لَا تُقْلِعُ الْمَنِيَّةُ اخْتِرَاماً ولَا يَرْعَوِي الْبَاقُونَ اجْتِرَاماً يَحْتَذُونَ مِثَالًا ويَمْضُونَ أَرْسَالًا إِلَى غَايَةِ الِانْتِهَاءِ وصَيُّورِ الْفَنَاءِ

بعد الموت البعث

حَتَّى إِذَا تَصَرَّمَتِ الأُمُورُ - وتَقَضَّتِ الدُّهُورُ وأَزِفَ النُّشُورُ أَخْرَجَهُمْ مِنْ ضَرَائِحِ الْقُبُورِ وأَوْكَارِ الطُّيُورِ وأَوْجِرَةِ السِّبَاعِ ومَطَارِحِ الْمَهَالِكِ سِرَاعاً إِلَى أَمْرِه مُهْطِعِينَ إِلَى مَعَادِه رَعِيلًا صُمُوتاً قِيَاماً صُفُوفاً - يَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ ويُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي - عَلَيْهِمْ لَبُوسُ الِاسْتِكَانَةِ وضَرَعُ الِاسْتِسْلَامِ والذِّلَّةِ - قَدْ ضَلَّتِ الْحِيَلُ وانْقَطَعَ الأَمَلُ وهَوَتِ الأَفْئِدَةُ كَاظِمَةً

ایک بجھ جانے والی روشنی۔ایک ڈھل جانے والا سایہ اور ایک گر جانے والا سہارا ہے۔جب اس سے نفرت کرنے والا مانوس ہوجاتا ے ہے اوراسے برا سمجھنے والا مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اچانک اپنے پیروں کو ٹپکنے لگتی ہے اور عاشق کواپنے جال میں گرفتار کر لیتی ہے اور پھراپنے تیروں کا نشانہ بنالیتی ہے۔انسان کی گردن می ں موت کا پھنڈا ڈال دیتی ہے اور اسے کھینچ کرتنگی مرقداور وحشت منزل کی طرف لے جاتی ہے جہاں وہ اپناٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اپنے اعمال کا معاوضہ حاصل کر لیتا ہے اور یوں ہی یہ سلسلہ نسلوں میں چلتا رہتا ہے کہ اولاد بزرگوں کی جگہ پرآجاتی ہے۔نہ موت چیرہ دستیوں سے بازآتی ہے اورنہ آنے والے افرادگناہوں سے باز آتے ہیں۔پرانے لوگوں کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل انتہاء و فنا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب تمام معاملات ختم ہو جائیں گے اورتمام زمانے بیت جائیں گے اورقیامت کا وقت قریب آجائے گا تو انہیں قبروں کے گوشوں۔پرندوں کے گھونسلوں ۔درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت کی منزلوں سے نکالا جائے گا۔اس کے امر کی طرف تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے اور اپنی وعدہ گاہ کی طرف بڑھتے ہوئے۔گروہ درگروہ۔خاموش صف بستہ اوراستادہ ۔نگاہ قدرت ان پر حاوی اور داعی الٰہی کی آواز ان کے کانوںمیں۔بدن پر بیچارگی کا لباس اورخود سپردگی و ذلت کی کمزوری غالب۔تدبیر یں گم۔امیدں منقطع دل مایوس کن خاموش کے ساتھ بیٹھے ہوئے۔

۱۱۵

وخَشَعَتِ الأَصْوَاتُ مُهَيْنِمَةً وأَلْجَمَ الْعَرَقُ وعَظُمَ الشَّفَقُ وأُرْعِدَتِ الأَسْمَاعُ - لِزَبْرَةِ الدَّاعِي إِلَى فَصْلِ الْخِطَابِ ومُقَايَضَةِ الْجَزَاءِ - ونَكَالِ الْعِقَابِ ونَوَالِ الثَّوَابِ.

تنبيه الخلق

عِبَادٌ مَخْلُوقُونَ اقْتِدَاراً ومَرْبُوبُونَ اقْتِسَاراً ومَقْبُوضُونَ احْتِضَاراً ومُضَمَّنُونَ أَجْدَاثاً وكَائِنُونَ رُفَاتاً ومَبْعُوثُونَ أَفْرَاداً ومَدِينُونَ جَزَاءً ومُمَيَّزُونَ حِسَاباً قَدْ أُمْهِلُوا فِي طَلَبِ الْمَخْرَجِ وهُدُوا سَبِيلَ الْمَنْهَجِ وعُمِّرُوا مَهَلَ الْمُسْتَعْتِبِ وكُشِفَتْ عَنْهُمْ سُدَفُ الرِّيَبِ وخُلُّوا لِمِضْمَارِ

اور آوازیں دب کرخاموش ہو جائیں گی۔پسینہ منہ میں لگام لگا دے گا اور خوف عظیم ہوگا۔کان اس پکارنے والے کی آوازسے لرز اٹھیں گے جو آخری فیصلہ سنائے گا اور اعمال کا معاوضہ دینے اور آخرت کے عقاب یا ثواب کے حصول کے لئے آواز دے گا۔

تم وہ(۱) بندے ہو جو اس کے اقتدار کے اظہار کے لئے پیدا ہوئے ہو اور اس کے غلبہ و تسلط کے ساتھ ان کی تربیت ہوئی ہے۔نزع کے ہنگام ان کی روحیں قبض کرلی جائیں گی اور انہیں قبروں کے اندر چھپا دیا جائے گا۔یہ خاک کے اندر مل جائیں گے اور پھر الگ الگ اٹھائے جائیں گے۔انہیں اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا ور حساب کی منزل میں الگ الگ کردیا جائے گا۔انہیں دنیا میں عذاب سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کے لئے مہلت دی جا چکی ہے اور انہیں روشن راستہ کی ہدایت کی جا چکی ہے۔انہیں مرضی خدا کے حصول کا موقع بھی دیا جا چکا ہے اور ان کی نگاہوں سے شک کے پردے بھی اٹھائے جا چکے ہیں۔انہیں میدان عمل میں آزاد بھی چھوڑا جا چکا ہے تاکہ آخرت کی دوڑ کی تیاری کرلیں اور سوچ سمجھ کر

(۱)انسان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نہ اس کی تخلیق اتفاقات کا نتیجہ ہے اور نہ اس کی زندگی اختیارات کا مجموعہ۔ وہ ایک خالق قدیر کی قدرت کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے اور ایک حکیم خبیر کے اختیارات کے زیر اثر زندگی گذار رہا ہے۔ایک وقت آئے گا جب فرشتہ موت اس کی روح قبض کرلے گا اوراسے زمین کے اوپر سے زمین کے اندر پہنچا دیا جائے گا اور پھر ایک دن تن تنہا قبر سے نکال کر منز حساب میں لا کھڑا کردیا جائے گا اور اسے اس کے اعمال کا مکمل معاوضہ دے دیا جائے گا اور یہ کام غیرعادلانہ نہیں ہوگا اس لئے کہ اسے دنیا میں عذاب سے بچنے اور رضائے خدا حاصل کرنے کی مہلت دی جا چکی ہے۔اسے توبہ کا راستہ بھی بتایا جا چکا ہے اور عمل کے میدان کی بھی نشاندہی کی جا چکی ہے اور اس کی نگاہوں سے شک کے پردیبھی اٹھائے جا چکے ہیں اور اسے میدان عمل میں دوڑنے کا موقع بھی دیا جا چکا ہے۔اسے اس انسان جیسی مہلت بھی دی جا چکی ہے جو روشنی میں اپنے مدعا کو تلاش کرتا ہے کہ ایک طرف یہ بھی خطرہ رہتا ہے کہ تیز رفتاری میں مقصد سے آگے نہ نکل جائے اور ایک طرف یہ بھی احساس رہتا ہے کہ کہیں چراغ بجھ نہ جائے اور اس طرح اس کی روشنی انتہائی محتاط ہوتی ہے۔

۱۱۶

الْجِيَادِ ورَوِيَّةِ الِارْتِيَادِوأَنَاةِ الْمُقْتَبِسِ الْمُرْتَادِ فِي مُدَّةِ الأَجَلِ ومُضْطَرَبِ الْمَهَلِ

فضل التذكير

فَيَا لَهَا أَمْثَالًا صَائِبَةً ومَوَاعِظَ شَافِيَةً - لَوْ صَادَفَتْ قُلُوباً زَاكِيَةً وأَسْمَاعاً وَاعِيَةً - وآرَاءً عَازِمَةً وأَلْبَاباً حَازِمَةً - فَاتَّقُوا اللَّه تَقِيَّةَ مَنْ سَمِعَ فَخَشَعَ واقْتَرَفَ فَاعْتَرَفَ - ووَجِلَ فَعَمِلَ وحَاذَرَ فَبَادَرَ وأَيْقَنَ فَأَحْسَنَ وعُبِّرَ فَاعْتَبَرَوحُذِّرَ فَحَذِرَ وزُجِرَ فَازْدَجَرَ وأَجَابَ فَأَنَابَ ورَاجَعَ فَتَابَ واقْتَدَى

فَاحْتَذَى

کر منزل کی تلاش کرلیں اور اتنی مہلت پالیں جتنی فوائد کے حاصل کرنے اور آئندہ منزل کا سامان مہیا کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے

ہائے یہ کس قدر صحیح مثالیں(۱) اورشفا بخش نصیحتیں ہیں اگر انہیں پاکیزہ دل ' سننے والے کان ' مضبوط رائیں اور ہوشیار عقلیں نصیب ہو جائیں۔لہٰذا اللہ سے ڈرو اس شخص کی طرح جس نے نصیحتوں کو سنا تو دل میں خشوع پیدا ہوگیا اور گناہ کیا تو فوراً اعتراف کرلیا اورخوف خدا پیدا ہوا تو عمل شروع کردیا۔آخرت(۲) سے ڈرا تو عمل کی طرف سبقت کی۔قیامت کا یقین پیدا کیا تو بہترین اعمال انجام دئیے۔عبرت دلائی گئی تو عبرت حاصل کرلی ۔خوف دلایا گیا تو ڈرگی۔روکا گیا تو رک گیا۔صدائے حق پر لبیک کہی تو اس کی طرف متوجہ ہوگیااور مڑ کرآگیا تو توبہ کرلی۔بزرگوں کی اقتدا کی تو ان کے نقش قدم پر چلا

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مالک کائنات کی بیان کی ہوئی مثالیں صائب و صحیح اور اس کی نصیحتیں صحت مند اورشفا بخش ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ کوئی نسخہ شفا صرف نسخہ کی حد تک کارآمد نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا استعمال کرنا اور استعمال کے ساتھ پرہیز کرنابھی ضروری ہوتا ہے ۔اور انسانوں میں اسی شرط کی کمی ہے۔نصیحتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے چارعناصر کاہونالازمی ہے۔سننے والے کان ہوں۔طیب و طاہر دل ہوں۔رائے میں استحکام ہو اورفکر میں ہوشیاری ہو۔یہ چاروں عناصر نہیں ہیں تو نصیحتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ہے اور عالم بشریت کی کمزوری یہی ہے کہ اسمیں انہیں عناصر میں سے کوئی نہ کوئی عنصر کم ہو جاتا ہے اوروہ مواعظ و نصائح کے اثرات سے محروم رہ جاتا ہے۔

(۲)ایک مرد مومن کی زندگی کا حسین ترین اور پاکیزہ ترین نقشہ یہی ہے کہ لیکن یہ الفاظ فصاحت و بلاغت سے لطف اندوز ہونے کے لئے نہیں ہیں۔زندگی پر منطبق کرنے کے لئے اور زندگی کا امتحان کرنے کے لئے ہیں کہ کیا واقعاً ہماری زندگی میں یہ حالات اور کیفیات پائے جاتے ہیں۔اگر ایسا ہے توہماری عاقبت بخیر ہے اور ہمیں نجات کی امید رکھنا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اس دار عبرت میں گذشتہ لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اب سے اصلاح دنیا وآخرت کے عمل میں لگ جانا چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ موت اچانک نازل ہو جائے اور وصیت کرنے کا موقع بھی فراہم نہ ہو سکے۔کتنا بلیغ فقرہ ہے مولائے کائنات کا کہ گذشتہ لوگ ہر قید و بند اور ہر پابندی حیات سے آزاد ہوگئے لیکن موت کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکے اور اس نے بالآخر انہیں گرفتار کرلیا اوران کی وعدہ گاہ تک پہنچا دیا۔

۱۱۷

وأُرِيَ فَرَأَى فَأَسْرَعَ طَالِباً ونَجَا هَارِباً - فَأَفَادَ ذَخِيرَةً وأَطَابَ سَرِيرَةً وعَمَّرَ مَعَاداً - واسْتَظْهَرَ زَاداً لِيَوْمِ رَحِيلِه ووَجْه سَبِيلِه وحَالِ حَاجَتِه - ومَوْطِنِ فَاقَتِه وقَدَّمَ أَمَامَه لِدَارِ مُقَامِه - فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه جِهَةَ مَا خَلَقَكُمْ لَه - واحْذَرُوا مِنْه كُنْه مَا حَذَّرَكُمْ مِنْ نَفْسِه - واسْتَحِقُّوا مِنْه مَا أَعَدَّ لَكُمْ بِالتَّنَجُّزِ لِصِدْقِ مِيعَادِه - والْحَذَرِ مِنْ هَوْلِ مَعَادِه.

التذكير بضروب النعم

ومنها: جَعَلَ لَكُمْ أَسْمَاعاً لِتَعِيَ مَا عَنَاهَا وأَبْصَاراً لِتَجْلُوَ عَنْ عَشَاهَا وأَشْلَاءً جَامِعَةً لأَعْضَائِهَا - مُلَائِمَةً لأَحْنَائِهَا فِي تَرْكِيبِ صُوَرِهَا ومُدَدِ عُمُرِهَا بِأَبْدَانٍ قَائِمَةٍ بِأَرْفَاقِهَا وقُلُوبٍ رَائِدَةٍ لأَرْزَاقِهَا - فِي مُجَلِّلَاتِ نِعَمِه ومُوجِبَاتِ مِنَنِه وحَوَاجِزِ عَافِيَتِه وقَدَّرَ لَكُمْ أَعْمَاراً

منظر حق دکھایا گیا تو دیکھ لیا۔طلب حق میں تیز رفتاری سے بڑھا اور باطل سے فرار کرکے نجات حاصل کرلی۔اپنے لئے ذخیرہ آخرت جمع کرلیا اور اپنے باطن کو پاک کرلیا۔آخرت کے گھر کو آباد کیا اور زاد راہ کو جمع کرلیا اس دن کے لئے جس دن یہاں سے کوچ کرنا ہے اور آخرت کا راستہ اختیار کرنا ہے اور اعمال کا محتاج ہونا ہے اورمحل فقر کی طرف جانا ہے اور ہمیشہ کے گھر کے لئے سامان آگے آگے بھیج دیا۔ اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اس جہت کی غرض سے جس کے لئے تم کو پیدا کیا گیا ہے اور اس کاخوف پیدا کرو اس طرح جس طرح اس نے تمہیں اپنے عظمت کا خوف دلایا ہے اور اس اجر کا استحقاق پیدا کرو جس کو اس نے تمہارے لئے مہیا کیا ہے اس کے سچے وعدہ کے پورا کرنے اور قیامت کے ہول سے بچنے کے مطالبہ کے ساتھ۔

اس نے تمہیں کان عنایت کئے ہیں تاکہ ضروری باتوں کو سنیں اور آنکھیں دی ہیں تاکہ بے بصری میں روشنی عطا کریں اور جسم کے وہ حصے دئیے جو مختلف اعضاء کو سمیٹنے والے ہیں اور ان کے پیچ و خم کے لئے مناسب ہیں۔صورتوں کی ترکیب اور عمروں کی مدت کے اعتبارسے ایسے بدنوں کے ساتھ جو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہیں اور ایسے دلوں کے ساتھ جو اپنے رزق کی تلاش میں رہتے ہیں اس کی عظیم ترین نعمتوں ' احسان مند بنانے والی بخششوں اور سلامتی کے حصاروں کے درمیان۔اس نے تمہارے لئے وہ عمریں قرار دی ہیں جن

۱۱۸

سَتَرَهَا عَنْكُمْ - وخَلَّفَ لَكُمْ عِبَراً مِنْ آثَارِ الْمَاضِينَ قَبْلَكُمْ - مِنْ مُسْتَمْتَعِ خَلَاقِهِمْ ومُسْتَفْسَحِ خَنَاقِهِمْ أَرْهَقَتْهُمُ الْمَنَايَا دُونَ الآمَالِ وشَذَّبَهُمْ عَنْهَا تَخَرُّمُ الآجَالِ - لَمْ يَمْهَدُوا فِي سَلَامَةِ الأَبْدَانِ - ولَمْ يَعْتَبِرُوا فِي أُنُفِ الأَوَانِ فَهَلْ يَنْتَظِرُ أَهْلُ بَضَاضَةِ الشَّبَابِ إِلَّا حَوَانِيَ الْهَرَمِ - وأَهْلُ غَضَارَةِ الصِّحَّةِ إِلَّا نَوَازِلَ السَّقَمِ - وأَهْلُ مُدَّةِ الْبَقَاءِ إِلَّا آوِنَةَ الْفَنَاءِ مَعَ قُرْبِ الزِّيَالِ وأُزُوفِ الِانْتِقَالِ وعَلَزِ الْقَلَقِ وأَلَمِ الْمَضَضِ وغُصَصِ الْجَرَضِ وتَلَفُّتِ الِاسْتِغَاثَةِ بِنُصْرَةِ الْحَفَدَةِ والأَقْرِبَاءِ - والأَعِزَّةِ والْقُرَنَاءِ فَهَلْ دَفَعَتِ الأَقَارِبُ

کو تم سے مخفی رکھا ہے اور تمہارے لئے ماضی میں گر جانے والوں کے آثار میں عبرتیں فراہم کردی ہیں۔وہ لوگ جو اپنے خط و نصیب سے لطف و اندوز ہو رہوے تھے اور ہر بندھن سے آزاد تھے لیکن موت نے انہیں امیدوں کی تکمیل سے پہلے ہی گرفتار کرلیا اور اجل کی ہلاکت سامانیوں نے انہیں حصول مقصد سے الگ کردیا۔انہوں نے بدن کی سلامتی کے وقت کوئی تیاری نہیں کی تھی اور ابتدائی اوقات میں کوئی عبرت حاصل نہیں کی تھی۔تو کیا جوانی کی ترو تازہ عمریں رکھنے والے بڑھاپے میں کمرجھک جانے کا انتظار کر رہے ہیں اور کیا صحت کی تازگی رکھنے والے مصیبتوں اور بیماریوں کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں اور کیا بقا کی مدت رکھنے والے فنا کے وقت کے منتظر ہیں جب کہ وقت زوال قریب ہوگا اورانتقال کی ساعت نزدیک تر ہوگی اور بستر مرگ پر قلق کی بے چینیاں(۱) اورسوزو تپش کا رنج و الم اور لعاب دہن کے پھندے ہوں گے اور وہ ہنگام ہوگا جب انسان اقربا اولاد اعزا احباب سے مدد طلب کرنے کے لئے ادھر ادھر دیکھ رہا ہوگا۔تو کیا آج تک کبھی اقربا نے موت کو دفع کردیا

(۱)ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان جب دنیا کے تمام مشاغل تمام کرکے بستر پرآئے تو اس خطبہ کی تلاوت کرے اور اس کے مضامین پر غور کرے۔پھر اگر ممکن ہوتو کمرہ کی روشنی گل کرکے دروازہ بند کرکے قبر کا تصور پیدا کرے اور یہ سوچے کہ اگر اس وقت کسی طرف سے سانپ، بچھوحملہ آور ہو جائیں اور کمرہ کی آواز باہرنہ جا سکے اور دروازہ کھول کر بھاگنے کا امکان بھی نہ ہو تو انسان کیا کرے گا اور اس مصیبت سے کس طرح نجات حاصل کرے گا۔شائد یہی تصوراسے قبر کے بارے میں سوچنے اور اس کے ہولناک مناظر سے بچنے کے راستے نکالنے پرآمادہ کر سکے ورنہ دنیا کی رنگینیاں ایک لمحے کے لئے بھی آخرت کے بارے میں سوچنے کا موقعنہیں دیتی ہیں اور کسی نہ کسی وہم میں مبتلا کرکے نجات کا یقین دلا دیتی ہیں اور پھر انسان اعمال سے یکسر غافل ہو جاتا ہے۔

۱۱۹

أَوْ نَفَعَتِ النَّوَاحِبُ وقَدْ غُودِرَ فِي مَحَلَّةِ الأَمْوَاتِ رَهِيناً وفِي ضِيقِ الْمَضْجَعِ وَحِيداً قَدْ هَتَكَتِ الْهَوَامُّ جِلْدَتَه - وأَبْلَتِ النَّوَاهِكُ جِدَّتَه وعَفَتِ الْعَوَاصِفُ آثَارَه - ومَحَا الْحَدَثَانُ مَعَالِمَه وصَارَتِ الأَجْسَادُ شَحِبَةً بَعْدَ بَضَّتِهَا والْعِظَامُ نَخِرَةً بَعْدَ قُوَّتِهَا - والأَرْوَاحُ مُرْتَهَنَةً بِثِقَلِ أَعْبَائِهَا مُوقِنَةً بِغَيْبِ أَنْبَائِهَا لَا تُسْتَزَادُ مِنْ صَالِحِ عَمَلِهَا - ولَا تُسْتَعْتَبُ مِنْ سَيِّئِ زَلَلِهَا أَولَسْتُمْ أَبْنَاءَ الْقَوْمِ والآبَاءَ وإِخْوَانَهُمْ والأَقْرِبَاءَ - تَحْتَذُونَ أَمْثِلَتَهُمْ وتَرْكَبُونَ قِدَّتَهُمْ وتَطَئُونَ جَادَّتَهُمْ فَالْقُلُوبُ قَاسِيَةٌ عَنْ حَظِّهَا لَاهِيَةٌ عَنْ رُشْدِهَا - سَالِكَةٌ فِي غَيْرِ مِضْمَارِهَا كَأَنَّ الْمَعْنِيَّ سِوَاهَا وكَأَنَّ الرُّشْدَ فِي إِحْرَازِ دُنْيَاهَا.

التحذير من هول الصراط

واعْلَمُوا أَنَّ مَجَازَكُمْ عَلَى الصِّرَاطِ ومَزَالِقِ دَحْضِه وأَهَاوِيلِ زَلَلِه وتَارَاتِ أَهْوَالِه فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه -

ہے یا فریاد کسی کے کام آئی ہے ؟ ہرگز نہیں۔مرنے والے کو تو قبرستان میں گرفتار کردیا گیا ہے اور تنگی قبر میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے اس عالم میں کہ کیڑے مکوڑے اس کی جلد کو پارہ پارہ کر رہے ہیں اور پامالیوں نے اس کے جسم کی تازگی کو بوسیدہ کردیا ہے۔آندھیوں نے اس کے آثار کو مٹا دیا ہے اور روز گار کے حادثات نے اس کے نشانات کو محو کردیا ہے۔جسم تازگی کے بعدہلاک ہوگئے ہیں اور ہڈیاں طاقت کے بعد بوسیدہ ہوگئی ہیں۔روحیں اپنے بوجھ کی گرانی میں گرفتار ہیں اور اب غیب کی خبروں کا یقین آگیا ہے۔اب نہ نیک اعمال میں کوئی اضافہ ہو سکتا ہے۔اور ہ بد ترین لغزشوں کی معافی طلب کی جا سکتی ہے۔تو کیا تم لوگ انہیں آباء اجداد کی اولاد نہیں ہو اور کیا انہیں کے بھائی بندے نہیں ہو کہ پھر انہیں کے نقش قدم پر چلے جا رہے ہو اور انہیں کے طریقہ کو پانئاے ہوئے ہو اور انہیں کے راستہ پر گامزن ہو؟ ۔حقیقت یہ ہے کہ دل اپنا حصہ حاصل کرنے میں سخت ہوگئے ہیں اور راہ ہدایت سے غافل ہوگئے ہیں' غلط میدانوں میں قدم جمائے ہوئے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا مخاطب ان کے علاوہ کوئی اور ہے اور شائد ساری عقلمندی دنیا ہی کے جمع کر لینے میں ہے۔یاد رکھو تمہاری گزر گاہ صراط اور اس کی ہلاکت خیز لغزشیں ہیں۔تمہیں ان لغزشوں کے ہولناک مراحل اور طرح طرح کے خطر ناک منازل سے گزرنا ہے۔اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو۔اس طرح جس طرح وہ

۱۲۰

تَقِيَّةَ ذِي لُبٍّ شَغَلَ التَّفَكُّرُ قَلْبَه - وأَنْصَبَ الْخَوْفُ بَدَنَه وأَسْهَرَ التَّهَجُّدُ غِرَارَ نَوْمِه - وأَظْمَأَ الرَّجَاءُ هَوَاجِرَ يَوْمِه وظَلَفَ الزُّهْدُ شَهَوَاتِه - وأَوْجَفَ الذِّكْرُ بِلِسَانِه وقَدَّمَ الْخَوْفَ لأَمَانِه - وتَنَكَّبَ الْمَخَالِجَ عَنْ وَضَحِ السَّبِيلِ - وسَلَكَ أَقْصَدَ الْمَسَالِكِ إِلَى النَّهْجِ الْمَطْلُوبِ - ولَمْ تَفْتِلْه فَاتِلَاتُ الْغُرُورِ - ولَمْ تَعْمَ عَلَيْه مُشْتَبِهَاتُ الأُمُورِ - ظَافِراً بِفَرْحَةِ الْبُشْرَى ورَاحَةِ النُّعْمَى فِي أَنْعَمِ نَوْمِه وآمَنِ يَوْمِه - وقَدْ عَبَرَ مَعْبَرَ الْعَاجِلَةِ حَمِيداً وقَدَّمَ زَادَ الآجِلَةِ سَعِيداً - وبَادَرَ مِنْ وَجَلٍ وأَكْمَشَ فِي مَهَلٍ ورَغِبَ فِي طَلَبٍ - وذَهَبَ عَنْ هَرَبٍ ورَاقَبَ فِي يَوْمِه غَدَه - ونَظَرَ قُدُماً أَمَامَه فَكَفَى بِالْجَنَّةِ ثَوَاباً ونَوَالًا وكَفَى بِالنَّارِ عِقَاباً ووَبَالًا - وكَفَى بِاللَّه مُنْتَقِماً ونَصِيراً - وكَفَى بِالْكِتَابِ حَجِيجاً وخَصِيماً !

صاحب عقل ڈرتا ہے جس کے دل کو فکرآخرت نے مشغول کرلیا ہو اور اس کے بدن کو خوف خدانے خستہ حال بنادیا ہو اور شب بیداری نے اس کی بچی کھچی نیند کو بھی بیداری میں بدل دیا ہو اور امیدوں نے اس کے دل کی تپش کو پیاس میں گزار دیا ہو اور زہد نے اس کے خواہشات کو پیروں تلے روند دیا ہو اور ذکر خدا اس کی زبان پر تیزی سے دوڑ رہا ہو اور اس نے قیامت کے امن و امان کے لئے یہیں خوف کا راستہ اختیار کیا ہو اور سیدھی راہ پر چلنے کے لئے ٹیڑھی راہوں سے کترا کر چلا ہو اور مطلوبہ راستہ تک پہنچنے کے لئے معتدل ترین راستہ اختیار کیا ہو'نہ خوش فریبیوں نے اس میں اضطراب پیدا کیا ہو اور نہ مشتبہ امورنے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈالا ہو۔بشارت کی مسرت اورنعمتوں کی راحت حاصل کرلی ہو۔دنیا کی گذر گاہ سے قابل تعریف انداز سے گزر جائے اورآخرت کا زاد راہ نیک بختی کے ساتھ آگے بھیج دے۔وہاں کے خطرات کے پیش نظر عمل میں سبقت کی اور مہلت کے اوقات میں تیز رفتاری سے قدم بڑھایا۔طلب آخرت میں رغبت کے ساتھ آگے بڑا اور برائیوں سے مسلسل فرار کرتا رہا۔آج کے دن کل پر نگاہ رکھی اور ہمیشہ اگلی منزلوں کودیکھتا رہا۔یقینا ثواب اور عطا کے لئے جنت اور عذاب و وبال کے لئے جہنم سے بالاتر کیا ہے اور اور پھر خدا سے بہتر مدد کرنے والا اور انتقام لینے والا کون ہے اور قرآن کے علاوہ حجت اور سند کیا ہے

۱۲۱

الوصية بالتقوى

أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّه الَّذِي أَعْذَرَ بِمَا أَنْذَرَ واحْتَجَّ بِمَا نَهَجَ - وحَذَّرَكُمْ عَدُوّاً نَفَذَ فِي الصُّدُورِ خَفِيّاً - ونَفَثَ فِي الآذَانِ نَجِيّاً فَأَضَلَّ وأَرْدَى ووَعَدَ فَمَنَّى وزَيَّنَ سَيِّئَاتِ الْجَرَائِمِ وهَوَّنَ مُوبِقَاتِ الْعَظَائِمِ حَتَّى إِذَا اسْتَدْرَجَ قَرِينَتَه واسْتَغْلَقَ رَهِينَتَه أَنْكَرَ مَا زَيَّنَ واسْتَعْظَمَ مَا هَوَّنَ وحَذَّرَ مَا أَمَّنَ.

ومنها في صفة خلق الإنسان

أَمْ هَذَا الَّذِي أَنْشَأَه فِي ظُلُمَاتِ الأَرْحَامِ وشُغُفِ الأَسْتَارِ نُطْفَةً دِهَاقاً وعَلَقَةً مِحَاقاً وجَنِيناً ورَاضِعاً ووَلِيداً ويَافِعاً ثُمَّ مَنَحَه قَلْباً حَافِظاً

بندگان خدا! میں تمہیں اس خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جس نے ڈرانے والی اشیاء کے ذریعہ عذر کا خاتمہ کردیا ہے اور راستہ دکھا کر حجت تمام کردی ہے۔تمہیں اس دشمن(۱) سے ہوشیار کردیا ہے جو خاموی سے دلوں میں نفوذ کر جاتا ہے اورچپکے سے کان میں پھونک دیتا ہے اوراس طرح گمراہ اور ہلاک کر دیتا ے اور وعدہ کرکے امیدوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔بد ترین جرائم کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے اور مہلک گناہوں کو آسان بنا دیتا ہے ۔یہاں تک کہ جب اپنے ساتھی نفس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اپنے قیدی کو باقاعدہ گرفتار کر لیتا ہے تو جس کو خوبصورت بنایا تھا اسی کو منکر بنا دیتا ہے اور جسےآسان بنایا تھا اسی کو عظیم کہنے لگتا ہے اور جس کی طرف سے محفوظ بنادیا تھا اسی سے ڈرانے لگتا ہے۔ذرا اس مخلوق کو دیکھو جسے بنانے والے نے رحم کی تاریکیوں اورمتعدد پردوں کے اندر یوں بنایا کہ اچھلتا ہوا نطفہ تھا پھر منجمد خون بنا۔پھرجنین بنا۔پھر رضاعت کی منزل میں آیا پھر طفل نوخیز بنا پھر جوان ہوگیا اور اس کے بعد مالک نے اسے(۲) محفوظ کرنے والا دل

(۱)پروردگار کا کرم ہے کہ اس نے قرآن مجید میں بار بار قصہ آدم و ابلیس کو دہرا کر اولاد آدم کو متوجہ کردیا ہے کہ یہ تمہارے بابا آدم کا دشمن تھا اوراسی نے انہیں جنت کی خوشگوار فضائوں سے نکالا تھا اور پھر جب سے بارگاہ الٰہی سے نکالا گیا ہے مسلسل اولاد آدم سے انتقام لینے پر تلا ہوا ہے اورایک لمحہ فرصت کونظر انداز نہیں کرنا چاہتا ہے۔اس کا سب سے بڑا ہنر یہ ہے کہ گناہوں کے وقت گناہوں کو معمولی اور مزین بنادیتا ہے۔اس کے بعد جب انسان ان کا ارتکاب کرلیتا ہے تو اس کے ذہنی کرب کو بڑھانے کے لئے گناہ کی اہمیت و عظمت کا احساس دلاتا ہے اور ایک لمحہ کے لئے اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیتا ہے۔

(۲)مالک کائنات کے کروڑوں احسانات میں سے یہ تین احسانات ایسے ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتے تو انسان کا وجود جانوروں سے بد تر ہو کر رہ جاتا اور انسان کسی قیمت پر اشرف مخلوقات کہے جانے کے قابل نہ ہوتا۔ مالک نے پہلا کرم یہ کیا کہ دنیا کے حالات سے با خبر بنانے کے لئے آنکھیں دے دیں۔اس کے بعد اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لئے زبان دے دی اور پھر معلومات سے کسی وقت بھی فائدہ اٹھانے کے لئے حافظہ دے دیاورنہ یہ حافظہ نہ ہوتا تو بار بار اشیاء کا سامنے آنا نا ممکن ہوتا اور انسان صاحب علم ہونے کے بعد بھی جاہل ہی رہ جاتا۔فاعتبروایا اولی الا بصار

۱۲۲

ولِسَاناً لَافِظاً وبَصَراً لَاحِظاً لِيَفْهَمَ مُعْتَبِراً ويُقَصِّرَ مُزْدَجِراً - حَتَّى إِذَا قَامَ اعْتِدَالُه واسْتَوَى مِثَالُه نَفَرَ مُسْتَكْبِراً وخَبَطَ سَادِراً مَاتِحاً فِي غَرْبِ هَوَاه كَادِحاً سَعْياً لِدُنْيَاه فِي لَذَّاتِ طَرَبِه وبَدَوَاتِ أَرَبِه - ثُمَّ لَا يَحْتَسِبُ رَزِيَّةً ولَا يَخْشَعُ تَقِيَّةً فَمَاتَ فِي فِتْنَتِه غَرِيراً وعَاشَ فِي هَفْوَتِه يَسِيراً لَمْ يُفِدْ عِوَضاً ولَمْ يَقْضِ مُفْتَرَضاً - دَهِمَتْه فَجَعَاتُ الْمَنِيَّةِ فِي غُبَّرِ جِمَاحِه وسَنَنِ مِرَاحِه - فَظَلَّ سَادِراً وبَاتَ سَاهِراً فِي غَمَرَاتِ الآلَامِ - وطَوَارِقِ الأَوْجَاعِ والأَسْقَامِ بَيْنَ أَخٍ شَقِيقٍ ووَالِدٍ شَفِيقٍ - ودَاعِيَةٍ بِالْوَيْلِ جَزَعاً

بولنے والی زبان' دیکھنے والی آنکھ عنایت کردی تاکہ عبرت کے ساتھ سمجھ سکے اور نصیحت کا اثر لیتے ہوئے برائیوں سے باز رہے لیکن جب اس کے اعضاء میں اعتدال پیدا ہوگیا اور اس کا قدو قامت اپنی منزل تک پہنچ گیا تو غرور و تکبر سے اکڑ گیا اوراندھے پن کے ساتھ بھٹکنے لگا اور ہوا وہوس کے ڈول بھر بھر کر کھینچنے لگا۔طرب کی لذتوں اورخواہشات کی تمنائوں میں دنیا کے لئے انتھک کوشش کرنے لگا۔نہ کسی مصیبت کا خیال رہ گیا اورنہ کسی خوف و خطر کا اثر رہ گیا۔فتنوں کے درمیان فریب خوردہ مرگیا اورمختصر سی زندگی کو بے ہودگیوں میں گزار کیا۔نہ کسی اجر کا انتظام کیا اورنہ کسی فریضہ کو ادا کیا۔اسی باقیماندہ سر کشی کے(۱) عالم میں مگر بار مصیبتیں اس پر ٹوٹ پڑیں۔اور وہ حیرت زدہ رہ گیا۔اب راتیں جاگنے میں گزر رہی تھیں کہشاید قسم کے آلام تھے اور طرح طرح کے امراض واسقام جب کہ حقیقی بھائی اور مہربان باپ اورفریاد کرنے والی ماں

(۱)ہائے رے انسان کی بے کسی۔ابھی غفلت کا سلسلہ تمام نہ ہوا تھا اور لذت اندوزی حیات کا تسلسل قائم تھا کہ اچانک حضرت ملک الموت نازل ہوگئے اور ایک لمحہ کی مہلت دئیے بغیر لے جانے کے لئے تیار ہوگئے۔انسان صحرا بیابان اور ویرانہ دشت و جبل میں نہیں ہے گھر کے اندر ہے۔ادھر اولاد ادھر احباب ۔ادھر مہربان باپ ادھر سرو سینہ پیٹنے والی ماں۔ادھر حقیقی بھائیادھر قربان ہونے والی بہن۔لیکن کوئی کرب موت کے لمحہ میں تخفیف بھی نہیں کرا سکتا ہے اور نہ مرنے والے کے کسی کام آسکتا ہے بلکہ اس سے زیادہ کرب ناک یہ منظر ہے کہ اس کیبعد اپنے ہی ہاتھوں سے کفن میں لپیٹا جا رہا ہے اور سانس لینے کے لئے بھی کوئی راستہ نہیں چھوڑا جا رہا ہے اور پھر نہایت درجہ ادب واحترام سے قبر کے اندھیرے میں ڈال کر چاروں طرف سے بند کردیا جاتا ہے کہ کوئی سوراخ بھی نہ رہنے پائے اور ہوا یا روشنی کا گزربھی نہ ہونے پائے۔

کسی کے منہ سے نہ نکلا ہمارے دفن کے وقت

کہ خاک ان پہ نہ ڈالو یہ ہیں نہائے ہوئے

اور اتنا ہی نہیں بلکہ حضرت خود بھی خاک ڈالنے ہی کو محبت کی علامت اوردوستی کے حق کی ادائیگی تصور کر رہے ہیں:

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن

زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

انا لله وانا الیه راجعون

۱۲۳

ولَادِمَةٍ لِلصَّدْرِ قَلَقاً - والْمَرْءُ فِي سَكْرَةٍ مُلْهِثَةٍ وغَمْرَةٍ كَارِثَةٍ وأَنَّةٍ مُوجِعَةٍ وجَذْبَةٍ مُكْرِبَةٍ وسَوْقَةٍ مُتْعِبَةٍ - ثُمَّ أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِه مُبْلِساً وجُذِبَ مُنْقَاداً سَلِساً ثُمَّ أُلْقِيَ عَلَى الأَعْوَادِ رَجِيعَ وَصَبٍ ونِضْوَ سَقَمٍ - تَحْمِلُه حَفَدَةُ الْوِلْدَانِ وحَشَدَةُ الإِخْوَانِ إِلَى دَارِ غُرْبَتِه - ومُنْقَطَعِ زَوْرَتِه ومُفْرَدِ وَحْشَتِه - حَتَّى إِذَا انْصَرَفَ الْمُشَيِّعُ ورَجَعَ الْمُتَفَجِّعُ - أُقْعِدَ فِي حُفْرَتِه نَجِيّاً لِبَهْتَةِ السُّؤَالِ وعَثْرَةِ الِامْتِحَانِ - وأَعْظَمُ مَا هُنَالِكَ بَلِيَّةً نُزُولُ الْحَمِيمِ وتَصْلِيَةُ الْجَحِيمِ وفَوْرَاتُ السَّعِيرِ - وسَوْرَاتُ الزَّفِيرِ لَا فَتْرَةٌ مُرِيحَةٌ - ولَا دَعَةٌ مُزِيحَةٌ ولَا قُوَّةٌ حَاجِزَةٌ ولَا مَوْتَةٌ نَاجِزَةٌ ،ولَا سِنَةٌ مُسَلِّيَةٌ - بَيْنَ أَطْوَارِ الْمَوْتَاتِ وعَذَابِ السَّاعَاتِ - إِنَّا بِاللَّه عَائِذُونَ!

عِبَادَ اللَّه أَيْنَ الَّذِينَ عُمِّرُوا فَنَعِمُوا وعُلِّمُوا فَفَهِمُوا -

اور اضطراب سے سینہ کو بی کرنے والی بہن بھی موجود تھی لیکن انسان سکرا ت مومن کی مدہوشیوں ۔شدید قسم کی بدحواسیوں۔درد ناک قسم کی فریادوں اور کرب انگیز قسم کی نزع کی کیفیتوں اور تھکا دین والی شدتوں میں مبتلا تھا۔ اس کے بعد اسے مایوسی کے عالم میں کفن میں لپیٹ دیا گیا اور وہ نہایت درجہ آسانی اور خود سپردگی کے ساتھ کھینچا جانے لگا اس کے بعد اسے تختہ پر لٹا دیا گیا اس عالم میں کہ خستہ حال اور بیماریوں سے نڈھال ہو چکا تھا۔اولاد اوربرادری کے لوگ اسے اٹھا کر اس گھر کی طرف لے جا رہے تھے جو غربت کاگھر تھا اور جہاں ملاقاتوں کا سلسلہ بند تھا اور تنہائی کی وحشت کا دور دورہ تھا یہاں تک کہ جب مشایعت کرنے والے واپس آگئے اور گریہ و زاری کرنے والے پلٹ گئے تو اسے قبر میں دوبارہ اٹھا کربٹھا دیا گیا ۔سوال و جواب کی دہشت اور امتحان کی لغزشوں کا سامنا کرنے کے لئے۔اور وہاں کی سب سے بڑی مصیبت تو کھولتے ہوئے پانی کا نزول اور جہنم کا درود ہے جہاں آگ بھڑک رہی ہوگی اور شعلے بلند ہو رہے ہوں گے۔نہ کوئی راحت کا وقفہ ہوگا اور نہ سکون کا لمحہ۔نہ کوئی طاقت عذاب کو روکنے والی ہوگی اور نہ کوئی موت سکون بخش ہوگی۔حد یہ ہے کہ کوئی تسلی بخش نیند بھی نہ ہوگی۔طرح طرح کی موتیں ہوں گی اور دمبدم کا عذاب ۔بیشک ہم اس منزل پر پروردگار کی پناہ کے طلب گار ہیں۔بندگان خدا!کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں عمر یں دی گئیں تو خوب مز ے اڑائے اور بتایا گیا تو سب سمجھ گئے

۱۲۴

وأُنْظِرُوا فَلَهَوْا وسُلِّمُوا فَنَسُوا - أُمْهِلُوا طَوِيلًا ومُنِحُوا جَمِيلًا - وحُذِّرُوا أَلِيماً ووُعِدُوا جَسِيماً - احْذَرُوا الذُّنُوبَ الْمُوَرِّطَةَ والْعُيُوبَ الْمُسْخِطَةَ.

أُولِي الأَبْصَارِ والأَسْمَاعِ والْعَافِيَةِ والْمَتَاعِ - هَلْ مِنْ مَنَاصٍ أَوْ خَلَاصٍ - أَوْ مَعَاذٍ أَوْ مَلَاذٍ أَوْ فِرَارٍ أَوْ مَحَارٍ أَمْ لَا –( فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ) أَمْ أَيْنَ تُصْرَفُونَ أَمْ بِمَا ذَا تَغْتَرُّونَ - وإِنَّمَا حَظُّ أَحَدِكُمْ مِنَ الأَرْضِ ذَاتِ الطُّوْلِ والْعَرْضِ - قِيدُ قَدِّه مُتَعَفِّراً عَلَى خَدِّه - الآنَ عِبَادَ اللَّه والْخِنَاقُ مُهْمَلٌ والرُّوحُ مُرْسَلٌ - فِي فَيْنَةِ الإِرْشَادِ ورَاحَةِ الأَجْسَادِ وبَاحَةِ الِاحْتِشَادِ ومَهَلِ الْبَقِيَّةِ وأُنُفِ الْمَشِيَّةِ وإِنْظَارِ التَّوْبَةِ - وانْفِسَاحِ الْحَوْبَةِ قَبْلَ الضَّنْكِ والْمَضِيقِ والرَّوْعِ والزُّهُوقِ وقَبْلَ قُدُومِ الْغَائِبِ الْمُنْتَظَرِ - وإِخْذَةِ الْعَزِيزِ الْمُقْتَدِرِ.

لیکن مہلت دی گئی تو غفلت میں پڑ گئے۔صحت و سلامتی دی گئی تو اس نعمت کوبھول گئے۔انہیں کافی طویل مہلت دی گئی اور کافی اچھی نعمتیں دی گئی اور انہیں دردناک عذاب سے ڈرایا بھی گیا اور بہترین نعمتوںکاوعدہ بھی کیا گیا۔لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔اب تم لوگمہلک گناہوں سے پرہیز کرو اور خدا کو ناراض کرنے والے عیوب سے دور رہو۔تم صاحبان سماعت و بصارت اور اہل عافیت و ثروت ہو بتائو کیا بچائو کی کوئی جگہ یاچھٹکارہ کی کوئی گنجائش ہے۔کوئی ٹھکانہ یا پناہ گاہ ہے۔کوئیجائے فرار یا دنیا میں واپسی کی کوئی صورت ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو کدھر بہکے جا رہے ہواور کہاں تم کو لے جایا جا رہا ہے یا کس دھوکہ میں پڑے ہو؟

یاد رکھو اس طویل و عریض زمین میں تمہاری قسمت صرف بقدر قامت جگہ ہے جہاں رخساروں کو خاک پر رہنا ہے۔

بندگان خدا! ابھی موقع ہے۔رسی ڈھیلی ے۔روح آزاد ہے۔تم ہدایت کی منزل اور جسمانی راحت کی جگہ پرہو۔مجلسوںکے اجتماع میں ہو اور بقیہ زندگی کی مہلت سلامت ہے اور راستہ اختیار کرنے کی آزادی ہے اور توبہ کی مہلت ہے اور جگہ کی وسعت ہے قبل اس کے کہ تنگی لحد۔ضیق مکان ۔خوف اورجانکنی کا شکار ہو جائو اور قبل اس کے کہ وہ موت آجائے جس کا انتظار ہو رہا ہے اور وہ پروردگار اپنی گرفت میں لیلے جو صاحب عزت وغلبہ اور صاحب طاقت و قدرت ہے۔

۱۲۵

قال الشريف - وفي الخبر أنهعليه‌السلام لما خطب بهذه الخطبة - اقشعرت لها الجلود وبكت العيون ورجفت القلوب - ومن الناس من يسمي هذه الخطبة الغراء

(۸۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكر عمرو بن العاص

عَجَباً لِابْنِ النَّابِغَةِ يَزْعُمُ لأَهْلِ الشَّامِ أَنَّ فِيَّ دُعَابَةً وأَنِّي امْرُؤٌ تِلْعَابَةٌ أُعَافِسُ وأُمَارِسُ - لَقَدْ قَالَ بَاطِلًا ونَطَقَ آثِماً - أَمَا وشَرُّ الْقَوْلِ الْكَذِبُ إِنَّه لَيَقُولُ فَيَكْذِبُ ويَعِدُ فَيُخْلِفُ ويُسْأَلُ فَيَبْخَلُ ويَسْأَلُ فَيُلْحِفُ ويَخُونُ الْعَهْدَ ويَقْطَعُ الإِلَّ فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْحَرْبِ فَأَيُّ زَاجِرٍ وآمِرٍ هُوَ - مَا لَمْ تَأْخُذِ السُّيُوفُ مَآخِذَهَا - فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ كَانَ أَكْبَرُ [أَكْبَرَ] مَكِيدَتِه أَنْ يَمْنَحَ الْقَرْمَ سَبَّتَه - أَمَا واللَّه إِنِّي لَيَمْنَعُنِي مِنَ اللَّعِبِ ذِكْرُ الْمَوْتِ - وإِنَّه لَيَمْنَعُه مِنْ قَوْلِ الْحَقِّ نِسْيَانُ الآخِرَةِ -

سید رضی : کہا جاتا ہے کہ جب حضرت نے اس خطبہ کو ارشاد فرمایا تو لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اورآنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اوردل لرزنے لگے۔بعض لوگ اس خطبہ کو ''خطبہ غراء '' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

(۸۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں عمرو عاص کاذکر کیا گیا ہے)

تعجب ہے نابغہ کے بیٹے سے۔کہ یہ اہل شام سے بیان کرتا ہے کہ میرے مزاج میں مزاح پایا جاتاہے اور میں کوئی کھیل تماشہ والا انسان ہوں اور ہنسی مذاق میں لگا رہتا ہوں۔یقینا اس نے یہ بات غلط کہی ہے اور اس کی بنا پر گناہ گار بھی ہوا ہے۔

آگاہ ہوجائو کہ بد ترین کلام غلط بیانی ہے اور یہ جب بولتا ہے تو جھوٹ ہی بولتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی ہی کرتا ہے اور جب اس سے کچھ مانگا جاتا ہے تو بخل ہی کرتا ہے اورجب خود مانگتا ہے تو چمٹ جاتا ہے۔عہدو پیمان میں خیانت کرتا ہے۔قرابتوں میں قطع رحم کرتا ہے۔جنگ کے وقت دیکھو تو کیا کیا امرو نہیں کرتا ہے جب تک تلواریں اپنی منزل پر زور نہ پکڑ لیں۔ورنہ جب ایسا ہو جاتا ہے تواس کا سب سے بڑا حربہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن کے سامنے اپنی پشت کو پیش کردے۔خداگواہ ہے کہ مجھے کھیل کود سے یا موت نے روک رکھا ہے اور اسے حرف حق سے نسیان آخرت نے روک رکھا ہے

۱۲۶

إِنَّه لَمْ يُبَايِعْ مُعَاوِيَةَ حَتَّى شَرَطَ أَنْ يُؤْتِيَه أَتِيَّةً ويَرْضَخَ لَه عَلَى تَرْكِ الدِّينِ رَضِيخَةً

(۸۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها صفات ثمان من صفات الجلال

وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وَحْدَه لَا شَرِيكَ لَه - الأَوَّلُ لَا شَيْءَ قَبْلَه والآخِرُ لَا غَايَةَ لَه - لَا تَقَعُ الأَوْهَامُ لَه عَلَى صِفَةٍ - ولَا تُعْقَدُ الْقُلُوبُ مِنْه عَلَى كَيْفِيَّةٍ - ولَا تَنَالُه التَّجْزِئَةُ والتَّبْعِيضُ - ولَا تُحِيطُ بِه الأَبْصَارُ والْقُلُوبُ.

ومنها: فَاتَّعِظُوا عِبَادَ اللَّه بِالْعِبَرِ النَّوَافِعِ - واعْتَبِرُوا بِالآيِ السَّوَاطِعِ وازْدَجِرُوا بِالنُّذُرِ الْبَوَالِغِ وانْتَفِعُوا بِالذِّكْرِ والْمَوَاعِظِ - فَكَأَنْ قَدْ عَلِقَتْكُمْ مَخَالِبُ الْمَنِيَّةِ - وانْقَطَعَتْ مِنْكُمْ عَلَائِقُ الأُمْنِيَّةِ - ودَهِمَتْكُمْ مُفْظِعَاتُ الأُمُورِ والسِّيَاقَةُ إِلَى( الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ ) - فَ( كُلُّ نَفْسٍ مَعَها سائِقٌ وشَهِيدٌ ) - سَائِقٌ يَسُوقُهَا إِلَى مَحْشَرِهَا وشَاهِدٌ يَشْهَدُ عَلَيْهَا بِعَمَلِهَا.

اس نے معاویہ کی بیعت بھی اس وقت تک نہیں کی جب تک اس سے یہ طے نہیں کرلیا کہ اسے کوئی ہدیہ دے گا اور اس کے سامنے ترک دین پر کوئی تحفہ پیش کرے گا۔

(۸۵)

(جس میں پروردگار کے آٹھ صفات کاتذکرہ کیا گیا ہے)

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔وہ ایسا اول ہے جس سے پہلے کچھ نہیں ہے اور ایسا آخر ہے جس کی کوئی حد معین نہیں ہے۔خیالات اس کی کسی صفت کا ادراک نہیں کر سکتے ہیں اور دل اس کی کوئی کیفیت طے نہیں کر سکتا ہے۔اس کی ذات کے نہ اجزا ہیں اور نہ ٹکڑے اورنہ وہ دل و نگاہ کے احاطہ کے اندر آسکتا ہے۔

بندگان خدا! مفید عبرتوں سے نصیحت حاصل کرواور واضح نشانیوں سے عبرت لو۔بلیغ ڈرانے والی چیزوں سے اثر قبول کرو اور ذکر و موعظت سے فائدہ حاصل کرو۔یہ سمجھو کہ گویا موت اپنے پنجے تمہارے اندر گاڑ چکی ہے اورامیدوں کے رشتے تم سے منقطع ہوچکے ہیں اوردہشت ناک حالات نے تم پرحملہ کردیا ہے اورآخری منزل کی طرف لیجانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔یاد رکھو کہ '' ہر نفس کے ساتھ ایک ہنکانے والا ہے اور ایک گواہ رہتا ہے''۔ہنکانے والا قیامت کی طرف کھینچ کرلے جا رہا ہے اور گواہی دینے والا اعمال کی نگرانی کر رہا ہے

۱۲۷

ومنها في صفة الجنة

دَرَجَاتٌ مُتَفَاضِلَاتٌ ومَنَازِلُ مُتَفَاوِتَاتٌ - لَا يَنْقَطِعُ نَعِيمُهَا ولَا يَظْعَنُ مُقِيمُهَا - ولَا يَهْرَمُ خَالِدُهَا ولَا يَبْأَسُ سَاكِنُهَا

(۸۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها بيان صفات الحق جل جلاله، ثم عظة الناس بالتقوى والمشورة

قَدْ عَلِمَ السَّرَائِرَ وخَبَرَ الضَّمَائِرَ - لَه الإِحَاطَةُ بِكُلِّ شَيْءٍ والْغَلَبَةُ لِكُلِّ شَيْءٍ - والْقُوَّةُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ.

عظة الناس

فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُ مِنْكُمْ فِي أَيَّامِ مَهَلِه قَبْلَ إِرْهَاقِ أَجَلِه وفِي فَرَاغِه قَبْلَ أَوَانِ شُغُلِه - وفِي مُتَنَفَّسِه

اس کے درجات مختلف(۱) اوراس کی منزلیں پست و بلند ہیں لیکن اس کی نعمتیں ختم ہونے والی نہیں ہیں اور اس کے باشندوں کو کہیں اور کوچ کرنے نہیں ہے۔اس میں ہمیشہ رہنے والا بھی بوڑھا نہیں ہوتا ہے اور اس کے رہنے والوں کو فقرو فاقہ سے سابقہ نہیں پڑتاہے۔

(۸۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں صفات خالق '' جل جلالہ'' کاذکر کیا گیا ہے اور پھر لوگوں کو تقویٰ کی نصیحت کی گئی ہے)

بیشک وہ پوشیدہ اسرار کا عالم اور دلوں کے رازوں سے با خبر ہے۔اسے ہرشے پر احاطہ حاصل ہے اوروہ ہر شے پرغالب ہے۔اور طاقت رکھنے والا ہے۔

موعظہ

تم میں سے ہرشخص کا فرض ہے کہ مہلت کے دنوں میں عمل کرے قبل اس کے کہ موت حائل ہو جائے اور فرصت کے دنوں میں کام کرے قبل اس کے کہ مشغول ہو جائے۔ابھی جب کہ سانس لینے کاموقع ہے

(۱)بعض اوقات یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ جب جنت میں ہرنعمت کا انتظام ہے اور وہاں کی کوئی خواہش مسترد نہیں ہوسکتی ہے تو ان درجات کا فائدہ ہی کیا ہے۔پست منزل والا جیسے ہی بلند منزل کی خواہش کرے گا وہاں پہنچ جائے گا اور یہ سب درجات بیکار ہو کر رہ جائیں گے۔لیکن اس کا واضح سا جوا ب یہ ہے کہ جنت ان لوگوں کا مقام نہیں ہے جو اپنی منزل نہ پہچانتے ہوں اوراپنی اوقات سے بلند تر جگہ کی ہوس رکھتے ہوں۔ہوس کا مقام جہنم ہے جنت نہیں ہے۔جنت والے اپنے مقامات کو پہچانتے ہیں۔یہ اوربات ہے کہ بلند مقامات والوں کے خادم اورنوکر ہیں تو خدمت کے سہارے دیگرنو کروں کی طرح بلند منازل تک پہنچ جائیں جس کی طرف امام نے اشارہ فرمایا ہے کہ'' ہمارے شیعہ ہمارے ساتھ جنت میں ہمارے درجہ میں ہوں گے''

۱۲۸

قَبْلَ أَنْ يُؤْخَذَ بِكَظَمِه ولْيُمَهِّدْ لِنَفْسِه وقَدَمِه ولْيَتَزَوَّدْ مِنْ دَارِ ظَعْنِه لِدَارِ إِقَامَتِه - فَاللَّه اللَّه

أَيُّهَا النَّاسُ فِيمَا اسْتَحْفَظَكُمْ مِنْ كِتَابِه - واسْتَوْدَعَكُمْ مِنْ حُقُوقِه - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يَتْرُكْكُمْ سُدًى - ولَمْ يَدَعْكُمْ فِي جَهَالَةٍ ولَا عَمًى قَدْ سَمَّى آثَارَكُمْ وعَلِمَ أَعْمَالَكُمْ وكَتَبَ آجَالَكُمْ - وأَنْزَلَ عَلَيْكُمُ الْكِتَابَ( تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ ) - وعَمَّرَ فِيكُمْ نَبِيَّه أَزْمَاناً حَتَّى أَكْمَلَ لَه ولَكُمْ - فِيمَا أَنْزَلَ مِنْ كِتَابِه دِينَه الَّذِي رَضِيَ لِنَفْسِه - وأَنْهَى إِلَيْكُمْ عَلَى لِسَانِه مَحَابَّه مِنَ الأَعْمَالِ ومَكَارِهَه - ونَوَاهِيَه وأَوَامِرَه وأَلْقَى إِلَيْكُمُ الْمَعْذِرَةَ - واتَّخَذَ عَلَيْكُمُ الْحُجَّةَ وقَدَّمَ( إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ ) - وأَنْذَرَكُمْ( بَيْنَ يَدَيْ عَذابٍ شَدِيدٍ ) فَاسْتَدْرِكُوا بَقِيَّةَ أَيَّامِكُمْ واصْبِرُوا لَهَا أَنْفُسَكُمْ فَإِنَّهَا قَلِيلٌ فِي كَثِيرِ الأَيَّامِ الَّتِي تَكُونُ مِنْكُمْ فِيهَا الْغَفْلَةُ - والتَّشَاغُلُ عَنِ الْمَوْعِظَةِ ولَا تُرَخِّصُوا لأَنْفُسِكُمْ - فَتَذْهَبَ بِكُمُ الرُّخَصُ مَذَاهِبَ الظَّلَمَةِ

قبل اس کے کہ گلا گھونٹ دیا جائے۔اپنے نفس اور اپنی منزل کے لئے سامان مہیا کرلے اور اس کوچ کے گھرسے اس قیام کے گھر کے لئے زاد راہ فراہم کرلے۔

لوگو! اللہ کو یاد رکھو اور اس سے ڈرتے رہو اور اس کتاب کے بارے میں جس کا تم کو محافظ بنایا گیا ہے اوران حقوق کے بارے میں جن کا تم کو امانت دار قرار دیا گیاہے۔اس لئے کہ اس نے تم کو بیکارنہیں پیدا کیا ہے اور نہ مہمل چھوڑ دیا ہے اور نہ کسی جہالت اورتاریکی میں رکھاہے۔تمہارے لئے آثار کو بیان کردیا ہے۔اعمال کو بتا دیا ہے اورمدت حیات کو لکھ دیا ہے۔وہ کتاب نازل کردی ہے جس میں ہر شے کا بیان پایا جاتاہے اور ایک مدت تک اپنے پیغمبر (ص) کو تمہارے درمیان رکھ چکا ہے۔یہاں تک کہ تمہارے لئے اپنے اس دن کو کامل کردیا ہے جسے اس نے پسندیدہ قراردیا ہے اور تمہارے لئے پیغمبر (ص) کی زبان سے ان تمام اعمال کو پہنچادیا ہے جن کو وہ دوست رکھتا ہے یا جن سے نفرت کرتا ہے۔اپنے اوامر و نواہی کر بتا دیا ہے اوردلائل تمہارے سامنے رکھ دئیے ہیں اور حجت تمام کرد ی ہے اورڈرانے دھمکانے کا انتظام کردیا ہے اورعذاب کے آنے سے پہلے ہی ہوشیار کردیا ہے۔لہٰذا اب جتنے دن باقی رہ گئے ہیں انہیں میں تدارک کرلو اور اپنے نفس کو صبر پرآمادہ کرلو کہ یہ دن ایام غفلت کے مقابلہ میں بہت تھوڑے ہیں جب تم نے موعظہ سننے کابھی موقع نہیں نکالا۔خبردار اپنے نفس کو آزاد مت چھوڑو ورنہ یہآزادی تم کو ظالموں کے راستہ پر لے جائے گی

۱۲۹

ولَا تُدَاهِنُوا فَيَهْجُمَ بِكُمُ الإِدْهَانُ عَلَى الْمَعْصِيَةِ - عِبَادَ اللَّه إِنَّ أَنْصَحَ النَّاسِ لِنَفْسِه أَطْوَعُهُمْ لِرَبِّه - وإِنَّ أَغَشَّهُمْ لِنَفْسِه أَعْصَاهُمْ لِرَبِّه - والْمَغْبُونُ مَنْ غَبَنَ نَفْسَه والْمَغْبُوطُ مَنْ سَلِمَ لَه دِينُه - والسَّعِيدُ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِه - والشَّقِيُّ مَنِ انْخَدَعَ لِهَوَاه وغُرُورِه

واعْلَمُوا أَنَّ يَسِيرَ الرِّيَاءِ شِرْكٌ - ومُجَالَسَةَ أَهْلِ الْهَوَى مَنْسَاةٌ لِلإِيمَانِ ومَحْضَرَةٌ لِلشَّيْطَانِ جَانِبُوا الْكَذِبَ فَإِنَّه مُجَانِبٌ لِلإِيمَانِ - الصَّادِقُ عَلَى شَفَا مَنْجَاةٍ وكَرَامَةٍ - والْكَاذِبُ عَلَى شَرَفِ مَهْوَاةٍ ومَهَانَةٍ - ولَاتَحَاسَدُوا - فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الإِيمَانَ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ - ولَا تَبَاغَضُوا فَإِنَّهَا الْحَالِقَةُ واعْلَمُوا أَنَّ الأَمَلَ يُسْهِي الْعَقْلَ -

اوراس کے ساتھ نرمی نہ بر تو ورنہ یہ تمہیں مصیبتوں میں جھونک دے گا۔

بندگان خدا! اپنے نفس کا سب سے سچا مخلص وہی ہے جو پروردگار کا سب سے بڑا اطاعت گزار ہے اور اپنے نفس سے سب سے بڑا خیانت کرنے والا وہی ہے جو اپنے پروردگار کا معصیت کار ہے ۔خسارہ میں وہ ہے جو خود اپنے نفس کوگھاٹے میں رکھے اور قابل رشک وہ ہے جس کا دین سلامت رہ جائے۔نیک بخت وہ ہے جو دوسروں کے حالات سے نصیحت حاصل کرلے اورب د بخت وہ ہے جو خواہشات کے دھوکہ میں آجائے۔

یاد رکھو کہ مختصر سا شائبہ ریا کاری بھی ایک طرح کا شرک ہے اورخواہش(۱) پرستوں کی صحبت بھی ایمان سے غافل بنانے والی ہے اور شیطان کو ہمیشہ سامنے لانے والی ہے۔جھوٹ سے پرہیز کرو کہ وہ ایمان سے کنارہ کش رہتا ہے۔سچ بولنے والا ہمیشہ نجات اور کرامت کے کنارہ پر رہت ہے اور جھوٹ بولنے والا ہمیشہ تباہی اورذلت کے دہانہ پر رہتا ہے۔خبردار ایک دوسرے سے حسد نہ کرنا کہ''حسد ایمان کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑی کو کھا جاتی ہے''۔ اورآپس میں ایک دوسرے سے بغض نہ رکھنا کہ بغض ایمان کا صفایا کرتا دیتا ہے اوریاد رکھو کہ خواہش عقل کو بھلا دیتی ہے

(۱)آپ جب چاہیں اہل دنیا کی محفلوں کا جائزہ لے لیں۔دنیا بھر کی مہمل باتیں کھیل کودکے تذکرے۔سیاست کے تبصرے ۔لوگوں کی غیبت ' پاکیزہ کردار لوگوں پر تہمت تاش کے پتے شطرنج کے مہرے وغیرہ نظر آجائیں گے تو کیا ایسی محفلوں میں ملائکہ مقربین بھی حاضر ہوں گے۔یقینا یہ مقامات شیاطین کے حضور اور ایمان سے غفلت کے مراحل ہیں جن سے اجتناب ہر مسلمان کا فریضہ ہے اوراس کے بغیرتباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۱۳۰

ويُنْسِي الذِّكْرَ فَأَكْذِبُوا الأَمَلَ - فَإِنَّه غُرُورٌ وصَاحِبُه مَغْرُورٌ.

(۸۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في بيان صفات المتقين وصفات الفساق والتنبيه إلى مكان العترة الطيبة والظن الخاطئ لبعض الناس

عِبَادَ اللَّه إِنَّ مِنْ أَحَبِّ عِبَادِ اللَّه إِلَيْه عَبْداً - أَعَانَه اللَّه عَلَى نَفْسِه فَاسْتَشْعَرَ الْحُزْنَ - وتَجَلْبَبَ الْخَوْفَ فَزَهَرَ مِصْبَاحُ الْهُدَى فِي قَلْبِه - وأَعَدَّ الْقِرَى لِيَوْمِه النَّازِلِ بِه - فَقَرَّبَ عَلَى نَفْسِه الْبَعِيدَ وهَوَّنَ الشَّدِيدَ - نَظَرَ فَأَبْصَرَ وذَكَرَ فَاسْتَكْثَرَ - وارْتَوَى مِنْ عَذْبٍ فُرَاتٍ سُهِّلَتْ لَه مَوَارِدُه - فَشَرِبَ نَهَلًا وسَلَكَ سَبِيلًا جَدَداً قَدْ خَلَعَ سَرَابِيلَ الشَّهَوَاتِ وتَخَلَّى مِنَ الْهُمُومِ - إِلَّا هَمّاً وَاحِداً انْفَرَدَ بِه فَخَرَجَ مِنْ صِفَةِ الْعَمَى - ومُشَارَكَةِ أَهْلِ الْهَوَى وصَارَ مِنْ مَفَاتِيحِ أَبْوَابِ الْهُدَى - ومَغَالِيقِ أَبْوَابِ الرَّدَى

اور ذکر خداسے غافل بنا دیتی ہے ۔خواہشات کوجھٹلائو کہ یہ صرف دھوکہ ہیں اور ان کا ساتھ دینے والا ایک فریب خوردہ انسان ہے اورکچھ نہیں ہے۔

(۸۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں متقین اورفاسقین کے صفات کاتذکرہ کیا گیا ہے اور لوگوں کوتنبیہ کی گئی ہے )

بندگان خدا!اللہ کی نگاہ میں سب سے محبوب بندہ وہ ہے جس کی خدانے اس کے نفس کے خلاف مدد کی ہے اور اس نے اندر حزن اور باہرخوف کا لباس پہن لیا ہے ۔اس کے دل میں ہدات کا چراغ روشن ہے اور اس نے آنے والے دن کی مہمانی کا انتظام کرلیا ہے۔اپنے نفس کے لئے آنے والے بعید ( موت) کو قریب کرلیا ہے اور سخت مرحلہ کوآسان کرلیا ہے۔دیکھا ہے تو بصیرت پیدا کی ہے اور خدا کو یاد کیا ہے تو عمل میں کثرت پیدا کی ہے۔ ہدایت کے اس چشمہ شیریں و خوشگوار سے سیراب ہوگیا ہے جس پر وارد ہونے کو آسان بنادیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں خوب چھک کر پی لیا ہے اور سیدھے راستہ پرچل پڑا ہے۔خواہشات کے لباس کو جدا کردیا ہے اور تمام افکارسے آزاد ہوگیاہے صرف ایک فکر آخرت باقی رہ گئی ہے جس کے زیر اثر گمراہی کی منزل سے نکل آیا ہے اور اہل ہو اور ہوس کی شرکت سے دور ہوگیا ہے۔ہدایت کے دروازہ کی کلید بن گیا ہے اور گمراہی کے دروازوں کا قفل بن گیا ہے

۱۳۱

قَدْ أَبْصَرَ طَرِيقَه وسَلَكَ سَبِيلَه وعَرَفَ مَنَارَه - وقَطَعَ غِمَارَه واسْتَمْسَكَ مِنَ الْعُرَى بِأَوْثَقِهَا - ومِنَ الْحِبَالِ بِأَمْتَنِهَا فَهُوَ مِنَ الْيَقِينِ عَلَى مِثْلِ ضَوْءِ الشَّمْسِ - قَدْ نَصَبَ نَفْسَه لِلَّه سُبْحَانَه فِي أَرْفَعِ الأُمُورِ - مِنْ إِصْدَارِ كُلِّ وَارِدٍ عَلَيْه وتَصْيِيرِ كُلِّ فَرْعٍ إِلَى أَصْلِه - مِصْبَاحُ ظُلُمَاتٍ كَشَّافُ

عَشَوَاتٍ مِفْتَاحُ مُبْهَمَاتٍ - دَفَّاعُ مُعْضِلَاتٍ دَلِيلُ فَلَوَاتٍ يَقُولُ فَيُفْهِمُ ويَسْكُتُ فَيَسْلَمُ - قَدْ أَخْلَصَ لِلَّه فَاسْتَخْلَصَه - فَهُوَ مِنْ مَعَادِنِ دِينِه وأَوْتَادِ أَرْضِه - قَدْ أَلْزَمَ نَفْسَه الْعَدْلَ فَكَانَ أَوَّلَ عَدْلِه نَفْيُ الْهَوَى عَنْ نَفْسِه - يَصِفُ الْحَقَّ ويَعْمَلُ بِه لَا يَدَعُ لِلْخَيْرِ غَايَةً إِلَّا أَمَّهَا ولَا مَظِنَّةً إِلَّا قَصَدَهَا قَدْ أَمْكَنَ الْكِتَابَ مِنْ زِمَامِه فَهُوَ قَائِدُه وإِمَامُه يَحُلُّ حَيْثُ حَلَّ ثَقَلُه ويَنْزِلُ حَيْثُ كَانَ مَنْزِلُه.

صفات الفساق

وآخَرُ قَدْ تَسَمَّى عَالِماً ولَيْسَ بِه - فَاقْتَبَسَ جَهَائِلَ مِنْ جُهَّالٍ وأَضَالِيلَ مِنْ ضُلَّالٍ

اپنے راستہ کو دیکھ لیا ہے اور اسی پر چل پڑا ہے۔اس لئے کہ وہ اپنے یقین میں بالکل نور آفتاب جیسی روشنی رکھتا ہے۔اپنے نفس کو بلند ترین امور کی خاطر راہ خدا میں آمادہ کرلیا ہے کہ ہرآنے والے مسئلہ کو حل کردے گا اور فروغ کو ان کی اصل کی طرف پلٹا دے گا۔وہ تاریکیوں کا چراغ ہے اوراندھیروں کا روشن کرنے والا۔مبہمات کی کلید ہے تو مشکلات کا دفع کرنے والا اور پھرصحرائوں میں رہنمائی کرنے والا۔وہ بولتا ہے تو بات کو سمجھا لیتا ہے اور چپ رہتا ہے تو سلامتی کا بندوبست کرلیتا ہے ۔اس نے اللہ سے اخلاص برتا ہے تو اللہ نے اسے اپنا بندہ مخلص بنا لیا ہے۔اب وہ دین خدا کا معدن ہے اور زمین خدا کا رکن اعظم۔اس نے اپنے نفس کے لئے عدل کو لازم قرار دے لیا ہے اور اس کے عدل کی پہلی منزل یہ ہے کہ خواہشات کو اپنے نفس سے دور کردیا ہے اور اب حق ہی کو بیان کرتا ہے اور اسی پر عمل کرتا ہے نیکی کی کوئی منزل ایسی نہیں ہے جس کا قصد نہ کرتا ہو اور کوئی ایسا احتمال نہیں ے جس کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔اپنے امور کی زمام کتاب خدا کے حوالہ کردی ہے اور اب وہی اس کی قائد اور پیشوا ہے جہاں اس کا سامان اترتا ہے وہیں وارد ہو جاتا ہے اور جہاں اس کی منزل ہوتی ہے وہیں پڑائو ڈال دیتا ہے۔

اس کے بر خلاف ایک شخص وہ بھی ہے جس نے اپنا نام عالم رکھ لیا ہے حالانکہ علم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔جاہلوں سے جہالت کو حاصل کیا ہے اور گمراہوں سے گمراہی کو۔لوگوں کے واسطے دھوکہ کے پھندے

۱۳۲

ونَصَبَ لِلنَّاسِ أَشْرَاكاً مِنْ حَبَائِلِ غُرُورٍ وقَوْلِ زُورٍ قَدْ حَمَلَ الْكِتَابَ عَلَى آرَائِه - وعَطَفَ الْحَقَّ عَلَى أَهْوَائِه - يُؤْمِنُ النَّاسَ مِنَ الْعَظَائِمِ ويُهَوِّنُ كَبِيرَ الْجَرَائِمِ - يَقُولُ أَقِفُ عِنْدَ الشُّبُهَاتِ وفِيهَا وَقَعَ - ويَقُولُ أَعْتَزِلُ الْبِدَعَ وبَيْنَهَا اضْطَجَعَ - فَالصُّورَةُ صُورَةُ إِنْسَانٍ والْقَلْبُ قَلْبُ حَيَوَانٍ - لَا يَعْرِفُ بَابَ الْهُدَى فَيَتَّبِعَه - ولَا بَابَ الْعَمَى فَيَصُدَّ عَنْه وذَلِكَ مَيِّتُ الأَحْيَاءِ!

عترة النبي

( فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ ) وأَنَّى تُؤْفَكُونَ والأَعْلَامُ قَائِمَةٌ والآيَاتُ وَاضِحَةٌ والْمَنَارُ مَنْصُوبَةٌ - فَأَيْنَ يُتَاه بِكُمْ وكَيْفَ تَعْمَهُونَ وبَيْنَكُمْ عِتْرَةُ نَبِيِّكُمْ - وهُمْ أَزِمَّةُ الْحَقِّ وأَعْلَامُ الدِّينِ وأَلْسِنَةُ الصِّدْقِ - فَأَنْزِلُوهُمْ بِأَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْآنِ - ورِدُوهُمْ وُرُودَ الْهِيمِ الْعِطَاشِ

أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوهَا عَنْ خَاتَمِ النَّبِيِّينَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إِنَّه يَمُوتُ مَنْ مَاتَ مِنَّا ولَيْسَ بِمَيِّتٍ - ويَبْلَى مَنْ بَلِيَ مِنَّا ولَيْسَ بِبَالٍ - فَلَا تَقُولُوا بِمَا لَا تَعْرِفُونَ

اور مکرو فریب کے جال بچھادئیے ہیں۔کتاب کی تاویل اپنی رائے کے مطابق کی ہے اور حق کو اپنے خواہشات کی طرف موڑدیا ہے۔لوگوں کو بڑے بڑے جرائم کی طرف سے محفوظ بناتا ہے اور ان کے لئے گناہان کبیرہ کو بھی آسان بنا دیتا ہے۔کہتا یہی ہے کہ میں شبہات کے مواقع پر توقف کرتا ہوں لیکن واقعاً انہیں میں گر پڑتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میں بدعتوں سے الگ رہتا ہوں حالانکہ انہیں کے درمیان اٹھتا بیٹھتا ہے اس کی صورت انسانوں جیسی ہے لیکن دل جانوروں جیسا ہے ۔نہ ہدایت کے دروازوں کو پہچانتا ہے کہ اس کا اتباع کرے اور نہ گمراہی کے راستہ کو جانتا ہے کہ اس سے الگ رہے۔یہ در حقیقت ایک چلتی پھرتی میت ہے اور کچھ نہیں ہے۔تو آخر تم لوگ کدھر جا رہے ہو اور تمہیں کس سمت موڑا جا رہا ہے ؟ جب کہ نشانات قائم ہیں ۔اورآیات واضح ہیں۔منارے نصب کئے جا چکے ہیں اور تمہیں بھٹکا یا جا رہا ہے اورتم بھٹکے جا رہے ہو۔دیکھو تمہارے درمیان تمہارے نبی کی عترت موجود ہے۔یہ سب حق کے زمام دار دین کے پرچم اور صداقت کے ترجمان ہیں۔انہیں قرآن کریم کی بہترین منزل پر جگہ دو اور ان کے پاس اس طرح وارد ہو جس طرح پیاسے اونٹ چشمہ پر وارد ہوتے ہیں۔

لوگو! حضرت خاتم النبیین کے اس ارشاد گرامی پر عمل کروکہ '' ہمارا مرنے والا میت نہیں ہوتا ہے اور ہم میںسے کوئی مردو زمانہ سے بوسیدہ نہیں ہوتا ہے'' خبر دار وہ نہ کہو جو تم نہیں جانتے ہو۔اس لئے کہ بسا

۱۳۳

فَإِنَّ أَكْثَرَ الْحَقِّ فِيمَا تُنْكِرُونَ - واعْذِرُوا مَنْ لَا حُجَّةَ لَكُمْ عَلَيْه وهُوَ أَنَا - أَلَمْ أَعْمَلْ فِيكُمْ بِالثَّقَلِ الأَكْبَرِ وأَتْرُكْ فِيكُمُ الثَّقَلَ الأَصْغَرَ - قَدْ رَكَزْتُ فِيكُمْ رَايَةَ الإِيمَانِ - ووَقَفْتُكُمْ عَلَى حُدُودِ الْحَلَالِ والْحَرَامِ - وأَلْبَسْتُكُمُ الْعَافِيَةَ مِنْ عَدْلِي - وفَرَشْتُكُمُ الْمَعْرُوفَ مِنْ قَوْلِي وفِعْلِي - وأَرَيْتُكُمْ كَرَائِمَ الأَخْلَاقِ مِنْ نَفْسِي - فَلَا تَسْتَعْمِلُوا الرَّأْيَ فِيمَا لَا يُدْرِكُ قَعْرَه الْبَصَرُ - ولَا تَتَغَلْغَلُ إِلَيْه الْفِكَرُ.

ظن خاطئ

ومنها: حَتَّى يَظُنَّ الظَّانُّ أَنَّ الدُّنْيَا مَعْقُولَةٌ عَلَى بَنِي أُمَيَّةَ تَمْنَحُهُمْ دَرَّهَا وتُورِدُهُمْ صَفْوَهَا - ولَا يُرْفَعُ عَنْ هَذِه الأُمَّةِ سَوْطُهَا ولَا سَيْفُهَا وكَذَبَ الظَّانُّ لِذَلِكَ - بَلْ هِيَ مَجَّةٌ مِنْ لَذِيذِ الْعَيْشِ يَتَطَعَّمُونَهَا بُرْهَةً - ثُمَّ يَلْفِظُونَهَا جُمْلَةً!

اوقات حق اسی میں ہوتا ہے جسے تم نہیں پہچانتے ہو اور جس کے خلاف تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اس کے عذر کوقبول کرلو اور وہ میں ہوں۔کیا میں نے ثقل اکبر قرآن پر عمل نہیں کیا ہے اور کیا ثقل اصغر اہلبیت کو تمہارے درمیان نہیں رکھا ہے ۔میں نے تمہارے درمیان ایمان کے پرچم کو نصب کردیا ہے اور تمہیں حلال و حرام کے حدود سے آگاہ کردیا ہے۔اپنے عدل کی بنا پر تمہیں لباس عافیت پہنایا ہے۔اوراپنے قول و فعل کی نیکیوں کو تمہارے لئے فرش کردیا ہے اورتمہیں اپنے بلند ترین اخلاق کا منظر دکھلا دیا ہے۔لہٰذا خبردار جس بات کی گہرائی تک نگاہیں نہیں پہنچ سکتی ہیں اور جہاں تک فکر کی رسائی نہیں ہے اس میں اپنی رائے کو استعمال نہ کرنا۔

(ابنی امیہ کے مظالم نے اس قدر دہشت زدہ بنادیا ہے کہ )

بعض لوگ خیال کر رہے ہیں کہ دنیا بنی امیہ کے دامن سے باندھ دی گئی ہے۔انہیں کو اپنے فوائد سے فیض یاب کرے گی اور وہی اس کے چشمہ پر وارد ہوتے رہیں گے اور اب اس امت کے سرے ان کے تازیانے اورتلواریں اٹھ نہیں سکتی ہیں۔حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔یہ حکومت فقط ایک لذیذ قسم کا آب دہن ہے جسے تھوڑی دیر چوسیں گے اور پھر خود ہی تھوک دیں گے۔

۱۳۴

(۸۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها بيان للأسباب التي تهلك الناس

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّه لَمْ يَقْصِمْ جَبَّارِي دَهْرٍ قَطُّ إِلَّا بَعْدَ تَمْهِيلٍ ورَخَاءٍ - ولَمْ يَجْبُرْ عَظْمَ أَحَدٍ مِنَ الأُمَمِ إِلَّا بَعْدَ أَزْلٍ وبَلَاءٍ - وفِي دُونِ مَا اسْتَقْبَلْتُمْ مِنْ عَتْبٍ ومَا اسْتَدْبَرْتُمْ مِنْ خَطْبٍ مُعْتَبَرٌ - ومَا كُلُّ ذِي قَلْبٍ بِلَبِيبٍ ولَا كُلُّ ذِي سَمْعٍ بِسَمِيعٍ - ولَا كُلُّ نَاظِرٍ بِبَصِيرٍ - فَيَا عَجَباً ومَا لِيَ لَا أَعْجَبُ مِنْ خَطَإِ هَذِه الْفِرَقِ - عَلَى اخْتِلَافِ حُجَجِهَا فِي دِينِهَا - لَا يَقْتَصُّونَ أَثَرَ نَبِيٍّ ولَا يَقْتَدُونَ بِعَمَلِ وَصِيٍّ - ولَا يُؤْمِنُونَ بِغَيْبٍ ولَا يَعِفُّونَ عَنْ عَيْبٍ - يَعْمَلُونَ فِي الشُّبُهَاتِ ويَسِيرُونَ فِي الشَّهَوَاتِ - الْمَعْرُوفُ فِيهِمْ مَا عَرَفُوا والْمُنْكَرُ عِنْدَهُمْ مَا أَنْكَرُوا - مَفْزَعُهُمْ فِي الْمُعْضِلَاتِ إِلَى أَنْفُسِهِمْ - وتَعْوِيلُهُمْ فِي الْمُهِمَّاتِ عَلَى آرَائِهِمْ - كَأَنَّ كُلَّ امْرِئٍ مِنْهُمْ إِمَامُ نَفْسِه - قَدْ أَخَذَ مِنْهَا فِيمَا يَرَى بِعُرًى ثِقَاتٍ وأَسْبَابٍ مُحْكَمَاتٍ.

(۸۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کی ہلاکت کے اسباب بیان کئے گئے ہیں)

امابعد!پروردگار نےکسی دورکےظالموں کی کمراسوقت تک نہیں توڑی ہےجب تک انہیں مہلت اورڈھیل نہیں دےدی ہے اورکسی قوم کی ٹوٹی ہوئی ہڈی کواس وقت تک جوڑا نہیں ہے جب تک اسےمصیبتوں اوربلائوں میں مبتلا نہیں کیا ہےاپنے لئےجن مصیبتوں کاتم نےسامناکیاہے اورجن حادثات سےتم گزرچکے ہوانہیں میں سامان عبرت موجود ہےمگر مشکل یہ ہےکہ ہردل والاعقل مند نہیں ہوت ا ہےاور ہرکان والاسمیع یا ہرآنکھ والابصیرنہیں ہوتا ہےکس قدر حیرت انگیز بات ہےاورمیں کس طرح تعجب نہ کروں کہ یہ تمام فرقے اپنےاپنے دین کے بارے میں مختلف دلائل رکھنےکے باوجود سب غلطی پر ہیں کہ نہ نبی (ص) کے نقش قدم پرچلتے ہیں اورنہ انکےاعمال کی پیروی کرتےہیں۔نہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ عیب سے پرہیز کرتے ہیں۔شبہات پرعمل کرتے ہیں اور خواہشات کے راستوں پر قدم آگے بڑھاتے ہیں۔ان کے نزدیک معروف وہی ہےجس کو یہ نیکی سمجھیں اورمنکروہی ہے جس کایہ انکار کردیں۔مشکلات میں ان کا مرجع خود ان کی ذات ہے اورمبہم مسائل میں ان کا اعتمادصرف اپنی رائے پرہےگویا کہ ان میں ہر شخص اپنے نفس کاامام ہے۔اور اپنی ہر رائے کو مستحکم وسائل اور مضبوط دلائل کا نتیجہ سمجھتا ہے۔

۱۳۵

(۸۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الرسول الأعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وبلاغ الإمام عنه

أَرْسَلَه عَلَى حِينِ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ - وطُولِ هَجْعَةٍ مِنَ الأُمَمِ،

واعْتِزَامٍ مِنَ الْفِتَنِ - وانْتِشَارٍ مِنَ الأُمُورِ وتَلَظٌّ مِنَ الْحُرُوبِ والدُّنْيَا كَاسِفَةُ النُّورِ ظَاهِرَةُ الْغُرُورِ - عَلَى حِينِ اصْفِرَارٍ مِنْ وَرَقِهَا - وإِيَاسٍ مِنْ ثَمَرِهَا واغْوِرَارٍ مِنْ مَائِهَا - قَدْ دَرَسَتْ مَنَارُ الْهُدَى وظَهَرَتْ أَعْلَامُ الرَّدَى - فَهِيَ مُتَجَهِّمَةٌ لأَهْلِهَا عَابِسَةٌ فِي وَجْه طَالِبِهَا ثَمَرُهَا الْفِتْنَةُ وطَعَامُهَا الْجِيفَةُ وشِعَارُهَا الْخَوْفُ ودِثَارُهَا السَّيْفُ -. فَاعْتَبِرُوا عِبَادَ اللَّه - واذْكُرُوا تِيكَ الَّتِي آبَاؤُكُمْ وإِخْوَانُكُمْ بِهَا مُرْتَهَنُونَ وعَلَيْهَا مُحَاسَبُونَ - ولَعَمْرِي مَا تَقَادَمَتْ بِكُمْ ولَا بِهِمُ الْعُهُودُ - ولَا خَلَتْ فِيمَا بَيْنَكُمْ وبَيْنَهُمُ الأَحْقَابُ والْقُرُونُ - ومَا أَنْتُمُ الْيَوْمَ مِنْ يَوْمَ كُنْتُمْ فِي أَصْلَابِهِمْ بِبَعِيدٍ -. واللَّه مَا أَسْمَعَكُمُ الرَّسُولُ شَيْئاً - إِلَّا وهَا أَنَا ذَا مُسْمِعُكُمُوه -

(۸۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(رسول اکرم (ص) اور تبلیغ امام کے بارے میں)

اللہ نے انہیں اس دور میں بھیجا جب رسولوں کا سلسلہ موقوف تھا اور امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں۔فتنے سر اٹھائے ہوئے تھے اور جملہ امور میں ایک انتشار کی کیفیت تھی اور جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔دنیا کی روشنی کجلائی ہوئی تھی اور اس کا فریب واضح تھا۔باغ زندگی کے پتے زرد ہوگئے تھے اور ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہوچلی تھی۔پانی بھی تہ نشین ہو چکا تھا اور ہدایت ک ے منارے بھی مٹ گئے تھے اور ہلاکت کے ناشنات بھی نمایاں تھے۔یہ دنیا اپنے اہل کو ترش روئی سے دیکھ رہی تھی اور اپنے طلب گاروں کے سامنے منہ بگاڑ کر پیش آرہی تھی۔اس کا ثمرہ فتنہ تھا اور اس کی غذا مردار۔اس کا اندرونی لباس خوف تھا اوربیرونی لباس تلوار۔لہٰذا بندگان خداتم عبرت حاصل کرو اور ان حالات کو یاد کرو جن میں تمہارے باپ دادا اوربھائی بندہ گرفتار ہیں اور ان کا حساب دے رہے ہیں۔

میری جان کی قسم! ابھی ان کے اور تمہارے درمیان زیادہ زمانہ نہیں گزرا ہے اور نہ صدیوں کا فاصلہ ہوا ہے اور نہ آج کا دن کل کے دن سے زیادہ دور ہے جب تم انہیں بزرگوں کے صلب میں تھے۔

خدا کی قسم رسول اکرم (ص) نے تمہیں کوئی ایسی بات نہیں سنائی ہے جسے آج میں نہیں سنا رہا ہوں

۱۳۶

ومَا أَسْمَاعُكُمُ الْيَوْمَ بِدُونِ أَسْمَاعِكُمْ بِالأَمْسِ - ولَا شُقَّتْ لَهُمُ الأَبْصَارُ - ولَا جُعِلَتْ لَهُمُ الأَفْئِدَةُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ - إِلَّا وقَدْ أُعْطِيتُمْ مِثْلَهَا فِي هَذَا الزَّمَانِ - ووَ اللَّه مَا بُصِّرْتُمْ بَعْدَهُمْ شَيْئاً جَهِلُوه - ولَا أُصْفِيتُمْ بِه وحُرِمُوه - ولَقَدْ نَزَلَتْ بِكُمُ الْبَلِيَّةُ جَائِلًا خِطَامُهَا رِخْواً بِطَانُهَا فَلَا يَغُرَّنَّكُمْ مَا أَصْبَحَ فِيه أَهْلُ الْغُرُورِ - فَإِنَّمَا هُوَ ظِلٌّ مَمْدُودٌ إِلَى أَجَلٍ مَعْدُودٍ.

(۹۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وتشتمل على قدم الخالق وعظم مخلوقاته، ويختمها بالوعظ

الْحَمْدُ لِلَّه الْمَعْرُوفِ مِنْ غَيْرِ رُؤْيَةٍ والْخَالِقِ مِنْ غَيْرِ رَوِيَّةٍ .الَّذِي لَمْ يَزَلْ قَائِماً دَائِماً إِذْ لَا سَمَاءٌ ذَاتُ أَبْرَاجٍ - ولَا حُجُبٌ ذَاتُ إِرْتَاجٍ ولَا لَيْلٌ دَاجٍ ولَا بَحْرٌ سَاجٍ ولَا جَبَلٌ ذُو فِجَاجٍ ولَا فَجٌّ ذُو اعْوِجَاجٍ - ولَا أَرْضٌ ذَاتُ مِهَادٍ ولَا خَلْقٌ ذُو اعْتِمَادٍ ذَلِكَ مُبْتَدِعُ

اور تمہارے کان بھی کل کے کان سے کم نہیں ہیں اور جس طرح کل انہوں نے لوگوں کی آنکھیں کھول دی تھیں اور دل بنادئیے تھے ویسے ہی آج میں بھی تمہیں وہ ساری چیزیں دے رہا ہوں اور خدا گواہ ہے کہ تمہیں کوئی ایسی چیز نہیں دکھلائی جا رہی ہے جس سے تمہارے بزرگ نا واقف تھے اور نہ کوئی ایسی خاص بات بتائی جا رہی ہے جس سے وہ محروم رہے ہوں۔اور دیکھو تم پر ایک مصیبت نازل ہوگئی ہے اس اونٹنی کے مانند جس کی نکیل جھول رہی ہو اور جس کا تنگ ڈھیلاہوگیا ہولہٰذا خبردار تمہیں پچھلے فریب خوردہ لوگوں کی زندگی دھوکہ میں نہ ڈال دے کہ یہ عیش دنیا ایک پھیلا ہوا سایہ ہے جس کی مدت معین ہے اور پھر سمٹ جائے گا۔

(۹۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں معبود کے قدم اور اس کی مخلوقات کی عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے موعظہ پر اختتام کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جوبغیر دیکھے معروف ہے اور بغیر سوچے پیدا کرنے والا ہے۔وہ ہمیشہ سے قائم اوردائم ہے جب نہ یہ برجوں والےآسمان تھ ے اورنہ بلند دروازوں والے حجابات ۔نہ اندھیری رات تھی اور نہ ٹھہرے ہوئے سمندر۔نہ لمبے چوڑے راستوں والے پہاڑ تھے اورنہ ٹیڑھی ترچھی پہاڑی راہیں۔نہ بچھے ہوئے فرش والی زمین تھی اور نہ کس بل والی مخلوقات ۔وہی مخلوقات کا ایجاد کرنے والا ہے

۱۳۷

الْخَلْقِ ووَارِثُه وإِلَه الْخَلْقِ ورَازِقُه - والشَّمْسُ والْقَمَرُ دَائِبَانِ فِي مَرْضَاتِه - يُبْلِيَانِ كُلَّ جَدِيدٍ ويُقَرِّبَانِ كُلَّ بَعِيدٍ.

قَسَمَ أَرْزَاقَهُمْ وأَحْصَى آثَارَهُمْ وأَعْمَالَهُمْ - وعَدَدَ أَنْفُسِهِمْ وخَائِنَةَ أَعْيُنِهِمْ ومَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ مِنَ الضَّمِيرِ - ومُسْتَقَرَّهُمْ ومُسْتَوْدَعَهُمْ مِنَ الأَرْحَامِ والظُّهُورِ - إِلَى أَنْ تَتَنَاهَى بِهِمُ الْغَايَاتُ.

هُوَ الَّذِي اشْتَدَّتْ نِقْمَتُه عَلَى أَعْدَائِه فِي سَعَةِ رَحْمَتِه - واتَّسَعَتْ رَحْمَتُه لأَوْلِيَائِه فِي شِدَّةِ نِقْمَتِه - قَاهِرُ مَنْ عَازَّه ومُدَمِّرُ مَنْ شَاقَّه ومُذِلُّ مَنْ نَاوَاه وغَالِبُ مَنْ عَادَاه مَنْ تَوَكَّلَ عَلَيْه كَفَاه

اور وہی آخرمیں سب کا وارث ہے۔وہی سب کا معبود ہے اور سب کا رازق ہے۔شمس وقمراسی کی مرضی سے مسلسل حرکت میں ہیں کہ ہر نئے کو پرانا کردیتے ہیں اور ہر بعید کو قریب تر بنا دیتے ہیں۔

اس نے سب کے رزق کو تقسیم کیا ہے اور سب کے آثار و اعمال کا احصاء کیا ہے۔اسی نے ہر ایک کی سانسوں کا شمار کیا ہے اور ہر ایک کی نگاہ کی خیانت اورسینہ کے چھپے ہوئے اسرار اور اصلاب وارحام میں ان کے مراکز کا حساب رکھا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی آخری منزل تک پہنچ جائیں۔دہی دہ ہے جس کا غضب دشمنوں پر اس کی وسعت رحمت کے باوجود شدید ہے اور اس کی رحمت اس کے دوستوں کے لئے اس کے شدت غضب کے باوجود وسیع ہے۔جو اس پر غلبہ پیدا کرنا چاہے اس کے حق میں قاہر ہے اور جو کوئی اس سے جھگڑا کرنا چاہیے اس کے حق میں تباہ کرنے والا ہے۔ہر مخالفت کرنے والے کا ذلیل کرنے والا اور ہر دشمنی کرنے والے پر غالب آنے والا ہے ۔جواس پر توکل کرتا ہے(۱) اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے

(۱)یوں تو پروردگار کی کسی صفت اور اس کے کسی کمال میں اس کا کوئی مثل و نظیر یا شریک و وزیر نہیں ہے لیکن انسانی زندگی کے لئے خصوصیت کے ساتھ چار صفات انتہائی اہم ہیں:

۱۔وہ اپنے اوپر اعتماد کرنے والوں کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور انہیں دوسروں کا دست نگرنہیں بننے دیتا ہے۔

۲۔وہ ہر سوال کرنے والے کو عطا کرتا ہے اور کسی طرح کی تفریق کا قائل نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سوال نہ کرنے والوں کوبھی عطا کرتا ہے۔

۳۔وہ ہر قرضہ کوادا کر دیتا ہے حالانکہ ہر قرضہ دینے والا اسی کے دئیے ہوئے مال میں سے قرض دیتا ہے اور اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔

۴۔وہ شکریہ ادا کرنے والوں کوبھی انعام دیتا ہے جب کہ وہ اپنے فریضہ کوادا کرتے ہیں اور کوئی نیا کار خیر انجام نہیں دیتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ ان لوگوں کوبھی اس بات کاخیال رکھنا چاہیے کہ اس بات کاشکریہ ادا کریں کہ ہمیں دیا ہے اور ''دوسروں کو نہیں دیا ہے '' کہ یہ اس کے کرم کی توہین ہے۔شکریہ نہیں ہے شکریہ اس بات کا ہے کہ ہمیں یہ نعمت دی ہے۔اگرچہ دوسروں کوبھی مصلحت کے مطابق دوسری نعمتوں سے نوازا ہے۔

۱۳۸

ومَنْ سَأَلَه أَعْطَاه - ومَنْ أَقْرَضَه قَضَاه ومَنْ شَكَرَه جَزَاه.

عِبَادَ اللَّه زِنُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُوزَنُوا - وحَاسِبُوهَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تُحَاسَبُوا - وتَنَفَّسُوا قَبْلَ ضِيقِ الْخِنَاقِ وانْقَادُوا قَبْلَ عُنْفِ السِّيَاقِ واعْلَمُوا أَنَّه مَنْ لَمْ يُعَنْ عَلَى نَفْسِه - حَتَّى يَكُونَ لَه مِنْهَا وَاعِظٌ وزَاجِرٌ - لَمْ يَكُنْ لَه مِنْ غَيْرِهَا لَا زَاجِرٌ ولَا وَاعِظٌ.

(۹۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

تعرف بخطبة الأشباح وهي من جلائل خطبهعليه‌السلام

رَوَى مَسْعَدَةُ بْنُ صَدَقَةَ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍعليه‌السلام أَنَّه قَالَ: خَطَبَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ بِهَذِه الْخُطْبَةِ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ - وذَلِكَ أَنَّ رَجُلًا أَتَاه فَقَالَ لَه يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - صِفْ لَنَا رَبَّنَا مِثْلَ مَا نَرَاه عِيَاناً - لِنَزْدَادَ لَه حُبّاً وبِه مَعْرِفَةً - فَغَضِبَ ونَادَى الصَّلَاةَ جَامِعَةً -

اور جو اس سے سوال کرتا ہے اسے عطا کر دیتا ہے۔جو اسے قرض دیتا ہے اسے ادا کر دیتا ہے اور جواس کا شکریہ ادا کرتا ہے اس کو جزا دیتا ہے۔

بندگان خدا!اپنے آپ کو تول لو قبل اس کے کہ تمہارا وزن کیا جائے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرلو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے ۔گلے کا پھندہ تنگ ہونے سے پہلے سانس لے لو اور زبر دستی لے جائے جانے سے پہلے از خود جانے کے لئے تیار ہو جائو اور یاد رکھو کہ جوشخص خود اپنے نفس کی مدد کرکے اسے نصیحت اورتنبیہ نہیں کرتا ہے اس کو کوئی دوسرا نہ نصیحت کرسکتا ہے اورنہ تنبیہ کر سکتا ہے۔

(۹۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(اس خطبہ کو خطبہ اشباح کہا جاتا ہے جسے آپ کے جلیل ترین خطبات میں شمار کیا گیا ہے )

مسعدہ بن صدقہ نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ امیر المومنین نے یہ خطبہ منبر کوفہ سے اس وقت ارشاد فرمایا تھا جب ایک شخص نے آپ سے یہ تقضا کیا کہ پروردگار کے اوصاف اس طرح بیان کریں کہ گویا وہ ہماری نگاہ کے سامنے ہے تاکہ ہماری معرفت اور محبت الٰہی میں اضافہ ہو جائے۔

آپ کو اس بات پر غصہ آگیا اور آپ نے نماز جماعت کا اعلان فرمادیا

۱۳۹

فَاجْتَمَعَ النَّاسُ حَتَّى غَصَّ الْمَسْجِدُ بِأَهْلِه - فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ وهُوَ مُغْضَبٌ مُتَغَيِّرُ اللَّوْنِ - فَحَمِدَ اللَّه وأَثْنَى عَلَيْه وصَلَّى عَلَى النَّبِيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ثُمَّ قَالَ:

وصف اللَّه تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَا يَفِرُه الْمَنْعُ والْجُمُودُ ولَا يُكْدِيه الإِعْطَاءُ والْجُودُ - إِذْ كُلُّ مُعْطٍ مُنْتَقِصٌ سِوَاه وكُلُّ مَانِعٍ مَذْمُومٌ مَا خَلَاه - وهُوَ الْمَنَّانُ بِفَوَائِدِ النِّعَمِ وعَوَائِدِ الْمَزِيدِ والْقِسَمِ - عِيَالُه الْخَلَائِقُ ضَمِنَ أَرْزَاقَهُمْ وقَدَّرَ أَقْوَاتَهُمْ - ونَهَجَ سَبِيلَ الرَّاغِبِينَ إِلَيْه والطَّالِبِينَ مَا لَدَيْه - ولَيْسَ بِمَا سُئِلَ بِأَجْوَدَ مِنْه بِمَا لَمْ يُسْأَلْ - الأَوَّلُ الَّذِي لَمْ يَكُنْ لَه قَبْلٌ فَيَكُونَ شَيْءٌ قَبْلَه - والآخِرُ الَّذِي لَيْسَ له بَعْدٌ فَيَكُونَ شَيْءٌ بَعْدَه - والرَّادِعُ أَنَاسِيَّ الأَبْصَارِ عَنْ أَنْ تَنَالَه أَوْ تُدْرِكَه مَا اخْتَلَفَ عَلَيْه دَهْرٌ فَيَخْتَلِفَ مِنْه الْحَالُ - ولَا كَانَ فِي مَكَانٍ فَيَجُوزَ عَلَيْه الِانْتِقَالُ ولَوْ وَهَبَ مَا تَنَفَّسَتْ عَنْه مَعَادِنُ الْجِبَالِ - وضَحِكَتْ عَنْه أَصْدَافُ الْبِحَارِ مِنْ فِلِزِّ اللُّجَيْنِ والْعِقْيَانِ ونُثَارَةِ الدُّرِّ وحَصِيدِ الْمَرْجَانِ مَا أَثَّرَ ذَلِكَ فِي جُودِه

۔مسجد مسلمانوں سے چھلک اٹھی تو آپ منبر پرتشریف لے گئے اور اس عالم میں خطبہ ارشاد فرمایا کہ آپ کے چہرہ کا رنگ بدلا ہواتھا اور غیظ و غضب کے آثارنمودار تھے۔حمدو ثنائے الٰہی اورصلوات و سلام کے بعد ارشاد فرمایا:۔

ساری تعریف اس پروردگار کے لئے ہے جس کے خزانہ میں فضل و کرم کے روک دینے اور عطائوں کے منجمد کر دینے سے اضافہ نہیں ہوتا ہے اور جودو کرم کے تسلسل سے کمی نہیں آتی ہے۔اس لئے کہ اس کے علاوہ ہر عطا کرنے والے کے یہاں کمی ہو جاتی ہے اور اس کے ماسواہر نہ دینے والا قابل مذمت ہوتا ہے۔وہ مفید ترین نعمتوں اور مسلسل روزیوں کے ذریعہ احسان کرنے والا ہے۔مخلوقات اس کی ذمہداری می ہیں اور اس نے سب کے رزق کی ضمانت دی ہے اور روزی معین کردی ہے۔اپنی طرف توجہ کرنے والوں اور اپنے عطا یا کے سائلوں کے لئے راستہ کھول دیا ہے اور مانگ نے والوں کو نہ مانگ نے والوں سے زیادہ عطا نہیں کرتا ہے۔وہ ایسا اول ہے جس کی کوئی ابتدا نہیں ہے کہ اس سے پہلے کوئی ہو جائے اور ایسا آخر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے کہ اس کے بعد کوئی رہ جائے۔وہ آنکھوں کی بینائی کو اپنی ذات تک پہنچنے اور اس کا ادراک کرنے سے روکے ہوئے ہے۔اس پر زمانہ کے معدن اپنی سانسوں سے باہرنکالتے ہیں یا جنہیں سمندرکے صدف مسکرا کرباہر پھینک دیتے ہیں چاہے وہ چاندی ہو یا سونا۔موتی ہوں یا مرجان توبھی اس کے کرم پر کوئی اثرنہ پڑے گا۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863