نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 630130
ڈاؤنلوڈ: 15074

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 630130 / ڈاؤنلوڈ: 15074
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

۲

نھج البلاغہ

مکمل اردو ترجمہ

مترجم علامہ ذیشان حیدر جوادی

ای بک کمپوزنگ : الحسنین علیھما السلام نیٹ ورک

۳

نهج البلاغة

باب المختار من خطب مولانا امیر المومنین

علی بن ابی طالب علیه التحیة والسلام الخطب

(١)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

یذکر فیها ابتداء خلق السلماء والارض، وخلق آدم

وفیها ذکر الحج

وتحتوی علی حمد الله،خلق العالم، وخلق الملائکة، واختیار الانبیائ، ومبعث النبی، والقران، والاحکام الشرعیة

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اَلَّذِي لاَ يَبْلُغُ مِدْحَتَهُ اَلْقَائِلُونَ وَ لاَ يُحْصِي نَعْمَاءَهُ اَلْعَادُّونَ وَ لاَ يُؤَدِّي حَقَّهُ اَلْمُجْتَهِدُونَ [ اَلْجَاهِدُونَ ] اَلَّذِي لاَ يُدْرِكُهُ بُعْدُ اَلْهِمَمِ وَ لاَ يَنَالُهُ غَوْصُ اَلْفِطَنِ اَلَّذِي لَيْسَ لِصِفَتِهِ حَدٌّ مَحْدُودٌ وَ لاَ نَعْتٌ مَوْجُودٌ وَ لاَ وَقْتٌ مَعْدُودٌ وَ لاَ أَجْلٌ مَمْدُودٌ فَطَرَ اَلْخَلاَئِقَ بِقُدْرَتِهِ وَ نَشَرَ اَلرِّيَاحَ بِرَحْمَتِهِ وَ وَتَّدَ بِالصُّخُورِ مَيَدَانَ أَرْضِهِ

امیر المومنین کے منتخب خطبات

اور احکام کا سلسلہ کلام

(۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آسمان کی خلقت کی ابتدا اور خلقت آدم ۔ کے تذکرہ کے ساتھ حج بیت اللہ کی عظمت کا بھی ذکر کیا گیاہے)

یہ خطبہ حمدو ثنائے پرودگار۔خلقت عالم۔ تخلیق ملائکہ انتخاب انبیا بعثت سرکا ر دوعالم، عظمت قرآن اور مختلف احکام شرعیہ پرمشتمل ہے۔

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی مدحت تک بولنے والوں کے تکلم کی رسائی نہیں ہے اور اس کی نعمتوں کوگننے والے شمار نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے حق کو کو ش ش کرنے والے بھی ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ نہ ہمتوں کی بلندیوں اس کا ادراک کرسکتی ہیں اور نہ ذہانتوں کی گہرائیوں اس کی تہ تک جا سکتی ہیں۔ اس کی صفت ذات کے لئے نہ کوئی معین حد ہے نہ توصیفی کلمات۔نہ مقررہ وقت ہے اور نہ آخری مدت۔اس نے تمام مخلوقات کو صرف اپنی قدرت کا ملہ سے پیدا کیا ہے اور پھر اپنی رحمت ہی سے ہوائیں چلائی ہیں اور زمین کی حرکت کو پہاڑوں کی میخوں سے سنبھال کر رکھا ہے۔

حواشی-مصادر خطبہ۱عیون الحکم والمواعظ الواسطی،بخار۷۷،۳۰۰و۴۲۳۔ربیع الا برارزمحشری باب السماءوالکواکب،شرح نہج البلاغہ قطب راوندی تحف العقول حرانی۔اصول کافی۱۔۱۴۰احتجاج طبرسی۱۔۱۵۰،مطالب السئول محمد بن طلحہ الشافعی دستور معالم الحکم القاضی القاضعی ۱۵۔تفسیر فخررازی۲۔۱۲۴۔ارشادمفید ۱۰۵و۱۰۶ توحید صدوق عیون الا خبار صدوق امالی طوسی ۱۔۲۲مصادر خطبہ ۳ الجمل شیخ مفید ۶۲، فہرست بنی ۔۶۲ فہرست ابن ۔

۴

أَوَّلُ اَلدِّينِ مَعْرِفَتُهُ وَ كَمَالُ مَعْرِفَتِهِ اَلتَّصْدِيقُ بِهِ وَ كَمَالُ اَلتَّصْدِيقِ بِهِ تَوْحِيدُهُ وَ كَمَالُ تَوْحِيدِهِ اَلْإِخْلاَصُ لَهُ وَ كَمَالُ اَلْإِخْلاَصِ لَهُ نَفْيُ اَلصِّفَاتِ عَنْهُ لِشَهَادَةِ كُلِّ صِفَةٍ أَنَّهَا غَيْرُ اَلْمَوْصُوفِ وَ شَهَادَةِ كُلِّ مَوْصُوفٍ أَنَّهُ غَيْرُ اَلصِّفَةِ فَمَنْ وَصَفَ اَللَّهَ سُبْحَانَهُ فَقَدْ قَرَنَهُ وَ مَنْ قَرَنَهُ فَقَدْ ثَنَّاهُ وَ مَنْ ثَنَّاهُ فَقَدْ جَزَّأَهُ وَ مَنْ جَزَّأَهُ فَقَدْ جَهِلَهُ

وَ مَنْ جَهِلَهُ فَقَدْ أَشَارَ إِلَيْهِ وَ مَنْ أَشَارَ إِلَيْهِ فَقَدْ حَدَّهُ وَ مَنْ حَدَّهُ فَقَدْ عَدَّهُ وَ مَنْ قَالَ فِيمَ

دین کی ابتداء اس کی معرفت سے ہے اور معرفت کا کمال اس کی تصدیق ہے۔تصدیق کا کمال توحید کا اقرار ہے اور توحید کا کمال اخلاص عقیدہ ہے اور اخلاص کا کمال زائد بر ذات صفات کی نفی ہے' کہ صفت کا مفہوم خود ہی گواہ ہے کہ وہ موصوف سے الگ کوئی شے ہے اورموصوف کا مفہوم ہی یہ ہے کہ وہ صفت سے جدا گانہ کوئی ذات ہے۔اس کے لئے الگ سے صفات کا اثبات ایک شریک کا اثبات ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ذات کا تعدد ہے اور تعدد کا مقصد اس کے لئے اجزاء کا عقیدہ ہے اوراجزاء کا عقیدہ صرف جہالت ہے معرفت نہیں ہے اور جو بے معرفت ہوگیا اس نے اشارہ کرنا شروع کردیا اور جس نے اس کیطرف اشارہ کیا اس نے اسے ایک سمت میں محدود کردیا اورجس نے محدود کردیا اس نے اسے گنتی کا ایک شمار کرلیا

( جو سراسر خلاف توحید ذات ہے)

جس نے یہ سوال اٹھایاکہ وہ کس چیز میں ہے

خطبہ کا پہلا حصہ ذات واجب کی عظمتوں سے متعلق ہے جس میں اس کی بلندیوں اور گہرائیوں کے تذکرہ کے ساتھ اس کے بے پایاں نعمتوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس کی ذات مقدس لا محدود ہے اور اس کی ابتداء وانتہا کا تصور بھی محال ہے۔البتہ اس کے احسانات کی فہرست میں سر فہرست تین چیزیں ہیں :

(۱) اسنے اپنی قدرت کاملہ سے مخلوقات کوپیدا کیا ہے۔(۲) اسنے اپنی رحمت شاملہ سے سانس لینے کے لئے ہوائیں چلائی ہیں۔(۳) انسان کے قرار و استقراء کے لئے زمین کی تھر تھراہٹ کو پہاڑوں کی میخوں کے ذریعہ روک دیا ہے ورنہ انسان کا ایک لمحہ بھی کھڑا رہنا محال ہوجاتا اور اس کے ہر لمحہ گر پڑنے اور الٹ جانے کا امکان بر قرا رہتا۔دوسرے حصہ میں دین و مذہب کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس طرح کائنات کا آغاز ذات واجب سے ہے اسی طرح دین کا آغاز بھی اسی کی معرفت سے ہوتا ہے اور معرفت میں حسب ذیل امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔دل و جان سے اس کی تصدیق کی جائے۔فکرو نظر سے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا جائے اور خالق و مخلوق کے امتیاز سے اس کے صنعاف کو عین ذات تصور کیا جائے۔

۵

فَقَدْ ضَمَّنَهُ وَ مَنْ قَالَ عَلاَمَ فَقَدْ أَخْلَى مِنْهُ كَائِنٌ لاَ عَنْ حَدَثٍ مَوْجُودٌ لاَ عَنْ عَدَمٍ مَعَ كُلِّ شَيْ‏ءٍ لاَ بِمُقَارَنَةٍ وَ غَيْرُ كُلِّ شَيْ‏ءٍ لاَ بِمُزَايَلَةٍ فَاعِلٌ لاَ بِمَعْنَى اَلْحَرَكَاتِ وَ اَلآْلَةِ بَصِيرٌ إِذْ لاَ مَنْظُورَ إِلَيْهِ مِنْ خَلْقِهِ مُتَوَحِّدٌ إِذْ لاَ سَكَنَ يَسْتَأْنِسُ بِهِ وَ لاَ يَسْتَوْحِشُ لِفَقْدِهِ

خلق العالم

أَنْشَأَ الْخَلْقَ إِنْشَاءً وابْتَدَأَه ابْتِدَاءً، بِلَا رَوِيَّةٍ أَجَالَهَا ولَا تَجْرِبَةٍ اسْتَفَادَهَا، ولَا حَرَكَةٍ أَحْدَثَهَا ولَا هَمَامَةِ نَفْسٍ اضْطَرَبَ فِيهَا، أَحَالَ الأَشْيَاءَ لأَوْقَاتِهَا

اس نے اسے کسی کے ضمن میں قرار دے دیا اور جس نے یہ کہا کہ وہ کس کے اوپر قائم ہے اسنے نیچے کا علاقہ خالی کرالیا۔ اس کی ہستی حادث نہیں ہے اور اس کا وجودعدم کی تاریکیوں سے نہیں نکلا ہے ۔وہ ہر شے کے ساتھ ہے لیکن مل کرنہیں ' اور ہر شے سے الگ ہے لیکن جدائی کی بنیادپر نہیں۔ وہ فاعل ہے لیکن حرکات و آلات کے ذریعہ نہیں اور وہ اس وقت بھی بصیر تھا جب دیکھی جانے والی مخلوق کا پتہ نہیں تھا۔وہ اپنی ذات میں بالکل اکیلا ہے اور اس کا کوئی ایسا ساتھی نہیں ہے جس کو پاکر انس محسوس کرے اور کھو کر پریشان ہو جانے کا احسان کرے۔

اس ن ے مخلوقات کو از غیب ایجاد کیا اور ان کی تخلیق کی ابدا کی بغیر کسی فکر کی جو لانی کے اور بغیر کسی تجربہ سے فائدہ اٹھائے ہوئے یا حرکت کی ایجاد کئے ہوئے یا نفس کے افکار کی الجھن میں پڑے ہوئے ۔

تما م اشیاء کو ان کے اوقات کے حوالے کردیا

ورنہ ہر غلط عقیدہ انسان کو ایک جہالت سے دوچار کردے گا اور ہر مہمل سوال کے نتیجہ میں معرفت سے شروع ہونے والا سلسلہ جہالت پر تمام ہوگا اور یہ بد بختی کی آخری منزل ہے۔ اس کی عظمت کے ساتھ اس نکتہ کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ جملہ اعمال کی نگرانی کر رہا ہے اور اپنی یکتائی میں کسی کے وہم و گمان کا محتاج نہیں ہے۔

تخلیق کائنات کے بارے میں اب تک جونظریات سامنے آئے ہیں' ان کا تعلق دو موضوعات سے ہے:

ایک موضوع یہ ہے کہ اس کائنات کا مادہ کیا ہے ؟ تمام عناصر اربعہ ہیں یا صرف آگ ہے یا صرف پانی سے یہ کائنات خلق ہوئی ہے یا کچھ دوسرے عناصر اربعہ بھی کارفرما تھے یا کسی گیس سے یہ کائنات پیدا ہوئی ہے یا کسی بھاپ اور کہرے نے اسے جنم دیا ہے؟ دوسرا موضوع یہ ہے کہ اس کی تخلیق دفعتاً ہوئی ہے یا یہ بتدریج عالم وجود میں آئی ہے اور اس کی عمردس ملین سال ہے یا ۶۰ ہزار ملین سال ہے؟

چنانچہ ہر شخص نے اپنے اندازہ کے مطابق ایک رائے قائم کی ہے اور اسی رائے کی بنا پراسے محقق کا درجہ دیا گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت امر یہ ہے کہ اس قسم کے موضوعات میں تحقیق کا کوئیامکان نہیں ہے اور نہ کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔

۶

ولأَمَ بَيْنَ مُخْتَلِفَاتِهَا، وغَرَّزَ غَرَائِزَهَا وأَلْزَمَهَا أَشْبَاحَهَا، عَالِماً بِهَا قَبْلَ ابْتِدَائِهَا، مُحِيطاً بِحُدُودِهَا وانْتِهَائِهَا عَارِفاً بِقَرَائِنِهَا وأَحْنَائِهَا: ثُمَّ أَنْشَأَ سُبْحَانَه فَتْقَ الأَجْوَاءِ، وشَقَّ الأَرْجَاءِ وسَكَائِكَ الْهَوَاءِ، فَأَجْرَى فِيهَا مَاءً مُتَلَاطِماً تَيَّارُه ، مُتَرَاكِماً زَخَّارُه حَمَلَه عَلَى مَتْنِ الرِّيحِ الْعَاصِفَةِ، والزَّعْزَعِ الْقَاصِفَةِ فَأَمَرَهَا بِرَدِّه، وسَلَّطَهَا عَلَى شَدِّه وقَرَنَهَا إِلَى حَدِّه، الْهَوَاءُ مِنْ تَحْتِهَا فَتِيقٌ والْمَاءُ مِنْ فَوْقِهَا دَفِيقٌ ، ثُمَّ أَنْشَأَ سُبْحَانَه رِيحاً

اور پھر ان کے اختلاف میں تناسب پیدا کردیا سب کی طبیعتیں مقرر کردیں اور پھر انہیں شکلیں عطا کردیں۔اسے یہ تمام باتیں ایجاد کے پہلے سے معلوم تھیں اور وہ ان کے حدود اور ان کی انتہا کو خوب جانتا تھا۔اسے ہرشے کے ذاتی اطراف کا بھی علم تھا اوراس کے ساتھ شامل ہو جانے والی اشیاء کا بھی علم تھا۔

اس کے بعد اس نے فضا کی وسعتیں۔اس کے اطراف واکناف اورہوائوں کے طبقات ایجاد کئے اور ان کے درمیان وہ پانی بہا دیا جس کی لہروں میں تلاطم تھا اور جس کی موجیں تہ بہ تہ تھیں اور اسے ایک تیز و تند ہوا کے کاندھے پر لا د دیا اور پھر ہوا کو الٹنے پلٹنے اور روک کر رکھنے کا حکم دے دیا اور اس کی حدوں کو پانی کی حدوں سے یوں ملا دیا کے نیچے ہوا کی وستعیں تھیں اور اوپر پانی کا طلاطم۔

اس کے بعد ایک اور ہوا ایجاد کی جس

صرف اندازے میں جن پر ساراکاروبار چل رہا ہے اور ایسے ماحول میں ہر شخص کوایک نئی رائے قائم کرنے کاحق ہے اور کسی کو یہ چیلنج کرنے کا حق نہیں ہے کہ یہ رائے آلات اور وسائل سے پہلے کی ہے لہٰذا اس کی کوئی قیمت نہیں ہے امیر المومنین نے اصل کائنات پانی کو قرار دیا ہے اور اسی کی طرف قرآن مجید نے بھی اشارہ کیاہے اور آپ کی رائے دیگر آراء کے مقابلہ میں اس لئے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ اس کی بنیاد تحقیق۔انکشاف 'تجربہ اور اندازہ پر نہیں ہے بلکہ یہ اس مالک کا دیا ہوا بے پناہ علم ہے جس نے اس کائنات کو بنایا ہے اورکھلی بات ہے کہ مالک سے زیادہ مخلوقات سے با خبر اور کون ہو سکتا ہے۔امیر المومنین نے اپنے بیان میں تین نکات کی طرف توجہ دلائی ہے:(۱) اصل کائنات پانی ہے اور پانی کو قابل استعمال ہوا نے بنایا ے۔(۲) اس فضائے بسیط کے تین رخ ہیں، بلندی جس کو اجواء کہا جاتا ہے اور اطراف جسے ارجاء سی تعبیر کیا جاتا ہے اور طبقات جنہیں سکائک کا نام دیا جاتا ہے۔عام طور سے علماء فلک کو اکب کے ہر مجموعہ کو سکہ کا نام دیتے ہیں جس می ایک ارب سے زیادہ ستارے پائے جاتے ہیں جس طرح کہ ہمارے اپنے نظام شمسی کا حال ہے کہ اس میں ایک ارب سے زیادہ ستاروں کا انکشاف کیا جا چکا ہے۔(۳) آسمانی مخلوقات میں ایک مزکزی شے ہے جسے اس کی حرکت کی بنا پرچراغ کہا جاتا ہے اورایک اس کے گرد حرکت کرنے والی زمین ہے اور ایک زمین کے گرد حرکت کرنے والا ستارہ ہے جسے قمر کہا جاتا ہے اورعلماء فلک اس تابع در تابع کو قمر کہتے ہیں کو کب نہیں کہتے ہیں

۷

اعْتَقَمَ مَهَبَّهَا ، وأَدَامَ مُرَبَّهَا وأَعْصَفَ مَجْرَاهَا، وأَبْعَدَ مَنْشَأَهَا فَأَمَرَهَا بِتَصْفِيقِ الْمَاءِ الزَّخَّارِ، وإِثَارَةِ مَوْجِ الْبِحَارِ فَمَخَضَتْه مَخْض السِّقَاءِ، وعَصَفَتْ بِه عَصْفَهَا بِالْفَضَاءِ، تَرُدُّ أَوَّلَه إِلَى آخِرِه وسَاجِيَه إِلَى مَائِرِه حَتَّى عَبَّ عُبَابُه ورَمَى بِالزَّبَدِ رُكَامُه ، فَرَفَعَه فِي هَوَاءٍ مُنْفَتِقٍ وجَوٍّ مُنْفَهِقٍ، فَسَوَّى مِنْه سَبْعَ سَمَوَاتٍ، جَعَلَ سُفْلَاهُنَّ مَوْجاً مَكْفُوفاً ، وعُلْيَاهُنَّ سَقْفاً مَحْفُوظاً وسَمْكاً مَرْفُوعاً، بِغَيْرِ عَمَدٍ يَدْعَمُهَا ولَا دِسَارٍ يَنْظِمُهَا ثُمَّ زَيَّنَهَا بِزِينَةِ الْكَوَاكِبِ وضِيَاءِ الثَّوَاقِبِ ، وأَجْرَى فِيهَا سِرَاجاً مُسْتَطِيراً وقَمَراً مُنِيراً، فِي فَلَكٍ دَائِرٍ وسَقْفٍ سَائِرٍ ورَقِيمٍ مَائِرٍ.

خلق الملائكة

ثُمَّ فَتَقَ مَا بَيْنَ السَّمَوَاتِ الْعُلَا،

کی حرکت میں کوئی تولیدی صلاحیت نہیں تھی اور اسے مرکز پر روک کراس کے جھونکوں کو تیز کردیا اور اس کے میدان کو وسیع تر بنادیا اور پھراسے حکم دیدیا کہ اس بحر زخار کو متھ ڈالے اور موجوں کو الٹ پلٹ کردے۔چنانچہ اس نے سارے پانی کو ایک مشکیزہ کی طف متھ ڈالا اوراسے فضائے بسیط میں اس طرح لے کرچلی کہ اول کو آخر پر الٹ دیا اور ساکن کو متحرک پر پلٹ دیا اور اسکے نتیجہ میں پانی کی ایک سطح بلند ہوگئی اور اس کے اوپر ایک جھاگ کی تہہ بن گئی۔پھر اس جھاگ کو پھیلی ہوئی ہوا اور کھلی ہوئی فضا میں بلند کردیا اوراس سے سات آسمان پیدا کردئیے جس کی نچلی سطح ایک ٹھہری ہوئی موج کی طرح تھی اور اوپر کا حصہ ایک محفوظ سقف اوربلند عمارت کے مانند تھا۔نہ اس کا کوئی ستون تھا جو سہارا دے سکے اور نہ کوئی بندھن تھا جو منظم کر سکے ۔پھر ان آسمانوں کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا اور ان میں تا بندہ نجوم کی روشنی پھیلادی اور ان کے درمیان ایک ضوفگن چراغ اور ایک روشن ماہتاب رواں کردیا جس کی حرکت ایک گھومنے والے فلک اور ایک متحرک چھت اور جنبش کرنے والی تختی میں تھی۔

پھر اس نے بلند ترین آسمانوں کے درمیان شگاف پیدا کئے

۸

فَمَلأَهُنَّ أَطْوَاراً مِنْ مَلَائِكَتِه، مِنْهُمْ سُجُودٌ لَا يَرْكَعُونَ ورُكُوعٌ لَا يَنْتَصِبُونَ، وصَافُّونَ لَا يَتَزَايَلُونَ ومُسَبِّحُونَ لَا يَسْأَمُونَ، لَا يَغْشَاهُمْ نَوْمُ الْعُيُونِ ولَا سَهْوُ الْعُقُولِ، ولَا فَتْرَةُ الأَبْدَانِ ولَا غَفْلَةُ

النِّسْيَانِ، ومِنْهُمْ أُمَنَاءُ عَلَى وَحْيِه وأَلْسِنَةٌ إِلَى رُسُلِه، ومُخْتَلِفُونَ بِقَضَائِه وأَمْرِه، ومِنْهُمُ الْحَفَظَةُ لِعِبَادِه والسَّدَنَةُ لأَبْوَابِ جِنَانِه، ومِنْهُمُ الثَّابِتَةُ فِي الأَرَضِينَ السُّفْلَى أَقْدَامُهُمْ، والْمَارِقَةُ مِنَ السَّمَاءِ الْعُلْيَا أَعْنَاقُهُمْ، والْخَارِجَةُ مِنَ الأَقْطَارِ أَرْكَانُهُمْ، والْمُنَاسِبَةُ لِقَوَائِمِ الْعَرْشِ أَكْتَافُهُمْ،

اور انہیں طرح طرح کے فرشتوں سے بھر دیا

جن میں سے بعض سجدہ میں ہیں تو رکوع کی نوبت نہیں آتی ہے اور بعض رکوع میں ہیں تو سر نہیں اٹھاتے ہیں اور بعض صف باندھے ہوئے ہیں تو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتے

ہیں بعض مشغول تسبیح ہیں تو خستہ حال نہیں ہوتے ہیں سب کے سب وہ ہیں کہ ان کی آنکھوں پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے اورنہ عقلوں پر سہوو نسیان کا۔ نہ بدن میں سستی پیدا ہوتی ہے اور نہ دماغ میں نسیان کی غفلت۔

ان میں سے بعض کو وحی کا امین اور رسولوں کی طرف قدرت کی زبان بنایا گیا ہے جو اس کے فصیلوں اور احکام کو برابر لاتے رہتے ہیں اور کچھ اس کے بندوں کے محافظ اور جنت کے دروازوں کے دربان ہیں اور بعض وہ بھی ہیں جن کے قدم زمین کے آخری طبقہ میں ثابت ہیں اور گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باہرنکلی ہوئی ہیں۔ان کے اطراف بدن اقطار عالم سے وسیع تر ہیں اور ان کے کاندھے پایہ ہائے عرش کے اٹھانے کے قابل ہیں۔

۹

نَاكِسَةٌ دُونَه أَبْصَارُهُمْ مُتَلَفِّعُونَ تَحْتَه بِأَجْنِحَتِهِمْ، مَضْرُوبَةٌ بَيْنَهُمْ وبَيْنَ مَنْ دُونَهُمْ حُجُبُ الْعِزَّةِ، وأَسْتَارُ الْقُدْرَةِ، لَا يَتَوَهَّمُونَ رَبَّهُمْ بِالتَّصْوِيرِ،ولَا يُجْرُونَ عَلَيْه صِفَاتِ الْمَصْنُوعِينَ، ولَا يَحُدُّونَه بِالأَمَاكِنِ ولَا يُشِيرُونَ إِلَيْه بِالنَّظَائِرِ.

صفة خلق آدمعليه‌السلام

ثُمَّ جَمَعَ سُبْحَانَه مِنْ حَزْنِ الأَرْضِ وسَهْلِهَا، وعَذْبِهَا وسَبَخِهَا ، تُرْبَةً سَنَّهَا بِالْمَاءِ حَتَّى خَلَصَتْ، ولَاطَهَا بِالْبَلَّةِ حَتَّى لَزَبَتْ ، فَجَبَلَ مِنْهَا صُورَةً ذَاتَ أَحْنَاءٍ ووُصُولٍ وأَعْضَاءٍ، وفُصُولٍ أَجْمَدَهَا حَتَّى اسْتَمْسَكَتْ، وأَصْلَدَهَا حَتَّى صَلْصَلَتْ لِوَقْتٍ مَعْدُودٍ وأَمَدٍ مَعْلُومٍ، ثُمَّ نَفَخَ فِيهَا مِنْ رُوحِه، فَمَثُلَتْ إِنْسَاناً

ان کی نگاہیں عرش الٰہی کے سامنے جھکی ہوئی ہیں اوروہ اس کے نیچے پروں کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ان کے اور دیر مخلوقات کے درمیان عزت کے حجاب اور قدرت کے پردے حائل ہیں۔وہ اپنے پروردگار کے بارے میں شکل و صورت کا تص و ر بھی نہیں کرتے ہیں اور نہ اس کے حق میں مخلوقات کے صفات کو جاری کرتے ہیں۔وہ نہ اسے مکان میں محود کرتے ہیں اور نہ اس کی طرف اشباہ ونظائر سے اشارہ کرتے ہیں۔

تخلیق جناب آدم کی کیفیت

اس کے بعد پروردگار(۱) نے زمین کے سخت و نرم اور شورو شیریں حصوں سے خاک کو جمع کیا اور اسے پانی سے اس قدر بھگویا کہ بالکل خالص ہوگئی اور پھر تری میں اس قدر گوندھا کہ لسدار بن گئی اور اس سے ایک ایسی صورت بنائی جس میں موڑ بھی تھے اور جوڑ بھی۔اعضاء بھی تھے اور جوڑ بند بھی۔پھر اسے اس قدر سکھایا کہ مضبوط ہوگئیاور اس قدر سخت کیا کہ کنکھنانے لگی اور یہ صورت حال ایک وقت معین اور مدت خاص تک برقرار رہی جس کے بعد اس میں مالک نے اپنی روح کمال پھونک دی اور اسے ایسا انسان بنادیا

(۱) انسان کی کمزوری کے سلسلہ میں اتنا ہی کافی ہے کہ اسے اپنی اصل کے بارے میں اتنا بھی معلوم نہیں ہے جتنا دوسری مخلوقات کے بارے میں علم ہے۔وہ نہ اپنے مادہ کی اصل سے با خبر ہے اورنہ اپنی رو ح کی حقیقت سے۔مالک نے اسے متضاد عناصر سے ایسا جامع بنادیا ہے کہ جسم صغیرمیں عالم اکبر سما گیا ہے اور بقول شخصے اس میں جمادات جیسا کون و فساد، نباتات جیسا نمو حیوان جیسی حرکت اور ملائکہ جیسی اطاعت و حیات سے پائی جاتی ہے اوراوصاف کے اعتبار سے بھی اس میں کتے جیسی خوشامد' مکرڑی جیسے تانے بانے، قنفذ جیسے اسلحے، پرندوں جیسا تحفظ، حشر ات الارض جیسا تحفظ' ہرن جیسی اچھل کود، چوہے ،چوہے جیسی چوری، مور جیسا غرور'اونٹ جیسا کینہ، خچر جیسی شرارت'بلبل جیسا ترنم' بچھو جیسا ڈنگ سب کچھ پایا جاتا ہے

۱۰

ذَا أَذْهَانٍ يُجِيلُهَا، وفِكَرٍ يَتَصَرَّفُ بِهَا وجَوَارِحَ يَخْتَدِمُهَا ، وأَدَوَاتٍ يُقَلِّبُهَا ومَعْرِفَةٍ يَفْرُقُ بِهَا بَيْنَ الْحَقِّ والْبَاطِلِ، والأَذْوَاقِ والْمَشَامِّ والأَلْوَانِ والأَجْنَاسِ، مَعْجُوناً بِطِينَةِ الأَلْوَانِ الْمُخْتَلِفَةِ، والأَشْبَاه الْمُؤْتَلِفَةِ والأَضْدَادِ الْمُتَعَادِيَةِ، والأَخْلَاطِ الْمُتَبَايِنَةِ مِنَ الْحَرِّ والْبَرْدِ، والْبَلَّةِ والْجُمُودِ، واسْتَأْدَى اللَّه سُبْحَانَه الْمَلَائِكَةَ وَدِيعَتَه لَدَيْهِمْ، وعَهْدَ وَصِيَّتِه إِلَيْهِمْ فِي الإِذْعَانِ بِالسُّجُودِ لَه، والْخُنُوعِ لِتَكْرِمَتِه، فَقَالَ سُبْحَانَه:( اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ ) ، اعْتَرَتْه الْحَمِيَّةُ، وغَلَبَتْ عَلَيْه الشِّقْوَةُ، وتَعَزَّزَ بِخِلْقَةِ النَّارِ واسْتَوْهَنَ خَلْقَ الصَّلْصَالِ، فَأَعْطَاه اللَّه النَّظِرَةَ اسْتِحْقَاقاً لِلسُّخْطَةِ، واسْتِتْمَاماً لِلْبَلِيَّةِ وإِنْجَازاً لِلْعِدَةِ، فَقَالَ:( فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ إِلى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ) .

ثُمَّ أَسْكَنَ سُبْحَانَه آدَمَ دَاراً أَرْغَدَ فِيهَا، عَيْشَه وآمَنَ فِيهَا مَحَلَّتَه وحَذَّرَه إِبْلِيسَ وعَدَاوَتَه،

.

جس میں ذہن کی جولانیاں بھی تھیں اورفکر کے تصرفات بھی۔کام کرنے والے اعضاء و جوارح بھی تھے اور حرکت کرنے والے ادوات و آلات بھی حق و باطل میں فرق کرنے والی معرفت بھی تھی اورمختلف ذائقوں ' خوشبووں' رنگ و روغن میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی۔ اسے مختلف قسم کی مٹی سے بنایا گیا جس میں موافق اجزاء بھی پائے جاتے تھے اورمتضاد و عناصربھی اور گرمی ' سردی' تری خشکی جیسے کیفیات بھی۔ پھر پروردگار نے ملائکہ سے مطالبہ کیا کہ اس کی امانت کو واپس کریں اور اس کی معہودہ وصیت پرعمل کریں یعنی اس مخلوق کے سامنے سر جھکادیں اور اس کی کرامت کا اقرار کرلیں۔چنانچہ اس نے صاف صاف اعلان کردیا کہ آدم کو سجدہ کرو اور سب نے سجدہ بھی کرلیا سوائے ابلیس کے کہ اسے تعصب نے گھیر لیااور بد بختی غالب آگئی اور اس نے آگ کی خلقت کو وجہ عزت اور خاک کی خلقت کو وجہ ذلت قراردے دیا۔مگر پروردگار نے اسے غضب الٰہی کے مکمل استحقاق ،آزمائش کی تکمیل اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے یہ کہہ کر مہلت دے دی کہ'' تجھے روز وقت معلوم تک کے لئے مہلت دی جا رہی ہے''۔

اس کے بعد پروردگار نے آدم کو ایک ایسے گھرمیں ساکن کردیا جہاں کی زندگی خوش گوار اور مامون و محفوظ تھی اور پھر انہیں ابلیس اور اس کی عداوت سے بھی با خبر کردیا۔

۱۱

فَاغْتَرَّه عَدُوُّه نَفَاسَةً عَلَيْه بِدَارِ الْمُقَامِ، ومُرَافَقَةِ الأَبْرَارِ، فَبَاعَ الْيَقِينَ بِشَكِّه والْعَزِيمَةَ بِوَهْنِه، واسْتَبْدَلَ بِالْجَذَلِ وَجَلًا وبِالِاغْتِرَارِ نَدَماً، ثُمَّ بَسَطَ اللَّه سُبْحَانَه لَه فِي تَوْبَتِه، ولَقَّاه كَلِمَةَ رَحْمَتِه ووَعَدَه الْمَرَدَّ إِلَى جَنَّتِه، وأَهْبَطَه إِلَى دَارِ الْبَلِيَّةِ وتَنَاسُلِ الذُّرِّيَّةِ.

اختيار الأنبياء

واصْطَفَى سُبْحَانَه مِنْ وَلَدِه أَنْبِيَاءَ، أَخَذَ عَلَى الْوَحْيِ مِيثَاقَهُمْ وعَلَى تَبْلِيغِ الرِّسَالَةِ أَمَانَتَهُمْ، لَمَّا بَدَّلَ أَكْثَرُ خَلْقِه عَهْدَ اللَّه إِلَيْهِمْ، فَجَهِلُوا حَقَّه واتَّخَذُوا الأَنْدَادَ مَعَه، واجْتَالَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ عَنْ مَعْرِفَتِه، واقْتَطَعَتْهُمْ عَنْ عِبَادَتِه فَبَعَثَ فِيهِمْ رُسُلَه، ووَاتَرَ إِلَيْهِمْ أَنْبِيَاءَه لِيَسْتَأْدُوهُمْ مِيثَاقَ فِطْرَتِه، ويُذَكِّرُوهُمْ مَنْسِيَّ نِعْمَتِه، ويَحْتَجُّوا عَلَيْهِمْ بِالتَّبْلِيغِ، ويُثِيرُوا لَهُمْ دَفَائِنَ الْعُقُولِ، ويُرُوهُمْ آيَاتِ الْمَقْدِرَةِ،

مِنْ سَقْفٍ فَوْقَهُمْ مَرْفُوعٍ

لیکن دشمن نے ان کے جنت کے قیام اورنیک بندوں کی رفاقت سے جل کر انہیں دھوکہ دے دیا اور انہو ں نے بھی اپنے یقین محکم کو شک اور عزم مستحکم کو کمزوری کے ہاتھوں فروخت کردیا اور اس طرح مسرت کے بدلے خوف کو لے لیا اورابلیس کے کہنے میں آکر ندامت کا سامان فراہم کرلیا۔پھر پروردگار نے ان کے لئے توبہ کا سامان فراہم کردیا اور اپنے کلمات رحمت کی تلقن کردی اور ان سے جنت میں واپسی کاوعدہ کرکے انہیں آزمائش کی دنیامیں اتار دیا جہاں نسلوں کا سلسلہ قائم ہونے والا تھا۔

انبیاء کرام کا انتخاب

اس کے بعد اس نے ان کی اولاد میں سے ان انبیاء کا انتخاب کیا جن سے وحی کی حفاظت اور پیغام کی تبلیغ کی امانت کا عہد لیا اس لئے کہ اکثر مخلوقات نے عہد الٰہی کو تبدیل کر دیا تھا۔اس کے حق سے نا واقف ہوگئے تھے۔اس کے ساتھ دوسرے خدا بنالئے تھے اور شیطان نے انہیں معرفت کی راہ سے ہٹا کر عبادت سے یکسر جدا کردیا تھا۔ پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے۔ انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کی امانت کو واپس لیں اور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کویاد دلائیں تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کوباہرلائیں اور انہیں قدرت الٰہی کی نشانیاں دکھلائیں۔ یہ سروں پر بلند ترین چھت۔

۱۲

ومِهَادٍ تَحْتَهُمْ مَوْضُوعٍ، ومَعَايِشَ تُحْيِيهِمْ وآجَالٍ تُفْنِيهِمْ وأَوْصَابٍ تُهْرِمُهُمْ، وأَحْدَاثٍ تَتَابَعُ عَلَيْهِمْ، ولَمْ يُخْلِ اللَّه سُبْحَانَه خَلْقَه مِنْ نَبِيٍّ مُرْسَلٍ، أَوْ كِتَابٍ مُنْزَلٍ أَوْ حُجَّةٍ لَازِمَةٍ أَوْ مَحَجَّةٍ قَائِمَةٍ، رُسُلٌ لَا تُقَصِّرُ بِهِمْ قِلَّةُ عَدَدِهِمْ، ولَا كَثْرَةُ الْمُكَذِّبِينَ لَهُمْ، مِنْ سَابِقٍ سُمِّيَ لَه مَنْ بَعْدَه،

أَوْ غَابِرٍ عَرَّفَه مَنْ قَبْلَه عَلَى ذَلِكَ نَسَلَتِ الْقُرُونُ ومَضَتِ الدُّهُورُ، وسَلَفَتِ الآبَاءُ وخَلَفَتِ الأَبْنَاءُ.

مبعث النبي

إِلَى أَنْ بَعَثَ اللَّه سُبْحَانَه مُحَمَّداً، رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله لإِنْجَازِ عِدَتِه وإِتْمَامِ نُبُوَّتِه، مَأْخُوذاً عَلَى النَّبِيِّينَ مِيثَاقُه، مَشْهُورَةً سِمَاتُه كَرِيماً مِيلَادُه، وأَهْلُ الأَرْضِ يَوْمَئِذٍ مِلَلٌ مُتَفَرِّقَةٌ، وأَهْوَاءٌ مُنْتَشِرَةٌ وطَرَائِقُ مُتَشَتِّتَةٌ، بَيْنَ مُشَبِّه لِلَّه بِخَلْقِه أَوْ مُلْحِدٍ فِي اسْمِه، أَوْ مُشِيرٍ إِلَى غَيْرِه، فَهَدَاهُمْ بِه مِنَ الضَّلَالَةِ وأَنْقَذَهُمْ بِمَكَانِه مِنَ الْجَهَالَةِ، ثُمَّ اخْتَارَ سُبْحَانَه لِمُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله لِقَاءَه، ورَضِيَ لَه مَا عِنْدَه وأَكْرَمَه عَنْ دَارِ الدُّنْيَا،

یہ زیر قدم گہوارہ۔یہ زندگی کے اسباب۔یہ فنا کرنے والی اجل۔یہ بوڑھا بنا دینے والے امراض اور یہ پے پر دپے پیشآنے والے حادثات

اس نے کبھی اپنی مخلوقات کو بنی مرسل یا کتاب منزل یا حجت لازم یا طریق واضح سے محروم نہیں رکھا ہے۔ ایسے رسول بھیجے ہیں جنہیں نہ عدد کی قلت کام سے روک سکتی تھی اورنہ جھٹلانے والوں کی کثرت۔ان میں جو پہلے تھا اس بعد والے کا حال معلوم تھا اور جو بعد میں آیا اسے پہلے والے نے پہنچوادیا تھا اور یوں ہی صدیاں گزرتی رہیں اور زمانے بیتتے رہے۔آباء و اجداد جاتے رہے اور اولاد و احفاد آتے رہے۔

بعثت رسول اکرم (ص)

یہاں تک کہ مالک نے اپنے وعدہ کو پورا کرنے اور اپنے نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد(ص) کو بھیج دیا جن کے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اور جن کی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود و مبارک تھی۔اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب'منتشر خواہشات اورمختلف راستوں پر گامزن تھے۔کوئی خدا کو مخلوقات کی شبیہ بتا رہا تھا۔کوئی اس کے ناموں کوبگاڑ رہا تھا۔اور کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا۔مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اورجہالت سے باہر نکال لیا۔

اس کے بعد اس نے آپ کی ملاقات کو پسند کیا اور انعامات سے نوازنے کے لئے اس دار دنیا سے بلند کرلیا۔

۱۳

ورَغِبَ بِه عَنْ مَقَامِ الْبَلْوَى، فَقَبَضَه إِلَيْه كَرِيماً، وخَلَّفَ فِيكُمْ مَا خَلَّفَتِ الأَنْبِيَاءُ فِي أُمَمِهَا، إِذْ لَمْ يَتْرُكُوهُمْ هَمَلًا بِغَيْرِ طَرِيقٍ وَاضِحٍ ولَا عَلَمٍ قَائِمٍ

القرآن والأحكام الشرعية

كِتَابَ رَبِّكُمْ فِيكُمْ مُبَيِّناً حَلَالَه وحَرَامَه، وفَرَائِضَه وفَضَائِلَه ونَاسِخَه ومَنْسُوخَه ورُخَصَه وعَزَائِمَه وخَاصَّه وعَامَّه، وعِبَرَه وأَمْثَالَه ومُرْسَلَه ومَحْدُودَه ومُحْكَمَه ومُتَشَابِهَه مُفَسِّراً مُجْمَلَه ومُبَيِّناً غَوَامِضَه، بَيْنَ مَأْخُوذٍ مِيثَاقُ عِلْمِه ومُوَسَّعٍ

عَلَى الْعِبَادِ فِي جَهْلِه، وبَيْنَ مُثْبَتٍ فِي الْكِتَابِ فَرْضُه، ومَعْلُومٍ فِي السُّنَّةِ نَسْخُه، ووَاجِبٍ فِي السُّنَّةِ أَخْذُه، ومُرَخَّصٍ فِي الْكِتَابِ تَرْكُه، وبَيْنَ وَاجِبٍ بِوَقْتِه وزَائِلٍ فِي مُسْتَقْبَلِه، ومُبَايَنٌ بَيْنَ مَحَارِمِه مِنْ كَبِيرٍ أَوْعَدَ عَلَيْه نِيرَانَه، أَوْ صَغِيرٍ أَرْصَدَ لَه غُفْرَانَه، وبَيْنَ مَقْبُولٍ فِي أَدْنَاه مُوَسَّعٍ فِي أَقْصَاه.

آپ کو مصائب سے نجات دلادی اور نہایت احترام سے اپنی بارگاہ میں طلب کرلیا اور امت میں ویسا ہی انتظام کردیا جیسا کہ دیگر انبیاء نے کیا تھا کہ انہوں نے بھی قوم کو لاوارث نہیں چھوڑا تھا جس کے لئے کوئی واضح راستہ اورمستحکم نشان نہ ہو۔

قرآن اور احکام شرعیہ

انہوں نے تمہارے درمیان تمہارے پروردگار کی کتاب کو چھوڑا ہے جس کے حلال و حرام۔ فرائض و فضائل ناسخ و منسوخ۔رخصت و عزیمت۔خاص و عام۔عبرت و امثال ۔مطلق و مقید۔محکم و متشابہ سب کو واضح کردیا تھا۔مجمل کی تفسیرکردی تھی گتھیوں کو سلجھا دیاتھا۔اس میں بعض آیات ہیں جن کے علم کا عہد لیا گیا ہے اور بعض سے نا واقفیت کومعاف کردیا گیا ہے۔بعض احکام کے فرض کا کتاب میں ذکر کیا گیا ہے اور سنت سے ان کے منسوخ ہونے کا علم حاصل ہوا ہے یا سنت میں ان کے وجوب کا ذکرہوا ہے جب کہ کتاب میں ترک کرنے کی آزادی کا ذکرتھا۔بعض احکام ایک وقت میں واجب ہوئے ہیں اور مستقبل میں ختم کردئیے گئے ہیں۔اس کے محرمات میں بعض پر جہنم کی سزا سنائی گئی ہے اور بعض گناہ صغیرہ ہیں جن کی بخشش کی امید دلائی گئی ہے۔بعض احکام ہیں جن کا مختصر بھی قابل قبول ہے اور زیادہ کی بھی گنجائش پائی جاتی ہے۔

۱۴

ومنها في ذكر الحج

وفَرَضَ عَلَيْكُمْ حَجَّ بَيْتِه الْحَرَامِ، الَّذِي جَعَلَه قِبْلَةً لِلأَنَامِ، يَرِدُونَه وُرُودَ الأَنْعَامِ ويَأْلَهُونَ إِلَيْه وُلُوه الْحَمَامِ، وجَعَلَه سُبْحَانَه عَلَامَةً لِتَوَاضُعِهِمْ لِعَظَمَتِه، وإِذْعَانِهِمْ لِعِزَّتِه، واخْتَارَ مِنْ خَلْقِه سُمَّاعاً أَجَابُوا إِلَيْه دَعْوَتَه، وصَدَّقُوا كَلِمَتَه ووَقَفُوا مَوَاقِفَ أَنْبِيَائِه، وتَشَبَّهُوا بِمَلَائِكَتِه الْمُطِيفِينَ بِعَرْشِه، يُحْرِزُونَ الأَرْبَاحَ فِي مَتْجَرِ عِبَادَتِه، ويَتَبَادَرُونَ عِنْدَه مَوْعِدَ مَغْفِرَتِه، جَعَلَه سُبْحَانَه وتَعَالَى لِلإِسْلَامِ عَلَماً، ولِلْعَائِذِينَ حَرَماً فَرَضَ حَقَّه وأَوْجَبَ حَجَّه، وكَتَبَ عَلَيْكُمْ وِفَادَتَه ، فَقَالَ سُبْحَانَه:( ولِلَّه عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْه سَبِيلًا، ومَنْ كَفَرَ فَإِنَّ الله غَنِيٌّ عَنِ الْعالَمِينَ )

ذکر حج بیت اللہ

پروردگار نے تم لوگوں پر حج بیت الحرام کو واجب قرار دیا ہے جسے لوگوں کے لئے قبلہ بنایا ہے اور جہاں لوگ پیاسے جانوروں کی طرح بے تابانہ وارد ہوتے ہیں اورویسا انس رکھتے ہیں جیسے کبوتر اپنے آشیانہ سے رکھتا ہے۔ ح ج بییت اللہ کو مالک نے اپنی عظمت کے سامنے جھکنے کی علامت اور اپنی عزت کے ایقان کی نشانی قراردیا ہے۔اس نے مخلوقات میں سے ان بندوں کا انتخاب کیا ہے جواس کی آواز سن کرلبیک کہتے ہیں اوراس کے کلمات کی تصدیق کرتے ہیں۔انہوں نے انبیاء کے مواقف ہیں وقوف کیا ہے اور طواف عرش کرنے والے فرشتوں کا انداز اختیار کیا ہے۔یہ لوگ اپنی عبادت کے معاملہ میں برابر فائدے حاصل کر رہے ہیں اورمغفرت کی وعدہ گاہ کی طرف تیزی سے سبقت کر رہے ہیں۔

پروردگار نے کعبہ کو اسلام کی نشانی اور بے پناہ افراد کی پناہ گاہ قرار دیا ہے۔اس کے حج کو فرض کیا ہے اور اس کے حق کو واجب قرار دیا ہے۔تمہارے اوپر اس گھر کی حاضری کو لکھ دیا ہے اور صاف اعلان کردیا ہے کہ'' اللہ کے لئے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کے گھر کا حج کریں جس کے پاس بھی اس راہ کو طے کرنے کی استطاعت پائی جاتی ہو۔ اور جس نے انکار کیا تو اللہ تعالی عالمین سے بے نیاز ہے

۱۵

(۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد انصرافه من صفين

وفيها حال الناس قبل البعثة وصفة آل النبي ثم صفة قوم آخرين

أَحْمَدُه اسْتِتْمَاماً لِنِعْمَتِه واسْتِسْلَاماً لِعِزَّتِه، واسْتِعْصَاماً مِنْ مَعْصِيَتِه، وأَسْتَعِينُه فَاقَةً إِلَى كِفَايَتِه، إِنَّه لَا يَضِلُّ مَنْ هَدَاه ولَا يَئِلُ مَنْ عَادَاه، ولَا يَفْتَقِرُ مَنْ كَفَاه، فَإِنَّه أَرْجَحُ مَا وُزِنَ وأَفْضَلُ مَا خُزِنَ، وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وَحْدَه لَا شَرِيكَ لَه، شَهَادَةً مُمْتَحَناً إِخْلَاصُهَا مُعْتَقَداً مُصَاصُهَا، نَتَمَسَّكُ بِهَا أَبَداً مَا أَبْقَانَا، ونَدَّخِرُهَا لأَهَاوِيلِ مَا يَلْقَانَا، فَإِنَّهَا عَزِيمَةُ الإِيمَانِ وفَاتِحَةُ الإِحْسَانِ، ومَرْضَاةُ الرَّحْمَنِ ومَدْحَرَةُ الشَّيْطَانِ

(۲)

صفیں سے واپسی پرآپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جس میں بعثت پیغمبر(ص) کے وقت لوگوں کے حالات' آل رسول (ص) کے اوصاف اور دوسرے افراد کے کیفیات کاذکر کیا گیا ہے۔

میں پروردگار کی حمد کرتا ہوں اس کی نعمتوں کی تکمیل کے لئے اور اس کی عزت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے۔ میں اس کی نا فرمانی سے تحفظ چاہتا ہوں اور اس سے مدد مانگتا ہوں کہ میں اسی کی کفایت و کفالت کا محتاج ہوں۔وہ جسے ہدایت دیدے وہ گمراہ نہیں ہو سکتا ہے اور جس کا وہ دشمن ہو جائے اسے کہیں پناہ نہیں مل سکتی ہے۔

جس کے لئے وہ کافی ہو جائے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔اس حمد کا پلہ ہر باوزن شے سے گراں تر ہے اور یہ سرمایہ ہرخزانہ سے زیادہ قیمتی ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور یہ وہ گواہی ہے جس کے اخلاص کا امتحان ہو چکا ہے اور جس کا نچوڑ عقیدہ کا جزء بن چکا ہے۔میں اس گواہی سے تا حیات وابستہ رہوں گا اور اسی کو روز قیامت کے ہولناک مراحل کے لئے ذخیرہ بنائوں گا۔یہی ایمان کی مستحکم بنیاد ہے اوریہی نیکیوں کا آغاز ہے اور اسی میں رحمان کی مرضی اور شیطان کی تباہی کا راز مضمر ہے۔

۱۶

وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه، أَرْسَلَه بِالدِّينِ الْمَشْهُورِ والْعَلَمِ الْمَأْثُورِ، والْكِتَابِ الْمَسْطُورِ والنُّورِ السَّاطِعِ، والضِّيَاءِ اللَّامِعِ والأَمْرِ الصَّادِعِ، إِزَاحَةً لِلشُّبُهَاتِ واحْتِجَاجاً بِالْبَيِّنَاتِ، وتَحْذِيراً بِالآيَاتِ وتَخْوِيفاً بِالْمَثُلَاتِ ، والنَّاسُ فِي فِتَنٍ انْجَذَمَ فِيهَا حَبْلُ الدِّينِ، وتَزَعْزَعَتْ سَوَارِي الْيَقِينِ ، واخْتَلَفَ النَّجْرُ وتَشَتَّتَ الأَمْرُ، وضَاقَ الْمَخْرَجُ وعَمِيَ الْمَصْدَرُ، فَالْهُدَى خَامِلٌ والْعَمَى شَامِلٌ، عُصِيَ الرَّحْمَنُ ونُصِرَ الشَّيْطَانُ وخُذِلَ الإِيمَانُ، فَانْهَارَتْ دَعَائِمُه وتَنَكَّرَتْ مَعَالِمُه، ودَرَسَتْ

سُبُلُه وعَفَتْ شُرُكُه ، أَطَاعُوا الشَّيْطَانَ فَسَلَكُوا مَسَالِكَه ووَرَدُوا مَنَاهِلَه ، بِهِمْ سَارَتْ أَعْلَامُه وقَامَ لِوَاؤُه فِي فِتَنٍ دَاسَتْهُمْ بِأَخْفَافِهَا ووَطِئَتْهُمْ بِأَظْلَافِهَا ، وقَامَتْ عَلَى سَنَابِكِهَا فَهُمْ فِيهَا تَائِهُونَ حَائِرُونَ جَاهِلُونَ مَفْتُونُونَ، فِي خَيْرِ دَارٍ وشَرِّ جِيرَانٍ، نَوْمُهُمْ سُهُودٌ وكُحْلُهُمْ دُمُوعٌ، بِأَرْضٍ عَالِمُهَا مُلْجَمٌ وجَاهِلُهَا مُكْرَمٌ.

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد(ص) اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔انہیں پروردگار نے مشہور دین' ماثور نشانی' روشن کتاب' ضیاء پاش نور' چمکدار روشنی اور واضح امر کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ شبہات زائل ہو جائیں اور دلائل کے ذریعہ حجت تمام کی جاسکے' آیات کے ذریعہ ہو شیار بنایا جا سکے اورمثالوں کے ذریعہ ڈرایا جا سکے۔

یہ بعثت اس وقت ہوئی ہے جب لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمان دین ٹوٹ چکی تھی۔یقین کے ستون ہل گئے تھے۔اصول میں شدید اختلاف تھا اور امور میں سخت انتشار۔مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہوگئے تھے۔ہدایت گمنام تھی اور گمراہی برسر عام۔،رحمان کی معصیت ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت' ایمان یکسر نظر انداز ہوگیا تھا' اس کے ستون گر گئے تھے اورآثار ناقابل شناخت ہوگئے تھے' راستے مٹ گئے تھے اور شاہراہیں بے نشان ہوگئی تھیں۔لوگ شیطان کی اطاعت میں اس کے راستہ پر چل رہے تھے۔ یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوں نے انہیں پیروں تلے روند دیا تھا اور سموں سے کچل دیا تھا اور خود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے تھے۔یہ لوگ فتنوں میں حیران و سر گرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے۔ پروردگار نے انہیں اس گھر ( مکہ) میں بھیجا جو بہترین مکان تھا لیکن بدترین ہمسائے۔جن کی نیند بیداری تھی اور جن کا سرمہ آنسو۔ وہ سر زمین جہاں عالم کو لگام لگی ہوئی تھی اور جاہل محترم تھا

۱۷

ومنها يعني آل النبي عليه الصلاة والسلام

هُمْ مَوْضِعُ سِرِّه ولَجَأُ أَمْرِه وعَيْبَةُ عِلْمِه ومَوْئِلُ حُكْمِه، وكُهُوفُ كُتُبِه وجِبَالُ دِينِه، بِهِمْ أَقَامَ انْحِنَاءَ ظَهْرِه وأَذْهَبَ ارْتِعَادَ فَرَائِصِه

ومِنْهَا يَعْنِي قَوْماً آخَرِينَ

زَرَعُوا الْفُجُورَ وسَقَوْه الْغُرُورَ وحَصَدُوا الثُّبُورَ، لَا يُقَاسُ بِآلِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله مِنْ هَذِه الأُمَّةِ أَحَدٌ، ولَا يُسَوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَيْه أَبَداً، هُمْ أَسَاسُ الدِّينِ وعِمَادُ الْيَقِينِ، إِلَيْهِمْ يَفِيءُ الْغَالِي وبِهِمْ يُلْحَقُ التَّالِي، ولَهُمْ خَصَائِصُ حَقِّ الْوِلَايَةِ، وفِيهِمُ الْوَصِيَّةُ والْوِرَاثَةُ، الآنَ إِذْ رَجَعَ الْحَقُّ إِلَى أَهْلِه ونُقِلَ إِلَى مُنْتَقَلِه!

آل رسول اکرم (ص)

یہ لوگ راز الٰہی کی منزل اورامر دین کا ملجاء و ماویٰ ہیں۔یہی علم خداکے مرکز اورحکم خداکی پناہ گاہ ہیں۔کتابوں نے یہیں پناہ لی ہے اور دین کے یہی کوہ گراں ہیں۔انہیں کے ذریعہ پرورگار نے دین کی پشت کی کجی سیدھی کی ہے اور انہیں کےذریعہ اس کے جوڑ بند کے رعشہ کا علاج کیا ہے ۔

ایک دوسری قوم

ان لوگوں نے فجور کا بیج بویا ہے اور اسے غرور کے پانی سے سینچا ہے اور نتیجہ میں ہلاکت کو کاٹاہے۔یادرکھو کہ آل محمد(ص) پر اس امت میں کس کا قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ان لوگوں کو ان کے بر قرار دیا جا سکتا ہے جن پر ہمیشہ ان کی نعمتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

آل محمد(ص) دین کی اساس اوریقین کا ستون ہیں۔ ان سے آگے بڑھ جانے والا پلٹ کرانہیں کی طرف آتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا بھی انہیں سے آکر ملتا ہے۔ان کے پاس حق و لایت کے خصوصیات ہیں اور انہیں کے درمیان

پیغمبر(ص) کی وصیت اور ان کی وراثت ہے۔اب جب کہ حق اپنے اہل کے پاس واپس آگیا ہے اور اپنی منزل کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔

۱۸

(۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي المعروفة بالشقشقية

وتشتمل على الشكوى من أمر الخلافة ثم ترجيح صبره عنها ثم مبايعة الناس له

أَمَا واللَّه لَقَدْ تَقَمَّصَهَا فُلَانٌ وإِنَّه لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى، يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ ولَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ، فَسَدَلْتُ دُونَهَا ثَوْباً وطَوَيْتُ عَنْهَا كَشْحاً وطَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَةٍ عَمْيَاءَ ، يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ ويَشِيبُ فِيهَا الصَّغِيرُ، ويَكْدَحُ فِيهَا مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّه،

ترجيح الصبر

فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى هَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وفِي الْعَيْنِ قَذًى وفِي الْحَلْقِ شَجًا أَرَى تُرَاثِي نَهْباً حَتَّى مَضَى الأَوَّلُ لِسَبِيلِه، فَأَدْلَى بِهَا إِلَى فُلَانٍ بَعْدَه، ثُمَّ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الأَعْشَى:

شَتَّانَ مَا يَوْمِي عَلَى كُورِهَا

ويَوْمُ حَيَّانَ أَخِي جَابِرِ

فَيَا عَجَباً بَيْنَا هُوَ يَسْتَقِيلُهَا فِي حَيَاتِه، إِذْ عَقَدَهَا لِآخَرَ بَعْدَ وَفَاتِه

(۳)

آپ کے ایک خطبہ کا حصہ

جسے شقشقیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے

آگاہ ہو جائو کہ خداکی قسم فلاں شخص ( ابن ابی قحافہ) نے قمیص خلافت کو کھینچ تان کر پہن لیا ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ خلات کی چکی کے لئے میری حیثیت مرکزی کیل کی ہے۔علم کا سیلاب میری ذات سے گزر کرنیچے جاتا ہے اور میری بلندی تک کسی کا طائر فکر بھی پرواز نہیں کر سکتا ہے۔پھر بھی میں نے خلافت کے آگے پردہ ڈا ل دیا اور اس سے پہلے تہی کرلی اوریہ سوچنا شروع کردیا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کردوں یا اسی بھیانک اندھیرے پرصبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف ہو جائے اوربچہ بوڑھا ہو جائے اور مومن محنت کرتے کرتے خدا کی بارگاہ تک پہنچ جائے۔

تو میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کرلیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اورگلے میں رنج و غم کے پھندے تھے۔میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا ۔یہاں تک کہ پہلے خلیفہ نے اپنا راستہ لیا اور خلافت کو اپنے بعد فلاں کے حوالے کردیا بقول اعشی:''کہاں وہ دن جو گزرتا تھا میرا اونٹوں پر۔کہاں یہ دن کہ میں حیان کے جوار میں ہوں '' حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں استعفا دے رہا تھا اور مرنے کے بعد کے لئے دوسرے کے لئے طے کرگیا

۱۹

لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا ضَرْعَيْهَا ، فَصَيَّرَهَا فِي حَوْزَةٍ خَشْنَاءَ يَغْلُظُ كَلْمُهَا ، ويَخْشُنُ مَسُّهَا ويَكْثُرُ الْعِثَارُ فِيهَا والِاعْتِذَارُ مِنْهَا، فَصَاحِبُهَا كَرَاكِبِ الصَّعْبَةِ ، إِنْ أَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وإِنْ أَسْلَسَ

لَهَا تَقَحَّمَ ، فَمُنِيَ النَّاسُ لَعَمْرُ اللَّه بِخَبْطٍ وشِمَاسٍ وتَلَوُّنٍ واعْتِرَاضٍ ، فَصَبَرْتُ عَلَى طُولِ الْمُدَّةِ وشِدَّةِ الْمِحْنَةِ حَتَّى إِذَا مَضَى لِسَبِيلِه، جَعَلَهَا فِي جَمَاعَةٍ زَعَمَ أَنِّي أَحَدُهُمْ فَيَا لَلَّه ولِلشُّورَى ، مَتَى اعْتَرَضَ الرَّيْبُ فِيَّ مَعَ الأَوَّلِ مِنْهُمْ، حَتَّى صِرْتُ أُقْرَنُ إِلَى هَذِه النَّظَائِرِ ، لَكِنِّي أَسْفَفْتُ إِذْ أَسَفُّوا وطِرْتُ إِذْ طَارُوا، فَصَغَا رَجُلٌ مِنْهُمْ لِضِغْنِه ، ومَالَ الآخَرُ لِصِهْرِه مَعَ هَنٍ وهَنٍ إِلَى أَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ نَافِجاً حِضْنَيْه ، بَيْنَ نَثِيلِه ومُعْتَلَفِه ، وقَامَ مَعَه بَنُو أَبِيه يَخْضَمُونَ مَالَ اللَّه،

بیشک دونوں نے مل کر شدت سے اس کے تھنوں کو دوہا ہے۔اور اب ایک ایسی درشت اور سخت منزل میں رکھ دیا ہے جس کے زخم کاری ہیں اورجس کو چھونے سے بھی درشتی کا احساس ہوتا ہے۔لغزشوں کی کثرت ہے اورمعذرتوں کی بہتات! اس کو برداشت کرنے والا ایس ہی ہے جیسے سر کش اونٹنی کا سوار کہ مہار کھنیچ لے تو ناک زخمی ہو جائے اور ڈھیل دیدے تو ہلاکتوں میں کود پڑے۔تو خدا کی قسم لوگ ایک کجروی' سر کشی' تلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہوگئے ہیں اور میں نے بھی سخت حالات میں طویل مدت تک صبر کیا یہاں تک کہ وہ بھی اپنے راستہ چلا گیا لیکن خلافت کو ایک جماعت میں قرار دے گیا جن میں ایک مجھے بھی شمار کرگیا جب کہ میرا اس شوریٰ سے کیا تعلق تھا؟مجھ میں پہلے دن کون سا عیب و ریب تھا کہ آج مجھے ایسے لوگوں کے ساتھ ملایا جا رہا ہے۔لیکن اس کے باوجود میں نے انہیں کی فضا میں پرواز کی اور یہ نزدیک فضا میں اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا اور اونچے اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا مگرپھر بھی ایک شخص اپنے کینہ کی بنا پرمجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسری دامادی کی طرف جھک گیا اور کچھ اوربھی ناقابل ذکراسباب واشخاص تھے جس کے نتجیہ میں تیسرا شخص سرگین اورچارہ کے درمیان پیٹ پھلائے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے اہل خاندان بھی کھڑے ہوئے جو مال خا کو اس طرح ہضم کر رہے تھے

۲۰