نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)9%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656956 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تَقِيَّةَ ذِي لُبٍّ شَغَلَ التَّفَكُّرُ قَلْبَه - وأَنْصَبَ الْخَوْفُ بَدَنَه وأَسْهَرَ التَّهَجُّدُ غِرَارَ نَوْمِه - وأَظْمَأَ الرَّجَاءُ هَوَاجِرَ يَوْمِه وظَلَفَ الزُّهْدُ شَهَوَاتِه - وأَوْجَفَ الذِّكْرُ بِلِسَانِه وقَدَّمَ الْخَوْفَ لأَمَانِه - وتَنَكَّبَ الْمَخَالِجَ عَنْ وَضَحِ السَّبِيلِ - وسَلَكَ أَقْصَدَ الْمَسَالِكِ إِلَى النَّهْجِ الْمَطْلُوبِ - ولَمْ تَفْتِلْه فَاتِلَاتُ الْغُرُورِ - ولَمْ تَعْمَ عَلَيْه مُشْتَبِهَاتُ الأُمُورِ - ظَافِراً بِفَرْحَةِ الْبُشْرَى ورَاحَةِ النُّعْمَى فِي أَنْعَمِ نَوْمِه وآمَنِ يَوْمِه - وقَدْ عَبَرَ مَعْبَرَ الْعَاجِلَةِ حَمِيداً وقَدَّمَ زَادَ الآجِلَةِ سَعِيداً - وبَادَرَ مِنْ وَجَلٍ وأَكْمَشَ فِي مَهَلٍ ورَغِبَ فِي طَلَبٍ - وذَهَبَ عَنْ هَرَبٍ ورَاقَبَ فِي يَوْمِه غَدَه - ونَظَرَ قُدُماً أَمَامَه فَكَفَى بِالْجَنَّةِ ثَوَاباً ونَوَالًا وكَفَى بِالنَّارِ عِقَاباً ووَبَالًا - وكَفَى بِاللَّه مُنْتَقِماً ونَصِيراً - وكَفَى بِالْكِتَابِ حَجِيجاً وخَصِيماً !

صاحب عقل ڈرتا ہے جس کے دل کو فکرآخرت نے مشغول کرلیا ہو اور اس کے بدن کو خوف خدانے خستہ حال بنادیا ہو اور شب بیداری نے اس کی بچی کھچی نیند کو بھی بیداری میں بدل دیا ہو اور امیدوں نے اس کے دل کی تپش کو پیاس میں گزار دیا ہو اور زہد نے اس کے خواہشات کو پیروں تلے روند دیا ہو اور ذکر خدا اس کی زبان پر تیزی سے دوڑ رہا ہو اور اس نے قیامت کے امن و امان کے لئے یہیں خوف کا راستہ اختیار کیا ہو اور سیدھی راہ پر چلنے کے لئے ٹیڑھی راہوں سے کترا کر چلا ہو اور مطلوبہ راستہ تک پہنچنے کے لئے معتدل ترین راستہ اختیار کیا ہو'نہ خوش فریبیوں نے اس میں اضطراب پیدا کیا ہو اور نہ مشتبہ امورنے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈالا ہو۔بشارت کی مسرت اورنعمتوں کی راحت حاصل کرلی ہو۔دنیا کی گذر گاہ سے قابل تعریف انداز سے گزر جائے اورآخرت کا زاد راہ نیک بختی کے ساتھ آگے بھیج دے۔وہاں کے خطرات کے پیش نظر عمل میں سبقت کی اور مہلت کے اوقات میں تیز رفتاری سے قدم بڑھایا۔طلب آخرت میں رغبت کے ساتھ آگے بڑا اور برائیوں سے مسلسل فرار کرتا رہا۔آج کے دن کل پر نگاہ رکھی اور ہمیشہ اگلی منزلوں کودیکھتا رہا۔یقینا ثواب اور عطا کے لئے جنت اور عذاب و وبال کے لئے جہنم سے بالاتر کیا ہے اور اور پھر خدا سے بہتر مدد کرنے والا اور انتقام لینے والا کون ہے اور قرآن کے علاوہ حجت اور سند کیا ہے

۱۲۱

الوصية بالتقوى

أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّه الَّذِي أَعْذَرَ بِمَا أَنْذَرَ واحْتَجَّ بِمَا نَهَجَ - وحَذَّرَكُمْ عَدُوّاً نَفَذَ فِي الصُّدُورِ خَفِيّاً - ونَفَثَ فِي الآذَانِ نَجِيّاً فَأَضَلَّ وأَرْدَى ووَعَدَ فَمَنَّى وزَيَّنَ سَيِّئَاتِ الْجَرَائِمِ وهَوَّنَ مُوبِقَاتِ الْعَظَائِمِ حَتَّى إِذَا اسْتَدْرَجَ قَرِينَتَه واسْتَغْلَقَ رَهِينَتَه أَنْكَرَ مَا زَيَّنَ واسْتَعْظَمَ مَا هَوَّنَ وحَذَّرَ مَا أَمَّنَ.

ومنها في صفة خلق الإنسان

أَمْ هَذَا الَّذِي أَنْشَأَه فِي ظُلُمَاتِ الأَرْحَامِ وشُغُفِ الأَسْتَارِ نُطْفَةً دِهَاقاً وعَلَقَةً مِحَاقاً وجَنِيناً ورَاضِعاً ووَلِيداً ويَافِعاً ثُمَّ مَنَحَه قَلْباً حَافِظاً

بندگان خدا! میں تمہیں اس خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جس نے ڈرانے والی اشیاء کے ذریعہ عذر کا خاتمہ کردیا ہے اور راستہ دکھا کر حجت تمام کردی ہے۔تمہیں اس دشمن(۱) سے ہوشیار کردیا ہے جو خاموی سے دلوں میں نفوذ کر جاتا ہے اورچپکے سے کان میں پھونک دیتا ہے اوراس طرح گمراہ اور ہلاک کر دیتا ے اور وعدہ کرکے امیدوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔بد ترین جرائم کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے اور مہلک گناہوں کو آسان بنا دیتا ہے ۔یہاں تک کہ جب اپنے ساتھی نفس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اپنے قیدی کو باقاعدہ گرفتار کر لیتا ہے تو جس کو خوبصورت بنایا تھا اسی کو منکر بنا دیتا ہے اور جسےآسان بنایا تھا اسی کو عظیم کہنے لگتا ہے اور جس کی طرف سے محفوظ بنادیا تھا اسی سے ڈرانے لگتا ہے۔ذرا اس مخلوق کو دیکھو جسے بنانے والے نے رحم کی تاریکیوں اورمتعدد پردوں کے اندر یوں بنایا کہ اچھلتا ہوا نطفہ تھا پھر منجمد خون بنا۔پھرجنین بنا۔پھر رضاعت کی منزل میں آیا پھر طفل نوخیز بنا پھر جوان ہوگیا اور اس کے بعد مالک نے اسے(۲) محفوظ کرنے والا دل

(۱)پروردگار کا کرم ہے کہ اس نے قرآن مجید میں بار بار قصہ آدم و ابلیس کو دہرا کر اولاد آدم کو متوجہ کردیا ہے کہ یہ تمہارے بابا آدم کا دشمن تھا اوراسی نے انہیں جنت کی خوشگوار فضائوں سے نکالا تھا اور پھر جب سے بارگاہ الٰہی سے نکالا گیا ہے مسلسل اولاد آدم سے انتقام لینے پر تلا ہوا ہے اورایک لمحہ فرصت کونظر انداز نہیں کرنا چاہتا ہے۔اس کا سب سے بڑا ہنر یہ ہے کہ گناہوں کے وقت گناہوں کو معمولی اور مزین بنادیتا ہے۔اس کے بعد جب انسان ان کا ارتکاب کرلیتا ہے تو اس کے ذہنی کرب کو بڑھانے کے لئے گناہ کی اہمیت و عظمت کا احساس دلاتا ہے اور ایک لمحہ کے لئے اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیتا ہے۔

(۲)مالک کائنات کے کروڑوں احسانات میں سے یہ تین احسانات ایسے ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتے تو انسان کا وجود جانوروں سے بد تر ہو کر رہ جاتا اور انسان کسی قیمت پر اشرف مخلوقات کہے جانے کے قابل نہ ہوتا۔ مالک نے پہلا کرم یہ کیا کہ دنیا کے حالات سے با خبر بنانے کے لئے آنکھیں دے دیں۔اس کے بعد اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لئے زبان دے دی اور پھر معلومات سے کسی وقت بھی فائدہ اٹھانے کے لئے حافظہ دے دیاورنہ یہ حافظہ نہ ہوتا تو بار بار اشیاء کا سامنے آنا نا ممکن ہوتا اور انسان صاحب علم ہونے کے بعد بھی جاہل ہی رہ جاتا۔فاعتبروایا اولی الا بصار

۱۲۲

ولِسَاناً لَافِظاً وبَصَراً لَاحِظاً لِيَفْهَمَ مُعْتَبِراً ويُقَصِّرَ مُزْدَجِراً - حَتَّى إِذَا قَامَ اعْتِدَالُه واسْتَوَى مِثَالُه نَفَرَ مُسْتَكْبِراً وخَبَطَ سَادِراً مَاتِحاً فِي غَرْبِ هَوَاه كَادِحاً سَعْياً لِدُنْيَاه فِي لَذَّاتِ طَرَبِه وبَدَوَاتِ أَرَبِه - ثُمَّ لَا يَحْتَسِبُ رَزِيَّةً ولَا يَخْشَعُ تَقِيَّةً فَمَاتَ فِي فِتْنَتِه غَرِيراً وعَاشَ فِي هَفْوَتِه يَسِيراً لَمْ يُفِدْ عِوَضاً ولَمْ يَقْضِ مُفْتَرَضاً - دَهِمَتْه فَجَعَاتُ الْمَنِيَّةِ فِي غُبَّرِ جِمَاحِه وسَنَنِ مِرَاحِه - فَظَلَّ سَادِراً وبَاتَ سَاهِراً فِي غَمَرَاتِ الآلَامِ - وطَوَارِقِ الأَوْجَاعِ والأَسْقَامِ بَيْنَ أَخٍ شَقِيقٍ ووَالِدٍ شَفِيقٍ - ودَاعِيَةٍ بِالْوَيْلِ جَزَعاً

بولنے والی زبان' دیکھنے والی آنکھ عنایت کردی تاکہ عبرت کے ساتھ سمجھ سکے اور نصیحت کا اثر لیتے ہوئے برائیوں سے باز رہے لیکن جب اس کے اعضاء میں اعتدال پیدا ہوگیا اور اس کا قدو قامت اپنی منزل تک پہنچ گیا تو غرور و تکبر سے اکڑ گیا اوراندھے پن کے ساتھ بھٹکنے لگا اور ہوا وہوس کے ڈول بھر بھر کر کھینچنے لگا۔طرب کی لذتوں اورخواہشات کی تمنائوں میں دنیا کے لئے انتھک کوشش کرنے لگا۔نہ کسی مصیبت کا خیال رہ گیا اورنہ کسی خوف و خطر کا اثر رہ گیا۔فتنوں کے درمیان فریب خوردہ مرگیا اورمختصر سی زندگی کو بے ہودگیوں میں گزار کیا۔نہ کسی اجر کا انتظام کیا اورنہ کسی فریضہ کو ادا کیا۔اسی باقیماندہ سر کشی کے(۱) عالم میں مگر بار مصیبتیں اس پر ٹوٹ پڑیں۔اور وہ حیرت زدہ رہ گیا۔اب راتیں جاگنے میں گزر رہی تھیں کہشاید قسم کے آلام تھے اور طرح طرح کے امراض واسقام جب کہ حقیقی بھائی اور مہربان باپ اورفریاد کرنے والی ماں

(۱)ہائے رے انسان کی بے کسی۔ابھی غفلت کا سلسلہ تمام نہ ہوا تھا اور لذت اندوزی حیات کا تسلسل قائم تھا کہ اچانک حضرت ملک الموت نازل ہوگئے اور ایک لمحہ کی مہلت دئیے بغیر لے جانے کے لئے تیار ہوگئے۔انسان صحرا بیابان اور ویرانہ دشت و جبل میں نہیں ہے گھر کے اندر ہے۔ادھر اولاد ادھر احباب ۔ادھر مہربان باپ ادھر سرو سینہ پیٹنے والی ماں۔ادھر حقیقی بھائیادھر قربان ہونے والی بہن۔لیکن کوئی کرب موت کے لمحہ میں تخفیف بھی نہیں کرا سکتا ہے اور نہ مرنے والے کے کسی کام آسکتا ہے بلکہ اس سے زیادہ کرب ناک یہ منظر ہے کہ اس کیبعد اپنے ہی ہاتھوں سے کفن میں لپیٹا جا رہا ہے اور سانس لینے کے لئے بھی کوئی راستہ نہیں چھوڑا جا رہا ہے اور پھر نہایت درجہ ادب واحترام سے قبر کے اندھیرے میں ڈال کر چاروں طرف سے بند کردیا جاتا ہے کہ کوئی سوراخ بھی نہ رہنے پائے اور ہوا یا روشنی کا گزربھی نہ ہونے پائے۔

کسی کے منہ سے نہ نکلا ہمارے دفن کے وقت

کہ خاک ان پہ نہ ڈالو یہ ہیں نہائے ہوئے

اور اتنا ہی نہیں بلکہ حضرت خود بھی خاک ڈالنے ہی کو محبت کی علامت اوردوستی کے حق کی ادائیگی تصور کر رہے ہیں:

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن

زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

انا لله وانا الیه راجعون

۱۲۳

ولَادِمَةٍ لِلصَّدْرِ قَلَقاً - والْمَرْءُ فِي سَكْرَةٍ مُلْهِثَةٍ وغَمْرَةٍ كَارِثَةٍ وأَنَّةٍ مُوجِعَةٍ وجَذْبَةٍ مُكْرِبَةٍ وسَوْقَةٍ مُتْعِبَةٍ - ثُمَّ أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِه مُبْلِساً وجُذِبَ مُنْقَاداً سَلِساً ثُمَّ أُلْقِيَ عَلَى الأَعْوَادِ رَجِيعَ وَصَبٍ ونِضْوَ سَقَمٍ - تَحْمِلُه حَفَدَةُ الْوِلْدَانِ وحَشَدَةُ الإِخْوَانِ إِلَى دَارِ غُرْبَتِه - ومُنْقَطَعِ زَوْرَتِه ومُفْرَدِ وَحْشَتِه - حَتَّى إِذَا انْصَرَفَ الْمُشَيِّعُ ورَجَعَ الْمُتَفَجِّعُ - أُقْعِدَ فِي حُفْرَتِه نَجِيّاً لِبَهْتَةِ السُّؤَالِ وعَثْرَةِ الِامْتِحَانِ - وأَعْظَمُ مَا هُنَالِكَ بَلِيَّةً نُزُولُ الْحَمِيمِ وتَصْلِيَةُ الْجَحِيمِ وفَوْرَاتُ السَّعِيرِ - وسَوْرَاتُ الزَّفِيرِ لَا فَتْرَةٌ مُرِيحَةٌ - ولَا دَعَةٌ مُزِيحَةٌ ولَا قُوَّةٌ حَاجِزَةٌ ولَا مَوْتَةٌ نَاجِزَةٌ ،ولَا سِنَةٌ مُسَلِّيَةٌ - بَيْنَ أَطْوَارِ الْمَوْتَاتِ وعَذَابِ السَّاعَاتِ - إِنَّا بِاللَّه عَائِذُونَ!

عِبَادَ اللَّه أَيْنَ الَّذِينَ عُمِّرُوا فَنَعِمُوا وعُلِّمُوا فَفَهِمُوا -

اور اضطراب سے سینہ کو بی کرنے والی بہن بھی موجود تھی لیکن انسان سکرا ت مومن کی مدہوشیوں ۔شدید قسم کی بدحواسیوں۔درد ناک قسم کی فریادوں اور کرب انگیز قسم کی نزع کی کیفیتوں اور تھکا دین والی شدتوں میں مبتلا تھا۔ اس کے بعد اسے مایوسی کے عالم میں کفن میں لپیٹ دیا گیا اور وہ نہایت درجہ آسانی اور خود سپردگی کے ساتھ کھینچا جانے لگا اس کے بعد اسے تختہ پر لٹا دیا گیا اس عالم میں کہ خستہ حال اور بیماریوں سے نڈھال ہو چکا تھا۔اولاد اوربرادری کے لوگ اسے اٹھا کر اس گھر کی طرف لے جا رہے تھے جو غربت کاگھر تھا اور جہاں ملاقاتوں کا سلسلہ بند تھا اور تنہائی کی وحشت کا دور دورہ تھا یہاں تک کہ جب مشایعت کرنے والے واپس آگئے اور گریہ و زاری کرنے والے پلٹ گئے تو اسے قبر میں دوبارہ اٹھا کربٹھا دیا گیا ۔سوال و جواب کی دہشت اور امتحان کی لغزشوں کا سامنا کرنے کے لئے۔اور وہاں کی سب سے بڑی مصیبت تو کھولتے ہوئے پانی کا نزول اور جہنم کا درود ہے جہاں آگ بھڑک رہی ہوگی اور شعلے بلند ہو رہے ہوں گے۔نہ کوئی راحت کا وقفہ ہوگا اور نہ سکون کا لمحہ۔نہ کوئی طاقت عذاب کو روکنے والی ہوگی اور نہ کوئی موت سکون بخش ہوگی۔حد یہ ہے کہ کوئی تسلی بخش نیند بھی نہ ہوگی۔طرح طرح کی موتیں ہوں گی اور دمبدم کا عذاب ۔بیشک ہم اس منزل پر پروردگار کی پناہ کے طلب گار ہیں۔بندگان خدا!کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں عمر یں دی گئیں تو خوب مز ے اڑائے اور بتایا گیا تو سب سمجھ گئے

۱۲۴

وأُنْظِرُوا فَلَهَوْا وسُلِّمُوا فَنَسُوا - أُمْهِلُوا طَوِيلًا ومُنِحُوا جَمِيلًا - وحُذِّرُوا أَلِيماً ووُعِدُوا جَسِيماً - احْذَرُوا الذُّنُوبَ الْمُوَرِّطَةَ والْعُيُوبَ الْمُسْخِطَةَ.

أُولِي الأَبْصَارِ والأَسْمَاعِ والْعَافِيَةِ والْمَتَاعِ - هَلْ مِنْ مَنَاصٍ أَوْ خَلَاصٍ - أَوْ مَعَاذٍ أَوْ مَلَاذٍ أَوْ فِرَارٍ أَوْ مَحَارٍ أَمْ لَا –( فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ) أَمْ أَيْنَ تُصْرَفُونَ أَمْ بِمَا ذَا تَغْتَرُّونَ - وإِنَّمَا حَظُّ أَحَدِكُمْ مِنَ الأَرْضِ ذَاتِ الطُّوْلِ والْعَرْضِ - قِيدُ قَدِّه مُتَعَفِّراً عَلَى خَدِّه - الآنَ عِبَادَ اللَّه والْخِنَاقُ مُهْمَلٌ والرُّوحُ مُرْسَلٌ - فِي فَيْنَةِ الإِرْشَادِ ورَاحَةِ الأَجْسَادِ وبَاحَةِ الِاحْتِشَادِ ومَهَلِ الْبَقِيَّةِ وأُنُفِ الْمَشِيَّةِ وإِنْظَارِ التَّوْبَةِ - وانْفِسَاحِ الْحَوْبَةِ قَبْلَ الضَّنْكِ والْمَضِيقِ والرَّوْعِ والزُّهُوقِ وقَبْلَ قُدُومِ الْغَائِبِ الْمُنْتَظَرِ - وإِخْذَةِ الْعَزِيزِ الْمُقْتَدِرِ.

لیکن مہلت دی گئی تو غفلت میں پڑ گئے۔صحت و سلامتی دی گئی تو اس نعمت کوبھول گئے۔انہیں کافی طویل مہلت دی گئی اور کافی اچھی نعمتیں دی گئی اور انہیں دردناک عذاب سے ڈرایا بھی گیا اور بہترین نعمتوںکاوعدہ بھی کیا گیا۔لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔اب تم لوگمہلک گناہوں سے پرہیز کرو اور خدا کو ناراض کرنے والے عیوب سے دور رہو۔تم صاحبان سماعت و بصارت اور اہل عافیت و ثروت ہو بتائو کیا بچائو کی کوئی جگہ یاچھٹکارہ کی کوئی گنجائش ہے۔کوئی ٹھکانہ یا پناہ گاہ ہے۔کوئیجائے فرار یا دنیا میں واپسی کی کوئی صورت ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو کدھر بہکے جا رہے ہواور کہاں تم کو لے جایا جا رہا ہے یا کس دھوکہ میں پڑے ہو؟

یاد رکھو اس طویل و عریض زمین میں تمہاری قسمت صرف بقدر قامت جگہ ہے جہاں رخساروں کو خاک پر رہنا ہے۔

بندگان خدا! ابھی موقع ہے۔رسی ڈھیلی ے۔روح آزاد ہے۔تم ہدایت کی منزل اور جسمانی راحت کی جگہ پرہو۔مجلسوںکے اجتماع میں ہو اور بقیہ زندگی کی مہلت سلامت ہے اور راستہ اختیار کرنے کی آزادی ہے اور توبہ کی مہلت ہے اور جگہ کی وسعت ہے قبل اس کے کہ تنگی لحد۔ضیق مکان ۔خوف اورجانکنی کا شکار ہو جائو اور قبل اس کے کہ وہ موت آجائے جس کا انتظار ہو رہا ہے اور وہ پروردگار اپنی گرفت میں لیلے جو صاحب عزت وغلبہ اور صاحب طاقت و قدرت ہے۔

۱۲۵

قال الشريف - وفي الخبر أنهعليه‌السلام لما خطب بهذه الخطبة - اقشعرت لها الجلود وبكت العيون ورجفت القلوب - ومن الناس من يسمي هذه الخطبة الغراء

(۸۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكر عمرو بن العاص

عَجَباً لِابْنِ النَّابِغَةِ يَزْعُمُ لأَهْلِ الشَّامِ أَنَّ فِيَّ دُعَابَةً وأَنِّي امْرُؤٌ تِلْعَابَةٌ أُعَافِسُ وأُمَارِسُ - لَقَدْ قَالَ بَاطِلًا ونَطَقَ آثِماً - أَمَا وشَرُّ الْقَوْلِ الْكَذِبُ إِنَّه لَيَقُولُ فَيَكْذِبُ ويَعِدُ فَيُخْلِفُ ويُسْأَلُ فَيَبْخَلُ ويَسْأَلُ فَيُلْحِفُ ويَخُونُ الْعَهْدَ ويَقْطَعُ الإِلَّ فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْحَرْبِ فَأَيُّ زَاجِرٍ وآمِرٍ هُوَ - مَا لَمْ تَأْخُذِ السُّيُوفُ مَآخِذَهَا - فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ كَانَ أَكْبَرُ [أَكْبَرَ] مَكِيدَتِه أَنْ يَمْنَحَ الْقَرْمَ سَبَّتَه - أَمَا واللَّه إِنِّي لَيَمْنَعُنِي مِنَ اللَّعِبِ ذِكْرُ الْمَوْتِ - وإِنَّه لَيَمْنَعُه مِنْ قَوْلِ الْحَقِّ نِسْيَانُ الآخِرَةِ -

سید رضی : کہا جاتا ہے کہ جب حضرت نے اس خطبہ کو ارشاد فرمایا تو لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اورآنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اوردل لرزنے لگے۔بعض لوگ اس خطبہ کو ''خطبہ غراء '' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

(۸۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں عمرو عاص کاذکر کیا گیا ہے)

تعجب ہے نابغہ کے بیٹے سے۔کہ یہ اہل شام سے بیان کرتا ہے کہ میرے مزاج میں مزاح پایا جاتاہے اور میں کوئی کھیل تماشہ والا انسان ہوں اور ہنسی مذاق میں لگا رہتا ہوں۔یقینا اس نے یہ بات غلط کہی ہے اور اس کی بنا پر گناہ گار بھی ہوا ہے۔

آگاہ ہوجائو کہ بد ترین کلام غلط بیانی ہے اور یہ جب بولتا ہے تو جھوٹ ہی بولتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی ہی کرتا ہے اور جب اس سے کچھ مانگا جاتا ہے تو بخل ہی کرتا ہے اورجب خود مانگتا ہے تو چمٹ جاتا ہے۔عہدو پیمان میں خیانت کرتا ہے۔قرابتوں میں قطع رحم کرتا ہے۔جنگ کے وقت دیکھو تو کیا کیا امرو نہیں کرتا ہے جب تک تلواریں اپنی منزل پر زور نہ پکڑ لیں۔ورنہ جب ایسا ہو جاتا ہے تواس کا سب سے بڑا حربہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن کے سامنے اپنی پشت کو پیش کردے۔خداگواہ ہے کہ مجھے کھیل کود سے یا موت نے روک رکھا ہے اور اسے حرف حق سے نسیان آخرت نے روک رکھا ہے

۱۲۶

إِنَّه لَمْ يُبَايِعْ مُعَاوِيَةَ حَتَّى شَرَطَ أَنْ يُؤْتِيَه أَتِيَّةً ويَرْضَخَ لَه عَلَى تَرْكِ الدِّينِ رَضِيخَةً

(۸۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها صفات ثمان من صفات الجلال

وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وَحْدَه لَا شَرِيكَ لَه - الأَوَّلُ لَا شَيْءَ قَبْلَه والآخِرُ لَا غَايَةَ لَه - لَا تَقَعُ الأَوْهَامُ لَه عَلَى صِفَةٍ - ولَا تُعْقَدُ الْقُلُوبُ مِنْه عَلَى كَيْفِيَّةٍ - ولَا تَنَالُه التَّجْزِئَةُ والتَّبْعِيضُ - ولَا تُحِيطُ بِه الأَبْصَارُ والْقُلُوبُ.

ومنها: فَاتَّعِظُوا عِبَادَ اللَّه بِالْعِبَرِ النَّوَافِعِ - واعْتَبِرُوا بِالآيِ السَّوَاطِعِ وازْدَجِرُوا بِالنُّذُرِ الْبَوَالِغِ وانْتَفِعُوا بِالذِّكْرِ والْمَوَاعِظِ - فَكَأَنْ قَدْ عَلِقَتْكُمْ مَخَالِبُ الْمَنِيَّةِ - وانْقَطَعَتْ مِنْكُمْ عَلَائِقُ الأُمْنِيَّةِ - ودَهِمَتْكُمْ مُفْظِعَاتُ الأُمُورِ والسِّيَاقَةُ إِلَى( الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ ) - فَ( كُلُّ نَفْسٍ مَعَها سائِقٌ وشَهِيدٌ ) - سَائِقٌ يَسُوقُهَا إِلَى مَحْشَرِهَا وشَاهِدٌ يَشْهَدُ عَلَيْهَا بِعَمَلِهَا.

اس نے معاویہ کی بیعت بھی اس وقت تک نہیں کی جب تک اس سے یہ طے نہیں کرلیا کہ اسے کوئی ہدیہ دے گا اور اس کے سامنے ترک دین پر کوئی تحفہ پیش کرے گا۔

(۸۵)

(جس میں پروردگار کے آٹھ صفات کاتذکرہ کیا گیا ہے)

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔وہ ایسا اول ہے جس سے پہلے کچھ نہیں ہے اور ایسا آخر ہے جس کی کوئی حد معین نہیں ہے۔خیالات اس کی کسی صفت کا ادراک نہیں کر سکتے ہیں اور دل اس کی کوئی کیفیت طے نہیں کر سکتا ہے۔اس کی ذات کے نہ اجزا ہیں اور نہ ٹکڑے اورنہ وہ دل و نگاہ کے احاطہ کے اندر آسکتا ہے۔

بندگان خدا! مفید عبرتوں سے نصیحت حاصل کرواور واضح نشانیوں سے عبرت لو۔بلیغ ڈرانے والی چیزوں سے اثر قبول کرو اور ذکر و موعظت سے فائدہ حاصل کرو۔یہ سمجھو کہ گویا موت اپنے پنجے تمہارے اندر گاڑ چکی ہے اورامیدوں کے رشتے تم سے منقطع ہوچکے ہیں اوردہشت ناک حالات نے تم پرحملہ کردیا ہے اورآخری منزل کی طرف لیجانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔یاد رکھو کہ '' ہر نفس کے ساتھ ایک ہنکانے والا ہے اور ایک گواہ رہتا ہے''۔ہنکانے والا قیامت کی طرف کھینچ کرلے جا رہا ہے اور گواہی دینے والا اعمال کی نگرانی کر رہا ہے

۱۲۷

ومنها في صفة الجنة

دَرَجَاتٌ مُتَفَاضِلَاتٌ ومَنَازِلُ مُتَفَاوِتَاتٌ - لَا يَنْقَطِعُ نَعِيمُهَا ولَا يَظْعَنُ مُقِيمُهَا - ولَا يَهْرَمُ خَالِدُهَا ولَا يَبْأَسُ سَاكِنُهَا

(۸۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها بيان صفات الحق جل جلاله، ثم عظة الناس بالتقوى والمشورة

قَدْ عَلِمَ السَّرَائِرَ وخَبَرَ الضَّمَائِرَ - لَه الإِحَاطَةُ بِكُلِّ شَيْءٍ والْغَلَبَةُ لِكُلِّ شَيْءٍ - والْقُوَّةُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ.

عظة الناس

فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُ مِنْكُمْ فِي أَيَّامِ مَهَلِه قَبْلَ إِرْهَاقِ أَجَلِه وفِي فَرَاغِه قَبْلَ أَوَانِ شُغُلِه - وفِي مُتَنَفَّسِه

اس کے درجات مختلف(۱) اوراس کی منزلیں پست و بلند ہیں لیکن اس کی نعمتیں ختم ہونے والی نہیں ہیں اور اس کے باشندوں کو کہیں اور کوچ کرنے نہیں ہے۔اس میں ہمیشہ رہنے والا بھی بوڑھا نہیں ہوتا ہے اور اس کے رہنے والوں کو فقرو فاقہ سے سابقہ نہیں پڑتاہے۔

(۸۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں صفات خالق '' جل جلالہ'' کاذکر کیا گیا ہے اور پھر لوگوں کو تقویٰ کی نصیحت کی گئی ہے)

بیشک وہ پوشیدہ اسرار کا عالم اور دلوں کے رازوں سے با خبر ہے۔اسے ہرشے پر احاطہ حاصل ہے اوروہ ہر شے پرغالب ہے۔اور طاقت رکھنے والا ہے۔

موعظہ

تم میں سے ہرشخص کا فرض ہے کہ مہلت کے دنوں میں عمل کرے قبل اس کے کہ موت حائل ہو جائے اور فرصت کے دنوں میں کام کرے قبل اس کے کہ مشغول ہو جائے۔ابھی جب کہ سانس لینے کاموقع ہے

(۱)بعض اوقات یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ جب جنت میں ہرنعمت کا انتظام ہے اور وہاں کی کوئی خواہش مسترد نہیں ہوسکتی ہے تو ان درجات کا فائدہ ہی کیا ہے۔پست منزل والا جیسے ہی بلند منزل کی خواہش کرے گا وہاں پہنچ جائے گا اور یہ سب درجات بیکار ہو کر رہ جائیں گے۔لیکن اس کا واضح سا جوا ب یہ ہے کہ جنت ان لوگوں کا مقام نہیں ہے جو اپنی منزل نہ پہچانتے ہوں اوراپنی اوقات سے بلند تر جگہ کی ہوس رکھتے ہوں۔ہوس کا مقام جہنم ہے جنت نہیں ہے۔جنت والے اپنے مقامات کو پہچانتے ہیں۔یہ اوربات ہے کہ بلند مقامات والوں کے خادم اورنوکر ہیں تو خدمت کے سہارے دیگرنو کروں کی طرح بلند منازل تک پہنچ جائیں جس کی طرف امام نے اشارہ فرمایا ہے کہ'' ہمارے شیعہ ہمارے ساتھ جنت میں ہمارے درجہ میں ہوں گے''

۱۲۸

قَبْلَ أَنْ يُؤْخَذَ بِكَظَمِه ولْيُمَهِّدْ لِنَفْسِه وقَدَمِه ولْيَتَزَوَّدْ مِنْ دَارِ ظَعْنِه لِدَارِ إِقَامَتِه - فَاللَّه اللَّه

أَيُّهَا النَّاسُ فِيمَا اسْتَحْفَظَكُمْ مِنْ كِتَابِه - واسْتَوْدَعَكُمْ مِنْ حُقُوقِه - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يَتْرُكْكُمْ سُدًى - ولَمْ يَدَعْكُمْ فِي جَهَالَةٍ ولَا عَمًى قَدْ سَمَّى آثَارَكُمْ وعَلِمَ أَعْمَالَكُمْ وكَتَبَ آجَالَكُمْ - وأَنْزَلَ عَلَيْكُمُ الْكِتَابَ( تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ ) - وعَمَّرَ فِيكُمْ نَبِيَّه أَزْمَاناً حَتَّى أَكْمَلَ لَه ولَكُمْ - فِيمَا أَنْزَلَ مِنْ كِتَابِه دِينَه الَّذِي رَضِيَ لِنَفْسِه - وأَنْهَى إِلَيْكُمْ عَلَى لِسَانِه مَحَابَّه مِنَ الأَعْمَالِ ومَكَارِهَه - ونَوَاهِيَه وأَوَامِرَه وأَلْقَى إِلَيْكُمُ الْمَعْذِرَةَ - واتَّخَذَ عَلَيْكُمُ الْحُجَّةَ وقَدَّمَ( إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ ) - وأَنْذَرَكُمْ( بَيْنَ يَدَيْ عَذابٍ شَدِيدٍ ) فَاسْتَدْرِكُوا بَقِيَّةَ أَيَّامِكُمْ واصْبِرُوا لَهَا أَنْفُسَكُمْ فَإِنَّهَا قَلِيلٌ فِي كَثِيرِ الأَيَّامِ الَّتِي تَكُونُ مِنْكُمْ فِيهَا الْغَفْلَةُ - والتَّشَاغُلُ عَنِ الْمَوْعِظَةِ ولَا تُرَخِّصُوا لأَنْفُسِكُمْ - فَتَذْهَبَ بِكُمُ الرُّخَصُ مَذَاهِبَ الظَّلَمَةِ

قبل اس کے کہ گلا گھونٹ دیا جائے۔اپنے نفس اور اپنی منزل کے لئے سامان مہیا کرلے اور اس کوچ کے گھرسے اس قیام کے گھر کے لئے زاد راہ فراہم کرلے۔

لوگو! اللہ کو یاد رکھو اور اس سے ڈرتے رہو اور اس کتاب کے بارے میں جس کا تم کو محافظ بنایا گیا ہے اوران حقوق کے بارے میں جن کا تم کو امانت دار قرار دیا گیاہے۔اس لئے کہ اس نے تم کو بیکارنہیں پیدا کیا ہے اور نہ مہمل چھوڑ دیا ہے اور نہ کسی جہالت اورتاریکی میں رکھاہے۔تمہارے لئے آثار کو بیان کردیا ہے۔اعمال کو بتا دیا ہے اورمدت حیات کو لکھ دیا ہے۔وہ کتاب نازل کردی ہے جس میں ہر شے کا بیان پایا جاتاہے اور ایک مدت تک اپنے پیغمبر (ص) کو تمہارے درمیان رکھ چکا ہے۔یہاں تک کہ تمہارے لئے اپنے اس دن کو کامل کردیا ہے جسے اس نے پسندیدہ قراردیا ہے اور تمہارے لئے پیغمبر (ص) کی زبان سے ان تمام اعمال کو پہنچادیا ہے جن کو وہ دوست رکھتا ہے یا جن سے نفرت کرتا ہے۔اپنے اوامر و نواہی کر بتا دیا ہے اوردلائل تمہارے سامنے رکھ دئیے ہیں اور حجت تمام کرد ی ہے اورڈرانے دھمکانے کا انتظام کردیا ہے اورعذاب کے آنے سے پہلے ہی ہوشیار کردیا ہے۔لہٰذا اب جتنے دن باقی رہ گئے ہیں انہیں میں تدارک کرلو اور اپنے نفس کو صبر پرآمادہ کرلو کہ یہ دن ایام غفلت کے مقابلہ میں بہت تھوڑے ہیں جب تم نے موعظہ سننے کابھی موقع نہیں نکالا۔خبردار اپنے نفس کو آزاد مت چھوڑو ورنہ یہآزادی تم کو ظالموں کے راستہ پر لے جائے گی

۱۲۹

ولَا تُدَاهِنُوا فَيَهْجُمَ بِكُمُ الإِدْهَانُ عَلَى الْمَعْصِيَةِ - عِبَادَ اللَّه إِنَّ أَنْصَحَ النَّاسِ لِنَفْسِه أَطْوَعُهُمْ لِرَبِّه - وإِنَّ أَغَشَّهُمْ لِنَفْسِه أَعْصَاهُمْ لِرَبِّه - والْمَغْبُونُ مَنْ غَبَنَ نَفْسَه والْمَغْبُوطُ مَنْ سَلِمَ لَه دِينُه - والسَّعِيدُ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِه - والشَّقِيُّ مَنِ انْخَدَعَ لِهَوَاه وغُرُورِه

واعْلَمُوا أَنَّ يَسِيرَ الرِّيَاءِ شِرْكٌ - ومُجَالَسَةَ أَهْلِ الْهَوَى مَنْسَاةٌ لِلإِيمَانِ ومَحْضَرَةٌ لِلشَّيْطَانِ جَانِبُوا الْكَذِبَ فَإِنَّه مُجَانِبٌ لِلإِيمَانِ - الصَّادِقُ عَلَى شَفَا مَنْجَاةٍ وكَرَامَةٍ - والْكَاذِبُ عَلَى شَرَفِ مَهْوَاةٍ ومَهَانَةٍ - ولَاتَحَاسَدُوا - فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الإِيمَانَ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ - ولَا تَبَاغَضُوا فَإِنَّهَا الْحَالِقَةُ واعْلَمُوا أَنَّ الأَمَلَ يُسْهِي الْعَقْلَ -

اوراس کے ساتھ نرمی نہ بر تو ورنہ یہ تمہیں مصیبتوں میں جھونک دے گا۔

بندگان خدا! اپنے نفس کا سب سے سچا مخلص وہی ہے جو پروردگار کا سب سے بڑا اطاعت گزار ہے اور اپنے نفس سے سب سے بڑا خیانت کرنے والا وہی ہے جو اپنے پروردگار کا معصیت کار ہے ۔خسارہ میں وہ ہے جو خود اپنے نفس کوگھاٹے میں رکھے اور قابل رشک وہ ہے جس کا دین سلامت رہ جائے۔نیک بخت وہ ہے جو دوسروں کے حالات سے نصیحت حاصل کرلے اورب د بخت وہ ہے جو خواہشات کے دھوکہ میں آجائے۔

یاد رکھو کہ مختصر سا شائبہ ریا کاری بھی ایک طرح کا شرک ہے اورخواہش(۱) پرستوں کی صحبت بھی ایمان سے غافل بنانے والی ہے اور شیطان کو ہمیشہ سامنے لانے والی ہے۔جھوٹ سے پرہیز کرو کہ وہ ایمان سے کنارہ کش رہتا ہے۔سچ بولنے والا ہمیشہ نجات اور کرامت کے کنارہ پر رہت ہے اور جھوٹ بولنے والا ہمیشہ تباہی اورذلت کے دہانہ پر رہتا ہے۔خبردار ایک دوسرے سے حسد نہ کرنا کہ''حسد ایمان کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑی کو کھا جاتی ہے''۔ اورآپس میں ایک دوسرے سے بغض نہ رکھنا کہ بغض ایمان کا صفایا کرتا دیتا ہے اوریاد رکھو کہ خواہش عقل کو بھلا دیتی ہے

(۱)آپ جب چاہیں اہل دنیا کی محفلوں کا جائزہ لے لیں۔دنیا بھر کی مہمل باتیں کھیل کودکے تذکرے۔سیاست کے تبصرے ۔لوگوں کی غیبت ' پاکیزہ کردار لوگوں پر تہمت تاش کے پتے شطرنج کے مہرے وغیرہ نظر آجائیں گے تو کیا ایسی محفلوں میں ملائکہ مقربین بھی حاضر ہوں گے۔یقینا یہ مقامات شیاطین کے حضور اور ایمان سے غفلت کے مراحل ہیں جن سے اجتناب ہر مسلمان کا فریضہ ہے اوراس کے بغیرتباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۱۳۰

ويُنْسِي الذِّكْرَ فَأَكْذِبُوا الأَمَلَ - فَإِنَّه غُرُورٌ وصَاحِبُه مَغْرُورٌ.

(۸۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في بيان صفات المتقين وصفات الفساق والتنبيه إلى مكان العترة الطيبة والظن الخاطئ لبعض الناس

عِبَادَ اللَّه إِنَّ مِنْ أَحَبِّ عِبَادِ اللَّه إِلَيْه عَبْداً - أَعَانَه اللَّه عَلَى نَفْسِه فَاسْتَشْعَرَ الْحُزْنَ - وتَجَلْبَبَ الْخَوْفَ فَزَهَرَ مِصْبَاحُ الْهُدَى فِي قَلْبِه - وأَعَدَّ الْقِرَى لِيَوْمِه النَّازِلِ بِه - فَقَرَّبَ عَلَى نَفْسِه الْبَعِيدَ وهَوَّنَ الشَّدِيدَ - نَظَرَ فَأَبْصَرَ وذَكَرَ فَاسْتَكْثَرَ - وارْتَوَى مِنْ عَذْبٍ فُرَاتٍ سُهِّلَتْ لَه مَوَارِدُه - فَشَرِبَ نَهَلًا وسَلَكَ سَبِيلًا جَدَداً قَدْ خَلَعَ سَرَابِيلَ الشَّهَوَاتِ وتَخَلَّى مِنَ الْهُمُومِ - إِلَّا هَمّاً وَاحِداً انْفَرَدَ بِه فَخَرَجَ مِنْ صِفَةِ الْعَمَى - ومُشَارَكَةِ أَهْلِ الْهَوَى وصَارَ مِنْ مَفَاتِيحِ أَبْوَابِ الْهُدَى - ومَغَالِيقِ أَبْوَابِ الرَّدَى

اور ذکر خداسے غافل بنا دیتی ہے ۔خواہشات کوجھٹلائو کہ یہ صرف دھوکہ ہیں اور ان کا ساتھ دینے والا ایک فریب خوردہ انسان ہے اورکچھ نہیں ہے۔

(۸۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں متقین اورفاسقین کے صفات کاتذکرہ کیا گیا ہے اور لوگوں کوتنبیہ کی گئی ہے )

بندگان خدا!اللہ کی نگاہ میں سب سے محبوب بندہ وہ ہے جس کی خدانے اس کے نفس کے خلاف مدد کی ہے اور اس نے اندر حزن اور باہرخوف کا لباس پہن لیا ہے ۔اس کے دل میں ہدات کا چراغ روشن ہے اور اس نے آنے والے دن کی مہمانی کا انتظام کرلیا ہے۔اپنے نفس کے لئے آنے والے بعید ( موت) کو قریب کرلیا ہے اور سخت مرحلہ کوآسان کرلیا ہے۔دیکھا ہے تو بصیرت پیدا کی ہے اور خدا کو یاد کیا ہے تو عمل میں کثرت پیدا کی ہے۔ ہدایت کے اس چشمہ شیریں و خوشگوار سے سیراب ہوگیا ہے جس پر وارد ہونے کو آسان بنادیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں خوب چھک کر پی لیا ہے اور سیدھے راستہ پرچل پڑا ہے۔خواہشات کے لباس کو جدا کردیا ہے اور تمام افکارسے آزاد ہوگیاہے صرف ایک فکر آخرت باقی رہ گئی ہے جس کے زیر اثر گمراہی کی منزل سے نکل آیا ہے اور اہل ہو اور ہوس کی شرکت سے دور ہوگیا ہے۔ہدایت کے دروازہ کی کلید بن گیا ہے اور گمراہی کے دروازوں کا قفل بن گیا ہے

۱۳۱

قَدْ أَبْصَرَ طَرِيقَه وسَلَكَ سَبِيلَه وعَرَفَ مَنَارَه - وقَطَعَ غِمَارَه واسْتَمْسَكَ مِنَ الْعُرَى بِأَوْثَقِهَا - ومِنَ الْحِبَالِ بِأَمْتَنِهَا فَهُوَ مِنَ الْيَقِينِ عَلَى مِثْلِ ضَوْءِ الشَّمْسِ - قَدْ نَصَبَ نَفْسَه لِلَّه سُبْحَانَه فِي أَرْفَعِ الأُمُورِ - مِنْ إِصْدَارِ كُلِّ وَارِدٍ عَلَيْه وتَصْيِيرِ كُلِّ فَرْعٍ إِلَى أَصْلِه - مِصْبَاحُ ظُلُمَاتٍ كَشَّافُ

عَشَوَاتٍ مِفْتَاحُ مُبْهَمَاتٍ - دَفَّاعُ مُعْضِلَاتٍ دَلِيلُ فَلَوَاتٍ يَقُولُ فَيُفْهِمُ ويَسْكُتُ فَيَسْلَمُ - قَدْ أَخْلَصَ لِلَّه فَاسْتَخْلَصَه - فَهُوَ مِنْ مَعَادِنِ دِينِه وأَوْتَادِ أَرْضِه - قَدْ أَلْزَمَ نَفْسَه الْعَدْلَ فَكَانَ أَوَّلَ عَدْلِه نَفْيُ الْهَوَى عَنْ نَفْسِه - يَصِفُ الْحَقَّ ويَعْمَلُ بِه لَا يَدَعُ لِلْخَيْرِ غَايَةً إِلَّا أَمَّهَا ولَا مَظِنَّةً إِلَّا قَصَدَهَا قَدْ أَمْكَنَ الْكِتَابَ مِنْ زِمَامِه فَهُوَ قَائِدُه وإِمَامُه يَحُلُّ حَيْثُ حَلَّ ثَقَلُه ويَنْزِلُ حَيْثُ كَانَ مَنْزِلُه.

صفات الفساق

وآخَرُ قَدْ تَسَمَّى عَالِماً ولَيْسَ بِه - فَاقْتَبَسَ جَهَائِلَ مِنْ جُهَّالٍ وأَضَالِيلَ مِنْ ضُلَّالٍ

اپنے راستہ کو دیکھ لیا ہے اور اسی پر چل پڑا ہے۔اس لئے کہ وہ اپنے یقین میں بالکل نور آفتاب جیسی روشنی رکھتا ہے۔اپنے نفس کو بلند ترین امور کی خاطر راہ خدا میں آمادہ کرلیا ہے کہ ہرآنے والے مسئلہ کو حل کردے گا اور فروغ کو ان کی اصل کی طرف پلٹا دے گا۔وہ تاریکیوں کا چراغ ہے اوراندھیروں کا روشن کرنے والا۔مبہمات کی کلید ہے تو مشکلات کا دفع کرنے والا اور پھرصحرائوں میں رہنمائی کرنے والا۔وہ بولتا ہے تو بات کو سمجھا لیتا ہے اور چپ رہتا ہے تو سلامتی کا بندوبست کرلیتا ہے ۔اس نے اللہ سے اخلاص برتا ہے تو اللہ نے اسے اپنا بندہ مخلص بنا لیا ہے۔اب وہ دین خدا کا معدن ہے اور زمین خدا کا رکن اعظم۔اس نے اپنے نفس کے لئے عدل کو لازم قرار دے لیا ہے اور اس کے عدل کی پہلی منزل یہ ہے کہ خواہشات کو اپنے نفس سے دور کردیا ہے اور اب حق ہی کو بیان کرتا ہے اور اسی پر عمل کرتا ہے نیکی کی کوئی منزل ایسی نہیں ہے جس کا قصد نہ کرتا ہو اور کوئی ایسا احتمال نہیں ے جس کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔اپنے امور کی زمام کتاب خدا کے حوالہ کردی ہے اور اب وہی اس کی قائد اور پیشوا ہے جہاں اس کا سامان اترتا ہے وہیں وارد ہو جاتا ہے اور جہاں اس کی منزل ہوتی ہے وہیں پڑائو ڈال دیتا ہے۔

اس کے بر خلاف ایک شخص وہ بھی ہے جس نے اپنا نام عالم رکھ لیا ہے حالانکہ علم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔جاہلوں سے جہالت کو حاصل کیا ہے اور گمراہوں سے گمراہی کو۔لوگوں کے واسطے دھوکہ کے پھندے

۱۳۲

ونَصَبَ لِلنَّاسِ أَشْرَاكاً مِنْ حَبَائِلِ غُرُورٍ وقَوْلِ زُورٍ قَدْ حَمَلَ الْكِتَابَ عَلَى آرَائِه - وعَطَفَ الْحَقَّ عَلَى أَهْوَائِه - يُؤْمِنُ النَّاسَ مِنَ الْعَظَائِمِ ويُهَوِّنُ كَبِيرَ الْجَرَائِمِ - يَقُولُ أَقِفُ عِنْدَ الشُّبُهَاتِ وفِيهَا وَقَعَ - ويَقُولُ أَعْتَزِلُ الْبِدَعَ وبَيْنَهَا اضْطَجَعَ - فَالصُّورَةُ صُورَةُ إِنْسَانٍ والْقَلْبُ قَلْبُ حَيَوَانٍ - لَا يَعْرِفُ بَابَ الْهُدَى فَيَتَّبِعَه - ولَا بَابَ الْعَمَى فَيَصُدَّ عَنْه وذَلِكَ مَيِّتُ الأَحْيَاءِ!

عترة النبي

( فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ ) وأَنَّى تُؤْفَكُونَ والأَعْلَامُ قَائِمَةٌ والآيَاتُ وَاضِحَةٌ والْمَنَارُ مَنْصُوبَةٌ - فَأَيْنَ يُتَاه بِكُمْ وكَيْفَ تَعْمَهُونَ وبَيْنَكُمْ عِتْرَةُ نَبِيِّكُمْ - وهُمْ أَزِمَّةُ الْحَقِّ وأَعْلَامُ الدِّينِ وأَلْسِنَةُ الصِّدْقِ - فَأَنْزِلُوهُمْ بِأَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْآنِ - ورِدُوهُمْ وُرُودَ الْهِيمِ الْعِطَاشِ

أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوهَا عَنْ خَاتَمِ النَّبِيِّينَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إِنَّه يَمُوتُ مَنْ مَاتَ مِنَّا ولَيْسَ بِمَيِّتٍ - ويَبْلَى مَنْ بَلِيَ مِنَّا ولَيْسَ بِبَالٍ - فَلَا تَقُولُوا بِمَا لَا تَعْرِفُونَ

اور مکرو فریب کے جال بچھادئیے ہیں۔کتاب کی تاویل اپنی رائے کے مطابق کی ہے اور حق کو اپنے خواہشات کی طرف موڑدیا ہے۔لوگوں کو بڑے بڑے جرائم کی طرف سے محفوظ بناتا ہے اور ان کے لئے گناہان کبیرہ کو بھی آسان بنا دیتا ہے۔کہتا یہی ہے کہ میں شبہات کے مواقع پر توقف کرتا ہوں لیکن واقعاً انہیں میں گر پڑتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میں بدعتوں سے الگ رہتا ہوں حالانکہ انہیں کے درمیان اٹھتا بیٹھتا ہے اس کی صورت انسانوں جیسی ہے لیکن دل جانوروں جیسا ہے ۔نہ ہدایت کے دروازوں کو پہچانتا ہے کہ اس کا اتباع کرے اور نہ گمراہی کے راستہ کو جانتا ہے کہ اس سے الگ رہے۔یہ در حقیقت ایک چلتی پھرتی میت ہے اور کچھ نہیں ہے۔تو آخر تم لوگ کدھر جا رہے ہو اور تمہیں کس سمت موڑا جا رہا ہے ؟ جب کہ نشانات قائم ہیں ۔اورآیات واضح ہیں۔منارے نصب کئے جا چکے ہیں اور تمہیں بھٹکا یا جا رہا ہے اورتم بھٹکے جا رہے ہو۔دیکھو تمہارے درمیان تمہارے نبی کی عترت موجود ہے۔یہ سب حق کے زمام دار دین کے پرچم اور صداقت کے ترجمان ہیں۔انہیں قرآن کریم کی بہترین منزل پر جگہ دو اور ان کے پاس اس طرح وارد ہو جس طرح پیاسے اونٹ چشمہ پر وارد ہوتے ہیں۔

لوگو! حضرت خاتم النبیین کے اس ارشاد گرامی پر عمل کروکہ '' ہمارا مرنے والا میت نہیں ہوتا ہے اور ہم میںسے کوئی مردو زمانہ سے بوسیدہ نہیں ہوتا ہے'' خبر دار وہ نہ کہو جو تم نہیں جانتے ہو۔اس لئے کہ بسا

۱۳۳

فَإِنَّ أَكْثَرَ الْحَقِّ فِيمَا تُنْكِرُونَ - واعْذِرُوا مَنْ لَا حُجَّةَ لَكُمْ عَلَيْه وهُوَ أَنَا - أَلَمْ أَعْمَلْ فِيكُمْ بِالثَّقَلِ الأَكْبَرِ وأَتْرُكْ فِيكُمُ الثَّقَلَ الأَصْغَرَ - قَدْ رَكَزْتُ فِيكُمْ رَايَةَ الإِيمَانِ - ووَقَفْتُكُمْ عَلَى حُدُودِ الْحَلَالِ والْحَرَامِ - وأَلْبَسْتُكُمُ الْعَافِيَةَ مِنْ عَدْلِي - وفَرَشْتُكُمُ الْمَعْرُوفَ مِنْ قَوْلِي وفِعْلِي - وأَرَيْتُكُمْ كَرَائِمَ الأَخْلَاقِ مِنْ نَفْسِي - فَلَا تَسْتَعْمِلُوا الرَّأْيَ فِيمَا لَا يُدْرِكُ قَعْرَه الْبَصَرُ - ولَا تَتَغَلْغَلُ إِلَيْه الْفِكَرُ.

ظن خاطئ

ومنها: حَتَّى يَظُنَّ الظَّانُّ أَنَّ الدُّنْيَا مَعْقُولَةٌ عَلَى بَنِي أُمَيَّةَ تَمْنَحُهُمْ دَرَّهَا وتُورِدُهُمْ صَفْوَهَا - ولَا يُرْفَعُ عَنْ هَذِه الأُمَّةِ سَوْطُهَا ولَا سَيْفُهَا وكَذَبَ الظَّانُّ لِذَلِكَ - بَلْ هِيَ مَجَّةٌ مِنْ لَذِيذِ الْعَيْشِ يَتَطَعَّمُونَهَا بُرْهَةً - ثُمَّ يَلْفِظُونَهَا جُمْلَةً!

اوقات حق اسی میں ہوتا ہے جسے تم نہیں پہچانتے ہو اور جس کے خلاف تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اس کے عذر کوقبول کرلو اور وہ میں ہوں۔کیا میں نے ثقل اکبر قرآن پر عمل نہیں کیا ہے اور کیا ثقل اصغر اہلبیت کو تمہارے درمیان نہیں رکھا ہے ۔میں نے تمہارے درمیان ایمان کے پرچم کو نصب کردیا ہے اور تمہیں حلال و حرام کے حدود سے آگاہ کردیا ہے۔اپنے عدل کی بنا پر تمہیں لباس عافیت پہنایا ہے۔اوراپنے قول و فعل کی نیکیوں کو تمہارے لئے فرش کردیا ہے اورتمہیں اپنے بلند ترین اخلاق کا منظر دکھلا دیا ہے۔لہٰذا خبردار جس بات کی گہرائی تک نگاہیں نہیں پہنچ سکتی ہیں اور جہاں تک فکر کی رسائی نہیں ہے اس میں اپنی رائے کو استعمال نہ کرنا۔

(ابنی امیہ کے مظالم نے اس قدر دہشت زدہ بنادیا ہے کہ )

بعض لوگ خیال کر رہے ہیں کہ دنیا بنی امیہ کے دامن سے باندھ دی گئی ہے۔انہیں کو اپنے فوائد سے فیض یاب کرے گی اور وہی اس کے چشمہ پر وارد ہوتے رہیں گے اور اب اس امت کے سرے ان کے تازیانے اورتلواریں اٹھ نہیں سکتی ہیں۔حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔یہ حکومت فقط ایک لذیذ قسم کا آب دہن ہے جسے تھوڑی دیر چوسیں گے اور پھر خود ہی تھوک دیں گے۔

۱۳۴

(۸۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها بيان للأسباب التي تهلك الناس

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّه لَمْ يَقْصِمْ جَبَّارِي دَهْرٍ قَطُّ إِلَّا بَعْدَ تَمْهِيلٍ ورَخَاءٍ - ولَمْ يَجْبُرْ عَظْمَ أَحَدٍ مِنَ الأُمَمِ إِلَّا بَعْدَ أَزْلٍ وبَلَاءٍ - وفِي دُونِ مَا اسْتَقْبَلْتُمْ مِنْ عَتْبٍ ومَا اسْتَدْبَرْتُمْ مِنْ خَطْبٍ مُعْتَبَرٌ - ومَا كُلُّ ذِي قَلْبٍ بِلَبِيبٍ ولَا كُلُّ ذِي سَمْعٍ بِسَمِيعٍ - ولَا كُلُّ نَاظِرٍ بِبَصِيرٍ - فَيَا عَجَباً ومَا لِيَ لَا أَعْجَبُ مِنْ خَطَإِ هَذِه الْفِرَقِ - عَلَى اخْتِلَافِ حُجَجِهَا فِي دِينِهَا - لَا يَقْتَصُّونَ أَثَرَ نَبِيٍّ ولَا يَقْتَدُونَ بِعَمَلِ وَصِيٍّ - ولَا يُؤْمِنُونَ بِغَيْبٍ ولَا يَعِفُّونَ عَنْ عَيْبٍ - يَعْمَلُونَ فِي الشُّبُهَاتِ ويَسِيرُونَ فِي الشَّهَوَاتِ - الْمَعْرُوفُ فِيهِمْ مَا عَرَفُوا والْمُنْكَرُ عِنْدَهُمْ مَا أَنْكَرُوا - مَفْزَعُهُمْ فِي الْمُعْضِلَاتِ إِلَى أَنْفُسِهِمْ - وتَعْوِيلُهُمْ فِي الْمُهِمَّاتِ عَلَى آرَائِهِمْ - كَأَنَّ كُلَّ امْرِئٍ مِنْهُمْ إِمَامُ نَفْسِه - قَدْ أَخَذَ مِنْهَا فِيمَا يَرَى بِعُرًى ثِقَاتٍ وأَسْبَابٍ مُحْكَمَاتٍ.

(۸۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کی ہلاکت کے اسباب بیان کئے گئے ہیں)

امابعد!پروردگار نےکسی دورکےظالموں کی کمراسوقت تک نہیں توڑی ہےجب تک انہیں مہلت اورڈھیل نہیں دےدی ہے اورکسی قوم کی ٹوٹی ہوئی ہڈی کواس وقت تک جوڑا نہیں ہے جب تک اسےمصیبتوں اوربلائوں میں مبتلا نہیں کیا ہےاپنے لئےجن مصیبتوں کاتم نےسامناکیاہے اورجن حادثات سےتم گزرچکے ہوانہیں میں سامان عبرت موجود ہےمگر مشکل یہ ہےکہ ہردل والاعقل مند نہیں ہوت ا ہےاور ہرکان والاسمیع یا ہرآنکھ والابصیرنہیں ہوتا ہےکس قدر حیرت انگیز بات ہےاورمیں کس طرح تعجب نہ کروں کہ یہ تمام فرقے اپنےاپنے دین کے بارے میں مختلف دلائل رکھنےکے باوجود سب غلطی پر ہیں کہ نہ نبی (ص) کے نقش قدم پرچلتے ہیں اورنہ انکےاعمال کی پیروی کرتےہیں۔نہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ عیب سے پرہیز کرتے ہیں۔شبہات پرعمل کرتے ہیں اور خواہشات کے راستوں پر قدم آگے بڑھاتے ہیں۔ان کے نزدیک معروف وہی ہےجس کو یہ نیکی سمجھیں اورمنکروہی ہے جس کایہ انکار کردیں۔مشکلات میں ان کا مرجع خود ان کی ذات ہے اورمبہم مسائل میں ان کا اعتمادصرف اپنی رائے پرہےگویا کہ ان میں ہر شخص اپنے نفس کاامام ہے۔اور اپنی ہر رائے کو مستحکم وسائل اور مضبوط دلائل کا نتیجہ سمجھتا ہے۔

۱۳۵

(۸۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الرسول الأعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وبلاغ الإمام عنه

أَرْسَلَه عَلَى حِينِ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ - وطُولِ هَجْعَةٍ مِنَ الأُمَمِ،

واعْتِزَامٍ مِنَ الْفِتَنِ - وانْتِشَارٍ مِنَ الأُمُورِ وتَلَظٌّ مِنَ الْحُرُوبِ والدُّنْيَا كَاسِفَةُ النُّورِ ظَاهِرَةُ الْغُرُورِ - عَلَى حِينِ اصْفِرَارٍ مِنْ وَرَقِهَا - وإِيَاسٍ مِنْ ثَمَرِهَا واغْوِرَارٍ مِنْ مَائِهَا - قَدْ دَرَسَتْ مَنَارُ الْهُدَى وظَهَرَتْ أَعْلَامُ الرَّدَى - فَهِيَ مُتَجَهِّمَةٌ لأَهْلِهَا عَابِسَةٌ فِي وَجْه طَالِبِهَا ثَمَرُهَا الْفِتْنَةُ وطَعَامُهَا الْجِيفَةُ وشِعَارُهَا الْخَوْفُ ودِثَارُهَا السَّيْفُ -. فَاعْتَبِرُوا عِبَادَ اللَّه - واذْكُرُوا تِيكَ الَّتِي آبَاؤُكُمْ وإِخْوَانُكُمْ بِهَا مُرْتَهَنُونَ وعَلَيْهَا مُحَاسَبُونَ - ولَعَمْرِي مَا تَقَادَمَتْ بِكُمْ ولَا بِهِمُ الْعُهُودُ - ولَا خَلَتْ فِيمَا بَيْنَكُمْ وبَيْنَهُمُ الأَحْقَابُ والْقُرُونُ - ومَا أَنْتُمُ الْيَوْمَ مِنْ يَوْمَ كُنْتُمْ فِي أَصْلَابِهِمْ بِبَعِيدٍ -. واللَّه مَا أَسْمَعَكُمُ الرَّسُولُ شَيْئاً - إِلَّا وهَا أَنَا ذَا مُسْمِعُكُمُوه -

(۸۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(رسول اکرم (ص) اور تبلیغ امام کے بارے میں)

اللہ نے انہیں اس دور میں بھیجا جب رسولوں کا سلسلہ موقوف تھا اور امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں۔فتنے سر اٹھائے ہوئے تھے اور جملہ امور میں ایک انتشار کی کیفیت تھی اور جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔دنیا کی روشنی کجلائی ہوئی تھی اور اس کا فریب واضح تھا۔باغ زندگی کے پتے زرد ہوگئے تھے اور ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہوچلی تھی۔پانی بھی تہ نشین ہو چکا تھا اور ہدایت ک ے منارے بھی مٹ گئے تھے اور ہلاکت کے ناشنات بھی نمایاں تھے۔یہ دنیا اپنے اہل کو ترش روئی سے دیکھ رہی تھی اور اپنے طلب گاروں کے سامنے منہ بگاڑ کر پیش آرہی تھی۔اس کا ثمرہ فتنہ تھا اور اس کی غذا مردار۔اس کا اندرونی لباس خوف تھا اوربیرونی لباس تلوار۔لہٰذا بندگان خداتم عبرت حاصل کرو اور ان حالات کو یاد کرو جن میں تمہارے باپ دادا اوربھائی بندہ گرفتار ہیں اور ان کا حساب دے رہے ہیں۔

میری جان کی قسم! ابھی ان کے اور تمہارے درمیان زیادہ زمانہ نہیں گزرا ہے اور نہ صدیوں کا فاصلہ ہوا ہے اور نہ آج کا دن کل کے دن سے زیادہ دور ہے جب تم انہیں بزرگوں کے صلب میں تھے۔

خدا کی قسم رسول اکرم (ص) نے تمہیں کوئی ایسی بات نہیں سنائی ہے جسے آج میں نہیں سنا رہا ہوں

۱۳۶

ومَا أَسْمَاعُكُمُ الْيَوْمَ بِدُونِ أَسْمَاعِكُمْ بِالأَمْسِ - ولَا شُقَّتْ لَهُمُ الأَبْصَارُ - ولَا جُعِلَتْ لَهُمُ الأَفْئِدَةُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ - إِلَّا وقَدْ أُعْطِيتُمْ مِثْلَهَا فِي هَذَا الزَّمَانِ - ووَ اللَّه مَا بُصِّرْتُمْ بَعْدَهُمْ شَيْئاً جَهِلُوه - ولَا أُصْفِيتُمْ بِه وحُرِمُوه - ولَقَدْ نَزَلَتْ بِكُمُ الْبَلِيَّةُ جَائِلًا خِطَامُهَا رِخْواً بِطَانُهَا فَلَا يَغُرَّنَّكُمْ مَا أَصْبَحَ فِيه أَهْلُ الْغُرُورِ - فَإِنَّمَا هُوَ ظِلٌّ مَمْدُودٌ إِلَى أَجَلٍ مَعْدُودٍ.

(۹۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وتشتمل على قدم الخالق وعظم مخلوقاته، ويختمها بالوعظ

الْحَمْدُ لِلَّه الْمَعْرُوفِ مِنْ غَيْرِ رُؤْيَةٍ والْخَالِقِ مِنْ غَيْرِ رَوِيَّةٍ .الَّذِي لَمْ يَزَلْ قَائِماً دَائِماً إِذْ لَا سَمَاءٌ ذَاتُ أَبْرَاجٍ - ولَا حُجُبٌ ذَاتُ إِرْتَاجٍ ولَا لَيْلٌ دَاجٍ ولَا بَحْرٌ سَاجٍ ولَا جَبَلٌ ذُو فِجَاجٍ ولَا فَجٌّ ذُو اعْوِجَاجٍ - ولَا أَرْضٌ ذَاتُ مِهَادٍ ولَا خَلْقٌ ذُو اعْتِمَادٍ ذَلِكَ مُبْتَدِعُ

اور تمہارے کان بھی کل کے کان سے کم نہیں ہیں اور جس طرح کل انہوں نے لوگوں کی آنکھیں کھول دی تھیں اور دل بنادئیے تھے ویسے ہی آج میں بھی تمہیں وہ ساری چیزیں دے رہا ہوں اور خدا گواہ ہے کہ تمہیں کوئی ایسی چیز نہیں دکھلائی جا رہی ہے جس سے تمہارے بزرگ نا واقف تھے اور نہ کوئی ایسی خاص بات بتائی جا رہی ہے جس سے وہ محروم رہے ہوں۔اور دیکھو تم پر ایک مصیبت نازل ہوگئی ہے اس اونٹنی کے مانند جس کی نکیل جھول رہی ہو اور جس کا تنگ ڈھیلاہوگیا ہولہٰذا خبردار تمہیں پچھلے فریب خوردہ لوگوں کی زندگی دھوکہ میں نہ ڈال دے کہ یہ عیش دنیا ایک پھیلا ہوا سایہ ہے جس کی مدت معین ہے اور پھر سمٹ جائے گا۔

(۹۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں معبود کے قدم اور اس کی مخلوقات کی عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے موعظہ پر اختتام کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جوبغیر دیکھے معروف ہے اور بغیر سوچے پیدا کرنے والا ہے۔وہ ہمیشہ سے قائم اوردائم ہے جب نہ یہ برجوں والےآسمان تھ ے اورنہ بلند دروازوں والے حجابات ۔نہ اندھیری رات تھی اور نہ ٹھہرے ہوئے سمندر۔نہ لمبے چوڑے راستوں والے پہاڑ تھے اورنہ ٹیڑھی ترچھی پہاڑی راہیں۔نہ بچھے ہوئے فرش والی زمین تھی اور نہ کس بل والی مخلوقات ۔وہی مخلوقات کا ایجاد کرنے والا ہے

۱۳۷

الْخَلْقِ ووَارِثُه وإِلَه الْخَلْقِ ورَازِقُه - والشَّمْسُ والْقَمَرُ دَائِبَانِ فِي مَرْضَاتِه - يُبْلِيَانِ كُلَّ جَدِيدٍ ويُقَرِّبَانِ كُلَّ بَعِيدٍ.

قَسَمَ أَرْزَاقَهُمْ وأَحْصَى آثَارَهُمْ وأَعْمَالَهُمْ - وعَدَدَ أَنْفُسِهِمْ وخَائِنَةَ أَعْيُنِهِمْ ومَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ مِنَ الضَّمِيرِ - ومُسْتَقَرَّهُمْ ومُسْتَوْدَعَهُمْ مِنَ الأَرْحَامِ والظُّهُورِ - إِلَى أَنْ تَتَنَاهَى بِهِمُ الْغَايَاتُ.

هُوَ الَّذِي اشْتَدَّتْ نِقْمَتُه عَلَى أَعْدَائِه فِي سَعَةِ رَحْمَتِه - واتَّسَعَتْ رَحْمَتُه لأَوْلِيَائِه فِي شِدَّةِ نِقْمَتِه - قَاهِرُ مَنْ عَازَّه ومُدَمِّرُ مَنْ شَاقَّه ومُذِلُّ مَنْ نَاوَاه وغَالِبُ مَنْ عَادَاه مَنْ تَوَكَّلَ عَلَيْه كَفَاه

اور وہی آخرمیں سب کا وارث ہے۔وہی سب کا معبود ہے اور سب کا رازق ہے۔شمس وقمراسی کی مرضی سے مسلسل حرکت میں ہیں کہ ہر نئے کو پرانا کردیتے ہیں اور ہر بعید کو قریب تر بنا دیتے ہیں۔

اس نے سب کے رزق کو تقسیم کیا ہے اور سب کے آثار و اعمال کا احصاء کیا ہے۔اسی نے ہر ایک کی سانسوں کا شمار کیا ہے اور ہر ایک کی نگاہ کی خیانت اورسینہ کے چھپے ہوئے اسرار اور اصلاب وارحام میں ان کے مراکز کا حساب رکھا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی آخری منزل تک پہنچ جائیں۔دہی دہ ہے جس کا غضب دشمنوں پر اس کی وسعت رحمت کے باوجود شدید ہے اور اس کی رحمت اس کے دوستوں کے لئے اس کے شدت غضب کے باوجود وسیع ہے۔جو اس پر غلبہ پیدا کرنا چاہے اس کے حق میں قاہر ہے اور جو کوئی اس سے جھگڑا کرنا چاہیے اس کے حق میں تباہ کرنے والا ہے۔ہر مخالفت کرنے والے کا ذلیل کرنے والا اور ہر دشمنی کرنے والے پر غالب آنے والا ہے ۔جواس پر توکل کرتا ہے(۱) اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے

(۱)یوں تو پروردگار کی کسی صفت اور اس کے کسی کمال میں اس کا کوئی مثل و نظیر یا شریک و وزیر نہیں ہے لیکن انسانی زندگی کے لئے خصوصیت کے ساتھ چار صفات انتہائی اہم ہیں:

۱۔وہ اپنے اوپر اعتماد کرنے والوں کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور انہیں دوسروں کا دست نگرنہیں بننے دیتا ہے۔

۲۔وہ ہر سوال کرنے والے کو عطا کرتا ہے اور کسی طرح کی تفریق کا قائل نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سوال نہ کرنے والوں کوبھی عطا کرتا ہے۔

۳۔وہ ہر قرضہ کوادا کر دیتا ہے حالانکہ ہر قرضہ دینے والا اسی کے دئیے ہوئے مال میں سے قرض دیتا ہے اور اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔

۴۔وہ شکریہ ادا کرنے والوں کوبھی انعام دیتا ہے جب کہ وہ اپنے فریضہ کوادا کرتے ہیں اور کوئی نیا کار خیر انجام نہیں دیتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ ان لوگوں کوبھی اس بات کاخیال رکھنا چاہیے کہ اس بات کاشکریہ ادا کریں کہ ہمیں دیا ہے اور ''دوسروں کو نہیں دیا ہے '' کہ یہ اس کے کرم کی توہین ہے۔شکریہ نہیں ہے شکریہ اس بات کا ہے کہ ہمیں یہ نعمت دی ہے۔اگرچہ دوسروں کوبھی مصلحت کے مطابق دوسری نعمتوں سے نوازا ہے۔

۱۳۸

ومَنْ سَأَلَه أَعْطَاه - ومَنْ أَقْرَضَه قَضَاه ومَنْ شَكَرَه جَزَاه.

عِبَادَ اللَّه زِنُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُوزَنُوا - وحَاسِبُوهَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تُحَاسَبُوا - وتَنَفَّسُوا قَبْلَ ضِيقِ الْخِنَاقِ وانْقَادُوا قَبْلَ عُنْفِ السِّيَاقِ واعْلَمُوا أَنَّه مَنْ لَمْ يُعَنْ عَلَى نَفْسِه - حَتَّى يَكُونَ لَه مِنْهَا وَاعِظٌ وزَاجِرٌ - لَمْ يَكُنْ لَه مِنْ غَيْرِهَا لَا زَاجِرٌ ولَا وَاعِظٌ.

(۹۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

تعرف بخطبة الأشباح وهي من جلائل خطبهعليه‌السلام

رَوَى مَسْعَدَةُ بْنُ صَدَقَةَ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍعليه‌السلام أَنَّه قَالَ: خَطَبَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ بِهَذِه الْخُطْبَةِ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ - وذَلِكَ أَنَّ رَجُلًا أَتَاه فَقَالَ لَه يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - صِفْ لَنَا رَبَّنَا مِثْلَ مَا نَرَاه عِيَاناً - لِنَزْدَادَ لَه حُبّاً وبِه مَعْرِفَةً - فَغَضِبَ ونَادَى الصَّلَاةَ جَامِعَةً -

اور جو اس سے سوال کرتا ہے اسے عطا کر دیتا ہے۔جو اسے قرض دیتا ہے اسے ادا کر دیتا ہے اور جواس کا شکریہ ادا کرتا ہے اس کو جزا دیتا ہے۔

بندگان خدا!اپنے آپ کو تول لو قبل اس کے کہ تمہارا وزن کیا جائے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرلو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے ۔گلے کا پھندہ تنگ ہونے سے پہلے سانس لے لو اور زبر دستی لے جائے جانے سے پہلے از خود جانے کے لئے تیار ہو جائو اور یاد رکھو کہ جوشخص خود اپنے نفس کی مدد کرکے اسے نصیحت اورتنبیہ نہیں کرتا ہے اس کو کوئی دوسرا نہ نصیحت کرسکتا ہے اورنہ تنبیہ کر سکتا ہے۔

(۹۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(اس خطبہ کو خطبہ اشباح کہا جاتا ہے جسے آپ کے جلیل ترین خطبات میں شمار کیا گیا ہے )

مسعدہ بن صدقہ نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ امیر المومنین نے یہ خطبہ منبر کوفہ سے اس وقت ارشاد فرمایا تھا جب ایک شخص نے آپ سے یہ تقضا کیا کہ پروردگار کے اوصاف اس طرح بیان کریں کہ گویا وہ ہماری نگاہ کے سامنے ہے تاکہ ہماری معرفت اور محبت الٰہی میں اضافہ ہو جائے۔

آپ کو اس بات پر غصہ آگیا اور آپ نے نماز جماعت کا اعلان فرمادیا

۱۳۹

فَاجْتَمَعَ النَّاسُ حَتَّى غَصَّ الْمَسْجِدُ بِأَهْلِه - فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ وهُوَ مُغْضَبٌ مُتَغَيِّرُ اللَّوْنِ - فَحَمِدَ اللَّه وأَثْنَى عَلَيْه وصَلَّى عَلَى النَّبِيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ثُمَّ قَالَ:

وصف اللَّه تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَا يَفِرُه الْمَنْعُ والْجُمُودُ ولَا يُكْدِيه الإِعْطَاءُ والْجُودُ - إِذْ كُلُّ مُعْطٍ مُنْتَقِصٌ سِوَاه وكُلُّ مَانِعٍ مَذْمُومٌ مَا خَلَاه - وهُوَ الْمَنَّانُ بِفَوَائِدِ النِّعَمِ وعَوَائِدِ الْمَزِيدِ والْقِسَمِ - عِيَالُه الْخَلَائِقُ ضَمِنَ أَرْزَاقَهُمْ وقَدَّرَ أَقْوَاتَهُمْ - ونَهَجَ سَبِيلَ الرَّاغِبِينَ إِلَيْه والطَّالِبِينَ مَا لَدَيْه - ولَيْسَ بِمَا سُئِلَ بِأَجْوَدَ مِنْه بِمَا لَمْ يُسْأَلْ - الأَوَّلُ الَّذِي لَمْ يَكُنْ لَه قَبْلٌ فَيَكُونَ شَيْءٌ قَبْلَه - والآخِرُ الَّذِي لَيْسَ له بَعْدٌ فَيَكُونَ شَيْءٌ بَعْدَه - والرَّادِعُ أَنَاسِيَّ الأَبْصَارِ عَنْ أَنْ تَنَالَه أَوْ تُدْرِكَه مَا اخْتَلَفَ عَلَيْه دَهْرٌ فَيَخْتَلِفَ مِنْه الْحَالُ - ولَا كَانَ فِي مَكَانٍ فَيَجُوزَ عَلَيْه الِانْتِقَالُ ولَوْ وَهَبَ مَا تَنَفَّسَتْ عَنْه مَعَادِنُ الْجِبَالِ - وضَحِكَتْ عَنْه أَصْدَافُ الْبِحَارِ مِنْ فِلِزِّ اللُّجَيْنِ والْعِقْيَانِ ونُثَارَةِ الدُّرِّ وحَصِيدِ الْمَرْجَانِ مَا أَثَّرَ ذَلِكَ فِي جُودِه

۔مسجد مسلمانوں سے چھلک اٹھی تو آپ منبر پرتشریف لے گئے اور اس عالم میں خطبہ ارشاد فرمایا کہ آپ کے چہرہ کا رنگ بدلا ہواتھا اور غیظ و غضب کے آثارنمودار تھے۔حمدو ثنائے الٰہی اورصلوات و سلام کے بعد ارشاد فرمایا:۔

ساری تعریف اس پروردگار کے لئے ہے جس کے خزانہ میں فضل و کرم کے روک دینے اور عطائوں کے منجمد کر دینے سے اضافہ نہیں ہوتا ہے اور جودو کرم کے تسلسل سے کمی نہیں آتی ہے۔اس لئے کہ اس کے علاوہ ہر عطا کرنے والے کے یہاں کمی ہو جاتی ہے اور اس کے ماسواہر نہ دینے والا قابل مذمت ہوتا ہے۔وہ مفید ترین نعمتوں اور مسلسل روزیوں کے ذریعہ احسان کرنے والا ہے۔مخلوقات اس کی ذمہداری می ہیں اور اس نے سب کے رزق کی ضمانت دی ہے اور روزی معین کردی ہے۔اپنی طرف توجہ کرنے والوں اور اپنے عطا یا کے سائلوں کے لئے راستہ کھول دیا ہے اور مانگ نے والوں کو نہ مانگ نے والوں سے زیادہ عطا نہیں کرتا ہے۔وہ ایسا اول ہے جس کی کوئی ابتدا نہیں ہے کہ اس سے پہلے کوئی ہو جائے اور ایسا آخر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے کہ اس کے بعد کوئی رہ جائے۔وہ آنکھوں کی بینائی کو اپنی ذات تک پہنچنے اور اس کا ادراک کرنے سے روکے ہوئے ہے۔اس پر زمانہ کے معدن اپنی سانسوں سے باہرنکالتے ہیں یا جنہیں سمندرکے صدف مسکرا کرباہر پھینک دیتے ہیں چاہے وہ چاندی ہو یا سونا۔موتی ہوں یا مرجان توبھی اس کے کرم پر کوئی اثرنہ پڑے گا۔

۱۴۰

سوالات :

۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا جواب دیا؟

۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟

۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟

۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟

۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟

۱۴۱

دسواں سبق:

(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)

عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_

اعرابی کا واقعہ

ایک دن ایک اعرابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی چیز مانگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ

۱۴۲

آگیا وہ آگے بڑھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_

___________________

۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_

۱۴۳

امام حسن مجتبی اورشامی شخص

ایک دن حسن مجتبیعليه‌السلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپعليه‌السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علیعليه‌السلام اور فرزندان علیعليه‌السلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امامعليه‌السلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپعليه‌السلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _

جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ

۱۴۴

آپعليه‌السلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _

پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)

امام سجادعليه‌السلام اور آپ کا ایک دشمن

منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدینعليه‌السلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپعليه‌السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امامعليه‌السلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _

( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)

وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _

___________________

۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_

۲) (آل عمران۱۳۴)_

۱۴۵

ان لوگوں نے سمجھا کہ امامعليه‌السلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرتعليه‌السلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسینعليه‌السلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپعليه‌السلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)

ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _

مالک اشتر کی مہربانی اور عفو

جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علیعليه‌السلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علیعليه‌السلام کے علاوہ مالک اشتر

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _

۱۴۶

سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علیعليه‌السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علیعليه‌السلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے

۱۴۷

لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)

ظالم سے درگذر

خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _

قرآن کا ارشاد ہے :

( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)

جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _

قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _

( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)

اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_

___________________

۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_

۲) (بقرہ ۱۹۴)_

۳) (بقرہ ۱۷۹) _

۱۴۸

لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _

( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)

اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_

امام زین العابدینعليه‌السلام اور ہشام

بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے

___________________

۱) (بقرہ ۲۳۷)_

۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_

۱۴۹

لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسینعليه‌السلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امامعليه‌السلام ہشام کے قریب آئے اور آپعليه‌السلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امامعليه‌السلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)

___________________

۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_

۱۵۰

امام رضاعليه‌السلام اور جلودی

جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علیعليه‌السلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضاعليه‌السلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپعليه‌السلام کے گھر پر حملہ کردیاامامعليه‌السلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امامعليه‌السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امامعليه‌السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپعليه‌السلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _

جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضاعليه‌السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضاعليه‌السلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امامعليه‌السلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپعليه‌السلام پر

۱۵۱

بڑا ظلم کیا ہے _ آپعليه‌السلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_

جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امامعليه‌السلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)

سازش کرنے والے کی معافی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپعليه‌السلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپعليه‌السلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_

۱۵۲

مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_

ایک اعرابی کا واقعہ

جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _

۱۵۳

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)

اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_

یہودیہ عورت کی مسموم غذا

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مسموم ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کھائیں _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_

۱۵۴

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)

علیعليه‌السلام اور ابن ملجم

حضرت علیعليه‌السلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپعليه‌السلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنینعليه‌السلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپعليه‌السلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپعليه‌السلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علیعليه‌السلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپعليه‌السلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپعليه‌السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپعليه‌السلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)

___________________

۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_

۱۵۵

جب ابن ملجم نے آپعليه‌السلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپعليه‌السلام کے پاس لایا گیا آپعليه‌السلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)

سختی

اب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں

___________________

۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)

۱۵۶

کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _

مخزومیہ عورت

جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک

___________________

۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _

۱۵۷

ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)

آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _

___________________

۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_

۱۵۸

خلاصہ درس

۱) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_

۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپعليه‌السلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_

۳) جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _

۴ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_

۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_

۱۵۹

سوالات

۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟

۲_ امام زین العابدینعليه‌السلام کی جس شخص نے امانت کی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟

۴ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟

۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863