نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)9%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656908 / ڈاؤنلوڈ: 15924
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

ولَا أَنْفَدَ سَعَةَ مَا عِنْدَه - ولَكَانَ عِنْدَه مِنْ ذَخَائِرِ الأَنْعَامِمَا لَا تُنْفِدُه مَطَالِبُ الأَنَامِ - لأَنَّه الْجَوَادُ الَّذِي لَا يَغِيضُه سُؤَالُ السَّائِلِينَ - ولَا يُبْخِلُه إِلْحَاحُ الْمُلِحِّينَ.

صفاته تعالى في القرآن

فَانْظُرْ أَيُّهَا السَّائِلُ - فَمَا دَلَّكَ الْقُرْآنُ عَلَيْه مِنْ صِفَتِه فَائْتَمَّ بِه واسْتَضِئْ بِنُورِ هِدَايَتِه ومَا كَلَّفَكَ الشَّيْطَانُ عِلْمَه - مِمَّا لَيْسَ فِي الْكِتَابِ عَلَيْكَ فَرْضُه - ولَا فِي سُنَّةِ النَّبِيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وأَئِمَّةِ الْهُدَى أَثَرُه - فَكِلْ عِلْمَه إِلَى اللَّه سُبْحَانَه - فَإِنَّ ذَلِكَ مُنْتَهَى حَقِّ اللَّه عَلَيْكَ - واعْلَمْ أَنَّ الرَّاسِخِينَ فِي الْعِلْمِ هُمُ الَّذِينَ أَغْنَاهُمْ - عَنِ اقْتِحَامِ السُّدَدِ الْمَضْرُوبَةِ دُونَ الْغُيُوبِ - الإِقْرَارُ بِجُمْلَةِ مَا جَهِلُوا تَفْسِيرَه مِنَ الْغَيْبِ الْمَحْجُوبِ فَمَدَحَ اللَّه تَعَالَى اعْتِرَافَهُمْ بِالْعَجْزِ -

!

اور نہ اس کے خزانوں کی وسعت میں کوئی کمی آسکتی ہے ۔اوراس کے پاس نعمتوں کے وہ خزانے رہ جائی گے جنہیں مانگ نے والوں کے مطالبات ختم نہیں کر سکتے ہیں۔اس لئے کہ وہ ایسا جواد و کریم ہے کہ نہ سائلوں کا سوال اس کے یہاں کمی پیدا کر سکتا ہے اور نہ مفلسوں کا اصرار اسے بخیل بنا سکتا ہے۔

قرآن مجید میں صفات پروردگار

صفات خدا کے بارے میں سوال کرنے والو! قرآن مجید نے جن صفات) ۱ ( کی نشان دہی کی ہے انہیں کا اتباع کرو۔اوراسی کے نور ہدایت کے سے روشنی حاصل کرو اور جس علم کی طرف شیطان متوجہ کرے اور اس کا کوئی فریضہ نہ کتاب الٰہی میں موجود ہو اور نہ سنت پیغمبر (ص) اور ارشادات ائمہ ہدیٰ میں تو اس کا علم پروردگار کے حوالے کردو کہ۔یہی اس کے حق کی آخری حد ہے اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی افراد ہیں جنہیں غیب الٰہی کے سامنے پڑے ہوئے پردوں کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز بنادیا ہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیں کر سکتا اس کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اسی

(۱)اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن مجید نے جتنے صفات بیان کردئیے ہیں ان کے علاوہ دیگراسماء و صفات کا اطلاق نہیں ہوسکتا ہے جیسا کہ بعض علماء اعلام کا خیال ہے۔کہ اسماء الہیہ توقیفہ ہیں اور نصوص آیات و روایات کے بغیر کسی نام یا صفت کا اطلاق جائز نہیں ہے۔بلکہ اس ارشاد کا واضح سا مفہوم یہ ہے کہ جن صفات کی قرآن کریم نے نفی کردی ہے ان کا اطلاق جائز نہیں ہے چاہے کسی زبان اور کسی لہجہ ہی میں کیوں نہ ہو۔

۱۴۱

عَنْ تَنَاوُلِ مَا لَمْ يُحِيطُوا بِه عِلْماً - وسَمَّى تَرْكَهُمُ التَّعَمُّقَ - فِيمَا لَمْ يُكَلِّفْهُمُ الْبَحْثَ عَنْ كُنْهِه رُسُوخاً

فَاقْتَصِرْ عَلَى ذَلِكَ - ولَا تُقَدِّرْ عَظَمَةَ اللَّه سُبْحَانَه عَلَى قَدْرِ عَقْلِكَ - فَتَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ هُوَ الْقَادِرُ الَّذِي إِذَا ارْتَمَتِ الأَوْهَامُ لِتُدْرِكَ مُنْقَطَعَ قُدْرَتِه - وحَاوَلَ الْفِكْرُ الْمُبَرَّأُ مِنْ خَطَرَاتِ الْوَسَاوِسِ - أَنْ يَقَعَ عَلَيْه فِي عَمِيقَاتِ غُيُوبِ مَلَكُوتِه - وتَوَلَّهَتِ الْقُلُوبُ إِلَيْه لِتَجْرِيَ فِي كَيْفِيَّةِ صِفَاتِه - وغَمَضَتْ مَدَاخِلُ الْعُقُولِ فِي حَيْثُ لَا تَبْلُغُه الصِّفَاتُ - لِتَنَاوُلِ عِلْمِ ذَاتِه رَدَعَهَا وهِيَ تَجُوبُ مَهَاوِيَ سُدَف ِ الْغُيُوبِ مُتَخَلِّصَةً إِلَيْه سُبْحَانَه فَرَجَعَتْ إِذْ جُبِهَتْ مُعْتَرِفَةً - بِأَنَّه لَا يُنَالُ بِجَوْرِ الِاعْتِسَافِ كُنْه مَعْرِفَتِه - ولَا تَخْطُرُ بِبَالِ أُولِي الرَّوِيَّاتِ خَاطِرَةٌ مِنْ تَقْدِيرِ جَلَالِ عِزَّتِه الَّذِي ابْتَدَعَ الْخَلْقَ عَلَى غَيْرِ مِثَالٍ امْتَثَلَه ولَا مِقْدَارٍ احْتَذَى عَلَيْه مِنْ خَالِقٍ مَعْبُودٍ كَانَ قَبْلَه - وأَرَانَا مِنْ مَلَكُوتِ قُدْرَتِه - وعَجَائِبِ مَا نَطَقَتْ بِه آثَارُ حِكْمَتِه - واعْتِرَافِ الْحَاجَةِ مِنَ الْخَلْقِ

صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات کی تحقیق ان کے ذمہ نہیں ہے اس کی گہرائیوں میں جانے کاخیال نہیں رکھتے ہیں۔

تم بھی اسی بات پراکتفا کرو اور اپنی عقل کے مطابق عظمت الٰہی کا اندازہ نہ کرو کہ ہلاک ہونے والوں میں شمار ہو جائو۔ دیکھو و ایسا قادر ہے کہ جب فکریں اس کی قدرت کی انتہا معلوم کرنے کے لئے آگے بڑھتی ہیں اور ہر طرح کے وسوسہ سے پاکیزہ خیال اس کی سلطنت کے پوشیدہ اسرار کو اپنی زد میں لانا چاہتا ہے اور دل والہانہ طور پر اس کے صفات کی کیفیت معلوم کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اورعقل کی راہیں اس کی ذات کاعلم حاصل کرنے کے لئے صفات کی رسائی سے آگے بڑھنا چاہتی ہیں تو وہ انہیں اس عالم میں مایوس واپس کردیتا ہے کہ وہ عالم غیب کی گہرائیوں کی راہیں طے کر رہی ہوتی ہیں اورمکمل طور پر اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں عقلیں اس اعتراف کے ساتھ پلٹ آتی ہیں کہ غلط فکروں سے اس کی معرفت کی حقیقت کا ادراک نہیں ہوسکتا ہے اور صاحبان فکر کے دلوں میں اس کے جلال و عزت کا ایک کرشمہ بھی خطور نہیں کر سکتا ہے۔اس نے مخلوقات کو بغیر کسی نمونہ کو نگاہ میں رکھے ہوئے ایجاد کیا ہے اور کسی ماسبق کے خالق و معبود کے نقشہ کے بغیر پیدا کیا ہے۔اس نے اپنی قدرت کے اختیارات ' اپنی حکمت کے منہ بولتے آثار اورمخلوقات کے

۱۴۲

إِلَى أَنْ يُقِيمَهَا بِمِسَاكِ قُوَّتِه - مَا دَلَّنَا بِاضْطِرَارِ قِيَامِ الْحُجَّةِ لَه عَلَى مَعْرِفَتِه - فَظَهَرَتِ الْبَدَائِعُ - الَّتِي أَحْدَثَتْهَا آثَارُ صَنْعَتِه وأَعْلَامُ حِكْمَتِه - فَصَارَ كُلُّ مَا خَلَقَ حُجَّةً لَه ودَلِيلًا عَلَيْه - وإِنْ كَانَ خَلْقاً صَامِتاً فَحُجَّتُه بِالتَّدْبِيرِ نَاطِقَةٌ - ودَلَالَتُه عَلَى الْمُبْدِعِ قَائِمَةٌ

فَأَشْهَدُ أَنَّ مَنْ شَبَّهَكَ بِتَبَايُنِ أَعْضَاءِ خَلْقِكَ - وتَلَاحُمِ حِقَاقِ مَفَاصِلِهِمُ الْمُحْتَجِبَةِ لِتَدْبِيرِ حِكْمَتِكَ - لَمْ يَعْقِدْ غَيْبَ ضَمِيرِه عَلَى مَعْرِفَتِكَ - ولَمْ يُبَاشِرْ قَلْبَه الْيَقِينُ بِأَنَّه لَا نِدَّ لَكَ - وكَأَنَّه لَمْ يَسْمَعْ تَبَرُّؤَ التَّابِعِينَ مِنَ الْمَتْبُوعِينَ - إِذْ يَقُولُونَ «تَا لله إِنْ كُنَّا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ - إِذْ نُسَوِّيكُمْ بِرَبِّ الْعالَمِينَ» - كَذَبَ الْعَادِلُونَ بِكَ إِذْ شَبَّهُوكَ بِأَصْنَامِهِمْ - ونَحَلُوكَ حِلْيَةَ الْمَخْلُوقِينَ بِأَوْهَامِهِمْ

لئے اس کے سہارے کی احتیاج کے اقرارکے ذریعہ اس حقیقت کو بے نقاب کردیا ہے کہ ہم اس کی معرفت پردلیل قائم ہونے کا اقرار کرلیں کہ جن جدید ترین اشیاء کو اس کے آثار صنعت نے ایجاد کیا ہے اور نشان ہائے حکمت نے پیدا کیا ہے وہ سب بالکل واضح ہیں اور ہر مخلوق اس کے وجود کے لئے ایک مستقل حجت اور دلیل ہے کہ اگر وہ خاموش(۱) بھی ہے تو اس کی تدبیر بول رہی ہے اور اس کی دلالت ایجاد کرنے والے پر قائم ہے۔

خدایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ جس نے بھی تیری مخلوقات کے اعضاء کے اختلاف اور ان کے جوڑوں کے سروں کے ملنے سے تیری حکمت کی تدبیر کے لئے تیری شبیہ قراردیا۔اس نے اپنے ضمیر کے غیب کو تیری معرفت سے وابستہ نہیں کیا اور اس کے دل میں یہ یقین پیوست نہیں ہوا کہ تیرا کوئی مثل نہیں ہے اورگویا اس نے یہ پیغام نہیں سنا کہ ایک دن مرید اپنے پیرو مرشد سے یہ کہہ کر بیزاری کریں گے کہ '' بخدا ہم کھلی ہوئی گمراہی میں تھے جب تم کو رب العالمین کے برابر قرار دے رہے تھے۔بے شک تیرے برابر قراردینے والے جھوٹے ہیں کہ انہوں نے تجھے اپنے اصنام سے تشبیہ دی ہے اور اپنے او ہام کی بنا پر تجھے مخلوقات کا حلیہ عطا کردیا ہے اور اپنے خیالات

(۱)انسان کی غفلت کی آخری حد یہ ہے کہ وہ وجود و حکمت الٰہی کی دلیل تلاش کر رہا ہے جب کہ اس نے ادنیٰ تامل سے کام لیا ہوتا تو اسے اندازہ ہو جاتا کہ جس نگاہ سے آثار قدرت کو تلاش کر رہا ہے۔اور جس دماغ سے دلائل حکمت کی جستجو کر رہا ہے یہ دونوں اپنی زبان بے زبانی سے آواز دے رہے ہیں کہ اگر کوئی خالق حکیم اور رصانع کریم نہ ہوتا تو ہمارا وجود بھی نہ ہوتا۔ہم اس کی عظمت و حکمت کے بہترین گواہ ہیں۔ہمارے ہوتے ہوئے دلائل حکمت و عظمت کا تلاش کرنا بغل میں کٹورہ رکھ کر شہرمیں ڈھنڈورہ پیٹنے کے مترادف ہے اوریہ کار عقلا ء نہیں ہے۔

۱۴۳

وجَزَّءُوكَ تَجْزِئَةَ الْمُجَسَّمَاتِ بِخَوَاطِرِهِمْ - وقَدَّرُوكَ عَلَى الْخِلْقَةِ الْمُخْتَلِفَةِ الْقُوَى بِقَرَائِحِ عُقُولِهِمْ - وأَشْهَدُ أَنَّ مَنْ سَاوَاكَ بِشَيْءٍ مِنْ خَلْقِكَ فَقَدْ عَدَلَ بِكَ - والْعَادِلُ بِكَ كَافِرٌ بِمَا تَنَزَّلَتْ بِه مُحْكَمَاتُ آيَاتِكَ - ونَطَقَتْ عَنْه شَوَاهِدُ حُجَجِ بَيِّنَاتِكَ - وإِنَّكَ أَنْتَ اللَّه الَّذِي لَمْ تَتَنَاه فِي الْعُقُولِ - فَتَكُونَ فِي مَهَبِّ فِكْرِهَا مُكَيَّفاً ولَا فِي رَوِيَّاتِ خَوَاطِرِهَا فَتَكُونَ مَحْدُوداً مُصَرَّفاً

ومنها

قَدَّرَ مَا خَلَقَ فَأَحْكَمَ تَقْدِيرَه ودَبَّرَه فَأَلْطَفَ تَدْبِيرَه ووَجَّهَه لِوِجْهَتِه فَلَمْ يَتَعَدَّ حُدُودَ مَنْزِلَتِه - ولَمْ يَقْصُرْ دُونَ الِانْتِهَاءِ إِلَى غَايَتِه - ولَمْ يَسْتَصْعِبْ إِذْ أُمِرَ بِالْمُضِيِّ عَلَى إِرَادَتِه - فَكَيْفَ وإِنَّمَا صَدَرَتِ الأُمُورُ عَنْ مَشِيئَتِه - الْمُنْشِئُ أَصْنَافَ الأَشْيَاءِ بِلَا رَوِيَّةِ فِكْرٍ آلَ إِلَيْهَا - ولَا قَرِيحَةِ غَرِيزَةٍ أَضْمَرَ عَلَيْهَا - ولَا تَجْرِبَةٍ أَفَادَهَا مِنْ حَوَادِثِ الدُّهُورِ - ولَا شَرِيكٍ أَعَانَه عَلَى ابْتِدَاعِ عَجَائِبِ الأُمُورِ

کی بنا پرمجسموں کی طرح تیرے ٹکڑے کردئیے ہیں اور اپنی عقلوں کی سوجھ بوجھ سے تجھے مختلف طاقتوں والی مخلوقات کے پیمانے پر ناپ تول دیا ہے۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ جس نے بھی تجھے کسی کے برابر قراردیا ہے اس نے تیرا ہمسر بنادیا اور جسنے تیرا ہمسر بنادیا اسنے آیات محکمات کی تنزیل کا انکار کردیا ہے اور واضح ترین دلائل کے بیانات کو جھٹلا دیا ہے۔بے شک تو وہ خدا ہے جو عقلوں کی حدوں میں نہیں آسکتا ہے کہ افکار کی روانی میں کیفیوں کی زد میں آجائے او نہ غورو فکر کی جولانیوں میں سما سکتا ہے کہ محدود اورتصرفات کا پابند ہوجائے۔

(ایک دوسرا حصہ )

مالک نے ہر مخلوق کی مقدار معین کی ہے اور محکم ترین معین کی ہے اور ہر ایک کی تدبیر کی ہے اور لطیف ترین تدبیر کی ہے ہرایک کو ایک رخ پر لگا دیا ہے تو اس نے اپنی منزلت کے حدود سے تجاوز بھی نہیں کیا ہے اور انتہا تک پہنچنے میں کوتاہی بھی نہیں کی ہے اور مالک کے ارادہ پر چلنے کا حکم دے دیا گیا تو اس سے سرتابی بھی نہیں کی ہے اور یہ ممکن بھی کیسے تھا جب کہ سب اس کی مشیت سے منظر عام پرآئے ہیں۔وہ تمام اشیاء کا ایجاد کرنے والا ہے بغیر اس کے کہ فکر کی جولانیوں کی طرف رجوع کرے یا طبیعت کی داخلی روانی کا سہارا لے یا حوادث زمانہ کے تجربات سے فائدہ اٹھائے عجیب و غریب مخلوقات کے بنانے میں کسی شریک کی مدد کا محتاج ہو۔

اس کی مخلوقات اس کے امر سے تمام ہوئی ہے

۱۴۴

فَتَمَّ خَلْقُه بِأَمْرِه وأَذْعَنَ لِطَاعَتِه وأَجَابَ إِلَى دَعْوَتِه لَمْ يَعْتَرِضْ دُونَه رَيْثُ الْمُبْطِئِ ولَا أَنَاةُ الْمُتَلَكِّئِ فَأَقَامَ مِنَ الأَشْيَاءِ أَوَدَهَا ونَهَجَ حُدُودَهَا - ولَاءَمَ بِقُدْرَتِه بَيْنَ مُتَضَادِّهَا - ووَصَلَ أَسْبَابَ قَرَائِنِهَا وفَرَّقَهَا أَجْنَاساً - مُخْتَلِفَاتٍ فِي الْحُدُودِ والأَقْدَارِ والْغَرَائِزِ والْهَيْئَاتِ - بَدَايَا خَلَائِقَ أَحْكَمَ صُنْعَهَا وفَطَرَهَا عَلَى مَا أَرَادَ وابْتَدَعَهَا!

ومنها في صفة السماء

ونَظَمَ بِلَا تَعْلِيقٍ رَهَوَاتِ فُرَجِهَا ولَاحَمَ صُدُوعَ انْفِرَاجِهَا .ووَشَّجَ بَيْنَهَا وبَيْنَ أَزْوَاجِهَا وذَلَّلَ لِلْهَابِطِينَ بِأَمْرِه - والصَّاعِدِينَ بِأَعْمَالِ خَلْقِه حُزُونَةَ مِعْرَاجِهَا - ونَادَاهَا بَعْدَ إِذْ هِيَ دُخَانٌ فَالْتَحَمَتْ عُرَى أَشْرَاجِهَا وفَتَقَ بَعْدَ الِارْتِتَاقِ صَوَامِتَ أَبْوَابِهَا - وأَقَامَ رَصَداً مِنَ الشُّهُبِ الثَّوَاقِبِ عَلَى نِقَابِهَا وأَمْسَكَهَا مِنْ أَنْ تُمُورَ فِي خَرْقِ الْهَوَاءِ بِأَيْدِه وأَمَرَهَا أَنْ تَقِفَ مُسْتَسْلِمَةً لأَمْرِه وجَعَلَ شَمْسَهَا آيَةً مُبْصِرَةً لِنَهَارِهَا

اور اس کی اطاعت میں سربسجود ہے۔اس کی دعوت پر لبیک کہتی ہے اور اس راہ میں نہ دیر کرنے والے کی سستی کاشکار ہوتی ہے اور نہ حیلہ و حجت کرنے والے کی ڈھیل میںمبتلا ہوتی ہے ۔اس نے اشیاء کی کجی کو سیدھا رکھا ہے۔ان کے حدود کو مقررکردیا ہے۔اپنی قدرت سے ان کے متضاد عناصر میں تناسب پیدا کردیا ہے اور نفس و بدن کا رشتہ جوڑ دیا ہے ۔انہیں حدود و مقادیر' طبائع و ہیات کی مختلف جنسوں میں تقسیم کردیا ہے۔یہ نو ایجاد مخلوق ہے جس کی صنعت مستحکم رکھی ہے اور اس کی فطرت و خلقت کو اپنے ارادہ کے مطابق رکھا ہے۔

(کچھ آسمان کے بارے میں)

اس نے بغیر کسی چیز سے وابستہ کئے آسمانوں کے نشیب و فراز کو منظم کرادیا ہے اور اس کے شگافوں کوملا دیا ہے اور انہیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جکڑ دیا ہے اور اس کا حکم لے کر اترنے والے اور بندوں کے اعمال کو لے کر جانے والے فرشتوں کے لئے بلندی کی نا ہمواریوں کو ہموار کردیا ہے۔ابھی یہ آسمان دھوئیں کی شکل میں تھے کہ مالک نے انہیں آواز دی اور ان کے تسموں کے رشتے آپس میں جڑ گئے اور ان کے دروازے بند رہنے کے بعد کھل گئے۔پھر اس نے ان کے سوراخوں پر ٹوٹتے ہوئے ستاروں کے نگہبان کھڑے کر دئیے اور اپنے دست قدرت سے اس امر سے روک دیا کہ ہوا کے پھیلائو میں ادھرادھرچلے جائیں۔ انہیں حکم دیاکہ اس کے حکم کے سامنے سرپا تسلیم کھڑے رہیں ۔ان کے آفتاب کودن کے لئے روشن نشانی

۱۴۵

وقَمَرَهَا آيَةً مَمْحُوَّةً مِنْ لَيْلِهَا - وأَجْرَاهُمَا فِي مَنَاقِلِ مَجْرَاهُمَا - وقَدَّرَ سَيْرَهُمَا فِي مَدَارِجِ دَرَجِهِمَا - لِيُمَيِّزَ بَيْنَ اللَّيْلِ والنَّهَارِ بِهِمَا - ولِيُعْلَمَ عَدَدُ السِّنِينَ والْحِسَابُ بِمَقَادِيرِهِمَا - ثُمَّ عَلَّقَ فِي جَوِّهَا فَلَكَهَا ونَاطَ بِهَا زِينَتَهَا - مِنْ خَفِيَّاتِ دَرَارِيِّهَا ومَصَابِيحِ كَوَاكِبِهَا - ورَمَى مُسْتَرِقِي السَّمْعِ بِثَوَاقِبِ شُهُبِهَا - وأَجْرَاهَا عَلَى أَذْلَالِ تَسْخِيرِهَا مِنْ ثَبَاتِ ثَابِتِهَا - ومَسِيرِ سَائِرِهَا وهُبُوطِهَا وصُعُودِهَا ونُحُوسِهَا وسُعُودِهَا.

ومنها في صفة الملائكة

ثُمَّ خَلَقَ سُبْحَانَه لإِسْكَانِ سَمَاوَاتِه - وعِمَارَةِ الصَّفِيحِ الأَعْلَى مِنْ مَلَكُوتِه - خَلْقاً بَدِيعاً مِنْ مَلَائِكَتِه - ومَلأَ بِهِمْ فُرُوجَ فِجَاجِهَا وحَشَا بِهِمْ فُتُوقَ أَجْوَائِهَا وبَيْنَ فَجَوَاتِ تِلْكَ الْفُرُوجِ زَجَلُ الْمُسَبِّحِينَ - مِنْهُمْ فِي حَظَائِرِالْقُدُسِ وسُتُرَاتِ الْحُجُبِ،

اورماہتاب کو رات کی دھندلی نشانی قراردے دیا اور دونوں کو ان کے بہائو کی منزل پرڈال دیا ہے اور ان کی گزر گاہوں میں رفتارکی مقدار معین کردی ہے تاکہ ان کے ذریعہ دن اور رات کا امتیاز قائم ہو سکے اور ان کی مقدار سے سال وغیرہ کا حساب کیا جا سکے۔پھر فضائے بسیط میں سب کے مدار معلق کردئیے اور ان سے اس زینت کو وابستہ کردیا جو چھوٹے چھوٹے تاروں اوربڑے بڑے ستاروں کے چراغوں سے پیدا ہوئی تھی۔آوازوں کے چرانے والوں کے لئے ٹوٹتے تاروں سے سنگسار کا انتظام کردیا اور انہیں بھی اپنے جبر و قہر کی راہوں پر لگا دیا کہ جو ثابت ہیں وہ ثابت رہیں۔جو سیار ہیں وہ سیار رہیں۔بلند و پست نیک و بدسب اسی کی مرضی کے تابع رہیں ۔

(اوصاف ملائکہ کا حصہ)

اس کے بعد اس نے آسمانوں کوآباد کرنے اوراپنی سلطنت کے بلند ترین طبقہ کو بسانے(۱) کیلئے ملائکہ جیسی انوکھی مخلوق کو پیدا کیا اور ان سے آسمانی راستوں کے شگافتوں کو پر کردیا اورفضا کی پہنائیوں کو معمور کردیا۔انہیں شگافوں کے درمیان تسبیح کرنے والے فرشتوں کی آوازیں قدس کی چار دیواری ' عظمت کے

(۱)واضح رہے کہ ملائکہ اور جنات کا مسئلہ غیبیات سے تعلق رکھتاہے اوراس کاعلم دنیا کے عام وسائل کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔قرآن مجید نے ایمان کے لئے غیب کے قارار کو شرط اساسی قراردیا ہے لہٰذا اس مسئلہ کا تعلق صرف صاحبان ایمان سے ہے۔دیگر افراد کے لئے دیگر ارشادات امام سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔لیکن اتنی بات تو بہر حال واضح ہو چکی ہے کہ آسمانوں کے اندر آبادیاں پائی جاتی ہیں اور یہاں کے افراد کا وہاں زندہ نہ رہ سکنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہاں کے باشندے بھی زندہ نہ رہ سکیں۔مالک نے ہر جگہ کے باشندہ میں وہاں کے اعتبار سے صلاحیت حیات رکھی ہے اور اس سامان زندگی عنایت فرمایا ہے۔امام صادق کا ارشاد گرامی ہے کہ پروردگار عالم نے دس لاکھ عالم پیدا کئے ہیں اور دس لاکھ آدم ۔اور ہماری زمین کے باشندے آخری آدم کی اولاد میں ہیں (الہیتہ و الا سلام شہرستانی)

۱۴۶

وسُرَادِقَاتِ الْمَجْدِ - ووَرَاءَ ذَلِكَ الرَّجِيجِ الَّذِي تَسْتَكُّ مِنْه الأَسْمَاعُ - سُبُحَاتُ نُورٍ تَرْدَعُ الأَبْصَارَ عَنْ بُلُوغِهَا - فَتَقِفُ خَاسِئَةً عَلَى حُدُودِهَا -. وأَنْشَأَهُمْ عَلَى صُوَرٍ مُخْتَلِفَاتٍ وأَقْدَارٍ مُتَفَاوِتَاتٍ -( أُولِي أَجْنِحَةٍ ) تُسَبِّحُ جَلَالَ عِزَّتِه - لَا يَنْتَحِلُونَ مَا ظَهَرَ فِي الْخَلْقِ مِنْ صُنْعِه - ولَا يَدَّعُونَ أَنَّهُمْ يَخْلُقُونَ شَيْئاً مَعَه مِمَّا انْفَرَدَ بِه -( بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ لا يَسْبِقُونَه بِالْقَوْلِ وهُمْ بِأَمْرِه يَعْمَلُونَ ) - جَعَلَهُمُ اللَّه فِيمَا هُنَالِكَ أَهْلَ الأَمَانَةِ عَلَى وَحْيِه - وحَمَّلَهُمْ إِلَى الْمُرْسَلِينَ وَدَائِعَ أَمْرِه ونَهْيِه - وعَصَمَهُمْ مِنْ رَيْبِ الشُّبُهَاتِ - فَمَا مِنْهُمْ زَائِغٌ عَنْ سَبِيلِ مَرْضَاتِه - وأَمَدَّهُمْ بِفَوَائِدِ الْمَعُونَةِ - وأَشْعَرَ قُلُوبَهُمْ تَوَاضُعَ إِخْبَاتِ السَّكِينَةِ - وفَتَحَ لَهُمْ أَبْوَاباً ذُلُلًا إِلَى تَمَاجِيدِه - ونَصَبَ لَهُمْ مَنَاراً وَاضِحَةً عَلَى أَعْلَامِ تَوْحِيدِه - لَمْ تُثْقِلْهُمْ مُؤْصِرَاتُ الآثَامِ - ولَمْ تَرْتَحِلْهُمْ عُقَبُ اللَّيَالِي والأَيَّامِ - ولَمْ تَرْمِ الشُّكُوكُ بِنَوَازِعِهَا عَزِيمَةَ إِيمَانِهِمْ - ولَمْ تَعْتَرِكِ الظُّنُونُ عَلَى مَعَاقِدِ يَقِينِهِمْ

حجابات ' بزرگی کے سرا پردوں کے پیچھے گونج رہی ہیں اوہر اس گونج کے پیچھے جس سے کان کے پردے پھٹ جاتے ہیں۔نور کی وہ تجلیاں ہیں جو نگاہوں کو وہاں تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں اوروہ ناکام ہو کر اپنی حدود پر ٹھہر جاتی ہے۔ اس نے ان فرشتوں کو مختلف شکلوں اور الگ الگ پیمانوں کے مطابق پیدا کیا ہے۔انہیں بال و پر عنایت کئے ہیں اوروہ اس کے جلال و عزت کی تسبیح میں مصروف ہیں۔مخلوقات میں اس کی نمایاں صنعت کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے ہیں۔اور کسی چیز کی تخلیق کا ادعا نہیں کرتے ہیں۔یہ اللہ کے محترم بندے ہیں جو اس پر کسی بات میں سبقت نہیں کرتے ہیں اور اسی کے حکم کے مطابق عمل کر رہے ہیں ''۔اللہ نے انہیں اپنی وحی کا امین بنایا ہے اورمرسلین کی طرف اپنے امرو نہی کی امانتوں کا حامل قرار دیا ہے۔انہیں شکوک و شبہات سے محفوظ رکھا ہے کہ کوئی بھی اس کی مرضی کی راہ سے انحراف کرنے والا نہیں ہے۔سب کواپنی کارآمد امداد سے نوازا ہے اور سب کے دل میں عاجزی اور شکستگی کی تواضع پیدا کردی ہے ۔ ان کے لئے اپنی تمجید کی سہولت کے دروازے کھول دئیے ہیں اور توحید کی نشانیوں کے لئے واضح منارے قائم کردئیے ہیں۔ان پر گناہوں کا بوجھ بھی نہیں ہے اور انہیں شب و روز کی گردشیں اپنے ارادوں پرچلا بھی نہیں سکتی ہیں۔شکوک و شبہات ان کے مستحکم ایمان کو اپنے خیالات کے تیروں کا نشانہ بھی نہیں بنا سکتے ہیں اور وہم و گمان ان کے یقین کی پختگی پرحملہ آور بھی نہیں ہوسکتے

۱۴۷

ولَا قَدَحَتْ قَادِحَةُ الإِحَنِ فِيمَا بَيْنَهُمْ - ولَا سَلَبَتْهُمُ الْحَيْرَةُ مَا لَاقَ مِنْ مَعْرِفَتِه بِضَمَائِرِهِمْ - ومَا سَكَنَ مِنْ عَظَمَتِه وهَيْبَةِ جَلَالَتِه فِي أَثْنَاءِ صُدُورِهِمْ - ولَمْ تَطْمَعْ فِيهِمُ الْوَسَاوِسُ فَتَقْتَرِعَ بِرَيْنِهَا عَلَى فِكْرِهِمْ ومِنْهُمْ مَنْ هُوَ فِي خَلْقِ الْغَمَامِ الدُّلَّحِ وفِي عِظَمِ الْجِبَالِ الشُّمَّخِ وفِي قَتْرَةِ الظَّلَامِ الأَيْهَمِ ومِنْهُمْ مَنْ قَدْ خَرَقَتْ أَقْدَامُهُمْ تُخُومَ الأَرْضِ السُّفْلَى - فَهِيَ كَرَايَاتٍ بِيضٍ قَدْ نَفَذَتْ فِي مَخَارِقِ الْهَوَاءِ - وتَحْتَهَا رِيحٌ هَفَّافَةٌ تَحْبِسُهَا عَلَى حَيْثُ انْتَهَتْ مِنَ الْحُدُودِ الْمُتَنَاهِيَةِ - قَدِ اسْتَفْرَغَتْهُمْ أَشْغَالُ عِبَادَتِه - ووَصَلَتْ حَقَائِقُ الإِيمَانِ بَيْنَهُمْ وبَيْنَ مَعْرِفَتِه وقَطَعَهُمُ الإِيقَانُ بِه إِلَى الْوَلَه إِلَيْه

ہیں۔ان کے درمیان حسد کی چنگاری بھی نہیں بھڑکتی ہے اورحیرت و استعجاب ان کے ضیمروں کی معرفت کو سلب بھی نہیں کر سکتے ہیں اور ان کے سینوں میں چھپے ہوئے عظمت دہیب و جلالت الٰہی کے ذخیروں کو چھین بھی نہیں سکتے ہیں اور وسوسوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں ہے کہ ان کی فکر کو زنگ آلود بنا دیں ان میں بعض وہ ہیں جنہیں بوجھل بادلوں ۔بلند ترین پہاڑوں اور تاریک ترین ظلمتوں کے پردوں میں رکھا ہے اور بعض وہ ہیں جن کے پیروں نے) ۱ ( زمین کے آخری طبقہ کو پارہ کردیا ہے اور وہ ان سفید پرچموں جیسے ہیں جو فضا کی وسعتوں کو چیر کرباہر نکل گئے ہوں۔جن کے نیچے ایک ہلکی ہوا ہو جوانہیں ان کی حدوں پر روکے رہے۔انہیں عبادت کی مشغولیت نے ہر) ۲ ( چیز سے بے فکربنادیا ہے اور ایمان کے حقائق نے ان کے اور معرفت کے درمیان گہرا رابطہ پیدا کردیا ہے۔اور یقین کامل نے ہر چیز سے رشتہ توڑ کر انہیں مالک کی طرف مشتاق بنادیا ہے۔

(۱)بعض علماء نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ ملائکہ کا علم زمین و آسمان کے تمام طبقات کو محیط ہے لیکن بظاہر اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔جب ان کا جسم نورانی ہے اور اس پر مادیات کادبائو نہیں ہے تو ان کا جسم لطیف مادیات کے تمام حدود کو توڑ سکتا ہے اور اس میں کوئی بات خلاف عقل نہیں ہے۔نورانیت میں مختلف اشکال اختیار کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہیں اور وہ مختلف صورتوں میں سامنے آسکتے ہیں۔

ملائکہ کے نورانی اجسام کی وسعت حیرت انگیز نہیں ہے وہ زمین کی آخری تہ سے آسمان کی آخری بلندی تک احاطہ کر سکتے ہیں۔حیرت انگیز اس کسا یمانی کی وسعت ہے جس میں اس گروہملائکہ کا سردار بھی سما جاتا ہے اورچادر کی وسعت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔

(۲)ظاہر ہے کہ جس کی زندگی میں دنیا کے مسائل تجارت و زراعت ' ملازمت و صنعت اور رشتہ وقرابت شامل نہ ہوں اس سے زیادہ عبادت کون کر سکتا ہے اور اس سے زیادہ عبادات کو کون وقت دے سکتا ہے۔یہ اوربات ہے کہ بعض اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جن کی زندگی میں زراعت بھی ہے اور تجارت بھی صنعت بھی ہے اور سیاست بھی ۔رشتہ بھی ہے اورقرابت بھی لیکن اس کے باوجود اتنی عبادت کرتے ہیں کہ مالک کو آرام کرنے کاحکم دینا پڑتا ہے اور ان کی ایک ضربت عبادت ثقلین پر بھاری ہو جاتی ہے یا وہ ایک نیند سے مرضی معبود کاسودا کر لیتے ہیں۔

۱۴۸

ولَمْ تُجَاوِزْ رَغَبَاتُهُمْ مَا عِنْدَه إِلَى مَا عِنْدَ غَيْرِه - قَدْ ذَاقُوا حَلَاوَةَ مَعْرِفَتِه - وشَرِبُوا بِالْكَأْسِ الرَّوِيَّةِ مِنْ مَحَبَّتِه - وتَمَكَّنَتْ مِنْ سُوَيْدَاءِ قُلُوبِهِمْ وَشِيجَةُ خِيفَتِه - فَحَنَوْا بِطُولِ الطَّاعَةِ اعْتِدَالَ ظُهُورِهِمْ - ولَمْ يُنْفِدْ طُولُ الرَّغْبَةِ إِلَيْه مَادَّةَ تَضَرُّعِهِمْ - ولَا أَطْلَقَ عَنْهُمْ عَظِيمُ الزُّلْفَةِ رِبَقَ خُشُوعِهِمْ - ولَمْ يَتَوَلَّهُمُ الإِعْجَابُ فَيَسْتَكْثِرُوا مَا سَلَفَ مِنْهُمْ - ولَا تَرَكَتْ لَهُمُ اسْتِكَانَةُ الإِجْلَالِ - نَصِيباً فِي تَعْظِيمِ حَسَنَاتِهِمْ - ولَمْ تَجْرِ الْفَتَرَاتُ فِيهِمْ عَلَى طُولِ دُءُوبِهِمْ ولَمْ تَغِضْ رَغَبَاتُهُمْ فَيُخَالِفُوا عَنْ رَجَاءِ رَبِّهِمْ -

ان کی رغبتیں مالک کی نعمتوں سے ہٹ کر کسی اور کی طرف نہیں ہیں کہ انہوں نے معرفت کی حلاوت کامزہ چکھ لیا ہے اور محبت کے سیراب کرنے والے جام سے سر شار ہوگئے ہیں ۔اور ان کے دلوں کی تہ میں اس کا خوف جڑ پکڑ چکا ہے جس کی بنا پر انہوں نے مسلسل اطاعت سے اپنی سیدھی کمروں کو خمیدہ بنالیا ہے اور طول رغبت(۱) کے باوجود ان کے تضرع و زاری کاخزانہ ختم نہیں ہوا ہے اور نہ کمال تقرب کے باوجود ان کے خشوع کی رسیاں ڈھلی ہوئی ہیں اورنہ خود پسندی نے ان پر غلبہ حاصل کیا ہے کہ وہ اپنے گذشتہ اعمال کو زیادہ تصور کرنے لگیں اور نہ جلال(۲) الٰہی کے سامنے ان کے انکسار نے کوئی گنجائش چھوڑی ہے کہ وہ اپنی نیکیوں کو بڑا خیال کرنے لگیں۔ مسلسل تعب کے باوجود انہوں نے سستی کو راستہ نہیں دیا اور نہ ان کی رغبت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے کہ وہ مالک سے امید کے راستہ کو ترک کردیں۔

(۱)کردار کا کمال یہی ہے کہ انسانی زندگی میں نہ امید خوف پر غالب آنے پائے اور نہ قربت کا احساس خشوع و خضوع کے جذبہ کو مجروح بنا دے۔مولائے کائنات نے اس حقیقت کا اظہار ملائکہ کے کمال کے ذیل میں فرمایا ہے لیکن مقصد یہی ہے کہ انسان اس صورت حال سے عبرت حاصل کرے اور اشرف المخلوقات ہونے کا دعویدار ہے تو کردار میں بھی دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں اشرفیت کامظاہرہ کرے ورنہ دعوائے بے دلیل کسی منطق میں قابل قبول نہیں ہوتا ہے۔

(۲)انسان جب اپنے ذاتی اعمال کا موازنہ بہت سے دوسرے افراد سے کرتا ہے تو اس میں غرور پیدا ہونے لگتا ہے کہ اس کی نمازیں ' عبادتیں ی اس کے مالی کارہائے خیر دوسر ے افراد سے زیادہ ہیں لیکن جب ان کا موازنہ کرم پروردگار اور جلال الٰہی سے کرتا ہے تو یہ سارے اعمال ہیچ نظر آنے لگتے ہیں۔

مولائے کائنات نے اسی نکتہ کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اپنے عمل کا موازنہ دوسرے افراد کے اعمال سے نہ کرو۔موازنہ کرنے کا شوق ہے تو کرم الٰہی اور جلال پروردگار سے کرو تاکہتمہیں اپنی اوقات کا صحیح اندازہ ہو جائے اور شیطان تمہارے اوپر غالب نہ آنے پائے۔

۱۴۹

ولَمْ تَجِفَّ لِطُولِ الْمُنَاجَاةِ أَسَلَاتُ أَلْسِنَتِهِمْ - ولَا مَلَكَتْهُمُ الأَشْغَالُ فَتَنْقَطِعَ بِهَمْسِ الْجُؤَارِ إِلَيْه أَصْوَاتُهُمْ - ولَمْ تَخْتَلِفْ فِي مَقَاوِمِ الطَّاعَةِ مَنَاكِبُهُمْ - ولَمْ يَثْنُوا إِلَى رَاحَةِ التَّقْصِيرِ فِي أَمْرِه رِقَابَهُمْ -. ولَا تَعْدُو عَلَى عَزِيمَةِ جِدِّهِمْ بَلَادَةُ الْغَفَلَاتِ - ولَا تَنْتَضِلُ فِي هِمَمِهِمْ خَدَائِعُ الشَّهَوَاتِ قَدِ اتَّخَذُوا ذَا الْعَرْشِ ذَخِيرَةً لِيَوْمِ فَاقَتِهِمْ ويَمَّمُوه عِنْدَ انْقِطَاعِ الْخَلْقِ إِلَى الْمَخْلُوقِينَ بِرَغْبَتِهِمْ - لَا يَقْطَعُونَ أَمَدَ غَايَةِ عِبَادَتِه - ولَا يَرْجِعُ بِهِمُ الِاسْتِهْتَارُ بِلُزُومِ طَاعَتِه - إِلَّا إِلَى مَوَادَّ مِنْ قُلُوبِهِمْ غَيْرِ مُنْقَطِعَةٍ مِنْ رَجَائِه ومَخَافَتِه - لَمْ تَنْقَطِعْ أَسْبَابُ الشَّفَقَةِ مِنْهُمْ فَيَنُوا فِي جِدِّهِمْ - ولَمْ تَأْسِرْهُمُ الأَطْمَاعُ - فَيُؤْثِرُوا وَشِيكَ السَّعْيِ عَلَى اجْتِهَادِهِمْ - لَمْ يَسْتَعْظِمُوا مَا مَضَى مِنْ أَعْمَالِهِمْ - ولَوِ اسْتَعْظَمُوا ذَلِكَ لَنَسَخَ الرَّجَاءُ مِنْهُمْ شَفَقَاتِ وَجَلِهِمْ ولَمْ يَخْتَلِفُوا فِي رَبِّهِمْ بِاسْتِحْوَاذِ الشَّيْطَانِ عَلَيْهِمْ - ولَمْ يُفَرِّقْهُمْ سُوءُ التَّقَاطُعِ ولَا تَوَلَّاهُمْ غِلُّ التَّحَاسُدِ - ولَا تَشَعَّبَتْهُمْ مَصَارِفُ الرِّيَبِ

مسلسل مناجاتوں نے ان کی نوک زبان کوخشک نہیں بنایا اور نہ مصروفیات نے ان پرقابو پالیا ہے کہ ان کی مناجات کی خفیہ آوازیں منقطع ہوجائیں۔نہ مقامات اطاعت میں ان کے شانے آگے پیچھے ہوتے ہیں اور نہ تعمیل احکام الہیہ میں کوتاہی کی بنا پران کی گردن کسی طرف مڑ جاتی ہے۔ان کی کوششوں کے عزائم پر نہ غفلتوں کی نادانیوں کاحملہ ہوتا ہے اور نہ خواہشات کی فریب کاریاں ان کی ہمتوں کو اپنا نشانہ بناتی ہیں۔انہوں نے اپنے مالک صاحب عرش کو روز فقر و فاقہ کے لئے ذخیرہ بنا لیا ہے اور جب لوگ دوسری مخلوقات کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں تو وہ اسی کو اپنا ہدف نگاہ بنائے رکھتے ہیں۔یہ عبادت کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتے ہیں لہٰذا ان کا اطاعت کا والہانہ جذبہ کسی اور طرف لے جانے کے بجائے صرف امید و بیم کے نا قابل اختتام ذخیروں ہی کی طرف لے جاتا ہے ان کے لئے خوف خدا کے اسباب منقطع نہیں ہوئے ہیں کہ ان کی کوششوں میں سستی پیدا کرادیں اورنہ انہیں خواہشات نے قیدی بنایا ہے کہ وقتی کوششوں کوابدی سعی پرمقدم کردیں۔یہ اپنے گزشتہ اعمال کو برا خیال نہیں کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو اب تک امیدیں خوف خدا کو فنا کردیتیں۔انہوں نے شیطانی غلبہ کی بنیاد پر پروردگار کے بارے میں آپس میں کوئی اختلاف بھی نہیں کیاہے اور نہ ایک دوسرے سے بگاڑنے ان کے درمیان افتراق پیدا کیا ہے۔نہ ان پرحسد کا کینہ غالب آیا ہے اور نہ وہ شکوک کی بناپرآپس میں ایک دوسرے سے الگ ہوئے ہیں۔

۱۵۰

ولَا اقْتَسَمَتْهُمْ أَخْيَافُ الْهِمَمِ فَهُمْ أُسَرَاءُ إِيمَانٍ لَمْ يَفُكَّهُمْ مِنْ رِبْقَتِه زَيْغٌ ولَا عُدُولٌ - ولَا وَنًى ولَا فُتُورٌ - ولَيْسَ فِي أَطْبَاقِ السَّمَاءِ مَوْضِعُ إِهَابٍ إِلَّا وعَلَيْه مَلَكٌ سَاجِدٌ - أَوْ سَاعٍ حَافِدٌ يَزْدَادُونَ عَلَى طُولِ الطَّاعَةِ بِرَبِّهِمْ عِلْماً - وتَزْدَادُ عِزَّةُ رَبِّهِمْ فِي قُلُوبِهِمْ عِظَماً.

ومنها في صفة الأرض ودحوها على الماء

كَبَسَ الأَرْضَ عَلَى مَوْرِ أَمْوَاجٍ مُسْتَفْحِلَةٍ ولُجَجِ بِحَارٍ زَاخِرَةٍ تَلْتَطِمُ أَوَاذِيُّ أَمْوَاجِهَا - وتَصْطَفِقُ مُتَقَاذِفَاتُ أَثْبَاجِهَا وتَرْغُو زَبَداً كَالْفُحُولِ عِنْدَ هِيَاجِهَا - فَخَضَعَ جِمَاحُ الْمَاءِ الْمُتَلَاطِمِ لِثِقَلِ حَمْلِهَا - وسَكَنَ هَيْجُ ارْتِمَائِه إِذْ وَطِئَتْه بِكَلْكَلِهَا وذَلَّ مُسْتَخْذِياً إِذْ تَمَعَّكَتْ عَلَيْه بِكَوَاهِلِهَا - فَأَصْبَحَ بَعْدَ اصْطِخَابِ أَمْوَاجِه سَاجِياً مَقْهُوراً - وفِي حَكَمَةِ الذُّلِّ مُنْقَاداً أَسِيراً - وسَكَنَتِ الأَرْضُ مَدْحُوَّةً فِي لُجَّةِ تَيَّارِه

اور نہ پست ہمتوں نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کیا ہے یہ ایمان کے وہ قیدی ہیں جن کی گردنوں کی کجی ' انحراف ، سستی ' فتور کوئی چیزآزاد نہیں کرا سکتی ہے۔فضائے آسمان میں ایک کھال کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ سجدہ گزار یا دوڑ دھوپ کرنے والا نہ ہو۔یہ طول اطاعت سے اپنے رب کی معرفت میں اضافہ ہی کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں اس کی عظمت و جلالت بڑھتی ہی جاتی ہے۔

زمین اور اس کے پانی پر فرش ہونے کی تفصیلات

اس نے زمین کو تہ وبالا ہونے والی موجوں اور اتھاہ سمندر کی گہرائیوں کے اوپر(۱) قائم کیا ہے جہاں موجوں کا تلاطم تھا اور ایک دوسرے کوڈھکیلنے والی لہریں ٹکرا رہی تھیں۔ان کا پھین ایسا ہی تھا جیسے ہیجان زدہ اونٹ کا جھاگ۔مگر اس طوفان کو تلاطم خیز پانی کے بوجھ نے دبا دیا اور اس کے جوش و خروش کو اپنا سینہ ٹیک کر ساکن بنادیا اور اپنے شانے ٹکا کر اس طرح دبا دیا کہ وہ ذلت و خواری کے ساتھ حرام ہوگیا۔اب وہ پانی موجود کی گھڑ گھڑاہٹ کے بعد ساکت اور مغلوب ہوگیا اورذلت کی لگام میں اسیر ومطیع ہوگیا اور زمین بھی طوفان خیز پانی کی سطح پر

(۱) واضح رہے کہ اس مقام پر اصل خلقت زمین کا کوئی تذکرہ نہیں ہے کہ اس کی تخلیق مستقل حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ دورحاضر میں علماء طبیعت کا خیال ہے یا اسے سورج سے الگ کرکے بنایا گیا ہے جیسا کہ سابق کے علماء ہئیت کہا کرتے تھے۔اس خطہ میں صرف زمین کے بعض کیفیات اور حالات کا ذکر کیا گیا ہے اور پروردگار کے اس احسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ اس نے زمین کو انسانی زندگی کا مستقر قرار دینے وکے لئے کتنی دور سے اہتمام کیا ہے اور اس مخلوق کو بسانے کے لئے کتنے عظیم اہتمام سے کام لیا ہے ۔کاش انسان ان احسانات کا احساس کرتا اور اسے یہ اندازہ ہوتا کہ اس کے مالک نے اسے کس قدر عظیم قرار دیا تھا کہ اس کے قیام و استقرار کے لئے زمین و آسمان سب کو منقلب کردیا اور اس نے اپنے کو اس قدر ذلیل کردیا کہ ایک ایک ذرہ کائنات اور ایک ایک چپہ زمین کے لئے جان دینے کو تیار ہے اور اپنی قدرو قیمت کو یکسر نظرانداز کئے ہوئے ہے

۱۵۱

ورَدَّتْ مِنْ نَخْوَةِ بَأْوِه واعْتِلَائِه وشُمُوخِ أَنْفِه وسُمُوِّ غُلَوَائِه وكَعَمَتْه عَلَى كِظَّةِ جَرْيَتِه فَهَمَدَ بَعْدَ نَزَقَاتِه ولَبَدَ بَعْدَ زَيَفَانِ وَثَبَاتِه - فَلَمَّا سَكَنَ هَيْجُ الْمَاءِ مِنْ تَحْتِ أَكْنَافِهَا وحَمْلِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ الشُّمَّخِ الْبُذَّخِ عَلَى أَكْتَافِهَا - فَجَّرَ يَنَابِيعَ الْعُيُونِ مِنْ عَرَانِينِ أُنُوفِهَا - وفَرَّقَهَا فِي سُهُوبِ بِيدِهَا وأَخَادِيدِهَا وعَدَّلَ حَرَكَاتِهَا بِالرَّاسِيَاتِ مِنْ جَلَامِيدِهَا وذَوَاتِ الشَّنَاخِيبِ الشُّمِّ مِنْ صَيَاخِيدِهَا فَسَكَنَتْ مِنَ الْمَيَدَانِ لِرُسُوبِ الْجِبَالِ فِي قِطَعِ أَدِيمِهَا وتَغَلْغُلِهَا مُتَسَرِّبَةً فِي جَوْبَاتِ خَيَاشِيمِهَا ورُكُوبِهَا أَعْنَاقَ سُهُولِ الأَرَضِينَ وجَرَاثِيمِهَا وفَسَحَ بَيْنَ الْجَوِّ وبَيْنَهَا وأَعَدَّ الْهَوَاءَ مُتَنَسَّماً لِسَاكِنِهَا - وأَخْرَجَ إِلَيْهَا أَهْلَهَا عَلَى تَمَامِ مَرَافِقِهَا

دامن(۱) پھیلاکر بیٹھ گئی تھی کہ اس نے اٹھلانے ' سر اٹھانے ' ناک چڑھانے ' جست و خیز کی سرمستیوں کے بعد ساکت ہوگیا تھا۔اب جب پانی کا جوش اطراف زمین کے نیچے ساکن ہوگیا اور سر بفلک پہاڑوں کے بوجھ نے اس کے کاندھوں کو دبا دیا تو مالک نے اس کی ناک کے بانسوں سے چشمے جاری کر دئیے اور انہیں دور دراز صحرائوں اور گڑھوں تک منتشر کر دیا اور پھر زمین کی حرکت کو پہاڑوں کی چٹانوں اور اونچی اونچی چوٹیوں والے پہاڑوں کے وزن سے معتدل بنادیا۔اورپہاڑوں کے اس کی سطح کے مختلف حصوں میں ڈوب جانے اور اس کی گہرائیوں کی تہہ میں گھس جانے اور اس کے ہموار حصوں کی بلندی اور پستی پر سوار ہوجانے کی بنا پر اس کی تھر تھراہٹ رک گئی اور مالک نے زمین سے فضا تک ایک وسعت پیدا کردی اور ہوا(۲) کواس کے باشندوں کے سانس لینے کے لئے مہیا کردیا اور اس کے بسنے والوں کو تمام سہولتوں کے ساتھ ٹھہرا دیا۔

(۱) مدحوہ کے معنی اگرچہ عام طور سے فرش شدہ کے بیان کئے جاتے ہیں۔لیکن لغت میں '' مدحی'' انڈے دینے کی جگہ کوبھی کہا جاتا ہے۔اس لئے ممکن ہے کہ مولائے کائنات نے اس لفظ سے زمین کی بیضاوی شکل کی طرف اشارہ کیا ہو کہ دوہر حاضر کی تحقیق کی بناپر زمین کی شکل کروی نہیں ہے۔ بلکہ بیضاوی ہے۔

(۲) اس حصہ کلام میں مولائے کائنات نے مالک کے دو عظیم احسانات کی طرف اشارہ کیا ہے جن پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے اور وہ ہیں ہوا اورپانی ہوا انسان کے سانس لینے کا ذریعہ ہے اور پانی انسان کے قوام حیات ہے۔یہ دونوں نہ ہوتے تو انسان ایک لمحہ زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔

اس کے بعد ان دونوں کی تخلیق کو مزید کارآمد بنانے کے لئے ہوا کو ساری فضا میں منتشر کردیا اور پانی کے چشمے اگر پہاڑوں کی بلندیوں کو سیراب نہیں کر سکتے تھے تو بارش کا انتظام کردیا تاکہ بلندی کوہ پر رہنے والی مخلوق بھی اس سے استفادہ کر سکے اور انسانوں کی طرح جانوروں کی زندگی کا انتظام بھی ہو جائے۔

افسوس کہ انسان نے دنیا کی ہر معمولی سے معمولی نعمت کی قدرو قیمت کا احساس کیا ہے لیکن ان دونوں کی قدرو قیمت کا احساس نہیں کیا ہے۔ورنہ ہر سانس پر شکر خدا کرتا اور ہر قطرہ آب پر احسانات الہیہ کویاد رکھتا اور کسیآن اس کی یاد سے غافل نہ ہوتا اور اس کے احکام کی مخالفت نہ کرتا۔

۱۵۲

ثُمَّ لَمْ يَدَعْ جُرُزَ الأَرْضِ - الَّتِي تَقْصُرُ مِيَاه الْعُيُونِ عَنْ رَوَابِيهَا ولَا تَجِدُ جَدَاوِلُ الأَنْهَارِ ذَرِيعَةً إِلَى بُلُوغِهَا - حَتَّى أَنْشَأَ لَهَا نَاشِئَةَ سَحَابٍ تُحْيِي مَوَاتَهَا وتَسْتَخْرِجُ نَبَاتَهَا - أَلَّفَ غَمَامَهَا بَعْدَ افْتِرَاقِ لُمَعِه وتَبَايُنِ قَزَعِه حَتَّى إِذَا تَمَخَّضَتْ لُجَّةُ الْمُزْنِ فِيه والْتَمَعَ بَرْقُه فِي كُفَفِه ولَمْ يَنَمْ وَمِيضُه فِي كَنَهْوَرِ رَبَابِه ومُتَرَاكِمِ سَحَابِه - أَرْسَلَه سَحّاً مُتَدَارِكاً قَدْ أَسَفَّ هَيْدَبُه تَمْرِيه الْجَنُوبُ دِرَرَ أَهَاضِيبِه ودُفَعَ شَآبِيبِه فَلَمَّا أَلْقَتِ السَّحَابُ بَرْكَ بِوَانَيْهَا وبَعَاعَ مَا اسْتَقَلَّتْ بِه مِنَ الْعِبْءِ الْمَحْمُولِ عَلَيْهَا - أَخْرَجَ بِه مِنْ هَوَامِدِ الأَرْضِ النَّبَاتَ - ومِنْ زُعْرِ الْجِبَالِ الأَعْشَابَ فَهِيَ تَبْهَجُ بِزِينَةِ رِيَاضِهَا - وتَزْدَهِي بِمَا أُلْبِسَتْه مِنْ رَيْطِ أَزَاهِيرِهَا وحِلْيَةِ مَا سُمِطَتْ بِه مِنْ نَاضِرِ أَنْوَارِهَا وجَعَلَ ذَلِكَ بَلَاغاً لِلأَنَامِ ورِزْقاً لِلأَنْعَامِ -

اس کے بعد زمین کے وہ چٹیل میدان جن کی بلندیوں تک چشموں اور نہروں کے بہائوں کا کوئی راستہ نہیں تھا انہیں بھی یونہی نہیں رہنے دیا یہاں تک کہ ان کے لئے وہ بادل پیدا کردئیے جوان کی مردہ زمینوں کو زندہ بنا سکیں اور نباتات کو اگا سکیں۔اس نے ابر کی چمک دا ر ٹکڑیوں کو اور پراگندہ بدلیوں کو جمع کیا یہاں تک کہ جب اس کے اندر پانی کا ذخیرہ جوش مارنے لگا اور اس کے کناروں پر بجلیاں تڑپتنے لگیں اور ان کی چمک سفید بادلوں کی تہوں اورتہہ بہ تہہ سحابوں کے اندر برابر جاری رہی تو اس نے انہیں موسلا دھار بارش کے لئے بھیج دیا اس طرح کہ اس کے بوجھل حصے زمین پرمنڈلا رہے تھے اورجنوبی ہوائیں انہیں مسل مسل کر برسنے والے بادل کی بوندیں اورتیز بارش کی شکل میں برسا رہی تھیں۔اس کے بعد جب بادلوں نے اپنا سینہ ہاتھ پائوں سمیٹ زمین پر ٹیک دیا اور پانی کا سارا لدا ہوا بوجھ اس پر پھینک دیا تو اس کے ذریعہ افتادہ زمینوں سے کھیتیاں اگا دیں اور خشک پہاڑوں پر ہراب ھرا سبزہ پھیلا دیا ۔اب زمین اپنے سبز ہ کی زینت سے جھومنے لگی اور شگوفوں کی اوڑھنیوں اور شگفتہ و شاداب کلیوں کے زیوروں سے اترانے لگی۔

پروردگار نے ان تمام چیزوں کو انسانوں کی زندگانی کا سامان اور جانوروں کا رزق قرار دیا ہے۔اس

۱۵۳

وخَرَقَ الْفِجَاجَ فِي آفَاقِهَا - وأَقَامَ الْمَنَارَ لِلسَّالِكِينَ عَلَى جَوَادِّ طُرُقِهَا فَلَمَّا مَهَدَ أَرْضَه وأَنْفَذَ أَمْرَه - اخْتَارَ آدَمَعليه‌السلام خِيرَةً مِنْ خَلْقِه - وجَعَلَه أَوَّلَ جِبِلَّتِه وأَسْكَنَه جَنَّتَه - وأَرْغَدَ فِيهَا أُكُلَه - وأَوْعَزَ إِلَيْه فِيمَا نَهَاه عَنْه - وأَعْلَمَه أَنَّ فِي الإِقْدَامِ عَلَيْه التَّعَرُّضَ لِمَعْصِيَتِه - والْمُخَاطَرَةَ بِمَنْزِلَتِه - فَأَقْدَمَ عَلَى مَا نَهَاه عَنْه مُوَافَاةً لِسَابِقِ عِلْمِه - فَأَهْبَطَه بَعْدَ التَّوْبَةِ - لِيَعْمُرَ أَرْضَه بِنَسْلِه - ولِيُقِيمَ الْحُجَّةَ بِه عَلَى عِبَادِه - ولَمْ يُخْلِهِمْ بَعْدَ أَنْ قَبَضَه - مِمَّا يُؤَكِّدُ عَلَيْهِمْ حُجَّةَ رُبُوبِيَّتِه - ويَصِلُ بَيْنَهُمْ وبَيْنَ مَعْرِفَتِه -

نے زمین کی اطراف میں کشادہ راستے نکالے ہیں۔اور شاہراہوں پر چلنے والوں کے لئے روشنی کے منارے نصب کئے ہیں۔

پھر جب زمین کا فرش بچھا لیا اور اپنا کام مکمل کرلیا۔تو آدم کو اپنی مخلوقات میں منتخب قراردے دیا اور انہیں نوع انسانی کی فرد اول بنا کرجنت میں ساکن کردیا اور ان کے لئے ہر طرح کے کھانے پینے کو آزاد کردیا اور جس سے منع کرنا تھا اس کا اشارہ بھی دے دیا اور یہ بتا دیا کہ اس کے اقدام میں نا فرمانی کا اندیشہ اور اپنے مرتبہ کوخطرہ میں ڈالنے کا خطرہ ہے لیکن انہوں نے اسی چیز کی طرف رخ کرلیا جس سے روکا گیا تھا کہ یہ بات پہلے سے علم خدا میں موجودتھی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ پروردگار نے توبہ کے بعد انہیں نیچے اتار دیا تاکہ اپنی نسل(۱) سے دنیاکو آباد کریں اور ان کے ذریعہ سے اللہ بندوں پر حجت قائم کرے پھر ان کو اٹھا لینے کے بعد بھی زمین کو ان چیزوں سے خالی نہیں رکھا جن کے ذریعہ ربوبیت کی دلیلوں کی تاکید کرے اور جنہیں بندوں کی معرفت کا وسیلہ بنائے

(۱) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جناب آدم نے درخت کا پھل کھا کر اپنے کو زحمتوں میں مبتلا کرلیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انہیں روئے زمین کا خلیفہ بنایاگیا تھا تو کیا جنت ہی میں محو اسراحت رہ جاتے اور اپنے فرائض منصبی کی طرف متوجہ نہ ہوتے۔یہ تو احساس ذمہ داری کا ایک رخ ہے کہ انہوں نے جنت کے راحت و آرام کو نظر انداز کرنے کا عزم کر لیا اور روئے زمین پرآگئے تاکہ اپنی نسل سے دنیا کو آباد کرسکیں اور اپنے فریضہ منصب کوادا کر سکیں یہ اوربات ہے کہ تقاضائے احتیاط یہی تھا کہ مالک کائنات ہی سے گزارش کرتے کہ جہاں کے لئے ذمہ دار بنایا ہے وہاں تک جانے کا انتظام کردے یا کوئی راستہ بتا دے۔اس راستہ کو ابلیس کے شارہ کے بعد اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا کہ اسے ابلیس اپنی فتح مبین قراردے لے اور خلیفہ اللہ کے مقابلہ میں اپنے غرور کا اظہار کر سکے۔غالباً احتیاط کے اسی تقاضہ پرعمل نہ کرنے کا نام '' ترک اولیٰ'' رکھا گیا ہے۔

۱۵۴

بَلْ تَعَاهَدَهُمْ بِالْحُجَجِ - عَلَى أَلْسُنِ الْخِيَرَةِ مِنْ أَنْبِيَائِه - ومُتَحَمِّلِي وَدَائِعِ رِسَالَاتِه - قَرْناً فَقَرْناً - حَتَّى تَمَّتْ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

حُجَّتُه - وبَلَغَ الْمَقْطَعَ عُذْرُه ونُذُرُه وقَدَّرَ الأَرْزَاقَ فَكَثَّرَهَا وقَلَّلَهَا - وقَسَّمَهَا عَلَى الضِّيقِ والسَّعَةِ - فَعَدَلَ فِيهَا لِيَبْتَلِيَ - مَنْ أَرَادَ بِمَيْسُورِهَا ومَعْسُورِهَا - ولِيَخْتَبِرَ بِذَلِكَ الشُّكْرَ والصَّبْرَ مِنْ غَنِيِّهَا وفَقِيرِهَا - ثُمَّ قَرَنَ بِسَعَتِهَا عَقَابِيلَ فَاقَتِهَا وبِسَلَامَتِهَا طَوَارِقَ آفَاتِهَا - وبِفُرَجِ أَفْرَاحِهَا غُصَصَ أَتْرَاحِهَا وخَلَقَ الآجَالَ فَأَطَالَهَا وقَصَّرَهَا وقَدَّمَهَا وأَخَّرَهَا - ووَصَلَ بِالْمَوْتِ أَسْبَابَهَا وجَعَلَه خَالِجاً لأَشْطَانِهَا وقَاطِعاً لِمَرَائِرِ أَقْرَانِهَا عَالِمُ السِّرِّ مِنْ ضَمَائِرِ الْمُضْمِرِينَ - ونَجْوَى الْمُتَخَافِتِينَ وخَوَاطِرِ رَجْمِ الظُّنُونِ وعُقَدِ عَزِيمَاتِ الْيَقِينِ ومَسَارِقِ إِيمَاضِ الْجُفُونِ ومَا ضَمِنَتْه أَكْنَانُ الْقُلُوبِ

بلکہ ہمیشہ منتخب انبیاء کرام اور رسالت کے امانت داروں کی زبانوں سے حجت کے پہنچانے کی نگرانی کرتا رہا اور یوں ہی صدیاں گزرتی رہیں یہاں تک کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد (ص) کے ذریعہ اس کی حجت تمام ہوگئی اور اتمام حجت اور تخویف عذاب کا سلسلہ نقطہ آخرت تک پہنچ گیا۔

اللہ نے سب کی روزیاں معین کر رکھی ہیں چاہے قلیل ہوں یا کثیر اور پھر انہیں تنگی اور وسعت کے اعتبارسے بھی تقسیم کردیا اور اس میں بھی عدالت رکھی ہے تاکہ دونوں کا امتحان لیا جا سکے اور غنی و فقیر دونوں کو شکر یا صبر سے آزمایا جا سکے۔پھر وسعت رزق کے ساتھ فقر وفاقہ کے خطرات اور سلامتی کے ساتھ نازل ہونے والی آفات کے اندیشے اورخوشی و شادمانی کی وسعت کے ساتھ غم و الم کے گلو گیر پھندے شامل بھی کردئیے۔زندگیوں کی طویل و قصیرمدتیں معین کیں۔انہیں آگے پیچھے رکھا اور پھر سب کو موت سے ملا دیا اور موت کو ان کی رسیوں کاکھینچنے والا اور مضبوط رشتوں کو پارہ پارہ کر دینے والا بنادیا۔وہ دلوں میں باتوں کے چھپانے والوں کے اسرار۔خفیہ باتیں کرنے والوں کی گفتگو ۔خیالات میں اٹکل پچو لگانے والوں کے اندازے ۔دل میں جمے ہوئے یقینی عزائم ۔پلکوں میں دبے ہوئے کنکھیوں کے شارے اور دلوں کی تہوں کے راز اور غیب کی گہرائیوں کے رموز سب کو جانتا ہے۔

۱۵۵

وغَيَابَاتُ الْغُيُوبِ ومَا أَصْغَتْ لِاسْتِرَاقِه مَصَائِخُ الأَسْمَاعِ - ومَصَايِفُ الذَّرِّ ومَشَاتِي الْهَوَامِّ - ورَجْعِ الْحَنِينِ مِنَ الْمُولَهَاتِ وهَمْسِ الأَقْدَامِ - ومُنْفَسَحِ الثَّمَرَةِ مِنْ وَلَائِجِ غُلُفِ الأَكْمَامِ ومُنْقَمَعِ الْوُحُوشِ مِنْ غِيرَانِ الْجِبَالِ وأَوْدِيَتِهَا - ومُخْتَبَإِ الْبَعُوضِ بَيْنَ سُوقِ الأَشْجَارِ وأَلْحِيَتِهَا ومَغْرِزِ الأَوْرَاقِ مِنَ الأَفْنَانِ ومَحَطِّ الأَمْشَاجِ مِنْ مَسَارِبِ الأَصْلَابِ ونَاشِئَةِ الْغُيُومِ ومُتَلَاحِمِهَا - ودُرُورِ قَطْرِ السَّحَابِ فِي مُتَرَاكِمِهَا - ومَا تَسْفِي الأَعَاصِيرُ بِذُيُولِهَا وتَعْفُو الأَمْطَارُ بِسُيُولِهَا، وعَوْمِ بَنَاتِ الأَرْضِ فِي كُثْبَانِ الرِّمَالِ - ومُسْتَقَرِّ ذَوَاتِ الأَجْنِحَةِ بِذُرَا شَنَاخِيبِ الْجِبَالِ - وتَغْرِيدِ ذَوَاتِ الْمَنْطِقِ فِي دَيَاجِيرِ الأَوْكَارِ -

وہ ان آوازوں کو بھی سن لیتاہے جن کے لئے کانوں کے سوراخوں کو جھکنا پڑتا ہے۔چیونٹیوں(۱) کے موسم گرما کے مقامات اور دیگرحشرات الارض کی سردیوں کی منزل سے بھی آگاہ ہے۔پسر مردہ عورتوں کی درد بھری فریاد اور پیروں کی چاپ بھی سن لیتا ہے۔وہ سبز پتیوں کے غلافوں کے اندرونی حصوں میں تیار ہونے والے پھلوں کی جگہ کو بھی جانتا ہے اور پہاڑوں کے غاروں اور وادیوں میں جانوروں کی پناہ گاہوں کو بھی پہنچانتا ہے۔وہ درختوں کے تنوں اور ان کے چھلکوں میں مچھروں کے چھپنے کی جگہ سے بھی با خبر ہے اور شاخوں میں پتے نکلنے کی منزل اور صلبوں کی گزر گاہوں میں نطفوں کے ٹھکانوں اور آپس میں جڑے ہوئے بادلوںاور تہہ بہ تہہ سحابوں سے ٹپکنے والے بارش کے قطروں سے بھی آشنا ہے بلکہ جن ذرات کو آندھیاں اپنے دامن سے اڑا دیتی ہیں اور جن نشانات کو بارشیں اپنے سیلاب سے مٹا دیتی ہیں ان سے بھی با خبر ہے۔وہ ریت کے ٹیلوں پر زمین کے کیڑوں کے چلنے پھرنے اور سربلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر بال و پر رکھنے والے پرندوں کے نشیمنوں کو بھی جانتا ہے اور گھونسلوں کے اندھیروں میں پرندوں کے نغموں کو بھی پہچانتا ہے

(۱) مالک کائنات کے علم کے بارے میں اس قدر دقیق بیان ایک طرف غیر حکیم فلاسفہ کے اس تصور کی تردید ہے کہ خالق حکیم کے علم کا تعلق صرف کلیات سے ہوتا ہے اور وہ جزئیات سے بہ حیثیت جزئیات با خبرنہیں ہوتا ہے ورنہ اس سے بدلتے ہوئے جزئیات کے ساتھ ذات میں تغیر لازم آئے گا اور یہبات غیر معقول ہے اور دوسری طرف انسان کو اس نکتہ کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ جو خالق و مالک مذکور تمام باریکیوں سے با خبر ہے وہ خلوت کدوں میں نا محرموں کے اجتماعات ' نیم تاریک رقص گاہوں کے رقص سڑکوں اوربازاروں کے وزدیدہ اشارات' اسکولوں اور دفتروں کے غیر شرعی تصرفات اور دل و دماغ میں چھپے ہوئے غیر شریفانہ تصورات و خیالات سے بھی با خبر ہے۔اس کے علم سے کائنات کا کوئی ذرہ مخفی نہیں ہو سکتا ہے۔وہآنکھوں کی خیانت اور دل کے پوشیدہ اسرار دونوں سے مساوی طورپر اطلاع رکھتا ہے۔واللہ اعلم بذات الصدور

۱۵۶

ومَا أَوْعَبَتْه الأَصْدَافُ وحَضَنَتْ عَلَيْه أَمْوَاجُ الْبِحَارِ - ومَا غَشِيَتْه سُدْفَةُ لَيْلٍ أَوْ ذَرَّ عَلَيْه شَارِقُ نَهَارٍ - ومَا اعْتَقَبَتْ عَلَيْه أَطْبَاقُ الدَّيَاجِيرِ وسُبُحَاتُ النُّورِ وأَثَرِ كُلِّ خَطْوَةٍ - وحِسِّ كُلِّ حَرَكَةٍ ورَجْعِ كُلِّ كَلِمَةٍ - وتَحْرِيكِ كُلِّ شَفَةٍ ومُسْتَقَرِّ كُلِّ نَسَمَةٍ - ومِثْقَالِ كُلِّ ذَرَّةٍ وهَمَاهِمِ كُلِّ نَفْسٍ هَامَّةٍ - ومَا عَلَيْهَا مِنْ ثَمَرِ شَجَرَةٍ أَوْ سَاقِطِ وَرَقَةٍ - أَوْ قَرَارَةِ نُطْفَةٍ أَوْ نُقَاعَةِ دَمٍ ومُضْغَةٍ - أَوْ نَاشِئَةِ خَلْقٍ وسُلَالَةٍ - لَمْ يَلْحَقْه فِي ذَلِكَ كُلْفَةٌ - ولَا اعْتَرَضَتْه فِي حِفْظِ مَا ابْتَدَعَ مِنْ خَلْقِه عَارِضَةٌ ولَا اعْتَوَرَتْه فِي تَنْفِيذِ الأُمُورِ وتَدَابِيرِ الْمَخْلُوقِينَ مَلَالَةٌ ولَا فَتْرَةٌ - بَلْ نَفَذَهُمْ عِلْمُه وأَحْصَاهُمْ عَدَدُه - ووَسِعَهُمْ عَدْلُه وغَمَرَهُمْ فَضْلُه - مَعَ تَقْصِيرِهِمْ عَنْ كُنْه مَا هُوَ أَهْلُه.

۔جن چیزوں کو صدف نے سمیٹ رکھا ہے انہیں بھی جانتا ہے اورجنہیں دریا کی موجوں نے اپنی گود میں دبا رکھا ہے انہیں بھی پہچانتا ہے۔جسے رات کی تاریکی نے چھپا لیا ہے اسے بھی پہچانتا ہے اور جس پر دن کے سورج نے روشنی ڈالی ہے اس سے بھی با خبر ہے۔جن چیزوں پریکے بعد دیگرے اندھیری راتوں کے پردے اور روشن دنوں کے آفتاب کی شعاعیں نور بکھیرتی ہیں وہ ان سب سے با خبر ہے نشان قدم' حس و حرکت ' الفاظ کی گونج' ہونٹوں کی جنبش' سانسوں کی منزل ' ذرات کا وزن ' ذی روح کی سسکیوں کی آواز ' اس زمین پر درختوں کے پھل ۔گرنے والے پتے ' نطفوں کی قرار گاہ ' منجمد خون کے ٹھکانے ' لوتھڑے یا اس کے بعد بننے والی مخلوق یا پیدا ہوئے بچے سب کو جانتا ہے اور اسے اس علم کے حصول میں کوئی زحمت نہیں ہوتی اور نہ اپنی مخلوقات کی حفاظت میں کوئی رکاوٹ پیش آئی اور نہ اپنے امور کے نافذ کرنے اور مخلوقات کا انتظام کرنے میں کوئی سستی یا تھکن لاحق ہوئی بلکہ اس کا علم گہرائیوں میں اترا ہوا ہے اور اس نے سب کے اعداد کو شمار کرلیا ہے اور سب پر اس کا عدل شامل اور فضل محیط ہے حالانکہ یہ سب اس کے شایان شان حق کے ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

۱۵۷

دعاء

اللَّهُمَّ أَنْتَ أَهْلُ الْوَصْفِ الْجَمِيلِ - والتَّعْدَادِ الْكَثِيرِ إِنْ تُؤَمَّلْ فَخَيْرُ مَأْمُولٍ وإِنْ تُرْجَ فَخَيْرُ مَرْجُوٍّ - اللَّهُمَّ وقَدْ بَسَطْتَ لِي فِيمَا لَا أَمْدَحُ بِه غَيْرَكَ - ولَا أُثْنِي بِه عَلَى أَحَدٍ سِوَاكَ - ولَا أُوَجِّهُه إِلَى مَعَادِنِ الْخَيْبَةِ ومَوَاضِعِ الرِّيبَةِ - وعَدَلْتَ بِلِسَانِي عَنْ مَدَائِحِ الآدَمِيِّينَ؛والثَّنَاءِ عَلَى الْمَرْبُوبِينَ الْمَخْلُوقِينَ - اللَّهُمَّ ولِكُلِّ مُثْنٍ عَلَى مَنْ أَثْنَى عَلَيْه مَثُوبَةٌ مِنْ جَزَاءٍ - أَوْ عَارِفَةٌ مِنْ عَطَاءٍ - وقَدْ رَجَوْتُكَ دَلِيلًا عَلَى ذَخَائِرِ الرَّحْمَةِ - وكُنُوزِ الْمَغْفِرَةِ - اللَّهُمَّ وهَذَا مَقَامُ مَنْ أَفْرَدَكَ بِالتَّوْحِيدِ الَّذِي هُوَ لَكَ - ولَمْ يَرَ مُسْتَحِقّاً لِهَذِه الْمَحَامِدِ والْمَمَادِحِ غَيْرَكَ - وبِي فَاقَةٌ إِلَيْكَ لَا يَجْبُرُ مَسْكَنَتَهَا إِلَّا فَضْلُكَ - ولَا يَنْعَشُ مِنْ خَلَّتِهَا إِلَّا مَنُّكَ وجُودُكَ - فَهَبْ لَنَا فِي هَذَا الْمَقَامِ رِضَاكَ - وأَغْنِنَا عَنْ مَدِّ الأَيْدِي إِلَى سِوَاكَ –( إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ )

(۹۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما أراده الناس على البيعة - بعد قتل عثمان

دعائ

خدایا! تو ہی بہترین توصیف اورآخر تک سراہے جانے کا اہل ہے تجھ سے آس لگائی جائے تو بہترین آسرا ہے اور امید رکھی جائے تو بہترین مرکز امید ہے۔تونے مجھے وہ طاقت دی ہے جس کے ذریعہ کسی غیرکی مدح و ثنا نہیں کرتا ہوں اور اس کا رخ ان افراد کی طرف نہیں موڑتا ہوں جو ناکامی کا مرکز اور شبہات کی منزل ہیں۔میں نے اپنی زبان کو لوگوں کی تعریف اورتیری پروردہ مخلوقات کی ثناو صفت سے موڑ دیا ہے۔ خدایا!ہر تعریف کرنے والے کا اپنے ممدوح پرایک حق ہوتا ہے چاہے وہ معاوضہ ہویا انعام و اکرام۔اور میں تجھ سے آس لگائے بیٹھا ہوں کہ تو رحمت کے ذخیروں اور مغفرت کے خزانوں کی رہنمائی کرنے والا ہے۔خدایا! یہ اس بندہ کی منزل ہے جس نے صرف تیری توحید اور یکتائی کا اعتراف کیا ہے اور تیرے علاوہ ان اوصاف و کمالات کا کسی کو اہل نہیں پایا ہے۔پھر میں ایک احتیاج رکھتا ہوں جس کا تیرے فضل کے علاوہ کوئی علاج نہیں کر سکتا ہے اور تیرے احسانات کے علاوہ کوئی اس کا سہارا نہیں بن سکتا ہے۔اب اس وقت مجھے اپنی رضا عنایت فرما دے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بے نیاز بنادے کہ تو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔

(۹۲)

آپ کا ارشاد گرامی(جب لوگوں نے قتل عثمان کے بعد آپ کی بیعت کا اراہ کیا)

۱۵۸

دَعُونِي والْتَمِسُوا غَيْرِي - فَإِنَّا مُسْتَقْبِلُونَ أَمْراً - لَه وُجُوه وأَلْوَانٌ - لَا تَقُومُ لَه الْقُلُوبُ - ولَا تَثْبُتُ عَلَيْه الْعُقُولُ وإِنَّ الآفَاقَ قَدْ أَغَامَتْ والْمَحَجَّةَ قَدْ تَنَكَّرَتْ واعْلَمُوا أَنِّي إِنْ أَجَبْتُكُمْ - رَكِبْتُ بِكُمْ مَا أَعْلَمُ - ولَمْ أُصْغِ إِلَى قَوْلِ الْقَائِلِ وعَتْبِ الْعَاتِبِ وإِنْ تَرَكْتُمُونِي فَأَنَا كَأَحَدِكُمْ - ولَعَلِّي أَسْمَعُكُمْ وأَطْوَعُكُمْ - لِمَنْ وَلَّيْتُمُوه أَمْرَكُمْ - وأَنَا لَكُمْ وَزِيراً خَيْرٌ لَكُمْ مِنِّي أَمِيراً!

(۹۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها ينبّه أمير المؤمنين على فضله وعلمه ويبيّن فتنة بني أمية!

أَمَّا بَعْدَ حَمْدِ اللَّه والثَّنَاءِ عَلَيْه - أَيُّهَا النَّاسُ - فَإِنِّي فَقَأْتُ عَيْنَ الْفِتْنَةِ - ولَمْ يَكُنْ لِيَجْتَرِئَ عَلَيْهَا أَحَدٌ غَيْرِي

مجھے چھوڑ دو اور جائو کسی اورکو تلاش کرلو۔ہمارے سامنے وہ معاملہ ہے جس کے بہت سے رنگ اور رخ ہیں جن کی نہ دلوں میں تاب ہے اور نہ عقلیں انہیں برداشت کرسکتی ہیں۔دیکھو افق کس قدر ابر آلود ہے اور راستے کس قدر انجانے ہوگئے ہیں۔یاد رکھو کہ اگر میں نے بیعت کی دعوت کو قبول کرلیا تو تمہیں اپنے علم ہی کے راستے پر چلائوں گا اور کسی کی کوئی بات یا سرزنش نہیں سنوں گا ۔لیکن اگر تم نے مجھے چھوڑ دیا تو تمہاری ہی ایک فرد کی طرح زندگی گزار دوں گا بلکہ شائد(۱) تم سب سے زیادہ تمہارے حاکم کے احکام کا خیال رکھو۔میں تمہارے لئے وزیر کی حیثیت سے امیر کی بہ نسبت زیادہ بہتر رہوں گا۔

(۹۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آپ نے اپنے علم و فضل سے آگاہ کرتے ہوئے بنی امیہ کے فتنہ کی طرف متوجہ کیا ہے )

حمدوثنائے پروردگار کے بعد۔لوگو! یادرکھو میں(۱) نے فتنہ کی آنکھ کو پھوڑ دیاہے اور یہ کام میرے علاوہ کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا ہے

(۱)پیغمبر اسلام (ص) کے انتقال کے بعد جنازۂ رسول (ص) کو چھوڑ کر مسلمانوں کی خلافت سازی ' خلافت کے بعد امیرالمومنین سے مطالبہ بیعت۔ابو سفیان کی طرف سے حمایت کی پیش کش۔فدک کا غاصبانہ قبضہ۔دروازہ کا جلایا جانا' پھر ابو بکر کی طرف سے عمر کی نامزدگی ۔پھر عمر کی طرف سے شوریٰ کے ذریعہ عثمان کی خلافت ۔پھر طلحہ و زبیر اورعائشہ کی بغاوت اور پھرخوارج کا دین سے خروج۔یہ وہ فتنے تھے جن میں سے کوئی ایک بھی اسلام کو تباہ کردینے کے لئے کافی تھا۔اگر امیر المومنین نے مکمل صبرو تحمل کامظاہرہ نہ کیا ہوتا اور سخت ترین حالات پر سکوت اختیار نہ فرمایاہوتا۔اسی سکوت اور تحمل کو فتنوں کی آنکھ پھوڑ دینے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کے بعد علمی فتنوں سے بچنے کا ایک راستہ یہ بتا دیا گیا ہے کہ جو چاہو دریافت کرلو' میں قیامت تک کے حالات سے با خبر کر سکتا ہوں ۔( روحی لہ الفدائ)

۱۵۹

بَعْدَ أَنْ مَاجَ غَيْهَبُهَا واشْتَدَّ كَلَبُهَا فَاسْأَلُونِي قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِي - فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِه - لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ - فِيمَا بَيْنَكُمْ وبَيْنَ السَّاعَةِ - ولَا عَنْ فِئَةٍ تَهْدِي مِائَةً وتُضِلُّ مِائَةً - إِلَّا أَنْبَأْتُكُمْ بِنَاعِقِهَا وقَائِدِهَا وسَائِقِهَا ومُنَاخِ رِكَابِهَا - ومَحَطِّ رِحَالِهَا - ومَنْ يُقْتَلُ مِنْ أَهْلِهَا قَتْلًا - ومَنْ يَمُوتُ مِنْهُمْ مَوْتاً - ولَوْ قَدْ فَقَدْتُمُونِي - ونَزَلَتْ بِكُمْ كَرَائِه الأُمُورِ - وحَوَازِبُ الْخُطُوبِ - لأَطْرَقَ كَثِيرٌ مِنَ السَّائِلِينَ - وفَشِلَ كَثِيرٌ مِنَ الْمَسْئُولِينَ - وذَلِكَ إِذَا قَلَّصَتْ حَرْبُكُمْ وشَمَّرَتْ عَنْ سَاقٍ - وضَاقَتِ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ ضِيقاً - تَسْتَطِيلُونَ مَعَه أَيَّامَ الْبَلَاءِ عَلَيْكُمْ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّه لِبَقِيَّةِ الأَبْرَارِ مِنْكُمْ.

إِنَّ الْفِتَنَ إِذَا أَقْبَلَتْ شَبَّهَتْ وإِذَا أَدْبَرَتْ نَبَّهَتْ - يُنْكَرْنَ مُقْبِلَاتٍ - ويُعْرَفْنَ مُدْبِرَاتٍ - يَحُمْنَ حَوْمَ الرِّيَاحِ يُصِبْنَ بَلَداً - ويُخْطِئْنَ بَلَداً

جب کہ اس کی تاریکیاں تہ و بالا ہو رہی ہیں اور اس کی دیوانگی کامرض شدید ہوگیا ہے۔اب تم مجھ سے جو چاہو دریافت کرلو قبل اس کے کہ تمہارے درمیان نہ رہ جائوں۔اس پروردگار کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم اب سے قیامت تک کے درمیان جس چیز کے بارے میں سوال کرو گے اور جس گروہ کے بارے میں دریافت کرو گے جو سو افراد کو ہدایت دے اور سو کو گمراہ کردے تو میں اس کے للکارنے والے۔کھینچنے والے ' ہنکانے والے' سواریوں کے قیام کی منزل' سامان اتارنے کی جگہ' کون ان میں سے قتل کیا جائے گا ' کون اپنی موت سے مرے گا۔سب بتادوں گا۔حالانکہ اگریہ بدترین حالات اورسخت ترین مشکلات میرے بعد پیش آئے تو دریافت کرنے والا بھی پریشانی سے سرجھکا لے گا اور جس سے دریافت کیاجائے گا وہ بھی بتانے سے عاجز رہے گا اور یہ سب اس وقت ہوگا جب تم پرجنگیں پوری تیری کے ساتھ ٹوٹ پڑیں گی اور دنیا اس طرح تنگ ہوجائے گی کہ مصیبت کے دن طولانی محسوس ہونے لگیں گے۔یہاں تک کہ اللہ باقی ماندہ نیک بندوں کو کامیابی عطا کردے۔

یاد رکھو فتنے جب آتے ہیں تو لوگوں کو شبہات میں ڈال دیتے ہیں اور جب جاتے ہیں تو ہوشیار کرجاتے ہیں۔یہ آتے وقت نہیں پہچانے جاتے ہیں لیکن جب جانے لگتے ہیں۔تو پہچان لئے جاتے ہیں۔ہوائوں کی طرح چکر لگاتے رہتے ہیں۔کسی شہر کو اپنی زد میں لے لیتے ہیں اور کسی کو نظرانداز کر دیتے ہیں

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

خندق کھورنے لگے امیر المؤمنین کھدی ہوئی مٹی کو خندق سے نکال کر باہر لے جار رہے تھے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اتنا کام کیا کہ پسینہ سے تر ہوگئے اور تھکاوٹ کے آثار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ سے نمایاں تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''لا عیش لا عیش الاخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرین '' (۱)

آخرت کے آرام کے سوا اور کوئی آرام نہیں ہے اے اللہ مہاجرین و انصار کی مغفرت فرما_

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بہ نفس نفیس خندق کھودنے اور مٹی اٹھانے میں منہمک میں تو ان کو اور زیادہ جوش سے کام کرنے لگے_

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں : خندق کھودتے کھودتے ہم ایک بہت ہی سخت جگہ پر پہونچے ہم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اب کیا کیا جائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : وہاں تھوڑا پانی ڈال دو اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں خود تشریف لائے حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھو کے بھی تھے اور پشت پر پتھر باندھے ہوئے تھے لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین مرتبہ خدا کا نام زبان پر جاری کرنے کے بعد اس جگہ پر ضرب لگائی تو وہ جگہ بڑی آسانی سے کھد گئی_(۲)

عمرو بن عوف کہتے ہیں کہ میں اور سلمان اور انصار میں سے چند افراد مل کر چالیس ہاتھ کے قریب زمین کھود رہے تھے ایک جگہ سخت پتھر آگیا جس کی وجہ سے ہمارے آلات ٹوٹ

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲ ص ۲۱۸) _

۲ (بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۱۸۱

گئے ہم نے سلمان سے کہا تم جاکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ماجرا بیان کردو سلمان نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سارا واقعہ بیان کردیاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود تشریف لائے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند ضربوں میں پتھر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا _(۱)

کھانا تیار کرنے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت

جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اصحاب اپنی سواریوں سے اترے اور اپنا سامان اتار لیا تو یہ طے پایا کہ بھیڑ کو ذبح کرکے کھانا تیار کیا جائے _

اصحاب میں سے ایک نے کہا گوسفند ذبح کرنے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے ، دوسرے نے کہا اس کی کھال میں اتاروں گا ، تیسرے نے کہا گوشت میں پکاؤں گا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جنگل سے لکڑی لانے کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زحمت نہ فرمائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آرام سے بیٹھیں ان سارے کاموں کو ہم لوگ فخر کے ساتھ انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ سارا کام کرلو گے لیکن خدا کسی بندہ کو اس کے دوستوں کے درمیان امتیازی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتا _پھر اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحرا کی جانب گئے اور وہاں سے لکڑی و غیرہ جمع کرکے لے آئے _(۲)

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۲) ( داستان راستان منقول از کحل البصر ص ۶۸)_

۱۸۲

شجاعت کے معنی :

شجاعت کے معنی دلیری اور بہادری کے ہیں علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے یہ ایک ایسی غصہ والی طاقت ہے جس کے ذریعہ نفس اس شخص پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے دشمنی ہوجاتی ہے _(۱)

جب میدان کا رزار گرم ہو اور خطرہ سامنے آجائے تو کسی انسان کی شجاعت اور بزدلی کا اندازہ ایسے ہی موقع پر لگایا جاتا ہے _

شجاعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

صدر اسلام میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تاریخ کی گواہی کے مطابق اس میں کامیابی کی بہت بڑی وجہ حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت تھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس بہت سی جنگوں میں موجود تھے اور جنگ کی کمان اپنے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تھے _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت علیعليه‌السلام کی زبانی :

تقریبا چالیس سال کا زمانہ علیعليه‌السلام نے میدان جنگ میں گذارا عرب کے بڑے بڑے

___________________

۱) (لغت نامہ دہخدا مادہ شجاعت)

۱۸۳

پہلوانوں کو زیر کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ بیان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کی بہترین دلیل ہے کہ آپعليه‌السلام فرماتا ہیں :

''کنا اذا احمر الباس و القی القوم اتقینا برسول الله فما کان احد اقرب الی العدو منه'' (۱)

جب جنگ کی آگ بھڑکتی تھی اور لشکر آپس میں ٹکراتے تھے تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لیتے تھے ایسے موقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک ہوئے تھے_

دوسری جگہ فرماتے ہیں :

''لقد رایتنی یوم بدر و نحن نلوذ بالنبی و هو اقربنا الی العدو و کان من اشد الناس یومئذ'' (۲)

بے شک تم نے مجھ کو جنگ بدر کے دن دیکھا ہوگا اس دن ہم رسول خدا کی پناہ میں تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک اور لشکر میں سب سے زیادہ قوی تھے_

جنگ '' حنین '' میں براء بن مالک سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کے بارے میں دوسری روایت نقل ہوئے ہے جب قبیلہ قیس کے ایک شخص نے براء سے پوچھا کہ کیا تم جنگ حنین کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تم نے ان کی مدد نہیں کی

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳) _

۲) ( الوفا باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۴

تھی ؟ تو انہوں نے کہا :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محاذ جنگ سے فرار نہیں اختیار کیا قبیلہ '' ہوازان '' کے افراد بڑے ماہر تیرانداز تھے _ ابتداء میں جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے فرار اختیار کیا _ جب ہم نے یہ ماحول دیکھا تو ہم مال غنیمت لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے ، اچانک انہوں نے ہم پر تیروں سے حملہ کردیا ہیں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ وہ سفید گھوڑے پر سوارہیں_ ابو سفیان بن حارث نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما رہے ہیں :

''اناالنبی لا کذب و انا بن عبدالمطلب'' (۱)

میں راست گو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں میں فرزند عبدالمطلب ہوں _

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۵

خلاصہ درس :

۱ _ باہمی امداد اور تعاون معاشرتی زندگی کی اساس ہے اس سے افراد قوم کے دلوں میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے _

۲ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف باہمی تعاون کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے کام میں خود بھی شریک ہوجاتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل سے باہمی تعاون کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے _

۳_شجاعت کے معنی میدان کار زار میں دلیری اور بہادری کے مظاہرہ کے ہیں اور علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے _

۴_ تاریخ گواہ ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ہیں ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور استقامت فتح کا سب سے اہم سبب تھا_

۵_ امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جنگ بدر کے دن ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لے لی اور وہ دشمنوں کے سب سے زیادہ قریب تھے اور اس دن تمام لوگوں میں سے سب زیادہ قوی اور طاقت ور تھے_

۱۸۶

سوالات :

۱_ باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کی اہمیت کو ایک روایت کے ذریعے بیان کیجئے؟

۲_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ابوطالب کے ساتھ کس زمانہ اور کس چیز میں تعاون تھا ؟

۳ _ وہ امور جن کا تعلق معاشرتی امور سے تھا ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا روش تھی مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۴_ شجاعت کا کیا مطلب ہے ؟

۵_ علمائے اخلاق نے شجاعت کی کیا تعریف کی ہے ؟

۶_ جنگوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کیا تھی ؟ بیان کیجئے؟

۱۸۷

تیرہواں سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بخشش و عطا )

دین اسلام میں جس صفت اور خصلت کی بڑی تعریف کی گئی ہے اور معصومینعليه‌السلام کے اقوال میں جس پر بڑا زور دیا گیا ہے وہ جود و سخا کی صفت ہے _

سخاوت عام طور پر زہد اور دنیا سے عدم رغبت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اور یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء کرامعليه‌السلام سب سے بڑے زاہد اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے افراد تھے اس بنا پر سخاوت کی صفت بھی زہد کے نتیجہ کے طور پر ان کی ایک علامت اور خصوصیت شمار کی جاتی ہے _

اس خصوصیت کا اعلی درجہ یعنی ایثار تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصاً پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ما جبل الله اولیائه الا علی السخا ء و حسن الخلق'' (۱)

___________________

۱) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی )_

۱۸۸

سخاوت اور حسن خلق کی سرشت کے بغیر خدا نے اپنے اولیاء کو پیدا نہیں کیا ہے _

سخاوت کی تعریف :

سخاوت یعنی مناسب انداز میں اس طرح فائدہ پہونچانا کہ اس سے کسی غرض کی بونہ آتی ہو اور نہ اس کے عوض کسی چیز کا تقاضا ہو(۱)

اسی معنی میں سخی مطلق صرف خدا کی ذات ہے جس کی بخشش غرض مندی پر مبنی نہیں ہے انبیاءعليه‌السلام خدا '' جن کے قافلہ سالار حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب اور اخلاق الہی سے مزین ہیں'' سخاوت میں تمام انسانوں سے نمایان حیثیت کے مالک ہیں _

علماء اخلاق نے نفس کے ملکات اور صفات کو تقسیم کرتے ہوئے سخاوت کو بخل کا مد مقابل قرار دیا ہے اس بنا پر سخاوت کو اچھی طرح پہچاننے کے لئے اس کی ضد کو بھی پہچاننا لازمی ہے _

مرحوم نراقی تحریر فرماتے ہیں :'' البخل هو الامساک حیث ینبغی البذل کما ان الاسراف هو البذل حیث ینبغی الامساک و کلا هما مذمومان و المحمود هو الوسط و هو الجود و السخا ء'' (۲) بخشش کی جگہ پر بخشش و عطا

___________________

۱) ( فرہنگ دہخدا ، منقول از کشاف اصطلاحات الفنون)_

۲) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت)_

۱۸۹

نہ کرنا بخل ہے اور جہاں بخشش کی جگہ نہیں ہے وہاں بخشش و عطا سے کام لینا اسراف ہے یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ میں ان میں سے نیک صفت وہ ہے جو درمیانی ہے اور وہ ہے جودوسخا_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن نے کہا ہے :

( لا تجعل یدک مغلولة الی عنقک و لا تبسطها کل البسط فتقعد ملوما محسورا ) (۱)

اپنے ہاتھوں کو لوگوں پر احسان کرنے میں نہ تو بالکل بندھا ہوا رکھیں اور نہ بہت کھلا ہوا ان میں سے دونوں باتیں مذمت و حسرت کے ساتھ بیٹھے کا باعث ہیں _

اپنے اچھے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :

( و الذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا و کان بین ذالک قواما ) (۲)

اور وہ لوگ جو مسکینوں پر انفاق کرتے وقت اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ احسان میں میانہ رو ہوتے ہیں _

مگر صرف انہیں باتوں سے سخاوت متحقق نہیں ہوتی بلکہ دل کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے مرحوم نراقی لکھتے ہیں :''و لا یکفی فی تحقق الجود و السخا ان یفعل

___________________

۱) ( الاسراء ۲۹) _

۲) (فرقان ۶۷) _

۱۹۰

ذلک بالجوارح ما لم یکن قلبه طیبا غیر منازع له فیه'' (۱) سخاوت کے تحقق کیلئے صرف سخاوت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دل کا بھی اس کام پر راضی ہونا اور نزاع نہ کرنا ضروری ہے _

سخاوت کی اہمیت :

اسلام کی نظر میں سخاوت ایک بہترین اور قابل تعریف صفت ہے اس کی بہت تاکید بھی کی گئی ہے نمونہ کے طور پر اس کی قدر و قیمت کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں_

''السخا شجرة من شجر الجنة ، اغصانها متدلیة علی الارض فمن اخذ منها غصنا قاده ذالک الغصن الی الجنة '' (۲)

سخاوت جنت کا ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں زمین پر جھکی ہوئی ہیں جو اس شاخ کو پکڑلے وہ شاخ اسے جنت تک پہونچا دے گی _

''قال جبرئیل: قال الله تعالی : ان هذا دین ارتضیته لنفسی و لن یصلحه الا السخاء و حسن الخلق فاکرموه بهما ما استطعم '' (۳)

___________________

۱) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت )_

۲) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی ) _

۳) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷ فیض کاشانی ) _

۱۹۱

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خدا سے نقل کیا ہے کہ خداوند فرماتا ہے : اسلام ایک ایسا دین ہے جس کو میں نے اپنے لیئے منتخب کر لیا ہے اس میں جود و سخا اور حسن خلق کے بغیر بھلائی نہیں ہے پس اس کو ان دو چیزوں کے ساتھ ( سخاوت او حسن خلق ) جہاں تک ہوسکے عزیز رکھو _

''تجافوا عن ذنب السخی فان الله آخذ بیده کلما عثر'' (۱) سخی کے گناہوں کو نظر انداز کردو کہ خدا ( اس کی سخاوت کی وجہ سے ) لغزشوں سے اس کے ہاتھ روک دیتا ہے _

سخاوت کے آثار :

خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب چیز ہے کہ بہت سی جگہوں پر اس نے سخاوت کی وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے ساتھ مدارات کا حکم دیا ہے_

۱ _ بہت بولنے والا سخی

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ یمن سے ایک وفدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کیلئے آیا ان میں ایک ایسا بھی شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بڑی باتیں اور جدال کرنے والا شخص تھا اس نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ غصہ کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابرو اور چہرہ سے پسینہ ٹپکنے لگا _

___________________

۱) (جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۷ مطبوعہ بیروت )_

۱۹۲

اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سلام کہا ہے اور ارشاد فرمایا: کہ یہ شخص ایک سخی انسان ہے جو لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے _ یہ بات سن کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ کم ہوگیا اس شخص کی طرف مخاطب ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر جبرئیل نے مجھ کو یہ خبر نہ دی ہوتی کہ تو ایک سخی انسان ہے تو میں تیرے ساتھ بڑا سخت رویہ اختیار کرتا ایسا رویہ جس کی بنا پر تودوسروں کے لئے نمونہ عبرت بن جاتا _

اس شخص نے کہا : کہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا سخاوت کو پسند کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا : ہاں ، اس شخص نے یہ سن کے کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کیا اور کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں نے آج تک کسی کو اپنے مال سے محروم نہیں کیا ہے(۱)

۲_سخاوت روزی میں اضافہ کا سبب ہے :

مسلمانوں میں سخاوت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ روزی کے معاملہ میں خدا پر توکل کرتے ہیں جو خدا کو رازق مانتا ہے اور اس بات کا معتقد ہے کہ اس کی روزی بندہ تک ضرور پہنچے گی وہ بخشش و عطا سے انکار نہیں کرتا اس لئے کہ اس کو یہ معلوم ہے کہ خداوند عالم اس کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا _

انفاق اور بخشش سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معراج کے واقعات بتاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے_

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۲ ص ۸۴)_

۱۹۳

''و رایت ملکین ینادیان فی السماء احدهما یقول : اللهم اعط کل منفق خلفا و الاخر یقول : اللهم اعط کل ممسک تلفا'' (۱)

میں نے آسمان پر دو فرشتوں کو آواز دیتے ہوئے دیکھا ان میں سے ایک کہہ رہا تھا خدایا ہر انفاق کرنے والے کو اس کا عوض عطا کر _ دوسرا کہہ رہا تھا ہر بخیل کے مال کو گھٹادے _

دل سے دنیا کی محبت کو نکالنا :

بخل کے مد مقابل جو صفت ہے اس کا نام سخاوت ہے _ بخل کا سرچشمہ دنیا سے ربط و محبت ہے اس بنا پر سخاوت کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے اندر دنیا کی محبت ختم ہوجاتی ہے _ اس کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے اور اس جگہ حقیقی محبوب کا عشق سماجاتا ہے _

اصحاب کی روایت کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سخاوت

جناب جابر بیان کرتے ہیں :

''ما سئل رسول الله شیئا قط فقال : لا'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' نہیں '' نہیں فرمایا _

امیرالمؤمنینعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں ہمیشہ فرمایا کرتے تھے :

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۱۸ ص ۳۲۳) _

۲) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۱) _

۱۹۴

'' کان اجود الناس کفا و اجرا الناس صدرا و اصدق الناس لهجةو اوفاهم ذمة و الینهم عریکهة و اکرمهم عشیرة من راه بدیهة هابه و من خالطه معرفة احبه لم ارقبله و بعده مثله '' (۱)

بخشش و عطا میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ سب سے زیادہ کھلے ہوئے تھے_ شجاعت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ تھا ، آپ کی زبان سب سے زیادہ سچی تھی ، وفائے عہد کی صفت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سب سے زیادہ موجود تھی ، تمام انسانوں سے زیادہ نرم عادت کے مالک تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان تمام خاندانوں سے زیادہ بزرگ تھا ، آپ کو جو دیکھتا تھا اسکے اوپر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور جب کوئی معرفت کی غرض سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بیٹھتا تھا وہ اپنے دل میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت لیکر اٹھتا تھا _ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے یا آپ کے بعد کسی کو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا نہیں پایا _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقبول کی یہ صفت تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو بھی ملتا تھا وہ عطا کردیتے تھے اپنے لئے کوئی چیز بچاکر نہیں رکھتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے نوے ہزار درہم لایا گیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان درہموں کو تقسیم کردیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی ساءل کو واپس نہیں کیا جب تک اسے فارغ نہیں کیا _(۲)

___________________

۱) ( مکارم الاخلاق ص ۱۸) _

۲) (ترجمہ احیاء علوم الدین ج ۲ ص ۷۱)_

۱۹۵

خلاصہ درس :

۱) اسلام نے جس چیز کی تاکید کی اور جس پر سیرت معصومینعليه‌السلام کی روایتوںمیں توجہ دلائی گئی ہے وہ سخاوت کی صفت ہے _

۲) تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصا ً پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صفت کے اعلی درجہ '' ایثار '' فائز تھے _

۳) سخاوت یعنی مناسب جگہوں پر اس طرح سے فائدہ پہونچانا کہ غرض مندی کی بو اس میں نہ آتی ہوا اور نہ کسی عوض کے تقاضے کی فکر ہو _

۴) سخاوت بخل کی ضد ہے بخل اور اسراف کے درمیان جو راستہ ہے اس کا نام سخاوت ہے_

۵)خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب صفت ہے کہ اس نے اپنے حبیب کو کافر سخی انسان کی عزت کرنے کا حکم دیا _

۶) انفاق اور بخشش نعمت و روزی میں اضافہ کا سبب ہے_

۷)رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو ملتا تھا اس کو بخش دیا کرتے تھے اپنے پاس بچاکر کچھ بھی نہیں رکھتے تھے_

۱۹۶

سوالات :

۱_ جود و سخاوت کا کیا مطلب ہے ؟

۲_ سب سے اعلی درجہ کی سخاوت کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے ؟

۳_قرآن کریم کی ایک آیت کے ذریعہ سخاوت کے معنی بیان کیجئے؟

۴_ سخاوت کی اہمیت اور قدر و قیمت بتانے کیلئے ایک روایت پیش کیجئے؟

۵_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جودو سخا کی ایک روایت کے ذریعے وضاحت کیجئے؟

۱۹۷

چودھواں سبق:

(سخاوت ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خداداد صفت )

ابن عباس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول نقل کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انا ادیب الله و علی ادیبی امرنی ربی بالسخاء و البر و نهانی عن البخل و الجفاء و ما شئ ابغض الی الله عزوجل من البخل و سوء الخلق و انه لیفسد العمل کما یفسد الخل العسل '' (۱)

میری تربیت خدا نے کی ہے اور میں نے علی علیہ السلام کی تربیت کی ہے ، خدا نے مجھ کو سخاوت اور نیکی کا حکم دیا ہے اور اس نے مجھے بخل اور جفا سے منع کیا ہے ، خدا کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ برا اخلاق عمل کو اسی طرح خراب کردیتا ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے _ جبیربن مطعم سے منقول ہے کہ ''حنین'' سے واپسی کے بعد ، اعراب مال غنیمت میں سے اپنا حصہ لینے کیلئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارد گرد اکھٹے ہوئے اور بھیڑ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ردا اچک لے گئے _

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۱۷_

۱۹۸

حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ردوا علی ردائی اتخشون علی البخل ؟ فلو کان لی عدد هذه العضاة ذهبا لقسمته بینکم و لا تجدونی بخیلا و لا کذابا و لا جبانا'' (۱)

میری ردا مجھ کو واپس کردو کیا تم کو یہ خوف ہے کہ میں بخل کرونگا ؟ اگر اس خار دار جھاڑی کے برابر بھی سونا میرے پاس ہو تو میں تم لوگوں کے درمیان سب تقسیم کردوں گا تم مجھ کو بخیل جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے _

صدقہ کو حقیر جاننا

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ : ایک دن ایک ساءل میرے گھر آیا ، میں نے کنیز سے کہا کہ اس کو کھانا دیدو ، کنیز نے وہ چیز مجھے دکھائی جو اس ساءل کو دینی تھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے عائشہ تم اس کو گن لوتا کہ تمہارے لئے گنا نہ جائے_(۲)

انفاق کے سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ انفاق کرنے والا اپنے اس عمل کو بڑا نہ سمجھے ورنہ اگر کوئی کسی عمل کو بہت عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اندر غرور اور خود پسندی پیدا ہوگی کہ جو اسے کمال سے دور کرتی ہے یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کو لگ جاتی ہے اس کو ہلاکت اور رسوائی تک پہونچا دیتی ہے _

___________________

۱) الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۲ _

۲) شرف النبی ج ۶۹_

۱۹۹

اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد :

'' رایت المعروف لا یصلح الابثلاث خصال : تصغیره و تستیره و تعجیله ، فانت اذا صغرته عظمته من تصنعه الیه و اذا سترته تممته و اذا عجلته هناته و ان کان غیر ذلک محقته و نکدته'' (۱)

نیک کام میں بھلائی نہیں ہے مگر تین باتوں کی وجہ سے اس کو چھوٹا سمجھنے ، چھپا کر صدقہ دینے اور جلدی کرنے سے اگر تم اس کو چھوٹا سمجھ کر انجام دو گے تو جس کے لئے تم وہ کام کررے ہو اس کی نظر میں وہ کام بڑا شمار کیا جائیگا اگر تم نے اسے چھپا کر انجام دیا تو تم نے اس کام کو کمال تک پہونچا دیا اگر اس کو کرنے میں جلدی کی تو تم نے اچھا کام انجام دیا اس کے علاوہ اگر دوسری کوئی صورت اپنائی ہو تو گویا تم نے ( اس نیک کام ) کو برباد کردیا _

اس طرح کے نمونے ائمہ کی سیرت میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں ،رات کی تاریکی میں روٹیوں کا بورا پیٹھ پر لاد کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا عمل حضرت امیرالمومنین اور معصومین علیہم السلام کی زندگی میں محتاج بیان نہیں ہے _

___________________

۱) (جامع السعادہ ج ۲ ص ۱۳۵)_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863