نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 629930
ڈاؤنلوڈ: 15074

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 629930 / ڈاؤنلوڈ: 15074
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

أَلَا وإِنَّ أَخْوَفَ الْفِتَنِ عِنْدِي عَلَيْكُمْ فِتْنَةُ بَنِي أُمَيَّةَ فَإِنَّهَا فِتْنَةٌ عَمْيَاءُ مُظْلِمَةٌ عَمَّتْ خُطَّتُهَا وخَصَّتْ بَلِيَّتُهَا،وأَصَابَ الْبَلَاءُ مَنْ أَبْصَرَ فِيهَا - وأَخْطَأَ الْبَلَاءُ مَنْ عَمِيَ عَنْهَا –

وايْمُ اللَّه لَتَجِدُنَّ بَنِي أُمَيَّةَ لَكُمْ - أَرْبَابَ سُوءٍ بَعْدِي كَالنَّابِ الضَّرُوسِ تَعْذِمُ بِفِيهَا وتَخْبِطُ بِيَدِهَا - وتَزْبِنُ بِرِجْلِهَا وتَمْنَعُ دَرَّهَا لَا يَزَالُونَ بِكُمْ حَتَّى لَا يَتْرُكُوا مِنْكُمْ إِلَّا نَافِعاً لَهُمْ - أَوْ غَيْرَ ضَائِرٍ بِهِمْ ولَا يَزَالُ بَلَاؤُهُمْ عَنْكُمْ - حَتَّى لَا يَكُونَ انْتِصَارُ أَحَدِكُمْ مِنْهُمْ - إِلَّا كَانْتِصَارِ الْعَبْدِ مِنْ رَبِّه - والصَّاحِبِ مِنْ مُسْتَصْحِبِه - تَرِدُ عَلَيْكُمْ فِتْنَتُهُمْ شَوْهَاءَ مَخْشِيَّةً وقِطَعاً جَاهِلِيَّةً - لَيْسَ فِيهَا مَنَارُ هُدًى ولَا عَلَمٌ يُرَى

نَحْنُ أَهْلَ الْبَيْتِ مِنْهَا بِمَنْجَاةٍ ولَسْنَا فِيهَا بِدُعَاةٍ - ثُمَّ يُفَرِّجُهَا اللَّه عَنْكُمْ كَتَفْرِيجِ الأَدِيمِ بِمَنْ يَسُومُهُمْ خَسْفاً ويَسُوقُهُمْ عُنْفاً - ويَسْقِيهِمْ بِكَأْسٍ مُصَبَّرَةٍ لَا يُعْطِيهِمْ إِلَّا السَّيْفَ -

یاد رکھو میری نگاہ میں سب سے خوفناک فتنہ بنی امیہ کا ہے جو خود بھی اندھا ہوگا اوردوسروں کو بھی اندھیرے میں رکھے گا۔اس کے خطوط عام ہوں گے لیکن اس کی بلاخاص لوگوں کے لئے ہوگی جو اس فتنہ میں آنکھ کھولے ہوں گے ورنہ اندھوں کے پاس سے بآسانی گذر جائے گا۔

خدا کی قسم!تم بنی امیہ کو میرے بعد بد ترین صاحبان اقتدار پائو گے جن کی مثال اس کاٹنے والی اونٹنی کی ہوگی جومنہ سے کاٹے گی اور ہاتھ مارے گی یا پائوں چلائے اور دودھ نہ دوہنے دے گی اور یہ سلسلہ یوں ہی بر قرار رہے گا جس سے صرف وہ افراد بچیں گے جوان کے حق میں مفید ہوں یا کم سے کم نقصان دہ نہ ہوں۔یہ مصیبت تمہیں اسی طرح گھیرے رہے گی یہاں تک کہ تمہاری داد خواہی ایسے ہی ہوگی جیسے غلام اپنے آقا سے یا مرید اپنے پیر سے انصاف کا تقاضا کرے۔تم پر ان کا فتنہ ایسی بھیانک شکل میں وارد ہوگا جس سے ڈر لگے گا اور اس میں جاہلیت کے اجزا بھی ہوں گے۔نہ کوئی منارہ ہدایت ہوگا اور نہ کوئی راستہ دکھانے والا پرچم۔

بس ہم اہل بیت ہیں جو اس فتنہ سے محفوظ رہیں گے اور اس کے داعیوں میں سے نہ ہوں گے۔اس کے بعد اللہ تم سے اس فتنہ کو اس طرح الگ کردے گا جس طرح جانور کی کھال اتاردی جاتی ہے۔اس شخص کے ذریعہ جو انہیں ذلیل کرے گا اور سختی سے ہنکائے گا اور موت کے تلخ گھونٹ پلائے گا اور تلوارکے علاوہ کچھ نہ دے گا اور

۱۶۱

ولَا يُحْلِسُهُمْ إِلَّا الْخَوْفَ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَوَدُّ قُرَيْشٌ بِالدُّنْيَا - ومَا فِيهَا لَوْ يَرَوْنَنِي مَقَاماً وَاحِداً - ولَوْ قَدْرَ جَزْرِ جَزُورٍ لأَقْبَلَ مِنْهُمْ مَا أَطْلُبُ الْيَوْمَ بَعْضَه فَلَا يُعْطُونِيه!

(۹۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف اللَّه تعالى ثم يبين فضل الرسول الكريم وأهل بيته ثم يعظ الناس

اللَّه تعالى

فَتَبَارَكَ اللَّه الَّذِي لَا يَبْلُغُه بُعْدُ الْهِمَمِ - ولَا يَنَالُه حَدْسُ الْفِطَنِ،الأَوَّلُ الَّذِي لَا غَايَةَ لَه فَيَنْتَهِيَ - ولَا آخِرَ لَه فَيَنْقَضِيَ.

ومنها في وصف الأنبياء

فَاسْتَوْدَعَهُمْ فِي أَفْضَلِ مُسْتَوْدَعٍ - وأَقَرَّهُمْ فِي خَيْرِ مُسْتَقَرٍّ - تَنَاسَخَتْهُمْ كَرَائِمُ الأَصْلَابِ إِلَى مُطَهَّرَاتِ الأَرْحَامِ

خوف کے علاوہ کوئی لباس نہ پہنائے گا۔وہ وقت ہوگا جب قریش کو یہ آرزد ہوگی کہ کاش دنیا اور اس کی تمام دولت دے کر ایک منزل پر مجھے دیکھ لیتے چاہے صرف اتنی دیر کے لئے جتنی دیرمیں ایک اونٹ نحر کیا جاتا ہے تاکہ میں ان سے اس چیز کو قبول کرلوں جس کا ایک حصہ آج مانگتا ہوں تووہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

(۹۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں پروردگار کے اوصاف ۔رسول اکرم (ص) اور اہل بیت اطہار کے فضائل اور موعظہ حسنہ کا ذکر کیا گیا ہے)

با برکت ہے وہ پروردگار جس کی ذات تک ہمتوں کی بلندیاں نہیں پہنچ سکتی ہیں اور عقل و فہم کی ذہانتیں اسے نہیں پا سکتی ہیں وہ ایسا اول ہے جس کی کوئی آخری حد نہیں ہے اور ایساآخر ہے جس کے لئے کوئی فنا نہیں ہے۔

(انبیاء کرام )

پروردگارنے انہیں بہترین مقامات پر ودیعت رکھااور بہترین منزل میں مستقر کیا۔وہ مسلسل شریف ترین(۱) اصلاب سے پاکیزہ ترین ارحام کی طرف منتقل ہوتے

(۱)امیر المومنین کا یہ ارشاد گرامی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انبیاء کرام کے آباء و اجداد اورامہات میں کوئی ایک بھی ایمان یا کردار کے اعتبار سے ناقص اور عیب دارنہیں تھا اور اس کے بعد اس بحث کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ یہ بات عقلی اعتبار سے ضروری ہے یا نہیں اور اس کے بغیر منصب کا جوازپیدا ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس لئے کہ اگر کافر اصلاب اوربے دین ارحام میں کوئی نقص نہیں تھا اور ناپاک ظرف منصب الٰہی کے حامل کے لئے نا مناسب نہیں تھا تو اس قدر اہتمام کی کیا ضرورت تھی کہ آدم سے لے کرخاتم تک کسی ایک مرحلہ پر بھی کوئی ناپاک صلب یا غیر طیب رحم داخل نہ ہونے پائے۔

۱۶۲

كُلَّمَا مَضَى مِنْهُمْ سَلَفٌ - قَامَ مِنْهُمْ بِدِينِ اللَّه خَلَفٌ.

رسول اللَّه وآل بيته

حَتَّى أَفْضَتْ كَرَامَةُ اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى إِلَى مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَأَخْرَجَه مِنْ أَفْضَلِ الْمَعَادِنِ مَنْبِتاً وأَعَزِّ الأَرُومَاتِ مَغْرِساً مِنَ الشَّجَرَةِ الَّتِي صَدَعَ مِنْهَا أَنْبِيَاءَه - وانْتَجَبَ مِنْهَا أُمَنَاءَه عِتْرَتُه خَيْرُ الْعِتَرِ وأُسْرَتُه خَيْرُ الأُسَرِ وشَجَرَتُه خَيْرُ الشَّجَرِ - نَبَتَتْ فِي حَرَمٍ وبَسَقَتْ فِي كَرَمٍ - لَهَا فُرُوعٌ طِوَالٌ وثَمَرٌ لَا يُنَالُ - فَهُوَ إِمَامُ مَنِ اتَّقَى وبَصِيرَةُ مَنِ اهْتَدَى - سِرَاجٌ لَمَعَ ضَوْؤُه وشِهَابٌ سَطَعَ نُورُه - وزَنْدٌ بَرَقَ لَمْعُه سِيرَتُه الْقَصْدُ وسُنَّتُه الرُّشْدُ وكَلَامُه الْفَصْلُ وحُكْمُه الْعَدْلُ - أَرْسَلَه عَلَى حِينِ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ - وهَفْوَةٍ عَنِ الْعَمَلِ وغَبَاوَةٍ مِنَ الأُمَمِ.

عظة الناس

اعْمَلُوا رَحِمَكُمُ اللَّه عَلَى أَعْلَامٍ بَيِّنَةٍ فَالطَّرِيقُ نَهْجٌ( يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ ) - وأَنْتُمْ فِي دَارِ مُسْتَعْتَبٍ عَلَى مَهَلٍ وفَرَاغٍ

رہے کہ جب کوئی بزرگ گزر گیا تو دین خدا کی ذمہ داری بعد والے نے سنبھال لی۔

رسول اکرم (ص)

یہاں تک کہ الٰہی شرف حضرت محمد مصطفی (ص)تک پہنچ گیا اور اس نے انہیں بہترین نشوونما کے معدن اورشریف ترین اصل کے مرکز کے ذریعہ دنیا میں بھیج دیا۔ اسی شجرۂ طیبہ سے جس سے انبیاء کو پیدا کیا اور اپنے امینوں کا انتخاب کیا۔پیغمبر (ص) کی عترت بہترین اور ان کاخاندان شریف ترین خاندان ہے۔ان کا شجرہ وہ بہترین شجرہ ے جو سرزمین حرم پر اگا ہے اور بزرگ کے سایہ میں پروان چڑھا ہے۔اس کی شاخیں بہت طویل ہیں اور اس کے پھل انسانی دسترس سے بالا تر ہیں۔وہ اہل تقویٰ کے امام اور طالبان ہدایت کے لئے سر چشمہ بصیرت ہیں۔وہ ایساچراغ ہیں جس کی روشنی لو دے رہی ہے اور ایسا ستارہ ہیں جس کا نور درخشاں ہے اور ایسا چقماق ہیں جس کی چمک برق آسا ہے۔ان کی سیرت میانہ روی' ان کی سنت رشد و ہدایت ' ان کا کلام حرف آخر اور ان کا فیصلہ عادلانہ ہے۔اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اور بدعملی کا دوردورہ تھا اور امت غفلت میں ڈوبی ہوئی تھی۔

(موعظہ)

دیکھو! خدا تم پر رحمت نازل کرے۔واضح نشانیوں پر عمل کرو کہ راستہ بالکل سیدھا ہے اوروہ جنت کی طرف دعوت دے رہا ہے اور تم ایسے گھرمیں ہو جہاں خوشنودی پروردگار حاصل کرنے کی مہلت اور فراغت

۱۶۳

والصُّحُفُ مَنْشُورَةٌ - والأَقْلَامُ جَارِيَةٌ - والأَبْدَانُ صَحِيحَةٌ - والأَلْسُنُ مُطْلَقَةٌ - والتَّوْبَةُ مَسْمُوعَةٌ - والأَعْمَالُ مَقْبُولَةٌ.

(۹۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يقرر فضيلة الرسول الكريم

بَعَثَه والنَّاسُ ضُلَّالٌ فِي حَيْرَةٍ - وحَاطِبُونَ فِي فِتْنَةٍ قَدِ اسْتَهْوَتْهُمُ الأَهْوَاءُ - واسْتَزَلَّتْهُمُ الْكِبْرِيَاءُ واسْتَخَفَّتْهُمُ الْجَاهِلِيَّةُ الْجَهْلَاءُ حَيَارَى فِي زَلْزَالٍ مِنَ الأَمْرِ وبَلَاءٍ مِنَ الْجَهْلِ - فَبَالَغَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فِي النَّصِيحَةِ - ومَضَى عَلَى الطَّرِيقَةِ - ودَعَا إِلَى الْحِكْمَةِ( والْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ) .

(۹۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في اللَّه وفي الرسول الأكرم

اللَّه تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الأَوَّلِ فَلَا شَيْءَ قَبْلَه - والآخِرِ فَلَا شَيْءَ بَعْدَه - والظَّاهِرِ فَلَا شَيْءَ فَوْقَه

حاصل ہے۔نامۂ اعمال کھلے ہوئے ہیں۔قلم قدرت چل رہا ہے۔بدن صحیح و سالم ہیں۔زبانیں آزاد ہیں ' تو بہ سنی جا رہی ہے اور اعمال قبول کئے جا رہے ہیں۔

(۹۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رسول اکرم (ص) کے فضائل و مناقب کا تذکرہ کیا گیا ہے )

اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں متحیر تھے۔اور فتنوں میں ہاتھ پائوں مار رہے تھے۔ خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرورنے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کردی تھی۔جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیاتھا اور وہ غیر یقینی حالات اورجہالت کی بلائوں میں حیران و سرگرداں تھے۔آپ نے نصیحت کا حق ادا کردیا ' سیدھے راستہ پرچلے اور لوگوں کو حکمت اورموعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔

(۹۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(حضرت رب العالمین اور رسول اکرم (ص) کے صفات کے بارے میں )

تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو ایسا اول ہے کہ اس سے پہلے کوئی شے نہیں ہے اور ایسا آخر ہے کہ اس کے بعد کوئی شے نہیں ہے۔وہ ظاہر ہے تو اس سے مافوق کچھ نہیں ہے

۱۶۴

والْبَاطِنِ فَلَا شَيْءَ دُونَه.

ومنها في ذكر الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

مُسْتَقَرُّه خَيْرُ مُسْتَقَرٍّ - ومَنْبِتُه أَشْرَفُ مَنْبِتٍ - فِي مَعَادِنِ الْكَرَامَةِ - ومَمَاهِدِ السَّلَامَةِ - قَدْ صُرِفَتْ نَحْوَه أَفْئِدَةُ الأَبْرَارِ - وثُنِيَتْ إِلَيْه أَزِمَّةُ الأَبْصَارِ - دَفَنَ اللَّه بِه الضَّغَائِنَ وأَطْفَأَ بِه الثَّوَائِرَ أَلَّفَ بِه إِخْوَاناً - وفَرَّقَ بِه أَقْرَاناً - أَعَزَّ بِه الذِّلَّةَ - وأَذَلَّ بِه الْعِزَّةَ - كَلَامُه بَيَانٌ وصَمْتُه لِسَانٌ.

(۹۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في أصحابه وأصحاب رسول اللَّه

أصحاب علي

ولَئِنْ أَمْهَلَ الظَّالِمَ - فَلَنْ يَفُوتَ أَخْذُه - وهُوَ لَه بِالْمِرْصَادِ عَلَى مَجَازِ طَرِيقِه - وبِمَوْضِعِ الشَّجَا مِنْ مَسَاغِ رِيقِه

اور باطن ہے تو اس سے قریب تر کوئی شے نہیں ہے۔

(رسول اکرم (ص) ) آپ کامستقر بہترین مستقر اور آپ کی نشوونما کی جگہ بہترین منزل ہے یعنی کرامتوں کا معدن اور سلامتی کامرکز نیک کرداروں کے دل آپ کی طرف جھکا دئیے گئے ہیں اور نگاہوں کے رخ آپ کی طرف موڑ دئیے گئے ہیں۔اللہ نے آپ کے ذریعہ کینوں کو دفن کردیا ہے اور عداوتوں کے شعلے بجھا دئیے ہیں۔لوگوں کو بھائی بھائی بنا دیا ہے اور کفر کی برادری کو منتشر کردیا ہے اہل ذلت کو عزیز بنا دیا ہے اور کفر کی عزت پر اکڑنے والوں کو ذلیل کردیا ہے ۔آپ کا کلام شریعت کا بیان ہے اور آپ کی خاموشی احکام(۱) کی زبان۔

(۹۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اپنے اصحاب اور اصحاب رسول اکرم (ص) کا موازنہ کیا گیا ہے)

اگر پروردگارنے ظالم کو مہلت دے رکھی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس کی گرفت سے باہر نکل گیا ہے۔یقینا وہ اس کی گزر گاہ اور اس کی گردن میں اچھو لگنے کی جگہ پر اس کی تاک میں ہے۔

(۱)علماء اصول کی زبان میں معصوم کی خاموشی کو تقریر سے تعبیر کیا جاتا ہے اوروہ اسی طرح حجت اور مدرک احکام ہے جس طرح معصوم کا قول و عمل حجت اور سند کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے احکام شریعت کا استنباط و استخراج کیا جاتا ہے۔عام انسانوں کی خاموشی دلیل رضا مندی نہیں بن سکتی ہے لیکن معصوم کی خاموشی دلیل احکام بھی بن سکتی ہے۔

۱۶۵

أَمَا والَّذِي نَفْسِي بِيَدِه - لَيَظْهَرَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ عَلَيْكُمْ - لَيْسَ لأَنَّهُمْ أَوْلَى بِالْحَقِّ مِنْكُمْ - ولَكِنْ لإِسْرَاعِهِمْ إِلَى بَاطِلِ صَاحِبِهِمْ وإِبْطَائِكُمْ عَنْ حَقِّي - ولَقَدْ أَصْبَحَتِ الأُمَمُ تَخَافُ ظُلْمَ رُعَاتِهَا - وأَصْبَحْتُ أَخَافُ ظُلْمَ رَعِيَّتِي - اسْتَنْفَرْتُكُمْ لِلْجِهَادِ فَلَمْ تَنْفِرُوا - وأَسْمَعْتُكُمْ فَلَمْ تَسْمَعُوا - ودَعَوْتُكُمْ سِرّاً وجَهْراً فَلَمْ تَسْتَجِيبُوا - ونَصَحْتُ لَكُمْ فَلَمْ تَقْبَلُوا - أَشُهُودٌ كَغُيَّابٍ وعَبِيدٌ كَأَرْبَابٍ - أَتْلُو عَلَيْكُمْ الْحِكَمَ فَتَنْفِرُونَ

مِنْهَا - وأَعِظُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ الْبَالِغَةِ - فَتَتَفَرَّقُونَ عَنْهَا - وأَحُثُّكُمْ عَلَى جِهَادِ أَهْلِ الْبَغْيِ - فَمَا آتِي عَلَى آخِرِ قَوْلِي - حَتَّى أَرَاكُمْ مُتَفَرِّقِينَ أَيَادِيَ سَبَا تَرْجِعُونَ إِلَى مَجَالِسِكُمْ - وتَتَخَادَعُونَ عَنْ مَوَاعِظِكُمْ - أُقَوِّمُكُمْ غُدْوَةً وتَرْجِعُونَ إِلَيَّ عَشِيَّةً - كَظَهْرِ الْحَنِيَّةِ عَجَزَ الْمُقَوِّمُ وأَعْضَلَ الْمُقَوَّم.

قسم ہے اس مالک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ یہ قوم یقینا تم پر غالب آجائے گی۔نہ اس لئے کہ وہ تم سے زیادہ حقدار ہیں(۲) بلکہ اس لئے کہ وہ اپنے امیر کے باطل کی فوراً اطاعت کر لیتے ہیں اورتم میرے حق میں ہمیشہ سستی سے کام لیتے ہو۔تمام دنیا کی قومیں اپنے حکام کے ظلم سے خوفزدہ ہیں اورمیں اپنی رعایا کے ظلم سے پریشان ہوں۔میں نے تمہیں جہاد کے لئے آمادہ کیا مگر تم نہ اٹھے۔موعظہ سنایا تو تم نے نہ سنا۔علی الاعلان اور خفیہ طریقہ سے دعوت دی لیکن تم نے لبیک نہ کہی اورنصیحت بھی کی تو اسے قبول نہ کیا۔تم ایسے حاضر ہو جیسے غائب اور ایسے اطاعت گذار ہوجیسے مالک میں تمہارے لئے حکمت آمیز باتیں کرتا ہوں اورتم بیزار ہو جاتے ہو۔بہترین نصیحت کرتا ہوں اورتم بھاگ کھڑے ہوتے ہو۔باغیوں کے جہاد پر آمادہ کرتا ہوں اور ابھی آخر کلام تک نہیں پہنچنے پاتا ہوں کہ تم سباکی اولاد کی طرح منتشر ہوجاتے ہو۔اپنی محفلوں کی طرف پلٹ جاتے ہو اور ایک دوسرے کے دھوکہ میں مبتلاہو جاتے ہو۔میں صبح کے وقت تمہیں سیدھا کرتا ہوں اور تم شام کے وقت یوں پلٹ کرآتے ہوجیسے کمان۔تمہیں سیدھا کرنے والا بھی عاجزآگیا اور تمہاری اصلاح بھی نا ممکن ہوگئی۔

(۲)خدا گواہ ہے کہ قائد کی تمام قائدانہ صلاحیتیں بیکار ہو کر رہ جاتی ہیں جب قوم اطاعت کے راستہ سے منحرف ہو جاتی ہے اور بغاوت پر آمادہ ہوجاتی ہے۔انحراف بھی اگر جہالت کی بناپر ہوتا ہے تو اس کی اصلاح کا امکان رہتا ہے۔لیکن مال غنیمت اور رشوت کا بزار گرم ہو جائے اوردولت دین کی قیمت بننے لگے تو وہاں ایک صحیح اورصالح قائد کا فرض قیامت انجام دینا تقریبا ً نا ممکن ہو کر رہ جاتا ہے اور اسے صبح و شام حالات کی فریاد ہی کرنا پڑتی ہے تاکہ قوم پرحجت تمام کردے اور مالک کی بارگاہ میں اپناعذر پیش کردے ۔

۱۶۶

أَيُّهَا الْقَوْمُ الشَّاهِدَةُ أَبْدَانُهُمْ - الْغَائِبَةُ عَنْهُمْ عُقُولُهُمْ - الْمُخْتَلِفَةُ أَهْوَاؤُهُمْ - الْمُبْتَلَى بِهِمْ أُمَرَاؤُهُمْ - صَاحِبُكُمْ يُطِيعُ اللَّه وأَنْتُمْ تَعْصُونَه - وصَاحِبُ أَهْلِ الشَّامِ يَعْصِي اللَّه - وهُمْ يُطِيعُونَه - لَوَدِدْتُ واللَّه أَنَّ مُعَاوِيَةَ صَارَفَنِي بِكُمْ - صَرْفَ الدِّينَارِ بِالدِّرْهَمِ - فَأَخَذَ مِنِّي عَشَرَةَ مِنْكُمْ - وأَعْطَانِي رَجُلًا مِنْهُمْ.

يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ - مُنِيتُ مِنْكُمْ بِثَلَاثٍ واثْنَتَيْنِ - صُمٌّ ذَوُو أَسْمَاعٍ - وبُكْمٌ ذَوُو كَلَامٍ - وعُمْيٌ ذَوُو أَبْصَارٍ - لَا أَحْرَارُ صِدْقٍ عِنْدَ اللِّقَاءِ - ولَا إِخْوَانُ ثِقَةٍ عِنْدَ الْبَلَاءِ - تَرِبَتْ أَيْدِيكُمْ - يَا أَشْبَاه الإِبِلِ غَابَ عَنْهَا رُعَاتُهَا - كُلَّمَا جُمِعَتْ مِنْ جَانِبٍ تَفَرَّقَتْ مِنْ آخَرَ - واللَّه لَكَأَنِّي بِكُمْ فِيمَا إِخَالُكُمْ - أَنْ لَوْ حَمِسَ الْوَغَى وحَمِيَ الضِّرَابُ - قَدِ انْفَرَجْتُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ - انْفِرَاجَ الْمَرْأَةِ عَنْ قُبُلِهَا وإِنِّي لَعَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي ومِنْهَاجٍ مِنْ نَبِيِّي - وإِنِّي لَعَلَى الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ - أَلْقُطُه لَقْطاً

اے وہ قوم جس کے بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب تمہارے خواہشات گونا گوں ہیں اورتمہارے حکام تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں۔تمہاری امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اورتم اس کی نا فرمانی کرتے ہو اور شام کا حاکم اللہ کی معصیت کرتا ہے اور اس کی قوم اس کی اطاعت کرتی ہے۔خدا گواہ ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ معاویہ مجھ سے درہم و دینار کا سودا کرلے کہتم میں کے دس لے کراپنا ایک دیدے۔ کوفہ والو! میں تمہاری وجہ سے تین طرح کی شخصیات اور دو طرح کی کیفیات سے دوچار ہوں ۔تم کان رکھنے والے بہرے ' زبان رکھنے والے گونگے اور آنکھ رکھنے والے اندھے ہو۔تمہاری حالت یہ ہے کہ نہ میدان جنگ کے سچے جواں مرد ہو اور نہ مصیبتوں میں قابل اعتماد ساتھی۔تمہارے ہاتھ خاک میں مل جائیں۔تم ان اونٹوں جیسے ہو جن کے چرانے والے گم ہو جائیں کہ جب ایک طرف سے جمع کئے جائیں تو دوسری طرف سے منتشر ہو جائیں۔خدا کی قسم: میں اپنے خیال کے مطابق تمہیں ایسا دیکھ رہا ہوں کہ اگر جنگ تیز ہوگئی اور میدان کا رزار گرم ہو گیا تو تم فرزندابو طالب سے اس بے شرمی کے ساتھ الگ ہو جائو گے جس طرح کوئی عورت برہنہ ہو جاتی ہے۔لیکن بہر حال میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل روشن رکھتا ہوں اور پیغمبر (ص) کے راستہ پرچل رہا ہوں ۔میرا راستہ بالکل روشن ہے جسے میں باطل کے اندھیروں میں بھی ڈھونڈھ لیتاہوں۔

۱۶۷

أصحاب رسول اللَّه

انْظُرُوا أَهْلَ بَيْتِ نَبِيِّكُمْ - فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ واتَّبِعُوا أَثَرَهُمْ - فَلَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ هُدًى - ولَنْ يُعِيدُوكُمْ فِي رَدًى - فَإِنْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا وإِنْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا - ولَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا - ولَا تَتَأَخَّرُوا عَنْهُمْ فَتَهْلِكُوا - لَقَدْ رَأَيْتُ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَمَا أَرَى أَحَداً يُشْبِهُهُمْ مِنْكُمْ - لَقَدْ كَانُوا يُصْبِحُونَ شُعْثاً غُبْراً وقَدْ بَاتُوا سُجَّداً وقِيَاماً - يُرَاوِحُونَ بَيْنَ جِبَاهِهِمْ وخُدُودِهِمْ - ويَقِفُونَ عَلَى مِثْلِ الْجَمْرِ مِنْ ذِكْرِ مَعَادِهِمْ - كَأَنَّ بَيْنَ أَعْيُنِهِمْ رُكَبَ الْمِعْزَى مِنْ طُولِ سُجُودِهِمْ - إِذَا ذُكِرَ اللَّه هَمَلَتْ أَعْيُنُهُمْ - حَتَّى تَبُلَّ جُيُوبَهُمْ - ومَادُوا كَمَا يَمِيدُ الشَّجَرُ يَوْمَ الرِّيحِ الْعَاصِفِ - خَوْفاً مِنَ الْعِقَابِ ورَجَاءً لِلثَّوَابِ!

(اصحاب رسول اکرم (ص))

دیکھو! اہل بیت پیغمبر (ص) پر نگاہ رکھو اور انہیں کے راستہ کو اختیار کرو انہیں کے نقش قدم پر چلتے رہوکہوہ نہ تمہیں ہدایت سے باہر لے جائیں گے اور نہ ہلاکت میں پلٹ کرجانے دیں گے۔وہ ٹھہر جائیں تو ٹھہر جائو اور اٹھ کھڑے ہوں تو کھڑے ہوجائو۔خبر دار ان سے آگے نہ نکل جانا کہ گمراہ ہو جائو اور پیچھے بھی نہ رہ جانا کہ ہلاک ہو جائو میں نے اصحاب پیغمبر(ص)کادور بھی دیکھا ہے مگر افسوس تم میں کا ایک بھی ان کا جیسا نہیں ہے۔وہ صبح کے وقت اس طرح اٹھتے تھے کہ بال الجھے ہوئے' سر پر خاک پڑی ہوئی جب کہ رات سجدہ اور قیام میں گذار چکے ہوتے تھے ۔اور کبھی پیشانی خاک پر رکھتے تھے اور کبھی رخسار قیامت کی یاد میں گویا انگاروں پر کھڑے رہتے تھے اور ان کی پیشانیوں پرسجدوں کی وجہ سے بکری کے گھٹنے جیسے گھٹے ہوتے تھے۔ان کے سامنے خدا کا ذکر آتا تھا توآنسو اس طرح برس پڑتے تھے کہ گریبان تک تر ہو جاتا تھا اوران کا جسم عذاب کے خوف اور ثواب کی امید میں اس طرح لرزتا تھا جس طرح سخت ترین آندھی کے دن کوئی درخت۔

۱۶۸

(۹۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يشير فيه إلى ظلم بني أمية

واللَّه لَا يَزَالُونَ - حَتَّى لَا يَدَعُوا لِلَّه مُحَرَّماً إِلَّا اسْتَحَلُّوه ولَا عَقْداً إِلَّا حَلُّوه - وحَتَّى لَا يَبْقَى بَيْتُ مَدَرٍ ولَا وَبَرٍ إِلَّا دَخَلَه ظُلْمُهُمْ - ونَبَا بِه سُوءُ رَعْيِهِمْ وحَتَّى يَقُومَ الْبَاكِيَانِ يَبْكِيَانِ - بَاكٍ يَبْكِي لِدِينِه - وبَاكٍ يَبْكِي لِدُنْيَاه - وحَتَّى تَكُونَ نُصْرَةُ أَحَدِكُمْ مِنْ أَحَدِهِمْ - كَنُصْرَةِ الْعَبْدِ مِنْ سَيِّدِه - إِذَا شَهِدَ أَطَاعَه - وإِذَا غَابَ اغْتَابَه - وحَتَّى يَكُونَ أَعْظَمَكُمْ فِيهَا عَنَاءً أَحْسَنُكُمْ بِاللَّه ظَنّاً - فَإِنْ أَتَاكُمُ اللَّه بِعَافِيَةٍ فَاقْبَلُوا - وإِنِ ابْتُلِيتُمْ فَاصْبِرُوا - فَإِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ.

(۹۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں بنی امیہ کے مظالم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے )

خدا کی قسم یہ یوں ہی ظلم کرتے رہیں گے یہاں تک کہ کوئی حرام نہ بچے گا جسے حلال نہ بنالیں اور کوئی عہد و پیمان نہ بچے گا جسے توڑ نہ دیں اور کوئی مکان یا خیمہ باقی نہ رہے گا جس میں ان کا ظلم داخل نہ ہو جائے اور ان کا بد ترین برتائو انہیں ترک وطن پرآمادہ نہ کردے اور دونوں طرح کے لوگ رونے پرآمادہ نہ ہو جائیں۔دنیا دار اپنی دنیا کے لئے روئے اور دیندار اپنے دین کی تباہی پرآنسو بہائے۔ اورتم میں سب سے زیادہ مصیبت زدہ وہ ہو جو خدا پر سب سے زیادہ اعتماد رکھنے والا ہو لہٰذا اگر خدا تمہیں عافیت دے تو اسے قبول کرلو۔اور اگرتمہارا امتحان لیاجائے تو صبر کرو کہ انجام کار بہر حال صاحبان تقویٰ(۱) کے لئے ہے۔

(۱) دنیا کے ہر ظلم کے مقابلہ میں صاحبان ایمان و کردار کے لئے یہی بشارت کافی ہے کہ انجام کار صاحبان تقوی کے ہاتھ میں ہے اور اس دنیا کی انتہا فساد اور تباہ کاری پر ہونے والی نہیں ہے بلکہ اسے ایک نہ ایک دن بہر حال عدل و انصاف سے معمور ہونا ہے۔اس دن ہر ظالم کو اس کے ظلم کا اندازہ ہو جائے گا اور ہر مظلوم کواس کے صبر کا پھل مل جائے گا۔مالک کائنات کی یہ بشارت نہ ہوتی تو صاحبان ایمان کے حوصلے پست ہو جاتے اور انہیں حالات زمانہ مایوسی کا شکار بنا دیتے لیکن اس بشارت نے ہمیشہ ان کے حوصلوں کو بلند رکھا ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ ہر دورمیں ہر ظلم سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھے رہے ہیں

۱۶۹

(۹۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في التزهيد من الدنيا

نَحْمَدُه عَلَى مَا كَانَ - ونَسْتَعِينُه مِنْ أَمْرِنَا عَلَى مَا يَكُونُ - ونَسْأَلُه الْمُعَافَاةَ فِي الأَدْيَانِ - كَمَا نَسْأَلُه الْمُعَافَاةَ فِي الأَبْدَانِ.

عِبَادَ اللَّه أُوصِيكُمْ بِالرَّفْضِ - لِهَذِه الدُّنْيَا التَّارِكَةِ لَكُمْ - وإِنْ لَمْ تُحِبُّوا تَرْكَهَا - والْمُبْلِيَةِ لأَجْسَامِكُمْ وإِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ تَجْدِيدَهَا - فَإِنَّمَا مَثَلُكُمْ ومَثَلُهَا كَسَفْرٍ سَلَكُوا سَبِيلًا فَكَأَنَّهُمْ قَدْ قَطَعُوه - وأَمُّوا عَلَماً فَكَأَنَّهُمْ قَدْ بَلَغُوه - وكَمْ عَسَى الْمُجْرِي إِلَى الْغَايَةِ أَنْ يَجْرِيَ إِلَيْهَا حَتَّى يَبْلُغَهَا - ومَا عَسَى أَنْ يَكُونَ بَقَاءُ مَنْ لَه يَوْمٌ لَا يَعْدُوه - وطَالِبٌ حَثِيثٌ مِنَ الْمَوْتِ يَحْدُوه ومُزْعِجٌ فِي الدُّنْيَا حَتَّى يُفَارِقَهَا رَغْماً - فَلَا تَنَافَسُوا فِي عِزِّ الدُّنْيَا وفَخْرِهَا

(۹۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا سے کنارہ کشی کی دعوت دی گئی ہے)

خدا کی حمد ہے اس پر جو ہوچکا اور اس کی امداد کا تقاضاہے ان حالات پر جو سامنے آنے والے ہیں۔ہم اس سے دین کی سلامتی کا تقاضا اسی طرح کرتے ہیں جس طرح بدن کی صحت و عافیت کی دعا کرتے ہیں۔

بندگان خدا! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اس دنیا کو چھوڑ دو جوتمہیں بہر حال چھوڑنے والی ہ چاہے تم اس کی جدائی کو پسند نہ کرو۔وہ تمہارے جسم کو بہر حال بوسیدہ کردے گی تم لاکھ اس کی تازگی کی خواہش کرو۔تمہاری اور اس کی مثال ان مسافروں جیسی ہے جو کسی راستہ پرچلے اورگویا کہ منزل تک پہنچ گئے ۔ کسی نشان راہ کا ارادہ کیا اور گویا کہ اسے حاصل کرلیا اور کتنا تھوڑاوقفہ ہوتا ہے اس گھوڑا دوڑانے(۱) والے کے لئے جو دوڑاتے ہی مقصدتک پہنچ جائے۔اس شخص کی بقا ہی کیا ہے جس کا ایک دن مقرر ہو جس سے آگے نہ بڑھ سکے اور پھر موت تیز رفتاری سے اسے ہنکا کر لے جا رہی ہو یہاں تک کہ بدل ناخواستہ دنیا کو چھوڑ دے۔خبر دار دنیا کی عزت اور اس کی سربلندی میں مقابلہ نہ کرنا ۔

(۱)خدا جانتا ہے کہ زندگی کی اس سے حسین تر تعبیر نہیں ہو سکتی ہے کہ انسان زندگی کے پروگرام بناتا ہی رہ جاتا ہے اور موت سامنے آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑے نے دم بھرنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ منزل قدموں میں آگئی اورسارے حوصلے دھرے رہ گئے۔ظاہر ہے کہ اس زندگی کی کیا حقیقت ہے کہ جس کی میعاد معین ہے اور وہ بھی زیادہ طویل نہیں ہے اور ہرحال میں پوری ہو جانے والی ہے چاہے انسان متوجہ ہویا غافل اور چاہے اسے پسند کرے یا ناپسند۔

۱۷۰

ولَا تَعْجَبُوا بِزِينَتِهَا ونَعِيمِهَا - ولَا تَجْزَعُوا مِنْ ضَرَّائِهَا وبُؤْسِهَا - فَإِنَّ عِزَّهَا وفَخْرَهَا إِلَى انْقِطَاعٍ - وإِنَّ زِينَتَهَا ونَعِيمَهَا إِلَى زَوَالٍ - وضَرَّاءَهَا وبُؤْسَهَا إِلَى نَفَادٍ وكُلُّ مُدَّةٍ فِيهَا إِلَى انْتِهَاءٍ - وكُلُّ حَيٍّ فِيهَا إِلَى فَنَاءٍ - أَولَيْسَ لَكُمْ فِي آثَارِ الأَوَّلِينَ مُزْدَجَرٌ وفِي آبَائِكُمُ الْمَاضِينَ تَبْصِرَةٌ ومُعْتَبَرٌ - إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ - أَولَمْ تَرَوْا إِلَى الْمَاضِينَ مِنْكُمْ لَا يَرْجِعُونَ - وإِلَى الْخَلَفِ الْبَاقِينَ لَا يَبْقَوْنَ - أَولَسْتُمْ تَرَوْنَ أَهْلَ الدُّنْيَا - يُصْبِحُونَ ويُمْسُونَ عَلَى أَحْوَالٍ شَتَّى - فَمَيِّتٌ يُبْكَى وآخَرُ يُعَزَّى - وصَرِيعٌ مُبْتَلًى وعَائِدٌ يَعُودُ - وآخَرُ بِنَفْسِه يَجُودُ وطَالِبٌ لِلدُّنْيَا والْمَوْتُ يَطْلُبُه - وغَافِلٌ ولَيْسَ بِمَغْفُولٍ عَنْه - وعَلَى أَثَرِ الْمَاضِي مَا يَمْضِي الْبَاقِي!

أَلَا فَاذْكُرُوا هَاذِمَ اللَّذَّاتِ - ومُنَغِّصَ الشَّهَوَاتِ - وقَاطِعَ الأُمْنِيَاتِ - عِنْدَ الْمُسَاوَرَةِ لِلأَعْمَالِ الْقَبِيحَةِ - واسْتَعِينُوا اللَّه عَلَى أَدَاءِ وَاجِبِ حَقِّه - ومَا لَا يُحْصَى مِنْ أَعْدَادِ نِعَمِه وإِحْسَانِه.

اور اس کی زینت و نعمت کو پسند نہ کرنا اور اس کی دشواری اور پریشانی سے رنجیدہ نہ ہونا کہ اس کی عزت و سر بلندی ختم ہو جانے والی ہے اور اس کی زینت و نعمت کو زوال آجانے والا ہے اوراس کی تنگی اور سختی بہر حال ختم ہو جانے والی ہے۔یہاں ہر مدت کی ایک انتہا ہے اور ہر زندہ کے لئے فنا ہے۔کیا تمہارے لئے گزشتہ لوگوں کے آثار میں سامان تنبیہ نہیں ہے ؟اور کیا آباء و اجداد کی داستانوں میں بصریت و عبرت نہیں ہے ؟ اگر تمہارے پاس عقل ہے۔کیا تم نے یہ نہیں دیکھا ہے کہ جانے والے پلٹ کر نہیں آتے ہیں اورب عد میں آنے والے رہ نہیں جاتے ہیں ؟ کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اہل دنیا مختلف حالات میں صبح و شام کرتے ہیں۔کوئی مردہ ہے جس پرگریہ ہو رہا ہے اور کوئی زندہ ہے تو اسے پرسہ دیا جا رہا ہے۔ایک بستر پر پڑا ہوا ہے تو ایک اس کی عیادت کر رہا ہے اور ایک اپنی جان سے جا رہا ہے۔کوئی دنیا تلاش کر رہا ہے تو موت اسے تلاش کر رہی ہے اور کوئی غفلت میں پڑا ہوا ہے تو زمانہ اس سے غافل نہیں ہے اور اس طرح جانے والوں کے نقش قدم پر رہ جانے والے چلے جا رہے ہیں۔آگاہ ہو جائو کہ ابھی موقع ہیاسے یاد کرو جو لذتوں کو فنا کر دینے والی۔خواہشات کو مکدرکردینے والی اور امیدوں کو قطع کر دینے والی ہے۔ایسے اوقات میں جب برے اعمال کا ارتکاب کر رہے ہو اور اللہ سے مدد مانگو کر اس کے واجب حق کوادا کردو اور ان نعمتوں کا شکریہ ادا کر سکو جن کا شمار کرنا نا ممکن ہے

۱۷۱

(۱۰۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في رسول اللَّه وأهل بيته

الْحَمْدُ لِلَّه النَّاشِرِ فِي الْخَلْقِ فَضْلَه - والْبَاسِطِ فِيهِمْ بِالْجُودِ يَدَه - نَحْمَدُه فِي جَمِيعِ أُمُورِه - ونَسْتَعِينُه عَلَى رِعَايَةِ حُقُوقِه - ونَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه غَيْرُه - وأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه - أَرْسَلَه بِأَمْرِه صَادِعاً وبِذِكْرِه نَاطِقاً - فَأَدَّى أَمِيناً ومَضَى رَشِيداً - وخَلَّفَ فِينَا رَايَةَ الْحَقِّ - مَنْ تَقَدَّمَهَا مَرَقَ ومَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا زَهَقَ ومَنْ لَزِمَهَا لَحِقَ - دَلِيلُهَا مَكِيثُ الْكَلَامِ بَطِيءُ الْقِيَامِ سَرِيعٌ إِذَا قَامَ - فَإِذَا أَنْتُمْ

(۱۰۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(رسول اکرم (ص) اور آپ کے اہل بیت کے بارے میں)

شکر ہےاس خدا کا جو اپنے فضل و کرم کا دامن پھیلائے ہوئے ہے اور اپنےجود و عطا کا ہاتھ بڑھائے ہوئے ہے۔ہم اس کی حمد کرتے ہیں اس کے تمام معاملات میں اوراس کی مدد چاہتے ہیں خود اس کے حقوق کا خیال رکھنے کے لئے ہم شہادت دیتے ہیں کہ اسکے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں۔جنہیں اس نے اپنے امر کا اظہار اور اپنے ذکر کے بیان کے لئے بھیجا توانہوں نے نہایت امانتداری کے ساتھ اس کے پیغام کو پہنچادیا اور راہ راست پر اس دنیا سے گزرگئے اور ہمارے درمیان ایک ایسا پرچم(۱) حق چھوڑ گئے کہ جو اس سے آگے بڑھ جائے وہ دین سے نکل گیااور جو پیچھے رہ جائے وہ ہلاک ہوگیا اور جواس سےوابستہ رہے وہ حق کے ساتھ رہا۔اس کی طرف رہنمائی کرنے والا وہ ہے جو بات ٹھہر کر کرتا ہے اور قیام اطمینان سےکرتا ہے لیکن قیام کےبعدپھر تیزی سےکام کرتا ہے۔دیکھوجب تم اس کے لئے اپنی

(۱)اس سے مراد خود حضرت کی ذات گرامی ہے جسے حق کا محور و مرکز بنایا گیا ہے اور جس کے بارے میں رسول اکرم (ص) کی دعا ہے کہ مالک حق کو ادھر ادھر پھیر دے جدھر جدھر علی مڑ رہے ہو( صحیح ترمذی) اوربعد کے فقرات میں آل محمد (ص) کے دیگر افراد کی طرف اشارہ ہے جن میں مستقبل قریب میں امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کا دور تھا جن کی طرف اہل دنیا نے رجوع کیا اور ان کی سیاسی عظمت کا بھی احساس کیا۔اور مستقبل قریب میں امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کادور تھا جن کی طرف اہل دنیا نے رجوع کیا اور ان کی سیاسی عظمت کا بھی احساس کیا۔اور مستقبل بعید میں امام مہدی کا دور ہے جن کے ہاتھوں امت کا انتشار دور ہوگا اور اسلام پلٹ کر اپنے مرکز پر آجائے گا۔ظلم و جور کاخاتمہ ہوگا اور عدل وانصاف کا نظام قائم ہو جائے گا۔

۱۷۲

أَلَنْتُمْ لَه رِقَابَكُمْ - وأَشَرْتُمْ إِلَيْه بِأَصَابِعِكُمْ - جَاءَه الْمَوْتُ فَذَهَبَ بِه - فَلَبِثْتُمْ بَعْدَه مَا شَاءَ اللَّه - حَتَّى يُطْلِعَ اللَّه لَكُمْ مَنْ يَجْمَعُكُمْ ويَضُمُّ نَشْرَكُمْ فَلَا تَطْمَعُوا فِي غَيْرِ مُقْبِلٍ ولَا تَيْأَسُوا مِنْ مُدْبِرٍ فَإِنَّ الْمُدْبِرَ عَسَى أَنْ تَزِلَّ بِه إِحْدَى قَائِمَتَيْه وتَثْبُتَ الأُخْرَى فَتَرْجِعَا حَتَّى تَثْبُتَا جَمِيعاً.

أَلَا إِنَّ مَثَلَ آلِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَمَثَلِ نُجُومِ السَّمَاءِ - إِذَا خَوَى نَجْمٌ طَلَعَ نَجْمٌ فَكَأَنَّكُمْ قَدْ تَكَامَلَتْ مِنَ اللَّه فِيكُمُ الصَّنَائِعُ - وأَرَاكُمْ مَا كُنْتُمْ تَأْمُلُونَ.

(۱۰۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي إحدى الخطب المشتملة على الملاحم

الْحَمْدُ لِلَّه الأَوَّلِ قَبْلَ كُلِّ أَوَّلٍ والآخِرِ بَعْدَ كُلِّ آخِرٍ - وبِأَوَّلِيَّتِه وَجَبَ أَنْ لَا أَوَّلَ لَه - وبِآخِرِيَّتِه وَجَبَ أَنْ لَا آخِرَ لَه وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه

گردنوں کو جھکادوگے اور ہر مسئلہ میں اس کی طرف اشارہ کرنے لگو گے تو اسے موت آجائے گی اور اسے لے کرچلی جائے گی۔پھر جب تک خدا چاہے گاتمہیں اسی حال میں رہنا پڑے گا۔یہاں تک کہ وہ اس شخص کو منظر عام پر لے آئے جو تمہیں ایک مقام پرجمع کردے اور تمہارے انتشار کو دور کردے۔تو دیکھو جوآنے والا ہے اس کے علاوہ کسی کی طمع نہ کرو اور جو جا رہا ہے اس سے مایوس نہ ہو جائو۔ہو سکتا ہے کہ جانے والے کا ایک قدم اکھڑ جائے تو دوسرا جما رہے اور پھر ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ دونوں قدم جم جائیں۔ دیکھو آل محمد (ص) کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے کہ جب ایک ستارہ غائب ہو جاتا ہے تو دوسرا نکل آتا ہے۔توگویا یا اللہ کی نعمتیں تم پر تمام ہوگئی ہیں اور اس نے تمہیں وہ سب کچھ دکھلا دیا ہے جس کی تم آس لگائے بیٹھے تھے۔

(۱۰۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو ان خطبوں میں ہے جن میں حوادث زمانہ کاذکر کیا گیا ہے )

ساری تعریف اس اول کے لئے ہے جو ہر ایک سے پہلے ہے اور اس آخر کے لئے ہے جو ہر ایک کے بعد ہے۔اس کی اولیت کا تقاضا ہے کہ اس کا اول نہ ہو اور اس کی آخریت کا تقاضا ہے کہ اس کا کوئی آخرنہ ہو۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے

۱۷۳

شَهَادَةً - يُوَافِقُ فِيهَا السِّرُّ الإِعْلَانَ - والْقَلْبُ اللِّسَانَ - أَيُّهَا النَّاسُ( لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي ) ولَا يَسْتَهْوِيَنَّكُمْ عِصْيَانِي - ولَا تَتَرَامَوْا بِالأَبْصَارِ عِنْدَ مَا تَسْمَعُونَه مِنِّي - فَوَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّ الَّذِي أُنَبِّئُكُمْ بِه عَنِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مَا كَذَبَ الْمُبَلِّغُ ولَا جَهِلَ السَّامِعُ - لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى ضِلِّيلٍ قَدْ نَعَقَ بِالشَّامِ - وفَحَصَ بِرَايَاتِه فِي ضَوَاحِي كُوفَانَ فَإِذَا فَغَرَتْ فَاغِرَتُه واشْتَدَّتْ شَكِيمَتُه وثَقُلَتْ فِي الأَرْضِ وَطْأَتُه - عَضَّتِ الْفِتْنَةُ أَبْنَاءَهَا بِأَنْيَابِهَا - ومَاجَتِ الْحَرْبُ بِأَمْوَاجِهَا - وبَدَا مِنَ الأَيَّامِ كُلُوحُهَا ومِنَ اللَّيَالِي كُدُوحُهَا فَإِذَا أَيْنَعَ زَرْعُه وقَامَ عَلَى يَنْعِه وهَدَرَتْ شَقَاشِقُه وبَرَقَتْ بَوَارِقُه عُقِدَتْ رَايَاتُ الْفِتَنِ الْمُعْضِلَةِ - وأَقْبَلْنَ

اور اس گواہی میں میرا باطن ظاہرکے مطابق ہے اور میری زبان دل سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔

ایہاالناس !خبردار میری مخالفت کی غلطی نہ کرو اور میری نا فرمانی کرکے حیران و سر گردان نہ ہو جائو اور میری بات سنتے وقت ایک دوسرے کو اشارے نہ کرو کہ اس پروردگارکی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اور نفوس کو ایجاد کیا ہے کہ میں جو کچھ(۱) خبردے رہا ہوں وہ رسول امی کی طرف سے ہے جہاں نہ پہنچانے والا غلط گو تھا اور نہ سننے والا جاہل تھا اورگویا کہ میں اس بد ترین گمراہ کو بھی دیکھ رہا ہوں جس نے شام میں للکارا اور کوفہ کے اطراف میں اپنے جھنڈے گاڑ دئیے اور اس کے بعد جب اس کادہانہ کھل گیا اور اس کی لگام کا دہانہ مضبوط ہوگیا اور زمین میں اس کی پامالیاں سخت تر ہوگئیں تو فتنے ابناء زمانہ کو اپنے دانتوں سے کاٹنے لگے اور جنگوں نے اپنے تھپڑوں کی لپیٹ میں لے لیا اور دونوں کی سختیاں اور راتوں کی جراحتیں منظرعام پر آگئیں اور پھر جب اس کی کھیتی تیار ہو کر اپنے پیروں پرکھڑی ہوگئی اوراس کی سر مستیاں اپناجوش دکھلانے لگیں اور تلواریں چمکنے لگیں تو سخت ترین فتنوں کے جھنڈے گاڑ دئیے گئے

(۱)رسول اکرم (ص) کے دورمیں عبداللہ بن ابی اور مولائے کائنات کے دورمیں اشعث بن قیس جیسے افرادہمیشہ رہے ہیں جو بظاہر صاحبان ایمان کی صفوں میں رہتے ہیں لیکن ان کا کام باتوں کامذاق اڑا کر انہیں مشتبہ بنا دینے اور قوم میں انتشار پیدا کردینے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے۔اس لئے آپ نے چاہا کہ اپنی خبروں کے مصدر و ماخذ کی طرف اشارہ کردیں تاکہ ظالموں کو شبہ پیدا کرنے کاموقع نہ ملے اور آپ اس حقیقت کو بھی واضح کرسکیں کہ میرے بیان میں شبہ درحقیقت رسول اکرم (ص) کی صداقت میں شبہ ہے جو کفار و مشرکین مکہ بھی نہکر سکے تو منافقین کے لئے اس کا جواز کس طرح پیدا ہو سکتا ہے ؟

اس کے بعد آپنے اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ فرمادیا کہاگر باقی لوگ یہ کام نہیں کر سکتے ہیں تو اس کا تعلق ان کی جہالت سے ہے رسالت کے مبدء فیاض سے نہیں ہے۔اس نے تو ہر ایک کو تعلیم دینا چاہی لیکن بے صلاحیت افراد اورفیض سے محروم رہ گئے تو کریم کا کیا قصور ہے۔

۱۷۴

كَاللَّيْلِ الْمُظْلِمِ والْبَحْرِ الْمُلْتَطِمِ - هَذَا وكَمْ يَخْرِقُ الْكُوفَةَ مِنْ قَاصِفٍ ويَمُرُّ عَلَيْهَا مِنْ عَاصِفٍ وعَنْ قَلِيلٍ تَلْتَفُّ الْقُرُونُ بِالْقُرُونِ ويُحْصَدُ الْقَائِمُ ويُحْطَمُ الْمَحْصُودُ !

(۱۰۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

تجري هذا المجرى

وفيها ذكر يوم القيامة وأحوال الناس المقبلة

يوم القيامة

وذَلِكَ يَوْمٌ يَجْمَعُ اللَّه فِيه الأَوَّلِينَ والآخِرِينَ - لِنِقَاشِ الْحِسَابِ وجَزَاءِ الأَعْمَالِ - خُضُوعاً قِيَاماً قَدْ أَلْجَمَهُمُ الْعَرَقُ ورَجَفَتْ بِهِمُ الأَرْضُ فَأَحْسَنُهُمْ حَالًا مَنْ وَجَدَ لِقَدَمَيْه مَوْضِعاً - ولِنَفْسِه مُتَّسَعاً

حال مقبلة على الناس

ومنها: فِتَنٌ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ لَا تَقُومُ لَهَا قَائِمَةٌ ولَا تُرَدُّ لَهَا رَايَةٌ - تَأْتِيكُمْ مَزْمُومَةً مَرْحُولَةً يَحْفِزُهَا قَائِدُهَا ويَجْهَدُهَا رَاكِبُهَا - أَهْلُهَا قَوْمٌ شَدِيدٌ كَلَبُهُمْ

اور وہ تاریک رات اور تلاطم خیز سمندر کی طرح منظر عام پر آگئے۔اور کوفہ کو اس کے علاوہ بھی کتنی ہی آندھیاں پارہ پارہ کرنے والی ہیں اور اس پر سے کتنے ہی جھکڑ گزرنے والے ہیں اور عنقریب وہاں جماعتیں جماعتوں سے گتھنے والی ہیں اور کھڑی کھیتیاں کاٹی جانے والی ہیں اور کٹے ہوئے ماحصل کو بھی تباہ و برباد کردیا جائے گا۔

(۱۰۲)

(آپ کے خطبہ کا ایک حصہ)

(جس میں قیامت اور اس میں لوگوں کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے )

وہ دن وہ ہوگا جب پروردگار اولین و آخرین کودقیق ترین حساب اور اعمال کی جزا کے لئے اس طرح جمع کرے گا کہ سب خضوع و خشوع کے عالم میں کھڑے ہوں گے۔پسینہ ان کے دہن تک پہنچا ہوگا اور زمین لرز رہی ہوگی۔بہترین حال اس کا ہوگا جو اپنے قدم جمانے کی جگہ حاصل کرلے گا اورجسے سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔

(اس خطبہ کا ایک حصہ)

ایسے فتنے جیسے اندھیری رات کے ٹکڑے جس کے سامنے نہ گھوڑے کھڑے ہو سکیں گے اور نہ ان کے پرچموں کو پلٹایا جاسکے گا۔یہ فتنے لگام و سامان کی پوری تیاری کے ساتھ آئیں گے کہ ان کا قائد انہیں ہنکارہا ہوگا اور ان کا سوار انہیں تھکا رہا ہوگا۔اس کی اہل ایک قوم ہوگی جس کے حملے سخت ہوں گے

۱۷۵

قَلِيلٌ سَلَبُهُمْ يُجَاهِدُهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّه قَوْمٌ أَذِلَّةٌ عِنْدَ الْمُتَكَبِّرِينَ - فِي الأَرْضِ مَجْهُولُونَ - وفِي السَّمَاءِ مَعْرُوفُونَ - فَوَيْلٌ لَكِ يَا بَصْرَةُ عِنْدَ ذَلِكِ - مِنْ جَيْشٍ مِنْ نِقَمِ اللَّه - لَا رَهَجَ لَه ولَا حَسَّ وسَيُبْتَلَى أَهْلُكِ بِالْمَوْتِ الأَحْمَرِ - والْجُوعِ الأَغْبَرِ !

(۱۰۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في التزهيد في الدنيا

أَيُّهَا النَّاسُ انْظُرُوا إِلَى الدُّنْيَا نَظَرَ الزَّاهِدِينَ فِيهَا - الصَّادِفِينَ عَنْهَا - فَإِنَّهَا واللَّه عَمَّا قَلِيلٍ تُزِيلُ الثَّاوِيَ السَّاكِنَ - وتَفْجَعُ الْمُتْرَفَ الآْمِنَ - لَا يَرْجِعُ مَا تَوَلَّى مِنْهَا فَأَدْبَرَ - ولَا يُدْرَى مَا هُوَ آتٍ مِنْهَا فَيُنْتَظَرَ سُرُورُهَا مَشُوبٌ بِالْحُزْنِ - وجَلَدُ الرِّجَالِ فِيهَا إِلَى الضَّعْفِ والْوَهْنِ فَلَا يَغُرَّنَّكُمْ كَثْرَةُ مَا يُعْجِبُكُمْ فِيهَا - لِقِلَّةِ مَا يَصْحَبُكُمْ مِنْهَا.

رَحِمَ اللَّه امْرَأً تَفَكَّرَ فَاعْتَبَرَ - واعْتَبَرَ فَأَبْصَرَ - فَكَأَنَّ مَا هُوَ كَائِنٌ مِنَ الدُّنْيَا عَنْ قَلِيلٍ لَمْ يَكُنْ - وكَأَنَّ مَا هُوَ كَائِنٌ مِنَ الآخِرَةِ -

لیکن لوٹ مار کم اور ان کا مقابلہ راہ خدا میں صرف وہ لوگ کریں گے جو متکبرین کی نگاہ میں کمزور اور پست ہوں گے۔وہ اہل دنیا میں مجہول اوراہل آسمان میں معروف ہوں گے۔ اے بصرہ! ایسے وقت میں تیری حالت قابل رحم ہوگی اس عذاب الٰہی کے لشکر کی بناپ رجس میں نہ غبار ہوگا نہ شورو غوغا اور عنقریب تیرے باشندوں کو سرخ موت اورسخت بھوک میں مبتلا کیا جائے گا۔

(۱۰۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(زہد کے بارے میں )

ایہا الناس !دنیا کی طرف اس طرح دیکھو جیسے وہ لوگ دیکھتے ہیں جو زہد رکھنے والے اور اس سے نظر بچانے والے ہوتے ہیں کہ عنقریب یہ اپنے ساکنوں کوہٹا دے گی اور انپے خوشحالوں کو رنجیدہ کردے گی۔اس میں جو چیزمنہ پھر کرجا چکی وہ پلٹ کر آنے وال نہیں ہے اور جو آنے والی ہے اس کاحال نہیں معلوم ہے کہ اس کا انتظار کیاجائے۔اس کی خوشی رنج سے مخلوط ہے اور اس میں مردوں کی مضبوطی ضعف و نا توانی کی طرف مائل ہے۔خبردار اس کی دل لبھانے والی چیزیں تمہیں دھوکہ میں نہ ڈال دیں کہ اس میں سے ساتھ جانے والی چیزیں بہت کم ہیں۔

خدا رحمت نازل کرے اس شخص پر جس نے غورو فکر کیا تو عبرت حاصل کی اور عبرت حاصل کی تو بصیرت پیداکرلی کہ دنیا کی ہر موجود شے عنقریب ایسی ہو جائے گی جیسے تھی ہی نہیں اورآخرت کی چیزیں اس طرح ہو جائیں گی

۱۷۶

عَمَّا قَلِيلٍ لَمْ يَزَلْ - وكُلُّ مَعْدُودٍ مُنْقَضٍ - وكُلُّ مُتَوَقَّعٍ آتٍ - وكُلُّ آتٍ قَرِيبٌ دَانٍ.

صفة العالم

ومنها: الْعَالِمُ مَنْ عَرَفَ قَدْرَه - وكَفَى بِالْمَرْءِ جَهْلًا أَلَّا يَعْرِفَ قَدْرَه - وإِنَّ مِنْ أَبْغَضِ الرِّجَالِ إِلَى اللَّه تَعَالَى لَعَبْداً - وَكَلَه اللَّه إِلَى نَفْسِه - جَائِراً عَنْ قَصْدِ السَّبِيلِ - سَائِراً بِغَيْرِ دَلِيلٍ - إِنْ دُعِيَ إِلَى حَرْثِ الدُّنْيَا عَمِلَ - وإِنْ دُعِيَ إِلَى حَرْثِ الآخِرَةِ كَسِلَ - كَأَنَّ مَا عَمِلَ لَه وَاجِبٌ عَلَيْه - وكَأَنَّ مَا وَنَى فِيه سَاقِطٌ عَنْه.

آخر الزمان

ومنها: وذَلِكَ زَمَانٌ لَا يَنْجُو فِيه إِلَّا كُلُّ مُؤْمِنٍ نُوَمَةٍ إِنْ شَهِدَ لَمْ يُعْرَفْ وإِنْ غَابَ لَمْ يُفْتَقَدْ - أُولَئِكَ مَصَابِيحُ الْهُدَى وأَعْلَامُ السُّرَى لَيْسُوا بِالْمَسَايِيحِ ولَا الْمَذَايِيعِ الْبُذُرِ

جیسے ابھی موجود ہیں۔ہر گنتی میں آنے والا کم ہونے والا ہے اور ہر وہ شے جس کی امید ہو وہ عنقریبآنے والی ہے اورجوآنے والی ہے وہ گویا کہ قریب اور بالکل قریب ہے۔

(صفت عالم)

عالم(۱) وہ ہے جو اپنی قدر خود پہچانے اور انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر کو نہ پہچانے اللہ کی نگاہ میں بد ترین بندہ وہ ہے جسے اس نے اسی کے حوالہ کردیا ہو کہ وہ سیدھے راستے سے ہٹ گیا ہے اور بغیر رہنما کے چل رہا ہے۔اسے دنیاکے کاروبار کی دعوت دی جائے تو عمل پر آمادہ ہوجاتا ہے اورآخرت کے کام کی دعوت دی جائے تو سست ہو جاتا ہے گویا کہ جو کچھ کیا ہے وہی واجب تھا اور جس میں سستی برتی ہے وہ اس سے ساقط ہے۔

(آخر زمانہ)

وہ زمانہ ایسا ہوگا جس میں صرف وہی مومن نجات پا سکے گا جو گویاکہ سورہا ہوگا کہ مجمع میں آئے تو لوگ اسے پہچان نہ سکیں اور غائب ہو جائے تو کوئی تلاش نہ کرے۔یہی لوگ ہدایت کے چراغ اور راتوں کے مسافروں کے لئے نشان منزل ہوں گے۔نہ ادھر ادھر لگاتے پھریں گے اور نہ لوگوں کے عیوب کی اشاعت کریں گے۔

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ انسان اپنی قدرو اوقات کو پہچان لیتا ہے تواس کا کردار خو د بخود سدھر جاتا ہے اور اس حقیقت سے غافل ہو جاتا ہے تو کبھی قدر و منزلت سے غفلت دربار داری خوشامد ' مدح بیجا ' ضمیر فروشی پرآمادہ کر دیتی ہے کہ علم کو مال و جاہ کے عوض بیچنے لگتا ہے اور کبھی اوقات سے ناواقفیت مالک سے بغاوت پرآمادہ کر دیتی ہے کہ عوام الناس پرحکومت کرتے کرتے مالک کی اطاعت کا جذبہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور احکام الہیہ کوبھی اپنی خواہشات کے راستہ پرچلانا چاہتا ہے جو جہالت کابدترین مظاہرہ ہے اوراس کا علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۱۷۷

أُولَئِكَ يَفْتَحُ اللَّه لَهُمْ أَبْوَابَ رَحْمَتِه - ويَكْشِفُ عَنْهُمْ ضَرَّاءَ نِقْمَتِه.

أَيُّهَا النَّاسُ سَيَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ - يُكْفَأُ فِيه الإِسْلَامُ كَمَا يُكْفَأُ الإِنَاءُ بِمَا فِيه –

أَيُّهَا النَّاسُ - إِنَّ اللَّه قَدْ أَعَاذَكُمْ مِنْ أَنْ يَجُورَ عَلَيْكُمْ - ولَمْ يُعِذْكُمْ مِنْ أَنْ يَبْتَلِيَكُمْ وقَدْ قَالَ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ –( إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ وإِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِينَ ) .

قال السيد الشريف الرضي أما قولهعليه‌السلام كل مؤمن نومة - فإنما أراد به الخامل الذكر القليل الشر - والمساييح جمع مسياح - وهو الذي يسيح بين الناس بالفساد والنمائم - والمذاييع جمع مذياع - وهو الذي إذا سمع لغيره بفاحشة أذاعها - ونوه بها - والبذر جمع بذور - وهو الذي يكثر سفهه ويلغو منطقه.

(۱۰۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ولَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْعَرَبِ يَقْرَأُ كِتَاباً - ولَا يَدَّعِي نُبُوَّةً ولَا وَحْياً - فَقَاتَلَ بِمَنْ أَطَاعَه مَنْ عَصَاه - يَسُوقُهُمْ إِلَى مَنْجَاتِهِمْ - ويُبَادِرُ بِهِمُ السَّاعَةَ أَنْ تَنْزِلَ بِهِمْ -

ان کے لئے اللہ رحمت کے دروازے کھول دے گا اور ان سے عذاب کی سختیوں کو دور کردے گا۔

لوگو! عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں اسلام کو اسی طرح الٹ دیا جائے گا جس طرح برتن کواس کے سامان سمیت الٹ دیا جاتا ہے۔

لوگو! اللہ نے تمہیں اس بات سے پناہ دے رکھی ہے کہ وہ تم پر ظلم کرے لیکن تمہیں اس بات سے محفوظ نہیں رکھا ہے کہ تمہارا امتحان نہ کرے۔اس مالک جل جلالہ نے صاف اعلان کردیا ہے کہ '' اس میں ہماری کھلی ہوئی نشانیاں ہیں اور ہم بہر حال تمہارا امتحان لینے والے ہیں ''

سید شریف رضی : مومن کے نومہ ( خوابیدہ) ہونے کا مطلب اس کا گمنام اوربے شر ہونا ہے اور مسا بیح ، مسیاح کی جمع ہے اور وہ شخص ہے کہ جسے کسی کا عیب معلوم ہو جائے تو اس کی اشاعت کے بغیر چین نہ پڑ۔بذر۔ بذر کی جمع ہے یعنی وہ شخص جس کی حماقت زیادہ ہے اور اس کی گفتگو لغو یات پر مشتمل ہو۔

(۱۰۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

اما بعد!اللہ نے حضرت محمد (ص)کو اس دورمیں بھیجا ہے جب عرب میں نہ کوئی کتاب پڑھنا جانتا تھا اورنہ نبوت اور وحی کا ادعا کرنے والا تھا۔آپ نے اطاعت گزاروں کے سہارے نافرمانوں سے جہاد کیا کہ انہیں منزل نجات کی طرف لے جانا چاہتے تھے اور قیامت کے آنے سے پہلے ہدایت دے دینا چاہتے تھے۔

۱۷۸

يَحْسِرُ الْحَسِيرُ ويَقِفُ الْكَسِيرُ فَيُقِيمُ عَلَيْه حَتَّى يُلْحِقَه غَايَتَه - إِلَّا هَالِكاً لَا خَيْرَ فِيه - حَتَّى أَرَاهُمْ مَنْجَاتَهُمْ - وبَوَّأَهُمْ مَحَلَّتَهُمْ - فَاسْتَدَارَتْ رَحَاهُمْ واسْتَقَامَتْ قَنَاتُهُمْ وايْمُ اللَّه لَقَدْ كُنْتُ مِنْ سَاقَتِهَا - حَتَّى تَوَلَّتْ بِحَذَافِيرِهَا - واسْتَوْسَقَتْ فِي قِيَادِهَا - مَا ضَعُفْتُ ولَا جَبُنْتُ - ولَا خُنْتُ ولَا وَهَنْتُ - وايْمُ اللَّه لأَبْقُرَنَّ الْبَاطِلَ - حَتَّى أُخْرِجَ الْحَقَّ مِنْ خَاصِرَتِه!

قال السيد الشريف الرضي - وقد تقدم مختار هذه الخطبة - إلا أنني وجدتها في هذه الرواية - على خلاف ما سبق من زيادة ونقصان - فأوجبت الحال إثباتها ثانية.

جب کوئی تھکا ماندہ رک جاتا تھا اور کوئی لوٹا ہوا ٹھہر جاتا تھا تو اس کے سر پر کھڑے ہو جاتے تھے کہ اس منزل تک پہنچا دیں مگریہ کہ کوئی ایسا لاخیرا ہو جس کے مقدرمیں ہلاکت ہو۔یہاں تک کہ آپ نے لوگوں کو مرکز نجات سے آشنا بنا دیا اور انہیں ان کی منزل تک پہنچادیا ان کی چکی چلنے لگی اوران کے ٹیڑھے سیدھے ہوگئے ۔

اور خدا کی قسم! میں بھی ان کے ہنکانے والوں میں سے تھا یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر پسپا ہوگئے اور اپنے بندھنوں میں جکڑ دئیے گئے۔اس درمیان میں میں نہ کمزور ہو ا) ۱ ( نہ بزدلی کاشکار ہوا۔نہ میں نے خیانت کی اور نہ سستی کا اظہارکیا۔خدا کی قسم ۔میں باطل) ۲ ( کاپیٹ چاک کرکے اس کے پہلو سے حق کو بہر حال نکال لوں گا۔

سید رضی : اس خطبہ کا ایک انتخاب پہلے نقل کیا جا چکا ہے۔لیکن چونکہ اس روایت میں قدر ے کمی اور زیادتی پائی جاتی تھی لہٰذا حالات کا تقاضا یہ تھاکہ اسے دوبارہ اس شکل میں بھی درج کردیا جائے ۔

(۱)یہ امام علیہ السلام کی زندگی کا بہترین نقشہ ہے اور اسی کی روشنی میں دوسرے کرداروں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے جنہیں میدان تاریخ نے تو پہچانا ہے لیکن میدان جہاد ان کی گرد قدم سے بھی محروم رہ گیا۔مگر افسوس کہ جانی پہچانی شخصیتیں اجنبی ہو گئیں اور اجنبی شہر کے مشاہیر بن گئے ۔

(۲)اس جملہ میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ غاصب افراد نے جن اموال کو ہضم کرلیا ہے۔وہ ایک دن ان کا شکم چاک کرکے اس میں سے نکال لیا جائے گا اوراس امر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ حق ابھی فنا نہیں ہوا ہے۔اسے باطل نے دبا دیا ہے اورگویا کہ اپنے شکم کے اندر چھپا لیا ہے اور مجھ میں اس قدر طاقت پائی جاتی ہے کہ میں اس شکم کو چاک کرکے اس حق کو منظر عام پر لے آئوں اور باطل کے ہر راز کو بے نقاب کردوں

۱۷۹

(۱۰۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في بعض صفات الرسول الكريم وتهديد بني أمية وعظة الناس

الرسول الكريم

حَتَّى بَعَثَ اللَّه مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - شَهِيداً وبَشِيراً ونَذِيراً - خَيْرَ الْبَرِيَّةِ طِفْلًا - وأَنْجَبَهَا كَهْلًا - وأَطْهَرَ الْمُطَهَّرِينَ شِيمَةً - وأَجْوَدَ الْمُسْتَمْطَرِينَ دِيمَةً

بنو أمية

فَمَا احْلَوْلَتْ لَكُمُ الدُّنْيَا فِي لَذَّتِهَا - ولَا تَمَكَّنْتُمْ مِنْ رَضَاعِ أَخْلَافِهَا - إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا صَادَفْتُمُوهَا جَائِلًا خِطَامُهَا - قَلِقاً وَضِينُهَا - قَدْ صَارَ حَرَامُهَا عِنْدَ أَقْوَامٍ - بِمَنْزِلَةِ السِّدْرِ الْمَخْضُودِ - وحَلَالُهَا بَعِيداً غَيْرَ مَوْجُودٍ - وصَادَفْتُمُوهَا واللَّه ظِلاًّ مَمْدُوداً - إِلَى أَجْلٍ مَعْدُودٍ - فَالأَرْضُ لَكُمْ شَاغِرَةٌ - وأَيْدِيكُمْ فِيهَا مَبْسُوطَةٌ - وأَيْدِي الْقَادَةِ عَنْكُمْ مَكْفُوفَةٌ - وسُيُوفُكُمْ عَلَيْهِمْ مُسَلَّطَةٌ - وسُيُوفُهُمْ عَنْكُمْ مَقْبُوضَةٌ

!

(۱۰۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رسول اکرم (ص) کے اوصاف ۔بنی امیہ کی تہدیداور لوگوں کی نصیحت کاتذکرہ کیا گیا ہے )

(رسول اکرم (ص))

یہاں تک کہ پروردگار نے حضرت محمد (ص) کو امت کے اعمال کا گواہ۔ثواب کا بشارت دینے والا۔عذاب سے ڈرانے والا بنا کربھیج دیا۔آپ بچپنے میں بہترین مخلوقات اور سن رسیدہ ہونے پر اشرف کائنات تھے۔عادات کے اعتبار سے تمام پاکیزہ افراد کے زیادہ پاکیزہ اورباران رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جوارتھے۔

(بنو امیہ )

یہ دنیا تمہارےلئےاسی وقت اپنی لذتوں سمیت خوشگوار بنی ہے اورتم اس کے فوائد حاصل کرنے کے قابل بنے ہو جب تم نےدیکھ لیاکہ اس کی مہارجھول رہی ہےاوراس کا تنگ ڈھیلاہوگیاہےاس کا حرام ایک قوم کے نزدیک بغیر کاٹنےوالی بیرکی طرح مزہ دار ہوگیا ہے اور اس کاحلال بہت دورتک نا پید ہوگیا ہے اور خدا کی قسم تم اس دنیا کو ایک مدت تک پھیلے ہوئے سایہ کی طرح دیکھو گے کہ زمین ہر ٹوکنے والے سے خالی ہوگئی ہے اور تمہارے ہاتھ کھل گئے ہیں اورقائدین کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں تمہاری تلواریں ان کے سروں پرلٹک رہی ہیں اور ان کی تلواریں نیام میں ہیں

۱۸۰