نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657163 / ڈاؤنلوڈ: 15928
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

مضبوط فوج تیار کرنا، مختلف ممالک میں سفیر بھیجنا اور اس زمانے کے بادشاہوں کو خبردار کرنا، نیز ان سے خط و کتابت کرنا ساتھ ہی ساتھ شہروں کے گورنر اور حکام معین کرنا اور ایسے ہی دوسرے امور کا انجام دینا اگر سیاست نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کے علاوہ خلفائے راشدین کا کردار اور خاص طور پرحضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب ـ کا طرز عمل بھی شیعوں اور اہل سنت دونوں فرقوں کیلئے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سیاست دین سے جدانہیں ہے.دونوں اسلامی فرقوں کے علماء نے حکومت

قائم کرنے کے سلسلے میں قرآن مجید اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مفصل دلیلیں بیان کی ہیں نمونے کے طور پر ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

ابوالحسن ماوردی نے اپنی کتاب ''احکام سلطانیہ'' میں یوں لکھا ہے:

''المامة موضوعة لخلافة النبّوة ف حراسة الدین و سیاسة الدنیا و عقدها لمن یقوم بها ف الأمة واجب بالجماع'' ( ۱ )

امامت کو نبوت کی جانشینی کے لئے قرار دیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ دین کی حفاظت کی جاسکے اور دنیا کی سیاست و حکومت کا کام بھی چل سکے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسی حکومت قائم کرنااس شخص پر واجب ہوجاتا ہے جو اس کام کو انجام دے سکتا ہو۔

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۱

اہل سنت کے مشہور عالم ماوردی نے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دو طرح کی دلیلیں پیش کی ہیں :

۱۔ عقلی دلیل

۲۔ شرعی دلیل

عقلی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

''لما فى طباع العقلاء من التسلیم لزعیم یمنعهم من التظالم و یفعل بینهم فى التنازع والتخاصم ولولا الولاة لکانوا فوضیٰ مهملین همجاً مضاعین'' ( ۱ )

کیونکہ یہ بات عقلاء کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی رہبر کی پیروی کرتے ہیں تاکہ وہ انہیں ایک دوسرے پر ظلم و ستم کرنے سے روکے اور اختلاف اور جھگڑوں کی صورت میں ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرے اور اگر ایسے حکام نہ ہوتے تولوگ پراگندہ اور پریشان ہوجاتے اور پھر کسی کام کے نہ رہ جاتے.

اور شرعی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

''ولکن جاء الشرع بتفویض الأمور اِلی ولیه فى الدین قال اللّه عزّوجلّ (یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۲

اَطِیعُوا ﷲ وَاَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاُوْلِى الْاَمْرِ مِنْکُم )ففرض علینا طاعة أولى الأمر فینا وهم الأئمة المأتمرون علینا'' ( ۱ )

لیکن شرعی دلیل میں یہ ہے کہ دین کے امور کو ولی کے سپرد کردیا گیا ہے خداوندکریم فرماتا ہے:ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہیں میں سے ہیں .پس خداوند نے ہم پرصاحبان امر کی اطاعت کو واجب کردیا ہے اور وہ ہمارے امام ہیں جو ہم پر حکومت کرتے ہیں

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے فضل بن شاذان سے ایک روایت نقل کی ہے جو ہمارے آٹھویں امام علی بن موسیٰ الرضا ـ کی طرف منسوب ہے اس طولانی روایت میں امام ـ نے حکومت قائم کرنے کو ایک لازمی امر قرار دیا ہے ہم اس روایت کے چند جملے ذکر کرتے ہیں :

''انّا لا نجد فرقة من الفرق ولا ملة من الملل

بقوا و عاشوا اِلاّ بقیّم و رئیس، لما لابدّ لهم

منه من أمر الدین والدنیا، فلم یجزفحکمة

الحکیمأن یترک الخلق لما یعلم انه لابدّ لهم منه

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۳

والقوام لهم لاّ به فیقاتلون به عدوهم و یقسمون به فیئهم و یقیمون به جمعتهم و جماعتهم و یمنع ظالمهم من مظلومهم ''( ۱ )

ہمیں کوئی ایسی قوم یا ملت نہیں ملے گی جو اس دنیا میں باقی رہی ہواور اس نے زندگی گزاری ہو سوائے یہ کہ اس کے پاس ایک ایسا رہبر اور رئیس رہا ہو جس کے وہ لوگ دین اور دنیا کے امور میں محتاج رہے ہوں پس خداوند حکیم کی حکمت سے یہ بات دور ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک ایسی چیز عطا نہ فرمائے جسکے وہ لوگ محتاج ہیں اور اسکے بغیر باقی نہیں رہ سکتے ہیں کیونکہ لوگ اپنے رہبر ہی کی ہمراہی میں اپنے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور اسی کے حکم سے مال غنیمت کو تقسیم کرتے ہیں اور اس کی اقتداء میں نماز جمعہ اور بقیہ نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں اور رہبر ہی ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا ہے.

اس سلسلے میں وارد ہونے والی ساری روایتوں کی تشریح کرنا اور تمام مسلمان فقہاء کے اقوال کا جائزہ لینا اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہے اس کام کے لئے ایک مستقل کتاب درکار ہے۔اسلامی فقہ کا دقت کے ساتھ مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ شریعت کے بہت سے قوانین ایسے ہیں جو ایکمضبوط حکومت کے بغیر نافذ

____________________

(۱) علل الشرائع باب ۱۸۲ حدیث نمبر۹ ص ۲۵۳

۱۴۴

نہیں کئے جاسکتے ہیں

اسلام ہمیں جہاد اور دفاع کرنے ، ظالم سے انتقام لینے اور مظلوم کی حمایت کرنے، شرعی حدود اور تعزیرات جاری کرنے، امر بالمعروف و نھی عن المنکر انجام دینے، ایک مالی نظام برقرار کرنے اور اسلامی معاشرے میں وحدت قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اب یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ اہداف ایک مضبوط نظام اور حکومت کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے کیونکہ شریعت کی حمایت اور اسلام سے دفاع کرنے کے لئے ایک تربیت یافتہ فوج کی ضرورت ہوتی ہے اور اس قسم کی طاقتور فوج تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک مضبوط حکومت قائم کی جائے اور اسی طرح فرائض کی پابندی اور گناہوں سے دوری کے لئے حدود اور تعزیرات کو جاری کرنا اور ظالموں سے مظلوموں کا حق لینا ایک حکومت اور نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر قوی حکومت نہ پائی جاتی ہو تو معاشرہ فتنہ اور آشوب کی آماجگاہ بن جائے گا اگرچہ حکومت قائم کرنے کے لازمی ہونے کے سلسلے میں ہماری ان دلیلوں کے علاوہ بھی بہت سی دلیلیں ہیں لیکن ان دلیلوں ہی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نہ صرف دین سیاست سے جدا نہیں ہے بلکہ شریعت کے قوانین کے مطابق اسلامی حکومت قائم کرنا ایک لازمی امر ہے جو کہ اس دنیا میں پائے جانے والے ہر اسلامی معاشرہ کے لئے ایک فریضہ قرار دیا گیا ہے۔

۱۴۵

بائیسواں سوال

شیعہ ، حضرت علی بن ابی طالب کے بیٹوں (امام حسنـ ا ور امام حسینـ) کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے کیوں کہتے ہیں ؟

جواب: تفسیر، تاریخ اور روایات کی کتابوں کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صرف شیعہ ہی یہ نظریہ نہیں رکھتے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سارے مسلمان محققین چاہے وہ کسی بھی اسلامی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ، اسی نظرئیے کو قبول کرتے ہیں

اب ہم قرآن مجید، احادیث اور مشہور مفسرین کے اقوال کی روشنی میں اس مسئلے کے دلائل کو بیان کریں گے :

قرآن مجید کی ایک اصل یہ ہے کہ اس نے ایک انسان کی نسل سے پیدا ہونے والی اولاد کو اسی انسان کی اولاد قرار دیا ہے اس اعتبار سے ایک انسان کی بیٹی یا اس کے بیٹے سے پیدا ہونے والی اولاد قرآن مجید کی نگاہ میں اس انسان کی اولاد ہے.

قرآن مجید اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اس حقیقت کے متعلق بہت سے شواہد موجود ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں :

۱۔مندرجہ ذیل آیت میں قرآن مجید نے حضر ت عیسیٰ ـ کو حضرت ابراہیم ـ کی اولاد میں شمار کیاہے جبکہ حضرت عیسیٰ ـ حضرت مریم کے بیٹے ہیں اور ان کا سلسلہ نسب ماں کے ذریعہ حضرت ابراہیم ـ تک پہنچتا ہے:

(وَوَهَبْنَا لَهُا ِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ کُلًّا هَدَیْنَا وَنُوحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَهَارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِ الْمُحْسِنِینَ ٭ وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی )( ۱ )

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب دیئے اور سب کو ہدایت بھی دی اور اس کے پہلے نوح کو ہدایت دی اور پھرابراھیم کی اولاد میں داؤد، سلیمان ، ایوب، یوسف، موسیٰ، اور ہارون قراردئیے اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں اور (اسی طرح ابراہیم کی اولاد میں سے) زکریا ، یحییٰ اور عیسیٰ ہیں .مسلمان علماء اس آیۂ شریفہ کو اس بات پر شاہد قرار دیتے ہیں کہ امام حسن اور امام حسین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اولاد اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت میں سے ہیں نمونے کے طور پر ہم

____________________

(۱)سورہ انعام آیت : ۸۴ اور ۸۵

۱۴۶

یہاںان علماء میں سے ایک عالم کے کلام کو پیش کرتے ہیں :

جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :

''أرسل الحجاج اِلی یحییٰ بن یعمر فقال: بلغنى أنک تزعم أن الحسن والحسین من ذریة النبى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تجده فى کتاب اللّه و قد قرأته من أوله اِلیٰ آخره فلم أجده قال : ألست تقرأ سورة الانعام (وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ) حتی بلغ یَحْیَیٰ وَعِیسَیٰ ؟ قال بلیٰ قال: ألیس عیسیٰ من ذریة اِبراهیم و لیس له أب؟ قال: صدقتَ'' ( ۱ )

حجاج نے یحییٰ بن یعمرکے پاس پیغام بھیجا اور ان سے یہ کہا :مجھے خبر ملی ہے کہ تم یہ گمان کرتے ہو کہ حسن اور حسین نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت میں سے ہیں کیا تم نے اس بات کو کتاب خدا سے حاصل کیا ہے جبکہ میں نے قرآن مجید کو اول سے آخرتک پڑھا ہے لیکن میں نے کوئی ایسی بات اس میں نہیں دیکھی ہے.

یحییٰ بن یعمر نے کہا کیا تم نے سورہ انعام نہیں پڑھا ہے جس میں یہ ہے''وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ '' یہاں تک کہ خدا فرماتا

____________________

(۱)تفسیر در المنثور جلد۳ ص۲۸ طبع بیروت سورہ انعام کی ۸۴ اور ۸۵ آیت کی تفسیر کے ذیل میں

۱۴۷

ہےو یَحْیَی وَعِیسَی ؟''حجاج نے کہا کیوں نہیں پڑھی ہے یحییٰ نے کہا کیا حضرت عیسیٰ ـ حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے نہ تھے جب کہ ان کا کوئی باپ نہ تھا (اور ان کا سلسلہ نسب ماں کے ذریعہ حضرت ابراہیم تک پہنچتا ہے) حجاج نے جواب میں کہا کہ تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو

مذکورہ آیت اور مفسرین کے اقوال سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ نہ صرف شیعہ بلکہ تمام مسلمان علماء امام حسن اور امام حسین کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت اور اولاد سمجھتے ہیں

۲۔ اس قول کے صحیح ہونے پر ایک بہت ہی واضح دلیل آیہ مباہلہ ہے اب ہم اس آیت کو مفسرین کے اقوال کے ساتھ پیش کرتے ہیں :

(فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَائَنَا وَاَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ ﷲِ عَلَی الْکَاذِبِین )( ۱ )

(اے پیغمبر)علم کے آجانے کے بعد جو لوگ آپ سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے بیٹوں ، اپنی اپنی عورتوں اوراپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں

____________________

(۱) سورہ آل عمران آیت : ۶۱

۱۴۸

مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت ''مباہلہ'' کے نام سے مشہور ہے یہ آیت عیسائیوں کے سرداروں سے مناظرہ کرنے کے سلسلہ میں اس وقت نازل ہوئی جب وہ کٹ حجتی سے باز نہ آئے اور آنحضرت حکم خدا سے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت فاطمہ زہرا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ٪کی ہمراہی میں مباھلہ کے لئے تشریف لے گئے اور جب نصاری کے بزرگوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت ٪ کی یہ شان اور ہیبت دیکھی تو وہ سب خوفزدہ ہوگئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آکر یہ التماس کرنے لگے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان پر لعنت نہ کریں آنحضرت نے ان کی درخواست قبول کر لی اور ان کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے اس قصے کو ختم کردیا شیعہ اور سنی علماء اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ مباہلہ کے دن حضرت امیرالمومنین ، حضرت فاطمہ ، حضرت امام حسن اور

۱۴۹

حضرت امام حسین ٪ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھے اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ''ابنائنا''(یعنی ہمارے فرزند) سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد امام حسن اور ، امام حسین ہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ آیہ مباہلہ نے بھی حضرت امام حسن اور امام حسین کو رسول خدا کا فرزند قرار دیا ہے

یہاں پر اس نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ مفسرین نے آیہ مباہلہ کے ذیل میں بہت سی روایات ذکر کرنے کے بعد اس قول کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے نمونے کے طور پر ہم ان میں سے بعض مفسرین کے کلام کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

الف: جلال الدین سیوطی نے حاکم، ابن مرودیہ ،اور ابونعیم سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے : وہ کہتے ہیں :( أنفسنا و أنفسکم )رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و علی ،''ابنائنا''الحسن والحسین و ''نسائنا ''فاطمه.( ۱ )

(انفسنا)''(یعنی ہماری جانوں ) سے مراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی ـ ہیں اور (ابنائنا)(یعنی ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن و حسین ہیں اور(نسائنا)(ہماری عورتوں ) سے مراد فاطمہ زہرا ہیں

ب:فخر رازی اپنی تفسیر میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :

واعلم ان هذه الروایة کالمتفق علیٰ صحتها بین اهل التفسیر والحدیث ( ۲ )

جان لو کہ یہ روایت ایسی حدیث ہے کہ جس کے صحیح ہونے پر اہل تفسیر اور اہل حدیث کااتفاق ہے۔

اور پھر اس کے بعد یوں کہتے ہیں

''المسألة الرابعة: هذه الآیة دالة علی أن الحسن والحسین کانا ابن رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وعد أن یدعوا أبنائه فدعا الحسن والحسین فوجب أن یکون ابنیه'' ( ۳ )

____________________

(۱) تفسیر در المثور جلد ۲ ص ۳۹ طبع بیروت اسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں

(۲)تفسیر ''مفاتیح الغیب '' جلد ۲ ص ۴۸۸ طبع ۱ول مصر ۱۳۰۸ ھ

(۳)تفسیر ''مفاتیح الغیب '' جلد ۲ ص ۴۸۸ طبع ۱ول مصر ۱۳۰۸ ھ

۱۵۰

یہ آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن اور حسین پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند تھے طے یہ ہوا تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بیٹوں کو بلائیں پس آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حسن و حسین ہی کو بلایا تھا پس یہ ثابت ہوگیا کہ وہ دونوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے ہیں ۔

ج:ابو عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں کہ :

(أبنائنا)دلیل علیٰ أن أبناء البنات یسمون أبناء اً .( ۱ )

کلمہ ابنائنا دلیل ہے کہ بیٹی سے ہونے والی اولاد بھی انسان کی اولاد کہلاتی ہے۔

۳۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقوال شاہد ہیں کہ امام حسن اور امام حسین آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند تھے.یہاں پر ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صرف دو اقوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

الف:رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حسن اور حسین کے متعلق فرماتے ہیں :

هذان ابناى مَن أحبهما فقد أحبن .( ۲ )

حسن اور حسین میرے دو فرزند ہیں جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی

ب:پیغمبر اسلام نے حسن اور حسین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

ان بنّى هٰذین ریحانتى من الدنیا .( ۳ )

میرے یہ دو بیٹے اس دنیا سے میرے دو پھول ہیں

____________________

(۱)الجامع لاحکام القرآن جلد ۴ ص ۱۰۴طبع بیروت.

(۲)تاریخ مدینہ دمشق مصنفہ ابن عساکر ترجمة الامام الحسین ـ ص۵۹حدیث ۱۰۶طبع اول بیروت ۰ ۱۴۰ھ.

(۳)گذشتہ حوالہ ص۶۲ حدیث نمبر ۱۱۲.

۱۵۱

تیئیسواں سوال

شیعوں کے نزدیک یہ کیوں ضروری ہے کہ خلیفہ کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی معین فرمائیں؟

جواب: یہ واضح ہے کہ اسلام ایک ہمیشہ رہنے والا عالمی دین ہے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں آپ ہی امت کے رہبر اور ہادی تھے لیکن آپ کی رحلت کے بعد ضروری تھا کہ جو سب سے زیادہ لائق فرد ہو اسے امت اسلامیہ کی رہبری سونپ دی جائے

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خلیفہ، نص کے ذریعہ معین کیا جائے گا(یعنی خدا اور رسول ہی اپنا خلیفہ معین فرمائیں گے )یا یہ کہ خلافت ایک انتخابی عہدہ ہے ؟ اس سلسلہ میں چند نظریے پائے جاتے ہیں شیعوں کا اعتقاد ہے کہ منصب خلافت نص کے ذریعہ معین ہوتا ہے یعنی یہ ضروری ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین خدا کی جانب سے معین کیا جائے

جب کہ اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ منصب خلافت ایک انتخابی عہدہ ہے اور ضروری ہے کہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت، مملکت کے امور کو چلانے کے لئے کسی ایک شخص کو خلیفہ چن لے.

۱۵۲

عصر رسالت کے حالات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ خلیفہ کونص کے ذریعہ معین ہونا چاہئے.

شیعہ علماء نے عقائد کی کتابوں میں خلیفہ کے نص کے ذریعہ معین کئے جانے کے بارے میں بہت سے دلائل بیان کئے ہیں لیکن وہ دلیل جسے یہاں بیان کیا جاسکتا ہے اور جس سے شیعوں کا عقیدہ بھی واضح ہوجاتا ہے وہ عصر رسالت کے حالات کا صحیح تجزیہ ہے.

عصر رسالت میں اسلام کی داخلی اور خارجی سیاست کا یہ تقاضا تھا کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین خدا کی طرف سے خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ معین کیا جائے کیونکہ مسلمانوں کو ہر لحظہ تین بڑی طاقتوں (روم کی سلطنت، ایران کی بادشاہت اور منافقین حجاز کی سازشوں ) کی طرف سے شکست اور نابودی کا خطرہ لاحق تھا اسی طرح امت کی کچھ مصلحتیں بھی تقاضا کررہی تھیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا خلیفہ معین کر کے ساری امت کو بیرونی دشمن کی طاقت کے مقابلے میں ایک صف میں کھڑا کردیں اور اس طرح ملت اسلامیہ کو ان داخلی اختلافات سے بچالیں جن سے دشمنوں کے نفوذ اور تسلط کا موقع فراہم ہوسکتا ہے

اس کی وضاحت

ان تین خطرناک طاقتوں میں سے ایک طاقت روم کی بادشاہی تھی جس سے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی زندگی کے آخری لمحات تک فکر مند رہے ہجرت کے آٹھویں سال فلسطین کی سرزمین پرمسلمانوں اور روم کے عیسائیوں کے درمیان پہلی جنگ ہوئی تھی اس جنگ میں اسلامی فوج کے تین کمانڈر ''جعفر طیار'' ''زید بن حارثہ''اور ''عبداللہ بن رواحہ'' شہید ہوئے تھے اور سپاہ اسلام کو اس جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا

۱۵۳

کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی اس شکست سے قیصر روم کی فوج کے حوصلے بڑھ گئے تھے اور ہر وقت اس بات کاڈر رہتا تھا کہ کہیں وہ اسلام کے مرکزی علاقوں پر حملہ آور نہ ہوجائیں

اسی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے نویں سال مسلمانوں کے ایک بڑے لشکر کو شام کے اطراف میں بھیجا تھا اور ارادہ یہ تھا کہ اگر جنگ کی نوبت آگئی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود لشکر اسلام کی رہبری فرمائیں گے اس درد و رنج والے سفر میں سپاہ اسلام نے اپنی سابقہ شوکت پھر سے حاصل کی اور اسے اس کا سیاسی مقام و منصب دوبارہ مل گیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس فتح کے بعد بھی مطمئن نہیں ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بیماری سے چند دن پہلے مسلمانوں کی فوج کو ''اسامہ'' کی قیادت میں شام کی طرف جانے کا حکم دیا.

عصر رسالت میں مسلمانوں کی دوسری دشمن طاقت ایران کی بادشاہی تھی یہاں تک کہ ایران کے بادشاہ نے انتہائی غصے سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خط کو پھاڑ دیا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی کو توہین کے ساتھ باہر نکال دیا تھا اور نیز یمن کے گورنر کو خط لکھا تھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گرفتار کرلے اورممانعت کی صورت میں انہیں قتل کرڈالے

۱۵۴

اگرچہ ایران کا بادشاہ خسرو پرویز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے ہی میں مر گیا تھا لیکن مدتوں سے ایران کے زیر اقتدار رہنے والے ملک یمن کا مسلمانوں کے ذریعہ استقلال حاصل کرلینا ایرانی بادشاہوں کو شدید ناگوار گزرا اس وجہ سے ایران کی سطوت شاہی کے لئے اسلام کی طاقت کو پھلتا پھولتا دیکھنا برداشت کے قابل نہیں تھا

مسلمانوں کو تیسرا خطرہ منافقین کے گروہ سے تھا منافقوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش تھی کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی کے ذریعہ فتنہ و فساد پیدا کریں ان لوگوں کے نفاق اور کینہ کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے تبوک سے مدینہ کے راستے میں حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا یہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت سے اسلام کی تحریک ختم ہوجائے گی اور وہ لوگ آسودہ خاطر ہوجائیں گے منافقین کے عزائم اور ان کی سازشوں کو آشکار کرنے کے لئے قرآن مجید نے ان سورتوں : آل عمران ، نساء ، مائدہ، انفال ، توبہ، عنکبوت، احزاب، محمد، فتح،مجادلہ، حدید، منافقین اور حشر میں ان کا تذکرہ فرمایا ہے.( ۱ )

اسلام کے ایسے سرسخت اور خطرناک دشمنوں کی موجودگی میں کیا یہ صحیح تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تازہ مسلمانوں کے دینی اور سیاسی امور کی رہبری کے لئے اپنا کوئی جانشین معین نہ فرماتے؟

اس وقت کے اجتماعی حالات کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ ضروری تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعد اپنا جانشین معین کرکے ہر قسم کے اختلاف کا سد باب کردیتے اور ایک مستحکم دفاعی نظام تشکیل دیتے ہوئے اسلامی وحدت کو دوام بخشتے اگر

____________________

(۱)فروغ ابدیت ، مولف استاد جعفر سبحانی(اقتباس)

۱۵۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا کوئی خلیفہ معین نہ فرماتے تو عالم اسلام کو شدید قسم کے ناگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑتا اور نتیجة ہر گروہ یہ کہنے لگتا کہ خلیفہ ہم میں سے ہونا چاہئے.

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثیں

اجتماعی حالات کے تقاضوںاور چند دوسری وجوہات کی بنیاد پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اول بعثت سے لے کر اپنی زندگی کے آخری ایام تک اپنی جانشینی کے مسئلے کو بیان فرمایا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ میں جہاں اپنی رسالت کا اعلان فرمایا وہیں اپنے جانشین کو بھی معین فرما دیا تھا اور اسی طرح اپنی زندگی کے آخری ایام میں حجة الوداع سے لوٹتے وقت غدیر خم کے میدان میں اپنے جانشین کا اعلان فرمایا تھا اورنہ صرف ان دو مقامات پر بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی ساری زندگی کے دوران مختلف مقامات پر اپنے جانشین کی شناخت کراتے رہے مزید تفصیلات کے لئے اسی کتاب میں تیسرے سوال کے جواب کا مطالعہ فرمائیں ہم نے وہاں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثوںکے تین ایسے نمونے ذکر کئے ہیں جن میں آنحضرت کے جانشنین کا تذکرہ ہے وہاں ہم نے ان حدیثوں کے ماخذ بھی ذکر کئے ہیں

صدر اسلام کے حالات اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان حدیثوں (جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے) کے مطالعے سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ خلیفہ خدا و رسول ہی کی طرف سے معین ہوتا ہے۔

۱۵۶

چوبیسواں سوال

کیا غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہے؟

جواب: لفظ توحید اور شرک کے معنی جاننے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کی آیات اورحدیثوںکا مطالعہ کیا جائے کیونکہ قرآن مجید اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق کو باطل سے اور توحید کو شرک سے جدا کرنے کا بہترین معیار ہیں

اس بنیاد پر بہتر ہے کہ ہر قسم کے نظریہ اور عمل کو قرآن اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روشنی میں زندہ اور بے تعصب ضمیر کے ساتھ پرکھیں اب ہم یہاں پر قرآن و سنت سے غیر خدا کی قسم کھانے کے جائز ہونے پر چند دلیلیں پیش کریں گے :

۱۔قرآن مجید میں چند محترم مخلوقات جیسے''پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''اور ''روح انسان'' ''قلم'' ''سورج'' ''چاند'' ''ستارے'' ''دن اور رات'' ''آسمان اور زمین'' ''زمانے'' ''پہاڑ اور سمندر'' وغیرہ کی قسم کھائی گئی ہے یہاں ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

الف: (لَعَمْرُکَ ِانَّهُمْ لَفِى سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُونَ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ حجر آیت ۷۲

۱۵۷

(پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !) آپ کی جان کی قسم یہ لوگ اپنی خواہش نفس کے نشے میں اندھے ہورہے ہیں

ب: (وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَالْقَمَرِ ِاذَا تَلاَهَا وَالنَّهَارِ اِذَا جَلاَّهَا وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشَاهَا وَالسَّمَائِ وَمَا بَنَاهَا وَالَْرْضِ وَمَا طَحَاهَا وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَاَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ... )( ۱ )

آفتاب اور اس کی روشنی کی قسم. اور چاند کی قسم جب وہ اس کے پیچھے چلے. اور دن کی قسم جب وہ روشنی بخشے.اور رات کی قسم جب وہ اسے ڈھانک لے اور آسمان کی قسم اور جس نے اسے بنایا. اور زمین کی قسم اور جس نے اسے بچھایا اور نفس کی قسم اور جس نے اسے درست کیا. پھر بدی اور تقوی کی ہدایت دی ہے.

ج: (وَالنَّجْمِ اِذَا هَوَی )( ۲ )

قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا.

د: (وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ )( ۳ )

____________________

(۱)سورہ شمس آیت ۱ تا ۸

(۲)سورہ نجم آیت:۱

(۳)سورہ قلم آیت:۱

۱۵۸

ھ: (وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنسَانَ لَفِى خُسْرٍ )( ۱ )

قسم ہے عصر کی بے شک انسان خسارے میں ہے.

و: (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ )( ۲ )

قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی.

ز: (وَالطُّورِ وَکِتَابٍ مَسْطُورٍ فِى رَقٍّ مَنْشُورٍ وَالْبَیْتِ الْمَعْمُورِة وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُور )( ۳ )

طور کی قسم. اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم جو کشادہ اوراق میں ہے اور بیت معمور کی قسم اور بلند چھت (آسمان)کی قسم. اور بھڑکتے ہوئے سمند ر کی قسم.

اسی طرح ان سورتوں '' نازعات'' ''مرسلات '' ''بروج'' ''طارق'' ''بلد'' ''تین'' ''ضحی'' میں بھی دنیا کی مختلف اشیاء کی قسمیں کھائی گئی ہیں

اگر غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہوتا تو اس قرآن مجید میں جو توحید کا مظہر ہے ، ہر گز غیر خدا کی قسمیں نہ کھائی جاتیں اور اگر اس قسم کی قسمیں کھانا صرف خداوند کی

____________________

(۱)سورہ عصر آیت ۱ ا ور۲.

(۲)سورہ فجر آیت : ۱ اور ۲.

(۳)سورہ طور آیت نمبر ۱ سے ۶ تک.

۱۵۹

خصوصیات میں سے ہوتا تو قرآن مجیدمیں ضرور اس بات کی طرف متوجہ کرادیا جاتا تاکہ بعدمیں کسی کو دھوکہ نہ ہو

۲۔دنیا کے سارے مسلمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے لئے اسوہ عمل سمجھتے ہیں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو حق اور باطل کی شناخت کے لئے میزان قرار دیتے ہیں

عالم اسلام کے محققین اور اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں کے مؤلفین نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی ایسی قسموں کو نقل کیا ہے جو حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غیر خدا کے نام سے کھائی تھیں.

احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں روایت کی ہے :

''فلعمر لأن تتکلم بمعروف و تنهیٰ عن منکر خیر من أن تسکت'' ..( ۱ )

میری جان کی قسم ! تمہارے خاموش رہنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ تم امر بمعروف اور نھی از منکر کرو.

مسلم بن حجاج کا اپنی کتاب صحیح میں بیان ہے کہ :

جاء رجل اِلی النبى فقال: یا رسول اللّه أّ الصدقة أعظم أجرًا؟ فقال: أما و أبیک لتنبأنّه أن تصدق و أنت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأمل البقائ .....( ۲ )

____________________

(۱)مسند احمد جلد ۵ ص ۲۲۴ اور ۲۲۵ حدیث بشیر ابن خصاصیہ سدوسی.

(۲)صحیح مسلم، جزء سوم ، طبع مصر ، کتاب الزکاة، باب بیان ان افضل الصدقة ، صدقة الصحیح الشحیح، ص ۹۳ اور ۹۴

۱۶۰

أَلَا وإِنَّ أَخْوَفَ الْفِتَنِ عِنْدِي عَلَيْكُمْ فِتْنَةُ بَنِي أُمَيَّةَ فَإِنَّهَا فِتْنَةٌ عَمْيَاءُ مُظْلِمَةٌ عَمَّتْ خُطَّتُهَا وخَصَّتْ بَلِيَّتُهَا،وأَصَابَ الْبَلَاءُ مَنْ أَبْصَرَ فِيهَا - وأَخْطَأَ الْبَلَاءُ مَنْ عَمِيَ عَنْهَا –

وايْمُ اللَّه لَتَجِدُنَّ بَنِي أُمَيَّةَ لَكُمْ - أَرْبَابَ سُوءٍ بَعْدِي كَالنَّابِ الضَّرُوسِ تَعْذِمُ بِفِيهَا وتَخْبِطُ بِيَدِهَا - وتَزْبِنُ بِرِجْلِهَا وتَمْنَعُ دَرَّهَا لَا يَزَالُونَ بِكُمْ حَتَّى لَا يَتْرُكُوا مِنْكُمْ إِلَّا نَافِعاً لَهُمْ - أَوْ غَيْرَ ضَائِرٍ بِهِمْ ولَا يَزَالُ بَلَاؤُهُمْ عَنْكُمْ - حَتَّى لَا يَكُونَ انْتِصَارُ أَحَدِكُمْ مِنْهُمْ - إِلَّا كَانْتِصَارِ الْعَبْدِ مِنْ رَبِّه - والصَّاحِبِ مِنْ مُسْتَصْحِبِه - تَرِدُ عَلَيْكُمْ فِتْنَتُهُمْ شَوْهَاءَ مَخْشِيَّةً وقِطَعاً جَاهِلِيَّةً - لَيْسَ فِيهَا مَنَارُ هُدًى ولَا عَلَمٌ يُرَى

نَحْنُ أَهْلَ الْبَيْتِ مِنْهَا بِمَنْجَاةٍ ولَسْنَا فِيهَا بِدُعَاةٍ - ثُمَّ يُفَرِّجُهَا اللَّه عَنْكُمْ كَتَفْرِيجِ الأَدِيمِ بِمَنْ يَسُومُهُمْ خَسْفاً ويَسُوقُهُمْ عُنْفاً - ويَسْقِيهِمْ بِكَأْسٍ مُصَبَّرَةٍ لَا يُعْطِيهِمْ إِلَّا السَّيْفَ -

یاد رکھو میری نگاہ میں سب سے خوفناک فتنہ بنی امیہ کا ہے جو خود بھی اندھا ہوگا اوردوسروں کو بھی اندھیرے میں رکھے گا۔اس کے خطوط عام ہوں گے لیکن اس کی بلاخاص لوگوں کے لئے ہوگی جو اس فتنہ میں آنکھ کھولے ہوں گے ورنہ اندھوں کے پاس سے بآسانی گذر جائے گا۔

خدا کی قسم!تم بنی امیہ کو میرے بعد بد ترین صاحبان اقتدار پائو گے جن کی مثال اس کاٹنے والی اونٹنی کی ہوگی جومنہ سے کاٹے گی اور ہاتھ مارے گی یا پائوں چلائے اور دودھ نہ دوہنے دے گی اور یہ سلسلہ یوں ہی بر قرار رہے گا جس سے صرف وہ افراد بچیں گے جوان کے حق میں مفید ہوں یا کم سے کم نقصان دہ نہ ہوں۔یہ مصیبت تمہیں اسی طرح گھیرے رہے گی یہاں تک کہ تمہاری داد خواہی ایسے ہی ہوگی جیسے غلام اپنے آقا سے یا مرید اپنے پیر سے انصاف کا تقاضا کرے۔تم پر ان کا فتنہ ایسی بھیانک شکل میں وارد ہوگا جس سے ڈر لگے گا اور اس میں جاہلیت کے اجزا بھی ہوں گے۔نہ کوئی منارہ ہدایت ہوگا اور نہ کوئی راستہ دکھانے والا پرچم۔

بس ہم اہل بیت ہیں جو اس فتنہ سے محفوظ رہیں گے اور اس کے داعیوں میں سے نہ ہوں گے۔اس کے بعد اللہ تم سے اس فتنہ کو اس طرح الگ کردے گا جس طرح جانور کی کھال اتاردی جاتی ہے۔اس شخص کے ذریعہ جو انہیں ذلیل کرے گا اور سختی سے ہنکائے گا اور موت کے تلخ گھونٹ پلائے گا اور تلوارکے علاوہ کچھ نہ دے گا اور

۱۶۱

ولَا يُحْلِسُهُمْ إِلَّا الْخَوْفَ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَوَدُّ قُرَيْشٌ بِالدُّنْيَا - ومَا فِيهَا لَوْ يَرَوْنَنِي مَقَاماً وَاحِداً - ولَوْ قَدْرَ جَزْرِ جَزُورٍ لأَقْبَلَ مِنْهُمْ مَا أَطْلُبُ الْيَوْمَ بَعْضَه فَلَا يُعْطُونِيه!

(۹۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف اللَّه تعالى ثم يبين فضل الرسول الكريم وأهل بيته ثم يعظ الناس

اللَّه تعالى

فَتَبَارَكَ اللَّه الَّذِي لَا يَبْلُغُه بُعْدُ الْهِمَمِ - ولَا يَنَالُه حَدْسُ الْفِطَنِ،الأَوَّلُ الَّذِي لَا غَايَةَ لَه فَيَنْتَهِيَ - ولَا آخِرَ لَه فَيَنْقَضِيَ.

ومنها في وصف الأنبياء

فَاسْتَوْدَعَهُمْ فِي أَفْضَلِ مُسْتَوْدَعٍ - وأَقَرَّهُمْ فِي خَيْرِ مُسْتَقَرٍّ - تَنَاسَخَتْهُمْ كَرَائِمُ الأَصْلَابِ إِلَى مُطَهَّرَاتِ الأَرْحَامِ

خوف کے علاوہ کوئی لباس نہ پہنائے گا۔وہ وقت ہوگا جب قریش کو یہ آرزد ہوگی کہ کاش دنیا اور اس کی تمام دولت دے کر ایک منزل پر مجھے دیکھ لیتے چاہے صرف اتنی دیر کے لئے جتنی دیرمیں ایک اونٹ نحر کیا جاتا ہے تاکہ میں ان سے اس چیز کو قبول کرلوں جس کا ایک حصہ آج مانگتا ہوں تووہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

(۹۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں پروردگار کے اوصاف ۔رسول اکرم (ص) اور اہل بیت اطہار کے فضائل اور موعظہ حسنہ کا ذکر کیا گیا ہے)

با برکت ہے وہ پروردگار جس کی ذات تک ہمتوں کی بلندیاں نہیں پہنچ سکتی ہیں اور عقل و فہم کی ذہانتیں اسے نہیں پا سکتی ہیں وہ ایسا اول ہے جس کی کوئی آخری حد نہیں ہے اور ایساآخر ہے جس کے لئے کوئی فنا نہیں ہے۔

(انبیاء کرام )

پروردگارنے انہیں بہترین مقامات پر ودیعت رکھااور بہترین منزل میں مستقر کیا۔وہ مسلسل شریف ترین(۱) اصلاب سے پاکیزہ ترین ارحام کی طرف منتقل ہوتے

(۱)امیر المومنین کا یہ ارشاد گرامی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انبیاء کرام کے آباء و اجداد اورامہات میں کوئی ایک بھی ایمان یا کردار کے اعتبار سے ناقص اور عیب دارنہیں تھا اور اس کے بعد اس بحث کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ یہ بات عقلی اعتبار سے ضروری ہے یا نہیں اور اس کے بغیر منصب کا جوازپیدا ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس لئے کہ اگر کافر اصلاب اوربے دین ارحام میں کوئی نقص نہیں تھا اور ناپاک ظرف منصب الٰہی کے حامل کے لئے نا مناسب نہیں تھا تو اس قدر اہتمام کی کیا ضرورت تھی کہ آدم سے لے کرخاتم تک کسی ایک مرحلہ پر بھی کوئی ناپاک صلب یا غیر طیب رحم داخل نہ ہونے پائے۔

۱۶۲

كُلَّمَا مَضَى مِنْهُمْ سَلَفٌ - قَامَ مِنْهُمْ بِدِينِ اللَّه خَلَفٌ.

رسول اللَّه وآل بيته

حَتَّى أَفْضَتْ كَرَامَةُ اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى إِلَى مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَأَخْرَجَه مِنْ أَفْضَلِ الْمَعَادِنِ مَنْبِتاً وأَعَزِّ الأَرُومَاتِ مَغْرِساً مِنَ الشَّجَرَةِ الَّتِي صَدَعَ مِنْهَا أَنْبِيَاءَه - وانْتَجَبَ مِنْهَا أُمَنَاءَه عِتْرَتُه خَيْرُ الْعِتَرِ وأُسْرَتُه خَيْرُ الأُسَرِ وشَجَرَتُه خَيْرُ الشَّجَرِ - نَبَتَتْ فِي حَرَمٍ وبَسَقَتْ فِي كَرَمٍ - لَهَا فُرُوعٌ طِوَالٌ وثَمَرٌ لَا يُنَالُ - فَهُوَ إِمَامُ مَنِ اتَّقَى وبَصِيرَةُ مَنِ اهْتَدَى - سِرَاجٌ لَمَعَ ضَوْؤُه وشِهَابٌ سَطَعَ نُورُه - وزَنْدٌ بَرَقَ لَمْعُه سِيرَتُه الْقَصْدُ وسُنَّتُه الرُّشْدُ وكَلَامُه الْفَصْلُ وحُكْمُه الْعَدْلُ - أَرْسَلَه عَلَى حِينِ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ - وهَفْوَةٍ عَنِ الْعَمَلِ وغَبَاوَةٍ مِنَ الأُمَمِ.

عظة الناس

اعْمَلُوا رَحِمَكُمُ اللَّه عَلَى أَعْلَامٍ بَيِّنَةٍ فَالطَّرِيقُ نَهْجٌ( يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ ) - وأَنْتُمْ فِي دَارِ مُسْتَعْتَبٍ عَلَى مَهَلٍ وفَرَاغٍ

رہے کہ جب کوئی بزرگ گزر گیا تو دین خدا کی ذمہ داری بعد والے نے سنبھال لی۔

رسول اکرم (ص)

یہاں تک کہ الٰہی شرف حضرت محمد مصطفی (ص)تک پہنچ گیا اور اس نے انہیں بہترین نشوونما کے معدن اورشریف ترین اصل کے مرکز کے ذریعہ دنیا میں بھیج دیا۔ اسی شجرۂ طیبہ سے جس سے انبیاء کو پیدا کیا اور اپنے امینوں کا انتخاب کیا۔پیغمبر (ص) کی عترت بہترین اور ان کاخاندان شریف ترین خاندان ہے۔ان کا شجرہ وہ بہترین شجرہ ے جو سرزمین حرم پر اگا ہے اور بزرگ کے سایہ میں پروان چڑھا ہے۔اس کی شاخیں بہت طویل ہیں اور اس کے پھل انسانی دسترس سے بالا تر ہیں۔وہ اہل تقویٰ کے امام اور طالبان ہدایت کے لئے سر چشمہ بصیرت ہیں۔وہ ایساچراغ ہیں جس کی روشنی لو دے رہی ہے اور ایسا ستارہ ہیں جس کا نور درخشاں ہے اور ایسا چقماق ہیں جس کی چمک برق آسا ہے۔ان کی سیرت میانہ روی' ان کی سنت رشد و ہدایت ' ان کا کلام حرف آخر اور ان کا فیصلہ عادلانہ ہے۔اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اور بدعملی کا دوردورہ تھا اور امت غفلت میں ڈوبی ہوئی تھی۔

(موعظہ)

دیکھو! خدا تم پر رحمت نازل کرے۔واضح نشانیوں پر عمل کرو کہ راستہ بالکل سیدھا ہے اوروہ جنت کی طرف دعوت دے رہا ہے اور تم ایسے گھرمیں ہو جہاں خوشنودی پروردگار حاصل کرنے کی مہلت اور فراغت

۱۶۳

والصُّحُفُ مَنْشُورَةٌ - والأَقْلَامُ جَارِيَةٌ - والأَبْدَانُ صَحِيحَةٌ - والأَلْسُنُ مُطْلَقَةٌ - والتَّوْبَةُ مَسْمُوعَةٌ - والأَعْمَالُ مَقْبُولَةٌ.

(۹۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يقرر فضيلة الرسول الكريم

بَعَثَه والنَّاسُ ضُلَّالٌ فِي حَيْرَةٍ - وحَاطِبُونَ فِي فِتْنَةٍ قَدِ اسْتَهْوَتْهُمُ الأَهْوَاءُ - واسْتَزَلَّتْهُمُ الْكِبْرِيَاءُ واسْتَخَفَّتْهُمُ الْجَاهِلِيَّةُ الْجَهْلَاءُ حَيَارَى فِي زَلْزَالٍ مِنَ الأَمْرِ وبَلَاءٍ مِنَ الْجَهْلِ - فَبَالَغَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فِي النَّصِيحَةِ - ومَضَى عَلَى الطَّرِيقَةِ - ودَعَا إِلَى الْحِكْمَةِ( والْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ) .

(۹۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في اللَّه وفي الرسول الأكرم

اللَّه تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الأَوَّلِ فَلَا شَيْءَ قَبْلَه - والآخِرِ فَلَا شَيْءَ بَعْدَه - والظَّاهِرِ فَلَا شَيْءَ فَوْقَه

حاصل ہے۔نامۂ اعمال کھلے ہوئے ہیں۔قلم قدرت چل رہا ہے۔بدن صحیح و سالم ہیں۔زبانیں آزاد ہیں ' تو بہ سنی جا رہی ہے اور اعمال قبول کئے جا رہے ہیں۔

(۹۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رسول اکرم (ص) کے فضائل و مناقب کا تذکرہ کیا گیا ہے )

اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں متحیر تھے۔اور فتنوں میں ہاتھ پائوں مار رہے تھے۔ خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرورنے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کردی تھی۔جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیاتھا اور وہ غیر یقینی حالات اورجہالت کی بلائوں میں حیران و سرگرداں تھے۔آپ نے نصیحت کا حق ادا کردیا ' سیدھے راستہ پرچلے اور لوگوں کو حکمت اورموعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔

(۹۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(حضرت رب العالمین اور رسول اکرم (ص) کے صفات کے بارے میں )

تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو ایسا اول ہے کہ اس سے پہلے کوئی شے نہیں ہے اور ایسا آخر ہے کہ اس کے بعد کوئی شے نہیں ہے۔وہ ظاہر ہے تو اس سے مافوق کچھ نہیں ہے

۱۶۴

والْبَاطِنِ فَلَا شَيْءَ دُونَه.

ومنها في ذكر الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

مُسْتَقَرُّه خَيْرُ مُسْتَقَرٍّ - ومَنْبِتُه أَشْرَفُ مَنْبِتٍ - فِي مَعَادِنِ الْكَرَامَةِ - ومَمَاهِدِ السَّلَامَةِ - قَدْ صُرِفَتْ نَحْوَه أَفْئِدَةُ الأَبْرَارِ - وثُنِيَتْ إِلَيْه أَزِمَّةُ الأَبْصَارِ - دَفَنَ اللَّه بِه الضَّغَائِنَ وأَطْفَأَ بِه الثَّوَائِرَ أَلَّفَ بِه إِخْوَاناً - وفَرَّقَ بِه أَقْرَاناً - أَعَزَّ بِه الذِّلَّةَ - وأَذَلَّ بِه الْعِزَّةَ - كَلَامُه بَيَانٌ وصَمْتُه لِسَانٌ.

(۹۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في أصحابه وأصحاب رسول اللَّه

أصحاب علي

ولَئِنْ أَمْهَلَ الظَّالِمَ - فَلَنْ يَفُوتَ أَخْذُه - وهُوَ لَه بِالْمِرْصَادِ عَلَى مَجَازِ طَرِيقِه - وبِمَوْضِعِ الشَّجَا مِنْ مَسَاغِ رِيقِه

اور باطن ہے تو اس سے قریب تر کوئی شے نہیں ہے۔

(رسول اکرم (ص) ) آپ کامستقر بہترین مستقر اور آپ کی نشوونما کی جگہ بہترین منزل ہے یعنی کرامتوں کا معدن اور سلامتی کامرکز نیک کرداروں کے دل آپ کی طرف جھکا دئیے گئے ہیں اور نگاہوں کے رخ آپ کی طرف موڑ دئیے گئے ہیں۔اللہ نے آپ کے ذریعہ کینوں کو دفن کردیا ہے اور عداوتوں کے شعلے بجھا دئیے ہیں۔لوگوں کو بھائی بھائی بنا دیا ہے اور کفر کی برادری کو منتشر کردیا ہے اہل ذلت کو عزیز بنا دیا ہے اور کفر کی عزت پر اکڑنے والوں کو ذلیل کردیا ہے ۔آپ کا کلام شریعت کا بیان ہے اور آپ کی خاموشی احکام(۱) کی زبان۔

(۹۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اپنے اصحاب اور اصحاب رسول اکرم (ص) کا موازنہ کیا گیا ہے)

اگر پروردگارنے ظالم کو مہلت دے رکھی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس کی گرفت سے باہر نکل گیا ہے۔یقینا وہ اس کی گزر گاہ اور اس کی گردن میں اچھو لگنے کی جگہ پر اس کی تاک میں ہے۔

(۱)علماء اصول کی زبان میں معصوم کی خاموشی کو تقریر سے تعبیر کیا جاتا ہے اوروہ اسی طرح حجت اور مدرک احکام ہے جس طرح معصوم کا قول و عمل حجت اور سند کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے احکام شریعت کا استنباط و استخراج کیا جاتا ہے۔عام انسانوں کی خاموشی دلیل رضا مندی نہیں بن سکتی ہے لیکن معصوم کی خاموشی دلیل احکام بھی بن سکتی ہے۔

۱۶۵

أَمَا والَّذِي نَفْسِي بِيَدِه - لَيَظْهَرَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ عَلَيْكُمْ - لَيْسَ لأَنَّهُمْ أَوْلَى بِالْحَقِّ مِنْكُمْ - ولَكِنْ لإِسْرَاعِهِمْ إِلَى بَاطِلِ صَاحِبِهِمْ وإِبْطَائِكُمْ عَنْ حَقِّي - ولَقَدْ أَصْبَحَتِ الأُمَمُ تَخَافُ ظُلْمَ رُعَاتِهَا - وأَصْبَحْتُ أَخَافُ ظُلْمَ رَعِيَّتِي - اسْتَنْفَرْتُكُمْ لِلْجِهَادِ فَلَمْ تَنْفِرُوا - وأَسْمَعْتُكُمْ فَلَمْ تَسْمَعُوا - ودَعَوْتُكُمْ سِرّاً وجَهْراً فَلَمْ تَسْتَجِيبُوا - ونَصَحْتُ لَكُمْ فَلَمْ تَقْبَلُوا - أَشُهُودٌ كَغُيَّابٍ وعَبِيدٌ كَأَرْبَابٍ - أَتْلُو عَلَيْكُمْ الْحِكَمَ فَتَنْفِرُونَ

مِنْهَا - وأَعِظُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ الْبَالِغَةِ - فَتَتَفَرَّقُونَ عَنْهَا - وأَحُثُّكُمْ عَلَى جِهَادِ أَهْلِ الْبَغْيِ - فَمَا آتِي عَلَى آخِرِ قَوْلِي - حَتَّى أَرَاكُمْ مُتَفَرِّقِينَ أَيَادِيَ سَبَا تَرْجِعُونَ إِلَى مَجَالِسِكُمْ - وتَتَخَادَعُونَ عَنْ مَوَاعِظِكُمْ - أُقَوِّمُكُمْ غُدْوَةً وتَرْجِعُونَ إِلَيَّ عَشِيَّةً - كَظَهْرِ الْحَنِيَّةِ عَجَزَ الْمُقَوِّمُ وأَعْضَلَ الْمُقَوَّم.

قسم ہے اس مالک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ یہ قوم یقینا تم پر غالب آجائے گی۔نہ اس لئے کہ وہ تم سے زیادہ حقدار ہیں(۲) بلکہ اس لئے کہ وہ اپنے امیر کے باطل کی فوراً اطاعت کر لیتے ہیں اورتم میرے حق میں ہمیشہ سستی سے کام لیتے ہو۔تمام دنیا کی قومیں اپنے حکام کے ظلم سے خوفزدہ ہیں اورمیں اپنی رعایا کے ظلم سے پریشان ہوں۔میں نے تمہیں جہاد کے لئے آمادہ کیا مگر تم نہ اٹھے۔موعظہ سنایا تو تم نے نہ سنا۔علی الاعلان اور خفیہ طریقہ سے دعوت دی لیکن تم نے لبیک نہ کہی اورنصیحت بھی کی تو اسے قبول نہ کیا۔تم ایسے حاضر ہو جیسے غائب اور ایسے اطاعت گذار ہوجیسے مالک میں تمہارے لئے حکمت آمیز باتیں کرتا ہوں اورتم بیزار ہو جاتے ہو۔بہترین نصیحت کرتا ہوں اورتم بھاگ کھڑے ہوتے ہو۔باغیوں کے جہاد پر آمادہ کرتا ہوں اور ابھی آخر کلام تک نہیں پہنچنے پاتا ہوں کہ تم سباکی اولاد کی طرح منتشر ہوجاتے ہو۔اپنی محفلوں کی طرف پلٹ جاتے ہو اور ایک دوسرے کے دھوکہ میں مبتلاہو جاتے ہو۔میں صبح کے وقت تمہیں سیدھا کرتا ہوں اور تم شام کے وقت یوں پلٹ کرآتے ہوجیسے کمان۔تمہیں سیدھا کرنے والا بھی عاجزآگیا اور تمہاری اصلاح بھی نا ممکن ہوگئی۔

(۲)خدا گواہ ہے کہ قائد کی تمام قائدانہ صلاحیتیں بیکار ہو کر رہ جاتی ہیں جب قوم اطاعت کے راستہ سے منحرف ہو جاتی ہے اور بغاوت پر آمادہ ہوجاتی ہے۔انحراف بھی اگر جہالت کی بناپر ہوتا ہے تو اس کی اصلاح کا امکان رہتا ہے۔لیکن مال غنیمت اور رشوت کا بزار گرم ہو جائے اوردولت دین کی قیمت بننے لگے تو وہاں ایک صحیح اورصالح قائد کا فرض قیامت انجام دینا تقریبا ً نا ممکن ہو کر رہ جاتا ہے اور اسے صبح و شام حالات کی فریاد ہی کرنا پڑتی ہے تاکہ قوم پرحجت تمام کردے اور مالک کی بارگاہ میں اپناعذر پیش کردے ۔

۱۶۶

أَيُّهَا الْقَوْمُ الشَّاهِدَةُ أَبْدَانُهُمْ - الْغَائِبَةُ عَنْهُمْ عُقُولُهُمْ - الْمُخْتَلِفَةُ أَهْوَاؤُهُمْ - الْمُبْتَلَى بِهِمْ أُمَرَاؤُهُمْ - صَاحِبُكُمْ يُطِيعُ اللَّه وأَنْتُمْ تَعْصُونَه - وصَاحِبُ أَهْلِ الشَّامِ يَعْصِي اللَّه - وهُمْ يُطِيعُونَه - لَوَدِدْتُ واللَّه أَنَّ مُعَاوِيَةَ صَارَفَنِي بِكُمْ - صَرْفَ الدِّينَارِ بِالدِّرْهَمِ - فَأَخَذَ مِنِّي عَشَرَةَ مِنْكُمْ - وأَعْطَانِي رَجُلًا مِنْهُمْ.

يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ - مُنِيتُ مِنْكُمْ بِثَلَاثٍ واثْنَتَيْنِ - صُمٌّ ذَوُو أَسْمَاعٍ - وبُكْمٌ ذَوُو كَلَامٍ - وعُمْيٌ ذَوُو أَبْصَارٍ - لَا أَحْرَارُ صِدْقٍ عِنْدَ اللِّقَاءِ - ولَا إِخْوَانُ ثِقَةٍ عِنْدَ الْبَلَاءِ - تَرِبَتْ أَيْدِيكُمْ - يَا أَشْبَاه الإِبِلِ غَابَ عَنْهَا رُعَاتُهَا - كُلَّمَا جُمِعَتْ مِنْ جَانِبٍ تَفَرَّقَتْ مِنْ آخَرَ - واللَّه لَكَأَنِّي بِكُمْ فِيمَا إِخَالُكُمْ - أَنْ لَوْ حَمِسَ الْوَغَى وحَمِيَ الضِّرَابُ - قَدِ انْفَرَجْتُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ - انْفِرَاجَ الْمَرْأَةِ عَنْ قُبُلِهَا وإِنِّي لَعَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي ومِنْهَاجٍ مِنْ نَبِيِّي - وإِنِّي لَعَلَى الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ - أَلْقُطُه لَقْطاً

اے وہ قوم جس کے بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب تمہارے خواہشات گونا گوں ہیں اورتمہارے حکام تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں۔تمہاری امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اورتم اس کی نا فرمانی کرتے ہو اور شام کا حاکم اللہ کی معصیت کرتا ہے اور اس کی قوم اس کی اطاعت کرتی ہے۔خدا گواہ ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ معاویہ مجھ سے درہم و دینار کا سودا کرلے کہتم میں کے دس لے کراپنا ایک دیدے۔ کوفہ والو! میں تمہاری وجہ سے تین طرح کی شخصیات اور دو طرح کی کیفیات سے دوچار ہوں ۔تم کان رکھنے والے بہرے ' زبان رکھنے والے گونگے اور آنکھ رکھنے والے اندھے ہو۔تمہاری حالت یہ ہے کہ نہ میدان جنگ کے سچے جواں مرد ہو اور نہ مصیبتوں میں قابل اعتماد ساتھی۔تمہارے ہاتھ خاک میں مل جائیں۔تم ان اونٹوں جیسے ہو جن کے چرانے والے گم ہو جائیں کہ جب ایک طرف سے جمع کئے جائیں تو دوسری طرف سے منتشر ہو جائیں۔خدا کی قسم: میں اپنے خیال کے مطابق تمہیں ایسا دیکھ رہا ہوں کہ اگر جنگ تیز ہوگئی اور میدان کا رزار گرم ہو گیا تو تم فرزندابو طالب سے اس بے شرمی کے ساتھ الگ ہو جائو گے جس طرح کوئی عورت برہنہ ہو جاتی ہے۔لیکن بہر حال میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل روشن رکھتا ہوں اور پیغمبر (ص) کے راستہ پرچل رہا ہوں ۔میرا راستہ بالکل روشن ہے جسے میں باطل کے اندھیروں میں بھی ڈھونڈھ لیتاہوں۔

۱۶۷

أصحاب رسول اللَّه

انْظُرُوا أَهْلَ بَيْتِ نَبِيِّكُمْ - فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ واتَّبِعُوا أَثَرَهُمْ - فَلَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ هُدًى - ولَنْ يُعِيدُوكُمْ فِي رَدًى - فَإِنْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا وإِنْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا - ولَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا - ولَا تَتَأَخَّرُوا عَنْهُمْ فَتَهْلِكُوا - لَقَدْ رَأَيْتُ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَمَا أَرَى أَحَداً يُشْبِهُهُمْ مِنْكُمْ - لَقَدْ كَانُوا يُصْبِحُونَ شُعْثاً غُبْراً وقَدْ بَاتُوا سُجَّداً وقِيَاماً - يُرَاوِحُونَ بَيْنَ جِبَاهِهِمْ وخُدُودِهِمْ - ويَقِفُونَ عَلَى مِثْلِ الْجَمْرِ مِنْ ذِكْرِ مَعَادِهِمْ - كَأَنَّ بَيْنَ أَعْيُنِهِمْ رُكَبَ الْمِعْزَى مِنْ طُولِ سُجُودِهِمْ - إِذَا ذُكِرَ اللَّه هَمَلَتْ أَعْيُنُهُمْ - حَتَّى تَبُلَّ جُيُوبَهُمْ - ومَادُوا كَمَا يَمِيدُ الشَّجَرُ يَوْمَ الرِّيحِ الْعَاصِفِ - خَوْفاً مِنَ الْعِقَابِ ورَجَاءً لِلثَّوَابِ!

(اصحاب رسول اکرم (ص))

دیکھو! اہل بیت پیغمبر (ص) پر نگاہ رکھو اور انہیں کے راستہ کو اختیار کرو انہیں کے نقش قدم پر چلتے رہوکہوہ نہ تمہیں ہدایت سے باہر لے جائیں گے اور نہ ہلاکت میں پلٹ کرجانے دیں گے۔وہ ٹھہر جائیں تو ٹھہر جائو اور اٹھ کھڑے ہوں تو کھڑے ہوجائو۔خبر دار ان سے آگے نہ نکل جانا کہ گمراہ ہو جائو اور پیچھے بھی نہ رہ جانا کہ ہلاک ہو جائو میں نے اصحاب پیغمبر(ص)کادور بھی دیکھا ہے مگر افسوس تم میں کا ایک بھی ان کا جیسا نہیں ہے۔وہ صبح کے وقت اس طرح اٹھتے تھے کہ بال الجھے ہوئے' سر پر خاک پڑی ہوئی جب کہ رات سجدہ اور قیام میں گذار چکے ہوتے تھے ۔اور کبھی پیشانی خاک پر رکھتے تھے اور کبھی رخسار قیامت کی یاد میں گویا انگاروں پر کھڑے رہتے تھے اور ان کی پیشانیوں پرسجدوں کی وجہ سے بکری کے گھٹنے جیسے گھٹے ہوتے تھے۔ان کے سامنے خدا کا ذکر آتا تھا توآنسو اس طرح برس پڑتے تھے کہ گریبان تک تر ہو جاتا تھا اوران کا جسم عذاب کے خوف اور ثواب کی امید میں اس طرح لرزتا تھا جس طرح سخت ترین آندھی کے دن کوئی درخت۔

۱۶۸

(۹۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يشير فيه إلى ظلم بني أمية

واللَّه لَا يَزَالُونَ - حَتَّى لَا يَدَعُوا لِلَّه مُحَرَّماً إِلَّا اسْتَحَلُّوه ولَا عَقْداً إِلَّا حَلُّوه - وحَتَّى لَا يَبْقَى بَيْتُ مَدَرٍ ولَا وَبَرٍ إِلَّا دَخَلَه ظُلْمُهُمْ - ونَبَا بِه سُوءُ رَعْيِهِمْ وحَتَّى يَقُومَ الْبَاكِيَانِ يَبْكِيَانِ - بَاكٍ يَبْكِي لِدِينِه - وبَاكٍ يَبْكِي لِدُنْيَاه - وحَتَّى تَكُونَ نُصْرَةُ أَحَدِكُمْ مِنْ أَحَدِهِمْ - كَنُصْرَةِ الْعَبْدِ مِنْ سَيِّدِه - إِذَا شَهِدَ أَطَاعَه - وإِذَا غَابَ اغْتَابَه - وحَتَّى يَكُونَ أَعْظَمَكُمْ فِيهَا عَنَاءً أَحْسَنُكُمْ بِاللَّه ظَنّاً - فَإِنْ أَتَاكُمُ اللَّه بِعَافِيَةٍ فَاقْبَلُوا - وإِنِ ابْتُلِيتُمْ فَاصْبِرُوا - فَإِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ.

(۹۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں بنی امیہ کے مظالم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے )

خدا کی قسم یہ یوں ہی ظلم کرتے رہیں گے یہاں تک کہ کوئی حرام نہ بچے گا جسے حلال نہ بنالیں اور کوئی عہد و پیمان نہ بچے گا جسے توڑ نہ دیں اور کوئی مکان یا خیمہ باقی نہ رہے گا جس میں ان کا ظلم داخل نہ ہو جائے اور ان کا بد ترین برتائو انہیں ترک وطن پرآمادہ نہ کردے اور دونوں طرح کے لوگ رونے پرآمادہ نہ ہو جائیں۔دنیا دار اپنی دنیا کے لئے روئے اور دیندار اپنے دین کی تباہی پرآنسو بہائے۔ اورتم میں سب سے زیادہ مصیبت زدہ وہ ہو جو خدا پر سب سے زیادہ اعتماد رکھنے والا ہو لہٰذا اگر خدا تمہیں عافیت دے تو اسے قبول کرلو۔اور اگرتمہارا امتحان لیاجائے تو صبر کرو کہ انجام کار بہر حال صاحبان تقویٰ(۱) کے لئے ہے۔

(۱) دنیا کے ہر ظلم کے مقابلہ میں صاحبان ایمان و کردار کے لئے یہی بشارت کافی ہے کہ انجام کار صاحبان تقوی کے ہاتھ میں ہے اور اس دنیا کی انتہا فساد اور تباہ کاری پر ہونے والی نہیں ہے بلکہ اسے ایک نہ ایک دن بہر حال عدل و انصاف سے معمور ہونا ہے۔اس دن ہر ظالم کو اس کے ظلم کا اندازہ ہو جائے گا اور ہر مظلوم کواس کے صبر کا پھل مل جائے گا۔مالک کائنات کی یہ بشارت نہ ہوتی تو صاحبان ایمان کے حوصلے پست ہو جاتے اور انہیں حالات زمانہ مایوسی کا شکار بنا دیتے لیکن اس بشارت نے ہمیشہ ان کے حوصلوں کو بلند رکھا ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ ہر دورمیں ہر ظلم سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھے رہے ہیں

۱۶۹

(۹۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في التزهيد من الدنيا

نَحْمَدُه عَلَى مَا كَانَ - ونَسْتَعِينُه مِنْ أَمْرِنَا عَلَى مَا يَكُونُ - ونَسْأَلُه الْمُعَافَاةَ فِي الأَدْيَانِ - كَمَا نَسْأَلُه الْمُعَافَاةَ فِي الأَبْدَانِ.

عِبَادَ اللَّه أُوصِيكُمْ بِالرَّفْضِ - لِهَذِه الدُّنْيَا التَّارِكَةِ لَكُمْ - وإِنْ لَمْ تُحِبُّوا تَرْكَهَا - والْمُبْلِيَةِ لأَجْسَامِكُمْ وإِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ تَجْدِيدَهَا - فَإِنَّمَا مَثَلُكُمْ ومَثَلُهَا كَسَفْرٍ سَلَكُوا سَبِيلًا فَكَأَنَّهُمْ قَدْ قَطَعُوه - وأَمُّوا عَلَماً فَكَأَنَّهُمْ قَدْ بَلَغُوه - وكَمْ عَسَى الْمُجْرِي إِلَى الْغَايَةِ أَنْ يَجْرِيَ إِلَيْهَا حَتَّى يَبْلُغَهَا - ومَا عَسَى أَنْ يَكُونَ بَقَاءُ مَنْ لَه يَوْمٌ لَا يَعْدُوه - وطَالِبٌ حَثِيثٌ مِنَ الْمَوْتِ يَحْدُوه ومُزْعِجٌ فِي الدُّنْيَا حَتَّى يُفَارِقَهَا رَغْماً - فَلَا تَنَافَسُوا فِي عِزِّ الدُّنْيَا وفَخْرِهَا

(۹۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا سے کنارہ کشی کی دعوت دی گئی ہے)

خدا کی حمد ہے اس پر جو ہوچکا اور اس کی امداد کا تقاضاہے ان حالات پر جو سامنے آنے والے ہیں۔ہم اس سے دین کی سلامتی کا تقاضا اسی طرح کرتے ہیں جس طرح بدن کی صحت و عافیت کی دعا کرتے ہیں۔

بندگان خدا! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اس دنیا کو چھوڑ دو جوتمہیں بہر حال چھوڑنے والی ہ چاہے تم اس کی جدائی کو پسند نہ کرو۔وہ تمہارے جسم کو بہر حال بوسیدہ کردے گی تم لاکھ اس کی تازگی کی خواہش کرو۔تمہاری اور اس کی مثال ان مسافروں جیسی ہے جو کسی راستہ پرچلے اورگویا کہ منزل تک پہنچ گئے ۔ کسی نشان راہ کا ارادہ کیا اور گویا کہ اسے حاصل کرلیا اور کتنا تھوڑاوقفہ ہوتا ہے اس گھوڑا دوڑانے(۱) والے کے لئے جو دوڑاتے ہی مقصدتک پہنچ جائے۔اس شخص کی بقا ہی کیا ہے جس کا ایک دن مقرر ہو جس سے آگے نہ بڑھ سکے اور پھر موت تیز رفتاری سے اسے ہنکا کر لے جا رہی ہو یہاں تک کہ بدل ناخواستہ دنیا کو چھوڑ دے۔خبر دار دنیا کی عزت اور اس کی سربلندی میں مقابلہ نہ کرنا ۔

(۱)خدا جانتا ہے کہ زندگی کی اس سے حسین تر تعبیر نہیں ہو سکتی ہے کہ انسان زندگی کے پروگرام بناتا ہی رہ جاتا ہے اور موت سامنے آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑے نے دم بھرنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ منزل قدموں میں آگئی اورسارے حوصلے دھرے رہ گئے۔ظاہر ہے کہ اس زندگی کی کیا حقیقت ہے کہ جس کی میعاد معین ہے اور وہ بھی زیادہ طویل نہیں ہے اور ہرحال میں پوری ہو جانے والی ہے چاہے انسان متوجہ ہویا غافل اور چاہے اسے پسند کرے یا ناپسند۔

۱۷۰

ولَا تَعْجَبُوا بِزِينَتِهَا ونَعِيمِهَا - ولَا تَجْزَعُوا مِنْ ضَرَّائِهَا وبُؤْسِهَا - فَإِنَّ عِزَّهَا وفَخْرَهَا إِلَى انْقِطَاعٍ - وإِنَّ زِينَتَهَا ونَعِيمَهَا إِلَى زَوَالٍ - وضَرَّاءَهَا وبُؤْسَهَا إِلَى نَفَادٍ وكُلُّ مُدَّةٍ فِيهَا إِلَى انْتِهَاءٍ - وكُلُّ حَيٍّ فِيهَا إِلَى فَنَاءٍ - أَولَيْسَ لَكُمْ فِي آثَارِ الأَوَّلِينَ مُزْدَجَرٌ وفِي آبَائِكُمُ الْمَاضِينَ تَبْصِرَةٌ ومُعْتَبَرٌ - إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ - أَولَمْ تَرَوْا إِلَى الْمَاضِينَ مِنْكُمْ لَا يَرْجِعُونَ - وإِلَى الْخَلَفِ الْبَاقِينَ لَا يَبْقَوْنَ - أَولَسْتُمْ تَرَوْنَ أَهْلَ الدُّنْيَا - يُصْبِحُونَ ويُمْسُونَ عَلَى أَحْوَالٍ شَتَّى - فَمَيِّتٌ يُبْكَى وآخَرُ يُعَزَّى - وصَرِيعٌ مُبْتَلًى وعَائِدٌ يَعُودُ - وآخَرُ بِنَفْسِه يَجُودُ وطَالِبٌ لِلدُّنْيَا والْمَوْتُ يَطْلُبُه - وغَافِلٌ ولَيْسَ بِمَغْفُولٍ عَنْه - وعَلَى أَثَرِ الْمَاضِي مَا يَمْضِي الْبَاقِي!

أَلَا فَاذْكُرُوا هَاذِمَ اللَّذَّاتِ - ومُنَغِّصَ الشَّهَوَاتِ - وقَاطِعَ الأُمْنِيَاتِ - عِنْدَ الْمُسَاوَرَةِ لِلأَعْمَالِ الْقَبِيحَةِ - واسْتَعِينُوا اللَّه عَلَى أَدَاءِ وَاجِبِ حَقِّه - ومَا لَا يُحْصَى مِنْ أَعْدَادِ نِعَمِه وإِحْسَانِه.

اور اس کی زینت و نعمت کو پسند نہ کرنا اور اس کی دشواری اور پریشانی سے رنجیدہ نہ ہونا کہ اس کی عزت و سر بلندی ختم ہو جانے والی ہے اور اس کی زینت و نعمت کو زوال آجانے والا ہے اوراس کی تنگی اور سختی بہر حال ختم ہو جانے والی ہے۔یہاں ہر مدت کی ایک انتہا ہے اور ہر زندہ کے لئے فنا ہے۔کیا تمہارے لئے گزشتہ لوگوں کے آثار میں سامان تنبیہ نہیں ہے ؟اور کیا آباء و اجداد کی داستانوں میں بصریت و عبرت نہیں ہے ؟ اگر تمہارے پاس عقل ہے۔کیا تم نے یہ نہیں دیکھا ہے کہ جانے والے پلٹ کر نہیں آتے ہیں اورب عد میں آنے والے رہ نہیں جاتے ہیں ؟ کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اہل دنیا مختلف حالات میں صبح و شام کرتے ہیں۔کوئی مردہ ہے جس پرگریہ ہو رہا ہے اور کوئی زندہ ہے تو اسے پرسہ دیا جا رہا ہے۔ایک بستر پر پڑا ہوا ہے تو ایک اس کی عیادت کر رہا ہے اور ایک اپنی جان سے جا رہا ہے۔کوئی دنیا تلاش کر رہا ہے تو موت اسے تلاش کر رہی ہے اور کوئی غفلت میں پڑا ہوا ہے تو زمانہ اس سے غافل نہیں ہے اور اس طرح جانے والوں کے نقش قدم پر رہ جانے والے چلے جا رہے ہیں۔آگاہ ہو جائو کہ ابھی موقع ہیاسے یاد کرو جو لذتوں کو فنا کر دینے والی۔خواہشات کو مکدرکردینے والی اور امیدوں کو قطع کر دینے والی ہے۔ایسے اوقات میں جب برے اعمال کا ارتکاب کر رہے ہو اور اللہ سے مدد مانگو کر اس کے واجب حق کوادا کردو اور ان نعمتوں کا شکریہ ادا کر سکو جن کا شمار کرنا نا ممکن ہے

۱۷۱

(۱۰۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في رسول اللَّه وأهل بيته

الْحَمْدُ لِلَّه النَّاشِرِ فِي الْخَلْقِ فَضْلَه - والْبَاسِطِ فِيهِمْ بِالْجُودِ يَدَه - نَحْمَدُه فِي جَمِيعِ أُمُورِه - ونَسْتَعِينُه عَلَى رِعَايَةِ حُقُوقِه - ونَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه غَيْرُه - وأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه - أَرْسَلَه بِأَمْرِه صَادِعاً وبِذِكْرِه نَاطِقاً - فَأَدَّى أَمِيناً ومَضَى رَشِيداً - وخَلَّفَ فِينَا رَايَةَ الْحَقِّ - مَنْ تَقَدَّمَهَا مَرَقَ ومَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا زَهَقَ ومَنْ لَزِمَهَا لَحِقَ - دَلِيلُهَا مَكِيثُ الْكَلَامِ بَطِيءُ الْقِيَامِ سَرِيعٌ إِذَا قَامَ - فَإِذَا أَنْتُمْ

(۱۰۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(رسول اکرم (ص) اور آپ کے اہل بیت کے بارے میں)

شکر ہےاس خدا کا جو اپنے فضل و کرم کا دامن پھیلائے ہوئے ہے اور اپنےجود و عطا کا ہاتھ بڑھائے ہوئے ہے۔ہم اس کی حمد کرتے ہیں اس کے تمام معاملات میں اوراس کی مدد چاہتے ہیں خود اس کے حقوق کا خیال رکھنے کے لئے ہم شہادت دیتے ہیں کہ اسکے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں۔جنہیں اس نے اپنے امر کا اظہار اور اپنے ذکر کے بیان کے لئے بھیجا توانہوں نے نہایت امانتداری کے ساتھ اس کے پیغام کو پہنچادیا اور راہ راست پر اس دنیا سے گزرگئے اور ہمارے درمیان ایک ایسا پرچم(۱) حق چھوڑ گئے کہ جو اس سے آگے بڑھ جائے وہ دین سے نکل گیااور جو پیچھے رہ جائے وہ ہلاک ہوگیا اور جواس سےوابستہ رہے وہ حق کے ساتھ رہا۔اس کی طرف رہنمائی کرنے والا وہ ہے جو بات ٹھہر کر کرتا ہے اور قیام اطمینان سےکرتا ہے لیکن قیام کےبعدپھر تیزی سےکام کرتا ہے۔دیکھوجب تم اس کے لئے اپنی

(۱)اس سے مراد خود حضرت کی ذات گرامی ہے جسے حق کا محور و مرکز بنایا گیا ہے اور جس کے بارے میں رسول اکرم (ص) کی دعا ہے کہ مالک حق کو ادھر ادھر پھیر دے جدھر جدھر علی مڑ رہے ہو( صحیح ترمذی) اوربعد کے فقرات میں آل محمد (ص) کے دیگر افراد کی طرف اشارہ ہے جن میں مستقبل قریب میں امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کا دور تھا جن کی طرف اہل دنیا نے رجوع کیا اور ان کی سیاسی عظمت کا بھی احساس کیا۔اور مستقبل قریب میں امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کادور تھا جن کی طرف اہل دنیا نے رجوع کیا اور ان کی سیاسی عظمت کا بھی احساس کیا۔اور مستقبل بعید میں امام مہدی کا دور ہے جن کے ہاتھوں امت کا انتشار دور ہوگا اور اسلام پلٹ کر اپنے مرکز پر آجائے گا۔ظلم و جور کاخاتمہ ہوگا اور عدل وانصاف کا نظام قائم ہو جائے گا۔

۱۷۲

أَلَنْتُمْ لَه رِقَابَكُمْ - وأَشَرْتُمْ إِلَيْه بِأَصَابِعِكُمْ - جَاءَه الْمَوْتُ فَذَهَبَ بِه - فَلَبِثْتُمْ بَعْدَه مَا شَاءَ اللَّه - حَتَّى يُطْلِعَ اللَّه لَكُمْ مَنْ يَجْمَعُكُمْ ويَضُمُّ نَشْرَكُمْ فَلَا تَطْمَعُوا فِي غَيْرِ مُقْبِلٍ ولَا تَيْأَسُوا مِنْ مُدْبِرٍ فَإِنَّ الْمُدْبِرَ عَسَى أَنْ تَزِلَّ بِه إِحْدَى قَائِمَتَيْه وتَثْبُتَ الأُخْرَى فَتَرْجِعَا حَتَّى تَثْبُتَا جَمِيعاً.

أَلَا إِنَّ مَثَلَ آلِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَمَثَلِ نُجُومِ السَّمَاءِ - إِذَا خَوَى نَجْمٌ طَلَعَ نَجْمٌ فَكَأَنَّكُمْ قَدْ تَكَامَلَتْ مِنَ اللَّه فِيكُمُ الصَّنَائِعُ - وأَرَاكُمْ مَا كُنْتُمْ تَأْمُلُونَ.

(۱۰۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي إحدى الخطب المشتملة على الملاحم

الْحَمْدُ لِلَّه الأَوَّلِ قَبْلَ كُلِّ أَوَّلٍ والآخِرِ بَعْدَ كُلِّ آخِرٍ - وبِأَوَّلِيَّتِه وَجَبَ أَنْ لَا أَوَّلَ لَه - وبِآخِرِيَّتِه وَجَبَ أَنْ لَا آخِرَ لَه وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه

گردنوں کو جھکادوگے اور ہر مسئلہ میں اس کی طرف اشارہ کرنے لگو گے تو اسے موت آجائے گی اور اسے لے کرچلی جائے گی۔پھر جب تک خدا چاہے گاتمہیں اسی حال میں رہنا پڑے گا۔یہاں تک کہ وہ اس شخص کو منظر عام پر لے آئے جو تمہیں ایک مقام پرجمع کردے اور تمہارے انتشار کو دور کردے۔تو دیکھو جوآنے والا ہے اس کے علاوہ کسی کی طمع نہ کرو اور جو جا رہا ہے اس سے مایوس نہ ہو جائو۔ہو سکتا ہے کہ جانے والے کا ایک قدم اکھڑ جائے تو دوسرا جما رہے اور پھر ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ دونوں قدم جم جائیں۔ دیکھو آل محمد (ص) کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے کہ جب ایک ستارہ غائب ہو جاتا ہے تو دوسرا نکل آتا ہے۔توگویا یا اللہ کی نعمتیں تم پر تمام ہوگئی ہیں اور اس نے تمہیں وہ سب کچھ دکھلا دیا ہے جس کی تم آس لگائے بیٹھے تھے۔

(۱۰۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو ان خطبوں میں ہے جن میں حوادث زمانہ کاذکر کیا گیا ہے )

ساری تعریف اس اول کے لئے ہے جو ہر ایک سے پہلے ہے اور اس آخر کے لئے ہے جو ہر ایک کے بعد ہے۔اس کی اولیت کا تقاضا ہے کہ اس کا اول نہ ہو اور اس کی آخریت کا تقاضا ہے کہ اس کا کوئی آخرنہ ہو۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے

۱۷۳

شَهَادَةً - يُوَافِقُ فِيهَا السِّرُّ الإِعْلَانَ - والْقَلْبُ اللِّسَانَ - أَيُّهَا النَّاسُ( لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي ) ولَا يَسْتَهْوِيَنَّكُمْ عِصْيَانِي - ولَا تَتَرَامَوْا بِالأَبْصَارِ عِنْدَ مَا تَسْمَعُونَه مِنِّي - فَوَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّ الَّذِي أُنَبِّئُكُمْ بِه عَنِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مَا كَذَبَ الْمُبَلِّغُ ولَا جَهِلَ السَّامِعُ - لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى ضِلِّيلٍ قَدْ نَعَقَ بِالشَّامِ - وفَحَصَ بِرَايَاتِه فِي ضَوَاحِي كُوفَانَ فَإِذَا فَغَرَتْ فَاغِرَتُه واشْتَدَّتْ شَكِيمَتُه وثَقُلَتْ فِي الأَرْضِ وَطْأَتُه - عَضَّتِ الْفِتْنَةُ أَبْنَاءَهَا بِأَنْيَابِهَا - ومَاجَتِ الْحَرْبُ بِأَمْوَاجِهَا - وبَدَا مِنَ الأَيَّامِ كُلُوحُهَا ومِنَ اللَّيَالِي كُدُوحُهَا فَإِذَا أَيْنَعَ زَرْعُه وقَامَ عَلَى يَنْعِه وهَدَرَتْ شَقَاشِقُه وبَرَقَتْ بَوَارِقُه عُقِدَتْ رَايَاتُ الْفِتَنِ الْمُعْضِلَةِ - وأَقْبَلْنَ

اور اس گواہی میں میرا باطن ظاہرکے مطابق ہے اور میری زبان دل سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔

ایہاالناس !خبردار میری مخالفت کی غلطی نہ کرو اور میری نا فرمانی کرکے حیران و سر گردان نہ ہو جائو اور میری بات سنتے وقت ایک دوسرے کو اشارے نہ کرو کہ اس پروردگارکی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اور نفوس کو ایجاد کیا ہے کہ میں جو کچھ(۱) خبردے رہا ہوں وہ رسول امی کی طرف سے ہے جہاں نہ پہنچانے والا غلط گو تھا اور نہ سننے والا جاہل تھا اورگویا کہ میں اس بد ترین گمراہ کو بھی دیکھ رہا ہوں جس نے شام میں للکارا اور کوفہ کے اطراف میں اپنے جھنڈے گاڑ دئیے اور اس کے بعد جب اس کادہانہ کھل گیا اور اس کی لگام کا دہانہ مضبوط ہوگیا اور زمین میں اس کی پامالیاں سخت تر ہوگئیں تو فتنے ابناء زمانہ کو اپنے دانتوں سے کاٹنے لگے اور جنگوں نے اپنے تھپڑوں کی لپیٹ میں لے لیا اور دونوں کی سختیاں اور راتوں کی جراحتیں منظرعام پر آگئیں اور پھر جب اس کی کھیتی تیار ہو کر اپنے پیروں پرکھڑی ہوگئی اوراس کی سر مستیاں اپناجوش دکھلانے لگیں اور تلواریں چمکنے لگیں تو سخت ترین فتنوں کے جھنڈے گاڑ دئیے گئے

(۱)رسول اکرم (ص) کے دورمیں عبداللہ بن ابی اور مولائے کائنات کے دورمیں اشعث بن قیس جیسے افرادہمیشہ رہے ہیں جو بظاہر صاحبان ایمان کی صفوں میں رہتے ہیں لیکن ان کا کام باتوں کامذاق اڑا کر انہیں مشتبہ بنا دینے اور قوم میں انتشار پیدا کردینے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے۔اس لئے آپ نے چاہا کہ اپنی خبروں کے مصدر و ماخذ کی طرف اشارہ کردیں تاکہ ظالموں کو شبہ پیدا کرنے کاموقع نہ ملے اور آپ اس حقیقت کو بھی واضح کرسکیں کہ میرے بیان میں شبہ درحقیقت رسول اکرم (ص) کی صداقت میں شبہ ہے جو کفار و مشرکین مکہ بھی نہکر سکے تو منافقین کے لئے اس کا جواز کس طرح پیدا ہو سکتا ہے ؟

اس کے بعد آپنے اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ فرمادیا کہاگر باقی لوگ یہ کام نہیں کر سکتے ہیں تو اس کا تعلق ان کی جہالت سے ہے رسالت کے مبدء فیاض سے نہیں ہے۔اس نے تو ہر ایک کو تعلیم دینا چاہی لیکن بے صلاحیت افراد اورفیض سے محروم رہ گئے تو کریم کا کیا قصور ہے۔

۱۷۴

كَاللَّيْلِ الْمُظْلِمِ والْبَحْرِ الْمُلْتَطِمِ - هَذَا وكَمْ يَخْرِقُ الْكُوفَةَ مِنْ قَاصِفٍ ويَمُرُّ عَلَيْهَا مِنْ عَاصِفٍ وعَنْ قَلِيلٍ تَلْتَفُّ الْقُرُونُ بِالْقُرُونِ ويُحْصَدُ الْقَائِمُ ويُحْطَمُ الْمَحْصُودُ !

(۱۰۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

تجري هذا المجرى

وفيها ذكر يوم القيامة وأحوال الناس المقبلة

يوم القيامة

وذَلِكَ يَوْمٌ يَجْمَعُ اللَّه فِيه الأَوَّلِينَ والآخِرِينَ - لِنِقَاشِ الْحِسَابِ وجَزَاءِ الأَعْمَالِ - خُضُوعاً قِيَاماً قَدْ أَلْجَمَهُمُ الْعَرَقُ ورَجَفَتْ بِهِمُ الأَرْضُ فَأَحْسَنُهُمْ حَالًا مَنْ وَجَدَ لِقَدَمَيْه مَوْضِعاً - ولِنَفْسِه مُتَّسَعاً

حال مقبلة على الناس

ومنها: فِتَنٌ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ لَا تَقُومُ لَهَا قَائِمَةٌ ولَا تُرَدُّ لَهَا رَايَةٌ - تَأْتِيكُمْ مَزْمُومَةً مَرْحُولَةً يَحْفِزُهَا قَائِدُهَا ويَجْهَدُهَا رَاكِبُهَا - أَهْلُهَا قَوْمٌ شَدِيدٌ كَلَبُهُمْ

اور وہ تاریک رات اور تلاطم خیز سمندر کی طرح منظر عام پر آگئے۔اور کوفہ کو اس کے علاوہ بھی کتنی ہی آندھیاں پارہ پارہ کرنے والی ہیں اور اس پر سے کتنے ہی جھکڑ گزرنے والے ہیں اور عنقریب وہاں جماعتیں جماعتوں سے گتھنے والی ہیں اور کھڑی کھیتیاں کاٹی جانے والی ہیں اور کٹے ہوئے ماحصل کو بھی تباہ و برباد کردیا جائے گا۔

(۱۰۲)

(آپ کے خطبہ کا ایک حصہ)

(جس میں قیامت اور اس میں لوگوں کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے )

وہ دن وہ ہوگا جب پروردگار اولین و آخرین کودقیق ترین حساب اور اعمال کی جزا کے لئے اس طرح جمع کرے گا کہ سب خضوع و خشوع کے عالم میں کھڑے ہوں گے۔پسینہ ان کے دہن تک پہنچا ہوگا اور زمین لرز رہی ہوگی۔بہترین حال اس کا ہوگا جو اپنے قدم جمانے کی جگہ حاصل کرلے گا اورجسے سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔

(اس خطبہ کا ایک حصہ)

ایسے فتنے جیسے اندھیری رات کے ٹکڑے جس کے سامنے نہ گھوڑے کھڑے ہو سکیں گے اور نہ ان کے پرچموں کو پلٹایا جاسکے گا۔یہ فتنے لگام و سامان کی پوری تیاری کے ساتھ آئیں گے کہ ان کا قائد انہیں ہنکارہا ہوگا اور ان کا سوار انہیں تھکا رہا ہوگا۔اس کی اہل ایک قوم ہوگی جس کے حملے سخت ہوں گے

۱۷۵

قَلِيلٌ سَلَبُهُمْ يُجَاهِدُهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّه قَوْمٌ أَذِلَّةٌ عِنْدَ الْمُتَكَبِّرِينَ - فِي الأَرْضِ مَجْهُولُونَ - وفِي السَّمَاءِ مَعْرُوفُونَ - فَوَيْلٌ لَكِ يَا بَصْرَةُ عِنْدَ ذَلِكِ - مِنْ جَيْشٍ مِنْ نِقَمِ اللَّه - لَا رَهَجَ لَه ولَا حَسَّ وسَيُبْتَلَى أَهْلُكِ بِالْمَوْتِ الأَحْمَرِ - والْجُوعِ الأَغْبَرِ !

(۱۰۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في التزهيد في الدنيا

أَيُّهَا النَّاسُ انْظُرُوا إِلَى الدُّنْيَا نَظَرَ الزَّاهِدِينَ فِيهَا - الصَّادِفِينَ عَنْهَا - فَإِنَّهَا واللَّه عَمَّا قَلِيلٍ تُزِيلُ الثَّاوِيَ السَّاكِنَ - وتَفْجَعُ الْمُتْرَفَ الآْمِنَ - لَا يَرْجِعُ مَا تَوَلَّى مِنْهَا فَأَدْبَرَ - ولَا يُدْرَى مَا هُوَ آتٍ مِنْهَا فَيُنْتَظَرَ سُرُورُهَا مَشُوبٌ بِالْحُزْنِ - وجَلَدُ الرِّجَالِ فِيهَا إِلَى الضَّعْفِ والْوَهْنِ فَلَا يَغُرَّنَّكُمْ كَثْرَةُ مَا يُعْجِبُكُمْ فِيهَا - لِقِلَّةِ مَا يَصْحَبُكُمْ مِنْهَا.

رَحِمَ اللَّه امْرَأً تَفَكَّرَ فَاعْتَبَرَ - واعْتَبَرَ فَأَبْصَرَ - فَكَأَنَّ مَا هُوَ كَائِنٌ مِنَ الدُّنْيَا عَنْ قَلِيلٍ لَمْ يَكُنْ - وكَأَنَّ مَا هُوَ كَائِنٌ مِنَ الآخِرَةِ -

لیکن لوٹ مار کم اور ان کا مقابلہ راہ خدا میں صرف وہ لوگ کریں گے جو متکبرین کی نگاہ میں کمزور اور پست ہوں گے۔وہ اہل دنیا میں مجہول اوراہل آسمان میں معروف ہوں گے۔ اے بصرہ! ایسے وقت میں تیری حالت قابل رحم ہوگی اس عذاب الٰہی کے لشکر کی بناپ رجس میں نہ غبار ہوگا نہ شورو غوغا اور عنقریب تیرے باشندوں کو سرخ موت اورسخت بھوک میں مبتلا کیا جائے گا۔

(۱۰۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(زہد کے بارے میں )

ایہا الناس !دنیا کی طرف اس طرح دیکھو جیسے وہ لوگ دیکھتے ہیں جو زہد رکھنے والے اور اس سے نظر بچانے والے ہوتے ہیں کہ عنقریب یہ اپنے ساکنوں کوہٹا دے گی اور انپے خوشحالوں کو رنجیدہ کردے گی۔اس میں جو چیزمنہ پھر کرجا چکی وہ پلٹ کر آنے وال نہیں ہے اور جو آنے والی ہے اس کاحال نہیں معلوم ہے کہ اس کا انتظار کیاجائے۔اس کی خوشی رنج سے مخلوط ہے اور اس میں مردوں کی مضبوطی ضعف و نا توانی کی طرف مائل ہے۔خبردار اس کی دل لبھانے والی چیزیں تمہیں دھوکہ میں نہ ڈال دیں کہ اس میں سے ساتھ جانے والی چیزیں بہت کم ہیں۔

خدا رحمت نازل کرے اس شخص پر جس نے غورو فکر کیا تو عبرت حاصل کی اور عبرت حاصل کی تو بصیرت پیداکرلی کہ دنیا کی ہر موجود شے عنقریب ایسی ہو جائے گی جیسے تھی ہی نہیں اورآخرت کی چیزیں اس طرح ہو جائیں گی

۱۷۶

عَمَّا قَلِيلٍ لَمْ يَزَلْ - وكُلُّ مَعْدُودٍ مُنْقَضٍ - وكُلُّ مُتَوَقَّعٍ آتٍ - وكُلُّ آتٍ قَرِيبٌ دَانٍ.

صفة العالم

ومنها: الْعَالِمُ مَنْ عَرَفَ قَدْرَه - وكَفَى بِالْمَرْءِ جَهْلًا أَلَّا يَعْرِفَ قَدْرَه - وإِنَّ مِنْ أَبْغَضِ الرِّجَالِ إِلَى اللَّه تَعَالَى لَعَبْداً - وَكَلَه اللَّه إِلَى نَفْسِه - جَائِراً عَنْ قَصْدِ السَّبِيلِ - سَائِراً بِغَيْرِ دَلِيلٍ - إِنْ دُعِيَ إِلَى حَرْثِ الدُّنْيَا عَمِلَ - وإِنْ دُعِيَ إِلَى حَرْثِ الآخِرَةِ كَسِلَ - كَأَنَّ مَا عَمِلَ لَه وَاجِبٌ عَلَيْه - وكَأَنَّ مَا وَنَى فِيه سَاقِطٌ عَنْه.

آخر الزمان

ومنها: وذَلِكَ زَمَانٌ لَا يَنْجُو فِيه إِلَّا كُلُّ مُؤْمِنٍ نُوَمَةٍ إِنْ شَهِدَ لَمْ يُعْرَفْ وإِنْ غَابَ لَمْ يُفْتَقَدْ - أُولَئِكَ مَصَابِيحُ الْهُدَى وأَعْلَامُ السُّرَى لَيْسُوا بِالْمَسَايِيحِ ولَا الْمَذَايِيعِ الْبُذُرِ

جیسے ابھی موجود ہیں۔ہر گنتی میں آنے والا کم ہونے والا ہے اور ہر وہ شے جس کی امید ہو وہ عنقریبآنے والی ہے اورجوآنے والی ہے وہ گویا کہ قریب اور بالکل قریب ہے۔

(صفت عالم)

عالم(۱) وہ ہے جو اپنی قدر خود پہچانے اور انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر کو نہ پہچانے اللہ کی نگاہ میں بد ترین بندہ وہ ہے جسے اس نے اسی کے حوالہ کردیا ہو کہ وہ سیدھے راستے سے ہٹ گیا ہے اور بغیر رہنما کے چل رہا ہے۔اسے دنیاکے کاروبار کی دعوت دی جائے تو عمل پر آمادہ ہوجاتا ہے اورآخرت کے کام کی دعوت دی جائے تو سست ہو جاتا ہے گویا کہ جو کچھ کیا ہے وہی واجب تھا اور جس میں سستی برتی ہے وہ اس سے ساقط ہے۔

(آخر زمانہ)

وہ زمانہ ایسا ہوگا جس میں صرف وہی مومن نجات پا سکے گا جو گویاکہ سورہا ہوگا کہ مجمع میں آئے تو لوگ اسے پہچان نہ سکیں اور غائب ہو جائے تو کوئی تلاش نہ کرے۔یہی لوگ ہدایت کے چراغ اور راتوں کے مسافروں کے لئے نشان منزل ہوں گے۔نہ ادھر ادھر لگاتے پھریں گے اور نہ لوگوں کے عیوب کی اشاعت کریں گے۔

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ انسان اپنی قدرو اوقات کو پہچان لیتا ہے تواس کا کردار خو د بخود سدھر جاتا ہے اور اس حقیقت سے غافل ہو جاتا ہے تو کبھی قدر و منزلت سے غفلت دربار داری خوشامد ' مدح بیجا ' ضمیر فروشی پرآمادہ کر دیتی ہے کہ علم کو مال و جاہ کے عوض بیچنے لگتا ہے اور کبھی اوقات سے ناواقفیت مالک سے بغاوت پرآمادہ کر دیتی ہے کہ عوام الناس پرحکومت کرتے کرتے مالک کی اطاعت کا جذبہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور احکام الہیہ کوبھی اپنی خواہشات کے راستہ پرچلانا چاہتا ہے جو جہالت کابدترین مظاہرہ ہے اوراس کا علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۱۷۷

أُولَئِكَ يَفْتَحُ اللَّه لَهُمْ أَبْوَابَ رَحْمَتِه - ويَكْشِفُ عَنْهُمْ ضَرَّاءَ نِقْمَتِه.

أَيُّهَا النَّاسُ سَيَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ - يُكْفَأُ فِيه الإِسْلَامُ كَمَا يُكْفَأُ الإِنَاءُ بِمَا فِيه –

أَيُّهَا النَّاسُ - إِنَّ اللَّه قَدْ أَعَاذَكُمْ مِنْ أَنْ يَجُورَ عَلَيْكُمْ - ولَمْ يُعِذْكُمْ مِنْ أَنْ يَبْتَلِيَكُمْ وقَدْ قَالَ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ –( إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ وإِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِينَ ) .

قال السيد الشريف الرضي أما قولهعليه‌السلام كل مؤمن نومة - فإنما أراد به الخامل الذكر القليل الشر - والمساييح جمع مسياح - وهو الذي يسيح بين الناس بالفساد والنمائم - والمذاييع جمع مذياع - وهو الذي إذا سمع لغيره بفاحشة أذاعها - ونوه بها - والبذر جمع بذور - وهو الذي يكثر سفهه ويلغو منطقه.

(۱۰۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ولَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْعَرَبِ يَقْرَأُ كِتَاباً - ولَا يَدَّعِي نُبُوَّةً ولَا وَحْياً - فَقَاتَلَ بِمَنْ أَطَاعَه مَنْ عَصَاه - يَسُوقُهُمْ إِلَى مَنْجَاتِهِمْ - ويُبَادِرُ بِهِمُ السَّاعَةَ أَنْ تَنْزِلَ بِهِمْ -

ان کے لئے اللہ رحمت کے دروازے کھول دے گا اور ان سے عذاب کی سختیوں کو دور کردے گا۔

لوگو! عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں اسلام کو اسی طرح الٹ دیا جائے گا جس طرح برتن کواس کے سامان سمیت الٹ دیا جاتا ہے۔

لوگو! اللہ نے تمہیں اس بات سے پناہ دے رکھی ہے کہ وہ تم پر ظلم کرے لیکن تمہیں اس بات سے محفوظ نہیں رکھا ہے کہ تمہارا امتحان نہ کرے۔اس مالک جل جلالہ نے صاف اعلان کردیا ہے کہ '' اس میں ہماری کھلی ہوئی نشانیاں ہیں اور ہم بہر حال تمہارا امتحان لینے والے ہیں ''

سید شریف رضی : مومن کے نومہ ( خوابیدہ) ہونے کا مطلب اس کا گمنام اوربے شر ہونا ہے اور مسا بیح ، مسیاح کی جمع ہے اور وہ شخص ہے کہ جسے کسی کا عیب معلوم ہو جائے تو اس کی اشاعت کے بغیر چین نہ پڑ۔بذر۔ بذر کی جمع ہے یعنی وہ شخص جس کی حماقت زیادہ ہے اور اس کی گفتگو لغو یات پر مشتمل ہو۔

(۱۰۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

اما بعد!اللہ نے حضرت محمد (ص)کو اس دورمیں بھیجا ہے جب عرب میں نہ کوئی کتاب پڑھنا جانتا تھا اورنہ نبوت اور وحی کا ادعا کرنے والا تھا۔آپ نے اطاعت گزاروں کے سہارے نافرمانوں سے جہاد کیا کہ انہیں منزل نجات کی طرف لے جانا چاہتے تھے اور قیامت کے آنے سے پہلے ہدایت دے دینا چاہتے تھے۔

۱۷۸

يَحْسِرُ الْحَسِيرُ ويَقِفُ الْكَسِيرُ فَيُقِيمُ عَلَيْه حَتَّى يُلْحِقَه غَايَتَه - إِلَّا هَالِكاً لَا خَيْرَ فِيه - حَتَّى أَرَاهُمْ مَنْجَاتَهُمْ - وبَوَّأَهُمْ مَحَلَّتَهُمْ - فَاسْتَدَارَتْ رَحَاهُمْ واسْتَقَامَتْ قَنَاتُهُمْ وايْمُ اللَّه لَقَدْ كُنْتُ مِنْ سَاقَتِهَا - حَتَّى تَوَلَّتْ بِحَذَافِيرِهَا - واسْتَوْسَقَتْ فِي قِيَادِهَا - مَا ضَعُفْتُ ولَا جَبُنْتُ - ولَا خُنْتُ ولَا وَهَنْتُ - وايْمُ اللَّه لأَبْقُرَنَّ الْبَاطِلَ - حَتَّى أُخْرِجَ الْحَقَّ مِنْ خَاصِرَتِه!

قال السيد الشريف الرضي - وقد تقدم مختار هذه الخطبة - إلا أنني وجدتها في هذه الرواية - على خلاف ما سبق من زيادة ونقصان - فأوجبت الحال إثباتها ثانية.

جب کوئی تھکا ماندہ رک جاتا تھا اور کوئی لوٹا ہوا ٹھہر جاتا تھا تو اس کے سر پر کھڑے ہو جاتے تھے کہ اس منزل تک پہنچا دیں مگریہ کہ کوئی ایسا لاخیرا ہو جس کے مقدرمیں ہلاکت ہو۔یہاں تک کہ آپ نے لوگوں کو مرکز نجات سے آشنا بنا دیا اور انہیں ان کی منزل تک پہنچادیا ان کی چکی چلنے لگی اوران کے ٹیڑھے سیدھے ہوگئے ۔

اور خدا کی قسم! میں بھی ان کے ہنکانے والوں میں سے تھا یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر پسپا ہوگئے اور اپنے بندھنوں میں جکڑ دئیے گئے۔اس درمیان میں میں نہ کمزور ہو ا) ۱ ( نہ بزدلی کاشکار ہوا۔نہ میں نے خیانت کی اور نہ سستی کا اظہارکیا۔خدا کی قسم ۔میں باطل) ۲ ( کاپیٹ چاک کرکے اس کے پہلو سے حق کو بہر حال نکال لوں گا۔

سید رضی : اس خطبہ کا ایک انتخاب پہلے نقل کیا جا چکا ہے۔لیکن چونکہ اس روایت میں قدر ے کمی اور زیادتی پائی جاتی تھی لہٰذا حالات کا تقاضا یہ تھاکہ اسے دوبارہ اس شکل میں بھی درج کردیا جائے ۔

(۱)یہ امام علیہ السلام کی زندگی کا بہترین نقشہ ہے اور اسی کی روشنی میں دوسرے کرداروں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے جنہیں میدان تاریخ نے تو پہچانا ہے لیکن میدان جہاد ان کی گرد قدم سے بھی محروم رہ گیا۔مگر افسوس کہ جانی پہچانی شخصیتیں اجنبی ہو گئیں اور اجنبی شہر کے مشاہیر بن گئے ۔

(۲)اس جملہ میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ غاصب افراد نے جن اموال کو ہضم کرلیا ہے۔وہ ایک دن ان کا شکم چاک کرکے اس میں سے نکال لیا جائے گا اوراس امر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ حق ابھی فنا نہیں ہوا ہے۔اسے باطل نے دبا دیا ہے اورگویا کہ اپنے شکم کے اندر چھپا لیا ہے اور مجھ میں اس قدر طاقت پائی جاتی ہے کہ میں اس شکم کو چاک کرکے اس حق کو منظر عام پر لے آئوں اور باطل کے ہر راز کو بے نقاب کردوں

۱۷۹

(۱۰۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في بعض صفات الرسول الكريم وتهديد بني أمية وعظة الناس

الرسول الكريم

حَتَّى بَعَثَ اللَّه مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - شَهِيداً وبَشِيراً ونَذِيراً - خَيْرَ الْبَرِيَّةِ طِفْلًا - وأَنْجَبَهَا كَهْلًا - وأَطْهَرَ الْمُطَهَّرِينَ شِيمَةً - وأَجْوَدَ الْمُسْتَمْطَرِينَ دِيمَةً

بنو أمية

فَمَا احْلَوْلَتْ لَكُمُ الدُّنْيَا فِي لَذَّتِهَا - ولَا تَمَكَّنْتُمْ مِنْ رَضَاعِ أَخْلَافِهَا - إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا صَادَفْتُمُوهَا جَائِلًا خِطَامُهَا - قَلِقاً وَضِينُهَا - قَدْ صَارَ حَرَامُهَا عِنْدَ أَقْوَامٍ - بِمَنْزِلَةِ السِّدْرِ الْمَخْضُودِ - وحَلَالُهَا بَعِيداً غَيْرَ مَوْجُودٍ - وصَادَفْتُمُوهَا واللَّه ظِلاًّ مَمْدُوداً - إِلَى أَجْلٍ مَعْدُودٍ - فَالأَرْضُ لَكُمْ شَاغِرَةٌ - وأَيْدِيكُمْ فِيهَا مَبْسُوطَةٌ - وأَيْدِي الْقَادَةِ عَنْكُمْ مَكْفُوفَةٌ - وسُيُوفُكُمْ عَلَيْهِمْ مُسَلَّطَةٌ - وسُيُوفُهُمْ عَنْكُمْ مَقْبُوضَةٌ

!

(۱۰۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رسول اکرم (ص) کے اوصاف ۔بنی امیہ کی تہدیداور لوگوں کی نصیحت کاتذکرہ کیا گیا ہے )

(رسول اکرم (ص))

یہاں تک کہ پروردگار نے حضرت محمد (ص) کو امت کے اعمال کا گواہ۔ثواب کا بشارت دینے والا۔عذاب سے ڈرانے والا بنا کربھیج دیا۔آپ بچپنے میں بہترین مخلوقات اور سن رسیدہ ہونے پر اشرف کائنات تھے۔عادات کے اعتبار سے تمام پاکیزہ افراد کے زیادہ پاکیزہ اورباران رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جوارتھے۔

(بنو امیہ )

یہ دنیا تمہارےلئےاسی وقت اپنی لذتوں سمیت خوشگوار بنی ہے اورتم اس کے فوائد حاصل کرنے کے قابل بنے ہو جب تم نےدیکھ لیاکہ اس کی مہارجھول رہی ہےاوراس کا تنگ ڈھیلاہوگیاہےاس کا حرام ایک قوم کے نزدیک بغیر کاٹنےوالی بیرکی طرح مزہ دار ہوگیا ہے اور اس کاحلال بہت دورتک نا پید ہوگیا ہے اور خدا کی قسم تم اس دنیا کو ایک مدت تک پھیلے ہوئے سایہ کی طرح دیکھو گے کہ زمین ہر ٹوکنے والے سے خالی ہوگئی ہے اور تمہارے ہاتھ کھل گئے ہیں اورقائدین کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں تمہاری تلواریں ان کے سروں پرلٹک رہی ہیں اور ان کی تلواریں نیام میں ہیں

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863