نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656966 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

(۴۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند المسير إلى الشام قيل إنه خطب بها وهو بالنخيلة خارجا من الكوفة إلى صفين

الْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا وَقَبَ لَيْلٌ وغَسَقَ والْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا لَاحَ نَجْمٌ وخَفَقَ والْحَمْدُ لِلَّه غَيْرَ مَفْقُودِ الإِنْعَامِ ولَا مُكَافَإِ الإِفْضَالِ.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَعَثْتُ مُقَدِّمَتِي وأَمَرْتُهُمْ بِلُزُومِ هَذَا الْمِلْطَاطِ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرِي - وقَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَقْطَعَ هَذِه النُّطْفَةَ إِلَى شِرْذِمَةٍ مِنْكُمْ - مُوَطِّنِينَ أَكْنَافَ دِجْلَةَ - فَأُنْهِضَهُمْ مَعَكُمْ إِلَى عَدُوِّكُمْ - وأَجْعَلَهُمْ مِنْ أَمْدَادِ الْقُوَّةِ لَكُمْ.

قال السيد الشريف أقول يعنيعليه‌السلام بالملطاط هاهنا السمت الذي أمرهم بلزومه وهو شاطئ الفرات ويقال ذلك أيضا لشاطئ البحر وأصله ما استوى من الأرض ويعني بالنطفة ماء الفرات وهو من غريب العبارات وعجيبها.

(۴۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو صفین کے لئے کوفہ سے نکلتے ہوئے مقام نخیلہ پر ارشاد فرمایا تھا)

پروردگار کی حمد ہے جب بھی رات آئے اورتاریکی چھائے یا ستارہ چمکے اورڈوب جائے۔پروردگار کی حمدوثنا ہے کہ اس کی نعمتیں ختم نہیں ہوتی ہیں اور اس کے احسانات کا بدلہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔

امابعد! میں نے اپنے لشکر کا ہر اول دستہ روانہ کردیا ہے اور انہیں حکم دے دیا ہے کہ اس نہر کے کنارے ٹھہر کر میرے حکم کا انتظار کریں۔میں چاہتا ہوں کہ اس دریائے دجلہ کو عبور کرکے تمہاری(۱) ایک مختصرجماعت تک پہنچ جائوں جو اطراف دجلہ میں مقیم ہیں تاکہ انہیں تمہارے ساتھ جہاد کے لئے آمادہ کر سکوں اور ان کے ذریعہ تمہاری قوت میں اضافہ کر سکوں۔

سید رضی : ملطاط سے مراد دریا کا کنار ہ ہے اور اصل میں یہ لفظ ہموار زمین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نطفہ سے مراد فرات کا پانی ہے اور یہ عجیب و غریب تعبیرات میں ہے۔

(۱)اس جماعت سے مراد اہل مدائن ہیں جنہیں حضرت اس جہاد میں شامل کرنا چاہتے تھے اور ان کے ذریعہ لشکر کی قوت میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔خطبہ کے آغاز میں رات اور ستاروں کاذکر اسامر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ لشکراسلام کو رات کی تاریکی اورستارہ کے غروب و زوال سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔نور مطلق اور ضیاء مکمل ساتھ ہے تو تاریکی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور ستاروں کا کیا بھروسہ ہے۔ستارے تو ڈوب بھی جاتے ہیں لیکن جو پروردگار قابل حمدو ثناء ہے اس کے لئے زوال و غروب نہیں ہے اور وہ ہمیشہ بندۂ مومن کے ساتھ رہتا ہے۔!

۸۱

(۴۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه جملة من صفات الربوبية والعلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي بَطَنَ خَفِيَّاتِ الأَمُوُرِ - ودَلَّتْ عَلَيْه أَعْلَامُ الظُّهُورِ - وامْتَنَعَ عَلَى عَيْنِ الْبَصِيرِ - فَلَا عَيْنُ مَنْ لَمْ يَرَه تُنْكِرُه - ولَا قَلْبُ مَنْ أَثْبَتَه يُبْصِرُه - سَبَقَ فِي الْعُلُوِّ فَلَا شَيْءَ أَعْلَى مِنْه - وقَرُبَ فِي الدُّنُوِّ فَلَا شَيْءَ أَقْرَبُ مِنْه - فَلَا اسْتِعْلَاؤُه بَاعَدَه عَنْ شَيْءٍ مِنْ خَلْقِه - ولَا قُرْبُه سَاوَاهُمْ فِي الْمَكَانِ بِه - لَمْ يُطْلِعِ الْعُقُولَ عَلَى تَحْدِيدِ صِفَتِه - ولَمْ يَحْجُبْهَا عَنْ وَاجِبِ مَعْرِفَتِه - فَهُوَ الَّذِي تَشْهَدُ لَه أَعْلَامُ الْوُجُودِ - عَلَى إِقْرَارِ قَلْبِ ذِي الْجُحُودِ - تَعَالَى اللَّه عَمَّا يَقُولُه الْمُشَبِّهُونَ بِه - والْجَاحِدُونَ لَه عُلُوّاً كَبِيراً!

(۴۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں پروردگار کے مختلف صفات اور اس کے علم کا تذکرہ کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس خداکے لئے ہے جو مخفی امور کی گہرائیوں سے با خبر ہے اوراس کے وجود کی رہنمائی ظہور کی تمام نشانیاں کر رہی ہیں۔وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں آنے والا نہیں ہے لیکن نہ کسی نہ دیکھنے والے کی آنکھ اس کا انکار کر سکتی ہے۔اورنہ کسی اثبات کرنے والے کا دل اس کی حقیقت کو دیکھ سکتا ہے۔وہ بلندیوں میں اتنا آگے ہے کہ کوئی شے اس سے بلند تر نہیں ہے اور قربت میں اتنا قریب ہے کہ کوئی شے اس سے قریب تر نہیں ہے۔نہ اس کی بلندی اسے مخلوقات سے دور بنا سکتی ہے اور نہ اس کی قربت برابر کی جگہ پر لا سکتی ہے۔اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حدوں سے باخبر نہیں کیاہے اوربقدر واجب معرفت سے محروم بھی نہیں رکھا ہے۔وہ ایسی ہستی ہے کہ اس کے انکار کرن والے کے دل پر اس کے وجود کی نشانیاں شہادت دے رہی ہیں۔وہ مخلوقات سے تشبیہ دینے والے اور انکار کرنے والے دونوں کی باتوں سے بلند وبالاتر ہے۔

۸۲

(۵۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه بيان لما يخرب العالم به من الفتن وبيان هذه الفتن

إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وأَحْكَامٌ تُبْتَدَعُ - يُخَالَفُ فِيهَا كِتَابُ اللَّه - ويَتَوَلَّى عَلَيْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَيْرِ دِينِ اللَّه - فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ - لَمْ يَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِينَ ولَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ - انْقَطَعَتْ عَنْه أَلْسُنُ الْمُعَانِدِينَ - ولَكِنْ يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ ومِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَيُمْزَجَانِ - فَهُنَالِكَ يَسْتَوْلِي الشَّيْطَانُ عَلَى أَوْلِيَائِه - ويَنْجُو( الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ ) مِنَ اللَّه( الْحُسْنى ).

(۵۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس میں ان فتنوں کا تذکرہ ہے جو لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ان کے اثرات کا بھی تذکرہ ہے)

فتنوں) ۱) کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جن کا اتباع کیا جاتا ہے اور ان جدید ترین احکام سے ہوتی ہے جوگڑھ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سے الگ ہو جاتے ہیں کہ اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلب گاروں پرمخفی نہ ہو سکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں۔لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے ' اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے اورایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اورصرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہی جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔

(۱)اس ارشاد گرامی کا آغاز لفظ انما سے ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا کا ہرفتنہ خواہشات کی پیروی اور بدعتوں کی ایجاد سے شروع ہوتا ہے اور یہی تاریخی حقیقت ہے کہ اگر امت اسلامیہ نے روز اول کتاب خدا کے خلاف میراث کے احکام وضع نہ کئے ہوتے اور اگرمنصب و اقتدار کی خواہش میں ''من کنت مولاہ '' کا انکار نہ کیا ہوتااور کچھ لوگ کچھ لوگوں کے ہمدرد نہ ہوگئے ہوتے اور نص پیغمبر (ص) کے ساتھ سن و سال اورصحابیت و قرابت کے جھگڑے نہ شامل کردئیے ہوتے تو آج اسلام بالکل خالص اورصریح ہوتا اور امت میں کسی طرح کا فتنہ وفساد نہ ہوتا۔لیکن افسوس کہ یہ سب کچھ ہوگیا اور امت ایک دائمی فتنہ میں مبتلا ہوگئی جس کا سلسلہ چودہ صدیوں سے جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے گا۔

۸۳

(۵۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما غلب أصحاب معاوية أصحابهعليه‌السلام على شريعة الفرات بصفين ومنعوهم الماء

قَدِ اسْتَطْعَمُوكُمُ الْقِتَالَ فَأَقِرُّوا عَلَى مَذَلَّةٍ وتَأْخِيرِ مَحَلَّةٍ - أَوْ رَوُّوا السُّيُوفَ مِنَ الدِّمَاءِ تَرْوَوْا مِنَ الْمَاءِ فَالْمَوْتُ فِي حَيَاتِكُمْ مَقْهُورِينَ،والْحَيَاةُ فِي مَوْتِكُمْ قَاهِرِينَ - أَلَا وإِنَّ مُعَاوِيَةَ قَادَ لُمَةً مِنَ الْغُوَاةِ - وعَمَّسَ عَلَيْهِمُ الْخَبَرَ - حَتَّى جَعَلُوا نُحُورَهُمْ أَغْرَاضَ الْمَنِيَّةِ.

(۵۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في التزهيد في الدنيا وثواب الله للزاهد ونعم الله على الخالق

التزهيد في الدنيا

أَلَا وإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ تَصَرَّمَتْ وآذَنَتْ بِانْقِضَاءٍ - وتَنَكَّرَ مَعْرُوفُهَا وأَدْبَرَتْ حَذَّاءَ فَهِيَ تَحْفِزُ بِالْفَنَاءِ سُكَّانَهَا - وتَحْدُو بِالْمَوْتِ جِيرَانَهَا

(۵۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھیوں کو ہٹا کر صفین کے قریب فرات پرغلبہ حاصل کرلیا اور پانی بند کردیا)

دیکھو دشمنوں نے تم سے غذائے جنگ کا مطالبہ کردیا ہے اب یا تو تم ذلت اوراپنے مقام کی پستی پر قائم رہ جائو'یااپنی تلواروں کو خون سے سیراب کر دو اورخود پانی سے سیراب ہو جائو۔در حقیقت موت ذلت کی زندگی میں ہے اور زندگی عزت کی موت میں ہے۔آگاہ ہو جائو کہ معاویہ گمراہوں کی ایک جماعت کی قیادت کر رہا ہے جس پر تمام حقائق پوشیدہ ہیں اور انہوں نے جہالت کی بناپ ر اپنی گردنوں کو تیر اجل کا نشانہ بنادیا ہے۔

(۵۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا میں زہد کی ترغیب اور پیش پروردگاراس کے ثواب اور مخلوقات پر خالق کی نعمتوں کاتذکرہ کیا گیا ہے )

آگاہ ہو جائو دنیا جا رہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اس کی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں۔وہ تیزی سے منہ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف سے جا رہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔

۸۴

وقَدْ أَمَرَّ فِيهَا مَا كَانَ حُلْواً وكَدِرَ مِنْهَا مَا كَانَ صَفْواً - فَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا سَمَلَةٌ كَسَمَلَةِ الإِدَاوَةِ أَوْ جُرْعَةٌ كَجُرْعَةِ الْمَقْلَةِ لَوْ تَمَزَّزَهَا الصَّدْيَانُ لَمْ يَنْقَعْ فَأَزْمِعُوا عِبَادَ اللَّه - الرَّحِيلَ عَنْ هَذِه الدَّارِ الْمَقْدُورِ عَلَى أَهْلِهَا الزَّوَالُ - ولَا يَغْلِبَنَّكُمْ فِيهَا الأَمَلُ - ولَا يَطُولَنَّ عَلَيْكُمْ فِيهَا الأَمَدُ.

ثواب الزهاد

فَوَاللَّه لَوْ حَنَنْتُمْ حَنِينَ الْوُلَّه الْعِجَالِودَعَوْتُمْ بِهَدِيلِ الْحَمَامِ وجَأَرْتُمْ جُؤَارَ مُتَبَتِّلِي الرُّهْبَانِ - وخَرَجْتُمْ إِلَى اللَّه مِنَ الأَمْوَالِ والأَوْلَادِ - الْتِمَاسَ الْقُرْبَةِ إِلَيْه فِي ارْتِفَاعِ دَرَجَةٍ عِنْدَه - أَوْ غُفْرَانِ سَيِّئَةٍ أَحْصَتْهَا كُتُبُه - وحَفِظَتْهَا رُسُلُه لَكَانَ قَلِيلًا فِيمَا أَرْجُو لَكُمْ مِنْ ثَوَابِه - وأَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ عِقَابِه.

اس کی شیرینی تلخ ہو چکی ہے اور اس کی صفائی مکدر ہو چکی ہے۔اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو تہہ میں بچا ہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیا سا پی بھی لے تو اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے۔لہٰذا بندگان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جس کے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبر دار! تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا۔

خدا کی قسم اگر تم ان اونٹنیوں کی طرح بھی فریاد کرو جن کا بچہ گم ہوگیا ہو اور ان کبوتروں کی طرح نالہ و فغاں کرو جو اپنے جھنڈ سے الگ ہوگئے ہوں اور ان راہبوں کی طرح بھی گریہ و فریاد کرو جو اپنے گھر بار کو چھوڑ چکے ہیں اور مال و اولاد کو چھوڑ کر قربت خدا کی تلاش میں نکل پڑو تاکہ اس کی بارگاہ میں درجات بلند ہو جائیں یا وہ گناہ معاف ہو جائیں جو اس کے دفتر میں ثبت ہوگئے ہیں اور فرشتوں نے انہیں محفوظ کرلیا ہے تو بھی یہ سب اس ثواب سے کم ہوگا(۱) جس کی میں تمہارے بارے میں امید رکھتا ہوں یا جس عذاب کا تمہارے بارے میں خوف رکھتا ہوں۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ '' فکر ہر کس بقدر ہمت اوست'' دنیا کا انسان کتنا ہی بلند نظر اور عالی ہمت کیوں نہ ہو جائے مولائے کائنات کی بلندی فکر کو نہیں پا سکتا ہے اور اس درجہ علم پرفائز نہیں ہو سکتا ہے جس پر مالک کائنات نے باب مدینتہ العلم کوفائز کیا ہے۔آپ فرمانا چاہتے ہیں کہ تم لوگ میری اطاعت کرو اور میرے احکام پر عمل کرو۔اس کا اجروثواب تمہارے افکار کی رسائی کی حدوں سے بالاتر ہے۔میں تمہارے لئے بہترین ثواب کی امید رکھتا ہوں اور تمہیں بد ترین عذاب سے بچانا چاہتا ہوں لیکن اس راہ میں میرے احکام کی اطاعت کرنا ہوگی اور میرے راستہ پر چلنا ہوگا جو در حقیقت شہادت اورقربانی کا راستہ ہے اور انسان اسی راستہ پر قدم آگے بڑھانے سے گھبراتا ہے اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک دنیا دار انسان جس کی ساری فکر مال دنیا اورثروت دنیا ہے وہ بھی کسی ہلاکت کے خطرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنے کو ہلاکت سے بچانے کے لئے سارا مال و متاع قربان کردیتا ہے تو پھرآخر دیندار انسان میں یہ جذبہ کیوں نہیں پایا جاتا ہے؟ وہ جنت النعیم کو حاصل کرنے اور عذاب جہنم سے بچنے کے لئے اپنی دنیا کو قربان کیوں نہیں کرتا ہے؟ اس کا تو عقیدہ یہی ہے کہ دنیا چند روزہ اور فانی ہے اور آخرت ابدی اور دائمی ہے تو پھر فانی کوباقی کی راہ میں کیوں قربان نہیں کردیتا ؟''اف هذا الشی عجاب''

۸۵

نعم الله

وتَاللَّه لَوِ انْمَاثَتْ قُلُوبُكُمُ انْمِيَاثاً وسَالَتْ عُيُونُكُمْ مِنْ رَغْبَةٍ إِلَيْه أَوْ رَهْبَةٍ مِنْه دَماً - ثُمَّ عُمِّرْتُمْ فِي الدُّنْيَا مَا الدُّنْيَا بَاقِيَةٌ مَا جَزَتْ أَعْمَالُكُمْ عَنْكُمْ - ولَوْ لَمْ تُبْقُوا شَيْئاً مِنْ جُهْدِكُمْ - أَنْعُمَه عَلَيْكُمُ الْعِظَامَ وهُدَاه إِيَّاكُمْ لِلإِيمَانِ.

(۵۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكرى يوم النحر وصفة الأضحية

ومِنْ تَمَامِ الأُضْحِيَّةِ اسْتِشْرَافُ أُذُنِهَا وسَلَامَةُ عَيْنِهَا - فَإِذَا سَلِمَتِ الأُذُنُ والْعَيْنُ سَلِمَتِ الأُضْحِيَّةُ وتَمَّتْ - ولَوْ كَانَتْ عَضْبَاءَ الْقَرْنِ تَجُرُّ رِجْلَهَا إِلَى الْمَنْسَكِ

قال السيد الشريف والمنسك هاهنا المذبح.

(۵۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف أصحابه بصفين حين طال منعهم له من قتال أهل الشام

خدا کی قسم اگر تمہارے دل بالکل پگھل جائیں اور تمہاری آنکھوں سے آنسوئوں کے بجائے رغبت ثواب یا خوف عذاب میں خون جاری ہوجائے اور تمہیں دنیا میں آخر تک باقی رہنے کا موقع دے دیا جائے تو بھی تمہارے اعمال اس کی عظیم ترین نعمتوں اور ہدایت ایمان کا بدلہ نہیں ہو سکتے ہیں چاہے ان کی راہ میں تم کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھو۔

(۵۳)

(جس میں روز عید الضحیٰ کا تذکرہ ہے اورقربانی کے صفات کاذکر کیا گیا ہے)

قربانی کے جانور کا کمال یہ ہے کہ اس کے کان بلند ہوں اور آنکھیں سلامت ہوں کہ اگر کان اور آنکھ سلامت ہیں توگویا قربانی سالم اورمکمل ہے چاہے اس کی سینگ ٹوٹی ہوئی ہو اور وہ پیروں کو گھسیٹ کر اپنے کوقربان گاہ تک لے جائے۔

سید رضی : اس مقام پر منسلک سے مراد مذبح اورقربان گاہ ہے۔

(۵۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آپ نے اپنی بیعت کا تذکرہ کیا ہے)

۸۶

فَتَدَاكُّوا عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ يَوْمَ وِرْدِهَا وقَدْ أَرْسَلَهَا

رَاعِيهَا وخُلِعَتْ مَثَانِيهَا حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُمْ قَاتِلِيَّ أَوْ بَعْضُهُمْ قَاتِلُ بَعْضٍ لَدَيَّ - وقَدْ قَلَّبْتُ هَذَا الأَمْرَ بَطْنَه وظَهْرَه حَتَّى مَنَعَنِي النَّوْمَ - فَمَا وَجَدْتُنِي يَسَعُنِي إِلَّا قِتَالُهُمْ - أَوِ الْجُحُودُ بِمَا جَاءَ بِه مُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَكَانَتْ مُعَالَجَةُ الْقِتَالِ أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مُعَالَجَةِ الْعِقَابِ - ومَوْتَاتُ الدُّنْيَا أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مَوْتَاتِ الآخِرَةِ.

(۵۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد استبطأ أصحابه إذنه لهم في القتال بصفين

لوگ مجھ) ۱ ( پر یوں ٹوٹ پڑے جیسے وہ پیاسے اونٹ پانی پر ٹوٹ پڑتے ہیں جن کے نگرانوں نے انہیں آزاد چھوڑ دیا ہو اور ان کے پیروں کی رسیاں کھول دی ہوں یہاں تک کہ مجھے یہ احساس پیدا ہوگیا کہ یہ مجھے مار ہی ڈالیں گے یا ایک دوسرے کوقتل کردیں گے۔میں نے اس امرخلافت کو یوں الٹ پلٹ کردیکھاہے کہ میری نیند تک اڑ گئی ہے اور اب یہ محسوس کیا ہے کہ یا ان سے جہاد کرنا ہوگا یا پیغمبر (ص) کے احکام کا انکار کر دینا ہوگا۔ظاہر ہے کہ میرے لئے جنگ کی سختیوں کا برداشت کرنا عذاب کی سختی برداشت کرنے سے آسان تر ہے اور دنیا کی موت آخرت کی موت اورتباہی سے سبک تر ہے۔

(۵۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کے اصحاب نے یہ اظہار کیا کہ اہل صفین سے جہاد کی اجازت میں تاخیر سے کام لے رہے ہیں)

(۱)سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس اسلام میں روز اول سے بزور شمشیر بیعت لی جا رہی تھی اور انکار بیعت کرنے پر گھروں میں آگ لگائی جا رہی تھی یا لوگوں کو خنجر و شمشیر اورتازیانہ و درہ کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔اس میں یکبارگی یہ انقلاب کیسے آگیا کہ لوگ ایک انسان کی بیعت کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے اوریہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔کیا اس کا راز یہ تھا کہ لوگ اس ایک شخص کے علم و فضل ' زہد و تقویٰ اور شجاعت و کرم سے متاثر ہوگئے تھے۔ایسا ہوت تو یہ صورت حال بہت پہلے پیدا ہو جاتی اور لوگ اس شخص پر قربان ہو جاتے۔حالانکہ ایسا نہیں ہو سکا جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم نے شخصیت سے زیادہ حالات کو سمجھ لیا تھا۔اوریہ اندازہ کرلیا تھا کہ وہ شخص جو امت کے درمیان واقعی انصاف کر سکتا ہے اور جس کی زندگی ایک عام انسان کی زندگی کی طرح سادگی رکھتی ہے اور اس میں کسی طرح کی حرص و طمع کا گزر نہیں ہے وہ اس مرد مومن اور کل ایمان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی بیعت میں سبقت کرنا ایک انسانی اور ایمان فریضہ ہے اور در حقیقت مولائے کائنات نے اس پوری صورت حال کو ایک لفظ میں واضح کردیا ہے کہ یہ دن در حقیقت پیاسوں کے سیراب ہونے کادن تھا اور لوگ مدتوں سے تشنہ اورتشنہ کام تھے لہٰذا ان کاٹوٹ پڑنا حق بجانب تھا اس ایک تشبیہ سے ماضی اورحال دونوں کا مکمل اندازہ کیا جا سکتا ہے۔!

۸۷

أَمَّا قَوْلُكُمْ أَكُلَّ ذَلِكَ كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ - فَوَاللَّه مَا أُبَالِي - دَخَلْتُ إِلَى الْمَوْتِ أَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ إِلَيَّ - وأَمَّا قَوْلُكُمْ شَكَّاً فِي أَهْلِ الشَّامِ - فَوَاللَّه مَا دَفَعْتُ الْحَرْبَ يَوْماً - إِلَّا وأَنَا أَطْمَعُ أَنْ تَلْحَقَ بِي طَائِفَةٌ فَتَهْتَدِيَ بِي - وتَعْشُوَ إِلَى ضَوْئِي - وذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقْتُلَهَا عَلَى ضَلَالِهَا - وإِنْ كَانَتْ تَبُوءُ بِآثَامِهَا.

(۵۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يصف أصحاب رسول الله وذلك يوم صفين حين أمر الناس بالصلح

ولَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - نَقْتُلُ آبَاءَنَا وأَبْنَاءَنَا وإِخْوَانَنَا وأَعْمَامَنَا - مَا يَزِيدُنَا ذَلِكَ إِلَّا إِيمَاناً وتَسْلِيماً -

تمہارا یہ سوال کہ کیا یہ تاخیر موت کی ناگواری سے ہے تو خدا کی قسم مجھے موت کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں اس کے پاس وارد ہو جائوں یا وہ میری طرف نکل کر آجائے۔اور تمہارا یہ خیال کہ مجھے اہل شام کے باطل کے بارے میں کوئی شک ہے۔تو خدا گواہ ہے کہ میں نے ایک دن بھی جنگ کو نہیں ٹالا ہے مگر اس خیال سے کہ شائد کوئی گروہ مجھ سے ملحق ہو جائے اور ہدایت پاجائے اورمیری روشنی میں اپنی کمزور آنکھوں کا علاج کرلے کہ یہ بات میرے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں اس کی گمراہی کی بنا پر اسے قتل کردوں اگرچہ اس قتل کا گناہ اسی کے ذمہ ہوگا۔

(۵۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اصحاب رسول (ص) کویاد کیا گیا ہے اس وقت جب صفین کے موقع پر آپنے لوگوں کو صلح کا حکم دیا تھا)

ہم(۱) رسول اکرم (ص) کے ساتھ اپنے خاندان کے بزرگ' بچے 'بھائی اور چچائوں کو بھی قتل کردیا کرتے تھے اوراس سے ہمارے ایمان اور جذبہ تسلیم میں اضافہ ہی ہوتا

(۱)حضرت محمد بن ابی بکر شہادت کے بعد معاویہ نے عبداللہ بن عامر حضرمی کو بصرہ میں دوبارہ فساد پھیلانے کے لئے بھیج دیا۔وہاں حضرت کے والی ابن عباس تھے اور وہ محمد کی تعریف کے لئے کوفہ آگئے تھے۔زیاد بن عبید ان کے نائب تھے۔انہوں نے حضرت کو اطلاع دی۔آپ نے بصرہ کے بنی تمیم کا عثمانی رجحان دیکھ کر کوفہ کے بنی تمیم کو مقابلہ پر بھیجنا چاہا لیکن ان لوگوں نے برادری سے جنگ کرنے سے انکار کردیا تو حضرت نے اپنے دور قدیم کا حوالہ دیا کہ اگر رسول اکرم (ص) کے ساتھ ہم لوگ بھی قبائلی تعصب کا شکار ہوگئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔اسلام حق و صداقت کا مذہب ہے اس میں قومی اورقبائلی رجحانات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

۸۸

ومُضِيّاً عَلَى

اللَّقَمِ وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الأَلَمِ وجِدّاً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ - ولَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا والآخَرُ مِنْ عَدُوِّنَا - يَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَيْنِ يَتَخَالَسَانِ أَنْفُسَهُمَا أَيُّهُمَا يَسْقِي صَاحِبَه كَأْسَ الْمَنُونِ - فَمَرَّةً لَنَا مِنْ عَدُوِّنَا ومَرَّةً لِعَدُوِّنَا مِنَّا - فَلَمَّا رَأَى اللَّه صِدْقَنَا أَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْكَبْتَ وأَنْزَلَ عَلَيْنَا النَّصْرَ - حَتَّى اسْتَقَرَّ الإِسْلَامُ مُلْقِياً جِرَانَه ومُتَبَوِّئاً أَوْطَانَه - ولَعَمْرِي لَوْ كُنَّا نَأْتِي مَا أَتَيْتُمْ - مَا قَامَ لِلدِّينِ عَمُودٌ ولَا اخْضَرَّ لِلإِيمَانِ عُودٌ - وايْمُ اللَّه لَتَحْتَلِبُنَّهَا دَماً ولَتُتْبِعُنَّهَا نَدَماً!

(۵۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفة رجل مذموم ثم في فضله هوعليه‌السلام

أَمَّا إِنَّه سَيَظْهَرُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي رَجُلٌ رَحْبُ الْبُلْعُومِ مُنْدَحِقُ الْبَطْنِ يَأْكُلُ مَا يَجِدُ

تھا اور ہم برابر سیدھے راستہ پر بڑھتے ہی جا رہے تھے اور مصیبتوں کی سختیوں پر صبر ہی کرتے جا رہے تھے اور دشمن سے جہاد میں کوششیں ہی کرتے جا رہے تھے۔ہمارا سپاہی دشمن کے سپاہی سے اس طرح مقابلہ کرتا تھا جس طرح مردوں کا مقابلہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں۔اور ہر ایک کو یہی فکر ہو کہ دوسرے کو موت کا جام پلادیں۔پھر کبھی ہم دشمن کو مار لیتے تھے اور کبھی دشمن کو ہم پر غلبہ ہوجاتا تھا۔اس کے بعد جب خدا نے ہماری صداقت(۱) کوآزما لیا تو ہمارے دشمن پر ذلت نازل کردی اورہماری اوپر نصرت کا نزول فرمادیا یہاں تک کہ اسلام سینہ ٹیک کر اپنی جگہ جم گیا اور اپنی منزل پر قائم ہوگیا۔ میری جان کی قسم اگر ہمارا کرداربھی تمہیں جیسا ہوتا تو نہ دین کا کوئی ستون قائم ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی شاخ ہری ہوتی۔خدا کی قسم تم اپنے کرتوت سے دودھ کے بدلے خون دوھوگے اور آخرمیں پچھتائو گے۔

(۵۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایک قابل مذمت شخص کے بارے میں)

آگاہ ہو جائو کہ عنقریب تم پر ایک شخص مسلط ہو گا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا۔جو پاجائے گا کھا جائے گا

(۱)ایک عظیم حقیقت کا اعلان ہےکہ پروردگار اپنے بندوں کی بہر حال مدد کرتا ہے۔اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ'' کان حقا علینا نصر المومنین '' (مومنین کی مدد ہماری ذمہ دری ہے )'' ان الله مع الصابرین '' ( اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) لیکن اس سلسلہ میں اس حقیقت کو بہرحال سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نصرت ایمان کے اظہار کے بعد اوریہ معیت صبر کیے بعد سامنے آتی ہے جب تک انسان اپنے ایمان و صبر کا ثبوت نہیں دیدیتا ہے خدائی امداد کا نزول نہیں ہوتا ہے۔'' ان تصنرو الله ینصر کم '' (اگرتم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔نصرت الٰہی تحفہ نہیں ہے مجاہدات کا انعام ہے۔پہلے مجاہدہ نفس اس کے بعد انعام۔!

۸۹

ويَطْلُبُ مَا لَا يَجِدُ - فَاقْتُلُوه ولَنْ تَقْتُلُوه - أَلَا وإِنَّه سَيَأْمُرُكُمْ بِسَبِّي والْبَرَاءَةِ مِنِّي - فَأَمَّا السَّبُّ فَسُبُّونِي فَإِنَّه لِي زَكَاةٌ ولَكُمْ نَجَاةٌ - وأَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي - فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وسَبَقْتُ إِلَى الإِيمَانِ والْهِجْرَةِ.

(۵۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به الخوارج حين اعتزلوا الحكومة وتنادوا أن لا حكم إلا لله أَصَابَكُمْ حَاصِبٌ ولَا بَقِيَ مِنْكُمْ آثِرٌ أَبَعْدَ إِيمَانِي بِاللَّه،

وجِهَادِي مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - أَشْهَدُ عَلَى نَفْسِي بِالْكُفْرِ - لَالْكُفْرِ( قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وما أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ) - فَأُوبُوا شَرَّ مَآبٍ وارْجِعُوا عَلَى أَثَرِ الأَعْقَابِ أَمَا إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي ذُلاًّ شَامِلًا وسَيْفاً قَاطِعاً - وأَثَرَةً

اور جونہ پائے گا اس کی جستجو میں رہے گا۔تمہاری ذمہ داری ہوگی کہ اسے قتل کردو مگر تم ہر گز قتل نہ کرو گے۔ خیروہ عنقریب تمہیں' مجھے گالیاں دینے اور مجھ سے بیزاری کرنے کا بھی حکم دے گا۔تو اگر گالیوں کی بات ہو تو مجھے برا بھلا کہہ لینا کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سامان ہے اورتمہارے لئے دشمن سے نجات کا۔لیکن خبردار مجھ سے برائت نہ کرنا کہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور میں نے ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی ہے۔

(۵۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کا مخاطب ان خوارج کو بنایا گیا ہے جو تحکیم سے کنارہ کش ہوگئے اور '' لاحکم الا اللہ '' کا نعرہ لگانے لگے)

خدا کرے۔تم پرسخت آندھیاں آئیں اور کوئی تمہارے حال کا اصلاح کرنے والا نہ رہ جائے۔کیا میں پروردگار پر ایمان لانے اور رسول اکرم (ص) کے ساتھ جہاد کرنے کے بعد اپنے بارے میں کفر کا اعلان کردوں۔ایسا کروں گا تو میں گمراہ ہو جائوں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہ جائوں گا۔جائو پلٹ جائو اپنی بدترین منزل کی طرف اور واپس چلے جائو اپنے نشانات قدم پر۔مگرآگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہمہ گیر ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہوگا اور اس طریقۂ کار کا مقابلہ کرنا ہوگا

۹۰

يَتَّخِذُهَا الظَّالِمُونَ فِيكُمْ سُنَّةً.

قال الشريف قولهعليه‌السلام ولا بقي منكم آبر يروى على ثلاثة أوجه:

أحدها أن يكون كما ذكرناه آبر بالراء - من قولهم للذي يأبر النخل أي يصلحه -. ويروى آثر وهو الذي يأثر الحديث ويرويه - أي يحكيه وهو أصح الوجوه عندي - كأنهعليه‌السلام قال لا بقي منكم مخبر -. ويروى آبز بالزاي المعجمة وهو الواثب - والهالك أيضا يقال له آبز

(۵۹)

وقالعليه‌السلام

لما عزم على حرب الخوارج - وقيل له:

إن القوم عبروا جسر النهروان!

مَصَارِعُهُمْ دُونَ النُّطْفَةِ - واللَّه لَا يُفْلِتُ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ ولَا يَهْلِكُ مِنْكُمْ عَشَرَةٌ.

جسے ظالم تمہارے بارے میں اپنی سنت بنالیں گے یعنی ہر چیز کو اپنے لئے مخصوص کرلینا۔

سید رضی : حضرت کا ارشاد 'لا بقی منکم آبر'' تین طریقوں سے نقل کیا گیا ہے:

آبر: وہ شخص جو درخت خرمہ کو کانٹ چھانٹ کر اس کی اصلاح کرتا ہے۔

آثر: روایت کرنے والا۔یعنی تمہاری خبر دینے والا بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔اوریہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

آبر: کودنے والا یا ہلاک ہونے والا کہ مزید ہلاکت کے لئے بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔

(۵۹)

آپ نے اس وقت ارشاد فرمایا

جب آپ نے خوارج سے جنگ کا عزم کرلیا اور نہر وان کے پل کو پار کرلیا

یادرکھو(۱) !دشمنوں کی قتل گاہ دریا کے اس طرف ہے۔خدا کی قسم نہ ان میں کے دس باقی بچیں گے اور نہ تمہارے دس ہلاک ہو سکیں گے ۔

(۱)جب امیر المومنین کو یہ خبردی گئی کہ خوارج نے سارے ملک میں فساد پھیلانا شروع کردیا ہے ۔جناب عبداللہ بن خباب بن الارت کو ان کے گھر کی عورتوں سمیت قتل کردیا ہے اور لوگوں میں مسلسل دہشت پھیلا رہے ہیں تو آپ نے ایک شخص کو سمجھانے کے لئے بھیجا۔ان ظالموں نے اسے بھی قتل کردیا۔اس کے بعد جب حضرت عبداللہ بن خباب کے قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو صاف کہہ دیا کہ ہم سب قاتل ہیں۔اس کے بعد حضرت نے بنفس نفیس توبہ کی دعوت دی لیکن ان لوگوں نے اسے بھی ٹھکرادیا۔آخر ایک دن وہ آگیا جب لوگ ایک لاش کو لے کرآئے اور سوال کیا کہ سرکار اب فرمائیں اب کیا حکم ہے؟ تو آپ نے نعرہ تکبیر بلندکرکے جہاد کا حکم دے دیا اور پروردگار کے دئیے ہوئے علم غیب کی بناپر انجام کار سے بھی با خبر کردیا جو بقول ابن الحدید صد فیصد صحیح ثابت ہوا اور خوارج کے صرف نو افراد بچے اور حضرت کے ساتھیوں میں صرف آٹھ افراد شہید ہوئے۔

۹۱

قال الشريف يعني بالنطفة ماء النهر - وهي أفصح كناية عن الماء وإن كان كثيرا جما - وقد أشرنا إلى ذلك فيما تقدم عند مضي ما أشبهه.

(۶۰)

وقالعليه‌السلام

لما قتل الخوارج فقيل له يا أمير المؤمنين هلك القوم بأجمعهم

كَلَّا واللَّه إِنَّهُمْ نُطَفٌ فِي أَصْلَابِ الرِّجَالِ وقَرَارَاتِ النِّسَاءِ،كُلَّمَا نَجَمَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ - حَتَّى يَكُونَ آخِرُهُمْ لُصُوصاً سَلَّابِينَ.

(۶۱)

وقالعليه‌السلام

لَا تُقَاتِلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِي - فَلَيْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَأَخْطَأَه - كَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَأَدْرَكَه.

قال الشريف - يعني معاوية وأصحابه.

(۶۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما خوف من الغيلة

وإِنَّ عَلَيَّ مِنَ اللَّه جُنَّةً حَصِينَةً -.

سید رضی : نطفہ سے مراد نہر کا شفاف پانی ہے۔جو بہترین کنایہ ہے پانی کے بارے میں چاہے اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو

(۶۰)

آپ نے فرمایا

(اس وقت جب خوارج کے قتل کے بعد لوگوں نے کہا کہ اب تو قوم کاخاتمہ ہوچکا ہے)

ہرگز نہیں۔خدا گواہ ہے کہ یہ ابھی مردوں کے صلب اورعورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں کوئی سر نکالے گا اسے کاٹ دیا جائے گا۔یہاں تک کہ آخرمیں صرف لٹیرے اورچور ہو کر رہ جائیں گے۔

(۶۱)

آپ نے فرمایا

خبر دار میرے بعد خروج کرنے والوں سے جنگ نہ کرنا کہ حق کی طلب میں نکل کر بہک جانے والا اس کا جیسا نہیں ہوتا ہے جو باطل کی تلاش میں نکلے اورحاصل بھی کرلے۔

سید شریف رضی نے فرمایا : یعنی معاویہ اور اس کے پیروکار

(۶۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو اچانک قتل سے ڈرایا گیا )

یاد رکھو میرے لئے خداکی طرف سے ایک مضبوط و مستحکم سپر ہے

۹۲

فَإِذَا جَاءَ يَوْمِي انْفَرَجَتْ عَنِّي وأَسْلَمَتْنِي - فَحِينَئِذٍ لَا يَطِيشُ السَّهْمُ ولَا يَبْرَأُ الْكَلْمُ

(۶۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحذر من فتنة الدنيا

أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا دَارٌ لَا يُسْلَمُ مِنْهَا إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنْجَى بِشَيْءٍ كَانَ لَهَا - ابْتُلِيَ النَّاسُ بِهَا فِتْنَةً - فَمَا أَخَذُوه مِنْهَا لَهَا أُخْرِجُوا مِنْه وحُوسِبُوا عَلَيْه - ومَا أَخَذُوه مِنْهَا لِغَيْرِهَا قَدِمُوا عَلَيْه وأَقَامُوا فِيه - فَإِنَّهَا عِنْدَ ذَوِي الْعُقُولِ كَفَيْءِ الظِّلِّ - بَيْنَا تَرَاه سَابِغاً حَتَّى قَلَصَ وزَائِداً حَتَّى نَقَصَ.

(۶۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في المبادرة إلى صالح الأعمال

فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه وبَادِرُوا آجَالَكُمْ بِأَعْمَالِكُمْ وابْتَاعُوا

اس کے بعد جب میرا دن آجائے گا تو یہ سپر مجھ سے الگ ہوجائےگااور مجھے موت کے حوالے کردے گا۔اس وقت نہ تیر خطاکرےگا اورنہ زخم مندمل ہو سکے گا

(۶۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا کے فتنوں سے ڈرایا گیا ہے)

آگاہ ہوجائو کہ یہ دنیا ایساگھر ہےجس سےسلامتی کاسامان اسی کےاندرسےکیاجاسکتا ہےاورکوئی ایسی شےوسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہےجو دنیا ہی کےلئے ہولوگ اس دنیاکے ذریعہ آزمائےجاتے ہیں جولوگ دنیاکاسامان دنیا ہی کےلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسےچھوڑکرچلےجاتےہیں اورپھرحساب بھی دینا ہوتا ہےاورجولوگ یہاں سےوہاں کےلئےحاصل کرتےہیں وہ وہاں جاکرپالیتےہیں اوراسی میں مقیم ہو جاتے ہیں۔یہ دنیا درحقیقت صاحبان عقل کی نظرمیں ایک سایہ جیسی ہے جودیکھتے دیکھتےسمٹ جاتا ہے اورپھیلتے پھیلتے کم ہو جاتا ہے۔

(۶۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(نیک اعمال کی طرف سبقت کے بارے میں )

بندگان خدا! اللہ سے ڈرو اور اعمال کے ساتھ اجل(۱) کی طرف سبقت کرو۔اس دنیا کے فانی مال کے

(۱)انسان کے قدم موت کی طرف بلا اختیاربڑھتے جا رہے ہیں اور اسے اس امر کا احساس ا بھی نہیں ہوتا ہے نتیجہ یہ ہتا ہے کہ ایک دن موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور دائمی خسارہ اورعذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے لہٰذا تقاضائے عقل و دانش یہی ہے کہ اعمال کو ساتھ لے کر آگے بڑھے گاتا کہ جب موت کا سامانا ہوتواعمال کا سہارا رہے اورعذاب الیم سے نجات حاصل کرنے کا وسیلہ ہاتھ میں رہے۔

۹۳

مَا يَبْقَى لَكُمْ بِمَا يَزُولُ عَنْكُمْ وتَرَحَّلُوا فَقَدْ جُدَّ بِكُمْ واسْتَعِدُّوا لِلْمَوْتِ فَقَدْ أَظَلَّكُمْ وكُونُوا قَوْماً صِيحَ بِهِمْ فَانْتَبَهُوا - وعَلِمُوا أَنَّ الدُّنْيَا لَيْسَتْ لَهُمْ بِدَارٍ فَاسْتَبْدَلُوا - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يَتْرُكْكُمْ سُدًى ومَا بَيْنَ أَحَدِكُمْ وبَيْنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ - إِلَّا الْمَوْتُ أَنْ يَنْزِلَ بِه - وإِنَّ غَايَةً تَنْقُصُهَا اللَّحْظَةُ وتَهْدِمُهَا السَّاعَةُ - لَجَدِيرَةٌ بِقِصَرِ الْمُدَّةِ - وإِنَّ غَائِباً يَحْدُوه الْجَدِيدَانِ - اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَحَرِيٌّ بِسُرْعَةِ الأَوْبَةِ وإِنَّ قَادِماً يَقْدُمُ بِالْفَوْزِ أَوِ الشِّقْوَةِ - لَمُسْتَحِقٌّ لأَفْضَلِ الْعُدَّةِ - فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا - مَا تَحْرُزُونَ بِه أَنْفُسَكُمْ غَداً فَاتَّقَى عَبْدٌ رَبَّه نَصَحَ نَفْسَه وقَدَّمَ تَوْبَتَه وغَلَبَ شَهْوَتَه - فَإِنَّ أَجَلَه مَسْتُورٌ عَنْه وأَمَلَه خَادِعٌ لَه - والشَّيْطَانُ مُوَكَّلٌ بِه يُزَيِّنُ لَه الْمَعْصِيَةَ لِيَرْكَبَهَا - ويُمَنِّيه التَّوْبَةَ لِيُسَوِّفَهَا

ذریعہ باقی رہنے والی آخرت کو خرید لو اور یہاں سے کوچ کر جائو کہ تمہیں تیزی سے لیجا یا جا رہا ہے اور موت کے لئے آمادہ ہوجائو کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے اس قوم جیسے ہو جائو جیسے پکارا گیا تو فورا ہوشیار ہوگئی۔اوراس نے جان لیا کہ دنیا اس کی منزل نہیں ہے تو اسے آخرت سے بدل لیا۔اس لئے کہ پروردگار نے تمہیں بیکارنہیں پیداکیا اور نہ مہمل چھوڑ دیا ہے اور یاد رکھو کہ تمہارے اور جنت و جہنم کے درمیان اتنا ہی وقفہ ہے کہ موت نازل ہو جائے اور انجام سامنے آجائے اور وہ مدت حیات جیسے ہر لحظہ کم کر رہا ہو اور ہر ساعت اس کی عمارت کو منہدم کر رہی ہو وہ قصیر المدة ہی سمجھنے کا لائق ہے اور وہ موت جسے دن و رات ڈھکیل کر آگے لا رہے ہوں اسے بہت جلد آنے والا ہی خیال کرنا چاہیے اور وہ شخص جس کے سامنے کامیابی یا ناکامی اوربد بختی آنے والی ہے اسے بہترین سامان مہیا ہی کرنا چاہیے۔لہٰذا تم دنیا میں رہ کر دنیا سے زاد راہ حاصل کر لو جس سے کل اپنے نفس کاتحفظ کرس کو۔اس کا راستہ یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے ڈرے۔اپنے نفس سے اخلاص رکھتے ' توبہ کو مقدم کرے۔خواہشات پر غلبہ حاصل کرے اس لئے کہ اس کی اجل اس سے پوشیدہ ہے اور اس کی خواہش اسے مسلسل دھوکہ دینے والی ہے اور شیطان اس کے سر پر سوار ہے جو معصیتوں کو آراستہ کر رہا ہے تاکہ انسان مرتکب ہو جائے اور توبہ کی امیدیں دلاتا ہے تاکہ اس میں تاخیر کرے یہاں تک کہ غفلت اور بے خبری کے عالم میں موت اس پر

۹۴

إِذَا هَجَمَتْ مَنِيَّتُه عَلَيْه أَغْفَلَ مَا يَكُونُ عَنْهَا - فَيَا لَهَا حَسْرَةً عَلَى كُلِّ ذِي غَفْلَةٍ أَنْ يَكُونَ عُمُرُه عَلَيْه حُجَّةً - وأَنْ تُؤَدِّيَه أَيَّامُه إِلَى الشِّقْوَةِ - نَسْأَلُ اللَّه سُبْحَانَه - أَنْ يَجْعَلَنَا وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ لَا تُبْطِرُه نِعْمَةٌ ولَا تُقَصِّرُ بِه عَنْ طَاعَةِ رَبِّه غَايَةٌ - ولَا تَحُلُّ بِه بَعْدَ الْمَوْتِ نَدَامَةٌ ولَا كَآبَةٌ.

(۶۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها مباحث لطيفة من العلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ تَسْبِقْ لَه حَالٌ حَالًا - فَيَكُونَ أَوَّلًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ آخِراً - ويَكُونَ ظَاهِراً قَبْلَ أَنْ يَكُونَ بَاطِناً - كُلُّ مُسَمًّى بِالْوَحْدَةِ غَيْرَه قَلِيلٌ - وكُلُّ عَزِيزٍ غَيْرَه ذَلِيلٌ وكُلُّ قَوِيٍّ غَيْرَه ضَعِيفٌ - وكُلُّ مَالِكٍ غَيْرَه مَمْلُوكٌ وكُلُّ عَالِمٍ غَيْرَه مُتَعَلِّمٌ - وكُلُّ قَادِرٍ غَيْرَه يَقْدِرُ ويَعْجَزُ - وكُلُّ سَمِيعٍ غَيْرَه يَصَمُّ

حملہ آور ہوجاتی ہے۔ ہائے کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ انسان کی عمر ہی اس کے خلاف حجت بن جائے اور اس کا روز گار ہی اسے بدبختی تک پہنچادے۔پروردگار سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں قرار دے جنہیں نعمتیں مغرور نہیں بناتی ہیں اور کوئی مقصد اطاعت خدا میں کوتاہی پرآمادہ نہیں کرتا ہے اور موت کے بعد ان پر ندامت اور رنج و غم کا نزول نہیں ہوتا ہے۔

(۶۵)

(جس میں علم الٰہی کے لطیف ترین مباحث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)

تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس کے صفات میں تقدم(۱) و تاخرنہیں ہوتا ہے کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اول رہا ہو اور باطن بننے سے پہلے ظاہر رہا ہو۔اس کے علاوہ جسے بھی واحد کہا جاتا ہے اس کی وحدت قلت ہے اور جسے بھی عزیز سمجھا جاتا ہے ہے اس کی عزت ذلت ہے۔اس کے سامنے ہر قوی ضعیف ہے اور ہر مالک مملوک ہے' ہر عالم متعلم ہے اور ہر قادر عاجز ہے' ہر سننے والا لطیف آوازوں کے لئے بہرہ ہے اور اونچی آوازیں بھی اسے بہرہ بنا دیتی ہیں

(۱)یہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار کے صفات کمال عین ذات ہیں اور ذات سے الگ کوئی شے نہیں ہیں۔وہ علم کی وجہ سے عالم نہیں ہے۔بلکہ عین حقیقت علم ہے اور قدرت کے ذریعہ قادر نہیں ہے بلکہ عین قدرت کاملہ ہے اور جب یہ سارے صفات عین ذات ہیں تو ان میں تقدم و تاخر کا کوئی سوال ہی نہیں ہے وہ جس لحظہ اول ہے اسی لحظہ آخر بھی ہے اور جس اندازسے ظاہر ہے اسی اندازسے باطن بھی ہے۔اس کی ذات اقدس میں کسی طرح کا تغیر قابل تصور نہیں ہے حدیہ ہے کہ اس کی سماعت و بصارت بھی مخلوقات کی سماعت و بصارت سے بالکل الگ ہے۔دنیا کا ہر سمیع و بصیر کسی شے کو دیکھتا اور سنتا ہے اور کسی شے کے دیکھنے اورسننے سے قاصر رہتا ہے لیکن پروردگار کی ذات اقدس ایسی نہیں ہے وہ مخفی ترین مناظر ک دیکھ رہا ہے اور لطیف ترین آوازوں کو سن رہا ہے ۔وہ ایسا ظاہر ہے جو باطن نہیں ہے اور ایسا باطن ہے جو کسی عقل و فہم پرظاہر نہیں ہو سکتا ہے۔!

۹۵

عَنْ لَطِيفِ الأَصْوَاتِ - ويُصِمُّه كَبِيرُهَا ويَذْهَبُ عَنْه مَا بَعُدَ مِنْهَا - وكُلُّ بَصِيرٍ غَيْرَه يَعْمَى عَنْ خَفِيِّ الأَلْوَانِ ولَطِيفِ الأَجْسَامِ - وكُلُّ ظَاهِرٍ غَيْرَه بَاطِنٌ وكُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَه غَيْرُ ظَاهِرٍ - لَمْ يَخْلُقْ مَا خَلَقَه لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ - ولَا تَخَوُّفٍ مِنْ عَوَاقِبِ زَمَانٍ - ولَا اسْتِعَانَةٍ عَلَى نِدٍّ مُثَاوِرٍ ولَا شَرِيكٍ مُكَاثِرٍ ولَا ضِدٍّ مُنَافِرٍ ولَكِنْ خَلَائِقُ مَرْبُوبُونَ وعِبَادٌ دَاخِرُونَلَمْ يَحْلُلْ فِي الأَشْيَاءِ فَيُقَالَ هُوَ كَائِنٌ - ولَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ لَمْ يَؤُدْه خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ - ولَا تَدْبِيرُ مَا ذَرَأَ ولَا وَقَفَ بِه عَجْزٌ عَمَّا خَلَقَ - ولَا وَلَجَتْ عَلَيْه شُبْهَةٌ فِيمَا قَضَى وقَدَّرَ - بَلْ قَضَاءٌ مُتْقَنٌ وعِلْمٌ مُحْكَمٌ - وأَمْرٌ مُبْرَمٌ الْمَأْمُولُ مَعَ النِّقَمِ - الْمَرْهُوبُ مَعَ النِّعَمِ!

اور دور کی آوازیں بھی اس کی حد سے باہر نکل جاتی ہیں اور اس طرح اس کے علاوہ ہر دیکھنے والا مخفی رنگ اور لطیف جسم کو نہیں دیکھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہر ظاہر غیر باطن ہے اور ہر باطن غیر ظاہر ۔اس نے مخلوقات کو اپنی حکومت کے استحکام یا زمانہ کے نتائج کے خوف سے نہیں پیدا کیا ہے۔نہ اسے کسی برابر والے حملہ آور یا صاحب کثرت شریک یا ٹکرانیوالے مد مقابل کے مقابلہ میں مدد لینا تھی۔ یہ ساری مخلوق اسی کی پیدا کی ہوئی اورپالی ہوئی ہے اور یہ سارے بندے اسی کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔اس نے اشیاء میں حلول نہیں کیا ہے کہ اسے کسی کے اندر سمایا ہوا کہا جائے اور نہ اتنا دور ہوگیا ہے کہ الگ تھلگ خیال کیا جائے۔مخلوقات کی خلقت اورمصنوعات کی تدبیر اسے تھکا نہیں سکتی ہے اور نہ کوئی تخلیق اسے عاجز بنا سکتی ہے اور نہ کسی قضاو قدر میں اسے کوئی شبہ پیدا ہو سکتا ہے۔اس کا ہر فیصلہ محکم اوراس کا ہر علم متقن اور اس کا ہر حکم مستحکم ہے۔ناراضگی میں بھی اس سے امید وابستہ کی جاتی ہے اورنعمتوں میں بھی اس کا خوف لاحق رہتا ہے۔

۹۶

(۶۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في تعليم الحرب والمقاتلة

والمشهور أنه قاله لأصحابه ليلة الهرير أو أول اللقاء بصفين

مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ اسْتَشْعِرُوا الْخَشْيَةَ وتَجَلْبَبُوا السَّكِينَةَ وعَضُّوا عَلَى النَّوَاجِذِ فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ وأَكْمِلُوا اللأْمَةَ وقَلْقِلُوا السُّيُوفَ فِي أَغْمَادِهَا قَبْلَ سَلِّهَا - والْحَظُوا الْخَزْرَ واطْعُنُوا الشَّزْرَ ونَافِحُوا بِالظُّبَى وصِلُوا السُّيُوفَ بِالْخُطَا واعْلَمُوا أَنَّكُمْ بِعَيْنِ اللَّه ومَعَ ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللَّه - فَعَاوِدُوا الْكَرَّ واسْتَحْيُوا مِنَ الْفَرِّ فَإِنَّه عَارٌ فِي الأَعْقَابِ ونَارٌ يَوْمَ الْحِسَابِ - وطِيبُوا عَنْ أَنْفُسِكُمْ نَفْساً - وامْشُوا إِلَى الْمَوْتِ مَشْياً سُجُحاً وعَلَيْكُمْ بِهَذَا السَّوَادِ الأَعْظَمِ والرِّوَاقِ الْمُطَنَّبِ فَاضْرِبُوا ثَبَجَه فَإِنَّ الشَّيْطَانَ كَامِنٌ فِي كِسْرِه

(۶۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(تعلیم جنگ کے بارے میں )

مسلمانو!خوف(۱) خداکو اپنا شعار بنائو۔سکون و وقار کی چادر اوڑھ لو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سروں سے اچٹ جاتی ہیں۔زرہ پوشی کو مکمل کرلو۔تلواروں کو نیام سے نکالنے سے پہلے نیام کے اندرحرکت دے لو۔دشمن کو ترچھی نظر سے دیکھتے رہو اور نیزوں سے دونوں طرف وار کرتے رہو۔اسے اپنی تلواروں کی باڑھ پر رکھو اور تلواروں کے حملے قدم آگے بڑھا کرکرو اوریہ یاد رکھو کہ تم پروردگار کی نگا ہ میں اور رسول اکرم (ص) کے ابن عم کے ساتھ ہو ۔دشمن پر مسلسل حملے کرتے رہو اور فرار سے شرم کرو کہ اس کا عار نسلوں میں رہ جاتا ہے اوراس کا انجام جہنم ہوتا ہے۔اپنے نفس کو ہنسی خوشی خدا کے حوالے کردو اور موت کی طرف نہایت درجہ سکون و اطمینان سے قدم آگے بڑھائو۔تمہارا نشانہ ایک دشمن کا عظیم لشکراورطناب دار خیمہ ہونا چاہیے کہ اسی کے وسط پرحملہ کرو کہ شیطان اسی کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا

(۱)ان تعلیمات پرسنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ایک مرد مسلم کے جہاد کا انداز کیا ہونا چاہیے اوراسے دشمن کے مقابلہ میں کس طرح جنگ آزما ہونا چاہیے۔ان تعلیمات کا مختصرخلاصہ یہ ہے:۔ ۱۔دل کے اندر خوف خدا ہو'۲۔باہر سکون و اطمینان کا مظاہر ہو' ۳۔دانتوں کو بھینچ لیا جائے'۴۔آلات جنگ کو مکمل طورپر ساتھ رکھا جائے' ۵۔تلوار کو نیام کے اندرحرکت دے لی جائے کہ بر وقت نکالنے میں زحمت نہ ہو'۶۔دشمن پر غیط آلود نگاہ کی جائے ' ۷۔نیزوں کے حملے ہر طرف ہوں'۸۔تلوار دشمن کے سامنے رہے '۹۔تلوار دشمن تک نہ پہنچے توقدم بڑھاکرحملہ کرے' ۱۰۔فرار کا ارادہ نہ کرے ' ۱۱۔موت کی طرف سکون کے ساتھ قدم بڑھائے'۱۲۔جان جان آفریں کے حوالے کردے' ۱۳۔ہدف اورنشانہ پرنگاہ رکھے '۱۴۔یہ اطمینان رکھے کہ خدا ہمارے اعمال کودیکھ رہا ہے اور پیغمبر (ص) کا بھائی ہماری نگاہ کے سامنے ہے۔

ظاہر ہے کہ ان آداب میں بعض آداب ' تقویٰ ' ایمان وغیرہ دائمی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض کا تعلق نیزہ و شمشیر کے دور سے ہے لیکن اسے بھی ہردور کے آلات حرب و ضرب پرمنطبق کیاجاسکتا ہے اور اس سے فادئہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

۹۷

وقَدْ قَدَّمَ لِلْوَثْبَةِ يَداً وأَخَّرَ لِلنُّكُوصِ رِجْلًا - فَصَمْداً صَمْداً حَتَّى يَنْجَلِيَ لَكُمْ عَمُودُ الْحَقِّ –( وأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ والله مَعَكُمْ ولَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ )

(۶۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قالوا لما انتهت إلى أمير المؤمنينعليه‌السلام أنباء السقيفة بعد وفاة رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالعليه‌السلام :ما قالت الأنصار قالوا قالت منا أمير ومنكم أمير قالعليه‌السلام :

فَهَلَّا احْتَجَجْتُمْ عَلَيْهِمْ - بِأَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَصَّى بِأَنْ يُحْسَنَ إِلَى مُحْسِنِهِمْ - ويُتَجَاوَزَ عَنْ مُسِيئِهِمْ؟

قَالُوا ومَا فِي هَذَا مِنَ الْحُجَّةِ عَلَيْهِمْ؟

ہے۔اس کا حال یہ ہے کہ اس نے ایک قدم حملہ کے لئے آگے بڑھا رکھا ہے۔اور ایک بھاگنے کے لئے پیچھے کر رکھا ہے لہٰذا تم مضبوطی سے اپنے ارادہ پرجمے رہو یہاں تک کہ حق صبح کے اجالے کی طرح واضح ہو جائے اور مطمئن ہو کر بلندی تمہارا حصہ ہے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کر سکتا ہے۔

(۶۷)

آپ کا ارشاد گرامی

جب رسول اکرم (ص)کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ(۱) کی خبریں پہنچیں اور آپ نے پوچھا کہ انصار نے کیا احتجاج کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہمارا ہوگا اور ایک تمہارا۔تو آپ نے فرمایا:۔

تم لوگوں نے ان کے خلاف یہ استدلال کیوں نہیں کیا کہ رسول اکرم (ص) نے تمہارے نیک کرداروں کے ساتھ حسن سلوک اور خطا کاروں سے در گزر کرنے کی وصیت فرمائی ہے ؟

لوگوں نے کہا کہ اس میں کیا استد لال ہے؟

(۱)استاد احمد حسن یعقوب نے کتاب نظریہ عدالت صحابہ میں ایک مفصل بحث کی ہے کہ سقیفہ میں کوئی قانونی اجتماع انتخاب خلیفہ کے لئے نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی اس کا ایجنڈہ تھا اورنہ سوا لاکھ صحابہ کی بستی میں سے دس بیس ہزار افراد جمع ہوئے تھے بلکہ سعد بن عبادہ کی بیماری کی بناپر انصارعیادت کے لئے جمع ہوئے تھے اوربعض مہاجرین نے اس اجتماع کودیکھ کر یہ محسوس کیا کہ کہیں خلافت کا فیصلہ نہ ہوجائے' تو بر وقت پہنچ کر اس قدر ہنگامہ کیا کہ انصار میں پھوٹ پڑ گئی اور فی الفور حضرت ابو بکر کی خلافت کا اعلان کردیا اور ساری کاروائی لمحوں میں یوں مکمل ہوگئی کہ سعد بن عبادہ کو پامال کردیا گیا اور حضرت ابو بکر ''تاج خلافت ''سر پر رکھے ہوئے سقیفہ سے برآمد ہوگئے۔اس شان سے کہ اس عظیم مہم کی بنا پرجنازۂ رسول میں شرکت سے بھی محروم ہوگئے اورخلافت کا پہلا اثر سامنے آگیا۔

۹۸

فَقَالَعليه‌السلام :

لَوْ كَانَ الإِمَامَةُ فِيهِمْ لَمْ تَكُنِ الْوَصِيَّةُ بِهِمْ.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام :

فَمَا ذَا قَالَتْ قُرَيْشٌ - قَالُوا احْتَجَّتْ بِأَنَّهَا شَجَرَةُ الرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَقَالَعليه‌السلام احْتَجُّوا بِالشَّجَرَةِ وأَضَاعُوا الثَّمَرَةَ.

(۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما قلد محمد بن أبي بكر مصر فملكت عليه وقتل

وقَدْ أَرَدْتُ تَوْلِيَةَ مِصْرَ هَاشِمَ بْنَ عُتْبَةَ - ولَوْ وَلَّيْتُه إِيَّاهَا لَمَّا خَلَّى لَهُمُ الْعَرْصَةَولَا أَنْهَزَهُمُ الْفُرْصَةَ بِلَا ذَمٍّ لِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ - فَلَقَدْ كَانَ إِلَيَّ حَبِيباً وكَانَ لِي رَبِيباً.

فرمایاکہ اگر امارت ان کا حصہ ہوتی تو ان سے وصیت کی جاتی نہ کہ ان کے بارے میں وصیت کی جاتی ۔اس کے بعد آپ نے سوال کیا کہ قریش کی دلیل کیا تھی؟ لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے کو رسول اکرم (ص) کے شجرہ میں ثابت کر رہے تھے۔فرمایا کہ افسوس شجرہ سے استدلال کیا اورثمرہ کو ضائع کردیا

(۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے محمدبن ابی بکر کو مصر کی ذمہ داری حوالہ کی اور انہیں قتل کردیا گیا)

میرا ارادہ تھا کہ مصر کاحاکم ہاشم بن(۱) عتبہ کو بنائوں اور اگر انہیں بنا دیتا تو ہرگزمیدان کو مخالفین کے لئے خالی نہ چھوڑتے اور انہیں موقع سے فائدہ نہ اٹھانے دیتے ( لیکن حالات نے ایسا نہ کرنے دیا)

اس بیان کا مقصد محمد بن ابی بکر کی مذمت نہیں ہے اس لئے کہ وہ مجھے عزیز تھا اور میرا ہی پروردہ(۲) تھا۔

(۱)ہاشم بن عتبہ صفین میں عملدارلشکر امیر المومنین تھے۔مرقال ان کا لقب تھا کہ نہایت تیز رفتاری اورچابکدستی سے حملہ کرتے تھے۔

(۲)محمد بن ابی بکر اسما بنت عمیس کے بطن سے تھے۔جو پہلے جناب جعفر طیارکی زوجہ تھیں اور ان سے عبداللہ بن جعفر پیدا ہوئے تھے اس کے بعد ان کی شہادت کے بعد ابو بکر کی زوجیت میں آگئیں جن سے محمد پیدا ہوئے اور ان کی وفات کے بعد مولائے کائنات کی زوجیت میں آئیں اور محمد نے آپ کے زیر اثر تربیت پائی یہ اوربات ہے کہ جب عمرو عاص نے چار ہزار کے لشکرکے ساتھ مصر پرحملہ کیا تو اپنے آبائی اصول جنگ کی بنا پرمیدان سے فرار اختیار کیا اور بالآخر قتل ہوگئے اورلاش کو گدھے کی کھال میں رکھ کرجلا دیا گیا یا بروایتے زندہ ہی جلادئیے گئے اور معاویہ نے اس خبرکوسن کر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ (مروج الذہب)

امیر المومنین نے اس موقع پر ہاشم کو اسی لئے یاد کیاتھا کہ وہ میدان سے فرار نہ کر سکتے تھے اور کسی گھر کے اندر پناہ لینے کا ارادہ بھی نہیں کر سکتے تھے ۔

۹۹

(۶۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في توبيخ بعض أصحابه

كَمْ أُدَارِيكُمْ كَمَا تُدَارَى الْبِكَارُ الْعَمِدَةُ والثِّيَابُ الْمُتَدَاعِيَةُ !كُلَّمَا حِيصَتْ مِنْ جَانِبٍ تَهَتَّكَتْ مِنْ آخَرَ - كُلَّمَا أَطَلَّ عَلَيْكُمْ مَنْسِرٌ مِنْ مَنَاسِرِ أَهْلِ الشَّامِ - أَغْلَقَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بَابَه - وانْجَحَرَ انْجِحَارَ الضَّبَّةِ فِي جُحْرِهَا والضَّبُعِ فِي وِجَارِهَا الذَّلِيلُ واللَّه مَنْ نَصَرْتُمُوه - ومَنْ رُمِيَ بِكُمْ فَقَدْ رُمِيَ بِأَفْوَقَ نَاصِلٍ إِنَّكُمْ واللَّه لَكَثِيرٌ فِي الْبَاحَاتِ قَلِيلٌ تَحْتَ الرَّايَاتِ - وإِنِّي لَعَالِمٌ بِمَا يُصْلِحُكُمْ ويُقِيمُ أَوَدَكُمْ ولَكِنِّي لَا أَرَى إِصْلَاحَكُمْ بِإِفْسَادِ نَفْسِي - أَضْرَعَ اللَّه خُدُودَكُمْ وأَتْعَسَ جُدُودَكُمْ لَا تَعْرِفُونَ الْحَقَّ كَمَعْرِفَتِكُمُ الْبَاطِلَ - ولَا تُبْطِلُونَ الْبَاطِلَ كَإِبْطَالِكُمُ الْحَقَّ!

(۶۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو سر زنش کرتے ہوئے)

کب تک میں تمہارے ساتھ وہ نرمی کا برتائو کروں جو بیمار اونٹ کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کا کوہان اندر سے کھوکھلا ہوگیا ہو یا اس بوسیدہ کپڑے کے ساتھ کیا جاتا ہے جسے ایک طرف سے سیا جائے تو دوسری طرف سے پھٹ جاتا ہے۔ جب بھی شام کا کوئی دستہ تمہارے کسی دستہ کے سامنے آتا ہے تو تم میں س ے ہر شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیتاہے اور اس طرح چھپ جاتا ہے جیسے سوراخ میں گوہ یا بھٹ میں بجو۔ خدا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مدد گار ہوں گے اور جو تمہارے ذریعہ تیر اندازی کرے گا گویا وہ سو فار شکستہ اورپیکان نداشتہ تیرے نشانہ لگائے گا۔خدا کی قسم تم صحن خانہ میں بہت دکھائی دیتے ہواور پرچم لشکرکے زیر سایہ بہت کم نظرآتے ہو۔میں تمہاری اصلاح کا طریقہ جانتا ہوں اور تمہیں سیدھا کر سکتا ہوں لیکن کیا کروں اپنے دین کو برباد کرکے تمہاری اصلاح نہیں کرنا چاہتا ہوں۔خدا تمہارے چہروں کو ذلیل کرے اور تمہارے نصیب کو بد نصیب کرے۔تم حق کو اس طرح نہیں پہچانتے ہو جس طرح باطل کی معرفت رکھتے ہو اور باطل کو اس طرح باطل نہیں قراردیتے ہو جس طرح حق کو غلط ٹھہراتے ہو۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

أَلَا وإِنَّ لِكُلِّ دَمٍ ثَائِراً - ولِكُلِّ حَقٍّ طَالِباً - وإِنَّ الثَّائِرَ فِي دِمَائِنَا كَالْحَاكِمِ فِي حَقِّ نَفْسِه - وهُوَ اللَّه الَّذِي لَا يُعْجِزُه مَنْ طَلَبَ - ولَا

يَفُوتُه مَنْ هَرَبَ - فَأُقْسِمُ بِاللَّه يَا بَنِي أُمَيَّةَ عَمَّا قَلِيلٍ - لَتَعْرِفُنَّهَا فِي أَيْدِي غَيْرِكُمْ - وفِي دَارِ عَدُوِّكُمْ أَلَا إِنَّ أَبْصَرَ الأَبْصَارِ مَا نَفَذَ فِي الْخَيْرِ طَرْفُه أَلَا إِنَّ أَسْمَعَ الأَسْمَاعِ مَا وَعَى التَّذْكِيرَ وقَبِلَه.

وعظ الناس

أَيُّهَا النَّاسُ - اسْتَصْبِحُوا مِنْ شُعْلَةِ مِصْبَاحٍ وَاعِظٍ مُتَّعِظٍ وامْتَاحُوا مِنْ صَفْوِ عَيْنٍ قَدْ رُوِّقَتْ مِنَ الْكَدَرِ.

عِبَادَ اللَّه لَا تَرْكَنُوا إِلَى جَهَالَتِكُمْ - ولَا تَنْقَادُوا لأَهْوَائِكُمْ فَإِنَّ النَّازِلَ بِهَذَا الْمَنْزِلِ نَازِلٌ بِشَفَا جُرُفٍ هَارٍ - يَنْقُلُ الرَّدَى عَلَى ظَهْرِه مِنْ مَوْضِعٍ إِلَى مَوْضِعٍ - لِرَأْيٍ يُحْدِثُه بَعْدَ رَأْيٍ - يُرِيدُ أَنْ يُلْصِقَ مَا لَا يَلْتَصِقُ - ويُقَرِّبَ مَا لَا يَتَقَارَبُ - فَاللَّه اللَّه أَنْ تَشْكُوا إِلَى مَنْ لَا يُشْكِي شَجْوَكُمْ - ولَا يَنْقُضُ بِرَأْيِه مَا قَدْ أَبْرَمَ لَكُمْ

لیکن یاد رکھو کہ ہر خون کا ایک انتقام لینے والا اور ہرحق کا ایک طلب گار ہوتا ہے اور ہمارے خون کا منتقم گویا خود اپنے حق میں فیصلہ کرنے والا ہے اور وہ ' وہ پروردگار ہے جسے کوئی مطلوب عاجز نہیں کر سکتا ہے اور جس سے کوئی فرار کرنے والا بھاگ نہیں سکتا ہے۔میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں اے بنی امیہ کہ عنقریب تم اس دنیا کو اغیار کے ہاتھوں اوردشمنوں کے دیارمیں دیکھوگے۔آگاہ ہوجائو کہ بہترین نظر وہ ہے جو خیر میں ڈوب جائے اور بہترین کان وہ ہیں جو نصیحت کو سن لیں اور قبول کرلیں۔

(موعظہ)

لوگو! ایک با عمل نصیحت کرنے والے کے چراغ ہدایت سے روشنی حاصل کرلو اورایک ایسے صاف چشمہ سے سیراب ہو جائو جو ہر آلودگی سے پاک و پاکیزہ ہے۔

اللہ کے بندو! دیکھو اپنی جہالت کی طرف جھکائو مت پیدا کرو اور اپنی خواہشات کے غلام نہ بن جائو کہ اس منزل پرآجانے والا گویا سیلاب زدہ ادیوار کے کنارہ پر کھڑا ہے اور ہلاکتوں کو اپنی پشت پر لادے ہوئے ادھر سے ادھر منتقل ہو رہا ہے۔ان افکار کی بنا پر جو یکے بعد دیگرے ایجاد کرتا رہے گا اوران پر ایسے دلائل قائم کرے گا جو ہر گز چسپاں نہ ہوں گے اور اس سے قریب تربھی نہ ہوں گے ۔خدارا خدا کا خیال رکھو کہ اپنی فریاد اس شخص سے کرو جو اس کا ازالہ بنا کر سکے اور اپنی رائے سے حکم الٰہی کو توڑ نہ سکے۔

۱۸۱

إِنَّه لَيْسَ عَلَى الإِمَامِ إِلَّا مَا حُمِّلَ مِنْ أَمْرِ رَبِّه - الإِبْلَاغُ فِي الْمَوْعِظَةِ - والِاجْتِهَادُ فِي النَّصِيحَةِ - والإِحْيَاءُ لِلسُّنَّةِ - وإِقَامَةُ الْحُدُودِ عَلَى مُسْتَحِقِّيهَا - وإِصْدَارُ السُّهْمَانِ عَلَى أَهْلِهَا - فَبَادِرُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِ تَصْوِيحِ نَبْتِه - ومِنْ قَبْلِ أَنْ تُشْغَلُوا بِأَنْفُسِكُمْ - عَنْ مُسْتَثَارِ الْعِلْمِ مِنْ عِنْدِ أَهْلِه - وانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وتَنَاهَوْا عَنْه - فَإِنَّمَا أُمِرْتُمْ بِالنَّهْيِ بَعْدَ التَّنَاهِي

یاد رکھو امام کی ذمہ داری صرف وہ ہے جوپروردگار نے اس کے ذمہ رکھی ہے کہ بلیغ ترین موعظہ کرے۔نصیحت کی کوشش کرے سنت کو زندہ کرے۔مستحقین پر حدود کا اجرا کرے اور حقدار تک میراث کے حصے پہنچا دے ۔

دیکھو علم کی طرف سبقت کرو قبل اس کے کہ اس کا سبزہ خشک ہو جائے اورتم اسے صاحبان علم سے حاصل کرنے میں اپنے کاروبارمیں مشغول ہوجائو۔ منکرات سے رو کو اورخود بھی بچو کہ تمہیں روکنے کا حکم رکنے کے بعد دیا گیا ہے۔

۱۸۲

(۱۰۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يبين فضل الإسلام ويذكر الرسول الكريم ثم يلوم أصحابه

دين الإسلام

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي شَرَعَ الإِسْلَامَ - فَسَهَّلَ شَرَائِعَه لِمَنْ وَرَدَه - وأَعَزَّ أَرْكَانَه عَلَى مَنْ غَالَبَه - فَجَعَلَه أَمْناً لِمَنْ عَلِقَه - وسِلْماً لِمَنْ دَخَلَه - وبُرْهَاناً لِمَنْ تَكَلَّمَ بِه - وشَاهِداً لِمَنْ خَاصَمَ عَنْه - ونُوراً لِمَنِ اسْتَضَاءَ بِه وفَهْماً لِمَنْ عَقَلَ - ولُبّاً لِمَنْ تَدَبَّرَ - وآيَةً لِمَنْ تَوَسَّمَ - وتَبْصِرَةً لِمَنْ عَزَمَ - وعِبْرَةً لِمَنِ اتَّعَظَ ونَجَاةً لِمَنْ صَدَّقَ وثِقَةً لِمَنْ تَوَكَّلَ - ورَاحَةً لِمَنْ فَوَّضَ وجُنَّةً لِمَنْ صَبَرَ - فَهُوَ أَبْلَجُ الْمَنَاهِجِ وأَوْضَحُ الْوَلَائِجِ - مُشْرَفُ الْمَنَارِ مُشْرِقُ الْجَوَادِّ - مُضِيءُ الْمَصَابِيحِ كَرِيمُ الْمِضْمَارِ - رَفِيعُ الْغَايَةِ

(۱۰۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

( جس میں اسلام کی فضیلت اور رسول اسلام (ص) کاتذکرہ کرتے ہوئے اصحاب کی ملامت کی گئی ہے)

ساری تعریف اس خدا کے لئے ہے جس نے اسلام کا قانون معین کیا تو اس کے ہر گھاٹ کو وارد ہونے والے کے لئے آسان بنادیا اور اس کے ارکان کو ہر مقابلہ کرنے والے کے مقابلہ میں مستحکم بنادیا۔اس نے اس دین کو وابستگی) ۱ ( اختیار کرنے والوں کے لئے جائے امن اور اس کے دائرہ میں داخل ہو جانے والوں کے لئے محل سلامتی بنا دیا ہے۔یہ دین اپنے ذریعہ کلام کرنے والوں کے لئے برہان اور اپنے وسیلہ سے مقابلہ کرنے والوں کے لئے شاہد قرار دیا گیا ہے۔یہ وشنی حاصل کرنے والوں کے لئے نور۔سمجھنے والوں کے لئے فہم ' فکر کرنے والوں کے لئے مغز کلام 'تلاش منزل کرنے والوںکے لئے نشان منزل ' صاحبان عزم کے لئے سامان بصیرت ' نصیحت حاصل کردینے والوں کے لئیراحت اور صبر کرنے والوں کے لئے سپر ہے۔یہ بہترین راستہ اور واضح ترین داخلہ کی منزل ہے۔اس کے مینار بلند ' راستے روشن ' چراغ ضوبار'میدان عمل با وقار اور مقصد بلند ہے

(۱) اس مقام پر مولائے کائنات نے اسلام کے چودہ صفات کا تذکرہ کیا ہے اور اس میں نوع بشر کے تمام اقسام کا احاطہ کرلیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اس اسلام کے برکات سے دنیا کا کوئی انسان محروم نہیں رہ سکتا ہے اور کوئی شخص کسی طرح کے برکات کا طلبگار ہوا سے اسلام کے دامن میں اس برکت کا حصول ہو سکتا ہے اور وہ اپنے مطلوب زندگی کو حاصل کر سکتا ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ اسلام خالص ہو اور اس کی تفسیر واقعی انداز سے کی جائے ورنہ گندے گھاٹ سے پیاسا سیرواب نہیں ہو سکتا ہے اور کمزور ارکان کے سہارے پر کوئی شخص غلبہ نہیں حاصل کر سکتا ہے۔

۱۸۳

جَامِعُ الْحَلْبَةِ - مُتَنَافِسُ السُّبْقَةِ شَرِيفُ الْفُرْسَانِ - التَّصْدِيقُ مِنْهَاجُه - والصَّالِحَاتُ مَنَارُه - والْمَوْتُ غَايَتُه والدُّنْيَا مِضْمَارُه - والْقِيَامَةُ حَلْبَتُه والْجَنَّةُ سُبْقَتُه.

ومنها في ذكر النبي صلى الله عليه وآله

حَتَّى أَوْرَى قَبَساً لِقَابِسٍ - وأَنَارَ عَلَماً لِحَابِسٍ - فَهُوَ أَمِينُكَ الْمَأْمُونُ - وشَهِيدُكَ يَوْمَ الدِّينِ - وبَعِيثُكَ نِعْمَةً، ورَسُولُكَ بِالْحَقِّ رَحْمَةً - اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَه مَقْسَماً مِنْ عَدْلِكَ - واجْزِه مُضَعَّفَاتِ الْخَيْرِ مِنْ فَضْلِكَ - اللَّهُمَّ أَعْلِ عَلَى بِنَاءِ الْبَانِينَ بِنَاءَه - وأَكْرِمْ لَدَيْكَ نُزُلَه - وشَرِّفْ عِنْدَكَ مَنْزِلَه - وآتِه الْوَسِيلَةَ وأَعْطِه السَّنَاءَ والْفَضِيلَةَ - واحْشُرْنَا فِي زُمْرَتِه - غَيْرَ خَزَايَا ولَا نَادِمِينَ - ولَا نَاكِبِينَ ولَا نَاكِثِينَ - ولَا ضَالِّينَ ولَا مُضِلِّينَ ولَا مَفْتُونِينَ.

قال الشريف - وقد مضى هذا الكلام فيما تقدم إلا أننا كررناه هاهنا - لما في الروايتين من الاختلاف.

۔اس کے میدان میں تیز رفتار گھوڑوں کا اجتماع ہے اور اس کی طرف سبقت اور اسکا انعام ہر ایک کو مطلوب ہے۔اس کے شہسوار با عزت ہیں۔اس کا راستہ تصدیق خدا اور رسول (ص) ہے اور اس کا منارہ نیکیاں ہیں۔موت ایک مقصد ہے جس کے لئے دنیا گھوڑ دوڑ کا میدان ہے اور قیامت اس کے اجتماع کی منزل ہے اور پھر جنت اس مقابلہ کا انعام ہے۔

(رسول اکرم (ص))

یہاں تک کہ آپ نے ہر روشنی کے طلب گارکے لئے آگ روشن کردی اور ہر گم کردہ راہ ٹھہرے ہوئے مسافر کے لئے نشان منزل روشن کر دئیے۔ پروردگار! وہ تیرے معتبر امانت دار اور روز قیامت کے گواہ ہیں۔تو نے انہیں نعمت بنا کربھیجا اور رحمت بنا کر نازل کیا ہے۔

خدایا! تو اپنے انصاف سے ان کا حصہ عطا فرما اور پھر اپنے فضل و کرم سے ان کے خیر کو دگنا چوگنا کردے۔

خدایا! ان کی عمارت کو تمام عمارتوں سے بلند تر بنادیاور اپنی بارگاہ میں ان کی با عزت طورپر میزبانی فرما اور ان کی منزلت کو بلندی عطا فرما۔انہیں وسیلہ اور رفعت وفضیلت کرامت فرما اور ہمیں ان کے گروہ میں محشور فرما جہاں نہ رسوا ہوں اور نہ شرمندہ ہوں ' نہ حق سے منحرف ہوں نہ عہد شکن ہوں نہ گمراہ ہوں اور نہ گمراہ کن اور نہ کسی فتنہ میں مبتلا ہوں۔

سید رضی : یہ کلام اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے لیکن ہم نے اختلاف روایات کی بنا پر دوبارہ نقل کردیا ہے۔

۱۸۴

ومنها في خطاب أصحابه

وقَدْ بَلَغْتُمْ مِنْ كَرَامَةِ اللَّه تَعَالَى لَكُمْ - مَنْزِلَةً تُكْرَمُ بِهَا إِمَاؤُكُمْ - وتُوصَلُ بِهَا جِيرَانُكُمْ - ويُعَظِّمُكُمْ مَنْ لَا فَضْلَ لَكُمْ عَلَيْه - ولَا يَدَ لَكُمْ عِنْدَه - ويَهَابُكُمْ مَنْ لَا يَخَافُ لَكُمْ سَطْوَةً - ولَا لَكُمْ عَلَيْه إِمْرَةٌ - وقَدْ تَرَوْنَ عُهُودَ اللَّه مَنْقُوضَةً فَلَا تَغْضَبُونَ - وأَنْتُمْ لِنَقْضِ ذِمَمِ آبَائِكُمْ تَأْنَفُونَ - وكَانَتْ أُمُورُ اللَّه عَلَيْكُمْ تَرِدُ - وعَنْكُمْ تَصْدُرُ وإِلَيْكُمْ تَرْجِعُ - فَمَكَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِكُمْ - وأَلْقَيْتُمْ إِلَيْهِمْ أَزِمَّتَكُمْ - وأَسْلَمْتُمْ أُمُورَ اللَّه فِي أَيْدِيهِمْ - يَعْمَلُونَ بِالشُّبُهَاتِ - ويَسِيرُونَ فِي الشَّهَوَاتِ - وايْمُ اللَّه لَوْ فَرَّقُوكُمْ تَحْتَ كُلِّ كَوْكَبٍ - لَجَمَعَكُمُ اللَّه لِشَرِّ يَوْمٍ لَهُمْ!

اپنے اصحاب سے خطاب فرماتے ہوئے

تم اللہ کی دی ہوئی کرامت سے اس منزل پر پہنچ گئے جہاں تمہاری کنیزوں کا بھی احترام ہونے لگا اور تمہارے ہمسایہ سے بھی اچھابرتائو ہونے لگا۔تمہارا احترام وہ لوگ بھی کرنے لگے جن پر نہ تمہیں کوئی فضیلت حاصل تھی اور نہ ان پر تمہارا کوئی احسان تھا اور تم سے وہ لوگ بھی خوف کھانے لگے جن پر نہ تم نے کوئی حملہ کیا تھا اور نہ تمہیں کوئی اقتدار حاصل تھا۔مگر افسوس کہ تم عہد خدا کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہے ہو اور تمہیں غصہ بھی نہیں آتا ہے جب کہ تمہارے باپ دادا کے عہد کو توڑا جاتا ہے تو تمہیں غیرت آجاتی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ اللہ کے امور تم ہی پروارد ہوتے تھے۔اورتمہارے ہی پاس سے باہر نکلتے تھے اور پھر تمہاری ہی طرف پلٹ کرآتے تھے لیکن تم نے ظالموں کو اپنی منزلوں پر قبضہ دے دیا اور ان کی طرف اپنی زمام امربڑھا دی اور انہیں سارے امور سپرد کردئیے کہ وہ شبہات پر عمل کرتے ہوئے اور خواہشات میں چکر لگاتے رہتے ہیں اورخدا گواہ ہے کہ اگر یہ تمہیں ہر ستارہ کے نیچے منتشر کردیں گے تو بھی خدا تمہیں اس دن جمع کردے گا جو ظالموں کے لئے بد ترین دن ہوگا۔

۱۸۵

(۱۰۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في بعض أيام صفين

وقَدْ رَأَيْتُ جَوْلَتَكُمْ - وانْحِيَازَكُمْ عَنْ صُفُوفِكُمْ - تَحُوزُكُمُ الْجُفَاةُ الطَّغَامُ - وأَعْرَابُ أَهْلِ الشَّامِ - وأَنْتُمْ لَهَامِيمُ الْعَرَبِ - ويَآفِيخُ الشَّرَفِ - والأَنْفُ الْمُقَدَّمُ - والسَّنَامُ الأَعْظَمُ - ولَقَدْ شَفَى وَحَاوِحَ صَدْرِي - أَنْ رَأَيْتُكُمْ بِأَخَرَةٍ - تَحُوزُونَهُمْ كَمَا حَازُوكُمْ - وتُزِيلُونَهُمْ عَنْ مَوَاقِفِهِمْ كَمَا أَزَالُوكُمْ - حَسّاً بِالنِّصَالِ وشَجْراً بِالرِّمَاحِ - تَرْكَبُ أُوْلَاهُمْ - أُخْرَاهُمْ كَالإِبِلِ الْهِيمِ الْمَطْرُودَةِ - تُرْمَى عَنْ حِيَاضِهَا - وتُذَادُ عَنْ مَوَارِدِهَا.

(۱۰۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي من خطب الملاحم

(۱۰۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(صفین کی جنگ کے دوران)

میں نے تمہیں بھاگتے ہوئے اور اپنی صفوں سے منتشر ہوتے ہوئے دیکھا جب کہ تمہیں شام کے جفا کار اوباش اور دیہاتی بدو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھے حالانکہ تم عرب کے جواں مرد بہادر اور شرف کے راس و رئیس تھے۔اوراس کی اونچی ناک اور چوٹی کی بلندی والے افراد تھے۔میرے سینہ کی کراہنے کی آوازیں اس وقت دب سکتی ہیں جب میں یہ دیکھ لوں کہ تم انہیں اسی طرح اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہو جس طرح وہ تمہیں لئے ہئے تھے اور ان کو ان کے مواقف سے اس طرح ڈھکیل رہے ہو جس طرح انہوں نے تمہیں ہٹا دیا تھا کہ انہیں تیروں کی بوچھار کا نشانہ بنائے ہوئے ہو اور نیزوں کی زد پر اس طرح لئے ہوئے ہو کہ پہلی صف کو آخری صف پر الٹ رہے ہو جس طرح کہ پیاسے اونٹ ہنکائے جاتے ہیں جب انہیں تالابوں سے دور پھینک دیا جاتا ہے اورگھاٹ سے الگ کردیا جاتا ہے۔

(۱۰۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں ملاحم اور حوادث و فتن کاذکر کیا گیا ہے)

۱۸۶

اللَّه تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الْمُتَجَلِّي لِخَلْقِه بِخَلْقِه - والظَّاهِرِ لِقُلُوبِهِمْ بِحُجَّتِه - خَلَقَ الْخَلْقَ مِنْ غَيْرِ رَوِيَّةٍ - إِذْ كَانَتِ الرَّوِيَّاتُ لَا تَلِيقُ إِلَّا بِذَوِي الضَّمَائِرِ - ولَيْسَ بِذِي ضَمِيرٍ فِي نَفْسِه - خَرَقَ عِلْمُه بَاطِنَ غَيْبِ السُّتُرَاتِ - وأَحَاطَ بِغُمُوضِ عَقَائِدِ السَّرِيرَاتِ.

ومِنْهَا فِي ذِكْرِ

النَّبِيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

اخْتَارَه مِنْ شَجَرَةِ الأَنْبِيَاءِ - ومِشْكَاةِ الضِّيَاءِ وذُؤَابَةِ الْعَلْيَاءِ - وسُرَّةِ الْبَطْحَاءِ ومَصَابِيحِ الظُّلْمَةِ - ويَنَابِيعِ الْحِكْمَةِ.

فتنة بني أمية

ومنها: طَبِيبٌ دَوَّارٌ بِطِبِّه قَدْ أَحْكَمَ مَرَاهِمَه - وأَحْمَى مَوَاسِمَه يَضَعُ ذَلِكَ حَيْثُ الْحَاجَةُ إِلَيْه - مِنْ قُلُوبٍ عُمْيٍ وآذَانٍ صُمٍّ - وأَلْسِنَةٍ بُكْمٍ - مُتَتَبِّعٌ بِدَوَائِه مَوَاضِعَ الْغَفْلَةِ - ومَوَاطِنَ الْحَيْرَةِ لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِأَضْوَاءِ الْحِكْمَةِ - ولَمْ يَقْدَحُوا بِزِنَادِ الْعُلُومِ الثَّاقِبَةِ - فَهُمْ فِي ذَلِكَ كَالأَنْعَامِ السَّائِمَةِ - والصُّخُورِ الْقَاسِيَةِ.

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو اپنی مخلوقات کے سامنے تخلیقات کے ذریعہ جلوہ گر ہوتا ہے اور ان کے دلوں پر دلیلوں کے ذریعہ روشن ہوتا ہے۔اس نے تمام مخلوقات کو بغیر سوچ بچار کی زحمت کے پیدا کیا ہے کہ سوچنا صاحبان دل و ضمیر کا کام ہے اور وہ ان باتوں سے بلند تر ہے۔اس کے علم نے پوشیدہ اسرار کے تمام پردوں کو چاک کردیاہے اور وہ تمام عقائد کی گہرائیوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

(رسول اکرم (ص))

اس نے آپ کا انتخاب انبیاء کرام کے شجرہ۔روشنی کے فانوس ' بلندی کی پیشانی ' ارض بطحا کی ناف زمین ' ظلمت کے چراغوں اور حکمت کے سر چشموں کے درمیان سے کیا ہے۔

آپ وہ طبیب تھے جو اپنی طبابت کے ساتھ چکر لگا رہا ہو کہ اپنے مرہم کو درست کرلیا ہو اورداغنے کے آلات کو تپا لیاہوکہ جس اندھے دل ' بہرے کان' گونگی زبان پر ضرورت پڑے فوراً استعمال کردے۔اپنی دوا کو لئے ہوئے غفلت کے مراکز اور حیرت کے مقامات کی تلاش میں لگا ہواہو۔

فتنہ بنی امیہ

ان ظالموں نے حکمت کی روشنی سے نور حاصل نہیں کیا اور علوم کے چقماق کو رگڑ کرچنگاری نہیں پیدا کی۔اس مسئلہ میں ان کی مثال چرنے والے جانوروں اور سخت ترین پتھروں کی ہے۔

۱۸۷

قَدِ انْجَابَتِ السَّرَائِرُ لأَهْلِ الْبَصَائِرِ - ووَضَحَتْ مَحَجَّةُ الْحَقِّ لِخَابِطِهَا - وأَسْفَرَتِ السَّاعَةُ عَنْ وَجْهِهَا - وظَهَرَتِ الْعَلَامَةُ لِمُتَوَسِّمِهَا - مَا لِي أَرَاكُمْ أَشْبَاحاً بِلَا أَرْوَاحٍ - وأَرْوَاحاً بِلَا أَشْبَاحٍ - ونُسَّاكاً بِلَا صَلَاحٍ - وتُجَّاراً بِلَا أَرْبَاحٍ - وأَيْقَاظاً نُوَّماً - وشُهُوداً غُيَّباً - ونَاظِرَةً عَمْيَاءَ - وسَامِعَةً صَمَّاءَ - ونَاطِقَةً بَكْمَاءَ رَايَةُ ضَلَالٍ قَدْ قَامَتْ عَلَى قُطْبِهَا - وتَفَرَّقَتْ بِشُعَبِهَا - تَكِيلُكُمْ بِصَاعِهَا وتَخْبِطُكُمْ بِبَاعِهَا - قَائِدُهَا خَارِجٌ مِنَ الْمِلَّةِ - قَائِمٌ عَلَى الضِّلَّةِ؛فَلَا يَبْقَى يَوْمَئِذٍ مِنْكُمْ إِلَّا ثُفَالَةٌ كَثُفَالَةِ الْقِدْرِ - أَوْ نُفَاضَةٌ كَنُفَاضَةِ الْعِكْمِ - تَعْرُكُكُمْ عَرْكَ الأَدِيمِ - وتَدُوسُكُمْ دَوْسَ الْحَصِيدِ وتَسْتَخْلِصُ الْمُؤْمِنَ مِنْ بَيْنِكُمُ - اسْتِخْلَاصَ الطَّيْرِ الْحَبَّةَ الْبَطِينَةَ - مِنْ بَيْنِ هَزِيلِ الْحَبِّ.

أَيْنَ تَذْهَبُ بِكُمُ الْمَذَاهِبُ - وتَتِيه بِكُمُ الْغَيَاهِبُ وتَخْدَعُكُمُ الْكَوَاذِبُ - ومِنْ أَيْنَ تُؤْتَوْنَ - وأَنَّى تُؤْفَكُونَ - فَ( لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ )

بے شک اہل بصیرت کے لئے اسرار نمایاں ہیں اورحیران و سرگرداں لوگوں کے لئے حق کا راستہ روشن ہے۔آنے والی ساعت نے اپنے چہرہ سے نقاب کوالٹ دیا ہے اور تلاش کرنے والوں کے لئے علامتیں ظاہر ہوگئی ہیں آخر کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں بالکل بے جان پیکر اور بلا پیکر روح کی شکل میں دیکھ رہا ہوں۔تم وہ عبادت گذار ہوجو اندر سے صالح نہ ہو اور وہ تاجر ہو جس کو کوئی فائدہ نہ ہو۔وہ بیدار ہو جو خواب غفلت میں ہو اوروہ حاض ہوجو بالکل غیر حاضر ہو۔اندھی آنکھ ' بہرے کان اور گونگی زبان' گمراہی کا پرچم اپنے مرکز پرجم چکا ہے۔اور اس کی شاخیں ہر سو' پھیل چکی ہیں۔وہ تمہیں اپنے پیمانہ میں تول رہا ہے اور اپنے ہاتھوں ادھر ادھر بہکا رہا ہے۔اس کا قائد ملت سے خارج اور ضلالت پرقائم ہے۔اس دن تم سے کوئی باقی نہ رہ جائے گا مگر اس مقدار میں جتنا پتیلی کا تہ دیگ ہوتا ہے یا تھیلی کے جھاڑے ہوئے ریزے۔ یہ گمراہی تمہیں اسی طرح مسل ڈالے گی جس طرح چمڑہ مسلا جاتا ہے اور اسی طرح پامال کردے گی جس طرح کٹی ہوئی زراعت روندی جاتی ہے اورمومن خالص کو تمہارے درمیان سے اس طرح چن لے گی جس طرح پرندہ باریک دانوں سے موٹے دانوں کو نکا ل لیتا ہےآخر تم کو یہ غلط راستے کدھر لئے جا رہے ہیں اور تم اندھیروں میں کہا بہک رہے ہو اور تم کو جھوٹی امیدیں کس طرح دھوکہ دے رہی ہیں۔کدھر سے لائے جا رہے ہو اور کدھر بہکائے جا رہے ہو۔ ہر مدت کا ایک نوشتہ ہوتا ہے

۱۸۸

ولِكُلِّ غَيْبَةٍ إِيَابٌ - فَاسْتَمِعُوا مِنْ رَبَّانِيِّكُمْ - وأَحْضِرُوه قُلُوبَكُمْ - واسْتَيْقِظُوا إِنْ هَتَفَ بِكُمْ - ولْيَصْدُقْ رَائِدٌ أَهْلَه - ولْيَجْمَعْ شَمْلَه - ولْيُحْضِرْ ذِهْنَه - فَلَقَدْ فَلَقَ لَكُمُ الأَمْرَ فَلْقَ الْخَرَزَةِ - وقَرَفَه قَرْفَ الصَّمْغَةِ فَعِنْدَ ذَلِكَ أَخَذَ الْبَاطِلُ مَآخِذَه - ورَكِبَ الْجَهْلُ مَرَاكِبَه - وعَظُمَتِ الطَّاغِيَةُ وقَلَّتِ الدَّاعِيَةُ وصَالَ الدَّهْرُ صِيَالَ السَّبُعِ الْعَقُورِ - وهَدَرَ فَنِيقُ الْبَاطِلِ بَعْدَ كُظُومٍ - وتَوَاخَى النَّاسُ عَلَى الْفُجُورِ وتَهَاجَرُوا عَلَى الدِّينِ - وتَحَابُّوا عَلَى الْكَذِبِ - وتَبَاغَضُوا عَلَى الصِّدْقِ - فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ كَانَ الْوَلَدُ غَيْظاً - والْمَطَرُ قَيْظاً وتَفِيضُ اللِّئَامُ فَيْضاً وتَغِيضُ الْكِرَامُ غَيْضاً - وكَانَ أَهْلُ ذَلِكَ الزَّمَانِ ذِئَاباً - وسَلَاطِينُه سِبَاعاً وأَوْسَاطُه أُكَّالًا - وفُقَرَاؤُه أَمْوَاتاً وغَارَ الصِّدْقُ - وفَاضَ الْكَذِبُ - واسْتُعْمِلَتِ الْمَوَدَّةُ بِاللِّسَانِ - وتَشَاجَرَ النَّاسُ بِالْقُلُوبِ - وصَارَ الْفُسُوقُ نَسَباً - والْعَفَافُ عَجَباً - ولُبِسَ

اورہرغیبت کے لئے ایک واپسی ہوتی ہے لہٰذا اپنے خدا رسیدہ عالم کی بات سنو۔اس کے لئے دلوں کو حاضر کرو' وہ آواز دے تو بیدار ہو جائو۔ہر نمائندہ کو اپنی قوم سے سچ بولنا چاہیے۔اس کی پراگندگی کو جمع کرنا چاہیے۔اس کے ذہن کو حاضر رکھنا چاہیے۔اب تمہارے رہنما نے تمہارے لئے مسئلہ کواس قدر واشگاف کردیا ہے جس طرح مہرہ کو چیرا جاتا ہے اور اس طرح چھیل ڈالا ہے جس طرح گوندکھر چا جاتا ہے۔مگر اس کے باوجود باطل نے اپنا مرکز سنبھال لیا ہے اور جہل اپنے مرکب پر سوار ہوگیا ہے اور سرکشی بڑھ گئی ہے اور حق کی آواز دبگئی ہے اور زمانہ نے پھاڑ کھانے والے درندہ کی طرح حملہ کردیا ہے اور باطل کا اونٹ چپ رہنے کے بعدپھر بلبلا نے لگا ہے اور لوگوں نے فسق و فجور کی برادری قائم کرلی ہے اور سب نے مل کر دین کو نظر انداز کردیا ہے۔جھوٹ پر دوستی کی بنیادیں قائم ہوگئی ہیں اور سچائی پر ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے ہیں۔ایسے حالات میں بیٹا باپ کے لئے غیظ و غضب کا سبب ہوگا اوربارش گرمی کا باعث ہوگی۔کمینے لوگ پھیل جائیں گے اور شریف لوگ سمٹ جائیں گے۔اس دور کے عوام بھیڑئیے ہوں گے اور سلاطین درندے ۔درمیانی طبقہ والے کھانے والے اورفقراء و مساکین مردے ہوں گے۔سچائی کم ہو جائے گی اور جھوٹ پھیل جائے گا۔محبت کا استعمال صرف زبان سے ہوگا اور عداوت دلوں کے اندر پیوست ہو جائے گی۔زنا کاری نسب کی بنیاد ہوگی اور عفت ایک عجیب و غریب شے ہو جائے گی۔

۱۸۹

الإِسْلَامُ لُبْسَ الْفَرْوِ مَقْلُوباً.

(۱۰۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في بيان قدرة اللَّه وانفراده بالعظمة وأمر البعث

قدرة اللَّه

كُلُّ شَيْءٍ خَاشِعٌ لَه - وكُلُّ شَيْءٍ قَائِمٌ بِه - غِنَى كُلِّ فَقِيرٍ - وعِزُّ كُلِّ ذَلِيلٍ - وقُوَّةُ كُلِّ ضَعِيفٍ - ومَفْزَعُ كُلِّ مَلْهُوفٍ - مَنْ تَكَلَّمَ سَمِعَ نُطْقَه - ومَنْ سَكَتَ عَلِمَ سِرَّه - ومَنْ عَاشَ فَعَلَيْه رِزْقُه - ومَنْ مَاتَ فَإِلَيْه مُنْقَلَبُه - لَمْ تَرَكَ الْعُيُونُ فَتُخْبِرَ عَنْكَ - بَلْ كُنْتَ قَبْلَ الْوَاصِفِينَ مِنْ خَلْقِكَ - لَمْ تَخْلُقِ الْخَلْقَ لِوَحْشَةٍ - ولَا اسْتَعْمَلْتَهُمْ لِمَنْفَعَةٍ - ولَا يَسْبِقُكَ مَنْ طَلَبْتَ - ولَا يُفْلِتُكَ مَنْ أَخَذْتَ - ولَا يَنْقُصُ سُلْطَانَكَ مَنْ عَصَاكَ - ولَا يَزِيدُ فِي مُلْكِكَ مَنْ أَطَاعَكَ - ولَا يَرُدُّ أَمْرَكَ مَنْ سَخِطَ قَضَاءَكَ - ولَا يَسْتَغْنِي عَنْكَ مَنْ تَوَلَّى عَنْ أَمْرِكَ - كُلُّ سِرٍّ عِنْدَكَ عَلَانِيَةٌ

اسلام یوں الٹ دیا جائے گا جیسے کوئی پوستین کو الٹا پہن لے ۔

(۱۰۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(قدرت خدا عظمت الٰہی اور روز محشر کے بارے میں)

ہرشے اس کی بارگاہ میں سر جھکائے ہوئے ہے اور ہر چیز اسی کے دم سے قائم ہے۔وہ ہر فقیر کی دولت کا سہارا اور ہر ذلیل کی عزت کا آسرا ہے۔ہر کمزور کی طاقت وہی ہے اور ہرفریادی کی پناہ گاہ وہی ہے۔وہ ہر بولنے والے کے نطق کو سن لیتا ہے۔اور ہر خاموش رہنے والے کے راز کو جانتا ہے۔جو زندہ ہے اس کارزق اس کے ذمہ ہے اور جو مرگی اس کی باز گشت اسی کی طرف ہے۔

خدایا! آنکھوں نے تجھے دیکھا نہیں ہے کہ تیرے بارے میں خبردے سکیں۔تو تمام توصیف کرنے والی مخلوقات کے پہلے سے ہے۔تونے مخلوقات کو تنہائی کی وحشت کی بنا پر نہیں خلق کیا ہے اور نہ انہیں کسی فائدہ کے لئے استعمال کیا ہے۔تو جسے حاصل کرنا چاہے وہ آگے نہیں جا سکتا ہے اور جسے پکڑنا چاہے وہ بچ کر نہیں جا سکتا ہے۔ناف رمانوں سے تیری سلطنت میں کمی نہیں آتی ہے اور اطاعت گزار وں سے تیرے ملک میں اضافہ نہیں ہوتا ہے جو تیرے فیصلہ سے ناراض ہو وہ تیرے حکم کو ٹال نہیں سکتا ہے اورجو تیرے امر سے روگردانی کرے وہ تجھ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔ہر راز تیرے سامنے روشن ہے

۱۹۰

وكُلُّ غَيْبٍ عِنْدَكَ شَهَادَةٌ - أَنْتَ الأَبَدُ فَلَا أَمَدَ لَكَ - وأَنْتَ الْمُنْتَهَى فَلَا مَحِيصَ عَنْكَ - وأَنْتَ الْمَوْعِدُ فَلَا مَنْجَى مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ - بِيَدِكَ نَاصِيَةُ كُلِّ دَابَّةٍ - وإِلَيْكَ مَصِيرُ كُلِّ نَسَمَةٍ - سُبْحَانَكَ مَا أَعْظَمَ شَأْنَكَ - سُبْحَانَكَ مَا أَعْظَمَ مَا نَرَى مِنْ خَلْقِكَ - ومَا أَصْغَرَ كُلَّ عَظِيمَةٍ فِي جَنْبِ قُدْرَتِكَ - ومَا أَهْوَلَ مَا نَرَى مِنْ مَلَكُوتِكَ - ومَا أَحْقَرَ ذَلِكَ فِيمَا غَابَ عَنَّا مِنْ سُلْطَانِكَ - ومَا أَسْبَغَ نِعَمَكَ فِي الدُّنْيَا - ومَا أَصْغَرَهَا فِي نِعَمِ الآخِرَةِ.

الملائكة الكرام

ومنها: مِنْ مَلَائِكَةٍ أَسْكَنْتَهُمْ سَمَاوَاتِكَ - ورَفَعْتَهُمْ عَنْ أَرْضِكَ - هُمْ أَعْلَمُ خَلْقِكَ بِكَ - وأَخْوَفُهُمْ لَكَ وأَقْرَبُهُمْ مِنْكَ - لَمْ يَسْكُنُوا الأَصْلَابَ - ولَمْ يُضَمَّنُوا الأَرْحَامَ - ولَمْ يُخْلَقُوا مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ - ولَمْ يَتَشَعَّبْهُمْ رَيْبُ الْمَنُونِ - وإِنَّهُمْ عَلَى مَكَانِهِمْ مِنْكَ - ومَنْزِلَتِهِمْ عِنْدَكَ واسْتِجْمَاعِ أَهْوَائِهِمْ فِيكَ - وكَثْرَةِ طَاعَتِهِمْ لَكَ وقِلَّةِ غَفْلَتِهِمْ عَنْ أَمْرِكَ - لَوْ عَايَنُوا كُنْه مَا خَفِيَ عَلَيْهِمْ مِنْكَ

اور ہر عیب تیرے لئے حضور ہے۔تو ابدی ہے تو تیری کوئی انتہا نہیں ہے اور توانتہا ہے تو تجھ سے کوئی چھٹکارہ نہیں ہے۔تو سب کی وعدہ گاہ ہے تو تجھ سے نجات حاصل کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ہر زمین پر چلنے والے کا اختیار تیرے ہاتھ میں ہے اور ہر جاندار کی باز گشت تیری ہی طرف ہے۔پاک و بے نیاز ہے تو تیری شان کیا با عظمت ہے اور تیری مخلوقات بھی کیا عظیم الشان ہے اور تیری قدرت کے سامنے ہر عظیم شے کس قدر حقیر ہے اور تیری سلطنت کس قدر پر شکوہ ہے اور یہ سب تیری اس مملکت کے مقابلہ میں جونگاہوں سے اوجھل ہے کس قدرمعمولی ہے۔تیری نعمتیں اس دنیا میں کس قدر مکمل ہیں اور پھرنعمات آخرت کے مقابلہ میں کس قدر مختصر ہیں۔

ملائکہ مقربین

یہ تیرے ملائکہ ہیں جنہیں تونے آسمانوں میں آباد کیا ہے اورزمین سے بلند تر بنایا ہے۔یہ تمام مخلوقات سے زیادہ تیری معرفت رکھتے ہیں اور تجھ سے خوف زدہ رہتے ہیں اور تیرے قریب تر بھی ہیں۔یہ نہ اصلاب پدر میں رہے ہیں اور نہ ارحام مادر میں اورنہ حقیر نطفہ سے پیدا کئے گئے ہیں اور نہ ان پر زمانہ کے انقلابات کا کوئی اثر ہے۔یہ تیری بارگاہ میں ایک خاص مقام اور منزلت رکھتے ہیں۔ان کی تمام ترخواہشات صرف تیرے بارے میں ہیں اور یہ بکثرت تیری ہی اطاعت کرتے ہیں اور تیرے حکم سے ہرگز غافل نہیں ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر تیری عظمت کی تہ تک پہنچ جائیں

۱۹۱

لَحَقَّرُوا أَعْمَالَهُمْ ولَزَرَوْا عَلَى أَنْفُسِهِمْ - ولَعَرَفُوا أَنَّهُمْ لَمْ يَعْبُدُوكَ حَقَّ عِبَادَتِكَ - ولَمْ يُطِيعُوكَ حَقَّ طَاعَتِكَ.

عصيان الخلق

سُبْحَانَكَ خَالِقاً ومَعْبُوداً - بِحُسْنِ بَلَائِكَ عِنْدَ خَلْقِكَ خَلَقْتَ دَاراً - وجَعَلْتَ فِيهَا مَأْدُبَةً - مَشْرَباً ومَطْعَماً وأَزْوَاجاً - وخَدَماً وقُصُوراً - وأَنْهَاراً وزُرُوعاً وثِمَاراً - ثُمَّ أَرْسَلْتَ دَاعِياً يَدْعُو إِلَيْهَا - فَلَا الدَّاعِيَ أَجَابُوا - ولَا فِيمَا رَغَّبْتَ رَغِبُوا - ولَا إِلَى مَا شَوَّقْتَ إِلَيْه اشْتَاقُوا - أَقْبَلُوا عَلَى جِيفَةٍ قَدِ افْتَضَحُوا بِأَكْلِهَا - واصْطَلَحُوا عَلَى حُبِّهَا - ومَنْ عَشِقَ شَيْئاً أَعْشَى بَصَرَه - وأَمْرَضَ قَلْبَه - فَهُوَ يَنْظُرُ بِعَيْنٍ غَيْرِ صَحِيحَةٍ - ويَسْمَعُ بِأُذُنٍ غَيْرِ سَمِيعَةٍ - قَدْ خَرَقَتِ الشَّهَوَاتُ عَقْلَه - وأَمَاتَتِ الدُّنْيَا قَلْبَه - ووَلِهَتْ عَلَيْهَا نَفْسُه - فَهُوَ عَبْدٌ لَهَا - ولِمَنْ فِي يَدَيْه شَيْءٌ مِنْهَا - حَيْثُمَا زَالَتْ زَالَ إِلَيْهَا -

تو اپنے اعمال کو حقیر ترین تصور کریں گے۔اور اپنے نفس کی مذمت کریں گے اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے عبادت کاحق ادا نہیں کیا ہے اور حق اطاعت کے برابر اطاعت نہیں کی ہے۔

تو پاک و بے نیاز ہے خالقیت کے اعتبارسے بھی اور عبادت کے اعتبار سے بھی۔میری تسبیح اس بہترین برتائو کی بنا پر ہے جو تونے مخلوقات کے ساتھ کیا ہے۔تونے ایک گھر بنایا ہے۔اس میں ایک دستر خوان بچھایا ہے جس میں کھانے پینے ' زوجیت ' خدمت ' قصر' نہر ' زراعت ' ثمر سب کا انتظام کردیا ہے اور پھر ایک داعی کو اس کی طرف دعوت دینے کے لئے بھیج دیا ہے لیکن لوگوں نے نہ داعی کی آواز پرلبیک کہی اور نہ جن چیزوں کی طرف تونے رغبت دلائی تھی راغب ہوئے اور نہ تیری تشویق کا شوق پیدا کیا۔سب اس مردار پر ٹوٹ پڑے جس کو کھا کر رسوا ہوئے اور سب نے اس کی محبت پر اتفاق کرلیا اور ظاہر ہے کہ جو کسی کا بھی عاشق ہو جاتا ہے وہ شے اسے اندھا بنا دیتی ہے اور اس کے دل کو بیمار کر دیتی ہے۔وہ دیکھتا بھی ہے تو غیر سلیم آنکھوں سے اور سنتا بھی ہے تو غیر سمیع کانوں سے۔خواہشات نے ان کی عقلوں کو پارہ پارہ کردیا ہے اور دنیا نے ان کے دلوں کو مردہ بنادیا ہے۔انہیں اس سے والہانہ لگائو پیداہوگیا ہے ۔اور وہ اس کے بندے ہوگئے ہیں اور ان کے غلام بن گئے ہیں۔جن کے ہاتھ میں تھوڑی سی بھی دنیا ہے کہ جس طرف وہ جھکتی ہے یہ بھی جھک جاتے ہیں

۱۹۲

وحَيْثُمَا أَقْبَلَتْ أَقْبَلَ عَلَيْهَا لَا يَنْزَجِرُ مِنَ اللَّه بِزَاجِرٍ ولَا يَتَّعِظُ مِنْه بِوَاعِظٍ - وهُوَ يَرَى الْمَأْخُوذِينَ عَلَى الْغِرَّةِ - حَيْثُ لَا إِقَالَةَ ولَا رَجْعَةَ - كَيْفَ نَزَلَ بِهِمْ مَا كَانُوا يَجْهَلُونَ - وجَاءَهُمْ مِنْ فِرَاقِ الدُّنْيَا مَا كَانُوا يَأْمَنُونَ - وقَدِمُوا مِنَ الآخِرَةِ عَلَى مَا كَانُوا يُوعَدُونَ - فَغَيْرُ مَوْصُوفٍ مَا نَزَلَ بِهِمْ - اجْتَمَعَتْ عَلَيْهِمْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ - وحَسْرَةُ الْفَوْتِ فَفَتَرَتْ لَهَا أَطْرَافُهُمْ - وتَغَيَّرَتْ لَهَا أَلْوَانُهُمْ - ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ فِيهِمْ وُلُوجاً - فَحِيلَ بَيْنَ أَحَدِهِمْ وبَيْنَ مَنْطِقِه - وإِنَّه لَبَيْنَ أَهْلِه يَنْظُرُ بِبَصَرِه - ويَسْمَعُ بِأُذُنِه عَلَى صِحَّةٍ مِنْ عَقْلِه - وبَقَاءٍ مِنْ لُبِّه - يُفَكِّرُ فِيمَ أَفْنَى عُمُرَه - وفِيمَ أَذْهَبَ دَهْرَه - ويَتَذَكَّرُ أَمْوَالًا جَمَعَهَا أَغْمَضَ فِي مَطَالِبِهَا - وأَخَذَهَا مِنْ مُصَرَّحَاتِهَا ومُشْتَبِهَاتِهَا - قَدْ لَزِمَتْه تَبِعَاتُ جَمْعِهَا - وأَشْرَفَ عَلَى فِرَاقِهَا - تَبْقَى لِمَنْ وَرَاءَه يَنْعَمُونَ فِيهَا - ويَتَمَتَّعُونَ بِهَا - فَيَكُونُ الْمَهْنَأُ لِغَيْرِه والْعِبْءُ عَلَى ظَهْرِه

اور جدھر وہ مڑتی ہے یہ بھی مڑ جاتے ہیں۔نہ کوئی خدائی روکنے والا انہیں روک سکتا ہے اور نہ کسی واعظ کی نصیحت ان پر اثر انداز ہوتی ہے۔جب کہ انہیں دیکھ رہے ہیں جو اس دھوکہ میں پکڑ لئے گئے ہیں کہ اب نہ معافی کا امکان ہے اور نہ واپسی کا۔کس طرح ان پر وہ مصیبت نازل ہوگئی ہے جس سے نا واقف تھے اور فراق دنیا کی وہ آفت آگئی ہے جس کی طرف سے بالکل مطمئن تھے اورآخرت میں اس صورت حاصل کا سامنا کر رہے ہیں جس کاوعدہ کیا گیا تھا۔اب تو اس مصیبت کا بیان بھی نا ممکن ہے جہاں ایک طرف موت کے سکرات ہیں اور دوسری طرف فراق دنیا کی حسرت ۔حالت یہ ہے کہ ہاتھ پائوں ڈھیلے پڑ گئے ہیں اور رنگ اڑ گیا ہے۔اس کے بعد موت کی دخل اندازی اور بڑھی تو وہ گفتگو کی راہ میں بھی حائل ہوگئی کہ انسان گھر والوں کے درمیان انہیں آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔کان سے ان کی آوازیں سن رہا ہے۔عقل بھی سلامت ہے اور ہوش بھی بر قرار ہے۔یہ سوچ رہا ہے کہ عمر کو کہاں برباد کیا ہے اور زندگی کو کہاں گزارا ہے ۔ان اموال کو یادکر رہا ہے جنہیں جمع کیا تھا اور ان کی جمع آوری میں آنکھیں بند کرلی تھیں کہ کبھی واضح راستوں سے حاصل کیا اور کبھی مشتبہ طریقوں سے کہ صرف ان کے جمع کرنے کے اثرات باقی رہ گئے ہیں اور ان سے جدائی کا وقت آگیا ہے۔اب یہ مال بعد والوں کے لئے رہ جائے گا جو آرام کریں گے اورمزے اڑائیں گے۔یعنی مزہ دوسروں کے لئے ہوگا اورہر بوجھ اس کی پیٹھ پرہوگا

۱۹۳

والْمَرْءُ قَدْ غَلِقَتْ رُهُونُه بِهَا - فَهُوَ يَعَضُّ يَدَه نَدَامَةً - عَلَى مَا أَصْحَرَ لَه عِنْدَ الْمَوْتِ مِنْ أَمْرِه - ويَزْهَدُ فِيمَا كَانَ يَرْغَبُ فِيه أَيَّامَ عُمُرِه - ويَتَمَنَّى أَنَّ الَّذِي كَانَ يَغْبِطُه بِهَا - ويَحْسُدُه عَلَيْهَا قَدْ حَازَهَا دُونَه - فَلَمْ يَزَلِ الْمَوْتُ يُبَالِغُ فِي جَسَدِه - حَتَّى خَالَطَ لِسَانُه سَمْعَه - فَصَارَ بَيْنَ أَهْلِه لَا يَنْطِقُ بِلِسَانِه - ولَا يَسْمَعُ بِسَمْعِه - يُرَدِّدُ طَرْفَه بِالنَّظَرِ فِي وُجُوهِهِمْ - يَرَى حَرَكَاتِ أَلْسِنَتِهِمْ - ولَا يَسْمَعُ رَجْعَ كَلَامِهِمْ - ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ الْتِيَاطاً بِه - فَقُبِضَ بَصَرُه كَمَا قُبِضَ سَمْعُه وخَرَجَتِ الرُّوحُ مِنْ جَسَدِه - فَصَارَ جِيفَةً بَيْنَ أَهْلِه - قَدْ أَوْحَشُوا مِنْ جَانِبِه - وتَبَاعَدُوا مِنْ قُرْبِه - لَا يُسْعِدُ بَاكِياً ولَا يُجِيبُ دَاعِياً - ثُمَّ حَمَلُوه إِلَى مَخَطٌّ فِي الأَرْضِ - فَأَسْلَمُوه فِيه إِلَى عَمَلِه - وانْقَطَعُوا عَنْ زَوْرَتِه.

القيامة

حَتَّى إِذَا بَلَغَ الْكِتَابُ أَجَلَه - والأَمْرُ مَقَادِيرَه - وأُلْحِقَ آخِرُ الْخَلْقِ بِأَوَّلِه - وجَاءَ مِنْ أَمْرِ اللَّه مَا يُرِيدُه - مِنْ تَجْدِيدِ خَلْقِه -

لیکن انسان اس مال کیزنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور موتنے سارے حالات کو بے نقاب کردیا ہے کہ ندامت سے اپنے ہاتھ کاٹ رہا ہے اور اس چیز سے کنارہ کش ہو نا چاہتا ہے جس کی طرف زندگی بھر راغب تھا۔اب یہ چاہتا ہے کہ کاش جو شخص اس سے اس مال کی بناپر حسد کر رہا تھا یہ مال اس کے پاس ہوتا اور اس کے پاس نہ ہوتا۔ اس کے بعد موت اس کے جسم میں مزید دراندازی کرتی ہے اور زبان کے ساتھ کانوں کوب ھی شامل کر لیتی ہے کہ انسان اپنے گھر والوں کے درمیان نہ بول سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے۔ہر ایک کے چہرہ کو حسرت سے دیکھ رہا ہے۔ان کے زبان کی جنبش کو بھی دیکھ رہا ہے لیکن الفاظ کو نہیں سن سکتا ہے۔ اس کے بعد موت اورچپک جاتی ہے تو کانوں کی طرح آنکھوں پر بھی قبضہ ہو جاتا ہے اور روح جسم سے پرواز کرجاتی ہے اب وہ گھر والوں کے درمیان ایک مردار ہوتا ہے ۔جس کے پہلو میں بیٹھنے سے بھی وحشت ہونے لگتی ہے اور لوگ دوربھاگنے لگتے ہیں ۔یہ اب نہ کسی رونے والے کو سہارا دے سکتا ہے اور نہ کسی پکارنے والے کی آواز پر آوازدے سکتا ہے۔لوگ اسے زمین کے ایک گڑھے تک پہنچادیتے ہیں اور اسے اس کے اعمال کے حوالہ کر دیتے ہیں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔

یہاں تک کہ جب قسمت کالکھا اپنی آخری حد تک اور امر الٰہی اپنی مقررہ منزل تک پہنچ جائے گا اور آخرین کواولین سے ملا دیا جائے گا اور ایک نیا حکم الٰہی جائے گا کہ خلقت کی تجدید کی جائے تو

۱۹۴

أَمَادَ السَّمَاءَ وفَطَرَهَا وأَرَجَّ الأَرْضَ وأَرْجَفَهَا - وقَلَعَ جِبَالَهَا ونَسَفَهَا - ودَكَّ بَعْضُهَا بَعْضاً مِنْ هَيْبَةِ جَلَالَتِه - ومَخُوفِ سَطْوَتِه - وأَخْرَجَ مَنْ فِيهَا فَجَدَّدَهُمْ بَعْدَ إِخْلَاقِهِمْ - وجَمَعَهُمْ بَعْدَ تَفَرُّقِهِمْ - ثُمَّ مَيَّزَهُمْ لِمَا يُرِيدُه مِنْ مَسْأَلَتِهِمْ - عَنْ خَفَايَا الأَعْمَالِ وخَبَايَا الأَفْعَالِ - وجَعَلَهُمْ فَرِيقَيْنِ - أَنْعَمَ عَلَى هَؤُلَاءِ وانْتَقَمَ مِنْ هَؤُلَاءِ - فَأَمَّا أَهْلُ الطَّاعَةِ فَأَثَابَهُمْ بِجِوَارِه - وخَلَّدَهُمْ فِي دَارِه - حَيْثُ لَا يَظْعَنُ النُّزَّالُ - ولَا تَتَغَيَّرُ بِهِمُ الْحَالُ - ولَا تَنُوبُهُمُ الأَفْزَاعُ - ولَا تَنَالُهُمُ الأَسْقَامُ ولَا تَعْرِضُ لَهُمُ الأَخْطَارُ - ولَا تُشْخِصُهُمُ الأَسْفَارُ - وأَمَّا أَهْلُ الْمَعْصِيَةِ - فَأَنْزَلَهُمْ شَرَّ دَارٍ وغَلَّ الأَيْدِيَ إِلَى الأَعْنَاقِ - وقَرَنَ النَّوَاصِيَ بِالأَقْدَامِ - وأَلْبَسَهُمْ سَرَابِيلَ الْقَطِرَانِ - ومُقَطَّعَاتِ النِّيرَانِ - فِي عَذَابٍ قَدِ اشْتَدَّ حَرُّه

یہ امر آسمانوں کو حرکت دے کر شگافتہ کردے گا اور زمین کو ہلا کر کھوکھلا کردے گا اورپہاڑوں کو جڑ سے اکھاڑ کر اڑا دے گا اور ہیبت جلال الٰہی اورخوف سطوت پروردگار سے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے اور زمین سب کو باہرنکال دے گی اور انہیں دوبارہ بوسیدگی کے بعد تازہ حیات دے دی جائے گی اور انتشار کے بعد جمع کردیا جائے گا اورمخفی اعمال ' پوشیدہ افعال کے سوال کے لئے سب کو الگ الگ کردیاجائے گا اورمخلوقات دو گروہوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔ایک گروہ مرکز نعمات ہوگا اوردوسرا محل انتقام۔

اہل اطاعت کو اس جوار رحمت میں ثواب اور دار جنت میں ہمیشگی کا انعام دیا جائے گا جہاں کے رہنے والے کوچ نہیں کرتے ہیں اور نہ ان کے حالات میں کوئی تغیر پیدا ہوتا ہے اور نہ ان پر رنج و الم طاری ہوتا ہے اور نہ انہیں کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے اور نہ کسی طرح کا خطرہ سامنے آتا ہے اور نہ سفر کی زحمت سے دو چارہونا پڑتا ہے۔لیکن اہل معصیت کے لئے بد ترین منزل ہوگی۔جہاں ہاتھ گردن(۱) سے بندھے ہوں گے اور پیشانیوں کو پیروں سے جوڑ دیا جائے گا۔تارکول اور آگ کے تراشیدہ لباس پہنائے جائیں گے۔اس عذاب میں جس کی گرمی شدید ہوگی

(۱) تعجب نہ کریں کہ خدائے رحمان و رحیم اپنے بندوں کے ساتھ اس طرح کا برتائو کس طرح کرے گا کہ یہ انجام انہیں لوگوں کا ہے جو دار دنیا میں اللہ کے کمزور اورنیک بندوں کے ساتھ اس سے بد تربرتائو کر چکے ہیں تو کیا مالک کائنات دنیا میں اختیارات دینے کے بعد آخرت میں بھی انہیں بہترین نعمتوں سے نوازدے گا اور مظلومین کا دنیا و آخرت میں کوئی پرسان حال نہ ہوگا ؟

۱۹۵

وبَابٍ قَدْ أُطْبِقَ عَلَى أَهْلِه - فِي نَارٍ لَهَا كَلَبٌ ولَجَبٌ - ولَهَبٌ سَاطِعٌ وقَصِيفٌ هَائِلٌ - لَا يَظْعَنُ مُقِيمُهَا - ولَا يُفَادَى أَسِيرُهَا - ولَا تُفْصَمُ كُبُولُهَا - لَا مُدَّةَ لِلدَّارِ فَتَفْنَى - ولَا أَجَلَ لِلْقَوْمِ فَيُقْضَى.

زهد النبي

ومنها في ذكر النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - قَدْ حَقَّرَ الدُّنْيَا وصَغَّرَهَا - وأَهْوَنَ بِهَا وهَوَّنَهَا - وعَلِمَ أَنَّ اللَّه زَوَاهَا عَنْه اخْتِيَاراً - وبَسَطَهَا لِغَيْرِه احْتِقَاراً - فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْيَا بِقَلْبِه - وأَمَاتَ ذِكْرَهَا عَنْ نَفْسِه - وأَحَبَّ أَنْ تَغِيبَ زِينَتُهَا عَنْ عَيْنِه - لِكَيْلَا يَتَّخِذَ مِنْهَا رِيَاشاً - أَوْ يَرْجُوَ فِيهَا مَقَاماً - بَلَّغَ عَنْ رَبِّه مُعْذِراً - ونَصَحَ لأُمَّتِه مُنْذِراً ودَعَا إِلَى الْجَنَّةِ مُبَشِّراً - وخَوَّفَ مِنَ النَّارِ مُحَذِّراً.

اور جس کے دروازے بند ہوں گے اور اس جہنم میں جس میں شرارے بھی ہوں گے اور شورو غوغا بھی ۔ بھڑکتے ہوئے شعلے بھی ہوں گے اور ہولناک چیخیں بھی۔نہ یہاں کے رہنے والے کچ کریں گے اور نہ یہاں کے قیدیوں کو ئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ یہاں کی بیڑیاں جدا ہوسکتی ہیں ۔نہ اس گھر کی کوئی مدت ہے جو تمام ہو جائے اور نہ اسقوم کی کوئی اجل ہے جوختم کردی جائے۔

ذکر رسول اکرم (ص)

آپ نے اس دنیا کو ہمیشہ صغیر و حقیر اور ذلیل و پست تصور کیاہے اوریہ سمجھا ہے کہ پروردگار نے اس دنیا کو آپ سے الگ رکھا ہے اور دوسروں کے لئے فرش کردیا ہے تو یہ آپ کی عزت اور دنیا کی حقارت ہی کی بنیاد پر ہے لہٰذا آپ نے اس سے دل سے کنارہ کشی اختیار کی اور اس کی یاد کو دل سے بالکل نکال دیا اور یہ چاہا کہ اس کی زینتیں نگاہوں سے اوجھل رہیں تاکہ نہ عمدہ لباس زیب تن فرمائیں اور نہ کسی خاص مقام کی امید کریں۔آپ نے پروردگار کے پیغام کو پہنچانے میں سارے عذر تمام کردئیے اور امت کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہوئے نصیحت فرمائی جنت کی بشارت سنا کر اس کی طرف دعوت دی اورجہنم سے بچنے کی تلقین کرکے یاس کا خوف پیدا کرایا۔

۱۹۶

أهل البيت

نَحْنُ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ - ومَحَطُّ الرِّسَالَةِ - ومُخْتَلَفُ الْمَلَائِكَةِ ،ومَعَادِنُ الْعِلْمِ ويَنَابِيعُ الْحُكْمِ - نَاصِرُنَا ومُحِبُّنَا يَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ - وعَدُوُّنَا ومُبْغِضُنَا يَنْتَظِرُ السَّطْوَةَ

(۱۱۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في أركان الدين

الإسلام

إِنَّ أَفْضَلَ مَا تَوَسَّلَ بِه الْمُتَوَسِّلُونَ - إِلَى اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى - الإِيمَانُ بِه وبِرَسُولِه والْجِهَادُ فِي سَبِيلِه - فَإِنَّه ذِرْوَةُ الإِسْلَامِ - وكَلِمَةُ الإِخْلَاصِ فَإِنَّهَا الْفِطْرَةُ - وإِقَامُ الصَّلَاةِ فَإِنَّهَا الْمِلَّةُ - وإِيتَاءُ الزَّكَاةِ فَإِنَّهَا فَرِيضَةٌ وَاجِبَةٌ - وصَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ فَإِنَّه جُنَّةٌ مِنَ الْعِقَابِ - وحَجُّ الْبَيْتِ واعْتِمَارُه - فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ ويَرْحَضَانِ الذَّنْبَ - وصِلَةُ الرَّحِمِ - فَإِنَّهَا مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ ومَنْسَأَةٌ فِي الأَجَلِ - وصَدَقَةُ السِّرِّ فَإِنَّهَا تُكَفِّرُ الْخَطِيئَةَ - وصَدَقَةُ الْعَلَانِيَةِ فَإِنَّهَا تَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ - وصَنَائِعُ الْمَعْرُوفِ فَإِنَّهَا تَقِي مَصَارِعَ الْهَوَانِ.

أَفِيضُوا فِي ذِكْرِ اللَّه فَإِنَّه أَحْسَنُ الذِّكْرِ - وارْغَبُوا فِيمَا وَعَدَ الْمُتَّقِينَ فَإِنَّ وَعْدَه أَصْدَقُ الْوَعْدِ -

اہل بیت

ہم نبوت کا شجرہ' رسالت کی منزل ' ملائکہ کی رفت و آمد کی جگہ' علم کے معدن اورحکمت کے چشمے ہیں۔ ہمارا مدد گار اور محب ہمیشہ منتظر رحمت رہتا ہے اور ہمارا دشمن اور کینہ پرورہمیشہ منتظر لعنت و انتقام الٰہی رہتا ہے۔

(۱۱۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(ارکان اسلام کے بارے میں)

اللہ والوں کے لئے اس کی بارگاہ تک پہنچنے کا بہترین وسیلہ اللہ اور اس کے رسول (ص) پر ایمان اور راہ خدا میں جہاد ہے کہ جہاد اسلام کی سر بلندی ہے۔اور کلمہ اخلاص ہے کہ یہ فطرت الہیہ ہے اور نماز کا قیام ہے کہ یہ عین دین ہے اور زکوٰة کی ادائیگی ہے کہ یہ فریضہ واجب ہے اور ماہ رمضان کا روزہ ہے کہ یہ عذاب سے بچنے کی سپر ہے اورحج بیت اللہ ہے اور عمرہ ہے کہ یہ فقر کو دور کر دیتا ہے اورگناہوں کو دھو دیتا ہےاورصلہ رحم ہے کہ یہ مال میں اضافہ اور اجل کے ٹالنے کا ذریعہ ہے اور پوشیدہ طریقہ سے خیرات ہے کہ یہ گناہوں کا کفارہ ہے اور علی الاعلان صدقہ ہے کہ یہ بد ترین موت کے دفع کرنے کاذریعہ ہے اور اقربا کے ساتھ نیک سلوک ہے کہ یہ ذلت کے مقامات سے بچانے کا وسیلہ ہے ذکر خدا کی راہ میں آگے بڑھتے رہو کہ یہ بہترین ذکر ہے اور خدانےمتقین سے جو وعدہ کیا ہے اس کی طرف رغبت پیدا کرو کہ اس کا وعدہ سچا ہے۔

۱۹۷

واقْتَدُوا بِهَدْيِ نَبِيِّكُمْ فَإِنَّه أَفْضَلُ الْهَدْيِ - واسْتَنُّوا بِسُنَّتِه فَإِنَّهَا أَهْدَى السُّنَنِ.

فضل القرآن

وتَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّه أَحْسَنُ الْحَدِيثِ - وتَفَقَّهُوا فِيه فَإِنَّه رَبِيعُ الْقُلُوبِ - واسْتَشْفُوا بِنُورِه فَإِنَّه شِفَاءُ الصُّدُورِ - وأَحْسِنُوا تِلَاوَتَه فَإِنَّه أَنْفَعُ الْقَصَصِ - وإِنَّ الْعَالِمَ الْعَامِلَ بِغَيْرِ عِلْمِه - كَالْجَاهِلِ الْحَائِرِ الَّذِي لَا يَسْتَفِيقُ مِنْ جَهْلِه - بَلِ الْحُجَّةُ عَلَيْه أَعْظَمُ والْحَسْرَةُ لَه أَلْزَمُ - وهُوَ عِنْدَ اللَّه أَلْوَمُ

(۱۱۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم الدنيا

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أُحَذِّرُكُمُ الدُّنْيَا - فَإِنَّهَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ وتَحَبَّبَتْ بِالْعَاجِلَةِ - ورَاقَتْ بِالْقَلِيلِ وتَحَلَّتْ بِالآمَالِ - وتَزَيَّنَتْ بِالْغُرُورِ لَا تَدُومُ حَبْرَتُهَا ولَا تُؤْمَنُ فَجْعَتُهَا

اپنے پیغمبر (ص) کی ہدایت کے راستہ پرچلو کہ یہ بہترین ہدایت ہے اور ان کی سنت کو اختیار کرو کہ یہ سب سے بہتر ہدایت کرنے والی ہے۔

قرآن کریم

قرآن مجید کا علم حاصل کرو کہ یہ بہترین کلام ہے اور اس میں غوروفکر کرو کہ یہ دلوں کی بہار ہے۔اس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ یہ دلوں کے لئے شفا ہے اور اس کی باقاعدہ تلاوت کرو کہ یہ مفید ترین قصوں کا مرکز ہے۔اوریاد رکھو کہ اپنے علم کے خلاف عمل کرنے والا عالم بھی حیران و سرگردان جاہل جیسا ہے جسے جہالت سے کبھی افاقہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس پر حجت خدا زیادہ عظیم تر ہوتی ہے اور اس کے لئے حسرت و اندوہ بھی زیادہ لازم ہوتا ہے اور وہ بارگاہ الٰہی میں زیادہ قابل ملامت ہوتا ہے۔

(۱۱۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(مذمت دنیا کے بارے میں )

اما بعد ! میں تم لوگوں کو دنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں کہ یہ شیریں اور شاداب ہے لیکن خواہشات میں گھری ہوئی ہے۔اپنی جلد مل جانے والی نعمتوں کی بنا پر محبوب بن جاتی ہے اور تھوڑی سی زینت سے خوبصورت بن جاتی ہے۔یہ امیدوں سے آراستہ ہے اور دھوکہ سے مزین ہے۔نہ اس کی خوشی دائمی ہے اور نہ اس کی مصیبت سے کوئی محفوظ رہنے والا ہے۔

۱۹۸

غَرَّارَةٌ ضَرَّارَةٌ حَائِلَةٌ زَائِلَةٌ - نَافِدَةٌ بَائِدَةٌ أَكَّالَةٌ غَوَّالَةٌ - لَا تَعْدُو - إِذَا تَنَاهَتْ إِلَى أُمْنِيَّةِ أَهْلِ الرَّغْبَةِ فِيهَا والرِّضَاءِ بِهَا - أَنْ تَكُونَ كَمَا قَالَ اللَّه تَعَالَى سُبْحَانَه –( كَماءٍ أَنْزَلْناه مِنَ السَّماءِ - فَاخْتَلَطَ بِه نَباتُ الأَرْضِ - فَأَصْبَحَ هَشِيماً تَذْرُوه الرِّياحُ - وكانَ الله عَلى كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِراً ) - لَمْ يَكُنِ امْرُؤٌ مِنْهَا فِي حَبْرَةٍ - إِلَّا أَعْقَبَتْه بَعْدَهَا عَبْرَةً - ولَمْ يَلْقَ فِي سَرَّائِهَا بَطْناً - إِلَّا مَنَحَتْه مِنْ ضَرَّائِهَا ظَهْراً ولَمْ تَطُلَّه فِيهَا دِيمَةُ رَخَاءٍ - إِلَّا هَتَنَتْ عَلَيْه مُزْنَةُ بَلَاءٍ -

یہ دھوکہ باز ' نقصان رساں ' بدل جانے والی ' فنا ہو جانے والی ' زوال پذیر اورہلاک(۱) ہو جانے والی ہے۔یہ لوگوں کو کھا بھی جاتی ہے اورمٹا بھی دیتی ہے۔جب اپنی طرف رغبت رکھنے والوں اور اپنے سے خوش ہو جانے والوں کی خواہشات کی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو بالکل پروردگار کے اس ارشاد کے مطابق ہو جاتی ہے ''جیسے آسمان سے پانی نازل ہو کر زمین کے نباتات میں شامل ہو جائے اور پھر اس کے بعد وہ سبزہ سوکھ کر ایسا تنکا ہو جائے جسے ہوائیں اڑا لے جائیں اورخدا ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے '' اس دنیا میں کوئی شخص خوش نہیں ہوتا ہے مگر یہ کہ اسے بعد میں آنسو بہانا پڑے اور کوئی اس کی خوشی کو آتے نہیں دیکھتا ہے مگر یہ کہ وہ مصیبت میں ڈال کر پیٹھ دکھلا دیتی ہے اور کہیں راحت و آرام کی ہلکی بارش نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ بلائوں کا دوگڑا گرنے لگتا ہے۔اس کی شان ہی یہ ہے کہ اگر صبح کو کسی طرف سے بدلہ لینے کے لئے آتی ہے تو شام ہوتے ہوتے انجان بن جاتی ہے اور اگر ایک طرف سے شیریں اور خوش گوار نظر آتی ہے تو دوسرے رخ سے تلخ اور بلا خیز ہوتی ہے۔کوئی انسان اس کی تازگی سے اپنی خواہش پوری نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ اس کے پے درپے مصائب کی بناپر رنج و تعب کا شکار ہو جاتا ہے

(۱)بعض نادانوں کا خیال ہے کہ جب دنیا باقی رہنے والی نہیں ہے اور اس کی شب و روز کا اعتبار نہیں ہے توبہترین بات یہ ہے کہ جس قدر حاصل ہو جائے انسان حاصل کرلے اوراس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو جائے کہ کہیں دوسرے دن ہاتھ سے نکل نہ جائے۔لیکن یہ خیال انہیں لوگوں کا ہے جو آخرت کی طرف سے یکسر غافل ہیں اور انہیں اس لطف اندوزی کے انجام کی خبر نہیں ہے ورنہ اس نکتہ کی طرف متوجہ ہو جاتے تو مار گزیدہ کی طرح تڑپنے کو بستر حریر پر آرام کرنے سے زیادہ پسند کرتے اور مفلس ترین زندگی گزارنے ہی کو عافیت و آرام تصور کرتے۔

۱۹۹

وحَرِيٌّ إِذَا أَصْبَحَتْ لَه مُنْتَصِرَةً - أَنْ تُمْسِيَ لَه مُتَنَكِّرَةً - وإِنْ جَانِبٌ مِنْهَا اعْذَوْذَبَ واحْلَوْلَى - أَمَرَّ مِنْهَا جَانِبٌ فَأَوْبَى - لَا يَنَالُ امْرُؤٌ مِنْ غَضَارَتِهَا رَغَباً - إِلَّا أَرْهَقَتْه مِنْ نَوَائِبِهَا تَعَباً - ولَا يُمْسِي مِنْهَا فِي جَنَاحِ أَمْنٍ - إِلَّا أَصْبَحَ عَلَى قَوَادِمِ خَوْفٍ - غَرَّارَةٌ غُرُورٌ مَا فِيهَا فَانِيَةٌ - فَانٍ مَنْ عَلَيْهَا - لَا خَيْرَ فِي شَيْءٍ مِنْ أَزْوَادِهَا إِلَّا التَّقْوَى - مَنْ أَقَلَّ مِنْهَا اسْتَكْثَرَ مِمَّا يُؤْمِنُه - ومَنِ اسْتَكْثَرَ مِنْهَا اسْتَكْثَرَ مِمَّا يُوبِقُه - وزَالَ عَمَّا قَلِيلٍ عَنْه - كَمْ مِنْ وَاثِقٍ بِهَا قَدْ فَجَعَتْه - وذِي طُمَأْنِينَةٍ إِلَيْهَا قَدْ صَرَعَتْه - وذِي أُبَّهَةٍ قَدْ جَعَلَتْه حَقِيراً - وذِي نَخْوَةٍ قَدْ رَدَّتْه ذَلِيلًا - سُلْطَانُهَا دُوَّلٌ وعَيْشُهَا رَنِقٌ - وعَذْبُهَا أُجَاجٌ وحُلْوُهَا صَبِرٌ - وغِذَاؤُهَا سِمَامٌ وأَسْبَابُهَا رِمَامٌ - حَيُّهَا بِعَرَضِ مَوْتٍ - وصَحِيحُهَا بِعَرَضِ سُقْمٍ - مُلْكُهَا مَسْلُوبٌ - وعَزِيزُهَا مَغْلُوبٌ - ومَوْفُورُهَا مَنْكُوبٌ - وجَارُهَا مَحْرُوبٌ - أَلَسْتُمْ فِي مَسَاكِنِ -

اور کوئی شخص شام کو امن و امان کے پروں پر نہیں رہتا ہے مگر یہ کہ صبح ہوتے ہوتے خوف کے بال و پر پر لاد دیا جاتا ہے۔یہ دنیا دھوکہ باز ہے اور اس کے اندر جوکچھ ہے سب دھوکہ ہے۔یہ فانی ہے اور اس میں جو کچھ ہے سب فنا ہونے والا ہے۔اس کے کسی زاد راہ میں کوئی خیر نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔اس میں سے جو کم حاصل کرتا ہے اسی کوراحت زیادہ نصیب ہوتی ہے اور جو زیادہ کے چکر میں پڑ جاتا ہے اس کے مہلکات بھی زیادہ ہو جاتے ہیں اور یہ بہت جلد اس سے الگ ہو جاتی ہے۔کتنے اس پراعتبار کرنے والے ہیں جنہیں اچانک مصیبتوں میں ڈال دیا گیا اورکتنے اس پر اطمینان کرنے والے ہیں جنہیں ہلاک کردیا گیا اور کتنے صاحبان حیثیت تھے جنہیں ذلیل بنا دیا گیا اور کتنے اکڑنے وہالے تھے جنہیں حقارت کے ساتھ پلٹا دیا گیا۔اس کی بادشاہی پلٹا کھانے والی۔اس کا عیش مکدر۔اس کا شیریں شور۔اس کا میٹھا کڑوا ۔اس کی غذاز ہر آلود اور اس کے اسباب سب بوسیدہ ہیں۔اس کا زندہ معرض ہلاکت میں ہے اور اس کا صحت مند بیماریوں کی زد پر ہے ۔اس کا ملک چھننے والا ہے اور اس کا صاحب عزت مغلوب ہونے والا ہے۔اس کا مالدار بد بختیوں کا شکار ہونے والا ہے اور اس کا ہمسایہ لٹنے والا ہے۔کیا تم انہیں کے گھروں(۱) میں نہیں ہو

(۱) دنیا سے عبرت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ خود اس کی تاریخ ہے کہ اس نے آج تک کسی سے وفا نہیں کی ہے۔اس کا ایک پیسہ بھی اس وقت تک کام نہیں آتا ہے جب تک مالک سے جدا نہیں ہو جاتا ہے اور اس کی سلطنت بھی اپنے سلطان کو فشار قبر سے نجات دینیوالی نہیں ہے۔ایسے حالات میں تاریخی حوادث سے آنکھ بند کر لینا جہالت کے ماسواکچھ نہیں ہے اور صاحب علم و عقل وہی ہے جو ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھائے۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863