نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657165 / ڈاؤنلوڈ: 15928
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

أَلَا وإِنَّ لِكُلِّ دَمٍ ثَائِراً - ولِكُلِّ حَقٍّ طَالِباً - وإِنَّ الثَّائِرَ فِي دِمَائِنَا كَالْحَاكِمِ فِي حَقِّ نَفْسِه - وهُوَ اللَّه الَّذِي لَا يُعْجِزُه مَنْ طَلَبَ - ولَا

يَفُوتُه مَنْ هَرَبَ - فَأُقْسِمُ بِاللَّه يَا بَنِي أُمَيَّةَ عَمَّا قَلِيلٍ - لَتَعْرِفُنَّهَا فِي أَيْدِي غَيْرِكُمْ - وفِي دَارِ عَدُوِّكُمْ أَلَا إِنَّ أَبْصَرَ الأَبْصَارِ مَا نَفَذَ فِي الْخَيْرِ طَرْفُه أَلَا إِنَّ أَسْمَعَ الأَسْمَاعِ مَا وَعَى التَّذْكِيرَ وقَبِلَه.

وعظ الناس

أَيُّهَا النَّاسُ - اسْتَصْبِحُوا مِنْ شُعْلَةِ مِصْبَاحٍ وَاعِظٍ مُتَّعِظٍ وامْتَاحُوا مِنْ صَفْوِ عَيْنٍ قَدْ رُوِّقَتْ مِنَ الْكَدَرِ.

عِبَادَ اللَّه لَا تَرْكَنُوا إِلَى جَهَالَتِكُمْ - ولَا تَنْقَادُوا لأَهْوَائِكُمْ فَإِنَّ النَّازِلَ بِهَذَا الْمَنْزِلِ نَازِلٌ بِشَفَا جُرُفٍ هَارٍ - يَنْقُلُ الرَّدَى عَلَى ظَهْرِه مِنْ مَوْضِعٍ إِلَى مَوْضِعٍ - لِرَأْيٍ يُحْدِثُه بَعْدَ رَأْيٍ - يُرِيدُ أَنْ يُلْصِقَ مَا لَا يَلْتَصِقُ - ويُقَرِّبَ مَا لَا يَتَقَارَبُ - فَاللَّه اللَّه أَنْ تَشْكُوا إِلَى مَنْ لَا يُشْكِي شَجْوَكُمْ - ولَا يَنْقُضُ بِرَأْيِه مَا قَدْ أَبْرَمَ لَكُمْ

لیکن یاد رکھو کہ ہر خون کا ایک انتقام لینے والا اور ہرحق کا ایک طلب گار ہوتا ہے اور ہمارے خون کا منتقم گویا خود اپنے حق میں فیصلہ کرنے والا ہے اور وہ ' وہ پروردگار ہے جسے کوئی مطلوب عاجز نہیں کر سکتا ہے اور جس سے کوئی فرار کرنے والا بھاگ نہیں سکتا ہے۔میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں اے بنی امیہ کہ عنقریب تم اس دنیا کو اغیار کے ہاتھوں اوردشمنوں کے دیارمیں دیکھوگے۔آگاہ ہوجائو کہ بہترین نظر وہ ہے جو خیر میں ڈوب جائے اور بہترین کان وہ ہیں جو نصیحت کو سن لیں اور قبول کرلیں۔

(موعظہ)

لوگو! ایک با عمل نصیحت کرنے والے کے چراغ ہدایت سے روشنی حاصل کرلو اورایک ایسے صاف چشمہ سے سیراب ہو جائو جو ہر آلودگی سے پاک و پاکیزہ ہے۔

اللہ کے بندو! دیکھو اپنی جہالت کی طرف جھکائو مت پیدا کرو اور اپنی خواہشات کے غلام نہ بن جائو کہ اس منزل پرآجانے والا گویا سیلاب زدہ ادیوار کے کنارہ پر کھڑا ہے اور ہلاکتوں کو اپنی پشت پر لادے ہوئے ادھر سے ادھر منتقل ہو رہا ہے۔ان افکار کی بنا پر جو یکے بعد دیگرے ایجاد کرتا رہے گا اوران پر ایسے دلائل قائم کرے گا جو ہر گز چسپاں نہ ہوں گے اور اس سے قریب تربھی نہ ہوں گے ۔خدارا خدا کا خیال رکھو کہ اپنی فریاد اس شخص سے کرو جو اس کا ازالہ بنا کر سکے اور اپنی رائے سے حکم الٰہی کو توڑ نہ سکے۔

۱۸۱

إِنَّه لَيْسَ عَلَى الإِمَامِ إِلَّا مَا حُمِّلَ مِنْ أَمْرِ رَبِّه - الإِبْلَاغُ فِي الْمَوْعِظَةِ - والِاجْتِهَادُ فِي النَّصِيحَةِ - والإِحْيَاءُ لِلسُّنَّةِ - وإِقَامَةُ الْحُدُودِ عَلَى مُسْتَحِقِّيهَا - وإِصْدَارُ السُّهْمَانِ عَلَى أَهْلِهَا - فَبَادِرُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِ تَصْوِيحِ نَبْتِه - ومِنْ قَبْلِ أَنْ تُشْغَلُوا بِأَنْفُسِكُمْ - عَنْ مُسْتَثَارِ الْعِلْمِ مِنْ عِنْدِ أَهْلِه - وانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وتَنَاهَوْا عَنْه - فَإِنَّمَا أُمِرْتُمْ بِالنَّهْيِ بَعْدَ التَّنَاهِي

یاد رکھو امام کی ذمہ داری صرف وہ ہے جوپروردگار نے اس کے ذمہ رکھی ہے کہ بلیغ ترین موعظہ کرے۔نصیحت کی کوشش کرے سنت کو زندہ کرے۔مستحقین پر حدود کا اجرا کرے اور حقدار تک میراث کے حصے پہنچا دے ۔

دیکھو علم کی طرف سبقت کرو قبل اس کے کہ اس کا سبزہ خشک ہو جائے اورتم اسے صاحبان علم سے حاصل کرنے میں اپنے کاروبارمیں مشغول ہوجائو۔ منکرات سے رو کو اورخود بھی بچو کہ تمہیں روکنے کا حکم رکنے کے بعد دیا گیا ہے۔

۱۸۲

(۱۰۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يبين فضل الإسلام ويذكر الرسول الكريم ثم يلوم أصحابه

دين الإسلام

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي شَرَعَ الإِسْلَامَ - فَسَهَّلَ شَرَائِعَه لِمَنْ وَرَدَه - وأَعَزَّ أَرْكَانَه عَلَى مَنْ غَالَبَه - فَجَعَلَه أَمْناً لِمَنْ عَلِقَه - وسِلْماً لِمَنْ دَخَلَه - وبُرْهَاناً لِمَنْ تَكَلَّمَ بِه - وشَاهِداً لِمَنْ خَاصَمَ عَنْه - ونُوراً لِمَنِ اسْتَضَاءَ بِه وفَهْماً لِمَنْ عَقَلَ - ولُبّاً لِمَنْ تَدَبَّرَ - وآيَةً لِمَنْ تَوَسَّمَ - وتَبْصِرَةً لِمَنْ عَزَمَ - وعِبْرَةً لِمَنِ اتَّعَظَ ونَجَاةً لِمَنْ صَدَّقَ وثِقَةً لِمَنْ تَوَكَّلَ - ورَاحَةً لِمَنْ فَوَّضَ وجُنَّةً لِمَنْ صَبَرَ - فَهُوَ أَبْلَجُ الْمَنَاهِجِ وأَوْضَحُ الْوَلَائِجِ - مُشْرَفُ الْمَنَارِ مُشْرِقُ الْجَوَادِّ - مُضِيءُ الْمَصَابِيحِ كَرِيمُ الْمِضْمَارِ - رَفِيعُ الْغَايَةِ

(۱۰۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

( جس میں اسلام کی فضیلت اور رسول اسلام (ص) کاتذکرہ کرتے ہوئے اصحاب کی ملامت کی گئی ہے)

ساری تعریف اس خدا کے لئے ہے جس نے اسلام کا قانون معین کیا تو اس کے ہر گھاٹ کو وارد ہونے والے کے لئے آسان بنادیا اور اس کے ارکان کو ہر مقابلہ کرنے والے کے مقابلہ میں مستحکم بنادیا۔اس نے اس دین کو وابستگی) ۱ ( اختیار کرنے والوں کے لئے جائے امن اور اس کے دائرہ میں داخل ہو جانے والوں کے لئے محل سلامتی بنا دیا ہے۔یہ دین اپنے ذریعہ کلام کرنے والوں کے لئے برہان اور اپنے وسیلہ سے مقابلہ کرنے والوں کے لئے شاہد قرار دیا گیا ہے۔یہ وشنی حاصل کرنے والوں کے لئے نور۔سمجھنے والوں کے لئے فہم ' فکر کرنے والوں کے لئے مغز کلام 'تلاش منزل کرنے والوںکے لئے نشان منزل ' صاحبان عزم کے لئے سامان بصیرت ' نصیحت حاصل کردینے والوں کے لئیراحت اور صبر کرنے والوں کے لئے سپر ہے۔یہ بہترین راستہ اور واضح ترین داخلہ کی منزل ہے۔اس کے مینار بلند ' راستے روشن ' چراغ ضوبار'میدان عمل با وقار اور مقصد بلند ہے

(۱) اس مقام پر مولائے کائنات نے اسلام کے چودہ صفات کا تذکرہ کیا ہے اور اس میں نوع بشر کے تمام اقسام کا احاطہ کرلیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اس اسلام کے برکات سے دنیا کا کوئی انسان محروم نہیں رہ سکتا ہے اور کوئی شخص کسی طرح کے برکات کا طلبگار ہوا سے اسلام کے دامن میں اس برکت کا حصول ہو سکتا ہے اور وہ اپنے مطلوب زندگی کو حاصل کر سکتا ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ اسلام خالص ہو اور اس کی تفسیر واقعی انداز سے کی جائے ورنہ گندے گھاٹ سے پیاسا سیرواب نہیں ہو سکتا ہے اور کمزور ارکان کے سہارے پر کوئی شخص غلبہ نہیں حاصل کر سکتا ہے۔

۱۸۳

جَامِعُ الْحَلْبَةِ - مُتَنَافِسُ السُّبْقَةِ شَرِيفُ الْفُرْسَانِ - التَّصْدِيقُ مِنْهَاجُه - والصَّالِحَاتُ مَنَارُه - والْمَوْتُ غَايَتُه والدُّنْيَا مِضْمَارُه - والْقِيَامَةُ حَلْبَتُه والْجَنَّةُ سُبْقَتُه.

ومنها في ذكر النبي صلى الله عليه وآله

حَتَّى أَوْرَى قَبَساً لِقَابِسٍ - وأَنَارَ عَلَماً لِحَابِسٍ - فَهُوَ أَمِينُكَ الْمَأْمُونُ - وشَهِيدُكَ يَوْمَ الدِّينِ - وبَعِيثُكَ نِعْمَةً، ورَسُولُكَ بِالْحَقِّ رَحْمَةً - اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَه مَقْسَماً مِنْ عَدْلِكَ - واجْزِه مُضَعَّفَاتِ الْخَيْرِ مِنْ فَضْلِكَ - اللَّهُمَّ أَعْلِ عَلَى بِنَاءِ الْبَانِينَ بِنَاءَه - وأَكْرِمْ لَدَيْكَ نُزُلَه - وشَرِّفْ عِنْدَكَ مَنْزِلَه - وآتِه الْوَسِيلَةَ وأَعْطِه السَّنَاءَ والْفَضِيلَةَ - واحْشُرْنَا فِي زُمْرَتِه - غَيْرَ خَزَايَا ولَا نَادِمِينَ - ولَا نَاكِبِينَ ولَا نَاكِثِينَ - ولَا ضَالِّينَ ولَا مُضِلِّينَ ولَا مَفْتُونِينَ.

قال الشريف - وقد مضى هذا الكلام فيما تقدم إلا أننا كررناه هاهنا - لما في الروايتين من الاختلاف.

۔اس کے میدان میں تیز رفتار گھوڑوں کا اجتماع ہے اور اس کی طرف سبقت اور اسکا انعام ہر ایک کو مطلوب ہے۔اس کے شہسوار با عزت ہیں۔اس کا راستہ تصدیق خدا اور رسول (ص) ہے اور اس کا منارہ نیکیاں ہیں۔موت ایک مقصد ہے جس کے لئے دنیا گھوڑ دوڑ کا میدان ہے اور قیامت اس کے اجتماع کی منزل ہے اور پھر جنت اس مقابلہ کا انعام ہے۔

(رسول اکرم (ص))

یہاں تک کہ آپ نے ہر روشنی کے طلب گارکے لئے آگ روشن کردی اور ہر گم کردہ راہ ٹھہرے ہوئے مسافر کے لئے نشان منزل روشن کر دئیے۔ پروردگار! وہ تیرے معتبر امانت دار اور روز قیامت کے گواہ ہیں۔تو نے انہیں نعمت بنا کربھیجا اور رحمت بنا کر نازل کیا ہے۔

خدایا! تو اپنے انصاف سے ان کا حصہ عطا فرما اور پھر اپنے فضل و کرم سے ان کے خیر کو دگنا چوگنا کردے۔

خدایا! ان کی عمارت کو تمام عمارتوں سے بلند تر بنادیاور اپنی بارگاہ میں ان کی با عزت طورپر میزبانی فرما اور ان کی منزلت کو بلندی عطا فرما۔انہیں وسیلہ اور رفعت وفضیلت کرامت فرما اور ہمیں ان کے گروہ میں محشور فرما جہاں نہ رسوا ہوں اور نہ شرمندہ ہوں ' نہ حق سے منحرف ہوں نہ عہد شکن ہوں نہ گمراہ ہوں اور نہ گمراہ کن اور نہ کسی فتنہ میں مبتلا ہوں۔

سید رضی : یہ کلام اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے لیکن ہم نے اختلاف روایات کی بنا پر دوبارہ نقل کردیا ہے۔

۱۸۴

ومنها في خطاب أصحابه

وقَدْ بَلَغْتُمْ مِنْ كَرَامَةِ اللَّه تَعَالَى لَكُمْ - مَنْزِلَةً تُكْرَمُ بِهَا إِمَاؤُكُمْ - وتُوصَلُ بِهَا جِيرَانُكُمْ - ويُعَظِّمُكُمْ مَنْ لَا فَضْلَ لَكُمْ عَلَيْه - ولَا يَدَ لَكُمْ عِنْدَه - ويَهَابُكُمْ مَنْ لَا يَخَافُ لَكُمْ سَطْوَةً - ولَا لَكُمْ عَلَيْه إِمْرَةٌ - وقَدْ تَرَوْنَ عُهُودَ اللَّه مَنْقُوضَةً فَلَا تَغْضَبُونَ - وأَنْتُمْ لِنَقْضِ ذِمَمِ آبَائِكُمْ تَأْنَفُونَ - وكَانَتْ أُمُورُ اللَّه عَلَيْكُمْ تَرِدُ - وعَنْكُمْ تَصْدُرُ وإِلَيْكُمْ تَرْجِعُ - فَمَكَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِكُمْ - وأَلْقَيْتُمْ إِلَيْهِمْ أَزِمَّتَكُمْ - وأَسْلَمْتُمْ أُمُورَ اللَّه فِي أَيْدِيهِمْ - يَعْمَلُونَ بِالشُّبُهَاتِ - ويَسِيرُونَ فِي الشَّهَوَاتِ - وايْمُ اللَّه لَوْ فَرَّقُوكُمْ تَحْتَ كُلِّ كَوْكَبٍ - لَجَمَعَكُمُ اللَّه لِشَرِّ يَوْمٍ لَهُمْ!

اپنے اصحاب سے خطاب فرماتے ہوئے

تم اللہ کی دی ہوئی کرامت سے اس منزل پر پہنچ گئے جہاں تمہاری کنیزوں کا بھی احترام ہونے لگا اور تمہارے ہمسایہ سے بھی اچھابرتائو ہونے لگا۔تمہارا احترام وہ لوگ بھی کرنے لگے جن پر نہ تمہیں کوئی فضیلت حاصل تھی اور نہ ان پر تمہارا کوئی احسان تھا اور تم سے وہ لوگ بھی خوف کھانے لگے جن پر نہ تم نے کوئی حملہ کیا تھا اور نہ تمہیں کوئی اقتدار حاصل تھا۔مگر افسوس کہ تم عہد خدا کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہے ہو اور تمہیں غصہ بھی نہیں آتا ہے جب کہ تمہارے باپ دادا کے عہد کو توڑا جاتا ہے تو تمہیں غیرت آجاتی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ اللہ کے امور تم ہی پروارد ہوتے تھے۔اورتمہارے ہی پاس سے باہر نکلتے تھے اور پھر تمہاری ہی طرف پلٹ کرآتے تھے لیکن تم نے ظالموں کو اپنی منزلوں پر قبضہ دے دیا اور ان کی طرف اپنی زمام امربڑھا دی اور انہیں سارے امور سپرد کردئیے کہ وہ شبہات پر عمل کرتے ہوئے اور خواہشات میں چکر لگاتے رہتے ہیں اورخدا گواہ ہے کہ اگر یہ تمہیں ہر ستارہ کے نیچے منتشر کردیں گے تو بھی خدا تمہیں اس دن جمع کردے گا جو ظالموں کے لئے بد ترین دن ہوگا۔

۱۸۵

(۱۰۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في بعض أيام صفين

وقَدْ رَأَيْتُ جَوْلَتَكُمْ - وانْحِيَازَكُمْ عَنْ صُفُوفِكُمْ - تَحُوزُكُمُ الْجُفَاةُ الطَّغَامُ - وأَعْرَابُ أَهْلِ الشَّامِ - وأَنْتُمْ لَهَامِيمُ الْعَرَبِ - ويَآفِيخُ الشَّرَفِ - والأَنْفُ الْمُقَدَّمُ - والسَّنَامُ الأَعْظَمُ - ولَقَدْ شَفَى وَحَاوِحَ صَدْرِي - أَنْ رَأَيْتُكُمْ بِأَخَرَةٍ - تَحُوزُونَهُمْ كَمَا حَازُوكُمْ - وتُزِيلُونَهُمْ عَنْ مَوَاقِفِهِمْ كَمَا أَزَالُوكُمْ - حَسّاً بِالنِّصَالِ وشَجْراً بِالرِّمَاحِ - تَرْكَبُ أُوْلَاهُمْ - أُخْرَاهُمْ كَالإِبِلِ الْهِيمِ الْمَطْرُودَةِ - تُرْمَى عَنْ حِيَاضِهَا - وتُذَادُ عَنْ مَوَارِدِهَا.

(۱۰۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي من خطب الملاحم

(۱۰۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(صفین کی جنگ کے دوران)

میں نے تمہیں بھاگتے ہوئے اور اپنی صفوں سے منتشر ہوتے ہوئے دیکھا جب کہ تمہیں شام کے جفا کار اوباش اور دیہاتی بدو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھے حالانکہ تم عرب کے جواں مرد بہادر اور شرف کے راس و رئیس تھے۔اوراس کی اونچی ناک اور چوٹی کی بلندی والے افراد تھے۔میرے سینہ کی کراہنے کی آوازیں اس وقت دب سکتی ہیں جب میں یہ دیکھ لوں کہ تم انہیں اسی طرح اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہو جس طرح وہ تمہیں لئے ہئے تھے اور ان کو ان کے مواقف سے اس طرح ڈھکیل رہے ہو جس طرح انہوں نے تمہیں ہٹا دیا تھا کہ انہیں تیروں کی بوچھار کا نشانہ بنائے ہوئے ہو اور نیزوں کی زد پر اس طرح لئے ہوئے ہو کہ پہلی صف کو آخری صف پر الٹ رہے ہو جس طرح کہ پیاسے اونٹ ہنکائے جاتے ہیں جب انہیں تالابوں سے دور پھینک دیا جاتا ہے اورگھاٹ سے الگ کردیا جاتا ہے۔

(۱۰۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں ملاحم اور حوادث و فتن کاذکر کیا گیا ہے)

۱۸۶

اللَّه تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الْمُتَجَلِّي لِخَلْقِه بِخَلْقِه - والظَّاهِرِ لِقُلُوبِهِمْ بِحُجَّتِه - خَلَقَ الْخَلْقَ مِنْ غَيْرِ رَوِيَّةٍ - إِذْ كَانَتِ الرَّوِيَّاتُ لَا تَلِيقُ إِلَّا بِذَوِي الضَّمَائِرِ - ولَيْسَ بِذِي ضَمِيرٍ فِي نَفْسِه - خَرَقَ عِلْمُه بَاطِنَ غَيْبِ السُّتُرَاتِ - وأَحَاطَ بِغُمُوضِ عَقَائِدِ السَّرِيرَاتِ.

ومِنْهَا فِي ذِكْرِ

النَّبِيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

اخْتَارَه مِنْ شَجَرَةِ الأَنْبِيَاءِ - ومِشْكَاةِ الضِّيَاءِ وذُؤَابَةِ الْعَلْيَاءِ - وسُرَّةِ الْبَطْحَاءِ ومَصَابِيحِ الظُّلْمَةِ - ويَنَابِيعِ الْحِكْمَةِ.

فتنة بني أمية

ومنها: طَبِيبٌ دَوَّارٌ بِطِبِّه قَدْ أَحْكَمَ مَرَاهِمَه - وأَحْمَى مَوَاسِمَه يَضَعُ ذَلِكَ حَيْثُ الْحَاجَةُ إِلَيْه - مِنْ قُلُوبٍ عُمْيٍ وآذَانٍ صُمٍّ - وأَلْسِنَةٍ بُكْمٍ - مُتَتَبِّعٌ بِدَوَائِه مَوَاضِعَ الْغَفْلَةِ - ومَوَاطِنَ الْحَيْرَةِ لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِأَضْوَاءِ الْحِكْمَةِ - ولَمْ يَقْدَحُوا بِزِنَادِ الْعُلُومِ الثَّاقِبَةِ - فَهُمْ فِي ذَلِكَ كَالأَنْعَامِ السَّائِمَةِ - والصُّخُورِ الْقَاسِيَةِ.

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو اپنی مخلوقات کے سامنے تخلیقات کے ذریعہ جلوہ گر ہوتا ہے اور ان کے دلوں پر دلیلوں کے ذریعہ روشن ہوتا ہے۔اس نے تمام مخلوقات کو بغیر سوچ بچار کی زحمت کے پیدا کیا ہے کہ سوچنا صاحبان دل و ضمیر کا کام ہے اور وہ ان باتوں سے بلند تر ہے۔اس کے علم نے پوشیدہ اسرار کے تمام پردوں کو چاک کردیاہے اور وہ تمام عقائد کی گہرائیوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

(رسول اکرم (ص))

اس نے آپ کا انتخاب انبیاء کرام کے شجرہ۔روشنی کے فانوس ' بلندی کی پیشانی ' ارض بطحا کی ناف زمین ' ظلمت کے چراغوں اور حکمت کے سر چشموں کے درمیان سے کیا ہے۔

آپ وہ طبیب تھے جو اپنی طبابت کے ساتھ چکر لگا رہا ہو کہ اپنے مرہم کو درست کرلیا ہو اورداغنے کے آلات کو تپا لیاہوکہ جس اندھے دل ' بہرے کان' گونگی زبان پر ضرورت پڑے فوراً استعمال کردے۔اپنی دوا کو لئے ہوئے غفلت کے مراکز اور حیرت کے مقامات کی تلاش میں لگا ہواہو۔

فتنہ بنی امیہ

ان ظالموں نے حکمت کی روشنی سے نور حاصل نہیں کیا اور علوم کے چقماق کو رگڑ کرچنگاری نہیں پیدا کی۔اس مسئلہ میں ان کی مثال چرنے والے جانوروں اور سخت ترین پتھروں کی ہے۔

۱۸۷

قَدِ انْجَابَتِ السَّرَائِرُ لأَهْلِ الْبَصَائِرِ - ووَضَحَتْ مَحَجَّةُ الْحَقِّ لِخَابِطِهَا - وأَسْفَرَتِ السَّاعَةُ عَنْ وَجْهِهَا - وظَهَرَتِ الْعَلَامَةُ لِمُتَوَسِّمِهَا - مَا لِي أَرَاكُمْ أَشْبَاحاً بِلَا أَرْوَاحٍ - وأَرْوَاحاً بِلَا أَشْبَاحٍ - ونُسَّاكاً بِلَا صَلَاحٍ - وتُجَّاراً بِلَا أَرْبَاحٍ - وأَيْقَاظاً نُوَّماً - وشُهُوداً غُيَّباً - ونَاظِرَةً عَمْيَاءَ - وسَامِعَةً صَمَّاءَ - ونَاطِقَةً بَكْمَاءَ رَايَةُ ضَلَالٍ قَدْ قَامَتْ عَلَى قُطْبِهَا - وتَفَرَّقَتْ بِشُعَبِهَا - تَكِيلُكُمْ بِصَاعِهَا وتَخْبِطُكُمْ بِبَاعِهَا - قَائِدُهَا خَارِجٌ مِنَ الْمِلَّةِ - قَائِمٌ عَلَى الضِّلَّةِ؛فَلَا يَبْقَى يَوْمَئِذٍ مِنْكُمْ إِلَّا ثُفَالَةٌ كَثُفَالَةِ الْقِدْرِ - أَوْ نُفَاضَةٌ كَنُفَاضَةِ الْعِكْمِ - تَعْرُكُكُمْ عَرْكَ الأَدِيمِ - وتَدُوسُكُمْ دَوْسَ الْحَصِيدِ وتَسْتَخْلِصُ الْمُؤْمِنَ مِنْ بَيْنِكُمُ - اسْتِخْلَاصَ الطَّيْرِ الْحَبَّةَ الْبَطِينَةَ - مِنْ بَيْنِ هَزِيلِ الْحَبِّ.

أَيْنَ تَذْهَبُ بِكُمُ الْمَذَاهِبُ - وتَتِيه بِكُمُ الْغَيَاهِبُ وتَخْدَعُكُمُ الْكَوَاذِبُ - ومِنْ أَيْنَ تُؤْتَوْنَ - وأَنَّى تُؤْفَكُونَ - فَ( لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ )

بے شک اہل بصیرت کے لئے اسرار نمایاں ہیں اورحیران و سرگرداں لوگوں کے لئے حق کا راستہ روشن ہے۔آنے والی ساعت نے اپنے چہرہ سے نقاب کوالٹ دیا ہے اور تلاش کرنے والوں کے لئے علامتیں ظاہر ہوگئی ہیں آخر کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں بالکل بے جان پیکر اور بلا پیکر روح کی شکل میں دیکھ رہا ہوں۔تم وہ عبادت گذار ہوجو اندر سے صالح نہ ہو اور وہ تاجر ہو جس کو کوئی فائدہ نہ ہو۔وہ بیدار ہو جو خواب غفلت میں ہو اوروہ حاض ہوجو بالکل غیر حاضر ہو۔اندھی آنکھ ' بہرے کان اور گونگی زبان' گمراہی کا پرچم اپنے مرکز پرجم چکا ہے۔اور اس کی شاخیں ہر سو' پھیل چکی ہیں۔وہ تمہیں اپنے پیمانہ میں تول رہا ہے اور اپنے ہاتھوں ادھر ادھر بہکا رہا ہے۔اس کا قائد ملت سے خارج اور ضلالت پرقائم ہے۔اس دن تم سے کوئی باقی نہ رہ جائے گا مگر اس مقدار میں جتنا پتیلی کا تہ دیگ ہوتا ہے یا تھیلی کے جھاڑے ہوئے ریزے۔ یہ گمراہی تمہیں اسی طرح مسل ڈالے گی جس طرح چمڑہ مسلا جاتا ہے اور اسی طرح پامال کردے گی جس طرح کٹی ہوئی زراعت روندی جاتی ہے اورمومن خالص کو تمہارے درمیان سے اس طرح چن لے گی جس طرح پرندہ باریک دانوں سے موٹے دانوں کو نکا ل لیتا ہےآخر تم کو یہ غلط راستے کدھر لئے جا رہے ہیں اور تم اندھیروں میں کہا بہک رہے ہو اور تم کو جھوٹی امیدیں کس طرح دھوکہ دے رہی ہیں۔کدھر سے لائے جا رہے ہو اور کدھر بہکائے جا رہے ہو۔ ہر مدت کا ایک نوشتہ ہوتا ہے

۱۸۸

ولِكُلِّ غَيْبَةٍ إِيَابٌ - فَاسْتَمِعُوا مِنْ رَبَّانِيِّكُمْ - وأَحْضِرُوه قُلُوبَكُمْ - واسْتَيْقِظُوا إِنْ هَتَفَ بِكُمْ - ولْيَصْدُقْ رَائِدٌ أَهْلَه - ولْيَجْمَعْ شَمْلَه - ولْيُحْضِرْ ذِهْنَه - فَلَقَدْ فَلَقَ لَكُمُ الأَمْرَ فَلْقَ الْخَرَزَةِ - وقَرَفَه قَرْفَ الصَّمْغَةِ فَعِنْدَ ذَلِكَ أَخَذَ الْبَاطِلُ مَآخِذَه - ورَكِبَ الْجَهْلُ مَرَاكِبَه - وعَظُمَتِ الطَّاغِيَةُ وقَلَّتِ الدَّاعِيَةُ وصَالَ الدَّهْرُ صِيَالَ السَّبُعِ الْعَقُورِ - وهَدَرَ فَنِيقُ الْبَاطِلِ بَعْدَ كُظُومٍ - وتَوَاخَى النَّاسُ عَلَى الْفُجُورِ وتَهَاجَرُوا عَلَى الدِّينِ - وتَحَابُّوا عَلَى الْكَذِبِ - وتَبَاغَضُوا عَلَى الصِّدْقِ - فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ كَانَ الْوَلَدُ غَيْظاً - والْمَطَرُ قَيْظاً وتَفِيضُ اللِّئَامُ فَيْضاً وتَغِيضُ الْكِرَامُ غَيْضاً - وكَانَ أَهْلُ ذَلِكَ الزَّمَانِ ذِئَاباً - وسَلَاطِينُه سِبَاعاً وأَوْسَاطُه أُكَّالًا - وفُقَرَاؤُه أَمْوَاتاً وغَارَ الصِّدْقُ - وفَاضَ الْكَذِبُ - واسْتُعْمِلَتِ الْمَوَدَّةُ بِاللِّسَانِ - وتَشَاجَرَ النَّاسُ بِالْقُلُوبِ - وصَارَ الْفُسُوقُ نَسَباً - والْعَفَافُ عَجَباً - ولُبِسَ

اورہرغیبت کے لئے ایک واپسی ہوتی ہے لہٰذا اپنے خدا رسیدہ عالم کی بات سنو۔اس کے لئے دلوں کو حاضر کرو' وہ آواز دے تو بیدار ہو جائو۔ہر نمائندہ کو اپنی قوم سے سچ بولنا چاہیے۔اس کی پراگندگی کو جمع کرنا چاہیے۔اس کے ذہن کو حاضر رکھنا چاہیے۔اب تمہارے رہنما نے تمہارے لئے مسئلہ کواس قدر واشگاف کردیا ہے جس طرح مہرہ کو چیرا جاتا ہے اور اس طرح چھیل ڈالا ہے جس طرح گوندکھر چا جاتا ہے۔مگر اس کے باوجود باطل نے اپنا مرکز سنبھال لیا ہے اور جہل اپنے مرکب پر سوار ہوگیا ہے اور سرکشی بڑھ گئی ہے اور حق کی آواز دبگئی ہے اور زمانہ نے پھاڑ کھانے والے درندہ کی طرح حملہ کردیا ہے اور باطل کا اونٹ چپ رہنے کے بعدپھر بلبلا نے لگا ہے اور لوگوں نے فسق و فجور کی برادری قائم کرلی ہے اور سب نے مل کر دین کو نظر انداز کردیا ہے۔جھوٹ پر دوستی کی بنیادیں قائم ہوگئی ہیں اور سچائی پر ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے ہیں۔ایسے حالات میں بیٹا باپ کے لئے غیظ و غضب کا سبب ہوگا اوربارش گرمی کا باعث ہوگی۔کمینے لوگ پھیل جائیں گے اور شریف لوگ سمٹ جائیں گے۔اس دور کے عوام بھیڑئیے ہوں گے اور سلاطین درندے ۔درمیانی طبقہ والے کھانے والے اورفقراء و مساکین مردے ہوں گے۔سچائی کم ہو جائے گی اور جھوٹ پھیل جائے گا۔محبت کا استعمال صرف زبان سے ہوگا اور عداوت دلوں کے اندر پیوست ہو جائے گی۔زنا کاری نسب کی بنیاد ہوگی اور عفت ایک عجیب و غریب شے ہو جائے گی۔

۱۸۹

الإِسْلَامُ لُبْسَ الْفَرْوِ مَقْلُوباً.

(۱۰۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في بيان قدرة اللَّه وانفراده بالعظمة وأمر البعث

قدرة اللَّه

كُلُّ شَيْءٍ خَاشِعٌ لَه - وكُلُّ شَيْءٍ قَائِمٌ بِه - غِنَى كُلِّ فَقِيرٍ - وعِزُّ كُلِّ ذَلِيلٍ - وقُوَّةُ كُلِّ ضَعِيفٍ - ومَفْزَعُ كُلِّ مَلْهُوفٍ - مَنْ تَكَلَّمَ سَمِعَ نُطْقَه - ومَنْ سَكَتَ عَلِمَ سِرَّه - ومَنْ عَاشَ فَعَلَيْه رِزْقُه - ومَنْ مَاتَ فَإِلَيْه مُنْقَلَبُه - لَمْ تَرَكَ الْعُيُونُ فَتُخْبِرَ عَنْكَ - بَلْ كُنْتَ قَبْلَ الْوَاصِفِينَ مِنْ خَلْقِكَ - لَمْ تَخْلُقِ الْخَلْقَ لِوَحْشَةٍ - ولَا اسْتَعْمَلْتَهُمْ لِمَنْفَعَةٍ - ولَا يَسْبِقُكَ مَنْ طَلَبْتَ - ولَا يُفْلِتُكَ مَنْ أَخَذْتَ - ولَا يَنْقُصُ سُلْطَانَكَ مَنْ عَصَاكَ - ولَا يَزِيدُ فِي مُلْكِكَ مَنْ أَطَاعَكَ - ولَا يَرُدُّ أَمْرَكَ مَنْ سَخِطَ قَضَاءَكَ - ولَا يَسْتَغْنِي عَنْكَ مَنْ تَوَلَّى عَنْ أَمْرِكَ - كُلُّ سِرٍّ عِنْدَكَ عَلَانِيَةٌ

اسلام یوں الٹ دیا جائے گا جیسے کوئی پوستین کو الٹا پہن لے ۔

(۱۰۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(قدرت خدا عظمت الٰہی اور روز محشر کے بارے میں)

ہرشے اس کی بارگاہ میں سر جھکائے ہوئے ہے اور ہر چیز اسی کے دم سے قائم ہے۔وہ ہر فقیر کی دولت کا سہارا اور ہر ذلیل کی عزت کا آسرا ہے۔ہر کمزور کی طاقت وہی ہے اور ہرفریادی کی پناہ گاہ وہی ہے۔وہ ہر بولنے والے کے نطق کو سن لیتا ہے۔اور ہر خاموش رہنے والے کے راز کو جانتا ہے۔جو زندہ ہے اس کارزق اس کے ذمہ ہے اور جو مرگی اس کی باز گشت اسی کی طرف ہے۔

خدایا! آنکھوں نے تجھے دیکھا نہیں ہے کہ تیرے بارے میں خبردے سکیں۔تو تمام توصیف کرنے والی مخلوقات کے پہلے سے ہے۔تونے مخلوقات کو تنہائی کی وحشت کی بنا پر نہیں خلق کیا ہے اور نہ انہیں کسی فائدہ کے لئے استعمال کیا ہے۔تو جسے حاصل کرنا چاہے وہ آگے نہیں جا سکتا ہے اور جسے پکڑنا چاہے وہ بچ کر نہیں جا سکتا ہے۔ناف رمانوں سے تیری سلطنت میں کمی نہیں آتی ہے اور اطاعت گزار وں سے تیرے ملک میں اضافہ نہیں ہوتا ہے جو تیرے فیصلہ سے ناراض ہو وہ تیرے حکم کو ٹال نہیں سکتا ہے اورجو تیرے امر سے روگردانی کرے وہ تجھ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔ہر راز تیرے سامنے روشن ہے

۱۹۰

وكُلُّ غَيْبٍ عِنْدَكَ شَهَادَةٌ - أَنْتَ الأَبَدُ فَلَا أَمَدَ لَكَ - وأَنْتَ الْمُنْتَهَى فَلَا مَحِيصَ عَنْكَ - وأَنْتَ الْمَوْعِدُ فَلَا مَنْجَى مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ - بِيَدِكَ نَاصِيَةُ كُلِّ دَابَّةٍ - وإِلَيْكَ مَصِيرُ كُلِّ نَسَمَةٍ - سُبْحَانَكَ مَا أَعْظَمَ شَأْنَكَ - سُبْحَانَكَ مَا أَعْظَمَ مَا نَرَى مِنْ خَلْقِكَ - ومَا أَصْغَرَ كُلَّ عَظِيمَةٍ فِي جَنْبِ قُدْرَتِكَ - ومَا أَهْوَلَ مَا نَرَى مِنْ مَلَكُوتِكَ - ومَا أَحْقَرَ ذَلِكَ فِيمَا غَابَ عَنَّا مِنْ سُلْطَانِكَ - ومَا أَسْبَغَ نِعَمَكَ فِي الدُّنْيَا - ومَا أَصْغَرَهَا فِي نِعَمِ الآخِرَةِ.

الملائكة الكرام

ومنها: مِنْ مَلَائِكَةٍ أَسْكَنْتَهُمْ سَمَاوَاتِكَ - ورَفَعْتَهُمْ عَنْ أَرْضِكَ - هُمْ أَعْلَمُ خَلْقِكَ بِكَ - وأَخْوَفُهُمْ لَكَ وأَقْرَبُهُمْ مِنْكَ - لَمْ يَسْكُنُوا الأَصْلَابَ - ولَمْ يُضَمَّنُوا الأَرْحَامَ - ولَمْ يُخْلَقُوا مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ - ولَمْ يَتَشَعَّبْهُمْ رَيْبُ الْمَنُونِ - وإِنَّهُمْ عَلَى مَكَانِهِمْ مِنْكَ - ومَنْزِلَتِهِمْ عِنْدَكَ واسْتِجْمَاعِ أَهْوَائِهِمْ فِيكَ - وكَثْرَةِ طَاعَتِهِمْ لَكَ وقِلَّةِ غَفْلَتِهِمْ عَنْ أَمْرِكَ - لَوْ عَايَنُوا كُنْه مَا خَفِيَ عَلَيْهِمْ مِنْكَ

اور ہر عیب تیرے لئے حضور ہے۔تو ابدی ہے تو تیری کوئی انتہا نہیں ہے اور توانتہا ہے تو تجھ سے کوئی چھٹکارہ نہیں ہے۔تو سب کی وعدہ گاہ ہے تو تجھ سے نجات حاصل کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ہر زمین پر چلنے والے کا اختیار تیرے ہاتھ میں ہے اور ہر جاندار کی باز گشت تیری ہی طرف ہے۔پاک و بے نیاز ہے تو تیری شان کیا با عظمت ہے اور تیری مخلوقات بھی کیا عظیم الشان ہے اور تیری قدرت کے سامنے ہر عظیم شے کس قدر حقیر ہے اور تیری سلطنت کس قدر پر شکوہ ہے اور یہ سب تیری اس مملکت کے مقابلہ میں جونگاہوں سے اوجھل ہے کس قدرمعمولی ہے۔تیری نعمتیں اس دنیا میں کس قدر مکمل ہیں اور پھرنعمات آخرت کے مقابلہ میں کس قدر مختصر ہیں۔

ملائکہ مقربین

یہ تیرے ملائکہ ہیں جنہیں تونے آسمانوں میں آباد کیا ہے اورزمین سے بلند تر بنایا ہے۔یہ تمام مخلوقات سے زیادہ تیری معرفت رکھتے ہیں اور تجھ سے خوف زدہ رہتے ہیں اور تیرے قریب تر بھی ہیں۔یہ نہ اصلاب پدر میں رہے ہیں اور نہ ارحام مادر میں اورنہ حقیر نطفہ سے پیدا کئے گئے ہیں اور نہ ان پر زمانہ کے انقلابات کا کوئی اثر ہے۔یہ تیری بارگاہ میں ایک خاص مقام اور منزلت رکھتے ہیں۔ان کی تمام ترخواہشات صرف تیرے بارے میں ہیں اور یہ بکثرت تیری ہی اطاعت کرتے ہیں اور تیرے حکم سے ہرگز غافل نہیں ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر تیری عظمت کی تہ تک پہنچ جائیں

۱۹۱

لَحَقَّرُوا أَعْمَالَهُمْ ولَزَرَوْا عَلَى أَنْفُسِهِمْ - ولَعَرَفُوا أَنَّهُمْ لَمْ يَعْبُدُوكَ حَقَّ عِبَادَتِكَ - ولَمْ يُطِيعُوكَ حَقَّ طَاعَتِكَ.

عصيان الخلق

سُبْحَانَكَ خَالِقاً ومَعْبُوداً - بِحُسْنِ بَلَائِكَ عِنْدَ خَلْقِكَ خَلَقْتَ دَاراً - وجَعَلْتَ فِيهَا مَأْدُبَةً - مَشْرَباً ومَطْعَماً وأَزْوَاجاً - وخَدَماً وقُصُوراً - وأَنْهَاراً وزُرُوعاً وثِمَاراً - ثُمَّ أَرْسَلْتَ دَاعِياً يَدْعُو إِلَيْهَا - فَلَا الدَّاعِيَ أَجَابُوا - ولَا فِيمَا رَغَّبْتَ رَغِبُوا - ولَا إِلَى مَا شَوَّقْتَ إِلَيْه اشْتَاقُوا - أَقْبَلُوا عَلَى جِيفَةٍ قَدِ افْتَضَحُوا بِأَكْلِهَا - واصْطَلَحُوا عَلَى حُبِّهَا - ومَنْ عَشِقَ شَيْئاً أَعْشَى بَصَرَه - وأَمْرَضَ قَلْبَه - فَهُوَ يَنْظُرُ بِعَيْنٍ غَيْرِ صَحِيحَةٍ - ويَسْمَعُ بِأُذُنٍ غَيْرِ سَمِيعَةٍ - قَدْ خَرَقَتِ الشَّهَوَاتُ عَقْلَه - وأَمَاتَتِ الدُّنْيَا قَلْبَه - ووَلِهَتْ عَلَيْهَا نَفْسُه - فَهُوَ عَبْدٌ لَهَا - ولِمَنْ فِي يَدَيْه شَيْءٌ مِنْهَا - حَيْثُمَا زَالَتْ زَالَ إِلَيْهَا -

تو اپنے اعمال کو حقیر ترین تصور کریں گے۔اور اپنے نفس کی مذمت کریں گے اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے عبادت کاحق ادا نہیں کیا ہے اور حق اطاعت کے برابر اطاعت نہیں کی ہے۔

تو پاک و بے نیاز ہے خالقیت کے اعتبارسے بھی اور عبادت کے اعتبار سے بھی۔میری تسبیح اس بہترین برتائو کی بنا پر ہے جو تونے مخلوقات کے ساتھ کیا ہے۔تونے ایک گھر بنایا ہے۔اس میں ایک دستر خوان بچھایا ہے جس میں کھانے پینے ' زوجیت ' خدمت ' قصر' نہر ' زراعت ' ثمر سب کا انتظام کردیا ہے اور پھر ایک داعی کو اس کی طرف دعوت دینے کے لئے بھیج دیا ہے لیکن لوگوں نے نہ داعی کی آواز پرلبیک کہی اور نہ جن چیزوں کی طرف تونے رغبت دلائی تھی راغب ہوئے اور نہ تیری تشویق کا شوق پیدا کیا۔سب اس مردار پر ٹوٹ پڑے جس کو کھا کر رسوا ہوئے اور سب نے اس کی محبت پر اتفاق کرلیا اور ظاہر ہے کہ جو کسی کا بھی عاشق ہو جاتا ہے وہ شے اسے اندھا بنا دیتی ہے اور اس کے دل کو بیمار کر دیتی ہے۔وہ دیکھتا بھی ہے تو غیر سلیم آنکھوں سے اور سنتا بھی ہے تو غیر سمیع کانوں سے۔خواہشات نے ان کی عقلوں کو پارہ پارہ کردیا ہے اور دنیا نے ان کے دلوں کو مردہ بنادیا ہے۔انہیں اس سے والہانہ لگائو پیداہوگیا ہے ۔اور وہ اس کے بندے ہوگئے ہیں اور ان کے غلام بن گئے ہیں۔جن کے ہاتھ میں تھوڑی سی بھی دنیا ہے کہ جس طرف وہ جھکتی ہے یہ بھی جھک جاتے ہیں

۱۹۲

وحَيْثُمَا أَقْبَلَتْ أَقْبَلَ عَلَيْهَا لَا يَنْزَجِرُ مِنَ اللَّه بِزَاجِرٍ ولَا يَتَّعِظُ مِنْه بِوَاعِظٍ - وهُوَ يَرَى الْمَأْخُوذِينَ عَلَى الْغِرَّةِ - حَيْثُ لَا إِقَالَةَ ولَا رَجْعَةَ - كَيْفَ نَزَلَ بِهِمْ مَا كَانُوا يَجْهَلُونَ - وجَاءَهُمْ مِنْ فِرَاقِ الدُّنْيَا مَا كَانُوا يَأْمَنُونَ - وقَدِمُوا مِنَ الآخِرَةِ عَلَى مَا كَانُوا يُوعَدُونَ - فَغَيْرُ مَوْصُوفٍ مَا نَزَلَ بِهِمْ - اجْتَمَعَتْ عَلَيْهِمْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ - وحَسْرَةُ الْفَوْتِ فَفَتَرَتْ لَهَا أَطْرَافُهُمْ - وتَغَيَّرَتْ لَهَا أَلْوَانُهُمْ - ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ فِيهِمْ وُلُوجاً - فَحِيلَ بَيْنَ أَحَدِهِمْ وبَيْنَ مَنْطِقِه - وإِنَّه لَبَيْنَ أَهْلِه يَنْظُرُ بِبَصَرِه - ويَسْمَعُ بِأُذُنِه عَلَى صِحَّةٍ مِنْ عَقْلِه - وبَقَاءٍ مِنْ لُبِّه - يُفَكِّرُ فِيمَ أَفْنَى عُمُرَه - وفِيمَ أَذْهَبَ دَهْرَه - ويَتَذَكَّرُ أَمْوَالًا جَمَعَهَا أَغْمَضَ فِي مَطَالِبِهَا - وأَخَذَهَا مِنْ مُصَرَّحَاتِهَا ومُشْتَبِهَاتِهَا - قَدْ لَزِمَتْه تَبِعَاتُ جَمْعِهَا - وأَشْرَفَ عَلَى فِرَاقِهَا - تَبْقَى لِمَنْ وَرَاءَه يَنْعَمُونَ فِيهَا - ويَتَمَتَّعُونَ بِهَا - فَيَكُونُ الْمَهْنَأُ لِغَيْرِه والْعِبْءُ عَلَى ظَهْرِه

اور جدھر وہ مڑتی ہے یہ بھی مڑ جاتے ہیں۔نہ کوئی خدائی روکنے والا انہیں روک سکتا ہے اور نہ کسی واعظ کی نصیحت ان پر اثر انداز ہوتی ہے۔جب کہ انہیں دیکھ رہے ہیں جو اس دھوکہ میں پکڑ لئے گئے ہیں کہ اب نہ معافی کا امکان ہے اور نہ واپسی کا۔کس طرح ان پر وہ مصیبت نازل ہوگئی ہے جس سے نا واقف تھے اور فراق دنیا کی وہ آفت آگئی ہے جس کی طرف سے بالکل مطمئن تھے اورآخرت میں اس صورت حاصل کا سامنا کر رہے ہیں جس کاوعدہ کیا گیا تھا۔اب تو اس مصیبت کا بیان بھی نا ممکن ہے جہاں ایک طرف موت کے سکرات ہیں اور دوسری طرف فراق دنیا کی حسرت ۔حالت یہ ہے کہ ہاتھ پائوں ڈھیلے پڑ گئے ہیں اور رنگ اڑ گیا ہے۔اس کے بعد موت کی دخل اندازی اور بڑھی تو وہ گفتگو کی راہ میں بھی حائل ہوگئی کہ انسان گھر والوں کے درمیان انہیں آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔کان سے ان کی آوازیں سن رہا ہے۔عقل بھی سلامت ہے اور ہوش بھی بر قرار ہے۔یہ سوچ رہا ہے کہ عمر کو کہاں برباد کیا ہے اور زندگی کو کہاں گزارا ہے ۔ان اموال کو یادکر رہا ہے جنہیں جمع کیا تھا اور ان کی جمع آوری میں آنکھیں بند کرلی تھیں کہ کبھی واضح راستوں سے حاصل کیا اور کبھی مشتبہ طریقوں سے کہ صرف ان کے جمع کرنے کے اثرات باقی رہ گئے ہیں اور ان سے جدائی کا وقت آگیا ہے۔اب یہ مال بعد والوں کے لئے رہ جائے گا جو آرام کریں گے اورمزے اڑائیں گے۔یعنی مزہ دوسروں کے لئے ہوگا اورہر بوجھ اس کی پیٹھ پرہوگا

۱۹۳

والْمَرْءُ قَدْ غَلِقَتْ رُهُونُه بِهَا - فَهُوَ يَعَضُّ يَدَه نَدَامَةً - عَلَى مَا أَصْحَرَ لَه عِنْدَ الْمَوْتِ مِنْ أَمْرِه - ويَزْهَدُ فِيمَا كَانَ يَرْغَبُ فِيه أَيَّامَ عُمُرِه - ويَتَمَنَّى أَنَّ الَّذِي كَانَ يَغْبِطُه بِهَا - ويَحْسُدُه عَلَيْهَا قَدْ حَازَهَا دُونَه - فَلَمْ يَزَلِ الْمَوْتُ يُبَالِغُ فِي جَسَدِه - حَتَّى خَالَطَ لِسَانُه سَمْعَه - فَصَارَ بَيْنَ أَهْلِه لَا يَنْطِقُ بِلِسَانِه - ولَا يَسْمَعُ بِسَمْعِه - يُرَدِّدُ طَرْفَه بِالنَّظَرِ فِي وُجُوهِهِمْ - يَرَى حَرَكَاتِ أَلْسِنَتِهِمْ - ولَا يَسْمَعُ رَجْعَ كَلَامِهِمْ - ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ الْتِيَاطاً بِه - فَقُبِضَ بَصَرُه كَمَا قُبِضَ سَمْعُه وخَرَجَتِ الرُّوحُ مِنْ جَسَدِه - فَصَارَ جِيفَةً بَيْنَ أَهْلِه - قَدْ أَوْحَشُوا مِنْ جَانِبِه - وتَبَاعَدُوا مِنْ قُرْبِه - لَا يُسْعِدُ بَاكِياً ولَا يُجِيبُ دَاعِياً - ثُمَّ حَمَلُوه إِلَى مَخَطٌّ فِي الأَرْضِ - فَأَسْلَمُوه فِيه إِلَى عَمَلِه - وانْقَطَعُوا عَنْ زَوْرَتِه.

القيامة

حَتَّى إِذَا بَلَغَ الْكِتَابُ أَجَلَه - والأَمْرُ مَقَادِيرَه - وأُلْحِقَ آخِرُ الْخَلْقِ بِأَوَّلِه - وجَاءَ مِنْ أَمْرِ اللَّه مَا يُرِيدُه - مِنْ تَجْدِيدِ خَلْقِه -

لیکن انسان اس مال کیزنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور موتنے سارے حالات کو بے نقاب کردیا ہے کہ ندامت سے اپنے ہاتھ کاٹ رہا ہے اور اس چیز سے کنارہ کش ہو نا چاہتا ہے جس کی طرف زندگی بھر راغب تھا۔اب یہ چاہتا ہے کہ کاش جو شخص اس سے اس مال کی بناپر حسد کر رہا تھا یہ مال اس کے پاس ہوتا اور اس کے پاس نہ ہوتا۔ اس کے بعد موت اس کے جسم میں مزید دراندازی کرتی ہے اور زبان کے ساتھ کانوں کوب ھی شامل کر لیتی ہے کہ انسان اپنے گھر والوں کے درمیان نہ بول سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے۔ہر ایک کے چہرہ کو حسرت سے دیکھ رہا ہے۔ان کے زبان کی جنبش کو بھی دیکھ رہا ہے لیکن الفاظ کو نہیں سن سکتا ہے۔ اس کے بعد موت اورچپک جاتی ہے تو کانوں کی طرح آنکھوں پر بھی قبضہ ہو جاتا ہے اور روح جسم سے پرواز کرجاتی ہے اب وہ گھر والوں کے درمیان ایک مردار ہوتا ہے ۔جس کے پہلو میں بیٹھنے سے بھی وحشت ہونے لگتی ہے اور لوگ دوربھاگنے لگتے ہیں ۔یہ اب نہ کسی رونے والے کو سہارا دے سکتا ہے اور نہ کسی پکارنے والے کی آواز پر آوازدے سکتا ہے۔لوگ اسے زمین کے ایک گڑھے تک پہنچادیتے ہیں اور اسے اس کے اعمال کے حوالہ کر دیتے ہیں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔

یہاں تک کہ جب قسمت کالکھا اپنی آخری حد تک اور امر الٰہی اپنی مقررہ منزل تک پہنچ جائے گا اور آخرین کواولین سے ملا دیا جائے گا اور ایک نیا حکم الٰہی جائے گا کہ خلقت کی تجدید کی جائے تو

۱۹۴

أَمَادَ السَّمَاءَ وفَطَرَهَا وأَرَجَّ الأَرْضَ وأَرْجَفَهَا - وقَلَعَ جِبَالَهَا ونَسَفَهَا - ودَكَّ بَعْضُهَا بَعْضاً مِنْ هَيْبَةِ جَلَالَتِه - ومَخُوفِ سَطْوَتِه - وأَخْرَجَ مَنْ فِيهَا فَجَدَّدَهُمْ بَعْدَ إِخْلَاقِهِمْ - وجَمَعَهُمْ بَعْدَ تَفَرُّقِهِمْ - ثُمَّ مَيَّزَهُمْ لِمَا يُرِيدُه مِنْ مَسْأَلَتِهِمْ - عَنْ خَفَايَا الأَعْمَالِ وخَبَايَا الأَفْعَالِ - وجَعَلَهُمْ فَرِيقَيْنِ - أَنْعَمَ عَلَى هَؤُلَاءِ وانْتَقَمَ مِنْ هَؤُلَاءِ - فَأَمَّا أَهْلُ الطَّاعَةِ فَأَثَابَهُمْ بِجِوَارِه - وخَلَّدَهُمْ فِي دَارِه - حَيْثُ لَا يَظْعَنُ النُّزَّالُ - ولَا تَتَغَيَّرُ بِهِمُ الْحَالُ - ولَا تَنُوبُهُمُ الأَفْزَاعُ - ولَا تَنَالُهُمُ الأَسْقَامُ ولَا تَعْرِضُ لَهُمُ الأَخْطَارُ - ولَا تُشْخِصُهُمُ الأَسْفَارُ - وأَمَّا أَهْلُ الْمَعْصِيَةِ - فَأَنْزَلَهُمْ شَرَّ دَارٍ وغَلَّ الأَيْدِيَ إِلَى الأَعْنَاقِ - وقَرَنَ النَّوَاصِيَ بِالأَقْدَامِ - وأَلْبَسَهُمْ سَرَابِيلَ الْقَطِرَانِ - ومُقَطَّعَاتِ النِّيرَانِ - فِي عَذَابٍ قَدِ اشْتَدَّ حَرُّه

یہ امر آسمانوں کو حرکت دے کر شگافتہ کردے گا اور زمین کو ہلا کر کھوکھلا کردے گا اورپہاڑوں کو جڑ سے اکھاڑ کر اڑا دے گا اور ہیبت جلال الٰہی اورخوف سطوت پروردگار سے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے اور زمین سب کو باہرنکال دے گی اور انہیں دوبارہ بوسیدگی کے بعد تازہ حیات دے دی جائے گی اور انتشار کے بعد جمع کردیا جائے گا اورمخفی اعمال ' پوشیدہ افعال کے سوال کے لئے سب کو الگ الگ کردیاجائے گا اورمخلوقات دو گروہوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔ایک گروہ مرکز نعمات ہوگا اوردوسرا محل انتقام۔

اہل اطاعت کو اس جوار رحمت میں ثواب اور دار جنت میں ہمیشگی کا انعام دیا جائے گا جہاں کے رہنے والے کوچ نہیں کرتے ہیں اور نہ ان کے حالات میں کوئی تغیر پیدا ہوتا ہے اور نہ ان پر رنج و الم طاری ہوتا ہے اور نہ انہیں کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے اور نہ کسی طرح کا خطرہ سامنے آتا ہے اور نہ سفر کی زحمت سے دو چارہونا پڑتا ہے۔لیکن اہل معصیت کے لئے بد ترین منزل ہوگی۔جہاں ہاتھ گردن(۱) سے بندھے ہوں گے اور پیشانیوں کو پیروں سے جوڑ دیا جائے گا۔تارکول اور آگ کے تراشیدہ لباس پہنائے جائیں گے۔اس عذاب میں جس کی گرمی شدید ہوگی

(۱) تعجب نہ کریں کہ خدائے رحمان و رحیم اپنے بندوں کے ساتھ اس طرح کا برتائو کس طرح کرے گا کہ یہ انجام انہیں لوگوں کا ہے جو دار دنیا میں اللہ کے کمزور اورنیک بندوں کے ساتھ اس سے بد تربرتائو کر چکے ہیں تو کیا مالک کائنات دنیا میں اختیارات دینے کے بعد آخرت میں بھی انہیں بہترین نعمتوں سے نوازدے گا اور مظلومین کا دنیا و آخرت میں کوئی پرسان حال نہ ہوگا ؟

۱۹۵

وبَابٍ قَدْ أُطْبِقَ عَلَى أَهْلِه - فِي نَارٍ لَهَا كَلَبٌ ولَجَبٌ - ولَهَبٌ سَاطِعٌ وقَصِيفٌ هَائِلٌ - لَا يَظْعَنُ مُقِيمُهَا - ولَا يُفَادَى أَسِيرُهَا - ولَا تُفْصَمُ كُبُولُهَا - لَا مُدَّةَ لِلدَّارِ فَتَفْنَى - ولَا أَجَلَ لِلْقَوْمِ فَيُقْضَى.

زهد النبي

ومنها في ذكر النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - قَدْ حَقَّرَ الدُّنْيَا وصَغَّرَهَا - وأَهْوَنَ بِهَا وهَوَّنَهَا - وعَلِمَ أَنَّ اللَّه زَوَاهَا عَنْه اخْتِيَاراً - وبَسَطَهَا لِغَيْرِه احْتِقَاراً - فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْيَا بِقَلْبِه - وأَمَاتَ ذِكْرَهَا عَنْ نَفْسِه - وأَحَبَّ أَنْ تَغِيبَ زِينَتُهَا عَنْ عَيْنِه - لِكَيْلَا يَتَّخِذَ مِنْهَا رِيَاشاً - أَوْ يَرْجُوَ فِيهَا مَقَاماً - بَلَّغَ عَنْ رَبِّه مُعْذِراً - ونَصَحَ لأُمَّتِه مُنْذِراً ودَعَا إِلَى الْجَنَّةِ مُبَشِّراً - وخَوَّفَ مِنَ النَّارِ مُحَذِّراً.

اور جس کے دروازے بند ہوں گے اور اس جہنم میں جس میں شرارے بھی ہوں گے اور شورو غوغا بھی ۔ بھڑکتے ہوئے شعلے بھی ہوں گے اور ہولناک چیخیں بھی۔نہ یہاں کے رہنے والے کچ کریں گے اور نہ یہاں کے قیدیوں کو ئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ یہاں کی بیڑیاں جدا ہوسکتی ہیں ۔نہ اس گھر کی کوئی مدت ہے جو تمام ہو جائے اور نہ اسقوم کی کوئی اجل ہے جوختم کردی جائے۔

ذکر رسول اکرم (ص)

آپ نے اس دنیا کو ہمیشہ صغیر و حقیر اور ذلیل و پست تصور کیاہے اوریہ سمجھا ہے کہ پروردگار نے اس دنیا کو آپ سے الگ رکھا ہے اور دوسروں کے لئے فرش کردیا ہے تو یہ آپ کی عزت اور دنیا کی حقارت ہی کی بنیاد پر ہے لہٰذا آپ نے اس سے دل سے کنارہ کشی اختیار کی اور اس کی یاد کو دل سے بالکل نکال دیا اور یہ چاہا کہ اس کی زینتیں نگاہوں سے اوجھل رہیں تاکہ نہ عمدہ لباس زیب تن فرمائیں اور نہ کسی خاص مقام کی امید کریں۔آپ نے پروردگار کے پیغام کو پہنچانے میں سارے عذر تمام کردئیے اور امت کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہوئے نصیحت فرمائی جنت کی بشارت سنا کر اس کی طرف دعوت دی اورجہنم سے بچنے کی تلقین کرکے یاس کا خوف پیدا کرایا۔

۱۹۶

أهل البيت

نَحْنُ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ - ومَحَطُّ الرِّسَالَةِ - ومُخْتَلَفُ الْمَلَائِكَةِ ،ومَعَادِنُ الْعِلْمِ ويَنَابِيعُ الْحُكْمِ - نَاصِرُنَا ومُحِبُّنَا يَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ - وعَدُوُّنَا ومُبْغِضُنَا يَنْتَظِرُ السَّطْوَةَ

(۱۱۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في أركان الدين

الإسلام

إِنَّ أَفْضَلَ مَا تَوَسَّلَ بِه الْمُتَوَسِّلُونَ - إِلَى اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى - الإِيمَانُ بِه وبِرَسُولِه والْجِهَادُ فِي سَبِيلِه - فَإِنَّه ذِرْوَةُ الإِسْلَامِ - وكَلِمَةُ الإِخْلَاصِ فَإِنَّهَا الْفِطْرَةُ - وإِقَامُ الصَّلَاةِ فَإِنَّهَا الْمِلَّةُ - وإِيتَاءُ الزَّكَاةِ فَإِنَّهَا فَرِيضَةٌ وَاجِبَةٌ - وصَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ فَإِنَّه جُنَّةٌ مِنَ الْعِقَابِ - وحَجُّ الْبَيْتِ واعْتِمَارُه - فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ ويَرْحَضَانِ الذَّنْبَ - وصِلَةُ الرَّحِمِ - فَإِنَّهَا مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ ومَنْسَأَةٌ فِي الأَجَلِ - وصَدَقَةُ السِّرِّ فَإِنَّهَا تُكَفِّرُ الْخَطِيئَةَ - وصَدَقَةُ الْعَلَانِيَةِ فَإِنَّهَا تَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ - وصَنَائِعُ الْمَعْرُوفِ فَإِنَّهَا تَقِي مَصَارِعَ الْهَوَانِ.

أَفِيضُوا فِي ذِكْرِ اللَّه فَإِنَّه أَحْسَنُ الذِّكْرِ - وارْغَبُوا فِيمَا وَعَدَ الْمُتَّقِينَ فَإِنَّ وَعْدَه أَصْدَقُ الْوَعْدِ -

اہل بیت

ہم نبوت کا شجرہ' رسالت کی منزل ' ملائکہ کی رفت و آمد کی جگہ' علم کے معدن اورحکمت کے چشمے ہیں۔ ہمارا مدد گار اور محب ہمیشہ منتظر رحمت رہتا ہے اور ہمارا دشمن اور کینہ پرورہمیشہ منتظر لعنت و انتقام الٰہی رہتا ہے۔

(۱۱۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(ارکان اسلام کے بارے میں)

اللہ والوں کے لئے اس کی بارگاہ تک پہنچنے کا بہترین وسیلہ اللہ اور اس کے رسول (ص) پر ایمان اور راہ خدا میں جہاد ہے کہ جہاد اسلام کی سر بلندی ہے۔اور کلمہ اخلاص ہے کہ یہ فطرت الہیہ ہے اور نماز کا قیام ہے کہ یہ عین دین ہے اور زکوٰة کی ادائیگی ہے کہ یہ فریضہ واجب ہے اور ماہ رمضان کا روزہ ہے کہ یہ عذاب سے بچنے کی سپر ہے اورحج بیت اللہ ہے اور عمرہ ہے کہ یہ فقر کو دور کر دیتا ہے اورگناہوں کو دھو دیتا ہےاورصلہ رحم ہے کہ یہ مال میں اضافہ اور اجل کے ٹالنے کا ذریعہ ہے اور پوشیدہ طریقہ سے خیرات ہے کہ یہ گناہوں کا کفارہ ہے اور علی الاعلان صدقہ ہے کہ یہ بد ترین موت کے دفع کرنے کاذریعہ ہے اور اقربا کے ساتھ نیک سلوک ہے کہ یہ ذلت کے مقامات سے بچانے کا وسیلہ ہے ذکر خدا کی راہ میں آگے بڑھتے رہو کہ یہ بہترین ذکر ہے اور خدانےمتقین سے جو وعدہ کیا ہے اس کی طرف رغبت پیدا کرو کہ اس کا وعدہ سچا ہے۔

۱۹۷

واقْتَدُوا بِهَدْيِ نَبِيِّكُمْ فَإِنَّه أَفْضَلُ الْهَدْيِ - واسْتَنُّوا بِسُنَّتِه فَإِنَّهَا أَهْدَى السُّنَنِ.

فضل القرآن

وتَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّه أَحْسَنُ الْحَدِيثِ - وتَفَقَّهُوا فِيه فَإِنَّه رَبِيعُ الْقُلُوبِ - واسْتَشْفُوا بِنُورِه فَإِنَّه شِفَاءُ الصُّدُورِ - وأَحْسِنُوا تِلَاوَتَه فَإِنَّه أَنْفَعُ الْقَصَصِ - وإِنَّ الْعَالِمَ الْعَامِلَ بِغَيْرِ عِلْمِه - كَالْجَاهِلِ الْحَائِرِ الَّذِي لَا يَسْتَفِيقُ مِنْ جَهْلِه - بَلِ الْحُجَّةُ عَلَيْه أَعْظَمُ والْحَسْرَةُ لَه أَلْزَمُ - وهُوَ عِنْدَ اللَّه أَلْوَمُ

(۱۱۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم الدنيا

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أُحَذِّرُكُمُ الدُّنْيَا - فَإِنَّهَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ وتَحَبَّبَتْ بِالْعَاجِلَةِ - ورَاقَتْ بِالْقَلِيلِ وتَحَلَّتْ بِالآمَالِ - وتَزَيَّنَتْ بِالْغُرُورِ لَا تَدُومُ حَبْرَتُهَا ولَا تُؤْمَنُ فَجْعَتُهَا

اپنے پیغمبر (ص) کی ہدایت کے راستہ پرچلو کہ یہ بہترین ہدایت ہے اور ان کی سنت کو اختیار کرو کہ یہ سب سے بہتر ہدایت کرنے والی ہے۔

قرآن کریم

قرآن مجید کا علم حاصل کرو کہ یہ بہترین کلام ہے اور اس میں غوروفکر کرو کہ یہ دلوں کی بہار ہے۔اس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ یہ دلوں کے لئے شفا ہے اور اس کی باقاعدہ تلاوت کرو کہ یہ مفید ترین قصوں کا مرکز ہے۔اوریاد رکھو کہ اپنے علم کے خلاف عمل کرنے والا عالم بھی حیران و سرگردان جاہل جیسا ہے جسے جہالت سے کبھی افاقہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس پر حجت خدا زیادہ عظیم تر ہوتی ہے اور اس کے لئے حسرت و اندوہ بھی زیادہ لازم ہوتا ہے اور وہ بارگاہ الٰہی میں زیادہ قابل ملامت ہوتا ہے۔

(۱۱۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(مذمت دنیا کے بارے میں )

اما بعد ! میں تم لوگوں کو دنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں کہ یہ شیریں اور شاداب ہے لیکن خواہشات میں گھری ہوئی ہے۔اپنی جلد مل جانے والی نعمتوں کی بنا پر محبوب بن جاتی ہے اور تھوڑی سی زینت سے خوبصورت بن جاتی ہے۔یہ امیدوں سے آراستہ ہے اور دھوکہ سے مزین ہے۔نہ اس کی خوشی دائمی ہے اور نہ اس کی مصیبت سے کوئی محفوظ رہنے والا ہے۔

۱۹۸

غَرَّارَةٌ ضَرَّارَةٌ حَائِلَةٌ زَائِلَةٌ - نَافِدَةٌ بَائِدَةٌ أَكَّالَةٌ غَوَّالَةٌ - لَا تَعْدُو - إِذَا تَنَاهَتْ إِلَى أُمْنِيَّةِ أَهْلِ الرَّغْبَةِ فِيهَا والرِّضَاءِ بِهَا - أَنْ تَكُونَ كَمَا قَالَ اللَّه تَعَالَى سُبْحَانَه –( كَماءٍ أَنْزَلْناه مِنَ السَّماءِ - فَاخْتَلَطَ بِه نَباتُ الأَرْضِ - فَأَصْبَحَ هَشِيماً تَذْرُوه الرِّياحُ - وكانَ الله عَلى كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِراً ) - لَمْ يَكُنِ امْرُؤٌ مِنْهَا فِي حَبْرَةٍ - إِلَّا أَعْقَبَتْه بَعْدَهَا عَبْرَةً - ولَمْ يَلْقَ فِي سَرَّائِهَا بَطْناً - إِلَّا مَنَحَتْه مِنْ ضَرَّائِهَا ظَهْراً ولَمْ تَطُلَّه فِيهَا دِيمَةُ رَخَاءٍ - إِلَّا هَتَنَتْ عَلَيْه مُزْنَةُ بَلَاءٍ -

یہ دھوکہ باز ' نقصان رساں ' بدل جانے والی ' فنا ہو جانے والی ' زوال پذیر اورہلاک(۱) ہو جانے والی ہے۔یہ لوگوں کو کھا بھی جاتی ہے اورمٹا بھی دیتی ہے۔جب اپنی طرف رغبت رکھنے والوں اور اپنے سے خوش ہو جانے والوں کی خواہشات کی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو بالکل پروردگار کے اس ارشاد کے مطابق ہو جاتی ہے ''جیسے آسمان سے پانی نازل ہو کر زمین کے نباتات میں شامل ہو جائے اور پھر اس کے بعد وہ سبزہ سوکھ کر ایسا تنکا ہو جائے جسے ہوائیں اڑا لے جائیں اورخدا ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے '' اس دنیا میں کوئی شخص خوش نہیں ہوتا ہے مگر یہ کہ اسے بعد میں آنسو بہانا پڑے اور کوئی اس کی خوشی کو آتے نہیں دیکھتا ہے مگر یہ کہ وہ مصیبت میں ڈال کر پیٹھ دکھلا دیتی ہے اور کہیں راحت و آرام کی ہلکی بارش نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ بلائوں کا دوگڑا گرنے لگتا ہے۔اس کی شان ہی یہ ہے کہ اگر صبح کو کسی طرف سے بدلہ لینے کے لئے آتی ہے تو شام ہوتے ہوتے انجان بن جاتی ہے اور اگر ایک طرف سے شیریں اور خوش گوار نظر آتی ہے تو دوسرے رخ سے تلخ اور بلا خیز ہوتی ہے۔کوئی انسان اس کی تازگی سے اپنی خواہش پوری نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ اس کے پے درپے مصائب کی بناپر رنج و تعب کا شکار ہو جاتا ہے

(۱)بعض نادانوں کا خیال ہے کہ جب دنیا باقی رہنے والی نہیں ہے اور اس کی شب و روز کا اعتبار نہیں ہے توبہترین بات یہ ہے کہ جس قدر حاصل ہو جائے انسان حاصل کرلے اوراس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو جائے کہ کہیں دوسرے دن ہاتھ سے نکل نہ جائے۔لیکن یہ خیال انہیں لوگوں کا ہے جو آخرت کی طرف سے یکسر غافل ہیں اور انہیں اس لطف اندوزی کے انجام کی خبر نہیں ہے ورنہ اس نکتہ کی طرف متوجہ ہو جاتے تو مار گزیدہ کی طرح تڑپنے کو بستر حریر پر آرام کرنے سے زیادہ پسند کرتے اور مفلس ترین زندگی گزارنے ہی کو عافیت و آرام تصور کرتے۔

۱۹۹

وحَرِيٌّ إِذَا أَصْبَحَتْ لَه مُنْتَصِرَةً - أَنْ تُمْسِيَ لَه مُتَنَكِّرَةً - وإِنْ جَانِبٌ مِنْهَا اعْذَوْذَبَ واحْلَوْلَى - أَمَرَّ مِنْهَا جَانِبٌ فَأَوْبَى - لَا يَنَالُ امْرُؤٌ مِنْ غَضَارَتِهَا رَغَباً - إِلَّا أَرْهَقَتْه مِنْ نَوَائِبِهَا تَعَباً - ولَا يُمْسِي مِنْهَا فِي جَنَاحِ أَمْنٍ - إِلَّا أَصْبَحَ عَلَى قَوَادِمِ خَوْفٍ - غَرَّارَةٌ غُرُورٌ مَا فِيهَا فَانِيَةٌ - فَانٍ مَنْ عَلَيْهَا - لَا خَيْرَ فِي شَيْءٍ مِنْ أَزْوَادِهَا إِلَّا التَّقْوَى - مَنْ أَقَلَّ مِنْهَا اسْتَكْثَرَ مِمَّا يُؤْمِنُه - ومَنِ اسْتَكْثَرَ مِنْهَا اسْتَكْثَرَ مِمَّا يُوبِقُه - وزَالَ عَمَّا قَلِيلٍ عَنْه - كَمْ مِنْ وَاثِقٍ بِهَا قَدْ فَجَعَتْه - وذِي طُمَأْنِينَةٍ إِلَيْهَا قَدْ صَرَعَتْه - وذِي أُبَّهَةٍ قَدْ جَعَلَتْه حَقِيراً - وذِي نَخْوَةٍ قَدْ رَدَّتْه ذَلِيلًا - سُلْطَانُهَا دُوَّلٌ وعَيْشُهَا رَنِقٌ - وعَذْبُهَا أُجَاجٌ وحُلْوُهَا صَبِرٌ - وغِذَاؤُهَا سِمَامٌ وأَسْبَابُهَا رِمَامٌ - حَيُّهَا بِعَرَضِ مَوْتٍ - وصَحِيحُهَا بِعَرَضِ سُقْمٍ - مُلْكُهَا مَسْلُوبٌ - وعَزِيزُهَا مَغْلُوبٌ - ومَوْفُورُهَا مَنْكُوبٌ - وجَارُهَا مَحْرُوبٌ - أَلَسْتُمْ فِي مَسَاكِنِ -

اور کوئی شخص شام کو امن و امان کے پروں پر نہیں رہتا ہے مگر یہ کہ صبح ہوتے ہوتے خوف کے بال و پر پر لاد دیا جاتا ہے۔یہ دنیا دھوکہ باز ہے اور اس کے اندر جوکچھ ہے سب دھوکہ ہے۔یہ فانی ہے اور اس میں جو کچھ ہے سب فنا ہونے والا ہے۔اس کے کسی زاد راہ میں کوئی خیر نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔اس میں سے جو کم حاصل کرتا ہے اسی کوراحت زیادہ نصیب ہوتی ہے اور جو زیادہ کے چکر میں پڑ جاتا ہے اس کے مہلکات بھی زیادہ ہو جاتے ہیں اور یہ بہت جلد اس سے الگ ہو جاتی ہے۔کتنے اس پراعتبار کرنے والے ہیں جنہیں اچانک مصیبتوں میں ڈال دیا گیا اورکتنے اس پر اطمینان کرنے والے ہیں جنہیں ہلاک کردیا گیا اور کتنے صاحبان حیثیت تھے جنہیں ذلیل بنا دیا گیا اور کتنے اکڑنے وہالے تھے جنہیں حقارت کے ساتھ پلٹا دیا گیا۔اس کی بادشاہی پلٹا کھانے والی۔اس کا عیش مکدر۔اس کا شیریں شور۔اس کا میٹھا کڑوا ۔اس کی غذاز ہر آلود اور اس کے اسباب سب بوسیدہ ہیں۔اس کا زندہ معرض ہلاکت میں ہے اور اس کا صحت مند بیماریوں کی زد پر ہے ۔اس کا ملک چھننے والا ہے اور اس کا صاحب عزت مغلوب ہونے والا ہے۔اس کا مالدار بد بختیوں کا شکار ہونے والا ہے اور اس کا ہمسایہ لٹنے والا ہے۔کیا تم انہیں کے گھروں(۱) میں نہیں ہو

(۱) دنیا سے عبرت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ خود اس کی تاریخ ہے کہ اس نے آج تک کسی سے وفا نہیں کی ہے۔اس کا ایک پیسہ بھی اس وقت تک کام نہیں آتا ہے جب تک مالک سے جدا نہیں ہو جاتا ہے اور اس کی سلطنت بھی اپنے سلطان کو فشار قبر سے نجات دینیوالی نہیں ہے۔ایسے حالات میں تاریخی حوادث سے آنکھ بند کر لینا جہالت کے ماسواکچھ نہیں ہے اور صاحب علم و عقل وہی ہے جو ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھائے۔

۲۰۰

اس سلسلے میں امام صادق ـفرماتے ہیں :

وکل حدیث لایوافق کتاب اللّه فهو زخرف .( ۱ )

ہر وہ کلام جو کتاب خدا سے مطابقت نہ رکھتا ہو وہ باطل ہے.

اسی طرح امام صادق ـنے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں نقل کیا ہے:

أیّها الناس ماجائکم عن یوافق کتاب اللّه فأنا قلته وماجاء کم یخالف کتاب اللّه فلم أقله ( ۲ )

اے لوگو! ہر وہ کلام جو میری طرف سے تم تک پہنچے اگر وہ کتاب خدا کے مطابق ہو تو وہ میرا قول ہے لیکن اگر تم تک پہنچنے والا کلام کتاب خدا کا مخالف ہو تو وہ میرا قول نہیں ہے.

ان دو حدیثوں سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ شیعوں کے ائمہ ٪ کی نگاہ میں احکام شرعی کو حاصل کرنے کے لئے کتاب خدا محکم ترین ماخذ شمار ہوتی ہے.

____________________

(۱)اصول کافی، جلد۱ ، کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنة و شواہد الکتاب ، حدیث ۳.

(۲) گذشتہ حوالہ حدیث ۵.

۲۰۱

سنت

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول و فعل اور کسی کام کے سلسلے میں

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تائید کو سنت کہتے ہیں اسے شیعوں کی فقہ کا دوسرا ماخذ شمار کیا جاتا ہے سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نقل کرنے والے ائمہ معصومین٪ ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علوم کے خزینہ دار ہیں

البتہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند دوسرے طریقوں سے نقل ہونے والے ارشادات کو بھی شیعہ قبول کرتے ہیں .یہاں پرضروری ہے کہ ہم دو چیزوں کے متعلق بحث کریں :

سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کی دلیلیں: شیعوں کے ائمہ ٪ نے اپنی پیروی کرنے والوں کوجس طرح قرآن مجید پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح انہوں نے سنت نبوی کی پیروی کرنے کی بھی تاکید کی ہے اور ہمیشہ اپنے ارشادات میں ان دونوں سے تمسک اختیار کرنے کا حکم دیا ہے امام صادق ـ فرماتے ہیں :

اِذا ورد علیکم حدیث فوجدتم له شاهدًا من کتاب اللّه أو من قول رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واِلا فالذى جائکم به أولیٰ به .( ۱ )

جب کوئی کلام تم تک پہنچے تو اگر تمہیں کتاب خدا یا سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کی تائید حاصل ہوجائے تو اسے قبول کرلینا ور نہ وہ کلام

بیان کرنے والے ہی کو مبارک ہو

____________________

(۱)اصول کافی جلد۱ کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنہ و شواھد الکتاب حدیث ۲.

۲۰۲

اسی طرح امام محمدباقر ـ نے ایک جامع الشرائط فقیہ کے لئے سنت نبی اکرم سے تمسک کو اہم ترین شرط قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا ہے:

اِنّ الفقیه حق الفقیه الزاهد ف الدنیا والراغب فى الآخرة المتمسک بسنّة النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( ۱ )

بے شک حقیقی فقیہ وہ ہے جو دنیا سے رغبت نہ رکھتا ہو اور آخرت کا اشتیاق رکھتا ہو ، نیز سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک رکھنے والا ہو.

ائمہ معصومین ٪ نے اس حد تک سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید فرمائی ہے کہ وہ کتاب خدا اور سنت نبوی کی مخالفت کو کفر کی اساس قرار دیتے ہیں اس سلسلے میں امام صادق ـ یوں فرماتے ہیں :

مَن خالف کتاب اللّه وسنّة محمّد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقد کفر .( ۲ )

جس شخص نے کتاب خدا اور سنت محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کی وہ کافر ہوگیا

اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے بقیہ فرقوں کی بہ نسبت نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اسی طرح بعض لوگوں کایہ نظریہ بھی باطل ہوجاتا ہے کہ شیعہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت سے بیگانہ اور دور ہیں

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ حدیث ۸

(۲) گذشتہ حوالہ حدیث ۶

۲۰۳

احادیث اہل بیت سے تمسک کے دلائل

عترت پیغمبرکی احادیث کے سلسلے میں شیعوں کے نظریہ کی وضاحت کے لئے ضروری ہے کہ ہم ذیل کے دو موضوعات پر گفتگو کریں :

الف: ائمہ معصومین کی احادیث کی حقیقت.

ب:اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل اب ہم یہاں ان دو موضوعات کے سلسلے میں مختصر طور پر تحقیقی گفتگو کریں گے :

عترت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کی حقیقت

شیعوںکے نکتہ نظر سے فقط خداوندحکیم ہی انسانوں کے لئے شریعت قرار دینے اور قانون وضع کرنے کا حق رکھتا ہے اور اس کی طرف سے یہ شریعت اور قوانین پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ لوگوں تک پہنچتے ہیں واضح ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور انسانوں کے درمیان وحی کے ذریعہ حاصل ہونے والی شریعت کے پہنچانے کے لئے واسطے کی ذمہ داری کو نبھاتے ہیں اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے اگر شیعہ اہل بیت ٪ کی احادیث کو اپنی فقہ کے ماخذ میں شمار کرتے ہیں تو ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہل بیت ٪ کی احادیث سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقابلے میں کوئی مستقل حیثیت رکھتی ہیں بلکہ احادیث اہل بیت ٪ اس وجہ سے معتبر ہیں کہ وہ سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بیان کرتی ہیں

۲۰۴

اس اعتبارسے ائمہ معصومین ٪ کبھی بھی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں فرماتے بلکہ جو کچھ وہ فرماتے ہیں وہ در حقیقت سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کی وضاحت ہوتی ہے یہاں پر ہم اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ائمہ معصومین ٪ کی چند روایات پیش کریں گے :

۱۔امام صادق ـ نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں یوں فرمایاہے:

مهما أجبتک فیه بشء فهو عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لسنا نقول برأینا من شئ .( ۱ )

اس سلسلے میں جو جواب میں نے تمہیں دیا ہے وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ہے ہم کبھی بھی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے :اور ایک مقام پر یوں فرماتے ہیں :

حدیث حدیث أب ، و حدیث أب حدیث جد و حدیث جد حدیث الحسین وحدیث الحسین حدیث الحسن و حدیث الحسن حدیث أمیرالمؤمنین ، و حدیث أمیر المؤمنین حدیث رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و حدیث رسول اللّه قول اللّه عزّ وجلّ .( ۲ )

میری حدیث میرے والد (امام باقر ـ)کی حدیث ہے ،

____________________

(۱)جامع الاحادیث الشیعہ جلد۱ ص ۱۲۹

(۲) گذشتہ حوالہ ص ۱۲۷

۲۰۵

اور میرے والد کی حدیث میرے دادا (امام زین العابدین ـ) کی حدیث ہے اور میرے دادا کی حدیث امام حسین ـ کی حدیث ہے اور امام حسین ـ کی حدیث امام حسن ـ کی حدیث ہے اور امام حسن ـ کی حدیث امیر المومنین ـ کی حدیث ہے اور امیر المومنین ـکی حدیث رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث خداوندمتعال کا قول ہے

۲۔امام محمد باقر ـنے جابر سے یوں فرمایا تھا :

حدثنى أبى عن جد رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عن جبرائیل ـ عن اللّه عزّوجلّ و کلما أحدّثک بهذا الأسناد .( ۱ )

میرے پدربزرگوار نے میرے دادا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اور انہوں نے جبرئیل سے اور انہوں نے خداوندعالم سے روایت کی ہے اور جو کچھ میں تمہارے لئے بیان کرتا ہوں ان سب کا سلسلہ سند یہی ہوتا ہے.

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ ص۱۲۸

۲۰۶

اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل

شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے محدثین اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

نے بھی میراث کے طور پر اپنی امت کے لئے دو قیمتی چیزیں چھوڑی ہیں اور تمام مسلمانوں کو ان کی پیروی کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک کتاب خدا ہے اور دوسرے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ہیں یہاں ہم نمونے کے طور پر ان روایات میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

۱۔ ترمذی نے اپنی کتاب صحیح میں جابر بن عبداللہ انصاری سے اور انہوں نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے :

یاأیّها النّاس اِنّ قد ترکت فیکم ما اِن أخذتم به لن تضلّوا : کتاب اللّه و عترتى أهل بیتى .( ۱ )

اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم ان سے متمسک رہے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب خدا اور میری عترت ہیں

۲۔اسی طرح ترمذی نے اپنی کتاب صحیح میں یہ حدیث نقل کی ہے :

قال رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اِنىّ تارک فیکم ما اِن تمسکتم به لن تضلّوا بعد أحدهما أعظم من الآخر : کتاب اللّه حبل ممدود من السماء اِلیٰ الأرض و عترتى أهل بیتى ولن یفترقا حتیٰ یردا

____________________

(۱)صحیح ترمذی ، کتاب المناقب ، باب مناقب اہل بیت النبی جلد۵ ص ۶۶۲ حدیث ۳۷۸۶ طبع بیروت.

۲۰۷

علّى الحوض فانظروا کیف تخلفون فیهما .( ۱ )

میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان دو چیزوں میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے ، کتاب خدا ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک آویزاں ہے اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں لہذا یہ دیکھنا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہو.

۳۔مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے:

ألا أیّها النّاس فاِنّما أنا بشر یوشک أن یأت رسول ربّ فأجیب و أنا تارک فیکم ثقلین أولهما کتاب اللّه فیه الهدیٰ والنور فخدوا بکتاب اللّه واستمسکوا به فحثّ علیٰ کتاب اللّه و رغّب فیه ثم قال : أهل بیت أذکرکم اللّه ف أهل بیت أذکرکم اللّه ف أهل بیت أذکرکم اللّه ف أهل بیت. ( ۲ )

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ ص ۶۶۳ حدیث ۳۷۸۸.

(۲)صحیح مسلم جز ۷ فضائل علی ابن ابی طالب ص ۱۲۲ اور ۱۲۳.

۲۰۸

اے لوگو!بے شک میں ایک بشر ہوںاور قریب ہے کہ میرے پروردگار کا بھیجا ہوا نمائندہ آئے اور میں اسکی دعوت قبول کروں اور میں تمہارے درمیان دو وزنی چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک کتاب خدا ہے جس میں ہدایت اور نور ہے کتاب خدا کو لے لو اور اسے تھامے رکھو اور پھر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کتاب خدا پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور اس کی جانب رغبت دلائی اور اس کے بعد یوں فرمایا اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور میں تمہیں اپنے اہل بیت کے سلسلے میں وصیت و تاکید کرتا ہوں اور اس جملے کو تین مرتبہ دہرایا

۴۔بعض محدثین نے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے:

اِنّى تارک فیکم الثقلین کتاب اللّه و أهل بیتى و اِنّهما لن یفترقا حتیٰ یردا علىّ الحوض ( ۱ )

بے شک! میں تمہارے درمیان دووزنی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں

____________________

(۱)مستدرک حاکم جز ۳ ص ۱۴۸ ، الصواعق المحرقہ باب ۱۱ فصل اول ص ۱۴۹ اس مضمون کے قریب بعض

درج ذیل کتابوں میں بھی روایات موجود ہیں .مسنداحمد جز ۵ ص۱۸۲اور ۱۸۳۔کنز العمال ،جز اول باب الاعتصام بالکتاب والسنة ص ۴۴.

۲۰۹

یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس سلسلے میں اتنی زیادہ حدیثیں موجود ہیں کہ ان سب کا اس مختصر کتاب میں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے.علامہ میرحامد حسین نے اس روایت کے سلسلۂ سند کو اپنی چھ جلدوں والی کتاب (عبقات الانوار) میں جمع کر کے پیش کیا ہے.

گذشتہ احادیث کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ کتاب خدا اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک اور ان کی پیروی بھی اسلام کے ضروریات میں سے ہے.

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عترت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مراد کون افراد ہیں کہ جن کی پیروی کو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے ؟

اس مسئلے کی وضاحت کے لئے ہم احادیث کی روشنی میں عترت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلے میں تحقیق پیش کرنا چاہیں گے:

اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ؟

گذشتہ روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب مسلمانوں کو اپنی عترت کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور کتاب خدا کی طرح انہیں بھی لوگوں کا مرجع قرار دیا ہے اور صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ ''قرآن اور عترت ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے'' اس بنیاد پر اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ ہیں کہ جنہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن مجید کا ہم پلہ قرار دیا ہے اور جو معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ معارف اسلامی سے مکمل طور پر آگاہی رکھتے ہیں .کیونکہ اگر وہ ان صفات کے مالک نہ ہوں تو قرآن مجید سے جدا ہو جائیں گے جبکہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ : قرآن اور عترت ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں اس طرح یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اہل بیت ٪ اور ان کی اعلی صفات کی صحیح طور پر شناخت ایک ضروری امر ہے اب ہم اس سلسلے میں مسلمانوں کے درمیان بزرگ سمجھنے جانے والے محدثین سے منقول روایات کی روشنی میں چند واضح دلیلیں پیش کریں گے :

۲۱۰

۱۔ مسلم بن حجاج نے حدیث ثقلین کا ذکر کرنے کے بعد یوں کہا ہے کہ:

''یزید بن حیان نے زید بن ارقم سے پوچھا اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ؟ کیا وہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں ہیں ؟'' زید بن ارقم نے جواب دیا :

لا و أیم اللّه اِنّ المرأه تکون مع الرجل العصر من الدهر ثم یطلّقها فترجع اِلیٰ أبیها و قومها أهل بیته أصله و عصبته الذین حرموا الصدقة بعده. ( ۱ )

نہیں خدا کی قسم عورت جب ایک مدت تک کسی مرد کے ساتھ رہتی ہے اور پھر وہ مرد اسے طلاق دے دیتاہے تو وہ عورت اپنے باپ اور رشتے داروں کے پاس واپس چلی جاتی ہے اہل بیت

____________________

(۱)صحیح مسلم جز ۷ باب فضائل علی بن ابی طالب ـ ،ص ۱۳۲طبع مصر.

۲۱۱

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مراد وہ افراد ہیں جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصلی اور قریبی رشتہ دار ہیں کہ جن پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد صدقہ حرام ہے.

یہ قول بخوبی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ وہ عترت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جن سے تمسک قرآن کی پیروی کی طرح واجب ہے ان سے ہرگز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں مراد نہیں ہیں بلکہ اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہ افراد مراد ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جسمانی اور معنوی رشتہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر چندخاص صلاحتیں بھی پائی جاتی ہوں.تبھی تو وہ قرآن مجید کی طرح مسلمانوں کا مرجع قرار پاسکتے ہیں

۲۔پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف اہل بیت ٪ کے اوصاف بیان کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کی تھی بلکہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی تعداد (جو کہ بارہ ہے)کو بھی صاف لفظوں میں بیان کردیا تھا :

مسلم نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ہے:

سمعت رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول: لایزال الاِسلام عزیزًا اِلیٰ اثن عشر خلیفة ثم قال کلمة لم أفهمها فقلت لأب ماقال ؟ فقال: کلهم من قریش .( ۱ )

میں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام کو بارہ خلفاء کے ذریعہ عزت حاصل ہوگی اور پھر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی لفظ

____________________

(۱)صحیح مسلم جلد ۶ ص۳ طبع مصر.

۲۱۲

کہا جسے میں نہیں سمجھ سکا لہذا میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا فرمایا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ سب خلفاء قریش میں سے ہوں گے

مسلم بن حجاج نے اسی طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت بھی نقل کی ہے :

لایزال أمر الناس ماضیًا ماولیهم اثنا عشر رجلاً .( ۱ )

لوگوں کے امور اس وقت تک بہترین انداز میں گزریں گے جب تک ان کے بارہ والی رہیں گے.

یہ دو روایتیں شیعوں کے اس عقیدے کی واضح گواہ ہیں '' کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد عالم اسلام کے بارہ امام ہی لوگوں کے حقیقی پیشوا ہیں '' کیونکہ اسلام میں ایسے بارہ خلفاء جو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بلافاصلہ مسلمانوں کے مرجع اور عزت اسلام کا سبب بنے ہوں ، اہل بیت کے بارہ اماموں کے علاوہ نہیں ملتے کیونکہ اگر اہل سنت کے درمیان خلفاء راشدین کہے جانے والے چار خلفاء سے صرف نظر کرلیا جائے پھر بھی بنی امیہ اور بنی عباس کے حکمرانوں کی تاریخ اس بات کی بخوبی گواہی دیتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے برے کردار کی وجہ سے اسلام اور مسلمین کی رسوائی کا سبب بنتے رہے ہیں اس اعتبار سے وہ (اہل بیت)کہ جنہیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن مجید کا ہم پلہ اور مسلمانوں کا مرجع

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ.

۲۱۳

قرار دیا ہے وہ عترت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وہی بارہ امام ہیں جو سنت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے محافظ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علوم کے خزینہ داررہے ہیں

۳۔حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالبـ کی نگاہ میں بھی مسلمانوں کے ائمہ کو بنی ہاشم سے ہونا چاہیے یہ بات شیعوں کے اس نظرئیے (کہ اہل بیت کی شناخت حاصل کرنا ضروری ہے) پر ایک اور واضح دلیل ہے حضرت امام علی ـ فرماتے ہیں :

اِنّ الأئمة من قریش غرسوا ف ھذا البطن من بن ہاشم لاتصلح علیٰ مَن سواھم ولا تصلح الولاة من غیرھم۔( ۱ )

یاد رکھو قریش کے سارے امام جناب ہاشم کی اسی کشت زار میں قرار دئیے گئے ہیں اور یہ امامت نہ ان کے علاوہ کسی کو زیب دیتی ہے اور نہ ان سے باہر کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے.

نتیجہ:

گزشتہ روایات کی روشنی میں دو حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں :

۱۔قرآن مجید کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اہل بیت ٪ سے تمسک اور ان کی پیروی بھی واجب ہے

۲۔پیغمبر اسلام کے اہل بیت جو قرآن مجید کے ہم پلہ اور مسلمانوں کے مرجع ہیں مندرجہ ذیل خصوصیات کے مالک ہیں :

____________________

(۱)نہج البلاغہ (صبحی صالح)خطبہ ۱۴۴.

۲۱۴

الف:وہ سب قبیلۂ قریش اور بنی ہاشم کے خاندان میں سے ہیں

ب:وہ سب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایسے رشتہ دار ہیں جن پر صدقہ حرام ہے

ج:وہ سب عصمت کے درجے پر فائز ہیں ورنہ وہ عملی طور پر کتاب خدا سے جدا ہوجائیں گے جبکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ دونوں(قرآن و عترت) ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں گے

د:ان کی تعداد بارہ ہے جو یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے امام ہوں گے.

ھ:پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یہ بارہ خلفاء اسلام کی عزت و شوکت کا سبب بنیںگے.

گذشتہ روایات میں موجود اوصاف کو مدنظر رکھنے سے یہ بات آفتاب کی مانند روشن ہوجاتی ہے کہ وہ اہل بیت جن کی پیروی کا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایا ہے ان سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد وہی بارہ ائمہ٪ ہیں جن کی پیروی کرنے اور احکام فقہ میں ان سے تمسک اختیار کرنے کو شیعہ اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں ۔

۲۱۵

انتیسواں سوال

کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ؟

جواب:حضرت علی ـ کے والد ماجد، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا جناب ابوطالب بن عبدالمطلب شیعوں کے عقیدے کے مطابق نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر مکمل ایمان رکھتے تھے اور وہ صدر اسلام کی تمام سختیوں اور مشکلات میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب سے بڑے حامی و ناصر تھے.

خاندان جناب ابوطالب

جناب ابوطالب نے ایسے گھر میں آنکھ کھولی جس کی سرپرستی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جد امجد دین ابراہیمی کے پیرو جناب عبدالمطلب کے ہاتھوں میں تھی جزیرۂ عرب کی تاریخ میں معمولی غور و فکر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جناب عبدالمطلب اپنی زندگی کے سخت ترین حالات اور پر خطر مراحل کے دوران بھی خدا پرستی اور آئین توحید کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوئے تھے.

جس وقت ابرہہ کا لشکر ہاتھیوں پر بیٹھ کر خانہ کعبہ کو ویران کرنے کے قصد سے مکہ کی طرف آرہا تھا تو اس نے راستے میں جناب عبدالمطلب کے اونٹوں کو پکڑلیا

۲۱۶

تھا اور جس وقت جناب عبدالمطلب اپنے اونٹوں کے مطالبے کے لئے ابرھہ کے پاس پہنچے تو اس نے بڑے ہی تعجب کے ساتھ ان سے پوچھا کہ آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا مطالبہ تو کیا لیکن مجھ سے یہاں سے واپس جانے اور خانہ کعبہ کو ویران نہ کرنے کا مطالبہ نہیں کیا ؟ اس وقت جناب عبدالمطلب نے اپنے ایمان و اعتقاد پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے یہ جواب دیا تھا :

أنا ربّ الاِبل وللبیت ربّ یمنعه (یحمیه) .( ۱ )

میں اونٹوں کا مالک ہوںاور اس گھر (خانہ کعبہ) کا بھی مالک موجود ہے جو خود اس کی حفاظت و حمایت کرے گا

اس کے بعدجناب عبدالمطلب مکہ کی طرف روانہ ہوگئے پھر مکہ میں خانہ کعبہ کے دروازے کی کنڈی پکڑ کر یوں کہا :

یا ربّ لاأرجو لهم سواکا

یاربّ فامنع منهم حماکا

اِن عدوالبیت مَن عاداکا

امنعهم أن یُخرّبوا فناکا( ۲ )

____________________

(۱)کامل ابن اثیر جلد ۱ ص ۲۶۱ طبع مصر ، ۱۳۴۸ھ.

(۲) گذشتہ حوالہ.

۲۱۷

اے پروردگارمیں تیرے سوا کسی سے امید نہیں رکھتا پروردگارا!تو خود ان دشمنوں کے مقابلے میں اپنے حرم کی حفاظت فرما.

اس گھرکے دشمن تجھ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں انہیں روک دے تاکہ تیرے گھر کو ویران نہ کرسکیں

اس قسم کے بلند پایہ اشعار جناب عبدالمطلب کے مومن اور خدا پرست ہونے کے واضح گواہ ہیں اسی وجہ سے یعقوبی نے اپنی تاریخ کی کتاب میں جناب عبدالمطلب کے متعلق یوں تحریر کیا ہے:

رفض عبادة الأصنام و وحّد اللّه عزّ وجلّ .( ۱ )

عبدالمطلب نے بتوں کی پوجا سے انکار کیا تھا اور آپ خدا کے موحد بندے تھے

آئیے اب یہ دیکھا جائے کہ اس مومن اور خدا پرست شخصیت کی نگاہ میں ان کے بیٹے ابوطالب کی کیا منزلت تھی؟

عبدالمطلب کی نگاہ میں ابوطالب

تاریخ شاہد ہے کہ بعض روشن ضمیر نجومیوں نے جناب عبدالمطلب کو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روشن مستقبل اور ان کی نبوت سے باخبر کردیا تھا جس وقت ''سیف بن ذی یزان''

____________________

(۱)تاریخ یعقوبی جلد۲ ص ۷ طبع مصر.

۲۱۸

نے حکومت حبشہ کی باگ ڈور سنبھالی تو جناب عبدالمطلب ایک وفد کے ہمراہ حبشہ تشریف لے گئے اس وقت ''سیف بن ذی یزان'' نے ایک اہم خطاب کے بعد جناب عبدالمطلب کو یہ خوشخبری دی ''آپ کے خاندان میں ایک عظیم القدر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشریف لاچکے ہیں '' اس کے بعد اس نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خصوصیات یوں بیان کئے:

اسمه محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یموت أبوه و أمه و یکفله جدّه و عمّه .( ۱ )

انکا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے انکے ماں باپ کا (جلد ہی) انتقال ہوجائے گااور ان کی سرپرستی ان کے دادا اور چچا کریں گے

اس وقت اس نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صفات بیان کرتے ہوئے یہ جملے بھی کہے تھے :

یعبد الرّحمٰن و یدحض الشیطان و یخمدالنیران و یُکسّر الأوثان قوله فصل و حکمه عدل و یأمر بالمعروف و یفعله و ینهیٰ عن المنکر و یبطله .( ۲ )

وہ خدائے رحمن کی عبادت کریں گے، شیطان کے دام میں نہیں آئیں گے، جہنم کی آگ کو بجھائیں گے اور بتوں کو توڑیں

____________________

(۱)سیرہ حلبی جلد۱طبع مصر ص ۱۳۶، ۱۳۷ ،اور طبع بیروت ص ۱۱۴۔۱۱۵.

(۲) گذشتہ حوالہ.

۲۱۹

گے .ان کا قول حق و باطل میں جدائی کا میزان ہوگا وہ دوسروں کو نیکی کا حکم دیں گے اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں گے وہ دوسروں کو برائی سے روکیں گے اور اسے باطل قرار دیں گے

اور پھر اس نے جناب عبدالمطلب سے کہا :

اِنک لجده یا عبدالمطلب غیر کذب ( ۱ )

اے عبدالمطلب اس میں کوئی جھوٹ نہیں کہ آپ ان کے دادا ہیں

جناب عبدالمطلب نے جب یہ خوشخبری سنی تو سجدہ شکر بجالائے اور پھر اس بابرکت مولود کے احوال کو یوں بیان کیا:

اِنّه کان لى ابن و کنت به معجبًا وعلیه رقیقاً وا ِنّ زوجته کریمة من کرائم قوم آمنة بنت وهب بن عبدمناف ابن زهره فجاء ت بغلام فسمّیته محمدًا مات أبوه و أمه و کفلته أنا و عمّه (یعنی أباطالب) .( ۲ )

میرا ایک بیٹا تھا جس سے مجھے بہت زیادہ محبت تھی میں نے اس کی شادی اپنے شرافتمند رشتہ داروں میں سے ایک نیک سیرت خاتون ''آمنہ'' بنت وہب بن عبدمناف سے کی تھی اس

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ.

(۲)سیرہ حلبی جلد۱ ص ۱۳۷ طبع مصر.

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863