نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657060 / ڈاؤنلوڈ: 15926
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

أَلَا وإِنَّ لِكُلِّ دَمٍ ثَائِراً - ولِكُلِّ حَقٍّ طَالِباً - وإِنَّ الثَّائِرَ فِي دِمَائِنَا كَالْحَاكِمِ فِي حَقِّ نَفْسِه - وهُوَ اللَّه الَّذِي لَا يُعْجِزُه مَنْ طَلَبَ - ولَا

يَفُوتُه مَنْ هَرَبَ - فَأُقْسِمُ بِاللَّه يَا بَنِي أُمَيَّةَ عَمَّا قَلِيلٍ - لَتَعْرِفُنَّهَا فِي أَيْدِي غَيْرِكُمْ - وفِي دَارِ عَدُوِّكُمْ أَلَا إِنَّ أَبْصَرَ الأَبْصَارِ مَا نَفَذَ فِي الْخَيْرِ طَرْفُه أَلَا إِنَّ أَسْمَعَ الأَسْمَاعِ مَا وَعَى التَّذْكِيرَ وقَبِلَه.

وعظ الناس

أَيُّهَا النَّاسُ - اسْتَصْبِحُوا مِنْ شُعْلَةِ مِصْبَاحٍ وَاعِظٍ مُتَّعِظٍ وامْتَاحُوا مِنْ صَفْوِ عَيْنٍ قَدْ رُوِّقَتْ مِنَ الْكَدَرِ.

عِبَادَ اللَّه لَا تَرْكَنُوا إِلَى جَهَالَتِكُمْ - ولَا تَنْقَادُوا لأَهْوَائِكُمْ فَإِنَّ النَّازِلَ بِهَذَا الْمَنْزِلِ نَازِلٌ بِشَفَا جُرُفٍ هَارٍ - يَنْقُلُ الرَّدَى عَلَى ظَهْرِه مِنْ مَوْضِعٍ إِلَى مَوْضِعٍ - لِرَأْيٍ يُحْدِثُه بَعْدَ رَأْيٍ - يُرِيدُ أَنْ يُلْصِقَ مَا لَا يَلْتَصِقُ - ويُقَرِّبَ مَا لَا يَتَقَارَبُ - فَاللَّه اللَّه أَنْ تَشْكُوا إِلَى مَنْ لَا يُشْكِي شَجْوَكُمْ - ولَا يَنْقُضُ بِرَأْيِه مَا قَدْ أَبْرَمَ لَكُمْ

لیکن یاد رکھو کہ ہر خون کا ایک انتقام لینے والا اور ہرحق کا ایک طلب گار ہوتا ہے اور ہمارے خون کا منتقم گویا خود اپنے حق میں فیصلہ کرنے والا ہے اور وہ ' وہ پروردگار ہے جسے کوئی مطلوب عاجز نہیں کر سکتا ہے اور جس سے کوئی فرار کرنے والا بھاگ نہیں سکتا ہے۔میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں اے بنی امیہ کہ عنقریب تم اس دنیا کو اغیار کے ہاتھوں اوردشمنوں کے دیارمیں دیکھوگے۔آگاہ ہوجائو کہ بہترین نظر وہ ہے جو خیر میں ڈوب جائے اور بہترین کان وہ ہیں جو نصیحت کو سن لیں اور قبول کرلیں۔

(موعظہ)

لوگو! ایک با عمل نصیحت کرنے والے کے چراغ ہدایت سے روشنی حاصل کرلو اورایک ایسے صاف چشمہ سے سیراب ہو جائو جو ہر آلودگی سے پاک و پاکیزہ ہے۔

اللہ کے بندو! دیکھو اپنی جہالت کی طرف جھکائو مت پیدا کرو اور اپنی خواہشات کے غلام نہ بن جائو کہ اس منزل پرآجانے والا گویا سیلاب زدہ ادیوار کے کنارہ پر کھڑا ہے اور ہلاکتوں کو اپنی پشت پر لادے ہوئے ادھر سے ادھر منتقل ہو رہا ہے۔ان افکار کی بنا پر جو یکے بعد دیگرے ایجاد کرتا رہے گا اوران پر ایسے دلائل قائم کرے گا جو ہر گز چسپاں نہ ہوں گے اور اس سے قریب تربھی نہ ہوں گے ۔خدارا خدا کا خیال رکھو کہ اپنی فریاد اس شخص سے کرو جو اس کا ازالہ بنا کر سکے اور اپنی رائے سے حکم الٰہی کو توڑ نہ سکے۔

۱۸۱

إِنَّه لَيْسَ عَلَى الإِمَامِ إِلَّا مَا حُمِّلَ مِنْ أَمْرِ رَبِّه - الإِبْلَاغُ فِي الْمَوْعِظَةِ - والِاجْتِهَادُ فِي النَّصِيحَةِ - والإِحْيَاءُ لِلسُّنَّةِ - وإِقَامَةُ الْحُدُودِ عَلَى مُسْتَحِقِّيهَا - وإِصْدَارُ السُّهْمَانِ عَلَى أَهْلِهَا - فَبَادِرُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِ تَصْوِيحِ نَبْتِه - ومِنْ قَبْلِ أَنْ تُشْغَلُوا بِأَنْفُسِكُمْ - عَنْ مُسْتَثَارِ الْعِلْمِ مِنْ عِنْدِ أَهْلِه - وانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وتَنَاهَوْا عَنْه - فَإِنَّمَا أُمِرْتُمْ بِالنَّهْيِ بَعْدَ التَّنَاهِي

یاد رکھو امام کی ذمہ داری صرف وہ ہے جوپروردگار نے اس کے ذمہ رکھی ہے کہ بلیغ ترین موعظہ کرے۔نصیحت کی کوشش کرے سنت کو زندہ کرے۔مستحقین پر حدود کا اجرا کرے اور حقدار تک میراث کے حصے پہنچا دے ۔

دیکھو علم کی طرف سبقت کرو قبل اس کے کہ اس کا سبزہ خشک ہو جائے اورتم اسے صاحبان علم سے حاصل کرنے میں اپنے کاروبارمیں مشغول ہوجائو۔ منکرات سے رو کو اورخود بھی بچو کہ تمہیں روکنے کا حکم رکنے کے بعد دیا گیا ہے۔

۱۸۲

(۱۰۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يبين فضل الإسلام ويذكر الرسول الكريم ثم يلوم أصحابه

دين الإسلام

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي شَرَعَ الإِسْلَامَ - فَسَهَّلَ شَرَائِعَه لِمَنْ وَرَدَه - وأَعَزَّ أَرْكَانَه عَلَى مَنْ غَالَبَه - فَجَعَلَه أَمْناً لِمَنْ عَلِقَه - وسِلْماً لِمَنْ دَخَلَه - وبُرْهَاناً لِمَنْ تَكَلَّمَ بِه - وشَاهِداً لِمَنْ خَاصَمَ عَنْه - ونُوراً لِمَنِ اسْتَضَاءَ بِه وفَهْماً لِمَنْ عَقَلَ - ولُبّاً لِمَنْ تَدَبَّرَ - وآيَةً لِمَنْ تَوَسَّمَ - وتَبْصِرَةً لِمَنْ عَزَمَ - وعِبْرَةً لِمَنِ اتَّعَظَ ونَجَاةً لِمَنْ صَدَّقَ وثِقَةً لِمَنْ تَوَكَّلَ - ورَاحَةً لِمَنْ فَوَّضَ وجُنَّةً لِمَنْ صَبَرَ - فَهُوَ أَبْلَجُ الْمَنَاهِجِ وأَوْضَحُ الْوَلَائِجِ - مُشْرَفُ الْمَنَارِ مُشْرِقُ الْجَوَادِّ - مُضِيءُ الْمَصَابِيحِ كَرِيمُ الْمِضْمَارِ - رَفِيعُ الْغَايَةِ

(۱۰۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

( جس میں اسلام کی فضیلت اور رسول اسلام (ص) کاتذکرہ کرتے ہوئے اصحاب کی ملامت کی گئی ہے)

ساری تعریف اس خدا کے لئے ہے جس نے اسلام کا قانون معین کیا تو اس کے ہر گھاٹ کو وارد ہونے والے کے لئے آسان بنادیا اور اس کے ارکان کو ہر مقابلہ کرنے والے کے مقابلہ میں مستحکم بنادیا۔اس نے اس دین کو وابستگی) ۱ ( اختیار کرنے والوں کے لئے جائے امن اور اس کے دائرہ میں داخل ہو جانے والوں کے لئے محل سلامتی بنا دیا ہے۔یہ دین اپنے ذریعہ کلام کرنے والوں کے لئے برہان اور اپنے وسیلہ سے مقابلہ کرنے والوں کے لئے شاہد قرار دیا گیا ہے۔یہ وشنی حاصل کرنے والوں کے لئے نور۔سمجھنے والوں کے لئے فہم ' فکر کرنے والوں کے لئے مغز کلام 'تلاش منزل کرنے والوںکے لئے نشان منزل ' صاحبان عزم کے لئے سامان بصیرت ' نصیحت حاصل کردینے والوں کے لئیراحت اور صبر کرنے والوں کے لئے سپر ہے۔یہ بہترین راستہ اور واضح ترین داخلہ کی منزل ہے۔اس کے مینار بلند ' راستے روشن ' چراغ ضوبار'میدان عمل با وقار اور مقصد بلند ہے

(۱) اس مقام پر مولائے کائنات نے اسلام کے چودہ صفات کا تذکرہ کیا ہے اور اس میں نوع بشر کے تمام اقسام کا احاطہ کرلیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اس اسلام کے برکات سے دنیا کا کوئی انسان محروم نہیں رہ سکتا ہے اور کوئی شخص کسی طرح کے برکات کا طلبگار ہوا سے اسلام کے دامن میں اس برکت کا حصول ہو سکتا ہے اور وہ اپنے مطلوب زندگی کو حاصل کر سکتا ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ اسلام خالص ہو اور اس کی تفسیر واقعی انداز سے کی جائے ورنہ گندے گھاٹ سے پیاسا سیرواب نہیں ہو سکتا ہے اور کمزور ارکان کے سہارے پر کوئی شخص غلبہ نہیں حاصل کر سکتا ہے۔

۱۸۳

جَامِعُ الْحَلْبَةِ - مُتَنَافِسُ السُّبْقَةِ شَرِيفُ الْفُرْسَانِ - التَّصْدِيقُ مِنْهَاجُه - والصَّالِحَاتُ مَنَارُه - والْمَوْتُ غَايَتُه والدُّنْيَا مِضْمَارُه - والْقِيَامَةُ حَلْبَتُه والْجَنَّةُ سُبْقَتُه.

ومنها في ذكر النبي صلى الله عليه وآله

حَتَّى أَوْرَى قَبَساً لِقَابِسٍ - وأَنَارَ عَلَماً لِحَابِسٍ - فَهُوَ أَمِينُكَ الْمَأْمُونُ - وشَهِيدُكَ يَوْمَ الدِّينِ - وبَعِيثُكَ نِعْمَةً، ورَسُولُكَ بِالْحَقِّ رَحْمَةً - اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَه مَقْسَماً مِنْ عَدْلِكَ - واجْزِه مُضَعَّفَاتِ الْخَيْرِ مِنْ فَضْلِكَ - اللَّهُمَّ أَعْلِ عَلَى بِنَاءِ الْبَانِينَ بِنَاءَه - وأَكْرِمْ لَدَيْكَ نُزُلَه - وشَرِّفْ عِنْدَكَ مَنْزِلَه - وآتِه الْوَسِيلَةَ وأَعْطِه السَّنَاءَ والْفَضِيلَةَ - واحْشُرْنَا فِي زُمْرَتِه - غَيْرَ خَزَايَا ولَا نَادِمِينَ - ولَا نَاكِبِينَ ولَا نَاكِثِينَ - ولَا ضَالِّينَ ولَا مُضِلِّينَ ولَا مَفْتُونِينَ.

قال الشريف - وقد مضى هذا الكلام فيما تقدم إلا أننا كررناه هاهنا - لما في الروايتين من الاختلاف.

۔اس کے میدان میں تیز رفتار گھوڑوں کا اجتماع ہے اور اس کی طرف سبقت اور اسکا انعام ہر ایک کو مطلوب ہے۔اس کے شہسوار با عزت ہیں۔اس کا راستہ تصدیق خدا اور رسول (ص) ہے اور اس کا منارہ نیکیاں ہیں۔موت ایک مقصد ہے جس کے لئے دنیا گھوڑ دوڑ کا میدان ہے اور قیامت اس کے اجتماع کی منزل ہے اور پھر جنت اس مقابلہ کا انعام ہے۔

(رسول اکرم (ص))

یہاں تک کہ آپ نے ہر روشنی کے طلب گارکے لئے آگ روشن کردی اور ہر گم کردہ راہ ٹھہرے ہوئے مسافر کے لئے نشان منزل روشن کر دئیے۔ پروردگار! وہ تیرے معتبر امانت دار اور روز قیامت کے گواہ ہیں۔تو نے انہیں نعمت بنا کربھیجا اور رحمت بنا کر نازل کیا ہے۔

خدایا! تو اپنے انصاف سے ان کا حصہ عطا فرما اور پھر اپنے فضل و کرم سے ان کے خیر کو دگنا چوگنا کردے۔

خدایا! ان کی عمارت کو تمام عمارتوں سے بلند تر بنادیاور اپنی بارگاہ میں ان کی با عزت طورپر میزبانی فرما اور ان کی منزلت کو بلندی عطا فرما۔انہیں وسیلہ اور رفعت وفضیلت کرامت فرما اور ہمیں ان کے گروہ میں محشور فرما جہاں نہ رسوا ہوں اور نہ شرمندہ ہوں ' نہ حق سے منحرف ہوں نہ عہد شکن ہوں نہ گمراہ ہوں اور نہ گمراہ کن اور نہ کسی فتنہ میں مبتلا ہوں۔

سید رضی : یہ کلام اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے لیکن ہم نے اختلاف روایات کی بنا پر دوبارہ نقل کردیا ہے۔

۱۸۴

ومنها في خطاب أصحابه

وقَدْ بَلَغْتُمْ مِنْ كَرَامَةِ اللَّه تَعَالَى لَكُمْ - مَنْزِلَةً تُكْرَمُ بِهَا إِمَاؤُكُمْ - وتُوصَلُ بِهَا جِيرَانُكُمْ - ويُعَظِّمُكُمْ مَنْ لَا فَضْلَ لَكُمْ عَلَيْه - ولَا يَدَ لَكُمْ عِنْدَه - ويَهَابُكُمْ مَنْ لَا يَخَافُ لَكُمْ سَطْوَةً - ولَا لَكُمْ عَلَيْه إِمْرَةٌ - وقَدْ تَرَوْنَ عُهُودَ اللَّه مَنْقُوضَةً فَلَا تَغْضَبُونَ - وأَنْتُمْ لِنَقْضِ ذِمَمِ آبَائِكُمْ تَأْنَفُونَ - وكَانَتْ أُمُورُ اللَّه عَلَيْكُمْ تَرِدُ - وعَنْكُمْ تَصْدُرُ وإِلَيْكُمْ تَرْجِعُ - فَمَكَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِكُمْ - وأَلْقَيْتُمْ إِلَيْهِمْ أَزِمَّتَكُمْ - وأَسْلَمْتُمْ أُمُورَ اللَّه فِي أَيْدِيهِمْ - يَعْمَلُونَ بِالشُّبُهَاتِ - ويَسِيرُونَ فِي الشَّهَوَاتِ - وايْمُ اللَّه لَوْ فَرَّقُوكُمْ تَحْتَ كُلِّ كَوْكَبٍ - لَجَمَعَكُمُ اللَّه لِشَرِّ يَوْمٍ لَهُمْ!

اپنے اصحاب سے خطاب فرماتے ہوئے

تم اللہ کی دی ہوئی کرامت سے اس منزل پر پہنچ گئے جہاں تمہاری کنیزوں کا بھی احترام ہونے لگا اور تمہارے ہمسایہ سے بھی اچھابرتائو ہونے لگا۔تمہارا احترام وہ لوگ بھی کرنے لگے جن پر نہ تمہیں کوئی فضیلت حاصل تھی اور نہ ان پر تمہارا کوئی احسان تھا اور تم سے وہ لوگ بھی خوف کھانے لگے جن پر نہ تم نے کوئی حملہ کیا تھا اور نہ تمہیں کوئی اقتدار حاصل تھا۔مگر افسوس کہ تم عہد خدا کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہے ہو اور تمہیں غصہ بھی نہیں آتا ہے جب کہ تمہارے باپ دادا کے عہد کو توڑا جاتا ہے تو تمہیں غیرت آجاتی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ اللہ کے امور تم ہی پروارد ہوتے تھے۔اورتمہارے ہی پاس سے باہر نکلتے تھے اور پھر تمہاری ہی طرف پلٹ کرآتے تھے لیکن تم نے ظالموں کو اپنی منزلوں پر قبضہ دے دیا اور ان کی طرف اپنی زمام امربڑھا دی اور انہیں سارے امور سپرد کردئیے کہ وہ شبہات پر عمل کرتے ہوئے اور خواہشات میں چکر لگاتے رہتے ہیں اورخدا گواہ ہے کہ اگر یہ تمہیں ہر ستارہ کے نیچے منتشر کردیں گے تو بھی خدا تمہیں اس دن جمع کردے گا جو ظالموں کے لئے بد ترین دن ہوگا۔

۱۸۵

(۱۰۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في بعض أيام صفين

وقَدْ رَأَيْتُ جَوْلَتَكُمْ - وانْحِيَازَكُمْ عَنْ صُفُوفِكُمْ - تَحُوزُكُمُ الْجُفَاةُ الطَّغَامُ - وأَعْرَابُ أَهْلِ الشَّامِ - وأَنْتُمْ لَهَامِيمُ الْعَرَبِ - ويَآفِيخُ الشَّرَفِ - والأَنْفُ الْمُقَدَّمُ - والسَّنَامُ الأَعْظَمُ - ولَقَدْ شَفَى وَحَاوِحَ صَدْرِي - أَنْ رَأَيْتُكُمْ بِأَخَرَةٍ - تَحُوزُونَهُمْ كَمَا حَازُوكُمْ - وتُزِيلُونَهُمْ عَنْ مَوَاقِفِهِمْ كَمَا أَزَالُوكُمْ - حَسّاً بِالنِّصَالِ وشَجْراً بِالرِّمَاحِ - تَرْكَبُ أُوْلَاهُمْ - أُخْرَاهُمْ كَالإِبِلِ الْهِيمِ الْمَطْرُودَةِ - تُرْمَى عَنْ حِيَاضِهَا - وتُذَادُ عَنْ مَوَارِدِهَا.

(۱۰۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي من خطب الملاحم

(۱۰۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(صفین کی جنگ کے دوران)

میں نے تمہیں بھاگتے ہوئے اور اپنی صفوں سے منتشر ہوتے ہوئے دیکھا جب کہ تمہیں شام کے جفا کار اوباش اور دیہاتی بدو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھے حالانکہ تم عرب کے جواں مرد بہادر اور شرف کے راس و رئیس تھے۔اوراس کی اونچی ناک اور چوٹی کی بلندی والے افراد تھے۔میرے سینہ کی کراہنے کی آوازیں اس وقت دب سکتی ہیں جب میں یہ دیکھ لوں کہ تم انہیں اسی طرح اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہو جس طرح وہ تمہیں لئے ہئے تھے اور ان کو ان کے مواقف سے اس طرح ڈھکیل رہے ہو جس طرح انہوں نے تمہیں ہٹا دیا تھا کہ انہیں تیروں کی بوچھار کا نشانہ بنائے ہوئے ہو اور نیزوں کی زد پر اس طرح لئے ہوئے ہو کہ پہلی صف کو آخری صف پر الٹ رہے ہو جس طرح کہ پیاسے اونٹ ہنکائے جاتے ہیں جب انہیں تالابوں سے دور پھینک دیا جاتا ہے اورگھاٹ سے الگ کردیا جاتا ہے۔

(۱۰۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں ملاحم اور حوادث و فتن کاذکر کیا گیا ہے)

۱۸۶

اللَّه تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الْمُتَجَلِّي لِخَلْقِه بِخَلْقِه - والظَّاهِرِ لِقُلُوبِهِمْ بِحُجَّتِه - خَلَقَ الْخَلْقَ مِنْ غَيْرِ رَوِيَّةٍ - إِذْ كَانَتِ الرَّوِيَّاتُ لَا تَلِيقُ إِلَّا بِذَوِي الضَّمَائِرِ - ولَيْسَ بِذِي ضَمِيرٍ فِي نَفْسِه - خَرَقَ عِلْمُه بَاطِنَ غَيْبِ السُّتُرَاتِ - وأَحَاطَ بِغُمُوضِ عَقَائِدِ السَّرِيرَاتِ.

ومِنْهَا فِي ذِكْرِ

النَّبِيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

اخْتَارَه مِنْ شَجَرَةِ الأَنْبِيَاءِ - ومِشْكَاةِ الضِّيَاءِ وذُؤَابَةِ الْعَلْيَاءِ - وسُرَّةِ الْبَطْحَاءِ ومَصَابِيحِ الظُّلْمَةِ - ويَنَابِيعِ الْحِكْمَةِ.

فتنة بني أمية

ومنها: طَبِيبٌ دَوَّارٌ بِطِبِّه قَدْ أَحْكَمَ مَرَاهِمَه - وأَحْمَى مَوَاسِمَه يَضَعُ ذَلِكَ حَيْثُ الْحَاجَةُ إِلَيْه - مِنْ قُلُوبٍ عُمْيٍ وآذَانٍ صُمٍّ - وأَلْسِنَةٍ بُكْمٍ - مُتَتَبِّعٌ بِدَوَائِه مَوَاضِعَ الْغَفْلَةِ - ومَوَاطِنَ الْحَيْرَةِ لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِأَضْوَاءِ الْحِكْمَةِ - ولَمْ يَقْدَحُوا بِزِنَادِ الْعُلُومِ الثَّاقِبَةِ - فَهُمْ فِي ذَلِكَ كَالأَنْعَامِ السَّائِمَةِ - والصُّخُورِ الْقَاسِيَةِ.

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو اپنی مخلوقات کے سامنے تخلیقات کے ذریعہ جلوہ گر ہوتا ہے اور ان کے دلوں پر دلیلوں کے ذریعہ روشن ہوتا ہے۔اس نے تمام مخلوقات کو بغیر سوچ بچار کی زحمت کے پیدا کیا ہے کہ سوچنا صاحبان دل و ضمیر کا کام ہے اور وہ ان باتوں سے بلند تر ہے۔اس کے علم نے پوشیدہ اسرار کے تمام پردوں کو چاک کردیاہے اور وہ تمام عقائد کی گہرائیوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

(رسول اکرم (ص))

اس نے آپ کا انتخاب انبیاء کرام کے شجرہ۔روشنی کے فانوس ' بلندی کی پیشانی ' ارض بطحا کی ناف زمین ' ظلمت کے چراغوں اور حکمت کے سر چشموں کے درمیان سے کیا ہے۔

آپ وہ طبیب تھے جو اپنی طبابت کے ساتھ چکر لگا رہا ہو کہ اپنے مرہم کو درست کرلیا ہو اورداغنے کے آلات کو تپا لیاہوکہ جس اندھے دل ' بہرے کان' گونگی زبان پر ضرورت پڑے فوراً استعمال کردے۔اپنی دوا کو لئے ہوئے غفلت کے مراکز اور حیرت کے مقامات کی تلاش میں لگا ہواہو۔

فتنہ بنی امیہ

ان ظالموں نے حکمت کی روشنی سے نور حاصل نہیں کیا اور علوم کے چقماق کو رگڑ کرچنگاری نہیں پیدا کی۔اس مسئلہ میں ان کی مثال چرنے والے جانوروں اور سخت ترین پتھروں کی ہے۔

۱۸۷

قَدِ انْجَابَتِ السَّرَائِرُ لأَهْلِ الْبَصَائِرِ - ووَضَحَتْ مَحَجَّةُ الْحَقِّ لِخَابِطِهَا - وأَسْفَرَتِ السَّاعَةُ عَنْ وَجْهِهَا - وظَهَرَتِ الْعَلَامَةُ لِمُتَوَسِّمِهَا - مَا لِي أَرَاكُمْ أَشْبَاحاً بِلَا أَرْوَاحٍ - وأَرْوَاحاً بِلَا أَشْبَاحٍ - ونُسَّاكاً بِلَا صَلَاحٍ - وتُجَّاراً بِلَا أَرْبَاحٍ - وأَيْقَاظاً نُوَّماً - وشُهُوداً غُيَّباً - ونَاظِرَةً عَمْيَاءَ - وسَامِعَةً صَمَّاءَ - ونَاطِقَةً بَكْمَاءَ رَايَةُ ضَلَالٍ قَدْ قَامَتْ عَلَى قُطْبِهَا - وتَفَرَّقَتْ بِشُعَبِهَا - تَكِيلُكُمْ بِصَاعِهَا وتَخْبِطُكُمْ بِبَاعِهَا - قَائِدُهَا خَارِجٌ مِنَ الْمِلَّةِ - قَائِمٌ عَلَى الضِّلَّةِ؛فَلَا يَبْقَى يَوْمَئِذٍ مِنْكُمْ إِلَّا ثُفَالَةٌ كَثُفَالَةِ الْقِدْرِ - أَوْ نُفَاضَةٌ كَنُفَاضَةِ الْعِكْمِ - تَعْرُكُكُمْ عَرْكَ الأَدِيمِ - وتَدُوسُكُمْ دَوْسَ الْحَصِيدِ وتَسْتَخْلِصُ الْمُؤْمِنَ مِنْ بَيْنِكُمُ - اسْتِخْلَاصَ الطَّيْرِ الْحَبَّةَ الْبَطِينَةَ - مِنْ بَيْنِ هَزِيلِ الْحَبِّ.

أَيْنَ تَذْهَبُ بِكُمُ الْمَذَاهِبُ - وتَتِيه بِكُمُ الْغَيَاهِبُ وتَخْدَعُكُمُ الْكَوَاذِبُ - ومِنْ أَيْنَ تُؤْتَوْنَ - وأَنَّى تُؤْفَكُونَ - فَ( لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ )

بے شک اہل بصیرت کے لئے اسرار نمایاں ہیں اورحیران و سرگرداں لوگوں کے لئے حق کا راستہ روشن ہے۔آنے والی ساعت نے اپنے چہرہ سے نقاب کوالٹ دیا ہے اور تلاش کرنے والوں کے لئے علامتیں ظاہر ہوگئی ہیں آخر کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں بالکل بے جان پیکر اور بلا پیکر روح کی شکل میں دیکھ رہا ہوں۔تم وہ عبادت گذار ہوجو اندر سے صالح نہ ہو اور وہ تاجر ہو جس کو کوئی فائدہ نہ ہو۔وہ بیدار ہو جو خواب غفلت میں ہو اوروہ حاض ہوجو بالکل غیر حاضر ہو۔اندھی آنکھ ' بہرے کان اور گونگی زبان' گمراہی کا پرچم اپنے مرکز پرجم چکا ہے۔اور اس کی شاخیں ہر سو' پھیل چکی ہیں۔وہ تمہیں اپنے پیمانہ میں تول رہا ہے اور اپنے ہاتھوں ادھر ادھر بہکا رہا ہے۔اس کا قائد ملت سے خارج اور ضلالت پرقائم ہے۔اس دن تم سے کوئی باقی نہ رہ جائے گا مگر اس مقدار میں جتنا پتیلی کا تہ دیگ ہوتا ہے یا تھیلی کے جھاڑے ہوئے ریزے۔ یہ گمراہی تمہیں اسی طرح مسل ڈالے گی جس طرح چمڑہ مسلا جاتا ہے اور اسی طرح پامال کردے گی جس طرح کٹی ہوئی زراعت روندی جاتی ہے اورمومن خالص کو تمہارے درمیان سے اس طرح چن لے گی جس طرح پرندہ باریک دانوں سے موٹے دانوں کو نکا ل لیتا ہےآخر تم کو یہ غلط راستے کدھر لئے جا رہے ہیں اور تم اندھیروں میں کہا بہک رہے ہو اور تم کو جھوٹی امیدیں کس طرح دھوکہ دے رہی ہیں۔کدھر سے لائے جا رہے ہو اور کدھر بہکائے جا رہے ہو۔ ہر مدت کا ایک نوشتہ ہوتا ہے

۱۸۸

ولِكُلِّ غَيْبَةٍ إِيَابٌ - فَاسْتَمِعُوا مِنْ رَبَّانِيِّكُمْ - وأَحْضِرُوه قُلُوبَكُمْ - واسْتَيْقِظُوا إِنْ هَتَفَ بِكُمْ - ولْيَصْدُقْ رَائِدٌ أَهْلَه - ولْيَجْمَعْ شَمْلَه - ولْيُحْضِرْ ذِهْنَه - فَلَقَدْ فَلَقَ لَكُمُ الأَمْرَ فَلْقَ الْخَرَزَةِ - وقَرَفَه قَرْفَ الصَّمْغَةِ فَعِنْدَ ذَلِكَ أَخَذَ الْبَاطِلُ مَآخِذَه - ورَكِبَ الْجَهْلُ مَرَاكِبَه - وعَظُمَتِ الطَّاغِيَةُ وقَلَّتِ الدَّاعِيَةُ وصَالَ الدَّهْرُ صِيَالَ السَّبُعِ الْعَقُورِ - وهَدَرَ فَنِيقُ الْبَاطِلِ بَعْدَ كُظُومٍ - وتَوَاخَى النَّاسُ عَلَى الْفُجُورِ وتَهَاجَرُوا عَلَى الدِّينِ - وتَحَابُّوا عَلَى الْكَذِبِ - وتَبَاغَضُوا عَلَى الصِّدْقِ - فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ كَانَ الْوَلَدُ غَيْظاً - والْمَطَرُ قَيْظاً وتَفِيضُ اللِّئَامُ فَيْضاً وتَغِيضُ الْكِرَامُ غَيْضاً - وكَانَ أَهْلُ ذَلِكَ الزَّمَانِ ذِئَاباً - وسَلَاطِينُه سِبَاعاً وأَوْسَاطُه أُكَّالًا - وفُقَرَاؤُه أَمْوَاتاً وغَارَ الصِّدْقُ - وفَاضَ الْكَذِبُ - واسْتُعْمِلَتِ الْمَوَدَّةُ بِاللِّسَانِ - وتَشَاجَرَ النَّاسُ بِالْقُلُوبِ - وصَارَ الْفُسُوقُ نَسَباً - والْعَفَافُ عَجَباً - ولُبِسَ

اورہرغیبت کے لئے ایک واپسی ہوتی ہے لہٰذا اپنے خدا رسیدہ عالم کی بات سنو۔اس کے لئے دلوں کو حاضر کرو' وہ آواز دے تو بیدار ہو جائو۔ہر نمائندہ کو اپنی قوم سے سچ بولنا چاہیے۔اس کی پراگندگی کو جمع کرنا چاہیے۔اس کے ذہن کو حاضر رکھنا چاہیے۔اب تمہارے رہنما نے تمہارے لئے مسئلہ کواس قدر واشگاف کردیا ہے جس طرح مہرہ کو چیرا جاتا ہے اور اس طرح چھیل ڈالا ہے جس طرح گوندکھر چا جاتا ہے۔مگر اس کے باوجود باطل نے اپنا مرکز سنبھال لیا ہے اور جہل اپنے مرکب پر سوار ہوگیا ہے اور سرکشی بڑھ گئی ہے اور حق کی آواز دبگئی ہے اور زمانہ نے پھاڑ کھانے والے درندہ کی طرح حملہ کردیا ہے اور باطل کا اونٹ چپ رہنے کے بعدپھر بلبلا نے لگا ہے اور لوگوں نے فسق و فجور کی برادری قائم کرلی ہے اور سب نے مل کر دین کو نظر انداز کردیا ہے۔جھوٹ پر دوستی کی بنیادیں قائم ہوگئی ہیں اور سچائی پر ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے ہیں۔ایسے حالات میں بیٹا باپ کے لئے غیظ و غضب کا سبب ہوگا اوربارش گرمی کا باعث ہوگی۔کمینے لوگ پھیل جائیں گے اور شریف لوگ سمٹ جائیں گے۔اس دور کے عوام بھیڑئیے ہوں گے اور سلاطین درندے ۔درمیانی طبقہ والے کھانے والے اورفقراء و مساکین مردے ہوں گے۔سچائی کم ہو جائے گی اور جھوٹ پھیل جائے گا۔محبت کا استعمال صرف زبان سے ہوگا اور عداوت دلوں کے اندر پیوست ہو جائے گی۔زنا کاری نسب کی بنیاد ہوگی اور عفت ایک عجیب و غریب شے ہو جائے گی۔

۱۸۹

الإِسْلَامُ لُبْسَ الْفَرْوِ مَقْلُوباً.

(۱۰۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في بيان قدرة اللَّه وانفراده بالعظمة وأمر البعث

قدرة اللَّه

كُلُّ شَيْءٍ خَاشِعٌ لَه - وكُلُّ شَيْءٍ قَائِمٌ بِه - غِنَى كُلِّ فَقِيرٍ - وعِزُّ كُلِّ ذَلِيلٍ - وقُوَّةُ كُلِّ ضَعِيفٍ - ومَفْزَعُ كُلِّ مَلْهُوفٍ - مَنْ تَكَلَّمَ سَمِعَ نُطْقَه - ومَنْ سَكَتَ عَلِمَ سِرَّه - ومَنْ عَاشَ فَعَلَيْه رِزْقُه - ومَنْ مَاتَ فَإِلَيْه مُنْقَلَبُه - لَمْ تَرَكَ الْعُيُونُ فَتُخْبِرَ عَنْكَ - بَلْ كُنْتَ قَبْلَ الْوَاصِفِينَ مِنْ خَلْقِكَ - لَمْ تَخْلُقِ الْخَلْقَ لِوَحْشَةٍ - ولَا اسْتَعْمَلْتَهُمْ لِمَنْفَعَةٍ - ولَا يَسْبِقُكَ مَنْ طَلَبْتَ - ولَا يُفْلِتُكَ مَنْ أَخَذْتَ - ولَا يَنْقُصُ سُلْطَانَكَ مَنْ عَصَاكَ - ولَا يَزِيدُ فِي مُلْكِكَ مَنْ أَطَاعَكَ - ولَا يَرُدُّ أَمْرَكَ مَنْ سَخِطَ قَضَاءَكَ - ولَا يَسْتَغْنِي عَنْكَ مَنْ تَوَلَّى عَنْ أَمْرِكَ - كُلُّ سِرٍّ عِنْدَكَ عَلَانِيَةٌ

اسلام یوں الٹ دیا جائے گا جیسے کوئی پوستین کو الٹا پہن لے ۔

(۱۰۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(قدرت خدا عظمت الٰہی اور روز محشر کے بارے میں)

ہرشے اس کی بارگاہ میں سر جھکائے ہوئے ہے اور ہر چیز اسی کے دم سے قائم ہے۔وہ ہر فقیر کی دولت کا سہارا اور ہر ذلیل کی عزت کا آسرا ہے۔ہر کمزور کی طاقت وہی ہے اور ہرفریادی کی پناہ گاہ وہی ہے۔وہ ہر بولنے والے کے نطق کو سن لیتا ہے۔اور ہر خاموش رہنے والے کے راز کو جانتا ہے۔جو زندہ ہے اس کارزق اس کے ذمہ ہے اور جو مرگی اس کی باز گشت اسی کی طرف ہے۔

خدایا! آنکھوں نے تجھے دیکھا نہیں ہے کہ تیرے بارے میں خبردے سکیں۔تو تمام توصیف کرنے والی مخلوقات کے پہلے سے ہے۔تونے مخلوقات کو تنہائی کی وحشت کی بنا پر نہیں خلق کیا ہے اور نہ انہیں کسی فائدہ کے لئے استعمال کیا ہے۔تو جسے حاصل کرنا چاہے وہ آگے نہیں جا سکتا ہے اور جسے پکڑنا چاہے وہ بچ کر نہیں جا سکتا ہے۔ناف رمانوں سے تیری سلطنت میں کمی نہیں آتی ہے اور اطاعت گزار وں سے تیرے ملک میں اضافہ نہیں ہوتا ہے جو تیرے فیصلہ سے ناراض ہو وہ تیرے حکم کو ٹال نہیں سکتا ہے اورجو تیرے امر سے روگردانی کرے وہ تجھ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔ہر راز تیرے سامنے روشن ہے

۱۹۰

وكُلُّ غَيْبٍ عِنْدَكَ شَهَادَةٌ - أَنْتَ الأَبَدُ فَلَا أَمَدَ لَكَ - وأَنْتَ الْمُنْتَهَى فَلَا مَحِيصَ عَنْكَ - وأَنْتَ الْمَوْعِدُ فَلَا مَنْجَى مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ - بِيَدِكَ نَاصِيَةُ كُلِّ دَابَّةٍ - وإِلَيْكَ مَصِيرُ كُلِّ نَسَمَةٍ - سُبْحَانَكَ مَا أَعْظَمَ شَأْنَكَ - سُبْحَانَكَ مَا أَعْظَمَ مَا نَرَى مِنْ خَلْقِكَ - ومَا أَصْغَرَ كُلَّ عَظِيمَةٍ فِي جَنْبِ قُدْرَتِكَ - ومَا أَهْوَلَ مَا نَرَى مِنْ مَلَكُوتِكَ - ومَا أَحْقَرَ ذَلِكَ فِيمَا غَابَ عَنَّا مِنْ سُلْطَانِكَ - ومَا أَسْبَغَ نِعَمَكَ فِي الدُّنْيَا - ومَا أَصْغَرَهَا فِي نِعَمِ الآخِرَةِ.

الملائكة الكرام

ومنها: مِنْ مَلَائِكَةٍ أَسْكَنْتَهُمْ سَمَاوَاتِكَ - ورَفَعْتَهُمْ عَنْ أَرْضِكَ - هُمْ أَعْلَمُ خَلْقِكَ بِكَ - وأَخْوَفُهُمْ لَكَ وأَقْرَبُهُمْ مِنْكَ - لَمْ يَسْكُنُوا الأَصْلَابَ - ولَمْ يُضَمَّنُوا الأَرْحَامَ - ولَمْ يُخْلَقُوا مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ - ولَمْ يَتَشَعَّبْهُمْ رَيْبُ الْمَنُونِ - وإِنَّهُمْ عَلَى مَكَانِهِمْ مِنْكَ - ومَنْزِلَتِهِمْ عِنْدَكَ واسْتِجْمَاعِ أَهْوَائِهِمْ فِيكَ - وكَثْرَةِ طَاعَتِهِمْ لَكَ وقِلَّةِ غَفْلَتِهِمْ عَنْ أَمْرِكَ - لَوْ عَايَنُوا كُنْه مَا خَفِيَ عَلَيْهِمْ مِنْكَ

اور ہر عیب تیرے لئے حضور ہے۔تو ابدی ہے تو تیری کوئی انتہا نہیں ہے اور توانتہا ہے تو تجھ سے کوئی چھٹکارہ نہیں ہے۔تو سب کی وعدہ گاہ ہے تو تجھ سے نجات حاصل کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ہر زمین پر چلنے والے کا اختیار تیرے ہاتھ میں ہے اور ہر جاندار کی باز گشت تیری ہی طرف ہے۔پاک و بے نیاز ہے تو تیری شان کیا با عظمت ہے اور تیری مخلوقات بھی کیا عظیم الشان ہے اور تیری قدرت کے سامنے ہر عظیم شے کس قدر حقیر ہے اور تیری سلطنت کس قدر پر شکوہ ہے اور یہ سب تیری اس مملکت کے مقابلہ میں جونگاہوں سے اوجھل ہے کس قدرمعمولی ہے۔تیری نعمتیں اس دنیا میں کس قدر مکمل ہیں اور پھرنعمات آخرت کے مقابلہ میں کس قدر مختصر ہیں۔

ملائکہ مقربین

یہ تیرے ملائکہ ہیں جنہیں تونے آسمانوں میں آباد کیا ہے اورزمین سے بلند تر بنایا ہے۔یہ تمام مخلوقات سے زیادہ تیری معرفت رکھتے ہیں اور تجھ سے خوف زدہ رہتے ہیں اور تیرے قریب تر بھی ہیں۔یہ نہ اصلاب پدر میں رہے ہیں اور نہ ارحام مادر میں اورنہ حقیر نطفہ سے پیدا کئے گئے ہیں اور نہ ان پر زمانہ کے انقلابات کا کوئی اثر ہے۔یہ تیری بارگاہ میں ایک خاص مقام اور منزلت رکھتے ہیں۔ان کی تمام ترخواہشات صرف تیرے بارے میں ہیں اور یہ بکثرت تیری ہی اطاعت کرتے ہیں اور تیرے حکم سے ہرگز غافل نہیں ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر تیری عظمت کی تہ تک پہنچ جائیں

۱۹۱

لَحَقَّرُوا أَعْمَالَهُمْ ولَزَرَوْا عَلَى أَنْفُسِهِمْ - ولَعَرَفُوا أَنَّهُمْ لَمْ يَعْبُدُوكَ حَقَّ عِبَادَتِكَ - ولَمْ يُطِيعُوكَ حَقَّ طَاعَتِكَ.

عصيان الخلق

سُبْحَانَكَ خَالِقاً ومَعْبُوداً - بِحُسْنِ بَلَائِكَ عِنْدَ خَلْقِكَ خَلَقْتَ دَاراً - وجَعَلْتَ فِيهَا مَأْدُبَةً - مَشْرَباً ومَطْعَماً وأَزْوَاجاً - وخَدَماً وقُصُوراً - وأَنْهَاراً وزُرُوعاً وثِمَاراً - ثُمَّ أَرْسَلْتَ دَاعِياً يَدْعُو إِلَيْهَا - فَلَا الدَّاعِيَ أَجَابُوا - ولَا فِيمَا رَغَّبْتَ رَغِبُوا - ولَا إِلَى مَا شَوَّقْتَ إِلَيْه اشْتَاقُوا - أَقْبَلُوا عَلَى جِيفَةٍ قَدِ افْتَضَحُوا بِأَكْلِهَا - واصْطَلَحُوا عَلَى حُبِّهَا - ومَنْ عَشِقَ شَيْئاً أَعْشَى بَصَرَه - وأَمْرَضَ قَلْبَه - فَهُوَ يَنْظُرُ بِعَيْنٍ غَيْرِ صَحِيحَةٍ - ويَسْمَعُ بِأُذُنٍ غَيْرِ سَمِيعَةٍ - قَدْ خَرَقَتِ الشَّهَوَاتُ عَقْلَه - وأَمَاتَتِ الدُّنْيَا قَلْبَه - ووَلِهَتْ عَلَيْهَا نَفْسُه - فَهُوَ عَبْدٌ لَهَا - ولِمَنْ فِي يَدَيْه شَيْءٌ مِنْهَا - حَيْثُمَا زَالَتْ زَالَ إِلَيْهَا -

تو اپنے اعمال کو حقیر ترین تصور کریں گے۔اور اپنے نفس کی مذمت کریں گے اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے عبادت کاحق ادا نہیں کیا ہے اور حق اطاعت کے برابر اطاعت نہیں کی ہے۔

تو پاک و بے نیاز ہے خالقیت کے اعتبارسے بھی اور عبادت کے اعتبار سے بھی۔میری تسبیح اس بہترین برتائو کی بنا پر ہے جو تونے مخلوقات کے ساتھ کیا ہے۔تونے ایک گھر بنایا ہے۔اس میں ایک دستر خوان بچھایا ہے جس میں کھانے پینے ' زوجیت ' خدمت ' قصر' نہر ' زراعت ' ثمر سب کا انتظام کردیا ہے اور پھر ایک داعی کو اس کی طرف دعوت دینے کے لئے بھیج دیا ہے لیکن لوگوں نے نہ داعی کی آواز پرلبیک کہی اور نہ جن چیزوں کی طرف تونے رغبت دلائی تھی راغب ہوئے اور نہ تیری تشویق کا شوق پیدا کیا۔سب اس مردار پر ٹوٹ پڑے جس کو کھا کر رسوا ہوئے اور سب نے اس کی محبت پر اتفاق کرلیا اور ظاہر ہے کہ جو کسی کا بھی عاشق ہو جاتا ہے وہ شے اسے اندھا بنا دیتی ہے اور اس کے دل کو بیمار کر دیتی ہے۔وہ دیکھتا بھی ہے تو غیر سلیم آنکھوں سے اور سنتا بھی ہے تو غیر سمیع کانوں سے۔خواہشات نے ان کی عقلوں کو پارہ پارہ کردیا ہے اور دنیا نے ان کے دلوں کو مردہ بنادیا ہے۔انہیں اس سے والہانہ لگائو پیداہوگیا ہے ۔اور وہ اس کے بندے ہوگئے ہیں اور ان کے غلام بن گئے ہیں۔جن کے ہاتھ میں تھوڑی سی بھی دنیا ہے کہ جس طرف وہ جھکتی ہے یہ بھی جھک جاتے ہیں

۱۹۲

وحَيْثُمَا أَقْبَلَتْ أَقْبَلَ عَلَيْهَا لَا يَنْزَجِرُ مِنَ اللَّه بِزَاجِرٍ ولَا يَتَّعِظُ مِنْه بِوَاعِظٍ - وهُوَ يَرَى الْمَأْخُوذِينَ عَلَى الْغِرَّةِ - حَيْثُ لَا إِقَالَةَ ولَا رَجْعَةَ - كَيْفَ نَزَلَ بِهِمْ مَا كَانُوا يَجْهَلُونَ - وجَاءَهُمْ مِنْ فِرَاقِ الدُّنْيَا مَا كَانُوا يَأْمَنُونَ - وقَدِمُوا مِنَ الآخِرَةِ عَلَى مَا كَانُوا يُوعَدُونَ - فَغَيْرُ مَوْصُوفٍ مَا نَزَلَ بِهِمْ - اجْتَمَعَتْ عَلَيْهِمْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ - وحَسْرَةُ الْفَوْتِ فَفَتَرَتْ لَهَا أَطْرَافُهُمْ - وتَغَيَّرَتْ لَهَا أَلْوَانُهُمْ - ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ فِيهِمْ وُلُوجاً - فَحِيلَ بَيْنَ أَحَدِهِمْ وبَيْنَ مَنْطِقِه - وإِنَّه لَبَيْنَ أَهْلِه يَنْظُرُ بِبَصَرِه - ويَسْمَعُ بِأُذُنِه عَلَى صِحَّةٍ مِنْ عَقْلِه - وبَقَاءٍ مِنْ لُبِّه - يُفَكِّرُ فِيمَ أَفْنَى عُمُرَه - وفِيمَ أَذْهَبَ دَهْرَه - ويَتَذَكَّرُ أَمْوَالًا جَمَعَهَا أَغْمَضَ فِي مَطَالِبِهَا - وأَخَذَهَا مِنْ مُصَرَّحَاتِهَا ومُشْتَبِهَاتِهَا - قَدْ لَزِمَتْه تَبِعَاتُ جَمْعِهَا - وأَشْرَفَ عَلَى فِرَاقِهَا - تَبْقَى لِمَنْ وَرَاءَه يَنْعَمُونَ فِيهَا - ويَتَمَتَّعُونَ بِهَا - فَيَكُونُ الْمَهْنَأُ لِغَيْرِه والْعِبْءُ عَلَى ظَهْرِه

اور جدھر وہ مڑتی ہے یہ بھی مڑ جاتے ہیں۔نہ کوئی خدائی روکنے والا انہیں روک سکتا ہے اور نہ کسی واعظ کی نصیحت ان پر اثر انداز ہوتی ہے۔جب کہ انہیں دیکھ رہے ہیں جو اس دھوکہ میں پکڑ لئے گئے ہیں کہ اب نہ معافی کا امکان ہے اور نہ واپسی کا۔کس طرح ان پر وہ مصیبت نازل ہوگئی ہے جس سے نا واقف تھے اور فراق دنیا کی وہ آفت آگئی ہے جس کی طرف سے بالکل مطمئن تھے اورآخرت میں اس صورت حاصل کا سامنا کر رہے ہیں جس کاوعدہ کیا گیا تھا۔اب تو اس مصیبت کا بیان بھی نا ممکن ہے جہاں ایک طرف موت کے سکرات ہیں اور دوسری طرف فراق دنیا کی حسرت ۔حالت یہ ہے کہ ہاتھ پائوں ڈھیلے پڑ گئے ہیں اور رنگ اڑ گیا ہے۔اس کے بعد موت کی دخل اندازی اور بڑھی تو وہ گفتگو کی راہ میں بھی حائل ہوگئی کہ انسان گھر والوں کے درمیان انہیں آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔کان سے ان کی آوازیں سن رہا ہے۔عقل بھی سلامت ہے اور ہوش بھی بر قرار ہے۔یہ سوچ رہا ہے کہ عمر کو کہاں برباد کیا ہے اور زندگی کو کہاں گزارا ہے ۔ان اموال کو یادکر رہا ہے جنہیں جمع کیا تھا اور ان کی جمع آوری میں آنکھیں بند کرلی تھیں کہ کبھی واضح راستوں سے حاصل کیا اور کبھی مشتبہ طریقوں سے کہ صرف ان کے جمع کرنے کے اثرات باقی رہ گئے ہیں اور ان سے جدائی کا وقت آگیا ہے۔اب یہ مال بعد والوں کے لئے رہ جائے گا جو آرام کریں گے اورمزے اڑائیں گے۔یعنی مزہ دوسروں کے لئے ہوگا اورہر بوجھ اس کی پیٹھ پرہوگا

۱۹۳

والْمَرْءُ قَدْ غَلِقَتْ رُهُونُه بِهَا - فَهُوَ يَعَضُّ يَدَه نَدَامَةً - عَلَى مَا أَصْحَرَ لَه عِنْدَ الْمَوْتِ مِنْ أَمْرِه - ويَزْهَدُ فِيمَا كَانَ يَرْغَبُ فِيه أَيَّامَ عُمُرِه - ويَتَمَنَّى أَنَّ الَّذِي كَانَ يَغْبِطُه بِهَا - ويَحْسُدُه عَلَيْهَا قَدْ حَازَهَا دُونَه - فَلَمْ يَزَلِ الْمَوْتُ يُبَالِغُ فِي جَسَدِه - حَتَّى خَالَطَ لِسَانُه سَمْعَه - فَصَارَ بَيْنَ أَهْلِه لَا يَنْطِقُ بِلِسَانِه - ولَا يَسْمَعُ بِسَمْعِه - يُرَدِّدُ طَرْفَه بِالنَّظَرِ فِي وُجُوهِهِمْ - يَرَى حَرَكَاتِ أَلْسِنَتِهِمْ - ولَا يَسْمَعُ رَجْعَ كَلَامِهِمْ - ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ الْتِيَاطاً بِه - فَقُبِضَ بَصَرُه كَمَا قُبِضَ سَمْعُه وخَرَجَتِ الرُّوحُ مِنْ جَسَدِه - فَصَارَ جِيفَةً بَيْنَ أَهْلِه - قَدْ أَوْحَشُوا مِنْ جَانِبِه - وتَبَاعَدُوا مِنْ قُرْبِه - لَا يُسْعِدُ بَاكِياً ولَا يُجِيبُ دَاعِياً - ثُمَّ حَمَلُوه إِلَى مَخَطٌّ فِي الأَرْضِ - فَأَسْلَمُوه فِيه إِلَى عَمَلِه - وانْقَطَعُوا عَنْ زَوْرَتِه.

القيامة

حَتَّى إِذَا بَلَغَ الْكِتَابُ أَجَلَه - والأَمْرُ مَقَادِيرَه - وأُلْحِقَ آخِرُ الْخَلْقِ بِأَوَّلِه - وجَاءَ مِنْ أَمْرِ اللَّه مَا يُرِيدُه - مِنْ تَجْدِيدِ خَلْقِه -

لیکن انسان اس مال کیزنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور موتنے سارے حالات کو بے نقاب کردیا ہے کہ ندامت سے اپنے ہاتھ کاٹ رہا ہے اور اس چیز سے کنارہ کش ہو نا چاہتا ہے جس کی طرف زندگی بھر راغب تھا۔اب یہ چاہتا ہے کہ کاش جو شخص اس سے اس مال کی بناپر حسد کر رہا تھا یہ مال اس کے پاس ہوتا اور اس کے پاس نہ ہوتا۔ اس کے بعد موت اس کے جسم میں مزید دراندازی کرتی ہے اور زبان کے ساتھ کانوں کوب ھی شامل کر لیتی ہے کہ انسان اپنے گھر والوں کے درمیان نہ بول سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے۔ہر ایک کے چہرہ کو حسرت سے دیکھ رہا ہے۔ان کے زبان کی جنبش کو بھی دیکھ رہا ہے لیکن الفاظ کو نہیں سن سکتا ہے۔ اس کے بعد موت اورچپک جاتی ہے تو کانوں کی طرح آنکھوں پر بھی قبضہ ہو جاتا ہے اور روح جسم سے پرواز کرجاتی ہے اب وہ گھر والوں کے درمیان ایک مردار ہوتا ہے ۔جس کے پہلو میں بیٹھنے سے بھی وحشت ہونے لگتی ہے اور لوگ دوربھاگنے لگتے ہیں ۔یہ اب نہ کسی رونے والے کو سہارا دے سکتا ہے اور نہ کسی پکارنے والے کی آواز پر آوازدے سکتا ہے۔لوگ اسے زمین کے ایک گڑھے تک پہنچادیتے ہیں اور اسے اس کے اعمال کے حوالہ کر دیتے ہیں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔

یہاں تک کہ جب قسمت کالکھا اپنی آخری حد تک اور امر الٰہی اپنی مقررہ منزل تک پہنچ جائے گا اور آخرین کواولین سے ملا دیا جائے گا اور ایک نیا حکم الٰہی جائے گا کہ خلقت کی تجدید کی جائے تو

۱۹۴

أَمَادَ السَّمَاءَ وفَطَرَهَا وأَرَجَّ الأَرْضَ وأَرْجَفَهَا - وقَلَعَ جِبَالَهَا ونَسَفَهَا - ودَكَّ بَعْضُهَا بَعْضاً مِنْ هَيْبَةِ جَلَالَتِه - ومَخُوفِ سَطْوَتِه - وأَخْرَجَ مَنْ فِيهَا فَجَدَّدَهُمْ بَعْدَ إِخْلَاقِهِمْ - وجَمَعَهُمْ بَعْدَ تَفَرُّقِهِمْ - ثُمَّ مَيَّزَهُمْ لِمَا يُرِيدُه مِنْ مَسْأَلَتِهِمْ - عَنْ خَفَايَا الأَعْمَالِ وخَبَايَا الأَفْعَالِ - وجَعَلَهُمْ فَرِيقَيْنِ - أَنْعَمَ عَلَى هَؤُلَاءِ وانْتَقَمَ مِنْ هَؤُلَاءِ - فَأَمَّا أَهْلُ الطَّاعَةِ فَأَثَابَهُمْ بِجِوَارِه - وخَلَّدَهُمْ فِي دَارِه - حَيْثُ لَا يَظْعَنُ النُّزَّالُ - ولَا تَتَغَيَّرُ بِهِمُ الْحَالُ - ولَا تَنُوبُهُمُ الأَفْزَاعُ - ولَا تَنَالُهُمُ الأَسْقَامُ ولَا تَعْرِضُ لَهُمُ الأَخْطَارُ - ولَا تُشْخِصُهُمُ الأَسْفَارُ - وأَمَّا أَهْلُ الْمَعْصِيَةِ - فَأَنْزَلَهُمْ شَرَّ دَارٍ وغَلَّ الأَيْدِيَ إِلَى الأَعْنَاقِ - وقَرَنَ النَّوَاصِيَ بِالأَقْدَامِ - وأَلْبَسَهُمْ سَرَابِيلَ الْقَطِرَانِ - ومُقَطَّعَاتِ النِّيرَانِ - فِي عَذَابٍ قَدِ اشْتَدَّ حَرُّه

یہ امر آسمانوں کو حرکت دے کر شگافتہ کردے گا اور زمین کو ہلا کر کھوکھلا کردے گا اورپہاڑوں کو جڑ سے اکھاڑ کر اڑا دے گا اور ہیبت جلال الٰہی اورخوف سطوت پروردگار سے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے اور زمین سب کو باہرنکال دے گی اور انہیں دوبارہ بوسیدگی کے بعد تازہ حیات دے دی جائے گی اور انتشار کے بعد جمع کردیا جائے گا اورمخفی اعمال ' پوشیدہ افعال کے سوال کے لئے سب کو الگ الگ کردیاجائے گا اورمخلوقات دو گروہوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔ایک گروہ مرکز نعمات ہوگا اوردوسرا محل انتقام۔

اہل اطاعت کو اس جوار رحمت میں ثواب اور دار جنت میں ہمیشگی کا انعام دیا جائے گا جہاں کے رہنے والے کوچ نہیں کرتے ہیں اور نہ ان کے حالات میں کوئی تغیر پیدا ہوتا ہے اور نہ ان پر رنج و الم طاری ہوتا ہے اور نہ انہیں کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے اور نہ کسی طرح کا خطرہ سامنے آتا ہے اور نہ سفر کی زحمت سے دو چارہونا پڑتا ہے۔لیکن اہل معصیت کے لئے بد ترین منزل ہوگی۔جہاں ہاتھ گردن(۱) سے بندھے ہوں گے اور پیشانیوں کو پیروں سے جوڑ دیا جائے گا۔تارکول اور آگ کے تراشیدہ لباس پہنائے جائیں گے۔اس عذاب میں جس کی گرمی شدید ہوگی

(۱) تعجب نہ کریں کہ خدائے رحمان و رحیم اپنے بندوں کے ساتھ اس طرح کا برتائو کس طرح کرے گا کہ یہ انجام انہیں لوگوں کا ہے جو دار دنیا میں اللہ کے کمزور اورنیک بندوں کے ساتھ اس سے بد تربرتائو کر چکے ہیں تو کیا مالک کائنات دنیا میں اختیارات دینے کے بعد آخرت میں بھی انہیں بہترین نعمتوں سے نوازدے گا اور مظلومین کا دنیا و آخرت میں کوئی پرسان حال نہ ہوگا ؟

۱۹۵

وبَابٍ قَدْ أُطْبِقَ عَلَى أَهْلِه - فِي نَارٍ لَهَا كَلَبٌ ولَجَبٌ - ولَهَبٌ سَاطِعٌ وقَصِيفٌ هَائِلٌ - لَا يَظْعَنُ مُقِيمُهَا - ولَا يُفَادَى أَسِيرُهَا - ولَا تُفْصَمُ كُبُولُهَا - لَا مُدَّةَ لِلدَّارِ فَتَفْنَى - ولَا أَجَلَ لِلْقَوْمِ فَيُقْضَى.

زهد النبي

ومنها في ذكر النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - قَدْ حَقَّرَ الدُّنْيَا وصَغَّرَهَا - وأَهْوَنَ بِهَا وهَوَّنَهَا - وعَلِمَ أَنَّ اللَّه زَوَاهَا عَنْه اخْتِيَاراً - وبَسَطَهَا لِغَيْرِه احْتِقَاراً - فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْيَا بِقَلْبِه - وأَمَاتَ ذِكْرَهَا عَنْ نَفْسِه - وأَحَبَّ أَنْ تَغِيبَ زِينَتُهَا عَنْ عَيْنِه - لِكَيْلَا يَتَّخِذَ مِنْهَا رِيَاشاً - أَوْ يَرْجُوَ فِيهَا مَقَاماً - بَلَّغَ عَنْ رَبِّه مُعْذِراً - ونَصَحَ لأُمَّتِه مُنْذِراً ودَعَا إِلَى الْجَنَّةِ مُبَشِّراً - وخَوَّفَ مِنَ النَّارِ مُحَذِّراً.

اور جس کے دروازے بند ہوں گے اور اس جہنم میں جس میں شرارے بھی ہوں گے اور شورو غوغا بھی ۔ بھڑکتے ہوئے شعلے بھی ہوں گے اور ہولناک چیخیں بھی۔نہ یہاں کے رہنے والے کچ کریں گے اور نہ یہاں کے قیدیوں کو ئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ یہاں کی بیڑیاں جدا ہوسکتی ہیں ۔نہ اس گھر کی کوئی مدت ہے جو تمام ہو جائے اور نہ اسقوم کی کوئی اجل ہے جوختم کردی جائے۔

ذکر رسول اکرم (ص)

آپ نے اس دنیا کو ہمیشہ صغیر و حقیر اور ذلیل و پست تصور کیاہے اوریہ سمجھا ہے کہ پروردگار نے اس دنیا کو آپ سے الگ رکھا ہے اور دوسروں کے لئے فرش کردیا ہے تو یہ آپ کی عزت اور دنیا کی حقارت ہی کی بنیاد پر ہے لہٰذا آپ نے اس سے دل سے کنارہ کشی اختیار کی اور اس کی یاد کو دل سے بالکل نکال دیا اور یہ چاہا کہ اس کی زینتیں نگاہوں سے اوجھل رہیں تاکہ نہ عمدہ لباس زیب تن فرمائیں اور نہ کسی خاص مقام کی امید کریں۔آپ نے پروردگار کے پیغام کو پہنچانے میں سارے عذر تمام کردئیے اور امت کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہوئے نصیحت فرمائی جنت کی بشارت سنا کر اس کی طرف دعوت دی اورجہنم سے بچنے کی تلقین کرکے یاس کا خوف پیدا کرایا۔

۱۹۶

أهل البيت

نَحْنُ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ - ومَحَطُّ الرِّسَالَةِ - ومُخْتَلَفُ الْمَلَائِكَةِ ،ومَعَادِنُ الْعِلْمِ ويَنَابِيعُ الْحُكْمِ - نَاصِرُنَا ومُحِبُّنَا يَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ - وعَدُوُّنَا ومُبْغِضُنَا يَنْتَظِرُ السَّطْوَةَ

(۱۱۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في أركان الدين

الإسلام

إِنَّ أَفْضَلَ مَا تَوَسَّلَ بِه الْمُتَوَسِّلُونَ - إِلَى اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى - الإِيمَانُ بِه وبِرَسُولِه والْجِهَادُ فِي سَبِيلِه - فَإِنَّه ذِرْوَةُ الإِسْلَامِ - وكَلِمَةُ الإِخْلَاصِ فَإِنَّهَا الْفِطْرَةُ - وإِقَامُ الصَّلَاةِ فَإِنَّهَا الْمِلَّةُ - وإِيتَاءُ الزَّكَاةِ فَإِنَّهَا فَرِيضَةٌ وَاجِبَةٌ - وصَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ فَإِنَّه جُنَّةٌ مِنَ الْعِقَابِ - وحَجُّ الْبَيْتِ واعْتِمَارُه - فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ ويَرْحَضَانِ الذَّنْبَ - وصِلَةُ الرَّحِمِ - فَإِنَّهَا مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ ومَنْسَأَةٌ فِي الأَجَلِ - وصَدَقَةُ السِّرِّ فَإِنَّهَا تُكَفِّرُ الْخَطِيئَةَ - وصَدَقَةُ الْعَلَانِيَةِ فَإِنَّهَا تَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ - وصَنَائِعُ الْمَعْرُوفِ فَإِنَّهَا تَقِي مَصَارِعَ الْهَوَانِ.

أَفِيضُوا فِي ذِكْرِ اللَّه فَإِنَّه أَحْسَنُ الذِّكْرِ - وارْغَبُوا فِيمَا وَعَدَ الْمُتَّقِينَ فَإِنَّ وَعْدَه أَصْدَقُ الْوَعْدِ -

اہل بیت

ہم نبوت کا شجرہ' رسالت کی منزل ' ملائکہ کی رفت و آمد کی جگہ' علم کے معدن اورحکمت کے چشمے ہیں۔ ہمارا مدد گار اور محب ہمیشہ منتظر رحمت رہتا ہے اور ہمارا دشمن اور کینہ پرورہمیشہ منتظر لعنت و انتقام الٰہی رہتا ہے۔

(۱۱۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(ارکان اسلام کے بارے میں)

اللہ والوں کے لئے اس کی بارگاہ تک پہنچنے کا بہترین وسیلہ اللہ اور اس کے رسول (ص) پر ایمان اور راہ خدا میں جہاد ہے کہ جہاد اسلام کی سر بلندی ہے۔اور کلمہ اخلاص ہے کہ یہ فطرت الہیہ ہے اور نماز کا قیام ہے کہ یہ عین دین ہے اور زکوٰة کی ادائیگی ہے کہ یہ فریضہ واجب ہے اور ماہ رمضان کا روزہ ہے کہ یہ عذاب سے بچنے کی سپر ہے اورحج بیت اللہ ہے اور عمرہ ہے کہ یہ فقر کو دور کر دیتا ہے اورگناہوں کو دھو دیتا ہےاورصلہ رحم ہے کہ یہ مال میں اضافہ اور اجل کے ٹالنے کا ذریعہ ہے اور پوشیدہ طریقہ سے خیرات ہے کہ یہ گناہوں کا کفارہ ہے اور علی الاعلان صدقہ ہے کہ یہ بد ترین موت کے دفع کرنے کاذریعہ ہے اور اقربا کے ساتھ نیک سلوک ہے کہ یہ ذلت کے مقامات سے بچانے کا وسیلہ ہے ذکر خدا کی راہ میں آگے بڑھتے رہو کہ یہ بہترین ذکر ہے اور خدانےمتقین سے جو وعدہ کیا ہے اس کی طرف رغبت پیدا کرو کہ اس کا وعدہ سچا ہے۔

۱۹۷

واقْتَدُوا بِهَدْيِ نَبِيِّكُمْ فَإِنَّه أَفْضَلُ الْهَدْيِ - واسْتَنُّوا بِسُنَّتِه فَإِنَّهَا أَهْدَى السُّنَنِ.

فضل القرآن

وتَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّه أَحْسَنُ الْحَدِيثِ - وتَفَقَّهُوا فِيه فَإِنَّه رَبِيعُ الْقُلُوبِ - واسْتَشْفُوا بِنُورِه فَإِنَّه شِفَاءُ الصُّدُورِ - وأَحْسِنُوا تِلَاوَتَه فَإِنَّه أَنْفَعُ الْقَصَصِ - وإِنَّ الْعَالِمَ الْعَامِلَ بِغَيْرِ عِلْمِه - كَالْجَاهِلِ الْحَائِرِ الَّذِي لَا يَسْتَفِيقُ مِنْ جَهْلِه - بَلِ الْحُجَّةُ عَلَيْه أَعْظَمُ والْحَسْرَةُ لَه أَلْزَمُ - وهُوَ عِنْدَ اللَّه أَلْوَمُ

(۱۱۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم الدنيا

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أُحَذِّرُكُمُ الدُّنْيَا - فَإِنَّهَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ وتَحَبَّبَتْ بِالْعَاجِلَةِ - ورَاقَتْ بِالْقَلِيلِ وتَحَلَّتْ بِالآمَالِ - وتَزَيَّنَتْ بِالْغُرُورِ لَا تَدُومُ حَبْرَتُهَا ولَا تُؤْمَنُ فَجْعَتُهَا

اپنے پیغمبر (ص) کی ہدایت کے راستہ پرچلو کہ یہ بہترین ہدایت ہے اور ان کی سنت کو اختیار کرو کہ یہ سب سے بہتر ہدایت کرنے والی ہے۔

قرآن کریم

قرآن مجید کا علم حاصل کرو کہ یہ بہترین کلام ہے اور اس میں غوروفکر کرو کہ یہ دلوں کی بہار ہے۔اس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ یہ دلوں کے لئے شفا ہے اور اس کی باقاعدہ تلاوت کرو کہ یہ مفید ترین قصوں کا مرکز ہے۔اوریاد رکھو کہ اپنے علم کے خلاف عمل کرنے والا عالم بھی حیران و سرگردان جاہل جیسا ہے جسے جہالت سے کبھی افاقہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس پر حجت خدا زیادہ عظیم تر ہوتی ہے اور اس کے لئے حسرت و اندوہ بھی زیادہ لازم ہوتا ہے اور وہ بارگاہ الٰہی میں زیادہ قابل ملامت ہوتا ہے۔

(۱۱۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(مذمت دنیا کے بارے میں )

اما بعد ! میں تم لوگوں کو دنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں کہ یہ شیریں اور شاداب ہے لیکن خواہشات میں گھری ہوئی ہے۔اپنی جلد مل جانے والی نعمتوں کی بنا پر محبوب بن جاتی ہے اور تھوڑی سی زینت سے خوبصورت بن جاتی ہے۔یہ امیدوں سے آراستہ ہے اور دھوکہ سے مزین ہے۔نہ اس کی خوشی دائمی ہے اور نہ اس کی مصیبت سے کوئی محفوظ رہنے والا ہے۔

۱۹۸

غَرَّارَةٌ ضَرَّارَةٌ حَائِلَةٌ زَائِلَةٌ - نَافِدَةٌ بَائِدَةٌ أَكَّالَةٌ غَوَّالَةٌ - لَا تَعْدُو - إِذَا تَنَاهَتْ إِلَى أُمْنِيَّةِ أَهْلِ الرَّغْبَةِ فِيهَا والرِّضَاءِ بِهَا - أَنْ تَكُونَ كَمَا قَالَ اللَّه تَعَالَى سُبْحَانَه –( كَماءٍ أَنْزَلْناه مِنَ السَّماءِ - فَاخْتَلَطَ بِه نَباتُ الأَرْضِ - فَأَصْبَحَ هَشِيماً تَذْرُوه الرِّياحُ - وكانَ الله عَلى كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِراً ) - لَمْ يَكُنِ امْرُؤٌ مِنْهَا فِي حَبْرَةٍ - إِلَّا أَعْقَبَتْه بَعْدَهَا عَبْرَةً - ولَمْ يَلْقَ فِي سَرَّائِهَا بَطْناً - إِلَّا مَنَحَتْه مِنْ ضَرَّائِهَا ظَهْراً ولَمْ تَطُلَّه فِيهَا دِيمَةُ رَخَاءٍ - إِلَّا هَتَنَتْ عَلَيْه مُزْنَةُ بَلَاءٍ -

یہ دھوکہ باز ' نقصان رساں ' بدل جانے والی ' فنا ہو جانے والی ' زوال پذیر اورہلاک(۱) ہو جانے والی ہے۔یہ لوگوں کو کھا بھی جاتی ہے اورمٹا بھی دیتی ہے۔جب اپنی طرف رغبت رکھنے والوں اور اپنے سے خوش ہو جانے والوں کی خواہشات کی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو بالکل پروردگار کے اس ارشاد کے مطابق ہو جاتی ہے ''جیسے آسمان سے پانی نازل ہو کر زمین کے نباتات میں شامل ہو جائے اور پھر اس کے بعد وہ سبزہ سوکھ کر ایسا تنکا ہو جائے جسے ہوائیں اڑا لے جائیں اورخدا ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے '' اس دنیا میں کوئی شخص خوش نہیں ہوتا ہے مگر یہ کہ اسے بعد میں آنسو بہانا پڑے اور کوئی اس کی خوشی کو آتے نہیں دیکھتا ہے مگر یہ کہ وہ مصیبت میں ڈال کر پیٹھ دکھلا دیتی ہے اور کہیں راحت و آرام کی ہلکی بارش نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ بلائوں کا دوگڑا گرنے لگتا ہے۔اس کی شان ہی یہ ہے کہ اگر صبح کو کسی طرف سے بدلہ لینے کے لئے آتی ہے تو شام ہوتے ہوتے انجان بن جاتی ہے اور اگر ایک طرف سے شیریں اور خوش گوار نظر آتی ہے تو دوسرے رخ سے تلخ اور بلا خیز ہوتی ہے۔کوئی انسان اس کی تازگی سے اپنی خواہش پوری نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ اس کے پے درپے مصائب کی بناپر رنج و تعب کا شکار ہو جاتا ہے

(۱)بعض نادانوں کا خیال ہے کہ جب دنیا باقی رہنے والی نہیں ہے اور اس کی شب و روز کا اعتبار نہیں ہے توبہترین بات یہ ہے کہ جس قدر حاصل ہو جائے انسان حاصل کرلے اوراس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو جائے کہ کہیں دوسرے دن ہاتھ سے نکل نہ جائے۔لیکن یہ خیال انہیں لوگوں کا ہے جو آخرت کی طرف سے یکسر غافل ہیں اور انہیں اس لطف اندوزی کے انجام کی خبر نہیں ہے ورنہ اس نکتہ کی طرف متوجہ ہو جاتے تو مار گزیدہ کی طرح تڑپنے کو بستر حریر پر آرام کرنے سے زیادہ پسند کرتے اور مفلس ترین زندگی گزارنے ہی کو عافیت و آرام تصور کرتے۔

۱۹۹

وحَرِيٌّ إِذَا أَصْبَحَتْ لَه مُنْتَصِرَةً - أَنْ تُمْسِيَ لَه مُتَنَكِّرَةً - وإِنْ جَانِبٌ مِنْهَا اعْذَوْذَبَ واحْلَوْلَى - أَمَرَّ مِنْهَا جَانِبٌ فَأَوْبَى - لَا يَنَالُ امْرُؤٌ مِنْ غَضَارَتِهَا رَغَباً - إِلَّا أَرْهَقَتْه مِنْ نَوَائِبِهَا تَعَباً - ولَا يُمْسِي مِنْهَا فِي جَنَاحِ أَمْنٍ - إِلَّا أَصْبَحَ عَلَى قَوَادِمِ خَوْفٍ - غَرَّارَةٌ غُرُورٌ مَا فِيهَا فَانِيَةٌ - فَانٍ مَنْ عَلَيْهَا - لَا خَيْرَ فِي شَيْءٍ مِنْ أَزْوَادِهَا إِلَّا التَّقْوَى - مَنْ أَقَلَّ مِنْهَا اسْتَكْثَرَ مِمَّا يُؤْمِنُه - ومَنِ اسْتَكْثَرَ مِنْهَا اسْتَكْثَرَ مِمَّا يُوبِقُه - وزَالَ عَمَّا قَلِيلٍ عَنْه - كَمْ مِنْ وَاثِقٍ بِهَا قَدْ فَجَعَتْه - وذِي طُمَأْنِينَةٍ إِلَيْهَا قَدْ صَرَعَتْه - وذِي أُبَّهَةٍ قَدْ جَعَلَتْه حَقِيراً - وذِي نَخْوَةٍ قَدْ رَدَّتْه ذَلِيلًا - سُلْطَانُهَا دُوَّلٌ وعَيْشُهَا رَنِقٌ - وعَذْبُهَا أُجَاجٌ وحُلْوُهَا صَبِرٌ - وغِذَاؤُهَا سِمَامٌ وأَسْبَابُهَا رِمَامٌ - حَيُّهَا بِعَرَضِ مَوْتٍ - وصَحِيحُهَا بِعَرَضِ سُقْمٍ - مُلْكُهَا مَسْلُوبٌ - وعَزِيزُهَا مَغْلُوبٌ - ومَوْفُورُهَا مَنْكُوبٌ - وجَارُهَا مَحْرُوبٌ - أَلَسْتُمْ فِي مَسَاكِنِ -

اور کوئی شخص شام کو امن و امان کے پروں پر نہیں رہتا ہے مگر یہ کہ صبح ہوتے ہوتے خوف کے بال و پر پر لاد دیا جاتا ہے۔یہ دنیا دھوکہ باز ہے اور اس کے اندر جوکچھ ہے سب دھوکہ ہے۔یہ فانی ہے اور اس میں جو کچھ ہے سب فنا ہونے والا ہے۔اس کے کسی زاد راہ میں کوئی خیر نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔اس میں سے جو کم حاصل کرتا ہے اسی کوراحت زیادہ نصیب ہوتی ہے اور جو زیادہ کے چکر میں پڑ جاتا ہے اس کے مہلکات بھی زیادہ ہو جاتے ہیں اور یہ بہت جلد اس سے الگ ہو جاتی ہے۔کتنے اس پراعتبار کرنے والے ہیں جنہیں اچانک مصیبتوں میں ڈال دیا گیا اورکتنے اس پر اطمینان کرنے والے ہیں جنہیں ہلاک کردیا گیا اور کتنے صاحبان حیثیت تھے جنہیں ذلیل بنا دیا گیا اور کتنے اکڑنے وہالے تھے جنہیں حقارت کے ساتھ پلٹا دیا گیا۔اس کی بادشاہی پلٹا کھانے والی۔اس کا عیش مکدر۔اس کا شیریں شور۔اس کا میٹھا کڑوا ۔اس کی غذاز ہر آلود اور اس کے اسباب سب بوسیدہ ہیں۔اس کا زندہ معرض ہلاکت میں ہے اور اس کا صحت مند بیماریوں کی زد پر ہے ۔اس کا ملک چھننے والا ہے اور اس کا صاحب عزت مغلوب ہونے والا ہے۔اس کا مالدار بد بختیوں کا شکار ہونے والا ہے اور اس کا ہمسایہ لٹنے والا ہے۔کیا تم انہیں کے گھروں(۱) میں نہیں ہو

(۱) دنیا سے عبرت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ خود اس کی تاریخ ہے کہ اس نے آج تک کسی سے وفا نہیں کی ہے۔اس کا ایک پیسہ بھی اس وقت تک کام نہیں آتا ہے جب تک مالک سے جدا نہیں ہو جاتا ہے اور اس کی سلطنت بھی اپنے سلطان کو فشار قبر سے نجات دینیوالی نہیں ہے۔ایسے حالات میں تاریخی حوادث سے آنکھ بند کر لینا جہالت کے ماسواکچھ نہیں ہے اور صاحب علم و عقل وہی ہے جو ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھائے۔

۲۰۰

مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ أَطْوَلَ أَعْمَاراً - وأَبْقَى آثَاراً وأَبْعَدَ آمَالًا - وأَعَدَّ عَدِيداً وأَكْثَفَ جُنُوداً - تَعَبَّدُوا لِلدُّنْيَا أَيَّ تَعَبُّدٍ - وآثَرُوهَا أَيَّ إِيْثَارٍ - ثُمَّ ظَعَنُوا عَنْهَا بِغَيْرِ زَادٍ مُبَلِّغٍ - ولَا ظَهْرٍ قَاطِعٍ - فَهَلْ بَلَغَكُمْ أَنَّ الدُّنْيَا سَخَتْ لَهُمْ نَفْساً بِفِدْيَةٍ - أَوْ أَعَانَتْهُمْ بِمَعُونَةٍ - أَوْ أَحْسَنَتْ لَهُمْ صُحْبَةً - بَلْ أَرْهَقَتْهُمْ بِالْقَوَادِحِ - وأَوْهَقَتْهُمْ بِالْقَوَارِعِ - وضَعْضَعَتْهُمْ بِالنَّوَائِبِ - وعَفَّرَتْهُمْ لِلْمَنَاخِرِ ووَطِئَتْهُمْ بِالْمَنَاسِمِ - وأَعَانَتْ عَلَيْهِمْ رَيْبَ الْمَنُونِ - فَقَدْ رَأَيْتُمْ تَنَكُّرَهَا لِمَنْ دَانَ لَهَا - وآثَرَهَا وأَخْلَدَ إِلَيْهَا - حِينَ ظَعَنُوا عَنْهَا لِفِرَاقِ الأَبَدِ - وهَلْ زَوَّدَتْهُمْ إِلَّا السَّغَبَ - أَوْ أَحَلَّتْهُمْ إِلَّا الضَّنْكَ - أَوْ نَوَّرَتْ لَهُمْ إِلَّا الظُّلْمَةَ - أَوْ أَعْقَبَتْهُمْ إِلَّا النَّدَامَةَ - أَفَهَذِه تُؤْثِرُونَ أَمْ إِلَيْهَا تَطْمَئِنُّونَ - أَمْ عَلَيْهَا تَحْرِصُونَ - فَبِئْسَتِ الدَّارُ لِمَنْ لَمْ يَتَّهِمْهَا - ولَمْ يَكُنْ فِيهَا عَلَى وَجَلٍ مِنْهَا - فَاعْلَمُوا وأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ - بِأَنَّكُمْ تَارِكُوهَا وظَاعِنُونَ عَنْهَا - واتَّعِظُوا فِيهَا بِالَّذِينَ قَالُوا –( مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ) -

جو تم سے پہلے طویل عمر ' پائیدارآثار اور دور رس امیدوں والے تھے۔بے پناہ سامان مہیا کیا' بڑے بڑے لشکرتیار کئے اور جی بھر کردنیا کی پرستش کی اور اسے ہر چیز پرمقدم رکھا لیکن اس کے بعد یوں روانہ ہوگئے کہ نہ منزل تک پہنچانے والا زاد راہ ساتھ تھا اور نہ راستہ طے کرانے والی سواری۔کیا تم تک کوئی خبر پہنچی ہے کہ اس دنیا نے ان ک بچانے کے لئے کوئی فدیہ پیش کیا ہو یا ان کی کوئی مدد کی ہو یا ان کے ساتھ اچھا وقت گزارا ہو؟ہرگز نہیں بلکہ انہیں مصیبتوں میں گرفتار کردیا اورآفتوں سے عاجز و بے بسبنادیا۔پے درپے زحمتوں نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان کی ناک رگڑدی اور انہیں اپنے سموں سے روند ڈالا اور پھرحوادث روز گار کوبھی سہارا دے دیا اور تم نے دیکھ لیا کہ یہ اپنے اطاعت گزاروں ' چاہنے والوں اور چپکنے والوں کے لئے بھی ایسی انجان بن گئی کہ جب انہوں نے یہاں سے ہمیشہ کے لئے کوچ کیا تو انہیں سوائے بھوک کے کوئی زاد راہ اور سوائے تنگی لحد کے کوئی مکان نہیں دیا۔ظلمت ہی ان کی روشنی قرار پائی اورندامت ہی ان کا انجام ٹھہرا۔تو کیا تم اسی دنیا کو اختیار کر رہے ہو اور اسی پربھروسہ کر رہے ہو اور اسی کی لالچ میں مبتلا ہو۔یہ اپنے سے بد ظنی نہ رکھنے والوں اور احتیاط نہکرنے والوں کے لئے بد ترین مکان ہے۔لہٰذا یاد رکھو اور تمہیں معلوم بھی ہے کہ تم اسے چھوڑنے والے ہواور اس سے کوچ کرنے والے ہو۔ان لوگوں سے نصیحت حاصل کرو جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ '' ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے ''

۲۰۱

حُمِلُوا إِلَى قُبُورِهِمْ - فَلَا يُدْعَوْنَ رُكْبَاناً - وأُنْزِلُوا الأَجْدَاثَ فَلَا يُدْعَوْنَ ضِيفَاناً - وجُعِلَ لَهُمْ مِنَ الصَّفِيحِ أَجْنَانٌ - ومِنَ التُّرَابِ أَكْفَانٌ ومِنَ الرُّفَاتِ جِيرَانٌ - فَهُمْ جِيرَةٌ لَا يُجِيبُونَ دَاعِياً - ولَا يَمْنَعُونَ ضَيْماً ولَا يُبَالُونَ مَنْدَبَةً - إِنْ جِيدُوا لَمْ يَفْرَحُوا - وإِنْ قُحِطُوا لَمْ يَقْنَطُوا - جَمِيعٌ وهُمْ آحَادٌ وجِيرَةٌ وهُمْ أَبْعَادٌ - مُتَدَانُونَ لَا يَتَزَاوَرُونَ - وقَرِيبُونَ لَا يَتَقَارَبُونَ - حُلَمَاءُ قَدْ ذَهَبَتْ أَضْغَانُهُمْ - وجُهَلَاءُ قَدْ مَاتَتْ أَحْقَادُهُمْ - لَا يُخْشَى فَجْعُهُمْ - ولَا يُرْجَى دَفْعُهُمْ - اسْتَبْدَلُوا بِظَهْرِ الأَرْضِ بَطْناً - وبِالسَّعَةِ ضِيقاً وبِالأَهْلِ غُرْبَةً - وبِالنُّورِ ظُلْمَةً فَجَاءُوهَا كَمَا فَارَقُوهَا - حُفَاةً عُرَاةً،

قَدْ ظَعَنُوا عَنْهَا بِأَعْمَالِهِمْ - إِلَى الْحَيَاةِ الدَّائِمَةِ والدَّارِ الْبَاقِيَةِ كَمَا قَالَ سُبْحَانَه وتَعَالَى –( كَما بَدَأْنا أَوَّلَ خَلْقٍ - نُعِيدُه وَعْداً عَلَيْنا إِنَّا كُنَّا فاعِلِينَ )

اور پھر وہ بھی اپنی قبروں کی طرف اس طرح پہنچائے گئے کہ انہیں سواری بھی نصیب نہیں ہوئی اور قبروں میں اس طرح اتار دیا گیا کہ انہیں مہمان بھی نہیں کہا گیا پتھروں سے ان کی قبریں چن دی گئیں اور مٹی سے انہیں کفن دے دیا گیا۔سڑی گلی ہڈیاں ان کی ہمسایہ بن گئیں اور اب یہ سب ایسے ہمسایہ ہیں کہ کسی پکارنے والے کی آواز پرلبیک نہیں کہتے ہیں اور نہ کسی زیادتی کو روک سکتے ہیں اور نہ کسی رونے والے کی پرواہ کرتے ہیں۔اگر ان پر موسلا دھار بارش ہو تو انہیں خوشی نہیں ہوتی ہے اور اگر قحط پڑ جائے تو مایوسی کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔یہ سب ایک مقام پرجمع ہیں مگر اکیلے ہیں اور ہمسایہ ہیں مگر دور دور ہیں۔ایسے ایک دوسرے سے قریب کہ ملاقات تک نہیں کرتے ہیں اور ایسے نزدیک کہ ملتے بھی نہیں ہیں۔اب ایسے برباد ہوگئے ہیں کہ سارا کینہ ختم ہوگیا ہے اورایسے بے خبر ہیں کہ سارا بغض وعنادمٹ گیا ہے۔نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے اورنہ کسی دفاع کی امیدہے زمین کے ظاہرکے بجائے باطن کو اوروسعت کے بجائے تنگی کو اورساتھیوں کے بدلے غربت کو اورنور کے بدلے ظلمت کو اختیار کرلیا ہے۔اس کی گود میں ویسے ہی آگئے ہیں جیسے پہلے الگ ہوئے تھے پا برہنہ اورننگے۔اپنے اعمال سمیت دائمی زندگی اور ابدی مکان کی طرف کوچ کرگئے ہیں جیساکہ مالک کائنات نے فرمایا ہے '' جس طرح ہم نے پہلے بنایا تھا ویسے ہی واپس لے آئیں گے یہ ہمارا وعدہ ہے اور ہم اسے بہرحال انجام دینے والے ہیں ''۔

۲۰۲

(۱۱۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

ذكر فيها ملك الموت وتوفية النفس وعجز الخلق عن وصف اللَّه

هَلْ تُحِسُّ بِه إِذَا دَخَلَ مَنْزِلًا - أَمْ هَلْ تَرَاه إِذَا تَوَفَّى أَحَداً - بَلْ كَيْفَ يَتَوَفَّى الْجَنِينَ فِي بَطْنِ أُمِّه - أَيَلِجُ عَلَيْه مِنْ بَعْضِ جَوَارِحِهَا - أَمْ الرُّوحُ أَجَابَتْه بِإِذْنِ رَبِّهَا - أَمْ هُوَ سَاكِنٌ مَعَه فِي أَحْشَائِهَا - كَيْفَ يَصِفُ إِلَهَه - مَنْ يَعْجَزُ عَنْ صِفَةِ مَخْلُوقٍ مِثْلِه!

(۱۱۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم الدنيا

وأُحَذِّرُكُمُ الدُّنْيَا فَإِنَّهَا مَنْزِلُ قُلْعَةٍ - ولَيْسَتْ بِدَارِ نُجْعَةٍ - قَدْ تَزَيَّنَتْ بِغُرُورِهَا - وغَرَّتْ بِزِينَتِهَا - دَارُهَا هَانَتْ عَلَى رَبِّهَا فَخَلَطَ حَلَالَهَا بِحَرَامِهَا - وخَيْرَهَا بِشَرِّهَا وحَيَاتَهَا بِمَوْتِهَا وحُلْوَهَا بِمُرِّهَا

(۱۱۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں ملک الموت ' ان کے قبض روح اورمخلوقات کے توصیف الٰہی سے عاجزی کا ذکرکیا گیا ہے)

کیا جس وقت ملک الموت گھر میں داخل ہوتے ہیں تمہیں کوئی احساسا ہوتا ہے اور کیا انہیں روح قبض کرتے ہوئے تم نے کبھی دیکھا ہے؟ بھلا وہ شکم مادرمیں بچہ کو کس طرح مارتے ہیں۔کیا کسی طرف سے اندرداخل ہو جاتے ہیں یا روح ہی ان کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی شکل آتی ہے یا پہلے سے بچہ کے پہلو میں رہتے ہیں۔سوچو! کہ جو شخص ایک خلوق کے کمالات کو نہ سمجھ سکتا ہو وہ خالق کے اوصاف کو کیا بیان کرسکے گا ۔

(۱۱۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(مذمت دنیا میں )

میں تمہیں اس دنیا سے ہوشیار کر رہاہوں کہ یہ کوچ کی جگہ ہے۔آب و دانہ کی منزل نہیں ہے۔ یہ اپنے دھوکہ ہی سے آراستہ ہوگئی ہے اور اپنی آرائش ہی سے دھوکہ دیتی ہے۔اس کا گھر پروردگار کی نگاہ میں بالکل بے ارزش ہے اسی لئے اس نے اس کے حلال کے ساتھ حرام خیر کے ساتھ شر ' زندگی کے ساتھ موت اور شیریں کے ساتھ تلخ کو رکھ دیا ہے

۲۰۳

لَمْ يُصْفِهَا اللَّه تَعَالَى لأَوْلِيَائِه - ولَمْ يَضِنَّ بِهَا عَلَى أَعْدَائِه – خَيْرُهَا زَهِيدٌ وشَرُّهَا عَتِيدٌ - وجَمْعُهَا يَنْفَدُ ومُلْكُهَا يُسْلَبُ وعَامِرُهَا يَخْرَبُ - فَمَا خَيْرُ دَارٍ تُنْقَضُ نَقْضَ الْبِنَاءِ - وعُمُرٍ يَفْنَى فِيهَا فَنَاءَ الزَّادِ - ومُدَّةٍ تَنْقَطِعُ انْقِطَاعَ السَّيْرِ - اجْعَلُوا مَا افْتَرَضَ اللَّه عَلَيْكُمْ مِنْ طَلَبِكُمْ واسْأَلُوه مِنْ أَدَاءِ حَقِّه مَا سَأَلَكُمْ.وأَسْمِعُوا دَعْوَةَ الْمَوْتِ - آذَانَكُمْ قَبْلَ أَنْ يُدْعَى بِكُمْ - إِنَّ الزَّاهِدِينَ فِي الدُّنْيَا تَبْكِي قُلُوبُهُمْ وإِنْ ضَحِكُوا - ويَشْتَدُّ حُزْنُهُمْ وإِنْ فَرِحُوا - ويَكْثُرُ مَقْتُهُمْ أَنْفُسَهُمْ وإِنِ اغْتَبَطُوا بِمَا رُزِقُوا - قَدْ غَابَ عَنْ قُلُوبِكُمْ ذِكْرُ الآجَالِ - وحَضَرَتْكُمْ كَوَاذِبُ الآمَالِ - فَصَارَتِ الدُّنْيَا أَمْلَكَ بِكُمْ مِنَ الآخِرَةِ - والْعَاجِلَةُ أَذْهَبَ بِكُمْ مِنَ الآجِلَةِ - وإِنَّمَا أَنْتُمْ إِخْوَانٌ عَلَى دِينِ اللَّه - مَا فَرَّقَ بَيْنَكُمْ إِلَّا خُبْثُ السَّرَائِرِ - وسُوءُ الضَّمَائِرِ - فَلَا تَوَازَرُونَ ولَا تَنَاصَحُونَ - ولَا تَبَاذَلُونَ ولَا تَوَادُّونَ - مَا بَالُكُمْ تَفْرَحُونَ بِالْيَسِيرِ مِنَ الدُّنْيَا تُدْرِكُونَه

اور نہ اس نے اپنے اولیاء کے لئے مخصوص کیا ہے اور نہ اپنے دشمنوں کواس سے محروم رکھا ہے۔اس کا خیر بہت کم ہے اور اس کا شر ہر وقت حاضر ہے۔اس کاجمع کیا ہوا ختم ہو جانے والا ہے اور اس کاملک چھن جانے والا ہے اور اس کے آباد کوایک دن خراب ہو جانا ہے۔بھلا اس گھرمیں کیا خوبی ہے جو کمزور عمارت کی طرح گر جائے اور اس عمر میں کیا بھلائی ہے جو زاد راہ کی طرح ختم ہو جائے اوراس زندگی میں کیا حسن ہے جو چلتے پھرتے تمام ہو جائے۔

دیکھواپنے مطلوبہ امورمیں فرائض الہیہ کو بھی شامل کرلو اور اسی کے حق کے ادا کرنے کی توفیق کا مطالبہ کرو۔اپنے کانوں کو موت کی آواز سنا دو قبل اس کے کہ تمہیں بلا لیا جائے۔دنیا میں زاہدوں کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ خوش بھی ہوتے ہیںتوان کا دل روتا رہتا ہے۔اوروہ ہنستے بھی ہیں توان کا رنج و اندوہ شدید ہوتا ہے۔وہ خود اپنے نفس سے بیزار رہتے ہیں چاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں۔افسوس تمہارے دلوں سے موت کی یاد نکل گئی ہے اورجھوٹی امیدوں نے ان پرقبضہ کرلیا ہے۔اب دنیا کا اختیار تمہارے اوپرآخرت سے زیادہ ہے اوروہ عاقبت سے زیادہ تمہیں کھینچ رہی ہے۔تم دین خدا کے اعتبارسے بھائی بھائی تھے۔لیکن تمہیں باطن کی خباثت اور ضمیر کی خرابی نے الگ الگ کردیا ہے کہ اب نہ کسی کا بوجھ بٹاتے ہو۔نہ نصیحت کرتے ہو۔نہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہو اورنہ ایک دوسرے سے واقعاً محبت کرتے ہو۔آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ معمولی سی دنیا کو پاکرخوش ہو جاتے ہو

۲۰۴

ولَا يَحْزُنُكُمُ الْكَثِيرُ مِنَ الآخِرَةِ تُحْرَمُونَه - ويُقْلِقُكُمُ الْيَسِيرُ مِنَ الدُّنْيَا يَفُوتُكُمْ - حَتَّى يَتَبَيَّنَ ذَلِكَ فِي وُجُوهِكُمْ - وقِلَّةِ صَبْرِكُمْ عَمَّا زُوِيَ مِنْهَا عَنْكُمْ - كَأَنَّهَا دَارُ مُقَامِكُمْ وكَأَنَّ مَتَاعَهَا بَاقٍ عَلَيْكُمْ - ومَا يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ أَنْ يَسْتَقْبِلَ أَخَاه بِمَا يَخَافُ مِنْ عَيْبِه - إِلَّا مَخَافَةُ أَنْ يَسْتَقْبِلَه بِمِثْلِه - قَدْ تَصَافَيْتُمْ عَلَى رَفْضِ الآجِلِ وحُبِّ الْعَاجِلِ - وصَارَ دِينُ أَحَدِكُمْ لُعْقَةً عَلَى لِسَانِه - صَنِيعَ مَنْ قَدْ فَرَغَ مِنْ عَمَلِه وأَحْرَزَ رِضَى سَيِّدِه.

(۱۱۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها مواعظ للناس

الْحَمْدُ لِلَّه الْوَاصِلِ الْحَمْدَ بِالنِّعَمِ - والنِّعَمَ بِالشُّكْرِ نَحْمَدُه عَلَى آلَائِه - كَمَا نَحْمَدُه عَلَى بَلَائِه - ونَسْتَعِينُه عَلَى هَذِه النُّفُوسِ الْبِطَاءِ - عَمَّا أُمِرَتْ بِه - السِّرَاعِ إِلَى مَا نُهِيَتْ عَنْه - ونَسْتَغْفِرُه مِمَّا أَحَاطَ بِه عِلْمُه

اور مکمل آخرت سے محروم ہو کر رنجیدہ نہیں ہوتے ہو۔تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے نکل جائے تو پریشان ہوجاتے ہو اور اس کا اثر تمہارے چہروں سے ظاہر ہو جاتا ہے اوراس کی علیحدگی پر صبر نہیں کرپاتے ہو جیسے وہی تمہاری منزل ہے اور جیسے اس کا سرمایہ واقعی باقی رہنے والا ہے۔تمہاری حالت یہ ہے کہ کوئی شخص بھی دوسرے کے عیب کے اظہار سے باز نہیں آتا ہے مگر صرف اس خوف سے کہ وہ بھی اسی طرح پیشآئے گا۔تم سبنے آخرت کونظر انداز کرنے اوردنیا کی محبت پر اتحاد کرلیا ہے اور ہر ایک کا دین زبان کی چٹنی بن کر رہ گیاہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب نے اپناعمل مکمل کرلیا ہے اور اپنے مالک کو واقعاً خوش کرلیا ہے۔

(۱۱۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کی نصیحت کا سامان فراہم کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے حمد کو نعمتوں سے اورنعمتوں کو شکریہ سے ملا دیا ہے۔ہم نعمتوں میں اس کی حمد اسی طرح کرتے ہیں 'جس طرح مصیبتوں میں کرتے ہیں اوراس سے اس نفس کےمقابلہ کے لئے مدد کے طلب گار ہیں جو اوامر کی تعمیل میں سستی کرتا ہے اور نواہی کی طرف تیزی سے بڑھ جاتا ہے۔ان تمام غلطیوں کے لئے استغفار کرتے ہیں جنہیں اس کے علم نے احاطہ کررکھا ہے

۲۰۵

وأَحْصَاه كِتَابُه عِلْمٌ غَيْرُ قَاصِرٍ - وكِتَابٌ غَيْرُ مُغَادِرٍ - ونُؤْمِنُ بِه إِيمَانَ مَنْ عَايَنَ الْغُيُوبَ - ووَقَفَ عَلَى الْمَوْعُودِ - إِيمَاناً نَفَى إِخْلَاصُه الشِّرْكَ ويَقِينُه الشَّكَّ - ونَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وَحْدَه لَا شَرِيكَ لَه - وأَنَّ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَبْدُه ورَسُولُه - شَهَادَتَيْنِ تُصْعِدَانِ الْقَوْلَ وتَرْفَعَانِ الْعَمَلَ - لَا يَخِفُّ مِيزَانٌ تُوضَعَانِ فِيه - ولَا يَثْقُلُ مِيزَانٌ تُرْفَعَانِ عَنْه.

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - الَّتِي هِيَ الزَّادُ وبِهَا الْمَعَاذُ - زَادٌ مُبْلِغٌ ومَعَاذٌ مُنْجِحٌ - دَعَا إِلَيْهَا أَسْمَعُ دَاعٍ - ووَعَاهَا خَيْرُ وَاعٍ - فَأَسْمَعَ دَاعِيهَا وفَازَ وَاعِيهَا.

عِبَادَ اللَّه إِنَّ تَقْوَى اللَّه حَمَتْ أَوْلِيَاءَ اللَّه مَحَارِمَه - وأَلْزَمَتْ قُلُوبَهُمْ مَخَافَتَه - حَتَّى أَسْهَرَتْ لَيَالِيَهُمْ وأَظْمَأَتْ هَوَاجِرَهُمْ - فَأَخَذُوا الرَّاحَةَ بِالنَّصَبِ والرِّيَّ بِالظَّمَإِ

اور اس کی کتاب نے جمع کر رکھا ہے۔اس کا علم قاصر نہیں ہے اور اس کی کتاب کوئی چیز چھوڑنے والی نہیں ہے۔ہم اس پر اسی طرح ایمان لائے ہیں جیسے غیب کا مشاہدہ کرلیا ہو اوروعدہ سے آگاہی حاصل کرلی ہو۔ہمارے اس ایمان کے اخلاص نے شرک کی نفی کی ہے اور اس کے یقین نے شک کا ازالہ کیا ہے۔ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں۔یہ دونوں شہادتیں وہ ہیں جو اقوال کو بلندی دیتی ہیں اور اعمال کو رفعت عطا کرتی ہیں۔جہاں یہ رکھ دی جائیں وہ پلہ ہلکا نہیں ہوتا ہے اور جہاں سے انہیں اٹھا لیا جائے اس پلہ میں کوئی وزن نہیں رہ جاتا ہے۔

اللہ کے بندو! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارے لئے زاد راہ ہے اور اسی پر آخرت کا دارومدار ہے۔یہی زاد راہ منزل تک پہنچانے والا ہے اوریہی پناہ گاہ کام آنے والی ہے۔اسی کی طرف سب سے بہتر داعی نے دعوت دے دی ہے اوراسے سب سے بہتر سننے والے نے محفوظ کرلیا ہے۔چنانچہ اس کے سنانے والے نے سنادیا اوراس کے محفوظ کرنے والے نے کامیابی حاصل کرلی۔ اللہ کے بندو!اسی تقویٰ الٰہی نے اولیاء خداکو محرمات سے بچا کر رکھا ہے اوران کے دلوں میں خوف خدا کو لازم کردیا ہے یہاں تک کہ ان کی راتیں بیدار کی نذر ہوگئیں اوران کے یہ تپتے ہوئے دن پیاس میں گزر گئے۔ انہوں نے راحت کو تکلیف کے عوض اورسیرابی کو پیاس کے ذریعہ حاصل کیا

۲۰۶

واسْتَقْرَبُوا الأَجَلَ فَبَادَرُوا الْعَمَلَ - وكَذَّبُوا الأَمَلَ فَلَاحَظُوا الأَجَلَ - ثُمَّ إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ فَنَاءٍ وعَنَاءٍ وغِيَرٍ وعِبَرٍ - فَمِنَ الْفَنَاءِ أَنَّ الدَّهْرَ مُوتِرٌ قَوْسَه - لَا تُخْطِئُ سِهَامُه - ولَا تُؤْسَى جِرَاحُه يَرْمِي الْحَيَّ بِالْمَوْتِ - والصَّحِيحَ بِالسَّقَمِ - والنَّاجِيَ بِالْعَطَبِ - آكِلٌ لَا يَشْبَعُ وشَارِبٌ لَا يَنْقَعُ - ومِنَ الْعَنَاءِ أَنَّ الْمَرْءَ يَجْمَعُ مَا لَا يَأْكُلُ - ويَبْنِي مَا لَا يَسْكُنُ - ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى اللَّه تَعَالَى - لَا مَالًا حَمَلَ ولَا بِنَاءً نَقَلَ - ومِنْ غِيَرِهَا أَنَّكَ تَرَى الْمَرْحُومَ مَغْبُوطاً - والْمَغْبُوطَ مَرْحُوماً - لَيْسَ ذَلِكَ إِلَّا نَعِيماً زَلَّ وبُؤْساً نَزَلَ - ومِنْ عِبَرِهَا أَنَّ الْمَرْءَ يُشْرِفُ عَلَى أَمَلِه - فَيَقْتَطِعُه حُضُورُ أَجَلِه - فَلَا أَمَلٌ يُدْرَكُ - ولَا مُؤَمَّلٌ يُتْرَكُ - فَسُبْحَانَ اللَّه مَا أَعَزَّ سُرُورَهَا - وأَظْمَأَ رِيَّهَا وأَضْحَى فَيْئَهَا - لَا جَاءٍ يُرَدُّ

ہے۔وہ موت کو قریب تر سمجھتے ہیں تو تیز عمل کرتے ہیں اور انہوں نے امیدوں کو جھٹلا دیا ہے تو موت کونگاہ میں رکھا ہے۔پھریہ دنیا تو بہرحال فنا اور تکلیف ' تغیر اورعبرت کامقام ہے۔فنا ہی کانتیجہ ہے کہ زمانہ ہر وقت اپنی کمان چڑھائے رہتا ہے کہ اس کے تیر خطانہیں کرتے ہیں اور اس کے زخموں کا علاج نہیں ہو پاتا ہے۔وہ زندہ کو موت سے ' صحت مند کو بیماری سے اورنجات پانے والے کو ہلاکت سے مار دیتا ہے۔اس کاکھانے والا سیر نہیں ہوتا ہے اور پینے والا سیراب نہیں ہوتا ہے۔اور اس کے رنج و تعب کا اثر یہ ہے کہ انسان اپنے کھانے کا سامان فراہم کرتا ہے ' رہنے کے لئے مکان بناتا ہے اور اس کے بعداچانک خدا کی بارگاہ کی طرف چل دیتا ہے۔نہ مال ساتھ لے جاتا ہے اور نہ مکان منتقل ہو پاتا ہے۔

اس کے تغیرات کا حال یہ ہے کہ جسے قابل رحم دیکھا تھا وہ قابل رشک ہو جاتا ہے اور جسے قابل رشک دیکھا تھا وہ قابل رحم ہو جاتا ہے۔گویا ایک نعمت ہے جو زائل ہوگئی اور ایک بلاء ہے جو نازل ہوگئی۔اس کی عبرتوں کی مثال یہ ہے کہ انسان اپنی امیدوں تک پہنچنے والا ہی ہوتا ہے کہ موت اس کے سلسلہ کو قطع کردیتی ہے اور نہ کوئی امید حاصل ہوتی ہے اور نہ امید کرنے والا ہی چھوڑاجاتا ہے۔اے سبحان اللہ! اس دنیا کی خوشی بھی کیا دھوکہ ہے اور اس کی سیرابی بھی کیسی تشنہ کامی ہے اور اس کے سایہ میں بھی کس قدردھوپ ہے۔نہ یہاں آنے والی موت کو واپس کیا جا سکتا ہے

۲۰۷

ولَا مَاضٍ يَرْتَدُّ - فَسُبْحَانَ اللَّه - مَا أَقْرَبَ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ لِلَحَاقِه بِه - وأَبْعَدَ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ لِانْقِطَاعِه عَنْه!

إِنَّه لَيْسَ شَيْءٌ بِشَرٍّ مِنَ الشَّرِّ إِلَّا عِقَابُه - ولَيْسَ شَيْءٌ بِخَيْرٍ مِنَ الْخَيْرِ إِلَّا ثَوَابُه - وكُلُّ شَيْءٍ مِنَ الدُّنْيَا سَمَاعُه أَعْظَمُ مِنْ عِيَانِه - وكُلُّ شَيْءٍ مِنَ الآخِرَةِ عِيَانُه أَعْظَمُ مِنْ سَمَاعِه - فَلْيَكْفِكُمْ مِنَ الْعِيَانِ السَّمَاعُ - ومِنَ الْغَيْبِ الْخَبَرُ - واعْلَمُوا أَنَّ مَا نَقَصَ مِنَ الدُّنْيَا - وزَادَ فِي الآخِرَةِ - خَيْرٌ مِمَّا نَقَصَ مِنَ الآخِرَةِ - وزَادَ فِي الدُّنْيَا - فَكَمْ مِنْ مَنْقُوصٍ رَابِحٍ ومَزِيدٍ خَاسِرٍ - إِنَّ الَّذِي أُمِرْتُمْ بِه أَوْسَعُ مِنَ الَّذِي نُهِيتُمْ عَنْه - ومَا أُحِلَّ لَكُمْ أَكْثَرُ مِمَّا حُرِّمَ عَلَيْكُمْ - فَذَرُوا مَا قَلَّ لِمَا كَثُرَ ومَا ضَاقَ لِمَا اتَّسَعَ - قَدْ تَكَفَّلَ لَكُمْ بِالرِّزْقِ - وأُمِرْتُمْ بِالْعَمَلِ - فَلَا يَكُونَنَّ الْمَضْمُونُ لَكُمْ طَلَبُه - أَوْلَى بِكُمْ مِنَ الْمَفْرُوضِ عَلَيْكُمْ عَمَلُه - مَعَ أَنَّه واللَّه لَقَدِ اعْتَرَضَ الشَّكُّ - ودَخِلَ الْيَقِينُ - حَتَّى كَأَنَّ الَّذِي ضُمِنَ لَكُمْ قَدْ فُرِضَ عَلَيْكُمْ

اور نہ کسی جانے والے کو پلٹایا جاسکتا ہے۔سبحان اللہ زندہ مردہ سے کس قدر جلدی ملحق ہو کر قریب تر ہو جاتا ہے اورمردہ زندہ سے رشتہ توڑ کر کس قدر دور ہو جاتا ہے۔(یاد رکھو) شر سے بدتر کوئی شے اس کے عذا کے علاوہ نہیں ہے اورخیر سے بہتر کوئی شے اس کے ثواب کے سوا نہیں ہے۔دنیا میں ہرش ے کا سننا اس کے دیکھنے سے عظیم تر ہوتا ہے اورآخرت میں ہر شے کا دیکھنا اس کے سننے سے بڑھ چڑھ کر ہوتا ہے لہٰذا تمہارے لئے دیکھنے کے بجائے سننا اور غیب کے مشاہدہ کے بجائے خبر ہی کو کافی ہو جانا چاہیے۔یاد رکھو کہ دنیا میں کسی شے کا کم ہونا اور آخرت میں زیادہ ہونا اس سے بہتر ہے کہ دنیا میں زیادہ ہو اورآخرتمیں کم ہو جائے کہ کتنے ہی کمی والے فائدہ میں رہتے ہیں اور کتنے ہی زیادتی والے گھاٹے میں رہ جاتے ہیں۔بیشک جن چیزوں کا تمہیں حکم دیا گیاہے ان میں زیادہ وسعت ہے یہ نسبت ان چیزوں کے جن سے روکا گیا ہے اور جنہیں حلالا کیا گیا ہے وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں جنہیں حرام قراردیا گیا ہے لہٰذا قلیل کو کثیر کے لئے اور تنگی کو وسعت کی خاطرچھوڑ دو۔پروردگار نے تمہارے رزق کی ذمہ داری لی ہے ۔اور عمل کرنے کاحکم دیا ہے لہٰذا ایسا نہ ہو کہ جس کی ضمانت لی گئی ہے اس کی طلب اس سے زیادہ ہو جائے جس کو فرض کیا گیا ہے۔خدا گواہ ہے کہ تمہارے حالات کو دیکھ کر یہ شبہ ہونے لگتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ شائد جس کی ضمانت لی گئی ہے وہی تم پرواجب کیا گیا ہے

۲۰۸

وكَأَنَّ الَّذِي فُرِضَ عَلَيْكُمْ قَدْ وُضِعَ عَنْكُمْ - فَبَادِرُوا الْعَمَلَ وخَافُوا بَغْتَةَ الأَجَلِ - فَإِنَّه لَا يُرْجَى مِنْ رَجْعَةِ الْعُمُرِ - مَا يُرْجَى مِنْ رَجْعَةِ الرِّزْقِ - مَا فَاتَ الْيَوْمَ مِنَ الرِّزْقِ رُجِيَ غَداً زِيَادَتُه - ومَا فَاتَ أَمْسِ مِنَ الْعُمُرِ - لَمْ يُرْجَ الْيَوْمَ رَجْعَتُه - الرَّجَاءُ مَعَ الْجَائِي والْيَأْسُ مَعَ الْمَاضِي - فَـ( اتَّقُوا الله حَقَّ تُقاتِه - ولا تَمُوتُنَّ إِلَّا وأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ) .

(۱۱۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الاستسقاء

اللَّهُمَّ قَدِ انْصَاحَتْ جِبَالُنَا - واغْبَرَّتْ أَرْضُنَا وهَامَتْ دَوَابُّنَا - وتَحَيَّرَتْ فِي مَرَابِضِهَا - وعَجَّتْ عَجِيجَ الثَّكَالَى عَلَى أَوْلَادِهَا - ومَلَّتِ التَّرَدُّدَ فِي مَرَاتِعِهَا - والْحَنِينَ إِلَى مَوَارِدِهَا - اللَّهُمَّ فَارْحَمْ أَنِينَ الآنَّةِ - وحَنِينَ الْحَانَّةِ - اللَّهُمَّ فَارْحَمْ حَيْرَتَهَا فِي مَذَاهِبِهَا - وأَنِينَهَا فِي مَوَالِجِهَا - اللَّهُمَّ خَرَجْنَا إِلَيْكَ - حِينَ اعْتَكَرَتْ عَلَيْنَا حَدَابِيرُ السِّنِينَ -

اور جس کاحکم دیا گیا ہے اسی کو ساقط کردیا گیا ہے۔خدا را عمل کی طرف سبقت کرو اور موت کے اچانک وارد ہو جانے سے ڈرواس لئے کہ موت کے واپس ہونے کی وہ امید نہیں ہے جس قدر رزق کے پلٹ کرآجانے کی ہے۔جو رزق آج ہاتھ سے نکل گیا ہے اس کے کل اضافہ کا امکان ہے لیکن جو عمرآج نکل گئی ہے اس کے کل واپس آنے کا بھی امکان نہیں ہے۔امید آنے والے کی ہو سکتی ہے جانے والے کی نہیں اس سے تو مایوسی ہی ہو سکتی ہے ''اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کاحق ہے اور خبردار اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک واقعی مسلمان نہ ہوجائو''۔

(۱۱۵)

(آپ کے خطبہ کا ایک حصہ)

(طلب بارش کے سلسلہ میں )

خدایا! ہمارے پہاڑوں کاسبزہ خشک ہوگیا ہے اور ہماری زمین پر خاک اڑ رہی ہے۔ہمارے جانور پیاسے ہیں اور اپنی منزل کی تلاش میں سر گرداں ہیں اور اپنے بچوں کے حق میں اس طرح فریادی ہیں جیسے زن پسر مردہ ۔ سب چراگاہوں کی طرف پھیرے لگانے اورتالابوں کی طرف والہانہ طور پردوڑنے سے عاجزآگئے ہیں۔خدایا! اب ان کی فریادی بکریوں اور اشتیاق آمیز پکارنے والی اونٹنیوں پر رحم فرما۔خدایا!ان کی راہوں میں پریشانی اور منزلوں پر چیخ و پکار پر رحم فرما۔خدایا! ہم اس وقت گھرسے نکل کرآئے ہیں جب قحط سالی کے مارے ہوئے لاغراونٹ ہماری طرف پلٹ پڑے ہیں

۲۰۹

وأَخْلَفَتْنَا مَخَايِلُ الْجُودِ - فَكُنْتَ الرَّجَاءَ لِلْمُبْتَئِسِ - والْبَلَاغَ لِلْمُلْتَمِسِ نَدْعُوكَ حِينَ قَنَطَ الأَنَامُ - ومُنِعَ الْغَمَامُ وهَلَكَ السَّوَامُ - أَلَّا تُؤَاخِذَنَا بِأَعْمَالِنَا - ولَا تَأْخُذَنَا بِذُنُوبِنَا - وانْشُرْ عَلَيْنَا رَحْمَتَكَ بِالسَّحَابِ الْمُنْبَعِقِ - والرَّبِيعِ الْمُغْدِقِ - والنَّبَاتِ الْمُونِقِ سَحّاً وَابِلًا - تُحْيِي بِه مَا قَدْ مَاتَ - وتَرُدُّ بِه مَا قَدْ فَاتَ - اللَّهُمَّ سُقْيَا مِنْكَ مُحْيِيَةً مُرْوِيَةً - تَامَّةً عَامَّةً طَيِّبَةً مُبَارَكَةً - هَنِيئَةً مَرِيعَةً - زَاكِياً نَبْتُهَا ثَامِراً فَرْعُهَا نَاضِراً وَرَقُهَا - تُنْعِشُ بِهَا الضَّعِيفَ مِنْ عِبَادِكَ - وتُحْيِي بِهَا الْمَيِّتَ مِنْ بِلَادِكَ - اللَّهُمَّ سُقْيَا مِنْكَ تُعْشِبُ بِهَا نِجَادُنَا - وتَجْرِي بِهَا وِهَادُنَا - ويُخْصِبُ بِهَا جَنَابُنَا - وتُقْبِلُ بِهَا ثِمَارُنَا - وتَعِيشُ بِهَا مَوَاشِينَا - وتَنْدَى بِهَا أَقَاصِينَا - وتَسْتَعِينُ بِهَا ضَوَاحِينَا - مِنْ بَرَكَاتِكَ الْوَاسِعَةِ - وعَطَايَاكَ الْجَزِيلَةِ - عَلَى بَرِيَّتِكَ الْمُرْمِلَةِ ووَحْشِكَ الْمُهْمَلَةِ - وأَنْزِلْ عَلَيْنَا سَمَاءً مُخْضِلَةً مِدْرَاراً هَاطِلَةً - يُدَافِعُ الْوَدْقُ مِنْهَا الْوَدْقَ - ويَحْفِزُ الْقَطْرُ مِنْهَا الْقَطْرَ - غَيْرَ خُلَّبٍ بَرْقُهَا -

اور جن سے کرم کی امید تھی وہ بادل آآکر چلے گئے ہیں۔اب درد کے ماروں کا تو ہی آسراہے اور التجا کرنے والوں کا تو ہی سہاراہے۔ہم اس وقت دعا کر رہے ہیں جب لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔بدلوں کے خیر کو روک دیا گیا ہے اور جانور ہلاک ہو رہے ہیں تو خدایا ہمارے اعمال کی بنا پر ہمارا مواخذہ نہ کرنا۔اورہمیں ہمارے گناہوں کی گرفت میں مت لے لینا۔اپنے دامن رحمت کو ہمارے اوپر پھیلا دے برسنے والے بادل ' موسلا دھار برسات اور حسین سبزہ کے ذریعہ۔ایسی برستا جس سے مردہ زمینیں زندہ ہوجائیں اورگئی ہوئی بہار واپس آجائے۔خدایا! ایسی سیرابی عطا فرما جو زندہ کرنے والی' سیراب بنانے والی۔کامل و شامل۔ پاکیزہ و مبارک ' خوش گوار و شاداب ہو جس کی برکت سے نباتات پھلنے پھولنے لگیں۔شاخیں بار آورہو جائیںپتے ہر ے ہو جائیں ۔کمزور بندوں کو اٹھنے کاسہارا مل جائے ۔مردہ زمینوں کو زندگی عطا ہو جائے۔خدایا! ایسی سیرابی عطا فرما جس سے ٹیلے سبزہ پوش ہو جائیں۔نہریں جاری ہو جائیں۔آس پاس کے علاقے شاداب ہو جائیں۔پھل نکلنے لگیں۔جانور جی اٹھیں۔دور دراز کے علاقہ بھی تر ہو جائیں اور کھلے میدان بھی تیری اس وسیع برکت اورعظیم عطا سے مستفیض ہو جائیں جو تیری تباہ حال مخلوق اورآوارہ گرد جانوروں پر ہے۔ہم پر ایسی بارش نازل فرما جو پانی سے شرابور کر دینے والی۔ موسلادھارمسلسل برسنے والی ہو جس میں قطرات ' قطرات کوڈھکیل رہے ہوں اور بوندیں ' بوندوں کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہوں۔ نہ اس کی بجلی دھوکہ دینے والی ہو

۲۱۰

ولَا جَهَامٍ عَارِضُهَا - ولَا قَزَعٍ رَبَابُهَا ولَا شَفَّانٍ ذِهَابُهَا - حَتَّى يُخْصِبَ لإِمْرَاعِهَا الْمُجْدِبُونَ - ويَحْيَا بِبَرَكَتِهَا الْمُسْنِتُونَ - فَإِنَّكَ تُنْزِلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا - وتَنْشُرُ رَحْمَتَكَ وأَنْتَ( الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ ) .

تفسير ما في هذه الخطبة من الغريب

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه قولهعليه‌السلام - انصاحت جبالنا - أي تشققت من المحول - يقال انصاح الثوب إذا انشق - ويقال أيضا انصاح النبت - وصاح وصوح إذا جف ويبس كله بمعنى -. وقوله وهامت دوابُّنا أي عطشت - والهُيام العطش -. وقوله حدابير السنين جمع حِدْبار - وهي الناقة التي أنضاها السير - فشبه بها السنة التي فشا فيها الجدب - قال ذو الرمة:

حدابير ما تنفك إلا مناخة

على الخسف أو نرمي بها بلدا قفرا

- وقوله ولا قزع ربابها - القزع القطع الصغار المتفرقة من السحاب -. وقوله ولا شَفَّان ذهابها - فإن تقديره ولا ذات شَفَّان ذهابها - والشَفَّان الريح الباردة - والذهاب الأمطار اللينة - فحذف ذات لعلم السامع به

اور نہ اس کے بادل پانی سے خالی ہوں۔نہ اس کے ابر کے سفید ٹکڑے بکھرے ہوں اور نہ صرف ٹھنڈے جھونکوں کی بوندا باندی ہو۔ایسی بارش ہو کہ قحط کے مارے ہوئے اس کی سر سبز یوں سے خوشحال ہوجائیں اور خشک سالی کے شکار اس کی برکت سے جی اٹھیں۔اس لئے کہ تو ہی مایوسی کے بعد پانی برسانے والا اور دامان رحمت کا پھیلانے والا ہے اور تو ہی قابل حمدو ستائش ' سر پرست و مدد گار ہے۔

سید رضی : انصاحت جبالنا:یعنی پہاڑوں میں خشک سالی سے شگاف پڑ گئے ہیں کہ انصاح الثوب کپڑے کے پھٹ جانے کو کہا جاتا ہے۔یا اس کے معنی گھاس کے خشک ہو جانے کے ہیں کہ صاح ۔انصاح ایسے مواقع پر بھی استعمال ہوتا ہے ۔

ھامت دوابنا: یعنی پیاسے ہیں اور ہیام یہاں عطش کے معنی میں ہے۔

حدابیرالسنین:حدبار کی جمع ہے۔وہ اونٹ جسے سفر لاغر بنادے۔گویا کہ قحط زدہ سال کو اس اونٹ سے تشبیہ دی گئی ہے جیسا کہ ذوا لرمہ شاعرنے کہا تھا:

(یہ لاغر اور کمزوراونٹنیاں ہیں جو سختی جھیل کربیٹھ گئی ہیں یا پھربےآب و گیا ہ صحرا میں لے جانے پرچلی جاتی ہیں)

لاتزع ربابھا۔قزع۔بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے۔

لا شفان ذھابھا ۔اصل میں '' ذات شفان'' ہے۔شفان ٹھنڈی ہوا کو کہا جاتا ہے اور ذہاب ہلکی پھوار کا نام ہے یہاں لفظ '' ذات '' حذف ہوگیا ہے۔

۲۱۱

(۱۱۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها ينصح أصحابه

أَرْسَلَه دَاعِياً إِلَى الْحَقِّ - وشَاهِداً عَلَى الْخَلْقِ - فَبَلَّغَ رِسَالَاتِ رَبِّه - غَيْرَ وَانٍ ولَا مُقَصِّرٍ - وجَاهَدَ فِي اللَّه أَعْدَاءَه - غَيْرَ وَاهِنٍ ولَا مُعَذِّرٍ - إِمَامُ مَنِ اتَّقَى وبَصَرُ مَنِ اهْتَدَى.مِنْهَا ولَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ مِمَّا طُوِيَ عَنْكُمْ غَيْبُه - إِذاً لَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ - تَبْكُونَ عَلَى أَعْمَالِكُمْ - وتَلْتَدِمُونَ عَلَى أَنْفُسِكُمْ - ولَتَرَكْتُمْ أَمْوَالَكُمْ لَا حَارِسَ لَهَا - ولَا خَالِفَ عَلَيْهَا - ولَهَمَّتْ كُلَّ امْرِئٍ مِنْكُمْ نَفْسُه - لَا يَلْتَفِتُ إِلَى غَيْرِهَا - ولَكِنَّكُمْ نَسِيتُمْ مَا

ذُكِّرْتُمْ - وأَمِنْتُمْ مَا حُذِّرْتُمْ - فَتَاه عَنْكُمْ رَأْيُكُمْ - وتَشَتَّتَ عَلَيْكُمْ أَمْرُكُمْ - ولَوَدِدْتُ أَنَّ اللَّه فَرَّقَ بَيْنِي وبَيْنَكُمْ - وأَلْحَقَنِي بِمَنْ

(۱۱۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اپنے اصحاب کو نصیحت فرمائی ہے)

اللہ نے پیغمبر (ص) کو اسلام کی طرف دعوت دینے والا اور مخلوقات کے اعمال کا گواہ بنا کربھیجا تو آپ نے پیغام الٰہی کومکمل طور سے پہچا دیا۔نہ کوئی سستی کی اور نہ کوئی کوتاہی۔دشمنان خدا سے جہاد کیا اور اس راہمیں نہ کوئی کمزوری دکھلائی اور نہ کسی حیلہ اور بہانہ کا سہارا لیا۔ آپ متقین کے امام اور طلب گار ان ہدایت کے لئے آنکھوں کی بصارت تھے۔اگرتم ان تمام باتوں کو جان لیتے جو تم سے مخفی رکھی گئی ہیں اور جن کو میں جانتا ہوں تو صحرائوں میں نکل جاتے۔اپنے اعمال پر گریہ کرتے اور اپنے کئے پر سروسینہ پیٹتے اور سارے اموال کو اس طرح چھوڑ کر چل دیتے کہ نہ ان کا کوئی نگہبان ہوتا اور نہ وارث اور ہر شخص کو صرف اپنی ذات کی فکر ہوتی۔کوئی دوسرے کی طرف رخ بھی نہ کرتا۔لیکن افسوس کہ تم نے اس سبق کو بالکل بھلا دیا جو تمہیں یاد کرایا گیا تھا اور ان ہولناک مناظر کی طرف سے یکسر مطمئن ہوگئے جن سے ڈرایا گیا تھا۔تو تمہاری رائے بھٹک گئی اورتمہارے امور میں انتشار پیدا ہوگیا اور میں یہ چاہنے لگا کہ کاش اللہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دیتا اور مجھے ان لوگوں(۱) سے ملا دیتا جو

(۱) امیر المومنین کی زندگی کا عظیم ترین المیہ ہے کہ آنکھ کھولنے کے بعد سے ۳۰ سال تک رسول اکرم (ص) کے ساتھ گزارے۔اس کے بعد چند مخلص اصحاب کرام کا ساتھ رہا اس کے بعد جب زمانہ نے پلٹا کھایا اوراقتدارقدموں میں آیا تو ایک طرف ناکثین' قاسطین اورخوارج کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری طرف اپنے گرد کوفہ کے بیوفائوں کا مجمع لگ گیا ظاہر ہے کہ ایسا شخص اس حال کو دیکھ کراس ماضی کی تمنا نہ کرے تو اور کیا کرے اور اس کے ذہن سے اپنا ماضی کس طرح نکل جائے۔

۲۱۲

هُوَ أَحَقُّ بِي مِنْكُمْ - قَوْمٌ واللَّه مَيَامِينُ الرَّأْيِ - مَرَاجِيحُ الْحِلْمِ - مَقَاوِيلُ بِالْحَقِّ - مَتَارِيكُ لِلْبَغْيِ - مَضَوْا قُدُماً عَلَى الطَّرِيقَةِ - وأَوْجَفُوا عَلَى الْمَحَجَّةِ - فَظَفِرُوا بِالْعُقْبَى الدَّائِمَةِ - والْكَرَامَةِ الْبَارِدَةِ - أَمَا واللَّه لَيُسَلَّطَنَّ عَلَيْكُمْ - غُلَامُ ثَقِيفٍ الذَّيَّالُ الْمَيَّالُ - يَأْكُلُ خَضِرَتَكُمْ - ويُذِيبُ شَحْمَتَكُمْ - إِيه أَبَا وَذَحَةَ!

قال الشريف - الوذحة الخنفساء - وهذا القول يومئ به إلى الحجاج - وله مع الوذحة حديث - ليس هذا موضع ذكره.

(۱۱۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يوبخ البخلاء بالمال والنفس

فَلَا أَمْوَالَ بَذَلْتُمُوهَا لِلَّذِي رَزَقَهَا - ولَا أَنْفُسَ خَاطَرْتُمْ بِهَا لِلَّذِي خَلَقَهَا

میرے لئے زیادہ سزا تھے۔وہ لوگ جن کی رائے مبارک اور جن کا حلم ٹھوس ہے۔حق کی باتیں کرتے ہیں اور بغاوت و سر کشی سے کنارہ کرنے والے ہیں۔انہوں نے راستہ پر قدم آگے بڑھائے اور راہ راست پرتیزی سے بڑھتے چلے گئے۔جس کے نتیجہ میں دائمی آخرت اور پر سکون کرامت حاصل کرلی۔آگاہ ہو جائو کہ خدا کی قسم تم پروہ نوجوان بنی ثقیف کامسلط کیا جائے گا جس کا قد طویل ہو گا اور وہ لہرا کر چلنے والا ہوگا ۔تمہارے سبزہ کو ہضم کرجائے گا اور تمہاری چربی کوپگھلا دے ۔ہاں ہاں اے ابو وذحہ کچھ اور۔ سید رضی : وذحہ گندہ کیڑے کا نام ۔ابو وذحہ کا اشارہ حجاج کی طرف ہے اور اس کا ایک قصہ ہے جس کے ذکر کا یہ مقام نہیں ہے ''۔اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حجاج نماز پڑھ رہا تھا اس کیڑے نے اسے موقع پا کر کاٹ لیا اوراس کے اثر سے اس کی موت واقع ہوگئی۔

(۱۱۷)

آپ کا ارشاد گرامی

( جس میں جان و مال سے بخل کرنے والوں کی سرزنش کی گئی ہے )

نہ تم نے مال کواس کی راہ میں خرچ کیا جس نے تمہیں عطا کیا تھا اورنہ جان کو اس کی خاطر خطرہ میں ڈالا جس نے اسے پیدا کیا تھا

۲۱۳

تَكْرُمُونَ بِاللَّه عَلَى عِبَادِه - ولَا تُكْرِمُونَ اللَّه فِي عِبَادِه - فَاعْتَبِرُوا بِنُزُولِكُمْ مَنَازِلَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - وانْقِطَاعِكُمْ عَنْ أَوْصَلِ إِخْوَانِكُمْ!

(۱۱۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الصالحين من أصحابه

أَنْتُمُ الأَنْصَارُ عَلَى الْحَقِّ - والإِخْوَانُ فِي الدِّينِ - والْجُنَنُ يَوْمَ الْبَأْسِ - والْبِطَانَةُ دُونَ النَّاسِ - بِكُمْ أَضْرِبُ الْمُدْبِرَ وأَرْجُو طَاعَةَ الْمُقْبِلِ - فَأَعِينُونِي بِمُنَاصَحَةٍ خَلِيَّةٍ مِنَ الْغِشِّ - سَلِيمَةٍ مِنَ الرَّيْبِ - فَوَاللَّه إِنِّي لأَوْلَى النَّاسِ بِالنَّاسِ!

(۱۱۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد جمع الناس - وحضهم على الجهاد - فسكتوا مليا

تم اللہ کے نام پر بندوں(۱) میں عزت حاصل کرتے ہو اور بندوں کے بارے میں اللہ کا احترام نہیں کرتے ہو۔خدارا اس بات سے عبرت حاصل کرو کہ عنقریب انہیں منازل میں نازل ہونے والے ہو جہاں پہلے لوگ نازل ہو چکے ہیں اور قریب ترین بھائیوں سے کٹ کر رہ جانے والے ہو۔

(۱۱۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب میں نیک کردار افراد کے بارے میں )

تم حق کے سلسلہ میں مدد گار اور دین کے معاملہ میں بھائی ہو۔جنگ کے روز میری سپر اور تمام لوگوں میں میرے راز دار ہو۔میں تمہارے ہی ذریعہ رو گردانی کرنے والوں پرتلوار چلاتا ہوں اور راستہ پرآنے والوں کی اطاعت کی امید رکھتا ہوں لہٰذا خدارا میری مدد کرو اس نصیحت کے ذریعہ جس میں ملاوٹ نہ ہو اور کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو کہ خدا کی قسم میں لوگوں کی قیادت کے لئے تمام لوگوں سے اولیٰ اور احق ہوں۔

(۱۱۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے لوگوں کو جمع کرکے جہاد کی تلقین کی اور لوگوں نے سکوت اختیار کرلیا تو فرمایا)

(۱)ایسے لوگ ہر دورمیں دینداروں میں بھی رہے ہیں اور دنیا داروں میں بھی۔جو قوم سے ہر طرح کے احترام کے طلبگار ہوتے ہیں اور قوم کا کسی طرح کا احترام نہیں کرتے ہیں۔لوگوں سے دین خدا کی ٹھیکہ داری کے نام پر ہر طرح کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں ۔اور خود کسی طرح کی قربانی کا ارادہ نہیں کرتے ہیں ان کی نظر میں دین خدا دنیا کمانے کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ در حقیقت بد ترین تجارت ہے کہ انسان دین کی عظیم و شریف دولت کو دے کردنیا جیسی حقیرو ذلیل شے کو حاصل کر نے کامنصوبہ بنائے۔ظاہر ہے کہ جب دینداروں میں ایسے کردار پیدا ہو جاتے ہیں تو دنیا داروں کا کیا ذکر ہے انہیں تو بہرحال اس سے بد تر ہونا چاہیے۔

۲۱۴

فَقَالَعليه‌السلام مَا بَالُكُمْ أَمُخْرَسُونَ أَنْتُمْ - فَقَالَ قَوْمٌ مِنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - إِنْ سِرْتَ سِرْنَا مَعَكَ.

فَقَالَعليه‌السلام - مَا بَالُكُمْ لَا سُدِّدْتُمْ لِرُشْدٍ ولَا هُدِيتُمْ لِقَصْدٍ - أَفِي مِثْلِ هَذَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَخْرُجَ - وإِنَّمَا يَخْرُجُ فِي مِثْلِ هَذَا رَجُلٌ - مِمَّنْ أَرْضَاه مِنْ شُجْعَانِكُمْ - وذَوِي بَأْسِكُمْ - ولَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَدَعَ الْجُنْدَ والْمِصْرَ - وبَيْتَ الْمَالِ وجِبَايَةَ الأَرْضِ - والْقَضَاءَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ - والنَّظَرَ فِي حُقُوقِ الْمُطَالِبِينَ - ثُمَّ أَخْرُجَ فِي كَتِيبَةٍ أَتْبَعُ أُخْرَى - أَتَقَلْقَلُ تَقَلْقُلَ الْقِدْحِ فِي الْجَفِيرِ الْفَارِغِ - وإِنَّمَا أَنَا قُطْبُ الرَّحَى،تَدُورُ عَلَيَّ وأَنَا بِمَكَانِي - فَإِذَا فَارَقْتُه اسْتَحَارَ مَدَارُهَا - واضْطَرَبَ ثِفَالُهَا - هَذَا لَعَمْرُ اللَّه الرَّأْيُ السُّوءُ - واللَّه لَوْ لَا رَجَائِي الشَّهَادَةَ عِنْدَ لِقَائِي الْعَدُوَّ - ولَوْ قَدْ حُمَّ لِي لِقَاؤُه - لَقَرَّبْتُ رِكَابِي - ثُمَّ شَخَصْتُ عَنْكُمْ فَلَا أَطْلُبُكُمْ - مَا اخْتَلَفَ جَنُوبٌ وشَمَالٌ - طَعَّانِينَ عَيَّابِينَ حَيَّادِينَ رَوَّاغِينَ - إِنَّه لَا غَنَاءَ فِي كَثْرَةِ عَدَدِكُمْ

تمہیں کیا ہوگیا ہے۔کیا تم گونگے ہوگئے ہو؟ اس پر ایک جماعت نے کہا کہ یا امیر المومنین ! آپ چلیں۔ہم چلنے کے لئے تیار ہیں۔

فرمایا: تمہیں کیا ہوگیا ہے۔اللہ تمہیں ہدایت کی توفیق نہ دے اورتمہیں سیدھا راستہ نصیب نہ ہو۔کیا ایسے حالات میں میرے لئے مناسب ہے کہ میں ہی نکلوں ؟ ایسے موقع پر اس شخص کونکلنا چاہیے جو تمہارے بہادروں اورجوانمردں میں میرا پسندیدہ ہو اور ہرگز مناسب نہیں ہے کہ میں لشکر ' شہر ' بیت المال ' خراج کی فراہمی ' قضاوت' مطالبات کرنے والوں کے حقوق کی نگرانی کا سارا کام چھوڑ کرنکل جائوں اور لشکر لے کر دوسرے لشکرکا پیچھا کروں اور اس طرح جنبش کرتا رہوں جس طرح خالی ترکش میں تیر ۔میں خلافت کی چکی کا مرکز ہوں جسے میرے گرد چکر لگانا چاہیے کہ اگر میں نے مرکز چھو ڑ دیا تو اس کی گردش کا دائرہ متزلزل ہو جائے گا اور اس کے نیچے کی بساط بھی جا بجا ہو جائے گی۔خدا کی قسم یہ بد ترین رائے ہے اور وہی گواہ ہے کہ اگر دشمن کا مقابلہ کرنے میں مجھے شہادت کی آرزو نہ ہوتی۔جب کہ وہ مقابلہ میرے لئے مقدر ہو چکا ہو۔تو میں اپنی سواریوں کو قریب کرکے ان پر سوار ہو کر تم سے بہت دورنکل جاتا اور پھر تمہیں اس وقت تک یاد بھی نہ کرتا جب تک شمالی اور جنوبی ہوائیں چلتی رہیں۔تم طنزکرنے والے۔عیب لگانے والے۔کنارہ کشی کرنے والے اور صرف شور مچانے والے ہو۔تمہارے اعداد کی کثرت کا کیا فائدہ ہے۔

۲۱۵

مَعَ قِلَّةِ اجْتِمَاعِ قُلُوبِكُمْ - لَقَدْ حَمَلْتُكُمْ عَلَى الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ - الَّتِي لَا يَهْلِكُ عَلَيْهَا إِلَّا هَالِكٌ - مَنِ اسْتَقَامَ فَإِلَى الْجَنَّةِ ومَنْ زَلَّ فَإِلَى النَّارِ!

(۱۲۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يذكر فضله ويعظ الناس

تَاللَّه لَقَدْ عُلِّمْتُ تَبْلِيغَ الرِّسَالَاتِ - وإِتْمَامَ الْعِدَاتِ وتَمَامَ الْكَلِمَاتِ - وعِنْدَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ أَبْوَابُ الْحُكْمِ وضِيَاءُ الأَمْرِ - أَلَا وإِنَّ شَرَائِعَ الدِّينِ وَاحِدَةٌ وسُبُلَه قَاصِدَةٌ - مَنْ أَخَذَ بِهَا لَحِقَ وغَنِمَ - ومَنْ وَقَفَ عَنْهَا ضَلَّ ونَدِمَ - اعْمَلُوا لِيَوْمٍ تُذْخَرُ لَه الذَّخَائِرُ - وتُبْلَى فِيه السَّرَائِرُ - ومَنْ لَا يَنْفَعُه حَاضِرُ لُبِّه - فَعَازِبُه عَنْه أَعْجَزُ وغَائِبُه أَعْوَزُ - واتَّقُوا نَاراً حَرُّهَا شَدِيدٌ - وقَعْرُهَا بَعِيدٌ وحِلْيَتُهَا حَدِيدٌ - وشَرَابُهَا صَدِيدٌ -. أَلَا وإِنَّ اللِّسَانَ الصَّالِحَ - يَجْعَلُه اللَّه تَعَالَى لِلْمَرْءِ فِي النَّاسِ -

جب تمہارے دل یکجا نہیں ہیں۔میں نے تم کو اس واضح راستہ پر چلانا چاہا جس پر چل کر کوئی ہلاک نہیں ہو سکتا ہے مگر یہ کہ ہلاکت اس کا مقدر ہو۔اس راہ پر چلنے والے کی واقعی منزل جنت ہے اور یہاں پھسل جانے والے کا راستہ جہنم ہے۔

(۱۲۰)

آپ کا ارشادگرامی

(جس میں اپنی فضیلت کاذکرکرتے ہوئے لوگوں کو نصیحت فرمائی ہے )

خدا کی قسم! مجھے پیغام الٰہی کے پہنچانے ، وعدہ الٰہی کے پورا کرنے اور کلمات الہیہ کی مکمل وضاحت کرنے کا علم دیا گیا ہے ہم اہل بیت کے پاس حکمتوں کے ابواب اورمسائل کی روشنی موجود ہے۔یاد رکھو۔دین کی تمام شریعتوں کا مقصد ایک ہے اور اس کے سارے راستے درست ہیں۔جوان راستوں کواختیارکرلے گا وہ منزل تک پہنچ بھی جائے گا اورفائدہ بھی حاصل کرلے گا اور جو راستہ ہی میں ٹھہر جائے گاوہ بہک بھی جائے گا اور شرمندہ بھی ہو گا۔عمل کرو اس دن کے لئے جس کے لئے ذخیرے فراہم کئے جاتے ہیں اور جس دن نیتوں کا امتحان ہوگا اور جس کو اپنی موجود عقل فائدہ نہ پہنچائے اسے دوسروں کی غائب اور دور ترین عقل کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔اس آگ سے ڈرو جس کی تپش شدید۔گہرائی بعید۔آرائش حدید اور پینے کی شے صدید ( پیپ) ہے یاد رکھو۔وہ ذکر خیر جو پروردگار کسی انسان کے لئے باقی رکھتا ہے

۲۱۶

خَيْرٌ لَه مِنَ الْمَالِ يُورِثُه مَنْ لَا يَحْمَدُه

(۱۲۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد ليلة الهرير

وقد قام إليه رجل من أصحابه - فقال نهيتنا عن الحكومة ثم أمرتنا بها - فلم ندر أي الأمرين أرشد فصفق عليه‌السلام إحدى يديه على الأخرى –

ثم قال: هَذَا جَزَاءُ مَنْ تَرَكَ الْعُقْدَةَ - أَمَا واللَّه لَوْ أَنِّي حِينَ أَمَرْتُكُمْ - بِه حَمَلْتُكُمْ عَلَى الْمَكْرُوه - الَّذِي يَجْعَلُ اللَّه فِيه خَيْراً - فَإِنِ اسْتَقَمْتُمْ هَدَيْتُكُمْ - وإِنِ اعْوَجَجْتُمْ قَوَّمْتُكُمْ - وإِنْ أَبَيْتُمْ تَدَارَكْتُكُمْ لَكَانَتِ الْوُثْقَى - ولَكِنْ بِمَنْ وإِلَى مَنْ - أُرِيدُ أَنْ أُدَاوِيَ بِكُمْ وأَنْتُمْ دَائِي - كَنَاقِشِ الشَّوْكَةِ بِالشَّوْكَةِ - وهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ ضَلْعَهَا مَعَهَا - اللَّهُمَّ قَدْ مَلَّتْ أَطِبَّاءُ هَذَا الدَّاءِ الدَّوِيِّ - وكَلَّتِ النَّزْعَةُ بِأَشْطَانِ الرَّكِيِّ - أَيْنَ الْقَوْمُ الَّذِينَ دُعُوا إِلَى الإِسْلَامِ فَقَبِلُوه -

وہ اس مال سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے جسے انسان ان لوگوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے جو تعریف تک نہیں کرتے ہیں۔

(۱۲۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جب لیلتہ الہریرکےبعد آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ آپ نے پہلے ہی حکم بنانے سے روکا اور پھراس کا حکم دے دیا توآخر ان دونوں میں سے کون سی بات صحیح تھی؟ تو آپ نے ہاتھ پر ہاتھ مار کر فرمایا!

افسوس یہی اس کی جزا ہوتی ہے جو عہد پیمان(۱) کو نظرانداز کر دیتا ہے۔یاد رکھو اگر میں تم کو اس ناگوار امر( جنگ) پرمامور کر دیتا جس میں یقینا اللہ نے تمہیں لئے خیر رکھا تھا۔اس طرح کہ تم سیدھے رہتے تو تمہیں ہدایت دیتا اور ٹیڑھے ہو جاتے تو سیدھا کردیتا اورانکار کرتے تو اس کا علاج کرتا تو یہ انتہائی مستحکم طریقہ کار ہوتا۔لیکن یہ کام کس کے ذریعہ کرتا اور کس کے بھروسہ پر کرتا۔میں تمہارے ذریعہ قوم کا علاج کرنا چاہتا تھا لیکن تمہیں تو میری بیماری ہو۔یہ تو ایسا ہی ہوتا جیسے کانٹے سے کانٹا نکالا جائے جب کہ اس کا جھکائو اسی کی طرف ہو۔خدایا! گواہ رہنا کہ اس موذی مرض کے اطباء عاجزآچکے ہیں اور اس کنویں سے رسی نکالنے والے تھک چکے ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں اسلام کی دعوت دی گئی تو فوراً قبول کرلی

(۱) مقصد یہ ہے کہ تم لوگوں نے مجھ سے اطاعت کاعہدو پیمان کیا تھا لیکن جب میں نے صفین میں جنگ جاری رکھنے پر اصرار کیا تو تم نے نیزوں پر قرآن دیکھ کرجنگ بندی کامطالبہ کردیا اور اپنے عہدوپیمان کو نظر انداز کردیا ظاہر ہے کہ ایسے اقدام کا ایسا ہی نتیجہ ہوتا ہے جو سامنے آگیا تو اب فریاد کرنے کاکیا جواز ہے ؟

۲۱۷

وقَرَءُوا الْقُرْآنَ فَأَحْكَمُوه وهِيجُوا إِلَى الْجِهَادِ فَوَلِهُوا وَلَه اللِّقَاحِ إِلَى أَوْلَادِهَا - وسَلَبُوا السُّيُوفَ أَغْمَادَهَا وأَخَذُوا بِأَطْرَافِ الأَرْضِ زَحْفاً زَحْفاً - وصَفّاً صَفّاً بَعْضٌ هَلَكَ وبَعْضٌ نَجَا لَا يُبَشَّرُونَ بِالأَحْيَاءِ - ولَا يُعَزَّوْنَ عَنِ الْمَوْتَى مُرْه الْعُيُونِ مِنَ الْبُكَاءِ - خُمْصُ الْبُطُونِ مِنَ الصِّيَامِ ذُبُلُ الشِّفَاه مِنَ الدُّعَاءِ - صُفْرُ الأَلْوَانِ مِنَ السَّهَرِ عَلَى وُجُوهِهِمْ غَبَرَةُ الْخَاشِعِينَ - أُولَئِكَ إِخْوَانِي الذَّاهِبُونَ - فَحَقَّ لَنَا أَنْ نَظْمَأَ إِلَيْهِمْ - ونَعَضَّ الأَيْدِي عَلَى فِرَاقِهِمْ - إِنَّ الشَّيْطَانَ يُسَنِّي لَكُمْ طُرُقَه ويُرِيدُ أَنْ يَحُلَّ دِينَكُمْ عُقْدَةً عُقْدَةً - ويُعْطِيَكُمْ بِالْجَمَاعَةِ الْفُرْقَةَ وبِالْفُرْقَةِ الْفِتْنَةَ - فَاصْدِفُوا عَنْ نَزَغَاتِه ونَفَثَاتِهواقْبَلُوا النَّصِيحَةَ مِمَّنْ أَهْدَاهَا إِلَيْكُمْ واعْقِلُوهَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ

اور انہوں نے قرآن کو پڑھا تو باقاعدہ عمل بھی کیااور جہاد کے لئے آمادہکئے گئے تو اس طرح شوق سے آگے بڑھے جس طرح اونٹنی اپنے بچوں کی طرف بڑھتی ہے۔انہوں نے تلواروں کو نیا موں سے نکال لیا اور دستہ دستہ ۔صف بہ صف آگے بڑھ کر تمام اطراف زمین پر قبضہ کرلیا۔ان میں بعض چلے گئے اور بعض باقی رہ گئے ۔ انہیں نہ زندگی کی بشارت سے دلچسپی تھی اور نہ مردوں کی تعزیت سے۔ان کی آنکھیں خوف خدا میں گریہ سےسفید ہوگئی تھیں ۔پیٹ روزوں سے دھنس گئے تھے ' ہونٹ دعا کرتے کرتے خشک ہوگئے تھے۔چہرے شب بیداری سے زرد ہوگئے تھے اور چہروں پر خاکساری کی گرد پڑی ہوئی تھی یہی میرے پہلے والے بھائی تھے جن کے بارے میں ہمارا حق ہے کہ ہم ان کی طرف پیاسوں کی طرح نگاہ کریں اور ان کے فراق میں اپنے ہی ہات کاٹیں۔

یقیناشیطان تمہارے لئے اپنی راہوں کو آسان بنا دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک ایک کرکے تمہاری ساری گرہیں کھول دے۔وہ تمہیں اجتماع کے بجائے افتراق دے کر فتنوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس کے خیالات اوراس کی جھاڑ پھونک سے منہ موڑے رہو اور اس شخص کی نصیحت قبول کرو جو تمہیں نصیحت کا تحفہ دے رہا ہے اور اپنے دل میں اس کی گرہ باندھ لو۔

۲۱۸

(۱۲۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله للخوارج وقد خرج إلى معسكرهم - وهم مقيمون على إنكار الحكومة فقالعليه‌السلام

أَكُلُّكُمْ شَهِدَ مَعَنَا صِفِّينَ - فَقَالُوا مِنَّا مَنْ شَهِدَ - ومِنَّا مَنْ لَمْ يَشْهَدْ - قَالَ فَامْتَازُوا فِرْقَتَيْنِ - فَلْيَكُنْ مَنْ شَهِدَ صِفِّينَ فِرْقَةً - ومَنْ لَمْ يَشْهَدْهَا فِرْقَةً - حَتَّى أُكَلِّمَ كُلاًّ مِنْكُمْ بِكَلَامِه - ونَادَى النَّاسَ فَقَالَ أَمْسِكُوا عَنِ الْكَلَامِ - وأَنْصِتُوا لِقَوْلِي - وأَقْبِلُوا بِأَفْئِدَتِكُمْ إِلَيَّ - فَمَنْ نَشَدْنَاه شَهَادَةً فَلْيَقُلْ بِعِلْمِه فِيهَا - ثُمَّ كَلَّمَهُمْعليه‌السلام بِكَلَامٍ طَوِيلٍ - مِنْ جُمْلَتِه أَنْ قَالَعليه‌السلام : أَلَمْ تَقُولُوا عِنْدَ رَفْعِهِمُ الْمَصَاحِفَ حِيلَةً وغِيلَةً - ومَكْراً وخَدِيعَةً إِخْوَانُنَا وأَهْلُ دَعْوَتِنَا - اسْتَقَالُونَا واسْتَرَاحُوا إِلَى كِتَابِ اللَّه سُبْحَانَه - فَالرَّأْيُ الْقَبُولُ مِنْهُمْ - والتَّنْفِيسُ عَنْهُمْ - فَقُلْتُ لَكُمْ هَذَا أَمْرٌ ظَاهِرُه إِيمَانٌ - وبَاطِنُه عُدْوَانٌ - وأَوَّلُه رَحْمَةٌ وآخِرُه نَدَامَةٌ فَأَقِيمُوا عَلَى شَأْنِكُمْ - والْزَمُوا طَرِيقَتَكُمْ -

(۱۲۲)

آپ کا ارشاد گرامی

( جب آپ خوارج کے اس پڑائو کی طرف تشریف لے گئے جو تحکیم کے انکار پراڑا ہوا تھا۔اورفرمایا)

کیا تم سب ہمارے ساتھ صفین میں تھے؟ لوگوں نے کہا بعض افراد تھے اوربعض نہیں تھے اوربعض نہیں تھے! فرمایا تو تم دو حصوں میں تقسیم ہو جائو۔صفین والے الگ اور غیر صفین والے الگ ۔تاکہمیں ہر ایک سے اس کے حال کے مطابق گفتگو کرو۔اس کے بعد قوم سے پکار کر فرمایا کہ تم سب خاموش ہو جائو اور میری بات سنو اور اپنے دلوں کو بھی میری طرف متوجہ رکھو کہ اگر میں کسی بات کی گواہی طلب کروں تو ہر شخص اپنے علم کے مطابق جواب دے سکے۔( یہ کہہ کر آپنے ایک طویل گفتگو فرمائی جس کا ایک حصہ یہ تھا) ذرا بتلائو کہ جب صفین والوں نے حیلہ و مکر اورجعل و فریب سے نیزوں پر قرآن بلندکردئیے تھے تو کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ سب ہمارے بھائی اور ہمارے ساتھ کے مسلمان ہیں۔اب ہم سے معافی کے طلب گار ہیں اور کتاب خداسے فیصلہ چاہتے ہیں لہٰذا مناسب یہ ہے کہ ان کی بات مان لی جائے اورانہیں سانس لینے کا موقع دے دیا جائے۔میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ اس کا ظاہر ایمان ہے لیکن باطن صرف ظلم اور تعدی ہے۔اس کی ابتدا رحمت و راحت ہے لیکن اس کا انجام شرمندگی اور ندامت ہے لہٰذا اپنی حالت پر قائم رہو اور اپنے راستہ کو مت چھوڑو

۲۱۹

وعَضُّوا عَلَى الْجِهَادِ بَنَوَاجِذِكُمْ - ولَا تَلْتَفِتُوا إِلَى نَاعِقٍ نَعَقَ - إِنْ أُجِيبَ أَضَلَّ وإِنْ تُرِكَ ذَلَّ - وقَدْ كَانَتْ هَذِه الْفَعْلَةُ وقَدْ رَأَيْتُكُمْ أَعْطَيْتُمُوهَا - واللَّه لَئِنْ أَبَيْتُهَا مَا وَجَبَتْ عَلَيَّ فَرِيضَتُهَا - ولَا حَمَّلَنِي اللَّه ذَنْبَهَا ووَ اللَّه إِنْ جِئْتُهَا إِنِّي لَلْمُحِقُّ الَّذِي يُتَّبَعُ - وإِنَّ الْكِتَابَ لَمَعِي مَا فَارَقْتُه مُذْ صَحِبْتُه فَلَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وإِنَّ الْقَتْلَ لَيَدُورُ عَلَى الآباءِ والأَبْنَاءِ - والإِخْوَانِ والْقَرَابَاتِ - فَمَا نَزْدَادُ عَلَى كُلِّ مُصِيبَةٍ وشِدَّةٍ - إِلَّا إِيمَاناً ومُضِيّاً عَلَى الْحَقِّ - وتَسْلِيماً لِلأَمْرِ - وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الْجِرَاحِ - ولَكِنَّا إِنَّمَا أَصْبَحْنَا نُقَاتِلُ إِخْوَانَنَا فِي الإِسْلَامِ - عَلَى مَا دَخَلَ فِيه مِنَ الزَّيْغِ والِاعْوِجَاجِ - والشُّبْهَةِ والتَّأْوِيلِ - فَإِذَا طَمِعْنَا فِي خَصْلَةٍ يَلُمُّ اللَّه بِهَا شَعَثَنَا - ونَتَدَانَى بِهَا إِلَى الْبَقِيَّةِ فِيمَا بَيْنَنَا - رَغِبْنَا فِيهَا وأَمْسَكْنَا عَمَّا سِوَاهَا.

اور جہاد پر دانتوں کو بھینچے رہو اور کسیبکواس کرنے والے کی بکواس کو مت سنو کہ اس کے قبول کرلینے میں گمراہی ہے اور نظر انداز کردینے میں ذلت ہے۔لیکن جب تحکیم کی بات طے ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ تمہیں لوگوں نے اس کی رضا مندی دی تھی حالانکہ خدا گواہ ہے کہ اگرمیں نے اس سے انکار کردیا ہوتا تو اس سے مجھ پر کوئی فریضہ عائد نہ ہوتا۔اورنہ پروردگار مجھے گناہ گار قراردیتا اور اگر میں نے اسے اختیار کیا ہوتا تو میں ہی وہ صاحب حق تھا جس کا اتباع ہونا چاہیے تھا کہ کتاب خدا میرے ساتھ ہے اور جب سے میرا اس کا ساتھ ہوا ہے کبھی جدائی نہیں ہوئی۔ہم رسول اکرم (ص) کے زمانے میں اس وقت جنگ کرتے تھے جب مقابلہ پر خاندانوں کے بزرگ بچے۔بھائی بند اور رشتہ دار ہوتے تھے لیکن ہر مصیبت و شدت پر ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا تھا اور ہم امر الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کئے رہتے تھے۔راہ حق میں بڑھتے ہی جاتے تھے اور زخموں کی ٹیس پر صبر ہی کرتے تھے مگر افسوس کہ اب ہمیں مسلمان بھائیوں سے جنگ کرنا پڑ رہی ہے کہ ان میں کجی۔انحراف ۔شبہ اور غلط تاویلات کادخل ہوگیا ہے لیکن اس کے باوجود اگرکوئی راستہ نکل آئے جس سے خدا ہمارے انتشار کو دور کردے اورہم ایک دوسرے سے قریب ہو کر رہے سہے تعلقات کو باقی رکھ سکیں تو ہم اسی راستہ کو پسند کریں گے اور دوسرے راستہ سے ہاتھ روک لیں گے۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863