نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657085 / ڈاؤنلوڈ: 15926
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ أَطْوَلَ أَعْمَاراً - وأَبْقَى آثَاراً وأَبْعَدَ آمَالًا - وأَعَدَّ عَدِيداً وأَكْثَفَ جُنُوداً - تَعَبَّدُوا لِلدُّنْيَا أَيَّ تَعَبُّدٍ - وآثَرُوهَا أَيَّ إِيْثَارٍ - ثُمَّ ظَعَنُوا عَنْهَا بِغَيْرِ زَادٍ مُبَلِّغٍ - ولَا ظَهْرٍ قَاطِعٍ - فَهَلْ بَلَغَكُمْ أَنَّ الدُّنْيَا سَخَتْ لَهُمْ نَفْساً بِفِدْيَةٍ - أَوْ أَعَانَتْهُمْ بِمَعُونَةٍ - أَوْ أَحْسَنَتْ لَهُمْ صُحْبَةً - بَلْ أَرْهَقَتْهُمْ بِالْقَوَادِحِ - وأَوْهَقَتْهُمْ بِالْقَوَارِعِ - وضَعْضَعَتْهُمْ بِالنَّوَائِبِ - وعَفَّرَتْهُمْ لِلْمَنَاخِرِ ووَطِئَتْهُمْ بِالْمَنَاسِمِ - وأَعَانَتْ عَلَيْهِمْ رَيْبَ الْمَنُونِ - فَقَدْ رَأَيْتُمْ تَنَكُّرَهَا لِمَنْ دَانَ لَهَا - وآثَرَهَا وأَخْلَدَ إِلَيْهَا - حِينَ ظَعَنُوا عَنْهَا لِفِرَاقِ الأَبَدِ - وهَلْ زَوَّدَتْهُمْ إِلَّا السَّغَبَ - أَوْ أَحَلَّتْهُمْ إِلَّا الضَّنْكَ - أَوْ نَوَّرَتْ لَهُمْ إِلَّا الظُّلْمَةَ - أَوْ أَعْقَبَتْهُمْ إِلَّا النَّدَامَةَ - أَفَهَذِه تُؤْثِرُونَ أَمْ إِلَيْهَا تَطْمَئِنُّونَ - أَمْ عَلَيْهَا تَحْرِصُونَ - فَبِئْسَتِ الدَّارُ لِمَنْ لَمْ يَتَّهِمْهَا - ولَمْ يَكُنْ فِيهَا عَلَى وَجَلٍ مِنْهَا - فَاعْلَمُوا وأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ - بِأَنَّكُمْ تَارِكُوهَا وظَاعِنُونَ عَنْهَا - واتَّعِظُوا فِيهَا بِالَّذِينَ قَالُوا –( مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ) -

جو تم سے پہلے طویل عمر ' پائیدارآثار اور دور رس امیدوں والے تھے۔بے پناہ سامان مہیا کیا' بڑے بڑے لشکرتیار کئے اور جی بھر کردنیا کی پرستش کی اور اسے ہر چیز پرمقدم رکھا لیکن اس کے بعد یوں روانہ ہوگئے کہ نہ منزل تک پہنچانے والا زاد راہ ساتھ تھا اور نہ راستہ طے کرانے والی سواری۔کیا تم تک کوئی خبر پہنچی ہے کہ اس دنیا نے ان ک بچانے کے لئے کوئی فدیہ پیش کیا ہو یا ان کی کوئی مدد کی ہو یا ان کے ساتھ اچھا وقت گزارا ہو؟ہرگز نہیں بلکہ انہیں مصیبتوں میں گرفتار کردیا اورآفتوں سے عاجز و بے بسبنادیا۔پے درپے زحمتوں نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان کی ناک رگڑدی اور انہیں اپنے سموں سے روند ڈالا اور پھرحوادث روز گار کوبھی سہارا دے دیا اور تم نے دیکھ لیا کہ یہ اپنے اطاعت گزاروں ' چاہنے والوں اور چپکنے والوں کے لئے بھی ایسی انجان بن گئی کہ جب انہوں نے یہاں سے ہمیشہ کے لئے کوچ کیا تو انہیں سوائے بھوک کے کوئی زاد راہ اور سوائے تنگی لحد کے کوئی مکان نہیں دیا۔ظلمت ہی ان کی روشنی قرار پائی اورندامت ہی ان کا انجام ٹھہرا۔تو کیا تم اسی دنیا کو اختیار کر رہے ہو اور اسی پربھروسہ کر رہے ہو اور اسی کی لالچ میں مبتلا ہو۔یہ اپنے سے بد ظنی نہ رکھنے والوں اور احتیاط نہکرنے والوں کے لئے بد ترین مکان ہے۔لہٰذا یاد رکھو اور تمہیں معلوم بھی ہے کہ تم اسے چھوڑنے والے ہواور اس سے کوچ کرنے والے ہو۔ان لوگوں سے نصیحت حاصل کرو جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ '' ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے ''

۲۰۱

حُمِلُوا إِلَى قُبُورِهِمْ - فَلَا يُدْعَوْنَ رُكْبَاناً - وأُنْزِلُوا الأَجْدَاثَ فَلَا يُدْعَوْنَ ضِيفَاناً - وجُعِلَ لَهُمْ مِنَ الصَّفِيحِ أَجْنَانٌ - ومِنَ التُّرَابِ أَكْفَانٌ ومِنَ الرُّفَاتِ جِيرَانٌ - فَهُمْ جِيرَةٌ لَا يُجِيبُونَ دَاعِياً - ولَا يَمْنَعُونَ ضَيْماً ولَا يُبَالُونَ مَنْدَبَةً - إِنْ جِيدُوا لَمْ يَفْرَحُوا - وإِنْ قُحِطُوا لَمْ يَقْنَطُوا - جَمِيعٌ وهُمْ آحَادٌ وجِيرَةٌ وهُمْ أَبْعَادٌ - مُتَدَانُونَ لَا يَتَزَاوَرُونَ - وقَرِيبُونَ لَا يَتَقَارَبُونَ - حُلَمَاءُ قَدْ ذَهَبَتْ أَضْغَانُهُمْ - وجُهَلَاءُ قَدْ مَاتَتْ أَحْقَادُهُمْ - لَا يُخْشَى فَجْعُهُمْ - ولَا يُرْجَى دَفْعُهُمْ - اسْتَبْدَلُوا بِظَهْرِ الأَرْضِ بَطْناً - وبِالسَّعَةِ ضِيقاً وبِالأَهْلِ غُرْبَةً - وبِالنُّورِ ظُلْمَةً فَجَاءُوهَا كَمَا فَارَقُوهَا - حُفَاةً عُرَاةً،

قَدْ ظَعَنُوا عَنْهَا بِأَعْمَالِهِمْ - إِلَى الْحَيَاةِ الدَّائِمَةِ والدَّارِ الْبَاقِيَةِ كَمَا قَالَ سُبْحَانَه وتَعَالَى –( كَما بَدَأْنا أَوَّلَ خَلْقٍ - نُعِيدُه وَعْداً عَلَيْنا إِنَّا كُنَّا فاعِلِينَ )

اور پھر وہ بھی اپنی قبروں کی طرف اس طرح پہنچائے گئے کہ انہیں سواری بھی نصیب نہیں ہوئی اور قبروں میں اس طرح اتار دیا گیا کہ انہیں مہمان بھی نہیں کہا گیا پتھروں سے ان کی قبریں چن دی گئیں اور مٹی سے انہیں کفن دے دیا گیا۔سڑی گلی ہڈیاں ان کی ہمسایہ بن گئیں اور اب یہ سب ایسے ہمسایہ ہیں کہ کسی پکارنے والے کی آواز پرلبیک نہیں کہتے ہیں اور نہ کسی زیادتی کو روک سکتے ہیں اور نہ کسی رونے والے کی پرواہ کرتے ہیں۔اگر ان پر موسلا دھار بارش ہو تو انہیں خوشی نہیں ہوتی ہے اور اگر قحط پڑ جائے تو مایوسی کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔یہ سب ایک مقام پرجمع ہیں مگر اکیلے ہیں اور ہمسایہ ہیں مگر دور دور ہیں۔ایسے ایک دوسرے سے قریب کہ ملاقات تک نہیں کرتے ہیں اور ایسے نزدیک کہ ملتے بھی نہیں ہیں۔اب ایسے برباد ہوگئے ہیں کہ سارا کینہ ختم ہوگیا ہے اورایسے بے خبر ہیں کہ سارا بغض وعنادمٹ گیا ہے۔نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے اورنہ کسی دفاع کی امیدہے زمین کے ظاہرکے بجائے باطن کو اوروسعت کے بجائے تنگی کو اورساتھیوں کے بدلے غربت کو اورنور کے بدلے ظلمت کو اختیار کرلیا ہے۔اس کی گود میں ویسے ہی آگئے ہیں جیسے پہلے الگ ہوئے تھے پا برہنہ اورننگے۔اپنے اعمال سمیت دائمی زندگی اور ابدی مکان کی طرف کوچ کرگئے ہیں جیساکہ مالک کائنات نے فرمایا ہے '' جس طرح ہم نے پہلے بنایا تھا ویسے ہی واپس لے آئیں گے یہ ہمارا وعدہ ہے اور ہم اسے بہرحال انجام دینے والے ہیں ''۔

۲۰۲

(۱۱۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

ذكر فيها ملك الموت وتوفية النفس وعجز الخلق عن وصف اللَّه

هَلْ تُحِسُّ بِه إِذَا دَخَلَ مَنْزِلًا - أَمْ هَلْ تَرَاه إِذَا تَوَفَّى أَحَداً - بَلْ كَيْفَ يَتَوَفَّى الْجَنِينَ فِي بَطْنِ أُمِّه - أَيَلِجُ عَلَيْه مِنْ بَعْضِ جَوَارِحِهَا - أَمْ الرُّوحُ أَجَابَتْه بِإِذْنِ رَبِّهَا - أَمْ هُوَ سَاكِنٌ مَعَه فِي أَحْشَائِهَا - كَيْفَ يَصِفُ إِلَهَه - مَنْ يَعْجَزُ عَنْ صِفَةِ مَخْلُوقٍ مِثْلِه!

(۱۱۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم الدنيا

وأُحَذِّرُكُمُ الدُّنْيَا فَإِنَّهَا مَنْزِلُ قُلْعَةٍ - ولَيْسَتْ بِدَارِ نُجْعَةٍ - قَدْ تَزَيَّنَتْ بِغُرُورِهَا - وغَرَّتْ بِزِينَتِهَا - دَارُهَا هَانَتْ عَلَى رَبِّهَا فَخَلَطَ حَلَالَهَا بِحَرَامِهَا - وخَيْرَهَا بِشَرِّهَا وحَيَاتَهَا بِمَوْتِهَا وحُلْوَهَا بِمُرِّهَا

(۱۱۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں ملک الموت ' ان کے قبض روح اورمخلوقات کے توصیف الٰہی سے عاجزی کا ذکرکیا گیا ہے)

کیا جس وقت ملک الموت گھر میں داخل ہوتے ہیں تمہیں کوئی احساسا ہوتا ہے اور کیا انہیں روح قبض کرتے ہوئے تم نے کبھی دیکھا ہے؟ بھلا وہ شکم مادرمیں بچہ کو کس طرح مارتے ہیں۔کیا کسی طرف سے اندرداخل ہو جاتے ہیں یا روح ہی ان کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی شکل آتی ہے یا پہلے سے بچہ کے پہلو میں رہتے ہیں۔سوچو! کہ جو شخص ایک خلوق کے کمالات کو نہ سمجھ سکتا ہو وہ خالق کے اوصاف کو کیا بیان کرسکے گا ۔

(۱۱۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(مذمت دنیا میں )

میں تمہیں اس دنیا سے ہوشیار کر رہاہوں کہ یہ کوچ کی جگہ ہے۔آب و دانہ کی منزل نہیں ہے۔ یہ اپنے دھوکہ ہی سے آراستہ ہوگئی ہے اور اپنی آرائش ہی سے دھوکہ دیتی ہے۔اس کا گھر پروردگار کی نگاہ میں بالکل بے ارزش ہے اسی لئے اس نے اس کے حلال کے ساتھ حرام خیر کے ساتھ شر ' زندگی کے ساتھ موت اور شیریں کے ساتھ تلخ کو رکھ دیا ہے

۲۰۳

لَمْ يُصْفِهَا اللَّه تَعَالَى لأَوْلِيَائِه - ولَمْ يَضِنَّ بِهَا عَلَى أَعْدَائِه – خَيْرُهَا زَهِيدٌ وشَرُّهَا عَتِيدٌ - وجَمْعُهَا يَنْفَدُ ومُلْكُهَا يُسْلَبُ وعَامِرُهَا يَخْرَبُ - فَمَا خَيْرُ دَارٍ تُنْقَضُ نَقْضَ الْبِنَاءِ - وعُمُرٍ يَفْنَى فِيهَا فَنَاءَ الزَّادِ - ومُدَّةٍ تَنْقَطِعُ انْقِطَاعَ السَّيْرِ - اجْعَلُوا مَا افْتَرَضَ اللَّه عَلَيْكُمْ مِنْ طَلَبِكُمْ واسْأَلُوه مِنْ أَدَاءِ حَقِّه مَا سَأَلَكُمْ.وأَسْمِعُوا دَعْوَةَ الْمَوْتِ - آذَانَكُمْ قَبْلَ أَنْ يُدْعَى بِكُمْ - إِنَّ الزَّاهِدِينَ فِي الدُّنْيَا تَبْكِي قُلُوبُهُمْ وإِنْ ضَحِكُوا - ويَشْتَدُّ حُزْنُهُمْ وإِنْ فَرِحُوا - ويَكْثُرُ مَقْتُهُمْ أَنْفُسَهُمْ وإِنِ اغْتَبَطُوا بِمَا رُزِقُوا - قَدْ غَابَ عَنْ قُلُوبِكُمْ ذِكْرُ الآجَالِ - وحَضَرَتْكُمْ كَوَاذِبُ الآمَالِ - فَصَارَتِ الدُّنْيَا أَمْلَكَ بِكُمْ مِنَ الآخِرَةِ - والْعَاجِلَةُ أَذْهَبَ بِكُمْ مِنَ الآجِلَةِ - وإِنَّمَا أَنْتُمْ إِخْوَانٌ عَلَى دِينِ اللَّه - مَا فَرَّقَ بَيْنَكُمْ إِلَّا خُبْثُ السَّرَائِرِ - وسُوءُ الضَّمَائِرِ - فَلَا تَوَازَرُونَ ولَا تَنَاصَحُونَ - ولَا تَبَاذَلُونَ ولَا تَوَادُّونَ - مَا بَالُكُمْ تَفْرَحُونَ بِالْيَسِيرِ مِنَ الدُّنْيَا تُدْرِكُونَه

اور نہ اس نے اپنے اولیاء کے لئے مخصوص کیا ہے اور نہ اپنے دشمنوں کواس سے محروم رکھا ہے۔اس کا خیر بہت کم ہے اور اس کا شر ہر وقت حاضر ہے۔اس کاجمع کیا ہوا ختم ہو جانے والا ہے اور اس کاملک چھن جانے والا ہے اور اس کے آباد کوایک دن خراب ہو جانا ہے۔بھلا اس گھرمیں کیا خوبی ہے جو کمزور عمارت کی طرح گر جائے اور اس عمر میں کیا بھلائی ہے جو زاد راہ کی طرح ختم ہو جائے اوراس زندگی میں کیا حسن ہے جو چلتے پھرتے تمام ہو جائے۔

دیکھواپنے مطلوبہ امورمیں فرائض الہیہ کو بھی شامل کرلو اور اسی کے حق کے ادا کرنے کی توفیق کا مطالبہ کرو۔اپنے کانوں کو موت کی آواز سنا دو قبل اس کے کہ تمہیں بلا لیا جائے۔دنیا میں زاہدوں کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ خوش بھی ہوتے ہیںتوان کا دل روتا رہتا ہے۔اوروہ ہنستے بھی ہیں توان کا رنج و اندوہ شدید ہوتا ہے۔وہ خود اپنے نفس سے بیزار رہتے ہیں چاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں۔افسوس تمہارے دلوں سے موت کی یاد نکل گئی ہے اورجھوٹی امیدوں نے ان پرقبضہ کرلیا ہے۔اب دنیا کا اختیار تمہارے اوپرآخرت سے زیادہ ہے اوروہ عاقبت سے زیادہ تمہیں کھینچ رہی ہے۔تم دین خدا کے اعتبارسے بھائی بھائی تھے۔لیکن تمہیں باطن کی خباثت اور ضمیر کی خرابی نے الگ الگ کردیا ہے کہ اب نہ کسی کا بوجھ بٹاتے ہو۔نہ نصیحت کرتے ہو۔نہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہو اورنہ ایک دوسرے سے واقعاً محبت کرتے ہو۔آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ معمولی سی دنیا کو پاکرخوش ہو جاتے ہو

۲۰۴

ولَا يَحْزُنُكُمُ الْكَثِيرُ مِنَ الآخِرَةِ تُحْرَمُونَه - ويُقْلِقُكُمُ الْيَسِيرُ مِنَ الدُّنْيَا يَفُوتُكُمْ - حَتَّى يَتَبَيَّنَ ذَلِكَ فِي وُجُوهِكُمْ - وقِلَّةِ صَبْرِكُمْ عَمَّا زُوِيَ مِنْهَا عَنْكُمْ - كَأَنَّهَا دَارُ مُقَامِكُمْ وكَأَنَّ مَتَاعَهَا بَاقٍ عَلَيْكُمْ - ومَا يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ أَنْ يَسْتَقْبِلَ أَخَاه بِمَا يَخَافُ مِنْ عَيْبِه - إِلَّا مَخَافَةُ أَنْ يَسْتَقْبِلَه بِمِثْلِه - قَدْ تَصَافَيْتُمْ عَلَى رَفْضِ الآجِلِ وحُبِّ الْعَاجِلِ - وصَارَ دِينُ أَحَدِكُمْ لُعْقَةً عَلَى لِسَانِه - صَنِيعَ مَنْ قَدْ فَرَغَ مِنْ عَمَلِه وأَحْرَزَ رِضَى سَيِّدِه.

(۱۱۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها مواعظ للناس

الْحَمْدُ لِلَّه الْوَاصِلِ الْحَمْدَ بِالنِّعَمِ - والنِّعَمَ بِالشُّكْرِ نَحْمَدُه عَلَى آلَائِه - كَمَا نَحْمَدُه عَلَى بَلَائِه - ونَسْتَعِينُه عَلَى هَذِه النُّفُوسِ الْبِطَاءِ - عَمَّا أُمِرَتْ بِه - السِّرَاعِ إِلَى مَا نُهِيَتْ عَنْه - ونَسْتَغْفِرُه مِمَّا أَحَاطَ بِه عِلْمُه

اور مکمل آخرت سے محروم ہو کر رنجیدہ نہیں ہوتے ہو۔تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے نکل جائے تو پریشان ہوجاتے ہو اور اس کا اثر تمہارے چہروں سے ظاہر ہو جاتا ہے اوراس کی علیحدگی پر صبر نہیں کرپاتے ہو جیسے وہی تمہاری منزل ہے اور جیسے اس کا سرمایہ واقعی باقی رہنے والا ہے۔تمہاری حالت یہ ہے کہ کوئی شخص بھی دوسرے کے عیب کے اظہار سے باز نہیں آتا ہے مگر صرف اس خوف سے کہ وہ بھی اسی طرح پیشآئے گا۔تم سبنے آخرت کونظر انداز کرنے اوردنیا کی محبت پر اتحاد کرلیا ہے اور ہر ایک کا دین زبان کی چٹنی بن کر رہ گیاہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب نے اپناعمل مکمل کرلیا ہے اور اپنے مالک کو واقعاً خوش کرلیا ہے۔

(۱۱۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کی نصیحت کا سامان فراہم کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے حمد کو نعمتوں سے اورنعمتوں کو شکریہ سے ملا دیا ہے۔ہم نعمتوں میں اس کی حمد اسی طرح کرتے ہیں 'جس طرح مصیبتوں میں کرتے ہیں اوراس سے اس نفس کےمقابلہ کے لئے مدد کے طلب گار ہیں جو اوامر کی تعمیل میں سستی کرتا ہے اور نواہی کی طرف تیزی سے بڑھ جاتا ہے۔ان تمام غلطیوں کے لئے استغفار کرتے ہیں جنہیں اس کے علم نے احاطہ کررکھا ہے

۲۰۵

وأَحْصَاه كِتَابُه عِلْمٌ غَيْرُ قَاصِرٍ - وكِتَابٌ غَيْرُ مُغَادِرٍ - ونُؤْمِنُ بِه إِيمَانَ مَنْ عَايَنَ الْغُيُوبَ - ووَقَفَ عَلَى الْمَوْعُودِ - إِيمَاناً نَفَى إِخْلَاصُه الشِّرْكَ ويَقِينُه الشَّكَّ - ونَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وَحْدَه لَا شَرِيكَ لَه - وأَنَّ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَبْدُه ورَسُولُه - شَهَادَتَيْنِ تُصْعِدَانِ الْقَوْلَ وتَرْفَعَانِ الْعَمَلَ - لَا يَخِفُّ مِيزَانٌ تُوضَعَانِ فِيه - ولَا يَثْقُلُ مِيزَانٌ تُرْفَعَانِ عَنْه.

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - الَّتِي هِيَ الزَّادُ وبِهَا الْمَعَاذُ - زَادٌ مُبْلِغٌ ومَعَاذٌ مُنْجِحٌ - دَعَا إِلَيْهَا أَسْمَعُ دَاعٍ - ووَعَاهَا خَيْرُ وَاعٍ - فَأَسْمَعَ دَاعِيهَا وفَازَ وَاعِيهَا.

عِبَادَ اللَّه إِنَّ تَقْوَى اللَّه حَمَتْ أَوْلِيَاءَ اللَّه مَحَارِمَه - وأَلْزَمَتْ قُلُوبَهُمْ مَخَافَتَه - حَتَّى أَسْهَرَتْ لَيَالِيَهُمْ وأَظْمَأَتْ هَوَاجِرَهُمْ - فَأَخَذُوا الرَّاحَةَ بِالنَّصَبِ والرِّيَّ بِالظَّمَإِ

اور اس کی کتاب نے جمع کر رکھا ہے۔اس کا علم قاصر نہیں ہے اور اس کی کتاب کوئی چیز چھوڑنے والی نہیں ہے۔ہم اس پر اسی طرح ایمان لائے ہیں جیسے غیب کا مشاہدہ کرلیا ہو اوروعدہ سے آگاہی حاصل کرلی ہو۔ہمارے اس ایمان کے اخلاص نے شرک کی نفی کی ہے اور اس کے یقین نے شک کا ازالہ کیا ہے۔ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں۔یہ دونوں شہادتیں وہ ہیں جو اقوال کو بلندی دیتی ہیں اور اعمال کو رفعت عطا کرتی ہیں۔جہاں یہ رکھ دی جائیں وہ پلہ ہلکا نہیں ہوتا ہے اور جہاں سے انہیں اٹھا لیا جائے اس پلہ میں کوئی وزن نہیں رہ جاتا ہے۔

اللہ کے بندو! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارے لئے زاد راہ ہے اور اسی پر آخرت کا دارومدار ہے۔یہی زاد راہ منزل تک پہنچانے والا ہے اوریہی پناہ گاہ کام آنے والی ہے۔اسی کی طرف سب سے بہتر داعی نے دعوت دے دی ہے اوراسے سب سے بہتر سننے والے نے محفوظ کرلیا ہے۔چنانچہ اس کے سنانے والے نے سنادیا اوراس کے محفوظ کرنے والے نے کامیابی حاصل کرلی۔ اللہ کے بندو!اسی تقویٰ الٰہی نے اولیاء خداکو محرمات سے بچا کر رکھا ہے اوران کے دلوں میں خوف خدا کو لازم کردیا ہے یہاں تک کہ ان کی راتیں بیدار کی نذر ہوگئیں اوران کے یہ تپتے ہوئے دن پیاس میں گزر گئے۔ انہوں نے راحت کو تکلیف کے عوض اورسیرابی کو پیاس کے ذریعہ حاصل کیا

۲۰۶

واسْتَقْرَبُوا الأَجَلَ فَبَادَرُوا الْعَمَلَ - وكَذَّبُوا الأَمَلَ فَلَاحَظُوا الأَجَلَ - ثُمَّ إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ فَنَاءٍ وعَنَاءٍ وغِيَرٍ وعِبَرٍ - فَمِنَ الْفَنَاءِ أَنَّ الدَّهْرَ مُوتِرٌ قَوْسَه - لَا تُخْطِئُ سِهَامُه - ولَا تُؤْسَى جِرَاحُه يَرْمِي الْحَيَّ بِالْمَوْتِ - والصَّحِيحَ بِالسَّقَمِ - والنَّاجِيَ بِالْعَطَبِ - آكِلٌ لَا يَشْبَعُ وشَارِبٌ لَا يَنْقَعُ - ومِنَ الْعَنَاءِ أَنَّ الْمَرْءَ يَجْمَعُ مَا لَا يَأْكُلُ - ويَبْنِي مَا لَا يَسْكُنُ - ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى اللَّه تَعَالَى - لَا مَالًا حَمَلَ ولَا بِنَاءً نَقَلَ - ومِنْ غِيَرِهَا أَنَّكَ تَرَى الْمَرْحُومَ مَغْبُوطاً - والْمَغْبُوطَ مَرْحُوماً - لَيْسَ ذَلِكَ إِلَّا نَعِيماً زَلَّ وبُؤْساً نَزَلَ - ومِنْ عِبَرِهَا أَنَّ الْمَرْءَ يُشْرِفُ عَلَى أَمَلِه - فَيَقْتَطِعُه حُضُورُ أَجَلِه - فَلَا أَمَلٌ يُدْرَكُ - ولَا مُؤَمَّلٌ يُتْرَكُ - فَسُبْحَانَ اللَّه مَا أَعَزَّ سُرُورَهَا - وأَظْمَأَ رِيَّهَا وأَضْحَى فَيْئَهَا - لَا جَاءٍ يُرَدُّ

ہے۔وہ موت کو قریب تر سمجھتے ہیں تو تیز عمل کرتے ہیں اور انہوں نے امیدوں کو جھٹلا دیا ہے تو موت کونگاہ میں رکھا ہے۔پھریہ دنیا تو بہرحال فنا اور تکلیف ' تغیر اورعبرت کامقام ہے۔فنا ہی کانتیجہ ہے کہ زمانہ ہر وقت اپنی کمان چڑھائے رہتا ہے کہ اس کے تیر خطانہیں کرتے ہیں اور اس کے زخموں کا علاج نہیں ہو پاتا ہے۔وہ زندہ کو موت سے ' صحت مند کو بیماری سے اورنجات پانے والے کو ہلاکت سے مار دیتا ہے۔اس کاکھانے والا سیر نہیں ہوتا ہے اور پینے والا سیراب نہیں ہوتا ہے۔اور اس کے رنج و تعب کا اثر یہ ہے کہ انسان اپنے کھانے کا سامان فراہم کرتا ہے ' رہنے کے لئے مکان بناتا ہے اور اس کے بعداچانک خدا کی بارگاہ کی طرف چل دیتا ہے۔نہ مال ساتھ لے جاتا ہے اور نہ مکان منتقل ہو پاتا ہے۔

اس کے تغیرات کا حال یہ ہے کہ جسے قابل رحم دیکھا تھا وہ قابل رشک ہو جاتا ہے اور جسے قابل رشک دیکھا تھا وہ قابل رحم ہو جاتا ہے۔گویا ایک نعمت ہے جو زائل ہوگئی اور ایک بلاء ہے جو نازل ہوگئی۔اس کی عبرتوں کی مثال یہ ہے کہ انسان اپنی امیدوں تک پہنچنے والا ہی ہوتا ہے کہ موت اس کے سلسلہ کو قطع کردیتی ہے اور نہ کوئی امید حاصل ہوتی ہے اور نہ امید کرنے والا ہی چھوڑاجاتا ہے۔اے سبحان اللہ! اس دنیا کی خوشی بھی کیا دھوکہ ہے اور اس کی سیرابی بھی کیسی تشنہ کامی ہے اور اس کے سایہ میں بھی کس قدردھوپ ہے۔نہ یہاں آنے والی موت کو واپس کیا جا سکتا ہے

۲۰۷

ولَا مَاضٍ يَرْتَدُّ - فَسُبْحَانَ اللَّه - مَا أَقْرَبَ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ لِلَحَاقِه بِه - وأَبْعَدَ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ لِانْقِطَاعِه عَنْه!

إِنَّه لَيْسَ شَيْءٌ بِشَرٍّ مِنَ الشَّرِّ إِلَّا عِقَابُه - ولَيْسَ شَيْءٌ بِخَيْرٍ مِنَ الْخَيْرِ إِلَّا ثَوَابُه - وكُلُّ شَيْءٍ مِنَ الدُّنْيَا سَمَاعُه أَعْظَمُ مِنْ عِيَانِه - وكُلُّ شَيْءٍ مِنَ الآخِرَةِ عِيَانُه أَعْظَمُ مِنْ سَمَاعِه - فَلْيَكْفِكُمْ مِنَ الْعِيَانِ السَّمَاعُ - ومِنَ الْغَيْبِ الْخَبَرُ - واعْلَمُوا أَنَّ مَا نَقَصَ مِنَ الدُّنْيَا - وزَادَ فِي الآخِرَةِ - خَيْرٌ مِمَّا نَقَصَ مِنَ الآخِرَةِ - وزَادَ فِي الدُّنْيَا - فَكَمْ مِنْ مَنْقُوصٍ رَابِحٍ ومَزِيدٍ خَاسِرٍ - إِنَّ الَّذِي أُمِرْتُمْ بِه أَوْسَعُ مِنَ الَّذِي نُهِيتُمْ عَنْه - ومَا أُحِلَّ لَكُمْ أَكْثَرُ مِمَّا حُرِّمَ عَلَيْكُمْ - فَذَرُوا مَا قَلَّ لِمَا كَثُرَ ومَا ضَاقَ لِمَا اتَّسَعَ - قَدْ تَكَفَّلَ لَكُمْ بِالرِّزْقِ - وأُمِرْتُمْ بِالْعَمَلِ - فَلَا يَكُونَنَّ الْمَضْمُونُ لَكُمْ طَلَبُه - أَوْلَى بِكُمْ مِنَ الْمَفْرُوضِ عَلَيْكُمْ عَمَلُه - مَعَ أَنَّه واللَّه لَقَدِ اعْتَرَضَ الشَّكُّ - ودَخِلَ الْيَقِينُ - حَتَّى كَأَنَّ الَّذِي ضُمِنَ لَكُمْ قَدْ فُرِضَ عَلَيْكُمْ

اور نہ کسی جانے والے کو پلٹایا جاسکتا ہے۔سبحان اللہ زندہ مردہ سے کس قدر جلدی ملحق ہو کر قریب تر ہو جاتا ہے اورمردہ زندہ سے رشتہ توڑ کر کس قدر دور ہو جاتا ہے۔(یاد رکھو) شر سے بدتر کوئی شے اس کے عذا کے علاوہ نہیں ہے اورخیر سے بہتر کوئی شے اس کے ثواب کے سوا نہیں ہے۔دنیا میں ہرش ے کا سننا اس کے دیکھنے سے عظیم تر ہوتا ہے اورآخرت میں ہر شے کا دیکھنا اس کے سننے سے بڑھ چڑھ کر ہوتا ہے لہٰذا تمہارے لئے دیکھنے کے بجائے سننا اور غیب کے مشاہدہ کے بجائے خبر ہی کو کافی ہو جانا چاہیے۔یاد رکھو کہ دنیا میں کسی شے کا کم ہونا اور آخرت میں زیادہ ہونا اس سے بہتر ہے کہ دنیا میں زیادہ ہو اورآخرتمیں کم ہو جائے کہ کتنے ہی کمی والے فائدہ میں رہتے ہیں اور کتنے ہی زیادتی والے گھاٹے میں رہ جاتے ہیں۔بیشک جن چیزوں کا تمہیں حکم دیا گیاہے ان میں زیادہ وسعت ہے یہ نسبت ان چیزوں کے جن سے روکا گیا ہے اور جنہیں حلالا کیا گیا ہے وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں جنہیں حرام قراردیا گیا ہے لہٰذا قلیل کو کثیر کے لئے اور تنگی کو وسعت کی خاطرچھوڑ دو۔پروردگار نے تمہارے رزق کی ذمہ داری لی ہے ۔اور عمل کرنے کاحکم دیا ہے لہٰذا ایسا نہ ہو کہ جس کی ضمانت لی گئی ہے اس کی طلب اس سے زیادہ ہو جائے جس کو فرض کیا گیا ہے۔خدا گواہ ہے کہ تمہارے حالات کو دیکھ کر یہ شبہ ہونے لگتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ شائد جس کی ضمانت لی گئی ہے وہی تم پرواجب کیا گیا ہے

۲۰۸

وكَأَنَّ الَّذِي فُرِضَ عَلَيْكُمْ قَدْ وُضِعَ عَنْكُمْ - فَبَادِرُوا الْعَمَلَ وخَافُوا بَغْتَةَ الأَجَلِ - فَإِنَّه لَا يُرْجَى مِنْ رَجْعَةِ الْعُمُرِ - مَا يُرْجَى مِنْ رَجْعَةِ الرِّزْقِ - مَا فَاتَ الْيَوْمَ مِنَ الرِّزْقِ رُجِيَ غَداً زِيَادَتُه - ومَا فَاتَ أَمْسِ مِنَ الْعُمُرِ - لَمْ يُرْجَ الْيَوْمَ رَجْعَتُه - الرَّجَاءُ مَعَ الْجَائِي والْيَأْسُ مَعَ الْمَاضِي - فَـ( اتَّقُوا الله حَقَّ تُقاتِه - ولا تَمُوتُنَّ إِلَّا وأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ) .

(۱۱۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الاستسقاء

اللَّهُمَّ قَدِ انْصَاحَتْ جِبَالُنَا - واغْبَرَّتْ أَرْضُنَا وهَامَتْ دَوَابُّنَا - وتَحَيَّرَتْ فِي مَرَابِضِهَا - وعَجَّتْ عَجِيجَ الثَّكَالَى عَلَى أَوْلَادِهَا - ومَلَّتِ التَّرَدُّدَ فِي مَرَاتِعِهَا - والْحَنِينَ إِلَى مَوَارِدِهَا - اللَّهُمَّ فَارْحَمْ أَنِينَ الآنَّةِ - وحَنِينَ الْحَانَّةِ - اللَّهُمَّ فَارْحَمْ حَيْرَتَهَا فِي مَذَاهِبِهَا - وأَنِينَهَا فِي مَوَالِجِهَا - اللَّهُمَّ خَرَجْنَا إِلَيْكَ - حِينَ اعْتَكَرَتْ عَلَيْنَا حَدَابِيرُ السِّنِينَ -

اور جس کاحکم دیا گیا ہے اسی کو ساقط کردیا گیا ہے۔خدا را عمل کی طرف سبقت کرو اور موت کے اچانک وارد ہو جانے سے ڈرواس لئے کہ موت کے واپس ہونے کی وہ امید نہیں ہے جس قدر رزق کے پلٹ کرآجانے کی ہے۔جو رزق آج ہاتھ سے نکل گیا ہے اس کے کل اضافہ کا امکان ہے لیکن جو عمرآج نکل گئی ہے اس کے کل واپس آنے کا بھی امکان نہیں ہے۔امید آنے والے کی ہو سکتی ہے جانے والے کی نہیں اس سے تو مایوسی ہی ہو سکتی ہے ''اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کاحق ہے اور خبردار اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک واقعی مسلمان نہ ہوجائو''۔

(۱۱۵)

(آپ کے خطبہ کا ایک حصہ)

(طلب بارش کے سلسلہ میں )

خدایا! ہمارے پہاڑوں کاسبزہ خشک ہوگیا ہے اور ہماری زمین پر خاک اڑ رہی ہے۔ہمارے جانور پیاسے ہیں اور اپنی منزل کی تلاش میں سر گرداں ہیں اور اپنے بچوں کے حق میں اس طرح فریادی ہیں جیسے زن پسر مردہ ۔ سب چراگاہوں کی طرف پھیرے لگانے اورتالابوں کی طرف والہانہ طور پردوڑنے سے عاجزآگئے ہیں۔خدایا! اب ان کی فریادی بکریوں اور اشتیاق آمیز پکارنے والی اونٹنیوں پر رحم فرما۔خدایا!ان کی راہوں میں پریشانی اور منزلوں پر چیخ و پکار پر رحم فرما۔خدایا! ہم اس وقت گھرسے نکل کرآئے ہیں جب قحط سالی کے مارے ہوئے لاغراونٹ ہماری طرف پلٹ پڑے ہیں

۲۰۹

وأَخْلَفَتْنَا مَخَايِلُ الْجُودِ - فَكُنْتَ الرَّجَاءَ لِلْمُبْتَئِسِ - والْبَلَاغَ لِلْمُلْتَمِسِ نَدْعُوكَ حِينَ قَنَطَ الأَنَامُ - ومُنِعَ الْغَمَامُ وهَلَكَ السَّوَامُ - أَلَّا تُؤَاخِذَنَا بِأَعْمَالِنَا - ولَا تَأْخُذَنَا بِذُنُوبِنَا - وانْشُرْ عَلَيْنَا رَحْمَتَكَ بِالسَّحَابِ الْمُنْبَعِقِ - والرَّبِيعِ الْمُغْدِقِ - والنَّبَاتِ الْمُونِقِ سَحّاً وَابِلًا - تُحْيِي بِه مَا قَدْ مَاتَ - وتَرُدُّ بِه مَا قَدْ فَاتَ - اللَّهُمَّ سُقْيَا مِنْكَ مُحْيِيَةً مُرْوِيَةً - تَامَّةً عَامَّةً طَيِّبَةً مُبَارَكَةً - هَنِيئَةً مَرِيعَةً - زَاكِياً نَبْتُهَا ثَامِراً فَرْعُهَا نَاضِراً وَرَقُهَا - تُنْعِشُ بِهَا الضَّعِيفَ مِنْ عِبَادِكَ - وتُحْيِي بِهَا الْمَيِّتَ مِنْ بِلَادِكَ - اللَّهُمَّ سُقْيَا مِنْكَ تُعْشِبُ بِهَا نِجَادُنَا - وتَجْرِي بِهَا وِهَادُنَا - ويُخْصِبُ بِهَا جَنَابُنَا - وتُقْبِلُ بِهَا ثِمَارُنَا - وتَعِيشُ بِهَا مَوَاشِينَا - وتَنْدَى بِهَا أَقَاصِينَا - وتَسْتَعِينُ بِهَا ضَوَاحِينَا - مِنْ بَرَكَاتِكَ الْوَاسِعَةِ - وعَطَايَاكَ الْجَزِيلَةِ - عَلَى بَرِيَّتِكَ الْمُرْمِلَةِ ووَحْشِكَ الْمُهْمَلَةِ - وأَنْزِلْ عَلَيْنَا سَمَاءً مُخْضِلَةً مِدْرَاراً هَاطِلَةً - يُدَافِعُ الْوَدْقُ مِنْهَا الْوَدْقَ - ويَحْفِزُ الْقَطْرُ مِنْهَا الْقَطْرَ - غَيْرَ خُلَّبٍ بَرْقُهَا -

اور جن سے کرم کی امید تھی وہ بادل آآکر چلے گئے ہیں۔اب درد کے ماروں کا تو ہی آسراہے اور التجا کرنے والوں کا تو ہی سہاراہے۔ہم اس وقت دعا کر رہے ہیں جب لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔بدلوں کے خیر کو روک دیا گیا ہے اور جانور ہلاک ہو رہے ہیں تو خدایا ہمارے اعمال کی بنا پر ہمارا مواخذہ نہ کرنا۔اورہمیں ہمارے گناہوں کی گرفت میں مت لے لینا۔اپنے دامن رحمت کو ہمارے اوپر پھیلا دے برسنے والے بادل ' موسلا دھار برسات اور حسین سبزہ کے ذریعہ۔ایسی برستا جس سے مردہ زمینیں زندہ ہوجائیں اورگئی ہوئی بہار واپس آجائے۔خدایا! ایسی سیرابی عطا فرما جو زندہ کرنے والی' سیراب بنانے والی۔کامل و شامل۔ پاکیزہ و مبارک ' خوش گوار و شاداب ہو جس کی برکت سے نباتات پھلنے پھولنے لگیں۔شاخیں بار آورہو جائیںپتے ہر ے ہو جائیں ۔کمزور بندوں کو اٹھنے کاسہارا مل جائے ۔مردہ زمینوں کو زندگی عطا ہو جائے۔خدایا! ایسی سیرابی عطا فرما جس سے ٹیلے سبزہ پوش ہو جائیں۔نہریں جاری ہو جائیں۔آس پاس کے علاقے شاداب ہو جائیں۔پھل نکلنے لگیں۔جانور جی اٹھیں۔دور دراز کے علاقہ بھی تر ہو جائیں اور کھلے میدان بھی تیری اس وسیع برکت اورعظیم عطا سے مستفیض ہو جائیں جو تیری تباہ حال مخلوق اورآوارہ گرد جانوروں پر ہے۔ہم پر ایسی بارش نازل فرما جو پانی سے شرابور کر دینے والی۔ موسلادھارمسلسل برسنے والی ہو جس میں قطرات ' قطرات کوڈھکیل رہے ہوں اور بوندیں ' بوندوں کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہوں۔ نہ اس کی بجلی دھوکہ دینے والی ہو

۲۱۰

ولَا جَهَامٍ عَارِضُهَا - ولَا قَزَعٍ رَبَابُهَا ولَا شَفَّانٍ ذِهَابُهَا - حَتَّى يُخْصِبَ لإِمْرَاعِهَا الْمُجْدِبُونَ - ويَحْيَا بِبَرَكَتِهَا الْمُسْنِتُونَ - فَإِنَّكَ تُنْزِلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا - وتَنْشُرُ رَحْمَتَكَ وأَنْتَ( الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ ) .

تفسير ما في هذه الخطبة من الغريب

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه قولهعليه‌السلام - انصاحت جبالنا - أي تشققت من المحول - يقال انصاح الثوب إذا انشق - ويقال أيضا انصاح النبت - وصاح وصوح إذا جف ويبس كله بمعنى -. وقوله وهامت دوابُّنا أي عطشت - والهُيام العطش -. وقوله حدابير السنين جمع حِدْبار - وهي الناقة التي أنضاها السير - فشبه بها السنة التي فشا فيها الجدب - قال ذو الرمة:

حدابير ما تنفك إلا مناخة

على الخسف أو نرمي بها بلدا قفرا

- وقوله ولا قزع ربابها - القزع القطع الصغار المتفرقة من السحاب -. وقوله ولا شَفَّان ذهابها - فإن تقديره ولا ذات شَفَّان ذهابها - والشَفَّان الريح الباردة - والذهاب الأمطار اللينة - فحذف ذات لعلم السامع به

اور نہ اس کے بادل پانی سے خالی ہوں۔نہ اس کے ابر کے سفید ٹکڑے بکھرے ہوں اور نہ صرف ٹھنڈے جھونکوں کی بوندا باندی ہو۔ایسی بارش ہو کہ قحط کے مارے ہوئے اس کی سر سبز یوں سے خوشحال ہوجائیں اور خشک سالی کے شکار اس کی برکت سے جی اٹھیں۔اس لئے کہ تو ہی مایوسی کے بعد پانی برسانے والا اور دامان رحمت کا پھیلانے والا ہے اور تو ہی قابل حمدو ستائش ' سر پرست و مدد گار ہے۔

سید رضی : انصاحت جبالنا:یعنی پہاڑوں میں خشک سالی سے شگاف پڑ گئے ہیں کہ انصاح الثوب کپڑے کے پھٹ جانے کو کہا جاتا ہے۔یا اس کے معنی گھاس کے خشک ہو جانے کے ہیں کہ صاح ۔انصاح ایسے مواقع پر بھی استعمال ہوتا ہے ۔

ھامت دوابنا: یعنی پیاسے ہیں اور ہیام یہاں عطش کے معنی میں ہے۔

حدابیرالسنین:حدبار کی جمع ہے۔وہ اونٹ جسے سفر لاغر بنادے۔گویا کہ قحط زدہ سال کو اس اونٹ سے تشبیہ دی گئی ہے جیسا کہ ذوا لرمہ شاعرنے کہا تھا:

(یہ لاغر اور کمزوراونٹنیاں ہیں جو سختی جھیل کربیٹھ گئی ہیں یا پھربےآب و گیا ہ صحرا میں لے جانے پرچلی جاتی ہیں)

لاتزع ربابھا۔قزع۔بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے۔

لا شفان ذھابھا ۔اصل میں '' ذات شفان'' ہے۔شفان ٹھنڈی ہوا کو کہا جاتا ہے اور ذہاب ہلکی پھوار کا نام ہے یہاں لفظ '' ذات '' حذف ہوگیا ہے۔

۲۱۱

(۱۱۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها ينصح أصحابه

أَرْسَلَه دَاعِياً إِلَى الْحَقِّ - وشَاهِداً عَلَى الْخَلْقِ - فَبَلَّغَ رِسَالَاتِ رَبِّه - غَيْرَ وَانٍ ولَا مُقَصِّرٍ - وجَاهَدَ فِي اللَّه أَعْدَاءَه - غَيْرَ وَاهِنٍ ولَا مُعَذِّرٍ - إِمَامُ مَنِ اتَّقَى وبَصَرُ مَنِ اهْتَدَى.مِنْهَا ولَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ مِمَّا طُوِيَ عَنْكُمْ غَيْبُه - إِذاً لَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ - تَبْكُونَ عَلَى أَعْمَالِكُمْ - وتَلْتَدِمُونَ عَلَى أَنْفُسِكُمْ - ولَتَرَكْتُمْ أَمْوَالَكُمْ لَا حَارِسَ لَهَا - ولَا خَالِفَ عَلَيْهَا - ولَهَمَّتْ كُلَّ امْرِئٍ مِنْكُمْ نَفْسُه - لَا يَلْتَفِتُ إِلَى غَيْرِهَا - ولَكِنَّكُمْ نَسِيتُمْ مَا

ذُكِّرْتُمْ - وأَمِنْتُمْ مَا حُذِّرْتُمْ - فَتَاه عَنْكُمْ رَأْيُكُمْ - وتَشَتَّتَ عَلَيْكُمْ أَمْرُكُمْ - ولَوَدِدْتُ أَنَّ اللَّه فَرَّقَ بَيْنِي وبَيْنَكُمْ - وأَلْحَقَنِي بِمَنْ

(۱۱۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اپنے اصحاب کو نصیحت فرمائی ہے)

اللہ نے پیغمبر (ص) کو اسلام کی طرف دعوت دینے والا اور مخلوقات کے اعمال کا گواہ بنا کربھیجا تو آپ نے پیغام الٰہی کومکمل طور سے پہچا دیا۔نہ کوئی سستی کی اور نہ کوئی کوتاہی۔دشمنان خدا سے جہاد کیا اور اس راہمیں نہ کوئی کمزوری دکھلائی اور نہ کسی حیلہ اور بہانہ کا سہارا لیا۔ آپ متقین کے امام اور طلب گار ان ہدایت کے لئے آنکھوں کی بصارت تھے۔اگرتم ان تمام باتوں کو جان لیتے جو تم سے مخفی رکھی گئی ہیں اور جن کو میں جانتا ہوں تو صحرائوں میں نکل جاتے۔اپنے اعمال پر گریہ کرتے اور اپنے کئے پر سروسینہ پیٹتے اور سارے اموال کو اس طرح چھوڑ کر چل دیتے کہ نہ ان کا کوئی نگہبان ہوتا اور نہ وارث اور ہر شخص کو صرف اپنی ذات کی فکر ہوتی۔کوئی دوسرے کی طرف رخ بھی نہ کرتا۔لیکن افسوس کہ تم نے اس سبق کو بالکل بھلا دیا جو تمہیں یاد کرایا گیا تھا اور ان ہولناک مناظر کی طرف سے یکسر مطمئن ہوگئے جن سے ڈرایا گیا تھا۔تو تمہاری رائے بھٹک گئی اورتمہارے امور میں انتشار پیدا ہوگیا اور میں یہ چاہنے لگا کہ کاش اللہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دیتا اور مجھے ان لوگوں(۱) سے ملا دیتا جو

(۱) امیر المومنین کی زندگی کا عظیم ترین المیہ ہے کہ آنکھ کھولنے کے بعد سے ۳۰ سال تک رسول اکرم (ص) کے ساتھ گزارے۔اس کے بعد چند مخلص اصحاب کرام کا ساتھ رہا اس کے بعد جب زمانہ نے پلٹا کھایا اوراقتدارقدموں میں آیا تو ایک طرف ناکثین' قاسطین اورخوارج کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری طرف اپنے گرد کوفہ کے بیوفائوں کا مجمع لگ گیا ظاہر ہے کہ ایسا شخص اس حال کو دیکھ کراس ماضی کی تمنا نہ کرے تو اور کیا کرے اور اس کے ذہن سے اپنا ماضی کس طرح نکل جائے۔

۲۱۲

هُوَ أَحَقُّ بِي مِنْكُمْ - قَوْمٌ واللَّه مَيَامِينُ الرَّأْيِ - مَرَاجِيحُ الْحِلْمِ - مَقَاوِيلُ بِالْحَقِّ - مَتَارِيكُ لِلْبَغْيِ - مَضَوْا قُدُماً عَلَى الطَّرِيقَةِ - وأَوْجَفُوا عَلَى الْمَحَجَّةِ - فَظَفِرُوا بِالْعُقْبَى الدَّائِمَةِ - والْكَرَامَةِ الْبَارِدَةِ - أَمَا واللَّه لَيُسَلَّطَنَّ عَلَيْكُمْ - غُلَامُ ثَقِيفٍ الذَّيَّالُ الْمَيَّالُ - يَأْكُلُ خَضِرَتَكُمْ - ويُذِيبُ شَحْمَتَكُمْ - إِيه أَبَا وَذَحَةَ!

قال الشريف - الوذحة الخنفساء - وهذا القول يومئ به إلى الحجاج - وله مع الوذحة حديث - ليس هذا موضع ذكره.

(۱۱۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يوبخ البخلاء بالمال والنفس

فَلَا أَمْوَالَ بَذَلْتُمُوهَا لِلَّذِي رَزَقَهَا - ولَا أَنْفُسَ خَاطَرْتُمْ بِهَا لِلَّذِي خَلَقَهَا

میرے لئے زیادہ سزا تھے۔وہ لوگ جن کی رائے مبارک اور جن کا حلم ٹھوس ہے۔حق کی باتیں کرتے ہیں اور بغاوت و سر کشی سے کنارہ کرنے والے ہیں۔انہوں نے راستہ پر قدم آگے بڑھائے اور راہ راست پرتیزی سے بڑھتے چلے گئے۔جس کے نتیجہ میں دائمی آخرت اور پر سکون کرامت حاصل کرلی۔آگاہ ہو جائو کہ خدا کی قسم تم پروہ نوجوان بنی ثقیف کامسلط کیا جائے گا جس کا قد طویل ہو گا اور وہ لہرا کر چلنے والا ہوگا ۔تمہارے سبزہ کو ہضم کرجائے گا اور تمہاری چربی کوپگھلا دے ۔ہاں ہاں اے ابو وذحہ کچھ اور۔ سید رضی : وذحہ گندہ کیڑے کا نام ۔ابو وذحہ کا اشارہ حجاج کی طرف ہے اور اس کا ایک قصہ ہے جس کے ذکر کا یہ مقام نہیں ہے ''۔اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حجاج نماز پڑھ رہا تھا اس کیڑے نے اسے موقع پا کر کاٹ لیا اوراس کے اثر سے اس کی موت واقع ہوگئی۔

(۱۱۷)

آپ کا ارشاد گرامی

( جس میں جان و مال سے بخل کرنے والوں کی سرزنش کی گئی ہے )

نہ تم نے مال کواس کی راہ میں خرچ کیا جس نے تمہیں عطا کیا تھا اورنہ جان کو اس کی خاطر خطرہ میں ڈالا جس نے اسے پیدا کیا تھا

۲۱۳

تَكْرُمُونَ بِاللَّه عَلَى عِبَادِه - ولَا تُكْرِمُونَ اللَّه فِي عِبَادِه - فَاعْتَبِرُوا بِنُزُولِكُمْ مَنَازِلَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - وانْقِطَاعِكُمْ عَنْ أَوْصَلِ إِخْوَانِكُمْ!

(۱۱۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الصالحين من أصحابه

أَنْتُمُ الأَنْصَارُ عَلَى الْحَقِّ - والإِخْوَانُ فِي الدِّينِ - والْجُنَنُ يَوْمَ الْبَأْسِ - والْبِطَانَةُ دُونَ النَّاسِ - بِكُمْ أَضْرِبُ الْمُدْبِرَ وأَرْجُو طَاعَةَ الْمُقْبِلِ - فَأَعِينُونِي بِمُنَاصَحَةٍ خَلِيَّةٍ مِنَ الْغِشِّ - سَلِيمَةٍ مِنَ الرَّيْبِ - فَوَاللَّه إِنِّي لأَوْلَى النَّاسِ بِالنَّاسِ!

(۱۱۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد جمع الناس - وحضهم على الجهاد - فسكتوا مليا

تم اللہ کے نام پر بندوں(۱) میں عزت حاصل کرتے ہو اور بندوں کے بارے میں اللہ کا احترام نہیں کرتے ہو۔خدارا اس بات سے عبرت حاصل کرو کہ عنقریب انہیں منازل میں نازل ہونے والے ہو جہاں پہلے لوگ نازل ہو چکے ہیں اور قریب ترین بھائیوں سے کٹ کر رہ جانے والے ہو۔

(۱۱۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب میں نیک کردار افراد کے بارے میں )

تم حق کے سلسلہ میں مدد گار اور دین کے معاملہ میں بھائی ہو۔جنگ کے روز میری سپر اور تمام لوگوں میں میرے راز دار ہو۔میں تمہارے ہی ذریعہ رو گردانی کرنے والوں پرتلوار چلاتا ہوں اور راستہ پرآنے والوں کی اطاعت کی امید رکھتا ہوں لہٰذا خدارا میری مدد کرو اس نصیحت کے ذریعہ جس میں ملاوٹ نہ ہو اور کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو کہ خدا کی قسم میں لوگوں کی قیادت کے لئے تمام لوگوں سے اولیٰ اور احق ہوں۔

(۱۱۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے لوگوں کو جمع کرکے جہاد کی تلقین کی اور لوگوں نے سکوت اختیار کرلیا تو فرمایا)

(۱)ایسے لوگ ہر دورمیں دینداروں میں بھی رہے ہیں اور دنیا داروں میں بھی۔جو قوم سے ہر طرح کے احترام کے طلبگار ہوتے ہیں اور قوم کا کسی طرح کا احترام نہیں کرتے ہیں۔لوگوں سے دین خدا کی ٹھیکہ داری کے نام پر ہر طرح کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں ۔اور خود کسی طرح کی قربانی کا ارادہ نہیں کرتے ہیں ان کی نظر میں دین خدا دنیا کمانے کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ در حقیقت بد ترین تجارت ہے کہ انسان دین کی عظیم و شریف دولت کو دے کردنیا جیسی حقیرو ذلیل شے کو حاصل کر نے کامنصوبہ بنائے۔ظاہر ہے کہ جب دینداروں میں ایسے کردار پیدا ہو جاتے ہیں تو دنیا داروں کا کیا ذکر ہے انہیں تو بہرحال اس سے بد تر ہونا چاہیے۔

۲۱۴

فَقَالَعليه‌السلام مَا بَالُكُمْ أَمُخْرَسُونَ أَنْتُمْ - فَقَالَ قَوْمٌ مِنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - إِنْ سِرْتَ سِرْنَا مَعَكَ.

فَقَالَعليه‌السلام - مَا بَالُكُمْ لَا سُدِّدْتُمْ لِرُشْدٍ ولَا هُدِيتُمْ لِقَصْدٍ - أَفِي مِثْلِ هَذَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَخْرُجَ - وإِنَّمَا يَخْرُجُ فِي مِثْلِ هَذَا رَجُلٌ - مِمَّنْ أَرْضَاه مِنْ شُجْعَانِكُمْ - وذَوِي بَأْسِكُمْ - ولَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَدَعَ الْجُنْدَ والْمِصْرَ - وبَيْتَ الْمَالِ وجِبَايَةَ الأَرْضِ - والْقَضَاءَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ - والنَّظَرَ فِي حُقُوقِ الْمُطَالِبِينَ - ثُمَّ أَخْرُجَ فِي كَتِيبَةٍ أَتْبَعُ أُخْرَى - أَتَقَلْقَلُ تَقَلْقُلَ الْقِدْحِ فِي الْجَفِيرِ الْفَارِغِ - وإِنَّمَا أَنَا قُطْبُ الرَّحَى،تَدُورُ عَلَيَّ وأَنَا بِمَكَانِي - فَإِذَا فَارَقْتُه اسْتَحَارَ مَدَارُهَا - واضْطَرَبَ ثِفَالُهَا - هَذَا لَعَمْرُ اللَّه الرَّأْيُ السُّوءُ - واللَّه لَوْ لَا رَجَائِي الشَّهَادَةَ عِنْدَ لِقَائِي الْعَدُوَّ - ولَوْ قَدْ حُمَّ لِي لِقَاؤُه - لَقَرَّبْتُ رِكَابِي - ثُمَّ شَخَصْتُ عَنْكُمْ فَلَا أَطْلُبُكُمْ - مَا اخْتَلَفَ جَنُوبٌ وشَمَالٌ - طَعَّانِينَ عَيَّابِينَ حَيَّادِينَ رَوَّاغِينَ - إِنَّه لَا غَنَاءَ فِي كَثْرَةِ عَدَدِكُمْ

تمہیں کیا ہوگیا ہے۔کیا تم گونگے ہوگئے ہو؟ اس پر ایک جماعت نے کہا کہ یا امیر المومنین ! آپ چلیں۔ہم چلنے کے لئے تیار ہیں۔

فرمایا: تمہیں کیا ہوگیا ہے۔اللہ تمہیں ہدایت کی توفیق نہ دے اورتمہیں سیدھا راستہ نصیب نہ ہو۔کیا ایسے حالات میں میرے لئے مناسب ہے کہ میں ہی نکلوں ؟ ایسے موقع پر اس شخص کونکلنا چاہیے جو تمہارے بہادروں اورجوانمردں میں میرا پسندیدہ ہو اور ہرگز مناسب نہیں ہے کہ میں لشکر ' شہر ' بیت المال ' خراج کی فراہمی ' قضاوت' مطالبات کرنے والوں کے حقوق کی نگرانی کا سارا کام چھوڑ کرنکل جائوں اور لشکر لے کر دوسرے لشکرکا پیچھا کروں اور اس طرح جنبش کرتا رہوں جس طرح خالی ترکش میں تیر ۔میں خلافت کی چکی کا مرکز ہوں جسے میرے گرد چکر لگانا چاہیے کہ اگر میں نے مرکز چھو ڑ دیا تو اس کی گردش کا دائرہ متزلزل ہو جائے گا اور اس کے نیچے کی بساط بھی جا بجا ہو جائے گی۔خدا کی قسم یہ بد ترین رائے ہے اور وہی گواہ ہے کہ اگر دشمن کا مقابلہ کرنے میں مجھے شہادت کی آرزو نہ ہوتی۔جب کہ وہ مقابلہ میرے لئے مقدر ہو چکا ہو۔تو میں اپنی سواریوں کو قریب کرکے ان پر سوار ہو کر تم سے بہت دورنکل جاتا اور پھر تمہیں اس وقت تک یاد بھی نہ کرتا جب تک شمالی اور جنوبی ہوائیں چلتی رہیں۔تم طنزکرنے والے۔عیب لگانے والے۔کنارہ کشی کرنے والے اور صرف شور مچانے والے ہو۔تمہارے اعداد کی کثرت کا کیا فائدہ ہے۔

۲۱۵

مَعَ قِلَّةِ اجْتِمَاعِ قُلُوبِكُمْ - لَقَدْ حَمَلْتُكُمْ عَلَى الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ - الَّتِي لَا يَهْلِكُ عَلَيْهَا إِلَّا هَالِكٌ - مَنِ اسْتَقَامَ فَإِلَى الْجَنَّةِ ومَنْ زَلَّ فَإِلَى النَّارِ!

(۱۲۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يذكر فضله ويعظ الناس

تَاللَّه لَقَدْ عُلِّمْتُ تَبْلِيغَ الرِّسَالَاتِ - وإِتْمَامَ الْعِدَاتِ وتَمَامَ الْكَلِمَاتِ - وعِنْدَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ أَبْوَابُ الْحُكْمِ وضِيَاءُ الأَمْرِ - أَلَا وإِنَّ شَرَائِعَ الدِّينِ وَاحِدَةٌ وسُبُلَه قَاصِدَةٌ - مَنْ أَخَذَ بِهَا لَحِقَ وغَنِمَ - ومَنْ وَقَفَ عَنْهَا ضَلَّ ونَدِمَ - اعْمَلُوا لِيَوْمٍ تُذْخَرُ لَه الذَّخَائِرُ - وتُبْلَى فِيه السَّرَائِرُ - ومَنْ لَا يَنْفَعُه حَاضِرُ لُبِّه - فَعَازِبُه عَنْه أَعْجَزُ وغَائِبُه أَعْوَزُ - واتَّقُوا نَاراً حَرُّهَا شَدِيدٌ - وقَعْرُهَا بَعِيدٌ وحِلْيَتُهَا حَدِيدٌ - وشَرَابُهَا صَدِيدٌ -. أَلَا وإِنَّ اللِّسَانَ الصَّالِحَ - يَجْعَلُه اللَّه تَعَالَى لِلْمَرْءِ فِي النَّاسِ -

جب تمہارے دل یکجا نہیں ہیں۔میں نے تم کو اس واضح راستہ پر چلانا چاہا جس پر چل کر کوئی ہلاک نہیں ہو سکتا ہے مگر یہ کہ ہلاکت اس کا مقدر ہو۔اس راہ پر چلنے والے کی واقعی منزل جنت ہے اور یہاں پھسل جانے والے کا راستہ جہنم ہے۔

(۱۲۰)

آپ کا ارشادگرامی

(جس میں اپنی فضیلت کاذکرکرتے ہوئے لوگوں کو نصیحت فرمائی ہے )

خدا کی قسم! مجھے پیغام الٰہی کے پہنچانے ، وعدہ الٰہی کے پورا کرنے اور کلمات الہیہ کی مکمل وضاحت کرنے کا علم دیا گیا ہے ہم اہل بیت کے پاس حکمتوں کے ابواب اورمسائل کی روشنی موجود ہے۔یاد رکھو۔دین کی تمام شریعتوں کا مقصد ایک ہے اور اس کے سارے راستے درست ہیں۔جوان راستوں کواختیارکرلے گا وہ منزل تک پہنچ بھی جائے گا اورفائدہ بھی حاصل کرلے گا اور جو راستہ ہی میں ٹھہر جائے گاوہ بہک بھی جائے گا اور شرمندہ بھی ہو گا۔عمل کرو اس دن کے لئے جس کے لئے ذخیرے فراہم کئے جاتے ہیں اور جس دن نیتوں کا امتحان ہوگا اور جس کو اپنی موجود عقل فائدہ نہ پہنچائے اسے دوسروں کی غائب اور دور ترین عقل کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔اس آگ سے ڈرو جس کی تپش شدید۔گہرائی بعید۔آرائش حدید اور پینے کی شے صدید ( پیپ) ہے یاد رکھو۔وہ ذکر خیر جو پروردگار کسی انسان کے لئے باقی رکھتا ہے

۲۱۶

خَيْرٌ لَه مِنَ الْمَالِ يُورِثُه مَنْ لَا يَحْمَدُه

(۱۲۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد ليلة الهرير

وقد قام إليه رجل من أصحابه - فقال نهيتنا عن الحكومة ثم أمرتنا بها - فلم ندر أي الأمرين أرشد فصفق عليه‌السلام إحدى يديه على الأخرى –

ثم قال: هَذَا جَزَاءُ مَنْ تَرَكَ الْعُقْدَةَ - أَمَا واللَّه لَوْ أَنِّي حِينَ أَمَرْتُكُمْ - بِه حَمَلْتُكُمْ عَلَى الْمَكْرُوه - الَّذِي يَجْعَلُ اللَّه فِيه خَيْراً - فَإِنِ اسْتَقَمْتُمْ هَدَيْتُكُمْ - وإِنِ اعْوَجَجْتُمْ قَوَّمْتُكُمْ - وإِنْ أَبَيْتُمْ تَدَارَكْتُكُمْ لَكَانَتِ الْوُثْقَى - ولَكِنْ بِمَنْ وإِلَى مَنْ - أُرِيدُ أَنْ أُدَاوِيَ بِكُمْ وأَنْتُمْ دَائِي - كَنَاقِشِ الشَّوْكَةِ بِالشَّوْكَةِ - وهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ ضَلْعَهَا مَعَهَا - اللَّهُمَّ قَدْ مَلَّتْ أَطِبَّاءُ هَذَا الدَّاءِ الدَّوِيِّ - وكَلَّتِ النَّزْعَةُ بِأَشْطَانِ الرَّكِيِّ - أَيْنَ الْقَوْمُ الَّذِينَ دُعُوا إِلَى الإِسْلَامِ فَقَبِلُوه -

وہ اس مال سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے جسے انسان ان لوگوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے جو تعریف تک نہیں کرتے ہیں۔

(۱۲۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جب لیلتہ الہریرکےبعد آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ آپ نے پہلے ہی حکم بنانے سے روکا اور پھراس کا حکم دے دیا توآخر ان دونوں میں سے کون سی بات صحیح تھی؟ تو آپ نے ہاتھ پر ہاتھ مار کر فرمایا!

افسوس یہی اس کی جزا ہوتی ہے جو عہد پیمان(۱) کو نظرانداز کر دیتا ہے۔یاد رکھو اگر میں تم کو اس ناگوار امر( جنگ) پرمامور کر دیتا جس میں یقینا اللہ نے تمہیں لئے خیر رکھا تھا۔اس طرح کہ تم سیدھے رہتے تو تمہیں ہدایت دیتا اور ٹیڑھے ہو جاتے تو سیدھا کردیتا اورانکار کرتے تو اس کا علاج کرتا تو یہ انتہائی مستحکم طریقہ کار ہوتا۔لیکن یہ کام کس کے ذریعہ کرتا اور کس کے بھروسہ پر کرتا۔میں تمہارے ذریعہ قوم کا علاج کرنا چاہتا تھا لیکن تمہیں تو میری بیماری ہو۔یہ تو ایسا ہی ہوتا جیسے کانٹے سے کانٹا نکالا جائے جب کہ اس کا جھکائو اسی کی طرف ہو۔خدایا! گواہ رہنا کہ اس موذی مرض کے اطباء عاجزآچکے ہیں اور اس کنویں سے رسی نکالنے والے تھک چکے ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں اسلام کی دعوت دی گئی تو فوراً قبول کرلی

(۱) مقصد یہ ہے کہ تم لوگوں نے مجھ سے اطاعت کاعہدو پیمان کیا تھا لیکن جب میں نے صفین میں جنگ جاری رکھنے پر اصرار کیا تو تم نے نیزوں پر قرآن دیکھ کرجنگ بندی کامطالبہ کردیا اور اپنے عہدوپیمان کو نظر انداز کردیا ظاہر ہے کہ ایسے اقدام کا ایسا ہی نتیجہ ہوتا ہے جو سامنے آگیا تو اب فریاد کرنے کاکیا جواز ہے ؟

۲۱۷

وقَرَءُوا الْقُرْآنَ فَأَحْكَمُوه وهِيجُوا إِلَى الْجِهَادِ فَوَلِهُوا وَلَه اللِّقَاحِ إِلَى أَوْلَادِهَا - وسَلَبُوا السُّيُوفَ أَغْمَادَهَا وأَخَذُوا بِأَطْرَافِ الأَرْضِ زَحْفاً زَحْفاً - وصَفّاً صَفّاً بَعْضٌ هَلَكَ وبَعْضٌ نَجَا لَا يُبَشَّرُونَ بِالأَحْيَاءِ - ولَا يُعَزَّوْنَ عَنِ الْمَوْتَى مُرْه الْعُيُونِ مِنَ الْبُكَاءِ - خُمْصُ الْبُطُونِ مِنَ الصِّيَامِ ذُبُلُ الشِّفَاه مِنَ الدُّعَاءِ - صُفْرُ الأَلْوَانِ مِنَ السَّهَرِ عَلَى وُجُوهِهِمْ غَبَرَةُ الْخَاشِعِينَ - أُولَئِكَ إِخْوَانِي الذَّاهِبُونَ - فَحَقَّ لَنَا أَنْ نَظْمَأَ إِلَيْهِمْ - ونَعَضَّ الأَيْدِي عَلَى فِرَاقِهِمْ - إِنَّ الشَّيْطَانَ يُسَنِّي لَكُمْ طُرُقَه ويُرِيدُ أَنْ يَحُلَّ دِينَكُمْ عُقْدَةً عُقْدَةً - ويُعْطِيَكُمْ بِالْجَمَاعَةِ الْفُرْقَةَ وبِالْفُرْقَةِ الْفِتْنَةَ - فَاصْدِفُوا عَنْ نَزَغَاتِه ونَفَثَاتِهواقْبَلُوا النَّصِيحَةَ مِمَّنْ أَهْدَاهَا إِلَيْكُمْ واعْقِلُوهَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ

اور انہوں نے قرآن کو پڑھا تو باقاعدہ عمل بھی کیااور جہاد کے لئے آمادہکئے گئے تو اس طرح شوق سے آگے بڑھے جس طرح اونٹنی اپنے بچوں کی طرف بڑھتی ہے۔انہوں نے تلواروں کو نیا موں سے نکال لیا اور دستہ دستہ ۔صف بہ صف آگے بڑھ کر تمام اطراف زمین پر قبضہ کرلیا۔ان میں بعض چلے گئے اور بعض باقی رہ گئے ۔ انہیں نہ زندگی کی بشارت سے دلچسپی تھی اور نہ مردوں کی تعزیت سے۔ان کی آنکھیں خوف خدا میں گریہ سےسفید ہوگئی تھیں ۔پیٹ روزوں سے دھنس گئے تھے ' ہونٹ دعا کرتے کرتے خشک ہوگئے تھے۔چہرے شب بیداری سے زرد ہوگئے تھے اور چہروں پر خاکساری کی گرد پڑی ہوئی تھی یہی میرے پہلے والے بھائی تھے جن کے بارے میں ہمارا حق ہے کہ ہم ان کی طرف پیاسوں کی طرح نگاہ کریں اور ان کے فراق میں اپنے ہی ہات کاٹیں۔

یقیناشیطان تمہارے لئے اپنی راہوں کو آسان بنا دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک ایک کرکے تمہاری ساری گرہیں کھول دے۔وہ تمہیں اجتماع کے بجائے افتراق دے کر فتنوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس کے خیالات اوراس کی جھاڑ پھونک سے منہ موڑے رہو اور اس شخص کی نصیحت قبول کرو جو تمہیں نصیحت کا تحفہ دے رہا ہے اور اپنے دل میں اس کی گرہ باندھ لو۔

۲۱۸

(۱۲۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله للخوارج وقد خرج إلى معسكرهم - وهم مقيمون على إنكار الحكومة فقالعليه‌السلام

أَكُلُّكُمْ شَهِدَ مَعَنَا صِفِّينَ - فَقَالُوا مِنَّا مَنْ شَهِدَ - ومِنَّا مَنْ لَمْ يَشْهَدْ - قَالَ فَامْتَازُوا فِرْقَتَيْنِ - فَلْيَكُنْ مَنْ شَهِدَ صِفِّينَ فِرْقَةً - ومَنْ لَمْ يَشْهَدْهَا فِرْقَةً - حَتَّى أُكَلِّمَ كُلاًّ مِنْكُمْ بِكَلَامِه - ونَادَى النَّاسَ فَقَالَ أَمْسِكُوا عَنِ الْكَلَامِ - وأَنْصِتُوا لِقَوْلِي - وأَقْبِلُوا بِأَفْئِدَتِكُمْ إِلَيَّ - فَمَنْ نَشَدْنَاه شَهَادَةً فَلْيَقُلْ بِعِلْمِه فِيهَا - ثُمَّ كَلَّمَهُمْعليه‌السلام بِكَلَامٍ طَوِيلٍ - مِنْ جُمْلَتِه أَنْ قَالَعليه‌السلام : أَلَمْ تَقُولُوا عِنْدَ رَفْعِهِمُ الْمَصَاحِفَ حِيلَةً وغِيلَةً - ومَكْراً وخَدِيعَةً إِخْوَانُنَا وأَهْلُ دَعْوَتِنَا - اسْتَقَالُونَا واسْتَرَاحُوا إِلَى كِتَابِ اللَّه سُبْحَانَه - فَالرَّأْيُ الْقَبُولُ مِنْهُمْ - والتَّنْفِيسُ عَنْهُمْ - فَقُلْتُ لَكُمْ هَذَا أَمْرٌ ظَاهِرُه إِيمَانٌ - وبَاطِنُه عُدْوَانٌ - وأَوَّلُه رَحْمَةٌ وآخِرُه نَدَامَةٌ فَأَقِيمُوا عَلَى شَأْنِكُمْ - والْزَمُوا طَرِيقَتَكُمْ -

(۱۲۲)

آپ کا ارشاد گرامی

( جب آپ خوارج کے اس پڑائو کی طرف تشریف لے گئے جو تحکیم کے انکار پراڑا ہوا تھا۔اورفرمایا)

کیا تم سب ہمارے ساتھ صفین میں تھے؟ لوگوں نے کہا بعض افراد تھے اوربعض نہیں تھے اوربعض نہیں تھے! فرمایا تو تم دو حصوں میں تقسیم ہو جائو۔صفین والے الگ اور غیر صفین والے الگ ۔تاکہمیں ہر ایک سے اس کے حال کے مطابق گفتگو کرو۔اس کے بعد قوم سے پکار کر فرمایا کہ تم سب خاموش ہو جائو اور میری بات سنو اور اپنے دلوں کو بھی میری طرف متوجہ رکھو کہ اگر میں کسی بات کی گواہی طلب کروں تو ہر شخص اپنے علم کے مطابق جواب دے سکے۔( یہ کہہ کر آپنے ایک طویل گفتگو فرمائی جس کا ایک حصہ یہ تھا) ذرا بتلائو کہ جب صفین والوں نے حیلہ و مکر اورجعل و فریب سے نیزوں پر قرآن بلندکردئیے تھے تو کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ سب ہمارے بھائی اور ہمارے ساتھ کے مسلمان ہیں۔اب ہم سے معافی کے طلب گار ہیں اور کتاب خداسے فیصلہ چاہتے ہیں لہٰذا مناسب یہ ہے کہ ان کی بات مان لی جائے اورانہیں سانس لینے کا موقع دے دیا جائے۔میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ اس کا ظاہر ایمان ہے لیکن باطن صرف ظلم اور تعدی ہے۔اس کی ابتدا رحمت و راحت ہے لیکن اس کا انجام شرمندگی اور ندامت ہے لہٰذا اپنی حالت پر قائم رہو اور اپنے راستہ کو مت چھوڑو

۲۱۹

وعَضُّوا عَلَى الْجِهَادِ بَنَوَاجِذِكُمْ - ولَا تَلْتَفِتُوا إِلَى نَاعِقٍ نَعَقَ - إِنْ أُجِيبَ أَضَلَّ وإِنْ تُرِكَ ذَلَّ - وقَدْ كَانَتْ هَذِه الْفَعْلَةُ وقَدْ رَأَيْتُكُمْ أَعْطَيْتُمُوهَا - واللَّه لَئِنْ أَبَيْتُهَا مَا وَجَبَتْ عَلَيَّ فَرِيضَتُهَا - ولَا حَمَّلَنِي اللَّه ذَنْبَهَا ووَ اللَّه إِنْ جِئْتُهَا إِنِّي لَلْمُحِقُّ الَّذِي يُتَّبَعُ - وإِنَّ الْكِتَابَ لَمَعِي مَا فَارَقْتُه مُذْ صَحِبْتُه فَلَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وإِنَّ الْقَتْلَ لَيَدُورُ عَلَى الآباءِ والأَبْنَاءِ - والإِخْوَانِ والْقَرَابَاتِ - فَمَا نَزْدَادُ عَلَى كُلِّ مُصِيبَةٍ وشِدَّةٍ - إِلَّا إِيمَاناً ومُضِيّاً عَلَى الْحَقِّ - وتَسْلِيماً لِلأَمْرِ - وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الْجِرَاحِ - ولَكِنَّا إِنَّمَا أَصْبَحْنَا نُقَاتِلُ إِخْوَانَنَا فِي الإِسْلَامِ - عَلَى مَا دَخَلَ فِيه مِنَ الزَّيْغِ والِاعْوِجَاجِ - والشُّبْهَةِ والتَّأْوِيلِ - فَإِذَا طَمِعْنَا فِي خَصْلَةٍ يَلُمُّ اللَّه بِهَا شَعَثَنَا - ونَتَدَانَى بِهَا إِلَى الْبَقِيَّةِ فِيمَا بَيْنَنَا - رَغِبْنَا فِيهَا وأَمْسَكْنَا عَمَّا سِوَاهَا.

اور جہاد پر دانتوں کو بھینچے رہو اور کسیبکواس کرنے والے کی بکواس کو مت سنو کہ اس کے قبول کرلینے میں گمراہی ہے اور نظر انداز کردینے میں ذلت ہے۔لیکن جب تحکیم کی بات طے ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ تمہیں لوگوں نے اس کی رضا مندی دی تھی حالانکہ خدا گواہ ہے کہ اگرمیں نے اس سے انکار کردیا ہوتا تو اس سے مجھ پر کوئی فریضہ عائد نہ ہوتا۔اورنہ پروردگار مجھے گناہ گار قراردیتا اور اگر میں نے اسے اختیار کیا ہوتا تو میں ہی وہ صاحب حق تھا جس کا اتباع ہونا چاہیے تھا کہ کتاب خدا میرے ساتھ ہے اور جب سے میرا اس کا ساتھ ہوا ہے کبھی جدائی نہیں ہوئی۔ہم رسول اکرم (ص) کے زمانے میں اس وقت جنگ کرتے تھے جب مقابلہ پر خاندانوں کے بزرگ بچے۔بھائی بند اور رشتہ دار ہوتے تھے لیکن ہر مصیبت و شدت پر ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا تھا اور ہم امر الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کئے رہتے تھے۔راہ حق میں بڑھتے ہی جاتے تھے اور زخموں کی ٹیس پر صبر ہی کرتے تھے مگر افسوس کہ اب ہمیں مسلمان بھائیوں سے جنگ کرنا پڑ رہی ہے کہ ان میں کجی۔انحراف ۔شبہ اور غلط تاویلات کادخل ہوگیا ہے لیکن اس کے باوجود اگرکوئی راستہ نکل آئے جس سے خدا ہمارے انتشار کو دور کردے اورہم ایک دوسرے سے قریب ہو کر رہے سہے تعلقات کو باقی رکھ سکیں تو ہم اسی راستہ کو پسند کریں گے اور دوسرے راستہ سے ہاتھ روک لیں گے۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

۳۴۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْعِصْمَةِ تَعَذُّرُ الْمَعَاصِي.

۳۴۶ - وقَالَعليه‌السلام مَاءُ وَجْهِكَ جَامِدٌ يُقْطِرُه السُّؤَالُ - فَانْظُرْ عِنْدَ مَنْ تُقْطِرُه.

۳۴۷ - وقَالَعليه‌السلام الثَّنَاءُ بِأَكْثَرَ مِنَ الِاسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ - والتَّقْصِيرُ عَنِ الِاسْتِحْقَاقِ عِيٌّ أَوْ حَسَدٌ.

۳۴۸ - وقَالَعليه‌السلام أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَهَانَ بِه صَاحِبُه.

۳۴۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَظَرَ فِي عَيْبِ نَفْسِه اشْتَغَلَ عَنْ عَيْبِ غَيْرِه

(۳۴۵)

گناہوں تک رسائی کا نہ ہونا بھی ایک طرح کی پاکدامنی(۱) ہے۔

(۳۴۶)

تمہاری آبرو محفوظ ہے اور سوال اسے مٹا دیتا ہے لہٰذا یہ دیکھتے رہو کہ کس کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہو اور آبرو کا سودا کررہے ہو ۔

(۳۴۷)

استحقاق سے زیادہ تعریف کرناخوشامد ہے اور استحقاق سے کم تعریف کرناعاجزی ہے یا حسد۔

(۳۴۸)

سب سے سخت گناہوہ ہے جسے گناہ گار ہلکا(۲) قراردیدے ۔

(۳۴۹)

جواپنے عیب پر نگاہ رکھتا ہے وہ دوسروں کے عیب سے غافل ہو جاتا ہے

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گناہوں کے بارے میں شریعت کامطالبہ صرف یہ ہے کہ انسان ان سے اجتناب کرے اور ان میں مبتلا نہ ہونے پائے چاہے اس کا سبب اس کا تقدس ہو یا مجبوری۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اپنے اختیار سے گناہوں کا ترک کردینے والا مستحق اجرو ثواب بھی ہوسکتا ہے اور مجبور اً ترک کردینے والا کس اجرو ثواب کا حقدار نہیں ہو سکتا ہے ۔

(۲)غیر معصوم انسان کی زندگی کے بارے میں گناہوں کے امکانات توہمہ وقت رہتے ہیں لیکن انسان کی شرافت نفس یہ ہے کہ جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تواسے گناہ تصور کرے اور اس کی تلافی کی فکر کرے ورنہ اگر اسے خفیف اور ہلکا تصور کرلیا تو یہ دوسرا گناہ ہوگا جو پہلے گناہ سے بد تر ہوگا کہ پہلا گناہنفس کی کمزوری سے پیداہواتھا اور یہ ایمان اور عقیدہ کی کمزوری سے پیدا ہوا ہے۔

۷۴۱

- ومَنْ رَضِيَ بِرِزْقِ اللَّه لَمْ يَحْزَنْ عَلَى مَا فَاتَه - ومَنْ سَلَّ سَيْفَ الْبَغْيِ قُتِلَ بِه - ومَنْ كَابَدَ الأُمُورَ عَطِبَ - ومَنِ اقْتَحَمَ اللُّجَجَ غَرِقَ - ومَنْ دَخَلَ مَدَاخِلَ السُّوءِ اتُّهِمَ - ومَنْ كَثُرَ كَلَامُه كَثُرَ خَطَؤُه - ومَنْ كَثُرَ خَطَؤُه قَلَّ حَيَاؤُه - ومَنْ قَلَّ حَيَاؤُه قَلَّ وَرَعُه - ومَنْ قَلَّ وَرَعُه مَاتَ قَلْبُه - ومَنْ مَاتَ قَلْبُه دَخَلَ النَّارَ - ومَنْ نَظَرَ فِي عُيُوبِ النَّاسِ فَأَنْكَرَهَا - ثُمَّ رَضِيَهَا لِنَفْسِه فَذَلِكَ الأَحْمَقُ بِعَيْنِه - والْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ - ومَنْ أَكْثَرَ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ - رَضِيَ مِنَ الدُّنْيَا بِالْيَسِيرِ - ومَنْ عَلِمَ أَنَّ كَلَامَه مِنْ عَمَلِه - قَلَّ كَلَامُه إِلَّا فِيمَا يَعْنِيه.

۳۵۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلظَّالِمِ مِنَ الرِّجَالِ ثَلَاثُ عَلَامَاتٍ - يَظْلِمُ مَنْ فَوْقَه بِالْمَعْصِيَةِ - ومَنْ دُونَه بِالْغَلَبَةِ

اور جو رزق خدا پر راضی رہتا ہے وہ کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے پر رنجیدہ نہیں ہوتا ہے۔جو بغاوت کی تلوار کھینچتا ہے خوداسی سے ماراجاتا ہے اور جواہ امورکو زبر دستی انجام دیناچاہتا ہے وہ تباہ ہو جاتا ہے لہروں میں پھاند پڑنے والا ڈوب جاتا ہے اورغلط جگہوں پردخل ہونے والا بدنام ہو جاتا ہے۔جس کی باتیں زیادہ ہوتیںہیں اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں اورجس کی غلطیاں زیادہ ہوتی ہیں اس کی حیاکم ہو جاتی ہے اورجس کی حیاکم ہو جاتی ہے اس کا تقویٰ بھی کم ہوجاتا ہے اورجس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اس کادل مردہ ہوجاتا ہے اور جس کادل مردہ ہوجاتا ہے وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے ۔

جولوگوں کے عیب کو دیکھ کرناگواری کا اظہارکرے اورپھراسی عیب کو اپنے لئے پسند کرلے تو اسی کو احمق کہا جاتا ہے ۔

قناعت ایک ایسا سرمایہ ہے جوختم ہونے والا نہیں ہے۔

جوموت کو برابر یاد کرتا رہتا ہے وہ دنیا کے مختصر حصہ پر بھی راضی ہو جاتا ہے۔اور جسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام بھی عمل کا ایک حصہ ہے وہ ضرورت سے زیادہ کلام نہیں کرتا ہے۔

(۳۵۰)

لوگوں میں ظالم کی تین علامات ہوتی ہیں۔اپنے سے بالاتر پر معصیت کے ذریعہ ظلم کرتا ہے۔اپنے سے کمتر پرغلبہ و قہر کے ذریعہ ظلم کرتا ہے اور پھر ظالم قوم کی

۷۴۲

ويُظَاهِرُ الْقَوْمَ الظَّلَمَةَ

۳۵۱ - وقَالَعليه‌السلام عِنْدَ تَنَاهِي الشِّدَّةِ تَكُونُ الْفَرْجَةُ - وعِنْدَ تَضَايُقِ حَلَقِ الْبَلَاءِ يَكُونُ الرَّخَاءُ.

۳۵۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ أَصْحَابِه - لَا تَجْعَلَنَّ أَكْثَرَ شُغُلِكَ بِأَهْلِكَ ووَلَدِكَ - فَإِنْ يَكُنْ أَهْلُكَ ووَلَدُكَ أَوْلِيَاءَ اللَّه - فَإِنَّ اللَّه لَا يُضِيعُ أَوْلِيَاءَه - وإِنْ يَكُونُوا أَعْدَاءَ اللَّه فَمَا هَمُّكَ وشُغُلُكَ بِأَعْدَاءِ اللَّه.

۳۵۳ - وقَالَعليه‌السلام أَكْبَرُ الْعَيْبِ أَنْ تَعِيبَ مَا فِيكَ مِثْلُه

حمایت(۱) کرتا ہے۔

(۳۵۱)

سختیوں کی انتہا ہی پر کشائش حال پیدا ہوتی ہے اور بلائوں کے حلقوں کی تنگی ہی کے موقع پرآسائش(۲) پیدا ہوتی ہے۔

(۳۵۲)

اپنے بعض اصحاب سے خطاب کرکے فرمایا: زیادہ حصہ بیوی بچوں کی فکرمیں مت رہا کرو کہ اگر یہ اللہ کے دوست ہیں تواللہ انہیں(۳) برباد نہیں ہونے دے گا اور اگراس کے دشمن ہیں تو تم دشمنان خدا کے بارے میں کیوں فکر مند ہو۔

(مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے دائرہ سے باہرنکل کر سماج اورمعاشرہکے بارے میں بھی فکر کرے ۔صرف کنویں کامینڈک بن کرنہ رہ جائے )

(۳۵۳)

بد ترین عیب یہ ہے کہ انسان کسی عیب کو برا کہے اور پھر اس میں وہی عیب پایا جاتا ہو۔

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ صرف ظلم کرنا ہی ظلم نہیں ہے بلکہ ظالم کی حمایت بھی ایک طرح کا ظلم ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس ظلم سے بھی محفوظ رہے اور مکمل عادلانہ زندگی گذارے اور ہر شے کو اسی مقام پر رکھے جو اس کا محل اورموقع ہے۔

(۲)مقصد یہ ے کہ انسان کو سختیوں اور تنگیوں میں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ حوصلہ کو بلند رکھنا چاہیے اور سر گرم عمل رہنا چاہیے کہ قرآن کریم نے سہولت کو تنگی اورزحمت کے بعد نہیں رکھا ہے بلکہ اسی کے ساتھ رکھاہے '' ان مع الیسر یسرا ''

(۳)اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے انسان اہل و عیال کی طرف سے یکسر غافل و جائے اورانہیں پروردگار کے رحم و کرم پر چھوڑدے۔پروردگار کا رحم و کرم ماں باپ سے یقینا زیادہ ہے لیکن ماں باپ کی اپنی بھی ایک ذمہداری ہے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ بقدرواجب خدمت کرکے باقی معاملات کو پروردگار کے حوالہ کردے اوران کی طرف سراپا توجہ بن کر پروردگار سے غافل نہ ہو جائے ۔

۷۴۳

۳۵۴ - وهَنَّأَ بِحَضْرَتِه رَجُلٌ رَجُلًا بِغُلَامٍ وُلِدَ لَه - فَقَالَ لَه لِيَهْنِئْكَ الْفَارِسُ - فَقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ ذَلِكَ - ولَكِنْ قُلْ شَكَرْتَ الْوَاهِبَ - وبُورِكَ لَكَ فِي الْمَوْهُوبِ - وبَلَغَ أَشُدَّه ورُزِقْتَ بِرَّه.

۳۵۵ - وبَنَى رَجُلٌ مِنْ عُمَّالِه بِنَاءً فَخْماً - فَقَالَعليه‌السلام أَطْلَعَتِ الْوَرِقُ رُءُوسَهَا - إِنَّ الْبِنَاءَ يَصِفُ لَكَ الْغِنَى.

۳۵۶ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام لَوْ سُدَّ عَلَى رَجُلٍ بَابُ بَيْتِه وتُرِكَ فِيه - مِنْ أَيْنَ كَانَ يَأْتِيه رِزْقُه - فَقَالَعليه‌السلام مِنْ حَيْثُ يَأْتِيه أَجَلُه.

۳۵۷ - وعَزَّى قَوْماً عَنْ مَيِّتٍ مَاتَ لَهُمْ فَقَالَعليه‌السلام - إِنَّ هَذَا الأَمْرَ لَيْسَ لَكُمْ بَدَأَ - ولَا إِلَيْكُمُ انْتَهَى - وقَدْ كَانَ صَاحِبُكُمْ

(۳۵۴)

حضرت کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو فرزند کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ شہسوار مبارک ہو۔توآپ نے فرمایا کہ یہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ تم نے دینے والے کا شکریہ ادا کیاہے لہٰذا تمہیں یہ تحفہ مبارک ہو۔خداکرے کہ یہ منزل کمال تک پہنچے اور تمہیں اس کی نیکی نصیب ہو۔

(۳۵۵)

آپ کے عمال میں سے ایک شخص نے عظیم عمارت تعمیر کرلی تو آپ نے فرمایا کہ چاندی کے سکوں نے سر نکال لیا ہے ۔یقینا یہ تعمیر تمہاری مالداری کی غمازی کرتی ہے۔

(۳۵۶)

کسی نے آپ سے سوال کیا کہ اگر کسی شخص کے گھر کادروازہ بند کردیا جائے اوراسے تنہا چھوڑ دیا جائے تو اس کا رزق کہاں سے آئے گا ؟ فرمایا کہ جہاں سے اس کی موت آئے گی ۔

(۳۵۷)

ایک جماعت کو کسی مرنے والے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے فرمایا: یہ بات تمہارے یہاں کوئی نئی نہیں ہے اور نہ تمہیں پر اس کی انتہا ہے۔تمہارا یہ ساتھی سر

۷۴۴

هَذَا يُسَافِرُ فَعُدُّوه فِي بَعْضِ أَسْفَارِه - فَإِنْ قَدِمَ عَلَيْكُمْ وإِلَّا قَدِمْتُمْ عَلَيْه.

۳۵۸ - وقَالَعليه‌السلام أَيُّهَا النَّاسُ لِيَرَكُمُ اللَّه مِنَ النِّعْمَةِ وَجِلِينَ - كَمَا يَرَاكُمْ مِنَ النِّقْمَةِ فَرِقِينَ - إِنَّه مَنْ وُسِّعَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اسْتِدْرَاجاً فَقَدْ أَمِنَ مَخُوفاً - ومَنْ ضُيِّقَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اخْتِبَاراً فَقَدْ ضَيَّعَ مَأْمُولًا

۳۵۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَسْرَى الرَّغْبَةِ أَقْصِرُوا ،فَإِنَّ الْمُعَرِّجَ عَلَى الدُّنْيَا لَا يَرُوعُه مِنْهَا - إِلَّا صَرِيفُ أَنْيَابِ الْحِدْثَانِ أَيُّهَا النَّاسُ تَوَلَّوْا مِنْ أَنْفُسِكُمْ تَأْدِيبَهَا - واعْدِلُوا بِهَا عَنْ ضَرَاوَةِ عَادَاتِهَا.

گرم سفر رہا کرتاتھا تو سمجھو کہ یہ بھی ایک سفر ہے اس کے بعد یا وہ تمہارے پاس وارد ہوگا یاتم اس کے پاس وارد ہوگے۔

(۳۵۸)

لوگو! اللہ نعمت کے موقع پر بھی تمہیں(۱) ویسے ہی خوفزدہ دیکھے جس طرح عذاب کے معاملہ میں ہراساں دیکھتا ہے کہ جس شخص کو فراخدستی حاصل ہو جائے اور وہ اسے عذاب کی لپیٹ نہ سمجھے تو اس نے خوفناک چیز سے بھی اپنے کومطمئن سمجھ لیا ہے اور جو تنگدستی میں مبتلا ہو جائے اوراسے امتحان نہ سمجھے اس نے اس ثواب کوبھی ضائع کردیا جس کی امید کی جاتی ہے۔

(۳۵۹)

اے حرص و طمع کے اسیرو!اب باز آجائو۔کہ دنیا پر ٹوٹ پڑنے والوں کو حوادث زمانہ کے دانت پیسنے کے علاوہ کوئی خوف زدہ نہیں کر سکتا ہے ۔

اے لوگو! اپنے نفس کی اصلاح کی ذمہ داری خود سنبھال لو اور اپنی عادتوں کے تقاضوں(۲) سے منہ موڑ لو۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ زندگانی کے دونوں طرح کے حالات میں دونوں طرح کے احتمالات پائے جاتے ہیں۔راحت وآرام میں امکان فضل و کرم بھی ہے اور احتمال مہلت و اتمام حجت بھی ہے اور اسی طرح مصیبت اور پریشانی کے ماحول میں احتمال عتاب و عقاب بھی ہے اور احتمال امتحان و اختیار بھی ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ راحتوں کے ماحول میں اس خطرہ سے محفوظ نہ ہو جائے کہ اس طرح بھی قوموں کو عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے اور پریشانیوں کے حالات میں اس رخ سے غافل نہ ہو جائے کہ یہ امتحان بھی ہوسکتا ہے اوراس میں صبرو تحمل کا مظاہرہ کرکے اجرو ثواب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ خواہشات کے اسیر نہ بنواور دنیا کا اعتبارنہکرو۔انجام کار کی زحمتوں سے ہوشیار رہو اور اپنے نفس کواپنے قابو میں رکھو تاکہ بیجا رسوم اورمہمل عادات کا اتباع نہ کرو۔

۷۴۵

۳۶۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَظُنَّنَّ بِكَلِمَةٍ خَرَجَتْ مِنْ أَحَدٍ سُوءاً - وأَنْتَ تَجِدُ لَهَا فِي الْخَيْرِ مُحْتَمَلًا.

۳۶۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا كَانَتْ لَكَ إِلَى اللَّه سُبْحَانَه حَاجَةٌ - فَابْدَأْ بِمَسْأَلَةِ الصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ثُمَّ سَلْ حَاجَتَكَ - فَإِنَّ اللَّه أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ حَاجَتَيْنِ - فَيَقْضِيَ إِحْدَاهُمَا ويَمْنَعَ الأُخْرَى.

۳۶۲ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ضَنَّ بِعِرْضِه فَلْيَدَعِ الْمِرَاءَ

۳۶۳ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْخُرْقِ الْمُعَاجَلَةُ قَبْلَ الإِمْكَانِ - والأَنَاةُ بَعْدَ الْفُرْصَةِ

(۳۶۰)

کسی کی بات کے غلط معنی(۱) نہ لو جب تک صحیح معنی کا امکان موجود ہے۔

(۳۶۱)

اگر پروردگار کی بار گاہ(۲) میں تمہاری کوئی حاجت ہو تو اس کی طلب کا آغاز رسو ل اکرم (ص) پر صلوات سے کرو اور اس کے بعد اپنی حاجت طلب کرو کہ پروردگار اس بات سے بالاتر ہے کہ اس سے دو باتوں کا سوال کیا جائے اور وہ ایک کو پورا کردے اور ایک کو نظر انداز کردے ۔

(۳۶۲)

جو اپنی آبرو کو بچانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرے۔

(۳۶۳)

کسی بات کے امکان سے پہلے جلدی کرنا اور وقت آجانے پر دیر کرنا دونوں ہی حماقت ہے۔

(۱)کاش ہر شخص اس تعلیم کو اختیار کرلیتا تو سماج کے بے شمارمفاسد سے نجات مل جاتی اور دنیامیں فتنہ و فساد اکثر راستے بند ہو جاتے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا ہے اورہر شخص دوسرے کے بیان میں غلط پہلو پہلے تلاش کرتا ہے اور صحیح رخ کے بارے میں بعد میں سوچتا ہے۔

(۲)یہ صحیح ہے کہ رسول اکرم (ص) ہماری صلوات اوردعائے رحمت کے محتاج نہیں ہیں لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنے ادائے شکر سے غافل ہو جائیں اور ان کی طرف سے ملنے والی نعمت ہدایت کا کسی شکل میں کوئی بدلہ دیں۔ورنہ پروردگار بھی ہماری عبادتوں کامحتاج نہیں ہے تو ہر انسان عبادتوں کو نظراندازکرکے چین سے سوجائے ۔صلوات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان پروردگار کی نظر عنایت کا حقدار ہو جاتا ہے اور اس طرح اس کی دعائیں قابل قبول ہو جاتی ہیں۔

۷۴۶

۳۶۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَسْأَلْ عَمَّا لَا يَكُونُ - فَفِي الَّذِي قَدْ كَانَ لَكَ شُغُلٌ

۳۶۵ - وقَالَعليه‌السلام الْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ والِاعْتِبَارُ مُنْذِرٌ نَاصِحٌ - وكَفَى أَدَباً لِنَفْسِكَ تَجَنُّبُكَ مَا كَرِهْتَه لِغَيْرِكَ.

۳۶۶ - وقَالَعليه‌السلام الْعِلْمُ مَقْرُونٌ بِالْعَمَلِ فَمَنْ عَلِمَ عَمِلَ - والْعِلْمُ يَهْتِفُ بِالْعَمَلِ - فَإِنْ أَجَابَه وإِلَّا ارْتَحَلَ عَنْه.

(۳۶۴)

جو بات ہونے والی نہیں ہے۔اس کے بارے میں سوال مت کرو کہ جو ہوگیا ہے وہی تمہارے لئے کافی ہے۔

(۳۶۵)

فکر(۱) ایک شفاف آئینہ ہے اورعبرت حاصل کرنا ایک انتہائی مخلص متنبہ کرنیوالا ے۔تمہارے نفس کے ادب کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس چیز کو دوسروں کے لئے نا پسند کرتے ہو اس سے خود بھی پرہیز کرو۔

(۳۶۶)

علم کا مقدر عمل(۲) سے جڑا ہوا ہے اورجو واقعی صاحب علم ہوتا ہے وہ عمل بھی کرتا ہے۔یاد رکھو کہ علم عمل کے لئے آوازدیتا ہے اور انسان سن لیتا ہے تو خیر ورنہ خود بھی رخصت ہو جاتا ہے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فکر ایک شفاف آئینہ ہے جس میں بآسانی مجہولات کاچہرہ دیکھ لیا جاتا ہے اور اہل منطق نے اس کی یہی تعریف کی ہے کہ معلومات کی اس طرح مرتب کیا جائے کہ اس سے مجہولات کاعلم حاصل ہو جائے ۔لیکن صرف مستقبل کاچہرہ دیکھ لینا ہی کوئی ہنرنہیں ہے۔اصل ہنر اور کام اس سے عبرت حاصل کرنا ہے کہ انسان کے حق میں عبرت سے زیادہ مخلص نصیحت کرنے والا کوئی نہیں ہے اور یہی عبرت ہے جو اسے ہر برائی اور مصیبت سے بچا سکتی ہے ورنہ اس کے علاوہ کوئی یہ کار خیر انجام دینے والا نہیں ہے۔

(۲)بلا شک و شبہ علم ایک کمال ہے اور مجہولات کاحاصل کرلینا ایک ہنر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسے با کمال اور صاحب ہنر کس طرح کہاجاسکتا ہے جو یہ تودریافت کرلے کہ فلاں چیز میں زہر ہے مگر اس سے اجتناب نہ کرے۔ایسے شخص کو تو مزید احمق اور نالائق تصور کیا جاتا ہے۔

علم کا کمال ہی یہ ہے کہ انسان اس کے مطابق عمل کرے تاکہ صاحب علم اور صاحب کمال کہے جانے کاحقدار ہو جائے ورنہ علم ایک وبال ہو جائے گا اوراپنی ناقدری سے ناراض ہو کر رخصت بھی ہو جائے گا۔صرف نام علم باقی رہ جائے گا ور حقیقت علم ختم ہو جائے گی۔

۷۴۷

۳۶۷ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَتَاعُ الدُّنْيَا حُطَامٌ مُوبِئٌ - فَتَجَنَّبُوا مَرْعَاه قُلْعَتُهَا أَحْظَى مِنْ طُمَأْنِينَتِهَا - وبُلْغَتُهَا أَزْكَى مِنْ ثَرْوَتِهَا - حُكِمَ عَلَى مُكْثِرٍ مِنْهَا بِالْفَاقَةِ - وأُعِينَ مَنْ غَنِيَ عَنْهَا بِالرَّاحَةِ - مَنْ رَاقَه زِبْرِجُهَا أَعْقَبَتْ نَاظِرَيْه كَمَهاً - ومَنِ اسْتَشْعَرَ الشَّغَفَ بِهَا مَلأَتْ ضَمِيرَه أَشْجَاناً - لَهُنَّ رَقْصٌ عَلَى سُوَيْدَاءِ قَلْبِه - هَمٌّ يَشْغَلُه وغَمٌّ يَحْزُنُه - كَذَلِكَ حَتَّى يُؤْخَذَ بِكَظَمِه فَيُلْقَى بِالْفَضَاءِ مُنْقَطِعاً أَبْهَرَاه - هَيِّناً عَلَى اللَّه فَنَاؤُه وعَلَى الإِخْوَانِ إِلْقَاؤُه - وإِنَّمَا يَنْظُرُ الْمُؤْمِنُ إِلَى الدُّنْيَا بِعَيْنِ الِاعْتِبَارِ - ويَقْتَاتُ مِنْهَا بِبَطْنِ الِاضْطِرَارِ - ويَسْمَعُ فِيهَا بِأُذُنِ الْمَقْتِ والإِبْغَاضِ - إِنْ قِيلَ أَثْرَى قِيلَ أَكْدَى - وإِنْ فُرِحَ لَه بِالْبَقَاءِ حُزِنَ لَه

(۳۶۷)

ایہاالناس! دنیا کا سرمایہ ایک سڑفا بھوسہ ہے جس سے وباء پھیلنے والی ہے لہٰذا اس کی چراگاہ سے ہوشیار رہو اس دنیا سے چل چلائو سکون کے ساتھ رہنے سے زیادہ فائدہ مند ہے اور یہاں کابقدر ضرورت سامان ثروت سے زیادہ برکت والا ہے ۔یہاں کے دولت مند کے بارے میں ایک دن احتیاج لکھ دی گئی ہے اوراس سے بے نیاز رہنے والے کو راحت کا سہارا دے دیا جاتا ہے ۔جسے اس کی زینت پسندآگئی اس کی آنکھوں کوانجام کاری ہ اندھا کردیتی ہے اورجس نے اس سے شغف کو شعار بنا لیا اس کے ضمیر کو رنج و اندوہ سے بھردیتی ہے اور یہ فکریں اس کے نقطہ قلب کے گرد چکر لگاتی رہتی ہیں بعض اسے مشغول بنالیتی ہیں اور بعض محزون بنادیتی ہیں اور یہ سلسلہ یوں ہی قائم رہتا ہے یہاں تک کہاس کا گلا گھونٹ دیا جائے اوراسے فضائ( قبر) میں ڈال دیا جائے جہاں دل کی دونوں رگیں کٹ جائیں۔خداکے لئے اس کا فناکردینا بھی آسان ہے اور بھائیوںکے لئے اسے قبر میں ڈال دینابھی مشکل نہیں ہے۔مومن وہی ہے جو دنیاکی طرف عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پیٹ کی ضرورت بھر سامان پر گذارا کر لیتا ہے۔اس کی باتوں کہ عداوت و نفرت کے کانوں سے سنتا ہے۔کہ جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مالدار ہوگیا ہے تو فوراً آوازآتی ہے کہ نادار ہوگیا ہے۔اور جب کسی کو بقا کے تصور سے مسرور کیا جاتا ہے تو فناکے خیال سے رنجیدہ بنادیاجاتاہے

۷۴۸

بِالْفَنَاءِ - هَذَا ولَمْ يَأْتِهِمْ يَوْمٌ فِيه يُبْلِسُونَ

۳۶۸ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه وَضَعَ الثَّوَابَ عَلَى طَاعَتِه - والْعِقَابَ عَلَى مَعْصِيَتِه ذِيَادَةً لِعِبَادِه عَنْ نِقْمَتِه - وحِيَاشَةً لَهُمْ إِلَى جَنَّتِه.

۳۶۹ - وقَالَعليه‌السلام يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ - لَا يَبْقَى فِيهِمْ مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُه - ومِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُه - ومَسَاجِدُهُمْ يَوْمَئِذٍ عَامِرَةٌ مِنَ الْبِنَاءِ - خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى - سُكَّانُهَا وعُمَّارُهَا شَرُّ أَهْلِ الأَرْضِ - مِنْهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وإِلَيْهِمْ تَأْوِي الْخَطِيئَةُ - يَرُدُّونَ مَنْ شَذَّ عَنْهَا فِيهَا - ويَسُوقُونَ مَنْ تَأَخَّرَ عَنْهَا إِلَيْهَا - يَقُولُ اللَّه سُبْحَانَه فَبِي حَلَفْتُ - لأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ فِتْنَةً تَتْرُكُ الْحَلِيمَ فِيهَا حَيْرَانَ - وقَدْ فَعَلَ ونَحْنُ نَسْتَقِيلُ اللَّه عَثْرَةَ الْغَفْلَةِ.

۔اور یہ سباس وقت ہے جب ابھی وہ دن نہیں آیا ہے جب دن اہل دنیا مایوسی کاشکار ہوجائیں گے۔

(۳۶۸)

پروردگار عالم نے اطاعت پر ثواب اور معصیت پر عقاب اسی لئے رکھا ہے تاکہ بندوں کو اپنے غضب سے دور رکھ سکے اور انہیں گھیر جنت کی طرف لے آئے ۔

(۳۶۹)

لوگوں پر ایک ایسا دوربھی آنے والا ہے جب قرآن صرف نقوش باقی رہ جائیں گے اور اسلام میں صرف نام باقی رہ جائے گا مسجدیں(۱) تعمیرات کے اعتبار سے آباد ہوں گی اور ہدایت کے اعتبار سے برباد ہوں گی۔اس کے رہنے والے اورآباد کرنے والے سب بد ترین اہل زمانہ ہوں گے۔انہیں سے فتنہ باہر آئے گا اورانہیں کی طرف غلطیوں کو پناہ ملے گی۔جو اس سے بچ کر جانا چاہے گا اسے اس کی طرف پلٹا دیں گے اور جودور رہنا چاہے گا اسے ہنکا کرلے آئیں گے

پروردگار کا ارشاد ہے کہ میری ذات کی قسم میں ان لوگوں پر ایک ایسے فتنہ کو مسلط کردوں گا جو صاحب عقل کوبھی حیرت زدہ بنادے گا اور یہ یقینا ہو کر رہے گا۔ہم اس کی بارگاہ میں غفلتوں کی لغزشوں سے پناہ چاہتے ہیں۔

(۱)شائد کہ ہمارا دور اس ارشاد گرامی کا بہترین مصداق ہے جہاں مساجد کی تعمیر بھی ایک فیشن ہوگئی ہے اور اس کا اجتماع بھی ایک فنکشن ہو کر رہ گیا ہے ۔روح مسجد فنا ہوگئی ہے اور مساجد سے وہ کام نہیں لیا جا رہا ہے جو مولائے کائنات کے دور میں لیا جارہا تھا جہاں اسلام کی ہر تحریک کا مرکز مسجد تھی اورباطل سے ہر مقابلہ کامنصوبہ مسجد میں تیار ہوتا تھا۔لیکن آج مسجدیں صرف حکومتوں کے لئے دعائے خیر کامرکز ہیں اور ان کی شخصیتوں کے پروپگینڈہ کابہترین پلیٹ فارم ہیں۔رب کریم اس صورت حال کی اصلاح فرمائے ۔!

۷۴۹

۳۷۰ - ورُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام قَلَّمَا اعْتَدَلَ بِه الْمِنْبَرُ - إِلَّا قَالَ أَمَامَ الْخُطْبَةِ - أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّه - فَمَا خُلِقَ امْرُؤٌ عَبَثاً فَيَلْهُوَ - ولَا تُرِكَ سُدًى فَيَلْغُوَ - ومَا دُنْيَاه الَّتِي تَحَسَّنَتْ لَه بِخَلَفٍ - مِنَ الآخِرَةِ الَّتِي قَبَّحَهَا سُوءُ النَّظَرِ عِنْدَه - ومَا الْمَغْرُورُ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الدُّنْيَا بِأَعْلَى هِمَّتِه - كَالآخَرِ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الآخِرَةِ بِأَدْنَى سُهْمَتِه

۳۷۱ - وقَالَعليه‌السلام لَا شَرَفَ أَعْلَى مِنَ الإِسْلَامِ - ولَا عِزَّ أَعَزُّ مِنَ التَّقْوَى - ولَا مَعْقِلَ أَحْسَنُ مِنَ الْوَرَعِ - ولَا شَفِيعَ أَنْجَحُ مِنَ التَّوْبَةِ - ولَا كَنْزَ أَغْنَى مِنَ الْقَنَاعَةِ - ولَا مَالَ أَذْهَبُ لِلْفَاقَةِ مِنَ الرِّضَى بِالْقُوتِ - ومَنِ اقْتَصَرَ عَلَى بُلْغَةِ الْكَفَافِ - فَقَدِ انْتَظَمَ الرَّاحَةَ وتَبَوَّأَ خَفْضَ الدَّعَةِ - والرَّغْبَةُ مِفْتَاحُ النَّصَبِ

ومَطِيَّةُ التَّعَبِ - والْحِرْصُ والْكِبْرُ والْحَسَدُ - دَوَاعٍ إِلَى التَّقَحُّمِ فِي الذُّنُوبِ - والشَّرُّ جَامِعُ مَسَاوِئِ الْعُيُوبِ.

(۳۷۰)

کہا جاتا ہے کہ آپ جب بھی منبر پرتشریف لے جاتے تھے تو خطبہ سے پہلے یہ کلمات ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔

لوگو! اللہ سے ڈرو۔اس نے کسی کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے کہ کھیل کود میں لگ جائے اور نہ آزاد چھوڑ دیا ہے کہ لغویتیں کرنے لگے۔یہ دنیا جو انسان کی نگاہ میں آراستہ ہوگئی ہے یہ اس آخرت کا بدل نہیں بن سکتی ہے جسے بری نگاہ نے قبیح بنادیا ہے ۔جو فریب خوردہ دنیا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے وہ اس کا جیسا نہیں ہے جو آخرت میں ادنیٰ حصہ بھی حاصل کرلے ۔

(۳۷۱)

اسلام سے بلند تر کوئی شرف نہیں ہے اور تقویٰ سے زیادہ باعزت کوئی عزت نہیں ہے۔پرہیز گاری سے بہترکوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور توبہ سے زیادہ کامیاب کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔قناعت سے زیادہ مالدار بنانے والا کوئی خزانہ نہیں ہے اور روزی پر راضی ہو جانے سے زیادہ فقر و فاقہ کو دورکرنے والا نہیں ہے ۔

جس نے بقدرکفایت سامان پرگذارا کرلیا اس نے راحت کو حاصل کرلیا اور سکون کی منزل میں گھر بنالیا۔

خواہش رنج و تکلیف کی کنجی اور تکان و زحمت کی سواری ہے۔

حرص ' تکبر اورحسد گناہوں میں کود پڑنے کے اسباب و محرکات ہیں اورش ر تمام برائیوں کاجامع ہے

۷۵۰

۳۷۲ - وقَالَعليه‌السلام لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّه الأَنْصَارِيِّ - يَا جَابِرُ قِوَامُ الدِّينِ والدُّنْيَا بِأَرْبَعَةٍ - عَالِمٍ مُسْتَعْمِلٍ عِلْمَه - وجَاهِلٍ لَا يَسْتَنْكِفُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وجَوَادٍ لَا يَبْخَلُ بِمَعْرُوفِه - وفَقِيرٍ لَا يَبِيعُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه - فَإِذَا ضَيَّعَ الْعَالِمُ عِلْمَه - اسْتَنْكَفَ الْجَاهِلُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وإِذَا بَخِلَ الْغَنِيُّ بِمَعْرُوفِه - بَاعَ الْفَقِيرُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه.

يَا جَابِرُ مَنْ كَثُرَتْ نِعَمُ اللَّه عَلَيْه - كَثُرَتْ حَوَائِجُ النَّاسِ إِلَيْه - فَمَنْ قَامَ لِلَّه فِيهَا بِمَا يَجِبُ فِيهَا عَرَّضَهَا لِلدَّوَامِ والْبَقَاءِ ومَنْ لَمْ يَقُمْ فِيهَا بِمَا يَجِبُ عَرَّضَهَا لِلزَّوَالِ والْفَنَاءِ.

۳۷۳ - ورَوَى ابْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ فِي تَارِيخِه: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى الْفَقِيه - وكَانَ مِمَّنْ خَرَجَ لِقِتَالِ الْحَجَّاجِ مَعَ ابْنِ الأَشْعَثِ - أَنَّه قَالَ فِيمَا كَانَ يَحُضُّ بِه النَّاسَ عَلَى الْجِهَادِ - إِنِّي سَمِعْتُ عَلِيّاً رَفَعَ اللَّه دَرَجَتَه فِي الصَّالِحِينَ - وأَثَابَه ثَوَابَ الشُّهَدَاءِ والصِّدِّيقِينَ - يَقُولُ يَوْمَ لَقِينَا أَهْلَ الشَّامِ.

(۳۷۲)

آپ نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا کہ جابر دین و دنیا کا قیام چارچیزوں سے ہے

وہ عالم جو اپنے علم کو استعمال بھی کرے اور وہ جاہل جو علم حاصل کرنے سے انکارنہ کرے وہ سختی جو اپنی نیکیوں میں بخل نہ کرے ۔اور فقیرو جو اپنی آخرت کو دنیاکے عوض فروخت نہ کرے ۔

لہٰذا ( یاد رکھو ) اگر عالم اپنے کوبرباد کردے گا تو جاہل بھی اس کے حصول سے اکڑ جائے گا اور اگر غنی اپنی نیکیوں میں بخل کرے گا توفقیر بھی آخرت کو دنیاکے عوض بیچنے پرآمادہ ہو جائے گا۔

جابر ! جس پراللہ کی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اس کی طرفرلوگوں کی احتیاج بھی زیادہ ہوتی ہے لہٰذا جو شخص اپنے مال میں اللہ کے فرائض کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ اس کی بقا و دوام کا سامان فراہم کرلیتا ہے اورجوان وابجات کوادا نہیں کرتا ہے وہ اسے زوال و فنا کے راستہ پر لگا دیتا ہے ۔

(۳۷۳)

ابن جریر طبری نے اپنی تریخ میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے نقل کیا ہے جو حجاج سے مقابلہ کرنے کے لئے ابن اشعث سے نکلا تھا اور لوگوں کوجہاد پرآمادہ کر رہا تھا کہ میں نے حضرت علی ( خداصالحین میں ان کے درجات کو کا ثواب عنایت کرے ) سے اسدن سنا ہے جب ہم لوگ شام والوں سے مقابلہ کر رہے تھے کہ حضرت نے فرمایا:

۷۵۱

أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ - إِنَّه مَنْ رَأَى عُدْوَاناً يُعْمَلُ بِه - ومُنْكَراً يُدْعَى إِلَيْه - فَأَنْكَرَه بِقَلْبِه فَقَدْ سَلِمَ وبَرِئَ - ومَنْ أَنْكَرَه بِلِسَانِه فَقَدْ أُجِرَ - وهُوَ أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِه - ومَنْ أَنْكَرَه بِالسَّيْفِ - لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّه هِيَ الْعُلْيَا وكَلِمَةُ الظَّالِمِينَ هِيَ السُّفْلَى - فَذَلِكَ الَّذِي أَصَابَ سَبِيلَ الْهُدَى - وقَامَ عَلَى الطَّرِيقِ ونَوَّرَ فِي قَلْبِه الْيَقِينُ.

۳۷۴ - وفِي كَلَامٍ آخَرَ لَه يَجْرِي هَذَا الْمَجْرَى: فَمِنْهُمُ الْمُنْكِرُ لِلْمُنْكَرِ بِيَدِه ولِسَانِه وقَلْبِه - فَذَلِكَ الْمُسْتَكْمِلُ لِخِصَالِ الْخَيْرِ - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِلِسَانِه وقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه - فَذَلِكَ مُتَمَسِّكٌ بِخَصْلَتَيْنِ مِنْ خِصَالِ الْخَيْرِ - ومُضَيِّعٌ خَصْلَةً - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه ولِسَانِه - فَذَلِكَ الَّذِي ضَيَّعَ أَشْرَفَ الْخَصْلَتَيْنِ مِنَ الثَّلَاثِ - وتَمَسَّكَ بِوَاحِدَةٍ -

ایمان والو! جوشخص یہ دیکھے کہ ظلم و تعدی پر عمل ہو رہا ہے اور برائیوں کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور اپنے دل سے اس کا انکار کردے توگویا کہ محفو ظ رہ گیا اور بری(۱) ہوگیا۔اور اگر زبان سے انکار کردے تواجرکا حقداربھی ہوگیا کہ یہ صرف قلبی انکار سے بہتر صورت ہے اور اگر کوئی شخص تلوار کے ذریعہ اس کی روک تھام کرے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے اور ظالمین کی بات پستہو جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کے راستہ کو پالیا ہے اورسیدھے راستہ پر قائم ہوگیا ہے اور اس کے دل میں یقین کی روشنی پیدا ہوگئی ہے۔

(۳۷۴)

( اسی موضوع سے متعلق دوسرے موقع پرارشاد فرمایا ) بعض لوگ منکرات کا انکار دل۔زبان اور ہاتھ سب سے کرتے ہیں تو یہ خیر کے تمام شعبوں کے مالک ہیں اور بعض لوگ صرف زبان اوردل سے انکار کرتے ہیں اور ہاتھ سے روک تھام نہیں کرتے ہیں تو انہوں نے نیکی کی دوخصلتوں کو حاصل کیا ہے اور ایک خصلت کو برباد کردیا ہے۔اور بعض لوگ صرف دل سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہاتھ استعمال کرتے ہیں اور نہ زبان۔تو انہوں نے دوخصلتوں کو ضائع کردیا ہے اور صرف ایک کو پکڑ لیا ہے۔

(۱)اس فقرہ میں سلامتی اوربراء ت کامفہوم یہی ہے کہ منکرات کو برا سمجھنا اور اس سے راضی نہ ہونا انسان کی فطرت سلیم کا حصہ ہے جس کا تقاضا اندر سے برابر جاری رہتا ہے لہٰذا اگر اس نے بیزاری کا اظہار کردیا توگویا فطرت کے سلیم ہونے کا ثبوت دے دیا اوراس فریضہ سے سبکدوش ہوگیا جو فطرت سلیم نے اس کے ذمہ عائد کیا تھا۔ورنہاگر ایسا بھی نہ کرتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ فطرت سلیم پرخارجی عناصر غالبآگئے ہیں اور انہوں نے بری الذمہ ہونے سے روک دیا ہے ۔

۷۵۲

ومِنْهُمْ تَارِكٌ لإِنْكَارِ الْمُنْكَرِ بِلِسَانِه وقَلْبِه ويَدِه - فَذَلِكَ مَيِّتُ الأَحْيَاءِ - ومَا أَعْمَالُ الْبِرِّ كُلُّهَا والْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّه - عِنْدَ الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ - إِلَّا كَنَفْثَةٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ - وإِنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ - لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ ولَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ - وأَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّه كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ.

۳۷۵ - وعَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام يَقُولُ: أَوَّلُ مَا تُغْلَبُونَ عَلَيْه مِنَ الْجِهَادِ - الْجِهَادُ بِأَيْدِيكُمْ ثُمَّ بِأَلْسِنَتِكُمْ ثُمَّ بِقُلُوبِكُمْ - فَمَنْ لَمْ يَعْرِفْ بِقَلْبِه مَعْرُوفاً ولَمْ يُنْكِرْ مُنْكَراً - قُلِبَ فَجُعِلَ أَعْلَاه أَسْفَلَه وأَسْفَلُه أَعْلَاه.

۳۷۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الْحَقَّ ثَقِيلٌ مَرِيءٌ وإِنَّ الْبَاطِلَ خَفِيفٌ وَبِيءٌ

اوربعض وہ بھی ہیں جو دل۔زبان اور ہاتھ کسی سے بھی برائیوں کا انکارنہیں کرتے ہیں تو یہ زندوں کی درمیان مردہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یاد رکھو کہ جملہ اعمال خیر مع جہاد راہ خدا۔امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے مقابلہ میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جوگہرے سمندر میں لعاب دہن کے ذرات کی حیثیت ہوتی ہے۔

اور ان تمام اعمال سے بلند تر عمل حاکم ظالم کے سامنے کلمۂ انصاف(۱) کااعلان ہے۔

(۳۷۵)

ابو حجیفہ سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امیر المومنین کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلے تم ہاتھ کے جہاد میں مغلوب ہوگے اس کے بعد زبان کے جہادمیں اور اس کے بعد دل کے جہاد میں ۔مگر یہ یاد رکھنا کہ اگر کسی شخص نے دل سے اچھائی کواچھا اوربرائی کو برا نہیں سمجھا تواسے اس طرح الٹ پلٹ دیاجائے گا کہ پست بلند ہو جائے اور بلند پست ہو جائے ۔

(۳۷۶)

حق ہمیشہ سنگین ہوتا ہے مگرخوشگوار ہوتا ہے اور باطل ہمیشہ آسان ہوتا ہے مگرمہلک ہوتا ہے

(۱)تاریخ اسلام میں اس کی بہترین مثال ابن السکیت کاکردار ہے جہاں ان سے متوکل نے سردربار یہ سوال کرلیا کہ تمہاری نگاہ میں میرے دونوں فرزند معتبر اورموید بہترین یا علی کے دونوں فرزند حسن و حسین تو ابن السکیت نے سلطان ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا کہ حسن و حسین کاکیا ذکر ہے تیرے فرزند اور تو دونوں مل کرعلی کے غلام قنبر کی جوتیوں کے تسمہ کے برابر نہیں ہیں۔

جس کے بعد متوکل نے حکم دے دیاکہ ان کی زبان کی گدی سے کھینچ لیا جائے اورابن السکیت نے نہایت درجہ سکون قلب کے ساتھ اس قربانی کو پیش کردیا اور اپنے پیشرو مثیم تمار۔حجر بن عدی۔عمروبن الحمق۔ابوذر۔عماریاسر اورمختار سے ملحق ہوگئے ۔

۷۵۳

۳۷۷ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَأْمَنَنَّ عَلَى خَيْرِ هَذِه الأُمَّةِ عَذَابَ اللَّه،لِقَوْلِه تَعَالَى -( فَلا يَأْمَنُ مَكْرَ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْخاسِرُونَ ) - ولَا تَيْأَسَنَّ لِشَرِّ هَذِه الأُمَّةِ مِنْ رَوْحِ اللَّه لِقَوْلِه تَعَالَى -( إِنَّه لا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْكافِرُونَ ) .

۳۷۸ - وقَالَعليه‌السلام الْبُخْلُ جَامِعٌ لِمَسَاوِئِ الْعُيُوبِ - وهُوَ زِمَامٌ يُقَادُ بِه إِلَى كُلِّ سُوءٍ.

۳۷۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ الرِّزْقُ رِزْقَانِ رِزْقٌ تَطْلُبُه -

(۳۷۷)

دیکھو اس امت کے بہترین آدمی کے بارے میں بھی عذاب سے مطمئن نہ ہو جانا کہ عذاب الٰہی کی طرف سے صرف خسارہ والے ہی مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اسی طرح اس امت کے بد ترین کے بارے میں بھی رحمت خداسے مایوس نہ ہو جانا کہ رحمت خدا سے مایوسی صرف کافروں کا حصہ ہے۔

(واضح رہے کہ اس ارشاد کا تعلق صرف ان گناہ گاروں سے ہے جن کا عمل انہیں سرحد کفر تک نہ پہنچا دے ورنہ کافر تو بہرحال رحمت خداسے مایوس رہتا ہے۔

(۳۷۸)

بخل عیوب کی تمام برائیوں کا جامع ہے۔اوریہی وہ زمام ہے جس کے ذریعہ انسان کو ہر برائی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔

(۳۷۰)

ابن آدم ! رزق کی دو قسمیں ہیں۔ایک رزق وہ ہے جسے تم تلاش کر رہے ہو اورایک رزق(۱) وہ ہے جو تم کو

(۱)اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ انسان محنت و مشقت چھوڑ دے اوراس امید میں بیٹھ جائے کہ رزق کی دوسری قسم بہرحال حاصل ہو جاے گی اوراسی پر قناعت کرلے گا ۔بلکہ یہ درحقیقت اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے یہاں محنت و مشقت بہرحال کرنا اوریہ انسان کے فرائض انسانیت وعبدیت میں شامل ہے لیکن اس کے بعد بھی رزق کا ایک حصہ ہے جو انسان کی محنت و مشقت سے بالاتر ہے اور وہ ان اسباب کے ذریعہ پہنچ جاتا ہے جن کا انسان تصوربھی نہیں کرتا ہے جس طرح کہ آپ گھر سے نکلیں اور کوئی شخص راستہ میں ایک گلاب پانی یا ایک پیالی چائے پلاے ۔ظاہر ہے کہ یہ پانی یا چائے نہ آپ کے حساب رزق کاکوئی حصہ ہے اور نہ آپنے اس کے لئے کوئی محنت کی ہے ۔یہ پروردگار کا ایک کر م ہے جوآپکے شامل حال ہوگیا ہے اور اس نے اس نکتہ کی وضاحت کردی کہ اگر زندگانی دنیا میں محنت ناکام بھی ہو جائے تو رزق کا سلسلہ بند ہونے والا نہیں ہے۔پروردگار کے پاس اپنے وسائل موجودہیں وہ ان وسائل سے رزق فراہم کردے گا۔وہ مسبب الاسباب ہے اسباب کا پابند نہیں ہے۔

۷۵۴

ورِزْقٌ يَطْلُبُكَ فَإِنْ لَمْ تَأْتِه أَتَاكَ - فَلَا تَحْمِلْ هَمَّ سَنَتِكَ عَلَى هَمِّ يَوْمِكَ - كَفَاكَ كُلُّ يَوْمٍ عَلَى مَا فِيه - فَإِنْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَإِنَّ اللَّه تَعَالَى سَيُؤْتِيكَ فِي كُلِّ غَدٍ جَدِيدٍ مَا قَسَمَ لَكَ - وإِنْ لَمْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَمَا تَصْنَعُ بِالْهَمِّ فِيمَا لَيْسَ لَكَ - ولَنْ يَسْبِقَكَ إِلَى رِزْقِكَ طَالِبٌ - ولَنْ يَغْلِبَكَ عَلَيْه غَالِبٌ - ولَنْ يُبْطِئَ عَنْكَ مَا قَدْ قُدِّرَ لَكَ.

قال الرضي وقد مضى هذا الكلام - فيما تقدم من هذا الباب - إلا أنه هاهنا أوضح وأشرح فلذلك كررناه - على القاعدة المقررة في أول الكتاب.

۳۸۰ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ مُسْتَقْبِلٍ يَوْماً لَيْسَ بِمُسْتَدْبِرِه - ومَغْبُوطٍ فِي أَوَّلِ لَيْلِه قَامَتْ بَوَاكِيه فِي آخِرِه.

۳۸۱ - وقَالَعليه‌السلام الْكَلَامُ فِي وَثَاقِكَ مَا لَمْ تَتَكَلَّمْ بِه - فَإِذَا تَكَلَّمْتَ بِه صِرْتَ فِي وَثَاقِه - فَاخْزُنْ لِسَانَكَ كَمَا تَخْزُنُ ذَهَبَكَ ووَرِقَكَ - فَرُبَّ كَلِمَةٍ

تلاش کر رہا ہے کہ اگر تم اس تک نہ پہنچو گے تو وہ تمہارے پاس آجائے گا۔لہٰذا ایک سال کے ہم و غم کو ایک دن پر بار نہ کردو۔ہر دن کے لئے اسی دن کی فکر کافی ہے۔اس کے بعد اگر تمہاری عمر میں ایک سال باقی رہ گیا ہے تو ہرآنے والا دن اپنا رزق اپنے ساتھ لے کرآئے گا اوراگر سال باقی نہیں رہ گیا ہے تو سال بھر کی فکر کی ضرورت ہی کیا ہے۔تمہارے رزق کو تم سے پہلے کوئی پا نہیں سکتا ہے اور تمہارے حصہ پر کوئی غالب نہیں آسکتا ہے بلکہ جو تمہارے حق میں مقدر ہوچکا ہے وہ دیر سے بھی نہیں آئے گا۔

سید رضی : یہ ارشاد گرامی اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے مگر یہاں زیادہ واضح اور مفصل ہے لہٰذا دوبارہ ذکر کردیا گیا ہے۔

(۳۸۰)

بہت سے لوگ ایسے دن کا سامنا کرنے والے ہیں جس سے پیٹھ پھیرانے والے نہیں ہیں۔اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی قسمت پر سر شام رشک کیا جاتا ہے اور صبح ہوتے ہوتے ان پر رونے والیوں کا ہجوم لگ جاتا ہے ۔

(۳۸۱)

گفتگو تمہارے قبضہ میں ہے۔جب تک اس کااظہار نہ ہو جائے ۔اس کے بعد پھر تم اس کے قبضہ میں چلے جاتے ہو۔لہٰذا اپنی زبان کو ویسے ہی محفوظ رکھو جسے سونے چاندی کی حفاظت کرتے ہو۔کہ بعض کلمات نعمتوں کو

۷۵۵

سَلَبَتْ نِعْمَةً وجَلَبَتْ نِقْمَةً.

۳۸۲ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ مَا لَا تَعْلَمُ بَلْ لَا تَقُلْ كُلَّ مَا تَعْلَمُ - فَإِنَّ اللَّه فَرَضَ عَلَى جَوَارِحِكَ كُلِّهَا - فَرَائِضَ يَحْتَجُّ بِهَا عَلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

۳۸۳ - وقَالَعليه‌السلام احْذَرْ أَنْ يَرَاكَ اللَّه عِنْدَ مَعْصِيَتِه - ويَفْقِدَكَ عِنْدَ طَاعَتِه - فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ - وإِذَا قَوِيتَ فَاقْوَ عَلَى طَاعَةِ اللَّه - وإِذَا ضَعُفْتَ فَاضْعُفْ عَنْ مَعْصِيَةِ اللَّه.

۳۸۴ - وقَالَعليه‌السلام الرُّكُونُ إِلَى الدُّنْيَا مَعَ مَا تُعَايِنُ مِنْهَا جَهْلٌ - والتَّقْصِيرُ فِي حُسْنِ الْعَمَلِ - إِذَا وَثِقْتَ بِالثَّوَابِ عَلَيْه غَبْنٌ - والطُّمَأْنِينَةُ إِلَى كُلِّ أَحَدٍ قَبْلَ الِاخْتِبَارِ لَه عَجْزٌ.

۳۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنْ هَوَانِ الدُّنْيَا عَلَى اللَّه أَنَّه لَا يُعْصَى إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنَالُ مَا عِنْدَه إِلَّا بِتَرْكِهَا.

سلب کر لیتے ہیں اورعذاب کو جذب کرلیتے ہیں۔

(۳۸۲)

جوبات نہیں جانتے ہو اسے زبان سے مت نکالو بلکہ ہر وہ بات جسے جانتے ہو اسے بھی مت بیان کرو کہ اللہ نے ہر عضو بدن کے کچھ فرائض قراردئیے ہیں اور انہیں کے ذریعہ روز قیامت حجت قائم کرنے والا ہے۔

(۳۸۳)

اس بات سے ڈرو کہ اللہ تمہیں معصیت کے موقع پرحاضر دیکھے اور اطاعت کے موقع پر غائب پائے کہ اس طرح خسارہ والوں میں شمار ہو جائو گے ۔اگر تمہارے پاس طاقت ہے تو اس کا اظہار اطاعت خدا میں کرو اور اگر کمزوری دکھلانا ہے تو اسے معصیت کے موقع پر دکھلائو۔

(۳۸۴)

دنیا کیحالات دیکھنے کے باوجود اس کی طرف رجحان اور میلان صرف جہالت ہے۔اورثواب کے یقین کے بعد بھی نیک عمل میں کوتاہی کرنا خسارہ ہے۔امتحان سے پہلے ہر ایک پر اعتبار کرلینا عاجزی اور کمزوری ہے۔

(۳۸۵)

خداکی نگاہ میں دنیا کی حقارت کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اس کی معصیت اسی دنیا میں ہوتی ہے اور اس کی اصلی نعمتیں اس کوچھوڑنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہیں۔

۷۵۶

۳۸۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ طَلَبَ شَيْئاً نَالَه أَوْ بَعْضَه.

۳۸۷ - وقَالَعليه‌السلام مَا خَيْرٌ بِخَيْرٍ بَعْدَه النَّارُ - ومَا شَرٌّ بِشَرٍّ بَعْدَه الْجَنَّةُ - وكُلُّ نَعِيمٍ دُونَ الْجَنَّةِ فَهُوَ مَحْقُورٌ - وكُلُّ بَلَاءٍ دُونَ النَّارِ عَافِيَةٌ.

۳۸۸ - وقَالَعليه‌السلام أَلَا وإِنَّ مِنَ الْبَلَاءِ الْفَاقَةَ - وأَشَدُّ مِنَ الْفَاقَةِ مَرَضُ الْبَدَنِ - وأَشَدُّ مِنْ مَرَضِ الْبَدَنِ مَرَضُ الْقَلْبِ - أَلَا وإِنَّ مِنْ صِحَّةِ الْبَدَنِ تَقْوَى الْقَلْبِ.

(۳۸۶)

جو کسی شے کا طلب گار ہوتا ہے وہ کل یا جزء بہرحال حاصل کر لیتا ہے۔

(۳۸۷)

وہ بھلائی بھلائی نہیں ہے جس کا انجام جہنم ہو۔اوروہ برائی برائی نہیں ہے جس کی عاقبت جنت ہو۔جنت کے علاوہ ہر نعمت حقیر ہے اور جہنم سے بچ جانے کے بعد ہر مصیبت عافیت ہے۔

(۳۸۸)

یاد رکھو کہ فقرو فاقہ بھی ایک بلاء ہے اور اس سے زیادہ سخت مصیبت بدن کی بیماری ہے اور اس سے زیادہ دشوار گذار دل کی بیماری ہے۔مالداری یقینا ایک نعمت ہے لیکن اس سے بڑی نعمت صحت(۱) بدن ہے اور اس سے بڑی نعمت دل کی پرہیز گاری ہے۔

(۱) یہ نکتہ ان غرباء اورفقراء کے سمجھنے کے لئے ہے جوہمیشہ غربت کا مرثیہ پڑھتے رہتے ہیں اور کبھی صحت کا شکیرہ نہیں اداکرتے ہیں جب کہ تجربات کی دنیا میں یہبات ثابت ہوچکی ہے کہ امراض کا اوسط دولت مندوں میں غریبوں سے کہیں زیادہ ہے اور ہارٹ اٹیک کے بیشتر مریض اسی انچے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔بلکہ بعض اوقات توامیروں کی زندگی میں غذائوں سے زیادہ حصہ دوائوں کا ہوتا ہے اوروہ بیشمار غذائوں سے یکسر محروم ہو جاتے ہیں۔

صحت بدن پروردگار کا ایک مخصوص کرم ہے جو وہ اپنے بندوں کے شامل حال کردیتا ہے لیکن غریبوں کوبھی اس نکتہ کا خیال رکھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے اس صحت کاشکریہ ادا کیا اور صرف غربت کی شکایت کرتے رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جسمانی اعتبارسے صحت مند ہیں لیکن روحانی اعتبار سے بہر حال مریض ہیں اوریہ مرض ناقابل علاج ہو چکا ہے۔رب کریم ہر مومن و مومنہ کو اس مرض سے نجات عطا فرمائے

۷۵۷

۳۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْطَأَ بِه عَمَلُه لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه: وفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى: مَنْ فَاتَه حَسَبُ نَفْسِه لَمْ يَنْفَعْه حَسَبُ آبَائِه.

۳۹۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلْمُؤْمِنِ ثَلَاثُ سَاعَاتٍ فَسَاعَةٌ يُنَاجِي فِيهَا رَبَّه - وسَاعَةٌ يَرُمُّ مَعَاشَه - وسَاعَةٌ يُخَلِّي بَيْنَ نَفْسِه - وبَيْنَ لَذَّتِهَا فِيمَا يَحِلُّ ويَجْمُلُ - ولَيْسَ لِلْعَاقِلِ أَنْ يَكُونَ شَاخِصاً إِلَّا فِي ثَلَاثٍ - مَرَمَّةٍ لِمَعَاشٍ أَوْ خُطْوَةٍ فِي مَعَادٍ - أَوْ لَذَّةٍ فِي غَيْرِ مُحَرَّمٍ.

۳۹۱ - وقَالَعليه‌السلام ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُبَصِّرْكَ اللَّه عَوْرَاتِهَا - ولَا تَغْفُلْ فَلَسْتَ بِمَغْفُولٍ عَنْكَ.

۳۹۲ - وقَالَعليه‌السلام تَكَلَّمُوا تُعْرَفُوا فَإِنَّ الْمَرْءَ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِه.

(۳۸۹)

جس کو عمل پیچھے ہٹا دے اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتاہے۔یا ( دوسری روایت میں ) جس کے ہاتھ سے اپنا کردار نکل جائے اسے آباء واجداد کے کارنامے فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہیں۔

(۳۹۰)

مومن کی زندگی کے تین اوقات ہوتے ہیں۔ ایک ساعت میں وہ اپنے رب سے راز و نیاز کرتا ہے اور دوسرے وقت میں اپنے معاش کی اصلاح کرتا ہے اور تیسرے وقت میں اپنے نفس کوان لذتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے جوحلال اور پاکیزہ ہیں ۔

کسی عقل مند کویہ زیب نہیں دیتا ہے کہ اپنے گھرسے دور ہو جائے مگر یہ کہ تین میں سے کوئی ایک کام ہو۔اپنے معاش کی اصلاح کرے ' آخرت کی طرف قدم آگے بڑھائے 'حلال اورپاکیزہ لذت حاصل کرے۔

(۳۹۱)

دنیامیں زہد اختیار کرو تاکہ اللہ تمہیں اس کی برائیوں سے آگاہ کردے ۔اورخبر دار غافل نہ ہو جائو کہ تمہاری طرف سے غفلت نہیں برتی جائے گی۔

(۳۹۲)

بولو تاکہ پہچانے جائو اس لئے کہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی رہتی ہے۔

۷۵۸

۳۹۳ - وقَالَعليه‌السلام خُذْ مِنَ الدُّنْيَا مَا أَتَاكَ - وتَوَلَّ عَمَّا تَوَلَّى عَنْكَ - فَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَفْعَلْ فَأَجْمِلْ فِي الطَّلَبِ

۳۹۴ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ قَوْلٍ أَنْفَذُ مِنْ صَوْلٍ

۳۹۵ - وقَالَعليه‌السلام كُلُّ مُقْتَصَرٍ عَلَيْه كَافٍ.

۳۹۶ - وقَالَعليه‌السلام الْمَنِيَّةُ ولَا الدَّنِيَّةُ والتَّقَلُّلُ ولَا التَّوَسُّلُ ومَنْ لَمْ يُعْطَ قَاعِداً لَمْ يُعْطَ قَائِماً

(۳۹۳)

جو دنیا میں حاصل ہو جائے اسے لے لو اور جو چیز تم سے منہ موڑ لے تم بھی اس سے منہ پھیر لو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے ہو تو طلب میں میانہ روی سے کام لو۔

(۳۹۴)

بہت سے الفاظ حملوں(۱) سے زیادہاثر رکھنے والے ہوتے ہیں۔

(۳۹۵)

جس پر اکتفا(۲) کرلی جائے وہی کافی ہے۔

(۳۹۶)

موت ہو لیکن خبردار ذلت نہ ہو۔

کم ہو لیکن دوسروں کو وسیلہ نہ بنانا پڑے۔

جسے بیٹھ کر(۳) نہیں مل سکتا ہے اسے کھڑے ہو کر بھی نہیں مل سکتا ہے

(۱)اسی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ تلوار کا زخم بھرجاتا ہے لیکن زبان کا زخم نہیں بھرتا ہے۔اوراس کے علاوہ دونوں کا بنیادی فرق یہ ہے کہ حملوں کا اثر محدود علاقوں پر ہوتا ہے اورجملوں کا اثر ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے جس کا مشاہدہ اس دورمیں بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ حملے تمام دنیا میں بند پڑتے ہیں لیکن جملے اپنا کام کر رہے ہیں اور میڈیا ساری دنیا میں زہر پھیلا رہا ہے اورسارے عالم انسانیت کو ہرجہت اور ہراعتبار سے تباہی اوربربادی کے گھاٹ اتار رہا ہے۔

(۲)حرص و ہوس وہ بیماری ہے جس کاعلاج قناعت اورکفایت شعاری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔یہ دنیا ایسی ہے کہ اگر انسان اس کی لالچ میں پڑ جائے تو ملک فرعون اور اقتداریزید وحجاج بھی کم پڑ جاتا ہے اور کفایت شعاری پر آجائے تو جو کی روٹیاں بھی اس کے کردار کا ایک حصہ بن جاتی ہیں اور وہ نہایت درجہ بے نیازی کے ساتھ دنیا کوطلاق دینے پرآمادہ ہو جاتا ہے اورپھر جوع کرنے کاب ھی ارادہ نہیں کرتا ہے۔

(۳)یہاں بیٹھنے سے مراد بیٹھ جانانہیں ہے ورنہ اس نصیحت کو سن کر ہر انسان بیٹھ جائے گا اور محنت و مشقت کا سلسلہ ہی موقوف ہو جائے گا بلکہ اس بیٹھنے سے مراد بقدر ضرورت محنت کرنا ہے جوانسانی زندگی کے لئے کافی ہواور انسان اس سے زیادہجان دینے پر آمادہ نہ ہوجائے کہ اس کاکوئی فائدہ نہیں ہے اور فضول محنت سے کچھ زیادہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

۷۵۹

والدَّهْرُ يَوْمَانِ يَوْمٌ لَكَ ويَوْمٌ عَلَيْكَ - فَإِذَا كَانَ لَكَ فَلَا تَبْطَرْ - وإِذَا كَانَ عَلَيْكَ فَاصْبِرْ.

۳۹۷ - وقَالَعليه‌السلام نِعْمَ الطِّيبُ الْمِسْكُ خَفِيفٌ مَحْمِلُه عَطِرٌ رِيحُه.

۳۹۸ - وقَالَعليه‌السلام ضَعْ فَخْرَكَ واحْطُطْ كِبْرَكَ واذْكُرْ قَبْرَكَ.

۳۹۹ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ حَقّاً - وإِنَّ لِلْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ حَقّاً - فَحَقُّ الْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ - أَنْ يُطِيعَه فِي كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا فِي مَعْصِيَةِ اللَّه سُبْحَانَه - وحَقُّ الْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ - أَنْ يُحَسِّنَ اسْمَه ويُحَسِّنَ أَدَبَه ويُعَلِّمَه الْقُرْآنَ.

زمانہ دونوں کا نام ہے۔ایک دن تمہارے حق میں ہوتا ہے تو دوسرا تمہارے خلاف ہوتا ہے لہٰذا اگر تمہارے حق میں ہو تو مغرور نہ ہو جانا اور تمہارے خلاف ہو جائے تو صبر سے کام لینا۔

(۳۹۷)

بہترین خوشبو کا نام مشک ہے جس کاوزن انتہائی ہلکا ہوتا ہے اورخوشبو نہایت درجہ مہک دار ہوتی ہے۔

(۳۹۸)

فخرو سر بلندی کوچھوڑ دو اورتکبر و غرور کو فنا کردواور پھراپنی قبر کو یاد کرو۔

(۳۹۹)

فرزند کا باپ پر ایک حق ہوتا ہے اورباپ کا فرزند پرایک حق ہوتا ہے۔باپ کاحق یہ ہے کہ بیٹا ہر مسئلہ میں اس کی اطاعت کرے معصیت پروردگار کے علاوہ اور فرزند کاحق باپ پر یہ ہے کہ اس کا اچھاسانام تجویزکرے اوراسے بہترین ادب سکھائے ۔اور قرآن مجید کی تعلیم دے ۔

۷۶۰

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863