نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 630016
ڈاؤنلوڈ: 15074

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 630016 / ڈاؤنلوڈ: 15074
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ أَطْوَلَ أَعْمَاراً - وأَبْقَى آثَاراً وأَبْعَدَ آمَالًا - وأَعَدَّ عَدِيداً وأَكْثَفَ جُنُوداً - تَعَبَّدُوا لِلدُّنْيَا أَيَّ تَعَبُّدٍ - وآثَرُوهَا أَيَّ إِيْثَارٍ - ثُمَّ ظَعَنُوا عَنْهَا بِغَيْرِ زَادٍ مُبَلِّغٍ - ولَا ظَهْرٍ قَاطِعٍ - فَهَلْ بَلَغَكُمْ أَنَّ الدُّنْيَا سَخَتْ لَهُمْ نَفْساً بِفِدْيَةٍ - أَوْ أَعَانَتْهُمْ بِمَعُونَةٍ - أَوْ أَحْسَنَتْ لَهُمْ صُحْبَةً - بَلْ أَرْهَقَتْهُمْ بِالْقَوَادِحِ - وأَوْهَقَتْهُمْ بِالْقَوَارِعِ - وضَعْضَعَتْهُمْ بِالنَّوَائِبِ - وعَفَّرَتْهُمْ لِلْمَنَاخِرِ ووَطِئَتْهُمْ بِالْمَنَاسِمِ - وأَعَانَتْ عَلَيْهِمْ رَيْبَ الْمَنُونِ - فَقَدْ رَأَيْتُمْ تَنَكُّرَهَا لِمَنْ دَانَ لَهَا - وآثَرَهَا وأَخْلَدَ إِلَيْهَا - حِينَ ظَعَنُوا عَنْهَا لِفِرَاقِ الأَبَدِ - وهَلْ زَوَّدَتْهُمْ إِلَّا السَّغَبَ - أَوْ أَحَلَّتْهُمْ إِلَّا الضَّنْكَ - أَوْ نَوَّرَتْ لَهُمْ إِلَّا الظُّلْمَةَ - أَوْ أَعْقَبَتْهُمْ إِلَّا النَّدَامَةَ - أَفَهَذِه تُؤْثِرُونَ أَمْ إِلَيْهَا تَطْمَئِنُّونَ - أَمْ عَلَيْهَا تَحْرِصُونَ - فَبِئْسَتِ الدَّارُ لِمَنْ لَمْ يَتَّهِمْهَا - ولَمْ يَكُنْ فِيهَا عَلَى وَجَلٍ مِنْهَا - فَاعْلَمُوا وأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ - بِأَنَّكُمْ تَارِكُوهَا وظَاعِنُونَ عَنْهَا - واتَّعِظُوا فِيهَا بِالَّذِينَ قَالُوا –( مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ) -

جو تم سے پہلے طویل عمر ' پائیدارآثار اور دور رس امیدوں والے تھے۔بے پناہ سامان مہیا کیا' بڑے بڑے لشکرتیار کئے اور جی بھر کردنیا کی پرستش کی اور اسے ہر چیز پرمقدم رکھا لیکن اس کے بعد یوں روانہ ہوگئے کہ نہ منزل تک پہنچانے والا زاد راہ ساتھ تھا اور نہ راستہ طے کرانے والی سواری۔کیا تم تک کوئی خبر پہنچی ہے کہ اس دنیا نے ان ک بچانے کے لئے کوئی فدیہ پیش کیا ہو یا ان کی کوئی مدد کی ہو یا ان کے ساتھ اچھا وقت گزارا ہو؟ہرگز نہیں بلکہ انہیں مصیبتوں میں گرفتار کردیا اورآفتوں سے عاجز و بے بسبنادیا۔پے درپے زحمتوں نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان کی ناک رگڑدی اور انہیں اپنے سموں سے روند ڈالا اور پھرحوادث روز گار کوبھی سہارا دے دیا اور تم نے دیکھ لیا کہ یہ اپنے اطاعت گزاروں ' چاہنے والوں اور چپکنے والوں کے لئے بھی ایسی انجان بن گئی کہ جب انہوں نے یہاں سے ہمیشہ کے لئے کوچ کیا تو انہیں سوائے بھوک کے کوئی زاد راہ اور سوائے تنگی لحد کے کوئی مکان نہیں دیا۔ظلمت ہی ان کی روشنی قرار پائی اورندامت ہی ان کا انجام ٹھہرا۔تو کیا تم اسی دنیا کو اختیار کر رہے ہو اور اسی پربھروسہ کر رہے ہو اور اسی کی لالچ میں مبتلا ہو۔یہ اپنے سے بد ظنی نہ رکھنے والوں اور احتیاط نہکرنے والوں کے لئے بد ترین مکان ہے۔لہٰذا یاد رکھو اور تمہیں معلوم بھی ہے کہ تم اسے چھوڑنے والے ہواور اس سے کوچ کرنے والے ہو۔ان لوگوں سے نصیحت حاصل کرو جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ '' ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے ''

۲۰۱

حُمِلُوا إِلَى قُبُورِهِمْ - فَلَا يُدْعَوْنَ رُكْبَاناً - وأُنْزِلُوا الأَجْدَاثَ فَلَا يُدْعَوْنَ ضِيفَاناً - وجُعِلَ لَهُمْ مِنَ الصَّفِيحِ أَجْنَانٌ - ومِنَ التُّرَابِ أَكْفَانٌ ومِنَ الرُّفَاتِ جِيرَانٌ - فَهُمْ جِيرَةٌ لَا يُجِيبُونَ دَاعِياً - ولَا يَمْنَعُونَ ضَيْماً ولَا يُبَالُونَ مَنْدَبَةً - إِنْ جِيدُوا لَمْ يَفْرَحُوا - وإِنْ قُحِطُوا لَمْ يَقْنَطُوا - جَمِيعٌ وهُمْ آحَادٌ وجِيرَةٌ وهُمْ أَبْعَادٌ - مُتَدَانُونَ لَا يَتَزَاوَرُونَ - وقَرِيبُونَ لَا يَتَقَارَبُونَ - حُلَمَاءُ قَدْ ذَهَبَتْ أَضْغَانُهُمْ - وجُهَلَاءُ قَدْ مَاتَتْ أَحْقَادُهُمْ - لَا يُخْشَى فَجْعُهُمْ - ولَا يُرْجَى دَفْعُهُمْ - اسْتَبْدَلُوا بِظَهْرِ الأَرْضِ بَطْناً - وبِالسَّعَةِ ضِيقاً وبِالأَهْلِ غُرْبَةً - وبِالنُّورِ ظُلْمَةً فَجَاءُوهَا كَمَا فَارَقُوهَا - حُفَاةً عُرَاةً،

قَدْ ظَعَنُوا عَنْهَا بِأَعْمَالِهِمْ - إِلَى الْحَيَاةِ الدَّائِمَةِ والدَّارِ الْبَاقِيَةِ كَمَا قَالَ سُبْحَانَه وتَعَالَى –( كَما بَدَأْنا أَوَّلَ خَلْقٍ - نُعِيدُه وَعْداً عَلَيْنا إِنَّا كُنَّا فاعِلِينَ )

اور پھر وہ بھی اپنی قبروں کی طرف اس طرح پہنچائے گئے کہ انہیں سواری بھی نصیب نہیں ہوئی اور قبروں میں اس طرح اتار دیا گیا کہ انہیں مہمان بھی نہیں کہا گیا پتھروں سے ان کی قبریں چن دی گئیں اور مٹی سے انہیں کفن دے دیا گیا۔سڑی گلی ہڈیاں ان کی ہمسایہ بن گئیں اور اب یہ سب ایسے ہمسایہ ہیں کہ کسی پکارنے والے کی آواز پرلبیک نہیں کہتے ہیں اور نہ کسی زیادتی کو روک سکتے ہیں اور نہ کسی رونے والے کی پرواہ کرتے ہیں۔اگر ان پر موسلا دھار بارش ہو تو انہیں خوشی نہیں ہوتی ہے اور اگر قحط پڑ جائے تو مایوسی کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔یہ سب ایک مقام پرجمع ہیں مگر اکیلے ہیں اور ہمسایہ ہیں مگر دور دور ہیں۔ایسے ایک دوسرے سے قریب کہ ملاقات تک نہیں کرتے ہیں اور ایسے نزدیک کہ ملتے بھی نہیں ہیں۔اب ایسے برباد ہوگئے ہیں کہ سارا کینہ ختم ہوگیا ہے اورایسے بے خبر ہیں کہ سارا بغض وعنادمٹ گیا ہے۔نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے اورنہ کسی دفاع کی امیدہے زمین کے ظاہرکے بجائے باطن کو اوروسعت کے بجائے تنگی کو اورساتھیوں کے بدلے غربت کو اورنور کے بدلے ظلمت کو اختیار کرلیا ہے۔اس کی گود میں ویسے ہی آگئے ہیں جیسے پہلے الگ ہوئے تھے پا برہنہ اورننگے۔اپنے اعمال سمیت دائمی زندگی اور ابدی مکان کی طرف کوچ کرگئے ہیں جیساکہ مالک کائنات نے فرمایا ہے '' جس طرح ہم نے پہلے بنایا تھا ویسے ہی واپس لے آئیں گے یہ ہمارا وعدہ ہے اور ہم اسے بہرحال انجام دینے والے ہیں ''۔

۲۰۲

(۱۱۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

ذكر فيها ملك الموت وتوفية النفس وعجز الخلق عن وصف اللَّه

هَلْ تُحِسُّ بِه إِذَا دَخَلَ مَنْزِلًا - أَمْ هَلْ تَرَاه إِذَا تَوَفَّى أَحَداً - بَلْ كَيْفَ يَتَوَفَّى الْجَنِينَ فِي بَطْنِ أُمِّه - أَيَلِجُ عَلَيْه مِنْ بَعْضِ جَوَارِحِهَا - أَمْ الرُّوحُ أَجَابَتْه بِإِذْنِ رَبِّهَا - أَمْ هُوَ سَاكِنٌ مَعَه فِي أَحْشَائِهَا - كَيْفَ يَصِفُ إِلَهَه - مَنْ يَعْجَزُ عَنْ صِفَةِ مَخْلُوقٍ مِثْلِه!

(۱۱۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم الدنيا

وأُحَذِّرُكُمُ الدُّنْيَا فَإِنَّهَا مَنْزِلُ قُلْعَةٍ - ولَيْسَتْ بِدَارِ نُجْعَةٍ - قَدْ تَزَيَّنَتْ بِغُرُورِهَا - وغَرَّتْ بِزِينَتِهَا - دَارُهَا هَانَتْ عَلَى رَبِّهَا فَخَلَطَ حَلَالَهَا بِحَرَامِهَا - وخَيْرَهَا بِشَرِّهَا وحَيَاتَهَا بِمَوْتِهَا وحُلْوَهَا بِمُرِّهَا

(۱۱۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں ملک الموت ' ان کے قبض روح اورمخلوقات کے توصیف الٰہی سے عاجزی کا ذکرکیا گیا ہے)

کیا جس وقت ملک الموت گھر میں داخل ہوتے ہیں تمہیں کوئی احساسا ہوتا ہے اور کیا انہیں روح قبض کرتے ہوئے تم نے کبھی دیکھا ہے؟ بھلا وہ شکم مادرمیں بچہ کو کس طرح مارتے ہیں۔کیا کسی طرف سے اندرداخل ہو جاتے ہیں یا روح ہی ان کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی شکل آتی ہے یا پہلے سے بچہ کے پہلو میں رہتے ہیں۔سوچو! کہ جو شخص ایک خلوق کے کمالات کو نہ سمجھ سکتا ہو وہ خالق کے اوصاف کو کیا بیان کرسکے گا ۔

(۱۱۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(مذمت دنیا میں )

میں تمہیں اس دنیا سے ہوشیار کر رہاہوں کہ یہ کوچ کی جگہ ہے۔آب و دانہ کی منزل نہیں ہے۔ یہ اپنے دھوکہ ہی سے آراستہ ہوگئی ہے اور اپنی آرائش ہی سے دھوکہ دیتی ہے۔اس کا گھر پروردگار کی نگاہ میں بالکل بے ارزش ہے اسی لئے اس نے اس کے حلال کے ساتھ حرام خیر کے ساتھ شر ' زندگی کے ساتھ موت اور شیریں کے ساتھ تلخ کو رکھ دیا ہے

۲۰۳

لَمْ يُصْفِهَا اللَّه تَعَالَى لأَوْلِيَائِه - ولَمْ يَضِنَّ بِهَا عَلَى أَعْدَائِه – خَيْرُهَا زَهِيدٌ وشَرُّهَا عَتِيدٌ - وجَمْعُهَا يَنْفَدُ ومُلْكُهَا يُسْلَبُ وعَامِرُهَا يَخْرَبُ - فَمَا خَيْرُ دَارٍ تُنْقَضُ نَقْضَ الْبِنَاءِ - وعُمُرٍ يَفْنَى فِيهَا فَنَاءَ الزَّادِ - ومُدَّةٍ تَنْقَطِعُ انْقِطَاعَ السَّيْرِ - اجْعَلُوا مَا افْتَرَضَ اللَّه عَلَيْكُمْ مِنْ طَلَبِكُمْ واسْأَلُوه مِنْ أَدَاءِ حَقِّه مَا سَأَلَكُمْ.وأَسْمِعُوا دَعْوَةَ الْمَوْتِ - آذَانَكُمْ قَبْلَ أَنْ يُدْعَى بِكُمْ - إِنَّ الزَّاهِدِينَ فِي الدُّنْيَا تَبْكِي قُلُوبُهُمْ وإِنْ ضَحِكُوا - ويَشْتَدُّ حُزْنُهُمْ وإِنْ فَرِحُوا - ويَكْثُرُ مَقْتُهُمْ أَنْفُسَهُمْ وإِنِ اغْتَبَطُوا بِمَا رُزِقُوا - قَدْ غَابَ عَنْ قُلُوبِكُمْ ذِكْرُ الآجَالِ - وحَضَرَتْكُمْ كَوَاذِبُ الآمَالِ - فَصَارَتِ الدُّنْيَا أَمْلَكَ بِكُمْ مِنَ الآخِرَةِ - والْعَاجِلَةُ أَذْهَبَ بِكُمْ مِنَ الآجِلَةِ - وإِنَّمَا أَنْتُمْ إِخْوَانٌ عَلَى دِينِ اللَّه - مَا فَرَّقَ بَيْنَكُمْ إِلَّا خُبْثُ السَّرَائِرِ - وسُوءُ الضَّمَائِرِ - فَلَا تَوَازَرُونَ ولَا تَنَاصَحُونَ - ولَا تَبَاذَلُونَ ولَا تَوَادُّونَ - مَا بَالُكُمْ تَفْرَحُونَ بِالْيَسِيرِ مِنَ الدُّنْيَا تُدْرِكُونَه

اور نہ اس نے اپنے اولیاء کے لئے مخصوص کیا ہے اور نہ اپنے دشمنوں کواس سے محروم رکھا ہے۔اس کا خیر بہت کم ہے اور اس کا شر ہر وقت حاضر ہے۔اس کاجمع کیا ہوا ختم ہو جانے والا ہے اور اس کاملک چھن جانے والا ہے اور اس کے آباد کوایک دن خراب ہو جانا ہے۔بھلا اس گھرمیں کیا خوبی ہے جو کمزور عمارت کی طرح گر جائے اور اس عمر میں کیا بھلائی ہے جو زاد راہ کی طرح ختم ہو جائے اوراس زندگی میں کیا حسن ہے جو چلتے پھرتے تمام ہو جائے۔

دیکھواپنے مطلوبہ امورمیں فرائض الہیہ کو بھی شامل کرلو اور اسی کے حق کے ادا کرنے کی توفیق کا مطالبہ کرو۔اپنے کانوں کو موت کی آواز سنا دو قبل اس کے کہ تمہیں بلا لیا جائے۔دنیا میں زاہدوں کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ خوش بھی ہوتے ہیںتوان کا دل روتا رہتا ہے۔اوروہ ہنستے بھی ہیں توان کا رنج و اندوہ شدید ہوتا ہے۔وہ خود اپنے نفس سے بیزار رہتے ہیں چاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں۔افسوس تمہارے دلوں سے موت کی یاد نکل گئی ہے اورجھوٹی امیدوں نے ان پرقبضہ کرلیا ہے۔اب دنیا کا اختیار تمہارے اوپرآخرت سے زیادہ ہے اوروہ عاقبت سے زیادہ تمہیں کھینچ رہی ہے۔تم دین خدا کے اعتبارسے بھائی بھائی تھے۔لیکن تمہیں باطن کی خباثت اور ضمیر کی خرابی نے الگ الگ کردیا ہے کہ اب نہ کسی کا بوجھ بٹاتے ہو۔نہ نصیحت کرتے ہو۔نہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہو اورنہ ایک دوسرے سے واقعاً محبت کرتے ہو۔آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ معمولی سی دنیا کو پاکرخوش ہو جاتے ہو

۲۰۴

ولَا يَحْزُنُكُمُ الْكَثِيرُ مِنَ الآخِرَةِ تُحْرَمُونَه - ويُقْلِقُكُمُ الْيَسِيرُ مِنَ الدُّنْيَا يَفُوتُكُمْ - حَتَّى يَتَبَيَّنَ ذَلِكَ فِي وُجُوهِكُمْ - وقِلَّةِ صَبْرِكُمْ عَمَّا زُوِيَ مِنْهَا عَنْكُمْ - كَأَنَّهَا دَارُ مُقَامِكُمْ وكَأَنَّ مَتَاعَهَا بَاقٍ عَلَيْكُمْ - ومَا يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ أَنْ يَسْتَقْبِلَ أَخَاه بِمَا يَخَافُ مِنْ عَيْبِه - إِلَّا مَخَافَةُ أَنْ يَسْتَقْبِلَه بِمِثْلِه - قَدْ تَصَافَيْتُمْ عَلَى رَفْضِ الآجِلِ وحُبِّ الْعَاجِلِ - وصَارَ دِينُ أَحَدِكُمْ لُعْقَةً عَلَى لِسَانِه - صَنِيعَ مَنْ قَدْ فَرَغَ مِنْ عَمَلِه وأَحْرَزَ رِضَى سَيِّدِه.

(۱۱۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها مواعظ للناس

الْحَمْدُ لِلَّه الْوَاصِلِ الْحَمْدَ بِالنِّعَمِ - والنِّعَمَ بِالشُّكْرِ نَحْمَدُه عَلَى آلَائِه - كَمَا نَحْمَدُه عَلَى بَلَائِه - ونَسْتَعِينُه عَلَى هَذِه النُّفُوسِ الْبِطَاءِ - عَمَّا أُمِرَتْ بِه - السِّرَاعِ إِلَى مَا نُهِيَتْ عَنْه - ونَسْتَغْفِرُه مِمَّا أَحَاطَ بِه عِلْمُه

اور مکمل آخرت سے محروم ہو کر رنجیدہ نہیں ہوتے ہو۔تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے نکل جائے تو پریشان ہوجاتے ہو اور اس کا اثر تمہارے چہروں سے ظاہر ہو جاتا ہے اوراس کی علیحدگی پر صبر نہیں کرپاتے ہو جیسے وہی تمہاری منزل ہے اور جیسے اس کا سرمایہ واقعی باقی رہنے والا ہے۔تمہاری حالت یہ ہے کہ کوئی شخص بھی دوسرے کے عیب کے اظہار سے باز نہیں آتا ہے مگر صرف اس خوف سے کہ وہ بھی اسی طرح پیشآئے گا۔تم سبنے آخرت کونظر انداز کرنے اوردنیا کی محبت پر اتحاد کرلیا ہے اور ہر ایک کا دین زبان کی چٹنی بن کر رہ گیاہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب نے اپناعمل مکمل کرلیا ہے اور اپنے مالک کو واقعاً خوش کرلیا ہے۔

(۱۱۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کی نصیحت کا سامان فراہم کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے حمد کو نعمتوں سے اورنعمتوں کو شکریہ سے ملا دیا ہے۔ہم نعمتوں میں اس کی حمد اسی طرح کرتے ہیں 'جس طرح مصیبتوں میں کرتے ہیں اوراس سے اس نفس کےمقابلہ کے لئے مدد کے طلب گار ہیں جو اوامر کی تعمیل میں سستی کرتا ہے اور نواہی کی طرف تیزی سے بڑھ جاتا ہے۔ان تمام غلطیوں کے لئے استغفار کرتے ہیں جنہیں اس کے علم نے احاطہ کررکھا ہے

۲۰۵

وأَحْصَاه كِتَابُه عِلْمٌ غَيْرُ قَاصِرٍ - وكِتَابٌ غَيْرُ مُغَادِرٍ - ونُؤْمِنُ بِه إِيمَانَ مَنْ عَايَنَ الْغُيُوبَ - ووَقَفَ عَلَى الْمَوْعُودِ - إِيمَاناً نَفَى إِخْلَاصُه الشِّرْكَ ويَقِينُه الشَّكَّ - ونَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وَحْدَه لَا شَرِيكَ لَه - وأَنَّ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَبْدُه ورَسُولُه - شَهَادَتَيْنِ تُصْعِدَانِ الْقَوْلَ وتَرْفَعَانِ الْعَمَلَ - لَا يَخِفُّ مِيزَانٌ تُوضَعَانِ فِيه - ولَا يَثْقُلُ مِيزَانٌ تُرْفَعَانِ عَنْه.

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - الَّتِي هِيَ الزَّادُ وبِهَا الْمَعَاذُ - زَادٌ مُبْلِغٌ ومَعَاذٌ مُنْجِحٌ - دَعَا إِلَيْهَا أَسْمَعُ دَاعٍ - ووَعَاهَا خَيْرُ وَاعٍ - فَأَسْمَعَ دَاعِيهَا وفَازَ وَاعِيهَا.

عِبَادَ اللَّه إِنَّ تَقْوَى اللَّه حَمَتْ أَوْلِيَاءَ اللَّه مَحَارِمَه - وأَلْزَمَتْ قُلُوبَهُمْ مَخَافَتَه - حَتَّى أَسْهَرَتْ لَيَالِيَهُمْ وأَظْمَأَتْ هَوَاجِرَهُمْ - فَأَخَذُوا الرَّاحَةَ بِالنَّصَبِ والرِّيَّ بِالظَّمَإِ

اور اس کی کتاب نے جمع کر رکھا ہے۔اس کا علم قاصر نہیں ہے اور اس کی کتاب کوئی چیز چھوڑنے والی نہیں ہے۔ہم اس پر اسی طرح ایمان لائے ہیں جیسے غیب کا مشاہدہ کرلیا ہو اوروعدہ سے آگاہی حاصل کرلی ہو۔ہمارے اس ایمان کے اخلاص نے شرک کی نفی کی ہے اور اس کے یقین نے شک کا ازالہ کیا ہے۔ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں۔یہ دونوں شہادتیں وہ ہیں جو اقوال کو بلندی دیتی ہیں اور اعمال کو رفعت عطا کرتی ہیں۔جہاں یہ رکھ دی جائیں وہ پلہ ہلکا نہیں ہوتا ہے اور جہاں سے انہیں اٹھا لیا جائے اس پلہ میں کوئی وزن نہیں رہ جاتا ہے۔

اللہ کے بندو! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارے لئے زاد راہ ہے اور اسی پر آخرت کا دارومدار ہے۔یہی زاد راہ منزل تک پہنچانے والا ہے اوریہی پناہ گاہ کام آنے والی ہے۔اسی کی طرف سب سے بہتر داعی نے دعوت دے دی ہے اوراسے سب سے بہتر سننے والے نے محفوظ کرلیا ہے۔چنانچہ اس کے سنانے والے نے سنادیا اوراس کے محفوظ کرنے والے نے کامیابی حاصل کرلی۔ اللہ کے بندو!اسی تقویٰ الٰہی نے اولیاء خداکو محرمات سے بچا کر رکھا ہے اوران کے دلوں میں خوف خدا کو لازم کردیا ہے یہاں تک کہ ان کی راتیں بیدار کی نذر ہوگئیں اوران کے یہ تپتے ہوئے دن پیاس میں گزر گئے۔ انہوں نے راحت کو تکلیف کے عوض اورسیرابی کو پیاس کے ذریعہ حاصل کیا

۲۰۶

واسْتَقْرَبُوا الأَجَلَ فَبَادَرُوا الْعَمَلَ - وكَذَّبُوا الأَمَلَ فَلَاحَظُوا الأَجَلَ - ثُمَّ إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ فَنَاءٍ وعَنَاءٍ وغِيَرٍ وعِبَرٍ - فَمِنَ الْفَنَاءِ أَنَّ الدَّهْرَ مُوتِرٌ قَوْسَه - لَا تُخْطِئُ سِهَامُه - ولَا تُؤْسَى جِرَاحُه يَرْمِي الْحَيَّ بِالْمَوْتِ - والصَّحِيحَ بِالسَّقَمِ - والنَّاجِيَ بِالْعَطَبِ - آكِلٌ لَا يَشْبَعُ وشَارِبٌ لَا يَنْقَعُ - ومِنَ الْعَنَاءِ أَنَّ الْمَرْءَ يَجْمَعُ مَا لَا يَأْكُلُ - ويَبْنِي مَا لَا يَسْكُنُ - ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى اللَّه تَعَالَى - لَا مَالًا حَمَلَ ولَا بِنَاءً نَقَلَ - ومِنْ غِيَرِهَا أَنَّكَ تَرَى الْمَرْحُومَ مَغْبُوطاً - والْمَغْبُوطَ مَرْحُوماً - لَيْسَ ذَلِكَ إِلَّا نَعِيماً زَلَّ وبُؤْساً نَزَلَ - ومِنْ عِبَرِهَا أَنَّ الْمَرْءَ يُشْرِفُ عَلَى أَمَلِه - فَيَقْتَطِعُه حُضُورُ أَجَلِه - فَلَا أَمَلٌ يُدْرَكُ - ولَا مُؤَمَّلٌ يُتْرَكُ - فَسُبْحَانَ اللَّه مَا أَعَزَّ سُرُورَهَا - وأَظْمَأَ رِيَّهَا وأَضْحَى فَيْئَهَا - لَا جَاءٍ يُرَدُّ

ہے۔وہ موت کو قریب تر سمجھتے ہیں تو تیز عمل کرتے ہیں اور انہوں نے امیدوں کو جھٹلا دیا ہے تو موت کونگاہ میں رکھا ہے۔پھریہ دنیا تو بہرحال فنا اور تکلیف ' تغیر اورعبرت کامقام ہے۔فنا ہی کانتیجہ ہے کہ زمانہ ہر وقت اپنی کمان چڑھائے رہتا ہے کہ اس کے تیر خطانہیں کرتے ہیں اور اس کے زخموں کا علاج نہیں ہو پاتا ہے۔وہ زندہ کو موت سے ' صحت مند کو بیماری سے اورنجات پانے والے کو ہلاکت سے مار دیتا ہے۔اس کاکھانے والا سیر نہیں ہوتا ہے اور پینے والا سیراب نہیں ہوتا ہے۔اور اس کے رنج و تعب کا اثر یہ ہے کہ انسان اپنے کھانے کا سامان فراہم کرتا ہے ' رہنے کے لئے مکان بناتا ہے اور اس کے بعداچانک خدا کی بارگاہ کی طرف چل دیتا ہے۔نہ مال ساتھ لے جاتا ہے اور نہ مکان منتقل ہو پاتا ہے۔

اس کے تغیرات کا حال یہ ہے کہ جسے قابل رحم دیکھا تھا وہ قابل رشک ہو جاتا ہے اور جسے قابل رشک دیکھا تھا وہ قابل رحم ہو جاتا ہے۔گویا ایک نعمت ہے جو زائل ہوگئی اور ایک بلاء ہے جو نازل ہوگئی۔اس کی عبرتوں کی مثال یہ ہے کہ انسان اپنی امیدوں تک پہنچنے والا ہی ہوتا ہے کہ موت اس کے سلسلہ کو قطع کردیتی ہے اور نہ کوئی امید حاصل ہوتی ہے اور نہ امید کرنے والا ہی چھوڑاجاتا ہے۔اے سبحان اللہ! اس دنیا کی خوشی بھی کیا دھوکہ ہے اور اس کی سیرابی بھی کیسی تشنہ کامی ہے اور اس کے سایہ میں بھی کس قدردھوپ ہے۔نہ یہاں آنے والی موت کو واپس کیا جا سکتا ہے

۲۰۷

ولَا مَاضٍ يَرْتَدُّ - فَسُبْحَانَ اللَّه - مَا أَقْرَبَ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ لِلَحَاقِه بِه - وأَبْعَدَ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ لِانْقِطَاعِه عَنْه!

إِنَّه لَيْسَ شَيْءٌ بِشَرٍّ مِنَ الشَّرِّ إِلَّا عِقَابُه - ولَيْسَ شَيْءٌ بِخَيْرٍ مِنَ الْخَيْرِ إِلَّا ثَوَابُه - وكُلُّ شَيْءٍ مِنَ الدُّنْيَا سَمَاعُه أَعْظَمُ مِنْ عِيَانِه - وكُلُّ شَيْءٍ مِنَ الآخِرَةِ عِيَانُه أَعْظَمُ مِنْ سَمَاعِه - فَلْيَكْفِكُمْ مِنَ الْعِيَانِ السَّمَاعُ - ومِنَ الْغَيْبِ الْخَبَرُ - واعْلَمُوا أَنَّ مَا نَقَصَ مِنَ الدُّنْيَا - وزَادَ فِي الآخِرَةِ - خَيْرٌ مِمَّا نَقَصَ مِنَ الآخِرَةِ - وزَادَ فِي الدُّنْيَا - فَكَمْ مِنْ مَنْقُوصٍ رَابِحٍ ومَزِيدٍ خَاسِرٍ - إِنَّ الَّذِي أُمِرْتُمْ بِه أَوْسَعُ مِنَ الَّذِي نُهِيتُمْ عَنْه - ومَا أُحِلَّ لَكُمْ أَكْثَرُ مِمَّا حُرِّمَ عَلَيْكُمْ - فَذَرُوا مَا قَلَّ لِمَا كَثُرَ ومَا ضَاقَ لِمَا اتَّسَعَ - قَدْ تَكَفَّلَ لَكُمْ بِالرِّزْقِ - وأُمِرْتُمْ بِالْعَمَلِ - فَلَا يَكُونَنَّ الْمَضْمُونُ لَكُمْ طَلَبُه - أَوْلَى بِكُمْ مِنَ الْمَفْرُوضِ عَلَيْكُمْ عَمَلُه - مَعَ أَنَّه واللَّه لَقَدِ اعْتَرَضَ الشَّكُّ - ودَخِلَ الْيَقِينُ - حَتَّى كَأَنَّ الَّذِي ضُمِنَ لَكُمْ قَدْ فُرِضَ عَلَيْكُمْ

اور نہ کسی جانے والے کو پلٹایا جاسکتا ہے۔سبحان اللہ زندہ مردہ سے کس قدر جلدی ملحق ہو کر قریب تر ہو جاتا ہے اورمردہ زندہ سے رشتہ توڑ کر کس قدر دور ہو جاتا ہے۔(یاد رکھو) شر سے بدتر کوئی شے اس کے عذا کے علاوہ نہیں ہے اورخیر سے بہتر کوئی شے اس کے ثواب کے سوا نہیں ہے۔دنیا میں ہرش ے کا سننا اس کے دیکھنے سے عظیم تر ہوتا ہے اورآخرت میں ہر شے کا دیکھنا اس کے سننے سے بڑھ چڑھ کر ہوتا ہے لہٰذا تمہارے لئے دیکھنے کے بجائے سننا اور غیب کے مشاہدہ کے بجائے خبر ہی کو کافی ہو جانا چاہیے۔یاد رکھو کہ دنیا میں کسی شے کا کم ہونا اور آخرت میں زیادہ ہونا اس سے بہتر ہے کہ دنیا میں زیادہ ہو اورآخرتمیں کم ہو جائے کہ کتنے ہی کمی والے فائدہ میں رہتے ہیں اور کتنے ہی زیادتی والے گھاٹے میں رہ جاتے ہیں۔بیشک جن چیزوں کا تمہیں حکم دیا گیاہے ان میں زیادہ وسعت ہے یہ نسبت ان چیزوں کے جن سے روکا گیا ہے اور جنہیں حلالا کیا گیا ہے وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں جنہیں حرام قراردیا گیا ہے لہٰذا قلیل کو کثیر کے لئے اور تنگی کو وسعت کی خاطرچھوڑ دو۔پروردگار نے تمہارے رزق کی ذمہ داری لی ہے ۔اور عمل کرنے کاحکم دیا ہے لہٰذا ایسا نہ ہو کہ جس کی ضمانت لی گئی ہے اس کی طلب اس سے زیادہ ہو جائے جس کو فرض کیا گیا ہے۔خدا گواہ ہے کہ تمہارے حالات کو دیکھ کر یہ شبہ ہونے لگتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ شائد جس کی ضمانت لی گئی ہے وہی تم پرواجب کیا گیا ہے

۲۰۸

وكَأَنَّ الَّذِي فُرِضَ عَلَيْكُمْ قَدْ وُضِعَ عَنْكُمْ - فَبَادِرُوا الْعَمَلَ وخَافُوا بَغْتَةَ الأَجَلِ - فَإِنَّه لَا يُرْجَى مِنْ رَجْعَةِ الْعُمُرِ - مَا يُرْجَى مِنْ رَجْعَةِ الرِّزْقِ - مَا فَاتَ الْيَوْمَ مِنَ الرِّزْقِ رُجِيَ غَداً زِيَادَتُه - ومَا فَاتَ أَمْسِ مِنَ الْعُمُرِ - لَمْ يُرْجَ الْيَوْمَ رَجْعَتُه - الرَّجَاءُ مَعَ الْجَائِي والْيَأْسُ مَعَ الْمَاضِي - فَـ( اتَّقُوا الله حَقَّ تُقاتِه - ولا تَمُوتُنَّ إِلَّا وأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ) .

(۱۱۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الاستسقاء

اللَّهُمَّ قَدِ انْصَاحَتْ جِبَالُنَا - واغْبَرَّتْ أَرْضُنَا وهَامَتْ دَوَابُّنَا - وتَحَيَّرَتْ فِي مَرَابِضِهَا - وعَجَّتْ عَجِيجَ الثَّكَالَى عَلَى أَوْلَادِهَا - ومَلَّتِ التَّرَدُّدَ فِي مَرَاتِعِهَا - والْحَنِينَ إِلَى مَوَارِدِهَا - اللَّهُمَّ فَارْحَمْ أَنِينَ الآنَّةِ - وحَنِينَ الْحَانَّةِ - اللَّهُمَّ فَارْحَمْ حَيْرَتَهَا فِي مَذَاهِبِهَا - وأَنِينَهَا فِي مَوَالِجِهَا - اللَّهُمَّ خَرَجْنَا إِلَيْكَ - حِينَ اعْتَكَرَتْ عَلَيْنَا حَدَابِيرُ السِّنِينَ -

اور جس کاحکم دیا گیا ہے اسی کو ساقط کردیا گیا ہے۔خدا را عمل کی طرف سبقت کرو اور موت کے اچانک وارد ہو جانے سے ڈرواس لئے کہ موت کے واپس ہونے کی وہ امید نہیں ہے جس قدر رزق کے پلٹ کرآجانے کی ہے۔جو رزق آج ہاتھ سے نکل گیا ہے اس کے کل اضافہ کا امکان ہے لیکن جو عمرآج نکل گئی ہے اس کے کل واپس آنے کا بھی امکان نہیں ہے۔امید آنے والے کی ہو سکتی ہے جانے والے کی نہیں اس سے تو مایوسی ہی ہو سکتی ہے ''اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کاحق ہے اور خبردار اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک واقعی مسلمان نہ ہوجائو''۔

(۱۱۵)

(آپ کے خطبہ کا ایک حصہ)

(طلب بارش کے سلسلہ میں )

خدایا! ہمارے پہاڑوں کاسبزہ خشک ہوگیا ہے اور ہماری زمین پر خاک اڑ رہی ہے۔ہمارے جانور پیاسے ہیں اور اپنی منزل کی تلاش میں سر گرداں ہیں اور اپنے بچوں کے حق میں اس طرح فریادی ہیں جیسے زن پسر مردہ ۔ سب چراگاہوں کی طرف پھیرے لگانے اورتالابوں کی طرف والہانہ طور پردوڑنے سے عاجزآگئے ہیں۔خدایا! اب ان کی فریادی بکریوں اور اشتیاق آمیز پکارنے والی اونٹنیوں پر رحم فرما۔خدایا!ان کی راہوں میں پریشانی اور منزلوں پر چیخ و پکار پر رحم فرما۔خدایا! ہم اس وقت گھرسے نکل کرآئے ہیں جب قحط سالی کے مارے ہوئے لاغراونٹ ہماری طرف پلٹ پڑے ہیں

۲۰۹

وأَخْلَفَتْنَا مَخَايِلُ الْجُودِ - فَكُنْتَ الرَّجَاءَ لِلْمُبْتَئِسِ - والْبَلَاغَ لِلْمُلْتَمِسِ نَدْعُوكَ حِينَ قَنَطَ الأَنَامُ - ومُنِعَ الْغَمَامُ وهَلَكَ السَّوَامُ - أَلَّا تُؤَاخِذَنَا بِأَعْمَالِنَا - ولَا تَأْخُذَنَا بِذُنُوبِنَا - وانْشُرْ عَلَيْنَا رَحْمَتَكَ بِالسَّحَابِ الْمُنْبَعِقِ - والرَّبِيعِ الْمُغْدِقِ - والنَّبَاتِ الْمُونِقِ سَحّاً وَابِلًا - تُحْيِي بِه مَا قَدْ مَاتَ - وتَرُدُّ بِه مَا قَدْ فَاتَ - اللَّهُمَّ سُقْيَا مِنْكَ مُحْيِيَةً مُرْوِيَةً - تَامَّةً عَامَّةً طَيِّبَةً مُبَارَكَةً - هَنِيئَةً مَرِيعَةً - زَاكِياً نَبْتُهَا ثَامِراً فَرْعُهَا نَاضِراً وَرَقُهَا - تُنْعِشُ بِهَا الضَّعِيفَ مِنْ عِبَادِكَ - وتُحْيِي بِهَا الْمَيِّتَ مِنْ بِلَادِكَ - اللَّهُمَّ سُقْيَا مِنْكَ تُعْشِبُ بِهَا نِجَادُنَا - وتَجْرِي بِهَا وِهَادُنَا - ويُخْصِبُ بِهَا جَنَابُنَا - وتُقْبِلُ بِهَا ثِمَارُنَا - وتَعِيشُ بِهَا مَوَاشِينَا - وتَنْدَى بِهَا أَقَاصِينَا - وتَسْتَعِينُ بِهَا ضَوَاحِينَا - مِنْ بَرَكَاتِكَ الْوَاسِعَةِ - وعَطَايَاكَ الْجَزِيلَةِ - عَلَى بَرِيَّتِكَ الْمُرْمِلَةِ ووَحْشِكَ الْمُهْمَلَةِ - وأَنْزِلْ عَلَيْنَا سَمَاءً مُخْضِلَةً مِدْرَاراً هَاطِلَةً - يُدَافِعُ الْوَدْقُ مِنْهَا الْوَدْقَ - ويَحْفِزُ الْقَطْرُ مِنْهَا الْقَطْرَ - غَيْرَ خُلَّبٍ بَرْقُهَا -

اور جن سے کرم کی امید تھی وہ بادل آآکر چلے گئے ہیں۔اب درد کے ماروں کا تو ہی آسراہے اور التجا کرنے والوں کا تو ہی سہاراہے۔ہم اس وقت دعا کر رہے ہیں جب لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔بدلوں کے خیر کو روک دیا گیا ہے اور جانور ہلاک ہو رہے ہیں تو خدایا ہمارے اعمال کی بنا پر ہمارا مواخذہ نہ کرنا۔اورہمیں ہمارے گناہوں کی گرفت میں مت لے لینا۔اپنے دامن رحمت کو ہمارے اوپر پھیلا دے برسنے والے بادل ' موسلا دھار برسات اور حسین سبزہ کے ذریعہ۔ایسی برستا جس سے مردہ زمینیں زندہ ہوجائیں اورگئی ہوئی بہار واپس آجائے۔خدایا! ایسی سیرابی عطا فرما جو زندہ کرنے والی' سیراب بنانے والی۔کامل و شامل۔ پاکیزہ و مبارک ' خوش گوار و شاداب ہو جس کی برکت سے نباتات پھلنے پھولنے لگیں۔شاخیں بار آورہو جائیںپتے ہر ے ہو جائیں ۔کمزور بندوں کو اٹھنے کاسہارا مل جائے ۔مردہ زمینوں کو زندگی عطا ہو جائے۔خدایا! ایسی سیرابی عطا فرما جس سے ٹیلے سبزہ پوش ہو جائیں۔نہریں جاری ہو جائیں۔آس پاس کے علاقے شاداب ہو جائیں۔پھل نکلنے لگیں۔جانور جی اٹھیں۔دور دراز کے علاقہ بھی تر ہو جائیں اور کھلے میدان بھی تیری اس وسیع برکت اورعظیم عطا سے مستفیض ہو جائیں جو تیری تباہ حال مخلوق اورآوارہ گرد جانوروں پر ہے۔ہم پر ایسی بارش نازل فرما جو پانی سے شرابور کر دینے والی۔ موسلادھارمسلسل برسنے والی ہو جس میں قطرات ' قطرات کوڈھکیل رہے ہوں اور بوندیں ' بوندوں کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہوں۔ نہ اس کی بجلی دھوکہ دینے والی ہو

۲۱۰

ولَا جَهَامٍ عَارِضُهَا - ولَا قَزَعٍ رَبَابُهَا ولَا شَفَّانٍ ذِهَابُهَا - حَتَّى يُخْصِبَ لإِمْرَاعِهَا الْمُجْدِبُونَ - ويَحْيَا بِبَرَكَتِهَا الْمُسْنِتُونَ - فَإِنَّكَ تُنْزِلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا - وتَنْشُرُ رَحْمَتَكَ وأَنْتَ( الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ ) .

تفسير ما في هذه الخطبة من الغريب

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه قولهعليه‌السلام - انصاحت جبالنا - أي تشققت من المحول - يقال انصاح الثوب إذا انشق - ويقال أيضا انصاح النبت - وصاح وصوح إذا جف ويبس كله بمعنى -. وقوله وهامت دوابُّنا أي عطشت - والهُيام العطش -. وقوله حدابير السنين جمع حِدْبار - وهي الناقة التي أنضاها السير - فشبه بها السنة التي فشا فيها الجدب - قال ذو الرمة:

حدابير ما تنفك إلا مناخة

على الخسف أو نرمي بها بلدا قفرا

- وقوله ولا قزع ربابها - القزع القطع الصغار المتفرقة من السحاب -. وقوله ولا شَفَّان ذهابها - فإن تقديره ولا ذات شَفَّان ذهابها - والشَفَّان الريح الباردة - والذهاب الأمطار اللينة - فحذف ذات لعلم السامع به

اور نہ اس کے بادل پانی سے خالی ہوں۔نہ اس کے ابر کے سفید ٹکڑے بکھرے ہوں اور نہ صرف ٹھنڈے جھونکوں کی بوندا باندی ہو۔ایسی بارش ہو کہ قحط کے مارے ہوئے اس کی سر سبز یوں سے خوشحال ہوجائیں اور خشک سالی کے شکار اس کی برکت سے جی اٹھیں۔اس لئے کہ تو ہی مایوسی کے بعد پانی برسانے والا اور دامان رحمت کا پھیلانے والا ہے اور تو ہی قابل حمدو ستائش ' سر پرست و مدد گار ہے۔

سید رضی : انصاحت جبالنا:یعنی پہاڑوں میں خشک سالی سے شگاف پڑ گئے ہیں کہ انصاح الثوب کپڑے کے پھٹ جانے کو کہا جاتا ہے۔یا اس کے معنی گھاس کے خشک ہو جانے کے ہیں کہ صاح ۔انصاح ایسے مواقع پر بھی استعمال ہوتا ہے ۔

ھامت دوابنا: یعنی پیاسے ہیں اور ہیام یہاں عطش کے معنی میں ہے۔

حدابیرالسنین:حدبار کی جمع ہے۔وہ اونٹ جسے سفر لاغر بنادے۔گویا کہ قحط زدہ سال کو اس اونٹ سے تشبیہ دی گئی ہے جیسا کہ ذوا لرمہ شاعرنے کہا تھا:

(یہ لاغر اور کمزوراونٹنیاں ہیں جو سختی جھیل کربیٹھ گئی ہیں یا پھربےآب و گیا ہ صحرا میں لے جانے پرچلی جاتی ہیں)

لاتزع ربابھا۔قزع۔بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے۔

لا شفان ذھابھا ۔اصل میں '' ذات شفان'' ہے۔شفان ٹھنڈی ہوا کو کہا جاتا ہے اور ذہاب ہلکی پھوار کا نام ہے یہاں لفظ '' ذات '' حذف ہوگیا ہے۔

۲۱۱

(۱۱۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها ينصح أصحابه

أَرْسَلَه دَاعِياً إِلَى الْحَقِّ - وشَاهِداً عَلَى الْخَلْقِ - فَبَلَّغَ رِسَالَاتِ رَبِّه - غَيْرَ وَانٍ ولَا مُقَصِّرٍ - وجَاهَدَ فِي اللَّه أَعْدَاءَه - غَيْرَ وَاهِنٍ ولَا مُعَذِّرٍ - إِمَامُ مَنِ اتَّقَى وبَصَرُ مَنِ اهْتَدَى.مِنْهَا ولَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ مِمَّا طُوِيَ عَنْكُمْ غَيْبُه - إِذاً لَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ - تَبْكُونَ عَلَى أَعْمَالِكُمْ - وتَلْتَدِمُونَ عَلَى أَنْفُسِكُمْ - ولَتَرَكْتُمْ أَمْوَالَكُمْ لَا حَارِسَ لَهَا - ولَا خَالِفَ عَلَيْهَا - ولَهَمَّتْ كُلَّ امْرِئٍ مِنْكُمْ نَفْسُه - لَا يَلْتَفِتُ إِلَى غَيْرِهَا - ولَكِنَّكُمْ نَسِيتُمْ مَا

ذُكِّرْتُمْ - وأَمِنْتُمْ مَا حُذِّرْتُمْ - فَتَاه عَنْكُمْ رَأْيُكُمْ - وتَشَتَّتَ عَلَيْكُمْ أَمْرُكُمْ - ولَوَدِدْتُ أَنَّ اللَّه فَرَّقَ بَيْنِي وبَيْنَكُمْ - وأَلْحَقَنِي بِمَنْ

(۱۱۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اپنے اصحاب کو نصیحت فرمائی ہے)

اللہ نے پیغمبر (ص) کو اسلام کی طرف دعوت دینے والا اور مخلوقات کے اعمال کا گواہ بنا کربھیجا تو آپ نے پیغام الٰہی کومکمل طور سے پہچا دیا۔نہ کوئی سستی کی اور نہ کوئی کوتاہی۔دشمنان خدا سے جہاد کیا اور اس راہمیں نہ کوئی کمزوری دکھلائی اور نہ کسی حیلہ اور بہانہ کا سہارا لیا۔ آپ متقین کے امام اور طلب گار ان ہدایت کے لئے آنکھوں کی بصارت تھے۔اگرتم ان تمام باتوں کو جان لیتے جو تم سے مخفی رکھی گئی ہیں اور جن کو میں جانتا ہوں تو صحرائوں میں نکل جاتے۔اپنے اعمال پر گریہ کرتے اور اپنے کئے پر سروسینہ پیٹتے اور سارے اموال کو اس طرح چھوڑ کر چل دیتے کہ نہ ان کا کوئی نگہبان ہوتا اور نہ وارث اور ہر شخص کو صرف اپنی ذات کی فکر ہوتی۔کوئی دوسرے کی طرف رخ بھی نہ کرتا۔لیکن افسوس کہ تم نے اس سبق کو بالکل بھلا دیا جو تمہیں یاد کرایا گیا تھا اور ان ہولناک مناظر کی طرف سے یکسر مطمئن ہوگئے جن سے ڈرایا گیا تھا۔تو تمہاری رائے بھٹک گئی اورتمہارے امور میں انتشار پیدا ہوگیا اور میں یہ چاہنے لگا کہ کاش اللہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دیتا اور مجھے ان لوگوں(۱) سے ملا دیتا جو

(۱) امیر المومنین کی زندگی کا عظیم ترین المیہ ہے کہ آنکھ کھولنے کے بعد سے ۳۰ سال تک رسول اکرم (ص) کے ساتھ گزارے۔اس کے بعد چند مخلص اصحاب کرام کا ساتھ رہا اس کے بعد جب زمانہ نے پلٹا کھایا اوراقتدارقدموں میں آیا تو ایک طرف ناکثین' قاسطین اورخوارج کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری طرف اپنے گرد کوفہ کے بیوفائوں کا مجمع لگ گیا ظاہر ہے کہ ایسا شخص اس حال کو دیکھ کراس ماضی کی تمنا نہ کرے تو اور کیا کرے اور اس کے ذہن سے اپنا ماضی کس طرح نکل جائے۔

۲۱۲

هُوَ أَحَقُّ بِي مِنْكُمْ - قَوْمٌ واللَّه مَيَامِينُ الرَّأْيِ - مَرَاجِيحُ الْحِلْمِ - مَقَاوِيلُ بِالْحَقِّ - مَتَارِيكُ لِلْبَغْيِ - مَضَوْا قُدُماً عَلَى الطَّرِيقَةِ - وأَوْجَفُوا عَلَى الْمَحَجَّةِ - فَظَفِرُوا بِالْعُقْبَى الدَّائِمَةِ - والْكَرَامَةِ الْبَارِدَةِ - أَمَا واللَّه لَيُسَلَّطَنَّ عَلَيْكُمْ - غُلَامُ ثَقِيفٍ الذَّيَّالُ الْمَيَّالُ - يَأْكُلُ خَضِرَتَكُمْ - ويُذِيبُ شَحْمَتَكُمْ - إِيه أَبَا وَذَحَةَ!

قال الشريف - الوذحة الخنفساء - وهذا القول يومئ به إلى الحجاج - وله مع الوذحة حديث - ليس هذا موضع ذكره.

(۱۱۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يوبخ البخلاء بالمال والنفس

فَلَا أَمْوَالَ بَذَلْتُمُوهَا لِلَّذِي رَزَقَهَا - ولَا أَنْفُسَ خَاطَرْتُمْ بِهَا لِلَّذِي خَلَقَهَا

میرے لئے زیادہ سزا تھے۔وہ لوگ جن کی رائے مبارک اور جن کا حلم ٹھوس ہے۔حق کی باتیں کرتے ہیں اور بغاوت و سر کشی سے کنارہ کرنے والے ہیں۔انہوں نے راستہ پر قدم آگے بڑھائے اور راہ راست پرتیزی سے بڑھتے چلے گئے۔جس کے نتیجہ میں دائمی آخرت اور پر سکون کرامت حاصل کرلی۔آگاہ ہو جائو کہ خدا کی قسم تم پروہ نوجوان بنی ثقیف کامسلط کیا جائے گا جس کا قد طویل ہو گا اور وہ لہرا کر چلنے والا ہوگا ۔تمہارے سبزہ کو ہضم کرجائے گا اور تمہاری چربی کوپگھلا دے ۔ہاں ہاں اے ابو وذحہ کچھ اور۔ سید رضی : وذحہ گندہ کیڑے کا نام ۔ابو وذحہ کا اشارہ حجاج کی طرف ہے اور اس کا ایک قصہ ہے جس کے ذکر کا یہ مقام نہیں ہے ''۔اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حجاج نماز پڑھ رہا تھا اس کیڑے نے اسے موقع پا کر کاٹ لیا اوراس کے اثر سے اس کی موت واقع ہوگئی۔

(۱۱۷)

آپ کا ارشاد گرامی

( جس میں جان و مال سے بخل کرنے والوں کی سرزنش کی گئی ہے )

نہ تم نے مال کواس کی راہ میں خرچ کیا جس نے تمہیں عطا کیا تھا اورنہ جان کو اس کی خاطر خطرہ میں ڈالا جس نے اسے پیدا کیا تھا

۲۱۳

تَكْرُمُونَ بِاللَّه عَلَى عِبَادِه - ولَا تُكْرِمُونَ اللَّه فِي عِبَادِه - فَاعْتَبِرُوا بِنُزُولِكُمْ مَنَازِلَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - وانْقِطَاعِكُمْ عَنْ أَوْصَلِ إِخْوَانِكُمْ!

(۱۱۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الصالحين من أصحابه

أَنْتُمُ الأَنْصَارُ عَلَى الْحَقِّ - والإِخْوَانُ فِي الدِّينِ - والْجُنَنُ يَوْمَ الْبَأْسِ - والْبِطَانَةُ دُونَ النَّاسِ - بِكُمْ أَضْرِبُ الْمُدْبِرَ وأَرْجُو طَاعَةَ الْمُقْبِلِ - فَأَعِينُونِي بِمُنَاصَحَةٍ خَلِيَّةٍ مِنَ الْغِشِّ - سَلِيمَةٍ مِنَ الرَّيْبِ - فَوَاللَّه إِنِّي لأَوْلَى النَّاسِ بِالنَّاسِ!

(۱۱۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد جمع الناس - وحضهم على الجهاد - فسكتوا مليا

تم اللہ کے نام پر بندوں(۱) میں عزت حاصل کرتے ہو اور بندوں کے بارے میں اللہ کا احترام نہیں کرتے ہو۔خدارا اس بات سے عبرت حاصل کرو کہ عنقریب انہیں منازل میں نازل ہونے والے ہو جہاں پہلے لوگ نازل ہو چکے ہیں اور قریب ترین بھائیوں سے کٹ کر رہ جانے والے ہو۔

(۱۱۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب میں نیک کردار افراد کے بارے میں )

تم حق کے سلسلہ میں مدد گار اور دین کے معاملہ میں بھائی ہو۔جنگ کے روز میری سپر اور تمام لوگوں میں میرے راز دار ہو۔میں تمہارے ہی ذریعہ رو گردانی کرنے والوں پرتلوار چلاتا ہوں اور راستہ پرآنے والوں کی اطاعت کی امید رکھتا ہوں لہٰذا خدارا میری مدد کرو اس نصیحت کے ذریعہ جس میں ملاوٹ نہ ہو اور کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو کہ خدا کی قسم میں لوگوں کی قیادت کے لئے تمام لوگوں سے اولیٰ اور احق ہوں۔

(۱۱۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے لوگوں کو جمع کرکے جہاد کی تلقین کی اور لوگوں نے سکوت اختیار کرلیا تو فرمایا)

(۱)ایسے لوگ ہر دورمیں دینداروں میں بھی رہے ہیں اور دنیا داروں میں بھی۔جو قوم سے ہر طرح کے احترام کے طلبگار ہوتے ہیں اور قوم کا کسی طرح کا احترام نہیں کرتے ہیں۔لوگوں سے دین خدا کی ٹھیکہ داری کے نام پر ہر طرح کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں ۔اور خود کسی طرح کی قربانی کا ارادہ نہیں کرتے ہیں ان کی نظر میں دین خدا دنیا کمانے کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ در حقیقت بد ترین تجارت ہے کہ انسان دین کی عظیم و شریف دولت کو دے کردنیا جیسی حقیرو ذلیل شے کو حاصل کر نے کامنصوبہ بنائے۔ظاہر ہے کہ جب دینداروں میں ایسے کردار پیدا ہو جاتے ہیں تو دنیا داروں کا کیا ذکر ہے انہیں تو بہرحال اس سے بد تر ہونا چاہیے۔

۲۱۴

فَقَالَعليه‌السلام مَا بَالُكُمْ أَمُخْرَسُونَ أَنْتُمْ - فَقَالَ قَوْمٌ مِنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - إِنْ سِرْتَ سِرْنَا مَعَكَ.

فَقَالَعليه‌السلام - مَا بَالُكُمْ لَا سُدِّدْتُمْ لِرُشْدٍ ولَا هُدِيتُمْ لِقَصْدٍ - أَفِي مِثْلِ هَذَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَخْرُجَ - وإِنَّمَا يَخْرُجُ فِي مِثْلِ هَذَا رَجُلٌ - مِمَّنْ أَرْضَاه مِنْ شُجْعَانِكُمْ - وذَوِي بَأْسِكُمْ - ولَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَدَعَ الْجُنْدَ والْمِصْرَ - وبَيْتَ الْمَالِ وجِبَايَةَ الأَرْضِ - والْقَضَاءَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ - والنَّظَرَ فِي حُقُوقِ الْمُطَالِبِينَ - ثُمَّ أَخْرُجَ فِي كَتِيبَةٍ أَتْبَعُ أُخْرَى - أَتَقَلْقَلُ تَقَلْقُلَ الْقِدْحِ فِي الْجَفِيرِ الْفَارِغِ - وإِنَّمَا أَنَا قُطْبُ الرَّحَى،تَدُورُ عَلَيَّ وأَنَا بِمَكَانِي - فَإِذَا فَارَقْتُه اسْتَحَارَ مَدَارُهَا - واضْطَرَبَ ثِفَالُهَا - هَذَا لَعَمْرُ اللَّه الرَّأْيُ السُّوءُ - واللَّه لَوْ لَا رَجَائِي الشَّهَادَةَ عِنْدَ لِقَائِي الْعَدُوَّ - ولَوْ قَدْ حُمَّ لِي لِقَاؤُه - لَقَرَّبْتُ رِكَابِي - ثُمَّ شَخَصْتُ عَنْكُمْ فَلَا أَطْلُبُكُمْ - مَا اخْتَلَفَ جَنُوبٌ وشَمَالٌ - طَعَّانِينَ عَيَّابِينَ حَيَّادِينَ رَوَّاغِينَ - إِنَّه لَا غَنَاءَ فِي كَثْرَةِ عَدَدِكُمْ

تمہیں کیا ہوگیا ہے۔کیا تم گونگے ہوگئے ہو؟ اس پر ایک جماعت نے کہا کہ یا امیر المومنین ! آپ چلیں۔ہم چلنے کے لئے تیار ہیں۔

فرمایا: تمہیں کیا ہوگیا ہے۔اللہ تمہیں ہدایت کی توفیق نہ دے اورتمہیں سیدھا راستہ نصیب نہ ہو۔کیا ایسے حالات میں میرے لئے مناسب ہے کہ میں ہی نکلوں ؟ ایسے موقع پر اس شخص کونکلنا چاہیے جو تمہارے بہادروں اورجوانمردں میں میرا پسندیدہ ہو اور ہرگز مناسب نہیں ہے کہ میں لشکر ' شہر ' بیت المال ' خراج کی فراہمی ' قضاوت' مطالبات کرنے والوں کے حقوق کی نگرانی کا سارا کام چھوڑ کرنکل جائوں اور لشکر لے کر دوسرے لشکرکا پیچھا کروں اور اس طرح جنبش کرتا رہوں جس طرح خالی ترکش میں تیر ۔میں خلافت کی چکی کا مرکز ہوں جسے میرے گرد چکر لگانا چاہیے کہ اگر میں نے مرکز چھو ڑ دیا تو اس کی گردش کا دائرہ متزلزل ہو جائے گا اور اس کے نیچے کی بساط بھی جا بجا ہو جائے گی۔خدا کی قسم یہ بد ترین رائے ہے اور وہی گواہ ہے کہ اگر دشمن کا مقابلہ کرنے میں مجھے شہادت کی آرزو نہ ہوتی۔جب کہ وہ مقابلہ میرے لئے مقدر ہو چکا ہو۔تو میں اپنی سواریوں کو قریب کرکے ان پر سوار ہو کر تم سے بہت دورنکل جاتا اور پھر تمہیں اس وقت تک یاد بھی نہ کرتا جب تک شمالی اور جنوبی ہوائیں چلتی رہیں۔تم طنزکرنے والے۔عیب لگانے والے۔کنارہ کشی کرنے والے اور صرف شور مچانے والے ہو۔تمہارے اعداد کی کثرت کا کیا فائدہ ہے۔

۲۱۵

مَعَ قِلَّةِ اجْتِمَاعِ قُلُوبِكُمْ - لَقَدْ حَمَلْتُكُمْ عَلَى الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ - الَّتِي لَا يَهْلِكُ عَلَيْهَا إِلَّا هَالِكٌ - مَنِ اسْتَقَامَ فَإِلَى الْجَنَّةِ ومَنْ زَلَّ فَإِلَى النَّارِ!

(۱۲۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يذكر فضله ويعظ الناس

تَاللَّه لَقَدْ عُلِّمْتُ تَبْلِيغَ الرِّسَالَاتِ - وإِتْمَامَ الْعِدَاتِ وتَمَامَ الْكَلِمَاتِ - وعِنْدَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ أَبْوَابُ الْحُكْمِ وضِيَاءُ الأَمْرِ - أَلَا وإِنَّ شَرَائِعَ الدِّينِ وَاحِدَةٌ وسُبُلَه قَاصِدَةٌ - مَنْ أَخَذَ بِهَا لَحِقَ وغَنِمَ - ومَنْ وَقَفَ عَنْهَا ضَلَّ ونَدِمَ - اعْمَلُوا لِيَوْمٍ تُذْخَرُ لَه الذَّخَائِرُ - وتُبْلَى فِيه السَّرَائِرُ - ومَنْ لَا يَنْفَعُه حَاضِرُ لُبِّه - فَعَازِبُه عَنْه أَعْجَزُ وغَائِبُه أَعْوَزُ - واتَّقُوا نَاراً حَرُّهَا شَدِيدٌ - وقَعْرُهَا بَعِيدٌ وحِلْيَتُهَا حَدِيدٌ - وشَرَابُهَا صَدِيدٌ -. أَلَا وإِنَّ اللِّسَانَ الصَّالِحَ - يَجْعَلُه اللَّه تَعَالَى لِلْمَرْءِ فِي النَّاسِ -

جب تمہارے دل یکجا نہیں ہیں۔میں نے تم کو اس واضح راستہ پر چلانا چاہا جس پر چل کر کوئی ہلاک نہیں ہو سکتا ہے مگر یہ کہ ہلاکت اس کا مقدر ہو۔اس راہ پر چلنے والے کی واقعی منزل جنت ہے اور یہاں پھسل جانے والے کا راستہ جہنم ہے۔

(۱۲۰)

آپ کا ارشادگرامی

(جس میں اپنی فضیلت کاذکرکرتے ہوئے لوگوں کو نصیحت فرمائی ہے )

خدا کی قسم! مجھے پیغام الٰہی کے پہنچانے ، وعدہ الٰہی کے پورا کرنے اور کلمات الہیہ کی مکمل وضاحت کرنے کا علم دیا گیا ہے ہم اہل بیت کے پاس حکمتوں کے ابواب اورمسائل کی روشنی موجود ہے۔یاد رکھو۔دین کی تمام شریعتوں کا مقصد ایک ہے اور اس کے سارے راستے درست ہیں۔جوان راستوں کواختیارکرلے گا وہ منزل تک پہنچ بھی جائے گا اورفائدہ بھی حاصل کرلے گا اور جو راستہ ہی میں ٹھہر جائے گاوہ بہک بھی جائے گا اور شرمندہ بھی ہو گا۔عمل کرو اس دن کے لئے جس کے لئے ذخیرے فراہم کئے جاتے ہیں اور جس دن نیتوں کا امتحان ہوگا اور جس کو اپنی موجود عقل فائدہ نہ پہنچائے اسے دوسروں کی غائب اور دور ترین عقل کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔اس آگ سے ڈرو جس کی تپش شدید۔گہرائی بعید۔آرائش حدید اور پینے کی شے صدید ( پیپ) ہے یاد رکھو۔وہ ذکر خیر جو پروردگار کسی انسان کے لئے باقی رکھتا ہے

۲۱۶

خَيْرٌ لَه مِنَ الْمَالِ يُورِثُه مَنْ لَا يَحْمَدُه

(۱۲۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد ليلة الهرير

وقد قام إليه رجل من أصحابه - فقال نهيتنا عن الحكومة ثم أمرتنا بها - فلم ندر أي الأمرين أرشد فصفق عليه‌السلام إحدى يديه على الأخرى –

ثم قال: هَذَا جَزَاءُ مَنْ تَرَكَ الْعُقْدَةَ - أَمَا واللَّه لَوْ أَنِّي حِينَ أَمَرْتُكُمْ - بِه حَمَلْتُكُمْ عَلَى الْمَكْرُوه - الَّذِي يَجْعَلُ اللَّه فِيه خَيْراً - فَإِنِ اسْتَقَمْتُمْ هَدَيْتُكُمْ - وإِنِ اعْوَجَجْتُمْ قَوَّمْتُكُمْ - وإِنْ أَبَيْتُمْ تَدَارَكْتُكُمْ لَكَانَتِ الْوُثْقَى - ولَكِنْ بِمَنْ وإِلَى مَنْ - أُرِيدُ أَنْ أُدَاوِيَ بِكُمْ وأَنْتُمْ دَائِي - كَنَاقِشِ الشَّوْكَةِ بِالشَّوْكَةِ - وهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ ضَلْعَهَا مَعَهَا - اللَّهُمَّ قَدْ مَلَّتْ أَطِبَّاءُ هَذَا الدَّاءِ الدَّوِيِّ - وكَلَّتِ النَّزْعَةُ بِأَشْطَانِ الرَّكِيِّ - أَيْنَ الْقَوْمُ الَّذِينَ دُعُوا إِلَى الإِسْلَامِ فَقَبِلُوه -

وہ اس مال سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے جسے انسان ان لوگوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے جو تعریف تک نہیں کرتے ہیں۔

(۱۲۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جب لیلتہ الہریرکےبعد آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ آپ نے پہلے ہی حکم بنانے سے روکا اور پھراس کا حکم دے دیا توآخر ان دونوں میں سے کون سی بات صحیح تھی؟ تو آپ نے ہاتھ پر ہاتھ مار کر فرمایا!

افسوس یہی اس کی جزا ہوتی ہے جو عہد پیمان(۱) کو نظرانداز کر دیتا ہے۔یاد رکھو اگر میں تم کو اس ناگوار امر( جنگ) پرمامور کر دیتا جس میں یقینا اللہ نے تمہیں لئے خیر رکھا تھا۔اس طرح کہ تم سیدھے رہتے تو تمہیں ہدایت دیتا اور ٹیڑھے ہو جاتے تو سیدھا کردیتا اورانکار کرتے تو اس کا علاج کرتا تو یہ انتہائی مستحکم طریقہ کار ہوتا۔لیکن یہ کام کس کے ذریعہ کرتا اور کس کے بھروسہ پر کرتا۔میں تمہارے ذریعہ قوم کا علاج کرنا چاہتا تھا لیکن تمہیں تو میری بیماری ہو۔یہ تو ایسا ہی ہوتا جیسے کانٹے سے کانٹا نکالا جائے جب کہ اس کا جھکائو اسی کی طرف ہو۔خدایا! گواہ رہنا کہ اس موذی مرض کے اطباء عاجزآچکے ہیں اور اس کنویں سے رسی نکالنے والے تھک چکے ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں اسلام کی دعوت دی گئی تو فوراً قبول کرلی

(۱) مقصد یہ ہے کہ تم لوگوں نے مجھ سے اطاعت کاعہدو پیمان کیا تھا لیکن جب میں نے صفین میں جنگ جاری رکھنے پر اصرار کیا تو تم نے نیزوں پر قرآن دیکھ کرجنگ بندی کامطالبہ کردیا اور اپنے عہدوپیمان کو نظر انداز کردیا ظاہر ہے کہ ایسے اقدام کا ایسا ہی نتیجہ ہوتا ہے جو سامنے آگیا تو اب فریاد کرنے کاکیا جواز ہے ؟

۲۱۷

وقَرَءُوا الْقُرْآنَ فَأَحْكَمُوه وهِيجُوا إِلَى الْجِهَادِ فَوَلِهُوا وَلَه اللِّقَاحِ إِلَى أَوْلَادِهَا - وسَلَبُوا السُّيُوفَ أَغْمَادَهَا وأَخَذُوا بِأَطْرَافِ الأَرْضِ زَحْفاً زَحْفاً - وصَفّاً صَفّاً بَعْضٌ هَلَكَ وبَعْضٌ نَجَا لَا يُبَشَّرُونَ بِالأَحْيَاءِ - ولَا يُعَزَّوْنَ عَنِ الْمَوْتَى مُرْه الْعُيُونِ مِنَ الْبُكَاءِ - خُمْصُ الْبُطُونِ مِنَ الصِّيَامِ ذُبُلُ الشِّفَاه مِنَ الدُّعَاءِ - صُفْرُ الأَلْوَانِ مِنَ السَّهَرِ عَلَى وُجُوهِهِمْ غَبَرَةُ الْخَاشِعِينَ - أُولَئِكَ إِخْوَانِي الذَّاهِبُونَ - فَحَقَّ لَنَا أَنْ نَظْمَأَ إِلَيْهِمْ - ونَعَضَّ الأَيْدِي عَلَى فِرَاقِهِمْ - إِنَّ الشَّيْطَانَ يُسَنِّي لَكُمْ طُرُقَه ويُرِيدُ أَنْ يَحُلَّ دِينَكُمْ عُقْدَةً عُقْدَةً - ويُعْطِيَكُمْ بِالْجَمَاعَةِ الْفُرْقَةَ وبِالْفُرْقَةِ الْفِتْنَةَ - فَاصْدِفُوا عَنْ نَزَغَاتِه ونَفَثَاتِهواقْبَلُوا النَّصِيحَةَ مِمَّنْ أَهْدَاهَا إِلَيْكُمْ واعْقِلُوهَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ

اور انہوں نے قرآن کو پڑھا تو باقاعدہ عمل بھی کیااور جہاد کے لئے آمادہکئے گئے تو اس طرح شوق سے آگے بڑھے جس طرح اونٹنی اپنے بچوں کی طرف بڑھتی ہے۔انہوں نے تلواروں کو نیا موں سے نکال لیا اور دستہ دستہ ۔صف بہ صف آگے بڑھ کر تمام اطراف زمین پر قبضہ کرلیا۔ان میں بعض چلے گئے اور بعض باقی رہ گئے ۔ انہیں نہ زندگی کی بشارت سے دلچسپی تھی اور نہ مردوں کی تعزیت سے۔ان کی آنکھیں خوف خدا میں گریہ سےسفید ہوگئی تھیں ۔پیٹ روزوں سے دھنس گئے تھے ' ہونٹ دعا کرتے کرتے خشک ہوگئے تھے۔چہرے شب بیداری سے زرد ہوگئے تھے اور چہروں پر خاکساری کی گرد پڑی ہوئی تھی یہی میرے پہلے والے بھائی تھے جن کے بارے میں ہمارا حق ہے کہ ہم ان کی طرف پیاسوں کی طرح نگاہ کریں اور ان کے فراق میں اپنے ہی ہات کاٹیں۔

یقیناشیطان تمہارے لئے اپنی راہوں کو آسان بنا دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک ایک کرکے تمہاری ساری گرہیں کھول دے۔وہ تمہیں اجتماع کے بجائے افتراق دے کر فتنوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس کے خیالات اوراس کی جھاڑ پھونک سے منہ موڑے رہو اور اس شخص کی نصیحت قبول کرو جو تمہیں نصیحت کا تحفہ دے رہا ہے اور اپنے دل میں اس کی گرہ باندھ لو۔

۲۱۸

(۱۲۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله للخوارج وقد خرج إلى معسكرهم - وهم مقيمون على إنكار الحكومة فقالعليه‌السلام

أَكُلُّكُمْ شَهِدَ مَعَنَا صِفِّينَ - فَقَالُوا مِنَّا مَنْ شَهِدَ - ومِنَّا مَنْ لَمْ يَشْهَدْ - قَالَ فَامْتَازُوا فِرْقَتَيْنِ - فَلْيَكُنْ مَنْ شَهِدَ صِفِّينَ فِرْقَةً - ومَنْ لَمْ يَشْهَدْهَا فِرْقَةً - حَتَّى أُكَلِّمَ كُلاًّ مِنْكُمْ بِكَلَامِه - ونَادَى النَّاسَ فَقَالَ أَمْسِكُوا عَنِ الْكَلَامِ - وأَنْصِتُوا لِقَوْلِي - وأَقْبِلُوا بِأَفْئِدَتِكُمْ إِلَيَّ - فَمَنْ نَشَدْنَاه شَهَادَةً فَلْيَقُلْ بِعِلْمِه فِيهَا - ثُمَّ كَلَّمَهُمْعليه‌السلام بِكَلَامٍ طَوِيلٍ - مِنْ جُمْلَتِه أَنْ قَالَعليه‌السلام : أَلَمْ تَقُولُوا عِنْدَ رَفْعِهِمُ الْمَصَاحِفَ حِيلَةً وغِيلَةً - ومَكْراً وخَدِيعَةً إِخْوَانُنَا وأَهْلُ دَعْوَتِنَا - اسْتَقَالُونَا واسْتَرَاحُوا إِلَى كِتَابِ اللَّه سُبْحَانَه - فَالرَّأْيُ الْقَبُولُ مِنْهُمْ - والتَّنْفِيسُ عَنْهُمْ - فَقُلْتُ لَكُمْ هَذَا أَمْرٌ ظَاهِرُه إِيمَانٌ - وبَاطِنُه عُدْوَانٌ - وأَوَّلُه رَحْمَةٌ وآخِرُه نَدَامَةٌ فَأَقِيمُوا عَلَى شَأْنِكُمْ - والْزَمُوا طَرِيقَتَكُمْ -

(۱۲۲)

آپ کا ارشاد گرامی

( جب آپ خوارج کے اس پڑائو کی طرف تشریف لے گئے جو تحکیم کے انکار پراڑا ہوا تھا۔اورفرمایا)

کیا تم سب ہمارے ساتھ صفین میں تھے؟ لوگوں نے کہا بعض افراد تھے اوربعض نہیں تھے اوربعض نہیں تھے! فرمایا تو تم دو حصوں میں تقسیم ہو جائو۔صفین والے الگ اور غیر صفین والے الگ ۔تاکہمیں ہر ایک سے اس کے حال کے مطابق گفتگو کرو۔اس کے بعد قوم سے پکار کر فرمایا کہ تم سب خاموش ہو جائو اور میری بات سنو اور اپنے دلوں کو بھی میری طرف متوجہ رکھو کہ اگر میں کسی بات کی گواہی طلب کروں تو ہر شخص اپنے علم کے مطابق جواب دے سکے۔( یہ کہہ کر آپنے ایک طویل گفتگو فرمائی جس کا ایک حصہ یہ تھا) ذرا بتلائو کہ جب صفین والوں نے حیلہ و مکر اورجعل و فریب سے نیزوں پر قرآن بلندکردئیے تھے تو کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ سب ہمارے بھائی اور ہمارے ساتھ کے مسلمان ہیں۔اب ہم سے معافی کے طلب گار ہیں اور کتاب خداسے فیصلہ چاہتے ہیں لہٰذا مناسب یہ ہے کہ ان کی بات مان لی جائے اورانہیں سانس لینے کا موقع دے دیا جائے۔میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ اس کا ظاہر ایمان ہے لیکن باطن صرف ظلم اور تعدی ہے۔اس کی ابتدا رحمت و راحت ہے لیکن اس کا انجام شرمندگی اور ندامت ہے لہٰذا اپنی حالت پر قائم رہو اور اپنے راستہ کو مت چھوڑو

۲۱۹

وعَضُّوا عَلَى الْجِهَادِ بَنَوَاجِذِكُمْ - ولَا تَلْتَفِتُوا إِلَى نَاعِقٍ نَعَقَ - إِنْ أُجِيبَ أَضَلَّ وإِنْ تُرِكَ ذَلَّ - وقَدْ كَانَتْ هَذِه الْفَعْلَةُ وقَدْ رَأَيْتُكُمْ أَعْطَيْتُمُوهَا - واللَّه لَئِنْ أَبَيْتُهَا مَا وَجَبَتْ عَلَيَّ فَرِيضَتُهَا - ولَا حَمَّلَنِي اللَّه ذَنْبَهَا ووَ اللَّه إِنْ جِئْتُهَا إِنِّي لَلْمُحِقُّ الَّذِي يُتَّبَعُ - وإِنَّ الْكِتَابَ لَمَعِي مَا فَارَقْتُه مُذْ صَحِبْتُه فَلَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وإِنَّ الْقَتْلَ لَيَدُورُ عَلَى الآباءِ والأَبْنَاءِ - والإِخْوَانِ والْقَرَابَاتِ - فَمَا نَزْدَادُ عَلَى كُلِّ مُصِيبَةٍ وشِدَّةٍ - إِلَّا إِيمَاناً ومُضِيّاً عَلَى الْحَقِّ - وتَسْلِيماً لِلأَمْرِ - وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الْجِرَاحِ - ولَكِنَّا إِنَّمَا أَصْبَحْنَا نُقَاتِلُ إِخْوَانَنَا فِي الإِسْلَامِ - عَلَى مَا دَخَلَ فِيه مِنَ الزَّيْغِ والِاعْوِجَاجِ - والشُّبْهَةِ والتَّأْوِيلِ - فَإِذَا طَمِعْنَا فِي خَصْلَةٍ يَلُمُّ اللَّه بِهَا شَعَثَنَا - ونَتَدَانَى بِهَا إِلَى الْبَقِيَّةِ فِيمَا بَيْنَنَا - رَغِبْنَا فِيهَا وأَمْسَكْنَا عَمَّا سِوَاهَا.

اور جہاد پر دانتوں کو بھینچے رہو اور کسیبکواس کرنے والے کی بکواس کو مت سنو کہ اس کے قبول کرلینے میں گمراہی ہے اور نظر انداز کردینے میں ذلت ہے۔لیکن جب تحکیم کی بات طے ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ تمہیں لوگوں نے اس کی رضا مندی دی تھی حالانکہ خدا گواہ ہے کہ اگرمیں نے اس سے انکار کردیا ہوتا تو اس سے مجھ پر کوئی فریضہ عائد نہ ہوتا۔اورنہ پروردگار مجھے گناہ گار قراردیتا اور اگر میں نے اسے اختیار کیا ہوتا تو میں ہی وہ صاحب حق تھا جس کا اتباع ہونا چاہیے تھا کہ کتاب خدا میرے ساتھ ہے اور جب سے میرا اس کا ساتھ ہوا ہے کبھی جدائی نہیں ہوئی۔ہم رسول اکرم (ص) کے زمانے میں اس وقت جنگ کرتے تھے جب مقابلہ پر خاندانوں کے بزرگ بچے۔بھائی بند اور رشتہ دار ہوتے تھے لیکن ہر مصیبت و شدت پر ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا تھا اور ہم امر الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کئے رہتے تھے۔راہ حق میں بڑھتے ہی جاتے تھے اور زخموں کی ٹیس پر صبر ہی کرتے تھے مگر افسوس کہ اب ہمیں مسلمان بھائیوں سے جنگ کرنا پڑ رہی ہے کہ ان میں کجی۔انحراف ۔شبہ اور غلط تاویلات کادخل ہوگیا ہے لیکن اس کے باوجود اگرکوئی راستہ نکل آئے جس سے خدا ہمارے انتشار کو دور کردے اورہم ایک دوسرے سے قریب ہو کر رہے سہے تعلقات کو باقی رکھ سکیں تو ہم اسی راستہ کو پسند کریں گے اور دوسرے راستہ سے ہاتھ روک لیں گے۔

۲۲۰