نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657089 / ڈاؤنلوڈ: 15926
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

(۱۲۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لأصحابه في ساحة الحرب - بصفين

وأَيُّ امْرِئٍ مِنْكُمْ أَحَسَّ مِنْ نَفْسِه - رَبَاطَةَ جَأْشٍ عِنْدَ اللِّقَاءِ، ورَأَى مِنْ أَحَدٍ مِنْ إِخْوَانِه فَشَلًا - فَلْيَذُبَّ عَنْ أَخِيه بِفَضْلِ نَجْدَتِه - الَّتِي فُضِّلَ بِهَا عَلَيْه - كَمَا يَذُبُّ عَنْ نَفْسِه - فَلَوْ شَاءَ اللَّه لَجَعَلَه مِثْلَه - إِنَّ الْمَوْتَ طَالِبٌ حَثِيثٌ لَا يَفُوتُه الْمُقِيمُ - ولَا يُعْجِزُه الْهَارِبُ - إِنَّ أَكْرَمَ الْمَوْتِ الْقَتْلُ - والَّذِي نَفْسُ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ بِيَدِه - لأَلْفُ ضَرْبَةٍ بِالسَّيْفِ أَهْوَنُ عَلَيَّ - مِنْ مِيتَةٍ عَلَى الْفِرَاشِ فِي غَيْرِ طَاعَةِ اللَّه وكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْكُمْ - تَكِشُّونَ كَشِيشَ الضِّبَابِ - لَا تَأْخُذُونَ حَقّاً ولَا تَمْنَعُونَ ضَيْماً - قَدْ خُلِّيتُمْ والطَّرِيقَ - فَالنَّجَاةُ لِلْمُقْتَحِمِ والْهَلَكَةُ لِلْمُتَلَوِّمِ

(۱۲۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو صفین کے میدان میں اپنے اصحاب سے فرمایا تھا)

دیکھو ! اگر تم سے کوئی شخص بھی جنگ کے وقت اپنے اندر قوت قلب اور اپنے کسی بھائی میں کمزوری کا احساس کرے تو اس کا فرض ہے کہ اپنے بھائی سے اسی طرح دفاع کرے جس طرح اپنے نفس سے کرتا ہے کہ خدا چاہتا تو اسے بھی ویسا ہی بنا دیتا لیکن اس نے تمہیں ایک خاص فضیلت عطا فرمائی ہے۔

دیکھو!موت ایک تیز رفتار طلب گار ہے جس سے نہ کوئی ٹھہرا ہوا بچ سکتا ہے اور نہ بھاگنے والا بچ نکل سکتا ہے اور بہترین موت شہادت ہے۔قسم ہے اس پروردگار کی جس کے قبضہ قدرت میں فرزند ابو طالب کی جان ہے کہ میرے لئے تلوار کی ہزار ضربیں اطاعت خداسے الگ ہو کر بستر پرمرنے سے بہتر ہیں۔

گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ ویسی ہی آوازیں نکال رہے ہو جیسی سو سماروں کے جسموں کی رگڑ سے پیدا ہوتی ہیں کہ نہ اپناحق حاصل کر رہے ہو اورنہ ذلت کا دفاع کر رہے ہو جب کہ تمہیں راستہ پر کھلاچھوڑ دیا گیا ہے اور نجات اسی کے لئے ہے جو جنگ میں کود پڑے اورہلاکت اسی کے لئے ہے جودیکھتا ہی رہ جائے ۔

۲۲۱

(۱۲۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في حث أصحابه على القتال

فَقَدِّمُوا الدَّارِعَ وأَخِّرُوا الْحَاسِرَ - وعَضُّوا عَلَى الأَضْرَاسِ - فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ - والْتَوُوا فِي أَطْرَافِ الرِّمَاحِ فَإِنَّه أَمْوَرُ لِلأَسِنَّةِ - وغُضُّوا الأَبْصَارَ فَإِنَّه أَرْبَطُ لِلْجَأْشِ وأَسْكَنُ لِلْقُلُوبِ - وأَمِيتُوا الأَصْوَاتَ فَإِنَّه أَطْرَدُ لِلْفَشَلِ - ورَايَتَكُمْ فَلَا تُمِيلُوهَا ولَا تُخِلُّوهَا - ولَا تَجْعَلُوهَا إِلَّا بِأَيْدِي شُجْعَانِكُمْ - والْمَانِعِينَ الذِّمَارَ مِنْكُمْ - فَإِنَّ الصَّابِرِينَ عَلَى نُزُولِ الْحَقَائِقِ - هُمُ الَّذِينَ يَحُفُّونَ بِرَايَاتِهِمْ - ويَكْتَنِفُونَهَا حِفَافَيْهَا ووَرَاءَهَا، وأَمَامَهَا - لَا يَتَأَخَّرُونَ عَنْهَا فَيُسْلِمُوهَا - ولَا يَتَقَدَّمُونَ عَلَيْهَا فَيُفْرِدُوهَا أَجْزَأَ امْرُؤٌ قِرْنَه وآسَى أَخَاه بِنَفْسِه - ولَمْ يَكِلْ قِرْنَه إِلَى أَخِيه - فَيَجْتَمِعَ عَلَيْه قِرْنُه وقِرْنُ أَخِيه - وايْمُ اللَّه لَئِنْ فَرَرْتُمْ مِنْ سَيْفِ الْعَاجِلَةِ - لَا تَسْلَمُوا مِنْ سَيْفِ الآخِرَةِ - وأَنْتُمْ لَهَامِيمُ الْعَرَبِ والسَّنَامُ الأَعْظَمُ - إِنَّ فِي الْفِرَارِ مَوْجِدَةَ اللَّه

(۱۲۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو جنگ پرآمادہ کرتے ہوئے)

زرہ پوش افراد کو آگے بڑھائو اوربے زرہ لوگوں کو پیچھے رکھو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سر سے اچٹ جاتی ہیں اورنیزوں کے اطراف سے پہلوئوں کو بچائے رکھو کہ اس سے نیزوں کے رخ پلٹ جاتے ہیں۔نگاہوں کو نیچا رکھو کہ اس سے قوت قلب میں اضافہ ہوتا ہے اورحوصلے بلند رہتے ہیں۔آوازیں دھیمی رکھو کہ اس سے کمزوری دور ہوتی ہے۔دیکھو اپنے پرچم کا خیال رکھنا۔وہ نہ جھکنے پائے اور نہ اکیلا رہنے پائے اسے صرف بہادر افراد اور عزت کے پاسبانوں کے ہاتھ میں رکھنا کہ مصائب پر صبر کرنے والے ہی پرچموں کے گرد جمع ہوتے ہیں اور داہنے بائیں آگے ' پیچھے ہرطرف سے گھیرا ڈال کر اس کا تحفظ کرتے ہیں۔نہ اس سے پیچھے رہ جاتے ہیں کہ اسے دشمنوں کے حوالے کردیں اورنہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ تنہا رہ جائے۔

دیکھو۔ہرشخص اپنے مقابل کا خود مقابلہ کرے اور اپنے بھائی کابھی ساتھ دے اورخبردار اپنے مقابلہ کو اپنے ساتھی کے حوالہ نہ کردینا کہ اس پر یہ اور اس کا ساتھی دونوں مل کرحملہ کردیں۔

خداکی قسم اگر تم دنیا کی تلوار سے بچ کر بھاگ بھی نکلے تو آخرت کی تلوار سے بچ کر نہیں جاسکتے ہو۔پھر تم تو عرب کے جوانمردوں اور سربلند افراد ہو۔تمہیں معلوم ہے کہ فرار میں خدا کا غضب بھی ہے کو

۲۲۲

والذُّلَّ اللَّازِمَ والْعَارَ الْبَاقِيَ - وإِنَّ الْفَارَّ لَغَيْرُ مَزِيدٍ فِي عُمُرِه - ولَا مَحْجُوزٍ بَيْنَه وبَيْنَ يَوْمِه - مَنِ الرَّائِحُ إِلَى اللَّه كَالظَّمْآنِ يَرِدُ الْمَاءَ - الْجَنَّةُ تَحْتَ أَطْرَافِ الْعَوَالِي - الْيَوْمَ تُبْلَى الأَخْبَارُ - واللَّه لأَنَا أَشْوَقُ إِلَى لِقَائِهِمْ مِنْهُمْ إِلَى دِيَارِهِمْ - اللَّهُمَّ فَإِنْ رَدُّوا الْحَقَّ فَافْضُضْ جَمَاعَتَهُمْ - وشَتِّتْ كَلِمَتَهُمْ وأَبْسِلْهُمْ بِخَطَايَاهُمْ إِنَّهُمْ لَنْ يَزُولُوا عَنْ مَوَاقِفِهِمْ - دُونَ طَعْنٍ دِرَاكٍ يَخْرُجُ مِنْهُمُ النَّسِيمُ - وضَرْبٍ يَفْلِقُ الْهَامَ ويُطِيحُ الْعِظَامَ - ويُنْدِرُ السَّوَاعِدَ والأَقْدَامَ - وحَتَّى يُرْمَوْا بِالْمَنَاسِرِ تَتْبَعُهَا الْمَنَاسِرُ - ويُرْجَمُوا بِالْكَتَائِبِ تَقْفُوهَا الْحَلَائِبُ - وحَتَّى يُجَرَّ بِبِلَادِهِمُ الْخَمِيسُ يَتْلُوه الْخَمِيسُ - وحَتَّى تَدْعَقَ الْخُيُولُ فِي نَوَاحِرِ أَرْضِهِمْ - وبِأَعْنَانِ مَسَارِبِهِمْ ومَسَارِحِهِمْ.

قال السيد الشريف أقول - الدعق الدق أي تدق الخيول بحوافرها أرضهم - ونواحر أرضهم متقابلاتها - ويقال منازل بني فلان تتناحر أي تتقابل.

اور ہمیشہ کی ذلت بھی ہے۔فرار کرنے والا نہ اپنی عمر میں اضافہ کر سکتا ہے اور نہ اپنے وقت کے درمیان حائل ہو سکتا ہے۔کون ہے جو للہ کی طرف یوں جائے جس طرح پیاسا(۱) پانی کی طرف جاتا ہے۔جنت نیزوں کے اطراف کے سایہ میں ہے آج ہر ایک کے حالات کا امتحان ہو جائے گا۔خدا کی قسم مجھے دشمنوں سے جنگ کا اشتیاق اس سے زیادہ ہے جتنا انہیں اپنے گھروں کا اشتیاق ہے۔خدایا: یہ ظالم اگرحق کو رد کردیں توان کی جماعت کو پراگندہ کردے۔ان کے کلمہ کو متحد نہ ہونے دے۔ان کو ان کے کئے کی سزا دیدے کہ یہ اس وقت تک اپنے موقف سے نہ ہٹیں گے جب تک نیزے ان کے جسموں میں نسیم سحر کے راستے نہ بنا دیں اور تلواریں ان کے سروں کو شگافتہ ' ہڈیوں کو چور چور اور ہاتھ پیر کو شکستہ نہ بنادیں اور جب تک ان پر لشکر کے بعد لشکر اورسپاہ کے بعد سپاہ حملہ آور نہ ہو جائیں اور ان کے شہروں پر مسلسل فوجوں کی یلغار نہ ہو اور گھوڑے ان کی زمینوں کو آخرتک روند نہ ڈالیں اور ان کی چراگاہوں اورسبزہ زاروں کو پامال نہ کردیں۔

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کی زندگی کی ہر تشنگی کا علاج جنت کے علاوہ کہیں نہیں ہے۔یہ دنیا صرف ضروریات کی تکمیل کے لئے بنائی گئی ہے اور بڑے سے بڑے انسان کاحصہ بھی اس کے خواہشات سے کمتر ہے ورنہ سارے روئے زمین پر حکومت کرنے والا بھی اس سے بیشتر کاخواہش مندرہتا ہے اور دامان زمین میں اس سے زیادہ کی وسعت نہیں ہے۔یہ صرف جنت ہے جس کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہاں ہرخواہش نفس اور لذت نگاہ کی تسکین کا سامان موجود ہے۔اب سوال صف یہ رہ جاتا ہے کہ وہاںتک جانے کاراستہ کیا ہے۔مولائے کائنات نے اپنے ساتھیوں کو اسینکتہ کی طرف متوجہ کیا ہے کہ جنت تلواروں کے سایہ کے نیچے ہے اور اس کا راستہ صرف میدان جہاد ہے لہٰذا میدان جہاد کی طرف اس طرح بڑھو جس طرح پیاسا پانی کی طرف بڑھتا ہے کہ اسی راہ میں ہر جذبہ دل کی تسکین کا سامان پایا جاتا ہے اور پھر دین خدا کی سر بلندی سے بالاتر کوئی شرف بھی نہیں ہے۔

۲۲۳

(۱۲۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في التحكيموذلك بعد سماعه لأمر الحكمين

إِنَّا لَمْ نُحَكِّمِ الرِّجَالَ - وإِنَّمَا حَكَّمْنَا الْقُرْآنَ هَذَا الْقُرْآنُ - إِنَّمَا هُوَ خَطٍّ مَسْطُورٌ بَيْنَ الدَّفَّتَيْنِ - لَا يَنْطِقُ بِلِسَانٍ ولَا بُدَّ لَه مِنْ تَرْجُمَانٍ - وإِنَّمَا يَنْطِقُ عَنْه الرِّجَالُ - ولَمَّا دَعَانَا الْقَوْمُ - إلَى أَنْ نُحَكِّمَ بَيْنَنَا الْقُرْآنَ - لَمْ نَكُنِ الْفَرِيقَ الْمُتَوَلِّيَ - عَنْ كِتَابِ اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى - وقَدْ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوه إِلَى الله والرَّسُولِ ) - فَرَدُّه إِلَى اللَّه أَنْ نَحْكُمَ بِكِتَابِه - ورَدُّه إِلَى الرَّسُولِ أَنْ نَأْخُذَ بِسُنَّتِه - فَإِذَا حُكِمَ بِالصِّدْقِ فِي كِتَابِ اللَّه - فَنَحْنُ أَحَقُّ النَّاسِ بِه - وإِنْ حُكِمَ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَنَحْنُ أَحَقُّ النَّاسِ وأَوْلَاهُمْ بِهَا - وأَمَّا قَوْلُكُمْ - لِمَ جَعَلْتَ بَيْنَكَ وبَيْنَهُمْ أَجَلًا فِي التَّحْكِيمِ - فَإِنَّمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ لِيَتَبَيَّنَ الْجَاهِلُ -

(۱۲۵)

(آپ کا ارشاد گرامی)

(تحکیم کے بارے میں ۔حکمین کی داستان سننے کے بعد)

یاد رکھو! ہم نے افراد کوحکم نہیں بنایا تھا بلکہ قرآن کو حکم قراردیا تھا اور قرآن وہی کتاب ہے جو دو دفینوں کے درمیان موجود ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ خود نہیں بولتاہے اور اسے ترجمان کی ضرورت ہوتی ہے اور ترجمان افراد ہی ہوتے ہیں ۔اس قوم نے ہمیں دعوت دی کہ ہم قرآن سے فیصلہ کرائیں تو ہم تو قرآن سے رو گردانی کرنے والے نہیں تھے جب کہ پروردگار نے فرمادیا ہے کہ اپنے اختلافات کوخدا اور رسول کی طرف موڑو دواورخدا کی طرف موڑنے کا مطلب اس کی کتاب سے فیصلہ کرانا ہے اور رسول (ص) کی طرف موڑنے کا مقصد بھی سنت کا اتباع کرنا ہے اور یہ طے ہے کہ اگر کتاب خدا سے سچائی کے ساتھ فیصلہ کیا جائے تو اس کے سب سے زیادہ ح قدار ہم ہی ہیں اور اسی طرح سنت پیغمبر کے لئے سب سے اولیٰ و اقرب ہم ہی ہیں۔اب تمہارا یہ کہنا کہ آپ نے تحکیم کی مہلت کیوں(۱) دی؟ تو اس کا راز یہ ہے کہ میں چاہتا تھا کہ بے خبر با خبر ہو جائے

(۱) حضرت نے تحکیم کا فیصلہ کرتے ہوئے دونوں افراد کو ایک سال کی مہلت دی تھی تاکہ اس دوران نا واقف افراد حق و باطل کی اطلاع حاصل کرلیں اور جو کسی مقدار میں حق سے آگاہ ہیں وہ مزید تحقیق کرلیں۔ایسا نہ ہو کربے خبر افراد پہلے ہی مرحلہ میں گمراہ ہو جائیں اور عمر و عاص کی مکاری کا شکار ہو جائیں۔مگر افسوس یہ ہے کہ ہر دور میں ایسے افراد ضرور رہتے ہیں جو اپنے عقل وفکر کو ہر ایک سے بالاتر تصور کرتے ہیں اور اپنے قاد کے فیصلوں کوبھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب امام کے ساتھ ایسا برتائو کیا گیا ہے تونائب امام یا عالم دین کی کیا حیثیت ہے ؟

۲۲۴

ويَتَثَبَّتَ الْعَالِمُ - ولَعَلَّ اللَّه أَنْ يُصْلِحَ فِي هَذِه الْهُدْنَةِ - أَمْرَ هَذِه الأُمَّةِ - ولَا تُؤْخَذَ بِأَكْظَامِهَا - فَتَعْجَلَ عَنْ تَبَيُّنِ الْحَقِّ - وتَنْقَادَ لأَوَّلِ الْغَيِّ - إِنَّ أَفْضَلَ النَّاسِ عِنْدَ اللَّه - مَنْ كَانَ الْعَمَلُ بِالْحَقِّ أَحَبَّ إِلَيْه - وإِنْ نَقَصَه وكَرَثَه مِنَ الْبَاطِلِ - وإِنْ جَرَّ إِلَيْه فَائِدَةً وزَادَه - فَأَيْنَ يُتَاه بِكُمْ - ومِنْ أَيْنَ أُتِيتُمْ - اسْتَعِدُّوا لِلْمَسِيرِ إِلَى قَوْمٍ حَيَارَى - عَنِ الْحَقِّ لَا يُبْصِرُونَه - ومُوزَعِينَ بِالْجَوْرِ لَايَعْدِلُونَ بِه - جُفَاةٍ عَنِ الْكِتَابِ - نُكُبٍ عَنِ الطَّرِيقِ - مَا أَنْتُمْ بِوَثِيقَةٍ يُعْلَقُ بِهَا - ولَا زَوَافِرِ عِزٍّ يُعْتَصَمُ إِلَيْهَا - لَبِئْسَ حُشَّاشُ نَارِ الْحَرْبِ أَنْتُمْ - أُفٍّ لَكُمْ - لَقَدْ لَقِيتُ مِنْكُمْ بَرْحاً يَوْماً أُنَادِيكُمْ - ويَوْماً أُنَاجِيكُمْ - فَلَا أَحْرَارُ صِدْقٍ عِنْدَ النِّدَاءِ - ولَا إِخْوَانُ ثِقَةٍ عِنْدَ النَّجَاءِ

(۱۲۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما عوتب على التسوية في العطاء

أَتَأْمُرُونِّي أَنْ أَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِ - فِيمَنْ وُلِّيتُ عَلَيْه -

اورباخبرتحقیق کرلے کہ شائد پروردگار اس وقفہ میں امت کے امور کی اصلاح کردے اور اس کا گلا نہ گھونٹا جائے کہ تحقیق حق سے پہلے گمراہی کے پہلے ہی مرحلہ میں بھٹک جائے۔اوریاد رکھو کہ پروردگار کے نزدیک بہترین انسان وہ ہے جسے حق پر عملدار آمد کرنا (چاہے اس میں نقصان ہی کیوں نہ ہو)باطل پر عمل کرنے سے زیادہ محبوب ہو( چاہے اس میں فائدہ ہی کیوں نہ ہو) تو آخر تمہیں کدھر لے جایا جا رہا ہے اور تمہارے پاس شیطان کدھر سے آگیا ہے۔دیکھو اس قوم سے جہاد کے لئے تیار ہو جائو جو حق کے معاملہ میں اس طرح سرگرداں ہے کہ اسے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے اورباطل پر اس طرح اتارو کردی گئی ہے کہ سیدھے راستہ پر آنا ہی نہیں چاہتی ہے۔یہ کتاب خداسے الگ اور راہ حق سے منحرف ہیں مگر تم بھی قابل اعتماد افراد اور لائق تمسک شرف کے پاسبان نہیں ہو۔تم آتش جنگ کے بھڑکانے کا بد ترین ذریعہ ہو۔تم پر حیف ہے میں نے تم سے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔تمہیں علی الاعلان بھی پکارا ہے اورآہستہ بھی سمجھایا ہے لیکن تم نہ آواز جنگ پر سچے شریف ثابت ہوئے اور نہ راز داری پر قابل اعتماد ساتھی نکلے۔

(۱۲۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب عطا یا کی برابری پر اعتراض کیا گیا)

کیاتم مجھے اس بات پرآمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن رعایا کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں

۲۲۵

واللَّه لَا أَطُورُ بِه مَا سَمَرَ سَمِيرٌ - ومَا أَمَّ نَجْمٌ فِي السَّمَاءِ نَجْماً - لَوْ كَانَ الْمَالُ لِي لَسَوَّيْتُ بَيْنَهُمْ - فَكَيْفَ وإِنَّمَا الْمَالُ مَالُ اللَّه - أَلَا وإِنَّ إِعْطَاءَ الْمَالِ فِي غَيْرِ حَقِّه تَبْذِيرٌ وإِسْرَافٌ - وهُوَ يَرْفَعُ صَاحِبَه فِي الدُّنْيَا - ويَضَعُه فِي الآخِرَةِ - ويُكْرِمُه فِي النَّاسِ ويُهِينُه عِنْدَ اللَّه - ولَمْ يَضَعِ امْرُؤٌ مَالَه فِي غَيْرِ حَقِّه ولَا عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِه - إِلَّا حَرَمَه اللَّه شُكْرَهُمْ - وكَانَ لِغَيْرِه وُدُّهُمْ - فَإِنْ زَلَّتْ بِه النَّعْلُ يَوْماً - فَاحْتَاجَ إِلَى مَعُونَتِهِمْ فَشَرُّ خَلِيلٍ - وأَلأَمُ خَدِينٍ !

(۱۲۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه يبين بعض أحكام الدين ويكشف للخوارج الشبهة وينقض حكم الحكمين

فَإِنْ أَبَيْتُمْ إِلَّا أَنْ تَزْعُمُوا أَنِّي أَخْطَأْتُ وضَلَلْتُ - فَلِمَ تُضَلِّلُونَ عَامَّةَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِضَلَالِي - وتَأْخُذُونَهُمْ بِخَطَئِي -

ان پر ظلم کرکے چند افراد کی کمک حاصل کرلوں ۔خدا کی قسم جب تک اس دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور ایک ستارہ دوسرے ستارہ کی طرف جھکتا رہے گا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔یہ مال اگر میرا ذاتی ہوتا جب بھی میں برابر سے تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال مال خداہے اور یادرکھو کہ مال کا نا حق عطا کردینا بھی اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہے اوریہ کام انسان کو دنیا میں بلند بھی کر دیتا ہے تو آخرت میں ذلیل کر دیتا ہے۔لوگوں میں محترم بھی بنادیتا ہے تو خدا کی نگاہ میں پست تر بنا دیتا ہے اور جب بھی کوئی شخص مال کو نا حق یا نا اہل پر صرف کرتا ہے تو پروردگار اس کے شکریہ سے بھی محروم کر دیتا ہے اور اس کی محبت کا رخ بھی دوسروں کی طرف مڑ جاتا ہے ۔پھر اگرکسی دن پیر پھسل گئے اور ان کی امداد کا بھی محتا ج ہوگیا تو وہ بد ترین دوست اور ذلیل ترین ساتھی ہی ثابت ہوتے ہیں۔

(۱۲۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں بعض احکام دین کے بیان کے ساتھ خوارج کے شبہات کا ازالہ اورحکمین کے توڑ کا فیصلہ بیان کیا گیا ہے)

اگر تمہارااصرار اسی بات پرہےکہ مجھےخطاکاراور گمراہ قرار دو تو ساری امت پیغمبر (ص) کو کیوں خطا کار قراردےرہےہواور میری'' غلطی '' کا مواخذہ ان سے کیوں کر

۲۲۶

وتُكَفِّرُونَهُمْ بِذُنُوبِي - سُيُوفُكُمْ عَلَى عَوَاتِقِكُمْ - تَضَعُونَهَا مَوَاضِعَ الْبُرْءِ والسُّقْمِ - وتَخْلِطُونَ مَنْ أَذْنَبَ بِمَنْ لَمْ يُذْنِبْ - وقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رَجَمَ الزَّانِيَ الْمُحْصَنَ - ثُمَّ صَلَّى عَلَيْه ثُمَّ وَرَّثَه أَهْلَه - وقَتَلَ الْقَاتِلَ ووَرَّثَ مِيرَاثَه أَهْلَه - وقَطَعَ السَّارِقَ وجَلَدَ الزَّانِيَ غَيْرَ الْمُحْصَنِ - ثُمَّ قَسَمَ عَلَيْهِمَا مِنَ الْفَيْءِ ونَكَحَا الْمُسْلِمَاتِ - فَأَخَذَهُمْ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِذُنُوبِهِمْ - وأَقَامَ حَقَّ اللَّه فِيهِمْ - ولَمْ يَمْنَعْهُمْ سَهْمَهُمْ مِنَ الإِسْلَامِ - ولَمْ يُخْرِجْ أَسْمَاءَهُمْ مِنْ بَيْنِ أَهْلِه - ثُمَّ أَنْتُمْ شِرَارُ النَّاسِ - ومَنْ رَمَى بِه الشَّيْطَانُ مَرَامِيَه وضَرَبَ بِه تِيهَه - وسَيَهْلِكُ فِيَّ صِنْفَانِ - مُحِبٌّ مُفْرِطٌ يَذْهَبُ بِه الْحُبُّ إِلَى غَيْرِ الْحَقِّ - ومُبْغِضٌ مُفْرِطٌ يَذْهَبُ بِه الْبُغْضُ إِلَى غَيْرِ الْحَقِّ - وخَيْرُ النَّاسِ فِيَّ حَالًا النَّمَطُ الأَوْسَطُ فَالْزَمُوه - والْزَمُوا السَّوَادَ الأَعْظَمَ - فَإِنَّ يَدَ اللَّه مَعَ الْجَمَاعَةِ - وإِيَّاكُمْ والْفُرْقَةَ!

رہے ہو اور میرے ''گناہ '' کی بناپر انہیں کیوں کافر قرار دے رہے ہو۔تمہاری تلواریں تمہارے کاندھوں پر رکھی ہیں جہاں چاہتے ہو خطا ' بے خطا چلادیتے ہو اور گناہ گار اوربے گناہ میں کوئی فرق نہیں کرتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اکرم (ص) نے زنائے محضہ کے مجرم کو سنگسار کیا تواس کی نمازجنازہ بھی پڑھی تھی اور اس کے اہل کو وارث بھی قرار دیا تھا۔اور اسی طرح قاتل کو قتل کیا تو اس کی میراث بھی تقسیم کی اور چور کے ہاتھ کاٹے یا غیر شادی شدہ زنا کار کو کوڑے لگوائے تو انہیں مال غنیمت میں حصہ بھی دیا اور ان کا مسلمان عورتوں سے نکاح بھی کرایا گویا کہ آپ نے ان کے گناہوں کا مواخذہ کیا اور ان کے بارے میں حق خداکو قائم کیا لیکن اسلام میں ان کے حصہ کو نہیں روکا اور نہ ان کے نام کواہل اسلام کی فہرست سے خارج کیا۔مگر تم بد ترین افراد ہو کہ شیطان تمہارے ذریعہ اپنے مقاصد کو حاصل کرلیتا ہے اورتمہیں صحرائے ضلالت میں ڈال دیتا ہے اور عنقریب میرے بارے میں دو طرح کے افراد گمراہ ہوں گے۔محبت میں غلو کرنے والے جنہیں محبت غیرحق کی طرف لے جائے گی اور عداوت میں زیادتی کرنے والے جنہیں عداوت باطل کی طرف کھینچ لے جائے گی۔اوربہترین افراد وہ ہوں گے جو درمیانی منزل پر ہوں لہٰذا تم بھی اسی راستہ کو اختیار کرو اور اسی نظر یہ کی جماعت کے ساتھ ہو جائو کہ اللہ کاہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اورخبردارتفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جاتا ہے

۲۲۷

فَإِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّيْطَانِ - كَمَا أَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ. أَلَا مَنْ دَعَا إِلَى هَذَا الشِّعَارِ فَاقْتُلُوه - ولَوْ كَانَ تَحْتَ عِمَامَتِي هَذِه - فَإِنَّمَا حُكِّمَ الْحَكَمَانِ لِيُحْيِيَا مَا أَحْيَا الْقُرْآنُ - ويُمِيتَا مَا أَمَاتَ الْقُرْآنُ - وإِحْيَاؤُه الِاجْتِمَاعُ عَلَيْه - وإِمَاتَتُه الِافْتِرَاقُ عَنْه - فَإِنْ جَرَّنَا الْقُرْآنُ إِلَيْهِمُ اتَّبَعْنَاهُمْ - وإِنْ جَرَّهُمْ إِلَيْنَا اتَّبَعُونَا - فَلَمْ آتِ لَا أَبَا لَكُمْ بُجْراً - ولَا خَتَلْتُكُمْ عَنْ أَمْرِكُمْ - ولَا لَبَّسْتُه عَلَيْكُمْ - إِنَّمَا اجْتَمَعَ رَأْيُ مَلَئِكُمْ عَلَى اخْتِيَارِ رَجُلَيْنِ - أَخَذْنَا عَلَيْهِمَا أَلَّا يَتَعَدَّيَا الْقُرْآنَ فَتَاهَا عَنْه - وتَرَكَا الْحَقَّ وهُمَا يُبْصِرَانِه - وكَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا فَمَضَيَا عَلَيْه - وقَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَاؤُنَا عَلَيْهِمَا فِي الْحُكُومَةِ بِالْعَدْلِ - والصَّمْدِ لِلْحَقِّ سُوءَ رَأْيِهِمَا وجَوْرَ حُكْمِهِمَا.

(۱۲۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

فيما يخبر به عن الملاحم بالبصرة

وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہو جاتا ہے جس طرح گلہ سے الگ ہوجانے والی بھیڑ بھیڑئیے کی نذر ہوجاتی ہے۔آگاہ ہو جائو کہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے اسے قتل کردو چاہے وہ میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو۔ ان دونوں افراد کو حکم بنایا گیا تھا تاکہ ان امور کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور ان امور کو مردہ بنادیں جنہیں قرآن نے مردہ بنا دیا ہے اور زندہکرنے کے معنی اس پر اتفاق کرنے اورمردہ بنانے کے معنی اس سے الگ ہو جانے کے ہیں۔ہم اس بات پر تیار تھے کہ اگر قرآن ہمیں دشمن کی طرف کھینچ لے جائے گا تو ہم ان کا اتباع کرلیں گے اور اگر انہیں ہماری طرف لے آئے گا تو انہیں آنا پڑے گا لیکن خدا تمہارا برا کرے۔اس بات میںمیں نے کوئی غلط کام تو نہیں کیا اور نہ تمہیں کوئی دھوکہ دیا ہے۔اور نہ کسی بات کو شبہ میں رکھا ہے۔لیکن تمہاری جماعت نے دوآدمیوں کے انتخاب پر اتفاق کرلیا اورمیں نے ان پر شرط لگا دی کہ قرآن کے حدود سے تجاوز نہیں کریں گے مگر وہ دونوں قرآن سے منحرف ہوگئے اورحق کو دیکھ بھال کر نظر انداز کردیا اور اصل بات یہ ہے کہ ان کا مقصد ہی ظلم تھا اوروہ اسی راستہ پرچلے گئے جب کہ میں نے ان کی غلط رائے اورظالمانہ فیصلہ سے پہلے ہی فیصلہ میں عدالت اور ارادہ حق کی شرط لگادی تھی۔

(۱۲۸)

آپ کا ارشادگرامی

(بصرہ کے حوادث کی خبر دیتے ہوئے )

۲۲۸

يَا أَحْنَفُ كَأَنِّي بِه وقَدْ سَارَ بِالْجَيْشِ - الَّذِي لَا يَكُونُ لَه غُبَارٌ ولَا لَجَبٌ - ولَا قَعْقَعَةُ لُجُمٍ ولَا حَمْحَمَةُ خَيْلٍ - يُثِيرُونَ الأَرْضَ بِأَقْدَامِهِمْ - كَأَنَّهَا أَقْدَامُ النَّعَامِ.

قال الشريف يومئ بذلك إلى صاحب الزنج.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام - وَيْلٌ لِسِكَكِكُمُ الْعَامِرَةِ والدُّورِ الْمُزَخْرَفَةِ - الَّتِي لَهَا أَجْنِحَةٌ كَأَجْنِحَةِ النُّسُورِ - وخَرَاطِيمُ كَخَرَاطِيمِ

الْفِيَلَةِ - مِنْ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَا يُنْدَبُ قَتِيلُهُمْ - ولَا يُفْقَدُ غَائِبُهُمْ - أَنَا كَابُّ الدُّنْيَا لِوَجْهِهَا - وقَادِرُهَا بِقَدْرِهَا ونَاظِرُهَا بِعَيْنِهَا.

منه في وصف الأتراك

كَأَنِّي أَرَاهُمْ قَوْماً –( كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطَرَّقَةُ ) - يَلْبَسُونَ السَّرَقَ والدِّيبَاجَ - ويَعْتَقِبُونَ الْخَيْلَ الْعِتَاقَ - ويَكُونُ هُنَاكَ اسْتِحْرَارُ قَتْلٍ - حَتَّى يَمْشِيَ الْمَجْرُوحُ عَلَى الْمَقْتُولِ -

اے(۱) احنف ! گویا کہ میں اس شخص کو دیکھ رہا ہوں جو ایک ایسا لشکر لے کر آیا ہے جس میں نہ گردو غبار ہے اور نہ شورو غوغا ۔نہ لجاموں کی کھڑکھڑاہٹ ہے اور نہ گھوڑوں کی ہنہناہٹ ۔یہ زمین کو اسی طرح روند رہے ہیں جس طرح شتر مرغ کے پیر۔

سید رضی : حضرت نے اس خبر میں صاحب زنج کی طرف اشارہ کیا ہے( جس کا نام علی بن محمد تھااور اس نے۲۲۵ ھ میں بصرہ میں غلاموں کو مالکوں کے خلاف متحد کیا اور ہر غلام سے اس کے مالک کو۵۰۰ کوڑے لگوائے ۔

افسوس ہے تمہاری آباد گلیوں اور ان سجے سجائے مکانات کے حال پر جن کے چھجے گدوں کے پر اور ہاتھیوں کے سونڈ کے مانند ہے ان لوگوں کی طرف سے جن کے مقتول پر گریہ نہیں کیاجاتا ہے اور ان کے غائب کو تلاش نہیں کیا جاتا ہے۔میں دنیا کو منہ کے بھل اوندھا کر دینے والا اور اس کی صحیح اوقات کا جاننے والا اور اس کی حالت کو اس کے شایان شان نگاہ سے دیکھنے والا ہوں۔

(ترکوں کے بارے میں )

میں ایک ایسی قوم کو دیکھ رہا ہوں جن کے چہرہ چمڑے سے منڈھی ڈھال کے مانند ہیں۔ریشم و دیبا کے لباس پہنتے ہیں اور بہترین اصیل گھوڑوں سے محبت رکھتے ہیں۔ان کے درمیان عنقریب قتل کی گرم بازاری ہوگی جہاں زخمی مقتول کے اوپر سے گزریں گے

(۱)بنی تمیم کے سردار احنف بن قیس سے خطاب ہے جنہوں نے رسول اکرم (ص) کی زیارت نہیں کی مگر اسلام قبول کیا اورجنگ جمل کے موقع پر اپنے علاقہ میں ام المومنین کے فتنوں کا دفاع کرتے رہے اور پھر جنگ صفین میں مولائے کائنات کے ساتھ شریک ہوگئے اور جہاد راہ خداکا حق ادا کردیا

۲۲۹

ويَكُونَ الْمُفْلِتُ أَقَلَّ مِنَ الْمَأْسُورِ.

فَقَالَ لَه بَعْضُ أَصْحَابِه - لَقَدْ أُعْطِيتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عِلْمَ الْغَيْبِ - فَضَحِكَعليه‌السلام وقَالَ لِلرَّجُلِ وكَانَ كَلْبِيّاً.

يَا أَخَا كَلْبٍ لَيْسَ هُوَ بِعِلْمِ غَيْبٍ - وإِنَّمَا هُوَ تَعَلُّمٌ مِنْ ذِي عِلْمٍ - وإِنَّمَا عِلْمُ الْغَيْبِ عِلْمُ السَّاعَةِ - ومَا عَدَّدَه اللَّه سُبْحَانَه بِقَوْلِه –( إِنَّ الله عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ - ويُنَزِّلُ الْغَيْثَ ويَعْلَمُ ما فِي الأَرْحامِ - وما تَدْرِي نَفْسٌ ما ذا تَكْسِبُ غَداً - وما تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ) الآيَةَ - فَيَعْلَمُ اللَّه سُبْحَانَه مَا فِي الأَرْحَامِ - مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وقَبِيحٍ أَوْ جَمِيلٍ - وسَخِيٍّ أَوْ بَخِيلٍ - وشَقِيٍّ أَوْ سَعِيدٍ - ومَنْ يَكُونُ فِي النَّارِ حَطَباً - أَوْ فِي الْجِنَانِ لِلنَّبِيِّينَ مُرَافِقاً - فَهَذَا عِلْمُ الْغَيْبِ الَّذِي لَا يَعْلَمُه أَحَدٌ إِلَّا اللَّه - ومَا سِوَى ذَلِكَ فَعِلْمٌ - عَلَّمَه اللَّه نَبِيَّه فَعَلَّمَنِيه - ودَعَا لِي بِأَنْ يَعِيَه صَدْرِي - وتَضْطَمَّ عَلَيْه جَوَانِحِي

اوراب بھاگنے والے قیدیوں سے کم ہوں گے ( یہ تاتاریوں کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے جہاں چنگیز خاں اور اس کی قوم نے تمام اسلامی ملکوں کو تباہ و برباد کردیا اور کتے' سور کو اپنی غذا بنا کر ایسے حملے کئے کہ شہروں کو خاک میں ملا دیا) یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ آپ تو علم غیب کی باتیں کر رہے ہیں تو آپ نے مسکرا کر اس کلبی شخص سے فرمایا اے برادر کلبی! یہ علم غیب نہیں ہے بلکہ صاحب علم سے تعلم ہے۔علم غیب قیامت کا اور ان چیزوں کا علم ہے جن کو خدانے قرآن مجید میں شمار کردیا ہے کہ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اور بارش کابرسانے والا وہی ہے اور پیٹ میں پلنے والے بچہ کا مقدر وہی جانتا ہے۔اس کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم ہے کہ کل کیا کمائے گا اور کس سر زمین پرموت آئے گی۔ پروردگار جانتا ہے کہ رحم کا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی حسین ہے یا قبیح' سخی ہے یا بخیل' شقی ہے یا سعید' کون جہنم کا کندہ بن جائے گا اور کون جنت میں ابنیاء کرام کا ہمنشین ہوگا۔یہ وہ علم غیب ہے جسے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔اس کے علاوہ جو بھی علم ہے وہ ایسا علم ہے جسے اللہ نے پیغمبر (ص) کو تعلیم دیا ہے اور انہوں نے مجھے اس کی تعلیم دی ہے اورمیرے حق میں دعا کی ہے کہ میرا سینہ اسے محفوظ کرلے اور اس دل میں اسے محفوظ کردے جومیرے پہلو میں ہے۔

۲۳۰

(۱۲۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكر المكاييل والموازين

عِبَادَ اللَّه إِنَّكُمْ ومَا تَأْمُلُونَ - مِنْ هَذِه الدُّنْيَا أَثْوِيَاءُ مُؤَجَّلُونَ - ومَدِينُونَ مُقْتَضَوْنَ أَجَلٌ مَنْقُوصٌ - وعَمَلٌ مَحْفُوظٌ - فَرُبَّ دَائِبٍ مُضَيَّعٌ ورُبَّ كَادِحٍ خَاسِرٌ - وقَدْ أَصْبَحْتُمْ فِي زَمَنٍ لَا يَزْدَادُ الْخَيْرُ فِيه إِلَّا إِدْبَاراً - ولَا الشَّرُّ فِيه إِلَّا إِقْبَالًا - ولَا الشَّيْطَانُ فِي هَلَاكِ النَّاسِ إِلَّا طَمَعاً - فَهَذَا أَوَانٌ قَوِيَتْ عُدَّتُه - وعَمَّتْ مَكِيدَتُه وأَمْكَنَتْ فَرِيسَتُه - اضْرِبْ بِطَرْفِكَ حَيْثُ شِئْتَ مِنَ النَّاسِ - فَهَلْ تُبْصِرُ إِلَّا فَقِيراً يُكَابِدُ فَقْراً - أَوْ غَنِيّاً بَدَّلَ نِعْمَةَ اللَّه كُفْراً - أَوْ بَخِيلًا اتَّخَذَ الْبُخْلَ بِحَقِّ اللَّه وَفْراً - أَوْ مُتَمَرِّداً كَأَنَّ بِأُذُنِه عَنْ سَمْعِ الْمَوَاعِظِ وَقْراً - أَيْنَ أَخْيَارُكُمْ وصُلَحَاؤُكُمْ - وأَيْنَ أَحْرَارُكُمْ وسُمَحَاؤُكُمْ - وأَيْنَ الْمُتَوَرِّعُونَ فِي مَكَاسِبِهِمْ - والْمُتَنَزِّهُونَ فِي مَذَاهِبِهِمْ - أَلَيْسَ قَدْ ظَعَنُوا جَمِيعاً - عَنْ هَذِه الدُّنْيَا الدَّنِيَّةِ -

(۱۲۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(ناپ تول کے بارے میں )

اللہ کے بندو! تم اور جو کچھ اس دنیا سے توقع رکھتے ہو سب ایک مقررہ مدت کے مہمان ہیں اور ایسے قرضدار ہیں جن سے قرضہ کامطالبہ ہو رہا ہو۔عمریں گھٹ رہی ہیں اور اعمال محفوظ کئے جا رہے ہیں۔کتنے دوڑ دھوپ کرنے والے ہیں جن کی محنت برباد ہو رہی ہے اور کتنے کوشش کرنے والے ہیں جو مسلسل گھاٹے کاشکار ہیں تم ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے ہو جس میں نیکی مسلسل منہ پھیر کر جا رہی ہے اور برائی برابر سامنے آرہی ہے۔شیطان لوگوں کو تباہ کرنے کی ہوس میں لگا ہوا ہے۔اس کا سازو سامان مستحکم ہو چکا ہے۔اس کی سازشیں عام ہو چکی ہیں اور اس کے شکار اس کے قابو میں ہیں۔تم جدھر چاہو نگاہ اٹھا کر دیکھ لو سوائے اس فقیر کے جو فقر کی مصیبتیں جھیل رہا ہے اور اس امیر کے جس نے نعمت خدا کی نا شکری کی ہے اور اس بخیل کے جس نے حق خدا میں بخل ہی کو مال کے اضافہ کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اس سرکش کے جس کے کان نصیحتوں کے لئے بہترے ہوگئے ہیں اور کچھ نظرنہیں آئے گا۔کہاں چلے گئے وہ نیک اور صالح بندے اور کدھر ہیں وہ شریف اور کریم النفس لوگ ۔کہاں ہیں وہ افراد جو کسب معاش میں احتیاط برتنے والے تھے اور راستوں میں پاکیزہ راستہ اختیار کرنے والے تھے کیا سب کے سب اس پست اور زندگی کو مکدربنا دینے والی دنیا سے نہیں چلے گئے

۲۳۱

والْعَاجِلَةِ الْمُنَغِّصَةِ - وهَلْ خُلِقْتُمْ إِلَّا فِي حُثَالَةٍ - لَا تَلْتَقِي إِلَّا بِذَمِّهِمُ الشَّفَتَانِ - اسْتِصْغَاراً لِقَدْرِهِمْ وذَهَاباً عَنْ ذِكْرِهِمْ - فَ «إِنَّا لِلَّه وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ» - ظَهَرَ الْفَسَادُ فَلَا مُنْكِرٌ مُغَيِّرٌ - ولَا زَاجِرٌ مُزْدَجِرٌ - أَفَبِهَذَا تُرِيدُونَ أَنْ تُجَاوِرُوا اللَّه فِي دَارِ قُدْسِه - وتَكُونُوا أَعَزَّ أَوْلِيَائِه عِنْدَه - هَيْهَاتَ لَا يُخْدَعُ اللَّه عَنْ جَنَّتِه - ولَا تُنَالُ مَرْضَاتُه إِلَّا بِطَاعَتِه - لَعَنَ اللَّه الآمِرِينَ بِالْمَعْرُوفِ التَّارِكِينَ لَه - والنَّاهِينَ عَنِ الْمُنْكَرِ الْعَامِلِينَ بِه.

(۱۳۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لأبي ذر رحمهالله - لما أخرج إلى الربذة

يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ غَضِبْتَ لِلَّه فَارْجُ مَنْ غَضِبْتَ لَه - إِنَّ الْقَوْمَ خَافُوكَ عَلَى دُنْيَاهُمْ وخِفْتَهُمْ عَلَى دِينِكَ - فَاتْرُكْ فِي أَيْدِيهِمْ مَا خَافُوكَ عَلَيْه - واهْرُبْ مِنْهُمْ بِمَا خِفْتَهُمْ عَلَيْه - فَمَا أَحْوَجَهُمْ إِلَى مَا مَنَعْتَهُمْ -

اور کیا تمہیں ایسے افراد میں نہیں چھوڑ گئے جن کی حقارت اور جن کے ذکر سے اعراض کی بنا پر ہونٹ سوائے ان کی مذمت کے کسی بات کے لئے آپس میں نہیں ملتے ہیں۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔فساد اس قدر پھیل چکا ہے کہ نہ کوئی حالات کا بدلنے والاہے اور نہ کوئی منع کرنے والا اور نہخود پر پرہیز کرنے والا ہے۔تو کیا تم انہیں حالات کے ذریعہ خدا کے مقدس جوارمیں رہنا چاہیے ہو اوراس کے عزیز ترین دوست بننا چاہتے ہو۔افسوس ! اللہ کو جنت کے بارے میں دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی مرضی کو اطاعت کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے۔اللہ لعنت کرے ان لوگوں پر جو دوسروں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور خود عمل نہیں کرتے ہیں ۔سماج کو برائیوں سے روکتے ہیں اور خود انہیں میں مبتلا ہیں۔

(۱۳۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو آپ نے ابو ذر غفاری سے فرمایا جب انہیں ربذہ کی طرف شہر بدر کردیا گیا )

ابو ذر تمہارا غیظ و غضب اللہ کے لئے ہے لہٰذا اس سے امید وابستہ رکھو جس کے لئے یہ غیظ و غضب اختیار کیا ہے۔قوم کو تم سے اپنی دنیاکے بارے میں خطرہ تھا اور تمہیں ان سے اپنے دین کے بارے میں خوف تھا لہٰذا جس کا انہیں خطرہ تھا وہ ان کے لئے چھوڑ دو اور جس کے لئے تمہیں خوف تھا اسے بچاکرنکل جائو۔یہ لوگ بہر حال اس کے محتاج ہیں جس کو تم نے ان سے روکا ہے

۲۳۲

ومَا أَغْنَاكَ عَمَّا مَنَعُوكَ - وسَتَعْلَمُ مَنِ الرَّابِحُ غَداً والأَكْثَرُ حُسَّداً - ولَوْ أَنَّ السَّمَاوَاتِ والأَرَضِينَ كَانَتَا عَلَى عَبْدٍ رَتْقاً - ثُمَّ اتَّقَى اللَّه لَجَعَلَ اللَّه لَه مِنْهُمَا مَخْرَجاً - لَا يُؤْنِسَنَّكَ إِلَّا الْحَقُّ - ولَا يُوحِشَنَّكَ إِلَّا الْبَاطِلُ - فَلَوْ قَبِلْتَ دُنْيَاهُمْ لأَحَبُّوكَ - ولَوْ قَرَضْتَ مِنْهَا لأَمَّنُوكَ.

(۱۳۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه يبين سبب طلبه الحكم ويصف الإمام الحق

أَيَّتُهَا النُّفُوسُ الْمُخْتَلِفَةُ والْقُلُوبُ الْمُتَشَتِّتَةُ - الشَّاهِدَةُ أَبْدَانُهُمْ والْغَائِبَةُ عَنْهُمْ عُقُولُهُمْ - أَظْأَرُكُمْ عَلَى الْحَقِّ - وأَنْتُمْ تَنْفِرُونَ عَنْه نُفُورَ الْمِعْزَى مِنْ وَعْوَعَةِ الأَسَدِ - هَيْهَاتَ أَنْ أَطْلَعَ بِكُمْ سَرَارَ الْعَدْلِ - أَوْ أُقِيمَ اعْوِجَاجَ الْحَقِّ - اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ - أَنَّه لَمْ يَكُنِ الَّذِي كَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِي سُلْطَانٍ - ولَا الْتِمَاسَ شَيْءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ - ولَكِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ -

اورتم اس سے بہرحال بے نیاز ہو جس سے ان لوگوں نے تمہیں محروم کیا ہے عنقریب یہ معلوم ہو جائے گا کہ فائدہ میں کون رہا اور کس سے حسد کرنے والے زیادہ ہیں۔یاد رکھو کہ کسی بندہ خدا پر اگر زمین وآسمان دونوں کے راستے بند ہوجائیں اور وہ تقوائے الٰہی اختیار کرلے تو اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال دے گا۔دیکھو تمہیں صرف حق سے انس اور باطل سے وحشت ہونی چاہیے تم اگر ان کی دنیا کو قبول کر لیتے تو یہ تم سے محبت کرتے اور اگردنیا میں سے اپنا حصہ لے لیتے تو تمہاری طرف سے مطمئن ہو جاتے ۔

(۱۳۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اپنی حکومت طلبی کا سبب بیان فرمایا ہے اور امام بر حق کے اوصاف کا تذکرہ کیا ہے )

اے وہ لوگو جن کے نفس مختلف ہیں اوردل متفرق۔بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب ۔میں تمہیں مہرانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس طرح فرار کر تے ہو جیسے شیر کی ڈرکار سے بکریاں۔افسوس تمہارے ذریعہ عدل کی تاریکیوں کو کیسے روشن کیا جا سکتا ہے اور حق میں پیداہو جانے والی کجی کو کس طرح سیدھا کیا جا سکتا ہے۔خدایا تو جانتا ہے کہ میں نے حکومت کے بارے میں جو اقدام کیا ہے اس میں نہ سلطنت کی لالچ تھی اور نہمالی دنیا کی تلاش۔میرا مقصد صرف یہ تھا کہ دین کے آثارکو ان کی منزل تک پہنچائوں

۲۳۳

ونُظْهِرَ الإِصْلَاحَ فِي بِلَادِكَ - فَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ - وتُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ - اللَّهُمَّ إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَنَابَ - وسَمِعَ وأَجَابَ - لَمْ يَسْبِقْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّه بِالصَّلَاةِ.

وقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّه لَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ الْوَالِي عَلَى الْفُرُوجِ - والدِّمَاءِ والْمَغَانِمِ والأَحْكَامِ - وإِمَامَةِ الْمُسْلِمِينَ الْبَخِيلُ - فَتَكُونَ فِي أَمْوَالِهِمْ نَهْمَتُه - ولَا الْجَاهِلُ فَيُضِلَّهُمْ بِجَهْلِه - ولَا الْجَافِي فَيَقْطَعَهُمْ بِجَفَائِه - ولَا الْحَائِفُ لِلدُّوَلِ فَيَتَّخِذَ قَوْماً دُونَ قَوْمٍ - ولَا الْمُرْتَشِي فِي الْحُكْمِ - فَيَذْهَبَ بِالْحُقُوقِ - ويَقِفَ بِهَا دُونَ الْمَقَاطِعِ - ولَا الْمُعَطِّلُ لِلسُّنَّةِ فَيُهْلِكَ الأُمَّةَ.

(۱۳۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يعظ فيها ويزهد في الدنيا

حمد اللَّه

نَحْمَدُه عَلَى مَا أَخَذَ وأَعْطَى -

اور شہروں میں اصلاح پیدا کردوں تاکہ مظلوم بندے محفوظ ہو جائیں اور معطل حدود قائم ہو جائیں۔خدایا تجھے معلوم ہے کہ میں نے سب سے پہلے تیریر طرف رخ کیا ہے۔تیری آواز سنی ہے اوراسے قبول کیا ہے اور تیری بندگی میں رسول اکرم (ص) کے علاوہ کسی نے بھی مجھ پرسبقت نہیں کی ہے۔

تم لوگوں کو معلوم ہے کہ لوگوں کی آبرو۔ ان کی جان۔ان کے منافع۔الٰہی احکام اور امامت مسلمین کاذمہ دار نہ کوئی بخیل ہو سکتا ہے کہ وہ اموال مسلمین پر ہمیشہ دانت لگائے رہے گا۔اور نہ کوئی جاہل ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی جہالت سے لوگوں کو گمراہ کردے گا اور نہ کوئی بد اخلاق ہو سکتا ہے کہ وہ بد اخلاقی کے چر کے لگاتا رہے گا اور نہ کوئی مالیات کابددیانت ہوسکتا ہے کہوہ ایک کو مال دے گا اور ایک کومحروم کردے گا اورنہ کوئی فیصلہ میں رشوت لینے والا ہو سکتا ہے کہ وہ حقوق کو برباد کردے گا اور انہیں ان کی منزل تک نہ پہنچنے دے گا اور نہ کوئی سنت کو معطل کرنے والا ہوسکتا ہے کہ وہ امت کو ہلاک و برباد کردے گا۔

(۱۳۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کو نصیحت فرمائی ہے اور زہد کی ترغیب دی ہے )

شکر ہے خدا کا اس پر بھی جو دیا ہے اور اس پر بھی جولے لیا ہے ۔اس کے انعام پر بھی

۲۳۴

وعَلَى مَا أَبْلَى وابْتَلَى – الْبَاطِنُ لِكُلِّ خَفِيَّةٍ - والْحَاضِرُ لِكُلِّ سَرِيرَةٍ - الْعَالِمُ بِمَا تُكِنُّ الصُّدُورُ - ومَا تَخُونُ الْعُيُونُ - ونَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه غَيْرُه - وأَنَّ مُحَمَّداً نَجِيبُه وبَعِيثُه - شَهَادَةً يُوَافِقُ فِيهَا السِّرُّ الإِعْلَانَ والْقَلْبُ اللِّسَانَ.

عظة الناس

ومنها: فَإِنَّه واللَّه الْجِدُّ لَا اللَّعِبُ - والْحَقُّ لَا الْكَذِبُ - ومَا هُوَ إِلَّا الْمَوْتُ أَسْمَعَ دَاعِيه - وأَعْجَلَ حَادِيه - فَلَا يَغُرَّنَّكَ سَوَادُ النَّاسِ مِنْ نَفْسِكَ - وقَدْ رَأَيْتَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ - مِمَّنْ جَمَعَ الْمَالَ وحَذِرَ الإِقْلَالَ - وأَمِنَ الْعَوَاقِبَ طُولَ أَمَلٍ واسْتِبْعَادَ أَجَلٍ - كَيْفَ نَزَلَ بِه الْمَوْتُ فَأَزْعَجَه عَنْ وَطَنِه - وأَخَذَه مِنْ مَأْمَنِه - مَحْمُولًا عَلَى أَعْوَادِ الْمَنَايَا - يَتَعَاطَى بِه الرِّجَالُ الرِّجَالَ - حَمْلًا عَلَى الْمَنَاكِبِ - وإِمْسَاكاً بِالأَنَامِلِ - أَمَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَأْمُلُونَ بَعِيداً - ويَبْنُونَ مَشِيداً ويَجْمَعُونَ كَثِيراً - كَيْفَ أَصْبَحَتْ بُيُوتُهُمْ قُبُوراً - ومَا جَمَعُوا بُوراً - وصَارَتْ أَمْوَالُهُمْ لِلْوَارِثِينَ - وأَزْوَاجُهُمْ لِقَوْمٍ آخَرِينَ - لَا فِي حَسَنَةٍ يَزِيدُونَ

اور اس کے امتحان پربھی۔وہ ہر مخفی چیز کے اندر کابھی علم رکھتا ہے اور ہر پوشیدہ امر کے لئے حاضر بھی ہے۔دلوں کے اندر چھپے ہوئے اسرار اورآنکھوں کی خیانت سب کو بخوبی جانتا ہے اورمیں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور حضرت محمد (ص)اس کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور اس گواہی میں باطن ظاہر سے اور دل زبان سے ہم آہنگ ہے۔

خدا کی قسم وہ شے جو حقیقت ہے اورکھیل تماشہ نہیں ہے۔حق ہے اور جھوٹ نہیں ہے وہ صرف موت ہے جس کے داعی نے اپنی آواز سب کو سنا دی ہے اورجس کا ہنکانے والا جلدی مچائے ہوئے ہے لہٰذا خبردار لوگوں کی کثرت تمہارے نفس کو دھوکہ میں نہ ڈال دے۔تم دیکھ چکے ہو کہ تم سے پہلے والوں نے مالک جمع کیا۔افلاس سے خوفزدہ رہے۔انجام سے بے خبر رہے۔صرف لمبی لمبی امیدوں اور موت کی تاخیر کے خیال میں رہے اورایک مرتبہ موت نازل ہوگئی اور اس نے انہیں وطن سے بے وطن کردیا ۔محفوظ مقامات سے گرفتار کرلیا اور تابوت پر اٹھوادیا جہاں لوگ کاندھوں پر اٹھائے ہوئے۔انگلیوں کاسہارا دئیے ہوئے ایک دوسرے کے حوالے کر رہے تھے۔کیاتم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دور دراز امیدیں رکھتے تھے اورمستحکم مکانات بناتے تھے اوربے تحاشہ مال جمع کرتے تھے کہ کس طرح ان کے گھر قبروں میں تبدیل ہوگئے اورسب کیا دھرا تباہ ہوگیا۔اب اموال ورثہ کے لئے ہیں اور ازواج دوسرے لوگوں کے لئے نہ نیکیوں میں اضافہ کر سکتے ہیں

۲۳۵

ولَا مِنْ سَيِّئَةٍ يَسْتَعْتِبُونَ - فَمَنْ أَشْعَرَ التَّقْوَى قَلْبَه بَرَّزَ مَهَلُه - وفَازَ عَمَلُه فَاهْتَبِلُوا هَبَلَهَا - واعْمَلُوا لِلْجَنَّةِ عَمَلَهَا - فَإِنَّ الدُّنْيَا لَمْ تُخْلَقْ لَكُمْ دَارَ مُقَامٍ - بَلْ خُلِقَتْ لَكُمْ مَجَازاً - لِتَزَوَّدُوا مِنْهَا الأَعْمَالَ إِلَى دَارِ الْقَرَارِ - فَكُونُوا مِنْهَا عَلَى أَوْفَازٍ - وقَرِّبُوا الظُّهُورَ لِلزِّيَالِ

(۱۳۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يعظم اللَّه سبحانه ويذكر القرآن والنبي ويعظ الناس

عظمة اللَّه تعالى

وانْقَادَتْ لَه الدُّنْيَا والآخِرَةُ بِأَزِمَّتِهَا - وقَذَفَتْ إِلَيْه السَّمَاوَاتُ والأَرَضُونَ مَقَالِيدَهَا - وسَجَدَتْ لَه بِالْغُدُوِّ والآصَالِ الأَشْجَارُ النَّاضِرَةُ - وقَدَحَتْ لَه مِنْ قُضْبَانِهَا النِّيرَانَ الْمُضِيئَةَ - وآتَتْ أُكُلَهَا بِكَلِمَاتِه الثِّمَارُ الْيَانِعَةُ.

اور نہ برائیوں کے سلسلہ میں رضائے الٰہی کا سامان فراہم کر سکتے ہیں۔یاد رکھو جس نے تقویٰ کو شعار بنالیا وہی آگے نکل گیا اور اسی کا عمل کامیاب ہوگیا۔لہٰذا تقوی کے موقع کو غنیمت سمجھ اور جنت کے لئے اس کے اعمال انجام دے لو۔یہ دنیا تمہارے قیام(۱) کی جگہ نہیں ہے۔یہ فقط ایک گزر گاہ ہے کہ یہاں سے ہمیشگی کے مکان کے لئے سامان فراہم کرلو لہٰذا جلدی تیاری کرو اور سواریوں کو کوچ کے لئے اپنے سے قریب تر کرلو۔

(۱۳۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اللہ کی عظمت اور قرآن کی جلالت کا ذکر ہے اور پھر لوگوں کو نصیحت بھی کی گئی ہے )

(پروردگار ) دنیا و آخرت دونوں نے اپنی باگ ڈور اسی کے حوالہ کر رکھی ہے اور زمین و آسمان نے اپنی کنجیاں اسی کی خدمت میں پیش کردی ہیں۔اس کی بارگاہ میں صبح و شام سر سبز شاداب درخت سجدہ ریز رہتے ہیں اور اپنی لکڑی سے چمکدار آگ نکالتے رہتے ہیں اور اسی کے حکم کے مطابق پکے ہوئے پھل پیش کر تے رہتے ہیں۔

(۱)انسانی زندگی میں کامیابی کا راز یہی ایک نکتہ ہے کہ یہ دنیا انسان کی منزل نہیں ہے بلکہ ایک گذر گاہ ہے جس سے گزر کر ایک عظیم منزل کی طرف جانا ہے اور یہ مالک کا کرم ہے کہ اس نے یہاں سے سامان فراہم کرنے کی اجازت دیدی ہے اور یہاں کے سامان کو وہاں کے لئے کارآمد بنادیا ہے۔یہ اوربات ہے کہ دونوں جگہ کا فرق یہ ہے کہ یہاں کے لئے سامان رکھاجاتا ہے تو کام آتا ہے اور وہاں کے لئے راہ خدا میں دے دیا جاتا ہے تو کام آتا ہے۔غنی اورمالداردنیا سجا سکتے ہیں لیکن آخرت نہیں بنا سکتے ہیں ۔وہ صرف کریم اور صاحب خیر افراد کے لئے ہے جن کاشعار تقویٰ ہے اور جن کا اعتماد وعدہ ٔ الٰہی پر ہے۔

۲۳۶

القرآن

منها: وكِتَابُ اللَّه بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ - نَاطِقٌ لَا يَعْيَا لِسَانُه - وبَيْتٌ لَا تُهْدَمُ أَرْكَانُه - وعِزٌّ لَا تُهْزَمُ أَعْوَانُه.

رسول اللَّه

منها: أَرْسَلَه عَلَى حِينِ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ - وتَنَازُعٍ مِنَ الأَلْسُنِ - فَقَفَّى بِه الرُّسُلَ وخَتَمَ بِه الْوَحْيَ - فَجَاهَدَ فِي اللَّه الْمُدْبِرِينَ عَنْه والْعَادِلِينَ بِه.

الدنيا

منها: وإِنَّمَا الدُّنْيَا مُنْتَهَى بَصَرِ الأَعْمَى - لَا يُبْصِرُ مِمَّا وَرَاءَهَا شَيْئاً - والْبَصِيرُ يَنْفُذُهَا بَصَرُه - ويَعْلَمُ أَنَّ الدَّارَ وَرَاءَهَا - فَالْبَصِيرُ مِنْهَا

شَاخِصٌ - والأَعْمَى إِلَيْهَا شَاخِصٌ - والْبَصِيرُ مِنْهَا مُتَزَوِّدٌ - والأَعْمَى لَهَا مُتَزَوِّدٌ.

عظة الناس

منها: واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ مِنْ شَيْءٍ - إِلَّا ويَكَادُ صَاحِبُه يَشْبَعُ مِنْه - ويَمَلُّه إِلَّا الْحَيَاةَ فَإِنَّه لَا يَجِدُ فِي الْمَوْتِ رَاحَةً -

(قرآن حکیم)

کتاب خدا نگاہ کے سامنے ہے۔یہ وہ ناطق ہے جس کی زبان عاجز نہیں ہوتی ہے اور یہ وہ گھر ہے جس کے ارکان منہدم نہیں ہوتے ہیں۔یہی وہ عزت ہے جس کے اعوان و انصار شکست خوردہ نہیں ہوتے ہیں۔

(رسول اکرم (ص))

اللہ نے آپ کو اس وقت بھیجا جب رسولوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور زبانیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں۔آپ کے ذریعہ رسولوں کے سلسلہ کو تمام کیا اور وحی کے سلسلہ کو موقوف کیا تو آپ نے بھی اس سے انحراف کرنے والوں اور اس کاہمسرٹھہرانے والوں سے جم کر جہاد کیا۔

(دنیا)

یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ہے جو اس کے ماوراء کچھ نہیں دیکھتا ہے جب کہ صاحب بصیرت کی نگاہ اس پار نکل جاتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ منزل اس کے ماورا ہے۔صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے والا ہے اور اندھا اس کی طرف کوچ کرنے والا ہے۔بصیرا اس سے زاد راہ فراہم کرنے والا ہے اور اندھا اس کے لئے زاد راہ اکٹھا کرنے والا ہے ۔

(موعظہ)

یاد رکھو کہ دنیا میں جو شے بھی ہے اس کامالک سیر ہوجاتا ہے اور اکتا جاتا ہے علاوہ زندگی کے کہ کوئی شخص موت میں راحت نہیں محسوس کرتا ہے

۲۳۷

وإِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الْحِكْمَةِ - الَّتِي هِيَ حَيَاةٌ لِلْقَلْبِ الْمَيِّتِ - وبَصَرٌ لِلْعَيْنِ الْعَمْيَاءِ - وسَمْعٌ لِلأُذُنِ الصَّمَّاءِ - ورِيٌّ لِلظَّمْآنِ وفِيهَا الْغِنَى كُلُّه والسَّلَامَةُ - كِتَابُ اللَّه تُبْصِرُونَ بِه - وتَنْطِقُونَ بِه وتَسْمَعُونَ بِه - ويَنْطِقُ بَعْضُه بِبَعْضٍ - ويَشْهَدُ بَعْضُه عَلَى بَعْضٍ - ولَا يَخْتَلِفُ فِي اللَّه - ولَا يُخَالِفُ بِصَاحِبِه عَنِ اللَّه - قَدِ اصْطَلَحْتُمْ عَلَى الْغِلِّ فِيمَا بَيْنَكُمْ - ونَبَتَ الْمَرْعَى عَلَى دِمَنِكُمْ - وتَصَافَيْتُمْ عَلَى حُبِّ الآمَالِ - وتَعَادَيْتُمْ فِي كَسْبِ الأَمْوَالِ - لَقَدِ اسْتَهَامَ بِكُمُ الْخَبِيثُ وتَاه بِكُمُ الْغُرُورُ - واللَّه الْمُسْتَعَانُ عَلَى نَفْسِي وأَنْفُسِكُمْ.

(۱۳۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد شاوره عمر بن الخطاب في الخروج إلى غزو الروم

وقَدْ تَوَكَّلَ اللَّه - لأَهْلِ هَذَا الدِّينِ بِإِعْزَازِ الْحَوْزَةِ

اور یہ بات اس حکمت(۱) کی طرح ہے جس میں مردہ دلوں کیزندگی ، اندھی آنکھوں کی بصارت ' بہرے کانوں کی سماعت اور پیاسے کی سیرابی کا سامان ہے اور اسی میں ساری مالداری ہے اور مکمل سلامتی ہے۔ یہ کتاب خدا ہے جس میں تمہاری بصارت اور سماعت کا سارا سامان موجود ہے۔اس میں ایک حصہ دوسرے کی وضاحت کرتا ہے اور ایک دوسرے کی گواہی دیتا ہے۔یہ خدا کے بارے میں اختلاف نہیں رکھتا ہے اور اپنے ساتھی کو خدا سے الگ نہیں کرتا ہے۔مگر تم نے آپس میں کینہ و حسد پر اتفاق کرلیا ہے اور اسی گھورےپر پر سبزہ اگ آیا ہے۔امیدوں کی محبت میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوا اور مال جمع کرنے میں یک دوسرے کے دشمن ہو۔شیطان نے تمہیں سر گرداں کردیا ہے اورفریب نے تم کو بہکا دیا ہے۔اب اللہ ہی میرے اور تمہارے نفسوں کے مقابلہ میں ایک سہارا ہے۔

(۱۳۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب عمر نے روم کی جنگ کے بارے میں آپ سے مشورہ کیا)

اللہ نے صاحبا ن دین کے لئے یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ وہ ان کے حدود کو تقویت دے گا

(۱)اگرچہ دنیامیں زندہ رہنے کی خواہش عام طور سے آخرت کے خوف سے پیدا ہوتی ہے کہ انسان اپنے اعمال اور انجام کی طرف سے مطمئن نہیں ہوتا ہے اور اسی لئے موت کے تصور سے لرز جاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ خواہش عیب نہیں ہے بلکہ یہی جذبہ ہے جو انسان کو عمل کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور اسی کے لئے انسان دن اور رات کوایک کردیتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خواہش حیات کو حکمت کے ساتھ استعمال کرے اور اس سے ویسا ہی کام لے جو حکمت صحیح اورف کر سلیم سے لیا جاتا ہے ورنہ یہی خواہش و بال جان بھی بن سکتی ہے۔

۲۳۸

وسَتْرِ الْعَوْرَةِ. والَّذِي نَصَرَهُمْ - وهُمْ قَلِيلٌ لَا يَنْتَصِرُونَ - ومَنَعَهُمْ وهُمْ قَلِيلٌ لَا يَمْتَنِعُونَ - حَيٌّ لَا يَمُوتُ.

إِنَّكَ مَتَى تَسِرْ إِلَى هَذَا الْعَدُوِّ بِنَفْسِكَ - فَتَلْقَهُمْ فَتُنْكَبْ - لَا تَكُنْ لِلْمُسْلِمِينَ كَانِفَةٌ دُونَ أَقْصَى بِلَادِهِمْ - لَيْسَ بَعْدَكَ مَرْجِعٌ يَرْجِعُونَ إِلَيْه - فَابْعَثْ إِلَيْهِمْ رَجُلًا مِحْرَباً - واحْفِزْ مَعَه أَهْلَ الْبَلَاءِ والنَّصِيحَةِ - فَإِنْ أَظْهَرَ اللَّه فَذَاكَ مَا تُحِبُّ - وإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى - كُنْتَ رِدْءاً لِلنَّاسِ ومَثَابَةً لِلْمُسْلِمِينَ.

(۱۳۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد وقعت مشاجرة بينه وبين عثمان فقال المغيرة بن الأخنس لعثمان: أنا أكفيكه، فقال عليعليه‌السلام للمغيرة:

اور ان کے محفوظ مقامات کی حفاظت کرے گا۔اور جس نے ان کی اس وقت مدد کی ہے جب وہ قلت کی بنا پر انتقام کے قابل بھی نہ تے اور اپنی حفاظت کا انتظام بھی نہ کر سکتے تھے وہ ابھی بھی زندہ ہے اور اس کے لئے موت نہیں ہے۔تم اگر خود دشمن کی طرف جائو گے اور ان کا سامنا کروگے اور نکبت(۱) میں مبتلا ہوگئے تو مسلمانوں کے لئے آخری شہرکے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہ رہ جائے گی اور تمہارے بعد میدان میں کوئی مرکز بھی نہ رہ جائے گا جس کی طرف رجوع کرسکیں لہٰذا مناسب یہی ہے کہ کسی تجربہ کارآدمی کو بھیج دو اور اس کے ساتھ صاحبان خیرو مہارت کی ایک جماعت کو کردو۔اس کے بعداگر خدا نے غلبہ دے دیا تویہی تمہارامقصد ہے اور اگر اس کے خلاف ہوگیا تو تم لوگوں کا سہارااورمسلمانوں کےلئے ایک پلٹنےکا مرکز رہو گے۔

(۱۳۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کااورعثمان کے درمیان اختلافات پیداہوا اورمغیرہ بن اخنس نے عثمان سے کہا کہ میں ان کا کام تمام کرسکتا ہوں توآپ نےفرمایا )

(۱)میدان جنگ میں نکبت و رسوائی کے احتمال کے ساتھ کسی مرد میدان کے بھیجنے کا مشورہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ میدان جہاد میں ثبات قدم تمہاری تاریخ نہیں ہے اور نہ یہ تمہارے بس کاکام ہے لہٰذا مناسب یہی ہے کہکسی تجربہ کارشخص کو ماہرین کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ کردو تاکہ اسلام کی رسوائی نہ ہوسکے اورمذہب کا وقار بر قرار رہے۔اس کے بعد تمہیں ''فاتح اعظم '' کا لقب تو بہر حال مل ہی جائے گا جس کے دورمیں علاقہ فتح ہوتا ہے تاریخ اسی کو فاتح کا لقب دیتی ہے اورمجاہدین کویکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔

یہ بھی امیر المومنین کا ایک حوصلہ تھا کہ شدید اختلافات اور بے پناہ مصائب کے باوجود مشورہ سے دریغ نہیں کیا اور وہی مشورہ دیا جو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں تھا۔اس لئے کہ آپ اس حقیقت سے بہر حال با خبرتھے کہافراد سے اختلاف مقصد اور مذہب کی حفاظت کو ذمہ داری سے بے نیاز نہیں بنا سکتا ہے اور اسلام کے تحفظ کی ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے چاہے وہ بر سراقتدار ہو یا نہ ہو۔

۲۳۹

يَا ابْنَ اللَّعِينِ الأَبْتَرِ - والشَّجَرَةِ الَّتِي لَا أَصْلَ لَهَا ولَا فَرْعَ - أَنْتَ تَكْفِينِي - فَوَ اللَّه مَا أَعَزَّ اللَّه مَنْ أَنْتَ نَاصِرُه - ولَا قَامَ مَنْ أَنْتَ مُنْهِضُه - اخْرُجْ عَنَّا أَبْعَدَ اللَّه نَوَاكَ ثُمَّ ابْلُغْ جَهْدَكَ - فَلَا أَبْقَى اللَّه عَلَيْكَ إِنْ أَبْقَيْتَ!

(۱۳۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في أمر البيعة

لَمْ تَكُنْ بَيْعَتُكُمْ إِيَّايَ فَلْتَةً - ولَيْسَ أَمْرِي وأَمْرُكُمْ وَاحِداً - إِنِّي أُرِيدُكُمْ لِلَّه وأَنْتُمْ تُرِيدُونَنِي لأَنْفُسِكُمْ.

أَيُّهَا النَّاسُ أَعِينُونِي عَلَى أَنْفُسِكُمْ وايْمُ اللَّه لأُنْصِفَنَّ الْمَظْلُومَ مِنْ ظَالِمِه ولأَقُودَنَّ الظَّالِمَ بِخِزَامَتِه - حَتَّى أُورِدَه مَنْهَلَ الْحَقِّ وإِنْ كَانَ كَارِهاً.

(۱۳۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في شأن طلحة والزبير وفي البيعة له

طلحة والزبير

واللَّه مَا أَنْكَرُوا عَلَيَّ مُنْكَراً - ولَا جَعَلُوا بَيْنِي وبَيْنَهُمْ

اے بد نسل ملعون کے بچے ! اور اس درخت کے پھل جس کی نہ کوئی اصل ہے اور نہ فرع۔تو میرے لئے کافی ہو جائے گا؟ خدا کی قسم جس کا تومدد گار ہوگا اسکے لئے عزت نہیں ہے اور جسے تو اٹھائے گا وہ کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوگا۔نکل جا۔اللہ تیری منزل کو دور کردے۔جا اپنی کوششیں تمام کرلے۔خدا تجھ پر رحم نہ کرے گا اگر تو مجھ پرترس بھی کھائے۔

(۱۳۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(بیعت کے بارے میں )

میرے ہاتھوں پر تمہاری بیعت کوئی نا گہانی حادثہ نہیں ہے۔اور میرا اور تمہارا معاملہ ایک جیسا بھی نہیں ہے۔میں تمہیں اللہ کے لئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے فائدہ کے لئے چاہتے ہو۔

لوگو! اپنی نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں میری مدد کرو۔خدا کی قسم میں مظلوم کوظالم سے اس کاحق دلوائوں گا اور ظالم کو اس کی ناک میں نکیل ڈال کرکھینچوں گا تاکہ اسے چشمہ حق پر وارد کردوں چاہے وہ کسی قدرناراض کیوں نہ ہو۔

(۱۳۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(طلحہ و زبیر اور ان کی بیعت کے بارے میں )

خدا کی قسم ان لوگوں نے نہ میری کسی واقعی برائی کی گرفت کی ہے اورنہ میرے اور اپنے

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

۳۴۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْعِصْمَةِ تَعَذُّرُ الْمَعَاصِي.

۳۴۶ - وقَالَعليه‌السلام مَاءُ وَجْهِكَ جَامِدٌ يُقْطِرُه السُّؤَالُ - فَانْظُرْ عِنْدَ مَنْ تُقْطِرُه.

۳۴۷ - وقَالَعليه‌السلام الثَّنَاءُ بِأَكْثَرَ مِنَ الِاسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ - والتَّقْصِيرُ عَنِ الِاسْتِحْقَاقِ عِيٌّ أَوْ حَسَدٌ.

۳۴۸ - وقَالَعليه‌السلام أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَهَانَ بِه صَاحِبُه.

۳۴۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَظَرَ فِي عَيْبِ نَفْسِه اشْتَغَلَ عَنْ عَيْبِ غَيْرِه

(۳۴۵)

گناہوں تک رسائی کا نہ ہونا بھی ایک طرح کی پاکدامنی(۱) ہے۔

(۳۴۶)

تمہاری آبرو محفوظ ہے اور سوال اسے مٹا دیتا ہے لہٰذا یہ دیکھتے رہو کہ کس کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہو اور آبرو کا سودا کررہے ہو ۔

(۳۴۷)

استحقاق سے زیادہ تعریف کرناخوشامد ہے اور استحقاق سے کم تعریف کرناعاجزی ہے یا حسد۔

(۳۴۸)

سب سے سخت گناہوہ ہے جسے گناہ گار ہلکا(۲) قراردیدے ۔

(۳۴۹)

جواپنے عیب پر نگاہ رکھتا ہے وہ دوسروں کے عیب سے غافل ہو جاتا ہے

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گناہوں کے بارے میں شریعت کامطالبہ صرف یہ ہے کہ انسان ان سے اجتناب کرے اور ان میں مبتلا نہ ہونے پائے چاہے اس کا سبب اس کا تقدس ہو یا مجبوری۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اپنے اختیار سے گناہوں کا ترک کردینے والا مستحق اجرو ثواب بھی ہوسکتا ہے اور مجبور اً ترک کردینے والا کس اجرو ثواب کا حقدار نہیں ہو سکتا ہے ۔

(۲)غیر معصوم انسان کی زندگی کے بارے میں گناہوں کے امکانات توہمہ وقت رہتے ہیں لیکن انسان کی شرافت نفس یہ ہے کہ جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تواسے گناہ تصور کرے اور اس کی تلافی کی فکر کرے ورنہ اگر اسے خفیف اور ہلکا تصور کرلیا تو یہ دوسرا گناہ ہوگا جو پہلے گناہ سے بد تر ہوگا کہ پہلا گناہنفس کی کمزوری سے پیداہواتھا اور یہ ایمان اور عقیدہ کی کمزوری سے پیدا ہوا ہے۔

۷۴۱

- ومَنْ رَضِيَ بِرِزْقِ اللَّه لَمْ يَحْزَنْ عَلَى مَا فَاتَه - ومَنْ سَلَّ سَيْفَ الْبَغْيِ قُتِلَ بِه - ومَنْ كَابَدَ الأُمُورَ عَطِبَ - ومَنِ اقْتَحَمَ اللُّجَجَ غَرِقَ - ومَنْ دَخَلَ مَدَاخِلَ السُّوءِ اتُّهِمَ - ومَنْ كَثُرَ كَلَامُه كَثُرَ خَطَؤُه - ومَنْ كَثُرَ خَطَؤُه قَلَّ حَيَاؤُه - ومَنْ قَلَّ حَيَاؤُه قَلَّ وَرَعُه - ومَنْ قَلَّ وَرَعُه مَاتَ قَلْبُه - ومَنْ مَاتَ قَلْبُه دَخَلَ النَّارَ - ومَنْ نَظَرَ فِي عُيُوبِ النَّاسِ فَأَنْكَرَهَا - ثُمَّ رَضِيَهَا لِنَفْسِه فَذَلِكَ الأَحْمَقُ بِعَيْنِه - والْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ - ومَنْ أَكْثَرَ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ - رَضِيَ مِنَ الدُّنْيَا بِالْيَسِيرِ - ومَنْ عَلِمَ أَنَّ كَلَامَه مِنْ عَمَلِه - قَلَّ كَلَامُه إِلَّا فِيمَا يَعْنِيه.

۳۵۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلظَّالِمِ مِنَ الرِّجَالِ ثَلَاثُ عَلَامَاتٍ - يَظْلِمُ مَنْ فَوْقَه بِالْمَعْصِيَةِ - ومَنْ دُونَه بِالْغَلَبَةِ

اور جو رزق خدا پر راضی رہتا ہے وہ کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے پر رنجیدہ نہیں ہوتا ہے۔جو بغاوت کی تلوار کھینچتا ہے خوداسی سے ماراجاتا ہے اور جواہ امورکو زبر دستی انجام دیناچاہتا ہے وہ تباہ ہو جاتا ہے لہروں میں پھاند پڑنے والا ڈوب جاتا ہے اورغلط جگہوں پردخل ہونے والا بدنام ہو جاتا ہے۔جس کی باتیں زیادہ ہوتیںہیں اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں اورجس کی غلطیاں زیادہ ہوتی ہیں اس کی حیاکم ہو جاتی ہے اورجس کی حیاکم ہو جاتی ہے اس کا تقویٰ بھی کم ہوجاتا ہے اورجس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اس کادل مردہ ہوجاتا ہے اور جس کادل مردہ ہوجاتا ہے وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے ۔

جولوگوں کے عیب کو دیکھ کرناگواری کا اظہارکرے اورپھراسی عیب کو اپنے لئے پسند کرلے تو اسی کو احمق کہا جاتا ہے ۔

قناعت ایک ایسا سرمایہ ہے جوختم ہونے والا نہیں ہے۔

جوموت کو برابر یاد کرتا رہتا ہے وہ دنیا کے مختصر حصہ پر بھی راضی ہو جاتا ہے۔اور جسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام بھی عمل کا ایک حصہ ہے وہ ضرورت سے زیادہ کلام نہیں کرتا ہے۔

(۳۵۰)

لوگوں میں ظالم کی تین علامات ہوتی ہیں۔اپنے سے بالاتر پر معصیت کے ذریعہ ظلم کرتا ہے۔اپنے سے کمتر پرغلبہ و قہر کے ذریعہ ظلم کرتا ہے اور پھر ظالم قوم کی

۷۴۲

ويُظَاهِرُ الْقَوْمَ الظَّلَمَةَ

۳۵۱ - وقَالَعليه‌السلام عِنْدَ تَنَاهِي الشِّدَّةِ تَكُونُ الْفَرْجَةُ - وعِنْدَ تَضَايُقِ حَلَقِ الْبَلَاءِ يَكُونُ الرَّخَاءُ.

۳۵۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ أَصْحَابِه - لَا تَجْعَلَنَّ أَكْثَرَ شُغُلِكَ بِأَهْلِكَ ووَلَدِكَ - فَإِنْ يَكُنْ أَهْلُكَ ووَلَدُكَ أَوْلِيَاءَ اللَّه - فَإِنَّ اللَّه لَا يُضِيعُ أَوْلِيَاءَه - وإِنْ يَكُونُوا أَعْدَاءَ اللَّه فَمَا هَمُّكَ وشُغُلُكَ بِأَعْدَاءِ اللَّه.

۳۵۳ - وقَالَعليه‌السلام أَكْبَرُ الْعَيْبِ أَنْ تَعِيبَ مَا فِيكَ مِثْلُه

حمایت(۱) کرتا ہے۔

(۳۵۱)

سختیوں کی انتہا ہی پر کشائش حال پیدا ہوتی ہے اور بلائوں کے حلقوں کی تنگی ہی کے موقع پرآسائش(۲) پیدا ہوتی ہے۔

(۳۵۲)

اپنے بعض اصحاب سے خطاب کرکے فرمایا: زیادہ حصہ بیوی بچوں کی فکرمیں مت رہا کرو کہ اگر یہ اللہ کے دوست ہیں تواللہ انہیں(۳) برباد نہیں ہونے دے گا اور اگراس کے دشمن ہیں تو تم دشمنان خدا کے بارے میں کیوں فکر مند ہو۔

(مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے دائرہ سے باہرنکل کر سماج اورمعاشرہکے بارے میں بھی فکر کرے ۔صرف کنویں کامینڈک بن کرنہ رہ جائے )

(۳۵۳)

بد ترین عیب یہ ہے کہ انسان کسی عیب کو برا کہے اور پھر اس میں وہی عیب پایا جاتا ہو۔

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ صرف ظلم کرنا ہی ظلم نہیں ہے بلکہ ظالم کی حمایت بھی ایک طرح کا ظلم ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس ظلم سے بھی محفوظ رہے اور مکمل عادلانہ زندگی گذارے اور ہر شے کو اسی مقام پر رکھے جو اس کا محل اورموقع ہے۔

(۲)مقصد یہ ے کہ انسان کو سختیوں اور تنگیوں میں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ حوصلہ کو بلند رکھنا چاہیے اور سر گرم عمل رہنا چاہیے کہ قرآن کریم نے سہولت کو تنگی اورزحمت کے بعد نہیں رکھا ہے بلکہ اسی کے ساتھ رکھاہے '' ان مع الیسر یسرا ''

(۳)اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے انسان اہل و عیال کی طرف سے یکسر غافل و جائے اورانہیں پروردگار کے رحم و کرم پر چھوڑدے۔پروردگار کا رحم و کرم ماں باپ سے یقینا زیادہ ہے لیکن ماں باپ کی اپنی بھی ایک ذمہداری ہے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ بقدرواجب خدمت کرکے باقی معاملات کو پروردگار کے حوالہ کردے اوران کی طرف سراپا توجہ بن کر پروردگار سے غافل نہ ہو جائے ۔

۷۴۳

۳۵۴ - وهَنَّأَ بِحَضْرَتِه رَجُلٌ رَجُلًا بِغُلَامٍ وُلِدَ لَه - فَقَالَ لَه لِيَهْنِئْكَ الْفَارِسُ - فَقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ ذَلِكَ - ولَكِنْ قُلْ شَكَرْتَ الْوَاهِبَ - وبُورِكَ لَكَ فِي الْمَوْهُوبِ - وبَلَغَ أَشُدَّه ورُزِقْتَ بِرَّه.

۳۵۵ - وبَنَى رَجُلٌ مِنْ عُمَّالِه بِنَاءً فَخْماً - فَقَالَعليه‌السلام أَطْلَعَتِ الْوَرِقُ رُءُوسَهَا - إِنَّ الْبِنَاءَ يَصِفُ لَكَ الْغِنَى.

۳۵۶ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام لَوْ سُدَّ عَلَى رَجُلٍ بَابُ بَيْتِه وتُرِكَ فِيه - مِنْ أَيْنَ كَانَ يَأْتِيه رِزْقُه - فَقَالَعليه‌السلام مِنْ حَيْثُ يَأْتِيه أَجَلُه.

۳۵۷ - وعَزَّى قَوْماً عَنْ مَيِّتٍ مَاتَ لَهُمْ فَقَالَعليه‌السلام - إِنَّ هَذَا الأَمْرَ لَيْسَ لَكُمْ بَدَأَ - ولَا إِلَيْكُمُ انْتَهَى - وقَدْ كَانَ صَاحِبُكُمْ

(۳۵۴)

حضرت کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو فرزند کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ شہسوار مبارک ہو۔توآپ نے فرمایا کہ یہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ تم نے دینے والے کا شکریہ ادا کیاہے لہٰذا تمہیں یہ تحفہ مبارک ہو۔خداکرے کہ یہ منزل کمال تک پہنچے اور تمہیں اس کی نیکی نصیب ہو۔

(۳۵۵)

آپ کے عمال میں سے ایک شخص نے عظیم عمارت تعمیر کرلی تو آپ نے فرمایا کہ چاندی کے سکوں نے سر نکال لیا ہے ۔یقینا یہ تعمیر تمہاری مالداری کی غمازی کرتی ہے۔

(۳۵۶)

کسی نے آپ سے سوال کیا کہ اگر کسی شخص کے گھر کادروازہ بند کردیا جائے اوراسے تنہا چھوڑ دیا جائے تو اس کا رزق کہاں سے آئے گا ؟ فرمایا کہ جہاں سے اس کی موت آئے گی ۔

(۳۵۷)

ایک جماعت کو کسی مرنے والے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے فرمایا: یہ بات تمہارے یہاں کوئی نئی نہیں ہے اور نہ تمہیں پر اس کی انتہا ہے۔تمہارا یہ ساتھی سر

۷۴۴

هَذَا يُسَافِرُ فَعُدُّوه فِي بَعْضِ أَسْفَارِه - فَإِنْ قَدِمَ عَلَيْكُمْ وإِلَّا قَدِمْتُمْ عَلَيْه.

۳۵۸ - وقَالَعليه‌السلام أَيُّهَا النَّاسُ لِيَرَكُمُ اللَّه مِنَ النِّعْمَةِ وَجِلِينَ - كَمَا يَرَاكُمْ مِنَ النِّقْمَةِ فَرِقِينَ - إِنَّه مَنْ وُسِّعَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اسْتِدْرَاجاً فَقَدْ أَمِنَ مَخُوفاً - ومَنْ ضُيِّقَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اخْتِبَاراً فَقَدْ ضَيَّعَ مَأْمُولًا

۳۵۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَسْرَى الرَّغْبَةِ أَقْصِرُوا ،فَإِنَّ الْمُعَرِّجَ عَلَى الدُّنْيَا لَا يَرُوعُه مِنْهَا - إِلَّا صَرِيفُ أَنْيَابِ الْحِدْثَانِ أَيُّهَا النَّاسُ تَوَلَّوْا مِنْ أَنْفُسِكُمْ تَأْدِيبَهَا - واعْدِلُوا بِهَا عَنْ ضَرَاوَةِ عَادَاتِهَا.

گرم سفر رہا کرتاتھا تو سمجھو کہ یہ بھی ایک سفر ہے اس کے بعد یا وہ تمہارے پاس وارد ہوگا یاتم اس کے پاس وارد ہوگے۔

(۳۵۸)

لوگو! اللہ نعمت کے موقع پر بھی تمہیں(۱) ویسے ہی خوفزدہ دیکھے جس طرح عذاب کے معاملہ میں ہراساں دیکھتا ہے کہ جس شخص کو فراخدستی حاصل ہو جائے اور وہ اسے عذاب کی لپیٹ نہ سمجھے تو اس نے خوفناک چیز سے بھی اپنے کومطمئن سمجھ لیا ہے اور جو تنگدستی میں مبتلا ہو جائے اوراسے امتحان نہ سمجھے اس نے اس ثواب کوبھی ضائع کردیا جس کی امید کی جاتی ہے۔

(۳۵۹)

اے حرص و طمع کے اسیرو!اب باز آجائو۔کہ دنیا پر ٹوٹ پڑنے والوں کو حوادث زمانہ کے دانت پیسنے کے علاوہ کوئی خوف زدہ نہیں کر سکتا ہے ۔

اے لوگو! اپنے نفس کی اصلاح کی ذمہ داری خود سنبھال لو اور اپنی عادتوں کے تقاضوں(۲) سے منہ موڑ لو۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ زندگانی کے دونوں طرح کے حالات میں دونوں طرح کے احتمالات پائے جاتے ہیں۔راحت وآرام میں امکان فضل و کرم بھی ہے اور احتمال مہلت و اتمام حجت بھی ہے اور اسی طرح مصیبت اور پریشانی کے ماحول میں احتمال عتاب و عقاب بھی ہے اور احتمال امتحان و اختیار بھی ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ راحتوں کے ماحول میں اس خطرہ سے محفوظ نہ ہو جائے کہ اس طرح بھی قوموں کو عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے اور پریشانیوں کے حالات میں اس رخ سے غافل نہ ہو جائے کہ یہ امتحان بھی ہوسکتا ہے اوراس میں صبرو تحمل کا مظاہرہ کرکے اجرو ثواب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ خواہشات کے اسیر نہ بنواور دنیا کا اعتبارنہکرو۔انجام کار کی زحمتوں سے ہوشیار رہو اور اپنے نفس کواپنے قابو میں رکھو تاکہ بیجا رسوم اورمہمل عادات کا اتباع نہ کرو۔

۷۴۵

۳۶۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَظُنَّنَّ بِكَلِمَةٍ خَرَجَتْ مِنْ أَحَدٍ سُوءاً - وأَنْتَ تَجِدُ لَهَا فِي الْخَيْرِ مُحْتَمَلًا.

۳۶۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا كَانَتْ لَكَ إِلَى اللَّه سُبْحَانَه حَاجَةٌ - فَابْدَأْ بِمَسْأَلَةِ الصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ثُمَّ سَلْ حَاجَتَكَ - فَإِنَّ اللَّه أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ حَاجَتَيْنِ - فَيَقْضِيَ إِحْدَاهُمَا ويَمْنَعَ الأُخْرَى.

۳۶۲ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ضَنَّ بِعِرْضِه فَلْيَدَعِ الْمِرَاءَ

۳۶۳ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْخُرْقِ الْمُعَاجَلَةُ قَبْلَ الإِمْكَانِ - والأَنَاةُ بَعْدَ الْفُرْصَةِ

(۳۶۰)

کسی کی بات کے غلط معنی(۱) نہ لو جب تک صحیح معنی کا امکان موجود ہے۔

(۳۶۱)

اگر پروردگار کی بار گاہ(۲) میں تمہاری کوئی حاجت ہو تو اس کی طلب کا آغاز رسو ل اکرم (ص) پر صلوات سے کرو اور اس کے بعد اپنی حاجت طلب کرو کہ پروردگار اس بات سے بالاتر ہے کہ اس سے دو باتوں کا سوال کیا جائے اور وہ ایک کو پورا کردے اور ایک کو نظر انداز کردے ۔

(۳۶۲)

جو اپنی آبرو کو بچانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرے۔

(۳۶۳)

کسی بات کے امکان سے پہلے جلدی کرنا اور وقت آجانے پر دیر کرنا دونوں ہی حماقت ہے۔

(۱)کاش ہر شخص اس تعلیم کو اختیار کرلیتا تو سماج کے بے شمارمفاسد سے نجات مل جاتی اور دنیامیں فتنہ و فساد اکثر راستے بند ہو جاتے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا ہے اورہر شخص دوسرے کے بیان میں غلط پہلو پہلے تلاش کرتا ہے اور صحیح رخ کے بارے میں بعد میں سوچتا ہے۔

(۲)یہ صحیح ہے کہ رسول اکرم (ص) ہماری صلوات اوردعائے رحمت کے محتاج نہیں ہیں لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنے ادائے شکر سے غافل ہو جائیں اور ان کی طرف سے ملنے والی نعمت ہدایت کا کسی شکل میں کوئی بدلہ دیں۔ورنہ پروردگار بھی ہماری عبادتوں کامحتاج نہیں ہے تو ہر انسان عبادتوں کو نظراندازکرکے چین سے سوجائے ۔صلوات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان پروردگار کی نظر عنایت کا حقدار ہو جاتا ہے اور اس طرح اس کی دعائیں قابل قبول ہو جاتی ہیں۔

۷۴۶

۳۶۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَسْأَلْ عَمَّا لَا يَكُونُ - فَفِي الَّذِي قَدْ كَانَ لَكَ شُغُلٌ

۳۶۵ - وقَالَعليه‌السلام الْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ والِاعْتِبَارُ مُنْذِرٌ نَاصِحٌ - وكَفَى أَدَباً لِنَفْسِكَ تَجَنُّبُكَ مَا كَرِهْتَه لِغَيْرِكَ.

۳۶۶ - وقَالَعليه‌السلام الْعِلْمُ مَقْرُونٌ بِالْعَمَلِ فَمَنْ عَلِمَ عَمِلَ - والْعِلْمُ يَهْتِفُ بِالْعَمَلِ - فَإِنْ أَجَابَه وإِلَّا ارْتَحَلَ عَنْه.

(۳۶۴)

جو بات ہونے والی نہیں ہے۔اس کے بارے میں سوال مت کرو کہ جو ہوگیا ہے وہی تمہارے لئے کافی ہے۔

(۳۶۵)

فکر(۱) ایک شفاف آئینہ ہے اورعبرت حاصل کرنا ایک انتہائی مخلص متنبہ کرنیوالا ے۔تمہارے نفس کے ادب کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس چیز کو دوسروں کے لئے نا پسند کرتے ہو اس سے خود بھی پرہیز کرو۔

(۳۶۶)

علم کا مقدر عمل(۲) سے جڑا ہوا ہے اورجو واقعی صاحب علم ہوتا ہے وہ عمل بھی کرتا ہے۔یاد رکھو کہ علم عمل کے لئے آوازدیتا ہے اور انسان سن لیتا ہے تو خیر ورنہ خود بھی رخصت ہو جاتا ہے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فکر ایک شفاف آئینہ ہے جس میں بآسانی مجہولات کاچہرہ دیکھ لیا جاتا ہے اور اہل منطق نے اس کی یہی تعریف کی ہے کہ معلومات کی اس طرح مرتب کیا جائے کہ اس سے مجہولات کاعلم حاصل ہو جائے ۔لیکن صرف مستقبل کاچہرہ دیکھ لینا ہی کوئی ہنرنہیں ہے۔اصل ہنر اور کام اس سے عبرت حاصل کرنا ہے کہ انسان کے حق میں عبرت سے زیادہ مخلص نصیحت کرنے والا کوئی نہیں ہے اور یہی عبرت ہے جو اسے ہر برائی اور مصیبت سے بچا سکتی ہے ورنہ اس کے علاوہ کوئی یہ کار خیر انجام دینے والا نہیں ہے۔

(۲)بلا شک و شبہ علم ایک کمال ہے اور مجہولات کاحاصل کرلینا ایک ہنر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسے با کمال اور صاحب ہنر کس طرح کہاجاسکتا ہے جو یہ تودریافت کرلے کہ فلاں چیز میں زہر ہے مگر اس سے اجتناب نہ کرے۔ایسے شخص کو تو مزید احمق اور نالائق تصور کیا جاتا ہے۔

علم کا کمال ہی یہ ہے کہ انسان اس کے مطابق عمل کرے تاکہ صاحب علم اور صاحب کمال کہے جانے کاحقدار ہو جائے ورنہ علم ایک وبال ہو جائے گا اوراپنی ناقدری سے ناراض ہو کر رخصت بھی ہو جائے گا۔صرف نام علم باقی رہ جائے گا ور حقیقت علم ختم ہو جائے گی۔

۷۴۷

۳۶۷ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَتَاعُ الدُّنْيَا حُطَامٌ مُوبِئٌ - فَتَجَنَّبُوا مَرْعَاه قُلْعَتُهَا أَحْظَى مِنْ طُمَأْنِينَتِهَا - وبُلْغَتُهَا أَزْكَى مِنْ ثَرْوَتِهَا - حُكِمَ عَلَى مُكْثِرٍ مِنْهَا بِالْفَاقَةِ - وأُعِينَ مَنْ غَنِيَ عَنْهَا بِالرَّاحَةِ - مَنْ رَاقَه زِبْرِجُهَا أَعْقَبَتْ نَاظِرَيْه كَمَهاً - ومَنِ اسْتَشْعَرَ الشَّغَفَ بِهَا مَلأَتْ ضَمِيرَه أَشْجَاناً - لَهُنَّ رَقْصٌ عَلَى سُوَيْدَاءِ قَلْبِه - هَمٌّ يَشْغَلُه وغَمٌّ يَحْزُنُه - كَذَلِكَ حَتَّى يُؤْخَذَ بِكَظَمِه فَيُلْقَى بِالْفَضَاءِ مُنْقَطِعاً أَبْهَرَاه - هَيِّناً عَلَى اللَّه فَنَاؤُه وعَلَى الإِخْوَانِ إِلْقَاؤُه - وإِنَّمَا يَنْظُرُ الْمُؤْمِنُ إِلَى الدُّنْيَا بِعَيْنِ الِاعْتِبَارِ - ويَقْتَاتُ مِنْهَا بِبَطْنِ الِاضْطِرَارِ - ويَسْمَعُ فِيهَا بِأُذُنِ الْمَقْتِ والإِبْغَاضِ - إِنْ قِيلَ أَثْرَى قِيلَ أَكْدَى - وإِنْ فُرِحَ لَه بِالْبَقَاءِ حُزِنَ لَه

(۳۶۷)

ایہاالناس! دنیا کا سرمایہ ایک سڑفا بھوسہ ہے جس سے وباء پھیلنے والی ہے لہٰذا اس کی چراگاہ سے ہوشیار رہو اس دنیا سے چل چلائو سکون کے ساتھ رہنے سے زیادہ فائدہ مند ہے اور یہاں کابقدر ضرورت سامان ثروت سے زیادہ برکت والا ہے ۔یہاں کے دولت مند کے بارے میں ایک دن احتیاج لکھ دی گئی ہے اوراس سے بے نیاز رہنے والے کو راحت کا سہارا دے دیا جاتا ہے ۔جسے اس کی زینت پسندآگئی اس کی آنکھوں کوانجام کاری ہ اندھا کردیتی ہے اورجس نے اس سے شغف کو شعار بنا لیا اس کے ضمیر کو رنج و اندوہ سے بھردیتی ہے اور یہ فکریں اس کے نقطہ قلب کے گرد چکر لگاتی رہتی ہیں بعض اسے مشغول بنالیتی ہیں اور بعض محزون بنادیتی ہیں اور یہ سلسلہ یوں ہی قائم رہتا ہے یہاں تک کہاس کا گلا گھونٹ دیا جائے اوراسے فضائ( قبر) میں ڈال دیا جائے جہاں دل کی دونوں رگیں کٹ جائیں۔خداکے لئے اس کا فناکردینا بھی آسان ہے اور بھائیوںکے لئے اسے قبر میں ڈال دینابھی مشکل نہیں ہے۔مومن وہی ہے جو دنیاکی طرف عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پیٹ کی ضرورت بھر سامان پر گذارا کر لیتا ہے۔اس کی باتوں کہ عداوت و نفرت کے کانوں سے سنتا ہے۔کہ جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مالدار ہوگیا ہے تو فوراً آوازآتی ہے کہ نادار ہوگیا ہے۔اور جب کسی کو بقا کے تصور سے مسرور کیا جاتا ہے تو فناکے خیال سے رنجیدہ بنادیاجاتاہے

۷۴۸

بِالْفَنَاءِ - هَذَا ولَمْ يَأْتِهِمْ يَوْمٌ فِيه يُبْلِسُونَ

۳۶۸ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه وَضَعَ الثَّوَابَ عَلَى طَاعَتِه - والْعِقَابَ عَلَى مَعْصِيَتِه ذِيَادَةً لِعِبَادِه عَنْ نِقْمَتِه - وحِيَاشَةً لَهُمْ إِلَى جَنَّتِه.

۳۶۹ - وقَالَعليه‌السلام يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ - لَا يَبْقَى فِيهِمْ مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُه - ومِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُه - ومَسَاجِدُهُمْ يَوْمَئِذٍ عَامِرَةٌ مِنَ الْبِنَاءِ - خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى - سُكَّانُهَا وعُمَّارُهَا شَرُّ أَهْلِ الأَرْضِ - مِنْهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وإِلَيْهِمْ تَأْوِي الْخَطِيئَةُ - يَرُدُّونَ مَنْ شَذَّ عَنْهَا فِيهَا - ويَسُوقُونَ مَنْ تَأَخَّرَ عَنْهَا إِلَيْهَا - يَقُولُ اللَّه سُبْحَانَه فَبِي حَلَفْتُ - لأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ فِتْنَةً تَتْرُكُ الْحَلِيمَ فِيهَا حَيْرَانَ - وقَدْ فَعَلَ ونَحْنُ نَسْتَقِيلُ اللَّه عَثْرَةَ الْغَفْلَةِ.

۔اور یہ سباس وقت ہے جب ابھی وہ دن نہیں آیا ہے جب دن اہل دنیا مایوسی کاشکار ہوجائیں گے۔

(۳۶۸)

پروردگار عالم نے اطاعت پر ثواب اور معصیت پر عقاب اسی لئے رکھا ہے تاکہ بندوں کو اپنے غضب سے دور رکھ سکے اور انہیں گھیر جنت کی طرف لے آئے ۔

(۳۶۹)

لوگوں پر ایک ایسا دوربھی آنے والا ہے جب قرآن صرف نقوش باقی رہ جائیں گے اور اسلام میں صرف نام باقی رہ جائے گا مسجدیں(۱) تعمیرات کے اعتبار سے آباد ہوں گی اور ہدایت کے اعتبار سے برباد ہوں گی۔اس کے رہنے والے اورآباد کرنے والے سب بد ترین اہل زمانہ ہوں گے۔انہیں سے فتنہ باہر آئے گا اورانہیں کی طرف غلطیوں کو پناہ ملے گی۔جو اس سے بچ کر جانا چاہے گا اسے اس کی طرف پلٹا دیں گے اور جودور رہنا چاہے گا اسے ہنکا کرلے آئیں گے

پروردگار کا ارشاد ہے کہ میری ذات کی قسم میں ان لوگوں پر ایک ایسے فتنہ کو مسلط کردوں گا جو صاحب عقل کوبھی حیرت زدہ بنادے گا اور یہ یقینا ہو کر رہے گا۔ہم اس کی بارگاہ میں غفلتوں کی لغزشوں سے پناہ چاہتے ہیں۔

(۱)شائد کہ ہمارا دور اس ارشاد گرامی کا بہترین مصداق ہے جہاں مساجد کی تعمیر بھی ایک فیشن ہوگئی ہے اور اس کا اجتماع بھی ایک فنکشن ہو کر رہ گیا ہے ۔روح مسجد فنا ہوگئی ہے اور مساجد سے وہ کام نہیں لیا جا رہا ہے جو مولائے کائنات کے دور میں لیا جارہا تھا جہاں اسلام کی ہر تحریک کا مرکز مسجد تھی اورباطل سے ہر مقابلہ کامنصوبہ مسجد میں تیار ہوتا تھا۔لیکن آج مسجدیں صرف حکومتوں کے لئے دعائے خیر کامرکز ہیں اور ان کی شخصیتوں کے پروپگینڈہ کابہترین پلیٹ فارم ہیں۔رب کریم اس صورت حال کی اصلاح فرمائے ۔!

۷۴۹

۳۷۰ - ورُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام قَلَّمَا اعْتَدَلَ بِه الْمِنْبَرُ - إِلَّا قَالَ أَمَامَ الْخُطْبَةِ - أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّه - فَمَا خُلِقَ امْرُؤٌ عَبَثاً فَيَلْهُوَ - ولَا تُرِكَ سُدًى فَيَلْغُوَ - ومَا دُنْيَاه الَّتِي تَحَسَّنَتْ لَه بِخَلَفٍ - مِنَ الآخِرَةِ الَّتِي قَبَّحَهَا سُوءُ النَّظَرِ عِنْدَه - ومَا الْمَغْرُورُ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الدُّنْيَا بِأَعْلَى هِمَّتِه - كَالآخَرِ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الآخِرَةِ بِأَدْنَى سُهْمَتِه

۳۷۱ - وقَالَعليه‌السلام لَا شَرَفَ أَعْلَى مِنَ الإِسْلَامِ - ولَا عِزَّ أَعَزُّ مِنَ التَّقْوَى - ولَا مَعْقِلَ أَحْسَنُ مِنَ الْوَرَعِ - ولَا شَفِيعَ أَنْجَحُ مِنَ التَّوْبَةِ - ولَا كَنْزَ أَغْنَى مِنَ الْقَنَاعَةِ - ولَا مَالَ أَذْهَبُ لِلْفَاقَةِ مِنَ الرِّضَى بِالْقُوتِ - ومَنِ اقْتَصَرَ عَلَى بُلْغَةِ الْكَفَافِ - فَقَدِ انْتَظَمَ الرَّاحَةَ وتَبَوَّأَ خَفْضَ الدَّعَةِ - والرَّغْبَةُ مِفْتَاحُ النَّصَبِ

ومَطِيَّةُ التَّعَبِ - والْحِرْصُ والْكِبْرُ والْحَسَدُ - دَوَاعٍ إِلَى التَّقَحُّمِ فِي الذُّنُوبِ - والشَّرُّ جَامِعُ مَسَاوِئِ الْعُيُوبِ.

(۳۷۰)

کہا جاتا ہے کہ آپ جب بھی منبر پرتشریف لے جاتے تھے تو خطبہ سے پہلے یہ کلمات ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔

لوگو! اللہ سے ڈرو۔اس نے کسی کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے کہ کھیل کود میں لگ جائے اور نہ آزاد چھوڑ دیا ہے کہ لغویتیں کرنے لگے۔یہ دنیا جو انسان کی نگاہ میں آراستہ ہوگئی ہے یہ اس آخرت کا بدل نہیں بن سکتی ہے جسے بری نگاہ نے قبیح بنادیا ہے ۔جو فریب خوردہ دنیا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے وہ اس کا جیسا نہیں ہے جو آخرت میں ادنیٰ حصہ بھی حاصل کرلے ۔

(۳۷۱)

اسلام سے بلند تر کوئی شرف نہیں ہے اور تقویٰ سے زیادہ باعزت کوئی عزت نہیں ہے۔پرہیز گاری سے بہترکوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور توبہ سے زیادہ کامیاب کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔قناعت سے زیادہ مالدار بنانے والا کوئی خزانہ نہیں ہے اور روزی پر راضی ہو جانے سے زیادہ فقر و فاقہ کو دورکرنے والا نہیں ہے ۔

جس نے بقدرکفایت سامان پرگذارا کرلیا اس نے راحت کو حاصل کرلیا اور سکون کی منزل میں گھر بنالیا۔

خواہش رنج و تکلیف کی کنجی اور تکان و زحمت کی سواری ہے۔

حرص ' تکبر اورحسد گناہوں میں کود پڑنے کے اسباب و محرکات ہیں اورش ر تمام برائیوں کاجامع ہے

۷۵۰

۳۷۲ - وقَالَعليه‌السلام لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّه الأَنْصَارِيِّ - يَا جَابِرُ قِوَامُ الدِّينِ والدُّنْيَا بِأَرْبَعَةٍ - عَالِمٍ مُسْتَعْمِلٍ عِلْمَه - وجَاهِلٍ لَا يَسْتَنْكِفُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وجَوَادٍ لَا يَبْخَلُ بِمَعْرُوفِه - وفَقِيرٍ لَا يَبِيعُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه - فَإِذَا ضَيَّعَ الْعَالِمُ عِلْمَه - اسْتَنْكَفَ الْجَاهِلُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وإِذَا بَخِلَ الْغَنِيُّ بِمَعْرُوفِه - بَاعَ الْفَقِيرُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه.

يَا جَابِرُ مَنْ كَثُرَتْ نِعَمُ اللَّه عَلَيْه - كَثُرَتْ حَوَائِجُ النَّاسِ إِلَيْه - فَمَنْ قَامَ لِلَّه فِيهَا بِمَا يَجِبُ فِيهَا عَرَّضَهَا لِلدَّوَامِ والْبَقَاءِ ومَنْ لَمْ يَقُمْ فِيهَا بِمَا يَجِبُ عَرَّضَهَا لِلزَّوَالِ والْفَنَاءِ.

۳۷۳ - ورَوَى ابْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ فِي تَارِيخِه: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى الْفَقِيه - وكَانَ مِمَّنْ خَرَجَ لِقِتَالِ الْحَجَّاجِ مَعَ ابْنِ الأَشْعَثِ - أَنَّه قَالَ فِيمَا كَانَ يَحُضُّ بِه النَّاسَ عَلَى الْجِهَادِ - إِنِّي سَمِعْتُ عَلِيّاً رَفَعَ اللَّه دَرَجَتَه فِي الصَّالِحِينَ - وأَثَابَه ثَوَابَ الشُّهَدَاءِ والصِّدِّيقِينَ - يَقُولُ يَوْمَ لَقِينَا أَهْلَ الشَّامِ.

(۳۷۲)

آپ نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا کہ جابر دین و دنیا کا قیام چارچیزوں سے ہے

وہ عالم جو اپنے علم کو استعمال بھی کرے اور وہ جاہل جو علم حاصل کرنے سے انکارنہ کرے وہ سختی جو اپنی نیکیوں میں بخل نہ کرے ۔اور فقیرو جو اپنی آخرت کو دنیاکے عوض فروخت نہ کرے ۔

لہٰذا ( یاد رکھو ) اگر عالم اپنے کوبرباد کردے گا تو جاہل بھی اس کے حصول سے اکڑ جائے گا اور اگر غنی اپنی نیکیوں میں بخل کرے گا توفقیر بھی آخرت کو دنیاکے عوض بیچنے پرآمادہ ہو جائے گا۔

جابر ! جس پراللہ کی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اس کی طرفرلوگوں کی احتیاج بھی زیادہ ہوتی ہے لہٰذا جو شخص اپنے مال میں اللہ کے فرائض کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ اس کی بقا و دوام کا سامان فراہم کرلیتا ہے اورجوان وابجات کوادا نہیں کرتا ہے وہ اسے زوال و فنا کے راستہ پر لگا دیتا ہے ۔

(۳۷۳)

ابن جریر طبری نے اپنی تریخ میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے نقل کیا ہے جو حجاج سے مقابلہ کرنے کے لئے ابن اشعث سے نکلا تھا اور لوگوں کوجہاد پرآمادہ کر رہا تھا کہ میں نے حضرت علی ( خداصالحین میں ان کے درجات کو کا ثواب عنایت کرے ) سے اسدن سنا ہے جب ہم لوگ شام والوں سے مقابلہ کر رہے تھے کہ حضرت نے فرمایا:

۷۵۱

أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ - إِنَّه مَنْ رَأَى عُدْوَاناً يُعْمَلُ بِه - ومُنْكَراً يُدْعَى إِلَيْه - فَأَنْكَرَه بِقَلْبِه فَقَدْ سَلِمَ وبَرِئَ - ومَنْ أَنْكَرَه بِلِسَانِه فَقَدْ أُجِرَ - وهُوَ أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِه - ومَنْ أَنْكَرَه بِالسَّيْفِ - لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّه هِيَ الْعُلْيَا وكَلِمَةُ الظَّالِمِينَ هِيَ السُّفْلَى - فَذَلِكَ الَّذِي أَصَابَ سَبِيلَ الْهُدَى - وقَامَ عَلَى الطَّرِيقِ ونَوَّرَ فِي قَلْبِه الْيَقِينُ.

۳۷۴ - وفِي كَلَامٍ آخَرَ لَه يَجْرِي هَذَا الْمَجْرَى: فَمِنْهُمُ الْمُنْكِرُ لِلْمُنْكَرِ بِيَدِه ولِسَانِه وقَلْبِه - فَذَلِكَ الْمُسْتَكْمِلُ لِخِصَالِ الْخَيْرِ - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِلِسَانِه وقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه - فَذَلِكَ مُتَمَسِّكٌ بِخَصْلَتَيْنِ مِنْ خِصَالِ الْخَيْرِ - ومُضَيِّعٌ خَصْلَةً - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه ولِسَانِه - فَذَلِكَ الَّذِي ضَيَّعَ أَشْرَفَ الْخَصْلَتَيْنِ مِنَ الثَّلَاثِ - وتَمَسَّكَ بِوَاحِدَةٍ -

ایمان والو! جوشخص یہ دیکھے کہ ظلم و تعدی پر عمل ہو رہا ہے اور برائیوں کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور اپنے دل سے اس کا انکار کردے توگویا کہ محفو ظ رہ گیا اور بری(۱) ہوگیا۔اور اگر زبان سے انکار کردے تواجرکا حقداربھی ہوگیا کہ یہ صرف قلبی انکار سے بہتر صورت ہے اور اگر کوئی شخص تلوار کے ذریعہ اس کی روک تھام کرے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے اور ظالمین کی بات پستہو جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کے راستہ کو پالیا ہے اورسیدھے راستہ پر قائم ہوگیا ہے اور اس کے دل میں یقین کی روشنی پیدا ہوگئی ہے۔

(۳۷۴)

( اسی موضوع سے متعلق دوسرے موقع پرارشاد فرمایا ) بعض لوگ منکرات کا انکار دل۔زبان اور ہاتھ سب سے کرتے ہیں تو یہ خیر کے تمام شعبوں کے مالک ہیں اور بعض لوگ صرف زبان اوردل سے انکار کرتے ہیں اور ہاتھ سے روک تھام نہیں کرتے ہیں تو انہوں نے نیکی کی دوخصلتوں کو حاصل کیا ہے اور ایک خصلت کو برباد کردیا ہے۔اور بعض لوگ صرف دل سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہاتھ استعمال کرتے ہیں اور نہ زبان۔تو انہوں نے دوخصلتوں کو ضائع کردیا ہے اور صرف ایک کو پکڑ لیا ہے۔

(۱)اس فقرہ میں سلامتی اوربراء ت کامفہوم یہی ہے کہ منکرات کو برا سمجھنا اور اس سے راضی نہ ہونا انسان کی فطرت سلیم کا حصہ ہے جس کا تقاضا اندر سے برابر جاری رہتا ہے لہٰذا اگر اس نے بیزاری کا اظہار کردیا توگویا فطرت کے سلیم ہونے کا ثبوت دے دیا اوراس فریضہ سے سبکدوش ہوگیا جو فطرت سلیم نے اس کے ذمہ عائد کیا تھا۔ورنہاگر ایسا بھی نہ کرتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ فطرت سلیم پرخارجی عناصر غالبآگئے ہیں اور انہوں نے بری الذمہ ہونے سے روک دیا ہے ۔

۷۵۲

ومِنْهُمْ تَارِكٌ لإِنْكَارِ الْمُنْكَرِ بِلِسَانِه وقَلْبِه ويَدِه - فَذَلِكَ مَيِّتُ الأَحْيَاءِ - ومَا أَعْمَالُ الْبِرِّ كُلُّهَا والْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّه - عِنْدَ الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ - إِلَّا كَنَفْثَةٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ - وإِنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ - لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ ولَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ - وأَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّه كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ.

۳۷۵ - وعَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام يَقُولُ: أَوَّلُ مَا تُغْلَبُونَ عَلَيْه مِنَ الْجِهَادِ - الْجِهَادُ بِأَيْدِيكُمْ ثُمَّ بِأَلْسِنَتِكُمْ ثُمَّ بِقُلُوبِكُمْ - فَمَنْ لَمْ يَعْرِفْ بِقَلْبِه مَعْرُوفاً ولَمْ يُنْكِرْ مُنْكَراً - قُلِبَ فَجُعِلَ أَعْلَاه أَسْفَلَه وأَسْفَلُه أَعْلَاه.

۳۷۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الْحَقَّ ثَقِيلٌ مَرِيءٌ وإِنَّ الْبَاطِلَ خَفِيفٌ وَبِيءٌ

اوربعض وہ بھی ہیں جو دل۔زبان اور ہاتھ کسی سے بھی برائیوں کا انکارنہیں کرتے ہیں تو یہ زندوں کی درمیان مردہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یاد رکھو کہ جملہ اعمال خیر مع جہاد راہ خدا۔امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے مقابلہ میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جوگہرے سمندر میں لعاب دہن کے ذرات کی حیثیت ہوتی ہے۔

اور ان تمام اعمال سے بلند تر عمل حاکم ظالم کے سامنے کلمۂ انصاف(۱) کااعلان ہے۔

(۳۷۵)

ابو حجیفہ سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امیر المومنین کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلے تم ہاتھ کے جہاد میں مغلوب ہوگے اس کے بعد زبان کے جہادمیں اور اس کے بعد دل کے جہاد میں ۔مگر یہ یاد رکھنا کہ اگر کسی شخص نے دل سے اچھائی کواچھا اوربرائی کو برا نہیں سمجھا تواسے اس طرح الٹ پلٹ دیاجائے گا کہ پست بلند ہو جائے اور بلند پست ہو جائے ۔

(۳۷۶)

حق ہمیشہ سنگین ہوتا ہے مگرخوشگوار ہوتا ہے اور باطل ہمیشہ آسان ہوتا ہے مگرمہلک ہوتا ہے

(۱)تاریخ اسلام میں اس کی بہترین مثال ابن السکیت کاکردار ہے جہاں ان سے متوکل نے سردربار یہ سوال کرلیا کہ تمہاری نگاہ میں میرے دونوں فرزند معتبر اورموید بہترین یا علی کے دونوں فرزند حسن و حسین تو ابن السکیت نے سلطان ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا کہ حسن و حسین کاکیا ذکر ہے تیرے فرزند اور تو دونوں مل کرعلی کے غلام قنبر کی جوتیوں کے تسمہ کے برابر نہیں ہیں۔

جس کے بعد متوکل نے حکم دے دیاکہ ان کی زبان کی گدی سے کھینچ لیا جائے اورابن السکیت نے نہایت درجہ سکون قلب کے ساتھ اس قربانی کو پیش کردیا اور اپنے پیشرو مثیم تمار۔حجر بن عدی۔عمروبن الحمق۔ابوذر۔عماریاسر اورمختار سے ملحق ہوگئے ۔

۷۵۳

۳۷۷ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَأْمَنَنَّ عَلَى خَيْرِ هَذِه الأُمَّةِ عَذَابَ اللَّه،لِقَوْلِه تَعَالَى -( فَلا يَأْمَنُ مَكْرَ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْخاسِرُونَ ) - ولَا تَيْأَسَنَّ لِشَرِّ هَذِه الأُمَّةِ مِنْ رَوْحِ اللَّه لِقَوْلِه تَعَالَى -( إِنَّه لا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْكافِرُونَ ) .

۳۷۸ - وقَالَعليه‌السلام الْبُخْلُ جَامِعٌ لِمَسَاوِئِ الْعُيُوبِ - وهُوَ زِمَامٌ يُقَادُ بِه إِلَى كُلِّ سُوءٍ.

۳۷۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ الرِّزْقُ رِزْقَانِ رِزْقٌ تَطْلُبُه -

(۳۷۷)

دیکھو اس امت کے بہترین آدمی کے بارے میں بھی عذاب سے مطمئن نہ ہو جانا کہ عذاب الٰہی کی طرف سے صرف خسارہ والے ہی مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اسی طرح اس امت کے بد ترین کے بارے میں بھی رحمت خداسے مایوس نہ ہو جانا کہ رحمت خدا سے مایوسی صرف کافروں کا حصہ ہے۔

(واضح رہے کہ اس ارشاد کا تعلق صرف ان گناہ گاروں سے ہے جن کا عمل انہیں سرحد کفر تک نہ پہنچا دے ورنہ کافر تو بہرحال رحمت خداسے مایوس رہتا ہے۔

(۳۷۸)

بخل عیوب کی تمام برائیوں کا جامع ہے۔اوریہی وہ زمام ہے جس کے ذریعہ انسان کو ہر برائی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔

(۳۷۰)

ابن آدم ! رزق کی دو قسمیں ہیں۔ایک رزق وہ ہے جسے تم تلاش کر رہے ہو اورایک رزق(۱) وہ ہے جو تم کو

(۱)اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ انسان محنت و مشقت چھوڑ دے اوراس امید میں بیٹھ جائے کہ رزق کی دوسری قسم بہرحال حاصل ہو جاے گی اوراسی پر قناعت کرلے گا ۔بلکہ یہ درحقیقت اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے یہاں محنت و مشقت بہرحال کرنا اوریہ انسان کے فرائض انسانیت وعبدیت میں شامل ہے لیکن اس کے بعد بھی رزق کا ایک حصہ ہے جو انسان کی محنت و مشقت سے بالاتر ہے اور وہ ان اسباب کے ذریعہ پہنچ جاتا ہے جن کا انسان تصوربھی نہیں کرتا ہے جس طرح کہ آپ گھر سے نکلیں اور کوئی شخص راستہ میں ایک گلاب پانی یا ایک پیالی چائے پلاے ۔ظاہر ہے کہ یہ پانی یا چائے نہ آپ کے حساب رزق کاکوئی حصہ ہے اور نہ آپنے اس کے لئے کوئی محنت کی ہے ۔یہ پروردگار کا ایک کر م ہے جوآپکے شامل حال ہوگیا ہے اور اس نے اس نکتہ کی وضاحت کردی کہ اگر زندگانی دنیا میں محنت ناکام بھی ہو جائے تو رزق کا سلسلہ بند ہونے والا نہیں ہے۔پروردگار کے پاس اپنے وسائل موجودہیں وہ ان وسائل سے رزق فراہم کردے گا۔وہ مسبب الاسباب ہے اسباب کا پابند نہیں ہے۔

۷۵۴

ورِزْقٌ يَطْلُبُكَ فَإِنْ لَمْ تَأْتِه أَتَاكَ - فَلَا تَحْمِلْ هَمَّ سَنَتِكَ عَلَى هَمِّ يَوْمِكَ - كَفَاكَ كُلُّ يَوْمٍ عَلَى مَا فِيه - فَإِنْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَإِنَّ اللَّه تَعَالَى سَيُؤْتِيكَ فِي كُلِّ غَدٍ جَدِيدٍ مَا قَسَمَ لَكَ - وإِنْ لَمْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَمَا تَصْنَعُ بِالْهَمِّ فِيمَا لَيْسَ لَكَ - ولَنْ يَسْبِقَكَ إِلَى رِزْقِكَ طَالِبٌ - ولَنْ يَغْلِبَكَ عَلَيْه غَالِبٌ - ولَنْ يُبْطِئَ عَنْكَ مَا قَدْ قُدِّرَ لَكَ.

قال الرضي وقد مضى هذا الكلام - فيما تقدم من هذا الباب - إلا أنه هاهنا أوضح وأشرح فلذلك كررناه - على القاعدة المقررة في أول الكتاب.

۳۸۰ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ مُسْتَقْبِلٍ يَوْماً لَيْسَ بِمُسْتَدْبِرِه - ومَغْبُوطٍ فِي أَوَّلِ لَيْلِه قَامَتْ بَوَاكِيه فِي آخِرِه.

۳۸۱ - وقَالَعليه‌السلام الْكَلَامُ فِي وَثَاقِكَ مَا لَمْ تَتَكَلَّمْ بِه - فَإِذَا تَكَلَّمْتَ بِه صِرْتَ فِي وَثَاقِه - فَاخْزُنْ لِسَانَكَ كَمَا تَخْزُنُ ذَهَبَكَ ووَرِقَكَ - فَرُبَّ كَلِمَةٍ

تلاش کر رہا ہے کہ اگر تم اس تک نہ پہنچو گے تو وہ تمہارے پاس آجائے گا۔لہٰذا ایک سال کے ہم و غم کو ایک دن پر بار نہ کردو۔ہر دن کے لئے اسی دن کی فکر کافی ہے۔اس کے بعد اگر تمہاری عمر میں ایک سال باقی رہ گیا ہے تو ہرآنے والا دن اپنا رزق اپنے ساتھ لے کرآئے گا اوراگر سال باقی نہیں رہ گیا ہے تو سال بھر کی فکر کی ضرورت ہی کیا ہے۔تمہارے رزق کو تم سے پہلے کوئی پا نہیں سکتا ہے اور تمہارے حصہ پر کوئی غالب نہیں آسکتا ہے بلکہ جو تمہارے حق میں مقدر ہوچکا ہے وہ دیر سے بھی نہیں آئے گا۔

سید رضی : یہ ارشاد گرامی اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے مگر یہاں زیادہ واضح اور مفصل ہے لہٰذا دوبارہ ذکر کردیا گیا ہے۔

(۳۸۰)

بہت سے لوگ ایسے دن کا سامنا کرنے والے ہیں جس سے پیٹھ پھیرانے والے نہیں ہیں۔اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی قسمت پر سر شام رشک کیا جاتا ہے اور صبح ہوتے ہوتے ان پر رونے والیوں کا ہجوم لگ جاتا ہے ۔

(۳۸۱)

گفتگو تمہارے قبضہ میں ہے۔جب تک اس کااظہار نہ ہو جائے ۔اس کے بعد پھر تم اس کے قبضہ میں چلے جاتے ہو۔لہٰذا اپنی زبان کو ویسے ہی محفوظ رکھو جسے سونے چاندی کی حفاظت کرتے ہو۔کہ بعض کلمات نعمتوں کو

۷۵۵

سَلَبَتْ نِعْمَةً وجَلَبَتْ نِقْمَةً.

۳۸۲ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ مَا لَا تَعْلَمُ بَلْ لَا تَقُلْ كُلَّ مَا تَعْلَمُ - فَإِنَّ اللَّه فَرَضَ عَلَى جَوَارِحِكَ كُلِّهَا - فَرَائِضَ يَحْتَجُّ بِهَا عَلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

۳۸۳ - وقَالَعليه‌السلام احْذَرْ أَنْ يَرَاكَ اللَّه عِنْدَ مَعْصِيَتِه - ويَفْقِدَكَ عِنْدَ طَاعَتِه - فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ - وإِذَا قَوِيتَ فَاقْوَ عَلَى طَاعَةِ اللَّه - وإِذَا ضَعُفْتَ فَاضْعُفْ عَنْ مَعْصِيَةِ اللَّه.

۳۸۴ - وقَالَعليه‌السلام الرُّكُونُ إِلَى الدُّنْيَا مَعَ مَا تُعَايِنُ مِنْهَا جَهْلٌ - والتَّقْصِيرُ فِي حُسْنِ الْعَمَلِ - إِذَا وَثِقْتَ بِالثَّوَابِ عَلَيْه غَبْنٌ - والطُّمَأْنِينَةُ إِلَى كُلِّ أَحَدٍ قَبْلَ الِاخْتِبَارِ لَه عَجْزٌ.

۳۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنْ هَوَانِ الدُّنْيَا عَلَى اللَّه أَنَّه لَا يُعْصَى إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنَالُ مَا عِنْدَه إِلَّا بِتَرْكِهَا.

سلب کر لیتے ہیں اورعذاب کو جذب کرلیتے ہیں۔

(۳۸۲)

جوبات نہیں جانتے ہو اسے زبان سے مت نکالو بلکہ ہر وہ بات جسے جانتے ہو اسے بھی مت بیان کرو کہ اللہ نے ہر عضو بدن کے کچھ فرائض قراردئیے ہیں اور انہیں کے ذریعہ روز قیامت حجت قائم کرنے والا ہے۔

(۳۸۳)

اس بات سے ڈرو کہ اللہ تمہیں معصیت کے موقع پرحاضر دیکھے اور اطاعت کے موقع پر غائب پائے کہ اس طرح خسارہ والوں میں شمار ہو جائو گے ۔اگر تمہارے پاس طاقت ہے تو اس کا اظہار اطاعت خدا میں کرو اور اگر کمزوری دکھلانا ہے تو اسے معصیت کے موقع پر دکھلائو۔

(۳۸۴)

دنیا کیحالات دیکھنے کے باوجود اس کی طرف رجحان اور میلان صرف جہالت ہے۔اورثواب کے یقین کے بعد بھی نیک عمل میں کوتاہی کرنا خسارہ ہے۔امتحان سے پہلے ہر ایک پر اعتبار کرلینا عاجزی اور کمزوری ہے۔

(۳۸۵)

خداکی نگاہ میں دنیا کی حقارت کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اس کی معصیت اسی دنیا میں ہوتی ہے اور اس کی اصلی نعمتیں اس کوچھوڑنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہیں۔

۷۵۶

۳۸۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ طَلَبَ شَيْئاً نَالَه أَوْ بَعْضَه.

۳۸۷ - وقَالَعليه‌السلام مَا خَيْرٌ بِخَيْرٍ بَعْدَه النَّارُ - ومَا شَرٌّ بِشَرٍّ بَعْدَه الْجَنَّةُ - وكُلُّ نَعِيمٍ دُونَ الْجَنَّةِ فَهُوَ مَحْقُورٌ - وكُلُّ بَلَاءٍ دُونَ النَّارِ عَافِيَةٌ.

۳۸۸ - وقَالَعليه‌السلام أَلَا وإِنَّ مِنَ الْبَلَاءِ الْفَاقَةَ - وأَشَدُّ مِنَ الْفَاقَةِ مَرَضُ الْبَدَنِ - وأَشَدُّ مِنْ مَرَضِ الْبَدَنِ مَرَضُ الْقَلْبِ - أَلَا وإِنَّ مِنْ صِحَّةِ الْبَدَنِ تَقْوَى الْقَلْبِ.

(۳۸۶)

جو کسی شے کا طلب گار ہوتا ہے وہ کل یا جزء بہرحال حاصل کر لیتا ہے۔

(۳۸۷)

وہ بھلائی بھلائی نہیں ہے جس کا انجام جہنم ہو۔اوروہ برائی برائی نہیں ہے جس کی عاقبت جنت ہو۔جنت کے علاوہ ہر نعمت حقیر ہے اور جہنم سے بچ جانے کے بعد ہر مصیبت عافیت ہے۔

(۳۸۸)

یاد رکھو کہ فقرو فاقہ بھی ایک بلاء ہے اور اس سے زیادہ سخت مصیبت بدن کی بیماری ہے اور اس سے زیادہ دشوار گذار دل کی بیماری ہے۔مالداری یقینا ایک نعمت ہے لیکن اس سے بڑی نعمت صحت(۱) بدن ہے اور اس سے بڑی نعمت دل کی پرہیز گاری ہے۔

(۱) یہ نکتہ ان غرباء اورفقراء کے سمجھنے کے لئے ہے جوہمیشہ غربت کا مرثیہ پڑھتے رہتے ہیں اور کبھی صحت کا شکیرہ نہیں اداکرتے ہیں جب کہ تجربات کی دنیا میں یہبات ثابت ہوچکی ہے کہ امراض کا اوسط دولت مندوں میں غریبوں سے کہیں زیادہ ہے اور ہارٹ اٹیک کے بیشتر مریض اسی انچے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔بلکہ بعض اوقات توامیروں کی زندگی میں غذائوں سے زیادہ حصہ دوائوں کا ہوتا ہے اوروہ بیشمار غذائوں سے یکسر محروم ہو جاتے ہیں۔

صحت بدن پروردگار کا ایک مخصوص کرم ہے جو وہ اپنے بندوں کے شامل حال کردیتا ہے لیکن غریبوں کوبھی اس نکتہ کا خیال رکھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے اس صحت کاشکریہ ادا کیا اور صرف غربت کی شکایت کرتے رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جسمانی اعتبارسے صحت مند ہیں لیکن روحانی اعتبار سے بہر حال مریض ہیں اوریہ مرض ناقابل علاج ہو چکا ہے۔رب کریم ہر مومن و مومنہ کو اس مرض سے نجات عطا فرمائے

۷۵۷

۳۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْطَأَ بِه عَمَلُه لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه: وفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى: مَنْ فَاتَه حَسَبُ نَفْسِه لَمْ يَنْفَعْه حَسَبُ آبَائِه.

۳۹۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلْمُؤْمِنِ ثَلَاثُ سَاعَاتٍ فَسَاعَةٌ يُنَاجِي فِيهَا رَبَّه - وسَاعَةٌ يَرُمُّ مَعَاشَه - وسَاعَةٌ يُخَلِّي بَيْنَ نَفْسِه - وبَيْنَ لَذَّتِهَا فِيمَا يَحِلُّ ويَجْمُلُ - ولَيْسَ لِلْعَاقِلِ أَنْ يَكُونَ شَاخِصاً إِلَّا فِي ثَلَاثٍ - مَرَمَّةٍ لِمَعَاشٍ أَوْ خُطْوَةٍ فِي مَعَادٍ - أَوْ لَذَّةٍ فِي غَيْرِ مُحَرَّمٍ.

۳۹۱ - وقَالَعليه‌السلام ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُبَصِّرْكَ اللَّه عَوْرَاتِهَا - ولَا تَغْفُلْ فَلَسْتَ بِمَغْفُولٍ عَنْكَ.

۳۹۲ - وقَالَعليه‌السلام تَكَلَّمُوا تُعْرَفُوا فَإِنَّ الْمَرْءَ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِه.

(۳۸۹)

جس کو عمل پیچھے ہٹا دے اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتاہے۔یا ( دوسری روایت میں ) جس کے ہاتھ سے اپنا کردار نکل جائے اسے آباء واجداد کے کارنامے فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہیں۔

(۳۹۰)

مومن کی زندگی کے تین اوقات ہوتے ہیں۔ ایک ساعت میں وہ اپنے رب سے راز و نیاز کرتا ہے اور دوسرے وقت میں اپنے معاش کی اصلاح کرتا ہے اور تیسرے وقت میں اپنے نفس کوان لذتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے جوحلال اور پاکیزہ ہیں ۔

کسی عقل مند کویہ زیب نہیں دیتا ہے کہ اپنے گھرسے دور ہو جائے مگر یہ کہ تین میں سے کوئی ایک کام ہو۔اپنے معاش کی اصلاح کرے ' آخرت کی طرف قدم آگے بڑھائے 'حلال اورپاکیزہ لذت حاصل کرے۔

(۳۹۱)

دنیامیں زہد اختیار کرو تاکہ اللہ تمہیں اس کی برائیوں سے آگاہ کردے ۔اورخبر دار غافل نہ ہو جائو کہ تمہاری طرف سے غفلت نہیں برتی جائے گی۔

(۳۹۲)

بولو تاکہ پہچانے جائو اس لئے کہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی رہتی ہے۔

۷۵۸

۳۹۳ - وقَالَعليه‌السلام خُذْ مِنَ الدُّنْيَا مَا أَتَاكَ - وتَوَلَّ عَمَّا تَوَلَّى عَنْكَ - فَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَفْعَلْ فَأَجْمِلْ فِي الطَّلَبِ

۳۹۴ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ قَوْلٍ أَنْفَذُ مِنْ صَوْلٍ

۳۹۵ - وقَالَعليه‌السلام كُلُّ مُقْتَصَرٍ عَلَيْه كَافٍ.

۳۹۶ - وقَالَعليه‌السلام الْمَنِيَّةُ ولَا الدَّنِيَّةُ والتَّقَلُّلُ ولَا التَّوَسُّلُ ومَنْ لَمْ يُعْطَ قَاعِداً لَمْ يُعْطَ قَائِماً

(۳۹۳)

جو دنیا میں حاصل ہو جائے اسے لے لو اور جو چیز تم سے منہ موڑ لے تم بھی اس سے منہ پھیر لو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے ہو تو طلب میں میانہ روی سے کام لو۔

(۳۹۴)

بہت سے الفاظ حملوں(۱) سے زیادہاثر رکھنے والے ہوتے ہیں۔

(۳۹۵)

جس پر اکتفا(۲) کرلی جائے وہی کافی ہے۔

(۳۹۶)

موت ہو لیکن خبردار ذلت نہ ہو۔

کم ہو لیکن دوسروں کو وسیلہ نہ بنانا پڑے۔

جسے بیٹھ کر(۳) نہیں مل سکتا ہے اسے کھڑے ہو کر بھی نہیں مل سکتا ہے

(۱)اسی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ تلوار کا زخم بھرجاتا ہے لیکن زبان کا زخم نہیں بھرتا ہے۔اوراس کے علاوہ دونوں کا بنیادی فرق یہ ہے کہ حملوں کا اثر محدود علاقوں پر ہوتا ہے اورجملوں کا اثر ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے جس کا مشاہدہ اس دورمیں بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ حملے تمام دنیا میں بند پڑتے ہیں لیکن جملے اپنا کام کر رہے ہیں اور میڈیا ساری دنیا میں زہر پھیلا رہا ہے اورسارے عالم انسانیت کو ہرجہت اور ہراعتبار سے تباہی اوربربادی کے گھاٹ اتار رہا ہے۔

(۲)حرص و ہوس وہ بیماری ہے جس کاعلاج قناعت اورکفایت شعاری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔یہ دنیا ایسی ہے کہ اگر انسان اس کی لالچ میں پڑ جائے تو ملک فرعون اور اقتداریزید وحجاج بھی کم پڑ جاتا ہے اور کفایت شعاری پر آجائے تو جو کی روٹیاں بھی اس کے کردار کا ایک حصہ بن جاتی ہیں اور وہ نہایت درجہ بے نیازی کے ساتھ دنیا کوطلاق دینے پرآمادہ ہو جاتا ہے اورپھر جوع کرنے کاب ھی ارادہ نہیں کرتا ہے۔

(۳)یہاں بیٹھنے سے مراد بیٹھ جانانہیں ہے ورنہ اس نصیحت کو سن کر ہر انسان بیٹھ جائے گا اور محنت و مشقت کا سلسلہ ہی موقوف ہو جائے گا بلکہ اس بیٹھنے سے مراد بقدر ضرورت محنت کرنا ہے جوانسانی زندگی کے لئے کافی ہواور انسان اس سے زیادہجان دینے پر آمادہ نہ ہوجائے کہ اس کاکوئی فائدہ نہیں ہے اور فضول محنت سے کچھ زیادہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

۷۵۹

والدَّهْرُ يَوْمَانِ يَوْمٌ لَكَ ويَوْمٌ عَلَيْكَ - فَإِذَا كَانَ لَكَ فَلَا تَبْطَرْ - وإِذَا كَانَ عَلَيْكَ فَاصْبِرْ.

۳۹۷ - وقَالَعليه‌السلام نِعْمَ الطِّيبُ الْمِسْكُ خَفِيفٌ مَحْمِلُه عَطِرٌ رِيحُه.

۳۹۸ - وقَالَعليه‌السلام ضَعْ فَخْرَكَ واحْطُطْ كِبْرَكَ واذْكُرْ قَبْرَكَ.

۳۹۹ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ حَقّاً - وإِنَّ لِلْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ حَقّاً - فَحَقُّ الْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ - أَنْ يُطِيعَه فِي كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا فِي مَعْصِيَةِ اللَّه سُبْحَانَه - وحَقُّ الْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ - أَنْ يُحَسِّنَ اسْمَه ويُحَسِّنَ أَدَبَه ويُعَلِّمَه الْقُرْآنَ.

زمانہ دونوں کا نام ہے۔ایک دن تمہارے حق میں ہوتا ہے تو دوسرا تمہارے خلاف ہوتا ہے لہٰذا اگر تمہارے حق میں ہو تو مغرور نہ ہو جانا اور تمہارے خلاف ہو جائے تو صبر سے کام لینا۔

(۳۹۷)

بہترین خوشبو کا نام مشک ہے جس کاوزن انتہائی ہلکا ہوتا ہے اورخوشبو نہایت درجہ مہک دار ہوتی ہے۔

(۳۹۸)

فخرو سر بلندی کوچھوڑ دو اورتکبر و غرور کو فنا کردواور پھراپنی قبر کو یاد کرو۔

(۳۹۹)

فرزند کا باپ پر ایک حق ہوتا ہے اورباپ کا فرزند پرایک حق ہوتا ہے۔باپ کاحق یہ ہے کہ بیٹا ہر مسئلہ میں اس کی اطاعت کرے معصیت پروردگار کے علاوہ اور فرزند کاحق باپ پر یہ ہے کہ اس کا اچھاسانام تجویزکرے اوراسے بہترین ادب سکھائے ۔اور قرآن مجید کی تعلیم دے ۔

۷۶۰

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863