نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 564662
ڈاؤنلوڈ: 13184

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 564662 / ڈاؤنلوڈ: 13184
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

(۱۲۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لأصحابه في ساحة الحرب - بصفين

وأَيُّ امْرِئٍ مِنْكُمْ أَحَسَّ مِنْ نَفْسِه - رَبَاطَةَ جَأْشٍ عِنْدَ اللِّقَاءِ، ورَأَى مِنْ أَحَدٍ مِنْ إِخْوَانِه فَشَلًا - فَلْيَذُبَّ عَنْ أَخِيه بِفَضْلِ نَجْدَتِه - الَّتِي فُضِّلَ بِهَا عَلَيْه - كَمَا يَذُبُّ عَنْ نَفْسِه - فَلَوْ شَاءَ اللَّه لَجَعَلَه مِثْلَه - إِنَّ الْمَوْتَ طَالِبٌ حَثِيثٌ لَا يَفُوتُه الْمُقِيمُ - ولَا يُعْجِزُه الْهَارِبُ - إِنَّ أَكْرَمَ الْمَوْتِ الْقَتْلُ - والَّذِي نَفْسُ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ بِيَدِه - لأَلْفُ ضَرْبَةٍ بِالسَّيْفِ أَهْوَنُ عَلَيَّ - مِنْ مِيتَةٍ عَلَى الْفِرَاشِ فِي غَيْرِ طَاعَةِ اللَّه وكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْكُمْ - تَكِشُّونَ كَشِيشَ الضِّبَابِ - لَا تَأْخُذُونَ حَقّاً ولَا تَمْنَعُونَ ضَيْماً - قَدْ خُلِّيتُمْ والطَّرِيقَ - فَالنَّجَاةُ لِلْمُقْتَحِمِ والْهَلَكَةُ لِلْمُتَلَوِّمِ

(۱۲۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو صفین کے میدان میں اپنے اصحاب سے فرمایا تھا)

دیکھو ! اگر تم سے کوئی شخص بھی جنگ کے وقت اپنے اندر قوت قلب اور اپنے کسی بھائی میں کمزوری کا احساس کرے تو اس کا فرض ہے کہ اپنے بھائی سے اسی طرح دفاع کرے جس طرح اپنے نفس سے کرتا ہے کہ خدا چاہتا تو اسے بھی ویسا ہی بنا دیتا لیکن اس نے تمہیں ایک خاص فضیلت عطا فرمائی ہے۔

دیکھو!موت ایک تیز رفتار طلب گار ہے جس سے نہ کوئی ٹھہرا ہوا بچ سکتا ہے اور نہ بھاگنے والا بچ نکل سکتا ہے اور بہترین موت شہادت ہے۔قسم ہے اس پروردگار کی جس کے قبضہ قدرت میں فرزند ابو طالب کی جان ہے کہ میرے لئے تلوار کی ہزار ضربیں اطاعت خداسے الگ ہو کر بستر پرمرنے سے بہتر ہیں۔

گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ ویسی ہی آوازیں نکال رہے ہو جیسی سو سماروں کے جسموں کی رگڑ سے پیدا ہوتی ہیں کہ نہ اپناحق حاصل کر رہے ہو اورنہ ذلت کا دفاع کر رہے ہو جب کہ تمہیں راستہ پر کھلاچھوڑ دیا گیا ہے اور نجات اسی کے لئے ہے جو جنگ میں کود پڑے اورہلاکت اسی کے لئے ہے جودیکھتا ہی رہ جائے ۔

۲۲۱

(۱۲۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في حث أصحابه على القتال

فَقَدِّمُوا الدَّارِعَ وأَخِّرُوا الْحَاسِرَ - وعَضُّوا عَلَى الأَضْرَاسِ - فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ - والْتَوُوا فِي أَطْرَافِ الرِّمَاحِ فَإِنَّه أَمْوَرُ لِلأَسِنَّةِ - وغُضُّوا الأَبْصَارَ فَإِنَّه أَرْبَطُ لِلْجَأْشِ وأَسْكَنُ لِلْقُلُوبِ - وأَمِيتُوا الأَصْوَاتَ فَإِنَّه أَطْرَدُ لِلْفَشَلِ - ورَايَتَكُمْ فَلَا تُمِيلُوهَا ولَا تُخِلُّوهَا - ولَا تَجْعَلُوهَا إِلَّا بِأَيْدِي شُجْعَانِكُمْ - والْمَانِعِينَ الذِّمَارَ مِنْكُمْ - فَإِنَّ الصَّابِرِينَ عَلَى نُزُولِ الْحَقَائِقِ - هُمُ الَّذِينَ يَحُفُّونَ بِرَايَاتِهِمْ - ويَكْتَنِفُونَهَا حِفَافَيْهَا ووَرَاءَهَا، وأَمَامَهَا - لَا يَتَأَخَّرُونَ عَنْهَا فَيُسْلِمُوهَا - ولَا يَتَقَدَّمُونَ عَلَيْهَا فَيُفْرِدُوهَا أَجْزَأَ امْرُؤٌ قِرْنَه وآسَى أَخَاه بِنَفْسِه - ولَمْ يَكِلْ قِرْنَه إِلَى أَخِيه - فَيَجْتَمِعَ عَلَيْه قِرْنُه وقِرْنُ أَخِيه - وايْمُ اللَّه لَئِنْ فَرَرْتُمْ مِنْ سَيْفِ الْعَاجِلَةِ - لَا تَسْلَمُوا مِنْ سَيْفِ الآخِرَةِ - وأَنْتُمْ لَهَامِيمُ الْعَرَبِ والسَّنَامُ الأَعْظَمُ - إِنَّ فِي الْفِرَارِ مَوْجِدَةَ اللَّه

(۱۲۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو جنگ پرآمادہ کرتے ہوئے)

زرہ پوش افراد کو آگے بڑھائو اوربے زرہ لوگوں کو پیچھے رکھو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سر سے اچٹ جاتی ہیں اورنیزوں کے اطراف سے پہلوئوں کو بچائے رکھو کہ اس سے نیزوں کے رخ پلٹ جاتے ہیں۔نگاہوں کو نیچا رکھو کہ اس سے قوت قلب میں اضافہ ہوتا ہے اورحوصلے بلند رہتے ہیں۔آوازیں دھیمی رکھو کہ اس سے کمزوری دور ہوتی ہے۔دیکھو اپنے پرچم کا خیال رکھنا۔وہ نہ جھکنے پائے اور نہ اکیلا رہنے پائے اسے صرف بہادر افراد اور عزت کے پاسبانوں کے ہاتھ میں رکھنا کہ مصائب پر صبر کرنے والے ہی پرچموں کے گرد جمع ہوتے ہیں اور داہنے بائیں آگے ' پیچھے ہرطرف سے گھیرا ڈال کر اس کا تحفظ کرتے ہیں۔نہ اس سے پیچھے رہ جاتے ہیں کہ اسے دشمنوں کے حوالے کردیں اورنہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ تنہا رہ جائے۔

دیکھو۔ہرشخص اپنے مقابل کا خود مقابلہ کرے اور اپنے بھائی کابھی ساتھ دے اورخبردار اپنے مقابلہ کو اپنے ساتھی کے حوالہ نہ کردینا کہ اس پر یہ اور اس کا ساتھی دونوں مل کرحملہ کردیں۔

خداکی قسم اگر تم دنیا کی تلوار سے بچ کر بھاگ بھی نکلے تو آخرت کی تلوار سے بچ کر نہیں جاسکتے ہو۔پھر تم تو عرب کے جوانمردوں اور سربلند افراد ہو۔تمہیں معلوم ہے کہ فرار میں خدا کا غضب بھی ہے کو

۲۲۲

والذُّلَّ اللَّازِمَ والْعَارَ الْبَاقِيَ - وإِنَّ الْفَارَّ لَغَيْرُ مَزِيدٍ فِي عُمُرِه - ولَا مَحْجُوزٍ بَيْنَه وبَيْنَ يَوْمِه - مَنِ الرَّائِحُ إِلَى اللَّه كَالظَّمْآنِ يَرِدُ الْمَاءَ - الْجَنَّةُ تَحْتَ أَطْرَافِ الْعَوَالِي - الْيَوْمَ تُبْلَى الأَخْبَارُ - واللَّه لأَنَا أَشْوَقُ إِلَى لِقَائِهِمْ مِنْهُمْ إِلَى دِيَارِهِمْ - اللَّهُمَّ فَإِنْ رَدُّوا الْحَقَّ فَافْضُضْ جَمَاعَتَهُمْ - وشَتِّتْ كَلِمَتَهُمْ وأَبْسِلْهُمْ بِخَطَايَاهُمْ إِنَّهُمْ لَنْ يَزُولُوا عَنْ مَوَاقِفِهِمْ - دُونَ طَعْنٍ دِرَاكٍ يَخْرُجُ مِنْهُمُ النَّسِيمُ - وضَرْبٍ يَفْلِقُ الْهَامَ ويُطِيحُ الْعِظَامَ - ويُنْدِرُ السَّوَاعِدَ والأَقْدَامَ - وحَتَّى يُرْمَوْا بِالْمَنَاسِرِ تَتْبَعُهَا الْمَنَاسِرُ - ويُرْجَمُوا بِالْكَتَائِبِ تَقْفُوهَا الْحَلَائِبُ - وحَتَّى يُجَرَّ بِبِلَادِهِمُ الْخَمِيسُ يَتْلُوه الْخَمِيسُ - وحَتَّى تَدْعَقَ الْخُيُولُ فِي نَوَاحِرِ أَرْضِهِمْ - وبِأَعْنَانِ مَسَارِبِهِمْ ومَسَارِحِهِمْ.

قال السيد الشريف أقول - الدعق الدق أي تدق الخيول بحوافرها أرضهم - ونواحر أرضهم متقابلاتها - ويقال منازل بني فلان تتناحر أي تتقابل.

اور ہمیشہ کی ذلت بھی ہے۔فرار کرنے والا نہ اپنی عمر میں اضافہ کر سکتا ہے اور نہ اپنے وقت کے درمیان حائل ہو سکتا ہے۔کون ہے جو للہ کی طرف یوں جائے جس طرح پیاسا(۱) پانی کی طرف جاتا ہے۔جنت نیزوں کے اطراف کے سایہ میں ہے آج ہر ایک کے حالات کا امتحان ہو جائے گا۔خدا کی قسم مجھے دشمنوں سے جنگ کا اشتیاق اس سے زیادہ ہے جتنا انہیں اپنے گھروں کا اشتیاق ہے۔خدایا: یہ ظالم اگرحق کو رد کردیں توان کی جماعت کو پراگندہ کردے۔ان کے کلمہ کو متحد نہ ہونے دے۔ان کو ان کے کئے کی سزا دیدے کہ یہ اس وقت تک اپنے موقف سے نہ ہٹیں گے جب تک نیزے ان کے جسموں میں نسیم سحر کے راستے نہ بنا دیں اور تلواریں ان کے سروں کو شگافتہ ' ہڈیوں کو چور چور اور ہاتھ پیر کو شکستہ نہ بنادیں اور جب تک ان پر لشکر کے بعد لشکر اورسپاہ کے بعد سپاہ حملہ آور نہ ہو جائیں اور ان کے شہروں پر مسلسل فوجوں کی یلغار نہ ہو اور گھوڑے ان کی زمینوں کو آخرتک روند نہ ڈالیں اور ان کی چراگاہوں اورسبزہ زاروں کو پامال نہ کردیں۔

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کی زندگی کی ہر تشنگی کا علاج جنت کے علاوہ کہیں نہیں ہے۔یہ دنیا صرف ضروریات کی تکمیل کے لئے بنائی گئی ہے اور بڑے سے بڑے انسان کاحصہ بھی اس کے خواہشات سے کمتر ہے ورنہ سارے روئے زمین پر حکومت کرنے والا بھی اس سے بیشتر کاخواہش مندرہتا ہے اور دامان زمین میں اس سے زیادہ کی وسعت نہیں ہے۔یہ صرف جنت ہے جس کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہاں ہرخواہش نفس اور لذت نگاہ کی تسکین کا سامان موجود ہے۔اب سوال صف یہ رہ جاتا ہے کہ وہاںتک جانے کاراستہ کیا ہے۔مولائے کائنات نے اپنے ساتھیوں کو اسینکتہ کی طرف متوجہ کیا ہے کہ جنت تلواروں کے سایہ کے نیچے ہے اور اس کا راستہ صرف میدان جہاد ہے لہٰذا میدان جہاد کی طرف اس طرح بڑھو جس طرح پیاسا پانی کی طرف بڑھتا ہے کہ اسی راہ میں ہر جذبہ دل کی تسکین کا سامان پایا جاتا ہے اور پھر دین خدا کی سر بلندی سے بالاتر کوئی شرف بھی نہیں ہے۔

۲۲۳

(۱۲۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في التحكيموذلك بعد سماعه لأمر الحكمين

إِنَّا لَمْ نُحَكِّمِ الرِّجَالَ - وإِنَّمَا حَكَّمْنَا الْقُرْآنَ هَذَا الْقُرْآنُ - إِنَّمَا هُوَ خَطٍّ مَسْطُورٌ بَيْنَ الدَّفَّتَيْنِ - لَا يَنْطِقُ بِلِسَانٍ ولَا بُدَّ لَه مِنْ تَرْجُمَانٍ - وإِنَّمَا يَنْطِقُ عَنْه الرِّجَالُ - ولَمَّا دَعَانَا الْقَوْمُ - إلَى أَنْ نُحَكِّمَ بَيْنَنَا الْقُرْآنَ - لَمْ نَكُنِ الْفَرِيقَ الْمُتَوَلِّيَ - عَنْ كِتَابِ اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى - وقَدْ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوه إِلَى الله والرَّسُولِ ) - فَرَدُّه إِلَى اللَّه أَنْ نَحْكُمَ بِكِتَابِه - ورَدُّه إِلَى الرَّسُولِ أَنْ نَأْخُذَ بِسُنَّتِه - فَإِذَا حُكِمَ بِالصِّدْقِ فِي كِتَابِ اللَّه - فَنَحْنُ أَحَقُّ النَّاسِ بِه - وإِنْ حُكِمَ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَنَحْنُ أَحَقُّ النَّاسِ وأَوْلَاهُمْ بِهَا - وأَمَّا قَوْلُكُمْ - لِمَ جَعَلْتَ بَيْنَكَ وبَيْنَهُمْ أَجَلًا فِي التَّحْكِيمِ - فَإِنَّمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ لِيَتَبَيَّنَ الْجَاهِلُ -

(۱۲۵)

(آپ کا ارشاد گرامی)

(تحکیم کے بارے میں ۔حکمین کی داستان سننے کے بعد)

یاد رکھو! ہم نے افراد کوحکم نہیں بنایا تھا بلکہ قرآن کو حکم قراردیا تھا اور قرآن وہی کتاب ہے جو دو دفینوں کے درمیان موجود ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ خود نہیں بولتاہے اور اسے ترجمان کی ضرورت ہوتی ہے اور ترجمان افراد ہی ہوتے ہیں ۔اس قوم نے ہمیں دعوت دی کہ ہم قرآن سے فیصلہ کرائیں تو ہم تو قرآن سے رو گردانی کرنے والے نہیں تھے جب کہ پروردگار نے فرمادیا ہے کہ اپنے اختلافات کوخدا اور رسول کی طرف موڑو دواورخدا کی طرف موڑنے کا مطلب اس کی کتاب سے فیصلہ کرانا ہے اور رسول (ص) کی طرف موڑنے کا مقصد بھی سنت کا اتباع کرنا ہے اور یہ طے ہے کہ اگر کتاب خدا سے سچائی کے ساتھ فیصلہ کیا جائے تو اس کے سب سے زیادہ ح قدار ہم ہی ہیں اور اسی طرح سنت پیغمبر کے لئے سب سے اولیٰ و اقرب ہم ہی ہیں۔اب تمہارا یہ کہنا کہ آپ نے تحکیم کی مہلت کیوں(۱) دی؟ تو اس کا راز یہ ہے کہ میں چاہتا تھا کہ بے خبر با خبر ہو جائے

(۱) حضرت نے تحکیم کا فیصلہ کرتے ہوئے دونوں افراد کو ایک سال کی مہلت دی تھی تاکہ اس دوران نا واقف افراد حق و باطل کی اطلاع حاصل کرلیں اور جو کسی مقدار میں حق سے آگاہ ہیں وہ مزید تحقیق کرلیں۔ایسا نہ ہو کربے خبر افراد پہلے ہی مرحلہ میں گمراہ ہو جائیں اور عمر و عاص کی مکاری کا شکار ہو جائیں۔مگر افسوس یہ ہے کہ ہر دور میں ایسے افراد ضرور رہتے ہیں جو اپنے عقل وفکر کو ہر ایک سے بالاتر تصور کرتے ہیں اور اپنے قاد کے فیصلوں کوبھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب امام کے ساتھ ایسا برتائو کیا گیا ہے تونائب امام یا عالم دین کی کیا حیثیت ہے ؟

۲۲۴

ويَتَثَبَّتَ الْعَالِمُ - ولَعَلَّ اللَّه أَنْ يُصْلِحَ فِي هَذِه الْهُدْنَةِ - أَمْرَ هَذِه الأُمَّةِ - ولَا تُؤْخَذَ بِأَكْظَامِهَا - فَتَعْجَلَ عَنْ تَبَيُّنِ الْحَقِّ - وتَنْقَادَ لأَوَّلِ الْغَيِّ - إِنَّ أَفْضَلَ النَّاسِ عِنْدَ اللَّه - مَنْ كَانَ الْعَمَلُ بِالْحَقِّ أَحَبَّ إِلَيْه - وإِنْ نَقَصَه وكَرَثَه مِنَ الْبَاطِلِ - وإِنْ جَرَّ إِلَيْه فَائِدَةً وزَادَه - فَأَيْنَ يُتَاه بِكُمْ - ومِنْ أَيْنَ أُتِيتُمْ - اسْتَعِدُّوا لِلْمَسِيرِ إِلَى قَوْمٍ حَيَارَى - عَنِ الْحَقِّ لَا يُبْصِرُونَه - ومُوزَعِينَ بِالْجَوْرِ لَايَعْدِلُونَ بِه - جُفَاةٍ عَنِ الْكِتَابِ - نُكُبٍ عَنِ الطَّرِيقِ - مَا أَنْتُمْ بِوَثِيقَةٍ يُعْلَقُ بِهَا - ولَا زَوَافِرِ عِزٍّ يُعْتَصَمُ إِلَيْهَا - لَبِئْسَ حُشَّاشُ نَارِ الْحَرْبِ أَنْتُمْ - أُفٍّ لَكُمْ - لَقَدْ لَقِيتُ مِنْكُمْ بَرْحاً يَوْماً أُنَادِيكُمْ - ويَوْماً أُنَاجِيكُمْ - فَلَا أَحْرَارُ صِدْقٍ عِنْدَ النِّدَاءِ - ولَا إِخْوَانُ ثِقَةٍ عِنْدَ النَّجَاءِ

(۱۲۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما عوتب على التسوية في العطاء

أَتَأْمُرُونِّي أَنْ أَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِ - فِيمَنْ وُلِّيتُ عَلَيْه -

اورباخبرتحقیق کرلے کہ شائد پروردگار اس وقفہ میں امت کے امور کی اصلاح کردے اور اس کا گلا نہ گھونٹا جائے کہ تحقیق حق سے پہلے گمراہی کے پہلے ہی مرحلہ میں بھٹک جائے۔اوریاد رکھو کہ پروردگار کے نزدیک بہترین انسان وہ ہے جسے حق پر عملدار آمد کرنا (چاہے اس میں نقصان ہی کیوں نہ ہو)باطل پر عمل کرنے سے زیادہ محبوب ہو( چاہے اس میں فائدہ ہی کیوں نہ ہو) تو آخر تمہیں کدھر لے جایا جا رہا ہے اور تمہارے پاس شیطان کدھر سے آگیا ہے۔دیکھو اس قوم سے جہاد کے لئے تیار ہو جائو جو حق کے معاملہ میں اس طرح سرگرداں ہے کہ اسے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے اورباطل پر اس طرح اتارو کردی گئی ہے کہ سیدھے راستہ پر آنا ہی نہیں چاہتی ہے۔یہ کتاب خداسے الگ اور راہ حق سے منحرف ہیں مگر تم بھی قابل اعتماد افراد اور لائق تمسک شرف کے پاسبان نہیں ہو۔تم آتش جنگ کے بھڑکانے کا بد ترین ذریعہ ہو۔تم پر حیف ہے میں نے تم سے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔تمہیں علی الاعلان بھی پکارا ہے اورآہستہ بھی سمجھایا ہے لیکن تم نہ آواز جنگ پر سچے شریف ثابت ہوئے اور نہ راز داری پر قابل اعتماد ساتھی نکلے۔

(۱۲۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب عطا یا کی برابری پر اعتراض کیا گیا)

کیاتم مجھے اس بات پرآمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن رعایا کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں

۲۲۵

واللَّه لَا أَطُورُ بِه مَا سَمَرَ سَمِيرٌ - ومَا أَمَّ نَجْمٌ فِي السَّمَاءِ نَجْماً - لَوْ كَانَ الْمَالُ لِي لَسَوَّيْتُ بَيْنَهُمْ - فَكَيْفَ وإِنَّمَا الْمَالُ مَالُ اللَّه - أَلَا وإِنَّ إِعْطَاءَ الْمَالِ فِي غَيْرِ حَقِّه تَبْذِيرٌ وإِسْرَافٌ - وهُوَ يَرْفَعُ صَاحِبَه فِي الدُّنْيَا - ويَضَعُه فِي الآخِرَةِ - ويُكْرِمُه فِي النَّاسِ ويُهِينُه عِنْدَ اللَّه - ولَمْ يَضَعِ امْرُؤٌ مَالَه فِي غَيْرِ حَقِّه ولَا عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِه - إِلَّا حَرَمَه اللَّه شُكْرَهُمْ - وكَانَ لِغَيْرِه وُدُّهُمْ - فَإِنْ زَلَّتْ بِه النَّعْلُ يَوْماً - فَاحْتَاجَ إِلَى مَعُونَتِهِمْ فَشَرُّ خَلِيلٍ - وأَلأَمُ خَدِينٍ !

(۱۲۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه يبين بعض أحكام الدين ويكشف للخوارج الشبهة وينقض حكم الحكمين

فَإِنْ أَبَيْتُمْ إِلَّا أَنْ تَزْعُمُوا أَنِّي أَخْطَأْتُ وضَلَلْتُ - فَلِمَ تُضَلِّلُونَ عَامَّةَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِضَلَالِي - وتَأْخُذُونَهُمْ بِخَطَئِي -

ان پر ظلم کرکے چند افراد کی کمک حاصل کرلوں ۔خدا کی قسم جب تک اس دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور ایک ستارہ دوسرے ستارہ کی طرف جھکتا رہے گا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔یہ مال اگر میرا ذاتی ہوتا جب بھی میں برابر سے تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال مال خداہے اور یادرکھو کہ مال کا نا حق عطا کردینا بھی اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہے اوریہ کام انسان کو دنیا میں بلند بھی کر دیتا ہے تو آخرت میں ذلیل کر دیتا ہے۔لوگوں میں محترم بھی بنادیتا ہے تو خدا کی نگاہ میں پست تر بنا دیتا ہے اور جب بھی کوئی شخص مال کو نا حق یا نا اہل پر صرف کرتا ہے تو پروردگار اس کے شکریہ سے بھی محروم کر دیتا ہے اور اس کی محبت کا رخ بھی دوسروں کی طرف مڑ جاتا ہے ۔پھر اگرکسی دن پیر پھسل گئے اور ان کی امداد کا بھی محتا ج ہوگیا تو وہ بد ترین دوست اور ذلیل ترین ساتھی ہی ثابت ہوتے ہیں۔

(۱۲۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں بعض احکام دین کے بیان کے ساتھ خوارج کے شبہات کا ازالہ اورحکمین کے توڑ کا فیصلہ بیان کیا گیا ہے)

اگر تمہارااصرار اسی بات پرہےکہ مجھےخطاکاراور گمراہ قرار دو تو ساری امت پیغمبر (ص) کو کیوں خطا کار قراردےرہےہواور میری'' غلطی '' کا مواخذہ ان سے کیوں کر

۲۲۶

وتُكَفِّرُونَهُمْ بِذُنُوبِي - سُيُوفُكُمْ عَلَى عَوَاتِقِكُمْ - تَضَعُونَهَا مَوَاضِعَ الْبُرْءِ والسُّقْمِ - وتَخْلِطُونَ مَنْ أَذْنَبَ بِمَنْ لَمْ يُذْنِبْ - وقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رَجَمَ الزَّانِيَ الْمُحْصَنَ - ثُمَّ صَلَّى عَلَيْه ثُمَّ وَرَّثَه أَهْلَه - وقَتَلَ الْقَاتِلَ ووَرَّثَ مِيرَاثَه أَهْلَه - وقَطَعَ السَّارِقَ وجَلَدَ الزَّانِيَ غَيْرَ الْمُحْصَنِ - ثُمَّ قَسَمَ عَلَيْهِمَا مِنَ الْفَيْءِ ونَكَحَا الْمُسْلِمَاتِ - فَأَخَذَهُمْ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِذُنُوبِهِمْ - وأَقَامَ حَقَّ اللَّه فِيهِمْ - ولَمْ يَمْنَعْهُمْ سَهْمَهُمْ مِنَ الإِسْلَامِ - ولَمْ يُخْرِجْ أَسْمَاءَهُمْ مِنْ بَيْنِ أَهْلِه - ثُمَّ أَنْتُمْ شِرَارُ النَّاسِ - ومَنْ رَمَى بِه الشَّيْطَانُ مَرَامِيَه وضَرَبَ بِه تِيهَه - وسَيَهْلِكُ فِيَّ صِنْفَانِ - مُحِبٌّ مُفْرِطٌ يَذْهَبُ بِه الْحُبُّ إِلَى غَيْرِ الْحَقِّ - ومُبْغِضٌ مُفْرِطٌ يَذْهَبُ بِه الْبُغْضُ إِلَى غَيْرِ الْحَقِّ - وخَيْرُ النَّاسِ فِيَّ حَالًا النَّمَطُ الأَوْسَطُ فَالْزَمُوه - والْزَمُوا السَّوَادَ الأَعْظَمَ - فَإِنَّ يَدَ اللَّه مَعَ الْجَمَاعَةِ - وإِيَّاكُمْ والْفُرْقَةَ!

رہے ہو اور میرے ''گناہ '' کی بناپر انہیں کیوں کافر قرار دے رہے ہو۔تمہاری تلواریں تمہارے کاندھوں پر رکھی ہیں جہاں چاہتے ہو خطا ' بے خطا چلادیتے ہو اور گناہ گار اوربے گناہ میں کوئی فرق نہیں کرتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اکرم (ص) نے زنائے محضہ کے مجرم کو سنگسار کیا تواس کی نمازجنازہ بھی پڑھی تھی اور اس کے اہل کو وارث بھی قرار دیا تھا۔اور اسی طرح قاتل کو قتل کیا تو اس کی میراث بھی تقسیم کی اور چور کے ہاتھ کاٹے یا غیر شادی شدہ زنا کار کو کوڑے لگوائے تو انہیں مال غنیمت میں حصہ بھی دیا اور ان کا مسلمان عورتوں سے نکاح بھی کرایا گویا کہ آپ نے ان کے گناہوں کا مواخذہ کیا اور ان کے بارے میں حق خداکو قائم کیا لیکن اسلام میں ان کے حصہ کو نہیں روکا اور نہ ان کے نام کواہل اسلام کی فہرست سے خارج کیا۔مگر تم بد ترین افراد ہو کہ شیطان تمہارے ذریعہ اپنے مقاصد کو حاصل کرلیتا ہے اورتمہیں صحرائے ضلالت میں ڈال دیتا ہے اور عنقریب میرے بارے میں دو طرح کے افراد گمراہ ہوں گے۔محبت میں غلو کرنے والے جنہیں محبت غیرحق کی طرف لے جائے گی اور عداوت میں زیادتی کرنے والے جنہیں عداوت باطل کی طرف کھینچ لے جائے گی۔اوربہترین افراد وہ ہوں گے جو درمیانی منزل پر ہوں لہٰذا تم بھی اسی راستہ کو اختیار کرو اور اسی نظر یہ کی جماعت کے ساتھ ہو جائو کہ اللہ کاہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اورخبردارتفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جاتا ہے

۲۲۷

فَإِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّيْطَانِ - كَمَا أَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ. أَلَا مَنْ دَعَا إِلَى هَذَا الشِّعَارِ فَاقْتُلُوه - ولَوْ كَانَ تَحْتَ عِمَامَتِي هَذِه - فَإِنَّمَا حُكِّمَ الْحَكَمَانِ لِيُحْيِيَا مَا أَحْيَا الْقُرْآنُ - ويُمِيتَا مَا أَمَاتَ الْقُرْآنُ - وإِحْيَاؤُه الِاجْتِمَاعُ عَلَيْه - وإِمَاتَتُه الِافْتِرَاقُ عَنْه - فَإِنْ جَرَّنَا الْقُرْآنُ إِلَيْهِمُ اتَّبَعْنَاهُمْ - وإِنْ جَرَّهُمْ إِلَيْنَا اتَّبَعُونَا - فَلَمْ آتِ لَا أَبَا لَكُمْ بُجْراً - ولَا خَتَلْتُكُمْ عَنْ أَمْرِكُمْ - ولَا لَبَّسْتُه عَلَيْكُمْ - إِنَّمَا اجْتَمَعَ رَأْيُ مَلَئِكُمْ عَلَى اخْتِيَارِ رَجُلَيْنِ - أَخَذْنَا عَلَيْهِمَا أَلَّا يَتَعَدَّيَا الْقُرْآنَ فَتَاهَا عَنْه - وتَرَكَا الْحَقَّ وهُمَا يُبْصِرَانِه - وكَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا فَمَضَيَا عَلَيْه - وقَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَاؤُنَا عَلَيْهِمَا فِي الْحُكُومَةِ بِالْعَدْلِ - والصَّمْدِ لِلْحَقِّ سُوءَ رَأْيِهِمَا وجَوْرَ حُكْمِهِمَا.

(۱۲۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

فيما يخبر به عن الملاحم بالبصرة

وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہو جاتا ہے جس طرح گلہ سے الگ ہوجانے والی بھیڑ بھیڑئیے کی نذر ہوجاتی ہے۔آگاہ ہو جائو کہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے اسے قتل کردو چاہے وہ میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو۔ ان دونوں افراد کو حکم بنایا گیا تھا تاکہ ان امور کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور ان امور کو مردہ بنادیں جنہیں قرآن نے مردہ بنا دیا ہے اور زندہکرنے کے معنی اس پر اتفاق کرنے اورمردہ بنانے کے معنی اس سے الگ ہو جانے کے ہیں۔ہم اس بات پر تیار تھے کہ اگر قرآن ہمیں دشمن کی طرف کھینچ لے جائے گا تو ہم ان کا اتباع کرلیں گے اور اگر انہیں ہماری طرف لے آئے گا تو انہیں آنا پڑے گا لیکن خدا تمہارا برا کرے۔اس بات میںمیں نے کوئی غلط کام تو نہیں کیا اور نہ تمہیں کوئی دھوکہ دیا ہے۔اور نہ کسی بات کو شبہ میں رکھا ہے۔لیکن تمہاری جماعت نے دوآدمیوں کے انتخاب پر اتفاق کرلیا اورمیں نے ان پر شرط لگا دی کہ قرآن کے حدود سے تجاوز نہیں کریں گے مگر وہ دونوں قرآن سے منحرف ہوگئے اورحق کو دیکھ بھال کر نظر انداز کردیا اور اصل بات یہ ہے کہ ان کا مقصد ہی ظلم تھا اوروہ اسی راستہ پرچلے گئے جب کہ میں نے ان کی غلط رائے اورظالمانہ فیصلہ سے پہلے ہی فیصلہ میں عدالت اور ارادہ حق کی شرط لگادی تھی۔

(۱۲۸)

آپ کا ارشادگرامی

(بصرہ کے حوادث کی خبر دیتے ہوئے )

۲۲۸

يَا أَحْنَفُ كَأَنِّي بِه وقَدْ سَارَ بِالْجَيْشِ - الَّذِي لَا يَكُونُ لَه غُبَارٌ ولَا لَجَبٌ - ولَا قَعْقَعَةُ لُجُمٍ ولَا حَمْحَمَةُ خَيْلٍ - يُثِيرُونَ الأَرْضَ بِأَقْدَامِهِمْ - كَأَنَّهَا أَقْدَامُ النَّعَامِ.

قال الشريف يومئ بذلك إلى صاحب الزنج.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام - وَيْلٌ لِسِكَكِكُمُ الْعَامِرَةِ والدُّورِ الْمُزَخْرَفَةِ - الَّتِي لَهَا أَجْنِحَةٌ كَأَجْنِحَةِ النُّسُورِ - وخَرَاطِيمُ كَخَرَاطِيمِ

الْفِيَلَةِ - مِنْ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَا يُنْدَبُ قَتِيلُهُمْ - ولَا يُفْقَدُ غَائِبُهُمْ - أَنَا كَابُّ الدُّنْيَا لِوَجْهِهَا - وقَادِرُهَا بِقَدْرِهَا ونَاظِرُهَا بِعَيْنِهَا.

منه في وصف الأتراك

كَأَنِّي أَرَاهُمْ قَوْماً –( كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطَرَّقَةُ ) - يَلْبَسُونَ السَّرَقَ والدِّيبَاجَ - ويَعْتَقِبُونَ الْخَيْلَ الْعِتَاقَ - ويَكُونُ هُنَاكَ اسْتِحْرَارُ قَتْلٍ - حَتَّى يَمْشِيَ الْمَجْرُوحُ عَلَى الْمَقْتُولِ -

اے(۱) احنف ! گویا کہ میں اس شخص کو دیکھ رہا ہوں جو ایک ایسا لشکر لے کر آیا ہے جس میں نہ گردو غبار ہے اور نہ شورو غوغا ۔نہ لجاموں کی کھڑکھڑاہٹ ہے اور نہ گھوڑوں کی ہنہناہٹ ۔یہ زمین کو اسی طرح روند رہے ہیں جس طرح شتر مرغ کے پیر۔

سید رضی : حضرت نے اس خبر میں صاحب زنج کی طرف اشارہ کیا ہے( جس کا نام علی بن محمد تھااور اس نے۲۲۵ ھ میں بصرہ میں غلاموں کو مالکوں کے خلاف متحد کیا اور ہر غلام سے اس کے مالک کو۵۰۰ کوڑے لگوائے ۔

افسوس ہے تمہاری آباد گلیوں اور ان سجے سجائے مکانات کے حال پر جن کے چھجے گدوں کے پر اور ہاتھیوں کے سونڈ کے مانند ہے ان لوگوں کی طرف سے جن کے مقتول پر گریہ نہیں کیاجاتا ہے اور ان کے غائب کو تلاش نہیں کیا جاتا ہے۔میں دنیا کو منہ کے بھل اوندھا کر دینے والا اور اس کی صحیح اوقات کا جاننے والا اور اس کی حالت کو اس کے شایان شان نگاہ سے دیکھنے والا ہوں۔

(ترکوں کے بارے میں )

میں ایک ایسی قوم کو دیکھ رہا ہوں جن کے چہرہ چمڑے سے منڈھی ڈھال کے مانند ہیں۔ریشم و دیبا کے لباس پہنتے ہیں اور بہترین اصیل گھوڑوں سے محبت رکھتے ہیں۔ان کے درمیان عنقریب قتل کی گرم بازاری ہوگی جہاں زخمی مقتول کے اوپر سے گزریں گے

(۱)بنی تمیم کے سردار احنف بن قیس سے خطاب ہے جنہوں نے رسول اکرم (ص) کی زیارت نہیں کی مگر اسلام قبول کیا اورجنگ جمل کے موقع پر اپنے علاقہ میں ام المومنین کے فتنوں کا دفاع کرتے رہے اور پھر جنگ صفین میں مولائے کائنات کے ساتھ شریک ہوگئے اور جہاد راہ خداکا حق ادا کردیا

۲۲۹

ويَكُونَ الْمُفْلِتُ أَقَلَّ مِنَ الْمَأْسُورِ.

فَقَالَ لَه بَعْضُ أَصْحَابِه - لَقَدْ أُعْطِيتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عِلْمَ الْغَيْبِ - فَضَحِكَعليه‌السلام وقَالَ لِلرَّجُلِ وكَانَ كَلْبِيّاً.

يَا أَخَا كَلْبٍ لَيْسَ هُوَ بِعِلْمِ غَيْبٍ - وإِنَّمَا هُوَ تَعَلُّمٌ مِنْ ذِي عِلْمٍ - وإِنَّمَا عِلْمُ الْغَيْبِ عِلْمُ السَّاعَةِ - ومَا عَدَّدَه اللَّه سُبْحَانَه بِقَوْلِه –( إِنَّ الله عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ - ويُنَزِّلُ الْغَيْثَ ويَعْلَمُ ما فِي الأَرْحامِ - وما تَدْرِي نَفْسٌ ما ذا تَكْسِبُ غَداً - وما تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ) الآيَةَ - فَيَعْلَمُ اللَّه سُبْحَانَه مَا فِي الأَرْحَامِ - مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وقَبِيحٍ أَوْ جَمِيلٍ - وسَخِيٍّ أَوْ بَخِيلٍ - وشَقِيٍّ أَوْ سَعِيدٍ - ومَنْ يَكُونُ فِي النَّارِ حَطَباً - أَوْ فِي الْجِنَانِ لِلنَّبِيِّينَ مُرَافِقاً - فَهَذَا عِلْمُ الْغَيْبِ الَّذِي لَا يَعْلَمُه أَحَدٌ إِلَّا اللَّه - ومَا سِوَى ذَلِكَ فَعِلْمٌ - عَلَّمَه اللَّه نَبِيَّه فَعَلَّمَنِيه - ودَعَا لِي بِأَنْ يَعِيَه صَدْرِي - وتَضْطَمَّ عَلَيْه جَوَانِحِي

اوراب بھاگنے والے قیدیوں سے کم ہوں گے ( یہ تاتاریوں کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے جہاں چنگیز خاں اور اس کی قوم نے تمام اسلامی ملکوں کو تباہ و برباد کردیا اور کتے' سور کو اپنی غذا بنا کر ایسے حملے کئے کہ شہروں کو خاک میں ملا دیا) یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ آپ تو علم غیب کی باتیں کر رہے ہیں تو آپ نے مسکرا کر اس کلبی شخص سے فرمایا اے برادر کلبی! یہ علم غیب نہیں ہے بلکہ صاحب علم سے تعلم ہے۔علم غیب قیامت کا اور ان چیزوں کا علم ہے جن کو خدانے قرآن مجید میں شمار کردیا ہے کہ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اور بارش کابرسانے والا وہی ہے اور پیٹ میں پلنے والے بچہ کا مقدر وہی جانتا ہے۔اس کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم ہے کہ کل کیا کمائے گا اور کس سر زمین پرموت آئے گی۔ پروردگار جانتا ہے کہ رحم کا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی حسین ہے یا قبیح' سخی ہے یا بخیل' شقی ہے یا سعید' کون جہنم کا کندہ بن جائے گا اور کون جنت میں ابنیاء کرام کا ہمنشین ہوگا۔یہ وہ علم غیب ہے جسے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔اس کے علاوہ جو بھی علم ہے وہ ایسا علم ہے جسے اللہ نے پیغمبر (ص) کو تعلیم دیا ہے اور انہوں نے مجھے اس کی تعلیم دی ہے اورمیرے حق میں دعا کی ہے کہ میرا سینہ اسے محفوظ کرلے اور اس دل میں اسے محفوظ کردے جومیرے پہلو میں ہے۔

۲۳۰

(۱۲۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكر المكاييل والموازين

عِبَادَ اللَّه إِنَّكُمْ ومَا تَأْمُلُونَ - مِنْ هَذِه الدُّنْيَا أَثْوِيَاءُ مُؤَجَّلُونَ - ومَدِينُونَ مُقْتَضَوْنَ أَجَلٌ مَنْقُوصٌ - وعَمَلٌ مَحْفُوظٌ - فَرُبَّ دَائِبٍ مُضَيَّعٌ ورُبَّ كَادِحٍ خَاسِرٌ - وقَدْ أَصْبَحْتُمْ فِي زَمَنٍ لَا يَزْدَادُ الْخَيْرُ فِيه إِلَّا إِدْبَاراً - ولَا الشَّرُّ فِيه إِلَّا إِقْبَالًا - ولَا الشَّيْطَانُ فِي هَلَاكِ النَّاسِ إِلَّا طَمَعاً - فَهَذَا أَوَانٌ قَوِيَتْ عُدَّتُه - وعَمَّتْ مَكِيدَتُه وأَمْكَنَتْ فَرِيسَتُه - اضْرِبْ بِطَرْفِكَ حَيْثُ شِئْتَ مِنَ النَّاسِ - فَهَلْ تُبْصِرُ إِلَّا فَقِيراً يُكَابِدُ فَقْراً - أَوْ غَنِيّاً بَدَّلَ نِعْمَةَ اللَّه كُفْراً - أَوْ بَخِيلًا اتَّخَذَ الْبُخْلَ بِحَقِّ اللَّه وَفْراً - أَوْ مُتَمَرِّداً كَأَنَّ بِأُذُنِه عَنْ سَمْعِ الْمَوَاعِظِ وَقْراً - أَيْنَ أَخْيَارُكُمْ وصُلَحَاؤُكُمْ - وأَيْنَ أَحْرَارُكُمْ وسُمَحَاؤُكُمْ - وأَيْنَ الْمُتَوَرِّعُونَ فِي مَكَاسِبِهِمْ - والْمُتَنَزِّهُونَ فِي مَذَاهِبِهِمْ - أَلَيْسَ قَدْ ظَعَنُوا جَمِيعاً - عَنْ هَذِه الدُّنْيَا الدَّنِيَّةِ -

(۱۲۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(ناپ تول کے بارے میں )

اللہ کے بندو! تم اور جو کچھ اس دنیا سے توقع رکھتے ہو سب ایک مقررہ مدت کے مہمان ہیں اور ایسے قرضدار ہیں جن سے قرضہ کامطالبہ ہو رہا ہو۔عمریں گھٹ رہی ہیں اور اعمال محفوظ کئے جا رہے ہیں۔کتنے دوڑ دھوپ کرنے والے ہیں جن کی محنت برباد ہو رہی ہے اور کتنے کوشش کرنے والے ہیں جو مسلسل گھاٹے کاشکار ہیں تم ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے ہو جس میں نیکی مسلسل منہ پھیر کر جا رہی ہے اور برائی برابر سامنے آرہی ہے۔شیطان لوگوں کو تباہ کرنے کی ہوس میں لگا ہوا ہے۔اس کا سازو سامان مستحکم ہو چکا ہے۔اس کی سازشیں عام ہو چکی ہیں اور اس کے شکار اس کے قابو میں ہیں۔تم جدھر چاہو نگاہ اٹھا کر دیکھ لو سوائے اس فقیر کے جو فقر کی مصیبتیں جھیل رہا ہے اور اس امیر کے جس نے نعمت خدا کی نا شکری کی ہے اور اس بخیل کے جس نے حق خدا میں بخل ہی کو مال کے اضافہ کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اس سرکش کے جس کے کان نصیحتوں کے لئے بہترے ہوگئے ہیں اور کچھ نظرنہیں آئے گا۔کہاں چلے گئے وہ نیک اور صالح بندے اور کدھر ہیں وہ شریف اور کریم النفس لوگ ۔کہاں ہیں وہ افراد جو کسب معاش میں احتیاط برتنے والے تھے اور راستوں میں پاکیزہ راستہ اختیار کرنے والے تھے کیا سب کے سب اس پست اور زندگی کو مکدربنا دینے والی دنیا سے نہیں چلے گئے

۲۳۱

والْعَاجِلَةِ الْمُنَغِّصَةِ - وهَلْ خُلِقْتُمْ إِلَّا فِي حُثَالَةٍ - لَا تَلْتَقِي إِلَّا بِذَمِّهِمُ الشَّفَتَانِ - اسْتِصْغَاراً لِقَدْرِهِمْ وذَهَاباً عَنْ ذِكْرِهِمْ - فَ «إِنَّا لِلَّه وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ» - ظَهَرَ الْفَسَادُ فَلَا مُنْكِرٌ مُغَيِّرٌ - ولَا زَاجِرٌ مُزْدَجِرٌ - أَفَبِهَذَا تُرِيدُونَ أَنْ تُجَاوِرُوا اللَّه فِي دَارِ قُدْسِه - وتَكُونُوا أَعَزَّ أَوْلِيَائِه عِنْدَه - هَيْهَاتَ لَا يُخْدَعُ اللَّه عَنْ جَنَّتِه - ولَا تُنَالُ مَرْضَاتُه إِلَّا بِطَاعَتِه - لَعَنَ اللَّه الآمِرِينَ بِالْمَعْرُوفِ التَّارِكِينَ لَه - والنَّاهِينَ عَنِ الْمُنْكَرِ الْعَامِلِينَ بِه.

(۱۳۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لأبي ذر رحمهالله - لما أخرج إلى الربذة

يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ غَضِبْتَ لِلَّه فَارْجُ مَنْ غَضِبْتَ لَه - إِنَّ الْقَوْمَ خَافُوكَ عَلَى دُنْيَاهُمْ وخِفْتَهُمْ عَلَى دِينِكَ - فَاتْرُكْ فِي أَيْدِيهِمْ مَا خَافُوكَ عَلَيْه - واهْرُبْ مِنْهُمْ بِمَا خِفْتَهُمْ عَلَيْه - فَمَا أَحْوَجَهُمْ إِلَى مَا مَنَعْتَهُمْ -

اور کیا تمہیں ایسے افراد میں نہیں چھوڑ گئے جن کی حقارت اور جن کے ذکر سے اعراض کی بنا پر ہونٹ سوائے ان کی مذمت کے کسی بات کے لئے آپس میں نہیں ملتے ہیں۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔فساد اس قدر پھیل چکا ہے کہ نہ کوئی حالات کا بدلنے والاہے اور نہ کوئی منع کرنے والا اور نہخود پر پرہیز کرنے والا ہے۔تو کیا تم انہیں حالات کے ذریعہ خدا کے مقدس جوارمیں رہنا چاہیے ہو اوراس کے عزیز ترین دوست بننا چاہتے ہو۔افسوس ! اللہ کو جنت کے بارے میں دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی مرضی کو اطاعت کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے۔اللہ لعنت کرے ان لوگوں پر جو دوسروں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور خود عمل نہیں کرتے ہیں ۔سماج کو برائیوں سے روکتے ہیں اور خود انہیں میں مبتلا ہیں۔

(۱۳۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو آپ نے ابو ذر غفاری سے فرمایا جب انہیں ربذہ کی طرف شہر بدر کردیا گیا )

ابو ذر تمہارا غیظ و غضب اللہ کے لئے ہے لہٰذا اس سے امید وابستہ رکھو جس کے لئے یہ غیظ و غضب اختیار کیا ہے۔قوم کو تم سے اپنی دنیاکے بارے میں خطرہ تھا اور تمہیں ان سے اپنے دین کے بارے میں خوف تھا لہٰذا جس کا انہیں خطرہ تھا وہ ان کے لئے چھوڑ دو اور جس کے لئے تمہیں خوف تھا اسے بچاکرنکل جائو۔یہ لوگ بہر حال اس کے محتاج ہیں جس کو تم نے ان سے روکا ہے

۲۳۲

ومَا أَغْنَاكَ عَمَّا مَنَعُوكَ - وسَتَعْلَمُ مَنِ الرَّابِحُ غَداً والأَكْثَرُ حُسَّداً - ولَوْ أَنَّ السَّمَاوَاتِ والأَرَضِينَ كَانَتَا عَلَى عَبْدٍ رَتْقاً - ثُمَّ اتَّقَى اللَّه لَجَعَلَ اللَّه لَه مِنْهُمَا مَخْرَجاً - لَا يُؤْنِسَنَّكَ إِلَّا الْحَقُّ - ولَا يُوحِشَنَّكَ إِلَّا الْبَاطِلُ - فَلَوْ قَبِلْتَ دُنْيَاهُمْ لأَحَبُّوكَ - ولَوْ قَرَضْتَ مِنْهَا لأَمَّنُوكَ.

(۱۳۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه يبين سبب طلبه الحكم ويصف الإمام الحق

أَيَّتُهَا النُّفُوسُ الْمُخْتَلِفَةُ والْقُلُوبُ الْمُتَشَتِّتَةُ - الشَّاهِدَةُ أَبْدَانُهُمْ والْغَائِبَةُ عَنْهُمْ عُقُولُهُمْ - أَظْأَرُكُمْ عَلَى الْحَقِّ - وأَنْتُمْ تَنْفِرُونَ عَنْه نُفُورَ الْمِعْزَى مِنْ وَعْوَعَةِ الأَسَدِ - هَيْهَاتَ أَنْ أَطْلَعَ بِكُمْ سَرَارَ الْعَدْلِ - أَوْ أُقِيمَ اعْوِجَاجَ الْحَقِّ - اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ - أَنَّه لَمْ يَكُنِ الَّذِي كَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِي سُلْطَانٍ - ولَا الْتِمَاسَ شَيْءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ - ولَكِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ -

اورتم اس سے بہرحال بے نیاز ہو جس سے ان لوگوں نے تمہیں محروم کیا ہے عنقریب یہ معلوم ہو جائے گا کہ فائدہ میں کون رہا اور کس سے حسد کرنے والے زیادہ ہیں۔یاد رکھو کہ کسی بندہ خدا پر اگر زمین وآسمان دونوں کے راستے بند ہوجائیں اور وہ تقوائے الٰہی اختیار کرلے تو اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال دے گا۔دیکھو تمہیں صرف حق سے انس اور باطل سے وحشت ہونی چاہیے تم اگر ان کی دنیا کو قبول کر لیتے تو یہ تم سے محبت کرتے اور اگردنیا میں سے اپنا حصہ لے لیتے تو تمہاری طرف سے مطمئن ہو جاتے ۔

(۱۳۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اپنی حکومت طلبی کا سبب بیان فرمایا ہے اور امام بر حق کے اوصاف کا تذکرہ کیا ہے )

اے وہ لوگو جن کے نفس مختلف ہیں اوردل متفرق۔بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب ۔میں تمہیں مہرانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس طرح فرار کر تے ہو جیسے شیر کی ڈرکار سے بکریاں۔افسوس تمہارے ذریعہ عدل کی تاریکیوں کو کیسے روشن کیا جا سکتا ہے اور حق میں پیداہو جانے والی کجی کو کس طرح سیدھا کیا جا سکتا ہے۔خدایا تو جانتا ہے کہ میں نے حکومت کے بارے میں جو اقدام کیا ہے اس میں نہ سلطنت کی لالچ تھی اور نہمالی دنیا کی تلاش۔میرا مقصد صرف یہ تھا کہ دین کے آثارکو ان کی منزل تک پہنچائوں

۲۳۳

ونُظْهِرَ الإِصْلَاحَ فِي بِلَادِكَ - فَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ - وتُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ - اللَّهُمَّ إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَنَابَ - وسَمِعَ وأَجَابَ - لَمْ يَسْبِقْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّه بِالصَّلَاةِ.

وقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّه لَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ الْوَالِي عَلَى الْفُرُوجِ - والدِّمَاءِ والْمَغَانِمِ والأَحْكَامِ - وإِمَامَةِ الْمُسْلِمِينَ الْبَخِيلُ - فَتَكُونَ فِي أَمْوَالِهِمْ نَهْمَتُه - ولَا الْجَاهِلُ فَيُضِلَّهُمْ بِجَهْلِه - ولَا الْجَافِي فَيَقْطَعَهُمْ بِجَفَائِه - ولَا الْحَائِفُ لِلدُّوَلِ فَيَتَّخِذَ قَوْماً دُونَ قَوْمٍ - ولَا الْمُرْتَشِي فِي الْحُكْمِ - فَيَذْهَبَ بِالْحُقُوقِ - ويَقِفَ بِهَا دُونَ الْمَقَاطِعِ - ولَا الْمُعَطِّلُ لِلسُّنَّةِ فَيُهْلِكَ الأُمَّةَ.

(۱۳۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يعظ فيها ويزهد في الدنيا

حمد اللَّه

نَحْمَدُه عَلَى مَا أَخَذَ وأَعْطَى -

اور شہروں میں اصلاح پیدا کردوں تاکہ مظلوم بندے محفوظ ہو جائیں اور معطل حدود قائم ہو جائیں۔خدایا تجھے معلوم ہے کہ میں نے سب سے پہلے تیریر طرف رخ کیا ہے۔تیری آواز سنی ہے اوراسے قبول کیا ہے اور تیری بندگی میں رسول اکرم (ص) کے علاوہ کسی نے بھی مجھ پرسبقت نہیں کی ہے۔

تم لوگوں کو معلوم ہے کہ لوگوں کی آبرو۔ ان کی جان۔ان کے منافع۔الٰہی احکام اور امامت مسلمین کاذمہ دار نہ کوئی بخیل ہو سکتا ہے کہ وہ اموال مسلمین پر ہمیشہ دانت لگائے رہے گا۔اور نہ کوئی جاہل ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی جہالت سے لوگوں کو گمراہ کردے گا اور نہ کوئی بد اخلاق ہو سکتا ہے کہ وہ بد اخلاقی کے چر کے لگاتا رہے گا اور نہ کوئی مالیات کابددیانت ہوسکتا ہے کہوہ ایک کو مال دے گا اور ایک کومحروم کردے گا اورنہ کوئی فیصلہ میں رشوت لینے والا ہو سکتا ہے کہ وہ حقوق کو برباد کردے گا اور انہیں ان کی منزل تک نہ پہنچنے دے گا اور نہ کوئی سنت کو معطل کرنے والا ہوسکتا ہے کہ وہ امت کو ہلاک و برباد کردے گا۔

(۱۳۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کو نصیحت فرمائی ہے اور زہد کی ترغیب دی ہے )

شکر ہے خدا کا اس پر بھی جو دیا ہے اور اس پر بھی جولے لیا ہے ۔اس کے انعام پر بھی

۲۳۴

وعَلَى مَا أَبْلَى وابْتَلَى – الْبَاطِنُ لِكُلِّ خَفِيَّةٍ - والْحَاضِرُ لِكُلِّ سَرِيرَةٍ - الْعَالِمُ بِمَا تُكِنُّ الصُّدُورُ - ومَا تَخُونُ الْعُيُونُ - ونَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه غَيْرُه - وأَنَّ مُحَمَّداً نَجِيبُه وبَعِيثُه - شَهَادَةً يُوَافِقُ فِيهَا السِّرُّ الإِعْلَانَ والْقَلْبُ اللِّسَانَ.

عظة الناس

ومنها: فَإِنَّه واللَّه الْجِدُّ لَا اللَّعِبُ - والْحَقُّ لَا الْكَذِبُ - ومَا هُوَ إِلَّا الْمَوْتُ أَسْمَعَ دَاعِيه - وأَعْجَلَ حَادِيه - فَلَا يَغُرَّنَّكَ سَوَادُ النَّاسِ مِنْ نَفْسِكَ - وقَدْ رَأَيْتَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ - مِمَّنْ جَمَعَ الْمَالَ وحَذِرَ الإِقْلَالَ - وأَمِنَ الْعَوَاقِبَ طُولَ أَمَلٍ واسْتِبْعَادَ أَجَلٍ - كَيْفَ نَزَلَ بِه الْمَوْتُ فَأَزْعَجَه عَنْ وَطَنِه - وأَخَذَه مِنْ مَأْمَنِه - مَحْمُولًا عَلَى أَعْوَادِ الْمَنَايَا - يَتَعَاطَى بِه الرِّجَالُ الرِّجَالَ - حَمْلًا عَلَى الْمَنَاكِبِ - وإِمْسَاكاً بِالأَنَامِلِ - أَمَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَأْمُلُونَ بَعِيداً - ويَبْنُونَ مَشِيداً ويَجْمَعُونَ كَثِيراً - كَيْفَ أَصْبَحَتْ بُيُوتُهُمْ قُبُوراً - ومَا جَمَعُوا بُوراً - وصَارَتْ أَمْوَالُهُمْ لِلْوَارِثِينَ - وأَزْوَاجُهُمْ لِقَوْمٍ آخَرِينَ - لَا فِي حَسَنَةٍ يَزِيدُونَ

اور اس کے امتحان پربھی۔وہ ہر مخفی چیز کے اندر کابھی علم رکھتا ہے اور ہر پوشیدہ امر کے لئے حاضر بھی ہے۔دلوں کے اندر چھپے ہوئے اسرار اورآنکھوں کی خیانت سب کو بخوبی جانتا ہے اورمیں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور حضرت محمد (ص)اس کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور اس گواہی میں باطن ظاہر سے اور دل زبان سے ہم آہنگ ہے۔

خدا کی قسم وہ شے جو حقیقت ہے اورکھیل تماشہ نہیں ہے۔حق ہے اور جھوٹ نہیں ہے وہ صرف موت ہے جس کے داعی نے اپنی آواز سب کو سنا دی ہے اورجس کا ہنکانے والا جلدی مچائے ہوئے ہے لہٰذا خبردار لوگوں کی کثرت تمہارے نفس کو دھوکہ میں نہ ڈال دے۔تم دیکھ چکے ہو کہ تم سے پہلے والوں نے مالک جمع کیا۔افلاس سے خوفزدہ رہے۔انجام سے بے خبر رہے۔صرف لمبی لمبی امیدوں اور موت کی تاخیر کے خیال میں رہے اورایک مرتبہ موت نازل ہوگئی اور اس نے انہیں وطن سے بے وطن کردیا ۔محفوظ مقامات سے گرفتار کرلیا اور تابوت پر اٹھوادیا جہاں لوگ کاندھوں پر اٹھائے ہوئے۔انگلیوں کاسہارا دئیے ہوئے ایک دوسرے کے حوالے کر رہے تھے۔کیاتم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دور دراز امیدیں رکھتے تھے اورمستحکم مکانات بناتے تھے اوربے تحاشہ مال جمع کرتے تھے کہ کس طرح ان کے گھر قبروں میں تبدیل ہوگئے اورسب کیا دھرا تباہ ہوگیا۔اب اموال ورثہ کے لئے ہیں اور ازواج دوسرے لوگوں کے لئے نہ نیکیوں میں اضافہ کر سکتے ہیں

۲۳۵

ولَا مِنْ سَيِّئَةٍ يَسْتَعْتِبُونَ - فَمَنْ أَشْعَرَ التَّقْوَى قَلْبَه بَرَّزَ مَهَلُه - وفَازَ عَمَلُه فَاهْتَبِلُوا هَبَلَهَا - واعْمَلُوا لِلْجَنَّةِ عَمَلَهَا - فَإِنَّ الدُّنْيَا لَمْ تُخْلَقْ لَكُمْ دَارَ مُقَامٍ - بَلْ خُلِقَتْ لَكُمْ مَجَازاً - لِتَزَوَّدُوا مِنْهَا الأَعْمَالَ إِلَى دَارِ الْقَرَارِ - فَكُونُوا مِنْهَا عَلَى أَوْفَازٍ - وقَرِّبُوا الظُّهُورَ لِلزِّيَالِ

(۱۳۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يعظم اللَّه سبحانه ويذكر القرآن والنبي ويعظ الناس

عظمة اللَّه تعالى

وانْقَادَتْ لَه الدُّنْيَا والآخِرَةُ بِأَزِمَّتِهَا - وقَذَفَتْ إِلَيْه السَّمَاوَاتُ والأَرَضُونَ مَقَالِيدَهَا - وسَجَدَتْ لَه بِالْغُدُوِّ والآصَالِ الأَشْجَارُ النَّاضِرَةُ - وقَدَحَتْ لَه مِنْ قُضْبَانِهَا النِّيرَانَ الْمُضِيئَةَ - وآتَتْ أُكُلَهَا بِكَلِمَاتِه الثِّمَارُ الْيَانِعَةُ.

اور نہ برائیوں کے سلسلہ میں رضائے الٰہی کا سامان فراہم کر سکتے ہیں۔یاد رکھو جس نے تقویٰ کو شعار بنالیا وہی آگے نکل گیا اور اسی کا عمل کامیاب ہوگیا۔لہٰذا تقوی کے موقع کو غنیمت سمجھ اور جنت کے لئے اس کے اعمال انجام دے لو۔یہ دنیا تمہارے قیام(۱) کی جگہ نہیں ہے۔یہ فقط ایک گزر گاہ ہے کہ یہاں سے ہمیشگی کے مکان کے لئے سامان فراہم کرلو لہٰذا جلدی تیاری کرو اور سواریوں کو کوچ کے لئے اپنے سے قریب تر کرلو۔

(۱۳۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اللہ کی عظمت اور قرآن کی جلالت کا ذکر ہے اور پھر لوگوں کو نصیحت بھی کی گئی ہے )

(پروردگار ) دنیا و آخرت دونوں نے اپنی باگ ڈور اسی کے حوالہ کر رکھی ہے اور زمین و آسمان نے اپنی کنجیاں اسی کی خدمت میں پیش کردی ہیں۔اس کی بارگاہ میں صبح و شام سر سبز شاداب درخت سجدہ ریز رہتے ہیں اور اپنی لکڑی سے چمکدار آگ نکالتے رہتے ہیں اور اسی کے حکم کے مطابق پکے ہوئے پھل پیش کر تے رہتے ہیں۔

(۱)انسانی زندگی میں کامیابی کا راز یہی ایک نکتہ ہے کہ یہ دنیا انسان کی منزل نہیں ہے بلکہ ایک گذر گاہ ہے جس سے گزر کر ایک عظیم منزل کی طرف جانا ہے اور یہ مالک کا کرم ہے کہ اس نے یہاں سے سامان فراہم کرنے کی اجازت دیدی ہے اور یہاں کے سامان کو وہاں کے لئے کارآمد بنادیا ہے۔یہ اوربات ہے کہ دونوں جگہ کا فرق یہ ہے کہ یہاں کے لئے سامان رکھاجاتا ہے تو کام آتا ہے اور وہاں کے لئے راہ خدا میں دے دیا جاتا ہے تو کام آتا ہے۔غنی اورمالداردنیا سجا سکتے ہیں لیکن آخرت نہیں بنا سکتے ہیں ۔وہ صرف کریم اور صاحب خیر افراد کے لئے ہے جن کاشعار تقویٰ ہے اور جن کا اعتماد وعدہ ٔ الٰہی پر ہے۔

۲۳۶

القرآن

منها: وكِتَابُ اللَّه بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ - نَاطِقٌ لَا يَعْيَا لِسَانُه - وبَيْتٌ لَا تُهْدَمُ أَرْكَانُه - وعِزٌّ لَا تُهْزَمُ أَعْوَانُه.

رسول اللَّه

منها: أَرْسَلَه عَلَى حِينِ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ - وتَنَازُعٍ مِنَ الأَلْسُنِ - فَقَفَّى بِه الرُّسُلَ وخَتَمَ بِه الْوَحْيَ - فَجَاهَدَ فِي اللَّه الْمُدْبِرِينَ عَنْه والْعَادِلِينَ بِه.

الدنيا

منها: وإِنَّمَا الدُّنْيَا مُنْتَهَى بَصَرِ الأَعْمَى - لَا يُبْصِرُ مِمَّا وَرَاءَهَا شَيْئاً - والْبَصِيرُ يَنْفُذُهَا بَصَرُه - ويَعْلَمُ أَنَّ الدَّارَ وَرَاءَهَا - فَالْبَصِيرُ مِنْهَا

شَاخِصٌ - والأَعْمَى إِلَيْهَا شَاخِصٌ - والْبَصِيرُ مِنْهَا مُتَزَوِّدٌ - والأَعْمَى لَهَا مُتَزَوِّدٌ.

عظة الناس

منها: واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ مِنْ شَيْءٍ - إِلَّا ويَكَادُ صَاحِبُه يَشْبَعُ مِنْه - ويَمَلُّه إِلَّا الْحَيَاةَ فَإِنَّه لَا يَجِدُ فِي الْمَوْتِ رَاحَةً -

(قرآن حکیم)

کتاب خدا نگاہ کے سامنے ہے۔یہ وہ ناطق ہے جس کی زبان عاجز نہیں ہوتی ہے اور یہ وہ گھر ہے جس کے ارکان منہدم نہیں ہوتے ہیں۔یہی وہ عزت ہے جس کے اعوان و انصار شکست خوردہ نہیں ہوتے ہیں۔

(رسول اکرم (ص))

اللہ نے آپ کو اس وقت بھیجا جب رسولوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور زبانیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں۔آپ کے ذریعہ رسولوں کے سلسلہ کو تمام کیا اور وحی کے سلسلہ کو موقوف کیا تو آپ نے بھی اس سے انحراف کرنے والوں اور اس کاہمسرٹھہرانے والوں سے جم کر جہاد کیا۔

(دنیا)

یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ہے جو اس کے ماوراء کچھ نہیں دیکھتا ہے جب کہ صاحب بصیرت کی نگاہ اس پار نکل جاتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ منزل اس کے ماورا ہے۔صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے والا ہے اور اندھا اس کی طرف کوچ کرنے والا ہے۔بصیرا اس سے زاد راہ فراہم کرنے والا ہے اور اندھا اس کے لئے زاد راہ اکٹھا کرنے والا ہے ۔

(موعظہ)

یاد رکھو کہ دنیا میں جو شے بھی ہے اس کامالک سیر ہوجاتا ہے اور اکتا جاتا ہے علاوہ زندگی کے کہ کوئی شخص موت میں راحت نہیں محسوس کرتا ہے

۲۳۷

وإِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الْحِكْمَةِ - الَّتِي هِيَ حَيَاةٌ لِلْقَلْبِ الْمَيِّتِ - وبَصَرٌ لِلْعَيْنِ الْعَمْيَاءِ - وسَمْعٌ لِلأُذُنِ الصَّمَّاءِ - ورِيٌّ لِلظَّمْآنِ وفِيهَا الْغِنَى كُلُّه والسَّلَامَةُ - كِتَابُ اللَّه تُبْصِرُونَ بِه - وتَنْطِقُونَ بِه وتَسْمَعُونَ بِه - ويَنْطِقُ بَعْضُه بِبَعْضٍ - ويَشْهَدُ بَعْضُه عَلَى بَعْضٍ - ولَا يَخْتَلِفُ فِي اللَّه - ولَا يُخَالِفُ بِصَاحِبِه عَنِ اللَّه - قَدِ اصْطَلَحْتُمْ عَلَى الْغِلِّ فِيمَا بَيْنَكُمْ - ونَبَتَ الْمَرْعَى عَلَى دِمَنِكُمْ - وتَصَافَيْتُمْ عَلَى حُبِّ الآمَالِ - وتَعَادَيْتُمْ فِي كَسْبِ الأَمْوَالِ - لَقَدِ اسْتَهَامَ بِكُمُ الْخَبِيثُ وتَاه بِكُمُ الْغُرُورُ - واللَّه الْمُسْتَعَانُ عَلَى نَفْسِي وأَنْفُسِكُمْ.

(۱۳۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد شاوره عمر بن الخطاب في الخروج إلى غزو الروم

وقَدْ تَوَكَّلَ اللَّه - لأَهْلِ هَذَا الدِّينِ بِإِعْزَازِ الْحَوْزَةِ

اور یہ بات اس حکمت(۱) کی طرح ہے جس میں مردہ دلوں کیزندگی ، اندھی آنکھوں کی بصارت ' بہرے کانوں کی سماعت اور پیاسے کی سیرابی کا سامان ہے اور اسی میں ساری مالداری ہے اور مکمل سلامتی ہے۔ یہ کتاب خدا ہے جس میں تمہاری بصارت اور سماعت کا سارا سامان موجود ہے۔اس میں ایک حصہ دوسرے کی وضاحت کرتا ہے اور ایک دوسرے کی گواہی دیتا ہے۔یہ خدا کے بارے میں اختلاف نہیں رکھتا ہے اور اپنے ساتھی کو خدا سے الگ نہیں کرتا ہے۔مگر تم نے آپس میں کینہ و حسد پر اتفاق کرلیا ہے اور اسی گھورےپر پر سبزہ اگ آیا ہے۔امیدوں کی محبت میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوا اور مال جمع کرنے میں یک دوسرے کے دشمن ہو۔شیطان نے تمہیں سر گرداں کردیا ہے اورفریب نے تم کو بہکا دیا ہے۔اب اللہ ہی میرے اور تمہارے نفسوں کے مقابلہ میں ایک سہارا ہے۔

(۱۳۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب عمر نے روم کی جنگ کے بارے میں آپ سے مشورہ کیا)

اللہ نے صاحبا ن دین کے لئے یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ وہ ان کے حدود کو تقویت دے گا

(۱)اگرچہ دنیامیں زندہ رہنے کی خواہش عام طور سے آخرت کے خوف سے پیدا ہوتی ہے کہ انسان اپنے اعمال اور انجام کی طرف سے مطمئن نہیں ہوتا ہے اور اسی لئے موت کے تصور سے لرز جاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ خواہش عیب نہیں ہے بلکہ یہی جذبہ ہے جو انسان کو عمل کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور اسی کے لئے انسان دن اور رات کوایک کردیتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خواہش حیات کو حکمت کے ساتھ استعمال کرے اور اس سے ویسا ہی کام لے جو حکمت صحیح اورف کر سلیم سے لیا جاتا ہے ورنہ یہی خواہش و بال جان بھی بن سکتی ہے۔

۲۳۸

وسَتْرِ الْعَوْرَةِ. والَّذِي نَصَرَهُمْ - وهُمْ قَلِيلٌ لَا يَنْتَصِرُونَ - ومَنَعَهُمْ وهُمْ قَلِيلٌ لَا يَمْتَنِعُونَ - حَيٌّ لَا يَمُوتُ.

إِنَّكَ مَتَى تَسِرْ إِلَى هَذَا الْعَدُوِّ بِنَفْسِكَ - فَتَلْقَهُمْ فَتُنْكَبْ - لَا تَكُنْ لِلْمُسْلِمِينَ كَانِفَةٌ دُونَ أَقْصَى بِلَادِهِمْ - لَيْسَ بَعْدَكَ مَرْجِعٌ يَرْجِعُونَ إِلَيْه - فَابْعَثْ إِلَيْهِمْ رَجُلًا مِحْرَباً - واحْفِزْ مَعَه أَهْلَ الْبَلَاءِ والنَّصِيحَةِ - فَإِنْ أَظْهَرَ اللَّه فَذَاكَ مَا تُحِبُّ - وإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى - كُنْتَ رِدْءاً لِلنَّاسِ ومَثَابَةً لِلْمُسْلِمِينَ.

(۱۳۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد وقعت مشاجرة بينه وبين عثمان فقال المغيرة بن الأخنس لعثمان: أنا أكفيكه، فقال عليعليه‌السلام للمغيرة:

اور ان کے محفوظ مقامات کی حفاظت کرے گا۔اور جس نے ان کی اس وقت مدد کی ہے جب وہ قلت کی بنا پر انتقام کے قابل بھی نہ تے اور اپنی حفاظت کا انتظام بھی نہ کر سکتے تھے وہ ابھی بھی زندہ ہے اور اس کے لئے موت نہیں ہے۔تم اگر خود دشمن کی طرف جائو گے اور ان کا سامنا کروگے اور نکبت(۱) میں مبتلا ہوگئے تو مسلمانوں کے لئے آخری شہرکے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہ رہ جائے گی اور تمہارے بعد میدان میں کوئی مرکز بھی نہ رہ جائے گا جس کی طرف رجوع کرسکیں لہٰذا مناسب یہی ہے کہ کسی تجربہ کارآدمی کو بھیج دو اور اس کے ساتھ صاحبان خیرو مہارت کی ایک جماعت کو کردو۔اس کے بعداگر خدا نے غلبہ دے دیا تویہی تمہارامقصد ہے اور اگر اس کے خلاف ہوگیا تو تم لوگوں کا سہارااورمسلمانوں کےلئے ایک پلٹنےکا مرکز رہو گے۔

(۱۳۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کااورعثمان کے درمیان اختلافات پیداہوا اورمغیرہ بن اخنس نے عثمان سے کہا کہ میں ان کا کام تمام کرسکتا ہوں توآپ نےفرمایا )

(۱)میدان جنگ میں نکبت و رسوائی کے احتمال کے ساتھ کسی مرد میدان کے بھیجنے کا مشورہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ میدان جہاد میں ثبات قدم تمہاری تاریخ نہیں ہے اور نہ یہ تمہارے بس کاکام ہے لہٰذا مناسب یہی ہے کہکسی تجربہ کارشخص کو ماہرین کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ کردو تاکہ اسلام کی رسوائی نہ ہوسکے اورمذہب کا وقار بر قرار رہے۔اس کے بعد تمہیں ''فاتح اعظم '' کا لقب تو بہر حال مل ہی جائے گا جس کے دورمیں علاقہ فتح ہوتا ہے تاریخ اسی کو فاتح کا لقب دیتی ہے اورمجاہدین کویکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔

یہ بھی امیر المومنین کا ایک حوصلہ تھا کہ شدید اختلافات اور بے پناہ مصائب کے باوجود مشورہ سے دریغ نہیں کیا اور وہی مشورہ دیا جو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں تھا۔اس لئے کہ آپ اس حقیقت سے بہر حال با خبرتھے کہافراد سے اختلاف مقصد اور مذہب کی حفاظت کو ذمہ داری سے بے نیاز نہیں بنا سکتا ہے اور اسلام کے تحفظ کی ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے چاہے وہ بر سراقتدار ہو یا نہ ہو۔

۲۳۹

يَا ابْنَ اللَّعِينِ الأَبْتَرِ - والشَّجَرَةِ الَّتِي لَا أَصْلَ لَهَا ولَا فَرْعَ - أَنْتَ تَكْفِينِي - فَوَ اللَّه مَا أَعَزَّ اللَّه مَنْ أَنْتَ نَاصِرُه - ولَا قَامَ مَنْ أَنْتَ مُنْهِضُه - اخْرُجْ عَنَّا أَبْعَدَ اللَّه نَوَاكَ ثُمَّ ابْلُغْ جَهْدَكَ - فَلَا أَبْقَى اللَّه عَلَيْكَ إِنْ أَبْقَيْتَ!

(۱۳۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في أمر البيعة

لَمْ تَكُنْ بَيْعَتُكُمْ إِيَّايَ فَلْتَةً - ولَيْسَ أَمْرِي وأَمْرُكُمْ وَاحِداً - إِنِّي أُرِيدُكُمْ لِلَّه وأَنْتُمْ تُرِيدُونَنِي لأَنْفُسِكُمْ.

أَيُّهَا النَّاسُ أَعِينُونِي عَلَى أَنْفُسِكُمْ وايْمُ اللَّه لأُنْصِفَنَّ الْمَظْلُومَ مِنْ ظَالِمِه ولأَقُودَنَّ الظَّالِمَ بِخِزَامَتِه - حَتَّى أُورِدَه مَنْهَلَ الْحَقِّ وإِنْ كَانَ كَارِهاً.

(۱۳۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في شأن طلحة والزبير وفي البيعة له

طلحة والزبير

واللَّه مَا أَنْكَرُوا عَلَيَّ مُنْكَراً - ولَا جَعَلُوا بَيْنِي وبَيْنَهُمْ

اے بد نسل ملعون کے بچے ! اور اس درخت کے پھل جس کی نہ کوئی اصل ہے اور نہ فرع۔تو میرے لئے کافی ہو جائے گا؟ خدا کی قسم جس کا تومدد گار ہوگا اسکے لئے عزت نہیں ہے اور جسے تو اٹھائے گا وہ کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوگا۔نکل جا۔اللہ تیری منزل کو دور کردے۔جا اپنی کوششیں تمام کرلے۔خدا تجھ پر رحم نہ کرے گا اگر تو مجھ پرترس بھی کھائے۔

(۱۳۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(بیعت کے بارے میں )

میرے ہاتھوں پر تمہاری بیعت کوئی نا گہانی حادثہ نہیں ہے۔اور میرا اور تمہارا معاملہ ایک جیسا بھی نہیں ہے۔میں تمہیں اللہ کے لئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے فائدہ کے لئے چاہتے ہو۔

لوگو! اپنی نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں میری مدد کرو۔خدا کی قسم میں مظلوم کوظالم سے اس کاحق دلوائوں گا اور ظالم کو اس کی ناک میں نکیل ڈال کرکھینچوں گا تاکہ اسے چشمہ حق پر وارد کردوں چاہے وہ کسی قدرناراض کیوں نہ ہو۔

(۱۳۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(طلحہ و زبیر اور ان کی بیعت کے بارے میں )

خدا کی قسم ان لوگوں نے نہ میری کسی واقعی برائی کی گرفت کی ہے اورنہ میرے اور اپنے

۲۴۰