نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656883 / ڈاؤنلوڈ: 15924
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

خِضْمَةَ الإِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِيعِ ، إِلَى أَنِ انْتَكَثَ عَلَيْه فَتْلُه وأَجْهَزَ عَلَيْه عَمَلُه، وكَبَتْ بِه بِطْنَتُه

مبايعة علي

فَمَا رَاعَنِي إِلَّا والنَّاسُ كَعُرْفِ الضَّبُعِ ، إِلَيَّ يَنْثَالُونَ عَلَيَّ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ، حَتَّى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ وشُقَّ عِطْفَايَ مُجْتَمِعِينَ حَوْلِي كَرَبِيضَةِ الْغَنَمِ ، فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالأَمْرِ نَكَثَتْ طَائِفَةٌ ومَرَقَتْ أُخْرَى وقَسَطَ آخَرُونَ كَأَنَّهُمْ لَمْ يَسْمَعُوا اللَّه سُبْحَانَه يَقُولُ:( تِلْكَ الدَّارُ الآخِرَةُ نَجْعَلُها لِلَّذِينَ، لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الأَرْضِ ولا فَساداً، والْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ) ،

جس طرح اونٹ بہار کی گھاس کو چرلیتا ہے یہاں تک کہ اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کے اعمال نے اس کا خاتمہ کردیا اور شکم پری نے منہ کے بل گرادیا

اس وقت مجھے جس چیزنے دہشت زدہ کردیا یہ تھی کہ لوگ بجوں کی گردن(۱) کے بال کی طرح میرے گرد جمع ہوگئے اور چاروں طرف سے میرے اوپر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ حسن و حسین کچل گئے اور میری ردا کے کنارے پھٹ گئے ۔یہ سب میرے گرد بکریوں کے گلہ کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔لیکن جب میں نے ذمہ داری سنبھالی اوراٹھ کھڑے ہوا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ دی اوردوسرا دین سے باہرنکل گیا اور تیسرے نے فسق اختیار کرلیا جیسے کہ ان لوگوں نے یہ ارشاد الٰہی سنا ہی نہیں ہے کہ'' یہ دارآخرت ہم صرف ان لوگوں کے لئے قراردیتے ہیں جو دنیا میں بلندی اور فساد نہیں چاہتے ہیں اور عاقبت صرف اہل تقوی کے لئے ہیں ''۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عثمان کے تصرفات نے تمام عالم اسلام کوناراض کردیا تھا۔حضرت عائشہ انہیں نعثل یہودی قراردے کر لوگوں کو قتل پرآمادہ کر رہی تھیں۔طلحہ انہیں واجب القتل قراردے رہا تھا۔زبیر در پردہ قاتلوں کی حمایت کر رہا تھا لیکن ان سب کا مقصد امت اسلامیہ کو نا اہل سے نجات دلانا نہیں تھا بلکہ آئندہ خلافت کی زمین کو ہموار کرنا تھا اورحضرت علی اس حقیقت سے مکمل طور پر باخبر تھے۔اس لئے جب انقلابی گروہ نے خلافت کی پیشکش تو آپنے انکار کردیا کہ قتل کا سارا الزام اپنی گردن پرآجائے گا اور اس وقت تک قبول نہیں کیا جب تک تمام انصار و مہاجرین نے اس امر کا اقرارنہیں کرلیا کہ آپ کے علاوہ امت کا مشکل کشاہ کوئی نہیں ہے اور اس کے بعد بھی منبر رسول (ص) پر بٹھ کر بیعت لی تاکہ جانشینی کاصحیح مفہوم واضح ہو جائے۔یہ اور بات ہے کہ اس وقت بھی سعد بن ابی وقاص اورعبداللہ بن عمر جیسے افراد نے بیعت نہیں کی اور حضرت عائشہ کو بھی جیسے ہی اس '' حادثہ'' کی اطلاع ملی انہوں نے عثمان کی مظلومیت کا اعلان شروع کردیا اور طلحہ و زبیر کی محرومی کا انتقام لینے کا ارادہ کرلیا۔آپ کے حضرت علی سے اختلاف کی ایک بنیاد یہ بھی تھی کہ حضور(ص) نے اولاد علی کواپنی اولاد قراردے دیا تھا اور قرآن مجید نے انہیں ابنائنا کالقب دے دیا تھا اورحضرت عائشہ مستقل طور پر محروم اولاد تھیں لہٰذا ان میں یہ جذبہ حسد پیدا ہونا ہی چاہتے تھا۔

۲۱

بَلَى واللَّه لَقَدْ سَمِعُوهَا ووَعَوْهَا، ولَكِنَّهُمْ حَلِيَتِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِهِمْ ورَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا

أَمَا والَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وبَرَأَ النَّسَمَةَ ، لَوْ لَا حُضُورُ الْحَاضِرِ وقِيَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِ النَّاصِرِ، ومَا أَخَذَ اللَّه عَلَى الْعُلَمَاءِ، أَلَّا يُقَارُّوا عَلَى كِظَّةِ ظَالِمٍ ولَا سَغَبِ مَظْلُومٍ، لأَلْقَيْتُ حَبْلَهَا عَلَى غَارِبِهَا - ولَسَقَيْتُ آخِرَهَا بِكَأْسِ أَوَّلِهَا - ولأَلْفَيْتُمْ دُنْيَاكُمْ هَذِه أَزْهَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ

قَالُوا وقَامَ إِلَيْه رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ السَّوَادِ - عِنْدَ بُلُوغِه إِلَى هَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِه - فَنَاوَلَه كِتَاباً قِيلَ إِنَّ فِيه مَسَائِلَ كَانَ يُرِيدُ الإِجَابَةَ عَنْهَا فَأَقْبَلَ يَنْظُرُ فِيه [فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَتِه] قَالَ لَه ابْنُ عَبَّاسٍ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - لَوِ اطَّرَدَتْ خُطْبَتُكَ مِنْ حَيْثُ أَفْضَيْتَ!

فَقَالَ هَيْهَاتَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ - تِلْكَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ

ہاں ہاں خداکی قسم ان لوگوں نے یہ ارشاد سنا بھی ہے اور سمجھے بھی ہیں لیکن دنیا ان کی نگاہوں میں آراستہ ہوگئی اور اس کی چمک دمک نے انہیں نبھا لیا۔

آگاہ ہو جائو وہ خدا گواہ ہے جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اورذی روح کو پیدا کیا ہے کہ اگر حاضرین کی موجودگی اور انصار کے وجود سے حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اوراللہ کا اہل علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پرچین سے نہ بیٹھنا تو میں آج بھی اس خلافت کی رسی کو اسی کی گردن پر ڈال کر ہنکا دیتا اور اس کی آخر کواول ہی کے کاسہ سے سیراب کرتا اور تم دیکھ لیتے کہ تمہاری دنیا میری نظرمیں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس موقع پرایک عراقی باشندہ اٹھ کھڑا ہوا اوراس نے آپ کو ایک خط دیا جس ک بارے میں خیال ہے کہ اس میں کچھ فوری جواب طلب مسائل تھے۔چنانچہ آپ نے اس خط کو پڑھنا شروع کردیا اور جب فارغ ہوئے تو ابن عباس نے عرض کی کہ حضوربیان جاری رہے؟فرمایا کہ افسوس ابن عباس یہ توایک شقشقہ تھا جوابھر کر دب گیا۔

(شقشقہ اونٹ کے منہ میں وہ گوشت کا لوتھڑا ہے جو غصہ اور ہیجان کے وقت باہر نکل آتا ہے )

۲۲

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَاللَّه مَا أَسَفْتُ عَلَى كَلَامٍ قَطُّ - كَأَسَفِي عَلَى هَذَا الْكَلَامِ - أَلَّا يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام بَلَغَ مِنْه حَيْثُ أَرَادَ.

* *

قال الشريف رضيرضي‌الله‌عنه قولهعليه‌السلام كراكب الصعبة إن أشنق لها خرم - وإن أسلس لها تقحم - يريد أنه إذا شدد عليها في جذب الزمام - وهي تنازعه رأسها خرم أنفها - وإن أرخى لها شيئا مع صعوبتها - تقحمت به فلم يملكها - يقال أشنق الناقة إذا جذب رأسها بالزمام فرفعه - وشنقها أيضا ذكر ذلك ابن السكيت في إصلاح المنطق - وإنما قالعليه‌السلام أشنق لها ولم يقل أشنقها - لأنه جعله في مقابلة قوله أسلس لها - فكأنهعليه‌السلام قال إن رفع لها رأسها بمعنى أمسكه عليها بالزمام -

ابن عباس کہتے ہیں کہ بخدا قسم مجھے کسی کلام کے نا تمام رہ جانے کا اس قدر افسوس نہیں ہوا جتنا افسوس اس امر پرہوا کہ امیر المومنین اپنی بات پوری نہ فرما سکے اور آپ کا کلام نا تمام رہ گیا۔

سید شریف رضی فرماتے ہیں کہ امیر المومنین کے ارشاد''ان اشنقلها…… کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ناقہ پر مہارکھینچنے میں سختی کی جائے گیاور وہ سر کشی پرآمادہ ہو جائے گا تو اس کی ناک زخمی ہو جائے گی اوراگر ڈھیلا چھوڑ دیا جائے تو اختیار سے باہر نکل جائے گا۔عرب''اشنق الناقة'' اس موقع پر استعمال کرتے ہیں جب اس کے سر کو مہار کے ذریعہ کھینچا جاتا ہے اور وہ سر اٹھالیتا ہے۔اس کیفیت کو''شنقها ''سے بھی تعبیر کرتے ہیں جیسا کہ ابن السکیت نے'' اصلاح المنطق'' میں بیان کیا ہے۔لیکن امیرالمومنین نے اس میں ایک لام کا اضافہ کردیا ہے ''اشنق لھا'' تاکہ بعد کے جملہ'' اسلس لها '' سے ہم آہنگ ہو جائے اور فصاحت کا نظام درہم برہم نہ ہونے پائے۔

۲۳

(۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي من أفصح كلامهعليه‌السلام وفيها يعظ الناس ويهديهم من ضلالتهم

ويقال: إنه خطبها بعد قتل طلحة والزبير

بِنَا اهْتَدَيْتُمْ فِي الظَّلْمَاءِ وتَسَنَّمْتُمْ ذُرْوَةَ - الْعَلْيَاءِ وبِنَا أَفْجَرْتُمْ عَنِ السِّرَارِ - وُقِرَ سَمْعٌ لَمْ يَفْقَه الْوَاعِيَةَ - وكَيْفَ يُرَاعِي النَّبْأَةَ مَنْ أَصَمَّتْه الصَّيْحَةُ - رُبِطَ جَنَانٌ لَمْ يُفَارِقْه الْخَفَقَانُ - مَا زِلْتُ أَنْتَظِرُ بِكُمْ عَوَاقِبَ الْغَدْرِ - وأَتَوَسَّمُكُمْ بِحِلْيَةِ الْمُغْتَرِّينَ - حَتَّى سَتَرَنِي عَنْكُمْ جِلْبَابُ الدِّينِ - وبَصَّرَنِيكُمْ صِدْقُ النِّيَّةِ - أَقَمْتُ لَكُمْ عَلَى سَنَنِ الْحَقِّ فِي جَوَادِّ الْمَضَلَّةِ - حَيْثُ تَلْتَقُونَ ولَا دَلِيلَ وتَحْتَفِرُونَ ولَا تُمِيهُونَ.

الْيَوْمَ أُنْطِقُ لَكُمُ الْعَجْمَاءَ ذَاتَ الْبَيَانِ

(۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جوفصیح ترین کلمات میں شمار ہوتا ہے اور جس میں لوگوں کو نصیحت کی گئی ہے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کے راستہ پرلایا گیا ہے۔(طلحہ و زبیر کی بغاوت اورقتل عثمان کے پس منظر میں فرمایا)

تم لوگوں نے ہماری ہی وجہ سے تاریکیوں میں ہدایت کا راستہ پایاہے اوربلندی کے کوہان پر قدم جمائے ہیں اور ہماری ہی وجہ سے اندھری راتوں سے اجالے کی طرف باہرآئے ہو۔ وہ کان بہرے ہو جائیں جو پکارنے والے کی آواز نہ سن سکیں اور وہ لوگ بھلا دھیمی آواز کو کیا سن سکیں گے جن کے کان بلند ترین آوازوں کے سامنے بھی بہرے ہی رہے ہوں۔مطمئن دل وہی ہوتا ہے جویاد الٰہی اورخوف خدا میں مسلسل دھڑکتا رہتا ہے۔میں روزاول سے تمہاری غداری کے انجام کا انتظار کر رہا ہوں اور تمہیں فریب خوردہ لوگوں کے انداز سے پہچان رہا ہوں۔مجھے تم سے دینداری کی چادر نے پوشیدہ کردیا ہے لیکن صدق نیت نے میرے لئے تمہارے حالات کو آئینہ کردیا ہے۔میں نے تمہارے لئے گمراہی کی منزلوں میں حق کے راستوں پر قیام کیا ہے جہاں تم ایک دوسرے سے ملتے تھے لیکن کوئی راہنما نہ تھا اور کنواں کھودتے تھے لیکن پانی نصیب نہ ہوتا تھا۔

آج میں تمہارے لئے اپنی اس زبان خاموش کو گویا بنا رہا ہوں جس میں بڑی قوت بیان ہے

۲۴

عَزَبَ رَأْيُ امْرِئٍ تَخَلَّفَ عَنِّي - مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُه - لَمْ يُوجِسْ مُوسَىعليه‌السلام خِيفَةً عَلَى نَفْسِه - بَلْ أَشْفَقَ مِنْ غَلَبَةِ الْجُهَّالِ ودُوَلِ الضَّلَالِ الْيَوْمَ تَوَاقَفْنَا عَلَى سَبِيلِ الْحَقِّ والْبَاطِلِ مَنْ وَثِقَ بِمَاءٍ لَمْ يَظْمَأْ!

(۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما قبض رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله

وخاطبه العباس وأبو سفيان بن حرب - في أن يبايعا له بالخلافة (وذلك بعد أن تمت البيعة لأبي بكرفي السقيفة، وفيها ينهى عن الفتنة ويبين عن خلقه وعلمه)

النهي عن الفتنة

أَيُّهَا النَّاسُ شُقُّوا أَمْوَاجَ الْفِتَنِ بِسُفُنِ النَّجَاةِ - وعَرِّجُوا عَنْ طَرِيقِ الْمُنَافَرَةِ - وضَعُوا تِيجَانَ الْمُفَاخَرَةِ - أَفْلَحَ مَنْ نَهَضَ بِجَنَاحٍ أَوِ اسْتَسْلَمَ فَأَرَاحَ - هَذَا مَاءٌ آجِنٌ

یاد رکھو کہ اس شخص کی رائے گم ہوگئی ہے جس نے مجھ سے رو گردانی کی ہے۔میں نے روز اول سے آج تک حق کے بارے میں کبھی شک نہیں کیا میرا سکوت مثل موسی ہے موسی کو اپنے نفس کے بارے میں خوف نہیں تھاانہیں دربار فرعون میں صرف یہ خوف تھا کہ کہیں جاہل جادوگر اورگمراہ حکام عوام کی عقلوں پر غالب نہ آجائیں۔آج ہم سے حق و باطل کے راستہ پرآمنے سامنے ہیں اوریاد رکھو جسے پانی پر اعتماد ہوتا ہے وہ پیاسا نہیں رہتا ہے۔

(۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جو آپ کے وفات پیغمبراسلام(ص) کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا جب عباس اورابو سفیان نے آپ سے بیعت لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

ایہا الناس! فتنوں کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیر کرنکل جائو اور منافرت کے راستوں سے الگ رہو۔باہمی فخر و مباہات کے تاج اتار دو کہ کامیابی اسی کا حصہ ہے جو اٹھے تو بال و پر کے ساتھ اٹھے ورنہ کرسی کو دوسروں کے حوالے کرکے اپنے کوآزاد کرلے۔یہ پانی بڑا گندہ(۱) ہے۔

(۱) امیر المومنین نے حالات کی وہ بہترین تصویر کشی کی ہے جس کی طرف ابو سفیان جیسے افراد متوجہ نہیں تھے یا سازشوں کا پردہ ڈالنا چاہتے تھے آپ نے واضح لفظوں میں فرمادیا کہ مجھے اس مطالبہ بیعت اوروعدہ نصرت کا انجام معلوم ہے اور میں اس وقت قیام کونا وقت قیام تصور کرتا ہوں جس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ انسان پہلے بال و پر تلاش کرلے اس کے بعد اڑنے کا ارادہ کرے ورنہ خاموش ہو کر بیٹھ جائے کہ اس میں عافیت ہے اور یہی تقاضائے عقل و منطق ہے۔میں اس طعن و طنز سے بھی با خبر ہوں جو میرے اقدامات کے بارے میں استعمال ہو رہے ہیں لیکن میں کوئی جذباتی انسان نہیں ہوں کہ ان جملوں سے گھبرا جائوں۔میں مشیت الٰہی کا پابند ہوں اور اس کے خلاف ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتا ہوں۔

۲۵

ولُقْمَةٌ يَغَصُّ بِهَا آكِلُهَا. ومُجْتَنِي الثَّمَرَةِ لِغَيْرِ وَقْتِ إِينَاعِهَا كَالزَّارِعِ بِغَيْرِ أَرْضِه.

خلقه وعلمه

فَإِنْ أَقُلْ يَقُولُوا حَرَصَ عَلَى الْمُلْكِ - وإِنْ أَسْكُتْ يَقُولُوا جَزِعَ مِنَ الْمَوْتِ - هَيْهَاتَ بَعْدَ اللَّتَيَّا والَّتِي واللَّه لَابْنُ أَبِي طَالِبٍ آنَسُ بِالْمَوْتِ - مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْيِ أُمِّه - بَلِ انْدَمَجْتُ عَلَى مَكْنُونِ عِلْمٍ لَوْ بُحْتُ بِه لَاضْطَرَبْتُمْ - اضْطِرَابَ الأَرْشِيَةِ فِي الطَّوِيِّ الْبَعِيدَةِ!

(۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لا أشير عليه بألا يتبع طلحة والزبير ولا يرصد لهما القتالوفيه يبين عن صفته بأنه عليه‌السلام لا يخدع

واللَّه لَا أَكُونُ كَالضَّبُعِ تَنَامُ عَلَى طُولِ اللَّدْمِ

اور اس لقمہ میں اچھو لگ جانے کاخطرہ ہے اور یاد رکھو کہ نا وقت پھل چننے والا ایسا ہی ہے جیسے نا مناسب زمین میں زراعت کرنے والا۔ (میری مشکل یہ ہے کہ) میں بولتا ہوں تو کہتے ہیں کہ اقتدار کی لالچ رکھتے ہیں اورخاموش ہو جاتا ہوں تو کہتے ہیں کہ موت سے ڈر گئے ہیں۔

افسوس اب یہ بات جب میں تمام مراحل دیکھ چکا ہوں۔خدا کی قسم ابو طالب کافرزند موت سے اس سے زیادہ مانوس ہے جتنا بچہ سر چشمہ حیات سے مانوس ہوتا ہے۔البتہ میرے سینہ کی تہوں میں ایک ایسا پوشیدہ علم ہے جو مجھے مجبور کئے ہوئے ہے ورنہ اسے ظاہر کردوں تو تم اسی طرح لرزنے لگو گے جس طرح گہرے کنویں میں رسی تھرتھراتی اور لرزتی ہے۔

(۶)

حضرت کا ارشاد گرامی

جب آپ کو مشورہ دیا گیا کہ طلحہ و زبیر کا پیچھا نہ کریں اور ان سے جنگ کا بندو بست نہ کریں

خدا کی قسم میں اس بجو(۱) کے مانند نہیں ہو سکتا جس کا شکاری مسلسل کھٹکھٹاتا رہتا ہے اور وہ آنکھ بند کئے پڑا رہتا ہے ،

(۱) بجو کو عربی میں ام عامر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس کے شکار کا طریقہ یہ ہے کہ شکاری اس کے گرد گھیرا ڈال کر زمین کو تھپتھپاتا ہے اور وہ اندر سوراخ میں گھس کر بیٹھ جاتا ہے۔پھر شکاری اعلان کرتا ہے کہ ام عامر نہیں ہے اور وہ اپنے کو سویا ہوا ظاہر کرنے کے لئے پیر پھیلا دیتا ہے اور شکاری پیر میں رسی باندھ کر کھینچ لیتا ہے ۔یہ انتہائی احمقانہ عمل ہوتا ہے جس کی بنا پر بجو کو حماقت کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے آپ(ص) کا ارشاد گرامی ہے کہ جہاد سے غافل ہو کر خانہ نشین ہو جانا اور شام کے لشکروں کو مدینہ کا راستہ بتا دینا ایک بجو کا عمل تو ہو سکتا ہے لیکن عقل کا اورباب مدینة العلم کا کردارنہیں ہوسکتا ہے۔

۲۶

حَتَّى يَصِلَ إِلَيْهَا طَالِبُهَا ويَخْتِلَهَا رَاصِدُهَاولَكِنِّي أَضْرِبُ بِالْمُقْبِلِ إِلَى الْحَقِّ الْمُدْبِرَ عَنْه - وبِالسَّامِعِ الْمُطِيعِ الْعَاصِيَ الْمُرِيبَ أَبَداً - حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيَّ يَوْمِي - فَوَاللَّه مَا زِلْتُ مَدْفُوعاً عَنْ حَقِّي - مُسْتَأْثَراً عَلَيَّ مُنْذُ قَبَضَ اللَّه نَبِيَّه صوسلم حَتَّى يَوْمِ النَّاسِ هَذَا.

(۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذم فيها أتباع الشيطان

اتَّخَذُوا الشَّيْطَانَ لأَمْرِهِمْ مِلَاكاً واتَّخَذَهُمْ لَه أَشْرَاكاً فَبَاضَ وفَرَّخَ فِي صُدُورِهِمْ ودَبَّ ودَرَجَ فِي حُجُورِهِمْ - فَنَظَرَ بِأَعْيُنِهِمْ ونَطَقَ بِأَلْسِنَتِهِمْ - فَرَكِبَ بِهِمُ الزَّلَلَ وزَيَّنَ لَهُمُ الْخَطَلَ فِعْلَ مَنْ قَدْ شَرِكَه الشَّيْطَانُ فِي سُلْطَانِه ونَطَقَ بِالْبَاطِلِ عَلَى لِسَانِه!

یہاں تک کہ گھات لگانے والا اسے پکڑ لیتا ہے۔میں حق کی طرف آنے والوں کے ذریعہ انحراف کرنے والوں پر اوراطاعت کرنے والوں کے سہارے معصیت کا ر تشکیک کرنے والوں پر مسلسل ضرب لگاتا رہوں گا یہاں تک کہ میرا آخری دن آجائے۔خدا گواہ ہے کہ میں ہمیشہ اپنے حق سے محروم رکھا گیا ہوں اور دوسروں کو مجھ پرمقدم کیا گیا ہے جب سے سرکار دو عالم(ص) کا انتقال ہوا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

(۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جس میں شیطان کے پیروکاروں کی مذمت کی گئی ہے

ان لوگوں نے شیطان کو اپنے امور کا مالک و مختار بنالیا ہے اور اس نے انہیں اپناآلہ کا ر قرار دے لیا ہے اور انہیں کی سینوں میں(۱) انڈے بچے د ئی ے ہیں اور وہ انہیں کی آغوش میں پلے بڑھے ہیں۔اب شیطان انہیں کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور انہیں کی زبان سے بولتا ہے۔انہیں لغزش کی راہ پر لگا دیا ہے اوران کے لئے غلط باتوں کو آراستہ کردیا ہے جیسے کہ اس نے انہیں اپنے کاروبارمیں شریک بنالیا ہو اور اپنے حرف باطل کو انہیں کی زبان سے ظاہر کرتا ہو۔

(۱)شیطانوں کی تخلیق میں انڈے بچے ہوتے ہیں یا نہیں۔یہ مسئلہ اپنی جگہ پرقابل تحقیق ہے لیکن حضرت کی مراد یہ ہے کہ شیاطین اپنے معنوی بچوں کو انسانی معاشرہ سے الگ کسی ماحول میں نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان کی پرورش اسی ماحول میں کرتے ہیں اور پھر انہیں کے ذریعہ اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔

زمانہ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو انداز ہو گا کہ شیاطین زمانہ اپنی اولاد کو مسلمانوں کی آغوش میں پالتے ہیں اور مسلمانوں کی اولاد کو اپنی گود میں پالتے ہیں تاکہ مستقبل میں انہیں مکمل طور پر استعمال کیا جا سکے اور اسلام کو اسلام کے ذریعہ فنا کیا جا سکے جس کا سلسلہ کل کے شام سے شروع ہوا تھا اور آج کے عالم اسلام تک جاری و ساری ہے۔

۲۷

(۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يعني به الزبير في حال اقتضت ذلك ويدعوه للدخول في البيعة ثانية

يَزْعُمُ أَنَّه قَدْ بَايَعَ بِيَدِه ولَمْ يُبَايِعْ بِقَلْبِه - فَقَدْ أَقَرَّ بِالْبَيْعَةِ وادَّعَى الْوَلِيجَةَ - فَلْيَأْتِ عَلَيْهَا بِأَمْرٍ يُعْرَفُ - وإِلَّا فَلْيَدْخُلْ فِيمَا خَرَجَ مِنْه.

(۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفته وصفة خصومه ويقال إنها في أصحاب الجمل

وقَدْ أَرْعَدُوا وأَبْرَقُوا ومَعَ هَذَيْنِ الأَمْرَيْنِ الْفَشَلُ ولَسْنَا نُرْعِدُ حَتَّى نُوقِعَ ولَا نُسِيلُ حَتَّى نُمْطِرَ.

(۸)

آپ کا ارشاد گرامی

زبیر کے بارے میں

جب ایسے حالات پیدا ہوگئے اور اسے دوبارہ بیعت کے دائرہ میں داخل ہونا پڑے گا جس سے نکل گیا ہے

زبیر کا خیال یہ ہے کہ اس نے صرف ہاتھ سے میری بیعت کی ہے اور دل سے بیعت نہیں کی ہے۔تو بیعت کا تو بہر حال اقرار کرلیا ہے۔اب صرف دل کے کھوٹ کا ادعا کرتا ہے تو اسے اس کا واضح ثبوت فراہم کرناپڑے گاورنہ اسی بیعت میں دوبارہ داخل ہوناپڑے گا جس سے نکل گیا ہے۔

(۹)

آپ کے کلام کا ایک حصہ

جس میں اپنے اوربعض مخالفین کے اوصاف کا تذکرہ فرمایا ہے اور شاید اس سے مراد اہل جمل ہیں۔

یہ لوگ بہت گرجے اوربہت چمکے لیکن آخر میں ناکام ہی رہے جب کہ اس وقت تک گرجتے نہیں ہیں جب تک دشمن پر ٹوٹ نہ پڑیں اور اس وقت تک لفظوں کی روانی نہیں دکھلاتے جب تک کہ برس نہ پڑیں۔

۲۸

(۱۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يريد الشيطان أو يكني به عن قوم

أَلَا وإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ جَمَعَ حِزْبَه - واسْتَجْلَبَ خَيْلَه ورَجِلَه وإِنَّ مَعِي لَبَصِيرَتِي مَا لَبَّسْتُ عَلَى نَفْسِي ولَا لُبِّسَ عَلَيَّ - وايْمُ اللَّه لأُفْرِطَنَّ لَهُمْ حَوْضاً أَنَا مَاتِحُه لَا يَصْدُرُونَ عَنْه ولَا يَعُودُونَ إِلَيْه.

(۱۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لابنه محمد ابن الحنفية - لما أعطاه الراية يوم الجمل

تَزُولُ الْجِبَالُ ولَا تَزُلْ -.

(۱۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جس کا مقصد شیطان ہے یا شیطان صفت کوئی گروہ

آگاہ ہو جائو کہ شیطان نے اپنے گروہ کوجمع کرلیا ہے اور اپنے پیادہ و سوار سمیٹ لئے ہیں۔لیکن پھربھی میرے ساتھ میری بصیرت ہے۔نہ میں نے کسی کو دھوکہ دیا ہے اور نہ واقعا دھوکہ کھایا ہے اور خدا کی قسم میں ان کے لئے ایسے حوض کو چھلکائوں گا جس کا پانی نکالنے والا بھی میں ہی ہوں گا کہ یہ نہ نکل سکیں گے اور نہ پلٹ کرآسکیں گے

(۱۱)

آپ کا ارشاد گرامی

اپنے فرزند محمد بن الخفیہ سے

( میدان جمل میں علم لشکر دیتے ہوئے)

خبردار(۱) پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے۔ تم نہ ہٹنا۔

(۱) حیرت کی بات ہے کہ جو انسان فنون جنگ کی تعلیم دیتا ہو اسے موت سے خوف زدہ ہونے کا الزام دیدیا جائے۔امیر المومنین کی مکمل تاریخ حیات گواہ ہے کہ آپ سے بڑا شجاع و بہادرکائنات میں نہیں پیدا ہوا ہے۔آپ موت کو سر چشمہ حیات تصور کرتے تھے جس کی طرف بچہ فطری طورپر ہمکتا ہے اور اسے اپنی زندگی کا راز تصور کرتا ہے۔آپ نے صفیں کے میدان میں وہ تیغ کے جوہر دکھلائے ہیں جس نے ایک مرتبہ پھر بدر واحد و خندق و خیبر کی یاد تازہ کردی تھی اور یہ ثابت کردیا تھا کہ یہ بازد ۲۵ سال کے سکوت کے بعد بھی شل نہیں ہوئے ہیں اور یہ فن حرب کسی مشق و مہارت کا نتیجہ نہیں ہے۔ محمد حنفیہ سے خطاب کرکے یہ فرمانا کہ'' پہاڑ ہٹ جائے تم نہ ہٹنا'' اس امر کی دلیل ہے کہ آپ کی استقامت اس سے کہیں زیادہ پائیدار اور استوار ہے دانتوں کو بھینچ لینے میں اشارہ ہے کہ اس طرح رگوں کے تنائو پرتلوار کا وار اثر نہیں کرتا ہے۔کاسہ سر کو عاریت دیدینے کا مطلب یہ ہے کہ مالک زندہ رکھنا چاہے گا تو دوبارہ یہ سر واپس لیا جا سکتا ہے ورنہ بندہ نے تو اس کی بارگاہ میں پیش کردیا ہے۔آنکھوں کو بند رکھنے اور آخر قوم پر نگاہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ سامنے کے لشکر کو مت دیکھنا۔بس یہ دیکھنا کہ کہاں تک جانا ہے اور کس طرح صفوں کو پامال کردینا ہے۔ آخری فقرہ جنگ اور جہاد کے فرق کو نمایاں کرتا ہے کہ جنگ جو اپنی طاقت پر بھروسہ کرتا ہے اور مجاہد نصرت الٰہی کے اعتماد پرمیدان میں قدم جماتا ہے اور جس کی خدا مدد کردے وہ کبھی مغلوب نہیں ہو سکتا ہے۔

۲۹

عَضَّ عَلَى نَاجِذِكَ أَعِرِ اللَّه جُمْجُمَتَكَ - تِدْ فِي الأَرْضِ قَدَمَكَ ارْمِ بِبَصَرِكَ أَقْصَى الْقَوْمِ وغُضَّ بَصَرَكَ واعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِ اللَّه سُبْحَانَه

(۱۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما أظفره الله بأصحاب الجمل وقَدْ قَالَ لَهعليه‌السلام بَعْضُ أَصْحَابِه - وَدِدْتُ أَنَّ أَخِي فُلَاناً كَانَ شَاهِدَنَا - لِيَرَى مَا نَصَرَكَ اللَّه بِه عَلَى أَعْدَائِكَ

فَقَالَ لَهعليه‌السلام أَهَوَى أَخِيكَ مَعَنَا فَقَالَ نَعَمْ قَالَ فَقَدْ شَهِدَنَا - ولَقَدْ شَهِدَنَا فِي عَسْكَرِنَا هَذَا أَقْوَامٌ فِي أَصْلَابِ الرِّجَالِ - وأَرْحَامِ النِّسَاءِ - سَيَرْعَفُ بِهِمُ الزَّمَانُ ويَقْوَى بِهِمُ الإِيمَانُ.

اپنے دانتوں کو بھینچ لینا۔ اپنا کاسہ سر اللہ کے حوالے کردینا۔زمین میں قدم گاڑ دینا ۔نگاہ آخر قوم پر رکھنا۔آنکھوں کو بند رکھنا اور یہ یاد رکھنا کہ مدد اللہ ہی کی طرف سے آنے والی ہے۔

(۱۲)

آپ کا ارشاد گرامی

جب پروردگار نے آپ کو اصحاب جمل پر کامیابی عطا فرمائی اور آپ کے بعض اصحاب نے کہا کہ کاش ہمارا فلاں بھائی بھی ہمارے ساتھ ہوتا تو وہ بھی دیکھتا کہ پروردگار نے کس طرح آپ کو دشمن پر فتح عنایت فرمائی ہے تو آپ نے فرمایا، کیا تیرے(۱) بھائی کی محبت بھی ہمارے ساتھ ہے ؟ اس نے عرض کی بیشک! فرمایا تو وہ ہمارے ساتھ تھا اور ہمارے اس لشکرمیں وہ تمام لوگ ہمارے ساتھ تھے جو ابھی مردوں کے صلب اور عورتوں کے رحم میں ہیں اور عنقریب زمانہ انہیں منظر عام پرلے آئے گا اور ان کے ذریعہ ایمان کو تقویت حاصل ہوگی۔

(۱) یہ دین اسلام کا ایک مخصوص امتیاز ہے کہ یہاں عذاب بد عملی کے بغیر نازل نہیں ہوتا ہے اور ثواب کا استحقاق عمل کے بغیر بھی حاصل ہو جاتا ہے اور عمل خیر کا دارومدار صرف نیت پر رکھا گیا ہے بلکہ بعض اوقات تو نیت مومن کو اس کے عمل سے بھی بہتر قرار دیا گیا ہے کہ عمل میں ریا کاری کے امکانات پائے جاتے ہیں اور نیت میں کسی طرح کی ریاکاری نہیں ہوتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پروردگارنے روزہ کو صرف اپنے لئے قرار دیا ہے اور اس کے اجرو ثواب کی مخصوص ذمہ داری اپنے اوپر رکھی ہے کہ روزہ میں نیت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے اوراخلاص نیت کا فیصلہ کرنے والا پروردگار کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔

۳۰

(۱۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذم أهل البصرة بعد وقعة الجمل

كُنْتُمْ جُنْدَ الْمَرْأَةِ وأَتْبَاعَ الْبَهِيمَةِ رَغَا فَأَجَبْتُمْ وعُقِرَ فَهَرَبْتُمْ أَخْلَاقُكُمْ دِقَاقٌ وعَهْدُكُمْ شِقَاقٌ ودِينُكُمْ نِفَاقٌ ومَاؤُكُمْ زُعَاقٌ والْمُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ مُرْتَهَنٌ بِذَنْبِه والشَّاخِصُ عَنْكُمْ مُتَدَارَكٌ بِرَحْمَةٍ مِنْ رَبِّه - كَأَنِّي بِمَسْجِدِكُمْ كَجُؤْجُؤِ

سَفِينَةٍ قَدْ بَعَثَ اللَّه عَلَيْهَا الْعَذَابَ مِنْ فَوْقِهَا ومِنْ تَحْتِهَا - وغَرِقَ مَنْ فِي ضِمْنِهَا.

وفِي رِوَايَةٍ وايْمُ اللَّه لَتَغْرَقَنَّ بَلْدَتُكُمْ حَتَّى كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مَسْجِدِهَا كَجُؤْجُؤِ سَفِينَةٍ - أَوْ نَعَامَةٍ جَاثِمَةٍ.

وفِي رِوَايَةٍ كَجُؤْجُؤِ طَيْرٍ فِي لُجَّةِ بَحْرٍ.

(۱۳)

آپ کا ارشاد گرامی

جس میں جنگ جمل کے بعد اہل بصرہ کی مذمت فرمائی ہے

افسوس تم لوگ ایک عورت کے سپاہی اور ایک جانورکے پیچھے چلنے والے تھے جس نے بلبلانا شروع کیا تو تم لبیک(۱) کہنے لگے اور وہ زخمی ہوگیا تو تم بھاگ کھڑے ہوئے۔تمہارے اخلاقیات پست۔تمہارا عہد نا قابل اعتبار۔تمہارا دین نفاق اور تمہارا پانی شور ہے۔تمہارے درمیان قیام کرنے والا گویا گناہوں کے ہاتھوں رہن ہے اور تم سے نکل جانے والا گویا رحمت پروردگار کو حاصل کر لینے والا ہے۔میں تمہاری اس مسجد کو اس عالم میں دیکھ رہا ہوں جیسے کشتی کا سینہ۔جب خدا تمہاری زمین پر اوپر اور نیچے ہر طرف سے عذاب بھیجے گا اور سارے اہل شہر غرق ہو جائیں گے۔

(دوسری روایت میں ہے)

خدا کی قسم تمہارا شہر غرق ہونے والا ہے۔یہاں تک کہ گویا میں اس کی مسجد کو ایک کشتی کے سینہ کی طرح یا ایک بیٹھے ہوئے شتر مرغ کی شکل میں دیکھ رہا ہوں

(تیسری روایت میں )

جیسے پرندہ کا سینہ سمندر کی گہرائیوں میں۔

(۱)اہل بصرہ کا برتائو امیر المومنین کے ساتھ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے اور جنگ جمل اس کا بہترین ثبوت ہے لیکن امیر المومنین کے برتائو کے بارے میں ڈاکٹر طہ حسین کا بیان ہے کہ'' آپ نے ایک کریم انسان کا برتائو کیا اور بیت المال دوست اور دشمن دونوں کے مستحقین میں تقسیم کردیا ۔اور زخمیوں پرحملہ نہیں کیا'' اور حد یہ ہے کہ قیدیوں کو کنیز نہیں بنایا بلکہ نہایت احترام کے ساتھ مدینہ واپس کردیا۔

۳۱

وفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى بِلَادُكُمْ أَنْتَنُ بِلَادِ اللَّه تُرْبَةً - أَقْرَبُهَا مِنَ الْمَاءِ وأَبْعَدُهَا مِنَ السَّمَاءِ - وبِهَا تِسْعَةُ أَعْشَارِ الشَّرِّ - الْمُحْتَبَسُ فِيهَا بِذَنْبِه والْخَارِجُ بِعَفْوِ اللَّه - كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى قَرْيَتِكُمْ هَذِه قَدْ طَبَّقَهَا الْمَاءُ حَتَّى مَا يُرَى مِنْهَا إِلَّا شُرَفُ الْمَسْجِدِ كَأَنَّه جُؤْجُؤُ طَيْرٍ فِي لُجَّةِ بَحْرٍ!

(۱۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في مثل ذلك

أَرْضُكُمْ قَرِيبَةٌ مِنَ الْمَاءِ بَعِيدَةٌ مِنَ السَّمَاءِ - خَفَّتْ عُقُولُكُمْ وسَفِهَتْ حُلُومُكُمْ فَأَنْتُمْ غَرَضٌ لِنَابِلٍ وأُكْلَةٌ لِآكِلٍ وفَرِيسَةٌ لِصَائِلٍ.

ایک روایت میں آپ کا یہ ارشاد وارد ہوا ہے۔ تمہاراشہر خاک کے اعتبارسے سب سے زیادہ بدبودار ہے کہ پانی سے سب سے زیادہ قریب ہے اور آسمان سے سب سے زیادہ دور ہے۔اس میں شر کے دس حصوں میں سے نو حصے پائے جاتے ہیں۔اس میں مقیم گناہوں کے ہاتھ گرفتار ہے۔اوراس سے نکل جانے والا عفو الٰہی میں داخل ہوگیا۔گویا میں تمہاری اس بستی کو دیکھ رہا ہوں کہ پانی نے اسے اس طرح ڈھانپ لیا ہے کہ مسجد کے کنگروں کے علاوہ کچھ نظرنہیں آرہا ہے اوروہ کنگرے بھی جس طرح پانی کی گہرائی میں پرندہ کاسینہ۔

(۱۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایسے ہی ایک موقع پر)

تمہاری زمین پانی سے قریب تر اور آسمان سے دور ہے۔تمہاری عقلیں ہلکی اورتمہاری دانائی احمقانہ(۱) ہے تم ہر تیر انداز کا نشانہ' ہر بھوکے کا لقمہ اور ہر شکاری کا شکار ہو۔

(۱) اس سے زیادہ حماقت کیا ہو سکتی ہے کہ کل جس زبان سے قتل عثمان کا فتویٰ سنا تھاآج اسی سے انتقام خون عثمان کی فریاد سن رہے ہیں اور پھربھی اعتبار کر رہے ہیں۔اس کے بعد ایک اونٹ کی حفاظت پر ہزاروں جانیں قربان کر رہے ہیں اور سرکار دو عالم (ص) کے اس ارشاد گرامی کا احساس تک نہیں ہے کہ میری ازواج میں سے کسی ایک کی سواری کو دیکھ کرحواب کے کتے بھونکیں گے اور وہ عائشہ ہی ہو سکتی ہیں۔

۳۲

(۱۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

فيما رده على المسلمين من قطائع عثمان

واللَّه لَوْ وَجَدْتُه قَدْ تُزُوِّجَ بِه النِّسَاءُ ومُلِكَ بِه الإِمَاءُ لَرَدَدْتُه - فَإِنَّ فِي الْعَدْلِ سَعَةً - ومَنْ ضَاقَ عَلَيْه الْعَدْلُ فَالْجَوْرُ عَلَيْه أَضْيَقُ!

(۱۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما بويع في المدينة وفيها يخبر الناس بعلمه بما تئول إليه أحوالهم وفيها يقسمهم إلى أقسام

(۱۵)

آپ کے کلام کا ایک حصہ

اس موضوع سے متعلق کہ آپ نے عثمان کی جاگیروں کو مسلمانوں کو واپس دے دیا

خدا کی قسم اگر میں کسی(۱) مال کو اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنادیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دیدیا گیا ہے تو بھی اسے واپس کرادیتا اس لئے کہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اس کے لئے ظلم میں تو اوربھی تنگی ہوگی۔

(۱۶)

آپ کے کلام کا ایک حصہ

(اس وقت جب آپ کی مدینہ میں بیعت کی گئی اور آپ نے لوگوں کو بیعت کے مستقبل سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی قسمیں بیان فرمائی)

(۱) تاریخ کا مسلمہ ہے کہ امیر المومنین جب بیت المال میں داخل ہوتے تھے تو سوئی دھاگہ اور روٹی کے ٹکڑے تک تقسیم کردیا کرتے تھے اور اس کے بعد جھاڑو دے کردورکعت نمازادا کرتے تھے تاکہ یہ زمین روز قیامت علی کے عدل و انصاف کی گواہی دے اور اس بنیاد پرآپ نے عثمان کی عطا کردہ جاگیروں کو واپسی کا حکم دیدیا اور صدقہ کے اونٹ عثمان کے گھر سے واپس منگوالئے کہ عثمان کسی قیمت پرزکوٰة کے مستحق نہیں تھے۔

اگرچہ بعض ہوا خواہان بنی امیہ نے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ یہ انتہائی بے رحمانہ برتائو تھا جہاں یتیموں پررحم نہیں کیا گیا اور ان کے قبضہ سے مال لے لیا گیا۔لیکن اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ ظلم اور شقاوت کا مظاہرہ اس نے کیا ہے جس نے غرباء و مساکین کا حق اپنے گھر میں جمع کرلیا ہے اور مال مسلمین پر قبضہ کرلیا ہے۔پھر یہ کوئی نیا حادثہ بھی نہیں ہے۔کل پہلی خلافت میں یتیمہ رسول اکرم (ص) پر کب رحم کیا گیا تھا جو واقعاً فدک کی حقدار تھی اور اس کے بابا نے اسے یہ جاگیر حکم خدا سے عطا کردی تھی۔اولاد عثمان تو حقدار بھی نہیں ہے اور کیا اولاد عثمان کامرتبہ اولاد رسول (ص) سے بلند تر ہے یا ہر دور کے لئے ایک نئی شریعت مرتب کی جاتی ہے اور اس کا محور سرکاری مصالح اورجماعتی فوائد ہی ہوتے ہیں ؟

۳۳

ذِمَّتِي بِمَا أَقُولُ رَهِينَةٌ( وأَنَا بِه زَعِيمٌ ) إِنَّ مَنْ صَرَّحَتْ لَه الْعِبَرُ عَمَّا بَيْنَ يَدَيْه مِنَ الْمَثُلَاتِ حَجَزَتْه التَّقْوَى عَنْ تَقَحُّمِ الشُّبُهَاتِ أَلَا وإِنَّ بَلِيَّتَكُمْ قَدْ عَادَتْ كَهَيْئَتِهَا يَوْمَ بَعَثَ اللَّه نَبِيَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله والَّذِي بَعَثَه بِالْحَقِّ لَتُبَلْبَلُنَّ بَلْبَلَةً ولَتُغَرْبَلُنَّ غَرْبَلَةً ولَتُسَاطُنَّ سَوْطَ الْقِدْرِ حَتَّى يَعُودَ أَسْفَلُكُمْ أَعْلَاكُمْ وأَعْلَاكُمْ أَسْفَلَكُمْ - ولَيَسْبِقَنَّ سَابِقُونَ كَانُوا قَصَّرُوا - ولَيُقَصِّرَنَّ سَبَّاقُونَ كَانُوا سَبَقُوا - واللَّه مَا كَتَمْتُ وَشْمَةً ولَا كَذَبْتُ كِذْبَةً - ولَقَدْ نُبِّئْتُ بِهَذَا الْمَقَامِ وهَذَا الْيَوْمِ - أَلَا وإِنَّ الْخَطَايَا خَيْلٌ شُمُسٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا - وخُلِعَتْ لُجُمُهَا فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِي النَّارِ - أَلَا وإِنَّ التَّقْوَى مَطَايَا ذُلُلٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا،

وأُعْطُوا أَزِمَّتَهَا فَأَوْرَدَتْهُمُ الْجَنَّةَ - حَقٌّ وبَاطِلٌ ولِكُلٍّ أَهْلٌ - فَلَئِنْ أَمِرَ الْبَاطِلُ لَقَدِيماً فَعَلَ - ولَئِنْ قَلَّ الْحَقُّ فَلَرُبَّمَا

میں اپنے قول کا خود ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں اور جس شخص پر گذشتہ اقوام کی سزائوں نے عبرتوں کو واضح کردیا ہو اسے تقوی شبہات میں داخل ہونے سے یقینا روک دے گا۔ آگاہ ہو جائو آج تمہارے لئے وہ آزمائشی دور پلٹ آیا ہے جو اس وقت تھا جب پروردگار نے اپنے رسول (ص) کوبھیجا تھا۔قسم ہے اس پروردگار کی جس نے آپ(ص) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تھا کہ تم سختی کے ساتھ تہ و بالا کئے جائو گے تمہیں باقاعدہ چھانا جائے گا اور دیگ کی طرح چمچے الٹ پلٹ کیا جائے گا یہاں تک کہ اسفل اعلیٰ ہو جائے اوراعلیٰ اسفل بن جائے اور جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ آگے بڑھ جائیں اور جوآگے بڑھ گئے ہیں وہ پیچھے آجائیں۔خدا گواہ ہے کہ میں نے نہ کسی کلمہ کو چھپایا ہے اورنہ کوئی غلط بیانی کی ہے اور مجھے اس منزل اور اس دن کی پہلے ہی خبردے دی گئی تھی۔

یاد رکھو کہ خطائیں وہ سر کش سواریاں ہیں جن پر اہل خطا کو سوار کردیا جائے اور ان کی لگام کو ڈھیلا چھوڑ دیا جائے اور وہ سوار کو لے کرجہنم میں پھاند پڑیں اورتقوی ان رام کی ہوئی سواریوں کے مانند ہے جن پر لوگ سوار کیے جائیں اور ان کی لگام ان کے ہاتھوں میں دے دی جائے تو وہ اپنے سواروں کو جنت تک پہنچادیں۔

دنیا میں حق و باطل دونوں ہیں اور دونوں کے اہل بھی ہیں۔اب اگر باطل زیادہ ہوگیا ہے تو یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے اور اگر حق کم ہوگیا ہے تو یہ بھی ہوتا رہا ہے

۳۴

ولَعَلَّ ولَقَلَّمَا أَدْبَرَ شَيْءٌ فَأَقْبَلَ!

قال السيد الشريف وأقول إن في هذا الكلام الأدنى من مواقع الإحسان ما لا تبلغه مواقع الاستحسان وإن حظ العجب منه أكثر من حظ العجب به وفيه مع الحال التي وصفنا زوائد من الفصاحة لا يقوم بها لسان ولا يطلع فجها إنسان ولا يعرف ما أقول إلا من ضرب في هذه الصناعة بحق وجرى فيها على عرق( وما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ ) .

ومن هذه الخطبة وفيها يقسم الناس إلى ثلاثة أصناف

شُغِلَ مَنِ الْجَنَّةُ والنَّارُ أَمَامَه - سَاعٍ سَرِيعٌ نَجَا وطَالِبٌ بَطِيءٌ رَجَا ومُقَصِّرٌ فِي النَّارِ هَوَى الْيَمِينُ والشِّمَالُ مَضَلَّةٌ والطَّرِيقُ الْوُسْطَى هِيَ الْجَادَّةُ عَلَيْهَا بَاقِي الْكِتَابِ وآثَارُ النُّبُوَّةِ - ومِنْهَا مَنْفَذُ السُّنَّةِ

اور اس کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی شے پیچھے ہٹ جانے کے بعد دوبارہ منظر عام پرآجائے ۔

سیدرضی : اس مختصر سے کلام میں اس قدر خوبیاں پائی جاتی ہیں جہاں تک کسی کی داد و تعریف نہیں پہنچ سکتی ہے اور اس میں حیرت و استعجاب کا حصہ پسندیدگی کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔اس میں فصاحت کے وہ پہلو بھی ہیں جن کو کوئی زبان بیان نہیں کر سکتی ہے اور ان کی گہرائیوں کا کوئی انسان ادراک نہیں کر سکتا ہے۔اور اس حقیقت کو وہی انسان سمجھ سکتا ہے جس نے فن بلاغت کا حق ادا کیا ہو اور اس کے رگ و ریشہ سے با خبر ہو۔ اور ان حقائق کو اہل علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔

اسی خطبہ کا ایک حصہ جس میں لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے

وہ شخص کسی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں رکھتا جس کی نگاہ میں جنت و جہنم کا نقشہ ہو۔ تیز رفتاری سے کام کرنے والا نجات پا لیتا ہے اور سست رفتاری سے کام کرکے جنت کی طلب گاری کرنے والا بھی امید وار رہتا ہے لیکن کوتاہی کرنے والا جہنم میں گر پڑتا ہے۔دائیں بائیں گمراہیوں کی منزلیں ہیں اور سیدھا راستہ صرف درمیانی راستہ ہے۔ای راستہ پر رہ جانے والی کتاب خدا اور نبوت کے آثار ہیں اور اسی سے شریعت کا نفاذ ہوتا ہے

۳۵

وإِلَيْهَا مَصِيرُ الْعَاقِبَةِ هَلَكَ مَنِ ادَّعَى و( خابَ مَنِ افْتَرى ) مَنْ أَبْدَى صَفْحَتَه لِلْحَقِّ هَلَكَ وكَفَى بِالْمَرْءِ جَهْلًا أَلَّا يَعْرِفَ قَدْرَه لَا يَهْلِكُ عَلَى التَّقْوَى سِنْخُ أَصْلٍ ولَا يَظْمَأُ عَلَيْهَا زَرْعُ قَوْمٍ - فَاسْتَتِرُوا فِي بُيُوتِكُمْ( وأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ ) - والتَّوْبَةُ مِنْ وَرَائِكُمْ ولَا يَحْمَدْ حَامِدٌ إِلَّا رَبَّه ولَا يَلُمْ لَائِمٌ إِلَّا نَفْسَه.

اور اسی کی طرف عاقبت کی بازگشت ہے۔غلط ادعا کرنے والا ہلاک ہوا اور افترا کرنے والا ناکام ونامرادہوا۔جس نے حق کے مقابلہ میں سر نکالا وہ ہلاک ہوگیا اور انسان کی جہالت(۱) کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسے اپنی ذات کا بھی عرفان نہ ہو۔ جو بنیاد تقوی پرقائم ہوتی ہے اس میں ہلاکت نہیں ہوتی ہے اوراس کے ہوتے ہوئے کسی قوم کی کھیتی پیاس سے برباد نہیں ہوتی ہے۔اب تم اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھ جائو اور اپنے باہمی امور کی اصلاح کرو۔توبہ تمہارے سامنے ہے۔ تعریف کرنے والے کافرض ہے کہ اپنے رب کی تعریف کرے اور ملامت کرنے والے کو چاہیے کہ اپنے نفس کی ملامت کرے۔

(۱)مالک کائنات نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں کا مالک بنایا ہے اور اس کی فطرت میں خیروشر کا سارا عرفان ودیعت کردیا ہے لیکن انسان کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ ان صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتا ہے اور ہمیشہ اپنے کو بیچارہ ہی سمجھتا ہے جو جہالت کی بد ترین منزل ہے کہ انسان کو اپنی ہی قدرو قیمت کا اندازہ نہ ہوسکے۔ کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے:

اپنی ہی ذات کا انسان کو عرفان نہ ہوا

خاک پھر خاک تھی اوقات سے آگے نہ بڑھی

۳۶

(۱۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفة من يتصدى للحكم بين الأمة وليس لذلك بأهل وفيها: أبغض الخلائق إلى اللَّه صنفان

الصنف الأول: إنَّ أَبْغَضَ الْخَلَائِقِ إِلَى اللَّه رَجُلَانِ - رَجُلٌ وَكَلَه اللَّه إِلَى نَفْسِه فَهُوَ جَائِرٌ عَنْ قَصْدِ السَّبِيلِ مَشْغُوفٌ بِكَلَامِ بِدْعَةٍ ودُعَاءِ ضَلَالَةٍ - فَهُوَ فِتْنَةٌ لِمَنِ افْتَتَنَ بِه ضَالٌّ عَنْ هَدْيِ مَنْ كَانَ قَبْلَه - مُضِلٌّ لِمَنِ اقْتَدَى بِه فِي حَيَاتِه وبَعْدَ وَفَاتِه - حَمَّالٌ خَطَايَا غَيْرِه رَهْنٌ بِخَطِيئَتِه.

(۱۷)

(ان نا اہلوں کے بارے میں جوصلاحیت کے بغیر فیصلہ کا کام شروع کر دیتے ہیں اور اسی ذیل میں دوبد ترین اقسام مخلوقات کا ذکربھی ہے)

قسم اول: یاد رکھو کہ پروردگار کی نگاہ میں بد ترین خلائق دو طرح کے افراد ہیں۔وہ شخص جسے پروردگار نے اسی کے رحم و کرم(۱) پرچھوڑدیا ہے اور وہ درمیانی راستہ سے ہٹ گیا ہے۔صرف بدعت کا دلدادہ ہے اور گمراہی کی دعوت پر فریفتہ ہے۔یہ دوسرے افراد کے لئے ایک مستقل فتنہ ہے اور سابق افراد کی ہدایت سے بہکا ہوا ہے۔اپنے پیروکاروں کوگمراہ کرنے والا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی یہ دوسروں کی غلطیوں کا بھی بوجھ اٹھانے والا ہے اور ان کی خطائوں میں بھی گرفتار ہے۔

(۱)جاہل انسانوں کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ پروردگار انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے اوروہ جو چاہیں کریں کسی طرح کی کوئی پابندی نہ ہو حالانکہ در حقیقت یہ بد ترین عذاب الٰہی ہے۔انسان کی فلاح و بہبود اسی میں ہے کہ مالک اسے اپنے رحم و کرم کے سایہ میں رکھے ورنہ گر اس سے توفیقات کوسلب کرکے اس کے حال پر چھوڑ دیا تو وہ لمحوں میں فرعون' قارون' نمرود' یزید' حجاج اور متوکل بن سکتا ہے۔اگرچہ اسے احساس یہی رہے گا کہ اس نے کائنات کا اقتدار حاصل کرلیا ہے اور پروردگار اس کے حال پر بہت زیادہ مہربان ہے۔

۳۷

الصنف الثاني: ورَجُلٌ قَمَشَ جَهْلًا مُوضِعٌ فِي جُهَّالِ الأُمَّةِ عَادٍ فِي أَغْبَاشِ الْفِتْنَةِ عَمٍ بِمَا فِي عَقْدِ الْهُدْنَةِ قَدْ سَمَّاه أَشْبَاه النَّاسِ عَالِماً ولَيْسَ بِه بَكَّرَ فَاسْتَكْثَرَ مِنْ جَمْعٍ مَا قَلَّ مِنْه خَيْرٌ مِمَّا كَثُرَ حَتَّى إِذَا ارْتَوَى مِنْ مَاءٍ آجِنٍ واكْتَثَرَ مِنْ غَيْرِ طَائِلٍجَلَسَ بَيْنَ النَّاسِ قَاضِياً ضَامِناً لِتَخْلِيصِ مَا الْتَبَسَ عَلَى غَيْرِه فَإِنْ نَزَلَتْ بِه إِحْدَى الْمُبْهَمَاتِ هَيَّأَ لَهَا حَشْواً رَثًّا مِنْ رَأْيِه ثُمَّ قَطَعَ بِه فَهُوَ مِنْ لَبْسِ الشُّبُهَاتِ فِي مِثْلِ نَسْجِ الْعَنْكَبُوتِ - لَا يَدْرِي أَصَابَ أَمْ أَخْطَأَ - فَإِنْ أَصَابَ خَافَ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَخْطَأَ وإِنْ أَخْطَأَ رَجَا أَنْ يَكُونَ قَدْ أَصَابَ جَاهِلٌ خَبَّاطُ جَهَالَاتٍ عَاشٍ رَكَّابُ عَشَوَاتٍ لَمْ يَعَضَّ عَلَى الْعِلْمِ بِضِرْسٍ قَاطِعٍ -

قسم دوم: وہ شخص جس نے جہالتوں(۱) کو سمیٹ لیا ہے اور انہیں کے سہارے جاہلوں کے درمیان دوڑ لگا رہا ہے۔فتنوں کی تاریکیوں میں دوڑ رہا ہے اور امن و صلح کے فوائدسے یکسر غافل ہے۔انسان نما لوگوں نے اسکا نام عالم رکھ دیا ہے حالانکہ اس کا علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔صبح سویرے ان باتوں کی تلاش میں نکل پڑتا ہے جن کا قلیل ان کے کثیر سے بہتر ہے۔یہاں تک کہ جب گندہ پانی سے سیراب ہو جاتا ہے اور مہمل اوربے فائدہ باتوں کو جمع کرلیتا ہے تو لوگوں کے درمیان قاضی بن کر بیٹھ جاتا ہے اوراس امر کی ذمہ داری لے لیتا ہے کہ جو امور دوسرے لوگوں پر مشتبہ ہیں وہ انہیں صاف کردیگا۔اس کے بعد جب کو ئی مبہم مسئلہ آجاتا ہے تو اس کے لئے بے سود اورفرسودہ دلائل کو اکٹھا کرتا ہے اور انہیں سے فیصلہ کر دیتا ہے۔یہ شبہات میں اسی طرح گرفتار ہے جس طرح مکڑی اپنے جالے میں پھنس جاتی ہے۔اسے یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ صحیح فیصلہ کیا ہے یا غلط۔اگر صحیح کیا ہے تو بھی ڈرتا ہے کہ شائد غلط ہو۔اور اگر غلط کیا ہے تو بھی یہ امید رکھتا ہے کہ شائد صحیح ہو ۔ ایسا جاہل ہے جو جہالتوں میں بھٹک رہا ہے اور ایسا اندھا ہے جو اندھیروں کی سواری پر سوار ہو۔نہ علم میں کوئی حتمی بات سمجھا ہے

(۱) قاضیوں کی یہ قسم ہر دورمیں رہی ہے اور ہر علاقہ میں پائی جاتی ہے۔بعض لوگ گائوں یا شہر میں اسی بات کواپنا امتیاز تصورکرتے ہیںکہ انہیں فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے اگرچہ ان می کسی قسم کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہی وہ قسم ہے جس نے دین خدا کو تباہ اورخلق خدا کو گمراہ کیا ہے اور یہی قسم شریح سے شروع ہو کر ان افراد تک پہنچ گئی ہے جو دوسروں کے مسائل کو باآسانی طے کردیتے ہیں اور اپنے مسئلہ میں کسی طرح کے فیصلہ سے راضی نہیں ہوتے ہیں اور نہ کسی کی رائے کو سننے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔

۳۸

يَذْرُو الرِّوَايَاتِ ذَرْوَ الرِّيحِ الْهَشِيمَ لَا مَلِيٌّ واللَّه بِإِصْدَارِ مَا وَرَدَ عَلَيْه - ولَا أَهْلٌ لِمَا قُرِّظَ بِه لَا يَحْسَبُ الْعِلْمَ فِي شَيْءٍ مِمَّا أَنْكَرَه - ولَا يَرَى أَنَّ مِنْ وَرَاءِ مَا بَلَغَ مَذْهَباً لِغَيْرِه - وإِنْ أَظْلَمَ عَلَيْه أَمْرٌ اكْتَتَمَ بِه لِمَا يَعْلَمُ مِنْ جَهْلِ نَفْسِه - تَصْرُخُ مِنْ جَوْرِ قَضَائِه الدِّمَاءُ - وتَعَجُّ مِنْه الْمَوَارِيثُ إِلَى اللَّه أَشْكُو - مِنْ مَعْشَرٍ يَعِيشُونَ جُهَّالًا ويَمُوتُونَ ضُلَّالًا - لَيْسَ فِيهِمْ سِلْعَةٌ أَبْوَرُ مِنَ الْكِتَابِ إِذَا تُلِيَ حَقَّ تِلَاوَتِه - ولَا سِلْعَةٌ أَنْفَقُ بَيْعاً - ولَا أَغْلَى ثَمَناً مِنَ الْكِتَابِ إِذَا حُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِه - ولَا عِنْدَهُمْ أَنْكَرُ مِنَ الْمَعْرُوفِ ولَا أَعْرَفُ مِنَ الْمُنْكَرِ!

(۱۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذم اختلاف العلماء في الفتيا

وفيه يذم أهل الرأي ويكل أمر الحكم في أمور الدين للقرآن

اورنہ کسی حققت کو پرکھا ہے۔روایات کو یوں اڑا دیتا ہے جس طرح تیز ہوا تنکوں کو اڑا دیتی ہے۔خدا گواہ ہے کہ یہ ان فیصلوں کے صادر کرنے کے قابل نہیں ہے جو اس پر وار د ہوتے ہیں اور اس کام کا اہل نہیں ہے جو اس کے حوالہ کیا گیا ہے۔جس چیز کوناقابل توجہ سمجھتا ہے اس میں علم کا احتمال بھی نہیں دیتاہے اوراپنی پہنچ کے ماوراء کسی اور رائے کا تر بھی نہیں کرتا ہے۔اگر کوئی مسئلہ واضح نہیں ہوتا ہے تواسے چھپا دیتا ہے کہ اسے اپنی جہالت کا علم ہے۔ناحق بہائے ہوئے خون اس کے فیصلوں کے ظلم سے فریادی اور غلط تقسیم کی ہوئی میراث چلا رہی ہے۔میں خدا کی بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں ایسے گروہ کی جو زندہ رہتے ہیں تو جہالت کے ساتھ اور مر جاتے ہیں تو ضلالت کے ساتھ۔ان کے نزدیک کوئی متاع کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت نہیں ہے اگر اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور کوئی متاع اس کتاب سے زیادہ قیمتی اورفائدہ مند نہیں ہے اگر اس کے مفاہیم میں تحریف کردی جائے۔ ان کے لئے معروف سے زیادہ منکر کچھ نہیں ہے اور منکر سے زیادہ معروف کچھ نہیں ہے۔

(۱۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(علماء کے درمیان اختلاف فتویٰ کے بارے میں اور اسی میں اہل رائے کی مذمت اور قرآن کی مرجعت کا ذکر کیا گیا ہے)

۳۹

ذم أهل الرأي

تَرِدُ عَلَى أَحَدِهِمُ الْقَضِيَّةُ فِي حُكْمٍ مِنَ الأَحْكَامِ فَيَحْكُمُ فِيهَا بِرَأْيِه ثُمَّ تَرِدُ تِلْكَ الْقَضِيَّةُ بِعَيْنِهَا عَلَى غَيْرِه فَيَحْكُمُ فِيهَا بِخِلَافِ قَوْلِه ثُمَّ يَجْتَمِعُ الْقُضَاةُ بِذَلِكَ عِنْدَ الإِمَامِ الَّذِي اسْتَقْضَاهُمْ فَيُصَوِّبُ آرَاءَهُمْ جَمِيعاً وإِلَهُهُمْ وَاحِدٌ ونَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ وكِتَابُهُمْ وَاحِدٌ!

أَفَأَمَرَهُمُ اللَّه سُبْحَانَه بِالِاخْتِلَافِ فَأَطَاعُوه - أَمْ نَهَاهُمْ عَنْه فَعَصَوْه!

الحكم للقرآن

أَمْ أَنْزَلَ اللَّه سُبْحَانَه دِيناً نَاقِصاً - فَاسْتَعَانَ بِهِمْ عَلَى إِتْمَامِه أَمْ كَانُوا شُرَكَاءَ لَه فَلَهُمْ أَنْ يَقُولُوا وعَلَيْه أَنْ يَرْضَى أَمْ أَنْزَلَ اللَّه سُبْحَانَه دِيناً تَامّاً فَقَصَّرَ الرَّسُولُصلى‌الله‌عليه‌وآله عَنْ تَبْلِيغِه وأَدَائِه - واللَّه سُبْحَانَه يَقُولُ:( ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ مِنْ شَيْءٍ ) وفِيه تِبْيَانٌ لِكُلِّ شَيْءٍ وذَكَرَ أَنَّ الْكِتَابَ يُصَدِّقُ بَعْضُه بَعْضاً وأَنَّه لَا اخْتِلَافَ فِيه فَقَالَ سُبْحَانَه:( ولَوْ كانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ الله لَوَجَدُوا فِيه اخْتِلافاً كَثِيراً ) وإِنَّ الْقُرْآنَ

مذمت اہل رائے:

ان لوگوں کا عالم یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس کسی مسئلہ کا فیصلہ آتا ہے تو وہ اپنی رائے سے فیصلہ کر دیتا ہے اور پھر یہی قضیہ بعینہ دوسرے کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کے خلاف فیصلہ کر دیتا ہے۔اس کے بعد تمام قضاة اس حاکم کے پاس جمع ہوتے ہیں جس نے انہیں قاضی بنایا ہے تو وہ سب کی رائے کی تائید کر دیتا ہے جب کہ سب کا خدا ایک' نبی ایک اور کتاب ایک ہے۔تو کیا خدا(۱) ہی نے انہیں اختلاف کا حکم دیا ہے اور یہ اس کی اطاعت کر رہے ہیں یا اس نے انہیں اختلاف سے منع کیا ہے مگر پھربھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں ؟ یا خدا نے دین ناقص نازل کیا ہے اوران سے اس کی تکمیل کے لئے مدد مانگی ہے یا یہ سبخود اس کی خدائی ہی میں شریک ہیں اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ یہ بات کہیں اور خدا کا فرض ہے کہ وہ قبول کرے یاخدانے دین کامل نازل کیا تھا اور رسول اکرم (ص)نے اس کی تبلیغ اور ادائیگی میں کوتاہی کردی ہے جب کہ اس کا اعلان ہے کہ ہم نے کتاب میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کی ہے اور اس میں ہر شے کا بیان موجود ہے۔اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تصدیق کرت ہے اور اس میں کسی طرح کا اختلاف نہیں ہے۔ یہ قرآن غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بے پناہ اختلاف ہوتا۔ یہ قرآن وہ ہے ۔

(۱)یاد رہے کہ امیر المومنین نے مسئلہ کے تمام احتمالات کا سدباب کردیا ہے اور اب کسی رائے پرست انسان کے لئے فرار کرنے کا کوئیراستہ نہیں ہے اور اسے مذہب میں رائے اور قیاس کو استعمال کرنے کے لئے ایک نہایک مہمل بنیاد کواختیارکرناپڑے گا۔اس کے بغیر رائے اورقیاس کا کوئی جواز نہیں ہے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

أَمْ أَيُّ قَسْمٍ اسْتَأْثَرْتُ عَلَيْكُمَا بِه - أَمْ أَيُّ حَقٍّ رَفَعَه إِلَيَّ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ - ضَعُفْتُ عَنْه أَمْ جَهِلْتُه أَمْ أَخْطَأْتُ بَابَه!

واللَّه مَا كَانَتْ لِي فِي الْخِلَافَةِ رَغْبَةٌ - ولَا فِي الْوِلَايَةِ إِرْبَةٌ - ولَكِنَّكُمْ دَعَوْتُمُونِي إِلَيْهَا وحَمَلْتُمُونِي عَلَيْهَا - فَلَمَّا أَفْضَتْ إِلَيَّ نَظَرْتُ إِلَى كِتَابِ اللَّه ومَا وَضَعَ لَنَا - وأَمَرَنَا بِالْحُكْمِ بِه فَاتَّبَعْتُه - ومَا اسْتَنَّ النَّبِيُّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَاقْتَدَيْتُه - فَلَمْ أَحْتَجْ فِي ذَلِكَ إِلَى رَأْيِكُمَا ولَا رَأْيِ غَيْرِكُمَا - ولَا وَقَعَ حُكْمٌ جَهِلْتُه فَأَسْتَشِيرَكُمَا وإِخْوَانِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ - ولَوْ كَانَ ذَلِكَ لَمْ أَرْغَبْ عَنْكُمَا ولَا عَنْ غَيْرِكُمَا -. وأَمَّا مَا ذَكَرْتُمَا مِنْ أَمْرِ الأُسْوَةِ - فَإِنَّ ذَلِكَ أَمْرٌ لَمْ أَحْكُمْ أَنَا فِيه بِرَأْيِي - ولَا وَلِيتُه هَوًى مِنِّي - بَلْ وَجَدْتُ أَنَا وأَنْتُمَا مَا جَاءَ بِه رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قَدْ فُرِغَ مِنْه - فَلَمْ أَحْتَجْ إِلَيْكُمَا فِيمَا قَدْ فَرَغَ اللَّه مِنْ قَسْمِه - وأَمْضَى فِيه حُكْمَه - فَلَيْسَ لَكُمَا واللَّه عِنْدِي ولَا لِغَيْرِكُمَا فِي هَذَا عُتْبَى -. أَخَذَ اللَّه بِقُلُوبِنَا وقُلُوبِكُمْ إِلَى الْحَقِّ - وأَلْهَمَنَا وإِيَّاكُمُ الصَّبْرَ.

کردیا ہے ؟ یا کونسا حصہ ایسا ہے جس پر میں نے قبضہ کرلیا ہے ؟ یا کسی مسلمان نے کوئی مقدمہ پیش کیا ہو اور میں اس کا فیصلہ نہ کر سکا ہوں یا اس سے ناواقف رہا ہوں یا اس میں کسی غلطی کا شکار ہوگیا ہوں۔ خدا گواہ ہے کہ مجھے نہ خلافت کی خواہش تھی اور نہ حکومت کی احتیاج۔تمہیں لوگوں نے مجھے اس امر کی دعوت دی اور اس پر آمادہ کیا۔اس کے بعد جب یہ میرے ہاتھ میں آگئی تو میں نے اس سلسلہ میں کتاب خدا اور اس کے دستور پر نگاہ کی اور جو اس نے حکم دیا تھا اس کا اتباع کیا اور اس طرح رسول اکرم (ص) کی سنت کی اقتدا کی۔جس کے بعد نہ مجھے تمہاری رائے کی کوئی ضرورت تھی اور نہ تمہارے علاوہ کسی کی رائے کی اور نہمیں کسی حکم سے جاہل تھا کہ تم سے مشورہ کرتا یا تمہارے علاوہ دیگر برادران اسلام سے۔اور اگر ایی کوئی ضرورت ہوتی تو میں نہ تمہیں نظر انداز کرتا اورنہ دیگر مسلمانوں کو۔رہ گیا یہ مسئلہ کہ میں نے بیت المال کی تقسیم میں برابری سے کاملیا ہے تو یہ نہمیری ذاتی رائے ہے اور نہاس پر میری خواہش کی حکمرانی ہے بلکہ میں نے دیکھا کہ اس سلسلہ میں رسول اکرم (ص) کی طرف سے ہم سے پہلے فیصلہ ہوچکا ہے تو خدا کے معین کئے ہوئے حق اور اس کے جاری کئے ہوئے حکم کے بعد کسی کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ خدا شاہد ہے کہ اس سلسلہ میں نہ تمہیں شکایت کا کوئی حق ہے اور نہ تمہارے علاوہ کسی اور کو۔اللہ ہم سب کے دلوں کو حق کی راہ پر لگا دے اور سب کو صبر و شکیبائی کی توفیق عطا فرمائے ۔

۴۲۱

ثم قالعليه‌السلام - رَحِمَ اللَّه رَجُلًا رَأَى حَقّاً فَأَعَانَ عَلَيْه - أَوْ رَأَى جَوْراً فَرَدَّه - وكَانَ عَوْناً بِالْحَقِّ عَلَى صَاحِبِه.

(۲۰۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين

إِنِّي أَكْرَه لَكُمْ أَنْ تَكُونُوا سَبَّابِينَ - ولَكِنَّكُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ أَعْمَالَهُمْ وذَكَرْتُمْ حَالَهُمْ - كَانَ أَصْوَبَ فِي الْقَوْلِ وأَبْلَغَ فِي الْعُذْرِ - وقُلْتُمْ مَكَانَ سَبِّكُمْ إِيَّاهُمْ - اللَّهُمَّ احْقِنْ دِمَاءَنَا ودِمَاءَهُمْ - وأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا وبَيْنِهِمْ واهْدِهِمْ مِنْ ضَلَالَتِهِمْ - حَتَّى يَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَه - ويَرْعَوِيَ عَنِ الْغَيِّ والْعُدْوَانِ مَنْ لَهِجَ بِه

(۲۰۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في بعض أيام صفين - وقد رأى الحسن ابنهعليه‌السلام يتسرع إلى الحرب

امْلِكُوا عَنِّي هَذَا الْغُلَامَ لَا يَهُدَّنِي - فَإِنَّنِي أَنْفَسُ بِهَذَيْنِ يَعْنِي الْحَسَنَ والْحُسَيْنَعليه‌السلام - عَلَى الْمَوْتِ

خدا اس شخص پر رحمت نازل کرے جو حق کو دیکھ لے تو اس پرعمل کرے یا ظلم کو دیکھ لے تو اسے ٹھکرا دے اورصاحب حق میں اس کا ساتھ دے ۔

(۲۰۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے جنگ صفین کے زمانہ میں اپنے بعض اصحاب کے بارے میں سنا کہ وہ اہل شام کو برا بھلا کہہ رہے ہیں )

میں تمہارے لئے اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے والے ہو جائو۔بہترین بات یہ ہے کہ تم ان کے اعمال اورحالات کاتذکرہ کرو تاکہ بات بھی صحیح رہے اورحجت بھی تمام ہو جائے اور پھر گالیاں دینے کے بجائے یہ دعا کرو کہ خدایا! ہم سب کے خونوں کومفحوظ کردے اور ہمارے معاملات کی اصلاح کردے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کیراستہ پر لگادے تاکہ ناواقف لوگحق سے با خبر ہو جائیں اور حرف باطل کہنے والے اپنی گمراہی اور سرکشی سے بازآجائیں۔

(۲۰۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جنگ صفین کے دورا ن جب امام حسن کو میدان جنگ کی طرف سبقت کرتے ہوئے دیکھ لیا)

دیکھو! اس فرزند کو روک لو کہیں اس کاصدمہ مجھے بے حال نہکردے ۔میں ان دونوں ( حسن و حسین ) کو موت کے مقابلہ میں زیادہ عزیز رکھتا ہوں

۴۲۲

لِئَلَّا يَنْقَطِعَ بِهِمَا نَسْلُ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

قال السيد الشريف - قولهعليه‌السلام املكوا عني هذا الغلام - من أعلى الكلام وأفصحه.

(۲۰۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لما اضطرب عليه أصحابه في أمر الحكومة

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّه لَمْ يَزَلْ أَمْرِي مَعَكُمْ عَلَى مَا أُحِبُّ - حَتَّى نَهِكَتْكُمُ الْحَرْبُ - وقَدْ واللَّه أَخَذَتْ مِنْكُمْ وتَرَكَتْ - وهِيَ لِعَدُوِّكُمْ أَنْهَكُ.

لَقَدْ كُنْتُ أَمْسِ أَمِيراً فَأَصْبَحْتُ الْيَوْمَ مَأْمُوراً - وكُنْتُ أَمْسِ نَاهِياً فَأَصْبَحْتُ الْيَوْمَ مَنْهِيّاً - وقَدْ أَحْبَبْتُمُ الْبَقَاءَ ولَيْسَ لِي أَنْ أَحْمِلَكُمْ عَلَى مَا تَكْرَهُونَ!

(۲۰۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

بالبصرة - وقد دخل على العلاء بن زياد الحارثي وهو من أصحابه

يعوده، فلما رأى سعة داره قال:

کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے مرجانے سے نسل رسول (ص) منقطع ہو جائے۔

سید رضی : املکوا عنی ھذا الغلام:عرب کا بلند ترین کلام اور فصیح ترین محاورہ ہے۔

(۲۰۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو اس وقت ارشاد فرمایا جب آپ کے اصحاب میں تحکیم کے بارے میں اختلاف ہوگیا تھا)

لوگو! یاد رکھو کہ میرے معاملات تمہارے ساتھ بالکل صحیح چل رہے تھے جب تک جنگ نے تمہیں خستہ حال نہیں کردیا تھا۔اس کے بعد معاملات بگڑ گئے حالانکہ خداگواہ ہے کہاگر جنگ نے تم سے کچھ کولے لیا اورکچھ کوچھوڑ دیا تو اس کی زد تمہارے دشمن پر زیادہ ہی پڑی ہے۔ افسو س کہ میں کل تمہارا حاکم تھا اور آج محکوم بنایا جا رہا ہوں۔کل تمہیں میں روکا کرتا تھااور آج تم مجھے روک رہے ہو۔بات صرف یہ ہے کہ تمہیں زندگی زیادہ پیاری ہے اورمیں تمہیں کسی ایسی چیز پرآمادہ نہیں کرسکتا ہوں جوتمہیں ناگوار اور ناپسند ہو۔

(۲۰۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب بصرہ میں اپنے صحابی علاء بن زیاد حارثی کے گھر عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ان کے گھر کی وسعت کا مشاہدہ فرمایا )

۴۲۳

مَا كُنْتَ تَصْنَعُ بِسِعَةِ هَذِه الدَّارِ فِي الدُّنْيَا - وأَنْتَ إِلَيْهَا فِي الآخِرَةِ كُنْتَ أَحْوَجَ - وبَلَى إِنْ شِئْتَ بَلَغْتَ بِهَا الآخِرَةَ - تَقْرِي فِيهَا الضَّيْفَ وتَصِلُ فِيهَا الرَّحِمَ - وتُطْلِعُ مِنْهَا الْحُقُوقَ مَطَالِعَهَا - فَإِذاً أَنْتَ قَدْ بَلَغْتَ بِهَا الآخِرَةَ.

فَقَالَ لَه الْعَلَاءُ - يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَشْكُو إِلَيْكَ أَخِي عَاصِمَ بْنَ زِيَادٍ - قَالَ ومَا لَه - قَالَ لَبِسَ الْعَبَاءَةَ وتَخَلَّى عَنِ الدُّنْيَا - قَالَ عَلَيَّ بِه فَلَمَّا جَاءَ قَالَ: يَا عُدَيَّ نَفْسِه لَقَدِ اسْتَهَامَ بِكَ الْخَبِيثُ - أَمَا رَحِمْتَ أَهْلَكَ ووَلَدَكَ - أَتَرَى اللَّه أَحَلَّ لَكَ الطَّيِّبَاتِ وهُوَ يَكْرَه أَنْ تَأْخُذَهَا - أَنْتَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّه مِنْ ذَلِكَ

قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - هَذَا أَنْتَ فِي خُشُونَةِ مَلْبَسِكَ وجُشُوبَةِ مَأْكَلِكَ!

قَالَ وَيْحَكَ إِنِّي لَسْتُ كَأَنْتَ - إِنَّ اللَّه تَعَالَى فَرَضَ عَلَى أَئِمَّةِ - الْعَدْلِ أَنْ يُقَدِّرُوا أَنْفُسَهُمْ بِضَعَفَةِ النَّاسِ - كَيْلَا يَتَبَيَّغَ بِالْفَقِيرِ فَقْرُه!

تم اس دنیا میں اس قدر وسیع مکان(۱) کو لے کر کیا کروگے جب کہ آخرت میں اس کی احتیاج زیادہ ہے۔تم اگرچاہو تو اس کے ذریعہ آخرت کا سامان کرسکتے ہو کہ اس میں مہمانوں کی ضیافت کرو۔قرابتداروں سے صلہ رحم کرو اورموقع و محل کے مطابق حقوق کوادا کرو کہ اس طرح آخرت کوحاصل کرسکتے ہو۔

یہ سن کرعلاء بن زیاد نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین میں اپنے بھائی عاصم بن زیاد کی شکایت کرناچاہتا ہوں۔فرمایا کہ انہیں کیا ہوگیا ہے ؟ عرض کی کہ انہوں نے ایک عبا اوڑھ لی ہے اور دنیا کو یکسر ترک کردیا ہے۔فرمایا انہیں بلائو ۔عاصم حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ:

اے دشمن جان! تجھے شیطان خبیث نے گرویدہ بنا لیا ہے۔تجھے اپنے اہل و عیال پر کیوں رحم نہیں آتا ہے۔کیا تیراخیال یہ ہے کہ خدانے پاکیزہ چیزوں کو حلال تو کیا ہے لیکن وہ ان کے استعمال کو نا پسند کرتا ہے۔تو خدا کی بارگاہ میں اس سے زیادہ پست ہے۔

عاصم نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین ! آپ بھی تو کھردرا لباس اور معمولی کھانے پر گذارا کر رہے ہیں۔

فرمایا : تم پر حیف ہے کہ تم نے میراقیاس اپنے اوپر کرلیا ہے جب کہ پروردگارنے ائمہ حق پرفرض کردیا ہے کہ اپنی زندگی کا پیمانہ کمزور ترین انسانوں کو قراردیںتاکہ فقیر اپنے فقر کی بنا پر کسی پیچ و تاب کا شکار ہو۔

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ مکان کی وسعت ذاتی اغراض کے لئے ہو تو اس کا نام دنیا داری ہے۔لیکن اگر اس کامقصد مہمان نوازی صلہ ارحام ادائیگی حقوق حفظ آبرو۔اظہار عظمت علم و مذہب ہوتو اس کاکوئی تعلق دنیداری سے نہیں ہے اور یہ دین و مذہب ہی کا ایک شعبہ ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ یہ فیصلہ نیتوں سے ہوگا اورنتیوں کا جاننے والا صرف پروردگار ہے کوئی دوسرا نہیں ہے۔

۴۲۴

(۲۱۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد سأله سائل عن أحاديث البدع - وعما في أيدي الناس من اختلاف الخبر فقالعليه‌السلام :

إِنَّ فِي أَيْدِي النَّاسِ حَقّاً وبَاطِلًا - وصِدْقاً وكَذِباً ونَاسِخاً ومَنْسُوخاً - وعَامّاً وخَاصّاً - ومُحْكَماً ومُتَشَابِهاً وحِفْظاً ووَهْماً - ولَقَدْ كُذِبَ عَلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَلَى عَهْدِه - حَتَّى قَامَ خَطِيباً فَقَالَ - مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَه مِنَ النَّارِ».

وإِنَّمَا أَتَاكَ بِالْحَدِيثِ أَرْبَعَةُ رِجَالٍ لَيْسَ لَهُمْ خَامِسٌ:

المنافقون

رَجُلٌ مُنَافِقٌ مُظْهِرٌ لِلإِيمَانِ مُتَصَنِّعٌ بِالإِسْلَامِ - لَا يَتَأَثَّمُ ولَا يَتَحَرَّجُ - يَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مُتَعَمِّداً - فَلَوْ عَلِمَ النَّاسُ أَنَّه مُنَافِقٌ كَاذِبٌ لَمْ يَقْبَلُوا مِنْه - ولَمْ يُصَدِّقُوا قَوْلَه - ولَكِنَّهُمْ

(۲۱۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب کسی شخص نے آپ سے بدعتی احادیث اورمتضاد روایات کے بارے میں سوال کیا )

لوگوں کے ہاتھوں میں حق و باطل(۱) صدق و کذب ' ناسخ ومنسوخ، عام وخاص ' محکم و متشابہ اور حقیقت و وہم سب کچھ ہے اور کذب و افترا کا سلسلہ رسول اکرم (ص) کی زندگی ہی سے شروع ہوگیا تھا جس کے بعد آپ نے منبر سے اعلان کیا تھا کہ '' جس شخص نے بھی میری طرف سے غلط بات بیان کی اسے اپنی جگہ جہنم میں بنا لینا چاہیے ۔''

یاد رکھو کہ حدیث کے بیان والے چار طرح کے افراد ہوتے ہیں جن کی پانچویں کوئی قسم نہیں ہے:

ایک وہ منافق ہے جو ایمان کا اظہار کرتا ہے۔اسلام کی وضع قطع اختیار کرتا ہے لیکن گناہ کرنے اور افتراء میں پڑنے سے پرہیز نہیں کرتا ہے اور رسول اکرم (ص) کے خلاف قصداً جھوٹی روایتیں تیار کرتا ہے۔ کہ اگر لوگوں کومعلوم ہو جائے کہ یہ منافق اورجھوٹا تو یقینا اس کے بیان کی تصدیق نہ کریں گے لیکن مشکل یہ ہے کہ

(۱)واضح رہے کہ اسلامی علوم میں علم رجال اور علم ورایت کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ سارا عالم اسلام اس نقطہ پر متفق ہے کہ روایات قابل قبول بھی ہیں اورنا قابل قبول بھی۔اور راوی حضرات ثقہ اورمعتبر بھی ہیں اور غیر ثقہ اورغیر معتبر بھی۔اس کے بعد عدالت صحابہ اور اعتبار تمام علماء کا عقیدہ۔ایک مضحکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۴۲۵

قَالُوا صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - رَآه وسَمِعَ مِنْه ولَقِفَ عَنْه فَيَأْخُذُونَ بِقَوْلِه - وقَدْ أَخْبَرَكَ اللَّه عَنِ الْمُنَافِقِينَ بِمَا أَخْبَرَكَ - ووَصَفَهُمْ بِمَا وَصَفَهُمْ بِه لَكَ ثُمَّ بَقُوا بَعْدَه - فَتَقَرَّبُوا إِلَى أَئِمَّةِ الضَّلَالَةِ - والدُّعَاةِ إِلَى النَّارِ بِالزُّورِ والْبُهْتَانِ - فَوَلَّوْهُمُ الأَعْمَالَ وجَعَلُوهُمْ حُكَّاماً عَلَى رِقَابِ النَّاسِ - فَأَكَلُوا بِهِمُ الدُّنْيَا وإِنَّمَا النَّاسُ مَعَ الْمُلُوكِ والدُّنْيَا - إِلَّا مَنْ عَصَمَ اللَّه فَهَذَا أَحَدُ الأَرْبَعَةِ.

الخاطئون

ورَجُلٌ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّه شَيْئاً لَمْ يَحْفَظْه عَلَى وَجْهِه - فَوَهِمَ فِيه ولَمْ يَتَعَمَّدْ كَذِباً فَهُوَ فِي يَدَيْه - ويَرْوِيه ويَعْمَلُ بِه - ويَقُولُ أَنَا سَمِعْتُه مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَلَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُونَ أَنَّه وَهِمَ فِيه لَمْ يَقْبَلُوه مِنْه - ولَوْ عَلِمَ هُوَ أَنَّه كَذَلِكَ لَرَفَضَه!

وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صحابی ہے۔اس نے حضور کودیکھا ہے ۔ان کے ارشاد کو سنا ہے اور ان سے حاصل کیا ہے اور اس طرح اس کے بیان کو قبول کرلیتے ہیں جب کہخود پروردگار بھی منافقین کے بارے میں خبر دے چکا ہے اور ان کے اوصاف کاتذکرہ کرچکا ہے اور یہ رسول اکرم (ص) کے بعد بھی باقی رہ گئے تھے اور گمراہی کے پیشوائوں(۱) اور جہنم کے داعیوں کی طرف اسی غلط بیانی اور افترا پردازی سے تقرب حاصل کرتے تھے ۔وہ انہیں عہدے دیتے رہے اور لوگوں کی گردنوں پر حکمراں بناتے رہے اور انہیں کے ذریعہ دنیا کو کھاتے رہے اور لوگ تو بہر حال بادشاہوں اوردنیا داروں ہی کے ساتھ رہتے ہیں۔علاوہ ان کے جنہیں اللہ اس شر سے محفوظ کرلے۔یہ چار میں سے ایک قسم ہے۔

دوسرا شخص وہ ہے جس نے رسول اکرم (ص) سے کوئی بات سنی ہے لیکن اسے صحیح طریقہ سے محفوظ نہیں کرس کا ہے اوراس میں غلطی کا شکار ہوگیا ہے۔جان بوجھ کرجھوٹ نہیں بولتا ہے۔جوکچھ اس کے ہاتھ میں ہے اسی کی روایت کرتا ہے اوراسی پرعمل کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہ میں نے رسول اکرم (ص) سے سنا ہے حالانکہ اگر مسلمانوں کو معلوم ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے تو ہرگز اس کی بات قبول نہ کریں گے بلکہ اگر اسے خودبھی معلوم ہوجائے کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے تو ترک کردے گا اور نقل نہیں کرے گا۔

(۱)حضرت نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ منافقین کا کاروبار ہمیشہ حکام کی نالائقی سے چلتا ہے ورنہ حکام دیانتدار ہوں اورایسی روایات کے خریدار نہ بنیں تو منافقین کا کاروبار ایک دن میں ختم ہو سکتا ہے۔

۴۲۶

أهل الشبهة

ورَجُلٌ ثَالِثٌ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شَيْئاً - يَأْمُرُ بِه ثُمَّ إِنَّه نَهَى عَنْه وهُوَ لَا يَعْلَمُ - أَوْ سَمِعَه يَنْهَى عَنْ شَيْءٍ ثُمَّ أَمَرَ بِه وهُوَ لَا يَعْلَمُ - فَحَفِظَ الْمَنْسُوخَ ولَمْ يَحْفَظِ النَّاسِخَ - فَلَوْ عَلِمَ أَنَّه مَنْسُوخٌ لَرَفَضَه - ولَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُونَ إِذْ سَمِعُوه مِنْه أَنَّه مَنْسُوخٌ لَرَفَضُوه –

الصادقون الحافظون

وآخَرُ رَابِعٌ - لَمْ يَكْذِبْ عَلَى اللَّه ولَا عَلَى رَسُولِه - مُبْغِضٌ لِلْكَذِبِ خَوْفاً مِنَ اللَّه وتَعْظِيماً لِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ولَمْ يَهِمْ بَلْ حَفِظَ مَا سَمِعَ عَلَى وَجْهِه - فَجَاءَ بِه عَلَى مَا سَمِعَه - لَمْ يَزِدْ فِيه ولَمْ يَنْقُصْ مِنْه - فَهُوَ حَفِظَ النَّاسِخَ فَعَمِلَ بِه - وحَفِظَ الْمَنْسُوخَ فَجَنَّبَ عَنْه - وعَرَفَ الْخَاصَّ والْعَامَّ والْمُحْكَمَ والْمُتَشَابِه - فَوَضَعَ كُلَّ شَيْءٍ مَوْضِعَه.

وقَدْ كَانَ يَكُونُ مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الْكَلَامُ - لَه وَجْهَانِ فَكَلَامٌ  

يَسْمَعُوا - وكَانَ لَا يَمُرُّ بِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ إِلَّا سَأَلْتُه عَنْه وحَفِظْتُه - فَهَذِه وُجُوه مَا عَلَيْه النَّاسُ فِي اخْتِلَافِهِمْ وعِلَلِهِمْ فِي رِوَايَاتِهِمْ.

تیسری قسم اس شخص کی ہے جس نے رسول اکرم (ص) کو حکم دیتے سنا ہے لیکن حضرت نے جب منع کیا تو اسے اطلاع نہیں ہو سکی یا حضرت کو منع کرتے دیکھا ہے پھر جب آپ نے دوبارہ حکم دیا تو اطلاع نہ ہو سکی' اس شخص نے منسوخ کو محفوظ کرلیا ہے اور ناسخ کو محفوظ نہیں کر سکا ہے کہاگر اسے معلوم ہو جائے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے تو اسے ترک کردے گا اور اگرمسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ اس نے منسوخ کی روایت کی ہے تو وہ بھی اسے نظر اندازکردیں گے۔

چوتھی قسم اس شخص کی ہے جس نے خدا اور رسول (ص) کے خلاف غلط بیانی سے کام نہیں لیا ہے اور وہ خوف خدا اورتعظیم رسول خدا کی بنیاد پر جھوٹ کا دشمن بھی ہے اور اس سے بھول چوک بھی نہیں ہوئی ہے بلکہ جیسے رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہے ویسے ہی محفوظ کر رکھا ہے نہ اس میں کسی طرح کااضافہ کیا ہے اور نہ کمی کی ہے۔ناسخ ہی کو محفوظ کیا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور منسوخ کو یاد رکھا ہے۔لیکن اس سے اجتناب کیا ہے ۔خاص و عام اورمحکم و متشابہ کوبھی پہچانتا ہے اور اس کے مطابق عمل بھی کرتا ہےلیکن مشکل یہ ہےکہ کبھی کبھی رسول اکرم (ص) کے ارشادات کے دورخ(۱) ہوتے تھے ۔بعض کا تعلق

(۱)جس طرح ایک انسان کی زندگی کے مختلف رخ ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایک رخ دوسرے سے بالکل اجنبی ہوتا ہے کہ بے خبر انسان اسے دو زندگیوں پر محمول کردیتا ہے۔اسی طرح معاشرہ اور روایات کے بھی مختلف رخ ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایک رخ دوسرے سے بالکل اجنبی اور بیگانہ ہوتا ہے اور ہر رخ کے لئے الگ مفہوم ہوتا ہے اورہر رخ کے الگ احکام ہوتے ہیں۔اب اگر کوئی شخص اس حقیقت سے باخبر نہیں ہوتا ہے تو وہ ایک ہی رخ یا ایک ہی روایت کو لے اڑتا ہے اور وثوق و اعتبارکے ساتھ یہ بین کرتا ہے کہ میں نے خود رسول اکرم (ص) سے سنا ہے اوراسے یہ خبر نہیں ہوتی ہے کہ زندگی کا کوئی دوسرا رخ بھی ہے۔یا اس بیان کا کوئی اور بھی پہلو ہے جو قبل یا بعد دوسرے مناسب موقع پر بیان ہوچکا ہے یا بیان ہونے والا ہے اور اس طرح اشتباہات کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اورحقیقت روایات میں گم ہو جاتی ہے حالانکہ دیدہ و دانستہ کوئی گناہ یا اشتباہ نہیں ہوتا ہے ۔

۴۲۷

خَاصٌّ وكَلَامٌ عَامٌّ - فَيَسْمَعُه مَنْ لَا يَعْرِفُ مَا عَنَى اللَّه سُبْحَانَه بِه - ولَا مَا عَنَى رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَيَحْمِلُه السَّامِعُ ويُوَجِّهُه عَلَى غَيْرِ مَعْرِفَةٍ بِمَعْنَاه - ومَا قُصِدَ بِه ومَا خَرَجَ مِنْ أَجْلِه - ولَيْسَ كُلُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مَنْ كَانَ يَسْأَلُه ويَسْتَفْهِمُه - حَتَّى إِنْ كَانُوا لَيُحِبُّونَ أَنْ يَجِيءَ الأَعْرَابِيُّ والطَّارِئُ - فَيَسْأَلَهعليه‌السلام حَتَّى

فَيَسْأَلَه عليه السلام حَتَّى يَسْمَعُوا - وكَانَ لَا يَمُرُّ بِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ إِلَّا سَأَلْتُه عَنْه وحَفِظْتُه - فَهَذِه وُجُوه مَا عَلَيْه النَّاسُ فِي اخْتِلَافِهِمْ وعِلَلِهِمْ فِي رِوَايَاتِهِمْ

(۲۱۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في عجيب صنعة الكون

وكَانَ مِنِ اقْتِدَارِ جَبَرُوتِه - وبَدِيعِ لَطَائِفِ صَنْعَتِه - أَنْ جَعَلَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ الزَّاخِرِ - الْمُتَرَاكِمِ الْمُتَقَاصِفِ يَبَساً جَامِداً

خاص افراد سے ہوتاتھا اور بعض کلمات عام ہوتے تھے اور ان کلمات کو وہشخص بھی سن لیتا تھا جسے یہ نہیں معلوم تھا کہ خدا و رسول کا مقصد کیا ہے اور اسے سن کر اس کی ایک توجیہ کرلیتا تھا بغیر اس نکتہ کا ادراک کئے ہوئے۔کہ اس کلام کا مفہوم اور مقصد کیا ہے اوریہ کس بنیاد پر صادر ہوا ہے۔اور تمام اصحاب رسول اکرم (ص) میں یہ ہمت بھی نہیں تھی کہ آپ سے سوال کرسکیں اورباقاعدہ تحقیق کرسکیں بلکہ اس بات کا انتظار کیا کرتے تھے کہ کوئی صحرائی یا پردیسی آکر آپ سے سوال کرے تو وہ بھی سن لیں ۔یہ صرف میں تھا کہ میرے سامنے سے کوئی ایسی بات نہیں گزرتی تھی مگر یہ کہ میں دریافت بھی کرلیتا تھا اور محفوظ بھی کرلیتا تھا۔

یہ ہیں لوگوں کے درمیان اختلافات کے اسباب اور روایات میں تضاد کے عوامل و محرکات۔

(۲۱۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(حیرت انگیز تخلیق کائنات کے بارے میں )

یہ پروردگار کے اقتدار کی طاقت اور اس کی صناعی کی حیرت انگیز لطافت ہے کہ اس نے گہرے اور متلاطم سمندر(۱) میں ایک خشک اور ٹھوس زمین کو پیدا

(۱) کتنا حسین نظام کائنات ہے کہ متلاطم پانی پر زمین قائم ہے اور زمین کے اپور ہوا کا دبائو قائم ہے اور انسان اس تین منزلہ عمارت میں درمیانی طبقہ پر اس طرح سکونت پذیر ہے کہ اس کے زیر قدم زمین اور پانی ہے اوراس کے بالائے سر فضا اور ہوا ہے۔ہوا اس کی زندگی کے لئے سانسیں فراہم کر رہی ہے اور زمین اس کے سکون و قرار کا انتظام کرکے اسے باقی رکھے ہوئے ہیں۔پانی اس کی زندگی کا قوام ہے اور سمندراس کی تازگی کا ذریعہ کوئی ذرۂ کائنات اس کی خدمت سے غافل نہیں ہے اورکوئی عنصراپنے سے اشرف مخلوق کی اطاعت سے منحرف نہیں ہے۔تاکہ وہ بھی اپنی اشرفیت کی آبرو کاتحفظ کرے اور ساری کائنات سے بالاتر خالق ومالک کی اطاعت و عبادت میں ہمہ تن مصروف رہے۔

۴۲۸

ثُمَّ فَطَرَ مِنْه أَطْبَاقاً - فَفَتَقَهَا سَبْعَ سَمَاوَاتٍ بَعْدَ ارْتِتَاقِهَا فَاسْتَمْسَكَتْ بِأَمْرِه - وقَامَتْ عَلَى حَدِّه وأَرْسَى أَرْضاً يَحْمِلُهَا الأَخْضَرُ الْمُثْعَنْجِرُ - والْقَمْقَامُ الْمُسَخَّرُ - قَدْ ذَلَّ لأَمْرِه وأَذْعَنَ لِهَيْبَتِه - ووَقَفَ الْجَارِي مِنْه لِخَشْيَتِه - وجَبَلَ جَلَامِيدَهَا ونُشُوزَ مُتُونِهَا وأَطْوَادِهَا - فَأَرْسَاهَا فِي مَرَاسِيهَا - وأَلْزَمَهَا قَرَارَاتِهَا - فَمَضَتْ رُءُوسُهَا فِي الْهَوَاءِ - ورَسَتْ أُصُولُهَا فِي الْمَاءِ - فَأَنْهَدَ جِبَالَهَا عَنْ سُهُولِهَا - وأَسَاخَ قَوَاعِدَهَا فِي مُتُونِ أَقْطَارِهَا ومَوَاضِعِ أَنْصَابِهَا - فَأَشْهَقَ قِلَالَهَا وأَطَالَ أَنْشَازَهَا - وجَعَلَهَا لِلأَرْضِ عِمَاداً وأَرَّزَهَا فِيهَا أَوْتَاداً - فَسَكَنَتْ عَلَى حَرَكَتِهَا مِنْ أَنْ تَمِيدَ بِأَهْلِهَا أَوْ تَسِيخَ بِحِمْلِهَا أَوْ تَزُولَ عَنْ مَوَاضِعِهَا - فَسُبْحَانَ مَنْ أَمْسَكَهَا بَعْدَ مَوَجَانِ مِيَاهِهَا - وأَجْمَدَهَا بَعْدَ رُطُوبَةِ أَكْنَافِهَا - فَجَعَلَهَا لِخَلْقِه مِهَاداً - وبَسَطَهَا لَهُمْ فِرَاشاً - فَوْقَ بَحْرٍ لُجِّيٍّ رَاكِدٍ

کردیا۔ اور پھربخارات کے طبقات بنا کر انہیں شگافتہ کرکے سات آسمانوں کی شکل دے دی جواس کے امر سے ٹھہرے ہوئے ہیں اوراپنی حدوں پرقائم ہیں ۔پھر زمین کو یوں گاڑ دیا کہ اسے سبز رنگ کا گہرا سمندر اٹھائے ہوئے ہے جو قانون الٰہی کے آگے مسخر ہے۔اس کے امر کا تابع ہے اور اس کی ہیبت کے سامنے سر نگوں ہے اور اس کے خوف سے اس کا بہائو تھما ہوا ہے۔

پھر پتھروں۔ٹیلوں اورپہاڑوں کو خلق کرکے انہیں ان کی جگہوں پر گاڑ دیا اور ان کی منزلوں پر مستقر کردیا کہ اب ان کی بلندیاں فضائوں سے گزرگئی ہیں اور ان کی جڑیں پانی کے اندر راسخ ہیں۔ان کے پہاڑوں کو ہموار زمینوں سے اونچا کیا اور ان کے ستونوں کواطراف کے پھیلائو اورمراکز کے ٹھہرائو میں نصب کردیا۔اب ان کی چوٹیاں بلند ہیں اور ان کی بلندیاں طویل ترین ہیں۔انہیں پہاڑوں کو زمین کا ستون قرار دیا ہے اور انہیں کو کیل بنا کر گاڑ دیا ہے جن کی وجہس ے زمین حرکت کے بعد ساکن ہوگئی اور نہ اہل زمین کو لے کر کسی رف جھک سکی اور نہ ان کے بوجھ سے دھنس سکی اورنہ اپنی جگہ سے ہٹ سکی۔

پاک و بے نیاز ہے وہ مالک جس نے پانی کے تموج کے باوجود اسے روک رکھا ہے اور اطراف کی تری کے باوجود اسے خشک بنا رکھا ہے اور پھر اسے اپنی مخلوقات کے لئے گہوارہ اور فرش کی حیثیت دے دی ہے۔اس گہرے سمندر کے اوپر جوٹھہرا ہوا ہے اور بہتا نہیں ہے اور

۴۲۹

لَا يَجْرِي وقَائِمٍ لَا يَسْرِي - تُكَرْكِرُه الرِّيَاحُ الْعَوَاصِفُ - وتَمْخُضُه الْغَمَامُ الذَّوَارِفُ -( إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً لِمَنْ يَخْشى ) .

(۲۱۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

كان يستنهض بها أصحابه إلى جهاد أهل الشام في زمانه

اللَّهُمَّ أَيُّمَا عَبْدٍ مِنْ عِبَادِكَ - سَمِعَ مَقَالَتَنَا الْعَادِلَةَ غَيْرَ الْجَائِرَةِ - والْمُصْلِحَةَ غَيْرَ الْمُفْسِدَةِ فِي الدِّينِ والدُّنْيَا - فَأَبَى بَعْدَ سَمْعِه لَهَا إِلَّا النُّكُوصَ عَنْ نُصْرَتِكَ - والإِبْطَاءَ عَنْ إِعْزَازِ دِينِكَ - فَإِنَّا نَسْتَشْهِدُكَ عَلَيْه يَا أَكْبَرَ الشَّاهِدِينَ شَهَادَةً - ونَسْتَشْهِدُ عَلَيْه جَمِيعَ مَا أَسْكَنْتَه أَرْضَكَ وسمَاوَاتِكَ - ثُمَّ أَنْتَ بَعْدُ الْمُغْنِي عَنْ نَصْرِه - والآخِذُ لَه بِذَنْبِه.

(۲۱۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في تمجيد اللَّه وتعظيمه

الْحَمْدُ لِلَّه الْعَلِيِّ عَنْ شَبَه الْمَخْلُوقِينَ - الْغَالِبِ لِمَقَالِ الْوَاصِفِينَ -

ایک مقام پر قائم ہے کسی طرف جاتا نہیں ہے حالانکہ اسے تیز و تند ہوائیں حرکت دے رہی ہیں اور برسنے والے بادل اسے متھ کراس سے پانی کھینچتے رہتے ہیں۔ ''ان تمام باتوں میں عبرت کا سامان ہے ان لوگوں کے لے جن کا اندر خوف خدا پایا جاتا ہے ۔''

(۲۱۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اپنے اصحاب کو اہل شام سے جہاد کرنے پر آمادہ کیا ہے )

خدایا تیرے جس بندہ نے بھی میری عادلانہ گفتگو (جس میں کسی طرح کا ظلم نہیں ہے ) اورمصلحانہ نصیحت (جس میں کسی طرح کافساد نہیں ہے ) کو سننے کے بعد بھی تیرے دین کی نصرت سے انحراف کیا اور تیرے دین کے اعزاز میں کوتاہی کی ہے۔میں اس کے خلاف تجھے گواہ قرار دے رہا ہوں کہ تجھ سے بالاترکوئی گواہ نہیں ہے اور پھرتیرے تمام سکان ارض و سما کو گواہ قراردے رہا ہوں۔اس کے بعد تو ہر ایک کی مدد سے بے نیاز بھی ہے اور ہر ایک کے گناہ کا مواخذہ کرنے والا بھی ہے۔

(۲۱۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(پروردگار کی تمجید اوراس کی تعظیم کے بارے میں)

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو مخلوقات کی مشابہت سے بلند تر اور توصیف کرنے والوں کی

۴۳۰

الظَّاهِرِ بِعَجَائِبِ تَدْبِيرِه لِلنَّاظِرِينَ - والْبَاطِنِ بِجَلَالِ عِزَّتِه عَنْ فِكْرِ الْمُتَوَهِّمِينَ - الْعَالِمِ بِلَا اكْتِسَابٍ ولَا ازْدِيَادٍ - ولَا عِلْمٍ مُسْتَفَادٍ - الْمُقَدِّرِ لِجَمِيعِ الأُمُورِ بِلَا رَوِيَّةٍ ولَا ضَمِيرٍ - الَّذِي لَا تَغْشَاه الظُّلَمُ ولَا يَسْتَضِيءُ بِالأَنْوَارِ - ولَا يَرْهَقُه لَيْلٌ ولَا يَجْرِي عَلَيْه نَهَارٌ - لَيْسَ إِدْرَاكُه بِالإِبْصَارِ ولَا عِلْمُه بِالإِخْبَارِ.

ومنها في ذكر النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

أَرْسَلَه بِالضِّيَاءِ وقَدَّمَه فِي الِاصْطِفَاءِ - فَرَتَقَ بِه الْمَفَاتِقَ وسَاوَرَ بِه الْمُغَالِبَ - وذَلَّلَ بِه الصُّعُوبَةَ وسَهَّلَ بِه الْحُزُونَةَ - حَتَّى سَرَّحَ الضَّلَالَ عَنْ يَمِينٍ وشِمَالٍ.

(۲۱۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يصف جوهر الرسول، ويصف العلماء، ويعظ بالتقوى

وأَشْهَدُ أَنَّه عَدْلٌ عَدَلَ وحَكَمٌ فَصَلَ - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً

گفتگو سے بالاتر ہے وہ اپنی تدبیر کے عجائب کے ذریعہ دیکھنے والوں کے سامنے بھی ہے اور اپنے جلال و عزت کی بناپر مفکرین کی فکر سے پوشیدہ بھی ہے بغیر کسی تحصیل اور اضافہ کے عالم ہے اور اس کاعلم کسی استفادہ کا نتیجہ بھی نہیں ہے۔تمام امور کاتقدیر ساز ہے اور اس سلسلہ میں کسی فکر اورسوچ بچار کامحتاج بھی نہیں ہے۔تاریکیاں اسے ڈھانپ نہیں سکتی ہیں اور روشنیوں سے وہ کسی طرح کا کسب نور نہیں کرتا ہے۔نہ رات اس پر غالب آسکتی ہے اور نہ دن اس کے اوپر سے گزر سکتا ہے ۔اس کا ادراک آنکھوں کا محتاج نہیں ہے اور اس کاعلم اطلاعات کا نتیجہ نہیں ہے۔

اس نے پیغمبر (ص) کوایک نوردے کربھیجا ہے اورانہیں سب سے پہلے منتخب قرار دیا ہے۔ان کے ذریعہ پراگندیوں کو جمع کیا ہے اور غلبہ حاصل کرنے والوں کو قابو میں رکھا ہے۔دشواریوں کوآسان کیا ہے اورنا ہمواریوں کو ہموار بنایا ہے۔یہاں تک کہ گمراہیوں کو داہنے بائیں ہر طرف سے دور کردیا ہے۔

(۲۱۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

( جس میں رسول اکرم (ص) کی تعریف علماء کی توصیف اور تقویٰ کی نصیحت کا ذکر کیا گیا ہے )

میں گواہی دیتا ہوںکہ وہ پروردگار ایسا عادل ہے جو عدل ہی سے کام لیتا ہے۔اور ایساحاکم ہے جو حق و باطل کو جدا کر دیتا ہے اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد (ص)

۴۳۱

عَبْدُه ورَسُولُه وسَيِّدُ عِبَادِه - كُلَّمَا نَسَخَ اللَّه الْخَلْقَ فِرْقَتَيْنِ جَعَلَه فِي خَيْرِهِمَا - لَمْ يُسْهِمْ فِيه عَاهِرٌ ولَا ضَرَبَ فِيه فَاجِرٌ.

أَلَا وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه قَدْ جَعَلَ لِلْخَيْرِ أَهْلًا - ولِلْحَقِّ دَعَائِمَ ولِلطَّاعَةِ - عِصَماً - وإِنَّ لَكُمْ عِنْدَ كُلِّ طَاعَةٍ عَوْناً مِنَ اللَّه سُبْحَانَه – يَقُولُ عَلَى الأَلْسِنَةِ ويُثَبِّتُ الأَفْئِدَةَ - فِيه كِفَاءٌ لِمُكْتَفٍ وشِفَاءٌ لِمُشْتَفٍ –

صفة العلماء

واعْلَمُوا أَنَّ عِبَادَ اللَّه الْمُسْتَحْفَظِينَ عِلْمَه - يَصُونُونَ مَصُونَه ويُفَجِّرُونَ عُيُونَه - يَتَوَاصَلُونَ بِالْوِلَايَةِ - ويَتَلَاقَوْنَ بِالْمَحَبَّةِ ويَتَسَاقَوْنَ بِكَأْسٍ رَوِيَّةٍ - ويَصْدُرُونَ بِرِيَّةٍ

اس کے بندہ اور رسول ہیں اور پھر تمام بندوں کے سرداربھی ہیں۔جب بھی پروردگار نے مخلوقات کا دو حصوں میں تقسیم کیا ہے انہیں(۱) بہترین حصہ ہی میں رکھا ہے۔ان کی تخلیق میں نہ کسی بد کار کا کوئی حصہ ہے اور نہ کسی فاسق و فاجر کا کوئی دخل ہے ۔

یاد رکھو کہ پروردگار نے ہ خیر کے لئے اہل قرار دئیے ہیں اور ہر حق کے لئے ستون اور ہر اطاعت کے لئے وسیلہ حفاظت قرار دیا ہے اور تمہاے لئے ہر اطاعت کے موقع پر خدا کی طرف سے ایک مدد گار کا انتظام رہتا ہے جو زبانوں پر بولتا ہے اوردلوں کو ثبا ت عنایت کرتا ہے۔اس کے وجود میں ہر اکتفا کرنے والے کے لئے کفایت ہے اور ہر طلب گار صحت کے لئے شفا و عافیت ہے۔

یاد رکھو اللہ کے وہ بندہ(۲) جنہیں اس نے اپنے عل کا محافظ بنایا ہے وہ اس کا تحفظ بھی کرتے ہیں اور اس کے چشموں کو جاری بھی کرتے رہتے ہیں۔آپس میں محبت سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور چاہت کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں۔سیراب کرنے والے جاموں سے مل کر سیراب ہوتے ہیں اور پھر سیرو سیراب ہو کر ہی نکلتے

(۱)صحیح مسلم کتاب الفضائل میں سرکار دو عالم (ص) کا یہ ارشاد درج ہے کہ اللہ نے اولاد اسماعیل میں کنانہ کا انتخاب کی ہے اور پھر کنانہ میں قریش کو منتخب قراردیا ہے۔قریش میں بنی ہاشم منتخب ہیں اوربنی ہاشم میں میں ۔لہٰذا دنیاکی کسی شخصیت کا سرکار دوعالم (ص) اوراہل بیت پر قیاس نہیں کیاجاسکتا ہے۔

(۲)دنیا میں صاحبان علم و فضل بے شمار ہیں لیکن وہ اہل علم جنہیں مالک نے اپنے علم اور اپنے دین کامحافظ بنایا ہے وہ محدود ہی ہیں جن کی صفت یہ ہے کہ علم کاتحفظ بھی کرتے ہیں اوردوسروں کو سیراب بھی کرتے رہتے ہیں ۔خودبھی سیراب رہتے ہیں اور دوسروں کی تشنگی کابھی علاج کرتے رہتے ہیں ۔ان کے علم میں جہالت اور ''لاادری '' کا گزر نہیں ہے اور وہ کسی سائل کومحروم نہیں کرتے ہیں۔

۴۳۲

لَا تَشُوبُهُمُ الرِّيبَةُ - ولَا تُسْرِعُ فِيهِمُ الْغِيبَةُ - عَلَى ذَلِكَ عَقَدَ خَلْقَهُمْ وأَخْلَاقَهُمْ - فَعَلَيْه يَتَحَابُّونَ وبِه يَتَوَاصَلُونَ - فَكَانُوا كَتَفَاضُلِ الْبَذْرِ يُنْتَقَى فَيُؤْخَذُ مِنْه ويُلْقَى - قَدْ مَيَّزَه التَّخْلِيصُ وهَذَّبَه التَّمْحِيصُ -

العظة بالتقوى

فَلْيَقْبَلِ امْرُؤٌ كَرَامَةً بِقَبُولِهَا - ولْيَحْذَرْ قَارِعَةً قَبْلَ حُلُولِهَا - ولْيَنْظُرِ امْرُؤٌ فِي قَصِيرِ أَيَّامِه وقَلِيلِ مُقَامِه فِي مَنْزِلٍ - حَتَّى يَسْتَبْدِلَ بِه مَنْزِلًا - فَلْيَصْنَعْ لِمُتَحَوَّلِه ومَعَارِفِ مُنْتَقَلِه - فَطُوبَى لِذِي قَلْبٍ سَلِيمٍ - أَطَاعَ مَنْ يَهْدِيه وتَجَنَّبَ مَنْ يُرْدِيه - وأَصَابَ سَبِيلَ السَّلَامَةِ بِبَصَرِ مَنْ بَصَّرَه - وطَاعَةِ هَادٍ أَمَرَه وبَادَرَ الْهُدَى قَبْلَ أَنْ تُغْلَقَ أَبْوَابُه - وتُقْطَعَ أَسْبَابُه واسْتَفْتَحَ التَّوْبَةَ وأَمَاطَ الْحَوْبَةَ - فَقَدْ أُقِيمَ عَلَى الطَّرِيقِ وهُدِيَ نَهْجَ السَّبِيلِ.

ہیں۔ان کے اعمال میں ریب کی آمیزش نہیں ہے اور ان کے معاشرہ میں غیبت کا گزر نہیں ہے۔اسی انداز سے مالک نے ان کی تخلیق کی ہے اور ان کے اخلاق اقرار دئیے ہیں اور اسی بنیاد پر دہآپس میں محبت بھی کرتے ہیں اورملتے بھی رہتے ہیں۔ان کی مثال ان دانوں کی ہے جن کو اس طرح چنا جاتا ہے کہ اچھے دانوں کو لے لیا جاتا ہے اورخراب کو پھینک دیا جاتا ہے۔انہیں اسی صفائی نے ممتاز بنادیا ہے اور انہیں اسی پر کھ نے صاف ستھراقرار دے دیا ہے۔

اب ہر شخص کو چاہیے کہ انہیں صفات کوقبول کرکے کرامت کو قبول کرے اور قیامت کے آنے سے پہلے ہوشیار ہوجائے۔اپنے مختصر سے دنوں اورتھوڑے سے قیام کے بارے میں غور کرے کہ اس منزل کو دوسری منزل میں بہرحال بدل جانا ہے۔اب اس کا فرض ہے کہ منزل اور جانی پہچانی جائے باز گشت کے بارے میں عمل کرے۔

خوشا بحال ان قلب سلیم والوں کے لئے جو رہنمائی کی اطاعت کریں اور ہلاک ہونے والوں سے پرہیز کریں۔کوئی راستہ دکھادے تو دیکھ لیں اور واقعی راہنما امر کرے تو اس کی اطاعت کریں۔ہدایت کی طرف سبقت کریں قبل اس کے کہ اس کے دروازے بند ہو جائیں۔اور اس کے اسباب منقطع ہو جائیں۔توبہ کا دروازہ کھول لیں اور گناہوں کے داغوں کودھو ڈالیں یہی و ہ لوگ ہیں جنہیں سیدھے راستہ پر کھڑا کردیا گیا ہے اور انہیں واضح راستہ کی ہدایت مل گئی۔

۴۳۳

(۲۱۵)

ومن دعاء لهعليه‌السلام

كان يدعو به كثيرا

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ يُصْبِحْ بِي مَيِّتاً ولَا سَقِيماً - ولَا مَضْرُوباً عَلَى عُرُوقِي بِسُوءٍ - ولَا مَأْخُوذاً بِأَسْوَإِ عَمَلِي ولَا مَقْطُوعاً دَابِرِي - ولَا مُرْتَدّاً عَنْ دِينِي ولَا مُنْكِراً لِرَبِّي - ولَا مُسْتَوْحِشاً مِنْ إِيمَانِي ولَا مُلْتَبِساً عَقْلِي - ولَا مُعَذَّباً بِعَذَابِ الأُمَمِ مِنْ قَبْلِي - أَصْبَحْتُ عَبْداً مَمْلُوكاً ظَالِماً لِنَفْسِي - لَكَ الْحُجَّةُ عَلَيَّ ولَا حُجَّةَ لِي - ولَا أَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ إِلَّا مَا أَعْطَيْتَنِي - ولَا أَتَّقِيَ إِلَّا مَا وَقَيْتَنِي!

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَفْتَقِرَ فِي غِنَاكَ - أَوْ أَضِلَّ فِي هُدَاكَ أَوْ أُضَامَ فِي سُلْطَانِكَ - أَوْ أُضْطَهَدَ والأَمْرُ لَكَ!

اللَّهُمَّ اجْعَلْ نَفْسِي أَوَّلَ كَرِيمَةٍ تَنْتَزِعُهَا مِنْ كَرَائِمِي - وأَوَّلَ وَدِيعَةٍ تَرْتَجِعُهَا مِنْ وَدَائِعِ نِعَمِكَ عِنْدِي!

اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَذْهَبَ عَنْ قَوْلِكَ -

(۲۱۵)

آپ کی دعا کا ایک حصہ

( جس کی برابر تکرار فرمایا کرتے تھے )

خدا شکر ہے کہ اسنے صبح کے ہنگام نہ مردہ بنایا ہے اورنہ بیمار ۔نہ کسی رگ پرمرض کاحملہ ہوا ہے اورنہ کسی بد عملی کا مواخذہ کیا گیا ہے۔نہ میری نسل کو منقطع کیا گیا ہے اور نہ اپنے دین میں ارتداد کاشکار ہوا ہوں۔نہ اپنے دین سے مرتد ہوں اور نہ اپنے رب کامنکر۔نہ اپنے ایمان سے متوحش اور نہ اپنی عقل کا مخبوط اور نہ مجھ پر گذشتہ امتوں جیسا کوء عذاب ہوا ہے۔میں نے اس عالم میں صبح کی ہے کہ میں ایک بندۂ مملوک ہوں جس نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔خدایا! تیری حجت مجھ پر تمام ہے اور میری کوئی حجت نہیں ہے۔تو جو دیدے اس سے زیادہ لے نہیں سکتا اور جس چیز سے تونہ بچائے اس سے بچ نہیں سکتا ۔

خدا یا! میں اس امر سے پناہ چاہتا ہوں کہ تیریر دولت میں رہ کر فقیر ہوجائوں یا تیری ہدایت کے باوجود گمراہ ہو جائوں یا تیریر سلطنت کے باوجود ستایا جائوں یا تیرے ہاتھ میں سارے اختیارات ہونے کے باوجود مجھ پر دبائو ڈالا جائے ۔

خدایا! میری جن نفیس چیزوں کو مجھ سے واپس لینا اور اپنی جن امانتوں کو مجھ سے پلٹانا۔ان میں سب سے پہلی چیز میری روح کو قرار دینا۔

خدایا! میں اس امرسے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں تیرے ارشادات سے بہک جائوں یا تیرے دین میں

۴۳۴

أَوْ أَنْ نُفْتَتَنَ عَنْ دِينِكَ - أَوْ تَتَابَعَ بِنَا أَهْوَاؤُنَا دُونَ الْهُدَى الَّذِي جَاءَ مِنْ عِنْدِكَ!

(۲۱۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

خطبها بصفين

أَمَّا بَعْدُ - فَقَدْ جَعَلَ اللَّه سُبْحَانَه لِي عَلَيْكُمْ حَقّاً بِوِلَايَةِ أَمْرِكُمْ - ولَكُمْ عَلَيَّ مِنَ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِي لِي عَلَيْكُمْ - فَالْحَقُّ أَوْسَعُ الأَشْيَاءِ فِي التَّوَاصُفِ - وأَضْيَقُهَا فِي التَّنَاصُفِ - لَا يَجْرِي لأَحَدٍ إِلَّا جَرَى عَلَيْه - ولَا يَجْرِي عَلَيْه إِلَّا جَرَى لَه - ولَوْ كَانَ لأَحَدٍ أَنْ يَجْرِيَ لَه ولَا يَجْرِيَ عَلَيْه - لَكَانَ ذَلِكَ خَالِصاً لِلَّه سُبْحَانَه دُونَ خَلْقِه - لِقُدْرَتِه عَلَى عِبَادِه - ولِعَدْلِه فِي كُلِّ مَا جَرَتْ عَلَيْه صُرُوفُ قَضَائِه - ولَكِنَّه سُبْحَانَه جَعَلَ حَقَّه عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يُطِيعُوه - وجَعَلَ جَزَاءَهُمْ عَلَيْه مُضَاعَفَةَ الثَّوَابِ - تَفَضُّلًا مِنْه وتَوَسُّعاً بِمَا هُوَ مِنَ الْمَزِيدِ أَهْلُه.

حق الوالي وحق الرعية

ثُمَّ جَعَلَ سُبْحَانَه مِنْ حُقُوقِه حُقُوقاً - افْتَرَضَهَا لِبَعْضِ النَّاسِ عَلَى بَعْضٍ - فَجَعَلَهَا تَتَكَافَأُ فِي وُجُوهِهَا - ويُوجِبُ بَعْضُهَا بَعْضاً - ولَا يُسْتَوْجَبُ بَعْضُهَا إِلَّا بِبَعْضٍ -.

کسی فتنہ میں مبتلا ہو جائوں یا تیریر آئی ہوئی ہدایتوں کے مقابلہ میں مجھ پرخواہشات کا غلبہ ہو جائے ۔

(۲۱۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جسے مقام صفین میں ارشاد فرمایا)

اما بعد ! پروردگار نے ولی امر ہونے کی بنا پر تم پر میرا ایک حق قرار دیا ہے اور تمہارا بھی میرے اوپر ایک طرح کا حق ہے اور حق مدح سرائی کے اعتبار سے تو بہت وسعت رکھتا ہے لیکن انصاف کے اعتبار سے بہت تنگ ہے۔یہ کسی کا اس وقت تک ساتھ نہیں دیتا ہے جب تک اس کے ذمہ کوئی حق ثابت نہ کردے اورکسی کے خلاف فیصلہ نہیں کرتا ہے جب تک اسے کوئی حق نہ دلوادے۔اگر کوئی ہستی ایسی ممکن ہے جس کا دوسروں پر حق ہو اوراس پر کسی کا حق نہ ہو تو وہ صرف پروردگار کی ہستی ہے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے اوراس کے تمام فیصلے عدل و انصاف پرمبنی ہیں لیکن اس نے بھی جب بندوں پر اپنا حق اطاعت قراردیا ہے تو اپنے فضل و کرم اوراپنے اس احسان کی وسعت کی بنا پر جس کا وہ اہل ہے ان کا یہ حق قرار دے دیا ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ ثواب دے دیا جا ئے۔

پروردگار کے مقرر کئے ہوئے حقوق میں سے وہ تمام حقوق ہیں جو اس نے ایک دوسرے پر قرار دئیے ہیں اور ان میں مساوات بھی قراردیہے کہ ایک حق سے دوسرا حق پیدا ہوتا ہے اور ایک حق نہیں پیدا ہوتا ہے جب تک دوسرا حق نہ پیدا ہو جائے ۔

۴۳۵

وأَعْظَمُ مَا افْتَرَضَ سُبْحَانَه مِنْ تِلْكَ الْحُقُوقِ - حَقُّ الْوَالِي عَلَى الرَّعِيَّةِ وحَقُّ الرَّعِيَّةِ عَلَى الْوَالِي - فَرِيضَةٌ فَرَضَهَا اللَّه سُبْحَانَه لِكُلٍّ عَلَى كُلٍّ - فَجَعَلَهَا نِظَاماً لأُلْفَتِهِمْ وعِزّاً لِدِينِهِمْ - فَلَيْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِيَّةُ إِلَّا بِصَلَاحِ الْوُلَاةِ - ولَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ إِلَّا بِاسْتِقَامَةِ الرَّعِيَّةِ - فَإِذَا أَدَّتْ الرَّعِيَّةُ إِلَى الْوَالِي حَقَّه - وأَدَّى الْوَالِي إِلَيْهَا حَقَّهَا - عَزَّ الْحَقُّ بَيْنَهُمْ وقَامَتْ مَنَاهِجُ الدِّينِ - واعْتَدَلَتْ مَعَالِمُ الْعَدْلِ وجَرَتْ عَلَى أَذْلَالِهَا السُّنَنُ - فَصَلَحَ بِذَلِكَ الزَّمَانُ - وطُمِعَ فِي بَقَاءِ الدَّوْلَةِ ويَئِسَتْ مَطَامِعُ الأَعْدَاءِ -. وإِذَا غَلَبَتِ الرَّعِيَّةُ وَالِيَهَا - أَوْ أَجْحَفَ الْوَالِي بِرَعِيَّتِه - اخْتَلَفَتْ هُنَالِكَ الْكَلِمَةُ - وظَهَرَتْ مَعَالِمُ الْجَوْرِ وكَثُرَ الإِدْغَالُ فِي الدِّينِ - وتُرِكَتْ مَحَاجُّ السُّنَنِ فَعُمِلَ بِالْهَوَى - وعُطِّلَتِ الأَحْكَامُ وكَثُرَتْ عِلَلُ النُّفُوسِ - فَلَا يُسْتَوْحَشُ لِعَظِيمِ حَقٍّ عُطِّلَ - ولَا لِعَظِيمِ بَاطِلٍ فُعِلَ - فَهُنَالِكَ تَذِلُّ الأَبْرَارُ وتَعِزُّ الأَشْرَارُ - وتَعْظُمُ تَبِعَاتُ اللَّه سُبْحَانَه عِنْدَ الْعِبَادِ -. فَعَلَيْكُمْ بِالتَّنَاصُحِ فِي ذَلِكَ وحُسْنِ التَّعَاوُنِ عَلَيْه - فَلَيْسَ أَحَدٌ وإِنِ اشْتَدَّ عَلَى رِضَا اللَّه حِرْصُه - وطَالَ فِي الْعَمَلِ اجْتِهَادُه  

اوران تمام حقوق میں سب سے عظیم ترین حق رعایا پروالی کا حق اور والی پر رعایا کا حق ہے جسے پروردگار نے ایک کو دوسرے کے لئے قراردیا ہے اور اسی سے ان کی باہمی الفتوں کو منظم کیاہے اور ان کے دین کو عزت دی ہے ۔رعایا کی اصلاح ممکن نہیں ہے جب تک والی صالح نہ ہو اور والی صالح نہیںرہ سکتے ہیں جب تک رعایا صالح نہ ہو۔اب اگر رعایا نے والی کو اس کا حق انصاف کے نشانات بر قرار رہیں گے اور پیغمبر اسلام (ص) کی سنتیں اپنے ڈھرے پرچل پڑیں گی اور زمانہ ایسا صالح ہو جائے گا کہ بقاء حکومت کی امید بھی کی جائے گی اور دشمنوں کی تمنائیںبھی ناکام ہو جائیں گی۔لیکن اگر رعایا حاکم پر غالب آگئی یا حاکم نے رعایا پر زیادتی کی تو کلمات میں اختلاف ہو جائے گا، ظلم کے نشانات ظاہر ہو جائیں گے۔دین میں مکاری بڑھ جائے گی۔سنتوں کے راستے نظر انداز ہو جائیں گے۔خواہشات پر عمل ہوگا۔احکام معطل ہو جائیں گے اور نفوس کی بیماریاں بڑھ جائیں گی۔نہ بڑے سے بڑے حق کے معطل ہوجانے سے کوئی وحشت ہوگی اور نہ بڑے سے بڑے باطل پر عملدرآمدسے کوئی پریشانی ہوگی۔

ایسے موقع پر نیک لوگ ذلیل کردئیے جائیں گے اورشریر لوگوں کی عزت ہوگی اورب ندوں پر خدا کی عقوبتیں عظیم تر ہو جائیں گی لہٰذا خدارا آپس میں ایک دوسرے سے مخلص رہو اور ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اس لئے کہ تم میں کوئی شخص بھی کتنا ہی رضائے خدا کی طمع رکھتا ہواور کسی قدر بھی زحمت عمل برداشت کرے

۴۳۶

- بِبَالِغٍ حَقِيقَةَ مَا اللَّه سُبْحَانَه أَهْلُه مِنَ الطَّاعَةِ لَه - ولَكِنْ مِنْ وَاجِبِ حُقُوقِ اللَّه عَلَى عِبَادِه - النَّصِيحَةُ بِمَبْلَغِ جُهْدِهِمْ - والتَّعَاوُنُ عَلَى إِقَامَةِ الْحَقِّ بَيْنَهُمْ - ولَيْسَ امْرُؤٌ وإِنْ عَظُمَتْ فِي الْحَقِّ مَنْزِلَتُه - وتَقَدَّمَتْ فِي الدِّينِ فَضِيلَتُه - بِفَوْقِ أَنْ يُعَانَ عَلَى مَا حَمَّلَه اللَّه مِنْ حَقِّه - ولَا امْرُؤٌ وإِنْ صَغَّرَتْه النُّفُوسُ - واقْتَحَمَتْه الْعُيُونُ - بِدُونِ أَنْ يُعِينَ عَلَى ذَلِكَ أَوْ يُعَانَ عَلَيْه.

فَأَجَابَهعليه‌السلام رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِه - بِكَلَامٍ طَوِيلٍ يُكْثِرُ فِيه الثَّنَاءَ عَلَيْه - ويَذْكُرُ سَمْعَه وطَاعَتَه لَه فَقَالَعليه‌السلام

إِنَّ مِنْ حَقِّ مَنْ عَظُمَ جَلَالُ اللَّه سُبْحَانَه فِي نَفْسِه - وجَلَّ مَوْضِعُه مِنْ قَلْبِه - أَنْ يَصْغُرَ عِنْدَه لِعِظَمِ ذَلِكَ كُلُّ مَا سِوَاه - وإِنَّ أَحَقَّ مَنْ كَانَ كَذَلِكَ لَمَنْ عَظُمَتْ نِعْمَةُ اللَّه عَلَيْه - ولَطُفَ إِحْسَانُه إِلَيْه فَإِنَّه لَمْ تَعْظُمْ نِعْمَةُ اللَّه عَلَى أَحَدٍ - إِلَّا ازْدَادَ حَقُّ اللَّه عَلَيْه عِظَماً - وإِنَّ مِنْ أَسْخَفِ حَالَاتِ الْوُلَاةِ عِنْدَ صَالِحِ النَّاسِ - أَنْ يُظَنَّ

اطاعت خدا کی اس منزل تک نہیں پہنچ سکتا ہے جس کا وہ اہل ہے لیکن پھربھی مالک کا یہحق واجب اس کے بندوں کے ذمہ ہے کہ انپے امکان بھر نصیحت کرتے رہیں اور حق کے قیام میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں اس لئے کہ کوئی شخص بھی حق کی ذمہ داری ادا کرنے میں دوسرے کی امداد سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے چاہے حق میں اس کی منزلت کسی قدر عظیم کیوں نہ ہو اور دین میں اس کی فضیلت کو کسی قدر تقدم کیوں نہ حاصل ہو اور نہ کوئی شخص مدد کرنے یا مدد لینے کی ذمہ داری سے کمتر ہو سکتا ہے چاہے لوگوں کی نظر میں کسی قدر چھوٹا کیوں نہ ہو اور چاہے ان کی نگاہوں سے کسی قدر کیوں نہ گر جائے ۔ (اس گفتگو کے بعد آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے ایک طویل تقریرکی جس میں آپ کی مدح و ثنا کے ساتھ اطاعت کا وعدہ بھی کیا تو آپ نے فرمایا کہ )

یاد رکھو کہ جس کے دل میں جلال الٰہی کی عظمت اور جس کے نفس میں اس کے مقام الوہیت کی بلندی ہے اس کا حق یہ ہے کہ تمام کائنات اس کی نظرمیں چھوٹی ہوجائے اور ایسے لوگوں میں اس حقیقت کا سب سے بڑا اہل وہ ہے جس پر اس کی نعمتیں عظیم اور اس کے احسانات لطیف ہوں ۔اس لئے کہ کسی شخص پر اللہ کی نعمتیں عظیم نہیں ہوتیں مگر یہ کہ اس کا حق بھی عظیم تر ہو جاتا ہے اور احکام کے حالات میں اور مجھے یہ بات سخت نا گوار ہے کہ تم میں سے کسی کو یہ گمان پیدا ہو

۴۳۷

بِهِمْ حُبُّ الْفَخْرِ - ويُوضَعَ أَمْرُهُمْ عَلَى الْكِبْرِ - وقَدْ كَرِهْتُ أَنْ يَكُونَ جَالَ فِي ظَنِّكُمْ أَنِّي أُحِبُّ الإِطْرَاءَ - واسْتِمَاعَ الثَّنَاءِ ولَسْتُ بِحَمْدِ اللَّه كَذَلِكَ - ولَوْ كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ يُقَالَ ذَلِكَ - لَتَرَكْتُه انْحِطَاطاً لِلَّه سُبْحَانَه - عَنْ تَنَاوُلِ مَا هُوَ أَحَقُّ بِه مِنَ الْعَظَمَةِ والْكِبْرِيَاءِ - ورُبَّمَا اسْتَحْلَى النَّاسُ الثَّنَاءَ بَعْدَ الْبَلَاءِ - فَلَا تُثْنُوا عَلَيَّ بِجَمِيلِ ثَنَاءٍ - لإِخْرَاجِي نَفْسِي إِلَى اللَّه سُبْحَانَه وإِلَيْكُمْ مِنَ التَّقِيَّةِ - فِي حُقُوقٍ لَمْ أَفْرُغْ مِنْ أَدَائِهَا وفَرَائِضَ لَا بُدَّ مِنْ إِمْضَائِهَا - فَلَا تُكَلِّمُونِي بِمَا تُكَلَّمُ بِه الْجَبَابِرَةُ - ولَا تَتَحَفَّظُوا مِنِّي بِمَا يُتَحَفَّظُ بِه عِنْدَ أَهْلِ الْبَادِرَةِ - ولَا تُخَالِطُونِي بِالْمُصَانَعَةِ ولَا تَظُنُّوا بِي اسْتِثْقَالًا فِي حَقٍّ قِيلَ لِي - ولَا الْتِمَاسَ إِعْظَامٍ لِنَفْسِي - فَإِنَّه مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ أَنْ يُقَالَ لَه - أَوِ الْعَدْلَ أَنْ يُعْرَضَ عَلَيْه كَانَ الْعَمَلُ بِهِمَا أَثْقَلَ عَلَيْه - فَلَا تَكُفُّوا عَنْ مَقَالَةٍ بِحَقٍّ أَوْ مَشُورَةٍ بِعَدْلٍ - فَإِنِّي لَسْتُ فِي نَفْسِي بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ - ولَا آمَنُ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِي - إِلَّا أَنْ يَكْفِيَ اللَّه مِنْ نَفْسِي مَا هُوَ أَمْلَكُ بِه مِنِّي -

جائے کہ میں روساء کو دوست رکھتا ہوں یا اپنی تعریف سننا چاہتا ہوں اور بحمد اللہ میں ایسا نہیں ہوں اور اگر میں ایی باتیں پسند بھی کرتا ہوتا تو بھی اسے نظرانداز کر دیتا کہ میں اپنے کواس سے کمتر سمجھتا ہوں کہ اس عظمت و کبریائی کا اہل بن جائوں جس کا پرودگار حقدار ہے۔یقینا بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اچھی کار کردگی پرتعریف کو دوست رکھتے ہیں لیکن خبردار تم لوگ میری اس بات پرتعریف نہ کرنا کہ میں نے تمہارے حقوق ادا کردئیے ہیں کہ ابھی بہت سے ایسے حقوق کاخوف باقی ہے جو ادا نہیں ہو سکے ہیں اوربہت سے فرائض ہیں جنہیں بہر حال نافذ کرنا ہے دیکھو مجھ سے اس لہجہ میں بات نہ کرنا جس لہجہ میں جابر بادشاہوں سے بات کی جاتی ہے اور نہ مجھ سے اس طرح بچنے کی کوشش کرنا جس طرح طیش میں آنے والوں سے بچا جاتا ہے۔نہ مجھ سے خوشامد کے ساتھ تعلقات رکھنا اور نہ میرے بارے میں یہ تصور کرنا کہ مجھے حرف حق گراں گزرے گا اور نہ میں اپنی تعظیم کا طلب گار ہوں۔اس لئے کہ جوشخص بھی حرف حق کہنے کو گراں سمجھتا ہے یا عدل کی پیشکش کو ناپسند کرتا ہے وہ حق و عدل پرعمل کو یقینا مشکل تر ہی تصور کرے گا۔لہٰذا خبردار حرف حق کہنے میں تکلف نہ کرنا اور منصفانہ مشورہ دینے سے گریز نہ کرنا۔ اس لء کہ میں ذاتی طور پر اپنے کو غلطی سے بالاتر نہیں تصور کرتا ہوں اورنہ اپنے افعال کو اس خطرہ سے محفوظ سمجھتا ہوں مگر یہ کہ میرا پروردگار میرے نفس کوب چالے کہ وہ اس کا مجھ سے زیادہ

۴۳۸

فَإِنَّمَا أَنَا وأَنْتُمْ عَبِيدٌ مَمْلُوكُونَ لِرَبٍّ لَا رَبَّ غَيْرُه - يَمْلِكُ مِنَّا مَا لَا نَمْلِكُ مِنْ أَنْفُسِنَا - وأَخْرَجَنَا مِمَّا كُنَّا فِيه إِلَى مَا صَلَحْنَا عَلَيْه - فَأَبْدَلَنَا بَعْدَ الضَّلَالَةِ بِالْهُدَى وأَعْطَانَا الْبَصِيرَةَ بَعْدَ الْعَمَى.

(۲۱۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في التظلم والتشكي من قريش

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَعْدِيكَ عَلَى قُرَيْشٍ ومَنْ أَعَانَهُمْ - فَإِنَّهُمْ قَدْ قَطَعُوا رَحِمِي وأَكْفَئُوا إِنَائِي - وأَجْمَعُوا عَلَى مُنَازَعَتِي حَقّاً كُنْتُ أَوْلَى بِه مِنْ غَيْرِي - وقَالُوا أَلَا إِنَّ فِي الْحَقِّ أَنْ تَأْخُذَه - وفِي الْحَقِّ أَنْ تُمْنَعَه فَاصْبِرْ مَغْمُوماً أَوْ مُتْ مُتَأَسِّفاً - فَنَظَرْتُ فَإِذَا لَيْسَ لِي رَافِدٌ ولَا ذَابٌّ ولَا مُسَاعِدٌ - إِلَّا أَهْلَ بَيْتِي فَضَنَنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَنِيَّةِ - فَأَغْضَيْتُ عَلَى الْقَذَى

صاحب اختیار ہے۔دیکھو ہم سب ایک خدا کے بندے اوراس کے مملوک ہیں اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔وہ ہمارے نفوس کااتنا اختیار رکھتا ہے جتنا خود ہمیں بھی حاصل نہیں ہے اور اسی نے ہمیں سابقہ حالات سے نکال کراس اصلاح کے راستہ پر لگایا ہے کہ اب گمراہی ہدایت میں تبدیل ہوگئی ہے اور اندھے پن کے بعد بصیرت حاصل ہوگئی ہے۔

(۲۱۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(قریش سے شکایت اورف ریاد کرتے ہوئے )

خدایا! میں قریش سے اور ان کے مدد گاروں سے تیری مدد چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے میری قرابت داری کاخیال نہیں کیا اور میرے ظرف عظمت کو الٹ دیا ہے اور مجھ سے اس حق کے بارے میں جھگڑا کرنے پر اتحاد کرلیا ہے جس کا میں سب سے زیادہ حقدار تھا اور پھر یہ کہنے لگے ہیں کہ آپ اس حق کو لے لیں تو یہ بھی صحیح ہے اور آپ کو اس سے روک دیا جائے تو یہ بھی صحیح ہے۔اب چاہیں ہم وغم کے ساتھ صبر کریں یا رنج والم کے ساتھ مرجائیں۔ ایسے حالات میں میں نے دیکھا کہ میرے پاس نہ کوئی مدد گار ہے اور نہ دفاع کرنے والا سوائے میرے گھر والوں کے تو میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے گریز کیا اوربالآخر آنکھوں میں خس و خاشاک کے ہوتے ہوئے چشم پوشی کی اور گلے میں پھندہ کے ہوتے ہوئے

۴۳۹

وجَرِعْتُ رِيقِي عَلَى الشَّجَا - وصَبَرْتُ مِنْ كَظْمِ الْغَيْظِ عَلَى أَمَرَّ مِنَ الْعَلْقَمِ - وآلَمَ لِلْقَلْبِ مِنْ وَخْزِ الشِّفَارِ

قال الشريفرضي‌الله‌عنه - وقد مضى هذا الكلام في أثناء خطبة متقدمة - إلا أني ذكرته هاهنا لاختلاف الروايتين.

(۲۱۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذكر السائرين إلى البصرة لحربهعليه‌السلام

فَقَدِمُوا عَلَى عُمَّالِي وخُزَّانِ بَيْتِ الْمُسْلِمِينَ الَّذِي فِي يَدَيَّ - وعَلَى أَهْلِ مِصْرٍ كُلُّهُمْ فِي طَاعَتِي وعَلَى بَيْعَتِي - فَشَتَّتُوا كَلِمَتَهُمْ وأَفْسَدُوا عَلَيَّ جَمَاعَتَهُمْ - ووَثَبُوا عَلَى شِيعَتِي فَقَتَلُوا طَاِئفَةً منْهُمْ غَدْراً - وطَاِئفَةٌ عَضُّوا عَلَى أَسْيَافِهِمْ - فَضَارَبُوا بِهَا حَتَّى لَقُوا اللَّه صَادِقِينَ.

لعاب دہن نگل لیا اور غصہ کو پینے میں خنظل سے زیادہ تلخ ذائقہ پر صبر کیااورچھریوں کے زخموں سے زیادہ تکلیف دہ حالات پر خاموشی اختیار کرلی۔

(سید رضی : گذشتہ خطبہ میں یہ مضمون گذر چکا ہے لیکن روایتیں مختلف تھیں لہٰذا میں نے دوبارہ اسے نقل کردیا )

(۲۱۸)

آپ کا ارشادگرامی

(بصرہ کی طرف آپ سے جنگ کرنے کے لئے جانے والوں کے بارے میں

یہ لوگ میرے عاملوں ۔میرے زیر دست بیت المال کے خزانہ داروں اورتمام اہل شہر جو میری اطاعت و بیعت میں تھے سب کی طرف وارد ہوئے۔ان کے کلمات میں(۱) افتراق پیدا کیا۔ان کے اجتماع کو برباد کیا اورمیرے چاہنے والوں پرحملہ کردیا اور ان میں سے ایک جماعت کودھوکہ سے قتل بھی کردیا لیکن دوسری جماعت نے تلواریں اٹھا کر دانت بھنچ لئے اور باقاعدہ مقابلہ کیا یہاں تک کہ حق و صداقت کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔

(۱) حیرت انگیز بات ہے کہ مسلمان ابھی تک ان دو گروہوں کے بارے میں حق و باطل کا فیصلہ نہیں کرسکا ہے جن میں ایک طرف نفس رسول (ص) علی بن ابی طالب جیسا انسان تھا جو اپنی تعریف کوبھی گوارا نہیں کرتا تھا اور ہر لمحہعظمت خالق کے پیش نظرانے اعمال کو حقیر و معمولی ہی تصور کرتا تھا اور ایک طرف طلحہ و زبیر جیسے وہدنیا پرست تھے جن کاکام فتنہ پردازی ۔ شرانگیزی ۔تفرقہ اندازی اورقتل وغارت کے علاوہ کچھ نہتھا اورجو دولت و اقتدار کی خاطر دنیا کی ہر برائی کر سکتے تھے اور ہر جرم کا ارتکاب کرسکتے تھے ۔

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863