نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656969 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

معاہدہ کی پابندی کا دوسرا نمونہ '' حلف الفضول'' کا معاہدہ ہے ، یہ وہ معاہدہ ہے جو جاہلیت کے زمانے میں قریش کے کچھ جوانوں نے مظلومین کے حقوق سے دفاع کے لئے کیا تھا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس میں شامل تھے آپ نے صرف بعثت سے پہلے اس معاہدہ پر قاءم رہے بلکہ بعثت کے بعد بھی جب کبھی اسکو یاد کرلیتے تو فرماتے کہ میں اس عہد کو توڑنے پر تیار نہیں ہوں چاہے اس کے بدلے میرے سامنے بہت قیمتی چیز ہی کیوں نہ پیش کی جائے_(۱)

عمار یاسر فرماتے ہیں کہ میں اپنے گوسفند چرا رہا تھا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی گوسفند چرا رہے تھے ایک دن میں نے آپ سے کہا کہ میں نے مقام ''فج'' میں ایک عمدہ چراگاہ دیکھی ہے کیا آپ کل وہاں چلیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، جب میں صبح وہاں پہنچا تو دیکھا کہ آپ پہلے سے موجود ہیں لیکن گوسفند کو چرنے کے لئے چراگاہ میں داخل نہیں ہونے دیا ہے میں نے پوچھا آپ ایسے ہی کیوں کھڑے ہیں ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میں نے تم سے عہد کیا تھا کہ ہم دونوں ملکر گوسفند چرائیں گے _ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ خلاف وعدہ عمل کروں اور اپنے گوسفند کو تم سے پہلے ہی چرالوں _(۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص سے وعدہ کیا کہ جب تک تم آؤگے اسی پتھر کے کنارے تمہارا منتظر رہوں گا_ گرمی بہت زیادہ تھی اصحاب نے

___________________

۱) (سیرہ حلبی ج۲ص ۱۳۱)_

۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص۲۲۴)_

۸۱

فرمایا: اے اللہ کے رسول آپ سایہ میں چلے جائیں اور وہاں اسکا انتظار کریں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں نے اس سے وعدہ کیا ہے میں یہیں رہو نگا اگر وہ نہیں آئیگا تو وعدہ کے خلاف عمل کرے گا _(۱)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس قسم کے سلوک سے اسلام میں وعدہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے_

اجتماعی معاہدوں کی پابندی

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پہونچنے کے بعد اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک نئے معاشرہ کی تشکیل کی وجہ سے سماجی معاہدوں کی ضرورت محسوس ہوئی اس لئے کہ قریش جو آپ کے بڑے دشمن تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چین سے رہنے نہیں دیتے تھے دوسری طرف مدینہ کے یہودی کہ جو صاحب کتاب تھے لیکن حق کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے وہ اپنی مخصوص ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسی ایسے دین کو ماننے پر تیار نہ تھے جس کو غیر بنی اسرائیل کا کوئی شخص لایا ہو سب سے اہم بات یہ ہے کہحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے لائے ہوئے دین کو عالمی دین سمجھتے تھے اسی لئے صرف مدینہ میں رہنے والے محدود افراد پر اکتفاء نہیں کرسکتے تھے اور یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ دوسروں سے کوئی سروکار نہ رکھیں ان پہلوؤں کے پیش نظر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عرب کے بعض

___________________

۱) (بحارالانوار ج۹۵/۷۵)_

۸۲

قباءل سے دفاعی معاہدہ کیا اس معاہدہ کی بنیاد پر اگر کوئی کسی پر زیادتی کرتا تو دوسرے کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس سے اپنا دفاع کرے اور بعض لوگوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا کہ تم سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا یعنی طرفین میں کوئی بھی کسی پر نہ زیادتی کرے اور نہ اس کے خلاف کوئی اقدام کرے ان میں سے سب سے اہم معاہدے وہ تھے جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفار قریش اور مدینہ کے یہودیوں سے کئے تھے_

مشرکین سے معاہدوں کی پابندی

سنہ ۶ ھ میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خواب میں دیکھا کہ مسلمانوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد الحرام میں مناسک حج ادا کررہے ہیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس خواب کو اپنے اصحاب کے سامنے بیان کیا اصحاب نے اسکو نیک فال سمجھا لیکن بعض افراد کو اسکی صحت پر ابھی مکمل اطمینان حاصل نہیں ہوا تھا کہ خدا نے اپنے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خواب کی تعبیر میں آیت نازل کی:

( لقد صدق الله رسوله الروایا بالحق لتدخلن مسجد الحرام ان شاء الله آمنین محلقین رؤسکم مقصرین لا تخافون فعلم مالم تعلموا فجعل من دون ذلک فتحاً قریباً ) (۱)

___________________

۱) (فتح آیت ۲۷)_

۸۳

(بیشک خدا نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خواب کو آشکار کردیا تم لوگ انشاء اللہ بلاخوف و خطر اپنے سروں کے بال منڈواکر اور تقصیر کیے ہوئے مسجد الحرام میں داخل ہوگئے خداوہ جانتاہے جو تم نہیں جانتے اور خدا نے اس ( مکہ میں داخل ہونے ) سے پہلے بہت نزدیک کامیابی (صلح حدیبیہ) قرار دی)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمان مطمئن ہوگئے کہ وہ بہت جلد نہایت محافظ طریقہ سے خانہ خدا کی زیارت کے لئے جائیں گے _

ماہ ذیقعدہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمرہ کے قصد سے مکہ جانے کا ارادہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام مسلمانوں کو بھی اپنے ہمراہ مکہ چلنے کی دعوت دی چنانچہ ایک جماعت کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ کی جانب روانہ ہوئے راستہ میں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خبردی گئے کہ قریش آپ کی آمد سے واقف ہوگئے ہیں اورانہوں نے اپنے آپ کوجنگ کے لئے تیار کرلیاہے وہ لوگ مقام '' ذی طوی'' میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں اور انہوں نے قسمیں کھائی ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کو مکہ نہیںجانے دیں گے _

چونکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ کے لئے نہیں نکلے تھے بلکہ آپ عمرہ کے ارادہ سے تشریف لائے تھے اسلئے آپ نے ان سے مذاکرہ کیا آپ کے اور ان کے درمیان معاہدہ ہوا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے اس معاہدہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند امور کو انجام دینے کی پابندی اپنے اوپر عاءد کی ان میں سے مجھ درج ذیل ہے_

۸۴

۱_ قریش میں سے اگر کوئی بھی شخص اپنے بزرگ کی اجازت کے بغیر مکہ سے فرار کرکے اسلام قبول کرلے اور مسلمانوں سے آکر مل جائے تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے قریش کو واپس کردیں گے لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی بھاگ کر قریش سے جاملے تو قریش اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ اسکو واپس کردیں '' جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش کے نمآئندہ کے ساتھ یہ معاہدہ کررہے تھے اسی وقت سہیل کا بیٹا '' ابوجندل'' جو مسلمان ہوگیا تھا لیکن اپنے مشرک باپ کی زنجیر میں جکڑا ہوا تھا مکہ سے فرار کرکے آیا اور مسلمانوں کے ساتھ مل گیا سہیل نے جب اسکو دیکھا تو کہا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ معاہدہ کی پابندی کا پہلا موقع ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ صلح قاءم رہے تو اسکو واپس کردیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول کیا سہیل نے اپنے بیٹے کا گریبان پکڑا اور کھینچتے ہوئے مکہ لے گیا_

ابوجندل نے (نہایت ہی دردناک لہجہ میں ) فریاد کی کہ اے مسلمانو کیا تم اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ مجھ کو مشرکین کے حوالہ کیا کردیا جائے اور میں دوبارہ ان کے چنگل میں پھنس جاؤں؟ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے ابوجندل صبر کرو خدا تمہارے اور تم جیسوں کے لئے کشادگی پیدا کریگا ہم نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور اب ہم اپنا عہد و پیمان نہیں توڑسکتے(۱)

___________________

۱) (سیرہ ابن ہشام ج۳ص۳۳۲ _ ۳۳۳)_

۸۵

یہ ایک ہی موقع نہیں تھا کہ جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلح نامہ کی اس شرط کی مطابق عمل کیا تھا کہ جو مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت تھی ، بلکہ جب کوئی مسلمان مشرکین کے چنگل سے چھوٹ کر مسلمانوں سے آملتا تھا اسی وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے ان کے حوالہ کردیتے تھے جیسا کہ ابوبصیر کا واقعہ گواہ ہے_

ابوابصیر ان مسلمانوں میں شامل ہے جو مکہ میں گھرے ہوئے تھے اور صلح حدیبیہ کے بعد وہاں سے فرار کرکے مدینہ آگئے تھے قریش کے نمایان افراد نے ایک خط پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام لکھا اور اس کو ایک شخص کے حوالہ کیا کہ وہ اپنے غلام کے ساتھ مدینہ جاکر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وہ خط پہنچا دے تا کہ قرار داد کے مطابق ابوبصیر کے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے واپس لیکر مکہ لوٹ آئے جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس وہ خط پہونچا تو آپ نے ابوبصیر کو بلایا اور کہا اے ابوبصیر تم کو معلوم ہے کہ ہم نے قریش سے عہد و پیمان کیا ہے اور اس معاہدہ کی مخالفت ہمارے لئے صحیح نہیں ہے خدا تمہارے لئے اور تم جیسوں کیلئے کشادگی پیدا کریگا ابوبصیر نے کہا : اے اللہ کے رسول کیا آپ ہم کو دشمن کے سپرد کردینگے تا کہ وہ ہم کو دین سے برگشتہ کردیں ؟آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے ابوبصیر پلٹ جاؤ خدا تمہارے لئے وسعت پیدا کریگا_

ابوبصیر ان دونوں کے ساتھ مکہ کی طرف چل دیئے جب مقام ''ذوالحلیفہ'' پر پہونچے تو ایک دیوار کے سایہ میں آرام کرنے لگے ابوبصیر نے اس آدمی کی طرف رخ کرکے کہا یہ

تمہاری تلوار بہت تیز ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں ابوبصیر نے کہا کیا میں اسکو دیکھ

۸۶

سکتاہوں اس آدمی نے جواب دیا اگر دیکھنا چاہتے ہو تو دیکھو ابوبصیر نے تلوار اپنے ہاتھ میں لیکر اچانک اس آدمی پر حملہ کرکے اسکو مار ڈالا مقتول کے غلام نے جب یہ ماجرا دیکھا تو ڈر کے مارے مدینہ کی طرف بھاگا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ غلام داخل ہوا جب آپ کی نظر اس غلام پر پڑی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ اس نے بڑا ہولناک منظر دیکھا ہے اس کے بعد اس سے پوچھا کہ کیا خبر ہے غلام نے کہا کہ ابوبصیر نے اس آدمی کو قتل کردیا

ذرا دیر بعد ابوبصیر بھی خدمت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں پہونچے اور کہنے لگے یا رسول اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا عہد و پیمان پورا کیا اور مجھ کو ان کے حوالہ کردیا لیکن میں اپنے دین کے بارے میں ڈرگیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر اس شخص کے ساتھی موجود ہوتے تو آپ جنگ برپا کردیتے_

ابوبصیر نے دیکھا کہ اگر مدینہ میں رہ گئے تو لوگ پھر پہنچ جائیں گے اور واپسی کا مطالبہ کریں گے اسلئے وہ مدینہ سے نکل کر سواحل دریائے احمر پر پہنچ گئے وہ جگہ ایسی تھی جہاں سے شام جانے والے قریش کے کاروان تجارت گذرتے تھے_

دوسری طرف جب ابوبصیر کی داستان اور ان کی بارے میںرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول کا علم ان سارے مسلمانوں کو ہوا جو مکہ میں پھنسے ہوئے تھے تو وہ کسی طرح سے اپنے کو مشرکین کے چنگل سے چھڑا کر مکہ سے بھاگ کر ابوبصیر تک پہنچے یہاں تک کہ کچھ ہی دنوں میں ابوبصیر سے جاملنے والے مسلمانوں کی تعداد ستر (۷۰) ہوگئی اب وہ لوگ قریش کے قافلہ کیلئے

واقعی خطرہ بن گئے اگر قریش میں سے کوئی مل جاتا تھاتو یہ لوگ اس کو قتل کردیتے تھے اور اگر کوئی قافلہ ادھر سے گذرتا تھا تو اس کے راستہ میں رکاوٹ بنتے یہاں تک کہ قریش نے تھک کررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خط لکھا اور یہ گذارش کی کہ ان کو مدینہ بلالیں اور قریش کو ان کے ہاتھوں اطمینان حاصل ہوجائے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو بلایا اور سب لوگ مدینہ چلے آئے _

ابوجندل اور ابوبصیر کو واپس کردینے کے عمل سے پتہ چلتاہے کہ رسول خدا انسانی بلند قدروں کی اہمیت سمجھتے تھے_

___________________

۱) (سیرہ ابن ہشام ج۱ ص ۳۳۷ ، ۳۳۸)_

۸۷

خلاصہ درس

۱) قرآن کریم اسلام کی زندہ سند ہے وہ معاہدہ کی پابندی کو ضروری سمجھتاہے اور مؤمنین کو اسکی پابندی کی تلقین کرتاہے_

۲)پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا کی طرف سے بہترین نمونہ کے عنوان سے تعارف کروایا گیاآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی زندگی کی اس بنیادی بات سے صرف نظر نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسکی پابندی کی تلقین کی ہے_

۳) عہد و پیمان سے وفاداری اور معاہدہ کی پابندی کی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اہل بیت کے نزدیک اتنی اہمیت ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:لا دین لمن لاعهد له '' وہ شخص دین دار نہیں ہے جو معاہدہ کا پابند نہیں ہے _

۴) کلی طور پرا گرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاہدوں کا جاءزہ لیا جائے تو دو طرح کے معاہدے نظر آتے ہیں_

الف: ذاتی معاہدہ

ب: سماجی معاہدے اور سیاسی قرار دادیں

۵ ) تاریخ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تحقیق سے یہ پتہ چلتاہے کہ آپ کے نزدیک دونوں ہی طرح کے معاہدے محترم تھے اور آپ نے اپنی طرف سے کبھی کوئی معاہدہ نہیں توڑا_

۸۸

سوالات :

۱_ عہدو پیمان کی پابندی کے سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کے ذریعہ اسلام کا نظریہ بیان کیجئے؟

۲_ عہد و پیمان کی پابندی کی اہمیت کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیجئے؟

۳_پیغمبر اکرم کے کسی ذاتی معاہدہ کا ذکر کیجئے_

۴_ سیاسی معاہدوں میں سے ایک معاہدہ بیان کرتے ہوئے ان معاہدوں کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے طریقہ کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیجئے؟

۵ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفار قریش کے ساتھ جو معاہدے کئے تھے وہ کس نوعیت کے حامل تھے؟

۸۹

چھٹا سبق:

(یہودیوں کیساتھآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاہدے)

مدینہ وہ شہر تھا کہ جہاں بمدت عرصہ قبلی یہود کے کچھ قباءل نے ہجرت کی اور وہ اس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمد کے منتظر تھے کہ جسکی توریت نے بشارت دی تھی چونکہ انہوں نے یہ دیکھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قوم بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں اسلئے ان کی رسالت کو قبول کرنا ان کےلئے مشکل ہوگیا تھا_ لیکن چوں کہ مدینہ میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے باہمی قدیمی اخلاف کو ختم کرکے ایک امت بنادیا تھا اسلئے وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرسکتے تھے لیکن مسلمانوں کے ممکن الوقوع خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے ان میں سے چند سربرآوردہ اشخاص پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے:

اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم آپ کے پاس معاہدہ کرنے کیلئے آئے ہیں اور وہ معاہدہ یہ ہے کہ ہم آپ کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے، آپ کے اصحاب پر حملہ نہیں کریں گے اور آپ کے خلاف کسی بھی گروہ کی مدد نہیں کریں گے _ اسی طرح آپ بھی ہم سے کوئے سروکار نہ

۹۰

رکھیں گے بعد میں دیکھا جائے گا کہ کیا ہوتاہے_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول فرمایا اور جو معاہدہ نامہ لکھا گیا اسمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اضافہ فرمایا کہ اگر یہودیوں نے اس قرار داد کے خلاف عمل کیا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کا خون بہانے، ان کے مال کو ضبط کرلینے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرنے میں آزاد ہوں گے _

اس معاہدہ پر تین بزرگ قبیلوں، بنی نضیر، بنی قریظہ اور بنی قینقاع نے دستخط کئے _(۱)

البتہ یہ صرف ایک معاہدہ نہیں تھا جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور یہودیوں کے درمیان ہوا بلکہ دوسرے مواقع پر بھی اس طرح سیاسی اور سماجی معاہدے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور یہودیوں کے درمیان ہوئے ہیں ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان تمام معاہدوں پر ثابت قدم رہے اور یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ آپ نے ایک بار بھی کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہو_

معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا برتاو

جس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاہدوں کے پابند تھے اور اس کو اہمیت دیتے تھے اسی طرح پیمان شکنی سے بیزار بھی تھے اور اس کو ایک ناشاءستہ عمل جانتے تھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر میں پیمان شکنی کرنیوالا گنہگار اور سزا کا مستحق تھا_

انفرادی معاہدہ میں اگر کسی نے معاہدہ کرکے توڑ دیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بزرگی اور عظمت کے

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۹ ص ۱۱۰ ، ۱۱۱)_

۹۱

خلاف یہ بات تھی کہ آپ اس سے سوال کرتے_ لیکن اجتماعی اور سیاسی معاہدوں میں جس کا تعلق نظام اسلام سے ہوتا تھا ، ان سے کسی طرح کی چشم پوشی کو آپ روا نہیں رکھتے تھے اور اس سے نہایت سختی کا برتاو کرتے تھے اسکا ایک نمونہ وہ رد عمل ہے جس کا اظہار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ کے یہودیوں کے معاہدہ توڑدینے پر فرمایا تھا_

مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے جو قباءل آباد تھے ان کیلئے تقریبا ہر ایک نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعرض نہ کرے اور مشترک دفاع کا معاہدہ کیا تھا لیکن ان میں سے ہر گروہ نے بڑے نازک موقع پر اپنا معاہدہ توڑا اور اسلام سے اپنے بغض اور عناد کا مظاہرہ کیا تھا _ ذیل میں ایسی چند مثالوں اور ان عہدشکنی کرنیوالوں کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جو برتاؤ تھا اس کی طرف اشارہ کیا جائیگا_

بنی قینقاع کے یہودیوں کی پیمان شکنی

''بنی قینقاع '' یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ و جدال سے پرہیز کا معاہدہ کیا تھا لیکن ابھی کچھ دن نہ گذرے تھے کہ اسلام کو سرعت کے ساتھ ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے اپنا معاہدہ توڑڈالا ، اس گروہ نے افواہیں پھیلانا اور اسلام کے خلاف غلط قسم کے نعرے لگانا شروع کردیئے _

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قینقاع کے بازار میں تقریر کی اور انہیں بہت سختی سے خبردار کیا_

۹۲

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلمات سے نصیحت حاصل کرنے کے بجائے بنی قنیقاع کے یہودی جواب دینے پر اتر آئے اور کہنے لگے آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم کمزور و ناتواں ہیں اور قریش کی طرح جنگ کے رموز سے نا واقف ہیں ؟ آپ اس گروہ سے الجھ پڑے تھے جو جنگ کے اصولوں اور ٹیکنیک سے واقف نہیں تھا لیکن بنی قنیقاع والوں کی طاقت کا آپ کو اس وقت اندازہ ہو گا جب آپ میدان جنگ میں ان سے مقابلہ کیلئے اتریں گے _

ان تیزو تند باتوں نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے حوصلوں کو پست نہیں کیا بلکہ مسلمان تیار ہوگئے کہ کسی مناسب موقعہ پر ان کی رجز خوانی کا جواب دیں ،ایک دن ایک عرب عورت بنی قنیقاع کے بازار میں ایک یہودی سنا رکی دکان پر کچھ سامان بیچ رہی تھی اور اس حوالے سے محتاط تھی کہ کوئی اسکا چہرہ نہ دیکھے مگر بنی قینقاع کے کچھ یہودیوں کو اس کا چہرہ دیکھنے پر اصرار تھا لیکن چونکہ عورت اپنا چہرہ دکھانے پر تیار نہیں تھی اس لئے یہودی سنار نے اس عورت کے دامن کو اس کی پشت پر سی دیا _

تھوڑی دیر کے بعد وہ عورت اٹھی تو اس کے جسم کا کچھ حصہ نمایاں ہوگیا یہ دیکھ کر بنی قنیقاع کے کچھ جوانوں نے اس عورت کا مذاق اڑایا _

بنی قینقاع کا یہ عمل اعلانیہ طور پر پیغمبر سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو توڑ رہا تھا اس عورت کی حالت دیکھ کر ایک مسلمان کو طیش آگیا اس نے فورا اہتھیار نکالا اور اس یہودی سنا ر کو قتل کر ڈالا ، وہاں جو یہودی موجود تھے انہوں نے مل کر اس مسلمان کو بہت بری طرح قتل کیا _

۹۳

ایک مسلمان کے سننے خیز قتل کی خبر دوسرے مسلمانوں کے کان تک پہونچی ، بنی قنیقاع نے جب بگڑی ہوئی حالت دیکھی تو اپنے ان گھروں میں جاچھپے جو مضبوط قلعوں کے در میان بنے ہوئے تھے_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ دشمن کا محاصرہ کیا جائے مسلمانوں نے پندرہ روز تک قلعوں کا محاصرہ کیا اور کسی طرح کی امداد وہاں تک نہ پہونچنے دی _ قلعہ کے یہودی محاصرہ کی بناپر تنگ آگئے اور انہوں نے اپنے کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالہ کردیا_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو سخت تنبیہہ کی جائے لکن '' عبداللہ ابی '' کے اصرار پر جو مدینہ کا ایک منافق تھا مگر ظاہرمیں اسلام کا اظہار کیا کرتا تھا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سختی نہیں کی اور یہ طئے پایا کہ یہ لوگ اپنا اسلحہ اوراپنی دولت دیکر جتنی جلدی ہوسکے مدینہ کو ترک کردیں(۱)

۲_ بنی نضیر کے یہودیوں کی پیمان شکنی

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کئے ہوئے معاہدہ کو توڑنے والے '' بنی نضیر'' کے یہودی بھی تھے_

ایک دن ایک مسلمان نے قبیلہ بنی عامر کے ایسے دو آدمیوں کو جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معاہدہ کئے ہوئے تھے قتل کرڈالا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان لوگوں کا خون بہاء ادا کرنے

___________________

۱) ( مغازی واقدی ج۱ ص ۱۷۶ و ۱۷۸)_

۹۴

کے سلسلہ میں بنی نضیر کے یہودیوں سے مدد لینے اپنے چند اصحاب کے ساتھ ان کے یہاں گئے _ انہوں نے ظاہر بظاہر بڑی گرم جوشی سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا استقبال کیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک گھر کی دیوار کے سہارے کھڑے تھے اسی اثنا میں کھانا تناول فرمانے کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بلالیا اسی حال میں '' حی ابن خطب'' جو قبیلہ بنی نضیر کا سردار تھا جس نے بنی نضیر کے یہودیوں کی طرف سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہونے والے معاہدہ پر دستخط کئے تھے، خفیہ طور پر اس نے یہودیوں سے کہا کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے آج ان سے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہیئے _ آج جتنے کم افراد ان کے ساتھ ہیںاتنے کم افراد تو ان کے ساتھ کبھی بھی نہیں رہے ، ایک آدمی کوٹھے پر چڑھ گیا تا کہ سرپر ایک پتھر گرا کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کام تمام کردے خدا نے یہودیوں کی سازش سے پردہ اٹھادیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے برے ارادہ سے مطلع کردیا_

اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کام سے ایک طرف چلے گئے، اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واپس آنے کے منتظر رہے وہ لوگ بیٹھے رہے مگر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واپس نہیں آئے، وہ لوگ اٹھے کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھونڈھا جائے،اتنے میں ایک شخص وارد ہوا لوگوں نے اس سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں پوچھا اس نے کہا کہ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مدینہ میں دیکھا ہے اصحاب مدینہ پہونچے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چلے آنے کا سبب پوچھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: خدا نے مجھ کو اس سازش سے آگاہ کردیا تھا جو یہودیوں نے میرے خلاف کی تھی اسلئے میں وہاں سے چلا آیا_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ کےلئے نکلنے کا حکم دیا لشکر اسلام نے چھ روز تک بنی نضیر کے گھروں کا محاصرہ کیا چھ روز کے بعد خوف کی وجہ سے ان لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور کہا ہم یہاں

۹۵

سے چلے جانے کے لئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہم ہتھیار کے علاوہ اپنے تمام منقولہ سامان اپنے ساتھ لے جائینگے ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی شرط مان لی وہ اپنا تمام سامان حتی کہ دروازہ بھی اکھاڑ کر اونٹوںپر لاد کرلے گئے_(۱)

۳_بنی قریظہ کے یہودیوں کی عہد شکنی

پیمان شکن یہودیوں کے ساتھ رد عمل کے طور پر پیغمبر کا جو برتاؤ ہو تا اس میں شدید ترین برتاو بنی قریظہ کے عہد شکن یہودیوں کے ساتھ روا رکھا _ انہوں نے اس نازک زمانہ میں اپنا معاہدہ توڑا جس زمانہ میں مشرکین قریش نے تمام اسلام مخالف گروہوں سے مل کر بنے ہوئے ایک بڑے لشکر کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کاکام تمام کردینے کے ارادہ سے مدینہ پر حملہ کیا تھا بنی قریظہ کے لوگوں نے مشرکین مکہ کو پیغام بھیج کر دو ہزار کا لشکرمانگا تا کہ مدینہ کو نیست و نابود کردیں اور اندر سے مسلمانوں کو کھوکھلا کردیں_ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان خندق کی حفاظت کررہے تھے ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو افسر اور پانچ سو سپاہیوں کو معین کیا تا کہ شہر کے اندر گشت لگاکر پہرہ دیتے رہیں اور نعرہ تکبیر کی آواز بلند کرکے بنی قریظہ کے حملوں کو روکیں اس طرح صدائے تکبیر کو سن کر عورتوں اور بچوں کی ڈھارس بندھی رہے گی(۲)

___________________

۱) ( سیرہ ابن ہشام ج۳ ص ۱۹۹ _۲۰۰)_

۲) (مغازی واقدی ج۲ ص ۴۶۰)_

۹۶

جب مشرکین احزاب مسلمانوں سے ہارگئے اور بڑی بے عزتی سے میدان چھوڑ کر بھاگے تو پھر بنی قریظہ کے یہودیوں کی بار ی آئی_

ابھی جنگ احزاب کی تھکن اترنے بھی نہ پائی تھی کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قریظہ کے یہودیوں سے لڑنے کی آواز بلند کی اور لشکر اسلام نے فورا ان کے قلعے کا محاصرہ کرلیا_

بنی قریظہ کے یہودیوں نے جب اپنے کو خطرہ میں گھرا ہوا محسوس کیا تو انہوں نے پہلے تو یہ درخواست کی کہ تمام یہودیوں کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وہی ان کے ساتھ بھی ہو تا کہ وہ لوگ بھی اپنے قابل انتقال سامان کو لیکر مدینہ سے چلے جائیں لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول نہیں فرمایا اس کے بعد وہ اس بات پر تیار ہوئے کہ ان کے ہم پیمان '' سعد ابن معاذ'' جو فیصلہ کریں گے وہ بلاچون و چرا اس کو قبول کرلینگے پیغمبر نے بھی اس بات کو قبول کرلیا_

سعد ابن معاذ کہ جو تیر لگنے کی وجہ سے زخمی تھے، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب لایا گیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد سے کہا : کہ بنی قریظہ کے یہویوں کے بارے میں فیصلہ کرو_

۹۷

سعد ، جنہوں نے بنی قریظہ کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ عہد و پیمان دیکھا تھا اورجن کے پیش نظر جنگ احزاب میں یہودیوں کی عہد شکنی اور خیانت بھی تھی ، انہوں نے حکم دیا :

۱_ ان کے جنگ کرنے والے مردوں کو قتل کردیا جائے_

۲_ ان کے مال و اسباب کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے_

۳_ ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالیا جائے _(۱)

معاہدہ توڑنا وہ بھی ایسے موقع پر جب فریق مقابل کیلئے وہ معاہدہ زندگی کا مسئلہ ہو اس کی سزا یہی ہوسکتی ہے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس عمل سے بتایا کہ جب کوئی شخص یا کوئی گروہ کسی عہد و پیمان کو نظر انداز کردے تو پھر اس کاکوئی احترام نہیں رہ جاتا اور نہ اس کی کوئی قدر و قیمت باقی رہتی ہے _

___________________

۱) (مغازی واقدی ج ۲ ص ۵۰۲)_

۹۸

خلاصہ درس

۱) مدینہ میں بسنے والے یہودیوں نے ممکنہ خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی بھی قسم کی چھیڑ خانی نہ کرنے کا معاہدہ کیا _

۲) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جتنے معاہدے کئے ان سب میں ثابت قدم رہے _ کسی بھی معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہیں دیکھا گیا _

۳) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سماجی اور سیاسی معاہدہ توڑے جانے کی صورت میں کسی طرح کی چشم پوشی سے کام نہیں لیا اور معاہدہ توڑنے والوں کے ساتھ نہایت سخت برتاو کیا _

۴) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قینقاع اور بنی نضیر کے ان یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا جنہوں نے امن کے مانہ میں معاہدہ توڑا تھا لیکن بنی قریظہ کے یہودیوں کیساتھ جنہوں نے اسلام کے دشمنوں کی مددکی تھی سخت رویہ اختیار کیا اور سعد بن معاذ کے فیصلہ کے مطابق جنگ کرنے والے مردوں کو قتل کرڈالا ان کے مال کو ضبط کرلیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالایا_

۹۹

سوالات :

۱_ یہودیوں کے قبیلوں نے کس وجہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی _

۲_ یہودیوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کس طرح کا معاہدہ کیا ؟

۳_ یہودیوں کے سربرآوردہ افراد نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو معاہدہ کیا تھا اسکی شرطیں کیا تھیں ؟

۴_ بنی قینقاع کے یہودیوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا سلوک تھا ؟ اجمالی طور پر بیان کیجئے؟

۵_ بنی قریظہ کے یہودیوں نے دشمنان اسلام میں سے کس سے تعاون کیا ؟ ان کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

نِصْفاً - وإِنَّهُمْ لَيَطْلُبُونَ حَقّاً هُمْ تَرَكُوه ودَماً هُمْ سَفَكُوه - فَإِنْ كُنْتُ شَرِيكَهُمْ فِيه فَإِنَّ لَهُمْ نَصِيبَهُمْ مِنْه - وإِنْ كَانُوا وَلُوه دُونِي فَمَا الطَّلِبَةُ إِلَّا قِبَلَهُمْ - وإِنَّ أَوَّلَ عَدْلِهِمْ لَلْحُكْمُ عَلَى أَنْفُسِهِمْ –

وإِنَّ مَعِي لَبَصِيرَتِي مَا لَبَسْتُ ولَا لُبِسَ عَلَيَّ - وإِنَّهَا لَلْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ فِيهَا الْحَمَأُ والْحُمَّةُ - والشُّبْهَةُ الْمُغْدِفَةُ وإِنَّ الأَمْرَ لَوَاضِحٌ - وقَدْ زَاحَ الْبَاطِلُ عَنْ نِصَابِه - وانْقَطَعَ لِسَانُه عَنْ شَغْبِه -

وايْمُ اللَّه لأُفْرِطَنَّ لَهُمْ حَوْضاً أَنَا مَاتِحُه - لَا يَصْدُرُونَ عَنْه بِرِيٍّ - ولَا يَعُبُّونَ بَعْدَه فِي حَسْيٍ !

درمیان انصاف سے کام لیا ہے۔یہ ایک ایسے حق کا مطالبہ(۱) کر رہے ہیں جس کو خود انہوں نے نظر انداز کیا ہے اورایسے خون کابدلہ چاہتے ہیں جس کو خود انہوں نے بہایا ہے۔اگرمیں اس معاملہ میں شریک تھا تو ایک حصہ ان کا بھی ہوگا اور اگر یہ تنہا ذمہدار تھے تو مطالبہ خود انہیں سے ہونا چاہیے اور سب سے پہلے انہیں اپنے خلاف فیصلہ کرنا چاہیے۔

(الحمد للہ )میرے ساتھ میری بصیرت ہے نہ میں نے اپنے کو دھوکہ میں رکھا ہے اور نہ مجھے دھوکہ دیا جا سکا ہے۔یہ لوگ ایک باغی گروہ ہیں جن میں میرے قرابتدار بھی ہیں اور بچھو کا ڈنک بھی ہے اور پھرحقائق کی پردہ پوشی کرنے والے شبہ بھی ہے۔حالانکہ مسئلہ بالکل واضح ہے اور باطل اپنے مرکز سے ہٹ چکا ہے اور اس کی زبان شور و شغب کے سلسلہ میں کٹ چکی ہے۔

خدا کی قسم میں ان کے لئے ایسا حوض چھلکائوں گا جس سے پانی نکالنے والا بھی میں ہی ہوں گا۔یہ نہ اس سے سیراب ہو کر جا سکیں گے اور نہ اس کے بعد کسی تالاب سے پانی پینے کے لائق رہ سکیں گے ۔

(۱)یہ کاروبار زلیخا کے دور سے نسوانی فطرت میں داخل ہوگیا ہے کہ جب دنیا کی نگاہیں اپنی غلطی کی طرف اٹھنے لگیں تو فوراً دوسرے کی غلطی کا نعرہ لگادیا جائے تاکہمسئلہ مشتبہ ہو جائے اورلوگ حقائق کا صحیح ادراک نہ کر سکیں ۔قتل عثمان کے بعد یہی کام حضرت عائشہ نے کیا کہ پہلے لوگوں کو قتل عثمان پرآمادہ کیا۔اس کے بعد خود ہی خون عثمان کی دعویدار بن گئیں اور پھر ان کے ساتھ مل کر یہی زنانہ اقدام طلحہ و زبیر نے بھی کیا۔اسی لئے امیر المومنین نے آخر کلام میں اپنے مرد میدان ہونے کا اشارہ دیا ہے کہ مردان جنگ اس طرح کینسوانی حرکات نہیں کیا کرتے ہیں۔بلکہ شریف عورتیں بھی اپنے کو ایسے کردار سے ہمیشہ الگ رکھتی ہیں اور حق کا ساتھ دیتی ہیں یا حق پر قائم رہ جاتی ہے۔ان کے کردار میں دورنگی نہیں ہوتی ہے۔

۲۴۱

أمر البيعة

منه: - فَأَقْبَلْتُمْ إِلَيَّ إِقْبَالَ الْعُوذِ الْمَطَافِيلِ عَلَى أَوْلَادِهَا - تَقُولُونَ الْبَيْعَةَ الْبَيْعَةَ - قَبَضْتُ كَفِّي فَبَسَطْتُمُوهَا - ونَازَعَتْكُمْ يَدِي فَجَاذَبْتُمُوهَا - اللَّهُمَّ إِنَّهُمَا قَطَعَانِي وظَلَمَانِي - ونَكَثَا بَيْعَتِي وأَلَّبَا النَّاسَ عَلَيَّ - فَاحْلُلْ مَا عَقَدَا ولَا تُحْكِمْ لَهُمَا مَا أَبْرَمَا - وأَرِهِمَا الْمَسَاءَةَ فِيمَا أَمَّلَا وعَمِلَا - ولَقَدِ اسْتَثَبْتُهُمَا قَبْلَ الْقِتَالِ - واسْتَأْنَيْتُ بِهِمَا أَمَامَ الْوِقَاعِ - فَغَمَطَا النِّعْمَةَ ورَدَّا الْعَافِيَةَ.

(۱۳۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يومئ فيها إلى ذكر الملاحم

يَعْطِفُ الْهَوَى عَلَى الْهُدَى - إِذَا عَطَفُوا الْهُدَى عَلَى الْهَوَى - ويَعْطِفُ الرَّأْيَ عَلَى الْقُرْآنِ - إِذَا عَطَفُوا الْقُرْآنَ عَلَى الرَّأْيِ.

ومنها - حَتَّى تَقُومَ الْحَرْبُ بِكُمْ عَلَى سَاقٍ بَادِياً نَوَاجِذُهَا - مَمْلُوءَةً أَخْلَافُهَا

مسئلہ بیعت

تم لوگ'' کل '' بیعت بیعت کا شور مچاتے ہوئے میری طرف اس طرح آئے تھے جس طرح نبی جننے والی اونٹنی اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہے۔میں نے اپنی مٹھی بند کرلی مگر تم نے کھول دی۔میں نے اپنا ہاتھ روک لیا مگر تم نے کھینچ لیا۔خدایا تو گواہ رہنا کہ ان دونوں نے مجھ سے قطع تعلق کرکے مجھ پر ظلم کیا ہے اور میری بیعت توڑ کرل وگوں کو میرے خلاف اکسایا ہے ۔ اب تو ان کی گرہوں کو کھول دے اور جورسی انہوں نے بٹی ہے اس میں استحکام نہ پیدا ہونے دے اور انہیں ان کی امیدوں اور ان کے اعمال کے بد ترین نتائج کو دکھلادے۔میں نے جنگ سے پہلے انہیں بہت روکنا چاہا اور میدان جہاد میں اترنے سے پہلے بہت کچھ مہلت دی۔ لیکن ان دونوں نے نعمت کا انکار کردیا اور عافیت کو رد کردیا۔

(۱۳۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں مستقبل کے حوادث کا اشارہ ہے)

وہ بندہ ٔ خدا خواہشات کو ہدایت کی طرف موڑدے گا جب لوگ ہدایت کو خواہشات کی طرف موڑ رہے ہوں گے اوروہ رائے کو قرآن کی طرف جھکا دے گا جب لوگ قرآن کو رائے کی طرف جھکا رہے ہوں گے۔

(دوسرا حصہ) یہاں تک کہ جنگ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی دانت نکالے ہوئے اورتھنوں کوپر کئے ہوئے۔لیکن

۲۴۲

حُلْواً رَضَاعُهَا عَلْقَماً عَاقِبَتُهَا - أَلَا وفِي غَدٍ وسَيَأْتِي غَدٌ بِمَا لَا تَعْرِفُونَ - يَأْخُذُ الْوَالِي مِنْ غَيْرِهَا عُمَّالَهَا عَلَى مَسَاوِئِ أَعْمَالِهَا - وتُخْرِجُ لَه الأَرْضُ أَفَالِيذَ كَبِدِهَا - وتُلْقِي إِلَيْه سِلْماً مَقَالِيدَهَا - فَيُرِيكُمْ كَيْفَ عَدْلُ السِّيرَةِ - ويُحْيِي مَيِّتَ الْكِتَابِ والسُّنَّةِ.

منها - كَأَنِّي بِه قَدْ نَعَقَ بِالشَّامِ - وفَحَصَ بِرَايَاتِه فِي ضَوَاحِي كُوفَانَ - فَعَطَفَ عَلَيْهَا عَطْفَ الضَّرُوسِ - وفَرَشَ الأَرْضَ بِالرُّءُوسِ - قَدْ فَغَرَتْ فَاغِرَتُه وثَقُلَتْ فِي الأَرْضِ وَطْأَتُه بَعِيدَ الْجَوْلَةِ عَظِيمَ الصَّوْلَةِ - واللَّه لَيُشَرِّدَنَّكُمْ فِي أَطْرَافِ الأَرْضِ - حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْكُمْ إِلَّا قَلِيلٌ كَالْكُحْلِ فِي الْعَيْنِ - فَلَا تَزَالُونَ كَذَلِكَ - حَتَّى تَئُوبَ إِلَى الْعَرَبِ عَوَازِبُ أَحْلَامِهَا - فَالْزَمُوا السُّنَنَ الْقَائِمَةَ والآثَارَ الْبَيِّنَةَ - والْعَهْدَ الْقَرِيبَ الَّذِي عَلَيْه بَاقِي النُّبُوَّةِ - واعْلَمُوا أَنَّ الشَّيْطَانَ - إِنَّمَا يُسَنِّي لَكُمْ طُرُقَه لِتَتَّبِعُوا عَقِبَه.

اس طرح کہ اس کا دودھ پینے میں شیریں معلوم ہوگا اور اسکا انجام بہت برا ہوگا۔یاد رکھو کہ کل اور کل بہت(۱) جلد وہ حالات لے کر آنے والا ہے جس کاتمہیں اندازہ نہیں ہےاس جماعت سے باہر کا والی تمام عمال کی بد اعمالیوں کا محاسبہ کرے گا اورزمین تمام جگرکے ٹکڑوں کو نکال دےگی اور نہایت آسانی کےساتھ اپنی کنجیاں اسکے حوالہ کردے گی اور پھروہ تمہیں دکھلائے گا کہ عادلانہ سیرت کیا ہوتی ہےاورمردہ کتاب و سنت کوکس طرح زندہ کیا جاتا ہے۔

(تیسرا حصہ)میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ ایک شخص شام میں للکار رہاہے اورکوفہ کے گرد اس کے جھنڈے لہرا رہے ہیں وہ اس کی طرف کاٹنے والی اونٹنی کی طرح متوجہ ہے اور زمین پر سروں کا فرش بچھا رہا ہے۔اس کا منہ کھلا ہوا ہے اور زمین پراس کی دھمک محسوس ہو رہی ہے۔وہ دور دورتک جولانیاں دکھلانے والا ہے اورشدید ترین حملے کرنے والا ہےخداکی قسم وہ تمہیں اطراف زمین میں اس طرح منتشر کردےگا کہ صرف اتنے ہی آدمی باقی رہ جائیںگے جیسے آنکھ میں سرمہ۔اورپھرتمہارا یہی حشررہےگا۔یہاں تک کہ عربوں کی گم شدہ عقل پلٹ کرآجائے لہٰذا ابھی غنیمت ہےمضبوط طریقہ' واضح آثار اوراس قریبی عہدسے وابستہ رہوجس میں نبوت کےپائیدار آثار ہیں اوری ہ یاد رکھوکہ شیطان اپنےراستوں کو ہموار رکھتا ہے تاکہ تم اسکےنقش قدم پربرابرچلتے رہو۔

(۱)انسانیت اس عہد زریں کے لئے سراپا انتظار ہے جب خدائی نمائندہ دنیا کے تمام حکام کا محاسبہ کرکے عدل وانصاف کا نظام قائم کردے اور زمین اپنے تمام خزانے اگل دے۔دنیا میں راحت و اطمینان کا دور دورہ ہو اور دین خدا اقتدار کلی کا مالک ہو جائے

۲۴۳

(۱۳۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في وقت الشورى

لَنْ يُسْرِعَ أَحَدٌ قَبْلِي إِلَى دَعْوَةِ حَقٍّ - وصِلَةِ رَحِمٍ وعَائِدَةِ كَرَمٍ - فَاسْمَعُوا قَوْلِي وعُوا مَنْطِقِي - عَسَى أَنْ تَرَوْا هَذَا الأَمْرَ مِنْ بَعْدِ هَذَا الْيَوْمِ - تُنْتَضَى فِيه السُّيُوفُ وتُخَانُ فِيه الْعُهُودُ - حَتَّى يَكُونَ بَعْضُكُمْ أَئِمَّةً لأَهْلِ الضَّلَالَةِ - وشِيعَةً لأَهْلِ الْجَهَالَةِ.

(۱۴۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في النهي عن غيبة الناس

وإِنَّمَا يَنْبَغِي لأَهْلِ الْعِصْمَةِ والْمَصْنُوعِ إِلَيْهِمْ فِي السَّلَامَةِ - أَنْ يَرْحَمُوا أَهْلَ الذُّنُوبِ والْمَعْصِيَةِ - ويَكُونَ الشُّكْرُ هُوَ الْغَالِبَ عَلَيْهِمْ - والْحَاجِزَ لَهُمْ عَنْهُمْ - فَكَيْفَ بِالْعَائِبِ الَّذِي عَابَ أَخَاه وعَيَّرَه بِبَلْوَاه - أَمَا ذَكَرَ مَوْضِعَ سَتْرِ اللَّه عَلَيْه مِنْ ذُنُوبِه - مِمَّا هُوَ أَعْظَمُ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِي عَابَه بِه - وكَيْفَ يَذُمُّه بِذَنْبٍ قَدْ رَكِبَ مِثْلَه

(۱۳۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(شوریٰ کے موقع پر)

(یاد رکھو )کہ مجھ سے پہلے حق کی دعوتدت نے والا صلہ رحم کرنے والا اور جود و کرم کا مظاہرہ کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔لہٰذا میرے قول پر کان دھرو اورمیری گفتگو کو سمجھو کہ عنقریب تم دیکھوگے کہ اس مسئلہ پر تلواریں نکل رہی ہیں ۔عہد و پیمان توڑے جا رہے ہیں اورتم میں سے بعض گمراہوں کے پیشوا ہوئے جا رہے ہیں اوربعض جاہلوں کے پیرو کار۔

(۱۴۰)

آپ کا ارشادگرامی

(لوگوں کو برائی سے روکتے ہوئے )

دیکھو جو لوگ گناہوں سے محفوظ ہیں اور خدانے ان پر اس سلامتی کا احسان کیا ہے ان کے شایان شان یہی ہے کہ گناہ گاروں اورخطا کاروں پر رحم کریں اور اپنی سلامتی کاشکریہ ہی ان پرغالب رہے اور انہیں ان حرکات سے روکتا رہے۔چہ مائیکہ انسان خودعیب دار ہواور اپنے بھائی کا عیب بیان کرے اور اس کے عیب کی بنا پراس کی سرزنش بھی کرے۔یہ شخص یہ کیوں نہیں یاد کرتاہے کہ پروردگارنے اس کے جن عیوب کوچھپا کر رکھا ہے وہ اس سے بڑے ہیں جن پر یہسرزنش کر رہا ہے اوراس عیب پر کس طرح مذمت کر رہاہے جس کاخود مرتکب ہوتاہے

۲۴۴

فَإِنْ لَمْ يَكُنْ رَكِبَ ذَلِكَ الذَّنْبَ بِعَيْنِه - فَقَدْ عَصَى اللَّه فِيمَا سِوَاه مِمَّا هُوَ أَعْظَمُ مِنْه - وايْمُ اللَّه لَئِنْ لَمْ يَكُنْ عَصَاه فِي الْكَبِيرِ - وعَصَاه فِي الصَّغِيرِ لَجَرَاءَتُه عَلَى عَيْبِ النَّاسِ أَكْبَرُ.

يَا عَبْدَ اللَّه لَا تَعْجَلْ فِي عَيْبِ أَحَدٍ بِذَنْبِه - فَلَعَلَّه مَغْفُورٌ لَه ولَا تَأْمَنْ عَلَى نَفْسِكَ صَغِيرَ مَعْصِيَةٍ - فَلَعَلَّكَ مُعَذَّبٌ عَلَيْه - فَلْيَكْفُفْ مَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ عَيْبَ غَيْرِه لِمَا يَعْلَمُ مِنْ عَيْبِ نَفْسِه - ولْيَكُنِ الشُّكْرُ شَاغِلًا لَه عَلَى مُعَافَاتِه مِمَّا ابْتُلِيَ بِه غَيْرُه.

(۱۴۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في النهي عن سماع الغيبة وفي الفرق بين الحق والباطل

أَيُّهَا النَّاسُ - مَنْ عَرَفَ مِنْ أَخِيه وَثِيقَةَ دِينٍ وسَدَادَ طَرِيقٍ - فَلَايَسْمَعَنَّ فِيه أَقَاوِيلَ الرِّجَالِ - أَمَا إِنَّه قَدْ يَرْمِي الرَّامِي - وتُخْطِئُ السِّهَامُ ويُحِيلُ الْكَلَامُ - وبَاطِلُ ذَلِكَ يَبُورُ واللَّه سَمِيعٌ وشَهِيدٌ - أَمَا إِنَّه لَيْسَ بَيْنَ الْحَقِّ والْبَاطِلِ إِلَّا أَرْبَعُ أَصَابِعَ.

فسئلعليه‌السلام عن معنى قوله هذا -

اور اگر بعینہ اس کامرتکب نہیں ہوتا ہے تو اس کے علاوہ دوسرے گناہ کرتا ہے جو اس سے بھی عظیم تر ہیں اورخدا کی قسم اگر اس سے عظیم تر نہیں بھی ہیں تو کمتر تو ضرور ہی ہیں اور ایسی صورت میں برائی کرنے اور سرزنش کرنے کی جرأت بہر حال اس سے بھی عظیم تر ہے۔ بندہ خدا:دوسرے کے عیب بیان کرنے میں جلدی نہ کر شائد خدانے اسے معاف کردیا ہو اوراپنے نفس معمولی گناہکے بارے میں محفوظ تصور نہ کر۔شائد کہ خدا اسی پر عذاب کردے۔ہر شخص کو چاہیے کہ دوسرے کے عیب بیان کرنے سے پرہیز کرے کہ اسے اپنا عیب بھی معلومہے اور اگر عیب سے محفوظ ہے تو اس سلامتی کے شکریہ ہی میں مشغول رہے ۔

(۱۴۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں غیبت کے سننے سے روکا گیاہے اورحق و باطل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے )

لوگو! جو شخص بھی اپنے بھائی کے دین کی پختگی اور طریقہ کار کی درستگی کا علم رکھتا ہے اسے اس کے بارے میں دوسروں کے اقوال پر کان نہیں دھرنا چاہیے کہ کبھی کبھی انسان تیر اندازی کرتا ہے اوراس کا تیرخطاکرجاتا ہے اورباتیں بناتا ہے اور حرف باطل بہر حال فنا ہو جاتا ہے اوراللہ سب کا سننے والا بھی ہے اور گواہ بھی ہے۔یاد رکھو کہ حق و باطل میں صرف چار انگلیوں کا فاصلہ ہوتاہے۔

لوگوں نے عرض کی حضور اس کا کیا مطلب ہے ؟

۲۴۵

فجمع أصابعه ووضعها بين أذنه وعينه ثم قال الْبَاطِلُ أَنْ تَقُولَ سَمِعْتُ - والْحَقُّ أَنْ تَقُولَ رَأَيْتُ!

(۱۴۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

المعروف في غير أهله

ولَيْسَ لِوَاضِعِ الْمَعْرُوفِ فِي غَيْرِ حَقِّه - وعِنْدَ غَيْرِ أَهْلِه مِنَ الْحَظِّ فِيمَا أَتَى إِلَّا مَحْمَدَةُ اللِّئَامِ - وثَنَاءُ الأَشْرَارِ ومَقَالَةُ الْجُهَّالَ - مَا دَامَ مُنْعِماً عَلَيْهِمْ مَا أَجْوَدَ يَدَه - وهُوَ عَنْ ذَاتِ اللَّه بِخَيْلٌ!

مواضع المعروف

فَمَنْ آتَاه اللَّه مَالًا فَلْيَصِلْ بِه الْقَرَابَةَ - ولْيُحْسِنْ مِنْه الضِّيَافَةَ ولْيَفُكَّ بِه الأَسِيرَ والْعَانِيَ - ولْيُعْطِ مِنْه الْفَقِيرَ والْغَارِمَ - ولْيَصْبِرْ نَفْسَه عَلَى الْحُقُوقِ والنَّوَائِبِ ابْتِغَاءَ الثَّوَابِ - فَإِنَّ فَوْزاً بِهَذِه الْخِصَالِ شَرَفُ مَكَارِمِ الدُّنْيَا - ودَرْكُ فَضَائِلِ الآخِرَةِ إِنْ شَاءَ اللَّه.

تو آپ نے آنکھ اور کان کے درمیان چار انگلیاں رکھ کر فرمایا کہ باطل وہ ہے جو صرف سنا سنایاہوتا ہے اورحق وہ ہے جو اپنی آنکھ کا دیکھا ہوا ہوتا ہے۔

(۱۴۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(نا اہل کے ساتھ احسان کرنے کے بارے میں )

یاد رکھو غیر مستحق کے ساتھ احسان کرنے والے اورنا اہل کے ساتھ نیکی کرنے والے کے حصہ میں کمینے لوگوں کی تعریف اوربدترین افراد کی مدح و ثنا ہی آتی ہے اوروہ جب تک کرم کرتا رہتا ہے جہال کہتے رہتے ہیں کہ کس قدر کریم اورسخی ہے یہ شخص۔حالانکہ اللہ کے معاملہ میں یہی شخص بخیل بھی ہوتا ہے۔

(دیکھو اگر خدا کسی شخص کو مال دے تو اس کا فرض ہے کہ قرابتداروں(۱) کاخیال رکھے۔مہمانوں کی مہمان نوازی کرے۔قیدیوں اورخستہ حالوں کو آزاد کرائے۔فقیروں اور قرض داروں کی امداد کرے۔اپنے نفس کو حقوق کی ادائیگی اور مصائب پر آمادہ کرے کہ اس میں ثواب کی امید پائی جاتی ہے اور ان تمام خصلتوں کے حاصل کرنے ہی میں دنیا کی شرافتیں اور کرامتیں ہیں اور انہیں سے آخرت کے فضائل بھی حاصل ہوتے ہیں۔انشاء اللہ۔

(۱)اگر یہ بات صحیح ہے اور یقینا صحیح ہے کہ مال وہی بہتر ہوتا ہے جس کا مال اور انجام بہتر ہوتا ہے تو ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنے مال کو انہیں موارد میں صرف کرے جن کی طرف اس خطبہ میں اشارہ کیا گیا ہے ورنہ بے محل صرف سے جاہلوں اور بد کرداروں کی تعریف کے علاوہ کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے اور اس میں نہ خیر دنیا ہے اور نہ خیر آخرت۔بلکہ یہ دنیا اور آخرت دونوں کی تباہی اور بربادی کا سبب ہے۔پروردگار ہر شخص کو اس جہالت اور ریا کاری سے محفوظ رکھے ۔

۲۴۶

(۱۴۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الاستسقاء

وفيه تنبيه العباد وجوب استغاثة رحمة اللَّه إذا حبس عنهم رحمة المطر

أَلَا وإِنَّ الأَرْضَ الَّتِي تُقِلُّكُمْ - والسَّمَاءَ الَّتِي تُظِلُّكُمْ مُطِيعَتَانِ لِرَبِّكُمْ - ومَا أَصْبَحَتَا تَجُودَانِ لَكُمْ بِبَرَكَتِهِمَا تَوَجُّعاً لَكُمْ - ولَا زُلْفَةً إِلَيْكُمْ ولَا لِخَيْرٍ تَرْجُوَانِه مِنْكُمْ - ولَكِنْ أُمِرَتَا بِمَنَافِعِكُمْ فَأَطَاعَتَا - وأُقِيمَتَا عَلَى حُدُودِ مَصَالِحِكُمْ فَقَامَتَا.

إِنَّ اللَّه يَبْتَلِي عِبَادَه عِنْدَ الأَعْمَالِ السَّيِّئَةِ - بِنَقْصِ الثَّمَرَاتِ وحَبْسِ الْبَرَكَاتِ - وإِغْلَاقِ خَزَائِنِ الْخَيْرَاتِ لِيَتُوبَ تَائِبٌ - ويُقْلِعَ مُقْلِعٌ ويَتَذَكَّرَ مُتَذَكِّرٌ ويَزْدَجِرَ مُزْدَجِرٌ - وقَدْ جَعَلَ اللَّه سُبْحَانَه الِاسْتِغْفَارَ سَبَباً - لِدُرُورِ الرِّزْقِ ورَحْمَةِ الْخَلْقِ فَقَالَ سُبْحَانَه -( اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّه كانَ غَفَّاراً - يُرْسِلِ السَّماءَ عَلَيْكُمْ مِدْراراً - ويُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وبَنِينَ - ويَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ ويَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهاراً ) - فَرَحِمَ اللَّه امْرَأً

(۱۴۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(طلب بارش کے سلسلہ میں )

یاد رکھو کہ جو زمین تمہارا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے اور جو آسمان تمہارے سر پر سایہ فگن ہے دونوں تمہارے رب کے اطاعت گذار ہیں اور یہ جو اپنی برکتیں تمہیں عطا کر رہے ہیں تو ان کا دل تمہارے حال پر نہیں کڑھ رہا ہے۔اور نہ یہ تم سے تقرب چاہتے ہیں اورنہکسی خیر کے امیدوار ہیں۔بات صرف یہ ہے کہ انہیں تمہارے فائدوں کے بارے میں حکم دے دیا گیا ہے تو یہ اطاعت پروردگار کر رہے ہیں اور انہیں تمہارے مصالح کے حدود پرکھڑا کردیا گیا ہے تو کھڑے ہوئے ہیں۔

یاد رکھو کہ اللہ بد اعمالیوں کے موقع پر اپنے بندوں کو ان مصائب میں مبتلا کردیتا ہے کہ پھل گم ہو جاتے ہیں ۔برکتیں رک جاتی ہیں۔خیرات کے خزانوں کے منہ بند ہو جاتے ہیں تاکہ توبہ کرنے والا توبہ کرلے اور بازآجانے والا بازآجائے۔نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرلے اور گناہوں سے رکنے والا رک جائے ۔ پروردگارنے استغفار کو رزق کے نزول اور مخلوقات پررحمت کے ورود کاذریعہ قرار دے دیا ہے۔اس کا ارشاد گرامی ہے کہ '' اپنے رب سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔وہ استغفار کے نتیجہ میں تم پرموسلا دھار پانی برسائے گا۔تمہاری اموال اور اولاد کے ذریعہ مدد کرے گا۔تمہارے لئے باغات اورنہریں قراردے گا'' اللہ اس بندہ پر رحم کرے

۲۴۷

اسْتَقْبَلَ تَوْبَتَه - واسْتَقَالَ خَطِيئَتَه وبَادَرَ مَنِيَّتَه.

اللَّهُمَّ إِنَّا خَرَجْنَا إِلَيْكَ مِنْ تَحْتِ الأَسْتَارِ والأَكْنَانِ - وبَعْدَ عَجِيجِ الْبَهَائِمِ والْوِلْدَانِ - رَاغِبِينَ فِي رَحْمَتِكَ ورَاجِينَ فَضْلَ نِعْمَتِكَ - وخَائِفِينَ مِنْ عَذَابِكَ ونِقْمَتِكَ - اللَّهُمَّ فَاسْقِنَا غَيْثَكَ ولَا تَجْعَلْنَا مِنَ الْقَانِطِينَ - ولَا تُهْلِكْنَا بِالسِّنِينَ - ولَا تُؤَاخِذْنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ - اللَّهُمَّ إِنَّا خَرَجْنَا إِلَيْكَ - نَشْكُو إِلَيْكَ مَا لَا يَخْفَى عَلَيْكَ - حِينَ أَلْجَأَتْنَا الْمَضَايِقُ الْوَعْرَةُ وأَجَاءَتْنَا الْمَقَاحِطُ الْمُجْدِبَةُ - وأَعْيَتْنَا الْمَطَالِبُ الْمُتَعَسِّرَةُ - وتَلَاحَمَتْ عَلَيْنَا الْفِتَنُ الْمُسْتَصْعِبَةُ - اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ أَلَّا تَرُدَّنَا خَائِبِينَ - ولَا تَقْلِبَنَا وَاجِمِينَ ولَا تُخَاطِبَنَا بِذُنُوبِنَا - ولَا تُقَايِسَنَا بِأَعْمَالِنَا - اللَّهُمَّ انْشُرْ عَلَيْنَا غَيْثَكَ وبَرَكَتَكَ - ورِزْقَكَ ورَحْمَتَكَ واسْقِنَا سُقْيَا نَاقِعَةً مُرْوِيَةً مُعْشِبَةً

جو توبہ کی طرف متوجہ ہوجائے خطائوں سے معافی مانگے اور موت سے پہلے نیک اعمال کرلے۔

خدایا ہم پردوں کے پیچھے اور مکانات کے گوشوں سے تیری طرف نکل پڑے ہیں۔ہمارے بچے اور جانور سب فریادی ہیں۔ہم تیریر رحمت کی خواہش رکھتے ہیں۔تیری نعمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب اور غضب سے خوفزدہ ہیں۔خدایا ہمیں باران رحمت سے سیراب کردے اور ہمیں مایوس بندوں میں قرارنہدینا اور نہ قحط سے ہلاک کر دینا اور نہ ہم سے ان اعمال کا محاسبہ کرنا جوہمارے جاہلوں نے انجام دئیے ہیں۔اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

خدایا: ہم تیری طرف ان حالات کی فریاد لے کر آئے ہیں جو تجھ سے مخفی نہیں ہیں اور اس وقت نکلے ہیں جب ہمیں سخت تنگیوں نے مجبور کردیا ہے اور قحط سالیوں نے بے بس بنا دیا ہے اورشدید حاجت مندیوں نے لا چار کردیا ہے اور دشوار ترین فتنوں نے تابڑ توڑ حملے کر رکھے ہیں۔خدایا ہماری التماس یہ ہے کہ ہمیں محروم واپس نہ کرنا اور ہمیں نا مراد نہ پلٹانا ۔ہم سے ہمارے گناہوں کی بات نہکرنا اور ہمارے اعمال کا محاسبہ نہ کرنا بلکہ ہم پر اپنی بارش رحمت ' اپنی برکت ' اپنے رزق اور کرم کا دامن پھیلا دے اور ہمیں ایسی سیرابی عطا فرما جوتشنگی کو مٹانے والی۔سیرو سیراب کرنے والی اورسبزہ اگانے والی ہو۔تاکہ جو کھیتیاں گئی گذری ہوگئی ہیں دوبارہ اگ آئیں اور جو زمینیں مردہ ہوگئی ہیں وہ زندہ ہو جائیں۔یہ سیرابی فائدہ مند اور بے پناہ پھلوں والی ہو جس سے ہموار زمینیں سیراب ہو جائیں

۲۴۸

تُنْبِتُ بِهَا مَا قَدْ فَاتَ وتُحْيِي بِهَا مَا قَدْ مَاتَ - نَافِعَةَ الْحَيَا كَثِيرَةَ الْمُجْتَنَى تُرْوِي بِهَا الْقِيعَانَ - وتُسِيلُ الْبُطْنَانَ وتَسْتَوْرِقُ الأَشْجَارَ وتُرْخِصُ الأَسْعَارَ إِنَّكَ عَلَى مَا تَشَاءُ قَدِيرٌ.

(۱۴۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

مبعث الرسل

بَعَثَ اللَّه رُسُلَه بِمَا خَصَّهُمْ بِه مِنْ وَحْيِه - وجَعَلَهُمْ حُجَّةً لَه عَلَى خَلْقِه - لِئَلَّا تَجِبَ الْحُجَّةُ لَهُمْ بِتَرْكِ الإِعْذَارِ إِلَيْهِمْ - فَدَعَاهُمْ بِلِسَانِ الصِّدْقِ إِلَى سَبِيلِ الْحَقِّ - أَلَا إِنَّ اللَّه تَعَالَى قَدْ كَشَفَ الْخَلْقَ كَشْفَةً - لَا أَنَّه جَهِلَ مَا أَخْفَوْه مِنْ مَصُونِ أَسْرَارِهِمْ - ومَكْنُونِ ضَمَائِرِهِمْ – ولَكِنْ لِيَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا - فَيَكُونَ الثَّوَابُ جَزَاءً والْعِقَابُ بَوَاءً

فضل أهل البيت

أَيْنَ الَّذِينَ زَعَمُوا أَنَّهُمُ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ دُونَنَا - كَذِباً وبَغْياً عَلَيْنَا أَنْ رَفَعَنَا اللَّه ووَضَعَهُمْ - وأَعْطَانَا وحَرَمَهُمْ وأَدْخَلَنَا وأَخْرَجَهُمْ - بِنَا يُسْتَعْطَى الْهُدَى

اور وادیاں بہہ نکلیں۔درختوں میں پتے نکل آئیں اور بازار کی قیمتیں نیچے آجائیں کہ تو ہرشے پر قادر ہے۔

(۱۴۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں بعثت انبیاء کاتذکرہ کیا گیا ہے)

پروردگار نے مرسلین کرام کو مخصوص وحی سے نواز کر بھیجاہے اور انہیں اپنے بندوں پر اپنی حجت بنادیا ہے تاکہ بندوں کی یہ حجت تمام نہ ہونے پائے کہ ان کے عذر کاخاتمہ نہیں کیا گیا ہے۔پروردگار نے ان لوگوں کو اسی لسان صدق کے ذریعہ راہ حق کی طرف دعوت دی ہے۔اسے مخلوقات کاحال مکمل طور سے معلوم ہے وہ نہ ان کے چھپے ہوئے اسرارسے بے خبر ہے اورنہ ان پوشیدہ باتوں سے نا واقف ہے جو ان کے دلوں کے اندر مخفی ہے۔ وہ اپنے احکام کے ذریعہ ان کا امتحان لینا چاہتا ہے کہ حسن عمل کے اعتبارسے کون سب سے بہتر ہے تاکہ جزاء میں ثواب عطا کرے اور پاداش میں مبتلائے عذاب کردے۔

(اہل بیت علیہم السلام)

کہاں ہیں وہ لوگ جن کاخیال یہ ہے کہ ہمارے بجائے وہی راسخون فی العلم ہیں اوریہ خیال صرف جھوٹ اور ہمارے خلاف بغاوت سے پیدا ہوا ہےکہ خدانے ہمیں بلند بنادیا ے اورانہیں پست رکھا ہےہمیں کمالات عنایت فرما دئیے ہیں اور انہیں محروم رکھاہےہمیں اپنی رحمت میں داخل کرلیاہےاورانہیں باہررکھا ہے ہمارے ہی ذریعہ سے ہدایت

۲۴۹

ويُسْتَجْلَى الْعَمَى - إِنَّ الأَئِمَّةَ مِنْ قُرَيْشٍ - غُرِسُوا فِي هَذَا الْبَطْنِ مِنْ هَاشِمٍ لَا تَصْلُحُ عَلَى سِوَاهُمْ - ولَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ مِنْ غَيْرِهِمْ.

أهل الضلال

منها: - آثَرُوا عَاجِلًا وأَخَّرُوا آجِلًا - وتَرَكُوا صَافِياً وشَرِبُوا آجِناً - كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى فَاسِقِهِمْ وقَدْ صَحِبَ الْمُنْكَرَ فَأَلِفَه - وبَسِئَ بِه ووَافَقَه حَتَّى شَابَتْ عَلَيْه مَفَارِقُه - وصُبِغَتْ بِه خَلَائِقُه - ثُمَّ أَقْبَلَ مُزْبِداً كَالتَّيَّارِ لَا يُبَالِي مَا غَرَّقَ - أَوْ كَوَقْعِ النَّارِ فِي الْهَشِيمِ لَا يَحْفِلُ مَا حَرَّقَ!

أَيْنَ الْعُقُولُ الْمُسْتَصْبِحَةُ بِمَصَابِيحِ الْهُدَى - والأَبْصَارُ اللَّامِحَةُ إِلَى مَنَارِ التَّقْوَى - أَيْنَ الْقُلُوبُ الَّتِي وُهِبَتْ لِلَّه وعُوقِدَتْ عَلَى طَاعَةِ اللَّه - ازْدَحَمُوا عَلَى الْحُطَامِ وتَشَاحُّوا عَلَى الْحَرَامِ - ورُفِعَ لَهُمْ عَلَمُ الْجَنَّةِ والنَّارِ - فَصَرَفُوا عَنِ الْجَنَّةِ وُجُوهَهُمْ - وأَقْبَلُوا إِلَى النَّارِ بِأَعْمَالِهِمْ - ودَعَاهُمْ رَبُّهُمْ فَنَفَرُوا ووَلَّوْا - ودَعَاهُمُ الشَّيْطَانُ فَاسْتَجَابُوا وأَقْبَلُوا!

طلب کی جاتی ہےاوراندھیروں میں روشنی حاصل کی جاتی ہے۔یاد رکھو قریش کےسارے امام جناب ہاشم کی اسی کشت زار میں قرار دئیے گئے ہیں اوریہ امامت نہ انکے علاوہ کسی کوزیب دیتی ہےاورنہ ان سے باہرکوئی اسکااہل ہوسکتا ہے۔

(گمراہ لوگ)

ان لوگوں نے حاضر دنیا کو اختیار کرلیا ہے اور دیرمیں آنے والی آخرت کو پیچھے ہٹا دیا ہے ۔صاف پانی کو نظر انداز کردیا ہے اور گندہ پانی کو پی لیا ہے۔گویا کہ میں ان کے فاسق کو دیکھ رہا ہوں جو منکرات سے مانوس ہے اور برئیوں سے ہم رنگ وہم آہنگ ہوگیا ہے۔یہاں تک کہ اسی ماحول میں اس کے سر کے بال سفید ہوگئے ہیں۔اور اسی رنگ میں اس کے اخلاقیات رنگ گئے ہیں۔اس کے بعد ایک سیلاب کی طرح اٹھا ہے جسے اس کی فکر نہیں ہے کہ کس کو ڈیو دیا ہے اور بھوسہ کی ایک آگ ہے جسے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ کیا کیا جلا دیا ہے۔ کہاں ہیں وہ عقلیں جو ہدایت کے چراغوں سے روشنی حاصل کرنے والی ہیں اور کہاں ہیں وہ نگاہیں جو منارۂ تقویٰ کی طرف نظر کرنے وال یہیں۔کہاں ہیں وہ دل جو اللہ کے لئے دئیے گئے ہیں اور اطاعت خدا پر جم گئے ہیں۔لوگ تو مال دنیا پر ٹوٹ پڑے ہیں اور حرام پر باقاعدہ جھگڑا کر رہے ہیں اور جب جنت و جہنم کا پرچم بلند کیا گیا تو جنت کی طرف سے منہ کو موڑ لیا اور اپنے اعمال کے ساتھ جہنم کی طرف متوجہ ہوگئے۔ان کے پروردگار نے انہیں بلایا تو منہ پھیر کر بھاگ نکلے اور شیطان نے دعوت دی تو لبیک کہتے ہوئے آگئے۔

۲۵۰

(۱۴۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

فناء الدنيا

أَيُّهَا النَّاسُ - إِنَّمَا أَنْتُمْ فِي هَذِه الدُّنْيَا غَرَضٌ تَنْتَضِلُ فِيه الْمَنَايَا - مَعَ كُلِّ جَرْعَةٍ شَرَقٌ وفِي كُلِّ أَكْلَةٍ غَصَصٌ - لَا تَنَالُونَ مِنْهَا نِعْمَةً إِلَّا بِفِرَاقِ أُخْرَى - ولَا يُعَمَّرُ مُعَمَّرٌ مِنْكُمْ يَوْماً مِنْ عُمُرِه - إِلَّا بِهَدْمِ آخَرَ مِنْ أَجَلِه - ولَا تُجَدَّدُ لَه زِيَادَةٌ فِي أَكْلِه إِلَّا بِنَفَادِ مَا قَبْلَهَا مِنْ رِزْقِه - ولَا يَحْيَا لَه أَثَرٌ إِلَّا مَاتَ لَه أَثَرٌ - ولَا يَتَجَدَّدُ لَه جَدِيدٌ إِلَّا بَعْدَ أَنْ يَخْلَقَ لَه جَدِيدٌ - ولَا تَقُومُ لَه نَابِتَةٌ إِلَّا وتَسْقُطُ مِنْه مَحْصُودَةٌ - وقَدْ مَضَتْ أُصُولٌ نَحْنُ فُرُوعُهَا - فَمَا بَقَاءُ فَرْعٍ بَعْدَ ذَهَابِ أَصْلِه!

ذم البدعة

منها - ومَا أُحْدِثَتْ بِدْعَةٌ إِلَّا تُرِكَ بِهَا سُنَّةٌ - فَاتَّقُوا الْبِدَعَ والْزَمُوا الْمَهْيَعَ - إِنَّ عَوَازِمَ الأُمُورِ أَفْضَلُهَا - وإِنَّ مُحْدِثَاتِهَا شِرَارُهَا.

(۱۴۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(دنیا کی فنا کے بارے میں )

لوگو! تم اس دنیا میں زندگی گذار رہے ہو جہاں موت کے تیروں کے مستقل ہدف ہو۔یہاں ہر گھونٹ کے ساتھ اچھو ہے اور ہر لقمہ کے ساتھ گلے کا پھندہ۔یہاں کوئی نعمت اس وقت تک نہیں ملتی ہے جب تک دوسری ہاتھ سے نکل نہ جائے اور یہاں کی زندگی میں ایک دن کابھی اضافہ نہیں ہوتا ہے جب تک ایک دن کم نہ ہو جائے یہاں کے کھانے میں زیادتی بھی پہلے رزق کے خاتمہ کے بعد ہاتھ آتی ہے اور کوئی اثر بھی پہلے نشان کے مٹ جانے کے بعد ہی زندہ ہوتا ہے۔ہر جدید کے لئے ایک جدید کو قدیم بننا پڑتا ہے اور ہر گھاس کے اگنے کے لئے ایک کھیت کو کاٹنا پڑتا ہے۔پرانے بزرگ جو ہماری اصل تھے گزر گئے اب ہم ان کی شاخیں ہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ اصل کے چلے جانے کے بعد فرع کی بقا ہی کیا ہوتی ہے۔

(مذمت بدعت)

کوئی بدعت اس وقت تک ایجاد نہیں ہوتی ہے جب تک کوئی سنت مرنہ جائے۔لہٰذا بدعتوں سے ڈرو اور سیدھے راستہ پر قائم رہو کہ مستحکم ترین معاملات ہی بہتر ہوتے ہیں اور دین میں جدید ایجادات ہی بد ترین شے ہوتی ہے۔

۲۵۱

(۱۴۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد استشاره عمر بن الخطاب في الشخوص لقتال الفرس بنفسه

إِنَّ هَذَا الأَمْرَ لَمْ يَكُنْ نَصْرُه - ولَا خِذْلَانُه بِكَثْرَةٍ ولَا بِقِلَّةٍ - وهُوَ دِينُ اللَّه الَّذِي أَظْهَرَه - وجُنْدُه الَّذِي أَعَدَّه وأَمَدَّه - حَتَّى بَلَغَ مَا بَلَغَ وطَلَعَ حَيْثُ طَلَعَ - ونَحْنُ عَلَى مَوْعُودٍ مِنَ اللَّه - واللَّه مُنْجِزٌ وَعْدَه ونَاصِرٌ جُنْدَه - ومَكَانُ الْقَيِّمِ بِالأَمْرِ مَكَانُ النِّظَامِ مِنَ الْخَرَزِ - يَجْمَعُه ويَضُمُّه - فَإِنِ انْقَطَعَ النِّظَامُ تَفَرَّقَ الْخَرَزُ وذَهَبَ - ثُمَّ لَمْ يَجْتَمِعْ بِحَذَافِيرِه أَبَداً - والْعَرَبُ الْيَوْمَ وإِنْ كَانُوا قَلِيلًا - فَهُمْ كَثِيرُونَ بِالإِسْلَامِ - عَزِيزُونَ بِالِاجْتِمَاعِ - فَكُنْ قُطْباً واسْتَدِرِ الرَّحَى بِالْعَرَبِ - وأَصْلِهِمْ دُونَكَ نَارَ الْحَرْبِ - فَإِنَّكَ إِنْ شَخَصْتَ مِنْ هَذِه الأَرْضِ - انْتَقَضَتْ عَلَيْكَ الْعَرَبُ مِنْ أَطْرَافِهَا وأَقْطَارِهَا - حَتَّى يَكُونَ مَا تَدَعُ وَرَاءَكَ مِنَ الْعَوْرَاتِ - أَهَمَّ إِلَيْكَ مِمَّا بَيْنَ يَدَيْكَ

(۱۴۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب عمر بن الخطاب نے فارس کی جنگ میں جانے کے بارے میں مشورہ طلب کیا)

یاد رکھو کہ اسلام کی کامیابی اورناکامیابی کادارو مدار قلت و کثرت پر نہیں ہے بلکہ یہ دین ' دین خدا ہے جسے اسی نے غالب بنایا ہے اور یہ اسی کا لشکر ہے جسے اسی نے تیار کیا ہے اوراسی نے اس کی امداد کی ہے یہاں تک کہ اس منزل تک پہنچ گیا ہے اور اس قدر پھیلائو حاصل کرلیا ہے۔ہم پروردگار کی طرف سے ایک وعدہ پر ہیں اوروہ اپنے وعدہ کو بہر حال پورا کرنے والا ہے اور اپنے لشکر کی بہر حال مدد کرے گا۔

ملک میں نگراں کی منزل مہروں کے اجتماع میں دھاگے کی ہوتی ہے کہ وہی سب کو جمع کئے رہتا ہے اور وہ اگر ٹوٹ جائے تو سارا سلسلہ بکھر جاتا ہے اور پھر کبھی جمع نہیں ہو سکتا ہے۔آج عرب اگرچہ قلیل ہیں لیکن اسلام کی بنا پر کثیر ہیں اور اپنے اتحادو اتفاق کی بنا پر غالبآنے والے ہیں۔لہٰذا آپ مرکز میں رہیں اوراس چکی کو انہیں کے ذریعہ گردش دیں اور جنگ کی آگ کامقابلہ انہیں کو کرنے دیں آپ زحمت نہ کریں کہ اگر آپ نے اس سر زمین کو چھوڑ دیا تو عرب چاروں طرف سے ٹوٹ پڑیں گے اور سب اس طرح شریک جنگ ہوجائیں گے کہ جن محفوظ مقامات کو آپ چھوڑ کرگئے ہیں ان کا مسئلہ جنگ سے زیادہ اہم ہو جائے گا۔

۲۵۲

إِنَّ الأَعَاجِمَ إِنْ يَنْظُرُوا إِلَيْكَ غَداً يَقُولُوا - هَذَا أَصْلُ الْعَرَبِ فَإِذَا اقْتَطَعْتُمُوه اسْتَرَحْتُمْ - فَيَكُونُ ذَلِكَ أَشَدَّ لِكَلَبِهِمْ عَلَيْكَ وطَمَعِهِمْ فِيكَ - فَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ مَسِيرِ الْقَوْمِ إِلَى قِتَالِ الْمُسْلِمِينَ - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه هُوَ أَكْرَه لِمَسِيرِهِمْ مِنْكَ - وهُوَ أَقْدَرُ عَلَى تَغْيِيرِ مَا يَكْرَه.وأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ عَدَدِهِمْ - فَإِنَّا لَمْ نَكُنْ نُقَاتِلُ فِيمَا مَضَى بِالْكَثْرَةِ - وإِنَّمَا كُنَّا نُقَاتِلُ بِالنَّصْرِ والْمَعُونَةِ!

(۱۴۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

الغاية من البعثة

فَبَعَثَ اللَّه مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِالْحَقِّ - لِيُخْرِجَ عِبَادَه مِنْ عِبَادَةِ الأَوْثَانِ إِلَى عِبَادَتِه - ومِنْ طَاعَةِ الشَّيْطَانِ إِلَى طَاعَتِه - بِقُرْآنٍ قَدْ بَيَّنَه وأَحْكَمَه - لِيَعْلَمَ الْعِبَادُ رَبَّهُمْ إِذْ جَهِلُوه - ولِيُقِرُّوا بِه بَعْدَ إِذْ جَحَدُوه - ولِيُثْبِتُوه بَعْدَ إِذْ أَنْكَرُوه - فَتَجَلَّى لَهُمْ سُبْحَانَه فِي كِتَابِه - مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا رَأَوْه بِمَا أَرَاهُمْ مِنْ قُدْرَتِه - وخَوَّفَهُمْ مِنْ سَطْوَتِه -

ان عجموں نے اگر آپ کو میدان جنگ میں دیکھ لیا تو کہیں گے کہ عربیت کی جان یہی ہے اس جڑ کو کاٹ دیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے راحت مل جائے گی۔اور اس طرح ان کے حملے شدید تر ہو جائیں گے اور وہ آپ میں زیادہ ہی طمع کریں گے۔اور یہ جو آپ نے ذکر کیا ہے کہ لوگ مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے آرہے ہیں تو یہ بات خدا کو آپ سے زیادہ نا گوار ہے اور وہ جس چیز کوناگوار سمجھتا ہے اس کے بد ل دینے پر قادر بھی ہے۔اور یہ جو آپ نے دشمن کے عدد کا ذکر کیا ہے تو یاد رکھئے کہ ہم لوگ ماضی میں بھی کثرت کی بنا پرجنگ نہیں کرتے تھے بلکہ پروردگار کی نصرت اور اعانت کی بنیاد پر جنگ کرتے تھے۔

(۱۴۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

پروردگار عالم نے حضرت محمد (ص) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ آپ لوگوں کو بت پرستی سے نکال کر عبادت الٰہی کی منزل کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمان کی اطاعت کرائیں اس قرآن کے ذریعہ جسے اس نے واضح اور محکم قرار دیاہے تاکہ بندے خدا کو نہیں پہچانتے ہیں تو پہچان لیں اور اس کے منکر ہیں تو اقرار کرلیں اور ہٹ دھرمی کے بعد اسے مان لیں۔پروردگار اپنی قدرت کاملہ کی نشانیوں کے ذریعہ بغیر دیکھے جلوہ نما ہے اور اپنی سطوت کے ذریعہ انہیں خوف ذدہ بنائے ہوئے ہے کہ کس طرح اس نے عقو بتوں کے ذریعہ

۲۵۳

وكَيْفَ مَحَقَ مَنْ مَحَقَ بِالْمَثُلَاتِ - واحْتَصَدَ مَنِ احْتَصَدَ بِالنَّقِمَاتِ!

الزمان المقبل

وإِنَّه سَيَأْتِي عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي زَمَانٌ - لَيْسَ فِيه شَيْءٌ أَخْفَى مِنَ الْحَقِّ - ولَا أَظْهَرَ مِنَ الْبَاطِلِ - ولَا أَكْثَرَ مِنَ الْكَذِبِ عَلَى اللَّه ورَسُولِه - ولَيْسَ عِنْدَ أَهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ سِلْعَةٌ أَبْوَرَ مِنَ الْكِتَابِ - إِذَا تُلِيَ حَقَّ تِلَاوَتِه - ولَا أَنْفَقَ مِنْه إِذَا حُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِه - ولَا فِي الْبِلَادِ شَيْءٌ أَنْكَرَ مِنَ الْمَعْرُوفِ - ولَا أَعْرَفَ مِنَ الْمُنْكَرِ - فَقَدْ نَبَذَ الْكِتَابَ حَمَلَتُه وتَنَاسَاه حَفَظَتُه - فَالْكِتَابُ يَوْمَئِذٍ وأَهْلُه طَرِيدَانِ مَنْفِيَّانِ - وصَاحِبَانِ مُصْطَحِبَانِ فِي طَرِيقٍ وَاحِدٍ لَا يُؤْوِيهِمَا مُؤْوٍ - فَالْكِتَابُ وأَهْلُه فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ فِي النَّاسِ ولَيْسَا فِيهِمْ - ومَعَهُمْ ولَيْسَا مَعَهُمْ - لأَنَّ الضَّلَالَةَ لَا تُوَافِقُ الْهُدَى وإِنِ اجْتَمَعَا - فَاجْتَمَعَ الْقَوْمُ عَلَى الْفُرْقَةِ - وافْتَرَقُوا عَلَى الْجَمَاعَةِ كَأَنَّهُمْ أَئِمَّةُ الْكِتَابِ - ولَيْسَ الْكِتَابُ إِمَامَهُمْ - فَلَمْ يَبْقَ عِنْدَهُمْ مِنْه إِلَّا اسْمُه - ولَا يَعْرِفُونَ إِلَّا خَطَّه وزَبْرَه - ومِنْ قَبْلُ مَا مَثَّلُوا بِالصَّالِحِينَ كُلَّ مُثْلَةٍ

اس کے مستحقین کو تباہ و برباد کردیا ہے اور عذاب کے ذریعہ انہیں تہس نہس کردیا ہے۔

یادرکھو میرے بعد تمہارے سامنے وہ زمانہ آنے والا ہے جس میں کوئی شے حق سے زیادہ پوشیدہ اور باطل سے زیادہ نمایاں نہ ہوگی۔سب سے زیادہ رواج خدا اوررسول (ص) پر افتاکا ہوگا اور اس زمانہ والوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی اگر اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور اس سے زیادہ کوئی فائدہ مند بضاعت نہ ہوگی اگر اس کے مفاہیم کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا جائے ۔شہروں میں ''منکر '' سے زیادہ معروف اور ''معروف ''سے زیادہ منکر کچھ نہ ہوگا۔حاملان کتاب کتاب کوچھوڑ دیں گے اور حافظان قرآن قرآن کو بھلا دیں گے۔کتاب اور اس کے واقعی اہل شہر بدر کر دئیے جائیں گے اور دونوں ایک ہی راستہ پر اس طرح چلیں گے کہ کوئی پناہ دینے والا نہ ہوگا۔کتاب اور اہل کتاب اس دور میں لوگوں کے درمیان رہیں گے لیکن واقعاً نہ رہیں گے۔انہیں کے ساتھ رہیں گے لیکن حقیقتاً الگ رہیں گے۔ اس لئے کہ گمراہی ہدایت کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے چاہے ایک ہی مقامپر رہے۔لوگوں نے افتراق پر اتحاد اور اتحاد پر افتراق کر لیا ہے جیسے یہی قرآن کے پیشوا ہیں اور قرآن ان کا پیشوا نہیں ہے۔اب ان کے پاس صرف قرآن کا نم باقی رہ گیا ہے اور وہ صرف اس کی کتاب و عبارت کو پہچانتے ہیں اور بس ! اس کے پہلے بھی یہ نیک کرداروں کو بے حد اذیت کر چکے ہیں

۲۵۴

وسَمَّوْا صِدْقَهُمْ عَلَى اللَّه فِرْيَةً وجَعَلُوا فِي الْحَسَنَةِ عُقُوبَةَ السَّيِّئَةِ.وإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِطُولِ آمَالِهِمْ وتَغَيُّبِ آجَالِهِمْ - حَتَّى نَزَلَ بِهِمُ الْمَوْعُودُ الَّذِي تُرَدُّ عَنْه الْمَعْذِرَةُ - وتُرْفَعُ عَنْه التَّوْبَةُ وتَحُلُّ مَعَه الْقَارِعَةُ والنِّقْمَةُ.

عظة الناس

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّه مَنِ اسْتَنْصَحَ اللَّه وُفِّقَ - ومَنِ اتَّخَذَ قَوْلَه دَلِيلًا هُدِيَ لِلَّتِي هِيَ أَقُومُ - فَإِنَّ جَارَ اللَّه آمِنٌ وعَدُوَّه خَائِفٌ - وإِنَّه لَا يَنْبَغِي لِمَنْ عَرَفَ عَظَمَةَ اللَّه أَنْ يَتَعَظَّمَ - فَإِنَّ رِفْعَةَ الَّذِينَ يَعْلَمُونَ مَا عَظَمَتُه أَنْ يَتَوَاضَعُوا لَه - وسَلَامَةَ الَّذِينَ يَعْلَمُونَ مَا قُدْرَتُه أَنْ يَسْتَسْلِمُوا لَه - فَلَا تَنْفِرُوا مِنَ الْحَقِّ نِفَارَ الصَّحِيحِ مِنَ الأَجْرَبِ - والْبَارِئِ مِنْ ذِي السَّقَمِ - واعْلَمُوا أَنَّكُمْ لَنْ تَعْرِفُوا الرُّشْدَ - حَتَّى تَعْرِفُوا الَّذِي تَرَكَه - ولَنْ تَأْخُذُوا بِمِيثَاقِ الْكِتَابِ حَتَّى تَعْرِفُوا الَّذِي نَقَضَه - ولَنْ تَمَسَّكُوا بِه حَتَّى تَعْرِفُوا الَّذِي نَبَذَه

اور ان کی صداقت کو افترا کا نام دے چکے ہیں اور انہیں نیکیوں پربرائیوں کی سزا دے چکے ہیں۔

تمہارے پہلے والے صرف اس لئے ہلاک ہوگئے کہ ان کی امیدیں دراز تھیں اور موت ان کی نگاہوں سے اوجھل تھی۔یہاں تک کہ وہ موت نازل ہوگئی جس کے بعد معذرت واپس کردی جاتی ہے اور توبہ کی مہلت اٹھالی جاتی ہے اورمصیبت و عذاب کا ورود ہو جاتا ہے۔

ایہاالناس !جو پروردگار سے واقعاً نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے اس توفیق نصیب ہو جاتی ہے اورجو اس کے قول کو واقعاً راہنما بنانا چاہتا ہے اسے سیدھے راستہ کی ہدایت مل جاتی ہے۔اس لئے کہ پروردگار کا ہمسایہ ہمیشہ امن و امان میں رہتا ہے اور اس کا دشمن ہمیشہ خوف زدہ رہتا ہے۔یاد رکھو جس نے عظمت خدا کو پہچان لیا ہے اسے بڑائی زیب نہیں دیتی ہے کہ ایسے لوگوں کی رفعت و بلندی تواضع اورخاکساری ہی میں ہے اور اس کی قدرت کے پہچاننے والوں کی سلامتی اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے ہی میں ہے۔خبردار حق سے اس طرح نہ بھاگو جس طرح صحیح و سالم خارش زدہ سے' یا صحت یافتہ بیمار سے فرار کرتا ہے۔یاد کھو تم ہدایت کو اس وقت تک نہیں پہ چان سکتے ہو جب تک اسے چھوڑ نے والوں کو ہ پہچان لو اور کتاب خدا کے عہدوپیمان کو اس وقت تک اختیار نہیں کر سکتے ہو جب تک اس کے توڑنے والوں کی معرفت حاصل نہ کرلو اور اس سے تمسک اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسے نظر انداز کرنے والوں کا عرفان نہ ہو جائے گا

۲۵۵

- فَالْتَمِسُوا ذَلِكَ مِنْ عِنْدِ أَهْلِه - فَإِنَّهُمْ عَيْشُ الْعِلْمِ ومَوْتُ الْجَهْلِ - هُمُ الَّذِينَ يُخْبِرُكُمْ حُكْمُهُمْ عَنْ عِلْمِهِمْ - وصَمْتُهُمْ عَنْ مَنْطِقِهِمْ وظَاهِرُهُمْ عَنْ بَاطِنِهِمْ - لَا يُخَالِفُونَ الدِّينَ ولَا يَخْتَلِفُونَ فِيه - فَهُوَ بَيْنَهُمْ شَاهِدٌ صَادِقٌ وصَامِتٌ نَاطِقٌ.

(۱۴۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذكر أهل البصرة

كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا يَرْجُو الأَمْرَ لَه - ويَعْطِفُه عَلَيْه دُونَ صَاحِبِه - لَا يَمُتَّانِ إِلَى اللَّه بِحَبْلٍ - ولَا يَمُدَّانِ إِلَيْه بِسَبَبٍ - كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا حَامِلُ ضَبٍّ لِصَاحِبِه - وعَمَّا قَلِيلٍ يُكْشَفُ قِنَاعُه بِه - واللَّه لَئِنْ أَصَابُوا الَّذِي يُرِيدُونَ - لَيَنْتَزِعَنَّ هَذَا نَفْسَ هَذَا - ولَيَأْتِيَنَّ هَذَا عَلَى هَذَا - قَدْ قَامَتِ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ فَأَيْنَ الْمُحْتَسِبُونَ - فَقَدْ سُنَّتْ لَهُمُ السُّنَنُ وقُدِّمَ لَهُمُ الْخَبَرُ

حق کو اس کے اہل کے پاس تلاش کرو کہ یہی لوگ علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں۔یہی لوگ وہ ہیں جن کا حکم ان کے علم کا اور ان کی خاموشی ان کے تکلم کا اور ان کا ظاہران کے باطن کا پتہ دیتا ہے۔یہ لوگ دین کی مخالفت نہیں کرتے ہیں اور نہ اس کے بارے میں آپس میں اختلاف کرتے ہیں۔دین ان کے درمیان بہترین سچا گواہ اورخاموش بولنے والا ہے۔

(۱۴۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(اہل بصرہ( طلحہ و زبیر ) کے بارے میں)

یہ دونوں امر خلافت(۱) کے اپنیہی ذات کے لئے امید وار ہیں اور اسے اپنی ہی طرف موڑنا چاہتے ہیں۔ان کا اللہ کے کسی وسیلہ سے رابطہ اور کسی ذریعہ سے تعلق نہیں ہے۔ہر ایک دوسرے کے حق میں کینہ رکھتا ہے اورعنقریب اس کا پردہ اٹھ جائے گا۔خدا کی قسم اگر انہوں نے اپنے مدعا کو حاصل کرلیا تو ایک دوسرے کی جان لے کرچھوڑیں گے اور اس کی زندگی کا خاتمہ کردیں گے۔دیکھو باغی گروہ اٹھ کھڑا ہوا ہے تو راہخدا میں کام کرنے والے کہاں چلے گئے جب کہ ان کے لئے راستے مقرر کردئیے گئے ہیں اور انہیں اس کی اطلاع دی جا چکی ہے؟

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلمانوں نے خلافت کا جھگڑا دفن پیغمبر (ص) سے پہلے ہی شروع کردیا تھا اور پھر اسے مسلسل جاری رکھا اورمختلف انداز سے جوڑ توڑ کے ذریعہ خلافتوں کا فیصلہ ہوتا رہا لیکن کسی دورمیں بھی خلافت کے فیصلہ کے لئے تلوار اور جنگ کاسہارا نہیں لیا گیا۔یہ بدعت صرف حضرت ام المومنین کی ایجاد ہے کہ انہوں نے طلحہ و زبیر کی خلافت کے لئے تلوار کابھی سہارا لے لیا اور پھر معاویہ کے لئے زمین ہموار کردی اور اس کے نتیجہ میں خلافت کا فیصلہ جنگ و جدال سے شروع ہوگیا اور اس راہ میں بے شمار جانیں ضائع ہوتی رہیں۔

۲۵۶

ولِكُلِّ ضَلَّةٍ عِلَّةٌ ولِكُلِّ نَاكِثٍ شُبْهَةٌ - واللَّه لَا أَكُونُ كَمُسْتَمِعِ اللَّدْمِ - يَسْمَعُ النَّاعِيَ ويَحْضُرُ الْبَاكِيَ ثُمَّ لَا يَعْتَبِرُ!

(۱۴۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قبل موته

أَيُّهَا النَّاسُ - كُلُّ امْرِئٍ لَاقٍ مَا يَفِرُّ مِنْه فِي فِرَارِه - الأَجَلُ مَسَاقُ النَّفْسِ والْهَرَبُ مِنْه مُوَافَاتُه - كَمْ أَطْرَدْتُ الأَيَّامَ أَبْحَثُهَا عَنْ مَكْنُونِ هَذَا الأَمْرِ - فَأَبَى اللَّه إِلَّا إِخْفَاءَه هَيْهَاتَ عِلْمٌ مَخْزُونٌ - أَمَّا وَصِيَّتِي فَاللَّه لَا تُشْرِكُوا بِه شَيْئاً - ومُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَلَا تُضَيِّعُوا سُنَّتَه - أَقِيمُوا هَذَيْنِ الْعَمُودَيْنِ - وأَوْقِدُوا هَذَيْنِ الْمِصْبَاحَيْنِ - وخَلَاكُمْ ذَمٌّ مَا لَمْ تَشْرُدُوا - حُمِّلَ كُلُّ امْرِئٍ مِنْكُمْ مَجْهُودَه - وخُفِّفَ عَنِ الْجَهَلَةِ - رَبٌّ رَحِيمٌ ودِينٌ قَوِيمٌ وإِمَامٌ عَلِيمٌ -

میں جانتا ہوں کہ ہر گمراہی کا ایک سبب ہوتا ہے اور ہر عہد شکن ایک شبہ(۲) ڈھونڈ لیتا ہے لیکن میں اس شخص کے مانند نہیں ہو سکتا ہوں جو ماتک کی آواز سنتا ہے۔موت کی سنانی کانوں تک آتی ہے۔لوگوں کا گریہ دیکھتا ہے اور پھر عبرت حاصل نہیں کرتا ہے۔

(۱۴۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنی شہادت سے قبل)

لوگو ! دیکھو ہر شخص جس وقت سے فرار کر رہا ہے اس سے بہرحال ملاقات کرنے والا ہے اور موت ہی ہر نفس کی آخری منزل ہے اور اس سے بھاگنا ہی اسے پالینا ہے۔زمانہ گزر گیا جب سے میں اس راز کی جستجو میں ہوں لیکن پروردگار موت کے اسرار کو پردۂ راز ہی میں رکھنا چاہتا ہے۔یہ ایک علم ہے جو خزانہ قدرت میں محفوظ ہے۔ البتہ میری وصیت یہ ہے کہ کسی کو الہ کا شریک نہ قرا دینا اور پیغمبر اکرم (ص) کی سنت کو ضائع نہ کر دینا کہ یہی دونوں دین کے ستون ہیں انہیں کو قائم کرو اور انہیں دونوں چراغوں کو روشن رکھو۔اس کے بعداگر تم منتشر نہیں ہوگے تو تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ہر شخصاپنی طاقت بھربوجھ کاذمہ دار بنایا گیا ہے اورجاہلوں کابوجھ ہلکا رکھا گیا ہے کہ پروردگار رحیم و کریم ہے اوردین مستحکم ہے اور راہنما بھی علیم و دانا ہے۔

(۲)افسوس کہ جنگ جمل اور صفین میں تو شبہ کی بھی کوئی گنجائش نہیں تھی۔حضرت عائشہ ' طلحہ ' زبیر ' معاویہ ' عمرو عاص کوئی ایسا نہیں تھا جو حضرت علی کی شخصیت اور ان کے بارے میں ارشادات پیغمبر (ص) سے باخبر نہ ہو۔اس کے بعد شبہ یا خطائے اجتہادی کا نام دے کر عوام الناس کو تو دھوکہ دیا جا سکتا ہے' داور محشر کودھوکہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔

۲۵۷

أَنَا بِالأَمْسِ صَاحِبُكُمْ - وأَنَا الْيَوْمَ عِبْرَةٌ لَكُمْ وغَداً مُفَارِقُكُمْ - غَفَرَ اللَّه لِي ولَكُمْ!

إِنْ تَثْبُتِ الْوَطْأَةُ فِي هَذِه الْمَزَلَّةِ فَذَاكَ - وإِنْ تَدْحَضِ الْقَدَمُ فَإِنَّا كُنَّا فِي أَفْيَاءِ أَغْصَانٍ - ومَهَابِّ رِيَاحٍ وتَحْتَ ظِلِّ غَمَامٍ - اضْمَحَلَّ فِي الْجَوِّ مُتَلَفَّقُهَا وعَفَا فِي الأَرْضِ مَخَطُّهَا - وإِنَّمَا كُنْتُ جَاراً جَاوَرَكُمْ بَدَنِي أَيَّاماً - وسَتُعْقَبُونَ مِنِّي جُثَّةً خَلَاءً - سَاكِنَةً بَعْدَ حَرَاكٍ وصَامِتَةً بَعْدَ نُطْقٍ - لِيَعِظْكُمْ هُدُوِّي وخُفُوتُ إِطْرَاقِي وسُكُونُ أَطْرَافِي - فَإِنَّه أَوْعَظُ لِلْمُعْتَبِرِينَ مِنَ الْمَنْطِقِ الْبَلِيغِ - والْقَوْلِ الْمَسْمُوعِ - وَدَاعِي لَكُمْ وَدَاعُ امْرِئٍ مُرْصِدٍ لِلتَّلَاقِي - غَداً تَرَوْنَ أَيَّامِي ويُكْشَفُ لَكُمْ عَنْ سَرَائِرِي - وتَعْرِفُونَنِي بَعْدَ خُلُوِّ مَكَانِي وقِيَامِ غَيْرِي مَقَامِي.

(۱۵۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يومي فيها إلى الملاحم ويصف فئة من أهل الضلال

میں کل تمہارے ساتھ تھا اورآج تمہارے لئے منزل عبرت میں ہوں اور کل تم سے جداہو جائوں گا اور تمہیں اور مجھے دونوں کو معاف کردے۔

دیکھو! اس منزل لغزش میں اگر ثابت رہ گئے تو کیا کہنا۔ورنہ اگر قدم پھسل گئے تو یاد رکھنا کہ ہم بھی انہیں شاخوںکی چھائوں ۔انہیں ہوائوں کی گزر گاہ اور انہیںبادلوں کے سایہ میں تھے لیکن ان بالدوں کے ٹکڑے فضا میں منتشر ہوگئے اور ان ہوائوں کے نشانات زمین سے محو ہوگئے۔میں کل تمہارے ہمسایہ میں رہا۔میرا بدن ایک عرصہ تک تمہارے درمیان رہا اورعنقریب تم اسے جثہ بلا روح کی شکل میں دیکھوگے جو حرکت کے بعد ساکن ہو جائے گا اورتکلم کے بعد ساکت ہو جائے گا۔اب تو تمہیں اس خاموشی اس سکوت اور اس سکون سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے کہ یہ صاحبان عبرت کے لئے بہترین مقرر اور قابل سماعت بیانات سے زیادہ بہتر نصیحت کرنے والے ہیں۔میری تم سے جدائی اس شخص کی جدائی ہے جو ملاقات کے انتظار میں ہے۔کل تم میرے زمانہ کو پہچانوگے اور تم پر میرے اسرار منکشف ہوں گے اورتم میری صحیح معرفت حاصل کروگے جب میری جگہ خالی ہو جائے گی اور دوسرے لوگاس منزل پرقابض ہو جائیں گے ۔

(۱۵۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں زمانہ کے حوادث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اورگمراہوں کے ایک گروہ کا تذکرہ کیا گیا ہے )

۲۵۸

وأَخَذُوا يَمِيناً وشِمَالًا ظَعْناً فِي مَسَالِكِ الْغَيِّ - وتَرْكاً لِمَذَاهِبِ الرُّشْدِ - فَلَا تَسْتَعْجِلُوا مَا هُوَ كَائِنٌ مُرْصَدٌ - ولَا تَسْتَبْطِئُوا مَا يَجِيءُ بِه الْغَدُ - فَكَمْ مِنْ مُسْتَعْجِلٍ بِمَا إِنْ أَدْرَكَه وَدَّ أَنَّه لَمْ يُدْرِكْه - ومَا أَقْرَبَ الْيَوْمَ مِنْ تَبَاشِيرِ غَدٍ - يَا قَوْمِ هَذَا إِبَّانُ وُرُودِ كُلِّ مَوْعُودٍ - ودُنُوٍّ مِنْ طَلْعَةِ مَا لَا تَعْرِفُونَ - أَلَا وإِنَّ مَنْ أَدْرَكَهَا مِنَّا يَسْرِي فِيهَا بِسِرَاجٍ مُنِيرٍ - ويَحْذُو فِيهَا عَلَى مِثَالِ الصَّالِحِينَ - لِيَحُلَّ فِيهَا رِبْقاً - ويُعْتِقَ فِيهَا رِقّاً ويَصْدَعَ شَعْباً - ويَشْعَبَ صَدْعاً فِي سُتْرَةٍ عَنِ النَّاسِ - لَا يُبْصِرُ الْقَائِفُ أَثَرَه ولَوْ تَابَعَ نَظَرَه - ثُمَّ لَيُشْحَذَنَّ فِيهَا قَوْمٌ شَحْذَ الْقَيْنِ النَّصْلَ - تُجْلَى بِالتَّنْزِيلِ أَبْصَارُهُمْ - ويُرْمَى بِالتَّفْسِيرِ فِي مَسَامِعِهِمْ - ويُغْبَقُونَ كَأْسَ الْحِكْمَةِ بَعْدَ الصَّبُوحِ !

في الضلال

منها - وطَالَ الأَمَدُ بِهِمْ لِيَسْتَكْمِلُوا الْخِزْيَ ويَسْتَوْجِبُوا

ان لوگوں نے گمراہی کے راستوں پر چلنے اور ہدایت کے راستوں کوچھوڑنے کے لئے داہنے بائیں راستے اختیار کرلئے ہیں مگر تم اس امر میں جلدی نہ کرو جو بہر حال ہونے والا ہے اور جس کا انتظار کیاجا رہا ہے اور اسے دورنہ سمجھو جو کل سامنے والا ہے کہ کتنے ہی جلدی کے طلب گار جب مقصد کو پالیتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ کاش اسے حاصل نہ کرتے۔آج کادن کل کے سویرے سے کس قدر قریب ہے۔لوگو! یہ ہر وعدہ کے ورود اور ہراس چیز کے ظہور کی قربت کا وقت ہے جسے تم نہیں پہچانتے ہو لہٰذا جو شخص بھی ان حالات تک باقی رہ جائے اس کا فرض ہے کہ روشن(۱) چراغ کے سہارے قدم آگے بڑھائے اورصالحین کے نقش قدم پرچلے تاکہ ہر گرہ کو کھول سکے اور ہر غلامی سے آزادی پیدا کر سکے ' ہر مجتمع کو بوقت ضرورت منتشر کر سکے اور ہر انتشار کومجتمع کر سکے اور لوگوں سے یوں مخفی رہے کہ قیافہ شناس بھی اس کے نقش قدم کو تاحد نظرنہ پاسکیں۔اس کے بعد ایک قوم پر اس طرح صیقل کی جائے گی جس طرح لوہا تلوار کی دھار پرصیقل کرتا ہے۔ان لوگوں کی آنکھوں کو قرآن کے ذریعہ روشن کیا جائے گا اور ان کے کانوں میں تفسیر کو مسلسل پہنچایا جائے گا اور انہیں صبح و شام حکمت کے جاموں سے سیرا ب کیا جائے گا۔

ان گمراہوں کو مہلت دی گئی تاکہ اپنی رسوائی کو مکمل کرلیں اور ہر تغیر کے حقدار ہو جائیں۔

(۱)امیرالمومنین نے اپنے بعد پیداہونے والے فتنوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اوراس نکتہ کی طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ زمانہ بہرحال حجت خدا سے خالی نہ رہے گا اور اس اندھیرے میں بھی کوئی نہ کوئی سراج منیر ضرور رہے گا لہٰذا تمہارے فرض ہے کہ اس کا سہارا لے کر آگے بڑھو اور بہترین نتائج حاصل کرلو۔

۲۵۹

الْغِيَرَ حَتَّى إِذَا اخْلَوْلَقَ الأَجَلُ - واسْتَرَاحَ قَوْمٌ إِلَى الْفِتَنِ - وأَشَالُوا عَنْ لَقَاحِ حَرْبِهِمْ - لَمْ يَمُنُّوا عَلَى اللَّه بِالصَّبْرِ - ولَمْ يَسْتَعْظِمُوا بَذْلَ أَنْفُسِهِمْ فِي الْحَقِّ - حَتَّى إِذَا وَافَقَ وَارِدُ الْقَضَاءِ انْقِطَاعَ مُدَّةِ الْبَلَاءِ - حَمَلُوا بَصَائِرَهُمْ عَلَى أَسْيَافِهِمْ - ودَانُوا لِرَبِّهِمْ بِأَمْرِ وَاعِظِهِمْ حَتَّى إِذَا قَبَضَ اللَّه رَسُولَهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رَجَعَ قَوْمٌ عَلَى الأَعْقَابِ - وغَالَتْهُمُ السُّبُلُ واتَّكَلُوا عَلَى الْوَلَائِجِ - ووَصَلُوا غَيْرَ الرَّحِمِ - وهَجَرُوا السَّبَبَ الَّذِي أُمِرُوا بِمَوَدَّتِه - ونَقَلُوا الْبِنَاءَ عَنْ رَصِّ أَسَاسِه فَبَنَوْه فِي غَيْرِ مَوْضِعِه - مَعَادِنُ كُلِّ خَطِيئَةٍ وأَبْوَابُ كُلِّ ضَارِبٍ فِي غَمْرَةٍ - قَدْ مَارُوا فِي الْحَيْرَةِ وذَهَلُوا فِي السَّكْرَةِ - عَلَى سُنَّةٍ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ - مِنْ مُنْقَطِعٍ إِلَى الدُّنْيَا رَاكِنٍ - أَوْ مُفَارِقٍ لِلدِّينِ مُبَايِنٍ.

(۱۵۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحذر من الفتن

اللَّه ورسوله

وأَحْمَدُ اللَّه وأَسْتَعِينُه

یہاں تک کہ جب زمانہ کافی گزرچکا اورایک قوم فتنوں سے مانوس ہوچکی اورجنگ کی تخم پاشیوں کے لئے کھڑی ہوگئی۔تو وہ لوگ بھی سامنے آگئے جواللہ پراپنے صبرکا احسان نہیں جتاتے اور راہ خدامیں جان دینے کو کوئی کارنامہ نہیں تصورکرتے۔یہاں تک کہ جب آنے والے حکم قضا نے آزمائش کی مدت کو تمام کردیا۔تو انہوں نے اپنی بصیرت کو اپنی تلواروں پر مسلط کردیا اور اپنے نصیحت کرنے والے کے حکم سے پروردگار کی بارگاہ میں جھک گئے۔مگراس کے بعد جب پروردگار نے پیغمبر اکرم (ص) کو اپنے پاس بلا لیا تو ایک قو م الٹے(۱) پائوںپلٹ گئی اوراسے مختلف راستوں نے تباہ کردیا ۔انہوں نے مہمل عقائد کا سہارا لیا اور غیر قرابت دار سے تعلقات پیدا کئے اور اس سبب کو نظر انداز کردیا جس سے مودت کا حکم دیا گیاتھا۔عمارت کو جڑ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ پر قائم کردیا جو ہر غلطی کا معدن و مخزن اور ہرگمراہی کا دروازہ تھے۔حیرت میں سرگرداں اور آل فرعو ن کی طرح نشہ میں غافل تھے ان میں کوئی دنیا کی طرف مکمل کٹ کرآگیاتھا اور کوئی دین سے مستقل طریقہ پرالگ ہوگیا تھا۔

(۱۵۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں فتنوں سے ڈرایا گیاہے )

میں خدا کی حمدو ثنا کرتا ہوںاور اس کی مدد چاہتا ہوں

(۱)صحیح بخاری کے کتاب الفتن میں اسی صورت حال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب رسول اکرم (ص) حوض کوثر پربعض اصحاب کا حشر دیکھ کر کہ انہیں ہنکا یا جا رہا ہے ۔فریاد کریں گے کہ خدایا یہ میرے اصحاب ہیں توارشاد ہوگا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا بدعتیںایجاد کی ہیں اور کس طرح دین خداسے منحرف ہوئے ہیں۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863