نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657174 / ڈاؤنلوڈ: 15929
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

عَلَى مَدَاحِرِ الشَّيْطَانِ ومَزَاجِرِه - والِاعْتِصَامِ مِنْ حَبَائِلِه ومَخَاتِلِه وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُه ورَسُولُه ونَجِيبُه وصَفْوَتُه - لَا يُؤَازَى فَضْلُه ولَا يُجْبَرُ فَقْدُه - أَضَاءَتْ بِه الْبِلَادُ بَعْدَ الضَّلَالَةِ الْمُظْلِمَةِ - والْجَهَالَةِ الْغَالِبَةِ والْجَفْوَةِ الْجَافِيَةِ - والنَّاسُ يَسْتَحِلُّونَ الْحَرِيمَ - ويَسْتَذِلُّونَ الْحَكِيمَ - يَحْيَوْنَ عَلَى فَتْرَةٍ ويَمُوتُونَ عَلَى كَفْرَةٍ.!

التحذير من الفتن

ثُمَّ إِنَّكُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ أَغْرَاضُ بَلَايَا قَدِ اقْتَرَبَتْ - فَاتَّقُوا سَكَرَاتِ النِّعْمَةِ واحْذَرُوا بَوَائِقَ النِّقْمَةِ - وتَثَبَّتُوا فِي قَتَامِ الْعِشْوَةِ واعْوِجَاجِ الْفِتْنَةِ - عِنْدَ طُلُوعِ جَنِينِهَا وظُهُورِ كَمِينِهَا - وانْتِصَابِ قُطْبِهَا ومَدَارِ رَحَاهَا - تَبْدَأُ فِي مَدَارِجَ خَفِيَّةٍ

ان چیزوں کے لئے جو شیاطین کو ہنکا سکیں۔بھگا سکیں اوراس کے پھندوں اور ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھ سکیں اور میں اس امرک ی گواہی د یتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔اور حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول اس کے منتخب اور مصطفی ہیں ان کے فضل کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ہے اور ان کے فقدان کی کوئی تلافی نہیں ہے۔ان کی وجہ سے تمام شہر ضلالت کی تاریکی ۔جہالت کے غلبہ اورب د سرشتی اوربداخلاقی کی شدت کے بعد جب لوگ حرام کو حلال بنائے ہوئے تھے اورصاحبان حکمت کو ذلیل سمجھ رہے تھے۔رسولوں سے خالی دورمیں زندگی گزار رہے تھے اور کفر کی حالت میں مر رہے تھے۔منور اور روشن ہوگئے۔

(فتنوں سے آگاہی)

اس کے بعدتم اے گروہ عرب ان بلائوں کا نشانہ پر ہو جو قریب آچکی ہیں لہٰذا نعمتوں کی مدہوشیوں سیب چو اور ہلاک کرنے والے عذاب سے ہوشیار رہو۔ اندھیروں کے دھندلکوں میں قدم جمائے رہواور(۱) فتنوں کی کجروی سے ہوشیار رہو جس وقت ان کا پوشیدہ خدشہ سامنے آرہا ہو اور مخفی اندیشہ ظاہر ہو رہا ہواور کھونٹا مضبوط ہو رہا ہو۔یہ فتنے ابتدا میں مخفی راستوں سے شروع ہوتے ہیں

(۱)انسانی بصیرت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انسان فتنہ کو پہلے مرحلہ پر پہچان لے اور وہیں اس کا سدباب کردے ورنہجب اس کا رواج ہو جاتا ہے تو اس کا روکنا نا ممکن ہو جاتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کا آغاز اتنے مخفی اور حسین انداز سے ہوتا ہے کہ اس کا پہچاننا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے اور اس طرح عوام الناس اپنے مخصوص عقائد و نظریات یا عواطف و جذبات کی بنا پران فتنوں کاشکار ہوجاتے ہیں اورآخر میں ان کی مصیبت کا علاج نا ممکن ہو جاتا ہے ۔علماء اعلام اور مفکرین اسلام کی ضرورت اسی لئے ہوتی ہے کہ وہ فتنوں کو آغاز کار ہی سے پہچان سکتے ہیں اور ان کا سدباب کر سکتے ہیں بشرطیکہ عوام الناس ان کے اوپر اعتماد کریں اور ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔

۲۶۱

وتَئُولُ إِلَى فَظَاعَةٍ جَلِيَّةٍ - شِبَابُهَا كَشِبَابِ الْغُلَامِ وآثَارُهَا كَآثَارِ السِّلَامِ - يَتَوَارَثُهَا الظَّلَمَةُ بِالْعُهُودِ أَوَّلُهُمْ قَائِدٌ لِآخِرِهِمْ - وآخِرُهُمْ مُقْتَدٍ بِأَوَّلِهِمْ يَتَنَافَسُونَ فِي دُنْيَا دَنِيَّةٍ ويَتَكَالَبُونَ عَلَى جِيفَةٍ مُرِيحَةٍ - وعَنْ قَلِيلٍ يَتَبَرَّأُ التَّابِعُ مِنَ الْمَتْبُوعِ - والْقَائِدُ مِنَ الْمَقُودِ فَيَتَزَايَلُونَ بِالْبَغْضَاءِ - ويَتَلَاعَنُونَ عِنْدَ اللِّقَاءِ - ثُمَّ يَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ طَالِعُ الْفِتْنَةِ الرَّجُوفِ - والْقَاصِمَةِ الزَّحُوفِ فَتَزِيغُ قُلُوبٌ بَعْدَ اسْتِقَامَةٍ - وتَضِلُّ رِجَالٌ بَعْدَ سَلَامَةٍ - وتَخْتَلِفُ الأَهْوَاءُ عِنْدَ هُجُومِهَا - وتَلْتَبِسُ الآرَاءُ عِنْدَ نُجُومِهَا - مَنْ أَشْرَفَ لَهَا قَصَمَتْه ومَنْ سَعَى فِيهَا حَطَمَتْه - يَتَكَادَمُونَ فِيهَا تَكَادُمَ الْحُمُرِ فِي الْعَانَةِ - قَدِ اضْطَرَبَ مَعْقُودُ الْحَبْلِ وعَمِيَ وَجْه الأَمْرِ - تَغِيضُ فِيهَا الْحِكْمَةُ وتَنْطِقُ فِيهَا الظَّلَمَةُ - وتَدُقُّ أَهْلَ الْبَدْوِ بِمِسْحَلِهَا - وتَرُضُّهُمْ بِكَلْكَلِهَا يَضِيعُ فِي غُبَارِهَا الْوُحْدَانُ

اور ظالم باہمی عہدو پیمان کے ذریعہ ان کے وارث بنتے ہیں۔اول آخرکا قائد ہوتا ہے اورآخر اول کامقتدی ۔حقیر دنیا کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں اور بدبو دار مردہ پر آپس میں جنگ کرتے ہیں۔جب کہ عنقریب مرید اپنے پیر اور پیراپنے مرید سے برائت کرے گا اور بغض و عداوت کےساتھ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے اور وقت ملاقات ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔اس کے بعد وہ وقت آئے گا جب زلزلہ افگن فتنہ(۱) سر اٹھائے گا جو کمر توڑ ہوگا اور شدید طور پر حملہ آور ہوگا جس کے نتیجہ میں بہت سے دل استقامت کے بعد کجی کا شکار ہو جائیں گے اور بہت سے لوگ سلامتی کے بعد بہک جائیںگے۔اس کے ہجوم کے وقت خواہشات میں ٹکرائو ہوگا اوراس کے ظہورکے ہنگام اور افکار مشتبہ ہو جائیں گے۔جوادھر سر اٹھا کردیکھے گا اسکی کمر توڑدیں گے اورجواس میں دوڑ دھوپ کرے گا اسے تباہ کردیں گے۔لوگ یوں ایک دوسرے کو کاٹنے دوڑیں گے جس طرح بھیڑکے اندر گدھے ۔خدائی رسی کے بل کھل جائیں گے اور حقائق کے راستے مشتبہ ہوجائیں گے۔حکمت کا چشمہ خشک ہو جائے گا اور ظالم بولنے لگیں گے۔دیہاتوں کو ہتھوڑوں سے کوٹ دیاجائے گا اور اپنے سینہ سے دبا کر کچل دیا جائے گا۔اکیلے اکیلے افراد اس کے غبارمیں گم ہو جائیں گے

(۱)امیر المومنین جس قسم کے فتنوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان کا سلسلہ اگرچہ آپ کے بعد ہی سے شروع ہوگیا تھا لیکن ابھی تک موقوف نہیں ہو ا اورنہ فی الحال موقوف ہونے کے امکانات ہیں۔جس طرف دیکھو وہی صورت حال نظرآرہی ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے اور انہیں مظالم کی گرم بازاری ہے جن سے آپ نے ہوشیار کیاہے۔

ضرورت ہے کہ صاحبان ایمان ان ہدایات سے فائدہ اٹھائیں فتنوں سے محفوظ رہیں۔صاحبان بصیرت سے وابستہ رہیں اور کم سے کم اتنا خیال رکھیں کہ خدا کی بارگاہ میں مظلوم بن کرحاضرہونے میں کوئی ذلت نہیں ہے بلکہ اسی میں دائمی عزت اور ابدی شرافت ہے۔ذلت ظلم میں ہوتی ہے مظلومیت میں نہیں۔

۲۶۲

ويَهْلِكُ فِي طَرِيقِهَا الرُّكْبَانُ تَرِدُ بِمُرِّ الْقَضَاءِ - وتَحْلُبُ عَبِيطَ الدِّمَاءِ وتَثْلِمُ مَنَارَ الدِّينِ - وتَنْقُضُ عَقْدَ الْيَقِينِ - يَهْرُبُ مِنْهَا الأَكْيَاسُ ويُدَبِّرُهَا الأَرْجَاسُ - مِرْعَادٌ مِبْرَاقٌ كَاشِفَةٌ عَنْ سَاقٍ تُقْطَعُ فِيهَا الأَرْحَامُ - ويُفَارَقُ عَلَيْهَا الإِسْلَامُ بَرِيئُهَا سَقِيمٌ وظَاعِنُهَا مُقِيمٌ!

منها - بَيْنَ قَتِيلٍ مَطْلُولٍ وخَائِفٍ مُسْتَجِيرٍ - يَخْتِلُونَ بِعَقْدِ الأَيْمَانِ وبِغُرُورِ الإِيمَانِ - فَلَا تَكُونُوا أَنْصَابَ الْفِتَنِ وأَعْلَامَ الْبِدَعِ - والْزَمُوا مَا عُقِدَ عَلَيْه حَبْلُ الْجَمَاعَةِ - وبُنِيَتْ عَلَيْه أَرْكَانُ الطَّاعَةِ - واقْدَمُوا عَلَى اللَّه مَظْلُومِينَ ولَا تَقْدَمُوا عَلَيْه ظَالِمِينَ - واتَّقُوا مَدَارِجَ الشَّيْطَانِ ومَهَابِطَ الْعُدْوَانِ - ولَا تُدْخِلُوا بُطُونَكُمْ لُعَقَ الْحَرَامِ - فَإِنَّكُمْ بِعَيْنِ مَنْ حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَعْصِيَةَ - وسَهَّلَ لَكُمْ سُبُلَ الطَّاعَةِ.

اور اس کے راستہ میں سوار ہلاک ہو جائیں گے۔یہ فتنے قضاء الٰہی کی تلخی کے ساتھ وارد ہوںگے اور دودھ کے بدلے تازہ خون نکالیں گے۔دین کے منارے (علمائ) ہلاک ہو جائیں گے اور یقین کی گرہیں ٹوٹ جائیں گی۔صاحبان ہوش ان سے بھاگنے لگیں گے اور خبیث النفس افراد اس کے مدار الہام ہو جائیں گے۔یہ فتنے گرجنے والے ' چمکنے والے اور سراپا تیار ہوں گے۔ان میں رشتہ داروں سے تعلقات توڑ لئے جائیں گے اور اسلام سے جدائی اختیار کرلی جائے گی۔اس سے الگ رہنے والے بھی مریض ہوں گے ۔ان میں رشتہ داروں سے تعلقات توڑ لئے جائیں گے اور اسلام سے جدائی اختیار کرلی جائے گی۔اس سے الگ رہنے والے بھی مریض ہوں گے اور کوچ کر جانے والے بھی گویا مقیم ہی ہوں گے۔ اہل ایمان میں بغض ایسے مقتول ہوں گے جن کا خون بہا تک نہ لیا جا سکے گا اور بعض ایسے خوفزدہ ہوں گے کہ پناہ کی تلاش میںہوں گے۔انہیں پختہ قسموں اور ایمان کی فریب کاریوں میں مبتلا کیا جائے گا لہٰذا خبردار تم فتنوں کا نشانہ اوربدعتوں کا نشان مت بننا اور اسی راستہ کو پکڑے رہنا جس پر ایمانی جماعت قائم ہے اور جس پر اطاعت کے ارکان قائم کئے گئے ہیں۔خدا کی بارگاہ میں مظلوم بن کرجائو خبردار ظالم بن کر مت جانا۔شیطان کے راستوں پر ظلم کے مرکز سے محفوظ رہو اور اپنے شکم میں لقمہ حرام کو داخل مت کرو کہ تم اس کی نگاہ کے سامنے ہو جس نے تم پر معصیت کو حرام کیا ہے اور تمہارے لئے اطاعت کے راستوں کو آسان کردیا ہے۔

۲۶۳

(۱۵۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في صفات اللَّه جل جلاله، وصفات أئمة الدين

الْحَمْدُ لِلَّه الدَّالِّ عَلَى وُجُودِه بِخَلْقِه - وبِمُحْدَثِ خَلْقِه عَلَى أَزَلِيَّتِه؛وبِاشْتِبَاهِهِمْ عَلَى أَنْ لَا شَبَه لَه - لَا تَسْتَلِمُه الْمَشَاعِرُ ولَا تَحْجُبُه السَّوَاتِرُ - لِافْتِرَاقِ الصَّانِعِ والْمَصْنُوعِ والْحَادِّ والْمَحْدُودِ والرَّبِّ والْمَرْبُوبِ - الأَحَدِ بِلَا تَأْوِيلِ عَدَدٍ - والْخَالِقِ لَا بِمَعْنَى حَرَكَةٍ ونَصَبٍ - والسَّمِيعِ لَا بِأَدَاةٍ والْبَصِيرِ لَا بِتَفْرِيقِ آلَةٍ - والشَّاهِدِ لَا بِمُمَاسَّةٍ والْبَائِنِ لَا بِتَرَاخِي مَسَافَةٍ –

والظَّاهِرِ لَا بِرُؤْيَةٍ والْبَاطِنِ لَا بِلَطَافَةٍ - بَانَ مِنَ الأَشْيَاءِ بِالْقَهْرِ لَهَا والْقُدْرَةِ عَلَيْهَا - وبَانَتِ الأَشْيَاءُ مِنْه بِالْخُضُوعِ لَه والرُّجُوعِ إِلَيْه - مَنْ وَصَفَه فَقَدْ حَدَّه ومَنْ حَدَّه فَقَدْ عَدَّه - ومَنْ عَدَّه فَقَدْ أَبْطَلَ أَزَلَه

(۱۵۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں پروردگار کے صفات اور ائمہ طاہرین کے اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنی تخلیق سے اپنے وجود کا ' اپنی مخلوقات کے جادث ہونے سے اپنی ازلیت کا اور ان کی باہمی مشاہبت سے اپنے بے نظیر ہونے کا پتہ دیا ہے۔اس کی ذات تک حواس کی رسائی تک نہیں ہے اور پھر بھی پردے اسے پوشیدہ نہیں کر سکتے ہیں۔اس لئے کہ مصنوع صانع سے اور حد بندی کرنے والا محدود سے اور پرورش کرنے والا پرورش پانے والے سے بہر حال الگ ہوتا ہے۔وہ ایک ہے مگر عدد کے اعتبارسے نہیں۔وہ خالق ہے مگرحرکت و تعب کے ذریعہ نہیں۔وہ سمیع ہے لیکن کانوں کے ذریعہ نہیں اوروہ بصیر ہے لیکن آنکھیں کھولنے کاذریعہ نہیں۔

وہ حاضر ہے مگر چھوا نہیں جا سکتا اور وہ دور ہے لیکن مسافتوں کے اعتبار سے نہیں۔وہ ظاہر ہے لیکن دیکھا نہیں جا سکتا اور وہ باطن ہے لیکن جسم کی لطافت کی بناپ ر نہیں۔وہ اشیاء سے الگ ہے اپنے قہر غلبہ اور قدرت و اختیار کی بنا پر اور مخلوقات اس سے جدا گانہ ہے اپنے خضوع و خشوع اوراس کی بارگاہ میں باز گشت کی بنا پر۔جس نے اس کے لئے الگ سے اوصاف کا تصور کیا اس نے اسے اعداد کی صف میں لا کھڑا کردیا اور جس نے ایسا کیا اس نے اسے حادثات بنا کر اس کی ازلیت کاخاتمہ کردیا

۲۶۴

ومَنْ قَالَ كَيْفَ فَقَدِ اسْتَوْصَفَه - ومَنْ قَالَ أَيْنَ فَقَدْ حَيَّزَه - عَالِمٌ إِذْ لَا مَعْلُومٌ ورَبٌّ إِذْ لَا مَرْبُوبٌ - وقَادِرٌ إِذْ لَا مَقْدُورٌ.

أئمة الدين

منها: - قَدْ طَلَعَ طَالِعٌ ولَمَعَ لَامِعٌ ولَاحَ لَائِحٌ - واعْتَدَلَ مَائِلٌ واسْتَبْدَلَ اللَّه بِقَوْمٍ قَوْماً وبِيَوْمٍ يَوْماً - وانْتَظَرْنَا الْغِيَرَ انْتِظَارَ الْمُجْدِبِ الْمَطَرَ - وإِنَّمَا الأَئِمَّةُ قُوَّامُ اللَّه عَلَى خَلْقِه - وعُرَفَاؤُه عَلَى عِبَادِه - ولَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ عَرَفَهُمْ وعَرَفُوه - ولَا يَدْخُلُ النَّارَ إِلَّا مَنْ أَنْكَرَهُمْ وأَنْكَرُوه - إِنَّ اللَّه تَعَالَى خَصَّكُمْ بِالإِسْلَامِ واسْتَخْلَصَكُمْ لَه - وذَلِكَ لأَنَّه اسْمُ سَلَامَةٍ وجِمَاعُ كَرَامَةٍ - اصْطَفَى اللَّه تَعَالَى مَنْهَجَه وبَيَّنَ حُجَجَه

اور جس نے یہ سوال کیا کہ وہ کیسا ہے؟ اس نے الگ سے اوصاف کی جستجو کی اورجس نے یہ درایفت کیا کہ وہ کہاں ہے؟ اس نے اسے مکان میں محدود کردیا۔وہ اس وقت سے عالم ہے جب معلومات کا پتہ بھی نہیں تھا اور اس وقت سے مالک ہے جب مملوکات کا نشان بھی نہیں تھا اور اس وقت سے قادر ہے جب مقدورات پردہ ٔ عدم میں پڑے تھے۔

(ائمہ دین)

دیکھو طلوع کرنے والا طالع ہو چکا ہے اورچمکنے والا روشن ہو چکا ہے۔ظاہر ہونے والے کا ظہور سامنے آچکاہے ۔کجی سیدھی ہو چکی ہے۔اور اللہ ایک قوم کے بدلے دوسری قوم اور ایک دورکے بدلے دوسرا دور لے آیا ہے۔ہم نے حالات کی تبدیلی کا اسی طرح انتظار کیا ہے جس طرح قحط زدہ بارش کا انتظار کرتا ہے۔ائمہ درحقیقت اللہ کی طرف سے مخلوقات کے نگراں اور اس کے بندوں کو اس کی معرفت کا سبق دینے والے ہیں۔کوئی شخص جنت میںقدم نہیں رکھ سکتا ہے جب تک وہ انہیں نہ پہچان لے اور وہ حضرات اسے اپنا نہ کہہ دیں اورکوئی شخص جہنم میں جا نہیں سکتا ہے مگر یہ کہ وہ انحضرات کا انکار کردے اوروہ بھی اس نے پہچاننے سے انکار کردیں۔پروردگار نے تم لوگوں کو اسلام سے نوازا ہے اور تمہیں اس کے لئے منتخب کیا ہے۔اس لئے کہ اسلام سلامتی کا نشان اور کرامت کا سرمایہ ہے۔اللہ نے اس کے راستہ کا انتخاب کیا ہے۔اس کے دلائل کو واضح کیاہے۔

۲۶۵

مِنْ ظَاهِرِ عِلْمٍ وبَاطِنِ حُكْمٍ - لَا تَفْنَى غَرَائِبُه،ولَا تَنْقَضِي عَجَائِبُه - فِيه مَرَابِيعُ النِّعَمِ ومَصَابِيحُ الظُّلَمِ - لَا تُفْتَحُ الْخَيْرَاتُ إِلَّا بِمَفَاتِيحِه - ولَا تُكْشَفُ الظُّلُمَاتُ إِلَّا بِمَصَابِيحِه - قَدْ أَحْمَى حِمَاه وأَرْعَى مَرْعَاه - فِيه شِفَاءُ الْمُسْتَشْفِي وكِفَايَةُ الْمُكْتَفِي.

(۱۵۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

صفة الضال

وهُوَ فِي مُهْلَةٍ مِنَ اللَّه يَهْوِي مَعَ الْغَافِلِينَ - ويَغْدُو مَعَ الْمُذْنِبِينَ بِلَا سَبِيلٍ قَاصِدٍ ولَا إِمَامٍ قَائِدٍ.

صفات الغافلين

منها - حَتَّى إِذَا كَشَفَ لَهُمْ عَنْ جَزَاءِ مَعْصِيَتِهِمْ - واسْتَخْرَجَهُمْ مِنْ جَلَابِيبِ غَفْلَتِهِمُ - اسْتَقْبَلُوا مُدْبِراً واسْتَدْبَرُوا مُقْبِلًا - فَلَمْ يَنْتَفِعُوا بِمَا أَدْرَكُوا مِنْ طَلِبَتِهِمْ -

ظاہری علم اور باطنی حکمتوں کے ذریعہ اس کے غرائب فنا ہونے والے اور اس کے عجائب ختم ہونے والے نہیں ہے۔اس میں نعمتوں کی بہار اور ظلمتوں کے چرا غ ہیں نیکیوں کے دروازے اسی کی کنجیوں سے کھلتے ہیں اور تاریکیوں کا ازالہ اسی کے چراغوں سے ہوتا ہے ۔اس نے اپنے حدود کو محفوظ کرلیا ہے اور اپنی چراگاہ کو عام کردیا ہے۔اس میں طالب شفا کے لئے شفا اورامیدوار کفایت کے لئے بے نیازی کا سامان موجود ہے۔

(۱۵۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(گمراہوں اور غافلوں کے بارے میں)

(گمراہ)

یہ انسان اللہ کی طرف سے مہلت کی منزل میں ہے۔غافلوں کے ساتھ تباہیوں کے گڑھے میں گڑ پڑتا ہے اور گناہ گاروں کے ساتھ صبح کرتا ہے۔نہ اس کے سامنے سیدھا راستہ ہے اورنہ قیادت کرنے والا پیشوا۔

(غافلین)

یہاں تک کہ جب پروردگار نے ان کے گناہوں کی سزا کو واضح کردیا اورانہیں غفلت کے پردوں سے باہر نکال لیا تو جس سے منہ پھراتے تھے اسی کی طرف دوڑنے لگے اور جس کی طرف متوجہ تھے اس سے منہ پھرانے لگے۔جن مقاصد کو حاصل کرلیا تھا ان سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور جن حاجتوں کو پوراکرلیا تھا

۲۶۶

ولَا بِمَا قَضَوْا مِنْ وَطَرِهِمْ. إِنِّي أُحَذِّرُكُمْ ونَفْسِي هَذِه الْمَنْزِلَةَ - فَلْيَنْتَفِعِ امْرُؤٌ بِنَفْسِه - فَإِنَّمَا الْبَصِيرُ مَنْ سَمِعَ فَتَفَكَّرَ ونَظَرَ فَأَبْصَرَ وانْتَفَعَ بِالْعِبَرِ - ثُمَّ سَلَكَ جَدَداً وَاضِحاً يَتَجَنَّبُ فِيه الصَّرْعَةَ فِي الْمَهَاوِي - والضَّلَالَ فِي الْمَغَاوِي - ولَا يُعِينُ عَلَى نَفْسِه الْغُوَاةَ بِتَعَسُّفٍ فِي حَقٍّ - أَوْ تَحْرِيفٍ فِي نُطْقٍ أَوْ تَخَوُّفٍ مِنْ صِدْقٍ.

عظة الناس

فَأَفِقْ أَيُّهَا السَّامِعُ مِنْ سَكْرَتِكَ - واسْتَيْقِظْ مِنْ غَفْلَتِكَ واخْتَصِرْ مِنْ عَجَلَتِكَ - وأَنْعِمِ الْفِكْرَ فِيمَا جَاءَكَ - عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مِمَّا لَا بُدَّ مِنْه - ولَا مَحِيصَ عَنْه - وخَالِفْ مَنْ خَالَفَ ذَلِكَ إِلَى غَيْرِه - ودَعْه ومَا رَضِيَ لِنَفْسِه وضَعْ فَخْرَكَ - واحْطُطْ كِبْرَكَ واذْكُرْ قَبْرَكَ فَإِنَّ عَلَيْه مَمَرَّكَ - وكَمَا تَدِينُ تُدَانُ وكَمَا تَزْرَعُ تَحْصُدُ - ومَا قَدَّمْتَ الْيَوْمَ تَقْدَمُ عَلَيْه غَداً - فَامْهَدْ لِقَدَمِكَ وقَدِّمْ لِيَوْمِكَ - فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ أَيُّهَا الْمُسْتَمِعُ

ان سے بھی کوئی نتیجہ نہیں حاصل ہوا۔ دیکھو میں تمہیں اور خود اپنے نفس کوبھی اس صورت حال سے ہوشیار کر رہاہوں۔ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے نفس سے فائدہ اٹھائے۔اس لئے کہ صاحب بصیرت وہی ہے جو سنے تو غور بھی کرے اور دیکھے تو نگاہ بھی کرے اور پھر عبرتوں سے فائدہ حاصل کرکے اس سیدھے اور روشن راستہ پر چل پڑے جس میںگمراہی کے گڑھے میں گرنے سے پرہیز کرے اور شبہات میں پڑ کر گمراہ نہ ہو جائے ایسے نفس کے خلاف گمراہوں کی اس طرح مدد کرے کہ حق کی راہ سے انحراف کرلے یا گفتگو میں تحریف سے کام لے یا سچ بولنے میں خوف کا شکار ہو جائے۔

(موعظہ)

میری بات سننے والو! اپنی مدہوشی سے ہوش میں آجائو اوراپنی غفلت سے بیدار ہوجائو۔سامان دنیا مختصر کرلو اور ان باتوں میںغورو فکر کرو جو تمہارے پاس پیغمبر امی (ص) کی زبان مبارکسے آئی ہیں اور جن کا اختیارکرنا ضروری ہے اور ان سے کوئی چھٹکارا بھی نہیں ہے۔جو اس بات کی مخالفت کرے اس سے اختلاف کرکے دوسرے راستہ پرچل پڑو اوراسے اس کی مرضی پرچھوڑ دو۔فخر و مباہات کو چھوڑ دو۔تکبر کو ختم کردو اورقبر کو یاد کرو کہ اسی راستہ سے گزرنا ہے اور جیسا کرو گے ویسا ہی نتیجہ بھی ملے گا اورجیسا بوئو گے ویسا ہی کاٹنا ہے اور جوآج بھیج دیا ہے کل اسی کا سامانا کرنا ہے۔اپنے قدموں کے لئے زمین ہموار کرلو اور اسدن کے لئے سامان پہلے سے بھیج دو۔ہوشیار' ہوشیار اے سننے والو

۲۶۷

والْجِدَّ الْجِدَّ أَيُّهَا الْغَافِلُ –( ولا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ) .

إِنَّ مِنْ عَزَائِمِ اللَّه فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ - الَّتِي عَلَيْهَا يُثِيبُ ويُعَاقِبُ ولَهَا يَرْضَى ويَسْخَطُ - أَنَّه لَا يَنْفَعُ عَبْداً - وإِنْ أَجْهَدَ نَفْسَه وأَخْلَصَ فِعْلَه - أَنْ يَخْرُجَ مِنَ الدُّنْيَا لَاقِياً رَبَّه - بِخَصْلَةٍ مِنْ هَذِه الْخِصَالِ لَمْ يَتُبْ مِنْهَا - أَنْ يُشْرِكَ بِاللَّه فِيمَا افْتَرَضَ عَلَيْه مِنْ عِبَادَتِه - أَوْ يَشْفِيَ غَيْظَه بِهَلَاكِ نَفْسٍ - أَوْ يَعُرَّ بِأَمْرٍ فَعَلَه غَيْرُه - أَوْ يَسْتَنْجِحَ حَاجَةً إِلَى النَّاسِ بِإِظْهَارِ بِدْعَةٍ فِي دِينِه - أَوْ يَلْقَى النَّاسَ بِوَجْهَيْنِ أَوْ يَمْشِيَ فِيهِمْ بِلِسَانَيْنِ - اعْقِلْ ذَلِكَ فَإِنَّ الْمِثْلَ دَلِيلٌ عَلَى شِبْهِه.

إِنَّ الْبَهَائِمَ هَمُّهَا بُطُونُهَا - وإِنَّ السِّبَاعَ هَمُّهَا الْعُدْوَانُ عَلَى غَيْرِهَا - وإِنَّ النِّسَاءَ هَمُّهُنَّ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا والْفَسَادُ فِيهَا - إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ مُسْتَكِينُونَ - إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ مُشْفِقُونَ إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ خَائِفُونَ.

(۱۵۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها فضائل أهل البيت

اور محنت ' محنت اے غفلت والو! ''یہ باتیں مجھ جیسے با خبر کی طرح کوئی نہ بتائے گا۔ دیکھو! قرآن مجید میں پروردگار کے مستحکم اصولوں میں جس پر ثواب وعذاب اور رضا و ناراضگی کا دارومدا ہے۔یہ بات بھی ہے کہ انسان اس دنیا میں کسی قدرمحنت کیوں نہ کرے اور کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو جائے اگردنیا سے نکل کر اللہ کی بارگاہمیں جانا چاہے اوردرج ذیل خصلتوں سے توبہ نہ کرے تو اسے یہ جدو جہد اوراخلاص عمل کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے۔

عبادت الٰہی میں کسی کو شریک قرار دیدے۔اپنے نفس کی تسکین کے لئے کسی کو ہلاک کردے۔ایک کے کام پردوسروں کو عیب لگادے۔دین میں کوئی بدعت ایجاد کرکے اس کے ذریعہ لوگوں سے فائدہ حاصل کرے۔لوگوں کے سامنے دوزخی پالیسی اختیار کرے۔یا دو زبانوں کے ساتھ زندگی گزارے۔اس حقیقت کو سمجھ لو کہ ہر شخص اپنی نظیر کی دلیل ہوا کرتا ہے۔

یقینا چوپایوں کا ساراہدفان کا پٹ ہوتا ہے اور درندوں کا سارا نشانہ دوسروں پر ظلم ہوتا ہے اور رعورتوں کا سارا زور رندگانی دنیا کی زینت اور فساد پر ہوتا ہے۔لیکن صاحبان ایمان خضوع و خشوع رکھنے والے ' خوف خدا رکھنے والے اور اس کی بارگاہ میں ترساں اور لرزاں رہتے ہیں۔

(۱۵۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں فضائل اہل بیت کاذکر کیا گیا ہے)

۲۶۸

ونَاظِرُ قَلْبِ اللَّبِيبِ بِه يُبْصِرُ أَمَدَه - ويَعْرِفُ غَوْرَه ونَجْدَه - دَاعٍ دَعَا ورَاعٍ رَعَى - فَاسْتَجِيبُوا لِلدَّاعِي واتَّبِعُوا الرَّاعِيَ.

قَدْ خَاضُوا بِحَارَ الْفِتَنِ - وأَخَذُوا بِالْبِدَعِ دُونَ السُّنَنِ - وأَرَزَ الْمُؤْمِنُونَ ونَطَقَ الضَّالُّونَ الْمُكَذِّبُونَ - نَحْنُ الشِّعَارُ والأَصْحَابُ والْخَزَنَةُ والأَبْوَابُ - ولَا تُؤْتَى الْبُيُوتُ إِلَّا مِنْ أَبْوَابِهَا - فَمَنْ أَتَاهَا مِنْ غَيْرِ أَبْوَابِهَا سُمِّيَ سَارِقاً.

منها: فِيهِمْ كَرَائِمُ الْقُرْآنِ وهُمْ كُنُوزُ الرَّحْمَنِ - إِنْ نَطَقُوا صَدَقُوا وإِنْ صَمَتُوا لَمْ يُسْبَقُوا - فَلْيَصْدُقْ رَائِدٌ أَهْلَه ولْيُحْضِرْ عَقْلَه - ولْيَكُنْ مِنْ أَبْنَاءِ الآخِرَةِ - فَإِنَّه مِنْهَا قَدِمَ وإِلَيْهَا يَنْقَلِبُ.فَالنَّاظِرُ بِالْقَلْبِ الْعَامِلُ بِالْبَصَرِ - يَكُونُ مُبْتَدَأُ عَمَلِه أَنْ يَعْلَمَ أَعَمَلُه عَلَيْه أَمْ لَه - فَإِنْ كَانَ لَه مَضَى فِيه وإِنْ كَانَ عَلَيْه وَقَفَ عَنْه - فَإِنَّ الْعَامِلَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَالسَّائِرِ عَلَى غَيْرِ طَرِيقٍ

عقل مند وہ ہے جو دل کی آنکھوں سے اپنے انجام کار کودیکھ لیتا ہے اور اس کے نشیب و فراز کو پہچان لیتاہے دعوت دینے والا دعوت دے چکا ہے اور نگرانی کا فرض ادا کرچکاہے۔اب تمہارا فریضہ ہے کہ دعوت دینے والے کی آوازپرلبیک کہو اور نگران کے نقش قدم پر چل پڑو۔

یہ لوگ فتنوں کے دریائوں میں ڈوب گئے ہیں اورسنت کو چھوڑ کر بدعتوں کو اختیار کرلیا ہے۔مومنین گوشہ و کنار میں دبے ہوئے ہیں اور گمراہ اور افتراء پر داز مصروف کلام ہیں۔

درحقیقت ہم اہل بیت ہی دین کے نشان اور اس کے ساتھی ' اس کے احکام کے خزانہ دار اور اس کے دروازے ہیں اور ظاہر ہے کہ گھروں میں داخلہ دروازوں کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے ورنہ انسان چور کہاجائے گا۔ انہیں اہل بیت کے بارے میں قرآن کریم کی عظیم آیات ہیں اور یہی رحمان کے خزانہ دار ہیں۔یہ جب بولتے ہیں تو سچ کہتے ہیں اور جب قدم آگے بڑھاتے ہیں تو کوئی ان پر سبقت نہیں لے جاسکتا ہے۔ہرذمہ دار قوم کا فرض ہے کہ اپنے قوم سے سچ بولے اور اپنی عقل کو گم نہ ہونے دے اور فرزندان آخرت میں شاملہو جائے کہ ادھر ہی سے آیا ہے اور ادھر ہی پلٹ کرجانا ہے۔یقینا دل کی آنکھوں سے دیکھنے والے اور دیکھ کر عمل کرنے والے کے عمل کی ابتدا اس علم سے ہوتی ہے کہ اس کاعمل اس کے لئے مفید ہے یا اس کے خلاف ہے۔اگر مفید ہے تو اسی راستہ پر چلتا رہے اور اگر مضر ہے تو ٹھہر جائے کہ علم کے بغیر عمل کرنے والاغلط پر راستہ پر چلنے والی کے مانند ہے

۲۶۹

فَلَا يَزِيدُه بُعْدُه عَنِ الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ إِلَّا بُعْداً مِنْ حَاجَتِه - والْعَامِلُ بِالْعِلْمِ كَالسَّائِرِ عَلَى الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ - فَلْيَنْظُرْ نَاظِرٌ أَسَائِرٌ هُوَ أَمْ رَاجِعٌ.

واعْلَمْ أَنَّ لِكُلِّ ظَاهِرٍ بَاطِناً عَلَى مِثَالِه - فَمَا طَابَ ظَاهِرُه طَابَ بَاطِنُه - ومَا خَبُثَ ظَاهِرُه خَبُثَ بَاطِنُه وقَدْ قَالَ الرَّسُولُ الصَّادِقُصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - إِنَّ اللَّه يُحِبُّ الْعَبْدَ ويُبْغِضُ عَمَلَه - ويُحِبُّ الْعَمَلَ ويُبْغِضُ بَدَنَه.

واعْلَمْ أَنَّ لِكُلِّ عَمَلٍ نَبَاتاً - وكُلُّ نَبَاتٍ لَا غِنَى بِه عَنِ الْمَاءِ - والْمِيَاه مُخْتَلِفَةٌ فَمَا طَابَ سَقْيُه طَابَ غَرْسُه وحَلَتْ ثَمَرَتُه - ومَا خَبُثَ سَقْيُه خَبُثَ غَرْسُه وأَمَرَّتْ ثَمَرَتُه.

(۱۵۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها بديع خلقة الخفاش

حمد اللَّه وتنزيهه

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي انْحَسَرَتِ الأَوْصَافُ عَنْ كُنْه مَعْرِفَتِه – ورَدَعَتْ عَظَمَتُه الْعُقُولَ - فَلَمْ تَجِدْ مَسَاغاً إِلَى بُلُوغِ غَايَةِ مَلَكُوتِه!

کہ جس قدر راستہ طے کرتا جائے گا منزل سے دور تر ہوتا جائے گا اور علم کے ساتھ عمل کرنے والا واضح راستہ پر چلنے کے مانندہے۔لہٰذا ہرآنکھ والے کو یہ دیکھ لینا چاہیے کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے یا پیچھے ہٹ رہا ہے اوریادرکھو کہ ہر ظاہرکے لئے اسیکا جیسا باطن بھی ہوتا ہے۔لہٰذا اگر ظاہر پاکیزہ ہوگاتو باطن بھی پاکیزہ ہوگا اوراگر ظاہر خبیث ہوگیا تو باطن بھی خبیث ہو جائے گا۔رسول صادق نے سچ فرمایا ہے کہ'' اللہ کبھی کبھی کسی بندہ کو دوست رکھتا ہے لیکن اس کے عمل سے بیزار ہوتا ہے اور کبھی عل کو دوست رکھتا ہے اورخود اسی سے بیزار رہتا ہے۔

یاد رکھو کہ ہر عمل سبزہ کی طرح گرنے والا ہوتا ہے اورسبزہ پانی سے بے نیا ز نہیں ہو سکتا ہے اور پاین بھی طرح طرح کے ہوتے ہیں لہٰذا اگر سینچائی پاکیزہ پانی سے ہوگی تو پیداوار بھی پاکیزہ ہوگی اور پھل بھی شیریں ہوگا اور اگر سینچائی ہی غلط ہوگئی تو پیداوار بھی خبیث ہوگی اور پھل بھی کڑوے ہوں گے۔

(۱۵۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں چمگادر کی عجیب وغریب خلقت کا ذکر کیا گیا ہے )

ساری تعریفاس اللہ کے لئے ہے جس کی معرفت کی گہرائیوں سے اوصاف عاجز ہیں اورجس کی عظمتوں نے عقلوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا ہے تو اب اسکی سلطنتوں کی حدود تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے۔

۲۷۰

هُوَ اللَّه( الْحَقُّ الْمُبِينُ ) - أَحَقُّ وأَبْيَنُ مِمَّا تَرَى الْعُيُونُ - لَمْ تَبْلُغْه الْعُقُولُ بِتَحْدِيدٍ فَيَكُونَ مُشَبَّهاً - ولَمْ تَقَعْ عَلَيْه الأَوْهَامُ بِتَقْدِيرٍ فَيَكُونَ مُمَثَّلًا - خَلَقَ الْخَلْقَ عَلَى غَيْرِ تَمْثِيلٍ ولَا مَشُورَةِ مُشِيرٍ - ولَا مَعُونَةِ مُعِينٍ فَتَمَّ خَلْقُه بِأَمْرِه وأَذْعَنَ لِطَاعَتِه - فَأَجَابَ ولَمْ يُدَافِعْ وانْقَادَ ولَمْ يُنَازِعْ.

خلقة الخفاش

ومِنْ لَطَائِفِ صَنْعَتِه وعَجَائِبِ خِلْقَتِه - مَا أَرَانَا مِنْ غَوَامِضِ الْحِكْمَةِ فِي هَذِه الْخَفَافِيشِ - الَّتِي يَقْبِضُهَا الضِّيَاءُ الْبَاسِطُ لِكُلِّ شَيْءٍ - ويَبْسُطُهَا الظَّلَامُ الْقَابِضُ لِكُلِّ حَيٍّ - وكَيْفَ عَشِيَتْ أَعْيُنُهَا عَنْ أَنْ تَسْتَمِدَّ - مِنَ الشَّمْسِ الْمُضِيئَةِ نُوراً تَهْتَدِي بِه فِي مَذَاهِبِهَا - وتَتَّصِلُ بِعَلَانِيَةِ بُرْهَانِ الشَّمْسِ إِلَى مَعَارِفِهَا - ورَدَعَهَا بِتَلأْلُؤِ ضِيَائِهَا عَنِ الْمُضِيِّ فِي سُبُحَاتِ إِشْرَاقِهَا - وأَكَنَّهَا فِي مَكَامِنِهَا عَنِ الذَّهَابِ فِي بُلَجِ ائْتِلَاقِهَا - فَهِيَ مُسْدَلَةُ الْجُفُونِ بِالنَّهَارِ عَلَى حِدَاقِهَا - وجَاعِلَةُ اللَّيْلِ سِرَاجاً تَسْتَدِلُّ بِه فِي الْتِمَاسِ أَرْزَاقِهَا - فَلَا يَرُدُّ أَبْصَارَهَا إِسْدَافُ ظُلْمَتِه

وہ خدائے برحق و آشکار ہے۔اس سے زیادہ ثابت اور واضح ہے جو آنکھوں کے مشاہدہ میں آجاتا ہے۔ عقلیں اس کی حد بندی نہیں کر سکتی ہیں کہوہ کسی کی شبیہ قراردے دیا جائے اورخیالات اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں کہ وہ کسی کی مثال بنا دیاجائے۔اس نے مخلوقات کوبغیر کسی نمونہ اور کسی مشیرکے مشورہ یا مددگار کی مدد کے بنایا ہے۔اس کی تخلیق اس کے امر سے تکمیل ہوئی ہے اور پھر اسی کی اطاعت کے لئے سربسجود ہے۔بلا توقف اس کی آواز پرلبیک کہتی ہے اوربغیر کسی اختلاف کے اس کے سامنے سرنگوں ہوتی ہے۔ اس کی لطیف ترین صنعت اور عجیب ترین خلقت کا ایک نمونہ وہ ہے جو اس نے اپنی دقیق ترین حکمت سے چمگادڑ کی تخلیق میں پیش کیا ہے کہ جسے ہرشے کو وسعت دینے والی روشنی سکیڑ دیتی ہے اور ہر زندہ کو سکیڑ دینے والی تاریکی وسعت عطا کر دیتی ہے۔کس طرح اس کی آنکھیں چکا چود ہو جاتی ہیں کہ روشنی آفتاب کی شعاعوں سے مدد حاصل کرکے اپنے راستے طے کر سکے اور کھلی ہوئی آفتاب کی روشنی کے ذریعہ اپنی جانی منزلوں تک پہنچ سکے۔نور آفتاب نے اپنی چمک دمک کے ذریعہ اسے روشنی کے طبقات میں آگے بڑھنے سے روک دیا ہے اور روشنی کے اجالے میں آنے سے روک کرمخفی مقامات پر چھپا دیا ہے۔دن میں اس کی پلکیں آنکھوں پر لٹک آتی ہیں اور رات کو چراغ بنا کروہ تلاش رزق میں نکل پرتی ہے۔اس کی نگاہوں کو رات کو رات کی تاریکی نہیں پلٹا سکتی ہے

۲۷۱

ولَا تَمْتَنِعُ مِنَ الْمُضِيِّ فِيه لِغَسَقِ دُجُنَّتِه - فَإِذَا أَلْقَتِ الشَّمْسُ قِنَاعَهَا وبَدَتْ أَوْضَاحُ نَهَارِهَا - ودَخَلَ مِنْ إِشْرَاقِ نُورِهَا عَلَى الضِّبَابِ فِي وِجَارِهَا - أَطْبَقَتِ الأَجْفَانَ عَلَى مَآقِيهَا ،وتَبَلَّغَتْ بِمَا اكْتَسَبَتْه مِنَ الْمَعَاشِ فِي ظُلَمِ لَيَالِيهَا - فَسُبْحَانَ مَنْ جَعَلَ اللَّيْلَ لَهَا نَهَاراً ومَعَاشاً - والنَّهَارَ سَكَناً وقَرَاراً - وجَعَلَ لَهَا أَجْنِحَةً مِنْ لَحْمِهَا - تَعْرُجُ بِهَا عِنْدَ الْحَاجَةِ إِلَى الطَّيَرَانِ - كَأَنَّهَا شَظَايَا الآذَانِ غَيْرَ ذَوَاتِ رِيشٍ ولَا قَصَبٍ - إِلَّا أَنَّكَ تَرَى مَوَاضِعَ الْعُرُوقِ بَيِّنَةً أَعْلَاماً - لَهَا جَنَاحَانِ لَمَّا يَرِقَّا فَيَنْشَقَّا ولَمْ يَغْلُظَا فَيَثْقُلَا - تَطِيرُ ووَلَدُهَا لَاصِقٌ بِهَا لَاجِئٌ إِلَيْهَا - يَقَعُ إِذَا وَقَعَتْ ويَرْتَفِعُ إِذَا ارْتَفَعَتْ - لَا يُفَارِقُهَا حَتَّى تَشْتَدَّ أَرْكَانُه - ويَحْمِلَه لِلنُّهُوضِ جَنَاحُه - ويَعْرِفَ مَذَاهِبَ عَيْشِه ومَصَالِحَ نَفْسِه - فَسُبْحَانَ الْبَارِئِ لِكُلِّ شَيْءٍ عَلَى غَيْرِ مِثَالٍ خَلَا مِنْ غَيْرِه !

اوراس کو راستہ میں آگے بڑھنے سے شدید ظلمت بھی نہیں روک سکتی ہے۔اس کے بعد جب آفتاب اپنے نقاب کو الٹ دیتا ہے اور دن کا روشن چہرہ سامنے آجاتا ہے اور آفتاب کی کرنیں بجو کے سوراخ تک پہنچ جاتی ہیں تو اس کی پلکیں آنکھں پرلٹک آتی ہیں اور جوکچھ رات کی تاریکیوں میں حاصل کرلیا ہے اسی پر گزارا شروع کردیتی ہے۔کیاکہنا اس معبود کا جس نے اس کے لئے رات کو دن اور وسیلہ معاش بنادیا ہے اوردن کو وجہ سکون و قرار مقرر کردیا ہے اور پھر اس کے لئے ایسے گوشت کے پر بنادئیے ہیں جس کے ذریعہ وقت ضرورت پرواز بھی کر سکتی ہے۔ویا کہ یہ کان کی لویں ہیں جن میں نہ پر ہیں اور نہ کریاں مگر اس کے بوجود تم دیکھو گے کہ رگوں کی جگہوں کے نشانات بالکل واضح ہیں اور اس کے ایسے دو پ بن گئے ہیں جو نہ اتنے باریک ہیں کہ پھٹ جائیں اور نہ اتنے غلیظ ہیں کہ پروازمیں زحمت ہو۔اس کی پرواز کی شان یہ ہے کہ اپنے بچہ کو ساتھ لے کر سینہ سے لگا کر پرواز کرتی ہے جب اس کے اعضاء مضبوط نہ ہو جائیں اور اس کے پر اس کا بوجھ اٹھانے کیقابل نہ ہو جائیں اور وہ اپنے رزق کے راستوں اور مصلحتوں کوخود پہچان نہلے۔پاک و بے نیازہے وہ ہر شے کا پیداکرنے والا جس نے کسی ایسی مثال کاسہارا نہیں لیا جو کسی دوسرے سے حاصل کی گئی ہو۔

۲۷۲

(۱۵۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

خاطب به أهل البصرة على جهة اقتصاص الملاحم

فَمَنِ اسْتَطَاعَ عِنْدَ ذَلِكَ - أَنْ يَعْتَقِلَ نَفْسَه عَلَى اللَّه عَزَّ وجَلَّ فَلْيَفْعَلْ - فَإِنْ أَطَعْتُمُونِي - فَإِنِّي حَامِلُكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّه عَلَى سَبِيلِ الْجَنَّةِ - وإِنْ كَانَ ذَا مَشَقَّةٍ شَدِيدَةٍ ومَذَاقَةٍ مَرِيرَةٍ.

وأَمَّا فُلَانَةُ فَأَدْرَكَهَا رَأْيُ النِّسَاءِ - وضِغْنٌ غَلَا فِي صَدْرِهَا كَمِرْجَلِ الْقَيْنِ - ولَوْ دُعِيَتْ لِتَنَالَ مِنْ غَيْرِي مَا أَتَتْ إِلَيَّ لَمْ تَفْعَلْ - ولَهَا بَعْدُ حُرْمَتُهَا الأُولَى والْحِسَابُ عَلَى اللَّه تَعَالَى.

وصف الإيمان

منه - سَبِيلٌ أَبْلَجُ الْمِنْهَاجِ أَنْوَرُ السِّرَاجِ - فَبِالإِيمَانِ يُسْتَدَلُّ عَلَى الصَّالِحَاتِ - وبِالصَّالِحَاتِ يُسْتَدَلُّ عَلَى الإِيمَانِ وبِالإِيمَانِ يُعْمَرُ الْعِلْمُ - وبِالْعِلْمِ يُرْهَبُ الْمَوْتُ وبِالْمَوْتِ تُخْتَمُ الدُّنْيَا - وبِالدُّنْيَا تُحْرَزُ الآخِرَةُ - وبِالْقِيَامَةِ تُزْلَفُ الْجَنَّةُ وتُبَرَّزُ الْجَحِيمُ

(۱۵۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اہل بصرہ سے خطاب کرکے انہیں حوادث سے با خبر کیا گیا ہے)

ایسے وقت میں اگر کوئی شخص اپنے نفس کو صرف خدا تک محدود رکھنے کی طاقت رکھتا ہے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے پھر اگر تم میری اطاعت کرو گے تو میں تمہیں انشاء اللہ جنت کے راستہ پرچلائوں گا چاہے اس میں کتنی ہی زحمت اور تلخی کیوں نہ ہو۔ رہ گئی فلاں خاتون(۱) کی بات تو ان پر عورتوں کی جذباتی رائے کا اثر ہوگیا ہے اور اس کینہ نے اثر کردیا ہے جو ان کے سینہ میں لوہار کے کڑھائو کی طرح کھول رہا ہے۔ انہیں اگر میرے علاوہ کسی اور کے سات اس برتائو کی دعوتدی جاتی تو کبھی نہ آتیں لیکن اس کے بعد بھی مجھے ان کی سابقہ حرمت کا خیال ہے اور ان کا حساب بہر حال پروردگار کے ذمہ ہے ۔

ایمان کا راستہ بالکل واضح اوراس کا چراغ مکمل طورپر نورافشاں ہے۔ایمان(۱) ہی کے ذریعہ نیکیوں کا راستہ حاصل کیا جاتا ہے اورنیکیوں ہی کے وسیلہ سے ایمان کی پہچان ہوتی ہے۔ایمان(۲) سے علم کی دنیا آباد ہوتی ہے اورعلم سے موت کاخوف حاصل ہوتا ہے اور موت ہی پر دنیا کا خاتمہ ہوتا ہے اور دنیا ہی کے ذریعہ آخرت حاصل کی جاتی ہے اورآخرت ہی میں جنت کو قریب کردیا جائے گا اورجہنم

(۱)اس فقرہ کودیکھنے کے بعد کوئی شخص ایمان و عمل کے رابطہ کونظانداز نہیں کرسکتا ہے اور نہ ایمان کو عمل سے بے نیاز بنا سکتا ہے۔

(۲)ایمان سے لے کر آخرت تک اتنا حسین تسلسل کسی دوسرے انسان کے کلام میں نظر نہیں آسکتا ہے اوریہمولائے کائنات کی اعجاز بیانی کا ایک بہترین نمونہ ہے۔

۲۷۳

لِلْغَاوِينَ - وإِنَّ الْخَلْقَ لَا مَقْصَرَ لَهُمْ عَنِ الْقِيَامَةِ - مُرْقِلِينَ فِي مِضْمَارِهَا إِلَى الْغَايَةِ الْقُصْوَى.

حال أهل القبور في القيامة

منه: قَدْ شَخَصُوا مِنْ مُسْتَقَرِّ الأَجْدَاثِ - وصَارُوا إِلَى مَصَايِرِ الْغَايَاتِ لِكُلِّ دَارٍ أَهْلُهَا - لَا يَسْتَبْدِلُونَ بِهَا ولَا يُنْقَلُونَ عَنْهَا.

وإِنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ - لَخُلُقَانِ مِنْ خُلُقِ اللَّه سُبْحَانَه - وإِنَّهُمَا لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ - ولَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ - وعَلَيْكُمْ بِكِتَابِ اللَّه - فَإِنَّه الْحَبْلُ الْمَتِينُ والنُّورُ الْمُبِينُ - والشِّفَاءُ النَّافِعُ والرِّيُّ النَّاقِعُ - والْعِصْمَةُ لِلْمُتَمَسِّكِ والنَّجَاةُ لِلْمُتَعَلِّقِ - لَا يَعْوَجُّ فَيُقَامَ ولَا يَزِيغُ فَيُسْتَعْتَبَ - ولَا تُخْلِقُه كَثْرَةُ الرَّدِّ ووُلُوجُ السَّمْعِ - مَنْ قَالَ بِه صَدَقَ ومَنْ عَمِلَ بِه سَبَقَ». وقام إليه رجل فقال: يا أمير المؤمنين، أخبرنا عن الفتنة،

کوگمراہوں کے لئے بالکل نمایاں کردیا جائے گا۔مخلوقات کے لئے قیامت سے پہلے کوئی منزل نہیں ہے۔انہیں اس میدان میں آخری منزل کی طرف بہر حال دوڑ لگانا ہے۔

(ایک دوسرا حصہ)

وہ اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی آخری منزل کی طرف چل پڑے۔ ہر گھر کے اپنے ابل ہوتے ہیں جو نہ گھر بدل سکتے ہیں اور نہ اس سے منتقل ہو سکتے ہیں۔ یقینا امر بالمعروف اورنہی عن المنکر یہ دوخدائی اخلاق ہیں اور یہ نہ کسی کی موت(۱) کو قریب بناتے ہیں اور نہ کسی کی روزی کو کم کرتے ہیں تمہارا فریضہ ہے کہ کتاب خدا سے وابستہ رہو کہ وہی مضبوط ریسمان ہدایت اور روشن نور الٰہی ہے۔اس میں منفعت بخش شفا ہے اوراسی میں پیاس بجھا دینے والی سیرابی ہے۔وہی تمسک کرنے والوں کے لئے وسیلہ عصمت کردار ہے اوروہی رابطہ رکھنے والوں کے لئے ذریعہ نجات ہے۔اسی میں کوئی کجی نہیں ہے جسے سیدھا کیا جائے اور اسی میں کوئی انحراف نہیں ہے جسے درست کیا جائے ۔مسلسل تکرار اسے پرانا نہیں کر سکتی ہے اور برابر سننے سے اس کی تازگی میں فرق نہیں آتا ہے۔جو اس کے ذریعہ کلام کرے گا وہ سچا ہوگا اور جواس کے مطابق عمل کریگا وہ سبقت لے جائے گا ۔اس درمیان ایک شخص کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا یا امیر المومنین ذرا فتنہ کے بارے میں بتلائیے ؟ کیا آپ نے اس سلسلہ میں

(۱) امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے بارے میں پیدا ہونے والے ہر شیطانی وسوسہ کا جواب ان کلمات میں موجود ہے اور ان دونوں کی عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کاموں میں مالک بھی بندوں کے ساتھ شریک ہے بلکہ اسنے پہلے امرونہی کیا ہے۔اس کے بعد بندوں کو امرونہی کا حکم دیا ہے۔

۲۷۴

وهل سألت

رسول اللَّه -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - عنها فقالعليه‌السلام : إِنَّه لَمَّا أَنْزَلَ اللَّه سُبْحَانَه قَوْلَه –( ألم أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا - أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وهُمْ لا يُفْتَنُونَ ) - عَلِمْتُ أَنَّ الْفِتْنَةَ لَا تَنْزِلُ بِنَا - ورَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بَيْنَ أَظْهُرِنَا - فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه مَا هَذِه الْفِتْنَةُ الَّتِي أَخْبَرَكَ اللَّه تَعَالَى بِهَا - فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِنَّ أُمَّتِي سَيُفْتَنُونَ بَعْدِي - فَقُلْتُ يَا رَسُولُ اللَّه - أَولَيْسَ قَدْ قُلْتَ لِي يَوْمَ أُحُدٍ - حَيْثُ اسْتُشْهِدَ مَنِ اسْتُشْهِدَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ - وحِيزَتْ عَنِّي الشَّهَادَةُ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيَّ - فَقُلْتَ لِي أَبْشِرْ فَإِنَّ الشَّهَادَةَ مِنْ وَرَائِكَ - فَقَالَ لِي إِنَّ ذَلِكَ لَكَذَلِكَ فَكَيْفَ صَبْرُكَ إِذاً - فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه لَيْسَ هَذَا مِنْ مَوَاطِنِ الصَّبْرِ - ولَكِنْ مِنْ مَوَاطِنِ الْبُشْرَى والشُّكْرِ - وقَالَ يَا عَلِيُّ إِنَّ الْقَوْمَ سَيُفْتَنُونَ بِأَمْوَالِهِمْ - ويَمُنُّونَ بِدِينِهِمْ عَلَى رَبِّهِمْ - ويَتَمَنَّوْنَ رَحْمَتَه ويَأْمَنُونَ سَطْوَتَه - ويَسْتَحِلُّونَ حَرَامَه بِالشُّبُهَاتِ الْكَاذِبَةِ - والأَهْوَاءِ السَّاهِيَةِ فَيَسْتَحِلُّونَ الْخَمْرَ بِالنَّبِيذِ - والسُّحْتَ بِالْهَدِيَّةِ والرِّبَا بِالْبَيْعِ - قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه - فَبِأَيِّ الْمَنَازِلِ أُنْزِلُهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ - أَبِمَنْزِلَةِ رِدَّةٍ أَمْ بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ فَقَالَ بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ

رسول اکرم (ص) سے کچھ دریافت کیاہے ؟فرمایا: جس وقت آیت شریفہ نازل ہوئی '' کیا لوگوں کا خیال یہ ہے کہ انہیں ایمان کے دعویٰ ہی پر چھوڑ دیا جائے گا اور انہیں فتنہ میں مبتلا نہیں کیا جائے گا'' تو ہمیں اندازہ ہوگیا کہ جب تک رسول اکرم (ص) موجود ہیں فتنہ کا کوئی اندیشہ نہیں ہے لہٰذا میں نے سوال کیا کہ یارسول اللہ یہ فتنہ کیا ہے جس کی پروردگارنے آپ کو اطلاع دی ہے؟ فرمایا یاعلی ! یہ امت میرے بعدفتنہ میں مبتلا ہوگی میں نے عرض کی کیا آپنے احد کے دن جب کچھ مسلمان راہ خدا میں شہید ہوگئے اور مجھے شہادت کا موقع نصیب نہیں ہوا اور مجھے یہ بات سخت تکلیف دہ محسوس ہوئی۔تو کیا یہ نہیں فرمایا تھا کہ یا علی ! بشارت ہو۔شہادت تمہار ے پیچھے آرہی ہے ؟ فرمایا بے شک ! لیکن اس وقت تمہارا صبر کیسا ہوگا؟ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ یہ تو صبر کا موقع نہیں ہے بلکہ مسرت اور(۱) شکر کا موقع ہے۔پھر فرمایا : یا علی !لوگ عنقریب اپنے اموال کے فتنہ میں مبتلا کئے جائیں گے اور اپنے دین کا احسان اپنے پروردگار پر رکھیں گے اور پھر اس کی رحمت کے امید وار بھی ہوں گے اور اپنے کو اس کے غضب سے محفوظ بھی تصور کریں گے جھوٹے شبہات اورغافل کرنے والی خواہشات سے حرام کو حلالا کرلیں گے شراب کو نبید بنا کر حرام کو ہدیہ قرار دے کراور سود کوتجارت کا نام دے کر اس سے استفادہ کریں گے۔

(۱)یہ ہے اس کل ایمان کا کردار جو زندگی کو ہدف اورمقصد نہیں بلکہ وسیلہ خیرات تصور کرتا ہے اور جب یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ زندگی کی قربان یہی تمام خیرات و برکات کا مصد ر ہے تو اس قربانی کے نام پرسجدۂ شکر کرتا ہے اور لفظ صبرو تحمل کو برداشت نہیں کرتا ہے۔

۲۷۵

(۱۵۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحث الناس على التقوى

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي جَعَلَ الْحَمْدَ مِفْتَاحاً لِذِكْرِه - وسَبَباً لِلْمَزِيدِ مِنْ فَضْلِه - ودَلِيلًا عَلَى آلَائِه وعَظَمَتِه.

عِبَادَ اللَّه - إِنَّ الدَّهْرَ يَجْرِي بِالْبَاقِينَ كَجَرْيِه بِالْمَاضِينَ - لَا يَعُودُ مَا قَدْ وَلَّى مِنْه - ولَا يَبْقَى سَرْمَداً مَا فِيه - آخِرُ فَعَالِه كَأَوَّلِه مُتَشَابِهَةٌ أُمُورُه - مُتَظَاهِرَةٌ أَعْلَامُه - فَكَأَنَّكُمْ بِالسَّاعَةِ تَحْدُوكُمْ حَدْوَ الزَّاجِرِ بِشَوْلِه - فَمَنْ شَغَلَ نَفْسَه بِغَيْرِ نَفْسِه تَحَيَّرَ فِي الظُّلُمَاتِ - وارْتَبَكَ فِي الْهَلَكَاتِ - ومَدَّتْ بِه شَيَاطِينُه فِي طُغْيَانِه - وزَيَّنَتْ لَه سَيِّئَ أَعْمَالِه - فَالْجَنَّةُ غَايَةُ السَّابِقِينَ والنَّارُ غَايَةُ الْمُفَرِّطِينَ.

اعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه - أَنَّ التَّقْوَى دَارُ حِصْنٍ عَزِيزٍ - والْفُجُورَ دَارُ حِصْنٍ ذَلِيلٍ - لَا يَمْنَعُ أَهْلَه ولَا يُحْرِزُ مَنْ لَجَأَ إِلَيْه

(۱۵۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کو تقویٰ پرآمادہ کیا گیا ہے)

شکر ہے اس خداکا جس نے اپنی حمد کو اپنی یاد کی کلید' اپنے فضل و کرم میں اضافہ کاذریعہ اور اپنی نعمت و عظمت کی دلیل قرار دیا ہے۔

بندگان خدا ! زمانہ رہ جانے والوں کے ساتھ وہی برتائو کرتا ہے جو جانے والوں کے ساتھ کر چکا ہے کہ نو چلے جانے والا واپس آتا ہے اور نہ رہ جانے والا دوام حاصل کر سکتا ہے۔اس کاآخری طریقہ بھی پہلے ہی جیس ہوتاہے۔اس کے تمام معاملات ایک جیسے اورتمام پرچم ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔گویا تم قیامت کی زد پر ہو اور وہ تم کو اسی طرح ہنکا کرلے جاریہ ہے جسطرح للکارنے والا اونٹنیوں کو لے جاتا ہے۔جو اپنے نفس کو اپنی اصلاح کے بجائے دیگر امور میں مشغول کردیتاہے وہ تاریکیوں میں سر گرداں رہ جاتا ہے اور ہلاکتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔شیاطین اسے سر کشی میں کھینچ لے جاتے ہیں اور اس کے برے اعمال کو آراستہ بنا کر پیش کردیتے ہیں۔ یاد رکھو جنت سبقت کرنے والوں کی آخری منزل ہے اورجہنم کوتاہی کرنے والوں کا آخری ٹھکانا۔

بندگان خدا! یاد رکھوکہ تقویٰ عزت کا ایک محفوظ ترین قلعہ ہے اورفسق وفجور ذلت کا بد ترین ٹھکانا ہے جونہ اپنے اہل کوبچا سکتا ے اورنہ پناہ مانگنے والوں کو پناہ دے سکتا ہے۔

۲۷۶

أَلَا وبِالتَّقْوَى تُقْطَعُ حُمَةُ الْخَطَايَا - وبِالْيَقِينِ تُدْرَكُ الْغَايَةُ الْقُصْوَى.

عِبَادَ اللَّه اللَّه اللَّه فِي أَعَزِّ الأَنْفُسِ عَلَيْكُمْ وأَحَبِّهَا إِلَيْكُمْ - فَإِنَّ اللَّه قَدْ أَوْضَحَ لَكُمْ سَبِيلَ الْحَقِّ وأَنَارَ طُرُقَه - فَشِقْوَةٌ لَازِمَةٌ أَوْ سَعَادَةٌ دَائِمَةٌ - فَتَزَوَّدُوا فِي أَيَّامِ الْفَنَاءِ لأَيَّامِ الْبَقَاءِ - قَدْ دُلِلْتُمْ عَلَى الزَّادِ وأُمِرْتُمْ بِالظَّعْنِ - وحُثِثْتُمْ عَلَى الْمَسِيرِ - فَإِنَّمَا أَنْتُمْ كَرَكْبٍ وُقُوفٍ لَا يَدْرُونَ - مَتَى يُؤْمَرُونَ بِالسَّيْرِ - أَلَا فَمَا يَصْنَعُ بِالدُّنْيَا مَنْ خُلِقَ لِلآخِرَةِ - ومَا يَصْنَعُ بِالْمَالِ مَنْ عَمَّا قَلِيلٍ يُسْلَبُه - وتَبْقَى عَلَيْه تَبِعَتُه وحِسَابُه.

عِبَادَ اللَّه - إِنَّه لَيْسَ لِمَا وَعَدَ اللَّه مِنَ الْخَيْرِ مَتْرَكٌ - ولَا فِيمَا نَهَى عَنْه مِنَ الشَّرِّ مَرْغَبٌ.

عِبَادَ اللَّه - احْذَرُوا يَوْماً تُفْحَصُ فِيه الأَعْمَالُ - ويَكْثُرُ فِيه الزِّلْزَالُ وتَشِيبُ فِيه الأَطْفَالُ.

یاد رکھو تقویٰ ہی سے گناہوں کے ڈنک کاٹے جاتے(۱) ہیں۔اور یقین ہی سے بلند ترین منزل حاصل کی جاتی ہے۔

بندگان خدا! اپنے عزیز ترین نفس کے بارے میں اللہ کو ید رکھو کہ اس نے تمہارے لئے راہحق کو واضح کردیا ہے اوراس کے راستوں کو منور بنادیا ہے۔پھر یا دائمی شقاوت ہے یا ابدی سعادت۔مناسب یہ ہے کہ فناکے گھرسے بقا کے گھر کاسامان فراہم کرلو۔زاد راہ تمہیں بتا دیا گیا ہے اور کوچ کاحکم دیا جا چکا ہے اور سفر پرآمادہ کیا جا چکا ہے۔تم سر راہ ٹھہرے ہوئے قافلہ کے مانند ہو جسے یہ نہیں معلوم ہے کہ کب حکم سفردے دیا جائے گا۔

ہوشیار ہو جائو! جو آخرت کے لئے بنایا گیا ہے وہدنیا کو لے کر کیا کرے گا اور جس سے مال عنقریب چھن جانے والا ہے وہ مال سے دل لگا کرکیا کرے گا جب کہ اس کے اثرات اورحسابات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

بندگان خدا ! یاد رکھو خدانے جس بھلائی کاوعدہ کیا ہے اسے چھوڑا نہیں جا سکتا ہے اور جس برائی سے روکا ہے اس کی خواہش نہیں کی جا سکتی ہے۔

بندگان خدا! اس دن سے ڈرو جب اعمال کی جانچ پڑتا کی جائے گی اورزلزلوں کی بہتات ہوگی کہ بچے تک بوڑھے ہو جائیں گے۔

(۱) حقیقت امر یہ ہیکہ گناہوں میں ڈنک پائے جاتے ہیں جو انسان کے کردار کو مسلسل زخمی کرتے رہتے ہیں لیکن انسان اس قدر بے حس ہوگیا ہے کہاسے اس زخم کا احساس نہیں ہوتا ہے اوروہ اس ڈنک میں بھی لذت محسوس کرتا ہے۔امیر المومنین نے اس ڈنک کو کاٹ دینے کا بہترین ذریعہ تقویٰ کو قراردیاہے جس کے بعد گناہوں میں زخمی بنانے کی ہمت نہیں رہ جاتی ہے اور انسان کردار کی ہر طرح کی مجروجیت سے محفوظ ہوجاتا ہے۔

۲۷۷

اعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه - أَنَّ عَلَيْكُمْ رَصَداً مِنْ أَنْفُسِكُمْ - وعُيُوناً مِنْ جَوَارِحِكُمْ - وحُفَّاظَ صِدْقٍ يَحْفَظُونَ أَعْمَالَكُمْ وعَدَدَ أَنْفَاسِكُمْ - لَا تَسْتُرُكُمْ مِنْهُمْ ظُلْمَةُ لَيْلٍ دَاجٍ - ولَا يُكِنُّكُمْ مِنْهُمْ بَابٌ ذُو رِتَاجٍ - وإِنَّ غَداً مِنَ الْيَوْمِ قَرِيبٌ.

يَذْهَبُ الْيَوْمُ بِمَا فِيه - ويَجِيءُ الْغَدُ لَاحِقاً بِه - فَكَأَنَّ كُلَّ امْرِئٍ مِنْكُمْ - قَدْ بَلَغَ مِنَ الأَرْضِ مَنْزِلَ وَحْدَتِه ومَخَطَّ حُفْرَتِه - فَيَا لَه مِنْ بَيْتِ وَحْدَةٍ - ومَنْزِلِ وَحْشَةٍ ومُفْرَدِ غُرْبَةٍ - وكَأَنَّ الصَّيْحَةَ قَدْ أَتَتْكُمْ - والسَّاعَةَ قَدْ غَشِيَتْكُمْ - وبَرَزْتُمْ لِفَصْلِ الْقَضَاءِ - قَدْ زَاحَتْ عَنْكُمُ الأَبَاطِيلُ - واضْمَحَلَّتْ عَنْكُمُ الْعِلَلُ – واسْتَحَقَّتْ بِكُمُ الْحَقَائِقُ - وصَدَرَتْ بِكُمُ الأُمُورُ مَصَادِرَهَا - فَاتَّعِظُوا بِالْعِبَرِ - واعْتَبِرُوا بِالْغِيَرِ وانْتَفِعُوا بِالنُّذُرِ.

یاد رکھو اے بند گان خدا!کہ تم پرتمہارے ہی نفس(۱) کونگراں بنایا گیا ہے اور تمہارے اعضاء و جوارح تمہارے لئے جاسوسوں کا کام کر رہے ہیں اور کچھ بہترین محافظ ہیں جو تمہارے اعمال اور تمہاری سانسوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ان سے نہ کسیتاریک رات کی تاریکی چھپا سکتی ہے اور نہب ند دروازے ان سے اوجھل بنا سکتے ہیں۔اور کل آنے والا دن آج سے بہت قریب ہے۔

آج کا دن اپنا سازو سامان لے کرچلا جائے گا اور کل کادن اس کے پیچھے آرہا ہے ۔گویاہر شخص زمین میں اپنی تنہائی کی منزل اورگڑھے کے نشان تک پہنچ چکاہے۔ہائے وہ تنہائی کا گھر۔وحشت کی منزل اور غربت کامکان۔گویا کہ آوازتم تک پہنچ چکی ہے اور قیامت تمہیں اپنے گھیرے میں لے چکی ہے اور تمہیں آخری فیصلہ کے لئے قبروں سے نکالا جا چکا ہے۔جہاں تمام باطل باتیں ختم ہو چکی ہیں اور تمام حیلے بہانے کمزور پڑ چکے ہیں' حقائق ثابت ہو چکے ہیں اور امور پلٹ کر اپنی منزل پر آگئے ہیں۔ لہٰذا عبرتوں سے نصیحت حاصل کرو۔تغیرات زمانہ سے عبرت کا سامان فراہم کرو اور پھر ڈرانے والے کی نصیحت سے فائدہ اٹھائو۔

(۱) مالک کائنات نے انسان کی فطرت کے اندر ایک صلاحیت رکھی ہے جس کا کام ہے نیکیوں پر سکون و اطمینان کا سامان فراہم کرنا اور برائیوں پرتنبیہ اورسرزنش کرنا۔عرف عام میں اسے ضمیر سے تعبیر کیا جاتا ہے جو اس وقت بھی بیدار رہتا ہے جب آدمی غفلت کی نیند سو جاتا ہے اور اس وقت بھی مصروف تنبیہ رہتا ہے جب انسان مکمل طور پر گناہ میں ڈوب جاتا ہے۔یہ صلاحیت اپنے مقام پر ہر انسان میں ودیعت کی گئی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اچھائی اور برائی کا ادراک بھی کبھی فطری ہوتا ہے جیسے احسان کی اچھائی اورظلم کی برائی۔اورکبھی اس کا تعلق سماج' معاشرہ یا دین و مذہب سے ہوتا ہے تو جس چیز کومذہب یا سماج اچھا کہہدیتا ہے ضمیر اس سے مطمئن ہو جاتا ہے اور جس چیزکو برا قرار دے دیتا ہے اس پر مذمت کرنے لگتاہے اور اس مدح یاذم کا تعلق فطرت کے احکام سے نہیں ہوتا ہے بلکہ سماج یا قانون کے احکام سے ہوتا ہے۔

۲۷۸

(۱۵۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

ينبه فيها على فضل الرسول الأعظم، وفضل القرآن، ثم حال دولة بني أمية

النبي والقرآن

أَرْسَلَه عَلَى حِينِ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ - وطُولِ هَجْعَةٍ مِنَ الأُمَمِ وانْتِقَاضٍ مِنَ الْمُبْرَمِ - فَجَاءَهُمْ بِتَصْدِيقِ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْه - والنُّورِ الْمُقْتَدَى بِه ذَلِكَ الْقُرْآنُ فَاسْتَنْطِقُوه - ولَنْ يَنْطِقَ ولَكِنْ أُخْبِرُكُمْ عَنْه - أَلَا إِنَّ فِيه عِلْمَ مَا يَأْتِي - والْحَدِيثَ عَنِ الْمَاضِي - ودَوَاءَ دَائِكُمْ ونَظْمَ مَا بَيْنَكُمْ.

دولة بني أمية

ومنها - فَعِنْدَ ذَلِكَ لَا يَبْقَى بَيْتُ مَدَرٍ ولَا وَبَرٍ - إِلَّا وأَدْخَلَه الظَّلَمَةُ تَرْحَةً وأَوْلَجُوا فِيه نِقْمَةً - فَيَوْمَئِذٍ لَا يَبْقَى لَهُمْ فِي السَّمَاءِ عَاذِرٌ - ولَا فِي الأَرْضِ نَاصِرٌ - أَصْفَيْتُمْ بِالأَمْرِ غَيْرَ أَهْلِه وأَوْرَدْتُمُوه غَيْرَ مَوْرِدِه - وسَيَنْتَقِمُ اللَّه مِمَّنْ ظَلَمَ - مَأْكَلًا بِمَأْكَلٍ ومَشْرَباً بِمَشْرَبٍ - مِنْ مَطَاعِمِ الْعَلْقَمِ ومَشَارِبِ الصَّبِرِ والْمَقِرِ - ولِبَاسِ شِعَارِ الْخَوْفِ ودِثَارِ السَّيْفِ - وإِنَّمَا هُمْ مَطَايَا الْخَطِيئَاتِ

(۱۵۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رسول اکرم (ص) کی بعثت اورقرآن کی فضیلت کے ساتھ بنی امیہ کی حکومت کاذکر کیاگیا ہے)

اللہ نے پیغمبر کو اس وقت بھیجا جب رسولوں کا سلسلہ رکاہوا تھا اور قومیں گہری نیند میں مبتلا تھیں۔اوردین کی مستحکم رسی کے بل کھل چکے تھے۔آپ نے آکر پہلے والوں کی تصدیق کی اوروہ نور پش کیا جس کی اقتداکی جائے ۔اور یہی قرآن ہے۔اسے بلوا کر دیکھو اور یہ خود نہیں بولے گا۔میں اس کی طرف سے ترجمانی کروں گا۔یاد رکھو کہ اس میں مستقبل کا علم ہے اورماضی کی داستان ہے تمہارے درد کی دوا ے اور تمہارے امورکی تنظیم کا سامان ہے

(اس کا دوسراحصہ) اس وقت کوئی شہری یا دیہاتی مکان ایسا نہ بچے گا جس میں ظالم غم و الم کوداخل نہ کردیں اور اس میں سختیوں کا گزر نہ ہو جائے ۔اس وقت ان کے لئے نہ آسمان میں کوئی عذرخواہی کرنے والا ہوگا اور نہ ز مین میں مدد گار۔تم نے اس امر کے لئے نا اہلوں کا انتخاب کیا ہے اور انہیں دوسرے کے گھاٹ پر اتار دیا ہے اور عنقریب خدا ظالموں سے انتقام لے لے گا۔کھانے کے بدلے میں کھانے سے اور پینے کے بدلے میں پینے سے ۔خنظل کاکھانا اور ایلوا کا اور زہرہلا ہل کا پینا۔خوف کا اندرونی لباس اور تلوارکا باہر کا لباس ہوگا۔یہ ظالم خطائوں

۲۷۹

وزَوَامِلُ الآثَامِ - فَأُقْسِمُ ثُمَّ أُقْسِمُ - لَتَنْخَمَنَّهَا أُمَيَّةُ مِنْ بَعْدِي كَمَا تُلْفَظُ النُّخَامَةُ - ثُمَّ لَا تَذُوقُهَا ولَا تَطْعَمُ بِطَعْمِهَا أَبَداً - مَا كَرَّ الْجَدِيدَانِ !

(۱۵۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يبين فيها حسن معاملته لرعيته

ولَقَدْ أَحْسَنْتُ جِوَارَكُمْ - وأَحَطْتُ بِجُهْدِي مِنْ وَرَائِكُمْ - وأَعْتَقْتُكُمْ مِنْ رِبَقِ الذُّلِّ وحَلَقِ الضَّيْمِ - شُكْراً مِنِّي لِلْبِرِّ الْقَلِيلِ - وإِطْرَاقاً عَمَّا أَدْرَكَه الْبَصَرُ - وشَهِدَه الْبَدَنُ مِنَ الْمُنْكَرِ الْكَثِيرِ.

(۱۶۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عظمة اللَّه

أَمْرُه قَضَاءٌ وحِكْمَةٌ ورِضَاه أَمَانٌ ورَحْمَةُ - يَقْضِي بِعِلْمٍ ويَعْفُو بِحِلْمٍ.

حمد اللَّه

اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى مَا تَأْخُذُ

کی سواریاں اور گناہوں کے باربردار اونٹ ہیں۔لہٰذا میں باربار قسم کھاکر کہتا ہوں کہ بنی امیہ میرے بعد اس خلافت کو اس طرح تھوک دیں گے جس طرح بلغم کو تھوک دیا جاتا ہے اور پھر جب تک شب و روزباقی ہیں اس کامزہ چکھنا اور اس سے لذت حاصل کرنا نصیب نہ ہوگا

(۱۵۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رعایا کے ساتھ اپنے حسن سلوک کا ذکر فرمایا ہے )

میں تمہارے ہمسایہ میں نہایت درجہ خوبصورتی کے ساتھ رہا اور جہاں تک ممکن ہواتمہاری حفاظت اورنگہداشت کرتا رہا اور تمہیں لذت کی رسی اور ظلم کے پھندوں سے آزاد کرایا کہ میں تمہاری مختصر نیکی کا شکریہ ادا کر رہا تھا اور تمہاری ان تمام برائیوں کو جنہیں آنکھوں نے دیکھ لیا تھا اس سے چشم پوشی کر رہا تھا۔

(۱۶۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(عظمت پروردگار)

(اس کا امر فیصلہ کن اور سراپا حکمت ہے اور اس کی رضا مکمل امان اور رحمت ہے وہ اپنے علم سے فیصلہ کرتا ہے اور اپنے حلم کی بنا پرمعاف کردیتا ہے )

(حمد خدا)

پروردگار تیرے لئے ان تمام چیزوں پرحمد ہے جنہیں تولے

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

پیش نظر بیعت کرلی تاکہ ایسا نہ ہو یہ لوگ آگے بڑھ جائیں اور سعد بن عبادہ امیر ہوجائیں۔ یہاں تک کہ اس میں بعد کو رفتہ رفتہ توسیع ہوتی گئی حالانکہ اجماع کیدلیل اگرمضبوط چیز تھی تو، اتنا توقف کرنا چاہئیے تھا کہ ساری امت ( یا بقول آپ کے عقلمند گروہ) جمع ہوجائے اور مجمع عام کے اندر استصواب رائے کر لیا جائے تاکہ صحیح طور پر اجماع صادق آجائے۔

حافظ : میں نے عرض کیا کہ فتنے اٹھ رہے تھے۔ اوس و خزرج دو قبیلے سقیفے میں جمع تھے اور آپس میں نزاع کر رہے تھے۔ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ مسلمانوں کی امارت و حکومت کا تقرر اپنی طرف سے کرے بدیہی بات ہے، کہ ایک ادنی سی غفلت بھی انصار کے حق میں مفید ثابت ہوتی اور مہاجرین کا کوئی قابو نہ رہتا، اسی وجہ سے مجبور تھے کہ کام میں جلدی کریں۔

خیر طلب : ہم بھی چشم پوشی کرتے ہوئے آپ کی بات تسلیم کئے لیتے ہیں اور آپ ہی کے قول سے سند لیتے ہیں نیز جیسا کہ آپ کے مورخین مثلا محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ جلد دوم ص457 میں اور دوسروں نے لکھا ہے کہ مسلمان سقیفے میں امر خلافت پر رائے زنی کرنے جمع نہیں ہوئے تھے بلکہ اوس خزرج ک دو قبیلے چاہتے تھے کہ اپنے لیے امیر معین کریں۔ ابوبکر و عمر نے بھی اپنے کو ، اس صف آرائی میں پہنچا یا اور اس اختلاف سے خود فائدہ اٹھا لیا۔ اگر واقعی امر خلافت میں صلاح و مشورہ کرنے اکٹھا ہوئے ہوتے تو پہلے جملہ مسلمانوں کو ضرور خبر دیتے کہ رائے دینے کے لیے حاضر ہوں۔

بازیگروں سے اسامہ کی گفتگو

چنانچہ جیسا آپ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو خبر دینے کا موقع نہیں تھا اور وقت گزرا جارہا تھا۔ ہم بھی آپ کے ہم آواز ہوکر کہتے کہ مکہ، یمن، طائف اور دوسری مسلمان آبادیوں تک دسترس نہیں تھا مگر کیا اسامہ بن زید کے لشکر تک بھی رسائی ممکن نہ تھی جو مدینے کے باہر ہی پڑائو ڈالے ہوئے تھا کہ ان بزرگ اصحاب کو بلا کر مشورہ لے لیتے جو اس فوج میں شامل تھے اور جن میں سے ایک نمایاں فرد مسلمانوں کے امیر لشکر اسامہ بن زید بھی تھے جن کو خود رسول اللہ(ص) نے افسری عطا فرمائی تھی اور ابوبکر و عمر بھی ان کے ماتحت تھےجس وقت اسامہ نے سنا کہ ایک سازش کے ذریعے تین آدمیوں کے ہاتھ خلیفہ سازی ہوئی ہے اور ان لوگوں نے بغیر کسی مشورے اور اطلاع کے ایک شخص کی بیعت کر لیے ہے تو سوار ہو کر مسجد رسول(ص) میں آئے اور بقول تمام مورخین کے ایک نعرہ مارا کہ تم لوگوں نے یہ کیا ہنگامہ برپا کر رکھا ہے؟ کس کی اجازت سے خلیفہ گھڑ لیا ہے؟ تم چند نفر کیا حیثیت رکھتے تھے کہ مسلمانوں اور بزرگان صحابہ کے مشورے اور اجماع سے خلیفہ مقرر کر لیا؟ عمر نے لیپ پوت کرتے ہوئے کہا اسامہ کام ختم ہوچکا اور بیعت واقع ہوچکی ، اب پھوٹ نہ پیدا کرو بلکہ تم بھی بیعت کر لو۔ اسامہ کو تائو آگیا،

۳۰۱

انہوں نے کہا کہ پیغمبر(ص) نے مجھ کو تمہارا سردار بنایا تھا اور امارت سے معزول بھی نہیں کیا تھا۔ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ تم لوگوں پر رسول خدا(ص) کا منتخب فرمایا ہوا امیر اپنے ہاتحتوں اور محکوموں کی بیعت کرے۔ اس کے علاوہ اور بہت کچھ بات چیت ہوئی لیکن نمونتہ اسی قدر کافی ہے۔ اگر آپ کہئے کہ اسامہ کا لشکر بھی شہر سے کچھ فاصلے پر تھا اور وقت نکلا جا رہا تھا تو حضرات کیا سقیفے سے مسجد اور خانہ پیغمبر(ص) بھی بہت دور تھا؟ آخر علی علیہ السلام کو جو باتفاق فریقین مسلمانوں کے اندر ایک بڑی شخصیت کے مالک تھے، عم رسول(ص) عباس کو تمام بن ہاشم اور عترت پیغمبر(ص) کو جن کے لیے آں حضرت(ص) نے وصیتیں فرمائی تھیں اور جو عدیل قرآن تھے اور کبار صحابہ کو جو وہاں موجود تھے کیوں مطلع نہیں کیا تاکہ ان کی رائے سے فائدہ اٹھایا جائے؟

حافظ : میرا خیال ہے کہ صورت حال ایسی خطرناک تھی کی غفلت اور سقیفہ سے باہر آنے کا موقع نہیں تھا۔

خیر طلب : آپ زیادتی کر رہے ہیں، موقع تھا لیکن انہوں نے جان بوجھ کر علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور کبار صحابہ کو جو خانہ رسول(ص) میں جمع تھے اطلاع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

حافظ : ان کے عمدا ایسا کرنے پر آپ کی دلیل کیا ہے؟

خیر طلب : سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خلیفہ عمر رسول اللہ(ص) کے دروازے تک آئے تھے لیکن اندر داخل نہیں ہوئے تاکہ اس گھر میں مجتمع علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور اصحاب کبار کوخبر نہ ہونے پائے۔

حافظ : یہ بات تو قطعا رافضیوں کی گھڑی ہوئی ہے۔

خیر طلب: پھر آپ نے بے لطفی کی بات کی۔ یہ بات کسی کا گھڑی ہوئی نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ اسے تیسری صدی کے بڑے عالم محمد بن جریرطبری کی مشہور تاریخ جلد دوم ص256 کا مطالعہ فرمائیے۔

وہ لکھتے ہیں کہ عمر خانہ رسول (ص) کے در تک آئے لیکن اندر نہیں گئے بلکہ ابوبکر کو پیغام بھیجا کہ جلدی آئو بہت ضروری کام ہے ۔ ابوبکر نے جواب دیا کہ اس وقت مجھ کو فرصت نہیں ہے۔ انہوں نے پھر کہلایا کہ ایک خاص کام در پیش ہے جس میں تمہاری موجودگی ضروری ہے۔ ابوبکر باہر آئے تو خفیہ طور سے ان کو سقیفے میں اںصار کے جمع ہونے کا معاملہ بتایا اور کہاکہ ہم کو فورا وہاں پہنچ جانا چایئے ۔ یہ دونوں چلے او راستے میں ابو عبیدہ ( گور رکن) کو بھی ساتھ لے لیا۔ تاکہ تین آدمی مل کر اجماع امت کی تشکیل کریں اور آج آپ اسی کا سہارا لیں خدا کے لیے انصاف کیجئے کہ اگر کوئی سازش اور قرار واد کام نہیں کر رہی تھی تو عمر خانہ پیغمبر (ص) تک جارکر اندر کیوں نہیں گئے تاکہ صورت واقعہ کو تمام بنی ہاشم اور کبار صحابہ کے گوش کر کے سب سے مدد طلب کریں؟ کیا ساری امت رسول(ص) امت میں صرف ایک ابوبکر ہی عقل کلی رہ گئے تھے اور دوسرے صحابہ اور عترت رسول سب بیگانہ تھے جن کو اس حادثے کی خبر ہی نہ ہونا چاہتے تھا۔

چشم باز و گوش بازو این عمیحیر تم از چشم بندی خدا

آیا آپ کا یہ خود ساختہ اجماع جیسا کہ آپ کے تمام مورخین نے لکھا ہے فقط تین آدمیوں ( ابوبکر و عمر

۳۰۲

اور ابوعبیدہ جراح ( گورکن) کے ہاتھوں پر قائم ہوگیا؟ آیا دنیا کے کس خطے میں عقیدہ قابل قبول ہے کہ اگر تین شخص یا کوئی جتھہ کسی شہر یا دار السلطنت میں اکٹھا ہو اور فرض کیا جائے کہ اس شہر کے باشندے کسی شخص کی ریاست و حکومت یا خلافت پر اجماع بھی کرلیں تو دوسرے مقامات کے صاحبان عقل و علم اور دانش مندوں پر ان کی پیروی واجب ہوجائے؟ یا ایسے چند عقلمندوں کی رائے جن کو دوسروں نے منتخب نہ کیا ہو باقی عقلندوں کے لیے واجب العمل بن جائے؟ آیا یہ جائز ہے کہ ایک گروہ کی ہنگامہ سازی اور دھمکی کے مقابلے میں پوری قوم کے خیالات کا گلا گھونٹ دیا جائے؟ حضرات انصاف کیجئے ! اگر ایک جماعت والے حق بات کہنا چاہیں اور علمی مباحثوں او عملی تنقیدوں کی روشنی میں بتایں کہ یہ خود ساختہ خلافت و اجماع کسی دینی یا دنیاوی قانوں کے مطابق صحیح نہیں ے تو ان کو رافضی، مشرک اور نجس کہا جائے، ان کا قتل واجب سمجھا جائے اور کوئی ایسی تہمت باقی ن رہے جو ان پر تھوپ دی جائے؟

آپ کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے خلافت کا معاملہ امت پر ( یا بقول آپ کے عقلائے امت پر) چھوڑ دیا۔ خدا کے لیے انصاف سے کہئے گا کہ امت اور عقلائے امت کیا فقط تین ہی آدمی تھے ابوبکر وعمر اور ابو عبیدہ جراح( گورکن) جنہوں نے آپس می سمجھوتہ کر کے دونے ایک کو مان لیا تو سارے مسلمانوں پر فرض ہوگیا کہ انہیں کے راستے پر چلیں؟ اور اگر کچھ لوگ یہ کہہ دیں کہ یہ تینوں اشخاص بھی باقی امت اور صحابہ کے مانند تھے لہذا سارے اصحاب سے صلاح و مشورہ کیوں نہیں کیا؟ تو وہ کافر، مردود اور گردن زدنی قرار پائیں؟

باتفاق فریقین اجماع کا واقع نہ ہونا

حضرات اگر آپ تعصب کا جامہ اتار کر تھوڑا غور کیجئے تو بخوبی واضح ہوجائے گا کہ اقلیت واکثریت اور اجماع کے درمیان بڑا فرق ہے۔ اگر کسی خاص مقصد کےلیے بزم مشاورت منعقد کی جائے تو تھوڑے لوگ کوئی رائے دیں تو کہا جائے گا کہ جلسے کی اقلیت نے یہ رائے دی، اگر زیادہ مجمع رائے دے تو اکثریت کی رائے کہی جائے گی اور اگر سب کے سب باتفاق رائے کوئی بات کہیں تو کہا جائے گا کہ اجماع واقع ہوا یعنی ایک فرد بھی مخالف نہیں تھی۔ اب برائے خدا یہ بتائیے کہ کیا سقیفہ میں اور اس کے بعد مسجد میں پھر شہر مدینہ میں لوگوں نے خلافت ابوبکر کے لیے ایسی اجماعی رائے دی اگر آپ کے حسب خواہش ہم جبرا ساری امت سے حق رائے دہندگی چھین لیں اور آپ کی آواز میں آواز ملاکر کہنے لگیں کہ اجماع سے صرف مرکز اسلامی یعنی مدینہ منورہ کے عقلاء اورکبار صحابہ ہی کو مراد لینا کافی ہے تب بھی آپ کو خدا کی قسم سچ بتائیے کہ آیا ایسا اجماع واقع ہوا جس میں مدینے کے تمام عقلاء کبار صحابہ بالاتفاق خلافت ابوبکر کے لیے رائے دی ہو؟ آیا اس تھوڑی سی جماعت نے بھی متفقہ رائے دی تھی جو سقیفے میں حاضر تھی ؟ قطعا

۳۰۳

جواب نفی میں ہوگا۔ چنانچہ صاحب مواقف نے خود اعتراف کیا ہے کہ خلافت ابوبکر میں کوئی اجماع واقع نہیں ہوا یہاں تک کہ خود مدینے کے اندر اور اہل حل و عقد میں بھی، اس لیے کہ سعد بن عبادہ انصاری ان کی اولاد، خاص خاص صحابہ، تمام بنی ہاشم ، ان کے دوست اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام چھ ماہ تک مخالفت کرتے رہے اور بیعت نہیں کی۔

در اصل جب ہم حق و انصاف کے روسے تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ خود مدینہ منورہ میں بھی جو نبوت اور حکومت اسلامی کا مرکز تھا ایسا اجماع واقع نہیں ہوا جس میں وہاں پر موجود صاحبان عقل اور صحابہ نے خلافت ابوبکر کی متحدہ تائید کی ہو۔

چنانچہ خود آپ کے اکثر ثقہ راویوں اور بڑے بڑے مورخون نے جیسے امام فخر الدین رازی ، جلال الدین سیوطی، ابن ابی الحدید معتزلی، طبری، بخاری اور مسلم وغیرہ نے مختلف عبارتوں کے ساتھ بتایا ہے اور نقل کیا ہے کہ خود مدینے میں پورا اجماع منعقد نہیں ہوا۔

علاوہ اس کے کہ تمام بنی ہاشم و رسول اللہ(ص) کے اہل بیت(ع) جو عدیل قرآن تھے اور دوسرے اہل خاندان جن کی رائے اچھی خاصی اہمیت رکھتی تھی اور بنی امیہ بلکہ عام اصحاب بھی سوا تین نفر کے سقیفہ میں خلافت پر رائے دینے کے لیے حاضر نہ تھے۔ بلکہ سننے کے بعد انہوں نے اس پر پورا اعتراض بھی کیا۔ یہاں تک کہ مہاجرین و انصار میں سے جن بزرگ اصحاب نے بیعت سقیفہ کو غلط بتایا تھا ان میں سے چند مقتدر حضرات سے مسجد میں جاکر ابوبکر سے احتجاجات بھی کئے جیسے مہاجرین میں سے سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد بن اسود کندی، عمار یاسر، بریدہ اسلمی اور خالد بن سعید بن عاص اموی۔ اور انصار میں سے ابوالہیثم بن التیہان خذیفہ بن ثابت ذوالشہادتین ( جن کو رسول اکرم(ص) نے ذوالشہادتین لقب دیا تھا، ابو ایوب انصاری، ابی بن کعب، سہل بن حنیف اور عثمان بن حنیف۔ ان میں سے ہر ایک نے مسجد کے اندر کافی اور شافی دلائل و براہین پیش کئے جن کی تفصیل بیان کرنے کا وقت نہیں ہے۔ صرف حاضرین اور سامعین کی بصیرت افروزی اور اتمام حجت کے لیے یہ مختصر خاکہ پیش کر دیا تاکہ واضح ہوجائے کہ اجماع مکمل طور پر باطل اور بے بنیاد ہے کیونکہ خود مدینے میں بھی اجماع واقع نہیں ہوا بلکہ مدینے کے عقلاء اور اکابر اصحاب کا اجماع بھی صریحی جھوٹ ہے کچھ مخالفین خلافت کے نام آپ کی معتبر کتابوں سے عرض کرتا ہوں۔

کبار صحابہ کی بیعت ابوبکر سے علیحدگی

ابن حجر عسقلانی اور بلاذری تاریخ میں، محمد خاوندشاہ روضتہ الصفا می، ابن عبدالبر استیعاب میں، اور دوسرے علماء کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ، قبیلہ خزرج اور قریش کے ایک گروہ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کہ نیز اٹھارہ

۳۰۴

نفر بزرگان صحابہ نے بیعت نہیں کی اور رافضی ہوگئے۔ یہ لوگ علی ابن ابی طالب(ع) کے شیعہ تھے۔

ان اٹھارہ اصحاب کے نام یہ تھے ۔1۔ سلمان فارسی۔ 2۔ ابوذر غفاری۔3۔ مقداد بن اسود (کندی) ۔ 4۔ عمار یاسر۔ 5۔ خالد بن سعید بن العاص۔ 6۔ بریدہ الاسلمی۔ 7۔ ابی بن کعب۔ 8۔ خذیمہ بن ثابت ذوالشہادتین۔9۔ ابوالہیثم بن التیہان۔ 10۔ سہل بن حنیف ۔ 11۔ عثمان بن حنیف ذوالشہادتین۔ 12۔ ابو ایوب انصاری۔ 13۔ جابر بن عبداللہ انصاری۔ 14۔ حذیفہ بن الیمان۔ 15۔ سعد بن عبادہ ۔ 16۔ قیس بن سعد ۔ 17۔ عبداللہ بن عباس۔ 18۔ زید بن ارقم۔

یعقوبی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ :

" لقد تخلف عن بيعة ابی بکر قوم من المهاجرين والانصار ومالوا مع علی ابن ابی طالب. منهم العباس بن عبدالمطلب و الفضل بن العباس و الزبير بن العوام بن العاص و خالد بن سعيد والمقداد بن عمر و سلمان الفارسی و ابوذر الغفاری و عمار بن ياسر و البراء بن عازب و ابی بن کعب."

یعنی مہاجرین و اںصار کی ایک جماعت نے بیعت ابی بکر سے اختلاف اور علیحدگی اختیار کی اور علی بن ابی طالب(ع) کی طرف مائل ہوئی من جملہ ان کے عباس ابن عبدالمطلب، فضل بن عباس، زبیر بن عوام بن العاص، خالد بن سعید، مقداد بن عمر، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عماریاسر، براء بن عازب اور ابی بن کعب بھی تھے۔

تو کیا یہ افراد قوم کے صاحبان عقل، اکابر اصحاب اور رسول اللہ(ص) کے ہمدم و ہمراز نہیں تھے؟ کیا علی علیہ السلام ، عباس عم پیغمبر(ص) اور دوسرے بزرگان بنی ہاشم عقلائے قوم نہ تھے؟ خدا کے لیے ذرا اںصاف سے بتائیے یہ کیسا اجماع تھا، جو بغیر ان حضرات کی موجودگی ، مشورے، رضامندی اور تصدیق کے قائم ہوگیا؟ اس مجمع کے درمیان سے راز دانہ طور پر صرف تنہا ابوبکر کو بلا کر لے جائیں اور دوسرے کبار صحابہ کو نہ کوئی اطلاع دیں نہ ان سے صلاح ومشورہ لیں تو آیا اس سے اجماع کے معنی پیدا ہوتے ہیں یا یہ مطلب نکلتا ہے کہ ایک سیاسی سازش کام کر رہی تھی؟

پس علاوہ اس کے کہ تعیین خلافت کے موقع پر تمام امت کا اجماع منعقد نہیں ہوا تمام اہل مدینہ کا اجماع ہوسکا بلکہ سعد بن عبادہ اور ان کے ہمراہیوں کے نکل جانے سے اہل سقیفہ کے اس چھوٹے موٹے گروہ میں بھی اجماع نہیں ہوسکا البتہ یہ وہ پہلا کھیل تماشا تھا جو عالم اسلامی نے انسانی تاریخ کو امانت دیا۔

حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ

ان سب سے قطع نظر بنی ہاشم اور عترت و اہل بیت رسول(ص) بھی جن کا اجماع یقینا حجت تھا باعتبار حدیث مسلم بین الفریقین جس کو میں گزشتہ شبوں میں معتبر اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

" إنّي تارك

۳۰۵

فيكم الثقلين كتاباللّه وعترتي في أهلبيتي،ان تمسّكتم بهمافقد نجوتم ( و فی نسخة) لنتضلّوا بعدها ابدا"

یعنی میں تمہارے درمیان دو بزرگ چیزیں چھوڑ رہا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت و اہل بیت اگر ان دونوں سے تمسک رکھوگے تو یقینا نجات پائوگے ( اور ایک نسخے میں ہے) ہرگز گمراہ نہ ہوگے ( دیکھئے اس کتاب کا صفحہ نہ سقیفے میں موجود تھے نہ خلافت ابوبکر کی حمایت کی( یعنی ان کو اطلاع ہی نہیں دی گئی کہ وہاں اکٹھا ہوں تاکہ اجماع صادق آسکے۔

دوسری مشہور حدیث جو حدیث سفینہ کے نام سے موسوم ہے اور پچھلی راتوں میں مع اسناد کے ذکر کی جاچکی ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

" مثل اهل بيتى كمثل سفينةنوح من توسل بهم نجى ومن تخلّف عنه اهلك"

یعنی میرے اہلبیت(ع) کی مثال کشتی نوح(ع) کے مانند ہے جو شخص اس سے متوسل رہے گا وہ نجات پائے گا اور جو شخص ان سے رو گردانی کرے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔

ثابت کرتی ہے کہ جس طرح طوفان اور بلائوں میں امت نوح کی نجات سفینے کے ذریعے سے تھی اس امت کو بھی حوادث اور آفات میں اہل بیت(ع) رسول(ص) کے دامن سے متمسک رہنا چاہیے تاکہ نجات حاصل ہو۔ اسی طرح جو ان کے دور اور الگ رہے گا ہلاک ہوگا۔

نیز ابن حجر صواعق محرقہ ذیل آیہ چہارم ص90 میں ابن سعد سے دو حدیثیں اہل بیت رسالت(ص) اور عترت پاک(ع) سے وابستہ رہنے کے وجوب میں نقل کرتے ہیں یہ کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا:

"أناوأهل بيتي شجرةفي الجنّة،وأغصانهافي الدنيا،فمن شاء ان يتّخذإلى ربّه سبيلا فليتمسک بها"

یعنی میں اور میرے اہل بیت جنت کے ایک درخت ہیں جس کی شاخیں دنیا میں ہیں۔ پس جو شخص خدا کی طرف راستہ چاہتا ہو اس کو اس سے تمسک ضروری ہے۔

دوسری حدیث یہ کہ فرمایا :

"فى كُلِ خَلَفٍ مِنْ امتى عُدُولٌ مِنْ اهلبيتى يَنْفُونَ عَنْ هَذَاالدِّينِ تَحْرِيفَالضَّالِّين َوَانْتِحَال َالْمُبْطِلِينَ،وَتَأْوِيل َالْجَاهِلِينَ الاوانائمتكم وَفْدُكُمْ الى اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ فَانْظُرُوامَنْ تُوفِدُونَ"

یعنی میری امت کے لیے ہر دور میں میرے اہل بیت(ع) میں سے کچھ عادل افراد ہیں جو اس دین سے گمراہوں کی تحریف باطل پرستوں کے دعوی اور جاہلوں کی تاویل کو دور کرتے رہتے ہیں۔ آگاہ ہو کہ یقینا تمہارے ائمہ اللہ کی طرف تمہارے سفیر ہیں پس یہ دیکھ لو کہ سفارت کس کے سپرد کرتے ہو۔

غرضیکہ تمام وہ اشخاص جن کی موجودگی اجماع و بیعت اور تعیین خلیفہ میں اثر انداز ہوتی بیعت کے مخالف تھے پس یہ کیسا اجماع تھا کہ صحابہ کبار، دانشمندان قوم اور عترت و اہل بیت رسالت(ص) مدینے میں ہوتے ہوئے اس میں شریک نہ تھے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اجماع کیسا اکثریت بھی نہیں پیدا ہوئی۔ چنانچہ ابن عبدالبر قرطبی جو آپ کے بڑے عالم ہیں، استیعاب میں، ابن حجر اصابہ میں اور دوسرے علماء کہتےہیں کہ سعد بن عبادہ نے جو خلافت کے دعویدار

۳۰۶

تھے قطعا ابوبکر اور عمر کی بیعت نہیں کی اور وہ بھی اس لیے ان سے متعرض نہیں ہوئے کہ ان کا قبیلہ اچھا خاصا ہے کہیں کوئی فساد نہ اٹھ کھڑا ہو۔ سعد امی اختلاف کی وجہ سے شام چلے گئے اور بروایت روضتہ الصفا ایک بزرگ شخصیت کی تحریک؟؟؟ سے ( جس سے با خبر ہستیاں واقف ہیں کہ کون شخص تھا جس کا حکم نافظ تھا) رات کے وقت تیر مار کر ہلاک کرادئے گئے اور کہا گیا کہ جنات نے مار ڈالا ( لیکن مورخین روایت کرتے ہیں کہ تیر مارنے والے خالد ابن ولید تھے جو مالک ابن نویرہ کو قتل کرنے اور ان کی زوجہ پر تصرف کرنے کے بعد شروع خلافت ابوبکر سے خلیفہ ثانی عمر کے غیظ و غضب کی زد میں تھے چنانچہ عمر کے زمانہ خلافت میں انہوں نے چاہا کہ خلیفہ کی نظر میں اپنا وقار قائم کریں اور یہی کیا کہ رات کو انہیں تیر سے مار ڈالا اور مشہور یہ ہوا کہ جنات نے مارا) اب آپ حضرات خدا کے لیے اپنی عادت اور تعصب کو الگ رکھ کے تھوڑا غور کیجئے کہ یہ کیسا اجماع تھا جس میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، عباس عم رسول(ص)، ابن عباس تمام بنی ہاشم، عترت و اہل بیت پیغمبر(ص)، بنی امیہ اور انصار داخل نہیں تھے۔

حافظ : چونکہ فساد کا احتمال تھا اور ساری امت تک پہنچ نہیں تھی لہذا مجبورا جلد بازی میں انہیں چند حاضرین سقیفہ پر اکتفا کر کے بیعت لے لی، بعد کو امت نے بھی مان لیا۔

خیر طلب : مدینے سے باہر کی نمایاں شخصیتوں ، بزرگاں صحابہ اور دانشمندان قوم تک رسائی نہیں تھی لیکن خدا کے لیے اںصاف کیجئے کہ اگرکوئی چال نہیں جارہی تھی تو بزم شوری میں حاضرین مدینہ کو کیوں نہیں بلایا؟ آیا رسول خدا(ص) کے عم محترم ( شیخ القبیلہ) عباس، آںحضرت(ص) کے دماد علی ابن ابی طالب(ع) ، بنی ہاشم اورمدینے کے اندر موجود کبار صحابہ کی رائے لینا ضروری نہیں تھا؟ فقب عمر اور ابوعبیدہ جراح کی رائے ساری دنیائے اسلام کے لیے کافی تھی؟ فَاعْتَبِرُواياأُولِي الْأَبْصارِ !!!

پس آپ کی دلیل اجماع عمومی حیثیت سے نیز خصوصی طور پر کیوں کہ مہاجرین و اںصار میں سے عقلاء کبار صحابہ نے اس میں شرکت نہیں کی۔ بلکہ مخالفت بھی کی بالکل مہمل و باطل اور صاحبان عقل کے نزدیک درجہ اعتبار سے ساقط ہے۔

چونکہ جیسا عرض کرچکا ہوں اجماع اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اس سے اختلاف نہ کرے اور آپ کے اس خود ساختہ اجماع میں عام طور پر آپ کے علماء ومورخین کے اقرار اور آپ کی تصدیق کے مطابق ارباب علم و عقل نےرائے دینے میں عمومی شرکت نہیں کی۔ چنانچہ امام فخرالدین رازی نہایت الاصول میں صاف صاف کہتے ہیں کہ خلافت ابوبکر و عمر میں ہرگز اجماع واقعی نہیں ہوا یہاں تک کہ سعد بن عبادہ کے قتل ہوجانے کے بعد اجماع منعقد ہوا لہذا سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے معدوم اور فرضی اجماع کو آپ نے حقانیت کی دلیل کیونکر بنالیا۔

وقت کا لحاظ کرتے ہوئے اس مختصر بیان کے ساتھ آپ کی پہلی دلیل کا جواب دیا گیا۔

۳۰۷

اس کی تردید کی ابوبکر سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے خلیفہ ہوئے

رہی آپ کی دوسری دلیل کہ ابوبکر چونکہ امیرالمومنین علیہ السلام سے عمر میں زیادہ تھے لہذا ان کا حق مقدم تھا تو یہ خلافت کے معاملے میں انتہائی مردود اور پہلی دلیل کے بھی زیادہی مہمل، بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔

اس لیے کہ اگر خلافت میں سن کی شرط تھی تو ابوبکر و عمر سے زیادہ بوڑھے بہت لوگ تھے اور یہ تو کھلی ہوئی بات ہے کہ ابوبکر کے باپ ابوقحافہ اپنے بیٹے سے بڑے تھے اور اس وقت زندہ بھی تھے، ان کو کس لیے خلیفہ نہیں بنایا ؟

حافظ : ابوبکر کا بڑھاپا لیاقت کے ساتھ تھا۔ جب کسی قوم کے اندر ایک جہاں دیدہ اور محبوب رسول اللہ(ص) بزرگ ہوتو کسی نا تجربہ کار جوان کو سردار نہیں بنایا کرتے۔

بوڑھے اصحاب کی موجودگی میں پیغمبر(ص) جوان علی(ع) کو ترجیح دیتے تھے

خیرطلب : اگر جیسا آپ کہہ رہے ہیں۔ سچ مچ ایسا ہی ہو کہ آزمودہ کار بوڑھے کی موجودگی میں کسی جوان کو کام پر اور وہ بھی خدا کے کام پر مقرر نہ کرنا چاہئیے تو یہ اعتراض سب سے پہلے رسول خدا(ص) پر وارد ہوتا ہے کیونکہ جس وقت آںحضرت(ص) غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو منافقین نے خفیہ طور پر یہ طے کیا کہ آں حضرت(ص) کی عدم موجودگی میں مدینے کے اندر ایک انقلاب بر پا کریں گے۔ لہذا مدینے کا انتظام سنبھالنے کےلیے ایک تجربہ کار انسان کی ضرورت تھی جو آنحضرت(ص) کی جگہ پر یہاں ٹھہرے، ہمت اور حسن تدبیر کے ساتھ حالات کو قابو میں رکھے اور منافقین کے ہاتھ پائوں ڈھیلے کردے آپ حضرات سے میری درخواست ہے کہ فرمائیے پیغمبر(ص) نے مدینے میں کس شخص کو اپنی خلافت اور جانشینی سپرد فرمائی؟

حافظ : مسلم سے کہ علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا خلیفہ اور قائم مقام بنایا تھا۔

خیر طلب : تو کیا ابوبکر و عمر اور دوسرے بوڑھے اصحاب مدینے نہیں تھے کہ رسول اکرم(ص) نے امیرالمومنین علیہ السلام جیسے جوان کو با قاعدہ اپنا خلیفہ اور جانشین بنایا اور صاف صاف فرمایا " انت خليفتی فی اهلبيتی و دار هجرتی " یعنی تم میرے خلیفہ ہو میرے اہل بیت(ع) میں اور میرے مقام ہجرت یعنی مدینے میں۔

بہتر ہوگا کہ آپ حضرات ذرا سوچ سمجھ کے دلیلیں قائم کیا کریں تاکہ جواب کے موقع پر لا جواب نہ رہ جائیں

۳۰۸

پس ابوبکر و عمر وغیرہ کے ایسے بوڑھے صحابہ کے سامنے علی علیہ السلام کو عین شباب میں خلیفہ مقرر کرنے سے آنحضرت(ص) کا ایک خاص مقصد یہ بھی تھا کہ آج آپ کے لیے ایک عملی جواب مہیا ہوجائے اور آپ یہ نہ کہیں کہ جہاندیدہ بوڑھے کے سامنے جوان کو ذمہ دار نہ بنانا چاہئیے ۔ رسول خدا(ص) کا عمل اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ تعیین خلافت اور تبلیغ رسالت میں پیری اور جوانی کو کوئی دخل نہیں ہے۔

اگر سال خوردہ بوڑھوں کے ہوتے ہوئے نو عمر جوان کا تقرر نہ ہونا چاہئیے تو اہل مکہ پر سورہ برائت کی ابتدائی آیتیں پڑھنے کے لیے جب کہ ایسے موقع پر قطعا ایک پیر کہن سال اور ہوشیار و جہاندیدہ بزرگ کی ضرورت تھی جو خوش اسلوبی اور سیاست کے ساتھ اس فریضے کو ادا کرے۔ رسول اکرم(ص) نے کس لیے بوڑھے ابوبکر کو راستے سے واپس بلا لیا اور جوان علی(ع) کو اس عذر کے ساتھ اس اہم کام پر مامور کردیا کہ خدا فرماتا ہے میری رسالت کو یا تم پہنچا سکتے ہو یا تمہیں جیسا کوئی مرد؟

اسی طرح اہل یمن کی ہدایت کرنےکے لیے ابوبکر وعمر وغیرہ کے ایسے سن رسیدہ بزرگوں کے وجود سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا اور امیرالمومنین علیہ السلام کو یمن والوں کی ہدایت پر مامور فرما دیا۔

اس قسم کے مواقع بہت ہیں جب کہ ابوبکر و عمر جیسے شیوخ قوم کی موجودگی میں آں حضرت(ص) نے علی(ع) جیسے جوان کو منتخب فرمایا اور بڑے بڑے کام آن کے سپرد فرمائے۔ پس معلوم ہوا کہ آپ کی یہ بڑھاپے والی شرط انتہائی پھس پھسی اور فضول و مہمل ہے۔ نبوت و ولایت اور خلافت کے شرائط میں بوڑھا ہونا ہرگز نہیں ہے بلکہ خلافت کی اصلی شرط نبوت کے مانند مکمل جامعیت ہے جو خداوند عالم کے نزدیک محبوب و پسندیدہ ہو او رجو فرد بذھی جملہ صفات عالیہ کی جامع ہو چاہے وہ کوئی بوڑھا شخص ہو یا جوان، خدائے تعالی اسی کو منصب خلافت کے لیے چنتا ہے اور نبی و رسول کے ذریعے لوگوں میں اعلان فرماتا ہے اور لوگوں پر واجب ہے کہ خدا و رسول کی طرح اس کی بھی اطاعت کریں۔

ایک اور بڑی دلیل مجھ کو یاد آگئی جس کو ان لوگوں کی خلافت کے رد میں بہت بڑا ثبوت سمجھنا چاہئیے اور وہ یہ کہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف سے اس مصنوعی اجماع کی مخالفت ہوئی ہے۔

علی(ع) حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں

اس لیے کہ ارشاد رسول(ص) کے مطابق علی علیہ السلام کو ذات حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی تھی، چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے اس بارے میں بہت سی روایتیں نقل کی ہیں۔

۳۰۹

من جملہ ان کے شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب16 میں کتاب السبطین فی فضائل امیرالمومنین(ع) سے،امام الحرم ابوجعفر احمد بن عبداللہ شافعی نے ستر حدیثوں میں سے بارہویں حدیث کو فردوس دیلمی کے، امیرسید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت ششم میں، حافظ نے امالی میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب44 ،میں بسند ابن عباس و ابی لیلی غفاری و ابو غفاری الفاظ و عبارت کے مختضر فرق اور کمی وبیشی کے ساتھ حضرت رسول خدا(ص) سے یہ حدیث نقل کی ہے جس کا آخری جملہ ہر جگہ ایک ہے کہ فرمایا :

"سَتَكُونُ مِنْ بَعْدِي فِتْنَةٌفَإِذَاكَانَ ذَلِكَ فَالْزَمُواعَلِيَّ بْنَ أَبِيطَالِبٍ فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ يَرَانِي وَأَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُنِي يَوْمَالْ قِيَامَةِوَهُوَمعِی فِی السَّماءِ العُليَاوَهُوَفَارُوقُ هَذِهِ الْأُمَّةِيَفْرُق ُبَيْنَ الْحَقّ ِوَالْبَاطِلِ"

یعنی عنقریب میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا۔ پس جب ایسا ہو تو تم لوگ لازمی طور پر علی ابن ابی طالب(ع) کے ساتھ رہنا کیونکہ وہ پہلے شخص ہیں جو قیامت کے روز مجھ کو دیکھیں گے اور سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ وہ بلند منزلوں میں میرے ساتھ اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

پس اصولا وفات رسول(ص) کے بعد ایسی صورت حال اور فتنہ عظیم جب مہاجرین و اںصار آپس میں دست و گریبان تھے اور ہر فریق یہ چاہتا تھا کہ خلیفہ ہم میں سے ہو ( گویا ہر ایک بہتے دریا سے ہاتھ دھونا چاہتا تھا) آںحضرت(ص) کے حکم و ہدایت کے مطابق امت والوں کا فرض تھا کہ علی علیہ السلام کو لاتے اور ان کا دامن پکڑتے کہ حق کو باطل سے جدا کریں۔ اور یقینا ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق جس طرف علی علیہ السلام ہوتے ادھر حق ہوتا اور دوسری طرف باطل۔

حافظ : یہ حدیث جو آپ نے نقل کی ہے خبر واحد ہے اور خبر واحد قابل اعتماد نہیں تھی کہ اس پر علمدر آمد ہوتا۔

خیر طلب : بہت تعجب ہے کہ آپ اتنی جلدی بھول جاتے ہیں یا عملا بھلا دیتے ہیں۔ خبر واحد کا جواب شروع میں عرض کرچکا ہوں کہ علمائے اہل سنت خبر واحد کو حجت مانتے ہیں لہذا اس بنا پر آپ اس روایت کو خبر واحد کہہ کر رد نہیں کرسکتے۔ علاوہ اس کے یہی ایک روایت نہیں ہے بلکہ آپ کے موثق علماء کے طریق سے مختلف عبارتوں کے ساتھ بہت سی روایتیں اس مطلب کو ثابت کررہی ہیں جن میں سے بعض کو ہم پچھلی راتوں میں بیان بھی کرچکے ہیں۔ اس وقت جہاں تک وقت اجازت دیتا ہے اپنی یادداشت کے موافق مختصرا صرف راویوں اور کتابوں کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے مزید تائید کے لیے بجائے ان تمام مستند احادیث کو پیش کرنے کے چند کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔ من جملہ ان کے ایک حدیث ہے جس کو محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں طبرانی نے کبیر میں، بیہقی نے سنن میں، نور الدین مالکی نے فصول المہمہ میں، حاکم نے مستدرک میں، حافظ ابو نعیم نے حلیہ میں، ابن عساکر نے تاریخ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، طبرانی نے اوسط میں، محب الدین نے ریاض نفرہ میں، حموینی نے فرائد میں، اور سیوطی نے درالمنثور میں ، ابن العباس و سلمان و ابوذر حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے دست مبارک سے علی ابن ابی طالب(ع) کی طرف اشارہ کر کے فرمایا :

"إنّ هذاأوّل من آمن بي ،وأوّل من يصافحني يومالقيامة،

۳۱۰

وهذاالصّديق الأكبر،وهذافاروق هذه الأمّةيفرّق بين الحقّ والباطل"

یعنی در حقیقت یہ (علی) پہلے شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور پہلے شخص ہیںجو روز قیامت مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ یہ علی(ع) صدیق اکبر(یعنی سب سے بڑے سچ بولنے والے) اور اس امت کے فاروق ہیں جو حق و باطل کے درمیان جدائی ڈالیں گے۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب 44 میں اسی حدیث کو ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے۔

"وهويعسوب المؤمنين والمال يعسوب الظلمة،وهوبابي الذي اوتي منه،وهوخليفتي من بعدي."

یعنی وہ مومنین کے بادشاہ ہیں، یہ میرے دروازہ ہیں جس سے لوگ آتے ہیں اور وہ میرے بعد خلیفہ ہیں۔

( اس کے بعد گنجی شافعی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو محدث شام نے اپنی کتاب کے انچاسویں(49) جزء میں فضائل علی (ع) میں تین سو حدیثوں کے بعد لکھا ہے) محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد جلد چہاردہم ص21 میں، حافظ مردویہ نے مناقب میں، سمعانی نے فضائل الصحابہ میں، دیلمی نے فردوس میں، ابن قتیبہ نے الامامتہ والسیاسہ جلد اول ص68 میں زمخشری نے ربیع الابرار میں، حموینی نے فرائد باب37 میں، طبرانی نے اوسط میں، فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر جلد اول ص111 میں، گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، امام احمد نے مسند میں اور آپ کے دوسرے علماء نے نقل کیاہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا " علی مع الحق والحق مع علی حيث دار " یعنی علی (ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ پھرتا ہے ( یعنی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے)

انہیں کتابوں میں ہے نیز شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے ینابیع المودت باب20 میں حموینی سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا " علی مع الحق والحق مع علی يميل مع الحق کيف مال " یعنی علی (ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ ہے جس طرف حق مائل ہوتا ہے اسی طرف علی(ع) بھی مائل ہوتے ہیں۔)

اور حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی سنہ431ھ نے حلیتہ الاولیاء جلد اول ص63 میں اپنے اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"يامعشرالأنصارألاأدلكم على من إن تمسكتم به لن تضلوابعده أبداقالوابلى يارسول الله قال هذاعلي فأحبوه بحبي وأكرموه بكرامتي فإن جبرائيل أمرني بالذي قلت لكم عن الله عزوجل "

یعنی اے جماعت انصار آیا تمہاری رہنمائی نہ کروں میں اس شخص کی طرف کہ اگر اس سے تمسک کرو گے تو س کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے؟ سب نے

۳۱۱

عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ(ص) آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ وہ شخص یہ علی(ع) ہیں لہذا ان کو دوست رکھو میری محبت کے ساتھ اور ان کا اکرام کرو میری کرامت کے ساتھ کیونکہ جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے جبرئیل نے خدا کی طرف سے مجھ کو اس کا حکم دیا ہے۔

ان میں سے ہر حدیث رسول(ص) اپنے الفاظ اور راوی و حافظ کے اختلاف کی وجہ سے اگر چہ پہلی نظر میں خبر واحد معلوم ہوتی ہے جس میں ایک خاص مفہوم ادا کیا گیا ہے لیکن اہل علم کی نگاہوں میں اس سے تواتر معنوی ثابت ہوتا ہے کیونکہ ان سب کے مضامین سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کچھ خاص دلائل ہیں جو ایک عام مقصود کے لیے وارد ہوئے ہیں اور ان کی باہمی شرکت سے وہی مقصود عام ثابت ہوتا ہے۔

اس مقصود عام سے مراد ولایت و امامت کی منزل میں رسول اللہ(ص) کی عنایت ہے جو بلا شرکت غیرے صرف علی علیہ السلام کی طرف آنحضرت(ص) کا میلان ظاہر کرتی ہے نیز اس کا ثبوت دیتی ہے کہ پیغمبر(ص) کی یہ شفقت و مہربانی تنہا علی علیہ السلام کے لیے مخصوص تھی اور آںحضرت(ص) ہمیشہ انہیں سے امداد طلب فرماتے تھے کیونکہ آپ نصرت کرنے میں یکتا تھے اور اسی وجہ سے امت کو بھی حکم فرماتے ہیں کہ میرے بعد علی (ع) کی طرف رجوع کرو اور ان سے تمسک اختیار کرو اس لیے کہ یہ ہمیشہ حق کے ساتھی اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

اس قسم کی حدیثوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اںصاف کیجئے کہ آیا ابوبکر سے علی علیہ السلام کی مخالفت و آپ کے خیالی اجماع سے علیحدگی اور بیعت نہ کرنا ابوبکر کی حقانیت ثابت کرتا ہے یا ان کی خلافت باطل ہونے کا دلیل ہے؟ اگر ابوبکر کی خلافت دست تھی تو علی علیہ السلام نے جو حق و صداقت کے پیکر تھے اور رسول اکرم(ص) نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ ہمیشہ حق کے ساتھ اور حق ان کے ساتھ گردش کرتا ہے ان کی بیعت کیوں نہیں کی بلکہ مخالفت بھی کی؟ واقعی سقیفے کے روز جتنی پھرتی سے کام لیا گیا وہ بہت افسوس اور حیرت کا مقام ہے اور اس روز کا طریقہ کار ہر نکتہ رس ہوشمند انسان کو قطعی طر پر شبے میں ڈالتا ہے کہ اگر کوئی سازش کار فرما نہیں تھی تو ( چند گھنٹے ہی سہی) آخر انتظار کیوں نہ کیا کہ علی ابن ابی طالب(ع) جو بقول رسول (ص) حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے تھے ، کبار صحابہ، بنی ہاشم اور بالخصوص آن حضرت(ص) کے چچا عباس سب ک سب جمع ہوجائیں اور امر خلافت میں جو ایک عمومی فریضہ تھا اپنے خیالات ظاہر کریں؟

حافظ : یہ بات تو یقینی ہے کہ کوئی سازش نہیں چل رہی تھی بلکہ حالات چونکہ خطرناک دیکھے لہذا حفاظت اسلام کے لیے تعیین میں جلدی کی۔

خیرطلب : یعنی آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ ابوعبیدہ جراح ( مکے سابق گورکن) وغیرہ کو رسول اللہ(ص) کے بزرگ چچا عباس اور علی بن ابی طالب(ع) سے جنہوں نے اس دین کے راستے میں اپنی زندگی وقف کردی تھی یا دوسرے

۳۱۲

کبار صحابہ اور بنی ہاشم سے زیادہ اسلام کا درد تھا اور جتنی دیر وہاں باتیں بنائی تھیں اگر اتنی دیر ٹھہرجاتے یا ابوبکر وعمر مجمع کو باتوں میں مشغول رکھتے اور فورا ابوعبیدہ یا کسی اور کو بھیج کر عباس و علی(ع) کو اس خطرناک صورت حال سے آگاہ کردیتے تاکہ جلد وہاں پہنچ جائیں اور پھر تھوڑی دیر صبر کر لیتے کہ وہ بزرگوار آجائیں تو کیا اسلام ہاتھ سے نکل جاتا؟ اور ایسا فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا کہ اس کو روک تھام ہو ہی نہ سکتی؟

اںصاف سے کام لیجئے تو قطعا اگر تھوڑا صبر کر کے کم از کم بنی ہاشم اور بزرگان صحابہ کو مع عباس و علی(ع) کے سقیفے میں بلا لیتے تو وہ تینوں اشخاص و ابوبکر و عمر اور ابوعبیدہ اگر حق بات کہتے تھے تو ان کی طاقت اور بڑھ جاتی، اسلام کے اندر اتنا اختلاف رونما نہ ہوتا اور آج ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد ہم اور آپ برادران اسلامی اس جلسے میں ایک دوسرے کے مقابلے پر نہ آجاتے بلکہ تمام قوتوں کو متحد کر کے دشمنوں سے ٹکر لیتے ۔

پس تصدیق کیجئے کہ اسلام کے سرپر جو آفت آئی اسی روز سے آئی اور وہ فقط اسی تعجیل کا نتیجہ تھی جس پر تینوں افراد ( ابوبکر و عمر و ابوعبیدہ) نے عمل کر کے اپنے خفیہ ولی مقاصد پورے گئے۔

نواب : قبلہ صاحب آخر سبب کیا تھا کہ ان لوگوں نے اس قدر جلدی کی اور بقول آپ کے حاضرین مسجد و خانہ رسول(ص) کو بھی خبر نہیں دی؟

خیر طلب : اتنی جلدی کرنے کے سبب قطعا یہی تھا کہ وہ جانتے تھے کہ اگر تمام مسلمانوں کے آںے کا انتظار کریں گے یا کم سے کم اسامہ بن زید کی سر برآوردہ ہستیاں، مدینے کے اندر موجود بزرگ اصحاب اور بنی ہاشم وغیرہ سب جمع ہو کر مشورے میں شرکت کریں گے تو نامزدگی کے وقت علی علیہ السلام کا نام ضرور لیا جائے گا اور اگر علی(ع) یا عباس کا نام آگیا تو اس مجمع میں حق اور حقیقت کے طرفدار لوگ ا پنی مضبوط اور واضح دلیلوں سے میدان سیاست میں ہماری پگڑی اچھال دیں گے لہذا عجلت کی تاکہ جب تک بنی ہاشم اور بزرگ اصحاب پیغمبر(ص) کے غسل و کفن اور دفن میں مشغول ہیں ہم اپنا کام بنالیں اور ابوبکر کو اسی دو نفری تدبیر سے مسند خلافت پر بٹھا دیں چنانچہ وہی کیا اور آپ حضرات بھی آج تک اس کو مسلمانوں کا اجماع کہے چلے آرہے ہیں۔

آپ کے اکابر علماء جیسے طبری اور ابن ابی الحدید وغیرہ نے بھی لکھا ہے کہ عمر کہتے تھے ابوبکر کی خلافت جلدی میں اچانک قائم ہوگئی ہے خدا خیر کرے۔

۳۱۳

عمر کے اس قول کی تردید کہ نبوت و سلطنت ایک جگہ جمع نہ ہوگی

اب رہی آپ کی دوسری دلیل خلیفہ عمر کی سند سے کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی ہے تو یہ بھی آیت نمبر57 سورہ4 ( نساء) کی نص صریح سے باطل ہے ارشاد ہے۔

"أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلى ماآتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ِفَقَدْآتَيْناآلَإِبْراهِيمَ الْكِتاب َوَالْحِكْمَةَوَآتَيْناهُمْ مُلْكاًعَظِيماً"

یعنی آیا خدا نے جو کچھ ان کو اپنے فضل و کرم سے عطا کیا ہے اس پر لوگ حسد کرتے ہیں؟ پس یقینا ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت دی اور ان کو زبردست ملک و سلطنت عطا کیا۔

پس اس آیہ شریفہ کے حکم سے آپ کی یہ دلیل مردود ہے اور یہ حدیث قطعا ضعیف بلکہ موضوعات میں سے ہے جو خلیفہ عمر کی طرف منسوب کی گئی ہے اس لیے کہ رسول اللہ(ص) قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں فرماتے اور یہ آیت خود اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ نبوت و سلطنت کا ایک جگہ جمع ہونا ممکن ہے ( جیسا کہ آل ابراہیم وغیرہ میں جمع ہوئی) اس کے علاوہ منصب خلافت عہدہ نبوت کا ایک جزء ہے بلکہ اس کا تتمہ ہے ، سلطنت اور بادشاہی نہیں ہے جس کے لیے آپ کہہ سکیں کہ ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی۔

اگر حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی جناب ہارون علیہ السلام خلافت موسی سے برطرف ہیں تو علی علیہ السلام بھی خلافت خاتم الانبیاء سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اور اگر بحکم قرآن موسی ہارون علیہما السلام میں نبوت و خلافت جمع ہوئی تو قطعا محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام میں بھی جمع ہوگی ۔ چنانچہ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں حدیث منزلت اس کی گواہ ہے پس آپ کی یہ حدیث قطعا بنی امیہ کے موضوعات میں سے ہے اور مجہول اور ہر پہلو سے ناقابل قبول ہے۔

اگر نبوت اورخلافت ( یا بقول خلیفہ عمر کے سلطنت) ایک جگہ جمع نہیں ہوتی ہے تو پھر مجلس شوری میں خلیفہ عمر نے علی علیہ السلام کو خلافت کےلیے کیوں نامزد کیا تھا؟ اور اسی کے بعد چوتھے نمبر پر آپ لوگ بھی حضرت کو خلیفہ کیوں مانتے ہیں؟ عجیب بات ہے کہ خلافت بلافصل تو ( حدیث گھڑ کے نبوت کےساتھ جمع نہ ہو لیکن خلافت مع الفصل جمع ہو جائے۔

چشم باز و گوش باز داں عمی حیرتم از چشم بندی خدا

اس کے علاوہ رسول اللہ (ص) صاف صاف فرماتے ہیں کہ جس راستے پر علی (ع) چلیں ادھر تم بھی چلو، دوسرون کی پیروی نہ کرو آپ کہتے ہیں کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں اکھٹا نہیں ہوتیں، حالانکہ آنحضرت(ص) نے اپنی عترت کی پیروی امت پر واجب قرار دی ہے اور ان کی مخالفت کو محض ضلالت و گمراہی جانا ہے۔ جیسا کہ گذشتہ راتوں

۳۱۴

میں میں نے یہ معتبر اور متفق علیہ فریقین صریحی حدیث مع اس کے اسناد کے عرض کی ہے کہ آنحضرت(ص) نے بار بار فرمایا :

"إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَبَيْتِي إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَالَن ْتَضِلُّوابَعْدِي أَبَداً"

یعنی میں تمہارے درمیان دو بزرگ و بہتر گراں چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ، ایک قرآن مجید اور دوسری میری عترت اور اہل بیت(ع)، اگر ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو ہرگز کبھی گمراہ نہ ہوگے۔

جس طرح سے طوفان نوح کی آمد مِں حضرت نوح(ع) کے حکم سے جو شخص آپ کی بنائی ہوئی کشتی میں بیٹھ گیا اس نے نجات پائی اور جس نے منہ موڑا ہلاک ہوگیا چاہے وہ ان کا بیٹا ہی کیوں نہ رہا ہو۔ اسی طرح اس امت مرحومہ میں بھی حضرت خاتم الانبیاء (ص) نے اپنی عترت اور اہل بیت (ع) کو بمنزلہ کشتی نوح(ع) بیان فرمایا ہے کہ آیندہ مشکلات و اختلافات میں اس گھرانے کے علم و عقل اور ظاہر و باطن کے دامن سے وابستہ رہیںگ ے تو نجات حاصل کریں گے اور کشتی نوح(ع) سے روگردانی کرنے والوں کے مانند تخلف کریں گے تو ہلاک ہوجائیں گے (جسیا کہ اسی کتاب کے ص؟؟؟؟؟؟؟؟؟ میں تفصیل سے گزر چکا )

پس اس قسم کے نصوص صریحہ اور قواعد واضحہ کے رو سے امت کا فرض ہے کہ اختلاف اور دشواریوں میں عترت و اہل بیت رسالت(ع) کی رائے سے فائدہ اٹھائیں اور امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام چونکہ مزید علمی و عملی فضائل اور پیغمبر(ص) کے تاکیدی احکام کی روشنی میں آں حضرت(ص) کی عترت و اہل بیت کی ایک فرد اکمل تھے پس کیوں تھوڑی دیر تامل کر کے آپکو اطلاع نہیں دی تاکہ آپ کے غور وفکر اور صائب رائے سے مدد ملتی؟

اس میں قطعا ایسا راز پوشیدہ تھا جس پر عقل و علم اور اںصاف والے حیران اور مبہوت ہیں جس وقت یہ لوگ اپنے اسلاف کی اندھی تقلید چھوڑ کر عادلانہ جائزہ لیتے ہیں تو حقیقت کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ سیاسی بازیگروں نے علی(ع) کو انکے مستقل حق سے محروم کرنے کے لیے جلدی کر کے آپ کی اور دوسرے اصحاب و اہل تقوی کی غیر موجودگی میں ابوبکر کو مسند خلافت پر بٹھا دیا۔

شیخ : آپ کس دلیل سے فرماتے ہیں کہ صرف علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی پیروی کر کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی رایوں اور اجماع کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیئے تھا؟

تعیین خلافت میں پھر اظہار حقیقت

خیر طلب : اول تو ہم نے یہ کہا ہی نہیں ہے کہ صحابہ کی رائیں اور ان کا اجماع قابل احترام نہیں ہے۔ البتہ ہمارے اور آپ کے درمیان فرق یہ ہے کہ آپ نے جونہی کسی صحابی کا نام سنا بس چاہیے وہ کوئی منافق ہی ہو یا ابوہریرہ ہی ہوں جن کو خلیفہ عمر کوڑے سے مارتے تھے اور کذاب ( بہت بڑا جھوٹا ) کہتے تھے فورا زانوئے ادب

۳۱۵

تہ کردیتے ہیں، لیکن ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک وہی صحابی محترم ہے اور اسی کے قدم آنکھوں سے لگانے کے قابل ہیں جس نے رسول اللہ(ص) کی مصاحبت کے شرائط پورے کئے ہوں، ہوائو ہوس کا بندہ نہ رہا ہو اور احکام خدا و رسول(ص) کا آخر عمر تک دیانتداری سے پا بند رہا ہے۔

دوسرے ہم واضح دلائل سے آپ کے سامنے ثابت کرچکے کہ سقیفہ میں خلیفہ ابوبکر کی بیعت پر کوئی اجماع نہیں ہوا تاکہ امت کی اجماعی رائے سے ان کی خلافت مسلم ہوجائے۔ اب اس کے خلاف اگر آپ کے پاس کوئی قاعدے کا جواب ہو تو بیان فرمائیے تاکہ حضرات حاضرین جلسہ بے لاگ فیصلہ کرسکیں اور میں بھی اس اجماعی تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کروں، اگر آپ اپنی کتابوں سے اس کا ثبوت دے دیجئے کہ سقیفہ میں ساری امت یا کم از کم بقول آپ کے تمام عقلائے قوم جمع ہوئے اور سب نے مل کر رائے دی کہ ابوبکر کو خلیفہ ہونا چاہئیے تو میں مان لوں گا اور اگر سوا دو نفر ( عمر و ابوعبیدہ) اور قبیلہ اوس کے چند افراد کے جن کو قبیلہ خزرج کے ساتھ اپنی دیرینہ عداوت و مخالفت کا لحاظ تھا دوسرے اشخاص نے بیعت نہیں کی تھی تو آپ تصدیق کیجئے کہ ہم(شیعہ) غلط راستے پر نہیں ہیں۔

تیسرے اس سب پر ہماری تنقید یہ ہے اور ہم دینا کے سارے عقلمندوں پر اس کا فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ آیا صرف تین صحابی ایسا کرنے کے مجاز ہیں کہ پوری ملت کی باگ ڈور ہاتھ میں لے لیں اور باہمی گفت و شنید اور جنگ زرگری کر کے دو نفر ایک نفر کی بیعت کرلیں اس کے بعد لوگوں کو دھونس دے کےتلوار ، آگ اور اہانت سے مرعوب کر کے اپنا بنایا ہوا خاکہ ماننے پر مجبور کریں؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔

میں مطلب کو دہراتے ہوئے پھر عرض کرتا ہوں کہ ہمارا اعتراض اس بات پ؛ر ہے کہ اس روز جب وہ تین نفر ( ابوبکر و عمر اور ابو عبیدہ جراح) سقیفہ پہنچے اور دیکھا کہ خلافت کی بحث در پیش ہے تو بزرگان قوم اور عقلا و کبار صحابہ کا تعاون کیوں نہیں حاصل کیا جن میں سے کچھ لوگ خانہ رسول (ص) میں تھے اور ایک جماعت لشکر اسامہ میں تھی؟

شیخ : ہم کہتے ہیں کہ کوئی غفلت ہوئی یا نہیں ہوئی ہم اس روز موجود نہیں تھے کہ دیکھتے وہ لوگ کس دشواری میں پھنسے ہوئے تھے، لیکن آج جب کہ ہمارے سامنے ایک طے شدہ عمل ہے چاہے وہ اجماع رفتہ رفتہ واقع ہو۔ ہم کو اس کے مقابلے میں اختلاف کی آواز نہ اٹھانا چاہیئے بلکہ سر تسلیم خم کر کے جس راستے وہ گئے ہیں اسی راستے پر گامزن ہوجانا چاہیئے۔

خیرطلب : خوب خوب ۔ مرحبا آپ کے استدلال پر اور آفرین آپ کے خیال اور عقیدے پر کہ آپ خواہ مخواہ ہم سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ مقدس دین اسلام ایک بھیڑیا دھسان مذہب ہے جس میں اگر دو تین آدمیوں نے ایک جگہ جمع ہوکر منصوبہ بنایا اور چند اشخاص نے ان کی حمایت میں ؟؟؟؟؟؟؟ مچادیا تو اب سارے مسلمانوں کا فرض ہوگیا کہ آنکھیں بند کر کے اس پر عملدرآمد کو قبول کریں۔ کیا خاتم النبیین(ص) کے پاک دین کا یہی مطلب ہے جب کہ صریحا آیت

۳۱۶

نمبر19 سورہ 29 ( زمر) ارشاد ہے۔

"فَبَشِّرْعِبادِالَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"

یعنی اے رسول(ص) ان بندوں کو میرے لطف و رحمت کی بشارت دے دیجئے جو بات سنتے ہیں پس اس میں سے بہتر کی پیروی کرتے ہیں۔ (یعنی تحقیق کرلیتے ہیں، اندھی تقلید نہیں کرتے۔)؟

حالانکہ اسلام ایک تحقیقی دین ہے تقلیدی نہیں اور وہ بھی ابوعبیدہ (گورکن) معروف بہ جراح کی تقلید رسول اکرم(ص) نے خود ہمارے لیے راستہ کھول دیا ہے اور ہم کو پتہ دے دیا ہے کہ جس وقت امت دو گروہوں میں بٹ جائے تو ہم ان دونوں میں سے کس کی طرف جائیں تاکہ نجات پاسکیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہم کو کس دلیل سے امیرالمومنین علیہ السلام کی پیروی واجب ہے؟ اس کا جواب کھلا ہوا ہے کہ آیات قرآنی اور آپ کی معتبر کتابوں میں درج موثق حدیثوں کی دلیل ہے۔

من جملہ ان روایات و ںصوص کے جن کے ماتحت امت مجبور ہے کہ حوادث و انقلابات میں علی علیہ السلام کی پیروی کرے عمار یاسر کی مشہور حدیث ہے جس کو آپ کے بڑے بڑَ علماء جیسے حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیہ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، بلاذری نے اپنی تاریخ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب43 میں حموینی سے، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں، دیلمی نے فردوس میں اور آپ کے دوسرے موثق علماء نے ابوایوب اںصاری سے ایک مفصل حدیث نقل کی ہے جس کو مکمل بیان کرنے کا وقت نہیں لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت لوگوں نے ابو ایوب سے سوال کیا ( بلکہ ان پر اعتراض کیا) کہ تم علی ابن ابی طالب(ع) کے طرفدار کیوں بن گئے اور ابوبکر کی بیعت کیوں نہیں کی؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک روز میں رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر تھا کہ عمار یاسر وارد ہوئے اور آنحضرت سے سوال کیا حضرت نے گفتگو کے ضمن میں فرمایا

" يَاعَمَّارُ إِنْ سَلَكَ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَادِياًوَسَلَكَ عَلِيّ ٌوَادِياًفَاسْلُكْوَادِيَ عَلِيٍّ وَخَلِّ عَنِ النَّاسِ يَاعَمَّارُإِنَّ عَلِيّاًلَايَرُدُّكَ عَنْ هُدًى وَلَايَدُلُّكَ عَلَى رَدًى يَاعَمَّارُطَاعَةُعَلِيٍّ طَاعَتِي وَطَاعَتِي طَاعَةُاللَّهِ."

یعنی اے عمار اگر تمام لوگ ایک راستے پر جائیں اور تنہا علی(ع) ایک راستے پر تو تم علی(ع) کے راستے پر چلنا اور دوسروں سے بے نیاز ہوجانا اے عمار علی(ع) تم کو ہدایت سے برگشتہ نہ کریں گے اور ہلاکت کی طرف نہ لے جائیں گے اے عمار علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔

آیا جائز تھا کہ ان واضح نصوص اور صاف صاف احکام کے ہوتے ہوئے جو آپ کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں، باوجودیکہ علی علیہ السلام نے خلافت ابوبکر کی کھلی ہوئی مخالفت کی، چاہے ساری امت میں سے بنی ہاشم، بنی امیہ کبار صحابہ عقلاء قوم اور مہاجرین و انصار ان کے ہم آواز نہ بھی رہے ہوں (حالانکہ ہم آواز تھے) لوگ علی(ع) کی راہ کو چھوڑ دیں اور ایک غیر پیشوا کی پیروی کریں؟ کم سے کم یہی خواہش کرتے کہ اس قدر تامل کیا جائے کہ علی(ع) آجائیں اور ان کی تجویز معلوم کر لی جائے۔

( اتنے میں نماز عشاء کے لیے موذن کی آواز آئی اور مولوی صاحبان فریضہ ادا کرنے کے لیے اٹھ گئے نماز اور چائے کے بعد حافظ صاحب نے بات شروع کی۔)

۳۱۷

حافظ : جناب آپ نے اپنے بیانات کے ضمن میں دو باتیں عجیب فرمائیں ۔ اول تو آپ بار بار فرماتے ہیں۔ ( ابوعبیدہ گور کن) تو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ یہ محترم بزرگ قبر کھودنے کا پیشہ کرتے تھے؟ دوسرے آپ نے فرمایا کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب بیعت میں شامل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے مخالفت بھی کی در آنحالیکہ جملہ ارباب حدیث و تاریخ نے لکھا ہے کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب سب نے بیعت کی۔

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرات اپنے علماء کی تحریریں بھی غور سے نہیں پڑھتے۔ پہلی بات کہ ابوعبیدہ گوکن تھے۔ میں نے نہیں کہی ہے بلکہ آپ ہی کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ کتاب الہدایہ ولنہایہ مئولفہ ابن کثیر شامی جلد پنجم ص266 و ص267 کو ملاحظہ فرمائیے دفن رسول(ص) کے باب میں لکھا ہے کہ ابوعبیدہ جراح چونکہ اہل مکہ کی قبریں کھودا کرتے تھے لہذا جناب عباس نے ایک شخص کو مدینے کے گورکن ابوطلحہ کی تلاش میں اور ایک کو ابو عبیدہ کے تجسس میں روانہ کیا تاکہ دونوں آکر رسول اللہ(ص) کی قبر تیار کریں۔

دوسرے آپ نے فرمایا کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب سبھی نے بیعت کی۔ ہاں آپ بیعت کا لفظ تو ضرور پڑھ لیتے ہیں لیکن حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ کس نے کس وقت بیعت کی اور کیوں کر بیعت کی آپ کے سارے علمائے حدیث اور بڑے بڑے مورخین نے لکھا ہے کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم نے بیعت تو کر لی لیکن چھ مہینے کے بعد اور وہ بھی جبر و تشدد ، قتل و خون کی دھمکیوں اور انتہائی اہانتوں کے بعد جو ان بزرگوار کے لیے عمل میں لائی گئیں اور ان حضرات کا ہر طرح سے بائیکاٹ کردینے کے بعد۔

حافظ : آپ جیسے شریف انسان کے لیے مناسب نہیں کہ شیعہ عوام کے الفاظ اور عقائد کو زبان پر جاری کیجئے جو یہ کہتے ہیں کہ علی(ع) کو جبرا کھینچتے ہوئے لے گئے اور ان کو قتل کردینے کی دھمکی دی۔ حالانکہ ان جناب نے انہیں ابتدائی دنوں میں انتہائی خواہش و رغبت کے ساتھ ابوبکر کی خلافت قبول کر لی تھی۔

چھ ماہ کے بعد زبردستی علی (ع) اور بنی ہاشم کی بیعت

خیر طلب : آپ جو یہ فرمارہے ہیں کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم نے فوار بیعت کی تو میرا خیال کہ آپ جان بوجھ کر اپنے کو دھوکا دے رہے ہیں اس لیے کہ عام عام طور پر آپ کے مورخین تو یہ لکھتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی بیعت جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد ہوئی ہے۔ چنانچہ بخاری نے صحیح جلد سوم ص37 باب غزوۃ خیبر میں اور مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح جلد پنجم ص54 باب قول النبی لا نورث میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام کی بیعت وفات فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بعد ہوئی۔ اسی طرح عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری متوفی سنہ276ھ الامامت والسیاست آخر ص14 میں کہتے ہیں :

"فلم يبايع عليّ كرّم اللّه وجهه حتّى ماتت فاطمةرضي اللّه عنها"

یعنی علی علیہ السلام نے ( ابوبکر کی) بیعت نہیں کی یہاں تک کہ جناب فاطمہ(س) نے

۳۱۸

انتقال فرمایا۔

آپ کے بعض علماء وفات فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وفات رسول اللہ صلعم کے پچھتر روز بعد جانتے ہیں جیسے خود ابن قتیبہ لیکن بالعموم آپ کے مورخین آںحضرت کے وفات کے چھ مہینے بعد سمجھتے ہیں جس سے نتیجہ یہ نکلا کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم کی بیعت خلافت کے چھ ماہ بعد ہوئی ۔ چنانچہ مسعودی مروج الذہب جلد اول ص414 میں کہتے ہیں " ولم يبايع ه أحدمن بني هاشم حتّى ماتت فاطمة "

یعنی بنی ہاشم میں سے کسی ایک فرد نے بھی (ابوبکر کی ) بیعت نہیں کی یہاں تک کہ حضرت فاطمہ(س) نے وفات پائی۔

ابراہیم بن سعد ثقفی نے جو ثقات علماء میں سے ہیں زہری سے روایت کی ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بیعت نہیں کی لیکن چھ مہینے کے بعد اور ان کے اوپر لوگوں کی جرائت نہیں بڑھی لیکن وفات فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بعد جیسا کہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے۔

غرضیکہ آپ ہی کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام کی بیعت فورا نہیں ہوئی بلکہ بہت مدت کے بعد واقع ہوئی جب اس کے وسائل و اسباب اکٹھا ہوگئے اور حالات نے مجبور کردیا۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم آخر ص18 میں زہری سے اور انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ :

" فَلَمْ يُبَايِعْهُ عَلِيٌّ سِتَّةَأَشْهُرٍوَلَاأَحَدٌمِن ْبَنِي هَاشِمٍ حَتَّى بَايَعَهُ عَلِيٌّ"

" یعنی علی(ع) نے چھ ماہ تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور بنی ہاشم میں سے کسی نے بھی بیعت نہیں کی جب تک علی(ع) نے نہیں کی۔

نیز احمد بن اعثم کوفی شافعی نے فتوح میں اور ابونصر حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں نافع سے اور انہوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ " ان عَلِيّا لَمْ يُبَايِعْهُ الا بعد سِتَّةَأَشْهُرٍ " ( یعنی علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی مگر چھ مہینے کے بعد) رہا آپ کا یہ فرمانا کہ تم عوام کے عقائد کی پیروی بے خودی میں ہم پر حملہ کرتے ہیں حالانکہ اپنی کتابوں کے مضامین سے واقف ہیں۔ قسم خدا کی ہر قوم کے علماء ہی فسادات کے ذمہ دار ہیں جو عوام کو دھوکا دیتے ہیں تاکہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ ان روایتوں کو ہم نے گھڑا ہے۔ حالانکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان باتوں کا اقرار کیا ہے۔

حافظ ہمارے علماء نے کہاں یہ کہا ہے کہ علی(ع) کع جبرا کھینچا اور ان کے گھر میں آگ لگائی جیسا کہ شیعوں کے یہاں مشہور ہے اور اپنے مجالس میں جوش و خروش سے بیان کرتے ہیں۔ نیز یہ کہہ کر لوگوں کے جذبات ابھارتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف پہنچائی اور ان کا حمل ساقط کیا؟

خیر طلب : محترم حضرات یا تو واقعی آپ کو مطالعہ ہی بہت کم ہے یا عادتا اور قصدا اپنے اسلاف کی پیروی میں بیچارے مظلوم شیعوں کو عوام کی نگاہوں میں متہم کر کے ایسے جملوں سے اپنے بزرگوں کو پاکدامن دکھانا چاہتے ہیں۔ لہذا کہتے بھی

۳۱۹

ہیں اور لکھتے بھی ہیں کہ یہ روایتیں شیعوں نے بنائی ہیں( خصوصا سلطنت صفویہ کے زمانے سے ) کہ ابوبکر کے حکم سے عمر ایک مجمع کے ساتھ علی(ع) کے دروازے پر آگ لے کر گئے اور علی(ع) کو قتل کی دھمکی دے کر شور و شر کے ساتھ کھینچتے ہوئے بیعت کے لیے مسجد میں لے گئے۔

حالانکہ ایسا ہے نہیں میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ان تاریخی قضیوں کو صرف شیعوں نے درج نہیں کیا ہے بلکہ آپ کے اںصاف پسند اکابر علماء و مورخین نے بھی لکھا ہے ۔ البتہ بعض نے تعصب کی وجہ سے احتراز کیا ہے۔ اگر آپ چاہیں ، تو وقت کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کے معتمد علماء سے چند روایتیں جو اس وقت پیش نظر ہیں ثبوت کے لیے نقل کردوں تاکہ صاحبان انصاف کو معلوم ہوجائے کہ ہم بے قصور ہیں اور جو کچھ آپ نے کہا ہے وہی ہم بھی کہتے ہیں ۔

حافظ : فرمائیے ہم سننے کے لیے حاضر ہیں۔

بارہ دلیلیں اس پر کہ علی(ع) کو بزود شمشیر مسجد میں لے گئے

خیر طلب : 1۔ ابو جعفر بلاذری احمد بن یحیی بن جابر بغدادی متوفی سنہ279ھ نے جو آپ کے ایک موثق محدث اور مشہور مورخ ہیں اپنی تاریخ میں روایت کی ہے کہ جب ابوبکر نے علی علیہ السلام کو بیعت کے لیے طلب کیا ہے اور آپ نے قبول نہ کیا تو انہوں نے عمر کو بھیجا ، وہ آگ لے کر آئے کہ گھر کو جلا دیں گے۔ حضرت فاطمہ(س) نے دروازے کے قریب آکر فرمایا اے پسر خطاب کیا تم مجھ پر گھر جلا دوگے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ جو کچھ تمہارے باپ لے کر آئے ہیں اس میں یہ عمل بہت موثر ہے۔

2۔ عزالدین ابن ابی الحدید معتزلی اور محمد بن جریر طبری جو آپ کے معتمد ترین مورخ ہیں، روایت کرتے ہیں کہ عمر اسید بن خضیر ، سلمہ بن اسلم اور ایک جماعت کےہمراہ علی(ع) کے دروازے پر گئے اور کہا باہر نکلو ورنہ ہم گھر کو تمہارے اوپر جلا دیں گے۔

3۔ ابن خزابہ نے کتاب عزر میں زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا میں ان لوگوں میں سے تھا جو عمر کے ہاں لکڑیاں اٹھا کر فاطمہ(ع) کے دروازے پر لے گئے ۔ جب علی (ع) اور ان کے اصحاب نے بیعت سے انکار کیا تو عمر نے فاطمہ (ع) سے کہا کہ جو شخص اس گھر کے اندر ہو اس کو باہر نکالو ورنہ اور گھر والوں کو جلائے دیتا ہوں اس وقت علی و حسنین اور فاطمہ علیہم السلام اور صحابہ و بنی ہاشم کی ایک جماعت گھر کے اندر موجود تھی۔ فاطمہ(ع) نے فرمایا کیا تم مجھ پر اور میرے بچوں پر گھر جلادوگے؟ کہا ہاں خدا کی قسم، یہاں تک کہ سب باہر آکر خلیفہ رسول (ص) کی بیعت کریں۔

4۔ ابن عبدربہ نے جو آپ کے مشاہیر علماء میں سے ہیں حقدالفرید جلد سیم ص63 میں لکھا ہے کہ علی علیہ السلام اور عباس(ع) فاطمہ(ع) کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ابوبکر نے عمر سے کہا جائو ان لوگوں کو لائو، اور اگر آنے سے انکار کریں تو ان سے جنگ کرو پس عمر آگ لے کر آئے تاکہ گھر جلادیں ، فاطمہ(ع) دروازے پرآئیں اور فرمایا اے پسر خطاب کیا تم میرا گھر جلانے آئے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں۔ الخ

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863