نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656911 / ڈاؤنلوڈ: 15924
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خان ے م یں ان کی کوئی نہ کوئ ی جلد او رنسخہ موجود ہے ۔

چنانچہ اگر فقہ ک ی استدلالی کتابوں اور عمل یہ رسائل کامطالعہ ک یجئے تو آپ دیکھیں گے ک ہ علاو ہ اس ک ے ک ہ کوئ ی شرک کاطریقہ موجود نہیں ہے ،احکام ب ھی مہ مل اور ب ے قاعد ہ ن ہیں ہیں بلکہ فق ہ جعفر ی کے باطن س ے توح ید کا لب لباب ظاہ ر و آشکار ہے ۔

شرح لمعہ اور شرائع الاسلام سار ے کتب خانو ں م یں موجود ہیں ان کامطالعہ ک یجیے تو اسی باب نذر میں نیز جملہ فق ہ ائ ے ش یعہ کے عمل یہ رسالوں م یں ملے گا ۔ نذر چونک ہ خدا ک ے لئ ے کس ی عمل کو اپنے اوپر لازم کرن ے ک ی وجہ س ے ابواب عبادت م یں سے ا یک باب ہے ل ہ ذا اس ک ے لئ ے حت می طور پر دو شرطوں کا لحاظ رک ھ نا ضرور ی ہے ۔ ک یونکہ اگر ان دونوں م یں سے کوئ ی مفقود ہ وگ ی تو نذر منعقد نہ ہ وگ ی ،اول:- نیت متصل بہ عمل ، اور دوسر ی :- صیغہ چاہے و ہ جس زبان م یں ہ و ۔

جب مسلمان یہ سمجھ ل ے گا ک ہ اس ک ی نذر بغیر ان دو شرطوں ک ے صح یح نہ ہ وگ ی تو کوشش کرے گا ک ہ پ ہ ل ے ان دونو ں کامطلب اور نوع یت سمجھ ل ے اس ک ے بعد نذر کر ے جس وقت کس ی فقیہ سے سوال کر ے گا یا کوئی رسالہ پ ڑھے گا تو اس کو معلوم ہ وگا ک ہ اولا سار ی عبادتوں م یں بالخصوص نذر میں نیت اللہ ک ے بار ے م یں اور اللہ ک ی خوشنودی حاصل کرنے ک ے لئ ے ہ ونا چا ہ ئ یے لہ ذا غ یر خدا کے لئ ے ن یت کا سوال یہ ختم ہ و جاتا ہے ۔

دوسری شرط جو پہ ل ی شرط کا تتمہ ہے اور اس کو مضبوط کرن ے وال ی ہے ، یہ ہے ک ہ نذر کن ے وال ے کو نذر ک ے وقت ص یغہ پڑھ نا لازم ی ہے اور ص یغہ میں جب تک خدا کا نا م نہ ہ و ص یغہ جاری نہیں ہ وتا ،مثلا روز ے ک ی نذر کرنا چاہ تا ہے ۔ تو ک ہے "لل ہ عل یّ ان اصوم"

یا شراب ترک کرنا چاہ تا ہے تو ک ہے "لل ہ عل یّ ان اترک شرب الخمر" اور اسی طریقے سے دوسر ی نذریں ہیں۔

اگر فارسی یا اردو وغیرہ بولنے وال ے ک ے لئ ے عرب ی صیغہ جاری کرنا آسان نہ ہ و تو ہ ر قوم والا اپن ی زبان میں صیغہ جاری کر سکتا ہے اس شرط س ے ک ہ ا س ک ے معن ی مذکورہ ص یغہ سے مطابق ہ و ں ، اور اگر ن یت میں غیر خدا ہ و یا کسی اور زندہ یا مردہ کو خدا ک ے نا م ک ے سات ھ شامل کر لے ۔ چ ہ ل ہے پ یغمبر یا امام یا امام زادے ہی کا نام ہ و تو قطعا و ہ نذر باطل ہے اور اگر عمدا جان بوج ھ کر ا یسا کرے تو مشرک ہے ک یونکہ مذکورہ آ یت میں کھ لا ہ و ا ارشاد ہے "ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا" البت ہ ا ہ ل علم پر لازم ہے ک ہ نا واقف لوگو ں کو سمج ھ ا ئ یں کہ ن ذر قطعا خدا کے نام پر اور خدا ہی کے لئ ے ہ ونا چا ہیئے ،چنانچہ واعظ ین اور مبلغین برابر اپنا فرض انجام دیتے رہ ت ے ہیں ۔ اور ش یعہ فقہ ا عموما ب یان کیا کرتے ہیں کہ نذر ہ ر زند ہ یا مردہ ک ے لئ ے چا ہے و ہ پ یغمبر یا امام ہی ہ و باطل ہے اور اگر سمج ھ ک ے عمدا ا یسا کرے ت و مشرک ہے ۔

۸۱

نذر صرف خدا کے لئ ے کر یں اس کے مصرف ک ے تع ین میں اختیار ہے ۔ مثلا نذر کر ے ک ہ خدا ک ے لئ ے کوئ ی گوسفند فلاں مکان یا عبادت خانے یا بقعہ امام وغ یرہ میں لے جا کر قربان ی کرے گا ۔یا کوئی رقم یا لباس خدا کے لئ ے فلا ں س یّد یا عالم یا یتیم یا فقیر کو دے گا تو کوئ ی حرج ن ہی ں ہے ،ل یکن اگر پیغمبر یا امام یا امام زادہ یا عالم یا یتیم یا محتاج وغیرہ کے لئ ے نذر کر ے تو حتما باطل ہے اور علم وقصد ک ے سات ھ قطعا شرک ہے ۔ ہ ر رسول ،فق یہ ،عالم، واعظ اور مبلغ کا فرض لکھ نا اور ب یان کرنا ہے "وما علی الرسول الا البلاغ" یعنی پیامبر پر سوا مکمل طریقے سے پ ہ نچا د ینے کے اور کوئ ی ذمہ دار ی نہیں ہے ۔ سور ہ نور آ یت 54۔

اور لوگوں کا فرض سننا اور عمل کرنا ہے اگر کوئ ی شخص یا اشخاص احکام دین کے س یکھ ن ے اور سکھ ان ے ک ی کوشش نہ کر یں اور ہ دا یات کے مطابق اپن ے مذ ہ ب ی فرائض پر عمل نہ کر یں تو ان کے اصل عق یدے اور اصول وقواعد میں کوئی نقص نہیں پیدا ہ وتا ۔

میرا خیال ہے ک ہ اس ی قدر جواب سے حق یقت ظاہ ر ہ وگئ ی ہ وگ ی اور اس کے بعد آپ حضرات ش یعوں کو مشرک کہہ کر عوام کو غلط ف ہ م ی میں مبتلا نہ کر یں گے ۔

شرک خفی

بہ تر ہے ک ہ ہ م لوگ پ ہ ل ی گفتگو کی طرف رجوع کریں اور مطلب پورا کریں ۔ دوسر ی قسم شرک خفی و پوشیدہ ہے اور و ہ شرک در اعمال اور طاعات وعبادات میں رہ ا ہے اس قسم ک ے شرک اور شرک در عبادت ک ے درم یان جس کو ہ م ن ے شرک جل ی میں شمار کیا ہے فرق یہ ہے ک ہ بند ہ سرک عب ادت میں خدا کے لئ ے شر یک قرار دیتا ہے اور مقام عبادت م یں اس کی پر ستش کرتا ہے ،مثلا اگر نماز یمں غیر خدا کو مد نظر رکھے جیسے شیاطین کے ب ہ کان ے س ے مقام ولا یت کی صورت نگاہ م یں لائے یا کسی مرشد کو مر کز توجہ بنائ ے تو قطعا و ہ عمل باطل اور شرک خف ی ہے ، عبادت میں سوا ذات وحدہ لاشر یک کے انسان ک ے ذ ہ ن وفکر م یں اور کسی کو دخل نہ ہ ونا چا ہیئے ورنہ شرک جل ی میں داخل ہ وجاتا ہے ۔

حضرت رسول خدا(ص) سے مرو ی ہے ک ہ فرما یا "یقول الله تعالی من عمل عملا صالحا اشرک فیه غیری فهو له کله وانا منه برئ وانا اغنی الاعنیاء عن الشرک" یعنی خدائے تعال ی فرماتا ہے ک ہ جو شخص کوئ ی نیک عمل کرے اور اس م یں میرے غیر کو شریک کرلے تو سارا عمل اس ی کے لئ ے ہے اور م یں اس (عمل یا عامل) سے ب یزار ہ و ں اور م یں تمام اغنیا سے ز یادہ شک سے غن ی ہ و ں۔

۸۲

ن یز روایت میں ہے ک ہ ارشاد فرما یا جو شخص نماز پڑھے یا روزہ رک ھے یا حج کرے اور اس کا نظر یہ یہ ہ و ک ہ لوگ اس عمل پر اس ک ی مدح کریں "فقد اشرک فی عملہ "تو یقینا اس نے ا س عمل میں خدا کے لئ ے شر یک قرار دیا۔

نیز کاشف اسرار حقائق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ک ہ "لو ان عبدا عمل عملا یطلب به رحمة الله والدار الآخرة ثم ادخل فیه رضا احد من الناس کان مشرکا" (یعنی اگر کوئی بندہ رحمت خدا اور جزائ ے آخرت ک ی طلب میں کوئی عمل کرے اور اس م یں کسی انسان کی رضامندی کو شامل کرے تو و ہ عامل مشرک ہ و جائ ے گا) ۔

شرک خفی کا دامن بہ ت وس یع ہے ک یونکہ کسی عمل میں غیر خدا کی طرف ایک مختصر سی توجہ ب ھی مشرک بنا دیتی ہے ۔

شرک در اسباب

اس شرک کی قسموں م یں سے ا یک شرک در اسباب ہے ج یسا کہ اکثر لوگ صرف اسباب اور خلق پر ام ید وخوف کی نظر رکھ ت ے ہیں ، یہ بھی شرک ہے ل یکن شرک در اسباب سے مراد یہ ہے ک ہ اسباب ہی میں اثر سمجھے مثلا آفتاب اش یا کی تربیت میں اثر انداز ہ وتا ہے اگر اس اثر کو ب غیر مؤثر حقیقی کی طرف توجہ کئ ے ہ وئ ے خود آفتاب کی جانب سے سمج ھیں تو شرک ہے اور اگر اس کا مؤثر حک یم مطلق کو اور آفتاب کو فیض رسانی کا ذریعہ جانیں تو ہ رگز شرک ن ہیں ہے ،بلک ہ یہ تو ایک طرح کی عبادت ہے ک یونکہ حق کی نشانیوں پر توجہ کرنا خود حق ک ی طرف توجہ کرنے کا پ یش خیمہ ہے ؛ج یسا کہ قرآن مج ید کی بہ ت س ی آیتوں میں اس امر کی جانب اشارہ موجود ہے ک ہ آ یات الہی پر غور کرو اس لئے ک ہ فکر ونظر خود خدائ ے تعال ی کی طرف توجہ کا مقدم ہ ہے ۔

اسی طرح اسباب میں سے ہ ر سبب ک ی طرف جیسے تاجر کی تجارت کی طرف ،کاشتکار کی زراعت کی طرف ،باغبان کی باغبانی کی طرف ،پیشہ ور کی پیشہ ور کی طرف اور منتظم کی اپنے انتظام ک ی طرف یہ ا ں تک کہ کس ی قسم کا کام کرنے وال ے ک ی اپنے شغل اور عمل ک ی طرف مستقل اور خاص توجہ مشرک بناد یتی ہے اور اگر سبب و اسباب پر اس ک ی نظر اس نیت سے ہ و ک ہ "لا مؤثر ف ی الوجود الا اللہ " یعنی اثر دینے والا سوا خدا کے کوئ ی اور نہیں ہے تو کوئ ی قباحت نہیں ہے اور شرک ن ہ ہ وگا ۔

شیعہ کسی پہ لو س ے مشرک ن ہیں

اس مختص تمھید کے بعد جس س ے مطلب واضح ہ وگ یا ہے اور ہ م اصول شرک اور اس ک ے معان ی وآثار بیان کرچکے ہیں ، اب اجازت دیجئے کہ اپن ے ب یانات سے نت یجہ نکالیں اور دیکھیں کہ ہ م ن ے شرک جل ی و خفی کے جو طر یقے بیان

۸۳

کئے ہیں ان میں سے کس ک ے ماتحت آپ ش یعوں کو مشرک کہ ت ے ہیں ۔ آ یا کہ ا ں اور کس پ ڑھے لک ھے یا جاہ ل ش یعہ سے آپ ن ے سنا ہے ک ہ و ہ خدائ ے تعال ی کی ذات وصفات اور افعال میں کسی شریک کا قائل ہ و؟ یا پروردگار کی عبادت میں کسی دوسرے معبود کو پ یش نظر رکھ تا ہ و ؟ یا شیعوں کی کونسی کتب اور اخبار واحادیث میں دیکھ ا ہے ک ہ اصول وفروع اور عقائد ک ے بار ے م یں ان بزرگان دین اور ائمہ طا ہ ر ین سے کوئ ی ایسی بات یا حکم منقول ہ و جو شرک ک ے ان طر یقوں سے ملتا ہ و جو م یں نے عرض ک یئے ؟۔

اب رہ ا شرک خف ی اور اس کے اقسام ج یسے لوگوں کو دک ھ ان ے اور ان کو متاثر کرن ے ک ے لئ ے کوئ ی عمل کریں یا اسباب سے ربط او ر ام ید قائم کریں تو یہ بات تنہ ا ش یعوں سے مخصوص ن ہیں ہے بلک ہ ش یعہ اور سنی سبھی عالم اجسام میں گرفتار ہیں اور بہ ت س ے عقل ومعرف ت ،تزکیہ نفس اور کامل توجہ ن ہ ہ ون ے ک ی وجہ س ے کب ھی کبھی شیطان کے وسوسو ں م یں مبتلا ہ و کر ر یائی عمل کرتے ہیں ،یا سرتا پا اسباب میں محو ہ وجات ے ہیں اور حق کی اطاعت سے ہٹ کر اطاعت ش یطان کرنے لگت ے ہیں اور جیسا عرض کیا جاچکا ہے اگر چ ہ یہ طرز عمل شرک ک ے مف ہ وم م یں آجاتا ہے ل یکن شرک مغفور ہے اور یقینا معانی اور چشم پوشی کے قابل ہے ک یونکہ تھ و ڑی روحانی توجہ س ے اس ک ی تلافی ہ وجات ی ہے ۔ پ ھ ر آپ کس پ ہ لو س ے ش یعوں کو مشرک سمجھ ت ے ہیں ؟ اور عوام کو دھ وک ے م یں ڈ الت ے ہیں ،جیسا کہ ف ی الحال آپ نے اشار ہ ک یا ہے ۔

حافظ:- آپ کی ساری باتیں صحیح ہیں لیکن میں نے عرض ک یا کہ اگر آپ غور فرمائ یے تو خود تصدیق کیجئے گا کہ امامو ں س ے حاجت طلب کرنا اور ان کا وس یلہ اختیار کرنا شرک ہے چونک ہ ہ م ک و انسانی واسطے ک ی ضرورت نہیں ہے ل ہ ذا جب ب ھی خدا کی طرف توجہ کر یں گے نت یجہ حاصل ہ وجائ ے گا ۔

خیرطلب :- بڑے تعجب کا مقام ہے ک ہ آپ کا ا یسا منصف اور ہ وش یار عالم کیونکر بغیر تحقیق کے اپن ے اسلاف ک ی عادتوں ک ے ز یر اثر رہ کر ا یسے بیان دیتا ہے ،غالبا آپ سور ہے ت ھے یا میری گزارشوں ک ی طرف کوئی توجہ ن ہیں تھی کہ ان مقدمات کو ذکر کرن ے کا اور مطالب ک ی تشریح کردینے کے بعد ب ھی آپ یہ بات دہ را ر ہے ہیں کہ امامو ں س ے حاجت چا ہ نا شرک ہے ۔

جناب محترم! کیا مطلقا مخلوقات سے حاجت طلب کرنا شرک ہے ؟ اگر ایسا ہے تو سارا عالم مشرک ہے اور کب ھی کوئی موحد مل نہیں سکتا ۔ اگر خلق س ے حاجت چا ہ نا اور ان س ے مدد ک ی خواہ ش کرنا شرک ہے تو انب یاء کس لئے خلائق س ے امداد مانگت ے ت ھے ؟ ب ہ تر ہ و گا ک ہ آپ ح ضرات کسی قدر قرآن مجید کی آیتوں پر بھی غورفرمائیں تاکہ حق یقت واضح ہ وجائ ے ۔

۸۴

آصف بن برخیا کا سلیمان کے پاس تخت بلق یس لانا

ضرورت ہے ک ہ سور ہ نمبر27(نمل)ک ی آیات نمبر 38 تا 40 پر توجہ فرمائ یے جن میں ارشاد ہے " قَالَ يَا أَيُّهَا المَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ٭ قَالَ عِفْريتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ٭ قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرّاً عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ٭ "( یعنی جناب سلیمان نے حاضر ین مجلس سے ک ہ ا ک ہ تم م یں سے کون شخص بلق یس کا تخت میرے پاس لائے گا ، قبل اس ک ے ک ہ و ہ لوگ م یرے سامنے اطاعت گزار بن ک ے آئ یں ؟ جنا ت میں سے ا یک دیو بولا کہ م یں اس کا تخت لے آن ے پر ا یسا قادر اور امین ہ و ں ک ہ آپ ک ے دربار س ے ا ٹھ ن ے س ے پ ہ ل ے ہی لا کر حاضر کردوں گا ، اس شخص ن ے جس کو ت ھ و ڑ ا سا علم کتاب معلوم ت ھ ا ( یعنی آصف بن برخیا جو اسم اعظم جانتے ت ھے ) ک ہ ا ک ہ م یں آپ کی پلک جھ پکن ے سے قبل اس کو یہ ا ں لے آؤ ں گا ۔ جب سل یمان نے و ہ تخت اپن ے پاس د یکھ ا تو کہ ا ۔ یہ طاقت میرے پروردگار کے فضل س ے ہے ۔۔ ال ی آخر) بدیہی چیز ہے ک ہ بلق یس کا اتنا بڑ ا تخت اتن ی طویل مسافت سے پلک ج ھ پکن ے س ے قبل سل یمان کے پاس ل ے آنا عاجز مخلوق کا کام ن ہیں ہے اور مسلّم ہے ک ہ ا یک خلاف عادت امر ہے ل یکن حضرت سلیمان نے یہ سمجھ ت ے ہ وئ ے ب ھی کہ یہ کام خدائی قدرت چاہ تا ہے تخت منگوان ے ک ی درخواست خدا سے ن ہیں کی بلکہ ا یک عاجز مخلوق سے حاجت روائ ی اور امداد کی خواہ ش ک ی اور اہ ل دربار س ے فرمائش ک ی کہ و ہ ع ظیم الشان تخت میرے لئے منگوادو، ل ہ ذا خود جناب سل یمان کا عاجز بندوں س ے یہ تقاضا کرنا کہ تم م یں سے کون اپن ی خدا داد قوت سے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور تخت بلق یس کو اس کے آن ے س ے پ ہ ل ے م یرے سامنے حاضر کرسکتا ہے ؟ اس بات کا ثبوت ہے ک ہ مخلوق س ے مطلق حاج ت چاہ نا شرک ن ہیں ہے ۔ خدا ن ے دن یا کو عالم اسباب قرار دیا ہے ۔ شرک ب ھی ایک قلبی امر ہے اگر اس شخص کو جس س ے حاجت طلب کر رہ ا ہے خدا یا خدا کا شریک نہ سمج ھے تو اس س ے مدد ل ینے میں کبھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ عام طور پر لوگو ں م یں رواج ہے ک ہ ہ م یشہ زید ،عمر وبکر کے درواز ے پر جاکر بغ یر خدا کا نام زبان پر جاری کئے ہ وئ ے امداد کا تقاضا کرت ے ہیں ۔

چنانچہ اگر کوئی مریض طبیب اورڈ اک ٹ ر ک ے درواز ے پر جاکر ک ہے ک ہ ڈ اک ٹ ر صاحب م یری فریاد کو پہ نچئ ے ،ب یماری مجھ کو مار ے ڈ الت ی ہے تو ک یا یہ مریض مشرک ہے ؟ ۔

اگر کوئی دریا میں ڈ وبن ے والا ہ و فر یاد کرے ک ہ لوگو م یری مدد کو پہ نچو اور مج ھ کو بچاؤ اور خدا کا نام ن ہ ل ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟ ۔

۸۵

اگر کسی ظالم نے کس ی بے گنا ہ مظلوم کا پ یچھ ا کیا اور اس نے وز یر اعظم کے در پر جا ک ے ک ہ ا جناب وز یر صاحب میری فریاد رسی کیجئے ۔ م یں آپ کا دامن نہ چ ھ و ڑ و ں گا ک یونکہ مجھ کو سوا آپ ک ے اور کس ی سے ام ید نہیں جو مجھ کو اس ظالم ک ے پنج ے س ے چ ھٹ کارا دلائ ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟ ۔

اگر کسی کے گ ھ ر کوئ ی چور جان یا مان یا عزت کے قصد س ے داخل ہ وا اور و ہ کو ٹھے پر چ ڑھ ک ے اپن ے پ ڑ وس یوں کو مدد کے لئ ے پکار ے اور رسما ک ہے ک ہ لوگو م یری مدد کو دوڑ و اور اس چور س ے بچاؤ ل یکن اس وقت خدا کا نا بالکل نہ ل ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟

قطعا جواب نفی میں ہ وگا اور کوئ ی عقلمند آدمی ایسے کو مشرک نہیں کہے گا بلک ہ جو لوگ مشرک ک ہیں وہ یا تو بیوقوف ہیں یا پھ ر ان ک ی کوئی غرض ہے ۔

محترم حضرات ! انصاف کیجئے اور غلط فہ م ی نہ پ ھیلائے ، بالعموم سارے ش یعہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئ ی شخص آل محمد کو خدا سمجھے یا ان کو خدائی ذات وصفات او رافعال میں شریک جانے تو و ہ قطع ی مشرک ہے ۔ اور ہ م لوگ اس س ے ب ے ب یزاری اختیار کرتے ہیں ۔ اگر آ پ نے مص یبتوں میں شیعوں کو" یا علی ادرکنی " یا حسین ادرکنی" کہ ت ے ہ وئ ے سنا ہے تو اس ک ے معن ی یہ نہیں ہیں کہ " یا علی اللہ ادرکن ی" یا حسین اللہ ادرکن ی" بلکہ دن یا چونکہ دار اسباب ہے ک یونکہ "ابی الله ان یجری الامور الا باسبابها" یعنی اللہ ن ے امور کو ب غیر ان کے اسباب نافذ کرن ے س ے انکار ک یا ہے (مترجم)۔ ل ہ ذا ش یعہ اس خاندان جلیل کو وسیلہ اور اسباب نجات سمجھ ت ے ہیں اور انہیں حضرات کے ذر یعے سے خدا تک رسائ ی کی کوشش کرتے ہیں ۔

حافظ:- مستقل طور پر خدا ہی سے ک یوں حاجت طلب نہیں کرتے ک ہ وس یلہ اور واسطہ ک ے پ یچھے دوڑ ر ہے ہیں ؟

خیر طلب :-طلب حاجات اور رنج وغم کے دف یعہ میں ہ مار ی مستقل توجہ پروردگار ہی کی یکتاذات سے مخصوص ہے ل یکن قرآن مجید جو ایک محکم آسمانی کتاب ہے ہ م کو ہ دا یت کررہ ا ہے ک ہ خدا ک ی جلیل بارگاہ م یں وسیلے کے سات ھ حاضر ہ ونا چا ہ ئ یے چنا نچہ سور ہ نمبر 5 (مائد ہ )آ یت نمبر36 میں ارشاد ہ وتا ہے "یا ایهاالذین آمنوا اتقوالله وابتغوه الیه الوسیلة" (یعنی اے ا یمان والو خدا سےڈ رو اور اس ک ی بارگاہ م یں پہ نچن ے ک ے لئ ے (اول یائے حق کا) وسیلہ اختیار کرو (تاکہ مطلب برآئ ے ) ۔

آل محمد (ع)فیض الہی کے ذر یعے ہیں

ہ م شیعہ اہ ل ب یت طاہ ر ین علیھ م السلام کو امور کے حل وعقد م یں قادر مطلق نہیں سمجھ ت ے بلک ہ ان حضرات کو خط ک ے صالح بند ے اور ف یض خداوندی کاواسطہ جانت ے ہیں اور اس جلیل القدر خاندان کے سات ھ ہ مارا توسل رسول الل ہ

۸۶

ک ے حکم س ے ہے ۔

حافظ:- کس مقام پر رسول اکرم (ص) نے ان س ے توسل اخت یار کرنے کا حکم د یا ہے اور ک ہ ا ں س ے معلوم ہ و ا ک ہ واسط ے س ے مراد آل محمد (ص) ہیں ؟ ۔

خیرطلب :-بکثرت حدیثوں میں حکم دیا ہے ک ہ خطرات اور م ہ لکو ں س ے نجات حاصل کرن ے ک ے لئ ے م یری عزت اور اہ ل ب یت سے متوسل ہ و ۔

حافظ:- یا یہ ممکن ہے ؟ اگر ا یسی حدیثیں آپ کی نظر میں ہیں تو ہ مار ے سامن ے ب ھی بیان فرما دیجیئے۔

خیرطلب :-آپ نے جو یہ فرمایا کہ ک ہ ا ں س ے معلوم ہ و ا ک ہ وس یلے سے مراد عترت اور ا ہ ل ب یت پیغمبر (ع) ہیں ؟ تو آپ کے اکابر علماء ج یسے حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی "نزول القرآن فی علی " میں حافظ ابو بکر شیرازی "ما نزل من القرآن فی علی "میں اور امام احمد ثعلبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ آ یہ شریفہ میں وسیلہ سے مراد عترت و ا ہ ل ب یت رسول(ع)ہیں ۔ چنانچ ہ علماء م یں سے شرح ن ہ ج البلاغ ہ جلد چ ہ ارم صفح ہ 79 م یں حضرت صدیقہ کبری فاطمہ ز ہ را سلام الل ہ عل یھ ا کا وہ خطب ہ نقل ک یا ہے جو جناب معصوم ہ ن ے قض یہ فدک کے سلسل ے م یں مہ اجر ین انصار کے سامن ے ارشاد فرما یا تھ ا چنانچ ہ خطب ے ک ے شروع ہی میں ان مظلومہ ن ے مندرج ہ ذ یل عبارت کے سات ھ اس آ یت کے معن ی کی طرف اشارہ فرما یا ہے "واحمدالل ہ الذ ی بعظمتہ ونور ہ یبتغی من فی السموات والارض الیہ الوسیلۃ ونحن وسیلتہ فی خلقہ "( یعنی میں حمد کرتی ہ و ں اس خدا ک ی جس کی عظمت اور نور کی وجہ س ے آسمانو ں اور زم ینوں کے ر ہ ن ے وال ے اس ک ی طرف وسیلہ تلاش کر تے ہیں ، اور ہ م ہیں اس کا وسیلہ مخلوقات کے اندر ۔

حدیث ثقلین

عترت رسول اور اہ لب یت طاہ ر ین علیھ م السلام سے تمسک و توسل اور ان ک ی پیروی کے جواز پر مضبوط دل یلوں میں سے ا یک حدیث ثقلین بھی ہے جو فر یقین کے نزد یک صحیح اسناد کے سات ھ توا تر ک ی حد تک پہ نچ ی ہ وئ ی ہے ک ہ رسول الل ہ (ص) س ے ارشاد فرمایا "ان تمسکتم بهما لن تضلوا بعدی" (یعنی اگر ان کے سات ھ تمسک رک ھ و گ ے تو م یرے بعد ہ رگز گمرا ہ ن ہ ہ وگ ے ) ۔

حافظ:- میرا خیا ل ہے ک ہ آپ ن ے د ھ وکا ک ھ ا یا ہے جو اس حد یث کو صحیح الاسناد اور متواتر کہہ د یا ہے ۔ اس لئ ے ک ہ یہ مقصد ہ مار ے اکابر علماء ک ے نزد یک غیر معلوم ہے اور اس بات پر دل یل یہ ہے ک ہ ہ مار ے ش یخ بزرگ اور مذہ ب

۸۷

سنت وجماعت ک ے قبل ہ وکعب ہ محمد بن اسماع یل بخاری نے اپن ی معتبر صحیح میں جو قرآن کریم کے بعد تمام کتابو ں س ے ز یادہ صحیح ہے اس کا ذکر ن ہیں کیا ہے ۔

خیر طلب :-اول تو یہ کہ م یں نے د ھ وکا ن ہیں کھ ا یا ہے بلک ہ اس حد یث مبارک کا صحیح اور معتبر ہ و نا آپ ک ے علماء ک ے نزد یک مسلم ہے یہ ا ں تک کہ ابن حجر مک ی نے اتن ے سخت تعصب ک ے بعد اس ک ی صحت کا اعتراف کیا ہے ۔ ضرورت ہے ک ہ اپن ے ذ ہ ن کو روشن کرن ے ک ے لئ ے صواعق محرق ہ فصل دوم با ب 11 ذیل آیہ چہ ارم صفح ہ 89-90 ک ی طرف رجوع کیجئے جہ ا ں و ہ ترمذ ی ،امام احمد بن جنبل ،طبرانی ،اور مسلم سے روا یتیں نقل کرنے ک ے بعد ک ہ ت ے ہیں "اعلم ان لحدیث التمسک با الثقلین طرقا کثیرۃ و وردت من نیف و عشرین صحابیا "(یعنی جان لو کہ ثقل ین (عترت رسول اور قرآن مجید)سے تمسک کرن ے ک ی حدیث بہ ت طر یقوں سے مرو ی ہے یہ بیس سے ز یادہ اصحاب رسول (ص)سے نقل ہ وئ ی ہے ) ۔

پھ ر کہ ت ے ہیں کہ حد یث کے طرق م یں تھ و ڑ ا سا اختلاف ہے کس ی میں کہ ت ے ہیں کہ حج ۃ الوداع میں عرفات کے اندر ، کس ی میں مرض الموت کے عالم م یں مدینے کے اندر جب حجر ہ صحاب ہ س ے ب ھ را ہ وا ت ھ ا کس ی ،میں ملتا ہے غد یر خم کے اندر اور کس ی میں درج ہے ک ہ طائف س ے وا پسی کے بعد کا ذکر ہے اس ک ے بعد خود ہی تبصرہ کرت ے ہ وئ ے ک ہ ت ے ہیں کہ ان اختلافات م یں کوئی منافات نہیں ہے اور بلکل ممکن ہے ک ہ رسول اکرم (ص)نے قرآن کر یم اور عترت طاہ ر ہ ک ی عظمت وشان ثابت کرنے ک ے لئ ے ان سار ے مقامات پر بار بار اس حد یث کو ارشاد فرمایا ہ و ۔

بغیر تعصّب کے بار یک بینی سعادت کا سبب ہے

دوسرے آپ نے یہ فرمایا ہے ک ہ بخار ی کا اپنی صحیح میں نقل نہ کرنا اس حد یث کے صح یح نہ ہ ون ے ک ی دلیل ہے تو آپ کا یہ بیان بہ ت س ی وجہ و ں س ے قابل رد اور علماء ک ے نزد یک لائق نفرت ہے ک یونکہ یہ حدیث مبارک اگرچہ بخار ی نے اپن ی صحیح میں درج نہیں کی ہے ،ل یکن آپ کے اکابر علماءن ے بالعموم اس کو نقل ک یا ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی کے ہ مسر مسلم بن حجاج اور سار ے ارباب صحاح ست ہ نس اپن ی معتبر کتابوں م یں تفصیل کے سات ھ ذکر ک یا ہے ۔

یا تو آپ حضرات کوچاہیئے کہ تمام صحاح اور اپن ے علماء ک ی معتبر کتابوں کو د ھ و کر دور پ ھینک دیجیئے اور اپنے سار ے عقائد کو صرف بخار ی تک محدود رکھیئے یا اگر دوسرے علماء ک ی عدالت اور علم ودانش کے معترف م یں جواپنے دور ا ہ ل سنت ک ے درم یان علم وفہ م او ر تقو ی میں ممتاز ت ھے خصوصا صحاح ست ہ ک ے مؤلف ین تو آپ کا فرض ہ وگا ک ہ اگر کس ی خبر کو اپنی مصلحتوں ک ی بنا پر بخاری نے ن ہیں لکھ ا ہے اور دوسرو ں ن ے نقل ک یا ہے تو اس کو قبول فرمائ یے ۔

۸۸

حافظ:- مصلحت کوئی بھی نہیں تھی صرف امام بخاری محتاط بہ ت ز یادہ تھے اور نقل اخبار م یں بہ ت جانچ پ ڑ تال کرت ے ت ھے چنانچ ہ جس روا یت کو سند یا عبارت کے لحاظ س ے مشکوک اور عقل ک یخلاف پایا اس کو نقل نہیں کیا ۔

خیر طلب :- قاعدہ "حب الشیء یعمی ویصم"(یعنی کسی چیز کی محبت آدمی کو اندھ ا اور ب ہ را بناد یتی ہے )ک ے مطابق اس مقام پر حضرات ا ہ ل سنت کو غلط ف ہ م ی ہ وئ ی ہے ک یوں کہ آپ ان ک ے بار ے م یں غلو رکھ ت ے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ امام بخار ی بہ ت بار یک بین تھے او ر جو روا یت انہ و ں ن ے اپن ی صحیح میں درج کی ہے و ہ انت ہ ائ ی معتبر اور وحی کی منزل کے مانند ہے حالانک ہ ا یسا ہے ن ہیں ، بخاری کے سلسل ہ اسناد م یں بکثرت مردود ،منفور کذاب اور جعال اشخاص موجو د ہیں۔

حافظ:- آپ کایہ بیان مردود ومنفور ہے اس لئ ے ک ہ آپ ن ے بخار ی کے مرتب ہ علم ودانش ک ی توہین کی ہے ( یعنی سارے ا ہ ل سنت وجماعت ک ی اہ انت ک ی ہے )-

خیرطلب :-اگر علمی تنقید اہ انت ہے تو آپ ک ے تمام ب ڑے ب ڑے علماء جن ہ و ں ن ے روا یات کی گہ ر ی تحقیق کی ہے اور آپ ک ی معتبر صحاح کی بلکہ مخصوص طور پر صح یح بخاری اور صحیح مسلم کی بہ ت س ی روایتوں کو ان کے سلسل ہ اسناد م یں مردود ،کذاب اور جعال شخص کے موجو د ہ ون ے ک ی وجہ س ے رد کرد یا ہے ، سب س ے مرتب ہ علم ودانش ک ی تو ہین کرنے وال ے اور مردود ت ھے۔

بہ تر ہ وگا آپ حضرات کتب اخبار م یں ذرا دقت نظر سے کام ل یں اور مطالعے ک ے وقت غلو ک ی نگاہ س ے ن ہ د یکھیں کہ چ ونکہ یہ بخاری یا مسلم ہیں لہ ذا جو کچ ھ نقل کرد یا ہے ہ ر ح یثیت سے صح یح اور یقینی ہے ۔

ضروری ہے ک ہ آپ ک ے و ہ علماء جو صحاح ست ہ اور بالخصوص صح یح بخاری اور صحیح مسلم کے بار ے م یں غلو کا عقیدہ رکھ ت ے ہیں پہ ل ے ان کتابو ں ک ی طرف رجوع فرما ئیں جو اخبار کی جرح وتعدیل میں لکھی گئی ہیں تا کہ امام بخار ی کی قدر منزلت اور نقل احادیث میں ان کی گہ ر ی تحقیق کی حقیقت معلوم ہ وجائ ے ۔ اگر آپ "اللئا ل ی المصنوعۃ فی احادیث الموضوعۃ" ،سیوطی "میزان الاعتدال" تلخیص المستدرک ذہ ب ی" تذکرۃ الموضوعات ابن جوزی " تاریخ بغدادمؤلفہ ابو بکر احمد ابن عل ی خطیب بغداد اور علم رجال میں اپنے دوسر ے بزرگ علماء ک ی ساری کتابیں پ ڑھیں تو پھ ر مج ھ پر اعتراض ن ہ کر یں اور یہ فرمائیں کہ تم ن ے حضرت بخار ی کی اہ انت ک ی ہے

۸۹

بخاری اور مسلم نے مردود اور جعل سازرجال س ے روا یتیں نقل کی ہیں

آخر میں نے کون س ی بات عرض کی کہ آپ اس قدر غ ھہ م یں بھ ر گئ ے ؟م یری گذارش تو صرف یہی تھی کہ آپ ک ی صحاح یہ ا ں تک کہ صح یحین ،بخاری ومسلم میں بھی مردود اور کذاب رجال سے ب ھی روایات اور احادیث مروی ہیں۔ اگر آپ کتب رجال کو پ یش نظر رکھ ت ے ہ وئ ے صح یح بخاری کی روایتوں کا غور سے مطالع ہ فرمائ یں تو نظر آجائے گا ک ہ ان ہ و ں ن ے بکثرت جعّال ،وضّاع اور مردود رجال س ے خبر یں نقل کی ہیں جیسے ابو ہ ر یرہ کذّاب ،عکرمہ خارج ی،محمد بن عبد سمر قندی محمد بن بیان ، ابراہیم بن مہ د ی ابلی بنوس بن احمد واسطی ،محمد بن خالد حنبلی،محمد بن محمد یمانی،عبد اللہ بن واقد حرّان ی ابوداؤد سلیمان بن عمر کذّاب ،عمران بن حطّان اور ان کے علاو ہ دوسر ے مردود راو ی جن کی پوری فہ رست پ یش کرنے کا ن ہ وقت ہے ن ہ سب م یرے حافظہ م یں محفوظ ہے اگر آپ رجال ک ی کتابیں ملاحظہ فرمائ یں تو حقیقت امر ظاہ ر ہ وجائ ے گ ی کہ حضرت بخار ی ویسے نہیں ہیں جیسے آپ کی نگاہ و ں م یں پھ ر ر ہے ہیں ،یعنی غیر معمولی طور پر تحقیق اور احتیاط سے کام ن ہیں لیتے تھے بلک ہ نقل اخبار م یں اشخاص کے صرف ظا ہ ر ی حالات پر توجہ رک ھ ت ے ت ھے ۔ہ مار ی اصطلاح میں اپنی جگہ پر ب ہ ت خوش ف ہ م اور خوش عق یدہ تھے اور جس شخص سے ب ھی کوئی ایسی روایت سن لی جو بظاہ ر ٹھیک ہ و اس ک ی درج کر لیا۔

اس مطلب پر خود آپ کے علماء ک ی کتب رجالیہ گواہ ہیں جن میں سے بعض ک ی طرف میں اشارہ کرچکا ہ و ں ک ہ ان ہ و ں ن ے موضوع اور مردود روا یات کی چھ ان ٹ ک ے الگ کرد یا ہے اور بخار ی و مسلم کے سلسلہ روا یات میں محققانہ وقت نظر س ے کام ل یتے ہ وئ ے ان م یں سے ب ہ تو ں کا پرد ہ فاش کردیا ہے تاک ہ ہ مار ی اور آپ کی توجہ مبذول ہ و اور ان کتابو ں پر نظر رک ھ ت ے ہ وئ ے آج رات کو یہ نہ فرمائ یے کہ حد یث ثقلین اور عترت طاہ ر ہ ہے تمسک کو بخار ی نے اپن ی احتیاط کی وجہ س ے نقل ن ہیں کیا ۔ آ یا عقل باور کرتی ہے ک ہ ا یک محقق اور محتاط عالم غیرمؤثق ،کذّاب او ر وضّاع روایوں سے ا یسی فرضی روایتیں نقل کرے جو ا ہ ل علم اور ارباب عقل ودانش ک ے نزد یک مضحکہ بن ک ے ر ہ جائ یں کیاکلیم اللہ کا ملک الموت ک ے من ہ پر طمانچ ہ مارک ے ان کو اندھ ا بنا د ینا یا آپ کا پا برہ ن ہ بغ یر ساتر عورتین کے بن ی اسرائیل کے درم یان دوڑ نا جس ک ا تذکرہ م یں نے پ ہ ل ے کرچکا ہ و ں ،خرافات اور مو ہ ومات م یں سے ن ہیں ہے ؟

کیا قیامت کے روز خدا ک ی رویت یا اس کے زخم ی پاؤں یا اپنی پنڈ ل ی کھ ولن ے ک ی حدیثیں جو انہ و ں ن ے صح یح کے اندر نقل ک ی ہیں اور ان میں سے بعض ک ی طرف میں اشارہ ب ھی کر چکا ہ و ں کفر یات میں سے ن ہیں ہیں۔ ؟

۹۰

صحیحین بخاری ومسلم میں مضحک روایت اور رسو ل(ص)کی اہ انت

کیا یہ بخاری کی سخت علمی اور عملی احتیاط ہی کا نتیجہ ہے ک ہ اپن ی صحیح جلد دوم "باب اللہ و با الحراب "صفحہ 120 م یں اسی طرح مسلم جلد اول "باب الرخصۃ فی اللعب الذی ما معصیۃ فیہ فی ایام السعید" میں ابو ہ ر یرہ سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ ع ید کے روز کچ ھ حبش ی سیّاح مسجد رسول (ص) میں جمع ہ وئ ے ت ھے اور ناچ کود ک ے فن س ے لوگو ں کو خوش کر ر ہے ت ھے رسو ل الل ہ (ص) ن ے عائش ہ س ے فرما یا کیا تم بھی دیکھ نا چاہ ت ی ہ و؟ ان ہ و ں ن ے عرض ک یا ہ ا ں یا رسول اللہ (ص) ۔ حضرت ن ے ان کو اپن ی پیٹھ پر اس طریقہ سے سوال ک یا کہ ان ہ و ں ن ے اپنا سر آن حضرت (ص)کے کاند ھے ک ے اوپ ر سے نکالا اور چ ہ ر ہ آپ ک ے چ ہ ر ہ مبارک پر رک ھ ل یا۔ آنحضرت(ص) عائش ہ کو محفوظ کرن ے ک ے لئ ے ان لوگو ں کو ترغ یب دے ر ہے ت ھے ک ہ اس س ے ب ہ تر نا چ دک ھ ائ یں ،یہ ا ں تک عائشہ ت ھ ک گئ یں تو ان کو زمین پر اتار دیا ۔

خدا کے لئ ے انصاف ک یجئے کہ اگر آپ حضرات م یں سے کس ی کی طرف ایسی بات منسوب کی جائے تو ک یا آپ ناراض نہ ہ و ں گ ے اور اس کو اپن ی توہین نہ سمج ھیں گے ؟ اگر کوئ ی جناب حافظ صاحب سے ک ہے ک ہ مج ھ س ے ا یک راوی نے ب یان کیا ہے ک ہ کل شب م یں جب حافظ صاحب کے مکان ک ی پشت پر بازی گروں کا ا یک دستہ سازندگ ی او ربازیگری میں مشغول تھ ا تو میں نے د یکھ ا جلیل القدر عالم جناب حافظ صاحب اپنی بیوی کو پیٹھ پر اٹھ ائ ے تماش ہ د یکھ ار ہے تھے بلک ہ باز یگروں سے یہ بھی کہہ ر ہے ت ھے ک ہ خوب ناچ ے جاؤ تاک ہ م یری بیوی اور لطف اندوز ہ و ۔ تو للل ہ سچ ک ہ ئ یے گا کہ یہ بات سن کر حافظ صاحب متاثر اور شرمندہ تو ن ہ ہ و ں گ ے ؟ اور اس کو ا یک مخلص خادم ہ ون ے ک ے بعد اگر کس ی شخص سے ا یسی خبر سنوں چا ہے و ہ بظا ہ ر معتبر ہی ہ و تو ک یا میرے لئے اس کونقل کرنا مناسب ہے ؟ اور اگر م یں بیان کردوں تو عقلمند لوگ یہ نہ سمج ھیں گے ک ہ فلاں جاہ ل ن ے ا یک بات کہ د ی تو آپ نے ہ وش یار ہ وکر ک یوں اس کو نقل کیا؟۔

اب ذرا بخاری کی روایتوں پر فیصلہ دیجئے کہ اگر و ہ واقع ی محقق اور اخبار کی چھ ان ب ین کرنے وال ے ت ھے تو فرض ک یجئے ایسی روایت انہ و ں سن ی تھی تو کیا مناسب تھ ا ک ہ اس کو اپن ی کتاب میں نقل بھی کریں اور پھ ر مولو ی صاحبان اس کتاب کو "اصح الکتب بعد القرآن "بتائیں ؟

لیکن حدیث ثقلین کو جس میں رسول اللہ (ص) اپن ی امت کو حکم دے ر ہے ہیں کہ م یرے بعد قرآن مجید اور میرے اہ ل ب یت طاہ ر ین علیھ م السلام سے تمسک کرو، نقل ن ہ کر یں (کیونکہ عترت کا نام بیچ میں ہے ) البتہ فرض ی گھڑی ہ وئ ی روایتیں جن کی پو ری تفصیل کا وقت نہیں اپنی کتابوں ک ے ابواب م یں درج کریں۔

۹۱

ہ ا ں ایک پہ لو س ے م یں ضرور آپ کی تصدیق کرتا ہ و ں ک ہ علماء ا ہ ل سنت ک ے درم یان بخاری صاحب یقینا اس حیثیت سے ب ہ ت محتاط ت ھے ک ہ جس روا یت میں یہ نظر آیا کہ عنوان امامت و ولا یت کے لحاظ س ے ولا یت علی ابن ابی طالب علیھ ما السلام او ر حرمت اہ لب یت طاہ ر ین علیھ م السلام کے ثبوت م یں کوئی راہ نکل ر ہی ہے تو احت یاطا اس کو نقل نہیں کیا کہ ا یسا نہ ہ و کس ی روز عقلمندوں ک ے ہ ات ھ کا حرب ہ بن جائ ے اور و ہ حق و حق یقت کو ظاہ ر کرد یں ۔ چنانچ ہ جب ہ م صحاح ک ی جلدوں کا صح یح بخاری سے مقابل ہ کرت ے ہیں تو اس نتیجے تک پہ نچت ے ہیں ۔ کہ اس روشن موضوع پر کوئی روایت چاہے و ہ متواتر ،ضرور ی اور قرآن وآیات الہی کی تائید سے مضبوط ہی ہ و ان ہ و ں ن ے نقل ن ہیں کی ہے ج یسے آیات مبارکہ "یا ایها الرّسول بلغ ما انزل الیک من ربّک " ، "انما ولیکم الله و رسو له و الذین آمنو الذین یقیمون الصلواة و یوتون الزکا ة و هم راکعون"،"و انذر عشیرتک الاقربین" وغ یرہ کی شان میں بکثرت حدیثیں ،حدیث ولایت یوم الغدیر ، حدیث انذار ، حدیث مواخات ، حدیث، حدیث سفینہ ،حدیث با ب الحطہ اور دوسر ی حدیثیں جو اہ لب یت طہ ارت عل یھ م السلام کی حرمت وولایت کے اثبات س ے نسب ت رکھ ت ی تھیں انہ و ں ن ے احت یاطا نقل نہیں کیں ۔ ل یکن ہ ر و ہ حد یث جو انبیاء کرام او ر با لخصوص حضرت خاتم الا نبیاء (ص) کے وجود اقدس اور آنحضرت (ص) ک ی عترت طاہ ر ہ ک ے مقامات ومدارج عال یہ کی اہ انت کا کوئ ی پہ لو رک ھ ت ی تھی وہ (چا ہے کس ی جعّال ،کذّاب اور وضّاع ہی سے م نقول ہ و)بغ یر احتیاط کے نقل کرد ی جن میں بعض کی طرف اشارہ ہ و چکا ہے ۔

حدیث ثقلین کے اسناد

اب میں مجبور ہ و ں ک ہ آپ ک ی بعض کتابوں ک ی طرف اشارہ کرو ں تاک ہ آپ ب ھی جان لیں کہ حد یث مبارکہ ثقل ین کو اگر بخاری صاحب نے درج ن ہیں کیا ہے تو آپ ک ے دوسر ے اکابر وموثق ین علماء یہ ا ں تک کہ بخار ی کے ہ م پل ہ (ج یسا کہ آپ ب ھی مانتے ہیں )مسلم بن حجاج نے ب ھی نقل کیا ہے ۔

مسلم بن حجاج نے "صح یح مسلم"جلد ہ فتم صفح ہ 122 م یں ،ترمذی نے " صح یح " میں ، ابو داؤد نے "سنن "جزء دوم صفح ہ 207 م یں نسائی نے " خصائص "صفح ہ 30 م یں ، امام احمد بن جنبل نے "مسند "جلد سوم صفح ہ 14-17 وجلد پنجم صفح ہ 182-189 م یں ،حاکم نے مستدرک"جلد سوم صفح ہ 109 -148 میں ،حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی نے "حل یۃ الاولیا " جلد اول صفحہ 355 م یں ،سبط ابن جوزی نے تذکر ۃ صفحہ 186 م یں ، ابن اثیر جوزی نے اسد الغاب ہ جلد دوم صفح ہ 12 وجلد سوم صفح ہ 147 م یں حمیدی نے جمع ب ین الصحیصین میں ، رزین نس "جمع بین الصحاح الستہ "م یں ، طبرانی نے "کبیر" میں ،ذہ ب ی نے " تلخیص مستدرک" میں ، ابن عبد ربہ ن ے "عقد الفر ید" میں محمد ابن طلحہ شافع ی نے "مطالب السئول" م یں ، خطیب خوارزمی نے " مناقب" م یں سلیمان بلخی

۹۲

حنفی نے " ینابیع المودۃ"باب 4 میں ، میر سید علی ہ مدان ی نے "مود ۃ القربی " کی مودۃ دوم میں ، ابن ابی الحدید نے " شرح ن ہ ج البلاغ ۃ " میں ، شبلنجی نے " نور الابصار" صفح ہ 99 م یں ،نورالدین بن صباغ مالکی نے " فصول الم ہ م ہ "صفح ہ 25م یں ، حموینی نے فرائد السبط ین میں ،امام ثعلبی نے "مناقب "م یں ، محمد بن یوسف کنجی شافعی نے "کفا یت الطالب"باب اول بیان صحت خطبہ غد یر خم وضمن باب 62صفحہ 130 م یں ، محمد بن سعد کاتب نے " طبقات" جلد چ ہ ارم صفح ہ 8 م یں ، فخر الدین رازی نے " تفس یر کبیر "جلد سوم ضمن آیہ اعتصام صفحہ 18 م یں ابن کثیر دمشقی نے " تفس یر" جلد چہ ارم ضمن آ یہ مودت صفحہ 113 م یں ،ابن عبد ربہ ن ے "عقد الفر ید" جلد دوم صفحہ 158 ،346 میں ، ابن ابی الحدید نے " شرح ن ہ ج البلا غ ہ " جزء ششم صفح ہ 130 ،سل یمان حنفی نے ینابیع المودۃ صفحات115،95،34،32،31،30،29،25،18، 230،199،126، میں مختلف عبارتوں ک ے سات ھ ،ابن حجر مک ی نے صواعق محرق ہ صفحات 136،99،90،87،75، م یں مختلف عبارتوں ک ے سات ھ اور آپ کے دوسرے اکابر علماء ن ے جن ک ے سار ے اقوال کرنا اس مختصر جلس ہ م یں دشوار ہے الفاظ وعبارات ک ے مختصر اختلاف ک ے سات ھ اس حد یث مبارک کو جو نقل اقوال خاصہ وعام ہ ہے تواتر ک ی حد تک پہ نچ ی ہ وئ ی ہے رسول اکرم(ص) س ے نقل ک یا ہے ک ہ آپ(ص) ن ے فرما یا "انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی اهلبیتی لن یفترقا حتی یردا علی الحوض من توسل(تمسک) بهما فقد نجی ومن تخلف عنها فقد هلک ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا " ( یعنی بہ تحق یق میں تمہ ار ے درم یان دو گرانقدر چیزیں چھ و ڑ ر ہ ا ہ و ں ،الل ہ ک ی کتاب(قرآن مجید) اور میری عترت و اہ ل بیت یہ دونوں آپس م یں ایک دوسرے س ے جدا ن ہ ہ و ں گ ے یہ ا ں تک کہ حوض کوثر ک ے کنار ے م یرے پاس پہ نچ جائ یں جو شخص ان دونوں س ے توسل وتمسک رک ھے گا و ہ یقینا نجات یافتہ ہے اور جو شخص ان دونو ں س ے من ہ مو ڑے گا تو و ہ یقینا ہ لاک شد ہ ہے جب تک ان دونو ں س ے تمسک کروگ ے ہ رگز کبھی گمراہ ن ہ ہ و ں گ ے ) ۔

یہ ہ مار ی ایک محکم دلیل ہے ک ہ ہ م رسو ل (ص)ک ے حکم س ے قرآن کر یم اور اہ ل ب یت طاہ ر ین(ص) سے تمسک وتوسل رک ھ ن ے پر مجبور ہیں۔

شیخ:- اس حدیث کو صالح بن موسی بن عبداللہ بن اسحق بن طلح ہ بن عبدالل ہ القرش ی التیمی،الطلحی نے اپن ی سند کے سات ھ ابو ہ ر یرہ سے اس طرح نقل ک یا ہے ک ہ ۔ "انی قد خلفت فیکم ثنتین کتاب الله و سنتی الی آخر"

خیر طلب :- آپ نے پ ھ ر ا یک طرفہ ا یک بدکار ،متروک ، ضعیف اور ارباب جرح وتعدیل ، جیسے ذہ ب ی ،یحیی ،امام نسائی ،بخاری ،اور ابن عبد ربہ وغ یرہ کے نزد یک مردود فرد سے حد یث نقل کرکے وقت ضائع ک یا ۔

جناب من!

کیا آپ ہی کے اکابر علماء س ے اس قدر معتبر روا یتوں کا نقل کرنا آپ کے لئ ے کاف ی نہیں ہ وا جو آپ اپن ے نقاد

۹۳

علماء ک ے نزد یک ایسی ناقابل قبول حدیث کا سہ ارا ڈھ ون ڈھ ا ؟ حالانک ہ فر یقین (سنی ،شیعہ)کا اس پر اتفاق ہے ک ہ رسول اکرم ن ے کتاب الل ہ و عترت ی فرمایا ہے ن ہ کہ سنت ی کیونکہ کتاب وسنت دونوں اپن ے لئ ے شارح چا ہ ت ی ہیں۔ اور جب سنت خود شارح ک ی محتاج ہے تو قرآن ک ی پوری شارح نہیں بن سکتی لہ ذا عد یل قرآن ،عترت اور اہ ل ب یت ہیں جو قرآن کی تفسیر کرنے وال ے بھی ہیں اور سنت رسول(ص)ظاہ ر کرن ے وال ے ب ھی ۔

حدیث سفینہ

اہ ل بیت رسول (ص) کے توسل پر ہ مار ی دلیلوں میں سے معتبر حد یث سفینہ بھی ہے جس کو آپ ک ے ب ہ ت ب ڑے ب ڑے علماء ن ے تقر یبا تواتر کی حد تک نقل کیا ہے ۔ جس قدر م یرے پیش نظر ہے آپ ک ے سو100 نفر س ے ز یادہ اکابر علماء نے اپن ی کتابوں م یں درج کیا ہے ،مثلا مسلم بن حجاج نے اپن ی "صحیح "میں ، امام احمد بن حنبل نے "مسند" م یں ،حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی نے "حل یۃ الاولیاء" میں ، ابن عبد البر نے " است یعاب" میں ، ابو بکر خطیب بغدادی نے " تار یخ بغداد" میں ، محمد ابن طلحہ شافع ی نے " مطالب السئول" م یں ، ابن اثیر نے "ن ہ ا یہ" میں ، سبط ابن جوزی نے " تذکر ہ "م یں ، ابن صباغ مالکی نے "فصول الم ہ م ہ " م یں ،علامہ نورالد ین سمہ ود ی نے "تار یخ المدینہ" میں ، سید مومن شبلنجی نے "نور الابصار"م یں ، امام فخر الدین رازی نے "تفس یر مفا تیح الغیب"میں ، جلال الدین سیوطی نے "در المنثور "م یں امام ثعلبی نے "تفس یر کشف البیان" میں ، طبرانی نے "اوسط"م یں ،حاکم نے " مستدرک " م یں جلد سوم صفحہ 151 م یں ،سلیمان بلخی حنفی نے " ینابیع المودۃ" باب 4 میں ،میر سید علی ہ مدان ی نے "مودت القرب ی " مودت دوم میں ، ابن حجر مکی نے " صواعق محرق ہ " ذ یل آیت ہ شتم م یں ۔ طبر ی نے اپن ی "تفسیر اور تاریخ"میں ، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے "کفا یت المطالب "باب 233 اور آپ کے دوسر ے ب ڑے ب ڑے علماء ن ے نقل ک یا ہے ک ہ حضرت خاتم الانب یاء نے فرما یا " انما مثل اہ لب یتی کمثل سفینۃ نوح من رکب نجی ومن تخلف عنھ ا ھ لک"( یعنی سوا اس کے ن ہیں ہے ک ہ تم ہ ار ے درم یان میرے اہ ل ب یت کی مثال کشتی نوح کے مثل ہے ک ہ جو شخص پر سوار ہ و ا اس ن ے نجات پائ ی ۔ اور جس شخص ن ے اس س ے روگردان ی کی ہ لاک ہ وگ یا)۔

نیز امام محمد بن ادریس شافعی نے اپن ے اشعار م یں اس حدیث کی صحت کی طرف اشارہ ک یا ہے ۔ چنانچ ہ علام ہ فاضل عج یلی نے "ذخ یرۃ المال میں ان کو اسطرح سے نقل ک یا ہے ۔

ولمّا رایت النّاس قد ذهبت بهم ------ مذاهب هم فی ابحر الغیّ والجهل

رکبت علی اسم الله فی سفن النجاة ------ وهم اهل بیت المصطفی خاتم الرّسل

وامسکت حبل الله وهو ولاؤهم ------ کما قد امرنا بالتمسک بالحبل

اذا افترقت فی الدین سبعون فرقة ------ وینفا علی ما جاء فی اصح النقل

ولم یک ناج منهم غیر فرقة ------ فقل لی بها یا ذا الرجائة ولعقل

۹۴

انی الفرقة الهلاک آل محمد ------ ام الفرقة اللاتی نجت منهم لی قل

فان قلت فی النّاجین فالقول واحد ------ وان قلت فی الهلاک حفت عن العدل

اذا کان مولی القوم منهم فاننی ------ رضیت بهم لا زال فی ظلّهم ظلّ

رضیت علیا لی اماما و نسله ------ وانت من الباقین فی اوسع الحل (1)

اگر آپ ان کھ ل ے ہ و ئ ے اور و ہ ب ھی اہ ل سنت و جماعت ک ے پ یشوائے بزرگ امام شافعی کے اشعار پر پور ی توجہ فرمائ یں تو دیکھیں گے ک ہ و ہ ک یونک کر اس کا اقرار کر رہے ہیں کہ اس س ے سف ینے کی سواری اور اس پاک خاندان سے تمسک اور تو سل ذر یعہ نجات ہے ک یونکہ امت مرحومہ ک ے ب ہ تر فرقو ں م یں سے ناج ی فرقہ صرف و ہی ہے جو آل محمد (ع) ک ے دامن س ے متمسک اور متوسل ہے اور ادربس چنانچ ہ ش یعہ خود رسول اللہ (ص) ک ے حسب الحکم خدا کی طرف اسی خاندان جلیل کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ایک بات اور یاد آگئی کہ اگر آپ کے قول کے مطابق انسان واسط ے اور وس یلے کا محتاج نہیں ہے اور بارگا ہ خداوند ی میں اگر وسیلے کے سات ھ فر یاد و استغاثہ بلند کر ے تو گن ہ گار اور مشرک ہ وگا ۔ تو پ ھ ر خل یفہ عمر الخطاب کس لئے احت یاج اور اضطرار کے موقع پر واسط ے ک ے سات ھ خدا ک ی طرف رجوع کرتے ت ھے ا ور اس طرح استغاثہ کر ک ے کام یابی حاصل کرتے ت ھے ؟

حافظ:- ہ رگز خل یفہ عمر رضی اللہ عن ہ ن ے واسط ے ک ے سات ھ کوئ ی عمل انجام نہیں دیا اور یہ پہ لا موقع ہے جب م یں ایسے الفاظ سن رہ ا ہ و ں گزارش ہے ک ہ اس کا مجمل ب یان فرمائیے ۔

خیرطلب:- خلیفہ احتیاج کے مواقع پر بار بار ا ہ ل ب یت رسالت (ع) اور آنحضرت کی عترت طاہ ر ہ کا وس یلہ ڈھ ون ڈ ھ ت ے ر ہ ت ے ت ھے اور ان ہیں کے توسل س ے خدا ک ی طرف رجوع کرکے مطلب حاصل کرت ے ت ھے وقت کا لحاظ رکھ ت ے ہ وئ ے صرف دو موقع ے نمون ے ک ے طور پر پ یش کرتا ہ و ں ۔

(پہ لا)ابن حجر مک ی ،صواعق محرقہ م یں آیۃ نمبر14 کے بعد تار یخ دمشق سے نقل کرت ے ہیں کہ سن ہ 17 ہ جر ی میں دعائے بارش ک ے لئ ے لوگ کئ ی مرتبہ نکل ے ل یکن کوئی نتیجہ نہیں ہ و ا سب ب ہ ت متاثر اور پر یشان ہ وئ ے تو عمر ابن الخطاب ن ے ک ہ ا ک ہ اب م یں کل ضرور بالضرور اس شخص کے وس یلے سے طلب باران کرو ں گا جس ک ے واسط ے س ے حتم ی

--------------

(1):- (جب میں نے لوگوں کو جہل گمراہی کے دریا میں غرق دیکھا تو خدا کے نام پر نجات کی کشتیوں میں بیٹھا جو خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی کے اہل بیت ہیں ۔میں نے جہل خدا سے تمسک کیا جو اسی خاندان کی دوستی ہے جیسا کہ ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ اس حبل سے متمسک رہیں ۔جس وقت دین کے اندر ستر سے زیادہ فرقے پیدا ہوگئے جیسا کہ حدیث میں واضح طور پر آیا ہے اور ان میں سواایک کے کوئی ناجی نہیں ہے تو مجھے سے کہو کہ اے صاحب عقل ودانش ! کہ آیا خاندان رسالت اور آل محمد علیھم السلام کسی فرقہ میں سے ہیں؟یا نجات کی پانے والے حق فرقے کے افراد ہیں؟اگر یہ کہو کہ فرقہ ناجیہ میں ہیں تو ہمارا اور تمہارا قول ایک ہے اور اگر کہو کہ باطل ہونے والے فرقوں کے ساتھ ہیں تو تم صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے ۔ اگر قوم کا سردار ان حضرات(ع) میں سے ہو تو میں بخوشی ان کی اطاعت کے لئے آمادہ ہو رہا ہوں ۔ان کا سایہ ہمیشہ سروں پر قائم ہے ۔میں علی اور ان کی اولاد علیھم السلام کی امامت پر راضی ہوں ۔ جو حق پر ہے اور تم باطل فرقوں میں رہو اس روز تک جب حقیقت ظاہر ہو جائے )

۹۵

طور پر خدا ہ م کو پان ی دے گا ۔ دوسر ے دن صبح کو خل یفہ عمر آن حضرت صلعم کے چچا عباس ک ے پاس گئ ے اور ک ہ ا "اخرج بنا حت ی نستسقی اللہ بک " (ہ مار ے سات ھ با ہ ر چلو تا ک ہ ہ م بارگا ہ ال ہی میں تمہ ار ے وس یلے سے پان ی طلب کریں۔

جناب عباس نے فرما یا تھ و ڑی دیر بیٹھ جاؤ تاکہ م یں وسیلہ مہیا کر لوں ،پ ھ ر کس ی کو بھیج کر بنی ہ اشم کو اطلاع د ی کہ اور پاک لباس پ ہ ن ک ے خوشبو لگا ک ے اس صورت س ے با ہ ر آئ ے ک ہ عل ی علیہ السلام عباس کے آگ ے امام حسن عل یہ السلام داہ ن ی طرف، امام حسین علیہ السلام بائیں طرف اور دوسرے بن ی ہ اشم پ یچھے پیچھے تھے اس وقت فرما یا کہ ا ے عمر کس ی اور شخص کو ہ مار ے سات ھ شامل ن ہ کر ۔ چنانچ ہ اس ی حالت سے مصل ے تک پ ہ نچ ے اور جناب عباس ن ے مناجات ک ے لئ ے ہ ات ھ کو بلند کر ک ے عرض ک یا ۔ پروردگار ا ! تو ن ے ہ م کم خلق فرما یا اور جو کچھ ہ م عمل کرت ے ہیں تو اس سے واقف ہے پ ھ ر عرض ک یا کہ "الل ھ م کما تفضلت عل ینا فی اولہ فتفضل عل ینا فی آخرہ " ( یعنی پر وردگار جس طرح تو نے ابتدا م یں ہ م پر فضل ک یا ہے اس ی طرح آخر میں ہ مار ے اوپر تفضل فرما)جابر ک ہ ت ے ہیں ان کی دعا تمام نہ ہ وئ ی تھی کہ بادل آنا شروع ہ وئ ے اور پان ی برسنے لگا ۔ اب ھی ہ م لوگ گ ھ رو ں تک ن ہیں پہ نچ ے ت ھے ک ہ بارش س ے ب ھیگ گئے ۔

نیز بخاری سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ قحط ک ے زمان ہ م یں عمر ابن خطاب عباس ابن عبد المطلب کے وس یلے سے بارگا ہ خداوند ی میں پانی کے لئ ے دعا کر ر ہے ت ھے اور ک ہ ت ے ت ھے "الل ھ م انا نتوسل ال یک بعم نبینا فاسقنا فیسقون" یعنی خداوندا ہ م ت یری طرف عم رسول (ص) کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ہ م کو سیراب کردے ،چنانچ ہ ان لوگو ں پر نزول بارا ں ہ وا )

(دوسرا)ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہ ج البلاغ ہ (مطبوع ہ مصر) جلد دوم صفح ہ 256 م یں نقل کرتے ہیں کہ خل یفہ عمر جناب عباس عم رسول(ص) کے ہ مرا ہ استسقاء ک ے لئ ے گئ ے اور اس طرح دعا ک ی "اللھ م انا نتقرب ال یک بعم نبیک وبقیۃ آبا ئہ وکبر رجال ہ فاحفظ الل ھ م نب یک فی عمہ فقد ولونا ب ہ ال یک مستشفعین ومستغفرین "(یعنی خداندا ! ہ م ت یری طرف وسیلہ ڈھ ون ڈ ت ے ہیں تیرے پیغمبر کے چچا اور ان ک ے آباء اور بزرگ مردو ں م یں سے باق ی ماندہ ک ے ذر یعے سے ، پس اپن ے پ یغمبر کی منزل ان کے چچا ک ے بار ے م یں محفوظ رکھ ک یونکہ ہ م ن ے ان ک ی وجہ سے تیری طرف ہ دا یت پائی تاکہ شفاعت طلب کر یں اور اسغفار کریں۔

۹۶

حضرات اہ ل سنت اور پ یروان خلیفہ عمر کے حالات تو اس مش ہ ور مثل ک ے مطابق ہیں کہ "کاس ہ گرم تر از آش " " یعنی شوربے س ے ز یادہ پیالہ گرم " کیونکہ خلیفہ عمر دعا اور احتیاج واضطرار کے وقت عترت و ا ہ ل ب یت رسول(ص) کو اپنا شفیع قرار دیتے ہیں اور ان کے وس یلے سے بارگاہ ال ہی میں طلب حاجت کرتے ت ھے تو ان پر کوئ ی اعتراض نہیں ۔ ل یکن جس وقت ہ م ش یعہ اس برگزیدہ خاندان کو شفیع بناتے اور ان کا توسل اخت یار کرتے ہیں تو ہ م کو سخت اعتراض ک ے سات ھ کافر ومشرک ک ہ ا جاتا ہے ۔ اگر آل محمد (ص)اور عترت طا ہ ر ہ کو خدا ک ی طرف شفیع قرار دینا شرک ہے تو آپ ہی کے علماء ک ی روایتوں کے مطابق خل یفہ عمر ابن خطاب قطعا سب سے پ ہ ل ے مشرک ٹھہ رت ے ہیں اور اگر خلیفہ کا وہ عمل شرک ن ہیں تھ ا بلک ہ ب ہ تر ین کام تھ ا ۔ (ک یونکہ خلیفہ نے اس کاانتخاب ک یا تھ ا)تو یقینا شیعوں کے اعمال اور آل محمد عل یھ م السلام سے ان کا توسل ہ رگز شرک ن ہیں ہ و سکتا ۔

لہ ذا آپ حضرات کو چاہیے کہ قطع ی طور پر اپنی یہ باتیں چھ و ڑیں بلکہ استغفار کر یں (کیونکہ بے لوث اور موحد ش یعوں کی طرف ایسی غلط نسبت دی ہے )تاک ہ غضب ال ہی کے مستحق ن ہ بن یں اس لئے ک ہ جب خل یفہ عمربزرگان صحابہ ک ی ہ مرا ہی میں بھی چا ہے جس قدر دعا کر یں لیکن بغیر اہ ل ب یت رسول کے وس یلے کے کوئ ی نتیجہ برآمد نہ ہ وا تو آپ ک یونکر امید رکھ ت ے ہیں کہ ہ م بغ یر واسطے اور س ہ ار ے ک ے دعا کرک ے کام یاب ہ و جائ یں گے ۔

پس آل محمد سلام اللہ عل یھ م اجمعین عہ د رسول (ص) س ے ل ے کر ہ مار ے موجود ہ زمان ے تک ہ ر دور م یں خدا کی طرف بندوں ک ے وس یلے تھے اور ہیں اور ہ م لوگ ب ھی حاجت روائی میں ان کی خود مختاری کے قائل ن ہیں ہیں لیکن یہ ضرور ہے ک ہ ان کو خدا ک ے صالح بند ے برحق امام او ر درگاہ خدا م یں مقرب سمجھ ت ے ہیں لہ ذا اپن ے اور خدا ک ے درم یان واسطہ قرار د یتے ہیں۔

اس مقصد پر سب سے ب ڑی دلیل ہ مار ی دعاوؤں ک ی کتابیں ہیں کیونکہ ائمہ معصوم ین علیھم السلام سے تمام ماثور ہ اور دعاوؤ ں م یں ہ م جو کچ ھ م یں نے عرض ک یا ہے اس ک ے علاو ہ کوئ ی اور ہ دا یت ہی نہیں دی گئی ہے اور ہ م ن ے ب ھی اس طریقے کے خلاف ن ہ کوئ ی عمل کیا ہے ا ور نہ کر یں گے ۔

حافظ :- آپ کے یہ بیانات ہ مار ی سنی ہ و ی باتوں ک ے خلاف ہیں ۔

خیر طلب :- اپنی سنی ہ وئ ی باتوں کو چ ھ و ڑیئے اور مشاہ دات کا ذکر ک یجیئے ۔ ک یا آپ نے ہ مار ے ب ڑے علماء ک ی کچھ معتبر کتب ادع یہ کا مطالعہ ک یا ہے ؟

حافظ :- نہیں مجھ کو موقع ن ہیں ملا ۔

خیر طلب:-مناسب یہ تھ ا ک ہ پ ہ ل ے آپ اس قسم ک ی کتابیں ملاحظہ فرما ل یتے اس کے بعد اعتراض فرماتے اس وقت دعا وز یارت کی دو کتابیں میرے ہ مرا ہ ہیں ۔ ا یک علامہ مجلس ی علیہ الرحمہ ک ی تالیف ، زاد المعاد ،اور

۹۷

دوسری "ہ د یۃ الزائرین " مؤلفہ فاضل محدّث وعال م متبحر آقائی حاج شیخ عباس قمی دامت برکاتہ یہ مطالعے ک ے لئ ے حاضر ہیں (میں نے دونو ں جلد یں مولوی صاحبان کی خدمت میں پیش کریں ۔ اور ان ہ و ں ن ے د یکھ نا شروع کیا ،ادعیہ توسل کو پڑھ ا اور غور ک یا لیکن کسی مقام پر خاندان رسالت کے لئ ے خود مختار ی کا ذکر نہیں کیا بلکہ ہ ر جگ ہ ان کو واسط ہ ک ہ ا گ یا ہے اس وقت مولو ی سید عبد الحیی نے دعائ ے تو سل کو جو علام ہ مجلس ی علیہ الرحمہ ن ے بسلسل ہ محمد ابن بابو یہ قمی علیہ الرحمہ ائم ہ طا ہ ر ین سلام اللہ عل یھ م اجمعین نے نقل ک ی ہے نمون ے ک ے طور پر آخر تک پ ڑھی جس کا شروع یہ ہے ۔

دعائے توسل

اللهم انّی اسئلک و اتوجه الیک بنبیک نبی الرحمة محمد صلی الله علیه وآله یا ابا القاسم یا رسول الله یا امام الرحمة یا سیدنا ومولانا انّا توجهنا و استشفعنا وتوسلنا بک الی الله وقد مناک بین یدی حاجاتنا یا وجیها عند الله اشفع لنا عند الله ٭ یا ابا الحسن یا امیر المومنین یا علی ابن ابی طالب یا حجة الله علی خلقه یا سیدنا و مولانا انّا توجهنا واستشفعنا و توسلنا بک الی الله وقدمناک بین یدی حاجاتنا یا وجیها عندالله اشفع لنا عند الله

جس نوعیت سے ام یر المومنین علیہ السلام کو خطاب کیا گیا ہے اس ک ے بعد اس ی طرح سے کل ائم ہ معصوم ین علیھ م السلام کے لئ ے ب ھی ہے اور خطاب م یں ان کو یا حجۃ اللہ عل ی خلقہ ک ہ ا جاتا ہے یعنی اے حجت خدا خلق خدا پر ۔۔۔۔ آخر دعا تک ائم ہ طا ہ ر ین میں سے ا یک ایک کا نام لے کر توسل اخت یار کیا گیا ہے اور اس طر یقے سے مخاطب ک یا گیا ہے ک ہ ا ے ہ مار ے س ید مولا ہ م آپ ک ے وس یلے سے خدا ک ی طرف توجہ وتوسل اور طلب شفاعت کرت ے ہیں ،اے خدائ ے تعال ی کے نزد یک صاحب عزت بارگاہ ال ہی میں ہ مار ی سفارش فرمائیے ۔یہ ا ں تک کہ آخر دع امیں سارے خاندان رسالت کو مخاطب کرک ے ک ہ ا ہے ۔

"یا ساداتی وموالی انی توجهت بکم ائمتی وعدتی لیوم فقری وحاجتی الی الله وتوسلت بکم الی الله واستشفعت بکم الی الله فاشفعوا لی عندالله و استنقذونی من ذنوبی عند الله فانّکم وسیلتی الی الله وبحبکم وبقربکم ارجو نجاة من الله فکونوا عند الله رجائی یا ساداتی یا اولیاء الله"

جس وقت وہ حضرات یہ دعائیں پڑھ ر ہے ت ھے بعض م ہ ذب اور محترم سن ی حضرات ہ ات ھ مارت ے ت ھے

۹۸

اور باربار ک ہ ت ے ت ھے "لا ال ہ الا الل ہ سبحان الل ہ " کس طرح س ے غلط ف ہ م ی پھیلاتے ہیں۔

(میں نے ک ہ ا)م یں آپ حضرات سے انصاف چا ہ تا ہ و ں ۔ ان دعاو ؤ ں ک ی عبارتوں م یں کس مقام پر شرک کے آثار پائ ے جات ے ہیں ؟کیاہ ر جگہ خدائ ے تعال ی کامقدس نام موجود نہیں ہے ؟ ہ م ن ے دعا ک ی کون سی عبارت میں ان حضرات کو باری تعالی کا شریک قراردیا ہے ؟ آخر کس ل ئے آپ ہ م لوگو ں پر ت ہ مت لگات ے ہیں کس وجہ س ے موحد مسلمانو ں کو غال ی اور مشرک کہ ت ے ہیں ؟ کس غرض سے مسلمانو ں ک ے دلو ں م یں بغض وعداوت کا بیج بوتے ہیں ؟کس مقصد سے ناواقف لوگو ں ک ی نظر میں حقیقت کو مشتبہ بنات ے ہیں ؟تاکہ و ہ اپن ے د ینی ایمانی بھ ا یئوں کو کافر سمجھیں ۔ آپ ک ے کتن ے ناواقف اور متعصب عوام ب یچارے شیعوں کو اسی خیال سے قتل کرت ے ہیں کہ ہ م ا یک کافر کو قتل کیا لہ ذا جتن ی ہ وگئ ے ا یسے امور کا مظلمہ آپ ہی جیسے علماء کی گردنوں پر ہے ۔

بات یہ ہے ک ہ ش یعہ علماء او رمبلغین زہ ر ن ہیں پھیلاتے ۔ ش یعہ اور سنی کے درم یان عداوت کا بیج نہیں بوتے اور قتل نفس کو گنا ہ عظ یم سمجھ ت ے ہیں ،ہ م ش یعہ اور سنی کے درم یان ما بہ اختلاف مسائل کو علم ومنطق ک ی روشنی مین بیان کرکے ان کو حق یقت مذہ ب س ے با خبر کرتے ہیں لیکن گفتگو کے ضمن م یں ان کو یہ بھی سمجھ ا د یتے ہین کہ سن ی ہ مار ے مسلمان ب ھ ائ ی ہیں لہ ذا ش یعہ جماعت کو ان کی طرف کینے اوردشمنی کی نظر سے ن ہ د یکھ نا چاہیئے بلکہ برادران ہ طر یقے سے آپس م یں متحد رہ نا چا ہیئے تاکہ ہ م سب مل کر لا الہ الا الل ہ کاپرچم بلند کر یں۔

لیکن اس کے برعکس متعصب سنّ ی علماء کے طرز عمل س ے ہ م کو افسوس ہ وتا ہے ک ہ ابو حن یفہ ،مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد ابن حنبل کے پ یروؤں کو باوجود یکہ ان کے درم یان کثیر اصولی اور فروعی اختلافات ہیں ہ ر مقام پر آزاد ی دیتے ہیں اور مسلمان بھ ائ ی کہ ت ے ہیں لیکن علی ابن ابی طالب اور امام صادق آل محمد علیھ ما السلام جو عترت و اہ ل ب یت رسالت ہیں ،ان کے پ یروؤں کو غالی ،مشرک اور کافر نامزد کرتے ہیں اور ان کی آزادی سلب کرتے ہیں تاکہ سن ی ممالک کے اندر ان ک ی جان ومال محفوظ نہ ر ہے ،کتن ے ز یادہ ہیں کہ ا یسے صاحبان علم وتقوی شیعہ جو سنی علماء کے فتو ے س ے ش ہید کئے گئ ے ل یکن اس کے برعکس ا یسا عمل شیعہ علماء کی طرف سے ک یا بلکہ عوام ش یعہ کی جانب سے ب ھی جن سے اس کا انجام پانا ز یادہ سہ ل ہے کس ی جاہ ل سن ی کے لئ ے ب ھی صادر نہیں ہ وا ہے آپ ک ے علماء بالعموم ش یعوں پر لعنت کرتے ہیں لیکن شیعہ علماء کی کسی کتاب میں یہ نہیں دیکھ ا گیا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ا ہ ل تسنن لعن ھ م الل ہ لک ھ ا ہ و ۔

حافظ:- آپ زیادتی کر رہے ہیں ،کون سا صاحب علم وتقوی شیعہ ہ مار ے علماء ک ے فتو ے س ے قتل ہ وا ہے ک ہ

۹۹

آپ بلا وج ہ جو ش دلا ر ہے ہیں ؟اور کس نے ہ مار ے علماء م یں سے ش یعوں پر لعنت کی ہے ۔

خیرطلب :- اگر آپ کے علماء اور عوام کے حرکات تفص یل سے ب یان کرنا چاہ و ں تو ا یک نشست نہیں بلکہ کئ ی مہینے درکار ہ و ں گ ے ل یکن نمونے اور اثبات ک ے لئ ے ان ک ے بعض اعمال اور اطوار ک ی طرف جو تاریخ کے صفات پر نقش ہیں کئے د یتا ہ و ں تاک ہ آپ کو معلوم ہ وجائ ے ک ہ جوش نہیں دلاتا ہ و ں بلک ہ حق یقت پیش کرتا ہ و ں ۔

اگر آپ بڑے ب ڑے متعصب علماء ک ی کتابیں غور سے مطالع ہ ک یجئے تو لعنت کے مواقع خود ہی نظر آجائیں گے نمون ے ک ے طور پر تفس یر امام فخر الدین رازی کی جلدیں ملاحظہ فرمائ یے کہ جس جگ ہ ان کو موقع ہ ات ھ آ یا ہے ج یسے" آیت ولایت و اکمال الدین" وغیرہ کے ذ یل میں مکرر ومکرر لکھ ت ے ہیں۔

"و اما الرافضة لعنهم الله هؤلاء الرافضة لعنهم ----اما قول الروافض لعنهم الله " ل یکن کسی شیعہ عالم کے قلم س ے عام بردران ا ہ ل سنت ک ے لئ ے بلک ہ خاص صورت م یں بھی ان کے لئ ے ا یسی عبارتیں نہیں نکلی ہیں۔

اس جماعت کے فتو ے س ے ش ہید اول کی شہ ادت

شیعہ ارباب علم کے سات ھ آپ ک ے علماء ک ی دردناک بدسلوکیوں میں سے ا یک وہ عج یب وغریب فتوی ہے جو ا یک بہ ت ب ڑے ش یعہ فقیہ کے واسط ے شام ک ے دوب ڑے قاض یوں (برہ ان الد ین مالکی و عباد بن الجماعۃ الشافعی) کی طرف سے صادر ہ وا ت ھ ا و ہ بزرگ فق یہ جو زہ د وورع ،تقوی اور علم وتفقہ م یں سارے ا ہ ل زمان ہ ک ے سردار ت ھے ۔ ابواب فق ہ پر احاط ہ رک ھ ن ے م یں اپنے دور ک ے اندر جواب ن ہیں رکھ ت ے ت ھے ان ک ی فقہی مہ ارت کا ا یک نمونہ کتاب لمع ہ ہے جو (بغ یر اس کے ک ہ سوا "مختصر نافع" ک ے اور کوئ ی فقہی کتاب آپ کے پاس موجود ر ہی ہ و) صر ف سات روز کے اندر تصنیف فرمائی اور حنفی ، مالکی ،شافعی اور جنبلی چاروں مذ ہ ب ک ے علماء ان ک ے حلق ہ تلامذ ہ م یں داخل ہ و کر ف یض علم سے س یراب ہ وت ے ت ھے جناب ابو عبدالل ہ محمد بن جمال الد ین مکو عاملی رحمۃ اللہ عل یہ تھے۔

باوجودیکہ سنیوں کی سخت گیری کی وجہ س ے آپ ز یادہ تر تقیہ میں رہ ت ے ت ھے ۔ اور با الاعلان تش یع کا اظہ ار ن ہیں فرماتے ت ھے ل یکن پھ ر ب ھی شام کے ب ڑے قاض ی "عباد بن الجماعۃ" نے ا یسے عالم ربانی سے حسد کابرتاؤ کرت ے ہ وئ ے وال ی شام (بید مر) کے پاس ان ک ی چغلی کھ ا ئی اور رفض و تشیع کا الزام لگا کر اس فقیہ عالم کوگرفتارکروایا ۔ ا یک سال تک قید خانہ م یں سخت تکلیفیں دینے کے بعد 9 یا 19 جمادی الاولی سنہ 786 م یں انہیں دو بڑے سن ی قاضیوں (ابن الجماعۃ وبرہ ان الد ین )کے فتو ے س ے پ ہ ل ے آپ کو تلوار س ے قتل ک یا پھ ر آپ کا جسم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

عَلَى مَدَاحِرِ الشَّيْطَانِ ومَزَاجِرِه - والِاعْتِصَامِ مِنْ حَبَائِلِه ومَخَاتِلِه وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُه ورَسُولُه ونَجِيبُه وصَفْوَتُه - لَا يُؤَازَى فَضْلُه ولَا يُجْبَرُ فَقْدُه - أَضَاءَتْ بِه الْبِلَادُ بَعْدَ الضَّلَالَةِ الْمُظْلِمَةِ - والْجَهَالَةِ الْغَالِبَةِ والْجَفْوَةِ الْجَافِيَةِ - والنَّاسُ يَسْتَحِلُّونَ الْحَرِيمَ - ويَسْتَذِلُّونَ الْحَكِيمَ - يَحْيَوْنَ عَلَى فَتْرَةٍ ويَمُوتُونَ عَلَى كَفْرَةٍ.!

التحذير من الفتن

ثُمَّ إِنَّكُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ أَغْرَاضُ بَلَايَا قَدِ اقْتَرَبَتْ - فَاتَّقُوا سَكَرَاتِ النِّعْمَةِ واحْذَرُوا بَوَائِقَ النِّقْمَةِ - وتَثَبَّتُوا فِي قَتَامِ الْعِشْوَةِ واعْوِجَاجِ الْفِتْنَةِ - عِنْدَ طُلُوعِ جَنِينِهَا وظُهُورِ كَمِينِهَا - وانْتِصَابِ قُطْبِهَا ومَدَارِ رَحَاهَا - تَبْدَأُ فِي مَدَارِجَ خَفِيَّةٍ

ان چیزوں کے لئے جو شیاطین کو ہنکا سکیں۔بھگا سکیں اوراس کے پھندوں اور ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھ سکیں اور میں اس امرک ی گواہی د یتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔اور حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول اس کے منتخب اور مصطفی ہیں ان کے فضل کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ہے اور ان کے فقدان کی کوئی تلافی نہیں ہے۔ان کی وجہ سے تمام شہر ضلالت کی تاریکی ۔جہالت کے غلبہ اورب د سرشتی اوربداخلاقی کی شدت کے بعد جب لوگ حرام کو حلال بنائے ہوئے تھے اورصاحبان حکمت کو ذلیل سمجھ رہے تھے۔رسولوں سے خالی دورمیں زندگی گزار رہے تھے اور کفر کی حالت میں مر رہے تھے۔منور اور روشن ہوگئے۔

(فتنوں سے آگاہی)

اس کے بعدتم اے گروہ عرب ان بلائوں کا نشانہ پر ہو جو قریب آچکی ہیں لہٰذا نعمتوں کی مدہوشیوں سیب چو اور ہلاک کرنے والے عذاب سے ہوشیار رہو۔ اندھیروں کے دھندلکوں میں قدم جمائے رہواور(۱) فتنوں کی کجروی سے ہوشیار رہو جس وقت ان کا پوشیدہ خدشہ سامنے آرہا ہو اور مخفی اندیشہ ظاہر ہو رہا ہواور کھونٹا مضبوط ہو رہا ہو۔یہ فتنے ابتدا میں مخفی راستوں سے شروع ہوتے ہیں

(۱)انسانی بصیرت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انسان فتنہ کو پہلے مرحلہ پر پہچان لے اور وہیں اس کا سدباب کردے ورنہجب اس کا رواج ہو جاتا ہے تو اس کا روکنا نا ممکن ہو جاتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کا آغاز اتنے مخفی اور حسین انداز سے ہوتا ہے کہ اس کا پہچاننا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے اور اس طرح عوام الناس اپنے مخصوص عقائد و نظریات یا عواطف و جذبات کی بنا پران فتنوں کاشکار ہوجاتے ہیں اورآخر میں ان کی مصیبت کا علاج نا ممکن ہو جاتا ہے ۔علماء اعلام اور مفکرین اسلام کی ضرورت اسی لئے ہوتی ہے کہ وہ فتنوں کو آغاز کار ہی سے پہچان سکتے ہیں اور ان کا سدباب کر سکتے ہیں بشرطیکہ عوام الناس ان کے اوپر اعتماد کریں اور ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔

۲۶۱

وتَئُولُ إِلَى فَظَاعَةٍ جَلِيَّةٍ - شِبَابُهَا كَشِبَابِ الْغُلَامِ وآثَارُهَا كَآثَارِ السِّلَامِ - يَتَوَارَثُهَا الظَّلَمَةُ بِالْعُهُودِ أَوَّلُهُمْ قَائِدٌ لِآخِرِهِمْ - وآخِرُهُمْ مُقْتَدٍ بِأَوَّلِهِمْ يَتَنَافَسُونَ فِي دُنْيَا دَنِيَّةٍ ويَتَكَالَبُونَ عَلَى جِيفَةٍ مُرِيحَةٍ - وعَنْ قَلِيلٍ يَتَبَرَّأُ التَّابِعُ مِنَ الْمَتْبُوعِ - والْقَائِدُ مِنَ الْمَقُودِ فَيَتَزَايَلُونَ بِالْبَغْضَاءِ - ويَتَلَاعَنُونَ عِنْدَ اللِّقَاءِ - ثُمَّ يَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ طَالِعُ الْفِتْنَةِ الرَّجُوفِ - والْقَاصِمَةِ الزَّحُوفِ فَتَزِيغُ قُلُوبٌ بَعْدَ اسْتِقَامَةٍ - وتَضِلُّ رِجَالٌ بَعْدَ سَلَامَةٍ - وتَخْتَلِفُ الأَهْوَاءُ عِنْدَ هُجُومِهَا - وتَلْتَبِسُ الآرَاءُ عِنْدَ نُجُومِهَا - مَنْ أَشْرَفَ لَهَا قَصَمَتْه ومَنْ سَعَى فِيهَا حَطَمَتْه - يَتَكَادَمُونَ فِيهَا تَكَادُمَ الْحُمُرِ فِي الْعَانَةِ - قَدِ اضْطَرَبَ مَعْقُودُ الْحَبْلِ وعَمِيَ وَجْه الأَمْرِ - تَغِيضُ فِيهَا الْحِكْمَةُ وتَنْطِقُ فِيهَا الظَّلَمَةُ - وتَدُقُّ أَهْلَ الْبَدْوِ بِمِسْحَلِهَا - وتَرُضُّهُمْ بِكَلْكَلِهَا يَضِيعُ فِي غُبَارِهَا الْوُحْدَانُ

اور ظالم باہمی عہدو پیمان کے ذریعہ ان کے وارث بنتے ہیں۔اول آخرکا قائد ہوتا ہے اورآخر اول کامقتدی ۔حقیر دنیا کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں اور بدبو دار مردہ پر آپس میں جنگ کرتے ہیں۔جب کہ عنقریب مرید اپنے پیر اور پیراپنے مرید سے برائت کرے گا اور بغض و عداوت کےساتھ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے اور وقت ملاقات ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔اس کے بعد وہ وقت آئے گا جب زلزلہ افگن فتنہ(۱) سر اٹھائے گا جو کمر توڑ ہوگا اور شدید طور پر حملہ آور ہوگا جس کے نتیجہ میں بہت سے دل استقامت کے بعد کجی کا شکار ہو جائیں گے اور بہت سے لوگ سلامتی کے بعد بہک جائیںگے۔اس کے ہجوم کے وقت خواہشات میں ٹکرائو ہوگا اوراس کے ظہورکے ہنگام اور افکار مشتبہ ہو جائیں گے۔جوادھر سر اٹھا کردیکھے گا اسکی کمر توڑدیں گے اورجواس میں دوڑ دھوپ کرے گا اسے تباہ کردیں گے۔لوگ یوں ایک دوسرے کو کاٹنے دوڑیں گے جس طرح بھیڑکے اندر گدھے ۔خدائی رسی کے بل کھل جائیں گے اور حقائق کے راستے مشتبہ ہوجائیں گے۔حکمت کا چشمہ خشک ہو جائے گا اور ظالم بولنے لگیں گے۔دیہاتوں کو ہتھوڑوں سے کوٹ دیاجائے گا اور اپنے سینہ سے دبا کر کچل دیا جائے گا۔اکیلے اکیلے افراد اس کے غبارمیں گم ہو جائیں گے

(۱)امیر المومنین جس قسم کے فتنوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان کا سلسلہ اگرچہ آپ کے بعد ہی سے شروع ہوگیا تھا لیکن ابھی تک موقوف نہیں ہو ا اورنہ فی الحال موقوف ہونے کے امکانات ہیں۔جس طرف دیکھو وہی صورت حال نظرآرہی ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے اور انہیں مظالم کی گرم بازاری ہے جن سے آپ نے ہوشیار کیاہے۔

ضرورت ہے کہ صاحبان ایمان ان ہدایات سے فائدہ اٹھائیں فتنوں سے محفوظ رہیں۔صاحبان بصیرت سے وابستہ رہیں اور کم سے کم اتنا خیال رکھیں کہ خدا کی بارگاہ میں مظلوم بن کرحاضرہونے میں کوئی ذلت نہیں ہے بلکہ اسی میں دائمی عزت اور ابدی شرافت ہے۔ذلت ظلم میں ہوتی ہے مظلومیت میں نہیں۔

۲۶۲

ويَهْلِكُ فِي طَرِيقِهَا الرُّكْبَانُ تَرِدُ بِمُرِّ الْقَضَاءِ - وتَحْلُبُ عَبِيطَ الدِّمَاءِ وتَثْلِمُ مَنَارَ الدِّينِ - وتَنْقُضُ عَقْدَ الْيَقِينِ - يَهْرُبُ مِنْهَا الأَكْيَاسُ ويُدَبِّرُهَا الأَرْجَاسُ - مِرْعَادٌ مِبْرَاقٌ كَاشِفَةٌ عَنْ سَاقٍ تُقْطَعُ فِيهَا الأَرْحَامُ - ويُفَارَقُ عَلَيْهَا الإِسْلَامُ بَرِيئُهَا سَقِيمٌ وظَاعِنُهَا مُقِيمٌ!

منها - بَيْنَ قَتِيلٍ مَطْلُولٍ وخَائِفٍ مُسْتَجِيرٍ - يَخْتِلُونَ بِعَقْدِ الأَيْمَانِ وبِغُرُورِ الإِيمَانِ - فَلَا تَكُونُوا أَنْصَابَ الْفِتَنِ وأَعْلَامَ الْبِدَعِ - والْزَمُوا مَا عُقِدَ عَلَيْه حَبْلُ الْجَمَاعَةِ - وبُنِيَتْ عَلَيْه أَرْكَانُ الطَّاعَةِ - واقْدَمُوا عَلَى اللَّه مَظْلُومِينَ ولَا تَقْدَمُوا عَلَيْه ظَالِمِينَ - واتَّقُوا مَدَارِجَ الشَّيْطَانِ ومَهَابِطَ الْعُدْوَانِ - ولَا تُدْخِلُوا بُطُونَكُمْ لُعَقَ الْحَرَامِ - فَإِنَّكُمْ بِعَيْنِ مَنْ حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَعْصِيَةَ - وسَهَّلَ لَكُمْ سُبُلَ الطَّاعَةِ.

اور اس کے راستہ میں سوار ہلاک ہو جائیں گے۔یہ فتنے قضاء الٰہی کی تلخی کے ساتھ وارد ہوںگے اور دودھ کے بدلے تازہ خون نکالیں گے۔دین کے منارے (علمائ) ہلاک ہو جائیں گے اور یقین کی گرہیں ٹوٹ جائیں گی۔صاحبان ہوش ان سے بھاگنے لگیں گے اور خبیث النفس افراد اس کے مدار الہام ہو جائیں گے۔یہ فتنے گرجنے والے ' چمکنے والے اور سراپا تیار ہوں گے۔ان میں رشتہ داروں سے تعلقات توڑ لئے جائیں گے اور اسلام سے جدائی اختیار کرلی جائے گی۔اس سے الگ رہنے والے بھی مریض ہوں گے ۔ان میں رشتہ داروں سے تعلقات توڑ لئے جائیں گے اور اسلام سے جدائی اختیار کرلی جائے گی۔اس سے الگ رہنے والے بھی مریض ہوں گے اور کوچ کر جانے والے بھی گویا مقیم ہی ہوں گے۔ اہل ایمان میں بغض ایسے مقتول ہوں گے جن کا خون بہا تک نہ لیا جا سکے گا اور بعض ایسے خوفزدہ ہوں گے کہ پناہ کی تلاش میںہوں گے۔انہیں پختہ قسموں اور ایمان کی فریب کاریوں میں مبتلا کیا جائے گا لہٰذا خبردار تم فتنوں کا نشانہ اوربدعتوں کا نشان مت بننا اور اسی راستہ کو پکڑے رہنا جس پر ایمانی جماعت قائم ہے اور جس پر اطاعت کے ارکان قائم کئے گئے ہیں۔خدا کی بارگاہ میں مظلوم بن کرجائو خبردار ظالم بن کر مت جانا۔شیطان کے راستوں پر ظلم کے مرکز سے محفوظ رہو اور اپنے شکم میں لقمہ حرام کو داخل مت کرو کہ تم اس کی نگاہ کے سامنے ہو جس نے تم پر معصیت کو حرام کیا ہے اور تمہارے لئے اطاعت کے راستوں کو آسان کردیا ہے۔

۲۶۳

(۱۵۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في صفات اللَّه جل جلاله، وصفات أئمة الدين

الْحَمْدُ لِلَّه الدَّالِّ عَلَى وُجُودِه بِخَلْقِه - وبِمُحْدَثِ خَلْقِه عَلَى أَزَلِيَّتِه؛وبِاشْتِبَاهِهِمْ عَلَى أَنْ لَا شَبَه لَه - لَا تَسْتَلِمُه الْمَشَاعِرُ ولَا تَحْجُبُه السَّوَاتِرُ - لِافْتِرَاقِ الصَّانِعِ والْمَصْنُوعِ والْحَادِّ والْمَحْدُودِ والرَّبِّ والْمَرْبُوبِ - الأَحَدِ بِلَا تَأْوِيلِ عَدَدٍ - والْخَالِقِ لَا بِمَعْنَى حَرَكَةٍ ونَصَبٍ - والسَّمِيعِ لَا بِأَدَاةٍ والْبَصِيرِ لَا بِتَفْرِيقِ آلَةٍ - والشَّاهِدِ لَا بِمُمَاسَّةٍ والْبَائِنِ لَا بِتَرَاخِي مَسَافَةٍ –

والظَّاهِرِ لَا بِرُؤْيَةٍ والْبَاطِنِ لَا بِلَطَافَةٍ - بَانَ مِنَ الأَشْيَاءِ بِالْقَهْرِ لَهَا والْقُدْرَةِ عَلَيْهَا - وبَانَتِ الأَشْيَاءُ مِنْه بِالْخُضُوعِ لَه والرُّجُوعِ إِلَيْه - مَنْ وَصَفَه فَقَدْ حَدَّه ومَنْ حَدَّه فَقَدْ عَدَّه - ومَنْ عَدَّه فَقَدْ أَبْطَلَ أَزَلَه

(۱۵۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں پروردگار کے صفات اور ائمہ طاہرین کے اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنی تخلیق سے اپنے وجود کا ' اپنی مخلوقات کے جادث ہونے سے اپنی ازلیت کا اور ان کی باہمی مشاہبت سے اپنے بے نظیر ہونے کا پتہ دیا ہے۔اس کی ذات تک حواس کی رسائی تک نہیں ہے اور پھر بھی پردے اسے پوشیدہ نہیں کر سکتے ہیں۔اس لئے کہ مصنوع صانع سے اور حد بندی کرنے والا محدود سے اور پرورش کرنے والا پرورش پانے والے سے بہر حال الگ ہوتا ہے۔وہ ایک ہے مگر عدد کے اعتبارسے نہیں۔وہ خالق ہے مگرحرکت و تعب کے ذریعہ نہیں۔وہ سمیع ہے لیکن کانوں کے ذریعہ نہیں اوروہ بصیر ہے لیکن آنکھیں کھولنے کاذریعہ نہیں۔

وہ حاضر ہے مگر چھوا نہیں جا سکتا اور وہ دور ہے لیکن مسافتوں کے اعتبار سے نہیں۔وہ ظاہر ہے لیکن دیکھا نہیں جا سکتا اور وہ باطن ہے لیکن جسم کی لطافت کی بناپ ر نہیں۔وہ اشیاء سے الگ ہے اپنے قہر غلبہ اور قدرت و اختیار کی بنا پر اور مخلوقات اس سے جدا گانہ ہے اپنے خضوع و خشوع اوراس کی بارگاہ میں باز گشت کی بنا پر۔جس نے اس کے لئے الگ سے اوصاف کا تصور کیا اس نے اسے اعداد کی صف میں لا کھڑا کردیا اور جس نے ایسا کیا اس نے اسے حادثات بنا کر اس کی ازلیت کاخاتمہ کردیا

۲۶۴

ومَنْ قَالَ كَيْفَ فَقَدِ اسْتَوْصَفَه - ومَنْ قَالَ أَيْنَ فَقَدْ حَيَّزَه - عَالِمٌ إِذْ لَا مَعْلُومٌ ورَبٌّ إِذْ لَا مَرْبُوبٌ - وقَادِرٌ إِذْ لَا مَقْدُورٌ.

أئمة الدين

منها: - قَدْ طَلَعَ طَالِعٌ ولَمَعَ لَامِعٌ ولَاحَ لَائِحٌ - واعْتَدَلَ مَائِلٌ واسْتَبْدَلَ اللَّه بِقَوْمٍ قَوْماً وبِيَوْمٍ يَوْماً - وانْتَظَرْنَا الْغِيَرَ انْتِظَارَ الْمُجْدِبِ الْمَطَرَ - وإِنَّمَا الأَئِمَّةُ قُوَّامُ اللَّه عَلَى خَلْقِه - وعُرَفَاؤُه عَلَى عِبَادِه - ولَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ عَرَفَهُمْ وعَرَفُوه - ولَا يَدْخُلُ النَّارَ إِلَّا مَنْ أَنْكَرَهُمْ وأَنْكَرُوه - إِنَّ اللَّه تَعَالَى خَصَّكُمْ بِالإِسْلَامِ واسْتَخْلَصَكُمْ لَه - وذَلِكَ لأَنَّه اسْمُ سَلَامَةٍ وجِمَاعُ كَرَامَةٍ - اصْطَفَى اللَّه تَعَالَى مَنْهَجَه وبَيَّنَ حُجَجَه

اور جس نے یہ سوال کیا کہ وہ کیسا ہے؟ اس نے الگ سے اوصاف کی جستجو کی اورجس نے یہ درایفت کیا کہ وہ کہاں ہے؟ اس نے اسے مکان میں محدود کردیا۔وہ اس وقت سے عالم ہے جب معلومات کا پتہ بھی نہیں تھا اور اس وقت سے مالک ہے جب مملوکات کا نشان بھی نہیں تھا اور اس وقت سے قادر ہے جب مقدورات پردہ ٔ عدم میں پڑے تھے۔

(ائمہ دین)

دیکھو طلوع کرنے والا طالع ہو چکا ہے اورچمکنے والا روشن ہو چکا ہے۔ظاہر ہونے والے کا ظہور سامنے آچکاہے ۔کجی سیدھی ہو چکی ہے۔اور اللہ ایک قوم کے بدلے دوسری قوم اور ایک دورکے بدلے دوسرا دور لے آیا ہے۔ہم نے حالات کی تبدیلی کا اسی طرح انتظار کیا ہے جس طرح قحط زدہ بارش کا انتظار کرتا ہے۔ائمہ درحقیقت اللہ کی طرف سے مخلوقات کے نگراں اور اس کے بندوں کو اس کی معرفت کا سبق دینے والے ہیں۔کوئی شخص جنت میںقدم نہیں رکھ سکتا ہے جب تک وہ انہیں نہ پہچان لے اور وہ حضرات اسے اپنا نہ کہہ دیں اورکوئی شخص جہنم میں جا نہیں سکتا ہے مگر یہ کہ وہ انحضرات کا انکار کردے اوروہ بھی اس نے پہچاننے سے انکار کردیں۔پروردگار نے تم لوگوں کو اسلام سے نوازا ہے اور تمہیں اس کے لئے منتخب کیا ہے۔اس لئے کہ اسلام سلامتی کا نشان اور کرامت کا سرمایہ ہے۔اللہ نے اس کے راستہ کا انتخاب کیا ہے۔اس کے دلائل کو واضح کیاہے۔

۲۶۵

مِنْ ظَاهِرِ عِلْمٍ وبَاطِنِ حُكْمٍ - لَا تَفْنَى غَرَائِبُه،ولَا تَنْقَضِي عَجَائِبُه - فِيه مَرَابِيعُ النِّعَمِ ومَصَابِيحُ الظُّلَمِ - لَا تُفْتَحُ الْخَيْرَاتُ إِلَّا بِمَفَاتِيحِه - ولَا تُكْشَفُ الظُّلُمَاتُ إِلَّا بِمَصَابِيحِه - قَدْ أَحْمَى حِمَاه وأَرْعَى مَرْعَاه - فِيه شِفَاءُ الْمُسْتَشْفِي وكِفَايَةُ الْمُكْتَفِي.

(۱۵۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

صفة الضال

وهُوَ فِي مُهْلَةٍ مِنَ اللَّه يَهْوِي مَعَ الْغَافِلِينَ - ويَغْدُو مَعَ الْمُذْنِبِينَ بِلَا سَبِيلٍ قَاصِدٍ ولَا إِمَامٍ قَائِدٍ.

صفات الغافلين

منها - حَتَّى إِذَا كَشَفَ لَهُمْ عَنْ جَزَاءِ مَعْصِيَتِهِمْ - واسْتَخْرَجَهُمْ مِنْ جَلَابِيبِ غَفْلَتِهِمُ - اسْتَقْبَلُوا مُدْبِراً واسْتَدْبَرُوا مُقْبِلًا - فَلَمْ يَنْتَفِعُوا بِمَا أَدْرَكُوا مِنْ طَلِبَتِهِمْ -

ظاہری علم اور باطنی حکمتوں کے ذریعہ اس کے غرائب فنا ہونے والے اور اس کے عجائب ختم ہونے والے نہیں ہے۔اس میں نعمتوں کی بہار اور ظلمتوں کے چرا غ ہیں نیکیوں کے دروازے اسی کی کنجیوں سے کھلتے ہیں اور تاریکیوں کا ازالہ اسی کے چراغوں سے ہوتا ہے ۔اس نے اپنے حدود کو محفوظ کرلیا ہے اور اپنی چراگاہ کو عام کردیا ہے۔اس میں طالب شفا کے لئے شفا اورامیدوار کفایت کے لئے بے نیازی کا سامان موجود ہے۔

(۱۵۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(گمراہوں اور غافلوں کے بارے میں)

(گمراہ)

یہ انسان اللہ کی طرف سے مہلت کی منزل میں ہے۔غافلوں کے ساتھ تباہیوں کے گڑھے میں گڑ پڑتا ہے اور گناہ گاروں کے ساتھ صبح کرتا ہے۔نہ اس کے سامنے سیدھا راستہ ہے اورنہ قیادت کرنے والا پیشوا۔

(غافلین)

یہاں تک کہ جب پروردگار نے ان کے گناہوں کی سزا کو واضح کردیا اورانہیں غفلت کے پردوں سے باہر نکال لیا تو جس سے منہ پھراتے تھے اسی کی طرف دوڑنے لگے اور جس کی طرف متوجہ تھے اس سے منہ پھرانے لگے۔جن مقاصد کو حاصل کرلیا تھا ان سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور جن حاجتوں کو پوراکرلیا تھا

۲۶۶

ولَا بِمَا قَضَوْا مِنْ وَطَرِهِمْ. إِنِّي أُحَذِّرُكُمْ ونَفْسِي هَذِه الْمَنْزِلَةَ - فَلْيَنْتَفِعِ امْرُؤٌ بِنَفْسِه - فَإِنَّمَا الْبَصِيرُ مَنْ سَمِعَ فَتَفَكَّرَ ونَظَرَ فَأَبْصَرَ وانْتَفَعَ بِالْعِبَرِ - ثُمَّ سَلَكَ جَدَداً وَاضِحاً يَتَجَنَّبُ فِيه الصَّرْعَةَ فِي الْمَهَاوِي - والضَّلَالَ فِي الْمَغَاوِي - ولَا يُعِينُ عَلَى نَفْسِه الْغُوَاةَ بِتَعَسُّفٍ فِي حَقٍّ - أَوْ تَحْرِيفٍ فِي نُطْقٍ أَوْ تَخَوُّفٍ مِنْ صِدْقٍ.

عظة الناس

فَأَفِقْ أَيُّهَا السَّامِعُ مِنْ سَكْرَتِكَ - واسْتَيْقِظْ مِنْ غَفْلَتِكَ واخْتَصِرْ مِنْ عَجَلَتِكَ - وأَنْعِمِ الْفِكْرَ فِيمَا جَاءَكَ - عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مِمَّا لَا بُدَّ مِنْه - ولَا مَحِيصَ عَنْه - وخَالِفْ مَنْ خَالَفَ ذَلِكَ إِلَى غَيْرِه - ودَعْه ومَا رَضِيَ لِنَفْسِه وضَعْ فَخْرَكَ - واحْطُطْ كِبْرَكَ واذْكُرْ قَبْرَكَ فَإِنَّ عَلَيْه مَمَرَّكَ - وكَمَا تَدِينُ تُدَانُ وكَمَا تَزْرَعُ تَحْصُدُ - ومَا قَدَّمْتَ الْيَوْمَ تَقْدَمُ عَلَيْه غَداً - فَامْهَدْ لِقَدَمِكَ وقَدِّمْ لِيَوْمِكَ - فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ أَيُّهَا الْمُسْتَمِعُ

ان سے بھی کوئی نتیجہ نہیں حاصل ہوا۔ دیکھو میں تمہیں اور خود اپنے نفس کوبھی اس صورت حال سے ہوشیار کر رہاہوں۔ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے نفس سے فائدہ اٹھائے۔اس لئے کہ صاحب بصیرت وہی ہے جو سنے تو غور بھی کرے اور دیکھے تو نگاہ بھی کرے اور پھر عبرتوں سے فائدہ حاصل کرکے اس سیدھے اور روشن راستہ پر چل پڑے جس میںگمراہی کے گڑھے میں گرنے سے پرہیز کرے اور شبہات میں پڑ کر گمراہ نہ ہو جائے ایسے نفس کے خلاف گمراہوں کی اس طرح مدد کرے کہ حق کی راہ سے انحراف کرلے یا گفتگو میں تحریف سے کام لے یا سچ بولنے میں خوف کا شکار ہو جائے۔

(موعظہ)

میری بات سننے والو! اپنی مدہوشی سے ہوش میں آجائو اوراپنی غفلت سے بیدار ہوجائو۔سامان دنیا مختصر کرلو اور ان باتوں میںغورو فکر کرو جو تمہارے پاس پیغمبر امی (ص) کی زبان مبارکسے آئی ہیں اور جن کا اختیارکرنا ضروری ہے اور ان سے کوئی چھٹکارا بھی نہیں ہے۔جو اس بات کی مخالفت کرے اس سے اختلاف کرکے دوسرے راستہ پرچل پڑو اوراسے اس کی مرضی پرچھوڑ دو۔فخر و مباہات کو چھوڑ دو۔تکبر کو ختم کردو اورقبر کو یاد کرو کہ اسی راستہ سے گزرنا ہے اور جیسا کرو گے ویسا ہی نتیجہ بھی ملے گا اورجیسا بوئو گے ویسا ہی کاٹنا ہے اور جوآج بھیج دیا ہے کل اسی کا سامانا کرنا ہے۔اپنے قدموں کے لئے زمین ہموار کرلو اور اسدن کے لئے سامان پہلے سے بھیج دو۔ہوشیار' ہوشیار اے سننے والو

۲۶۷

والْجِدَّ الْجِدَّ أَيُّهَا الْغَافِلُ –( ولا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ) .

إِنَّ مِنْ عَزَائِمِ اللَّه فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ - الَّتِي عَلَيْهَا يُثِيبُ ويُعَاقِبُ ولَهَا يَرْضَى ويَسْخَطُ - أَنَّه لَا يَنْفَعُ عَبْداً - وإِنْ أَجْهَدَ نَفْسَه وأَخْلَصَ فِعْلَه - أَنْ يَخْرُجَ مِنَ الدُّنْيَا لَاقِياً رَبَّه - بِخَصْلَةٍ مِنْ هَذِه الْخِصَالِ لَمْ يَتُبْ مِنْهَا - أَنْ يُشْرِكَ بِاللَّه فِيمَا افْتَرَضَ عَلَيْه مِنْ عِبَادَتِه - أَوْ يَشْفِيَ غَيْظَه بِهَلَاكِ نَفْسٍ - أَوْ يَعُرَّ بِأَمْرٍ فَعَلَه غَيْرُه - أَوْ يَسْتَنْجِحَ حَاجَةً إِلَى النَّاسِ بِإِظْهَارِ بِدْعَةٍ فِي دِينِه - أَوْ يَلْقَى النَّاسَ بِوَجْهَيْنِ أَوْ يَمْشِيَ فِيهِمْ بِلِسَانَيْنِ - اعْقِلْ ذَلِكَ فَإِنَّ الْمِثْلَ دَلِيلٌ عَلَى شِبْهِه.

إِنَّ الْبَهَائِمَ هَمُّهَا بُطُونُهَا - وإِنَّ السِّبَاعَ هَمُّهَا الْعُدْوَانُ عَلَى غَيْرِهَا - وإِنَّ النِّسَاءَ هَمُّهُنَّ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا والْفَسَادُ فِيهَا - إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ مُسْتَكِينُونَ - إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ مُشْفِقُونَ إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ خَائِفُونَ.

(۱۵۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها فضائل أهل البيت

اور محنت ' محنت اے غفلت والو! ''یہ باتیں مجھ جیسے با خبر کی طرح کوئی نہ بتائے گا۔ دیکھو! قرآن مجید میں پروردگار کے مستحکم اصولوں میں جس پر ثواب وعذاب اور رضا و ناراضگی کا دارومدا ہے۔یہ بات بھی ہے کہ انسان اس دنیا میں کسی قدرمحنت کیوں نہ کرے اور کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو جائے اگردنیا سے نکل کر اللہ کی بارگاہمیں جانا چاہے اوردرج ذیل خصلتوں سے توبہ نہ کرے تو اسے یہ جدو جہد اوراخلاص عمل کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے۔

عبادت الٰہی میں کسی کو شریک قرار دیدے۔اپنے نفس کی تسکین کے لئے کسی کو ہلاک کردے۔ایک کے کام پردوسروں کو عیب لگادے۔دین میں کوئی بدعت ایجاد کرکے اس کے ذریعہ لوگوں سے فائدہ حاصل کرے۔لوگوں کے سامنے دوزخی پالیسی اختیار کرے۔یا دو زبانوں کے ساتھ زندگی گزارے۔اس حقیقت کو سمجھ لو کہ ہر شخص اپنی نظیر کی دلیل ہوا کرتا ہے۔

یقینا چوپایوں کا ساراہدفان کا پٹ ہوتا ہے اور درندوں کا سارا نشانہ دوسروں پر ظلم ہوتا ہے اور رعورتوں کا سارا زور رندگانی دنیا کی زینت اور فساد پر ہوتا ہے۔لیکن صاحبان ایمان خضوع و خشوع رکھنے والے ' خوف خدا رکھنے والے اور اس کی بارگاہ میں ترساں اور لرزاں رہتے ہیں۔

(۱۵۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں فضائل اہل بیت کاذکر کیا گیا ہے)

۲۶۸

ونَاظِرُ قَلْبِ اللَّبِيبِ بِه يُبْصِرُ أَمَدَه - ويَعْرِفُ غَوْرَه ونَجْدَه - دَاعٍ دَعَا ورَاعٍ رَعَى - فَاسْتَجِيبُوا لِلدَّاعِي واتَّبِعُوا الرَّاعِيَ.

قَدْ خَاضُوا بِحَارَ الْفِتَنِ - وأَخَذُوا بِالْبِدَعِ دُونَ السُّنَنِ - وأَرَزَ الْمُؤْمِنُونَ ونَطَقَ الضَّالُّونَ الْمُكَذِّبُونَ - نَحْنُ الشِّعَارُ والأَصْحَابُ والْخَزَنَةُ والأَبْوَابُ - ولَا تُؤْتَى الْبُيُوتُ إِلَّا مِنْ أَبْوَابِهَا - فَمَنْ أَتَاهَا مِنْ غَيْرِ أَبْوَابِهَا سُمِّيَ سَارِقاً.

منها: فِيهِمْ كَرَائِمُ الْقُرْآنِ وهُمْ كُنُوزُ الرَّحْمَنِ - إِنْ نَطَقُوا صَدَقُوا وإِنْ صَمَتُوا لَمْ يُسْبَقُوا - فَلْيَصْدُقْ رَائِدٌ أَهْلَه ولْيُحْضِرْ عَقْلَه - ولْيَكُنْ مِنْ أَبْنَاءِ الآخِرَةِ - فَإِنَّه مِنْهَا قَدِمَ وإِلَيْهَا يَنْقَلِبُ.فَالنَّاظِرُ بِالْقَلْبِ الْعَامِلُ بِالْبَصَرِ - يَكُونُ مُبْتَدَأُ عَمَلِه أَنْ يَعْلَمَ أَعَمَلُه عَلَيْه أَمْ لَه - فَإِنْ كَانَ لَه مَضَى فِيه وإِنْ كَانَ عَلَيْه وَقَفَ عَنْه - فَإِنَّ الْعَامِلَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَالسَّائِرِ عَلَى غَيْرِ طَرِيقٍ

عقل مند وہ ہے جو دل کی آنکھوں سے اپنے انجام کار کودیکھ لیتا ہے اور اس کے نشیب و فراز کو پہچان لیتاہے دعوت دینے والا دعوت دے چکا ہے اور نگرانی کا فرض ادا کرچکاہے۔اب تمہارا فریضہ ہے کہ دعوت دینے والے کی آوازپرلبیک کہو اور نگران کے نقش قدم پر چل پڑو۔

یہ لوگ فتنوں کے دریائوں میں ڈوب گئے ہیں اورسنت کو چھوڑ کر بدعتوں کو اختیار کرلیا ہے۔مومنین گوشہ و کنار میں دبے ہوئے ہیں اور گمراہ اور افتراء پر داز مصروف کلام ہیں۔

درحقیقت ہم اہل بیت ہی دین کے نشان اور اس کے ساتھی ' اس کے احکام کے خزانہ دار اور اس کے دروازے ہیں اور ظاہر ہے کہ گھروں میں داخلہ دروازوں کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے ورنہ انسان چور کہاجائے گا۔ انہیں اہل بیت کے بارے میں قرآن کریم کی عظیم آیات ہیں اور یہی رحمان کے خزانہ دار ہیں۔یہ جب بولتے ہیں تو سچ کہتے ہیں اور جب قدم آگے بڑھاتے ہیں تو کوئی ان پر سبقت نہیں لے جاسکتا ہے۔ہرذمہ دار قوم کا فرض ہے کہ اپنے قوم سے سچ بولے اور اپنی عقل کو گم نہ ہونے دے اور فرزندان آخرت میں شاملہو جائے کہ ادھر ہی سے آیا ہے اور ادھر ہی پلٹ کرجانا ہے۔یقینا دل کی آنکھوں سے دیکھنے والے اور دیکھ کر عمل کرنے والے کے عمل کی ابتدا اس علم سے ہوتی ہے کہ اس کاعمل اس کے لئے مفید ہے یا اس کے خلاف ہے۔اگر مفید ہے تو اسی راستہ پر چلتا رہے اور اگر مضر ہے تو ٹھہر جائے کہ علم کے بغیر عمل کرنے والاغلط پر راستہ پر چلنے والی کے مانند ہے

۲۶۹

فَلَا يَزِيدُه بُعْدُه عَنِ الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ إِلَّا بُعْداً مِنْ حَاجَتِه - والْعَامِلُ بِالْعِلْمِ كَالسَّائِرِ عَلَى الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ - فَلْيَنْظُرْ نَاظِرٌ أَسَائِرٌ هُوَ أَمْ رَاجِعٌ.

واعْلَمْ أَنَّ لِكُلِّ ظَاهِرٍ بَاطِناً عَلَى مِثَالِه - فَمَا طَابَ ظَاهِرُه طَابَ بَاطِنُه - ومَا خَبُثَ ظَاهِرُه خَبُثَ بَاطِنُه وقَدْ قَالَ الرَّسُولُ الصَّادِقُصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - إِنَّ اللَّه يُحِبُّ الْعَبْدَ ويُبْغِضُ عَمَلَه - ويُحِبُّ الْعَمَلَ ويُبْغِضُ بَدَنَه.

واعْلَمْ أَنَّ لِكُلِّ عَمَلٍ نَبَاتاً - وكُلُّ نَبَاتٍ لَا غِنَى بِه عَنِ الْمَاءِ - والْمِيَاه مُخْتَلِفَةٌ فَمَا طَابَ سَقْيُه طَابَ غَرْسُه وحَلَتْ ثَمَرَتُه - ومَا خَبُثَ سَقْيُه خَبُثَ غَرْسُه وأَمَرَّتْ ثَمَرَتُه.

(۱۵۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها بديع خلقة الخفاش

حمد اللَّه وتنزيهه

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي انْحَسَرَتِ الأَوْصَافُ عَنْ كُنْه مَعْرِفَتِه – ورَدَعَتْ عَظَمَتُه الْعُقُولَ - فَلَمْ تَجِدْ مَسَاغاً إِلَى بُلُوغِ غَايَةِ مَلَكُوتِه!

کہ جس قدر راستہ طے کرتا جائے گا منزل سے دور تر ہوتا جائے گا اور علم کے ساتھ عمل کرنے والا واضح راستہ پر چلنے کے مانندہے۔لہٰذا ہرآنکھ والے کو یہ دیکھ لینا چاہیے کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے یا پیچھے ہٹ رہا ہے اوریادرکھو کہ ہر ظاہرکے لئے اسیکا جیسا باطن بھی ہوتا ہے۔لہٰذا اگر ظاہر پاکیزہ ہوگاتو باطن بھی پاکیزہ ہوگا اوراگر ظاہر خبیث ہوگیا تو باطن بھی خبیث ہو جائے گا۔رسول صادق نے سچ فرمایا ہے کہ'' اللہ کبھی کبھی کسی بندہ کو دوست رکھتا ہے لیکن اس کے عمل سے بیزار ہوتا ہے اور کبھی عل کو دوست رکھتا ہے اورخود اسی سے بیزار رہتا ہے۔

یاد رکھو کہ ہر عمل سبزہ کی طرح گرنے والا ہوتا ہے اورسبزہ پانی سے بے نیا ز نہیں ہو سکتا ہے اور پاین بھی طرح طرح کے ہوتے ہیں لہٰذا اگر سینچائی پاکیزہ پانی سے ہوگی تو پیداوار بھی پاکیزہ ہوگی اور پھل بھی شیریں ہوگا اور اگر سینچائی ہی غلط ہوگئی تو پیداوار بھی خبیث ہوگی اور پھل بھی کڑوے ہوں گے۔

(۱۵۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں چمگادر کی عجیب وغریب خلقت کا ذکر کیا گیا ہے )

ساری تعریفاس اللہ کے لئے ہے جس کی معرفت کی گہرائیوں سے اوصاف عاجز ہیں اورجس کی عظمتوں نے عقلوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا ہے تو اب اسکی سلطنتوں کی حدود تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے۔

۲۷۰

هُوَ اللَّه( الْحَقُّ الْمُبِينُ ) - أَحَقُّ وأَبْيَنُ مِمَّا تَرَى الْعُيُونُ - لَمْ تَبْلُغْه الْعُقُولُ بِتَحْدِيدٍ فَيَكُونَ مُشَبَّهاً - ولَمْ تَقَعْ عَلَيْه الأَوْهَامُ بِتَقْدِيرٍ فَيَكُونَ مُمَثَّلًا - خَلَقَ الْخَلْقَ عَلَى غَيْرِ تَمْثِيلٍ ولَا مَشُورَةِ مُشِيرٍ - ولَا مَعُونَةِ مُعِينٍ فَتَمَّ خَلْقُه بِأَمْرِه وأَذْعَنَ لِطَاعَتِه - فَأَجَابَ ولَمْ يُدَافِعْ وانْقَادَ ولَمْ يُنَازِعْ.

خلقة الخفاش

ومِنْ لَطَائِفِ صَنْعَتِه وعَجَائِبِ خِلْقَتِه - مَا أَرَانَا مِنْ غَوَامِضِ الْحِكْمَةِ فِي هَذِه الْخَفَافِيشِ - الَّتِي يَقْبِضُهَا الضِّيَاءُ الْبَاسِطُ لِكُلِّ شَيْءٍ - ويَبْسُطُهَا الظَّلَامُ الْقَابِضُ لِكُلِّ حَيٍّ - وكَيْفَ عَشِيَتْ أَعْيُنُهَا عَنْ أَنْ تَسْتَمِدَّ - مِنَ الشَّمْسِ الْمُضِيئَةِ نُوراً تَهْتَدِي بِه فِي مَذَاهِبِهَا - وتَتَّصِلُ بِعَلَانِيَةِ بُرْهَانِ الشَّمْسِ إِلَى مَعَارِفِهَا - ورَدَعَهَا بِتَلأْلُؤِ ضِيَائِهَا عَنِ الْمُضِيِّ فِي سُبُحَاتِ إِشْرَاقِهَا - وأَكَنَّهَا فِي مَكَامِنِهَا عَنِ الذَّهَابِ فِي بُلَجِ ائْتِلَاقِهَا - فَهِيَ مُسْدَلَةُ الْجُفُونِ بِالنَّهَارِ عَلَى حِدَاقِهَا - وجَاعِلَةُ اللَّيْلِ سِرَاجاً تَسْتَدِلُّ بِه فِي الْتِمَاسِ أَرْزَاقِهَا - فَلَا يَرُدُّ أَبْصَارَهَا إِسْدَافُ ظُلْمَتِه

وہ خدائے برحق و آشکار ہے۔اس سے زیادہ ثابت اور واضح ہے جو آنکھوں کے مشاہدہ میں آجاتا ہے۔ عقلیں اس کی حد بندی نہیں کر سکتی ہیں کہوہ کسی کی شبیہ قراردے دیا جائے اورخیالات اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں کہ وہ کسی کی مثال بنا دیاجائے۔اس نے مخلوقات کوبغیر کسی نمونہ اور کسی مشیرکے مشورہ یا مددگار کی مدد کے بنایا ہے۔اس کی تخلیق اس کے امر سے تکمیل ہوئی ہے اور پھر اسی کی اطاعت کے لئے سربسجود ہے۔بلا توقف اس کی آواز پرلبیک کہتی ہے اوربغیر کسی اختلاف کے اس کے سامنے سرنگوں ہوتی ہے۔ اس کی لطیف ترین صنعت اور عجیب ترین خلقت کا ایک نمونہ وہ ہے جو اس نے اپنی دقیق ترین حکمت سے چمگادڑ کی تخلیق میں پیش کیا ہے کہ جسے ہرشے کو وسعت دینے والی روشنی سکیڑ دیتی ہے اور ہر زندہ کو سکیڑ دینے والی تاریکی وسعت عطا کر دیتی ہے۔کس طرح اس کی آنکھیں چکا چود ہو جاتی ہیں کہ روشنی آفتاب کی شعاعوں سے مدد حاصل کرکے اپنے راستے طے کر سکے اور کھلی ہوئی آفتاب کی روشنی کے ذریعہ اپنی جانی منزلوں تک پہنچ سکے۔نور آفتاب نے اپنی چمک دمک کے ذریعہ اسے روشنی کے طبقات میں آگے بڑھنے سے روک دیا ہے اور روشنی کے اجالے میں آنے سے روک کرمخفی مقامات پر چھپا دیا ہے۔دن میں اس کی پلکیں آنکھوں پر لٹک آتی ہیں اور رات کو چراغ بنا کروہ تلاش رزق میں نکل پرتی ہے۔اس کی نگاہوں کو رات کو رات کی تاریکی نہیں پلٹا سکتی ہے

۲۷۱

ولَا تَمْتَنِعُ مِنَ الْمُضِيِّ فِيه لِغَسَقِ دُجُنَّتِه - فَإِذَا أَلْقَتِ الشَّمْسُ قِنَاعَهَا وبَدَتْ أَوْضَاحُ نَهَارِهَا - ودَخَلَ مِنْ إِشْرَاقِ نُورِهَا عَلَى الضِّبَابِ فِي وِجَارِهَا - أَطْبَقَتِ الأَجْفَانَ عَلَى مَآقِيهَا ،وتَبَلَّغَتْ بِمَا اكْتَسَبَتْه مِنَ الْمَعَاشِ فِي ظُلَمِ لَيَالِيهَا - فَسُبْحَانَ مَنْ جَعَلَ اللَّيْلَ لَهَا نَهَاراً ومَعَاشاً - والنَّهَارَ سَكَناً وقَرَاراً - وجَعَلَ لَهَا أَجْنِحَةً مِنْ لَحْمِهَا - تَعْرُجُ بِهَا عِنْدَ الْحَاجَةِ إِلَى الطَّيَرَانِ - كَأَنَّهَا شَظَايَا الآذَانِ غَيْرَ ذَوَاتِ رِيشٍ ولَا قَصَبٍ - إِلَّا أَنَّكَ تَرَى مَوَاضِعَ الْعُرُوقِ بَيِّنَةً أَعْلَاماً - لَهَا جَنَاحَانِ لَمَّا يَرِقَّا فَيَنْشَقَّا ولَمْ يَغْلُظَا فَيَثْقُلَا - تَطِيرُ ووَلَدُهَا لَاصِقٌ بِهَا لَاجِئٌ إِلَيْهَا - يَقَعُ إِذَا وَقَعَتْ ويَرْتَفِعُ إِذَا ارْتَفَعَتْ - لَا يُفَارِقُهَا حَتَّى تَشْتَدَّ أَرْكَانُه - ويَحْمِلَه لِلنُّهُوضِ جَنَاحُه - ويَعْرِفَ مَذَاهِبَ عَيْشِه ومَصَالِحَ نَفْسِه - فَسُبْحَانَ الْبَارِئِ لِكُلِّ شَيْءٍ عَلَى غَيْرِ مِثَالٍ خَلَا مِنْ غَيْرِه !

اوراس کو راستہ میں آگے بڑھنے سے شدید ظلمت بھی نہیں روک سکتی ہے۔اس کے بعد جب آفتاب اپنے نقاب کو الٹ دیتا ہے اور دن کا روشن چہرہ سامنے آجاتا ہے اور آفتاب کی کرنیں بجو کے سوراخ تک پہنچ جاتی ہیں تو اس کی پلکیں آنکھں پرلٹک آتی ہیں اور جوکچھ رات کی تاریکیوں میں حاصل کرلیا ہے اسی پر گزارا شروع کردیتی ہے۔کیاکہنا اس معبود کا جس نے اس کے لئے رات کو دن اور وسیلہ معاش بنادیا ہے اوردن کو وجہ سکون و قرار مقرر کردیا ہے اور پھر اس کے لئے ایسے گوشت کے پر بنادئیے ہیں جس کے ذریعہ وقت ضرورت پرواز بھی کر سکتی ہے۔ویا کہ یہ کان کی لویں ہیں جن میں نہ پر ہیں اور نہ کریاں مگر اس کے بوجود تم دیکھو گے کہ رگوں کی جگہوں کے نشانات بالکل واضح ہیں اور اس کے ایسے دو پ بن گئے ہیں جو نہ اتنے باریک ہیں کہ پھٹ جائیں اور نہ اتنے غلیظ ہیں کہ پروازمیں زحمت ہو۔اس کی پرواز کی شان یہ ہے کہ اپنے بچہ کو ساتھ لے کر سینہ سے لگا کر پرواز کرتی ہے جب اس کے اعضاء مضبوط نہ ہو جائیں اور اس کے پر اس کا بوجھ اٹھانے کیقابل نہ ہو جائیں اور وہ اپنے رزق کے راستوں اور مصلحتوں کوخود پہچان نہلے۔پاک و بے نیازہے وہ ہر شے کا پیداکرنے والا جس نے کسی ایسی مثال کاسہارا نہیں لیا جو کسی دوسرے سے حاصل کی گئی ہو۔

۲۷۲

(۱۵۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

خاطب به أهل البصرة على جهة اقتصاص الملاحم

فَمَنِ اسْتَطَاعَ عِنْدَ ذَلِكَ - أَنْ يَعْتَقِلَ نَفْسَه عَلَى اللَّه عَزَّ وجَلَّ فَلْيَفْعَلْ - فَإِنْ أَطَعْتُمُونِي - فَإِنِّي حَامِلُكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّه عَلَى سَبِيلِ الْجَنَّةِ - وإِنْ كَانَ ذَا مَشَقَّةٍ شَدِيدَةٍ ومَذَاقَةٍ مَرِيرَةٍ.

وأَمَّا فُلَانَةُ فَأَدْرَكَهَا رَأْيُ النِّسَاءِ - وضِغْنٌ غَلَا فِي صَدْرِهَا كَمِرْجَلِ الْقَيْنِ - ولَوْ دُعِيَتْ لِتَنَالَ مِنْ غَيْرِي مَا أَتَتْ إِلَيَّ لَمْ تَفْعَلْ - ولَهَا بَعْدُ حُرْمَتُهَا الأُولَى والْحِسَابُ عَلَى اللَّه تَعَالَى.

وصف الإيمان

منه - سَبِيلٌ أَبْلَجُ الْمِنْهَاجِ أَنْوَرُ السِّرَاجِ - فَبِالإِيمَانِ يُسْتَدَلُّ عَلَى الصَّالِحَاتِ - وبِالصَّالِحَاتِ يُسْتَدَلُّ عَلَى الإِيمَانِ وبِالإِيمَانِ يُعْمَرُ الْعِلْمُ - وبِالْعِلْمِ يُرْهَبُ الْمَوْتُ وبِالْمَوْتِ تُخْتَمُ الدُّنْيَا - وبِالدُّنْيَا تُحْرَزُ الآخِرَةُ - وبِالْقِيَامَةِ تُزْلَفُ الْجَنَّةُ وتُبَرَّزُ الْجَحِيمُ

(۱۵۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اہل بصرہ سے خطاب کرکے انہیں حوادث سے با خبر کیا گیا ہے)

ایسے وقت میں اگر کوئی شخص اپنے نفس کو صرف خدا تک محدود رکھنے کی طاقت رکھتا ہے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے پھر اگر تم میری اطاعت کرو گے تو میں تمہیں انشاء اللہ جنت کے راستہ پرچلائوں گا چاہے اس میں کتنی ہی زحمت اور تلخی کیوں نہ ہو۔ رہ گئی فلاں خاتون(۱) کی بات تو ان پر عورتوں کی جذباتی رائے کا اثر ہوگیا ہے اور اس کینہ نے اثر کردیا ہے جو ان کے سینہ میں لوہار کے کڑھائو کی طرح کھول رہا ہے۔ انہیں اگر میرے علاوہ کسی اور کے سات اس برتائو کی دعوتدی جاتی تو کبھی نہ آتیں لیکن اس کے بعد بھی مجھے ان کی سابقہ حرمت کا خیال ہے اور ان کا حساب بہر حال پروردگار کے ذمہ ہے ۔

ایمان کا راستہ بالکل واضح اوراس کا چراغ مکمل طورپر نورافشاں ہے۔ایمان(۱) ہی کے ذریعہ نیکیوں کا راستہ حاصل کیا جاتا ہے اورنیکیوں ہی کے وسیلہ سے ایمان کی پہچان ہوتی ہے۔ایمان(۲) سے علم کی دنیا آباد ہوتی ہے اورعلم سے موت کاخوف حاصل ہوتا ہے اور موت ہی پر دنیا کا خاتمہ ہوتا ہے اور دنیا ہی کے ذریعہ آخرت حاصل کی جاتی ہے اورآخرت ہی میں جنت کو قریب کردیا جائے گا اورجہنم

(۱)اس فقرہ کودیکھنے کے بعد کوئی شخص ایمان و عمل کے رابطہ کونظانداز نہیں کرسکتا ہے اور نہ ایمان کو عمل سے بے نیاز بنا سکتا ہے۔

(۲)ایمان سے لے کر آخرت تک اتنا حسین تسلسل کسی دوسرے انسان کے کلام میں نظر نہیں آسکتا ہے اوریہمولائے کائنات کی اعجاز بیانی کا ایک بہترین نمونہ ہے۔

۲۷۳

لِلْغَاوِينَ - وإِنَّ الْخَلْقَ لَا مَقْصَرَ لَهُمْ عَنِ الْقِيَامَةِ - مُرْقِلِينَ فِي مِضْمَارِهَا إِلَى الْغَايَةِ الْقُصْوَى.

حال أهل القبور في القيامة

منه: قَدْ شَخَصُوا مِنْ مُسْتَقَرِّ الأَجْدَاثِ - وصَارُوا إِلَى مَصَايِرِ الْغَايَاتِ لِكُلِّ دَارٍ أَهْلُهَا - لَا يَسْتَبْدِلُونَ بِهَا ولَا يُنْقَلُونَ عَنْهَا.

وإِنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ - لَخُلُقَانِ مِنْ خُلُقِ اللَّه سُبْحَانَه - وإِنَّهُمَا لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ - ولَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ - وعَلَيْكُمْ بِكِتَابِ اللَّه - فَإِنَّه الْحَبْلُ الْمَتِينُ والنُّورُ الْمُبِينُ - والشِّفَاءُ النَّافِعُ والرِّيُّ النَّاقِعُ - والْعِصْمَةُ لِلْمُتَمَسِّكِ والنَّجَاةُ لِلْمُتَعَلِّقِ - لَا يَعْوَجُّ فَيُقَامَ ولَا يَزِيغُ فَيُسْتَعْتَبَ - ولَا تُخْلِقُه كَثْرَةُ الرَّدِّ ووُلُوجُ السَّمْعِ - مَنْ قَالَ بِه صَدَقَ ومَنْ عَمِلَ بِه سَبَقَ». وقام إليه رجل فقال: يا أمير المؤمنين، أخبرنا عن الفتنة،

کوگمراہوں کے لئے بالکل نمایاں کردیا جائے گا۔مخلوقات کے لئے قیامت سے پہلے کوئی منزل نہیں ہے۔انہیں اس میدان میں آخری منزل کی طرف بہر حال دوڑ لگانا ہے۔

(ایک دوسرا حصہ)

وہ اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی آخری منزل کی طرف چل پڑے۔ ہر گھر کے اپنے ابل ہوتے ہیں جو نہ گھر بدل سکتے ہیں اور نہ اس سے منتقل ہو سکتے ہیں۔ یقینا امر بالمعروف اورنہی عن المنکر یہ دوخدائی اخلاق ہیں اور یہ نہ کسی کی موت(۱) کو قریب بناتے ہیں اور نہ کسی کی روزی کو کم کرتے ہیں تمہارا فریضہ ہے کہ کتاب خدا سے وابستہ رہو کہ وہی مضبوط ریسمان ہدایت اور روشن نور الٰہی ہے۔اس میں منفعت بخش شفا ہے اوراسی میں پیاس بجھا دینے والی سیرابی ہے۔وہی تمسک کرنے والوں کے لئے وسیلہ عصمت کردار ہے اوروہی رابطہ رکھنے والوں کے لئے ذریعہ نجات ہے۔اسی میں کوئی کجی نہیں ہے جسے سیدھا کیا جائے اور اسی میں کوئی انحراف نہیں ہے جسے درست کیا جائے ۔مسلسل تکرار اسے پرانا نہیں کر سکتی ہے اور برابر سننے سے اس کی تازگی میں فرق نہیں آتا ہے۔جو اس کے ذریعہ کلام کرے گا وہ سچا ہوگا اور جواس کے مطابق عمل کریگا وہ سبقت لے جائے گا ۔اس درمیان ایک شخص کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا یا امیر المومنین ذرا فتنہ کے بارے میں بتلائیے ؟ کیا آپ نے اس سلسلہ میں

(۱) امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے بارے میں پیدا ہونے والے ہر شیطانی وسوسہ کا جواب ان کلمات میں موجود ہے اور ان دونوں کی عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کاموں میں مالک بھی بندوں کے ساتھ شریک ہے بلکہ اسنے پہلے امرونہی کیا ہے۔اس کے بعد بندوں کو امرونہی کا حکم دیا ہے۔

۲۷۴

وهل سألت

رسول اللَّه -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - عنها فقالعليه‌السلام : إِنَّه لَمَّا أَنْزَلَ اللَّه سُبْحَانَه قَوْلَه –( ألم أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا - أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وهُمْ لا يُفْتَنُونَ ) - عَلِمْتُ أَنَّ الْفِتْنَةَ لَا تَنْزِلُ بِنَا - ورَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بَيْنَ أَظْهُرِنَا - فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه مَا هَذِه الْفِتْنَةُ الَّتِي أَخْبَرَكَ اللَّه تَعَالَى بِهَا - فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِنَّ أُمَّتِي سَيُفْتَنُونَ بَعْدِي - فَقُلْتُ يَا رَسُولُ اللَّه - أَولَيْسَ قَدْ قُلْتَ لِي يَوْمَ أُحُدٍ - حَيْثُ اسْتُشْهِدَ مَنِ اسْتُشْهِدَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ - وحِيزَتْ عَنِّي الشَّهَادَةُ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيَّ - فَقُلْتَ لِي أَبْشِرْ فَإِنَّ الشَّهَادَةَ مِنْ وَرَائِكَ - فَقَالَ لِي إِنَّ ذَلِكَ لَكَذَلِكَ فَكَيْفَ صَبْرُكَ إِذاً - فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه لَيْسَ هَذَا مِنْ مَوَاطِنِ الصَّبْرِ - ولَكِنْ مِنْ مَوَاطِنِ الْبُشْرَى والشُّكْرِ - وقَالَ يَا عَلِيُّ إِنَّ الْقَوْمَ سَيُفْتَنُونَ بِأَمْوَالِهِمْ - ويَمُنُّونَ بِدِينِهِمْ عَلَى رَبِّهِمْ - ويَتَمَنَّوْنَ رَحْمَتَه ويَأْمَنُونَ سَطْوَتَه - ويَسْتَحِلُّونَ حَرَامَه بِالشُّبُهَاتِ الْكَاذِبَةِ - والأَهْوَاءِ السَّاهِيَةِ فَيَسْتَحِلُّونَ الْخَمْرَ بِالنَّبِيذِ - والسُّحْتَ بِالْهَدِيَّةِ والرِّبَا بِالْبَيْعِ - قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه - فَبِأَيِّ الْمَنَازِلِ أُنْزِلُهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ - أَبِمَنْزِلَةِ رِدَّةٍ أَمْ بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ فَقَالَ بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ

رسول اکرم (ص) سے کچھ دریافت کیاہے ؟فرمایا: جس وقت آیت شریفہ نازل ہوئی '' کیا لوگوں کا خیال یہ ہے کہ انہیں ایمان کے دعویٰ ہی پر چھوڑ دیا جائے گا اور انہیں فتنہ میں مبتلا نہیں کیا جائے گا'' تو ہمیں اندازہ ہوگیا کہ جب تک رسول اکرم (ص) موجود ہیں فتنہ کا کوئی اندیشہ نہیں ہے لہٰذا میں نے سوال کیا کہ یارسول اللہ یہ فتنہ کیا ہے جس کی پروردگارنے آپ کو اطلاع دی ہے؟ فرمایا یاعلی ! یہ امت میرے بعدفتنہ میں مبتلا ہوگی میں نے عرض کی کیا آپنے احد کے دن جب کچھ مسلمان راہ خدا میں شہید ہوگئے اور مجھے شہادت کا موقع نصیب نہیں ہوا اور مجھے یہ بات سخت تکلیف دہ محسوس ہوئی۔تو کیا یہ نہیں فرمایا تھا کہ یا علی ! بشارت ہو۔شہادت تمہار ے پیچھے آرہی ہے ؟ فرمایا بے شک ! لیکن اس وقت تمہارا صبر کیسا ہوگا؟ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ یہ تو صبر کا موقع نہیں ہے بلکہ مسرت اور(۱) شکر کا موقع ہے۔پھر فرمایا : یا علی !لوگ عنقریب اپنے اموال کے فتنہ میں مبتلا کئے جائیں گے اور اپنے دین کا احسان اپنے پروردگار پر رکھیں گے اور پھر اس کی رحمت کے امید وار بھی ہوں گے اور اپنے کو اس کے غضب سے محفوظ بھی تصور کریں گے جھوٹے شبہات اورغافل کرنے والی خواہشات سے حرام کو حلالا کرلیں گے شراب کو نبید بنا کر حرام کو ہدیہ قرار دے کراور سود کوتجارت کا نام دے کر اس سے استفادہ کریں گے۔

(۱)یہ ہے اس کل ایمان کا کردار جو زندگی کو ہدف اورمقصد نہیں بلکہ وسیلہ خیرات تصور کرتا ہے اور جب یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ زندگی کی قربان یہی تمام خیرات و برکات کا مصد ر ہے تو اس قربانی کے نام پرسجدۂ شکر کرتا ہے اور لفظ صبرو تحمل کو برداشت نہیں کرتا ہے۔

۲۷۵

(۱۵۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحث الناس على التقوى

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي جَعَلَ الْحَمْدَ مِفْتَاحاً لِذِكْرِه - وسَبَباً لِلْمَزِيدِ مِنْ فَضْلِه - ودَلِيلًا عَلَى آلَائِه وعَظَمَتِه.

عِبَادَ اللَّه - إِنَّ الدَّهْرَ يَجْرِي بِالْبَاقِينَ كَجَرْيِه بِالْمَاضِينَ - لَا يَعُودُ مَا قَدْ وَلَّى مِنْه - ولَا يَبْقَى سَرْمَداً مَا فِيه - آخِرُ فَعَالِه كَأَوَّلِه مُتَشَابِهَةٌ أُمُورُه - مُتَظَاهِرَةٌ أَعْلَامُه - فَكَأَنَّكُمْ بِالسَّاعَةِ تَحْدُوكُمْ حَدْوَ الزَّاجِرِ بِشَوْلِه - فَمَنْ شَغَلَ نَفْسَه بِغَيْرِ نَفْسِه تَحَيَّرَ فِي الظُّلُمَاتِ - وارْتَبَكَ فِي الْهَلَكَاتِ - ومَدَّتْ بِه شَيَاطِينُه فِي طُغْيَانِه - وزَيَّنَتْ لَه سَيِّئَ أَعْمَالِه - فَالْجَنَّةُ غَايَةُ السَّابِقِينَ والنَّارُ غَايَةُ الْمُفَرِّطِينَ.

اعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه - أَنَّ التَّقْوَى دَارُ حِصْنٍ عَزِيزٍ - والْفُجُورَ دَارُ حِصْنٍ ذَلِيلٍ - لَا يَمْنَعُ أَهْلَه ولَا يُحْرِزُ مَنْ لَجَأَ إِلَيْه

(۱۵۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کو تقویٰ پرآمادہ کیا گیا ہے)

شکر ہے اس خداکا جس نے اپنی حمد کو اپنی یاد کی کلید' اپنے فضل و کرم میں اضافہ کاذریعہ اور اپنی نعمت و عظمت کی دلیل قرار دیا ہے۔

بندگان خدا ! زمانہ رہ جانے والوں کے ساتھ وہی برتائو کرتا ہے جو جانے والوں کے ساتھ کر چکا ہے کہ نو چلے جانے والا واپس آتا ہے اور نہ رہ جانے والا دوام حاصل کر سکتا ہے۔اس کاآخری طریقہ بھی پہلے ہی جیس ہوتاہے۔اس کے تمام معاملات ایک جیسے اورتمام پرچم ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔گویا تم قیامت کی زد پر ہو اور وہ تم کو اسی طرح ہنکا کرلے جاریہ ہے جسطرح للکارنے والا اونٹنیوں کو لے جاتا ہے۔جو اپنے نفس کو اپنی اصلاح کے بجائے دیگر امور میں مشغول کردیتاہے وہ تاریکیوں میں سر گرداں رہ جاتا ہے اور ہلاکتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔شیاطین اسے سر کشی میں کھینچ لے جاتے ہیں اور اس کے برے اعمال کو آراستہ بنا کر پیش کردیتے ہیں۔ یاد رکھو جنت سبقت کرنے والوں کی آخری منزل ہے اورجہنم کوتاہی کرنے والوں کا آخری ٹھکانا۔

بندگان خدا! یاد رکھوکہ تقویٰ عزت کا ایک محفوظ ترین قلعہ ہے اورفسق وفجور ذلت کا بد ترین ٹھکانا ہے جونہ اپنے اہل کوبچا سکتا ے اورنہ پناہ مانگنے والوں کو پناہ دے سکتا ہے۔

۲۷۶

أَلَا وبِالتَّقْوَى تُقْطَعُ حُمَةُ الْخَطَايَا - وبِالْيَقِينِ تُدْرَكُ الْغَايَةُ الْقُصْوَى.

عِبَادَ اللَّه اللَّه اللَّه فِي أَعَزِّ الأَنْفُسِ عَلَيْكُمْ وأَحَبِّهَا إِلَيْكُمْ - فَإِنَّ اللَّه قَدْ أَوْضَحَ لَكُمْ سَبِيلَ الْحَقِّ وأَنَارَ طُرُقَه - فَشِقْوَةٌ لَازِمَةٌ أَوْ سَعَادَةٌ دَائِمَةٌ - فَتَزَوَّدُوا فِي أَيَّامِ الْفَنَاءِ لأَيَّامِ الْبَقَاءِ - قَدْ دُلِلْتُمْ عَلَى الزَّادِ وأُمِرْتُمْ بِالظَّعْنِ - وحُثِثْتُمْ عَلَى الْمَسِيرِ - فَإِنَّمَا أَنْتُمْ كَرَكْبٍ وُقُوفٍ لَا يَدْرُونَ - مَتَى يُؤْمَرُونَ بِالسَّيْرِ - أَلَا فَمَا يَصْنَعُ بِالدُّنْيَا مَنْ خُلِقَ لِلآخِرَةِ - ومَا يَصْنَعُ بِالْمَالِ مَنْ عَمَّا قَلِيلٍ يُسْلَبُه - وتَبْقَى عَلَيْه تَبِعَتُه وحِسَابُه.

عِبَادَ اللَّه - إِنَّه لَيْسَ لِمَا وَعَدَ اللَّه مِنَ الْخَيْرِ مَتْرَكٌ - ولَا فِيمَا نَهَى عَنْه مِنَ الشَّرِّ مَرْغَبٌ.

عِبَادَ اللَّه - احْذَرُوا يَوْماً تُفْحَصُ فِيه الأَعْمَالُ - ويَكْثُرُ فِيه الزِّلْزَالُ وتَشِيبُ فِيه الأَطْفَالُ.

یاد رکھو تقویٰ ہی سے گناہوں کے ڈنک کاٹے جاتے(۱) ہیں۔اور یقین ہی سے بلند ترین منزل حاصل کی جاتی ہے۔

بندگان خدا! اپنے عزیز ترین نفس کے بارے میں اللہ کو ید رکھو کہ اس نے تمہارے لئے راہحق کو واضح کردیا ہے اوراس کے راستوں کو منور بنادیا ہے۔پھر یا دائمی شقاوت ہے یا ابدی سعادت۔مناسب یہ ہے کہ فناکے گھرسے بقا کے گھر کاسامان فراہم کرلو۔زاد راہ تمہیں بتا دیا گیا ہے اور کوچ کاحکم دیا جا چکا ہے اور سفر پرآمادہ کیا جا چکا ہے۔تم سر راہ ٹھہرے ہوئے قافلہ کے مانند ہو جسے یہ نہیں معلوم ہے کہ کب حکم سفردے دیا جائے گا۔

ہوشیار ہو جائو! جو آخرت کے لئے بنایا گیا ہے وہدنیا کو لے کر کیا کرے گا اور جس سے مال عنقریب چھن جانے والا ہے وہ مال سے دل لگا کرکیا کرے گا جب کہ اس کے اثرات اورحسابات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

بندگان خدا ! یاد رکھو خدانے جس بھلائی کاوعدہ کیا ہے اسے چھوڑا نہیں جا سکتا ہے اور جس برائی سے روکا ہے اس کی خواہش نہیں کی جا سکتی ہے۔

بندگان خدا! اس دن سے ڈرو جب اعمال کی جانچ پڑتا کی جائے گی اورزلزلوں کی بہتات ہوگی کہ بچے تک بوڑھے ہو جائیں گے۔

(۱) حقیقت امر یہ ہیکہ گناہوں میں ڈنک پائے جاتے ہیں جو انسان کے کردار کو مسلسل زخمی کرتے رہتے ہیں لیکن انسان اس قدر بے حس ہوگیا ہے کہاسے اس زخم کا احساس نہیں ہوتا ہے اوروہ اس ڈنک میں بھی لذت محسوس کرتا ہے۔امیر المومنین نے اس ڈنک کو کاٹ دینے کا بہترین ذریعہ تقویٰ کو قراردیاہے جس کے بعد گناہوں میں زخمی بنانے کی ہمت نہیں رہ جاتی ہے اور انسان کردار کی ہر طرح کی مجروجیت سے محفوظ ہوجاتا ہے۔

۲۷۷

اعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه - أَنَّ عَلَيْكُمْ رَصَداً مِنْ أَنْفُسِكُمْ - وعُيُوناً مِنْ جَوَارِحِكُمْ - وحُفَّاظَ صِدْقٍ يَحْفَظُونَ أَعْمَالَكُمْ وعَدَدَ أَنْفَاسِكُمْ - لَا تَسْتُرُكُمْ مِنْهُمْ ظُلْمَةُ لَيْلٍ دَاجٍ - ولَا يُكِنُّكُمْ مِنْهُمْ بَابٌ ذُو رِتَاجٍ - وإِنَّ غَداً مِنَ الْيَوْمِ قَرِيبٌ.

يَذْهَبُ الْيَوْمُ بِمَا فِيه - ويَجِيءُ الْغَدُ لَاحِقاً بِه - فَكَأَنَّ كُلَّ امْرِئٍ مِنْكُمْ - قَدْ بَلَغَ مِنَ الأَرْضِ مَنْزِلَ وَحْدَتِه ومَخَطَّ حُفْرَتِه - فَيَا لَه مِنْ بَيْتِ وَحْدَةٍ - ومَنْزِلِ وَحْشَةٍ ومُفْرَدِ غُرْبَةٍ - وكَأَنَّ الصَّيْحَةَ قَدْ أَتَتْكُمْ - والسَّاعَةَ قَدْ غَشِيَتْكُمْ - وبَرَزْتُمْ لِفَصْلِ الْقَضَاءِ - قَدْ زَاحَتْ عَنْكُمُ الأَبَاطِيلُ - واضْمَحَلَّتْ عَنْكُمُ الْعِلَلُ – واسْتَحَقَّتْ بِكُمُ الْحَقَائِقُ - وصَدَرَتْ بِكُمُ الأُمُورُ مَصَادِرَهَا - فَاتَّعِظُوا بِالْعِبَرِ - واعْتَبِرُوا بِالْغِيَرِ وانْتَفِعُوا بِالنُّذُرِ.

یاد رکھو اے بند گان خدا!کہ تم پرتمہارے ہی نفس(۱) کونگراں بنایا گیا ہے اور تمہارے اعضاء و جوارح تمہارے لئے جاسوسوں کا کام کر رہے ہیں اور کچھ بہترین محافظ ہیں جو تمہارے اعمال اور تمہاری سانسوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ان سے نہ کسیتاریک رات کی تاریکی چھپا سکتی ہے اور نہب ند دروازے ان سے اوجھل بنا سکتے ہیں۔اور کل آنے والا دن آج سے بہت قریب ہے۔

آج کا دن اپنا سازو سامان لے کرچلا جائے گا اور کل کادن اس کے پیچھے آرہا ہے ۔گویاہر شخص زمین میں اپنی تنہائی کی منزل اورگڑھے کے نشان تک پہنچ چکاہے۔ہائے وہ تنہائی کا گھر۔وحشت کی منزل اور غربت کامکان۔گویا کہ آوازتم تک پہنچ چکی ہے اور قیامت تمہیں اپنے گھیرے میں لے چکی ہے اور تمہیں آخری فیصلہ کے لئے قبروں سے نکالا جا چکا ہے۔جہاں تمام باطل باتیں ختم ہو چکی ہیں اور تمام حیلے بہانے کمزور پڑ چکے ہیں' حقائق ثابت ہو چکے ہیں اور امور پلٹ کر اپنی منزل پر آگئے ہیں۔ لہٰذا عبرتوں سے نصیحت حاصل کرو۔تغیرات زمانہ سے عبرت کا سامان فراہم کرو اور پھر ڈرانے والے کی نصیحت سے فائدہ اٹھائو۔

(۱) مالک کائنات نے انسان کی فطرت کے اندر ایک صلاحیت رکھی ہے جس کا کام ہے نیکیوں پر سکون و اطمینان کا سامان فراہم کرنا اور برائیوں پرتنبیہ اورسرزنش کرنا۔عرف عام میں اسے ضمیر سے تعبیر کیا جاتا ہے جو اس وقت بھی بیدار رہتا ہے جب آدمی غفلت کی نیند سو جاتا ہے اور اس وقت بھی مصروف تنبیہ رہتا ہے جب انسان مکمل طور پر گناہ میں ڈوب جاتا ہے۔یہ صلاحیت اپنے مقام پر ہر انسان میں ودیعت کی گئی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اچھائی اور برائی کا ادراک بھی کبھی فطری ہوتا ہے جیسے احسان کی اچھائی اورظلم کی برائی۔اورکبھی اس کا تعلق سماج' معاشرہ یا دین و مذہب سے ہوتا ہے تو جس چیز کومذہب یا سماج اچھا کہہدیتا ہے ضمیر اس سے مطمئن ہو جاتا ہے اور جس چیزکو برا قرار دے دیتا ہے اس پر مذمت کرنے لگتاہے اور اس مدح یاذم کا تعلق فطرت کے احکام سے نہیں ہوتا ہے بلکہ سماج یا قانون کے احکام سے ہوتا ہے۔

۲۷۸

(۱۵۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

ينبه فيها على فضل الرسول الأعظم، وفضل القرآن، ثم حال دولة بني أمية

النبي والقرآن

أَرْسَلَه عَلَى حِينِ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ - وطُولِ هَجْعَةٍ مِنَ الأُمَمِ وانْتِقَاضٍ مِنَ الْمُبْرَمِ - فَجَاءَهُمْ بِتَصْدِيقِ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْه - والنُّورِ الْمُقْتَدَى بِه ذَلِكَ الْقُرْآنُ فَاسْتَنْطِقُوه - ولَنْ يَنْطِقَ ولَكِنْ أُخْبِرُكُمْ عَنْه - أَلَا إِنَّ فِيه عِلْمَ مَا يَأْتِي - والْحَدِيثَ عَنِ الْمَاضِي - ودَوَاءَ دَائِكُمْ ونَظْمَ مَا بَيْنَكُمْ.

دولة بني أمية

ومنها - فَعِنْدَ ذَلِكَ لَا يَبْقَى بَيْتُ مَدَرٍ ولَا وَبَرٍ - إِلَّا وأَدْخَلَه الظَّلَمَةُ تَرْحَةً وأَوْلَجُوا فِيه نِقْمَةً - فَيَوْمَئِذٍ لَا يَبْقَى لَهُمْ فِي السَّمَاءِ عَاذِرٌ - ولَا فِي الأَرْضِ نَاصِرٌ - أَصْفَيْتُمْ بِالأَمْرِ غَيْرَ أَهْلِه وأَوْرَدْتُمُوه غَيْرَ مَوْرِدِه - وسَيَنْتَقِمُ اللَّه مِمَّنْ ظَلَمَ - مَأْكَلًا بِمَأْكَلٍ ومَشْرَباً بِمَشْرَبٍ - مِنْ مَطَاعِمِ الْعَلْقَمِ ومَشَارِبِ الصَّبِرِ والْمَقِرِ - ولِبَاسِ شِعَارِ الْخَوْفِ ودِثَارِ السَّيْفِ - وإِنَّمَا هُمْ مَطَايَا الْخَطِيئَاتِ

(۱۵۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رسول اکرم (ص) کی بعثت اورقرآن کی فضیلت کے ساتھ بنی امیہ کی حکومت کاذکر کیاگیا ہے)

اللہ نے پیغمبر کو اس وقت بھیجا جب رسولوں کا سلسلہ رکاہوا تھا اور قومیں گہری نیند میں مبتلا تھیں۔اوردین کی مستحکم رسی کے بل کھل چکے تھے۔آپ نے آکر پہلے والوں کی تصدیق کی اوروہ نور پش کیا جس کی اقتداکی جائے ۔اور یہی قرآن ہے۔اسے بلوا کر دیکھو اور یہ خود نہیں بولے گا۔میں اس کی طرف سے ترجمانی کروں گا۔یاد رکھو کہ اس میں مستقبل کا علم ہے اورماضی کی داستان ہے تمہارے درد کی دوا ے اور تمہارے امورکی تنظیم کا سامان ہے

(اس کا دوسراحصہ) اس وقت کوئی شہری یا دیہاتی مکان ایسا نہ بچے گا جس میں ظالم غم و الم کوداخل نہ کردیں اور اس میں سختیوں کا گزر نہ ہو جائے ۔اس وقت ان کے لئے نہ آسمان میں کوئی عذرخواہی کرنے والا ہوگا اور نہ ز مین میں مدد گار۔تم نے اس امر کے لئے نا اہلوں کا انتخاب کیا ہے اور انہیں دوسرے کے گھاٹ پر اتار دیا ہے اور عنقریب خدا ظالموں سے انتقام لے لے گا۔کھانے کے بدلے میں کھانے سے اور پینے کے بدلے میں پینے سے ۔خنظل کاکھانا اور ایلوا کا اور زہرہلا ہل کا پینا۔خوف کا اندرونی لباس اور تلوارکا باہر کا لباس ہوگا۔یہ ظالم خطائوں

۲۷۹

وزَوَامِلُ الآثَامِ - فَأُقْسِمُ ثُمَّ أُقْسِمُ - لَتَنْخَمَنَّهَا أُمَيَّةُ مِنْ بَعْدِي كَمَا تُلْفَظُ النُّخَامَةُ - ثُمَّ لَا تَذُوقُهَا ولَا تَطْعَمُ بِطَعْمِهَا أَبَداً - مَا كَرَّ الْجَدِيدَانِ !

(۱۵۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يبين فيها حسن معاملته لرعيته

ولَقَدْ أَحْسَنْتُ جِوَارَكُمْ - وأَحَطْتُ بِجُهْدِي مِنْ وَرَائِكُمْ - وأَعْتَقْتُكُمْ مِنْ رِبَقِ الذُّلِّ وحَلَقِ الضَّيْمِ - شُكْراً مِنِّي لِلْبِرِّ الْقَلِيلِ - وإِطْرَاقاً عَمَّا أَدْرَكَه الْبَصَرُ - وشَهِدَه الْبَدَنُ مِنَ الْمُنْكَرِ الْكَثِيرِ.

(۱۶۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عظمة اللَّه

أَمْرُه قَضَاءٌ وحِكْمَةٌ ورِضَاه أَمَانٌ ورَحْمَةُ - يَقْضِي بِعِلْمٍ ويَعْفُو بِحِلْمٍ.

حمد اللَّه

اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى مَا تَأْخُذُ

کی سواریاں اور گناہوں کے باربردار اونٹ ہیں۔لہٰذا میں باربار قسم کھاکر کہتا ہوں کہ بنی امیہ میرے بعد اس خلافت کو اس طرح تھوک دیں گے جس طرح بلغم کو تھوک دیا جاتا ہے اور پھر جب تک شب و روزباقی ہیں اس کامزہ چکھنا اور اس سے لذت حاصل کرنا نصیب نہ ہوگا

(۱۵۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رعایا کے ساتھ اپنے حسن سلوک کا ذکر فرمایا ہے )

میں تمہارے ہمسایہ میں نہایت درجہ خوبصورتی کے ساتھ رہا اور جہاں تک ممکن ہواتمہاری حفاظت اورنگہداشت کرتا رہا اور تمہیں لذت کی رسی اور ظلم کے پھندوں سے آزاد کرایا کہ میں تمہاری مختصر نیکی کا شکریہ ادا کر رہا تھا اور تمہاری ان تمام برائیوں کو جنہیں آنکھوں نے دیکھ لیا تھا اس سے چشم پوشی کر رہا تھا۔

(۱۶۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(عظمت پروردگار)

(اس کا امر فیصلہ کن اور سراپا حکمت ہے اور اس کی رضا مکمل امان اور رحمت ہے وہ اپنے علم سے فیصلہ کرتا ہے اور اپنے حلم کی بنا پرمعاف کردیتا ہے )

(حمد خدا)

پروردگار تیرے لئے ان تمام چیزوں پرحمد ہے جنہیں تولے

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863