نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657005 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ان اشعار میں ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ ہے یہی دنیا ہے ، اس عالم کےسوا اور کوئی عالم نہیں ہے لہذا یہاں کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم نہ رہنا چاہیے ۔ یہ وہ اشعار ہیں جو اس کے دیوان میں درج ہیں اور ابوالفرج ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب الغلید میں ان کی شہادت دی ہے۔

من جملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و بے دینی اور الحاد پر گواہ ہیں وہ شعر بھی ہیں جو سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں ان کے جد ابو الفرج نے تفصیل سے درج کئے ہیں ۔ ان کے مطلع میں کہتا ہے۔

عليه هاتی ناول ي نی و ترنمی حد ي ثک انی لا احب التناج ي ا

اپنی معشوقہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ، اے میری محبوبہ قریب آ اور مجھ کو اپنے دلی مطالب سے کھل کر آگاہ کر کیونکہ میں تیرے آہستہ بولنے کو پسند نہیں کرتا ( یہاں تک کہ کہتا ہے)

فان الذی حدثت عن ي وم بعثنا احاد ي ث زور تترک القلب ساه ي ا

یعنی جو شخص قیامت کے قصے سے ڈرتا ہے تو یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو دل کو سازو آواز کے لطف سے محروم کرتی ہیں۔

چنانچہ ابراہیم ابن اسحق معروف “ دیک الجن” نے جو جلیل القدر شیعہ فقہاء و علماء اور فضلاء و ادباء میں سے تھے خلیفہ ہارون الرشید عباسی کے سامنے یہ سارے اشعار پڑھے تو اس نے بے اختیار یزید پر لعنت کی اور کہا زندیق نے خدا اور حشر و نشر کا پورا انکار کیا ہے۔

منجملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و الحاد پر دلالت کرتے ہیں وہ بھی ہیں جو وہ اپنے عیش و ترنم کے موقع پر پڑھا کرتا تھا :

ي ا معشر الندمان قوموا واسمعوا صوت الاغانی

واشربوا کاس مدامواترکوا ذکر المعانی

شغلتنی نغمة الع ي دان عن صوت الاذان

و نغوضت عن الحور عجوزا فی الدنان

ماحصل معنی یہ ہیں کہ اپنے ہم مشرب اور ہم پیالہ لوگوں سے کہتا ہے کہ اٹھو اور سازو آواز پر کان لگاؤ اور شراب ناب کے جام پیو اور دینی خرافات کو چھوڑو ، کیونکہ سازو نغمہ نے مجھ کو اذان کی آواز سے ہٹا کر اپنی طرف جذب کر لیا ہے اور میں بہشت کی حوروں کے عوض بوڑھی مغینہ عورتوں کو قبول کرتا ہوں۔

کتب مقاتل میں ہرجگہ منقول ہے اور سبط ابن جوزی نے بھی تذکرہ ص148 پر لکھا کہ جب اہل بیت رسالت(ص) شام میں لائے گئے تو یزید پلید اپنے محل کے بالا خانے پر جو محلہ جیروں کے سامنے تھا، بیٹھا اور یہ دو شعر پڑھ کر اپنے کفر کو ثابت کیا :

۱۲۱

لما بدت تلك الحمول و اشرقت تلك الشموس على ربي جيرود

نعب الغراب فقتل نح او لا تنح فلقد قضيت من الغريم ديونى!

خلاصہ مطلب یہ کہ اسیران آل محمد(ص) کی محملیں ظاہر ہوئیں تو ایک کوے نے آواز دی ( کیونکہ عرب میں اس آواز کو شگونہ بد سمجھتے تھے) تو میں نے کہا ، اے کوئے تو بول یا نہ بول میں نے پیغمبر(ص) سے اپنے قرضے وصول کرلیے ۔

کنایہ اس بات کا ہے کہ پیغمبر(ص) نے میرے بزرگ اور اقارب کو بدر و احد اور حنین میں قتل کیا تھا لہذا میں نے بھی اس کا بدلہ لیا اور ان کی اولاد کو قتل کیا ۔ اور یزید کے کفر کی دلیلوں میں سے یہ بھی ہے کہ جب اس نے فرزند رسول(ص) کی شہادت پر جشن کی محفل منعقد کی تو مثالا اس نے عبداﷲ بن الزبعری کے کفر آمیز اشعار پڑھے یہاں تک کہ سبط ابن جوزی ابو ریحان بیرونی اور دوسرے لوگوں نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے اجداد میں سے ان لوگوں کی موجودگی اور حیات کی تمنا کی جو سب کے سب مشرک اور کافر محض تھے اور خدا و رسول(ص) کے حکم سے بدر کبرے کی جنگ میں مارے گئے تھے بظاہر ان میں سے دوسرا اور پانچواں شعر خود یزید ہی کا ہے جو اس نے مسلمانوں، یہودیوں اور نصرانیوں کے مجمع عام کے سامنے پڑھے۔

ليت أشياخي ببدر شهدوا جزع الخزرج من وقع الأسل

فأهلّوا و استهلّوا فرحاثمّ قالوا: يا يزيد لا تشل

قد قتلنا القرم من ساداتهم و عدلناه ببدر فاعتدل

لعبت هاشم بالملك فلاخبر جاء و لا وحي نزل

لست من خندف إن لم أنتقم من بني أحمد ما كان فعل

قد اخذنا من علی ثارنا و قتلنا الفارس الل ي ث البطل

یعنی اے کاش میرے وہ بزرگان قبیلہ جو بدر میں قتل کئے گئے اور قبیلہ خزرج والوں کا ( جنگ احد میں) نیزے لگنے کی وجہ سے گریہ و زاری دیکھنے والے موجود ہوتے تو خوشی سے چیختے اور کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں کیونکہ ہم نے ان کے بزرگان قوم اور سرداروں کو قتل کیا، اور یہ کام ہم نے بدر کے عوض میں کیا جو پورا ہوا۔ بنی ہاشم نےسلطنت کے ساتھ کھیل کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی نہ وحی نازل ہوئی۔ میں خندق کے خاندان سے نہیں تھا، اگر فرزندانِ پیغمبر(ص) سے ان کے افعال کا انتقام نہ لیتا۔ ہم نے علی(ع) سے اپنے خون کا بدلہ لیا اور شہسوار بہادر شیر کو قتل کیا۔)

آپ کے بعض علماء جیسے ابو الفرج ، شیخ عبداﷲ بن محمد بن عامر شیرازی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص18 میں ، خطیب خوارزمی مقتل الحسین(ع) جلد دوم میں اور دوسرے لوگ لکھتے ہیں کہ یزید لعین

۱۲۲

ان حضرات کے لب و دندان کے ساتھ چھڑی سے بے ادبی کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہا تھا۔

یزید پلید(لع) کی لعن پر علمائے اہل سنت کی اجازت

آپ کے اکثر علماء نے اس ملعون زندیق کو کافر سمجھا ہے یہاں تک امام احمد بن حنبل اور آپ کے بہت سے اکابر علماء نے اس پر لعنت کرنے کو جائز قرار دیا ہے ، خصوصا عبدالرحمن ابوالفرج ابن جوزی نے اس بارے میں ایک مستقل کتاب موسوم بہ “ کتاب الرد علی المتعصب الغلید المانع عن لعن یزید لعنہ اﷲ ” لکھی ہے اور ابوالعلاء مصری نے اس باب میں کہا ہے :

أرى الأيّام تفعل كلّ نكر فما أنا في العجائب مستزيد

أليس قريشكم قتلت حسينا و كان على خلافتكم يزيد

( حاصل معنی یہ ہے کہ زمانہ ، توحید و اہل توحید کی ضد میں برابر شیطانی نقشے بناتا ہے اور اس طرح کے عجائبات اور مکاریوں پر مجھ کو تعجب نہیں کیا ایسا نہیں ہے کہ تمہارے قریش نے حسین(ع) کو قتل کیا اور اپنے امور اور خلافت کی باگ ڈور یزید ملعون کے ہاتھ میں دے دی) صرف آپ کے چند متعصب علماء جیسے غزالی نے یزید کی طرفداری کی ہے اور اس ملعون کی صفائی میں مضحکہ خیز اور مہمل عذرات تراشے ہیں در آنحالیکہ عام طور پر آپ کے علماء نے اس کے کفر آمیز اعمال اور ظالمانہ اطوار کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ وہ ملسمانوں کی مسند ریاست پر بظاہر تو خلافت کے عنوان سے قابض تھا لیکن عملی طور پر کوشش کرتا تھا کہ وین و توحید کی بساط ہی الٹ دے اور بڑے افعال کو نیک اعمال کے عنوان سے عمل میں لاتا تھا ۔ چنانچہ دمیری نے حیواہ الحیوان میں اور مسعودی نے مروج الذہب میں لکھا ہے کہ وہ بہت سے بندر پالے ہوئے تھا جن کو عمدہ قسم کے ریشمی لباس اور گردنوں میں سونے کے طوق پہنا کر گھوڑوں پر سوار کراتا تھا اسی طرح بہت سے کتوں کو طوق پہنچائے ہوئے تھا۔ ان کو اپنے ہاتھسے نہلاتا دہلاتا تھا ، سونے کے برتنوں میں ان کو پانی دیتا تھا اور ان کا پس خوردہ خود استعمال کرتا تھا ، مکمل طور پر شراب کا عادی تھا اور ہمیشہ مست و مخمور رہتا تھا۔

مسعودی مروج الذہب جلد دوم میں کہتے ہیں کہ یزید کی سیرت فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون رعیت داری میں یزید سے زیادہ انصاف پرور تھا۔ اس کی سلطنت اسلام کے اندر انتہائی باعث ننگ تھی، کیونکہ اس کی بہت سی بداعمالیوں جیسے شراب نوشی، فرزند رسول(ص) کا قتل، وصی پیغمبر (ص) علی ابن ابی طالب(ع) پر لعنت

۱۲۳

کرنا، خانہ خدا ( مسجد الحرام ) کو جلانا اور برباد کرنا، کثرت کے ساتھ خونریزی ( خصوصا اہل مدینہ کا قتل عام) اور بے شمار فسق و فجور وغیرہ جس کا حساب نہیں ہوسکتا ، اس کی عدم مغفرت اور جہنمی ہونے کو ثابت کررہی ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب ! یزید کے حکم سے مدینے کے قتل عام کا کیا معاملہ تھا؟ متمنی ہوں کہ اس کو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : عام طور پر مورخین اور بالخصوص سبط ابن جوزی تذکرہ صفحہ63 میں لکھتے ہیں کہ سنہ62ھ میں اہل مدینہ کی ایک جماعت شام کی طرف گئی ، جب وہاں ان لوگوں کو یزید کی بدکاریوں اور کفریات کا علم ہوا تو مدینہ واپس آکر اس کی بیعت توڑ دی ، بالاعلان اس پر لعنت کرنے لگے اور اس کے عامل عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو نکال کر باہر کیا۔ عبداﷲ بن حنظلہ ( غسیل الملائکہ) نے کہا اے لوگو ہم لوگ شام سے واپس نہیں ہوئے اور یزید پر خروج نہیں کیا لیکن اس وقت جب ہم نے دیکھا کہ :

" ه و رجل لا دين ل ه ينکح الام ه ات والبنات والاخوات و يشرب الخمر ويدع الصلوة و يقتل اولاد النبيين ۔"

(یعنی وہ ایسا بے دین شخص ہے جو ماؤں بیٹیوں اور بہنوں سے حرام کاری کرتا ہے ، شراب پیتا ہے ، نماز نہیں پڑھتا ہے اور اولاد انبیاء کو قتل کرتا ہے۔)

یزید کی بیعت توڑنے کے جرم میں اہل مدینہ کا قتل عام

جب یہ خبر یزید کو پہنچی تو اس نے اہل شام کے ایک بھاری لشکر کے ساتھ مسلم ابن عقبہ کو اہل مدینہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا، اور ان لوگوں نے تین شبانہ روز مسلسل اہل مدینہ کا قتل عام کیا ابن جوزی اور مسعودی وغیرہ لکھتے ہیں کہ اس قدر کشت و خون کیا گیا کہ راستوں میں خون بہہ نکلا

" وخاض الناس فی الدماء حتی وصلت الدماء قبر رسول اﷲ صلی اﷲ علي ه و آله وسلم وامتلات الروضة والمسجد "

یعنی مدینے کے کوچوں میں اس کثرت سے خون جاری ہوا کہ لوگ خون میں شرابور ہوگئے تھے، یہاں تک کہ خون رسول اﷲ(ص) کی قبر تک پہنچ گیا اور روضہ رسول(ص) اور مسجد خون سے بھر گئی۔

اشراف قریش اورمہاجرین و اںصار میں سے سات سو محترم اور سربرآوردہ افراد کو قتل کیا اور عام مسلمانوں میں سے دس ہزار اشخاص تہ تیغ ہوئے مسلمانوں کی ہتک حرمت اور بے آبروئی کے حالات بیان کرتے ہوئے مجھ کو شرم محسوس ہوتی ہے لہذا تذکرہ سبط ابن جوزی صفحہ163 کی عبارتوں

۱۲۴

میں سے صرف ایک کو نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جس کو ابوالحسن مدائنی سے نقل کرتے ہیں کہ “ ولدت الف امراة بعد الحرة من غير زوج ” یعنی واقعہ حرہ ( مدینہ کے قتل عام) کے بعد ایک ہزار کنواری عورتوں کے یہاں بچے پیدا ہوئے ( کنایہ یہ کہ فاتح لشکر کی عصمت دری سے وہ عورتیں حاملہ ہوئیں)۔

میں اس سے زیادہ اہل بزم کا وقت لینا اور ان کو متاثر کرنا نہیں چاہتا ۔ خیالات کو صاف کرنے کے لیے اسی قدر کافی ہے۔

شیخ : آپ نے جو کچھ بیان کیا ، یہ سب یزید کے فسق و فجور پر دلالت کرتا ہے اور ہر فاسق و گنہگار انسان کا عمل معافی اور چشم پوشی کے قابل ہے یزید نےقطعا توبہ کر لی اور خدا بھی غفار الذنوب ہے اس نے بخش دیا ، پھر آپ کس وجہ سے برابر اس پر لعنت کرتے اور اس کو ملعون کہتے ہیں؟

خیر طلب : بعض دعویداروں کے وکیل اس غرض سے کہ ان کو فیس وغیرہ ملتی رہے چار و ناچار آخری وقت تک اپنے موکل کی طرف سے پیروی کرتے رہتے ہیں چاہتے حق بات ان پر ظاہرہو ہی جائے۔ لیکن مجھ کو نہیں معلوم کہ جناب عالی کن فوائد کے پیش نظر اس لعین پلید کی وکالت میں اس قدر ثابت قدمی دکھا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یزدی نے توبہ کر لی ہے۔ حالانکہ یزدی کیکفر آمیز گفتگو، اولیائے خدا کی شہادت اور اہل مدینہ کا قتل عام وغیرہ درایت ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ اس نے توبہ کر لی روایت ہے جو ثابت نہیں ہوسکی اور درایت کے مقابلے میں نہیں آسکتی۔

آیا مبدا و معاد اور وحی و رسالت سے انکار اور دین سے مرتد ہونا آپ کی نظر میں لعنت کا مستحق نہیں بناتا ۔ آیا خدا نے قرآن مجید میں ظالمین پر کھلی ہوئی لعنت نہیں فرمائی ہے؟

آیا آپ یزید کو ظالم نہیں سمجھتے ؟

اگر آپ کے ایسے یزید ابن معاویہ کے خاندانی پیروکار وکیل ( حاضرین کا پر زور قہقہہ ) کی نگاہ میں یہ دلائل کافی نہیں ہیں تو میں آپ کی اجازت سے آپ کے بزرگ علماء کے منقولات سے دو حدیثیں بھی نقل کرتا ہوں اور اس کے بعد اپنی گذارش ختم کرتا ہوں۔

بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحیں میں ، علامہ سمہودی نے تاریخ المدینہ میں، ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب العنید میں، سبط ابن جوزی نے تذکرة خواص الامہ میں۔ امام احمد بن حنبل مسند میں اور دوسروں نے حضرت رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

"من أخاف أهل المدينة أخافه اللّه، و عليه لعنة اللّه و الملائكة و النّاس أجمعين لا يقبل اﷲ

۱۲۵

منه يوم القيمة صرفا ولا عدلا"

یعنی جو شخص ظلم سے اہل مدینہ کو خوف زدہ کرے خدائے تعالی، اس کو ( روز قیامت) خوف زدہ کرے گا ۔ اس پر خدا اور ملائکہ اور سارے انسانوں کی لعنت ہو۔ قیامت کے روز خدا ایسے شخص سے کوئی عمل قبول نہیں کرے گا۔

نیز فرمایا “ لعن اﷲ من اخاف مدینتی( ای اھل مدینتی) یعنی خدا کی ایسے شخص پر جو میرے شہر ( یعنی اہل مدینہ ) کو ڈرائے”

کیا مدینے کے اندر یہ سارا قتل عام ، ہتک حرمت او لوٹ مار وہاں کے باشندوں کے لیے ڈر اور خوف کا باعث نہیں تھا ؟ اور اگر تھا تو تصدیق کیجئے کہ وہ کمینہ اور پلید خدا و رسول(ص) ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی زبان سے ملعون تھا اور قیامت تک رہے گا۔

آپ کے اکثر علماء یزید پلید پرلعنت کی ہے اور اس پر لعن کے جائز ہونے پر کتابیں لکھی ہیں من جملہ ان کے علامہ جلیل القدر عبداﷲ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص20 میں لعن یزید کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ جس وقت ملا سعد تفتازانی کے سامنے یزید کا نام لیا گیا تو انہوں نے کہا " فلعنة اﷲ عليه و علی انصاره و علی اعوانه" ( یعنی لعنت ہو خدا کی اس پر اور اس کے اعوان و اںصاری پر) اور جواہر العقدین علامہ سمہودی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا

"اتفق العلماء علی جواز لعن من قتل الحسين رضی اﷲ عنه او امر بقتله او اجازه اور رضی به من غير تعيين"

یعنی عام طور پر علماء نے اس شخص پر لعنت کے جائز ہونے پر اتفاق کیا ہے جس نے حسین رضی اﷲ کو قتل کیا یا ان کے قتل کا حکم دیا یا اس کی اجازت دی یا اس پر رضا مند ہوا بلا تخصیص۔

اور ابن جوزی ، ابو یعلی اور صالح ابن احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں کہ آیات قرآن وغیرہ کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہ حضرات لعن یزید کو ثابت کرتے ہیں لیکن جلسہ کا وقت اس سے زیادہ گفتگو کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

نشست کافی لمبی ہوچکی ہے اور آدھی رات سے بھی کئی گھنٹے زیادہ گزر چکے ہیں، ورنہ یہ معمہ حل ہونا بہت ضروری تھا تاکہ آپ حضرات ان مقدمات سے اس عظیم حق کا پتہ لگائیں جو حضرت امام حسین (ع) اسلام اکھاڑ پھینکایا اپنے اپل بیت کے خون سے لا الہ الا اﷲ کے شجرہ طیبہ کی آبیاری کی جو بنی امیہ اور بالخصوص یزید پلید کے ظلم سے خشک ہونے کے قریب تھا، اور اسلام و توحید کو ایک نئی زندگی عطا کی۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آپ بجائے اس کے کہ ان بزرگوار کے خدمات کی قدر کرتے

۱۲۶

ان کے زائرین کے زیارت کے لیے جانے پر اعتراض اور نکتہ چینی کرتے ہیں ، اس کا نام مردہ پرستی رکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ کس لیے کروڑوں انسان ہر سال ان حضرات کے مرقد مطہر کی زیارت کو جاتے ہیں، مجلس عزا برپا کرتے ہیں اور ان مظلوم کی غریبی پر گریہ کرتے ہیں۔

گمنام جاں نثار

ہم کتب و رسائل اور اخبارات میں پڑھتے ہیں اور سیاحت کرنے والے بتاتے ہیں کہ دنیا کے متمدن ممالک کے مرکزی مقامات جیسے پیرس، لندن، برلن اور واشنگٹن وغیرہ میں“ گمنام جاں نثار ” کے نام سے کچھ محترم مزارات موجود ہیں۔

کہتے ہیں کہ اس جوانمرد نے وطن کی حفاظت میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی ہے۔ لیکن اس کے جسم و لباس میں کوئی ایسی واضح علامت نہیں پائی گئی جس سے معلوم ہوتا کہ یہ کس قوم و قبیلہ اور شہر کا باشندہ ہے۔

باوجودیکہ وہ ایک گمنام اور بے نام و نشان شخصیت ہے لیکن صرف اس خیال سے کہ اس نے ظلم و ظالم کے مقابلہ میں اپنے خون کی قربانی دی ہے جب کوئی بادشاہ صدر جمہوریہ، وزیر یا کسی طبقے کا کوئی شریف و بزرگ انسان ان شہروں میں وارد ہوتا ہے تو احتراما اس گمنام۔۔۔۔۔ جاں باز کی زیارت کو جاتا ہے او پھولوں کا تاج اس کی قبر پر رکھتا ہے۔

قدر دانی کے نام پر ایک غیر معروف سپاہی کا اس قدر احترام اس لیے کرتے ہیں کہ اقوام عالم کے سامنے اپنی قومی حیثیتوں کا تحفظ کرسکیں۔

لیکن صاحبان اںصاف کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ ہم مسلمان لوگ باوجودیکہ بہتر با نام و نشان سر فروش رکھتے ہیں جوسب کےسب عالم و عابد، صاحبان تقوی اور بعض ان میں سے قاری و حافظ قرآن تھے اور جنہوں نے دین و توحید ، حریم اسلام کے تحفظ اور عدل و انصاف کی راہ میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتےہوئے جان دی اور ان میں سے زیادہ تر خدا و رسول (ص) اور عترت پیغمبر (ص) کی امانت تھے لیکن بجائے قدردانی اور لوگوں کو ان کی زیارت کا شوق دلانے اور ان کی قبروں کے احترام کا حکم دینے کے نکتہ چینی کی کوشش کرتے ہیں اور ایک دوسرے فرقے والے علاوہ عیب جوئی اور اعتراض کے اپنے متعصب علماء کے بھڑکانے سے ان کی قبروں کو برباد کرتے ہیں اور ان کے صندوق بالائے قبر کو

۱۲۷

جلا کر قہوہ بناتے ہیں۔

چنانچہ سنہ1216 ہجری میں عید غدیر کے روز جب کربلا کے سارے باشندے ( سوا تھوڑے افراد کے) زیارت کے لیے نجف اشرف گئے ہوئے تھے نجدی وہابیوں نے موقع غنیمت سمجھ کر حملہ کر دیا۔ ضعیف وغیر ضعیف شیعوں کے قتل و غارت میں مشغول ہوئے اور دین کے نام پر فدائیاں دین توحید ( یعنی سید شہداء حضرت امام حسین (ع) اور آپ کے انصار) کی مقدس قبروں کو برباد اور زمین کے برابر کردیا ( تقریبا پانچ ہزار) باشندگان کربلا علماء اور ناتوان ضعفاء یہاں تک کہ شیعوں کی عورتوں اور بے گناہ بچوں کو قتل کیا۔ حضرت سید شہداء (ع) کا خزانہ لوٹ لیا، جواہرات ، سونے کی قندیلیں، قیمتی اشیاء اور بڑے بڑے پیش بہا فرش اٹھا لےگئے قبر مطہر کے اوپر کا قیمتی صندوق جلا کر اس سے قہوہ بنایا اور ایک کثیر جماعت کو قید کر کے اپنے ہمراہ لے گئے انا ﷲ و انا ال يه راجعون ۔ ( افسوس ہے ایسے اسلام پر)۔

واقعی بہت افسوس ناک بات ہے کہ تمام متمدن مملاک ، علماء سلاطین اور دانش مندوں کی یہاں تک کہ اپنے گمنام سپاہی کی قبروں کا احترام کریں لیکن مسلمان جو اپنے مایہ ناز افراد کے قبور کی حفاظت میں سب سے زیادہ اولی اور احق ہیں وہ آدم خور وحشیوں کی طرح ان کے مزارات کو مسمار اور تباہ و بردباد کریں حتی کہ مکہ اور مدینہ میں حضرت حمزہ سید شہداء (ع) جیسے شہدائے احد، پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد جیسے جناب عبدالمطلب و عبداﷲ آں حضرت(ص) کے اعمام و اہل وقوم، فرزندان رسول خدا(ص) جیسے سبط اکبر حضرت امام حسن(ع) مسموم ، سید الساجدین حضرت امام زین العابدین (ع) ، باقر العلوم حضرت امام باقر(ع)، صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہم السلام ، دوسرے بنی ہاشم ، علمائے اعلام اور مفاخر اسلام کی قبروں کو زمین کے برابر کر دیں اور اس کے بعد بھی اپنے کو مسلمان کہیں۔ ہاں اپنے بزرگوں اور بادشاہوں کے مقبرے البتہ بہت شاندار طریقے سے تعمیر کریں۔ حالانکہ ہمارے اور آپ کے علماء نے قبور مومنین کی زیارت پر راغب کرنے کے لیے کس قدر کثرت سے حدیثیں نقل کی ہیں تاکہ اس ذریعے سے مومنین کی قبریں حوادث زمانہ کی دستبرد سے محفوظ رہیں۔

خود رسول اﷲ(ص) قبور مومنین کی زیارت کو تشریف لے جاتے تھے اور ان کے لیے مغفرت طلب فرماتے تھے مسئلہ یہ کہ کچھ خفیہ مقاصد کے ماتحت مذہب کے نام پر اپنے ہی ہاتھوں اپنی قابل فخر ہستیوں کی قبریں خراب اور خاک کے برابر کریں اور ان کا نشان بھی دنیا میں باقی نہ رہنے دیں بات ختم کرتا ہوں ورنہ دل میں ابھی بہت کچھ ہے۔

۱۲۸

شرح این ہجراں و ایں خون جگر ایں زمان بگزار تا وقت دگر

آل محمد(ص) شہدائے راہ خدا اور زندہ ہیں

آیا آپ اس جلیل القدر خانوادہ کو جس نے دین اور توحید کی راہ م ی ں جا نی ں دیں ، شہ ی د سمجھتے ہیں یا ن ہیں ؟ اگر کہئے کہ شہید نہیں ہیں تو اس پر آپ کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر شہید ہیں تو پھر آپ انہیں مردہ کیوں سمجھتے ہیں؟ حالانکہ قرآن مجید میں کھلا ہوا ارشاد ہے " احياء عند ربهم يرزقون " یعنی وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے پاس رزق پاتے ہیں۔ 12 مترجم) پس قرآنی آیات اور معتبر احادیث کی بنا پر مقدس ہستیاں زندہ ہیں، مردہ نہیں ہیں۔ چنانچہ ہم لوگ بھی مردہ پرست نہیں ہیں اور مردے پر سلام نہیں کرتے بلکہ زندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔

علاوہ اس کے کوئی با سواد یا جاہل شیعہ ان حضرات کو حاجت روائی میں خود مختار نہیں سمجھتا بلکہ ان کو خدا کے نیک بندے اور معبود کی طرف ایک بلند مرتبہ واسطہ جانتا ہے ( جیسا کہ اسی کتاب کے صفحہ97 میں مذکور ہے)

ہم صرف اس لئے اپنی حاجتوں کو ان کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ برحق ائمہ اور عالی منزلت صالحین ، خدا سے دعا فرمائیں تاکہ وہ ہم نا اہل انسانوں پر کرم فرمائے۔ اور اگر زبان سے یہ کہتے ہیں کہ یا علی ادرکنی ، یا حسین ادرکنی تو اس کی مثال بعینہ اسی آدمی کی ایسی ہے جو کسی با اقتدار بادشاہ سے کوئی حاجت رکھتا ہے تو وزیر اعظم کے دروازے پر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب وزیر صاحب میری فریاد کو پہنچئے۔ لیکن یہ کہنے والا وزیر کو ہرگز بادشاہ اور اپنی حاجت روائی میں خود مختار نہیں مانتا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ چونکہ بادشاہ کی نظر میں با عزت ہیں۔ لہذا میری سفارش کردیجئے تاکہ میرا کام بن جائے۔

شیعہ بھی آل محمد علیہم السلام کو خدا اور خدائی کاموں میں شریک نہیں جانتے ہیں بلکہ ان کو اﷲ کے صالح بندے سمجھتے ہیں جو علاوہ اپنی پاک فطرت کے عبادت و تقوی اور دینی خدمات کے نتیجہ میں حق تعالی کے منظور نظر قرار پائے لہذا دونوں عالم میں ان کو امامت و ولایت کے عہدے اور بلند و بالا درجات عطا کیئے تاکہ پروردگار کے حکم اور اجازت سے موجودات میں تصرف کرسکیں۔ چونکہ یہ حضرات خدائے ذوالجلال کے امانت دار اور نمائندے ہیں اس بنا پر حاجت مندوں کے ضروریات خدا کی بارگاہ میں پیش

۱۲۹

کرتے ہیں ، اگر سائل کی حاجت روائی مصلحت کے مطابق ہوتی ہے تو قبول فرماتا ہے ورنہ آخرت میں اس کا عوض دیتا ہے ۔ چنانچہ عملی طور پر ہم ایسا دیکھتے بھی ہیں اور نتائج بھی حاصل کرتے ہیں۔

یہ مشتے نمونہ از خود ؟؟؟؟؟؟؟؟ چند مختصر جملے تھے جو مجبورا آپ کی اس بات کے جواب میں عرض کئے گئے کہ مردے سے خطاب کیوں کرتے ہو اس مقام پر یہ نکتہ بھی بغیر کہے نہ رہ جائے کہ شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی منزل اس سے بالاتر سمجھتے ہیں کہ دوسرے شہدائے اسلام کی طرح ان کےلیے بھی صرف ایک زندگی ثابت کریں۔

حافظ : آپ کے بیان میں یہ فقرہ ایک معمہ ہے جس کے حل کی ضرورت ہے ۔ آخر آپ کے اماموں میں دوسرے اماموں سے کیا فرق ہے؟ صرف سیادت کی منزلت اور رسول اکرم(ص) سے ان کی نسبت نے ان کو دوسروں کے مقابلے میں ممتاز بنا دیا ہے۔

خیر طلب : اس میں کوئی معمہ قطعی نہیں ہے صرف اس مطلب کا تصور آپ کےلیے دشوار ہے کیونکہ ساری زندگی منزل امامت کی معرفت سے دور رہے ہیں۔ سب سے پہلے ضرورت اس کی ہے کہ اپنی عادت اور تعصب سے الگ ہو کر علم و عقل اور منطق و اںصاف کی نظر سے مقام امامت کا مطالعہ فرمائیے اس کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ شیعہ اعتقاد کے لحاظ سے منصب امامت اور آپ کے عقائد کے مطابق امامت کے درمیان ایک بین اور واضح فرق یہ۔ اگر میں اس مقصد کو ثابت کرنے بیٹھوں تو صبح تک انتظار کرنا ہوگا۔ اب یہ اہم موضوع ایک اطمیانی نشست کے لیے ملتوی کرتا ہوں جس میں گفتگو کا پورا وقت ہو انشاء اﷲ۔

( اس کے بعد ہم لوگوں نے جلسہ برخاست کیا ۔ چونکہ اذان صبح کا وقت قریب تھا اور سلسلہ گفتگو طولانی ہوچکا تھا لہذا لوگوں نے کہا کہ اب امامت کا موضوع کل رات پر رہا ہم نے خوش طبعی اور مزاح کے ساتھ ان حضرات کو کچھ دور چل کر رخصت کیا اور وہ بخیر و عافیت تشریف لے گئے۔)

۱۳۰

چوتھی نشست

شب دوشنبہ 26 رجب سنہ1345ھ

آپ نے حقیقت کا نکشاف کر کے ہم پر احسان کیا

مغرب کے اول وقت حضرات اہل سنت میں سے تین نفر تشریف لائے اور کہا کہ جلسہ شروع ہونے سے قبل ہم آپ کی اطلاع کے لیے عرض کرتے ہیں کہ آج غروب آفتاب تک مسجدوں ، مکانوں، دفتروں اور بازاروں میں ہر جگہ آپ ہی کا تذکرہ تھا جس جگہ کسی کے ہاتھ میں آج کا اخبار تھا وہاں چاروں طرف کثرت سے لوگ اکٹھا تھے اور آپ کی تقریروں کےبارے میں بحث کررہے تھے۔ ہم لوگوں کو آپ سے کافی تعلق خاطر پیدا ہوگیا ہے۔ ہم سب کے دلوں میں آپ نے گھر کر لیا ہے اور ہم پر آپ کا بہت بڑا حق ہے کیونکہ آپ ان شبہات کو حل کر رہے ہیں جن کو ہمارے پیشواؤں نے بچپن ہی سے ہم کو الٹے طریقے پر سمجھایا تھا۔ہم اس کے لیے تہ دل سے معذرت خواہ ہیں کہ ہم شیعہ جماعت کو مشرک سمجھتے تھے ہم کیا کریں ہم کو ہمیشہ سے تعلیم ہی یہی دی گئے ہے۔ امید ہے کہ خداوند غفور ہماری توبہ قبول کرے گا۔ ادھر چند روز سے ہر شب کی بحثیں رسالوں اور اخباروں میں شائع ہو رہی ہیں تو اکثر اخبارات کے خریداروں اور بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں، خصوصا ہم لوگ جو شریک جلسہ اور آپ کی لطیف گفتگو سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں بہت متاثر ہوئے ہیں خاص طور پر گذشتہ شب کیونکہ آپ نے خوب خوب پردے اٹھائے اور پوشیدہ حقائق کو ظاہر فرمایا امید ہے کہ مزید انکشافات ہوں گے اور اس سے زیادہ حقیقتیں بے نقاب ہوں گی۔

دوسری بات جس کی طرف ہم آپ کی توجہ منذول کرانا چاہتے ہیں یہ ہے کہ ہم پر اور ہماری جماعت پر جو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے وہ جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں آپ کی واضح اور سادہ گفتگو ہے۔ کیونکہ آپ ہماری ہی زبان میں مطلب کو اس قدر مفصل اور عام فہم طریقے سے بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے تمام بے سواد افراد کو اپنی طرف جذب کر لیتے ہیں ، آپ قطعی طور پر یہ پہلو پیش نظر رکھیں کہ ساری جماعت میں فی صد پانچ نفر سے زیادہ صاحبان علم و خبر نہیں ہیں۔ کورکورانہ طور بچپن سے جو کچھ سن رکھا ہے اس نے ان کے

۱۳۱

قلب و دماغ میں جگہ پکڑ لی ہے اب تو انہیں صرف سادگی ہی کے ذریعے سمجھایا جاسکتا ہے ، چنانچہ آپ اسی بات پر عمل کر رہے ہیں اور امید ہے کہ پورا پورا نتیجہ حاصل ہوگا۔

اتنے میں حضرات علماء تشریف لے آئے اور ہم نے گرم جوشی اور خندہ پیشانی کےساتھ ان کو خوش آمدید کہا ۔ چائے نوشی اور معمولی خاطر تواضع کے بعد جلسے کی کاروائی شروع ہوئی۔

نواب : قبلہ صاحب گزشتہ رات طے پایا تھا کہ آج کی شب امامت کے بارے میں گفتگو ہوگی، ہم اس خاص موضوع کو سمجھنے کے لیے بہت مشتاق ہیں اور چونکہ اسی موضوع پر دوسرے مطالب کی بنیاد ہے لہذا ہماری تمنا ہے کہ صرف اسی مسئلے کو مورد بحث قرار دیں تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہمارے اور آپ کے درمیاں موضوع امامت میں کیا اختلاف ہے۔

خیر طلب : مجھ کو کوئی عذر نہیں ہے، چنانچہ اگر مولوی صاحبان اسی طرف مائل ہوں تو میں حاضر ہوں۔

حافظ : ( اڑے ہوئے رنگ اور اترے ہوئے چہرے کے ساتھ) ہماری طرف سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے آپ جس طرح سے مناسب سمجھیں بیان فرمائیں۔

امامت کے بارے میں بحث

خیر طلب : آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ لغت اور اصطلاح کی حیثیت سے امام کے کئی معنی ہیں۔ لغت میں امام پیشوا کے معنی رکھتا ہے الامام هو المتقدم بالناس یعنی امام انسانوں کا پیشوا ہے۔ امام جماعت یعنی نماز جماعت میں لوگوں کا پیشوا۔ امام الناس یعنی امور سیاسی یا روحانی وغیرہ میں آدمیوں کا پیشوا۔ امام جمعہ یعنی جو شخص نماز جمعہ میں پیشوائی کرے۔

اہلسنت کے مذاہب اربعہ پر بحث اور کشف حقیقت

اس بنا پر جماعت اہل تسنن یعنی مذاہب اربعہ کے پیرو اپنے پیشواؤں کو امام کہتے ہیں جیسے امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل۔ یعنی وہ فقہاء و مجتہدین جو امر دین میں ان کے پیشوا ہیں اور جنہوں نے اپنی عقل و فکر کے ذریعہ اجتہاد یا قیاس کے ساتھ ان کے لیے حلال و حرام کے احکام معین کئے ہیں۔

۱۳۲

یہی وجہ سے کہ جب ہم آپ کے چاروں اماموں کی فقہی کتابون کا مطالعہ کرتے ہیں تو اصول و فروع کی حیثیت سے ان میں بہت اختلافات نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے ائمہ اور پشوا تمام ادیان و مذاہب کے اندر ہیں۔ یہاں تک کہ مذہب شیعہ میں بھی علماء فقہاء وہی درجہ رکھتے ہیں جس کے آپ اپنے اماموں کے لیے قائل ہیں۔ لہذا وہ حضرت امام عصر عجل اﷲ فرجہ کی غیبت میں ہر عہد اور زمانےمیں موازین علمی کی روسے کتاب و سنت اور عقل و اجماع کے ادلہ اربعہ کے ساتھ فتوے دیتے ہیں۔ پھر بھی ہم ان کو امام نہیں کہتے ہیں کیونکہ امامت عترت طاہرہ(ع) سے بارہ اوصیاء کے ساتھ مخصوص ہے۔ ایک فرق یہ ہے کہ آپ کے بزرگوں نے بعد کے لیے اجتہاد کا دروازہ بند رکھا ہے یعنی پانچویں صدی ہجری سے جب کہ بادشاہ کے حکم سے علماء و فقہاء کی ایجاد کردہ رائیں جمع کی گئیں، صرف چار کے اندر منحصر کر کے مذاہب اربعہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی کو رائج کیا گیا اور لوگوں کو مجبور کیا گیا ہے ان چاروں میں سے کسی ایک مذہب پر عمل کریں جیسا کہ اب تک رواج ہے معلوم نہیں کہ مقام تقلید میں ایک فرد کو دوسرے افراد پر کس دلیل و برہان سے ترجیح حاصل ہے۔ حنفیوں کے امام میں کیا خصوصیت ہے جو مالکیوں کو نہیں ملی اور شافعیوں کا امام کیا فضیلت رکھتا ہے جو حںبلیوں کے پاس نہیں۔

اگرملت اسلامی اس پر مجبور ہے کہ ان چاروں کے فتاوی سے باہر نہ جائے تو جماعت مسلمین بہت سخت جمود کے پنجے میں گرفتار ہوگئی ہے اور کبھی ان میں ترقی اور بلندی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ حالانکہ مقدس دین اسلام کے خصوصیات میں سے ایک یہی ہے کہ ہر دور اور زمانے میں قافلہ تمدن کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور یہ مقصد لازمی طور پر ایسے فقہاء و مجتہدین چاہتا ہے جو ہر عہد میں موازین شرعیہ کے تحفظ کے ساتھ کاروانِ تہذیب کے ہمراہ آگے بڑھیں اور مذہب کی مرکزیت کو محفوظ رکھیں۔

کیونکہ بہت سے امور ایسے ہیں ج کے تجدد کی وجہ سے ان میں تقلید میت کی گنجائش نہیں ہے ۔ بلکہ حتمی طور پر زندہ فقیہ اور مجتہد کی طرف رجوع کرنا ان کی دماغی کاوش سے فائدہ حاصل کرنا اورا ن کے فتوی کو اپنا لائحہ عمل بنانا ضروری ہوتا ہے۔ باوجودیکہ بعد کے زمانوں میں آپ کے یہاں ایسے عالی منزلت مجتہدین اور فقہاء پیدا ہوئے جو ان چاروں اماموں سے بدرجہا اعلم اور افقہ تھے لیکن معلوم نہیں یہ ترجیح بلا مرجح ، مقام اجتہاد کو ان چار نفر کے اندر محصور کر دینا اور دوسروں کے علمی افادات کو ضائع کرنا کس مصلحت کی بنا پر تھا۔ البتہ جماعت شیعہ کے اندر ظہور امام آخرالزمان عجل ا ﷲ فرجہ تک ہر دور اور ہر زمانے میں تمام فقہاء اور مجتہدین کو فتاوی کا حق حاصل ہے اور ہم مسائل جدیدہ میں ابتداء تقلید میت کو ہرگز جائز نہیں سمجھتے ۔

۱۳۳

مذاہب اربعہ کی پیروی پر کوئی دلیل نہیں ہے

تعجب ہے کہ آپ شیعہ فرقے کو تو بدعتی اور مردہ پرست کہتے ہیں جو اہل بیت رسول(ص) میں سے بارہ ائمہ(ع) کی ہدایتوں پر آں حضرت(ص) ہی کے حکم سے ( ان نصوص خاصہ کے ساتھ جو آپ کی کتابوں میں بھی تشریح کے ساتھ مندرج ہیں) عمل کرتے ہیں لیکن معلوم نہیں آپ حضرات کس دلیل سے مسلمانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ اصول میں اشعری یا معتزلی مذہب پر اور فروع میں لازمی طور پر مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک پر عمل پیرا ہوں۔ اور اگر ان باتوں پر جو آپ بغیر دلیل کے کہتے ہیں عمل نہ کریں۔ یعنی اشعری یا معتزلی مذہب یا مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کے پیرو نہ بنیں تو رافضی ، مشرک اور گردن زدنی قرار پائیں۔

اگر آپ پر ایراد کیا جائے کہ چونکہ ابو الحسن اشعری یا ابو حنیفہ ، مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل کی پیروی کے لیے پیغمبر(ص) کا کوئی فرمان نافذ نہیں ہوا ہے اور یہ بھی من جملہ اور اسلامی علماء و فقہاء کے تھے لہذا صرف انہیں کی تقلید پر اںحصار کرنا بدعت ہے تو کیا جواب دیجئیے گا؟

حافظ : ائمہ اربعہ چونکہ زہد و ورع تقوی و امانت اور عدالت کے ساتھ ساتھ فقاہت اور علم و اجتہاد کی منزل پر فائز تھے لہذا ان کی پیروی ہم پر لازمی ہوگئی۔

خیر طلب : اول تو جو کچھ آپ نے فرمایا یہ ایسے دلائل نہیں ہیں جو حصر کا سبب بن جائیں کہ روز قیامت تک مسلمان ان کے طریقے کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں۔ اس لیے کہ آپ اپنے سارے علماء و فقہاء کے لیے ان صفات کے قائل ہیں اور ان چاروں کے اندر اںحصار کرنا بعد کے علماء کے توہین ہے۔ کسی ایک فرد یا افراد کی پیروی پر اسی وقت مجبور کیا جاسکتا ہے جب کہ خاتم الانبیاء(ص) سے کوئی ہدایت یا نص مروی ہو حالانکہ آپ کے ائمہ اربعہ کے بارے میں ایسا کوئی حکم یا نص آنحضرت(ص) سے منقول نہیں ہے لہذا آپ نے کیونکہ مذاہب کو چار کے اندر محدود کردیا اور ان چار اماموں میں سے ایک کی پیروی کا لازمی ہونا حق سمجھتے ہیں؟

یہ عجیب معاملہ صاحبان عقل و اںصاف کے لیے قابل غور ہے

بہت مضحکہ خیز بات ہے کہ چند شب پہلے آپ نے شیعہ مذہب کو سیاسی قرار دیا اور کہا کہ یہ مذہب چونکہ رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں نہیں تھا اور خلافت عثمان میں پیدا ہوا ہے۔ لہذا اس کی پیروی

۱۳۴

جائز نہیں ہے۔ حالانکہ پرسوں شب میں نے عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کردیا کہ مذہب شیعہ کی بنیاد رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں آں حضرت(ص) ہی کی ہدایت سے قائم ہوئی اور شیعوں کے سردار امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بچپن ہی سے دامن نبوت میں پرورش پائی۔ آں حضرت (ص) سے معالم دین کی تعلیم حاصل کی، ان روایات کے مطابق جو آپ کی معتبر کتابوں میں منقول ہیں آںحضرت(ص) نے آپ کو اپنے علم کا دروازہ فرمایا اور صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی مخالت میری مخالفت ہے، ستر ہزار مسلمانوں کے مجمع میں آپ کو امارت و خلافت کے عہدے پر منصوب فرمایا اور عام مسلمانوں کو یہاں تک کہ عمر اور ابوبکر کو بھی حکم دیا اور ان لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔

لیکن آپ کے چاروں مذاہب حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کس بنیاء پر قائم ہوئے ہیں؟ آپ کے ان چار اماموں میں سے کس نے رسول خدا(ص) سے ملاقات کی ہے یا کس کے بارے میں آںحضرت(ص) کی طرف سے کوئی ہدایت جاری ہوئی ہے تاکہ مسلمان آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی پر مجبور ہوں؟ جیسا کہ آپ بھی بغیر کسی دلیل کے اپنے اسلاف کے قدم بقدم چلتے ہوئے ان چار اماموں کی پیروی کر رہے ہیں جن کی امامت مطلقہ پر ایک دلیل بھی دلیل نہیں رکھتے سوا اس کے کہ آپ نے فرمایا وہ فقیہ، عالم، مجتہد، زاہد اور صاحبان تقوی تھے تو ہر ایک کے زمانے والوں کو صرف ان کی زندگی میں ان علماء کے فتاوی پر عمل کرنا چاہئیے تھا نہ یہ کہ ساری دنیا کے مسلمان روز قیامت تک ان کی اطاعت کے پابند بنا دیے جائیں۔

علاوہ ان باتوں کے اگر رسول اﷲ(ص) کے صریحی ارشادات کے ساتھ ساتھ یہ صفات بھی ہزاروں گنا زیادہ آں حضرت (ص) کی عترت میں جمع ہوگئی ہوں تو بدرجہ ادنی ان حضرات کا اتباع اور پیروی فرض ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جن کے بارے میں قطعا کوئی نص یا فرمان نافذ نہیں ہوا ہے۔ آیا وہ مذاہب جن کا رسول(ص) کے زمانے میں کوئی نشان نہیں تھا اور ائمہ اربعہ میں سے کوئی ایک بھی آں حضرت(ص) کے عہد میں موجود نہیں تھا نہ ان کے بارے میں آں حضرت (ص) سے کوئی حکم منقول ہے اور ایک صدی کے بعد دنیا میں رونما ہوئے ، ایجاد بندہ اور سیاسی ہیں؟ یا وہ مذہب جس کے بانی رسول خدا(ص) اور جس کا پیشوا آں حضرت(ص) کے ہاتھوں میں تربیت پایا ہوا تھا؟ اور اسی طرح باقی گیارہ امام جن سب کے لیے فردا فردا حدیثیں مروی ہیں، ان کو عدیل قرآن قرار دیا ہے اور حدیث ثقلین میں صاف ارشاد فرمایا ہے کہ :

" من تمسک بهما فقد نجی و من تخلف عنهما فقد هلک ۔" (1)

جس نے ان دونوں سے تمسک کیا وہ یقینا نجات یافتہ ہے اور جس نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ اسی کتاب کے صفحہ92 صفحہ93 میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۵

دونوں سے رو گردانی کی وہ یقینا ہلاک ہوا 12 مترجم) اور حدیث سفینہ میں فرمایا ہے کہ من تخلف عنهم فقد هلک (1) یعنی اور جس نے ان سے منہ موڑا پس وہ یقینا ہلاک میں گرفتار ہوا۔ 12 مترجم)

ابن حجر صواعق باب وحیتہ النبی صفحہ135 میں آن حضرت(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا “ قرآن اور میری عترت تمہارے درمیان میری امانت ہیں کہ اگر ان دوںوں سے ایک ساتھ تمسک اختیار کرو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے”

پھر ابن حجر کہتے ہیں کہ اس قول کی موید ایک دوسری حدیث ہے جو آں حضرت (ص) نے قرآن و عترت کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے۔" فلا تقدموهما فتهلكوا، و لا تعلموهما فإنهما أعلم منكم." ( یعنی قرآن اور میری عترت پر پیش قدمی نہ کرو۔ اور ان کی خدمت میں کوتاہی نہ کرو۔ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اور میری عترت کو تعلیم نہ دو۔ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔)

اس کے بعد ابن حجر نے تبصرہ کیا ہے کہ “ یہ” حدیث شریف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آں حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت(ع) مراتب علمیہ اور وظائف دینیہ میں دوسروں پر تقدم کا حق رکھتے ہیں۔” حیرت ہے کہ اس بات کا یقین رکھتے ہوئے بھی کہ عترت و اہل بیت رسول(ص) کو دوسروں پر مقدم ہونا چاہیئے بغیر کسی دلیل و برہان کے اصولی ہیں ابوالحسن اشعری کو اور فروع میں ان چاروں فقہا کو اس خاندان جلیلی پر مقدم قرار دیتے ہیں۔ در حقیقت فقیہ امام علم و ورع اور تقوی اور عدالت کی وجہ سے پیشوا قرار پائے تو ان میں سے ایک نے دوسرے پر فسق اور کفر کا فتوی کس لیے لگایا ہے؟

حافظ : آپ بہت زیادتی کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں، یہاں تک کہ ہمارے فقہا اور اماموں پر تہمت لگاتے ہیں کہ یہ لوگ ایک دوسرے کی تردید و توہین یا تفسیق و تکفیر پر اتر آئے ہیں۔ آپ کا یہ بیان قطعا کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ اگر ان کے بادے میں کوئی تردید یا تنقید کی گئی ہے تو وہ شیعہ علماء کی طرف سے ہے ورنہ ہمارے علماء کی جانب سے سوا تعظیم و تکریم کے جو ان حضرات کے شایان شان تھی ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے کہ جناب عالی کو اپنے علماء کی معتبر کتابوں کے مندرجات پر کوئی توجہ نہیں ہے یا جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں یعنی جانتے ہوئے مغالطہ دے رہے ہیں ، ورنہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان کی رد میں کتابیں لکھی ہیں یہاں تک کہ خود چاروں اماموں نے ایک دوسرے کو فاسق اور کافر بنایا ہے۔

--------------

1۔ اسی کتاب کے صفحہ92 صفحہ93 میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۶

حافظ : فرمائیے وہ علماء کون ہیں اور ان کی کتابوں کے اندراجات کیا ہیں؟ اگر آپ کی نظر میں ہو تو بیان کیجئے۔

خیر طلب : اصحاب ابو حنیفہ اور ابن حزم ( علی ابن احمد اندلسی متوفی سنہ456ھ) وغیرہ برابر امام مالک اور محمد بن ادریس شافعی پر طعن کرتے رہے ہیں اور اسی طرح اصحاب شافعی جیسے امام الحرمین اور امام غزالی وغیرہ ابو حنیفہ اور مالک پر طعن کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ میں جناب عالی سے پوچھتا ہوں کہ فرمائیے امام شافعی، ابو حامد محمد بن محمد عزالی اور جار اﷲ زمخشری کیسے اشخاص ہیں؟

حافظ : ہمارے بزرگ ترین فقہاء و علماء میں سے ، ثقہ اور اہل سنت واجماعت کے امام ہیں۔

اہل تسنن کے علماء اور اماموں کا ابوحنیفہ کو رد کرنا

خیر طلب : امام شافعی کہتے ہیں ما ولد فی الاسلام اشام من ابی حنیفہ۔ ( یعنی اسلام کے اندر کوئی شخص ابو حنیفہ سے زیادہ منحوس پیدا نہیں ہوا) نیز کہا ہے

" نظرت في كتب أصحاب أبي حنيفة فإذا فيها مائة و ثلاثون ورقة خلاف الكتاب و السنة."

یعنی میں نے اصحاب ابوحنیفہ کی کتابوں میں نظر کی تو ان میں مجھ کو ایک سو تیس ورق کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کے خلاف ملے۔)

ابو حامد غزالی کتاب متحول فی علم الاصول میں کہتے ہیں:

"فأمّا أبو حنيفة فقد قلب الشريعة ظهرا لبطن و شوّش مسلكها و غيّر نظامها، و أردف جميع قواعد الشريعة بأصل هدم به شرع محمّد المصطفى صلّى اللّه عليه و آله و سلم، و من فعل شيئا من هذا مستحلّا كفر، و من فعل غير مستحلّ فسق"

یعنی در حقیقت ابوحنیفہ نے شریعت کو پلٹ دیا، اس کے راستے کو مشتبہ بنا دیا، اس کے نظام کو بدل ڈالا اور قوانین شرع میں سے ہر ایک کو ایک ایسی اصل کے ساتھ جوڑ دیا جس کے ذریعے رسول اﷲ(ص) کی شرع کو برباد کر دیا۔ جو شخص عمدا ایسی حرکت کرے اور اس کو جائز سمجھے وہ کافر ہے اور جو شخص نا جائز سمجھتے ہوئے ایسا کرے وہ بدکار ہے۔ چنانچہ اس بزرگ عالم کے قول کے مطابق ابوحنیفہ یا کافر تھے یا فاسق۔ اس کے بعد اس باب میں ان کی طعن درد اور تفسیق میں بہت سی باتیں لکھی ہیں جن کا بیان میں ترک کرتا ہوں اور جار اﷲ زمخشری صاحب تفسیر کشاف نے جو آپ کے ثقات علماء میں سے ہیں ربیع الابرار میں لکھا ہے :

" قال يوسف بن اسباط رد ابو حنيفه علی رسول اﷲ اربعة مائة حديث او اکثر. "

یعنی یوسف بن اسباط نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ نےرسول خدا(ص) پر چار سویا اس سے زیادہ حدیثیں روکیں۔ نیز یوسف کہتا ہے کہ ابو حنیفہ کہتا تھا لو ادرکنی

۱۳۷

رسول اﷲ لاخذ بکثیر من قولی۔ یعنی اگر رسول اﷲ مجھ کو پاتے تو میرے بہت سے اقوال اختیار کرتے یعنی میری باتوں کی پیروی کرتے) ۔ اسی طرح کے بکثرت مطاعن ابو حنیفہ اور باقی تین اماموں کے بارے میں آپ کے علماء سے منقول ہیں جو غزالی کی کتاب متحول، شافعی کی کتاب نکت الشریف زمخشری کی ربیع الابرار اور ابن جوزی کی منتظم وغیرہ دیکھنے سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ امام غزالی متحول میں کہتے ہیں :

" ان ابا حنيفه النعمان بن ثابت الکوفی يحق فی الکلام ولا يصرف اللغة والنحو ولا يعرف الاحاديث ۔"

( یعنی ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کوفی کے کلام میں غلطیاں بہت ہیں۔ ان کو لغت و نحو اور احادیث کا علم نہیں تھا) نیز لکھتے یں کہ یہ چونکہ علم حدیث سے ( جو قرآن کے بعد دین کا ستون اور بنیاد ہے) واقف نہیں تھے لہذا فقط قیاس رپ عمل کرتے تھے، حالانکہ اول من قاس ابلیس یعنی سب سے پہلے جس نے قیاس پر عمل کیا وہ شیطان تھا۔ ( چنانچہ جو شخص قیاس پر عمل کرے اس کا حشر ابلیس کے ساتھ ہوگا۔)

اور ابن جوزی منتظم میں کہتے ہیں اتفق الکل علی الطعن فیہ۔ یعنی سارے علماء ابو حنیفہ پر طعن کرنے میں متفق ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ طعن کرنے والے تین قسم کے ہیں۔ ایک گروہ نے ان کو اس لئے مورد طعن قرار دیا ہے کہ یہ اصول عقائد میں متزلزل تھے۔ دوسری جماعت نے کہا ہے کہ ان کے پاس حافظ اور ضبط روایات کی قوت نہیں تھی اور تیسری صنف کا اعتراض یہ ہے کہ یہ اپنی رائے اور قیاس سے کام لیتے تھے اور ان کی رائے ہمیشہ صحیح حدیثوں کی مخالفت ہوتی تھی۔

غرضیکہ آپ کے اماموں کے بارے میں آپ ہی کے علماء کی طرف سے اس طرح کی گفتگو اور مطاعن بہت ہیں۔ جن کے بیان کا فی الحال وقت نہیں ہے کیونکہ میں تردید اور انتقاد کی منزل میں نہیں تھا۔ آپ نے بات کا سلسلہ یہاں تک پہنچا دیا کہ فرمایا جو مطاعن منقول ہیں وہ صرف علمائے کی طرف سے ہیں اور جو کچھ تمہارے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہو لہذا میں نے یہ بتا دینا چاہا کہ آپ کا اعتراض بے جا ہے اور آپ محض گریز کا راستہ تلاش کرنے کے لیے بغیر عقل و منطق کے مقابلہ کر رہے ہیں ورنہ اصلیت اسکے خلاف ہے جو کچھ میری زبان پر جاری ہوتا ہے وہ علم و عقل اور منطق کے مطابق اور تعصب سے خالی ہوتا ہے علماء شیعہ نے آپ کے چاروں اماموں سے سوا ان باتوں کے جو خود آپ کے علماء نے لکھی ہیں کوئی نئی چیز منسوب نہیں کی ہے اور نہ ان کی توہین ہی کرتے ہیں۔ لیکن آپ کے علماء کے بر خلاف علمائے شیعہ امامیہ کے درمیان ہمارے بارہ ائمہ (ع) کے مقامات مقدسہ کی نسبت کسی طرح کا کوئی ایراد یا اعتراض موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم ائمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم

۱۳۸

اجمعین کو ایک ہی مدرسے کے شاگرد جانتے ہیں جن پر یکساں طور پر فیض خداوندی جارہی تھا اور یہ حضرات من اولہم الی آخرہم بالعموم قوانین الہیہ کے مطابق جو خاتم النبیین سے ان کو پہنچے تھے عمل فرماتے تھے۔ رائے و قیاس اور ایجاد بندہ پر کار بند نہیں تھے بلکہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ پیغمبر(ص) کی طرف سے تھا لہذا بارہ اماموں کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا( جیسے کہ آپ کے چاروں اماموں کے درمیان سارے عقائد و احکام میں اختلاف موجود ہیں) کیونکہ یہ حضرات امام تھے۔ لیکن امام لغوی نہیں جس کے معنی صرف آگے چلنے والے کے ہوں۔

امامت شیعوں کے عقیدے میں ریاست عالیہ الہیہ ہے

بلکہ علم کلام کی اصطلاح میں جیسا کہ محققین علماء نے بیان کیا ہے یہ امامت ریاست عالیہ الہیہ کے معنی میں اور اصول دین میں سے ایک اصل ہے اور ہم بھی اسی عقیدے پر ہیں کہ : “ الامامة ہی الریاسة العامة الہیة خلافة عن رسول اﷲ فی امور الدین و الدنیا بحیث یجب اتباعہ علی کافة الامة” یعن امامت سارے خلائق پر ایک عمومی ریاست الہی ہے بطریق خلافت رسول اﷲ(ص) کی طرف سے امور دین و دنیا میں اس صورت سے کہ اس کی متابعت سارے انسانوں پر واجب ہے۔”

شیخ : بہتر تھا کہ آپ قطعی اور حتمی طور سے یہ نہ فرماتے کہ امامت اصطلاحی اصول دین میں سے ہے کیونکہ بڑے بڑے علمائے اسلام کہتے ہیں کہ امامت اصول دین میں سے نہیں ہے بلکہ مسلمہ فروعات میں سے ہے، جس کو آپ کے علماء نے بغیر دلیل کے اصول دین کا جز بنا دیا۔

خیر طلب : میرا یہ بیان صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے اکابر علماء بھی اسی عقیدے پر ہیں من جملہ ان کے آپ کے مشہور مفسر قاضی بیضاوی کتاب منہاج الاصول میں بسلسلہ بحث اخبار انتہائی صراحت کے ساتھ کہتے ہیں :

" أن الإمامة من أعظم مسائل أصول الدين التي مخالفتها توجب الكفر و البدعة "

یعنی حقیقتا امامت اصول دین کے عظیم ترین مسائل میں سے ہے جس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب ہے۔

ملا علی قوشجی شرح تجرید مبحث امامت میں کہتے ہیں :

" «الإمامة رئاسة عامّة في أمور الدين و الدنيا خلافة عن النبيّ "

یعنی امامت ایک ریاست عمومی ہے امور دین و دنیا میں بطریق خلافت پیغمبر(ص) کی طرف سے) اور قاضی روز بہان جیسے آپ کے انتہائی متعصب عالم نے بھی اسی مفہوم کو نقل کیا ہے کہ امامت ریاست براست اور نیابت و خلافت رسول(ص)

۱۳۹

ہے اس عبارت کے ساتھ کہ :" و الإمامة عند الأشاعرة: هي خلافة الرسول في إقامة الدين و حفظ حوزة الملّة، بحيث يجب اتّباعه على كافّة الأمّة."

یعنی امامت اشاعرہ کے نزدیک رسول اﷲ(ص) کی خلافت ہے دین کو قائم کرنے اور حلقہ ملت اسلام کی حفاظت کرنے میں، اس طرح سے کہ ساری امت پر اس کا اتباع واجب ہے۔

اگر امامت فروع دین میں سے ہوتی تو رسول اﷲ(ص) یہ نہ فرماتے کہ جو شخص بغیر امام کو پہچانے ہوئے مرے تو اس کی موت طریقہ جاہلیت پر ہے۔ چنانچہ آپ کے اکابر علماء جیسے حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، ملا سعد تفتازانی نے شرح عقائد نصفی میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

"من مات و هو لا يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية" (1)

بدیہی چیز ہے کہ فروع دین میں سے کسی ایک فرع کی معرفت نہ ہوتا دین کے تزلزل اور طریقہ جاہلیت پر مرنے کا سبب نہیں ہوسکتا جیسا کہ بیضاوی صریحی طور پر کہتے ہیں کہ اس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب قرار پائے۔ پس ثابت ہے کہ امامت اصول دین میں داخل اور مقام نبوت کا تتمہ ہے۔ لہذا امامت کے معنی میں بہت بڑا فرق ہے ، آپ جو اپنے علماء کو امام کہتے ہیں جیسے امام اعظم ، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد حنبل، امام فخرالدین ، امام ثعلبی امام غزالی وغیرہ تو یہ لغوی معنی کے لحاظ سے ہے۔ ہم بھی امام جمعہ اور امام جماعت رکھتے ہیں ، اماموں کی اس نوع کا دامن وسیع ہے اور ممکن ہے کہ ایک وقت میں سیکڑوں امام موجود ہوں، لیکن اس معنی میں جو میں نے عرض کیا امام ریاست عامہ مسلمین کے عہدے پر ہے۔ یہ ہر زمانے میں صرف ایک ہوتا ہے، ایسا امام کہ اس کو حتمی طور پر سارے صفات حمیدہ و اخلاق پسندیدہ کا حامل ، علم وفضل ، شجاعت ، زہد، ورع اور تقوی میں سارے انسانوں سے بہتر اور منزل عصمت پر فائز ہونا چاہیئے۔ اور کبھی روز قیامت تک زمین ایسے امام کے وجود سے خالی نہ رہے گی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا امام جو انسانیت کے تمام صفات حالیہ کا حامل ہو صفات روحانیت کے بلند ترین مقام پر ہوگا۔ اور یقینا ایسے امام کو خدائے تعالی کی طرف سے خصوص اور رسول اﷲ (ص) کی طرف سے منصوب ہونا چاہیئے کیونکہ یہ سارے ؟؟؟؟؟ حتی کہ انبیائے کرام سے بھی اعلی و ارفع ہوتا ہے۔

حافظ : ایک طرف تو آپ غالیوں کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف خود ہی امام کے بارے میں غلو کرتے ہیں اور اس کی منزل کو مقام بنوت سے بالاتر سمجھتے ہیں، حالانکہ عقلی دلائل کے علاوہ قرآن مجید نے بھی انبیاء کی منزل کو سب سے بلند قرار دیا ہے اور واجب و ممکن کے درمیان صرف انبیاء(ع) ہی کا مقام ہے آپ کا یہ دعوی چونکہ بلا دلیل ہے لہذا سراسر زبردستی اور نا قابل قبول چیز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ اپنے امام زمان کو نہ پہچانتا ہو تو وہ حقیقت میں جاہلیت کی موت مرا۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

عَلَى مَدَاحِرِ الشَّيْطَانِ ومَزَاجِرِه - والِاعْتِصَامِ مِنْ حَبَائِلِه ومَخَاتِلِه وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُه ورَسُولُه ونَجِيبُه وصَفْوَتُه - لَا يُؤَازَى فَضْلُه ولَا يُجْبَرُ فَقْدُه - أَضَاءَتْ بِه الْبِلَادُ بَعْدَ الضَّلَالَةِ الْمُظْلِمَةِ - والْجَهَالَةِ الْغَالِبَةِ والْجَفْوَةِ الْجَافِيَةِ - والنَّاسُ يَسْتَحِلُّونَ الْحَرِيمَ - ويَسْتَذِلُّونَ الْحَكِيمَ - يَحْيَوْنَ عَلَى فَتْرَةٍ ويَمُوتُونَ عَلَى كَفْرَةٍ.!

التحذير من الفتن

ثُمَّ إِنَّكُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ أَغْرَاضُ بَلَايَا قَدِ اقْتَرَبَتْ - فَاتَّقُوا سَكَرَاتِ النِّعْمَةِ واحْذَرُوا بَوَائِقَ النِّقْمَةِ - وتَثَبَّتُوا فِي قَتَامِ الْعِشْوَةِ واعْوِجَاجِ الْفِتْنَةِ - عِنْدَ طُلُوعِ جَنِينِهَا وظُهُورِ كَمِينِهَا - وانْتِصَابِ قُطْبِهَا ومَدَارِ رَحَاهَا - تَبْدَأُ فِي مَدَارِجَ خَفِيَّةٍ

ان چیزوں کے لئے جو شیاطین کو ہنکا سکیں۔بھگا سکیں اوراس کے پھندوں اور ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھ سکیں اور میں اس امرک ی گواہی د یتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔اور حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول اس کے منتخب اور مصطفی ہیں ان کے فضل کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ہے اور ان کے فقدان کی کوئی تلافی نہیں ہے۔ان کی وجہ سے تمام شہر ضلالت کی تاریکی ۔جہالت کے غلبہ اورب د سرشتی اوربداخلاقی کی شدت کے بعد جب لوگ حرام کو حلال بنائے ہوئے تھے اورصاحبان حکمت کو ذلیل سمجھ رہے تھے۔رسولوں سے خالی دورمیں زندگی گزار رہے تھے اور کفر کی حالت میں مر رہے تھے۔منور اور روشن ہوگئے۔

(فتنوں سے آگاہی)

اس کے بعدتم اے گروہ عرب ان بلائوں کا نشانہ پر ہو جو قریب آچکی ہیں لہٰذا نعمتوں کی مدہوشیوں سیب چو اور ہلاک کرنے والے عذاب سے ہوشیار رہو۔ اندھیروں کے دھندلکوں میں قدم جمائے رہواور(۱) فتنوں کی کجروی سے ہوشیار رہو جس وقت ان کا پوشیدہ خدشہ سامنے آرہا ہو اور مخفی اندیشہ ظاہر ہو رہا ہواور کھونٹا مضبوط ہو رہا ہو۔یہ فتنے ابتدا میں مخفی راستوں سے شروع ہوتے ہیں

(۱)انسانی بصیرت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انسان فتنہ کو پہلے مرحلہ پر پہچان لے اور وہیں اس کا سدباب کردے ورنہجب اس کا رواج ہو جاتا ہے تو اس کا روکنا نا ممکن ہو جاتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کا آغاز اتنے مخفی اور حسین انداز سے ہوتا ہے کہ اس کا پہچاننا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے اور اس طرح عوام الناس اپنے مخصوص عقائد و نظریات یا عواطف و جذبات کی بنا پران فتنوں کاشکار ہوجاتے ہیں اورآخر میں ان کی مصیبت کا علاج نا ممکن ہو جاتا ہے ۔علماء اعلام اور مفکرین اسلام کی ضرورت اسی لئے ہوتی ہے کہ وہ فتنوں کو آغاز کار ہی سے پہچان سکتے ہیں اور ان کا سدباب کر سکتے ہیں بشرطیکہ عوام الناس ان کے اوپر اعتماد کریں اور ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔

۲۶۱

وتَئُولُ إِلَى فَظَاعَةٍ جَلِيَّةٍ - شِبَابُهَا كَشِبَابِ الْغُلَامِ وآثَارُهَا كَآثَارِ السِّلَامِ - يَتَوَارَثُهَا الظَّلَمَةُ بِالْعُهُودِ أَوَّلُهُمْ قَائِدٌ لِآخِرِهِمْ - وآخِرُهُمْ مُقْتَدٍ بِأَوَّلِهِمْ يَتَنَافَسُونَ فِي دُنْيَا دَنِيَّةٍ ويَتَكَالَبُونَ عَلَى جِيفَةٍ مُرِيحَةٍ - وعَنْ قَلِيلٍ يَتَبَرَّأُ التَّابِعُ مِنَ الْمَتْبُوعِ - والْقَائِدُ مِنَ الْمَقُودِ فَيَتَزَايَلُونَ بِالْبَغْضَاءِ - ويَتَلَاعَنُونَ عِنْدَ اللِّقَاءِ - ثُمَّ يَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ طَالِعُ الْفِتْنَةِ الرَّجُوفِ - والْقَاصِمَةِ الزَّحُوفِ فَتَزِيغُ قُلُوبٌ بَعْدَ اسْتِقَامَةٍ - وتَضِلُّ رِجَالٌ بَعْدَ سَلَامَةٍ - وتَخْتَلِفُ الأَهْوَاءُ عِنْدَ هُجُومِهَا - وتَلْتَبِسُ الآرَاءُ عِنْدَ نُجُومِهَا - مَنْ أَشْرَفَ لَهَا قَصَمَتْه ومَنْ سَعَى فِيهَا حَطَمَتْه - يَتَكَادَمُونَ فِيهَا تَكَادُمَ الْحُمُرِ فِي الْعَانَةِ - قَدِ اضْطَرَبَ مَعْقُودُ الْحَبْلِ وعَمِيَ وَجْه الأَمْرِ - تَغِيضُ فِيهَا الْحِكْمَةُ وتَنْطِقُ فِيهَا الظَّلَمَةُ - وتَدُقُّ أَهْلَ الْبَدْوِ بِمِسْحَلِهَا - وتَرُضُّهُمْ بِكَلْكَلِهَا يَضِيعُ فِي غُبَارِهَا الْوُحْدَانُ

اور ظالم باہمی عہدو پیمان کے ذریعہ ان کے وارث بنتے ہیں۔اول آخرکا قائد ہوتا ہے اورآخر اول کامقتدی ۔حقیر دنیا کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں اور بدبو دار مردہ پر آپس میں جنگ کرتے ہیں۔جب کہ عنقریب مرید اپنے پیر اور پیراپنے مرید سے برائت کرے گا اور بغض و عداوت کےساتھ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے اور وقت ملاقات ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔اس کے بعد وہ وقت آئے گا جب زلزلہ افگن فتنہ(۱) سر اٹھائے گا جو کمر توڑ ہوگا اور شدید طور پر حملہ آور ہوگا جس کے نتیجہ میں بہت سے دل استقامت کے بعد کجی کا شکار ہو جائیں گے اور بہت سے لوگ سلامتی کے بعد بہک جائیںگے۔اس کے ہجوم کے وقت خواہشات میں ٹکرائو ہوگا اوراس کے ظہورکے ہنگام اور افکار مشتبہ ہو جائیں گے۔جوادھر سر اٹھا کردیکھے گا اسکی کمر توڑدیں گے اورجواس میں دوڑ دھوپ کرے گا اسے تباہ کردیں گے۔لوگ یوں ایک دوسرے کو کاٹنے دوڑیں گے جس طرح بھیڑکے اندر گدھے ۔خدائی رسی کے بل کھل جائیں گے اور حقائق کے راستے مشتبہ ہوجائیں گے۔حکمت کا چشمہ خشک ہو جائے گا اور ظالم بولنے لگیں گے۔دیہاتوں کو ہتھوڑوں سے کوٹ دیاجائے گا اور اپنے سینہ سے دبا کر کچل دیا جائے گا۔اکیلے اکیلے افراد اس کے غبارمیں گم ہو جائیں گے

(۱)امیر المومنین جس قسم کے فتنوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان کا سلسلہ اگرچہ آپ کے بعد ہی سے شروع ہوگیا تھا لیکن ابھی تک موقوف نہیں ہو ا اورنہ فی الحال موقوف ہونے کے امکانات ہیں۔جس طرف دیکھو وہی صورت حال نظرآرہی ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے اور انہیں مظالم کی گرم بازاری ہے جن سے آپ نے ہوشیار کیاہے۔

ضرورت ہے کہ صاحبان ایمان ان ہدایات سے فائدہ اٹھائیں فتنوں سے محفوظ رہیں۔صاحبان بصیرت سے وابستہ رہیں اور کم سے کم اتنا خیال رکھیں کہ خدا کی بارگاہ میں مظلوم بن کرحاضرہونے میں کوئی ذلت نہیں ہے بلکہ اسی میں دائمی عزت اور ابدی شرافت ہے۔ذلت ظلم میں ہوتی ہے مظلومیت میں نہیں۔

۲۶۲

ويَهْلِكُ فِي طَرِيقِهَا الرُّكْبَانُ تَرِدُ بِمُرِّ الْقَضَاءِ - وتَحْلُبُ عَبِيطَ الدِّمَاءِ وتَثْلِمُ مَنَارَ الدِّينِ - وتَنْقُضُ عَقْدَ الْيَقِينِ - يَهْرُبُ مِنْهَا الأَكْيَاسُ ويُدَبِّرُهَا الأَرْجَاسُ - مِرْعَادٌ مِبْرَاقٌ كَاشِفَةٌ عَنْ سَاقٍ تُقْطَعُ فِيهَا الأَرْحَامُ - ويُفَارَقُ عَلَيْهَا الإِسْلَامُ بَرِيئُهَا سَقِيمٌ وظَاعِنُهَا مُقِيمٌ!

منها - بَيْنَ قَتِيلٍ مَطْلُولٍ وخَائِفٍ مُسْتَجِيرٍ - يَخْتِلُونَ بِعَقْدِ الأَيْمَانِ وبِغُرُورِ الإِيمَانِ - فَلَا تَكُونُوا أَنْصَابَ الْفِتَنِ وأَعْلَامَ الْبِدَعِ - والْزَمُوا مَا عُقِدَ عَلَيْه حَبْلُ الْجَمَاعَةِ - وبُنِيَتْ عَلَيْه أَرْكَانُ الطَّاعَةِ - واقْدَمُوا عَلَى اللَّه مَظْلُومِينَ ولَا تَقْدَمُوا عَلَيْه ظَالِمِينَ - واتَّقُوا مَدَارِجَ الشَّيْطَانِ ومَهَابِطَ الْعُدْوَانِ - ولَا تُدْخِلُوا بُطُونَكُمْ لُعَقَ الْحَرَامِ - فَإِنَّكُمْ بِعَيْنِ مَنْ حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَعْصِيَةَ - وسَهَّلَ لَكُمْ سُبُلَ الطَّاعَةِ.

اور اس کے راستہ میں سوار ہلاک ہو جائیں گے۔یہ فتنے قضاء الٰہی کی تلخی کے ساتھ وارد ہوںگے اور دودھ کے بدلے تازہ خون نکالیں گے۔دین کے منارے (علمائ) ہلاک ہو جائیں گے اور یقین کی گرہیں ٹوٹ جائیں گی۔صاحبان ہوش ان سے بھاگنے لگیں گے اور خبیث النفس افراد اس کے مدار الہام ہو جائیں گے۔یہ فتنے گرجنے والے ' چمکنے والے اور سراپا تیار ہوں گے۔ان میں رشتہ داروں سے تعلقات توڑ لئے جائیں گے اور اسلام سے جدائی اختیار کرلی جائے گی۔اس سے الگ رہنے والے بھی مریض ہوں گے ۔ان میں رشتہ داروں سے تعلقات توڑ لئے جائیں گے اور اسلام سے جدائی اختیار کرلی جائے گی۔اس سے الگ رہنے والے بھی مریض ہوں گے اور کوچ کر جانے والے بھی گویا مقیم ہی ہوں گے۔ اہل ایمان میں بغض ایسے مقتول ہوں گے جن کا خون بہا تک نہ لیا جا سکے گا اور بعض ایسے خوفزدہ ہوں گے کہ پناہ کی تلاش میںہوں گے۔انہیں پختہ قسموں اور ایمان کی فریب کاریوں میں مبتلا کیا جائے گا لہٰذا خبردار تم فتنوں کا نشانہ اوربدعتوں کا نشان مت بننا اور اسی راستہ کو پکڑے رہنا جس پر ایمانی جماعت قائم ہے اور جس پر اطاعت کے ارکان قائم کئے گئے ہیں۔خدا کی بارگاہ میں مظلوم بن کرجائو خبردار ظالم بن کر مت جانا۔شیطان کے راستوں پر ظلم کے مرکز سے محفوظ رہو اور اپنے شکم میں لقمہ حرام کو داخل مت کرو کہ تم اس کی نگاہ کے سامنے ہو جس نے تم پر معصیت کو حرام کیا ہے اور تمہارے لئے اطاعت کے راستوں کو آسان کردیا ہے۔

۲۶۳

(۱۵۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في صفات اللَّه جل جلاله، وصفات أئمة الدين

الْحَمْدُ لِلَّه الدَّالِّ عَلَى وُجُودِه بِخَلْقِه - وبِمُحْدَثِ خَلْقِه عَلَى أَزَلِيَّتِه؛وبِاشْتِبَاهِهِمْ عَلَى أَنْ لَا شَبَه لَه - لَا تَسْتَلِمُه الْمَشَاعِرُ ولَا تَحْجُبُه السَّوَاتِرُ - لِافْتِرَاقِ الصَّانِعِ والْمَصْنُوعِ والْحَادِّ والْمَحْدُودِ والرَّبِّ والْمَرْبُوبِ - الأَحَدِ بِلَا تَأْوِيلِ عَدَدٍ - والْخَالِقِ لَا بِمَعْنَى حَرَكَةٍ ونَصَبٍ - والسَّمِيعِ لَا بِأَدَاةٍ والْبَصِيرِ لَا بِتَفْرِيقِ آلَةٍ - والشَّاهِدِ لَا بِمُمَاسَّةٍ والْبَائِنِ لَا بِتَرَاخِي مَسَافَةٍ –

والظَّاهِرِ لَا بِرُؤْيَةٍ والْبَاطِنِ لَا بِلَطَافَةٍ - بَانَ مِنَ الأَشْيَاءِ بِالْقَهْرِ لَهَا والْقُدْرَةِ عَلَيْهَا - وبَانَتِ الأَشْيَاءُ مِنْه بِالْخُضُوعِ لَه والرُّجُوعِ إِلَيْه - مَنْ وَصَفَه فَقَدْ حَدَّه ومَنْ حَدَّه فَقَدْ عَدَّه - ومَنْ عَدَّه فَقَدْ أَبْطَلَ أَزَلَه

(۱۵۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں پروردگار کے صفات اور ائمہ طاہرین کے اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنی تخلیق سے اپنے وجود کا ' اپنی مخلوقات کے جادث ہونے سے اپنی ازلیت کا اور ان کی باہمی مشاہبت سے اپنے بے نظیر ہونے کا پتہ دیا ہے۔اس کی ذات تک حواس کی رسائی تک نہیں ہے اور پھر بھی پردے اسے پوشیدہ نہیں کر سکتے ہیں۔اس لئے کہ مصنوع صانع سے اور حد بندی کرنے والا محدود سے اور پرورش کرنے والا پرورش پانے والے سے بہر حال الگ ہوتا ہے۔وہ ایک ہے مگر عدد کے اعتبارسے نہیں۔وہ خالق ہے مگرحرکت و تعب کے ذریعہ نہیں۔وہ سمیع ہے لیکن کانوں کے ذریعہ نہیں اوروہ بصیر ہے لیکن آنکھیں کھولنے کاذریعہ نہیں۔

وہ حاضر ہے مگر چھوا نہیں جا سکتا اور وہ دور ہے لیکن مسافتوں کے اعتبار سے نہیں۔وہ ظاہر ہے لیکن دیکھا نہیں جا سکتا اور وہ باطن ہے لیکن جسم کی لطافت کی بناپ ر نہیں۔وہ اشیاء سے الگ ہے اپنے قہر غلبہ اور قدرت و اختیار کی بنا پر اور مخلوقات اس سے جدا گانہ ہے اپنے خضوع و خشوع اوراس کی بارگاہ میں باز گشت کی بنا پر۔جس نے اس کے لئے الگ سے اوصاف کا تصور کیا اس نے اسے اعداد کی صف میں لا کھڑا کردیا اور جس نے ایسا کیا اس نے اسے حادثات بنا کر اس کی ازلیت کاخاتمہ کردیا

۲۶۴

ومَنْ قَالَ كَيْفَ فَقَدِ اسْتَوْصَفَه - ومَنْ قَالَ أَيْنَ فَقَدْ حَيَّزَه - عَالِمٌ إِذْ لَا مَعْلُومٌ ورَبٌّ إِذْ لَا مَرْبُوبٌ - وقَادِرٌ إِذْ لَا مَقْدُورٌ.

أئمة الدين

منها: - قَدْ طَلَعَ طَالِعٌ ولَمَعَ لَامِعٌ ولَاحَ لَائِحٌ - واعْتَدَلَ مَائِلٌ واسْتَبْدَلَ اللَّه بِقَوْمٍ قَوْماً وبِيَوْمٍ يَوْماً - وانْتَظَرْنَا الْغِيَرَ انْتِظَارَ الْمُجْدِبِ الْمَطَرَ - وإِنَّمَا الأَئِمَّةُ قُوَّامُ اللَّه عَلَى خَلْقِه - وعُرَفَاؤُه عَلَى عِبَادِه - ولَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ عَرَفَهُمْ وعَرَفُوه - ولَا يَدْخُلُ النَّارَ إِلَّا مَنْ أَنْكَرَهُمْ وأَنْكَرُوه - إِنَّ اللَّه تَعَالَى خَصَّكُمْ بِالإِسْلَامِ واسْتَخْلَصَكُمْ لَه - وذَلِكَ لأَنَّه اسْمُ سَلَامَةٍ وجِمَاعُ كَرَامَةٍ - اصْطَفَى اللَّه تَعَالَى مَنْهَجَه وبَيَّنَ حُجَجَه

اور جس نے یہ سوال کیا کہ وہ کیسا ہے؟ اس نے الگ سے اوصاف کی جستجو کی اورجس نے یہ درایفت کیا کہ وہ کہاں ہے؟ اس نے اسے مکان میں محدود کردیا۔وہ اس وقت سے عالم ہے جب معلومات کا پتہ بھی نہیں تھا اور اس وقت سے مالک ہے جب مملوکات کا نشان بھی نہیں تھا اور اس وقت سے قادر ہے جب مقدورات پردہ ٔ عدم میں پڑے تھے۔

(ائمہ دین)

دیکھو طلوع کرنے والا طالع ہو چکا ہے اورچمکنے والا روشن ہو چکا ہے۔ظاہر ہونے والے کا ظہور سامنے آچکاہے ۔کجی سیدھی ہو چکی ہے۔اور اللہ ایک قوم کے بدلے دوسری قوم اور ایک دورکے بدلے دوسرا دور لے آیا ہے۔ہم نے حالات کی تبدیلی کا اسی طرح انتظار کیا ہے جس طرح قحط زدہ بارش کا انتظار کرتا ہے۔ائمہ درحقیقت اللہ کی طرف سے مخلوقات کے نگراں اور اس کے بندوں کو اس کی معرفت کا سبق دینے والے ہیں۔کوئی شخص جنت میںقدم نہیں رکھ سکتا ہے جب تک وہ انہیں نہ پہچان لے اور وہ حضرات اسے اپنا نہ کہہ دیں اورکوئی شخص جہنم میں جا نہیں سکتا ہے مگر یہ کہ وہ انحضرات کا انکار کردے اوروہ بھی اس نے پہچاننے سے انکار کردیں۔پروردگار نے تم لوگوں کو اسلام سے نوازا ہے اور تمہیں اس کے لئے منتخب کیا ہے۔اس لئے کہ اسلام سلامتی کا نشان اور کرامت کا سرمایہ ہے۔اللہ نے اس کے راستہ کا انتخاب کیا ہے۔اس کے دلائل کو واضح کیاہے۔

۲۶۵

مِنْ ظَاهِرِ عِلْمٍ وبَاطِنِ حُكْمٍ - لَا تَفْنَى غَرَائِبُه،ولَا تَنْقَضِي عَجَائِبُه - فِيه مَرَابِيعُ النِّعَمِ ومَصَابِيحُ الظُّلَمِ - لَا تُفْتَحُ الْخَيْرَاتُ إِلَّا بِمَفَاتِيحِه - ولَا تُكْشَفُ الظُّلُمَاتُ إِلَّا بِمَصَابِيحِه - قَدْ أَحْمَى حِمَاه وأَرْعَى مَرْعَاه - فِيه شِفَاءُ الْمُسْتَشْفِي وكِفَايَةُ الْمُكْتَفِي.

(۱۵۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

صفة الضال

وهُوَ فِي مُهْلَةٍ مِنَ اللَّه يَهْوِي مَعَ الْغَافِلِينَ - ويَغْدُو مَعَ الْمُذْنِبِينَ بِلَا سَبِيلٍ قَاصِدٍ ولَا إِمَامٍ قَائِدٍ.

صفات الغافلين

منها - حَتَّى إِذَا كَشَفَ لَهُمْ عَنْ جَزَاءِ مَعْصِيَتِهِمْ - واسْتَخْرَجَهُمْ مِنْ جَلَابِيبِ غَفْلَتِهِمُ - اسْتَقْبَلُوا مُدْبِراً واسْتَدْبَرُوا مُقْبِلًا - فَلَمْ يَنْتَفِعُوا بِمَا أَدْرَكُوا مِنْ طَلِبَتِهِمْ -

ظاہری علم اور باطنی حکمتوں کے ذریعہ اس کے غرائب فنا ہونے والے اور اس کے عجائب ختم ہونے والے نہیں ہے۔اس میں نعمتوں کی بہار اور ظلمتوں کے چرا غ ہیں نیکیوں کے دروازے اسی کی کنجیوں سے کھلتے ہیں اور تاریکیوں کا ازالہ اسی کے چراغوں سے ہوتا ہے ۔اس نے اپنے حدود کو محفوظ کرلیا ہے اور اپنی چراگاہ کو عام کردیا ہے۔اس میں طالب شفا کے لئے شفا اورامیدوار کفایت کے لئے بے نیازی کا سامان موجود ہے۔

(۱۵۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(گمراہوں اور غافلوں کے بارے میں)

(گمراہ)

یہ انسان اللہ کی طرف سے مہلت کی منزل میں ہے۔غافلوں کے ساتھ تباہیوں کے گڑھے میں گڑ پڑتا ہے اور گناہ گاروں کے ساتھ صبح کرتا ہے۔نہ اس کے سامنے سیدھا راستہ ہے اورنہ قیادت کرنے والا پیشوا۔

(غافلین)

یہاں تک کہ جب پروردگار نے ان کے گناہوں کی سزا کو واضح کردیا اورانہیں غفلت کے پردوں سے باہر نکال لیا تو جس سے منہ پھراتے تھے اسی کی طرف دوڑنے لگے اور جس کی طرف متوجہ تھے اس سے منہ پھرانے لگے۔جن مقاصد کو حاصل کرلیا تھا ان سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور جن حاجتوں کو پوراکرلیا تھا

۲۶۶

ولَا بِمَا قَضَوْا مِنْ وَطَرِهِمْ. إِنِّي أُحَذِّرُكُمْ ونَفْسِي هَذِه الْمَنْزِلَةَ - فَلْيَنْتَفِعِ امْرُؤٌ بِنَفْسِه - فَإِنَّمَا الْبَصِيرُ مَنْ سَمِعَ فَتَفَكَّرَ ونَظَرَ فَأَبْصَرَ وانْتَفَعَ بِالْعِبَرِ - ثُمَّ سَلَكَ جَدَداً وَاضِحاً يَتَجَنَّبُ فِيه الصَّرْعَةَ فِي الْمَهَاوِي - والضَّلَالَ فِي الْمَغَاوِي - ولَا يُعِينُ عَلَى نَفْسِه الْغُوَاةَ بِتَعَسُّفٍ فِي حَقٍّ - أَوْ تَحْرِيفٍ فِي نُطْقٍ أَوْ تَخَوُّفٍ مِنْ صِدْقٍ.

عظة الناس

فَأَفِقْ أَيُّهَا السَّامِعُ مِنْ سَكْرَتِكَ - واسْتَيْقِظْ مِنْ غَفْلَتِكَ واخْتَصِرْ مِنْ عَجَلَتِكَ - وأَنْعِمِ الْفِكْرَ فِيمَا جَاءَكَ - عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مِمَّا لَا بُدَّ مِنْه - ولَا مَحِيصَ عَنْه - وخَالِفْ مَنْ خَالَفَ ذَلِكَ إِلَى غَيْرِه - ودَعْه ومَا رَضِيَ لِنَفْسِه وضَعْ فَخْرَكَ - واحْطُطْ كِبْرَكَ واذْكُرْ قَبْرَكَ فَإِنَّ عَلَيْه مَمَرَّكَ - وكَمَا تَدِينُ تُدَانُ وكَمَا تَزْرَعُ تَحْصُدُ - ومَا قَدَّمْتَ الْيَوْمَ تَقْدَمُ عَلَيْه غَداً - فَامْهَدْ لِقَدَمِكَ وقَدِّمْ لِيَوْمِكَ - فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ أَيُّهَا الْمُسْتَمِعُ

ان سے بھی کوئی نتیجہ نہیں حاصل ہوا۔ دیکھو میں تمہیں اور خود اپنے نفس کوبھی اس صورت حال سے ہوشیار کر رہاہوں۔ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے نفس سے فائدہ اٹھائے۔اس لئے کہ صاحب بصیرت وہی ہے جو سنے تو غور بھی کرے اور دیکھے تو نگاہ بھی کرے اور پھر عبرتوں سے فائدہ حاصل کرکے اس سیدھے اور روشن راستہ پر چل پڑے جس میںگمراہی کے گڑھے میں گرنے سے پرہیز کرے اور شبہات میں پڑ کر گمراہ نہ ہو جائے ایسے نفس کے خلاف گمراہوں کی اس طرح مدد کرے کہ حق کی راہ سے انحراف کرلے یا گفتگو میں تحریف سے کام لے یا سچ بولنے میں خوف کا شکار ہو جائے۔

(موعظہ)

میری بات سننے والو! اپنی مدہوشی سے ہوش میں آجائو اوراپنی غفلت سے بیدار ہوجائو۔سامان دنیا مختصر کرلو اور ان باتوں میںغورو فکر کرو جو تمہارے پاس پیغمبر امی (ص) کی زبان مبارکسے آئی ہیں اور جن کا اختیارکرنا ضروری ہے اور ان سے کوئی چھٹکارا بھی نہیں ہے۔جو اس بات کی مخالفت کرے اس سے اختلاف کرکے دوسرے راستہ پرچل پڑو اوراسے اس کی مرضی پرچھوڑ دو۔فخر و مباہات کو چھوڑ دو۔تکبر کو ختم کردو اورقبر کو یاد کرو کہ اسی راستہ سے گزرنا ہے اور جیسا کرو گے ویسا ہی نتیجہ بھی ملے گا اورجیسا بوئو گے ویسا ہی کاٹنا ہے اور جوآج بھیج دیا ہے کل اسی کا سامانا کرنا ہے۔اپنے قدموں کے لئے زمین ہموار کرلو اور اسدن کے لئے سامان پہلے سے بھیج دو۔ہوشیار' ہوشیار اے سننے والو

۲۶۷

والْجِدَّ الْجِدَّ أَيُّهَا الْغَافِلُ –( ولا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ) .

إِنَّ مِنْ عَزَائِمِ اللَّه فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ - الَّتِي عَلَيْهَا يُثِيبُ ويُعَاقِبُ ولَهَا يَرْضَى ويَسْخَطُ - أَنَّه لَا يَنْفَعُ عَبْداً - وإِنْ أَجْهَدَ نَفْسَه وأَخْلَصَ فِعْلَه - أَنْ يَخْرُجَ مِنَ الدُّنْيَا لَاقِياً رَبَّه - بِخَصْلَةٍ مِنْ هَذِه الْخِصَالِ لَمْ يَتُبْ مِنْهَا - أَنْ يُشْرِكَ بِاللَّه فِيمَا افْتَرَضَ عَلَيْه مِنْ عِبَادَتِه - أَوْ يَشْفِيَ غَيْظَه بِهَلَاكِ نَفْسٍ - أَوْ يَعُرَّ بِأَمْرٍ فَعَلَه غَيْرُه - أَوْ يَسْتَنْجِحَ حَاجَةً إِلَى النَّاسِ بِإِظْهَارِ بِدْعَةٍ فِي دِينِه - أَوْ يَلْقَى النَّاسَ بِوَجْهَيْنِ أَوْ يَمْشِيَ فِيهِمْ بِلِسَانَيْنِ - اعْقِلْ ذَلِكَ فَإِنَّ الْمِثْلَ دَلِيلٌ عَلَى شِبْهِه.

إِنَّ الْبَهَائِمَ هَمُّهَا بُطُونُهَا - وإِنَّ السِّبَاعَ هَمُّهَا الْعُدْوَانُ عَلَى غَيْرِهَا - وإِنَّ النِّسَاءَ هَمُّهُنَّ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا والْفَسَادُ فِيهَا - إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ مُسْتَكِينُونَ - إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ مُشْفِقُونَ إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ خَائِفُونَ.

(۱۵۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها فضائل أهل البيت

اور محنت ' محنت اے غفلت والو! ''یہ باتیں مجھ جیسے با خبر کی طرح کوئی نہ بتائے گا۔ دیکھو! قرآن مجید میں پروردگار کے مستحکم اصولوں میں جس پر ثواب وعذاب اور رضا و ناراضگی کا دارومدا ہے۔یہ بات بھی ہے کہ انسان اس دنیا میں کسی قدرمحنت کیوں نہ کرے اور کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو جائے اگردنیا سے نکل کر اللہ کی بارگاہمیں جانا چاہے اوردرج ذیل خصلتوں سے توبہ نہ کرے تو اسے یہ جدو جہد اوراخلاص عمل کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے۔

عبادت الٰہی میں کسی کو شریک قرار دیدے۔اپنے نفس کی تسکین کے لئے کسی کو ہلاک کردے۔ایک کے کام پردوسروں کو عیب لگادے۔دین میں کوئی بدعت ایجاد کرکے اس کے ذریعہ لوگوں سے فائدہ حاصل کرے۔لوگوں کے سامنے دوزخی پالیسی اختیار کرے۔یا دو زبانوں کے ساتھ زندگی گزارے۔اس حقیقت کو سمجھ لو کہ ہر شخص اپنی نظیر کی دلیل ہوا کرتا ہے۔

یقینا چوپایوں کا ساراہدفان کا پٹ ہوتا ہے اور درندوں کا سارا نشانہ دوسروں پر ظلم ہوتا ہے اور رعورتوں کا سارا زور رندگانی دنیا کی زینت اور فساد پر ہوتا ہے۔لیکن صاحبان ایمان خضوع و خشوع رکھنے والے ' خوف خدا رکھنے والے اور اس کی بارگاہ میں ترساں اور لرزاں رہتے ہیں۔

(۱۵۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں فضائل اہل بیت کاذکر کیا گیا ہے)

۲۶۸

ونَاظِرُ قَلْبِ اللَّبِيبِ بِه يُبْصِرُ أَمَدَه - ويَعْرِفُ غَوْرَه ونَجْدَه - دَاعٍ دَعَا ورَاعٍ رَعَى - فَاسْتَجِيبُوا لِلدَّاعِي واتَّبِعُوا الرَّاعِيَ.

قَدْ خَاضُوا بِحَارَ الْفِتَنِ - وأَخَذُوا بِالْبِدَعِ دُونَ السُّنَنِ - وأَرَزَ الْمُؤْمِنُونَ ونَطَقَ الضَّالُّونَ الْمُكَذِّبُونَ - نَحْنُ الشِّعَارُ والأَصْحَابُ والْخَزَنَةُ والأَبْوَابُ - ولَا تُؤْتَى الْبُيُوتُ إِلَّا مِنْ أَبْوَابِهَا - فَمَنْ أَتَاهَا مِنْ غَيْرِ أَبْوَابِهَا سُمِّيَ سَارِقاً.

منها: فِيهِمْ كَرَائِمُ الْقُرْآنِ وهُمْ كُنُوزُ الرَّحْمَنِ - إِنْ نَطَقُوا صَدَقُوا وإِنْ صَمَتُوا لَمْ يُسْبَقُوا - فَلْيَصْدُقْ رَائِدٌ أَهْلَه ولْيُحْضِرْ عَقْلَه - ولْيَكُنْ مِنْ أَبْنَاءِ الآخِرَةِ - فَإِنَّه مِنْهَا قَدِمَ وإِلَيْهَا يَنْقَلِبُ.فَالنَّاظِرُ بِالْقَلْبِ الْعَامِلُ بِالْبَصَرِ - يَكُونُ مُبْتَدَأُ عَمَلِه أَنْ يَعْلَمَ أَعَمَلُه عَلَيْه أَمْ لَه - فَإِنْ كَانَ لَه مَضَى فِيه وإِنْ كَانَ عَلَيْه وَقَفَ عَنْه - فَإِنَّ الْعَامِلَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَالسَّائِرِ عَلَى غَيْرِ طَرِيقٍ

عقل مند وہ ہے جو دل کی آنکھوں سے اپنے انجام کار کودیکھ لیتا ہے اور اس کے نشیب و فراز کو پہچان لیتاہے دعوت دینے والا دعوت دے چکا ہے اور نگرانی کا فرض ادا کرچکاہے۔اب تمہارا فریضہ ہے کہ دعوت دینے والے کی آوازپرلبیک کہو اور نگران کے نقش قدم پر چل پڑو۔

یہ لوگ فتنوں کے دریائوں میں ڈوب گئے ہیں اورسنت کو چھوڑ کر بدعتوں کو اختیار کرلیا ہے۔مومنین گوشہ و کنار میں دبے ہوئے ہیں اور گمراہ اور افتراء پر داز مصروف کلام ہیں۔

درحقیقت ہم اہل بیت ہی دین کے نشان اور اس کے ساتھی ' اس کے احکام کے خزانہ دار اور اس کے دروازے ہیں اور ظاہر ہے کہ گھروں میں داخلہ دروازوں کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے ورنہ انسان چور کہاجائے گا۔ انہیں اہل بیت کے بارے میں قرآن کریم کی عظیم آیات ہیں اور یہی رحمان کے خزانہ دار ہیں۔یہ جب بولتے ہیں تو سچ کہتے ہیں اور جب قدم آگے بڑھاتے ہیں تو کوئی ان پر سبقت نہیں لے جاسکتا ہے۔ہرذمہ دار قوم کا فرض ہے کہ اپنے قوم سے سچ بولے اور اپنی عقل کو گم نہ ہونے دے اور فرزندان آخرت میں شاملہو جائے کہ ادھر ہی سے آیا ہے اور ادھر ہی پلٹ کرجانا ہے۔یقینا دل کی آنکھوں سے دیکھنے والے اور دیکھ کر عمل کرنے والے کے عمل کی ابتدا اس علم سے ہوتی ہے کہ اس کاعمل اس کے لئے مفید ہے یا اس کے خلاف ہے۔اگر مفید ہے تو اسی راستہ پر چلتا رہے اور اگر مضر ہے تو ٹھہر جائے کہ علم کے بغیر عمل کرنے والاغلط پر راستہ پر چلنے والی کے مانند ہے

۲۶۹

فَلَا يَزِيدُه بُعْدُه عَنِ الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ إِلَّا بُعْداً مِنْ حَاجَتِه - والْعَامِلُ بِالْعِلْمِ كَالسَّائِرِ عَلَى الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ - فَلْيَنْظُرْ نَاظِرٌ أَسَائِرٌ هُوَ أَمْ رَاجِعٌ.

واعْلَمْ أَنَّ لِكُلِّ ظَاهِرٍ بَاطِناً عَلَى مِثَالِه - فَمَا طَابَ ظَاهِرُه طَابَ بَاطِنُه - ومَا خَبُثَ ظَاهِرُه خَبُثَ بَاطِنُه وقَدْ قَالَ الرَّسُولُ الصَّادِقُصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - إِنَّ اللَّه يُحِبُّ الْعَبْدَ ويُبْغِضُ عَمَلَه - ويُحِبُّ الْعَمَلَ ويُبْغِضُ بَدَنَه.

واعْلَمْ أَنَّ لِكُلِّ عَمَلٍ نَبَاتاً - وكُلُّ نَبَاتٍ لَا غِنَى بِه عَنِ الْمَاءِ - والْمِيَاه مُخْتَلِفَةٌ فَمَا طَابَ سَقْيُه طَابَ غَرْسُه وحَلَتْ ثَمَرَتُه - ومَا خَبُثَ سَقْيُه خَبُثَ غَرْسُه وأَمَرَّتْ ثَمَرَتُه.

(۱۵۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها بديع خلقة الخفاش

حمد اللَّه وتنزيهه

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي انْحَسَرَتِ الأَوْصَافُ عَنْ كُنْه مَعْرِفَتِه – ورَدَعَتْ عَظَمَتُه الْعُقُولَ - فَلَمْ تَجِدْ مَسَاغاً إِلَى بُلُوغِ غَايَةِ مَلَكُوتِه!

کہ جس قدر راستہ طے کرتا جائے گا منزل سے دور تر ہوتا جائے گا اور علم کے ساتھ عمل کرنے والا واضح راستہ پر چلنے کے مانندہے۔لہٰذا ہرآنکھ والے کو یہ دیکھ لینا چاہیے کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے یا پیچھے ہٹ رہا ہے اوریادرکھو کہ ہر ظاہرکے لئے اسیکا جیسا باطن بھی ہوتا ہے۔لہٰذا اگر ظاہر پاکیزہ ہوگاتو باطن بھی پاکیزہ ہوگا اوراگر ظاہر خبیث ہوگیا تو باطن بھی خبیث ہو جائے گا۔رسول صادق نے سچ فرمایا ہے کہ'' اللہ کبھی کبھی کسی بندہ کو دوست رکھتا ہے لیکن اس کے عمل سے بیزار ہوتا ہے اور کبھی عل کو دوست رکھتا ہے اورخود اسی سے بیزار رہتا ہے۔

یاد رکھو کہ ہر عمل سبزہ کی طرح گرنے والا ہوتا ہے اورسبزہ پانی سے بے نیا ز نہیں ہو سکتا ہے اور پاین بھی طرح طرح کے ہوتے ہیں لہٰذا اگر سینچائی پاکیزہ پانی سے ہوگی تو پیداوار بھی پاکیزہ ہوگی اور پھل بھی شیریں ہوگا اور اگر سینچائی ہی غلط ہوگئی تو پیداوار بھی خبیث ہوگی اور پھل بھی کڑوے ہوں گے۔

(۱۵۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں چمگادر کی عجیب وغریب خلقت کا ذکر کیا گیا ہے )

ساری تعریفاس اللہ کے لئے ہے جس کی معرفت کی گہرائیوں سے اوصاف عاجز ہیں اورجس کی عظمتوں نے عقلوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا ہے تو اب اسکی سلطنتوں کی حدود تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے۔

۲۷۰

هُوَ اللَّه( الْحَقُّ الْمُبِينُ ) - أَحَقُّ وأَبْيَنُ مِمَّا تَرَى الْعُيُونُ - لَمْ تَبْلُغْه الْعُقُولُ بِتَحْدِيدٍ فَيَكُونَ مُشَبَّهاً - ولَمْ تَقَعْ عَلَيْه الأَوْهَامُ بِتَقْدِيرٍ فَيَكُونَ مُمَثَّلًا - خَلَقَ الْخَلْقَ عَلَى غَيْرِ تَمْثِيلٍ ولَا مَشُورَةِ مُشِيرٍ - ولَا مَعُونَةِ مُعِينٍ فَتَمَّ خَلْقُه بِأَمْرِه وأَذْعَنَ لِطَاعَتِه - فَأَجَابَ ولَمْ يُدَافِعْ وانْقَادَ ولَمْ يُنَازِعْ.

خلقة الخفاش

ومِنْ لَطَائِفِ صَنْعَتِه وعَجَائِبِ خِلْقَتِه - مَا أَرَانَا مِنْ غَوَامِضِ الْحِكْمَةِ فِي هَذِه الْخَفَافِيشِ - الَّتِي يَقْبِضُهَا الضِّيَاءُ الْبَاسِطُ لِكُلِّ شَيْءٍ - ويَبْسُطُهَا الظَّلَامُ الْقَابِضُ لِكُلِّ حَيٍّ - وكَيْفَ عَشِيَتْ أَعْيُنُهَا عَنْ أَنْ تَسْتَمِدَّ - مِنَ الشَّمْسِ الْمُضِيئَةِ نُوراً تَهْتَدِي بِه فِي مَذَاهِبِهَا - وتَتَّصِلُ بِعَلَانِيَةِ بُرْهَانِ الشَّمْسِ إِلَى مَعَارِفِهَا - ورَدَعَهَا بِتَلأْلُؤِ ضِيَائِهَا عَنِ الْمُضِيِّ فِي سُبُحَاتِ إِشْرَاقِهَا - وأَكَنَّهَا فِي مَكَامِنِهَا عَنِ الذَّهَابِ فِي بُلَجِ ائْتِلَاقِهَا - فَهِيَ مُسْدَلَةُ الْجُفُونِ بِالنَّهَارِ عَلَى حِدَاقِهَا - وجَاعِلَةُ اللَّيْلِ سِرَاجاً تَسْتَدِلُّ بِه فِي الْتِمَاسِ أَرْزَاقِهَا - فَلَا يَرُدُّ أَبْصَارَهَا إِسْدَافُ ظُلْمَتِه

وہ خدائے برحق و آشکار ہے۔اس سے زیادہ ثابت اور واضح ہے جو آنکھوں کے مشاہدہ میں آجاتا ہے۔ عقلیں اس کی حد بندی نہیں کر سکتی ہیں کہوہ کسی کی شبیہ قراردے دیا جائے اورخیالات اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں کہ وہ کسی کی مثال بنا دیاجائے۔اس نے مخلوقات کوبغیر کسی نمونہ اور کسی مشیرکے مشورہ یا مددگار کی مدد کے بنایا ہے۔اس کی تخلیق اس کے امر سے تکمیل ہوئی ہے اور پھر اسی کی اطاعت کے لئے سربسجود ہے۔بلا توقف اس کی آواز پرلبیک کہتی ہے اوربغیر کسی اختلاف کے اس کے سامنے سرنگوں ہوتی ہے۔ اس کی لطیف ترین صنعت اور عجیب ترین خلقت کا ایک نمونہ وہ ہے جو اس نے اپنی دقیق ترین حکمت سے چمگادڑ کی تخلیق میں پیش کیا ہے کہ جسے ہرشے کو وسعت دینے والی روشنی سکیڑ دیتی ہے اور ہر زندہ کو سکیڑ دینے والی تاریکی وسعت عطا کر دیتی ہے۔کس طرح اس کی آنکھیں چکا چود ہو جاتی ہیں کہ روشنی آفتاب کی شعاعوں سے مدد حاصل کرکے اپنے راستے طے کر سکے اور کھلی ہوئی آفتاب کی روشنی کے ذریعہ اپنی جانی منزلوں تک پہنچ سکے۔نور آفتاب نے اپنی چمک دمک کے ذریعہ اسے روشنی کے طبقات میں آگے بڑھنے سے روک دیا ہے اور روشنی کے اجالے میں آنے سے روک کرمخفی مقامات پر چھپا دیا ہے۔دن میں اس کی پلکیں آنکھوں پر لٹک آتی ہیں اور رات کو چراغ بنا کروہ تلاش رزق میں نکل پرتی ہے۔اس کی نگاہوں کو رات کو رات کی تاریکی نہیں پلٹا سکتی ہے

۲۷۱

ولَا تَمْتَنِعُ مِنَ الْمُضِيِّ فِيه لِغَسَقِ دُجُنَّتِه - فَإِذَا أَلْقَتِ الشَّمْسُ قِنَاعَهَا وبَدَتْ أَوْضَاحُ نَهَارِهَا - ودَخَلَ مِنْ إِشْرَاقِ نُورِهَا عَلَى الضِّبَابِ فِي وِجَارِهَا - أَطْبَقَتِ الأَجْفَانَ عَلَى مَآقِيهَا ،وتَبَلَّغَتْ بِمَا اكْتَسَبَتْه مِنَ الْمَعَاشِ فِي ظُلَمِ لَيَالِيهَا - فَسُبْحَانَ مَنْ جَعَلَ اللَّيْلَ لَهَا نَهَاراً ومَعَاشاً - والنَّهَارَ سَكَناً وقَرَاراً - وجَعَلَ لَهَا أَجْنِحَةً مِنْ لَحْمِهَا - تَعْرُجُ بِهَا عِنْدَ الْحَاجَةِ إِلَى الطَّيَرَانِ - كَأَنَّهَا شَظَايَا الآذَانِ غَيْرَ ذَوَاتِ رِيشٍ ولَا قَصَبٍ - إِلَّا أَنَّكَ تَرَى مَوَاضِعَ الْعُرُوقِ بَيِّنَةً أَعْلَاماً - لَهَا جَنَاحَانِ لَمَّا يَرِقَّا فَيَنْشَقَّا ولَمْ يَغْلُظَا فَيَثْقُلَا - تَطِيرُ ووَلَدُهَا لَاصِقٌ بِهَا لَاجِئٌ إِلَيْهَا - يَقَعُ إِذَا وَقَعَتْ ويَرْتَفِعُ إِذَا ارْتَفَعَتْ - لَا يُفَارِقُهَا حَتَّى تَشْتَدَّ أَرْكَانُه - ويَحْمِلَه لِلنُّهُوضِ جَنَاحُه - ويَعْرِفَ مَذَاهِبَ عَيْشِه ومَصَالِحَ نَفْسِه - فَسُبْحَانَ الْبَارِئِ لِكُلِّ شَيْءٍ عَلَى غَيْرِ مِثَالٍ خَلَا مِنْ غَيْرِه !

اوراس کو راستہ میں آگے بڑھنے سے شدید ظلمت بھی نہیں روک سکتی ہے۔اس کے بعد جب آفتاب اپنے نقاب کو الٹ دیتا ہے اور دن کا روشن چہرہ سامنے آجاتا ہے اور آفتاب کی کرنیں بجو کے سوراخ تک پہنچ جاتی ہیں تو اس کی پلکیں آنکھں پرلٹک آتی ہیں اور جوکچھ رات کی تاریکیوں میں حاصل کرلیا ہے اسی پر گزارا شروع کردیتی ہے۔کیاکہنا اس معبود کا جس نے اس کے لئے رات کو دن اور وسیلہ معاش بنادیا ہے اوردن کو وجہ سکون و قرار مقرر کردیا ہے اور پھر اس کے لئے ایسے گوشت کے پر بنادئیے ہیں جس کے ذریعہ وقت ضرورت پرواز بھی کر سکتی ہے۔ویا کہ یہ کان کی لویں ہیں جن میں نہ پر ہیں اور نہ کریاں مگر اس کے بوجود تم دیکھو گے کہ رگوں کی جگہوں کے نشانات بالکل واضح ہیں اور اس کے ایسے دو پ بن گئے ہیں جو نہ اتنے باریک ہیں کہ پھٹ جائیں اور نہ اتنے غلیظ ہیں کہ پروازمیں زحمت ہو۔اس کی پرواز کی شان یہ ہے کہ اپنے بچہ کو ساتھ لے کر سینہ سے لگا کر پرواز کرتی ہے جب اس کے اعضاء مضبوط نہ ہو جائیں اور اس کے پر اس کا بوجھ اٹھانے کیقابل نہ ہو جائیں اور وہ اپنے رزق کے راستوں اور مصلحتوں کوخود پہچان نہلے۔پاک و بے نیازہے وہ ہر شے کا پیداکرنے والا جس نے کسی ایسی مثال کاسہارا نہیں لیا جو کسی دوسرے سے حاصل کی گئی ہو۔

۲۷۲

(۱۵۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

خاطب به أهل البصرة على جهة اقتصاص الملاحم

فَمَنِ اسْتَطَاعَ عِنْدَ ذَلِكَ - أَنْ يَعْتَقِلَ نَفْسَه عَلَى اللَّه عَزَّ وجَلَّ فَلْيَفْعَلْ - فَإِنْ أَطَعْتُمُونِي - فَإِنِّي حَامِلُكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّه عَلَى سَبِيلِ الْجَنَّةِ - وإِنْ كَانَ ذَا مَشَقَّةٍ شَدِيدَةٍ ومَذَاقَةٍ مَرِيرَةٍ.

وأَمَّا فُلَانَةُ فَأَدْرَكَهَا رَأْيُ النِّسَاءِ - وضِغْنٌ غَلَا فِي صَدْرِهَا كَمِرْجَلِ الْقَيْنِ - ولَوْ دُعِيَتْ لِتَنَالَ مِنْ غَيْرِي مَا أَتَتْ إِلَيَّ لَمْ تَفْعَلْ - ولَهَا بَعْدُ حُرْمَتُهَا الأُولَى والْحِسَابُ عَلَى اللَّه تَعَالَى.

وصف الإيمان

منه - سَبِيلٌ أَبْلَجُ الْمِنْهَاجِ أَنْوَرُ السِّرَاجِ - فَبِالإِيمَانِ يُسْتَدَلُّ عَلَى الصَّالِحَاتِ - وبِالصَّالِحَاتِ يُسْتَدَلُّ عَلَى الإِيمَانِ وبِالإِيمَانِ يُعْمَرُ الْعِلْمُ - وبِالْعِلْمِ يُرْهَبُ الْمَوْتُ وبِالْمَوْتِ تُخْتَمُ الدُّنْيَا - وبِالدُّنْيَا تُحْرَزُ الآخِرَةُ - وبِالْقِيَامَةِ تُزْلَفُ الْجَنَّةُ وتُبَرَّزُ الْجَحِيمُ

(۱۵۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اہل بصرہ سے خطاب کرکے انہیں حوادث سے با خبر کیا گیا ہے)

ایسے وقت میں اگر کوئی شخص اپنے نفس کو صرف خدا تک محدود رکھنے کی طاقت رکھتا ہے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے پھر اگر تم میری اطاعت کرو گے تو میں تمہیں انشاء اللہ جنت کے راستہ پرچلائوں گا چاہے اس میں کتنی ہی زحمت اور تلخی کیوں نہ ہو۔ رہ گئی فلاں خاتون(۱) کی بات تو ان پر عورتوں کی جذباتی رائے کا اثر ہوگیا ہے اور اس کینہ نے اثر کردیا ہے جو ان کے سینہ میں لوہار کے کڑھائو کی طرح کھول رہا ہے۔ انہیں اگر میرے علاوہ کسی اور کے سات اس برتائو کی دعوتدی جاتی تو کبھی نہ آتیں لیکن اس کے بعد بھی مجھے ان کی سابقہ حرمت کا خیال ہے اور ان کا حساب بہر حال پروردگار کے ذمہ ہے ۔

ایمان کا راستہ بالکل واضح اوراس کا چراغ مکمل طورپر نورافشاں ہے۔ایمان(۱) ہی کے ذریعہ نیکیوں کا راستہ حاصل کیا جاتا ہے اورنیکیوں ہی کے وسیلہ سے ایمان کی پہچان ہوتی ہے۔ایمان(۲) سے علم کی دنیا آباد ہوتی ہے اورعلم سے موت کاخوف حاصل ہوتا ہے اور موت ہی پر دنیا کا خاتمہ ہوتا ہے اور دنیا ہی کے ذریعہ آخرت حاصل کی جاتی ہے اورآخرت ہی میں جنت کو قریب کردیا جائے گا اورجہنم

(۱)اس فقرہ کودیکھنے کے بعد کوئی شخص ایمان و عمل کے رابطہ کونظانداز نہیں کرسکتا ہے اور نہ ایمان کو عمل سے بے نیاز بنا سکتا ہے۔

(۲)ایمان سے لے کر آخرت تک اتنا حسین تسلسل کسی دوسرے انسان کے کلام میں نظر نہیں آسکتا ہے اوریہمولائے کائنات کی اعجاز بیانی کا ایک بہترین نمونہ ہے۔

۲۷۳

لِلْغَاوِينَ - وإِنَّ الْخَلْقَ لَا مَقْصَرَ لَهُمْ عَنِ الْقِيَامَةِ - مُرْقِلِينَ فِي مِضْمَارِهَا إِلَى الْغَايَةِ الْقُصْوَى.

حال أهل القبور في القيامة

منه: قَدْ شَخَصُوا مِنْ مُسْتَقَرِّ الأَجْدَاثِ - وصَارُوا إِلَى مَصَايِرِ الْغَايَاتِ لِكُلِّ دَارٍ أَهْلُهَا - لَا يَسْتَبْدِلُونَ بِهَا ولَا يُنْقَلُونَ عَنْهَا.

وإِنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ - لَخُلُقَانِ مِنْ خُلُقِ اللَّه سُبْحَانَه - وإِنَّهُمَا لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ - ولَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ - وعَلَيْكُمْ بِكِتَابِ اللَّه - فَإِنَّه الْحَبْلُ الْمَتِينُ والنُّورُ الْمُبِينُ - والشِّفَاءُ النَّافِعُ والرِّيُّ النَّاقِعُ - والْعِصْمَةُ لِلْمُتَمَسِّكِ والنَّجَاةُ لِلْمُتَعَلِّقِ - لَا يَعْوَجُّ فَيُقَامَ ولَا يَزِيغُ فَيُسْتَعْتَبَ - ولَا تُخْلِقُه كَثْرَةُ الرَّدِّ ووُلُوجُ السَّمْعِ - مَنْ قَالَ بِه صَدَقَ ومَنْ عَمِلَ بِه سَبَقَ». وقام إليه رجل فقال: يا أمير المؤمنين، أخبرنا عن الفتنة،

کوگمراہوں کے لئے بالکل نمایاں کردیا جائے گا۔مخلوقات کے لئے قیامت سے پہلے کوئی منزل نہیں ہے۔انہیں اس میدان میں آخری منزل کی طرف بہر حال دوڑ لگانا ہے۔

(ایک دوسرا حصہ)

وہ اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی آخری منزل کی طرف چل پڑے۔ ہر گھر کے اپنے ابل ہوتے ہیں جو نہ گھر بدل سکتے ہیں اور نہ اس سے منتقل ہو سکتے ہیں۔ یقینا امر بالمعروف اورنہی عن المنکر یہ دوخدائی اخلاق ہیں اور یہ نہ کسی کی موت(۱) کو قریب بناتے ہیں اور نہ کسی کی روزی کو کم کرتے ہیں تمہارا فریضہ ہے کہ کتاب خدا سے وابستہ رہو کہ وہی مضبوط ریسمان ہدایت اور روشن نور الٰہی ہے۔اس میں منفعت بخش شفا ہے اوراسی میں پیاس بجھا دینے والی سیرابی ہے۔وہی تمسک کرنے والوں کے لئے وسیلہ عصمت کردار ہے اوروہی رابطہ رکھنے والوں کے لئے ذریعہ نجات ہے۔اسی میں کوئی کجی نہیں ہے جسے سیدھا کیا جائے اور اسی میں کوئی انحراف نہیں ہے جسے درست کیا جائے ۔مسلسل تکرار اسے پرانا نہیں کر سکتی ہے اور برابر سننے سے اس کی تازگی میں فرق نہیں آتا ہے۔جو اس کے ذریعہ کلام کرے گا وہ سچا ہوگا اور جواس کے مطابق عمل کریگا وہ سبقت لے جائے گا ۔اس درمیان ایک شخص کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا یا امیر المومنین ذرا فتنہ کے بارے میں بتلائیے ؟ کیا آپ نے اس سلسلہ میں

(۱) امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے بارے میں پیدا ہونے والے ہر شیطانی وسوسہ کا جواب ان کلمات میں موجود ہے اور ان دونوں کی عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کاموں میں مالک بھی بندوں کے ساتھ شریک ہے بلکہ اسنے پہلے امرونہی کیا ہے۔اس کے بعد بندوں کو امرونہی کا حکم دیا ہے۔

۲۷۴

وهل سألت

رسول اللَّه -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - عنها فقالعليه‌السلام : إِنَّه لَمَّا أَنْزَلَ اللَّه سُبْحَانَه قَوْلَه –( ألم أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا - أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وهُمْ لا يُفْتَنُونَ ) - عَلِمْتُ أَنَّ الْفِتْنَةَ لَا تَنْزِلُ بِنَا - ورَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بَيْنَ أَظْهُرِنَا - فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه مَا هَذِه الْفِتْنَةُ الَّتِي أَخْبَرَكَ اللَّه تَعَالَى بِهَا - فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِنَّ أُمَّتِي سَيُفْتَنُونَ بَعْدِي - فَقُلْتُ يَا رَسُولُ اللَّه - أَولَيْسَ قَدْ قُلْتَ لِي يَوْمَ أُحُدٍ - حَيْثُ اسْتُشْهِدَ مَنِ اسْتُشْهِدَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ - وحِيزَتْ عَنِّي الشَّهَادَةُ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيَّ - فَقُلْتَ لِي أَبْشِرْ فَإِنَّ الشَّهَادَةَ مِنْ وَرَائِكَ - فَقَالَ لِي إِنَّ ذَلِكَ لَكَذَلِكَ فَكَيْفَ صَبْرُكَ إِذاً - فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه لَيْسَ هَذَا مِنْ مَوَاطِنِ الصَّبْرِ - ولَكِنْ مِنْ مَوَاطِنِ الْبُشْرَى والشُّكْرِ - وقَالَ يَا عَلِيُّ إِنَّ الْقَوْمَ سَيُفْتَنُونَ بِأَمْوَالِهِمْ - ويَمُنُّونَ بِدِينِهِمْ عَلَى رَبِّهِمْ - ويَتَمَنَّوْنَ رَحْمَتَه ويَأْمَنُونَ سَطْوَتَه - ويَسْتَحِلُّونَ حَرَامَه بِالشُّبُهَاتِ الْكَاذِبَةِ - والأَهْوَاءِ السَّاهِيَةِ فَيَسْتَحِلُّونَ الْخَمْرَ بِالنَّبِيذِ - والسُّحْتَ بِالْهَدِيَّةِ والرِّبَا بِالْبَيْعِ - قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه - فَبِأَيِّ الْمَنَازِلِ أُنْزِلُهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ - أَبِمَنْزِلَةِ رِدَّةٍ أَمْ بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ فَقَالَ بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ

رسول اکرم (ص) سے کچھ دریافت کیاہے ؟فرمایا: جس وقت آیت شریفہ نازل ہوئی '' کیا لوگوں کا خیال یہ ہے کہ انہیں ایمان کے دعویٰ ہی پر چھوڑ دیا جائے گا اور انہیں فتنہ میں مبتلا نہیں کیا جائے گا'' تو ہمیں اندازہ ہوگیا کہ جب تک رسول اکرم (ص) موجود ہیں فتنہ کا کوئی اندیشہ نہیں ہے لہٰذا میں نے سوال کیا کہ یارسول اللہ یہ فتنہ کیا ہے جس کی پروردگارنے آپ کو اطلاع دی ہے؟ فرمایا یاعلی ! یہ امت میرے بعدفتنہ میں مبتلا ہوگی میں نے عرض کی کیا آپنے احد کے دن جب کچھ مسلمان راہ خدا میں شہید ہوگئے اور مجھے شہادت کا موقع نصیب نہیں ہوا اور مجھے یہ بات سخت تکلیف دہ محسوس ہوئی۔تو کیا یہ نہیں فرمایا تھا کہ یا علی ! بشارت ہو۔شہادت تمہار ے پیچھے آرہی ہے ؟ فرمایا بے شک ! لیکن اس وقت تمہارا صبر کیسا ہوگا؟ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ یہ تو صبر کا موقع نہیں ہے بلکہ مسرت اور(۱) شکر کا موقع ہے۔پھر فرمایا : یا علی !لوگ عنقریب اپنے اموال کے فتنہ میں مبتلا کئے جائیں گے اور اپنے دین کا احسان اپنے پروردگار پر رکھیں گے اور پھر اس کی رحمت کے امید وار بھی ہوں گے اور اپنے کو اس کے غضب سے محفوظ بھی تصور کریں گے جھوٹے شبہات اورغافل کرنے والی خواہشات سے حرام کو حلالا کرلیں گے شراب کو نبید بنا کر حرام کو ہدیہ قرار دے کراور سود کوتجارت کا نام دے کر اس سے استفادہ کریں گے۔

(۱)یہ ہے اس کل ایمان کا کردار جو زندگی کو ہدف اورمقصد نہیں بلکہ وسیلہ خیرات تصور کرتا ہے اور جب یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ زندگی کی قربان یہی تمام خیرات و برکات کا مصد ر ہے تو اس قربانی کے نام پرسجدۂ شکر کرتا ہے اور لفظ صبرو تحمل کو برداشت نہیں کرتا ہے۔

۲۷۵

(۱۵۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحث الناس على التقوى

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي جَعَلَ الْحَمْدَ مِفْتَاحاً لِذِكْرِه - وسَبَباً لِلْمَزِيدِ مِنْ فَضْلِه - ودَلِيلًا عَلَى آلَائِه وعَظَمَتِه.

عِبَادَ اللَّه - إِنَّ الدَّهْرَ يَجْرِي بِالْبَاقِينَ كَجَرْيِه بِالْمَاضِينَ - لَا يَعُودُ مَا قَدْ وَلَّى مِنْه - ولَا يَبْقَى سَرْمَداً مَا فِيه - آخِرُ فَعَالِه كَأَوَّلِه مُتَشَابِهَةٌ أُمُورُه - مُتَظَاهِرَةٌ أَعْلَامُه - فَكَأَنَّكُمْ بِالسَّاعَةِ تَحْدُوكُمْ حَدْوَ الزَّاجِرِ بِشَوْلِه - فَمَنْ شَغَلَ نَفْسَه بِغَيْرِ نَفْسِه تَحَيَّرَ فِي الظُّلُمَاتِ - وارْتَبَكَ فِي الْهَلَكَاتِ - ومَدَّتْ بِه شَيَاطِينُه فِي طُغْيَانِه - وزَيَّنَتْ لَه سَيِّئَ أَعْمَالِه - فَالْجَنَّةُ غَايَةُ السَّابِقِينَ والنَّارُ غَايَةُ الْمُفَرِّطِينَ.

اعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه - أَنَّ التَّقْوَى دَارُ حِصْنٍ عَزِيزٍ - والْفُجُورَ دَارُ حِصْنٍ ذَلِيلٍ - لَا يَمْنَعُ أَهْلَه ولَا يُحْرِزُ مَنْ لَجَأَ إِلَيْه

(۱۵۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کو تقویٰ پرآمادہ کیا گیا ہے)

شکر ہے اس خداکا جس نے اپنی حمد کو اپنی یاد کی کلید' اپنے فضل و کرم میں اضافہ کاذریعہ اور اپنی نعمت و عظمت کی دلیل قرار دیا ہے۔

بندگان خدا ! زمانہ رہ جانے والوں کے ساتھ وہی برتائو کرتا ہے جو جانے والوں کے ساتھ کر چکا ہے کہ نو چلے جانے والا واپس آتا ہے اور نہ رہ جانے والا دوام حاصل کر سکتا ہے۔اس کاآخری طریقہ بھی پہلے ہی جیس ہوتاہے۔اس کے تمام معاملات ایک جیسے اورتمام پرچم ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔گویا تم قیامت کی زد پر ہو اور وہ تم کو اسی طرح ہنکا کرلے جاریہ ہے جسطرح للکارنے والا اونٹنیوں کو لے جاتا ہے۔جو اپنے نفس کو اپنی اصلاح کے بجائے دیگر امور میں مشغول کردیتاہے وہ تاریکیوں میں سر گرداں رہ جاتا ہے اور ہلاکتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔شیاطین اسے سر کشی میں کھینچ لے جاتے ہیں اور اس کے برے اعمال کو آراستہ بنا کر پیش کردیتے ہیں۔ یاد رکھو جنت سبقت کرنے والوں کی آخری منزل ہے اورجہنم کوتاہی کرنے والوں کا آخری ٹھکانا۔

بندگان خدا! یاد رکھوکہ تقویٰ عزت کا ایک محفوظ ترین قلعہ ہے اورفسق وفجور ذلت کا بد ترین ٹھکانا ہے جونہ اپنے اہل کوبچا سکتا ے اورنہ پناہ مانگنے والوں کو پناہ دے سکتا ہے۔

۲۷۶

أَلَا وبِالتَّقْوَى تُقْطَعُ حُمَةُ الْخَطَايَا - وبِالْيَقِينِ تُدْرَكُ الْغَايَةُ الْقُصْوَى.

عِبَادَ اللَّه اللَّه اللَّه فِي أَعَزِّ الأَنْفُسِ عَلَيْكُمْ وأَحَبِّهَا إِلَيْكُمْ - فَإِنَّ اللَّه قَدْ أَوْضَحَ لَكُمْ سَبِيلَ الْحَقِّ وأَنَارَ طُرُقَه - فَشِقْوَةٌ لَازِمَةٌ أَوْ سَعَادَةٌ دَائِمَةٌ - فَتَزَوَّدُوا فِي أَيَّامِ الْفَنَاءِ لأَيَّامِ الْبَقَاءِ - قَدْ دُلِلْتُمْ عَلَى الزَّادِ وأُمِرْتُمْ بِالظَّعْنِ - وحُثِثْتُمْ عَلَى الْمَسِيرِ - فَإِنَّمَا أَنْتُمْ كَرَكْبٍ وُقُوفٍ لَا يَدْرُونَ - مَتَى يُؤْمَرُونَ بِالسَّيْرِ - أَلَا فَمَا يَصْنَعُ بِالدُّنْيَا مَنْ خُلِقَ لِلآخِرَةِ - ومَا يَصْنَعُ بِالْمَالِ مَنْ عَمَّا قَلِيلٍ يُسْلَبُه - وتَبْقَى عَلَيْه تَبِعَتُه وحِسَابُه.

عِبَادَ اللَّه - إِنَّه لَيْسَ لِمَا وَعَدَ اللَّه مِنَ الْخَيْرِ مَتْرَكٌ - ولَا فِيمَا نَهَى عَنْه مِنَ الشَّرِّ مَرْغَبٌ.

عِبَادَ اللَّه - احْذَرُوا يَوْماً تُفْحَصُ فِيه الأَعْمَالُ - ويَكْثُرُ فِيه الزِّلْزَالُ وتَشِيبُ فِيه الأَطْفَالُ.

یاد رکھو تقویٰ ہی سے گناہوں کے ڈنک کاٹے جاتے(۱) ہیں۔اور یقین ہی سے بلند ترین منزل حاصل کی جاتی ہے۔

بندگان خدا! اپنے عزیز ترین نفس کے بارے میں اللہ کو ید رکھو کہ اس نے تمہارے لئے راہحق کو واضح کردیا ہے اوراس کے راستوں کو منور بنادیا ہے۔پھر یا دائمی شقاوت ہے یا ابدی سعادت۔مناسب یہ ہے کہ فناکے گھرسے بقا کے گھر کاسامان فراہم کرلو۔زاد راہ تمہیں بتا دیا گیا ہے اور کوچ کاحکم دیا جا چکا ہے اور سفر پرآمادہ کیا جا چکا ہے۔تم سر راہ ٹھہرے ہوئے قافلہ کے مانند ہو جسے یہ نہیں معلوم ہے کہ کب حکم سفردے دیا جائے گا۔

ہوشیار ہو جائو! جو آخرت کے لئے بنایا گیا ہے وہدنیا کو لے کر کیا کرے گا اور جس سے مال عنقریب چھن جانے والا ہے وہ مال سے دل لگا کرکیا کرے گا جب کہ اس کے اثرات اورحسابات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

بندگان خدا ! یاد رکھو خدانے جس بھلائی کاوعدہ کیا ہے اسے چھوڑا نہیں جا سکتا ہے اور جس برائی سے روکا ہے اس کی خواہش نہیں کی جا سکتی ہے۔

بندگان خدا! اس دن سے ڈرو جب اعمال کی جانچ پڑتا کی جائے گی اورزلزلوں کی بہتات ہوگی کہ بچے تک بوڑھے ہو جائیں گے۔

(۱) حقیقت امر یہ ہیکہ گناہوں میں ڈنک پائے جاتے ہیں جو انسان کے کردار کو مسلسل زخمی کرتے رہتے ہیں لیکن انسان اس قدر بے حس ہوگیا ہے کہاسے اس زخم کا احساس نہیں ہوتا ہے اوروہ اس ڈنک میں بھی لذت محسوس کرتا ہے۔امیر المومنین نے اس ڈنک کو کاٹ دینے کا بہترین ذریعہ تقویٰ کو قراردیاہے جس کے بعد گناہوں میں زخمی بنانے کی ہمت نہیں رہ جاتی ہے اور انسان کردار کی ہر طرح کی مجروجیت سے محفوظ ہوجاتا ہے۔

۲۷۷

اعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه - أَنَّ عَلَيْكُمْ رَصَداً مِنْ أَنْفُسِكُمْ - وعُيُوناً مِنْ جَوَارِحِكُمْ - وحُفَّاظَ صِدْقٍ يَحْفَظُونَ أَعْمَالَكُمْ وعَدَدَ أَنْفَاسِكُمْ - لَا تَسْتُرُكُمْ مِنْهُمْ ظُلْمَةُ لَيْلٍ دَاجٍ - ولَا يُكِنُّكُمْ مِنْهُمْ بَابٌ ذُو رِتَاجٍ - وإِنَّ غَداً مِنَ الْيَوْمِ قَرِيبٌ.

يَذْهَبُ الْيَوْمُ بِمَا فِيه - ويَجِيءُ الْغَدُ لَاحِقاً بِه - فَكَأَنَّ كُلَّ امْرِئٍ مِنْكُمْ - قَدْ بَلَغَ مِنَ الأَرْضِ مَنْزِلَ وَحْدَتِه ومَخَطَّ حُفْرَتِه - فَيَا لَه مِنْ بَيْتِ وَحْدَةٍ - ومَنْزِلِ وَحْشَةٍ ومُفْرَدِ غُرْبَةٍ - وكَأَنَّ الصَّيْحَةَ قَدْ أَتَتْكُمْ - والسَّاعَةَ قَدْ غَشِيَتْكُمْ - وبَرَزْتُمْ لِفَصْلِ الْقَضَاءِ - قَدْ زَاحَتْ عَنْكُمُ الأَبَاطِيلُ - واضْمَحَلَّتْ عَنْكُمُ الْعِلَلُ – واسْتَحَقَّتْ بِكُمُ الْحَقَائِقُ - وصَدَرَتْ بِكُمُ الأُمُورُ مَصَادِرَهَا - فَاتَّعِظُوا بِالْعِبَرِ - واعْتَبِرُوا بِالْغِيَرِ وانْتَفِعُوا بِالنُّذُرِ.

یاد رکھو اے بند گان خدا!کہ تم پرتمہارے ہی نفس(۱) کونگراں بنایا گیا ہے اور تمہارے اعضاء و جوارح تمہارے لئے جاسوسوں کا کام کر رہے ہیں اور کچھ بہترین محافظ ہیں جو تمہارے اعمال اور تمہاری سانسوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ان سے نہ کسیتاریک رات کی تاریکی چھپا سکتی ہے اور نہب ند دروازے ان سے اوجھل بنا سکتے ہیں۔اور کل آنے والا دن آج سے بہت قریب ہے۔

آج کا دن اپنا سازو سامان لے کرچلا جائے گا اور کل کادن اس کے پیچھے آرہا ہے ۔گویاہر شخص زمین میں اپنی تنہائی کی منزل اورگڑھے کے نشان تک پہنچ چکاہے۔ہائے وہ تنہائی کا گھر۔وحشت کی منزل اور غربت کامکان۔گویا کہ آوازتم تک پہنچ چکی ہے اور قیامت تمہیں اپنے گھیرے میں لے چکی ہے اور تمہیں آخری فیصلہ کے لئے قبروں سے نکالا جا چکا ہے۔جہاں تمام باطل باتیں ختم ہو چکی ہیں اور تمام حیلے بہانے کمزور پڑ چکے ہیں' حقائق ثابت ہو چکے ہیں اور امور پلٹ کر اپنی منزل پر آگئے ہیں۔ لہٰذا عبرتوں سے نصیحت حاصل کرو۔تغیرات زمانہ سے عبرت کا سامان فراہم کرو اور پھر ڈرانے والے کی نصیحت سے فائدہ اٹھائو۔

(۱) مالک کائنات نے انسان کی فطرت کے اندر ایک صلاحیت رکھی ہے جس کا کام ہے نیکیوں پر سکون و اطمینان کا سامان فراہم کرنا اور برائیوں پرتنبیہ اورسرزنش کرنا۔عرف عام میں اسے ضمیر سے تعبیر کیا جاتا ہے جو اس وقت بھی بیدار رہتا ہے جب آدمی غفلت کی نیند سو جاتا ہے اور اس وقت بھی مصروف تنبیہ رہتا ہے جب انسان مکمل طور پر گناہ میں ڈوب جاتا ہے۔یہ صلاحیت اپنے مقام پر ہر انسان میں ودیعت کی گئی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اچھائی اور برائی کا ادراک بھی کبھی فطری ہوتا ہے جیسے احسان کی اچھائی اورظلم کی برائی۔اورکبھی اس کا تعلق سماج' معاشرہ یا دین و مذہب سے ہوتا ہے تو جس چیز کومذہب یا سماج اچھا کہہدیتا ہے ضمیر اس سے مطمئن ہو جاتا ہے اور جس چیزکو برا قرار دے دیتا ہے اس پر مذمت کرنے لگتاہے اور اس مدح یاذم کا تعلق فطرت کے احکام سے نہیں ہوتا ہے بلکہ سماج یا قانون کے احکام سے ہوتا ہے۔

۲۷۸

(۱۵۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

ينبه فيها على فضل الرسول الأعظم، وفضل القرآن، ثم حال دولة بني أمية

النبي والقرآن

أَرْسَلَه عَلَى حِينِ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ - وطُولِ هَجْعَةٍ مِنَ الأُمَمِ وانْتِقَاضٍ مِنَ الْمُبْرَمِ - فَجَاءَهُمْ بِتَصْدِيقِ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْه - والنُّورِ الْمُقْتَدَى بِه ذَلِكَ الْقُرْآنُ فَاسْتَنْطِقُوه - ولَنْ يَنْطِقَ ولَكِنْ أُخْبِرُكُمْ عَنْه - أَلَا إِنَّ فِيه عِلْمَ مَا يَأْتِي - والْحَدِيثَ عَنِ الْمَاضِي - ودَوَاءَ دَائِكُمْ ونَظْمَ مَا بَيْنَكُمْ.

دولة بني أمية

ومنها - فَعِنْدَ ذَلِكَ لَا يَبْقَى بَيْتُ مَدَرٍ ولَا وَبَرٍ - إِلَّا وأَدْخَلَه الظَّلَمَةُ تَرْحَةً وأَوْلَجُوا فِيه نِقْمَةً - فَيَوْمَئِذٍ لَا يَبْقَى لَهُمْ فِي السَّمَاءِ عَاذِرٌ - ولَا فِي الأَرْضِ نَاصِرٌ - أَصْفَيْتُمْ بِالأَمْرِ غَيْرَ أَهْلِه وأَوْرَدْتُمُوه غَيْرَ مَوْرِدِه - وسَيَنْتَقِمُ اللَّه مِمَّنْ ظَلَمَ - مَأْكَلًا بِمَأْكَلٍ ومَشْرَباً بِمَشْرَبٍ - مِنْ مَطَاعِمِ الْعَلْقَمِ ومَشَارِبِ الصَّبِرِ والْمَقِرِ - ولِبَاسِ شِعَارِ الْخَوْفِ ودِثَارِ السَّيْفِ - وإِنَّمَا هُمْ مَطَايَا الْخَطِيئَاتِ

(۱۵۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رسول اکرم (ص) کی بعثت اورقرآن کی فضیلت کے ساتھ بنی امیہ کی حکومت کاذکر کیاگیا ہے)

اللہ نے پیغمبر کو اس وقت بھیجا جب رسولوں کا سلسلہ رکاہوا تھا اور قومیں گہری نیند میں مبتلا تھیں۔اوردین کی مستحکم رسی کے بل کھل چکے تھے۔آپ نے آکر پہلے والوں کی تصدیق کی اوروہ نور پش کیا جس کی اقتداکی جائے ۔اور یہی قرآن ہے۔اسے بلوا کر دیکھو اور یہ خود نہیں بولے گا۔میں اس کی طرف سے ترجمانی کروں گا۔یاد رکھو کہ اس میں مستقبل کا علم ہے اورماضی کی داستان ہے تمہارے درد کی دوا ے اور تمہارے امورکی تنظیم کا سامان ہے

(اس کا دوسراحصہ) اس وقت کوئی شہری یا دیہاتی مکان ایسا نہ بچے گا جس میں ظالم غم و الم کوداخل نہ کردیں اور اس میں سختیوں کا گزر نہ ہو جائے ۔اس وقت ان کے لئے نہ آسمان میں کوئی عذرخواہی کرنے والا ہوگا اور نہ ز مین میں مدد گار۔تم نے اس امر کے لئے نا اہلوں کا انتخاب کیا ہے اور انہیں دوسرے کے گھاٹ پر اتار دیا ہے اور عنقریب خدا ظالموں سے انتقام لے لے گا۔کھانے کے بدلے میں کھانے سے اور پینے کے بدلے میں پینے سے ۔خنظل کاکھانا اور ایلوا کا اور زہرہلا ہل کا پینا۔خوف کا اندرونی لباس اور تلوارکا باہر کا لباس ہوگا۔یہ ظالم خطائوں

۲۷۹

وزَوَامِلُ الآثَامِ - فَأُقْسِمُ ثُمَّ أُقْسِمُ - لَتَنْخَمَنَّهَا أُمَيَّةُ مِنْ بَعْدِي كَمَا تُلْفَظُ النُّخَامَةُ - ثُمَّ لَا تَذُوقُهَا ولَا تَطْعَمُ بِطَعْمِهَا أَبَداً - مَا كَرَّ الْجَدِيدَانِ !

(۱۵۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يبين فيها حسن معاملته لرعيته

ولَقَدْ أَحْسَنْتُ جِوَارَكُمْ - وأَحَطْتُ بِجُهْدِي مِنْ وَرَائِكُمْ - وأَعْتَقْتُكُمْ مِنْ رِبَقِ الذُّلِّ وحَلَقِ الضَّيْمِ - شُكْراً مِنِّي لِلْبِرِّ الْقَلِيلِ - وإِطْرَاقاً عَمَّا أَدْرَكَه الْبَصَرُ - وشَهِدَه الْبَدَنُ مِنَ الْمُنْكَرِ الْكَثِيرِ.

(۱۶۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عظمة اللَّه

أَمْرُه قَضَاءٌ وحِكْمَةٌ ورِضَاه أَمَانٌ ورَحْمَةُ - يَقْضِي بِعِلْمٍ ويَعْفُو بِحِلْمٍ.

حمد اللَّه

اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى مَا تَأْخُذُ

کی سواریاں اور گناہوں کے باربردار اونٹ ہیں۔لہٰذا میں باربار قسم کھاکر کہتا ہوں کہ بنی امیہ میرے بعد اس خلافت کو اس طرح تھوک دیں گے جس طرح بلغم کو تھوک دیا جاتا ہے اور پھر جب تک شب و روزباقی ہیں اس کامزہ چکھنا اور اس سے لذت حاصل کرنا نصیب نہ ہوگا

(۱۵۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رعایا کے ساتھ اپنے حسن سلوک کا ذکر فرمایا ہے )

میں تمہارے ہمسایہ میں نہایت درجہ خوبصورتی کے ساتھ رہا اور جہاں تک ممکن ہواتمہاری حفاظت اورنگہداشت کرتا رہا اور تمہیں لذت کی رسی اور ظلم کے پھندوں سے آزاد کرایا کہ میں تمہاری مختصر نیکی کا شکریہ ادا کر رہا تھا اور تمہاری ان تمام برائیوں کو جنہیں آنکھوں نے دیکھ لیا تھا اس سے چشم پوشی کر رہا تھا۔

(۱۶۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(عظمت پروردگار)

(اس کا امر فیصلہ کن اور سراپا حکمت ہے اور اس کی رضا مکمل امان اور رحمت ہے وہ اپنے علم سے فیصلہ کرتا ہے اور اپنے حلم کی بنا پرمعاف کردیتا ہے )

(حمد خدا)

پروردگار تیرے لئے ان تمام چیزوں پرحمد ہے جنہیں تولے

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863