نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 630141
ڈاؤنلوڈ: 15074

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 630141 / ڈاؤنلوڈ: 15074
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

وتُعْطِي - وعَلَى مَا تُعَافِي وتَبْتَلِي – حَمْدا يَكُونُ أَرْضَى الْحَمْدِ لَكَ - وأَحَبَّ الْحَمْدِ إِلَيْكَ وأَفْضَلَ الْحَمْدِ عِنْدَكَ.حَمْداً يَمْلأُ مَا خَلَقْتَ ويَبْلُغُ مَا أَرَدْتَ - حَمْداً لَا يُحْجَبُ عَنْكَ ولَا يُقْصَرُ دُونَكَ.

حَمْداً لَا يَنْقَطِعُ عَدَدُه ولَا يَفْنَى مَدَدُه - فَلَسْنَا نَعْلَمُ كُنْه عَظَمَتِكَ - إِلَّا أَنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ حَيٌّ قَيُّومُ - لَا تَأْخُذُكَ سِنَةٌ ولَا نَوْمٌ - لَمْ يَنْتَه إِلَيْكَ نَظَرٌ ولَمْ يُدْرِكْكَ بَصَرٌ - أَدْرَكْتَ الأَبْصَارَ وأَحْصَيْتَ الأَعْمَالَ - وأَخَذْتَ بِالنَّوَاصِي والأَقْدَامِ –

ومَا الَّذِي نَرَى مِنْ خَلْقِكَ - ونَعْجَبُ لَه مِنْ قُدْرَتِكَ - ونَصِفُه مِنْ عَظِيمِ سُلْطَانِكَ - ومَا تَغَيَّبَ عَنَّا مِنْه وقَصُرَتْ أَبْصَارُنَا عَنْه - وانْتَهَتْ عُقُولُنَا دُونَه - وحَالَتْ سُتُورُ الْغُيُوبِ بَيْنَنَا وبَيْنَه أَعْظَمُ - فَمَنْ فَرَّغَ قَلْبَه وأَعْمَلَ فِكْرَه

لیتا ہے یاعطا کردیتا ہے اور جن بلائوں سے نجات دے دیتا ہے یا جن میں مبتلا کردیتا ہے۔ایسی حمد جو تیرے لئے انتہائی پسندیدہ ہو اور محبوب ترین ہواور بہترین ہو۔ ایسی حمد جو ساری کائنات کو مملو کردے اور جہاںتک چاہے پہنچ جائے۔اورایسی حمد جس کے سامنے نہ کوئی حاجب ہو اور نہ تیری بارگاہ تک پہنچنے سے قاصر ہو۔

وہ حمد جس کا سلسلہ رک نہ سکے اورجس کی مدت تمام نہ ہوسکے ۔ہم تیری عظمت کی حقیقت سے با خبر نہیں ہیں لیکن یہ جانتے ہیں کہ تو ہمیشہ زندہ ہے اور ہر شے تیرے ارادہ سے قام ہے۔تیرے لئے نہ نیند ہے اورنہ اونگھ نہ کوئی نظر تجھ تک پہنچ سکتی ہے اور نہ کوئی نگاہ تیرا ادراک کر سکتی ہے۔تونے تمام نگاہوں کا ادراک کرلیا ہے اورتمام اعمال کو شمارکرلای ہے۔ہرایک کی پیشانی اورقدم سب تیرے ہی قبضہ میں ہیں۔

ہم تیری جس خلقت(۱) کامشاہدہ کر رہے ہیں اور جس قدرت سے تعجب کر رہے ہیں اور جس عظیم سلطنت کی توصیف کر رہے ہیں اس کی حقیقت کیاہے۔ وہ مخلوقات جو ہماری نگاہوں سے غائب ہے اورجہاں تک ہماری نگاہ نہیں پہنچ سکتی ہے اور جس کے قریب جا کر ہماری عقل ٹھہر گئی ہے اور جہاں غیب کے پردے حائل ہوگئے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ عظیم تر ہے۔لہٰذا جو اپنے دل کو فارغ کرلے اور اپنی فکر کواستعمال کرے تاکہ یہ

(۱) جب انسان انہیں مخلوقات کی حقیقت کے ادراک سے عاجز ہے جو نگاہوں کے سامنے آرہی ہیں اور جواحساس کے حدود کے اندر ہیں تو ان مخلوقات کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جو انسانی حواس کی زد سے باہر ہیں اور جن تک عق بشر کی رسائی ہیں ہے اور جب مخلوقات کی حقیقت تک انسانی فکرکی رسائی نہیں ہے تو خالق کی حقیقت کا عرفان کس طرح ممکن ہے اور انسان اس کی حمد کا حق کس طرح ادا کر سکتا ہے۔

۲۸۱

لِيَعْلَمَ كَيْفَ أَقَمْتَ عَرْشَكَ وكَيْفَ ذَرَأْتَ خَلْقَكَ - وكَيْفَ عَلَّقْتَ فِي الْهَوَاءِ سَمَاوَاتِكَ - وكَيْفَ مَدَدْتَ عَلَى مَوْرِ الْمَاءِ أَرْضَكَ رَجَعَ طَرْفُه حَسِيراً - وعَقْلُه مَبْهُوراً وسَمْعُه وَالِهاً وفِكْرُه حَائِراً.

كيف يكون الرجاء

منها - يَدَّعِي بِزَعْمِه أَنَّه يَرْجُو اللَّه كَذَبَ والْعَظِيمِ - مَا بَالُه لَا يَتَبَيَّنُ رَجَاؤُه فِي عَمَلِه - فَكُلُّ مَنْ رَجَا عُرِفَ رَجَاؤُه فِي عَمَلِه – وكُلُّ رَجَاءٍ إِلَّا رَجَاءَ اللَّه تَعَالَى فَإِنَّه مَدْخُولٌ - وكُلُّ خَوْفٍ مُحَقَّقٌ إِلَّا خَوْفَ اللَّه فَإِنَّه مَعْلُولٌ - يَرْجُو اللَّه فِي الْكَبِيرِ ويَرْجُو الْعِبَادَ فِي الصَّغِيرِ - فَيُعْطِي الْعَبْدَ مَا لَا يُعْطِي الرَّبَّ -

دریافت کرس کے کہ تو نے اپنے عرش کو کس طرح قائم کیا ہے۔اپنی مخلوقات کو کس طرح ایجاد کیا ہے اور فضائے بسیط میں کس طرح آسمانوں کو معلق کیا ہے۔اور پانی کی موجوں پرکس طرح زمین کا فرش بچھایاہے تواس کی نگاہ تھک کر پلٹ آئے گی اور عقل مدہوش ہو جائے گی اور کان حیران و سراسیمہ ہو جائیں گے اور فکر راستہ گم کردے گی۔

اسی خطبہ کا ایک حصہ

بعض افراد کا اپنے زعم ناقص میں دعویٰ ہے کہ وہ رحمت خدا کے امید وار ہیں حالانکہ خدائے عظیم گواہ ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں آخرکیا وجہ ہے کہ ان کی امید کی جھلک ان کے اعمال میں نظر نہیں آتی ہے جب کہ ہر امیدوار کی امید اس کے اعمال سے واضح ہو جاتی ہے سوائے پروردگار سے لو لگانے کے کہ یہی امید مشکوک ہے اور اسی طرح ہرخوف ثابت ہو جاتاہے سوائے خوف خداکے کہ یہی غیر یقینی ہے۔انسان اللہ سے بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہے اوربندوں سے چھوٹی امیدیں رکھتا ہے لیکن بندوں کو وہ سارے آداب(۱) و حقوق دے دیتا ہے جو پروردگار

(۱) انسان کی نجات وآخرت کے دو بنیادی رکن ہیں۔ایک خوف اورایک امید۔اسلام نے قدم قدم پر انہیں دو چیزوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور انہیں ایمان اور عمل کاخلاصہ قراردیا ہے۔سورہ مبارکہ حمد جس میں سارا قرآن سمٹا ہوا ہے۔اس میں بھی رحمان و رحیم امید کا اشارہ ہے اور مالک یوم الدین خوف کا لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ انسان نہ واقعاًخداسے امید رکھتا ہے اورنہ اس سے خوف زدہ ہوتا ہے۔امیدوار ہوتا تو دعائوں اورعبادتوں میں دل لگتا کہ ان میں طلب ہی طلب پائی جاتی ہے اورخوف زدہ ہوتا توگناہوں سے پرہیز کرتا کہ گناہ ہی انسان کو عذاب الیم سے دوچار کردیتے ہیں۔

دنیا کی ہر امید اور اس کے ہرخوف کا کردار سے نمایاں ہوجانا اور آخرت کی امید وہم کا واضح نہہونا اس بات کی علامت ہے کہ دنیا اس کے کردارمیں ایک حقیقت ہے اورآخرت صرف الفاظ کامجموعہ اورتلفظ کی بازی گری ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۲۸۲

فَمَا بَالُ اللَّه جَلَّ ثَنَاؤُه يُقَصَّرُ بِه عَمَّا يُصْنَعُ بِه لِعِبَادِه - أَتَخَافُ أَنْ تَكُونَ فِي رَجَائِكَ لَه كَاذِباً - أَوْ تَكُونَ لَا تَرَاه لِلرَّجَاءِ مَوْضِعاً - وكَذَلِكَ إِنْ هُوَ خَافَ عَبْداً مِنْ عَبِيدِه - أَعْطَاه مِنْ خَوْفِه مَا لَا يُعْطِي رَبَّه

فَجَعَلَ خَوْفَه مِنَ الْعِبَادِ نَقْداً - وخَوْفَه مِنْ خَالِقِه ضِمَاراً ووَعْداً - وكَذَلِكَ مَنْ عَظُمَتِ الدُّنْيَا فِي عَيْنِه - وكَبُرَ مَوْقِعُهَا مِنْ قَلْبِه آثَرَهَا عَلَى اللَّه تَعَالَى - فَانْقَطَعَ إِلَيْهَا وصَارَ عَبْداً لَهَا.

رسول اللَّه

ولَقَدْ كَانَ فِي رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَافٍ لَكَ فِي الأُسْوَةِ - ودَلِيلٌ لَكَ عَلَى ذَمِّ الدُّنْيَا وعَيْبِهَا - وكَثْرَةِ مَخَازِيهَا ومَسَاوِيهَا - إِذْ قُبِضَتْ عَنْه أَطْرَافُهَا ووُطِّئَتْ لِغَيْرِه أَكْنَافُهَا - وفُطِمَ عَنْ رَضَاعِهَا وزُوِيَ عَنْ زَخَارِفِهَا.

موسى

وإِنْ شِئْتَ ثَنَّيْتُ بِمُوسَى كَلِيمِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حَيْثُ يَقُولُ –( رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ) -

کونہیں دیتا ہے۔تو آخر یہ کیا ہے کہ خدا کے بارے میں اس سلوک سے بھی کوتاہی کی جاتی ہے جو بندوں کے لئے کردیا جاتا ہے۔کیا تمہیں کبھی اس بات کا خوف پیدا ہوا ہے کہ کہیں تم اپنی امیدوں میں جھوٹے تو نہیں ہویا تم اسے محل امید ہی نہیں تصور کرتے ہو ۔

اسی طرح انسان جب کسی بندہ سے خوف زدہ ہوتا ہے تو اسے وہ سارے حقوق دے دیتا ہے جو پروردگار کو بھی نہیں دیتا ہے۔گویا بندوں کے خوف کو نقد تصور کرتا ہے اور خوف خدا کو صرف وعدہ اور ٹالنے کی چیز بنا رکھا ہے۔

یہی حال اس شخص کا بھی ہے جس کی نظر میں دنیا عظیم ہوتی ہے اور اس کے دل میں اس کی جگہ بڑی ہوتی ہے تو وہ دنیا کو آخرت پرمقدم کردیتا ہے۔اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اوراپنے کواس کا بندہ بنا دیتا ہے۔

رسول اکرم (ص)

یقینا رسول اکرم (ص) کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے اوردنیا کی ذلتاور اس کے عیوب کے لئے بہترین رہنما ہے کہ اس میں ذلت و رسوائی کے مقامات بکثرت پائے جاتے ہیں۔دیکھو اس دنیا کے اطراف حضور سے سمیٹ لئے گئے اور غیروں کے لئے ہموار کردئیے گئے۔آپ کو اس کے منافع سے الگ رکھا گیا اور اس کی آرائشوں سے کنارہ کش کردیا گیا۔اور اگر آپکے علاوہ دوسری مثال چاہتے ہو تو وہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی مثال ہے جنہوں نے خدا کی بارگاہ میں گزارش کی کہ'' پروردگار میں تیری طرف نازل ہونے والے خیر کا محتاج ہوں ''

۲۸۳

واللَّه مَا سَأَلَه إِلَّا خُبْزاً يَأْكُلُه - لأَنَّه كَانَ يَأْكُلُ بَقْلَةَ الأَرْضِ - ولَقَدْ كَانَتْ خُضْرَةُ الْبَقْلِ تُرَى مِنْ شَفِيفِ صِفَاقِ بَطْنِه - لِهُزَالِه وتَشَذُّبِ لَحْمِه

داود

وإِنْ شِئْتَ ثَلَّثْتُ بِدَاوُدَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صَاحِبِ الْمَزَامِيرِ وقَارِئِ أَهْلِ الْجَنَّةِ - فَلَقَدْ كَانَ يَعْمَلُ سَفَائِفَ الْخُوصِ بِيَدِه - ويَقُولُ لِجُلَسَائِه أَيُّكُمْ يَكْفِينِي بَيْعَهَا - ويَأْكُلُ قُرْصَ الشَّعِيرِ مِنْ ثَمَنِهَا.

عيسى

وإِنْ شِئْتَ قُلْتُ فِي عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَعليه‌السلام - فَلَقَدْ كَانَ يَتَوَسَّدُ الْحَجَرَ - ويَلْبَسُ الْخَشِنَ ويَأْكُلُ الْجَشِبَ - وكَانَ إِدَامُه الْجُوعَ وسِرَاجُه بِاللَّيْلِ الْقَمَرَ - وظِلَالُه فِي الشِّتَاءِ مَشَارِقَ الأَرْضِ ومَغَارِبَهَا - وفَاكِهَتُه ورَيْحَانُه مَا تُنْبِتُ الأَرْضُ لِلْبَهَائِمِ - ولَمْ تَكُنْ لَه زَوْجَةٌ تَفْتِنُه ولَا وَلَدٌ يَحْزُنُه - ولَا مَالٌ يَلْفِتُه ولَا طَمَعٌ يُذِلُّه - دَابَّتُه رِجْلَاه وخَادِمُه يَدَاه.

الرسول الأعظم

فَتَأَسَّ بِنَبِيِّكَ الأَطْيَبِ الأَطْهَرِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَإِنَّ فِيه أُسْوَةً لِمَنْ تَأَسَّى

لیکن خدا گواہ ہے کہ انہوں نے ایک لقمہ نان کے علاوہ کوئی سوال نہیں کیا۔وہ زمین کی سبزی کھا لیا کرتے تھے اور اسی لئے ان کے شکم کی نرم و نازک کھال سے سبزی کا رنگ نظر آیا کرتا تھا کہ وہ انتہائی لاغر ہوگئے تھے اور ان کا گوشت گل گیا تھا۔

تیسری جناب دائود کی ہے جو صاحب زبور اورقاری اہل جنت تھے۔مگر وہ اپنے ہاتھ سے کھجور کے پتوں سے توکریاں بنایاکرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے کہ کون ایسا ہے جو مجھے ان کے فروختکرنے میں مدد دے اور پھر انہیں بیچ کر جو کی روٹیاں کھالیا کرتے تھے۔ اس کے بعد چاہو تو میں عیسی بن مریم کی زندگی کا حال بیان کروں۔جو پتھروں پرتکیہ کرتے تھے ۔ کھردار لباس پہنتے تھے اور معمولی غذا پر گزارا کیا کرتے تھے۔ان کے کھانے میں سالن کی جگہ بھوک تھی اور رات میں چراغ کے بدلے چاند کی روشنی تھی۔سردی میں سایہ کے بدلے مشرق و مغرب کا آسمانی سائبان تھا۔ان کے میوے اور پھول وہ نباتات تھے جو جانوروں کے کام آتے ہیں۔ان کے پاس کوئی زوجہ نہ تھی جو انہیں مشغول کر لیتی اورنہ کوئی اولاد تھی جس کا رنج و غم ہوتا اور نہ کوئی مال تھا جو اپنی طرف متوجہ کر لیتا اور نہ کوئی طمع تھی جو ذلت کا شکار بنا دیتی ۔ان کے پیر ان کی سواری تھے اور ان کے ہاتھ ان کے خادم ۔

رسول اکرم (ص)

تم لوگاپنے طیب و طاہر پیغمبر کا اتباع کرو کہ ان کی زندگی میں پیروی کرنے والے کے لئے بہترین نمونہ اور

۲۸۴

وعَزَاءً لِمَنْ تَعَزَّى - وأَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللَّه الْمُتَأَسِّي بِنَبِيِّه - والْمُقْتَصُّ لأَثَرِه - قَضَمَ الدُّنْيَا قَضْماً ولَمْ يُعِرْهَا طَرْفاً - أَهْضَمُ أَهْلِ الدُّنْيَا كَشْحاً - وأَخْمَصُهُمْ مِنَ الدُّنْيَا بَطْناً - عُرِضَتْ عَلَيْه الدُّنْيَا فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَهَا - وعَلِمَ أَنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَبْغَضَ شَيْئاً فَأَبْغَضَه - وحَقَّرَ شَيْئاً فَحَقَّرَه وصَغَّرَ شَيْئاً فَصَغَّرَه - ولَوْ لَمْ يَكُنْ فِينَا إِلَّا حُبُّنَا مَا أَبْغَضَ اللَّه ورَسُولُه - وتَعْظِيمُنَا مَا صَغَّرَ اللَّه ورَسُولُه - لَكَفَى بِه شِقَاقاً لِلَّه ومُحَادَّةً عَنْ أَمْرِ اللَّه - ولَقَدْ كَانَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَأْكُلُ عَلَى الأَرْضِ - ويَجْلِسُ جِلْسَةَ الْعَبْدِ ويَخْصِفُ بِيَدِه نَعْلَه - ويَرْقَعُ بِيَدِه ثَوْبَه ويَرْكَبُ الْحِمَارَ الْعَارِيَ - ويُرْدِفُ خَلْفَه - ويَكُونُ السِّتْرُ عَلَى بَابِ بَيْتِه فَتَكُونُ فِيه التَّصَاوِيرُ فَيَقُولُ - يَا فُلَانَةُ لإِحْدَى أَزْوَاجِه غَيِّبِيه عَنِّي - فَإِنِّي إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْه ذَكَرْتُ الدُّنْيَا وزَخَارِفَهَا - فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْيَا بِقَلْبِه وأَمَاتَ ذِكْرَهَا مِنْ نَفْسِه - وأَحَبَّ أَنْ تَغِيبَ زِينَتُهَا عَنْ عَيْنِه

صبرو سکون کے طلب گاروں کے لئے بہترین سامان صبرو سکون ہے۔اللہ کی نظر میں محبوب ترین بندہ وہ ہے جو اس کے پیغمبر کا اتباع کرے اور ان کے نقش قدم پر آگے بڑھائے۔انہوںنے دنیا سے صرف مختصر غذا حاصل کی اور اسے نظر بھرکردیکھا بھی نہیں ۔ساری دنیا میں سب سے زیادہ خالی شکم اور شکم تہی میں بسر کرنے والے وہی تھے ان کے سامنے دنیا پیش کی گئی تو اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور یہ دیکھ لیا کہ پروردگار اسے پسند نہیں کرتا ہے تو خود بھی نا پسند کیا اور خداحقیر سمجھتا ہے توخود بھی حقیر سمجھا اور اس نے چھوٹا بنا دیا ہے تو خودب ھی چھوٹا ہی قراردیا۔اور اگر ہم میں اس کے علاوہ کوئی عیب نہ ہوتا کہ ہم خدا و رسول (ص) کے مبغوض کو محبوب سمجھنے لگے ہیں اور خدا و رسول (ص) کی نگاہ میں صغیر و حقیر کو عظیم سمجھنے لگے ہیں تو یہی عیب خدا کی مخالفت اور اسکے حکم سے انحراف کے لئے کافی تھا۔دیکھو پیغمبر اکرم (ص) ہمیشہ زمین پر بیٹھ کر کھاتے تھے۔غلاموں کے انداز سے بیٹھتے تھے اور کسی نہ کسی کو ساتھ بٹھا بھی لیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اپنے مکان کے دروازہ پر ایسا پردہ دیکھ لیا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں تو ایک زوجہ(۱) سے فرمایا کہ خبر دار اسے ہٹائو۔میں اس کی طرف دیکھوں گا تو دنیا اور اس کی آرائش یاد آئے گی۔

(۱) واضح رہے کہ اس واقعہ کا تعلق ازواج کی زندگی اور ان کے گھروں سے ہے۔اس کی اہل بیت کے گھر سے کوئی تعلق نہیں ہے جسے بعض راویوں نے اہل بیت کی طرف موڑ دیا ہے تاکہ ان کی زندگی میں بھی عیش و عشرت کا اثبات کر سکیں۔جب کہ اہل بیت کی زندگی تاریخ اسلام میں مکمل طور پر آئینہ ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ ان حضرات نے تمام تر اختیارات کے باوجود اپنی زندگی انتہائی سادگی سے گزار دی ہے اور سارا مال دنیا راہ خدامیں صرف کردیا ہے۔

۲۸۵

لِكَيْلَا يَتَّخِذَ مِنْهَا رِيَاشاً ولَا يَعْتَقِدَهَا قَرَاراً - ولَا يَرْجُوَ فِيهَا مُقَاماً فَأَخْرَجَهَا مِنَ النَّفْسِ - وأَشْخَصَهَا عَنِ الْقَلْبِ وغَيَّبَهَا عَنِ الْبَصَرِ - وكَذَلِكَ مَنْ أَبْغَضَ شَيْئاً أَبْغَضَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَيْه - وأَنْ يُذْكَرَ عِنْدَه.

ولَقَدْ كَانَ فِي رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - مَا يَدُلُّكُ عَلَى مَسَاوِئِ الدُّنْيَا وعُيُوبِهَا - إِذْ جَاعَ فِيهَا مَعَ خَاصَّتِه - وزُوِيَتْ عَنْه زَخَارِفُهَا مَعَ عَظِيمِ زُلْفَتِه -

فَلْيَنْظُرْ نَاظِرٌ بِعَقْلِه – أَكْرَمَ اللَّه مُحَمَّداً بِذَلِكَ أَمْ أَهَانَه - فَإِنْ قَالَ أَهَانَه فَقَدْ كَذَبَ واللَّه الْعَظِيمِ بِالإِفْكِ الْعَظِيمِ - وإِنْ قَالَ أَكْرَمَه - فَلْيَعْلَمْ أَنَّ اللَّه قَدْ أَهَانَ غَيْرَه حَيْثُ بَسَطَ الدُّنْيَا لَه - وزَوَاهَا عَنْ أَقْرَبِ النَّاسِ مِنْه - فَتَأَسَّى مُتَأَسٍّ بِنَبِيِّه - واقْتَصَّ أَثَرَه ووَلَجَ مَوْلِجَه

آپ نے دنیا سے دل سے کنارہ کشی فرمائی اور اس کی یاد کو اپنے دل سے محو کردیا اور یہ چاہاکہ اس کی زینت نگاہوں سے دور رہے تاکہ نہ بہترین لباس بنائیں اور نہ اسے پانے دل میں جگہ دیں اور نہ اس دنیا میں کسی مقام کی آرزو کریں۔آپ نے دنیا کو نفس سے نکال دیا اور دل سے دور کردیا اور نگاہوں سے بھی غائب کردیا اور یہی ہر انسان کا اصول ہے کہ جس چیز کو نا پسند کرتا ہے اس کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتا ہے اور اس کے ذکر کوبھی نا پسند کر تا ہے۔یقینا رسول (ص) اللہ کی زندگی میں وہ ساری باتیں پائی جاتی ہیں جو دنیا کے عیوب اور اس کی خرابیوں کی نشاندہی کر سکتی ہیں کہ آپ نے اپنے گھر والوں سمیت بھوکا رہنا گوارا کیا ے اورخدا کی بارگاہ میں انتہائی تقرب کے باوجود دنیا کی زینتوں کو آپ سے الگ رکھا گیا ہے۔

اب ہر انسان کو نگاہ عقل سے دیکھنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ اس صورت حال اور اس طرح کی زندگی سے پروردگار نے اپنے پیغمبر (ص) کو عزت دی ہے یا انہیں ذلیل بنایا ہے۔اگر کسی کا خیال یہ ہے کہ ذلیل بنایا ہے تو وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے اور اگر احساس یہ ہے کہ عزت دی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اللہ نے اس کے لئے دنیا کو فرش کردیا ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اسے ذلیل بنا دیا ہے کہ اپنے قریب ترین بندہ سے اسے دور رکھا تھا ۔اب ہر شخص کو رسول اکرم (ص) کا اتباع کرنا چاہیے۔ان کا نقش قدم پرچلنا چاہیے اور ان کی منزل پر قدم رکھنا چاہیے

۲۸۶

وإِلَّا فَلَا يَأْمَنِ الْهَلَكَةَ - فَإِنَّ اللَّه جَعَلَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَلَماً لِلسَّاعَةِ - ومُبَشِّراً بِالْجَنَّةِ ومُنْذِراً بِالْعُقُوبَةِ - خَرَجَ مِنَ الدُّنْيَا خَمِيصاً ووَرَدَ الآخِرَةَ سَلِيماً - لَمْ يَضَعْ حَجَراً عَلَى حَجَرٍ - حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِه وأَجَابَ دَاعِيَ رَبِّه - فَمَا أَعْظَمَ مِنَّةَ اللَّه عِنْدَنَا - حِينَ أَنْعَمَ عَلَيْنَا بِه سَلَفاً نَتَّبِعُه وقَائِداً نَطَأُ عَقِبَه - واللَّه لَقَدْ رَقَّعْتُ مِدْرَعَتِي هَذِه حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَاقِعِهَا - ولَقَدْ قَالَ لِي قَائِلٌ أَلَا تَنْبِذُهَا عَنْكَ - فَقُلْتُ اغْرُبْ عَنِّي فَعِنْدَ الصَّبَاحِ يَحْمَدُ الْقَوْمُ السُّرَى !

(۱۶۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في صفة النبي وأهل بيته وأتباع دينه، وفيها يعظ بالتقوى

ورنہ ہلاکت سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔پروردگار نے پیغمبر اسلام کو قرب قیامت کی علامت جنت کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنایا ہے۔وہ دنیا سے بھوکے چلے گئے لیکن آخرت میں سلامتی کے ساتھ وارد ہوئے ۔انہوںنے تعمیر کے لئے پتھر(۱) پر پتھر نہیں رکھا اور دنیا سے رخصت ہوگئے اور اپنے پروردگار کیدعوت پر لبیک کہہ دی۔پروردگار کا کتنا عظیم احسان ہے کہ اس نے ہمیں ان کا جیسا رہنما عطا فرمایا ہے جس کا اتباع کیا جائے اور قائد دیا ہے جس کے نقش قدم پر قدم جمائے جائیں۔خداکی قسم میں نے اس قمیض میں اتنے پیوند لگوائے ہیں کہ اب رفو گر کو دیتے ہوئے شرم آنے لگی ہے۔مجھ سے ایک شخص نے یہ بھی کہا تھا کہ اسے پھینک کیوں نہیں دیتے تومیں نے اس سے کہہ دیا کہ مجھ سے دور ہو جا۔'' صبح ہونے کے بعد قوم کو رات میں سفر کرنے کی قدر ہوتی ہے ''

(۱۶۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رسول اکرم (ص) کے صفات ' اہل بیت کی فضیلت اور تقویٰ و اتباع رسول (ص) کی دعوت کا تذکرہ کیا گیا ہے)

(۱) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر مسلمان کوآوارہ وطن اورخانہ بدوش ہوناچاہیے اور خیموں اور چھولداریوں میں زندگی گزار دینا چاہیے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان کو دنیا کی اہمیت و عظمت کا قائل نہیں ہونا چاہیے اور اسے صرف بطور ضرورت اور بقدر ضرورت استعمال کرنا چاہیے وہ مکمل طور سے قبضہ میں آجائے تو انسان کو باعزت نہیں بنا سکتی ہے اور سوفیصد ہی اتھوں سے نکل جائے توذلیل نہیں کر سکتی ہے۔عزت و ذلت کا معیار مال و دولت اورجاہ و منصب نہیں ہے۔اس کامعیار صرف عبادت الٰہی اور اطاعت پروردگار ہے جس کے بعد ملک دنیا کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے۔

۲۸۷

الرسول وأهله وأتباع دينه

ابْتَعَثَه بِالنُّورِ الْمُضِيءِ والْبُرْهَانِ الْجَلِيِّ - والْمِنْهَاجِ الْبَادِي والْكِتَابِ الْهَادِي - أُسْرَتُه خَيْرُ أُسْرَةٍ وشَجَرَتُه خَيْرُ شَجَرَةٍ - أَغْصَانُهَا مُعْتَدِلَةٌ وثِمَارُهَا مُتَهَدِّلَةٌ - مَوْلِدُه بِمَكَّةَ وهِجْرَتُه بِطَيْبَةَ .عَلَا بِهَا ذِكْرُه وامْتَدَّ مِنْهَا صَوْتُه - أَرْسَلَه بِحُجَّةٍ كَافِيَةٍ ومَوْعِظَةٍ شَافِيَةٍ ودَعْوَةٍ مُتَلَافِيَةٍ - أَظْهَرَ بِه الشَّرَائِعَ الْمَجْهُولَةَ - وقَمَعَ بِه الْبِدَعَ الْمَدْخُولَةَ - وبَيَّنَ بِه الأَحْكَامَ الْمَفْصُولَةَ - فَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلَامِ دَيْناً تَتَحَقَّقْ شِقْوَتُه - وتَنْفَصِمْ عُرْوَتُه وتَعْظُمْ كَبْوَتُه - ويَكُنْ مَآبُه إِلَى الْحُزْنِ الطَّوِيلِ والْعَذَابِ الْوَبِيلِ.

وأَتَوَكَّلُ عَلَى اللَّه تَوَكُّلَ الإِنَابَةِ إِلَيْه - وأَسْتَرْشِدُه السَّبِيلَ الْمُؤَدِّيَةَ إِلَى جَنَّتِه - الْقَاصِدَةَ إِلَى مَحَلِّ رَغْبَتِه.

النصح بالتقوى

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه وطَاعَتِه - فَإِنَّهَا النَّجَاةُ غَداً والْمَنْجَاةُ أَبَداً - رَهَّبَ فَأَبْلَغَ ورَغَّبَ فَأَسْبَغَ -

پروردگار نے آپ کو روشن نور۔واضح دلیل۔نمایاں راستہ اور ہدایت کرنے والی کتاب کے ساتھ بھیجا ہے ۔آپ کا خاندان بہترین خاندان اورآپ کا شجرہ بہترین شجرہ ہے۔جس کی شاخیں معتدل ہیں اورثمرات دسترس کے اندر ہیں۔آپ کی جائے ولادت مکہ مکرمہ ہے اور مقام ہجرت ارض طیبہ۔یہیں سے آپ کاذکر بلند ہوا ہے اور یہیں سے آپ کی آواز پھیلی ہے۔پروردگار نے آپ کو کفایت کرنے والی حجت ' شفا دینے والی نصیحت' گذشتہ تمام امور کی تلافی کرنے والی دعوت کے ساتھ بھیجا ہے۔آپ کے ذریعہ غیر معروف شریعتوں کو ظاہر کیاہے اور مہمل بدعتوں کا قلع قمع کردیا ہے اور واضح احکام کو بیان کردیا ہے لہٰذا اب جوبھی اسلام کے علاوہ کسی راستہ کواختیار کرے گا اس کی شقاوت ثابت ہو جائے گی اور ریسمان حیات بکھر جائے گی اور منہ کے بھل گرنا سخت ہو جائے گا اور انجام کار دائمی حزن والم اورشدید ترین عذاب ہوگا۔

میں خدا پراسی طرح بھروسہ کرتا ہوں جس طرح اس کی طرف توجہ کرنے والے کرتے ہیں اور اس سے اس راستہ کی ہدایت طلب کرتا ہوں جو اس کی جنت تک پہنچانے والا اور اس کی منزل مطلوب کی طرف لے جانا والا ہے۔

بند گان خدا !میں تمہیں تقویٰ الٰہی اور اس کی اطاعت کی وصیت کرتاہوں کہ اس میں کل نجات ہے اور یہی ہمیشہ کے لئے مرکزنجات ہے۔اس نے تمہیں

۲۸۸

ووَصَفَ لَكُمُ الدُّنْيَا وانْقِطَاعَهَا - وزَوَالَهَا وانْتِقَالَهَا - فَأَعْرِضُوا عَمَّا يُعْجِبُكُمْ فِيهَا لِقِلَّةِ مَا يَصْحَبُكُمْ مِنْهَا - أَقْرَبُ دَارٍ مِنْ سَخَطِ اللَّه وأَبْعَدُهَا مِنْ رِضْوَانِ اللَّه - فَغُضُّوا عَنْكُمْ عِبَادَ اللَّه غُمُومَهَا وأَشْغَالَهَا - لِمَا قَدْ أَيْقَنْتُمْ بِه مِنْ فِرَاقِهَا وتَصَرُّفِ حَالَاتِهَا - فَاحْذَرُوهَا حَذَرَ الشَّفِيقِ النَّاصِحِ والْمُجِدِّ الْكَادِحِ - واعْتَبِرُوا بِمَا قَدْ رَأَيْتُمْ مِنْ مَصَارِعِ الْقُرُونِ قَبْلَكُمْ - قَدْ تَزَايَلَتْ أَوْصَالُهُمْ - وزَالَتْ أَبْصَارُهُمْ وأَسْمَاعُهُمْ - وذَهَبَ شَرَفُهُمْ وعِزُّهُمْ - وانْقَطَعَ سُرُورُهُمْ ونَعِيمُهُمْ - فَبُدِّلُوا بِقُرْبِ الأَوْلَادِ فَقْدَهَا - وبِصُحْبَةِ الأَزْوَاجِ مُفَارَقَتَهَا - لَا يَتَفَاخَرُونَ ولَا يَتَنَاسَلُونَ - ولَا يَتَزَاوَرُونَ ولَا يَتَحَاوَرُونَ - فَاحْذَرُوا عِبَادَ اللَّه حَذَرَ الْغَالِبِ لِنَفْسِه - الْمَانِعِ لِشَهْوَتِه النَّاظِرِ بِعَقْلِه - فَإِنَّ الأَمْرَ وَاضِحٌ والْعَلَمَ قَائِمٌ - والطَّرِيقَ جَدَدٌ والسَّبِيلَ قَصْدٌ

ڈرایا تو مکمل طور سے ڈرایا اور رغبت دلائی تو مکمل رغبت کا انتظام کیا۔تمہارے لئے دنیا اور اس کی جدائی اس کے زوال اور اس سے انتقال سب کی توصیف کردی ہے لہٰذا اس میں جو چیز اچھی لگے اس سے اعراض کرو کہ ساتھ جانے والی شے بہت کم ہے دیکھو یہ گھر غضب الٰہی سے قری تر اور رضائے الٰہی سے دور تر ہے۔

بند گان خدا! ہم و غم اور اس کے اشغال سے چشم پوشی کرلو کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس سے بہر حال جدا ہونا ہے اور اس کے حالات برابر بدلتے رہتے ہیں۔اس سے اس طرح احتیاط کرو جس طرح ایک خوف زدہ اور اپنے نفس کامخلص اور جانفشانی کے ساتھ کوشش کرنے والا احتیاط کرتا ے اور اس سے عبرت حاصل کرو ان مناظرکے ذریعہ جو تم نے خود دیکھ لئے ہیں کہ گذشتہ نسلیں ہلاک ہوگئیں۔ان کے جوڑ بند الگ الگ ہوگئے۔انکیآنکھیں اور ان کے کان ختم ہوگئے۔ان کی شرافت اورعزت چلی گئی۔ان کی مسرت اورنعمت کاخاتمہ ہوگیا۔اولاد کاقرب فقدان میں تبدیل ہوگیا اور ازواج کی صحبت فراق میں بدل گئی۔اب نہ باہمی مفاخرت رہ گئی ہے اور نہ نسلوں کا سلسلہ ' نہ ملاقاتیں رہ گئی ہیں اورنہ بات چیت۔

لہٰذا بندگان خدا! ڈرو اس شخص کی طرح جو اپنے نفس پرقابو رکھتا ہو۔اپنی خواہشات کو روک سکتا ہو اوراپنی عقل کی آنکھوں سے دیکھتا ہو۔مسئلہ بالکل واضح ہے۔نشانیاں قائم ہیں راستہ سیدھا ہے اور صراط بالکل مستقیم ہے۔

۲۸۹

(۱۶۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لبعض أصحابه وقد سأله: كيف دفعكم قومكم عن هذا المقام وأنتم أحق به فقال:

يَا أَخَا بَنِي أَسَدٍ إِنَّكَ لَقَلِقُ الْوَضِينِ - تُرْسِلُ فِي غَيْرِ سَدَدٍ - ولَكَ بَعْدُ ذِمَامَةُ الصِّهْرِ وحَقُّ الْمَسْأَلَةِ - وقَدِ اسْتَعْلَمْتَ فَاعْلَمْ - أَمَّا الِاسْتِبْدَادُ عَلَيْنَا بِهَذَا الْمَقَامِ - ونَحْنُ الأَعْلَوْنَ نَسَباً والأَشَدُّونَ بِالرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نَوْطاً فَإِنَّهَا كَانَتْ أَثَرَةً شَحَّتْ عَلَيْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ - وسَخَتْ عَنْهَا نُفُوسُ آخَرِينَ - والْحَكَمُ اللَّه والْمَعْوَدُ إِلَيْه الْقِيَامَةُ.

ودَعْ عَنْكَ نَهْباً صِيحَ فِي حَجَرَاتِه

ولَكِنْ حَدِيثاً مَا حَدِيثُ الرَّوَاحِلِ

وهَلُمَّ الْخَطْبَ فِي ابْنِ أَبِي سُفْيَانَ - فَلَقَدْ أَضْحَكَنِي الدَّهْرُ بَعْدَ إِبْكَائِه - ولَا غَرْوَ واللَّه - فَيَا لَه خَطْباً يَسْتَفْرِغُ الْعَجَبَ

(۱۶۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس شخص سے جس نے یہ سوال کرلیا کہ لوگوں نے آپ کو آپ کی منزل سے کس طرح ہٹا دیا)

اے برادر بنی اسد! تم بہت تنگ حوصلہ ہو اورغلط راستہ پر چل پڑے ہو۔لیکن بہرحال تمہیں قرابت(۱) کاحق بھی حاصل ہے اور سوال کا حق بھی ہے اورتم نے در یا فت بھی کرلی ہے تو اب سنو! ہمارے بلند نسب اور رسول اکرم (ص) سے قریب ترین تعلق کے باوجود قوم نے ہم سے اس حق کو اس لئے چھین لیاکہ اس میں ایک خود غرضی تھی جس پرایک جماعت کے نفس مرمٹے تھے اور دوسری جماعت(۲) نے چشم پوشی سے کام لیا تھا لیکن بہرحال حاکم اللہ ہے اور روز قیامت اسی کی بارگاہ میں پلٹ کرجانا ہے۔(اس لوٹ مار کا ذکر چھوڑو جس کا شور(۳) چاروں طرف مچا ہواتھا اب اونٹنیوں کی بات کرو جو اپنے قبضہ میں رہ کرنکل گئی ہیں ) اب آئو اس مصیبت کودیکھو جو ابو سفیان کے بیٹے کی طرف سے آئی ہے کہ زمانہ نے رلانے کے بعد ہنسا دیا ہے اور بخدااس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے تعجب تو اس حادثہ پر ہے

(۱) شاید اس امرکی طرف اشارہ ہو کہ سرکار دو عالم (ص) کی ایک زوجہ زینت جحش اسدی تھیں اور ان کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب آپ کی پھوپھی تھیں۔

(۲) اس میں دونوں احتمالات پائے جاتے ہیں۔یا اس قوم کی طرف اشارہ ہے جس نے حق اہل بیت کا تحفظ نہیں کیا اور تغافل سے کام لیا۔یا خود اپنے کردار کی بلندی کی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے بھی چشم پوشی سے کام لیا اور مقابلہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اس طرح ظالموں نے منصب پر مکمل طور سے قبضہ کرلیا۔

(۳) یہ امرء القیس کامصرع ہے جب اس کے باپ کو قتل کردیا گیا تو وہ انتقام کے لئے قبائل کی کمک تلاش کر رہا تھا۔ایک مقام پر مقیم تھاکہ لوگ اس کے اونٹ پکڑ لے گئے۔اس نے میزبان سے فریاد کی میزبان نے کہا کہ میں ابھی واپس لاتا ہوں۔ثبوت میں تمہاری اونٹنیاں لے جاتا ہوں اور اس طرح اونٹ کے ساتھ اونٹنی پر بھی قبضہ کرلیا۔

۲۹۰

ويُكْثِرُ الأَوَدَ - حَاوَلَ الْقَوْمُ إِطْفَاءَ نُورِ اللَّه مِنْ مِصْبَاحِه - وسَدَّ فَوَّارِه مِنْ يَنْبُوعِه - وجَدَحُوا بَيْنِي وبَيْنَهُمْ شِرْباً وَبِيئاً - فَإِنْ تَرْتَفِعْ عَنَّا وعَنْهُمْ مِحَنُ الْبَلْوَى - أَحْمِلْهُمْ مِنَ الْحَقِّ عَلَى مَحْضِه وإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى –( فَلا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَراتٍ - إِنَّ الله عَلِيمٌ بِما يَصْنَعُونَ ) .

(۱۶۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

الخالق جل وعلا

الْحَمْدُ لِلَّه خَالِقِ الْعِبَادِ وسَاطِحِ الْمِهَادِ - ومُسِيلِ الْوِهَادِ ومُخْصِبِ النِّجَادِ - لَيْسَ لأَوَّلِيَّتِه ابْتِدَاءٌ ولَا لأَزَلِيَّتِه انْقِضَاءٌ - هُوَ الأَوَّلُ ولَمْ يَزَلْ والْبَاقِي بِلَا أَجَلٍ - خَرَّتْ لَه الْجِبَاه ووَحَّدَتْه الشِّفَاه - حَدَّ الأَشْيَاءَ عِنْدَ خَلْقِه لَهَا إِبَانَةً لَه مِنْ شَبَهِهَا

جس نے تعجب کابھی خاتمہ کردیا ہے اور کجی کو بڑھا وا دیا ہے۔قوم نے چاہا تھاکہ نور الٰہی کواس کے چراغ ہی سے خاموش کردیا جائے اور فوارہ کو چشمہ ہی سے بند کردیا جائے ۔میرے اور اپنے درمیان زہریلے گھونٹوں کی آمیزش کردی کہ اگر مجھ سے اور ان سے ابتلاء کی زحمتیں ختم ہو گئیں تومیں انہیں خالص حق(۱) کےراستہ پرچلائوں گا اور اگر کئی دوسری صورت ہوگئی توتمہیں حسرت و افسوس سے اپنی جان نہیں دینی چاہیے ۔اللہ ان کے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

(۱۶۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جوبندوں کا خلق کرنے والا۔زمین کا فرش بچھانے والا۔وادیوں میں پانی کا بہانے والا اور ٹیلوں کا سر سبز و شاداب بنانے والا ہے۔اس کی اولیت کی کوئی ابتدا نہیں ہے اور اس کی ازلیت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔وہ ابتدا ء سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔وہ باقی ہے اور اس کی بقا کی کوئی مدت نہیں ہے۔پیشانیاں اس کے سامنے سجدہ ریز اور لب اس کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے ہیں۔اس نے تخلیق کے ساتھ ہی ہرشے کے حدود معین کردئیے ہیں تاکہ وہ کسی سے مشابہ نہ ہونے پائیں

(۱) یہ مکتب اہل بیت کاخاصہ ہے کہ ہمیشہ حق کے راستے پرچلنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اسی راستہ پر چلانا چاہیے اور اس راہ میں کسی طرح کی زحمت و مصیبت کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے۔چنانچہ بعض مورخین کے بیان کے مطابق جب دورعمر بن خطاب میں سلمانفارسی کو مدئان کاگورنر بنایا گیا اور انہوں نے کاروبارکی نگرانی کا قانون نافذ کیا تو ارباب ثروت و تجارت نے خلیفہ سے شکایت کردی اور انہوں نے فی الفور جناب سلمان کو معزول کردیا کہ کہیں نگرانی اور محاسبہ کاتصور سارے ملک میں نہ پھیل جائے کہ ارباب مصالح و منافع بغاوت پرآمادہ ہو جائیں اور حکومت کو حق کی راہ پر چلنے کے لئے خاطر خواہ قیمت ادا کرنا پڑے ۔

۲۹۱

لَا تُقَدِّرُه الأَوْهَامُ بِالْحُدُودِ والْحَرَكَاتِ - ولَا بِالْجَوَارِحِ والأَدَوَاتِ لَا يُقَالُ لَه مَتَى - ولَا يُضْرَبُ لَه أَمَدٌ بِحَتَّى - الظَّاهِرُ لَا يُقَالُ مِمَّ والْبَاطِنُ لَا يُقَالُ فِيمَ - لَا شَبَحٌ فَيُتَقَصَّى ولَا مَحْجُوبٌ فَيُحْوَى - لَمْ يَقْرُبْ مِنَ الأَشْيَاءِ بِالْتِصَاقٍ - ولَمْ يَبْعُدْ عَنْهَا بِافْتِرَاقٍ - ولَا يَخْفَى عَلَيْه مِنْ عِبَادِه شُخُوصُ لَحْظَةٍ - ولَا كُرُورُ لَفْظَةٍ ولَا ازْدِلَافُ رَبْوَةٍ - ولَا انْبِسَاطُ خُطْوَةٍ فِي لَيْلٍ دَاجٍ - ولَا غَسَقٍ سَاجٍ يَتَفَيَّأُ عَلَيْه الْقَمَرُ الْمُنِيرُ - وتَعْقُبُه الشَّمْسُ ذَاتُ النُّورِ فِي الأُفُولِ والْكُرُورِ - وتَقَلُّبِ الأَزْمِنَةِ والدُّهُورِ - مِنْ إِقْبَالِ لَيْلٍ مُقْبِلٍ وإِدْبَارِ نَهَارٍ مُدْبِرٍ - قَبْلَ كُلِّ غَايَةٍ ومُدَّةِ وكُلِّ إِحْصَاءٍ وعِدَّةٍ - تَعَالَى عَمَّا يَنْحَلُه الْمُحَدِّدُونَ مِنْ صِفَاتِ الأَقْدَارِ - ونِهَايَاتِ الأَقْطَارِ وتَأَثُّلِ الْمَسَاكِنِ - وتَمَكُّنِ الأَمَاكِنِ - فَالْحَدُّ لِخَلْقِه مَضْرُوبٌ وإِلَى غَيْرِه مَنْسُوبٌ.

ابتداع المخلوقين

لَمْ يَخْلُقِ الأَشْيَاءَ مِنْ أُصُولٍ أَزَلِيَّةٍ - ولَا مِنْ أَوَائِلَ أَبَدِيَّةٍ - بَلْ خَلَقَ مَا خَلَقَ

انسانی ادہام اس کے لئے حدود و حرکات اور اعضاء و جوارح کاتعین نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کب سے ہے اور نہ یہ حد بندی کی جا سکتی ہے کہ کب تک رہے گا۔وہ ظاہر ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتاہے کہ کس چیز سے اور باطن ہے لیکن یہ نہیں سوچا جا سکتا ہے کہ کس چیز میں ؟ وہ نہ کوئی ڈھانچہ ہے کہ ختم ہو جائے اور نہ کسی حجاب میں ہے کہ محدود ہو جائے۔ظاہری اتصال کی بنیاد پر اشیاء سے قریب نہیں ہے اور جسمانی جدائی کی بنا پر دورنہیں ہے۔اس کے اوپر بندوں کے حالات میں سے نہ ایک کاجھیکنا مخفی ہے اور نہ الفاظ کا دہرانا۔نہ بلندی کا دور سے جھلکنا پوشیدہ ہے اور نہ قدم کا آگے بڑھنا۔نہ اندھیری رات میں اور نہ چھائی ہوئی اندھیاریوں میں جن پر روشن چاند اپنی کرنوں کا سایہ ڈالتا ہے اور روشن آفتاب طلوع وغروب میں اور زمانہ کی ان گردشوں میں جو آنے والی رات کی آمد اور جانے والے دن کے گزرنے سے پیدا ہوتی ہے۔وہ ہر انتہا و مدت سے پہلے ہے اور ہر احصاء و شمارسے ماوراء ہے۔وہ ان صفات سے بلند تر ہے جنہیں محدود سمجھ لینے والے اس کی طرف منسوب کر دیتے ہیں چاہے وہ صفتوں کے انداز ے ہوں یا اطراف و جوانب کی حدیں۔مکانات میں قیام ہو یا مساکن میں قرار۔حد بندی اس کی مخلوقات کے لئے ہے اور اس کی نسبت اس کے غیر کی طرف ہوتی ہے۔ اس نے اشیاء کی تخلیق نہ ازلی مواد سے کی ہے اور نہ ابدی مثالوں سے ۔جوکچھ بھی خلق کیا ہے خود خلق کیا ہے

۲۹۲

فَأَقَامَ حَدَّه - وصَوَّرَ فَأَحْسَنَ صُورَتَه - لَيْسَ لِشَيْءٍ مِنْه امْتِنَاعٌ ولَا لَه بِطَاعَةِ شَيْءٍ انْتِفَاعٌ - عِلْمُه بِالأَمْوَاتِ الْمَاضِينَ كَعِلْمِه بِالأَحْيَاءِ الْبَاقِينَ - وعِلْمُه بِمَا فِي السَّمَاوَاتِ الْعُلَى - كَعِلْمِه بِمَا فِي الأَرَضِينَ السُّفْلَى.

منها - أَيُّهَا الْمَخْلُوقُ السَّوِيُّ والْمُنْشَأُ الْمَرْعِيُّ - فِي ظُلُمَاتِ الأَرْحَامِ ومُضَاعَفَاتِ الأَسْتَارِ -. بُدِئْتَ( مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ ) ووُضِعْتَ( فِي قَرارٍ مَكِينٍ إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ ) وأَجَلٍ مَقْسُومٍ - تَمُورُ فِي بَطْنِ أُمِّكَ جَنِيناً لَا تُحِيرُ دُعَاءً ولَا تَسْمَعُ نِدَاءً - ثُمَّ أُخْرِجْتَ مِنْ مَقَرِّكَ إِلَى دَارٍ لَمْ تَشْهَدْهَا - ولَمْ تَعْرِفْ سُبُلَ مَنَافِعِهَا.فَمَنْ هَدَاكَ لِاجْتِرَارِ الْغِذَاءِ مِنْ ثَدْيِ أُمِّكَ - وعَرَّفَكَ عِنْدَ الْحَاجَةِ مَوَاضِعَ طَلَبِكَ وإِرَادَتِكَ - هَيْهَاتَ إِنَّ مَنْ يَعْجِزُ عَنْ صِفَاتِ ذِي الْهَيْئَةِ والأَدَوَاتِ - فَهُوَ عَنْ صِفَاتِ خَالِقِه أَعْجَزُ - ومِنْ تَنَاوُلِه بِحُدُودِ الْمَخْلُوقِينَ أَبْعَدُ!

اوراس کی حدیں معین کردی ہیں اور ہر صورت کو حسین بنا دیاہے۔کوئی شے بھی اس کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتی ہے اورنہ کسی کی اطاعت میں اس کا کوئی فائدہ ہے۔اس کا علم ماضی کے مرنے والے افراد کے بارے میں ویسا ہی ہے جیسا کہ رہ جانے والے زندوں کے بارے میں ہے اور وہ بلند ترین آسمانوں کے بارے میں ویسا ہی علم رکھتا ہے جس طرح کہ پست ترین زمینوں کے بارے میں رکھتا ہے۔

(دوسرا حصہ) اے وہ انسان جسے ہر اعتبار سے درست بنایا گیاہے اور رحم کے اندھیروں اور پردہ درپردہ ظلمتوں میں مکمل نگرانی کے ساتھ خلق کیا گیا ہے۔تیری ابتدا خالص مٹی سے ہوئی ہے اورتجھے ایک خاص مرکز میں ایک خاص مدت تک رکھا گیا ہے۔تو شکم مادر میں اس طرح حرکت کر رہا تھا کہ نہ آواز کا جواب دے سکتاتھا اورنہ کسی آواز کو سن سکتا تھا۔اس کے بعد تجھے وہاں سے نکال کر اس گھرمیں لایا گیاجسے تونے دیکھا بھی نہیں تھا اور جہاں کے منافع کے راستوں سے با خبر بھی نہیں تھا۔بتا تجھے پستان مادرسے دودھ حاصل کرنے کی ہدایت کس نے دی ہے اور ضرورت کے وقت موارد طلب وارادہ کا پتہ کس نے بتایا ہے ؟ ہوشیار ۔جوش خص ایک صاحب ہئیت و اعضاء مخلوق کے صفات کے پہچاننے سے عاجز ہوگا وہ خالق کے صفات کو پہچاننے سے یقینا زیادہ عاجز ہوگا اور مخلوقات کے حدود کے ذریعہ اسے حاصل کرنے سے یقینا دورتر ہوگا۔

۲۹۳

(۱۶۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما اجتمع الناس شكوا ما نقموه على عثمان

وسألوه مخاطبته لهم واستعتابه لهم فدخل عليه فقال

إِنَّ النَّاسَ وَرَائِي - وقَدِ اسْتَسْفَرُونِي بَيْنَكَ وبَيْنَهُمْ - ووَ اللَّه مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لَكَ - مَا أَعْرِفُ شَيْئاً تَجْهَلُه - ولَا أَدُلُّكَ عَلَى أَمْرٍ لَا تَعْرِفُه - إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نَعْلَمُ - مَا سَبَقْنَاكَ إِلَى شَيْءٍ فَنُخْبِرَكَ عَنْه - ولَا خَلَوْنَا بِشَيْءٍ فَنُبَلِّغَكَه - وقَدْ رَأَيْتَ كَمَا رَأَيْنَا وسَمِعْتَ كَمَا سَمِعْنَا - وصَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَمَا صَحِبْنَا -

(۱۶۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب لوگوں نے آپ کے پاس آکر عثمان کے مظالم کا ذکرکیا اور ان کی فہمائش اورتنبیہ کا تقاضا کیا توآپ نے عثمان کے پاس جا کر فرمایا )

لوگ میرے پیچھے منتظر ہیں اور انہوںنے مجھے اپنے اور تمہارے درمیان(۱) واسطہ قرار دیا ہے اورخداکی قسم میں نہیں جانتا ہوں کہ میں تم سے کیا کہوں؟میں کوئی ایسی بات نہیں جانتا ہوں جس کا تمہیں علم نہ ہو اور کسی ایی بات کی نشاندہی نہیں کر سکتا ہوں جو تمہیں معلوم نہ ہو تمہیں تمام وہ باتیں معلوم ہیں جو مجھے معلوم ہیں اور میں ن کسی امر کی طرف سبقت نہیں کی ہے کہ اس کی اطلاع تمہیں کروں اور نہ کوئی بات چپکے سے سن لی ہے کہ تمہیں با خبرکروں۔تم نے وہ سب خود دیکھا ہے جو میں نے دیکھا ہے اوروہ سب کچھ خود بھی سنا ہے جومیں نے سنا ہے اور رسول اکرم (ص) کے پاس ویسے ہی رہے ہو جیسے میں رہا ہوں

(۱) امیر المومنین کے علاوہ دنیا کا کوئی دوسرا انسان ہوتا تواس موقع کو غنیمت تصور کرکے احتجاج کرنے والوں کے حوصلے مزید بلند کردیتا اور لمحوں میں عثمان کاخاتمہ کر ا دیتا لیکن آپ نے اپنی شرعی ذمہ داری اور اسلامی مسئولیت کاخیال کرکے انقلابی جماعت کو روکا اورچاہاکہ پہلے تمام حجت کردیا جائے تاکہ عثمان کو اصلاح امر کا موقع مل جائے اور بنی امیہ مجھے قتل عثمان کا ملزم نہ ٹھہرانے پائیں۔ورنہ عثمان کے دور کے مظالم عالم آشکارتھے۔ان کے بارے میں کسی تحقیق اور تفتیش کی ضرورت نہیں تھی جناب ابوذر کاشہر بدر کرادیا جانا جناب عبداللہ بن مسعود کی پسلیوںکا توڑ دیا جانا۔جناب عمار یاسر کے شکم کو جوتیوں سے پامال کردینا۔وہ مظالم ہیں جنہیں سارا عالم اسلام اور بالخصوص مدینتہ الرسول خوب جانتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے درمیان میں پڑ کر اصلاح حال کے بارے میں یہ فارمولا پیش کیا مدینہ کے معاملات کی فی الفور اصلاح کی جائے اورباہر کے لئے بقدر ضرورت مہلت لے لی جائے لیکن خلیفہ کو اصلاح نہیں کرنا تھی نہیں کی اور آخر ش وہی انجام ہوا جس کے پیش نظرامیر المومنین نے اس قدر زحمت برداشت کی تھی اور جس کے بعد بنی امیہ کو نئے فتنوں کاموقع مل گیا اور ان سے امیر المومنین کو بھی دوچار ہونا پڑا۔

۲۹۴

ومَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ - ولَا ابْنُ الْخَطَّابِ بِأَوْلَى بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْكَ - وأَنْتَ أَقْرَبُ إِلَى أَبِي رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَشِيجَةَ رَحِمٍ مِنْهُمَا - وقَدْ نِلْتَ مِنْ صِهْرِه مَا لَمْ يَنَالَا فَاللَّه اللَّه فِي نَفْسِكَ - فَإِنَّكَ واللَّه مَا تُبَصَّرُ مِنْ عَمًى - ولَا تُعَلَّمُ مِنْ جَهْلٍ - وإِنَّ الطُّرُقَ لَوَاضِحَةٌ وإِنَّ أَعْلَامَ الدِّينِ لَقَائِمَةٌ - فَاعْلَمْ أَنَّ أَفْضَلَ عِبَادِ اللَّه عِنْدَ اللَّه إِمَامٌ عَادِلٌ،هُدِيَ وهَدَى فَأَقَامَ سُنَّةً مَعْلُومَةً - وأَمَاتَ بِدْعَةً مَجْهُولَةً - وإِنَّ السُّنَنَ لَنَيِّرَةٌ لَهَا أَعْلَامٌ - وإِنَّ الْبِدَعَ لَظَاهِرَةٌ لَهَا أَعْلَامٌ - وإِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّه إِمَامٌ جَائِرٌ ضَلَّ وضُلَّ بِه - فَأَمَاتَ سُنَّةً مَأْخُوذَةً وأَحْيَا بِدْعَةً مَتْرُوكَةً - وإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ - يُؤْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِالإِمَامِ الْجَائِرِ - ولَيْسَ مَعَه نَصِيرٌ ولَا عَاذِرٌ - فَيُلْقَى فِي نَارِ جَهَنَّمَ

ابن ابی قحافہ اور ابن الخطاب حق پر عمل کرنے کے لئے تم سے زیادہ اولیٰ نہیں تھے تم ان کی نسبت رسول اللہ سے زیادہ قریبی رشتہ رکھتے ہو۔اورتمہیں وہدامادی کا شرف بھی حاصل ہے ہے جوانہیں حاصل نہیں تھا لہٰذا خدارا اپنے نفس کو بچائو کہ تمہیں اندھے پن سے بصارت یاجہالت سے علم نہیں دیا جا رہا ہے۔راستے بالکل واضح ہیں اور نشانات دین قائم ہیں۔یاد رکھوخدا کے نزدیک بہترین بندہ وہ امام عادل ہے۔جو خود ہدایت یافتہ ہو اوردوسروں کوہدایت دے۔جانی پہچانی سنت کو قائم کرے اور مجہول بدعت کو مردہ بنادے۔دیکھو ضیا بخش سنتوں کے نشانات بھی روشن ہیں اوربدعتوں کے نشانات بھی واضح ہیں اوربد ترین انسان خداکی نگاہ میں وہ ظالم پیشوا ہے جو خود بھی گمراہ ہو اور لوگوں کو بھی گمراہ کرے۔پیغمبر سے ملی ہوئی سنتوں کو مردہ بنادے اور قابل ترک بدعتوں کو زندہ کردے میں نے رسول اکرم (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ روز قیامت ظالم(۱) رہنماکو اس عالم میں لایا جائے گا کہ نہ کوئی اس کا مدد گار ہوگا اورنہ عذر خواہی کرنے والا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا

(۱)در حقیقت رہنما اور ظالم وہ دو متضاد الفاظ ہیں جنہیں کسی عالم شرافت و کرامت میں جمع نہیں ہونا چاہیے۔انسان کو رہنمائی کا شوق ہے تو پہلے اپنے کردار میں عدالت و شرافت پیدا کرے۔اس کے بعد آگے چلنے کا ارادہ کرے۔اس کے بغیر رہنمائی کا شوق انسان کو جہنم تک تو پہنچا سکتا ہے رہنما نہیں بنا سکتا ے جیسا کہ سرکار دو عالم (ص) نے فرمایا ہے اور اس عذاب کی شدت کا راز یہی ہے کہ رہنما کی وجہ سے بے شمار لوگ مزید گمراہ ہوتے ہیں اور اس کے ظلم سے بے حساب لوگوں کو ظلم کاجواز فراہم ہو جاتا ہے اورسارا معاشرہ تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔

عثمان کا دور پہلا دور تھا جب سابق کی ظاہرداری بھی ختم ہوگئی تھی اور کھلم کھلا ظلم کا بازار گرم ہوگیا تھا۔اس لئے اتنا شدید رد عمل دیکھنے میں آیا ورنہ اس کے بعد سے تو آج تک سارا عالم اسلام انہیں خاندان پروریوں کا شکار ہے اور عوام کی ساری دولت ایک ایک خاندان کے عیاش شہزادوں پر صرف ہو رہی ہے اورمدینہ کے مسلمانوں میں بھی غیرت کی حرکت نہیں پیدا ہو رہی ہے تو باقی عالم اسلام اور دوسرے علاقوں کا کیا تذکرہ ہے۔

۲۹۵

فَيَدُورُ فِيهَا كَمَا تَدُورُ الرَّحَى - ثُمَّ يَرْتَبِطُ فِي قَعْرِهَا - وإِنِّي أَنْشُدُكَ اللَّه أَلَّا تَكُونَ إِمَامَ هَذِه الأُمَّةِ الْمَقْتُولَ - فَإِنَّه كَانَ يُقَالُ - يُقْتَلُ فِي هَذِه الأُمَّةِ إِمَامٌ يَفْتَحُ عَلَيْهَا الْقَتْلَ - والْقِتَالَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - ويَلْبِسُ أُمُورَهَا عَلَيْهَا ويَبُثُّ الْفِتَنَ فِيهَا - فَلَا يُبْصِرُونَ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ - يَمُوجُونَ فِيهَا مَوْجاً ويَمْرُجُونَ فِيهَا مَرْجاً - فَلَا تَكُونَنَّ لِمَرْوَانَ سَيِّقَةً يَسُوقُكَ حَيْثُ شَاءَ بَعْدَ جَلَالِ السِّنِّ - وتَقَضِّي الْعُمُرِ فَقَالَ لَه عُثْمَانُرضي‌الله‌عنه س - كَلِّمِ النَّاسَ فِي أَنْ يُؤَجِّلُونِي - حَتَّى أَخْرُجَ إِلَيْهِمْ مِنْ مَظَالِمِهِمْ - فَقَالَعليه‌السلام - مَا كَانَ بِالْمَدِينَةِ فَلَا أَجَلَ فِيه - ومَا غَابَ فَأَجَلُه وُصُولُ أَمْرِكَ إِلَيْه.

(۱۶۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها عجيب خلقة الطاوس

خلقة الطيور

ابْتَدَعَهُمْ خَلْقاً عَجِيباً مِنْ حَيَوَانٍ ومَوَاتٍ - وسَاكِنٍ وذِي حَرَكَاتٍ؛وأَقَامَ

اور وہ اس طرح چکر کھائے گا جس طرح چکی۔اس کے بعد اسے قعر جہنم میں جکڑ دیا جائے گا۔میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ خدارا تم اس امت کے مقتول پیشوا نہ بنو اس لئے کہ دور قدیم سے کہاجا رہا ہے کہ اس امت میں ایک پیشوا قتل کیا جائے گا جس کے بعد قیامت تک قتل و قتال کا دروازہ کھل جائے گا اور سارے امور مشتبہ ہو جائیں گے اور فتنے پھیل جائیں گے اور لوگ حق و باطل میں امتیاز نہ کر سکیں گے اور اسی میں چکر کھاتے رہیں گے اور تہ و بالا ہوتے رہیں گے ۔خدارا امروان کی سواری نہ بن جائو کہ وہ جدھر چاہے کھینچ کرلے جائے کہ تمہارا سن زیادہ ہوچکا ہے اور تمہاری عمر خاتمہ کے قریب آچکی ہے۔

عثمان نے اس ساری گفتگو کو سن کر کہا کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ ذرا مہلت دیں تاکہ میں ان کی حق تلفیوں کا علا ج کرس کوں؟ آپ نے فرمایا کہ جہاں تک مدینہ کے معاملات کا تعلق ہے ان میں کسی مہلت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور جہاں تک باہر کے معاملات کاتعلق ہے ان میں صرف اتنی مہلت دی جا سکتی ہے کہ تمہاراحکم وہاں تک پہنچ جائے۔

(۱۶۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں مورکی عجیب وغریب خلقت کاتذکرہ کیا گیا ہے )

اللہ نے اپنی تمام مخلوقات کو عجیب وغریب بنایا ہےچاہے وہ ذی حیات ہوں یا بےجان۔ساکن ہوں یامتحرک اوران سب

۲۹۶

مِنْ شَوَاهِدِ الْبَيِّنَاتِ عَلَى لَطِيفِ صَنْعَتِه - وعَظِيمِ قُدْرَتِه - مَا انْقَادَتْ لَه الْعُقُولُ مُعْتَرِفَةً بِه ومَسَلِّمَةً لَه - ونَعَقَتْ فِي أَسْمَاعِنَا دَلَائِلُه عَلَى وَحْدَانِيَّتِه - ومَا ذَرَأَ مِنْ مُخْتَلِفِ صُوَرِ الأَطْيَارِ - الَّتِي أَسْكَنَهَا أَخَادِيدَ الأَرْضِ - وخُرُوقَ فِجَاجِهَا ورَوَاسِيَ أَعْلَامِهَا - مِنْ ذَاتِ أَجْنِحَةٍ مُخْتَلِفَةٍ وهَيْئَاتٍ مُتَبَايِنَةٍ - مُصَرَّفَةٍ فِي زِمَامِ التَّسْخِيرِ - ومُرَفْرِفَةٍ بِأَجْنِحَتِهَا فِي مَخَارِقِ الْجَوِّ الْمُنْفَسِحِ - والْفَضَاءِ الْمُنْفَرِجِ - كَوَّنَهَا بَعْدَ إِذْ لَمْ تَكُنْ فِي عَجَائِبِ صُوَرٍ ظَاهِرَةٍ - ورَكَّبَهَا فِي حِقَاقِ مَفَاصِلَ مُحْتَجِبَةٍ - ومَنَعَ بَعْضَهَا بِعَبَالَةِ خَلْقِه أَنْ يَسْمُوَ فِي الْهَوَاءِ خُفُوفاً - وجَعَلَه يَدِفُّ دَفِيفاً - ونَسَقَهَا عَلَى اخْتِلَافِهَا فِي الأَصَابِيغِ بِلَطِيفِ قُدْرَتِه - ودَقِيقِ صَنْعَتِه.

کے ذریعہ اپنی لطیف صنعت اور عظیم قدرت کے وہ شواہد قائم کردئیے ہیں جن کے سامنے عقلیں بکمال اعتراف و تسلیم سرخم کئے ہوئے ہیں اور پھر ہمارے کانوں میں اس کی وحدانیت کے دلائل ان مختلف صورتوں(۱) کے پرندوںکی تخلیق کی شکل میں گونج رہے ہیں جنہیں زمین کے گڑھو ۔دروں کے شگافوں ' پہاڑوں کی بلندیوں پرآباد کیا ہے جن کے پر مختلف قسم کے اورجن کی ہئیت جدا گانہ انداز کی ہے اور انہیں تسخیر کی زمام کے ذریعہ حرکت دی جا رہی ہے اور وہ اپنے پروں کو وسیع فضا کے راستوں اور کشادہ ہوا کی وسعتوں میں پھڑ پھڑا رہے ہیں۔انہیں عالم عدم سے نکال کرعجیب و غریب ظاہری صورتوں میں پیدا کیا ہے اور گوشت و پوست میں ڈھکے ہوئے جوڑوں کے سروں سے ان کے جسموں کی ساخت قائم کی ہے۔بعض کو ان کے جسم کی سنگینی نے ہوا میں بلند ہو کر تیز پرواز سے روک دیا ہے اوروہ صرف ذرا اونچے ہوکر پرواز کر رہے ہیں اور پھر اپنی لطیف قدرت اور دقیق صنعت کے ذریعہ انہیں مختلف رنگوں کے ساتھ منظم و مرتب کیا ہے

(۱)علم الحیوان کے ماہر روبرٹ سن کابیان ہے کہ دنیا میں ایک ارب قسم کے پرندے پائے جاتے ہیں اور سب اپنے اپنے مقام پرعجیب و غریب خلقت کے مالک ہیں سب سے بڑا پرندہ شتر مرغ ہے اور سب سے چھوٹا طنان جس کا طول پانچ سینٹی میٹر ہوتا ہے لیکن ایک گھنٹہ میں ۸۰۔۹۰ کلو میٹر پرواز کر لیتا ہے اور ایک سکنڈ میں ۵۰ سے لے کر ۲۰۰ مرتبہ اپنے پروں کو حرکت دیتا ہے۔بعض پرندوں کا ایک قدم چھ میٹر کے برابر ہوتا ہے اور وہ زمین پر ۸۰ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتے ہیں اوربعض چھ ہزار میٹرکی بلندی پر پرواز کر سکتے ہیں ۔بعض پانی کے اندر ۱۸ میٹر کی گہرائی تک چلے جاتے ہیں اور بعض صرف سمندروں کے اس پار سے اس پار تک چکر لگاتے رہتے ہیں۔ لیکن ان سب سے زیادہ حیرت انگیز امیر المومنین کی نگاہ میں مور کی خلقت ہے جس کو مختلف رنگوں میں رنگ دیا گیا ہے اور مختلف خصوصیات سے نوازدیا گیا ہے اور بات ہے کہ بہترین پروں کے ساتھ نازک ترین پیر بھی دیدئیے گئے ہیں تاکہ اس میں بھی غرورنہ پیدا ہو اور انسان کوب ھی ہوش آجائے کہ جس کے وجود کا ایک رخ رنگین ہوتا ہے اور اس کا دوسرا رخ کمزور بھی ہوتا ہے لہٰذا غرور و استکبار کا کوئی امکان نہیں ہے۔بلکہ تقاضائے شرافت یہ ہے کہ حسین رخ کا شکیرہ ادا کرے کہ یہ بھی مالک کا کرم ہے اس کا اپنا کوئی حق نہیں ہے جسے مالک نے اداکردیا ہو۔

۲۹۷

- فَمِنْهَا مَغْمُوسٌ فِي قَالَبِ لَوْنٍ لَا يَشُوبُه غَيْرُ لَوْنِ مَا غُمِسَ فِيه - ومِنْهَا مَغْمُوسٌ فِي لَوْنِ صِبْغٍ قَدْ طُوِّقَ بِخِلَافِ مَا صُبِغَ بِه

الطاوس

ومِنْ أَعْجَبِهَا خَلْقاً الطَّاوُسُ - الَّذِي أَقَامَه فِي أَحْكَمِ تَعْدِيلٍ - ونَضَّدَ أَلْوَانَه فِي أَحْسَنِ تَنْضِيدٍ - بِجَنَاحٍ أَشْرَجَ قَصَبَه وذَنَبٍ أَطَالَ مَسْحَبَه - إِذَا دَرَجَ إِلَى الأُنْثَى نَشَرَه مِنْ طَيِّه - وسَمَا بِه مُطِلاًّ عَلَى رَأْسِه - كَأَنَّه قِلْعُ دَارِيٍّ عَنَجَه نُوتِيُّه - يَخْتَالُ بِأَلْوَانِه ويَمِيسُ بِزَيَفَانِه - يُفْضِي كَإِفْضَاءِ الدِّيَكَةِ - ويَؤُرُّ بِمَلَاقِحِه أَرَّ الْفُحُولِ الْمُغْتَلِمَةِ لِلضِّرَابِ - أُحِيلُكَ مِنْ ذَلِكَ عَلَى مُعَايَنَةٍ - لَا كَمَنْ يُحِيلُ عَلَى ضَعِيفٍ إِسْنَادُه - ولَوْ كَانَ كَزَعْمِ مَنْ يَزْعُمُ - أَنَّه يُلْقِحُ بِدَمْعَةٍ تَسْفَحُهَا مَدَامِعُه - فَتَقِفُ فِي ضَفَّتَيْ جُفُونِه - وأَنَّ أُنْثَاه تَطْعَمُ ذَلِكَ - ثُمَّ تَبِيضُ لَا مِنْ لِقَاحِ

کہ بعض ایک ہی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ دوسرے رنگ کا شائبہ بھی نہیں ہے اور بعض ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں لیکن ان کے گلے کا طوق دوسرے رنگ کا ہے۔

(طائوس)

ان سب میں عجیب ترین خلقت مور کی ہے جسے محکم ترین توازن کے سانحہ میں ڈھال دیا ہے اور اس کے رنگوں میں حسین ترین تنظیم قائم کی ہے اسے وہ رنگین پردے ہیں جن کی جڑوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے اور وہ دم دی ہے جو دور تک کھینچتی چلی جاتی ہے ۔جب وہ اپنی مادہ کا رخ کرتا ہے تو اسے پھیلا لیتا ہے(۱) اور اپنے سر کے اوپر اس طرح سایہ فگن کر لیتا ہے جیسے مقام دارین کی کشتی کا بادبان جسے ملاح ادھرادھر موڑ رہا ہو۔وہ اپنے رنگوںپراترتا ہے اوراس کی جنبشوں کے ساتھ جھومنے لگتا ہے۔اپنی مادہ سے اس طرح جفتی کھاتا ہے جس طرح مرغ اوراسے اس طرح حاملہ بناتا ہے جس طرح جوش و ہیجان میں ھبرے ہوئے جانور۔میں اس مسئلہ میں تمہیں مشاہدہ کے حوالہ کر رہا ہوں۔نہ اس شخص کی طرح جو کسی کمزور سند کے حوالہ کردے اور اگر گمان کرنے والوں کا یہ گمان صحیح ہوتا کہ وہ ان آنسوئوں کے ذریعہ حمل ٹھہراتا ہے جواس کیآنکھوں سے باہرنکل کرپلکوں پر ٹھہر جاتے ہیں اور مادہ اسے پی لیتی ہے اس کے بعد انڈے دیتی ہے اور اس میں نرو مادہ کا کوئی اتصال نہیں ہوتا ہے سوائے ان پھوٹ پڑنے

(۱)ایک حسین ترین فطرت ہے کہ نر اپنی مادہ کے پاس جائے تو حسن و جمال کے ساتھ جائے تاکہاسے بھی انس حاصل ہو اوروہ بھی اپنے نرکے جمال پر فخر کر سکے ایسا نہ ہوکہ عمل فقط ایک جنسی عمل رہ جائے اور سکون نفس کا کوئی راستہ نہ نکل سکے۔

۲۹۸

فَحْلٍ سِوَى الدَّمْعِ الْمُنْبَجِسِ - لَمَا كَانَ ذَلِكَ بِأَعْجَبَ مِنْ مُطَاعَمَةِ الْغُرَابِ تَخَالُ قَصَبَه مَدَارِيَ مِنْ فِضَّةٍ - ومَا أُنْبِتَ عَلَيْهَا مِنْ عَجِيبِ دَارَاتِه - وشُمُوسِه خَالِصَ الْعِقْيَانِ وفِلَذَ الزَّبَرْجَدِ - فَإِنْ شَبَّهْتَه بِمَا أَنْبَتَتِ الأَرْضُ - قُلْتَ جَنًى جُنِيَ مِنْ زَهْرَةِ كُلِّ رَبِيعٍ - وإِنْ ضَاهَيْتَه بِالْمَلَابِسِ فَهُوَ كَمَوْشِيِّ الْحُلَلِ - أَوْ كَمُونِقِ عَصْبِ الْيَمَنِ - وإِنْ شَاكَلْتَه بِالْحُلِيِّ فَهُوَ كَفُصُوصٍ ذَاتِ أَلْوَانٍ - قَدْ نُطِّقَتْ بِاللُّجَيْنِ الْمُكَلَّلِ - يَمْشِي مَشْيَ الْمَرِحِ الْمُخْتَالِ ويَتَصَفَّحُ ذَنَبَه وجَنَاحَيْه - فَيُقَهْقِه ضَاحِكاً لِجَمَالِ سِرْبَالِه وأَصَابِيغِ وِشَاحِه - فَإِذَا رَمَى بِبَصَرِه إِلَى قَوَائِمِه - زَقَا مُعْوِلًا بِصَوْتٍ يَكَادُ يُبِينُ عَنِ اسْتِغَاثَتِه - ويَشْهَدُ بِصَادِقِ تَوَجُّعِه - لأَنَّ قَوَائِمَه حُمْشٌ كَقَوَائِمِ الدِّيَكَةِ الْخِلَاسِيَّةِ وقَدْ نَجَمَتْ مِنْ ظُنْبُوبِ سَاقِه صِيصِيَةٌ خَفِيَّةٌ - ولَه فِي مَوْضِعِ الْعُرْفِ قُنْزُعَةٌ خَضْرَاءُ مُوَشَّاةٌ -

والے آنسوئوں کے تویہ بات کوے کے باہمی کھانے پینے کے ذریعہ حمل ٹھہرانے سے زیادہ تعجب خیز نہ ہوتی۔ تم اس کی رنگینی پر غور کرو تو ایسا محسوس کروگے جیسے پروں کی درمیانی تیلیاں چاندی کی سلائیاں ہیں اور ان پر جو عجیب و غریب ہالے اورسورج کی شعاعوں جیسے جو پرو بال اگ آئے ہیں وہ خالص سونے اور زمرد کے ٹکڑے ہیں اور اگر انہیں زمین کے نباتات سے تشبیہ دینا چاہو گے تو یہ کہو گے کہ یہ ہر موسم بہارکے پھولوں(۱) کا ایک شگوفہ ہے اور اگر لباس سے تشبیہ دینا چاہوگے تو کہو گے کہ یہ نقش دار حلوں یا خوشنما یمنی چادروں جیسے ہیں اور اگر زیورات ہی سے تشبیہ دینا چاہو گے تو اس طرح کہو گے کہی ہ رنگ برنگ کے نگینے ہیں جوچاندی کے دائروں میں جڑ دئیے گئے ہیں۔یہ جانور اپنی رفتار میں ایک مغرور اور متکبر شخص کی طرح خرام ناز سے چلتا ہے اور اپنے بال و پر اور اپنی دم کو دیکھتا رہتا ہے۔اپنے فطری لباس کی خوبصورتی اوراپنی چادر حیات کی رنگینی کودیکھ کر قہقہہ لگاتا ہے اور اس کے بعد جب پیروں پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس طرح بلند آوازسے روتا ہے جیسے فطرت کی ستم ظریفی کی فریاد کررہا ہو اوراپنے واقعی درد دل کی شہادت دے رہا ہو اس لئے کہ اس کے پیر دوغلے مرغوں کے پیروں کی طرح دبلے پتلے اور باریک ہوتے ہیں اور اس کی پنڈلی کے کنارہ پر ایک ہلکا سا کانٹا ہوتا ہے اور اس کی گردن پربالوں کے بدلے سبز رنگ کے منقش پروں کا ایک گچھا ہوتا ہے

(۱)کہا جاتا ہے کہ صرف فلپین میں دس ہزار قسم کے پھول پائے جاتے ہیں تو باقی کائنات کا کیا ذکر ہے۔

۲۹۹

ومَخْرَجُ عَنُقِه كَالإِبْرِيقِ - ومَغْرِزُهَا إِلَى حَيْثُ بَطْنُه كَصِبْغِ الْوَسِمَةِ الْيَمَانِيَّةِ – أَوْ كَحَرِيرَةٍ مُلْبَسَةٍ مِرْآةً ذَاتَ صِقَالٍ - وكَأَنَّه مُتَلَفِّعٌ بِمِعْجَرٍ أَسْحَمَ - إِلَّا أَنَّه يُخَيَّلُ لِكَثْرَةِ مَائِه وشِدَّةِ بَرِيقِه - أَنَّ الْخُضْرَةَ النَّاضِرَةَ مُمْتَزِجَةٌ بِه - ومَعَ فَتْقِ سَمْعِه خَطٍّ كَمُسْتَدَقِّ الْقَلَمِ فِي لَوْنِ الأُقْحُوَانِ - أَبْيَضُ يَقَقٌ فَهُوَ بِبَيَاضِه فِي سَوَادِ مَا هُنَالِكَ يَأْتَلِقُ - وقَلَّ صِبْغٌ إِلَّا وقَدْ أَخَذَ مِنْه بِقِسْطٍ - وعَلَاه بِكَثْرَةِ صِقَالِه وبَرِيقِه - وبَصِيصِ دِيبَاجِه ورَوْنَقِه - فَهُوَ كَالأَزَاهِيرِ الْمَبْثُوثَةِ لَمْ تُرَبِّهَا أَمْطَارُ رَبِيعٍ - ولَا شُمُوسُ قَيْظٍ وقَدْ يَنْحَسِرُ مِنْ رِيشِه ويَعْرَى مِنْ لِبَاسِه - فَيَسْقُطُ تَتْرَى ويَنْبُتُ تِبَاعاً

۔اس کی گردن کا پھیلائو صراحی کی گردن کی طرح ہوتا ہے اور اس کے گرد نے کی جگہ سے لے کر پیٹ تک کا حصہ یمنی وسمہ جیسا سبز رنگ یا اس ریشم جیسا ہوتا ہے جسے صیقل کئے ہوئے آئینہ پر پہنادیا گیا ہو۔ایسا معلوم ہوتا ہے وہ سیاہ رنگ کی اوڑھنی میں لپٹا ہوا ہے لیکن وہ اپنی آب و تاب کی کثرت اور چمک دمک کی شدت سے اس طرح محسوس ہوتی ہے جیسے اس میں ترو تازہ سبزی الگ سے شامل کردی گئی ہو۔اس کے کانوں کے شگاف سے متصل بابونہ کے پھولوں جیسی نوک قلم کے مانند ایک باریک لکیر ہوتی ہے اور وہ اپنی سفیدی کے ساتھ اس جگہ کی سیاہی کے درمیان چمکتی رہتی ہے۔شائد ہی کوئی رنگ ایسا ہو جس کا کوئی حصہ اس جانور کو نہ ملا ہو مگراس لکیر کی صیقل اوراس کے ریشمی پیکر کی چمک دمک سب پرغالب رہتی ہے۔اس کی مثال ان بکھری ہوئی کلیوں کے مانند ہوتی ہے جنہیں نہ بہار کی بارشوں نے پالا ہو اور نہ گرمی کے سورج کی شعاعوں نے ۔وہ کبھی کبھی اپنے بال و پر سے جدابھی ہو جاتا ہے اوراس رنگین لباس کو اتارکربرہنہ ہو جاتا ہے۔اس کے بال و پر جھڑ جاتے ہیں اور دوبارہ(۱) پھر اگ آتے ہیں۔

(۱)بعض افراد کا خیال ہے کہ مور کے بدن میں تقریباً تین ہزار سے چار ہزار تک پر ہوتے ہیں اور وہ انہیں پروں کو دیکھ کراکڑتا رہتا ہے اورصحرا میں رقص کرتا رہتا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اپنے کمال کا مظاہرہ وہاں کرتا ہے جہاں کوئی قدر داں نہیں ہوتا ہے اورنہ اس سے استفادہ کرنے والا ہوتا ہے۔صرف اپنی ذات کی تسکین اور اپنی انا کی تسلی کا سامان فراہم کرتا ہے اوریہی فرق ہے انسان اور حیوان میں کہ انسانی کمالات انا کی تسکین اور تسلی کے لئے نہیں ہیں ان کا مصرف خلق خدا کو فائدہ پہنچانا اور سماج کو فضیاب کرنا ہے۔لہٰذا انسان اپنے کمالات سے معاشرہ کو مستفیض کرتا ہے تو انسان ہے ورنہایک مور ہے جو صحرا میں ناچتا رہتا ہے اوراپنے نفس کو خوش کرتا رہتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ یہ خوشی بھی دائمی نہیں ہوتی اوراسے بھی چند لمحوں میں پیروں کی حقارت ختم کر دیتی ہے اورایک نیا سبق سکھا دیتی ہے کہ عمومی افادیت تو کام بھی آسکتی ہے اور اسے دوام بھی مل سکتا ہے۔لیکن ذاتی تسکین کی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہاسے دوام نصیب ہو سکتا ہے۔

۳۰۰