نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656964 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

خِضْمَةَ الإِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِيعِ ، إِلَى أَنِ انْتَكَثَ عَلَيْه فَتْلُه وأَجْهَزَ عَلَيْه عَمَلُه، وكَبَتْ بِه بِطْنَتُه

مبايعة علي

فَمَا رَاعَنِي إِلَّا والنَّاسُ كَعُرْفِ الضَّبُعِ ، إِلَيَّ يَنْثَالُونَ عَلَيَّ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ، حَتَّى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ وشُقَّ عِطْفَايَ مُجْتَمِعِينَ حَوْلِي كَرَبِيضَةِ الْغَنَمِ ، فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالأَمْرِ نَكَثَتْ طَائِفَةٌ ومَرَقَتْ أُخْرَى وقَسَطَ آخَرُونَ كَأَنَّهُمْ لَمْ يَسْمَعُوا اللَّه سُبْحَانَه يَقُولُ:( تِلْكَ الدَّارُ الآخِرَةُ نَجْعَلُها لِلَّذِينَ، لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الأَرْضِ ولا فَساداً، والْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ) ،

جس طرح اونٹ بہار کی گھاس کو چرلیتا ہے یہاں تک کہ اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کے اعمال نے اس کا خاتمہ کردیا اور شکم پری نے منہ کے بل گرادیا

اس وقت مجھے جس چیزنے دہشت زدہ کردیا یہ تھی کہ لوگ بجوں کی گردن(۱) کے بال کی طرح میرے گرد جمع ہوگئے اور چاروں طرف سے میرے اوپر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ حسن و حسین کچل گئے اور میری ردا کے کنارے پھٹ گئے ۔یہ سب میرے گرد بکریوں کے گلہ کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔لیکن جب میں نے ذمہ داری سنبھالی اوراٹھ کھڑے ہوا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ دی اوردوسرا دین سے باہرنکل گیا اور تیسرے نے فسق اختیار کرلیا جیسے کہ ان لوگوں نے یہ ارشاد الٰہی سنا ہی نہیں ہے کہ'' یہ دارآخرت ہم صرف ان لوگوں کے لئے قراردیتے ہیں جو دنیا میں بلندی اور فساد نہیں چاہتے ہیں اور عاقبت صرف اہل تقوی کے لئے ہیں ''۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عثمان کے تصرفات نے تمام عالم اسلام کوناراض کردیا تھا۔حضرت عائشہ انہیں نعثل یہودی قراردے کر لوگوں کو قتل پرآمادہ کر رہی تھیں۔طلحہ انہیں واجب القتل قراردے رہا تھا۔زبیر در پردہ قاتلوں کی حمایت کر رہا تھا لیکن ان سب کا مقصد امت اسلامیہ کو نا اہل سے نجات دلانا نہیں تھا بلکہ آئندہ خلافت کی زمین کو ہموار کرنا تھا اورحضرت علی اس حقیقت سے مکمل طور پر باخبر تھے۔اس لئے جب انقلابی گروہ نے خلافت کی پیشکش تو آپنے انکار کردیا کہ قتل کا سارا الزام اپنی گردن پرآجائے گا اور اس وقت تک قبول نہیں کیا جب تک تمام انصار و مہاجرین نے اس امر کا اقرارنہیں کرلیا کہ آپ کے علاوہ امت کا مشکل کشاہ کوئی نہیں ہے اور اس کے بعد بھی منبر رسول (ص) پر بٹھ کر بیعت لی تاکہ جانشینی کاصحیح مفہوم واضح ہو جائے۔یہ اور بات ہے کہ اس وقت بھی سعد بن ابی وقاص اورعبداللہ بن عمر جیسے افراد نے بیعت نہیں کی اور حضرت عائشہ کو بھی جیسے ہی اس '' حادثہ'' کی اطلاع ملی انہوں نے عثمان کی مظلومیت کا اعلان شروع کردیا اور طلحہ و زبیر کی محرومی کا انتقام لینے کا ارادہ کرلیا۔آپ کے حضرت علی سے اختلاف کی ایک بنیاد یہ بھی تھی کہ حضور(ص) نے اولاد علی کواپنی اولاد قراردے دیا تھا اور قرآن مجید نے انہیں ابنائنا کالقب دے دیا تھا اورحضرت عائشہ مستقل طور پر محروم اولاد تھیں لہٰذا ان میں یہ جذبہ حسد پیدا ہونا ہی چاہتے تھا۔

۲۱

بَلَى واللَّه لَقَدْ سَمِعُوهَا ووَعَوْهَا، ولَكِنَّهُمْ حَلِيَتِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِهِمْ ورَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا

أَمَا والَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وبَرَأَ النَّسَمَةَ ، لَوْ لَا حُضُورُ الْحَاضِرِ وقِيَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِ النَّاصِرِ، ومَا أَخَذَ اللَّه عَلَى الْعُلَمَاءِ، أَلَّا يُقَارُّوا عَلَى كِظَّةِ ظَالِمٍ ولَا سَغَبِ مَظْلُومٍ، لأَلْقَيْتُ حَبْلَهَا عَلَى غَارِبِهَا - ولَسَقَيْتُ آخِرَهَا بِكَأْسِ أَوَّلِهَا - ولأَلْفَيْتُمْ دُنْيَاكُمْ هَذِه أَزْهَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ

قَالُوا وقَامَ إِلَيْه رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ السَّوَادِ - عِنْدَ بُلُوغِه إِلَى هَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِه - فَنَاوَلَه كِتَاباً قِيلَ إِنَّ فِيه مَسَائِلَ كَانَ يُرِيدُ الإِجَابَةَ عَنْهَا فَأَقْبَلَ يَنْظُرُ فِيه [فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَتِه] قَالَ لَه ابْنُ عَبَّاسٍ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - لَوِ اطَّرَدَتْ خُطْبَتُكَ مِنْ حَيْثُ أَفْضَيْتَ!

فَقَالَ هَيْهَاتَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ - تِلْكَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ

ہاں ہاں خداکی قسم ان لوگوں نے یہ ارشاد سنا بھی ہے اور سمجھے بھی ہیں لیکن دنیا ان کی نگاہوں میں آراستہ ہوگئی اور اس کی چمک دمک نے انہیں نبھا لیا۔

آگاہ ہو جائو وہ خدا گواہ ہے جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اورذی روح کو پیدا کیا ہے کہ اگر حاضرین کی موجودگی اور انصار کے وجود سے حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اوراللہ کا اہل علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پرچین سے نہ بیٹھنا تو میں آج بھی اس خلافت کی رسی کو اسی کی گردن پر ڈال کر ہنکا دیتا اور اس کی آخر کواول ہی کے کاسہ سے سیراب کرتا اور تم دیکھ لیتے کہ تمہاری دنیا میری نظرمیں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس موقع پرایک عراقی باشندہ اٹھ کھڑا ہوا اوراس نے آپ کو ایک خط دیا جس ک بارے میں خیال ہے کہ اس میں کچھ فوری جواب طلب مسائل تھے۔چنانچہ آپ نے اس خط کو پڑھنا شروع کردیا اور جب فارغ ہوئے تو ابن عباس نے عرض کی کہ حضوربیان جاری رہے؟فرمایا کہ افسوس ابن عباس یہ توایک شقشقہ تھا جوابھر کر دب گیا۔

(شقشقہ اونٹ کے منہ میں وہ گوشت کا لوتھڑا ہے جو غصہ اور ہیجان کے وقت باہر نکل آتا ہے )

۲۲

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَاللَّه مَا أَسَفْتُ عَلَى كَلَامٍ قَطُّ - كَأَسَفِي عَلَى هَذَا الْكَلَامِ - أَلَّا يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام بَلَغَ مِنْه حَيْثُ أَرَادَ.

* *

قال الشريف رضيرضي‌الله‌عنه قولهعليه‌السلام كراكب الصعبة إن أشنق لها خرم - وإن أسلس لها تقحم - يريد أنه إذا شدد عليها في جذب الزمام - وهي تنازعه رأسها خرم أنفها - وإن أرخى لها شيئا مع صعوبتها - تقحمت به فلم يملكها - يقال أشنق الناقة إذا جذب رأسها بالزمام فرفعه - وشنقها أيضا ذكر ذلك ابن السكيت في إصلاح المنطق - وإنما قالعليه‌السلام أشنق لها ولم يقل أشنقها - لأنه جعله في مقابلة قوله أسلس لها - فكأنهعليه‌السلام قال إن رفع لها رأسها بمعنى أمسكه عليها بالزمام -

ابن عباس کہتے ہیں کہ بخدا قسم مجھے کسی کلام کے نا تمام رہ جانے کا اس قدر افسوس نہیں ہوا جتنا افسوس اس امر پرہوا کہ امیر المومنین اپنی بات پوری نہ فرما سکے اور آپ کا کلام نا تمام رہ گیا۔

سید شریف رضی فرماتے ہیں کہ امیر المومنین کے ارشاد''ان اشنقلها…… کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ناقہ پر مہارکھینچنے میں سختی کی جائے گیاور وہ سر کشی پرآمادہ ہو جائے گا تو اس کی ناک زخمی ہو جائے گی اوراگر ڈھیلا چھوڑ دیا جائے تو اختیار سے باہر نکل جائے گا۔عرب''اشنق الناقة'' اس موقع پر استعمال کرتے ہیں جب اس کے سر کو مہار کے ذریعہ کھینچا جاتا ہے اور وہ سر اٹھالیتا ہے۔اس کیفیت کو''شنقها ''سے بھی تعبیر کرتے ہیں جیسا کہ ابن السکیت نے'' اصلاح المنطق'' میں بیان کیا ہے۔لیکن امیرالمومنین نے اس میں ایک لام کا اضافہ کردیا ہے ''اشنق لھا'' تاکہ بعد کے جملہ'' اسلس لها '' سے ہم آہنگ ہو جائے اور فصاحت کا نظام درہم برہم نہ ہونے پائے۔

۲۳

(۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي من أفصح كلامهعليه‌السلام وفيها يعظ الناس ويهديهم من ضلالتهم

ويقال: إنه خطبها بعد قتل طلحة والزبير

بِنَا اهْتَدَيْتُمْ فِي الظَّلْمَاءِ وتَسَنَّمْتُمْ ذُرْوَةَ - الْعَلْيَاءِ وبِنَا أَفْجَرْتُمْ عَنِ السِّرَارِ - وُقِرَ سَمْعٌ لَمْ يَفْقَه الْوَاعِيَةَ - وكَيْفَ يُرَاعِي النَّبْأَةَ مَنْ أَصَمَّتْه الصَّيْحَةُ - رُبِطَ جَنَانٌ لَمْ يُفَارِقْه الْخَفَقَانُ - مَا زِلْتُ أَنْتَظِرُ بِكُمْ عَوَاقِبَ الْغَدْرِ - وأَتَوَسَّمُكُمْ بِحِلْيَةِ الْمُغْتَرِّينَ - حَتَّى سَتَرَنِي عَنْكُمْ جِلْبَابُ الدِّينِ - وبَصَّرَنِيكُمْ صِدْقُ النِّيَّةِ - أَقَمْتُ لَكُمْ عَلَى سَنَنِ الْحَقِّ فِي جَوَادِّ الْمَضَلَّةِ - حَيْثُ تَلْتَقُونَ ولَا دَلِيلَ وتَحْتَفِرُونَ ولَا تُمِيهُونَ.

الْيَوْمَ أُنْطِقُ لَكُمُ الْعَجْمَاءَ ذَاتَ الْبَيَانِ

(۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جوفصیح ترین کلمات میں شمار ہوتا ہے اور جس میں لوگوں کو نصیحت کی گئی ہے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کے راستہ پرلایا گیا ہے۔(طلحہ و زبیر کی بغاوت اورقتل عثمان کے پس منظر میں فرمایا)

تم لوگوں نے ہماری ہی وجہ سے تاریکیوں میں ہدایت کا راستہ پایاہے اوربلندی کے کوہان پر قدم جمائے ہیں اور ہماری ہی وجہ سے اندھری راتوں سے اجالے کی طرف باہرآئے ہو۔ وہ کان بہرے ہو جائیں جو پکارنے والے کی آواز نہ سن سکیں اور وہ لوگ بھلا دھیمی آواز کو کیا سن سکیں گے جن کے کان بلند ترین آوازوں کے سامنے بھی بہرے ہی رہے ہوں۔مطمئن دل وہی ہوتا ہے جویاد الٰہی اورخوف خدا میں مسلسل دھڑکتا رہتا ہے۔میں روزاول سے تمہاری غداری کے انجام کا انتظار کر رہا ہوں اور تمہیں فریب خوردہ لوگوں کے انداز سے پہچان رہا ہوں۔مجھے تم سے دینداری کی چادر نے پوشیدہ کردیا ہے لیکن صدق نیت نے میرے لئے تمہارے حالات کو آئینہ کردیا ہے۔میں نے تمہارے لئے گمراہی کی منزلوں میں حق کے راستوں پر قیام کیا ہے جہاں تم ایک دوسرے سے ملتے تھے لیکن کوئی راہنما نہ تھا اور کنواں کھودتے تھے لیکن پانی نصیب نہ ہوتا تھا۔

آج میں تمہارے لئے اپنی اس زبان خاموش کو گویا بنا رہا ہوں جس میں بڑی قوت بیان ہے

۲۴

عَزَبَ رَأْيُ امْرِئٍ تَخَلَّفَ عَنِّي - مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُه - لَمْ يُوجِسْ مُوسَىعليه‌السلام خِيفَةً عَلَى نَفْسِه - بَلْ أَشْفَقَ مِنْ غَلَبَةِ الْجُهَّالِ ودُوَلِ الضَّلَالِ الْيَوْمَ تَوَاقَفْنَا عَلَى سَبِيلِ الْحَقِّ والْبَاطِلِ مَنْ وَثِقَ بِمَاءٍ لَمْ يَظْمَأْ!

(۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما قبض رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله

وخاطبه العباس وأبو سفيان بن حرب - في أن يبايعا له بالخلافة (وذلك بعد أن تمت البيعة لأبي بكرفي السقيفة، وفيها ينهى عن الفتنة ويبين عن خلقه وعلمه)

النهي عن الفتنة

أَيُّهَا النَّاسُ شُقُّوا أَمْوَاجَ الْفِتَنِ بِسُفُنِ النَّجَاةِ - وعَرِّجُوا عَنْ طَرِيقِ الْمُنَافَرَةِ - وضَعُوا تِيجَانَ الْمُفَاخَرَةِ - أَفْلَحَ مَنْ نَهَضَ بِجَنَاحٍ أَوِ اسْتَسْلَمَ فَأَرَاحَ - هَذَا مَاءٌ آجِنٌ

یاد رکھو کہ اس شخص کی رائے گم ہوگئی ہے جس نے مجھ سے رو گردانی کی ہے۔میں نے روز اول سے آج تک حق کے بارے میں کبھی شک نہیں کیا میرا سکوت مثل موسی ہے موسی کو اپنے نفس کے بارے میں خوف نہیں تھاانہیں دربار فرعون میں صرف یہ خوف تھا کہ کہیں جاہل جادوگر اورگمراہ حکام عوام کی عقلوں پر غالب نہ آجائیں۔آج ہم سے حق و باطل کے راستہ پرآمنے سامنے ہیں اوریاد رکھو جسے پانی پر اعتماد ہوتا ہے وہ پیاسا نہیں رہتا ہے۔

(۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جو آپ کے وفات پیغمبراسلام(ص) کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا جب عباس اورابو سفیان نے آپ سے بیعت لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

ایہا الناس! فتنوں کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیر کرنکل جائو اور منافرت کے راستوں سے الگ رہو۔باہمی فخر و مباہات کے تاج اتار دو کہ کامیابی اسی کا حصہ ہے جو اٹھے تو بال و پر کے ساتھ اٹھے ورنہ کرسی کو دوسروں کے حوالے کرکے اپنے کوآزاد کرلے۔یہ پانی بڑا گندہ(۱) ہے۔

(۱) امیر المومنین نے حالات کی وہ بہترین تصویر کشی کی ہے جس کی طرف ابو سفیان جیسے افراد متوجہ نہیں تھے یا سازشوں کا پردہ ڈالنا چاہتے تھے آپ نے واضح لفظوں میں فرمادیا کہ مجھے اس مطالبہ بیعت اوروعدہ نصرت کا انجام معلوم ہے اور میں اس وقت قیام کونا وقت قیام تصور کرتا ہوں جس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ انسان پہلے بال و پر تلاش کرلے اس کے بعد اڑنے کا ارادہ کرے ورنہ خاموش ہو کر بیٹھ جائے کہ اس میں عافیت ہے اور یہی تقاضائے عقل و منطق ہے۔میں اس طعن و طنز سے بھی با خبر ہوں جو میرے اقدامات کے بارے میں استعمال ہو رہے ہیں لیکن میں کوئی جذباتی انسان نہیں ہوں کہ ان جملوں سے گھبرا جائوں۔میں مشیت الٰہی کا پابند ہوں اور اس کے خلاف ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتا ہوں۔

۲۵

ولُقْمَةٌ يَغَصُّ بِهَا آكِلُهَا. ومُجْتَنِي الثَّمَرَةِ لِغَيْرِ وَقْتِ إِينَاعِهَا كَالزَّارِعِ بِغَيْرِ أَرْضِه.

خلقه وعلمه

فَإِنْ أَقُلْ يَقُولُوا حَرَصَ عَلَى الْمُلْكِ - وإِنْ أَسْكُتْ يَقُولُوا جَزِعَ مِنَ الْمَوْتِ - هَيْهَاتَ بَعْدَ اللَّتَيَّا والَّتِي واللَّه لَابْنُ أَبِي طَالِبٍ آنَسُ بِالْمَوْتِ - مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْيِ أُمِّه - بَلِ انْدَمَجْتُ عَلَى مَكْنُونِ عِلْمٍ لَوْ بُحْتُ بِه لَاضْطَرَبْتُمْ - اضْطِرَابَ الأَرْشِيَةِ فِي الطَّوِيِّ الْبَعِيدَةِ!

(۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لا أشير عليه بألا يتبع طلحة والزبير ولا يرصد لهما القتالوفيه يبين عن صفته بأنه عليه‌السلام لا يخدع

واللَّه لَا أَكُونُ كَالضَّبُعِ تَنَامُ عَلَى طُولِ اللَّدْمِ

اور اس لقمہ میں اچھو لگ جانے کاخطرہ ہے اور یاد رکھو کہ نا وقت پھل چننے والا ایسا ہی ہے جیسے نا مناسب زمین میں زراعت کرنے والا۔ (میری مشکل یہ ہے کہ) میں بولتا ہوں تو کہتے ہیں کہ اقتدار کی لالچ رکھتے ہیں اورخاموش ہو جاتا ہوں تو کہتے ہیں کہ موت سے ڈر گئے ہیں۔

افسوس اب یہ بات جب میں تمام مراحل دیکھ چکا ہوں۔خدا کی قسم ابو طالب کافرزند موت سے اس سے زیادہ مانوس ہے جتنا بچہ سر چشمہ حیات سے مانوس ہوتا ہے۔البتہ میرے سینہ کی تہوں میں ایک ایسا پوشیدہ علم ہے جو مجھے مجبور کئے ہوئے ہے ورنہ اسے ظاہر کردوں تو تم اسی طرح لرزنے لگو گے جس طرح گہرے کنویں میں رسی تھرتھراتی اور لرزتی ہے۔

(۶)

حضرت کا ارشاد گرامی

جب آپ کو مشورہ دیا گیا کہ طلحہ و زبیر کا پیچھا نہ کریں اور ان سے جنگ کا بندو بست نہ کریں

خدا کی قسم میں اس بجو(۱) کے مانند نہیں ہو سکتا جس کا شکاری مسلسل کھٹکھٹاتا رہتا ہے اور وہ آنکھ بند کئے پڑا رہتا ہے ،

(۱) بجو کو عربی میں ام عامر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس کے شکار کا طریقہ یہ ہے کہ شکاری اس کے گرد گھیرا ڈال کر زمین کو تھپتھپاتا ہے اور وہ اندر سوراخ میں گھس کر بیٹھ جاتا ہے۔پھر شکاری اعلان کرتا ہے کہ ام عامر نہیں ہے اور وہ اپنے کو سویا ہوا ظاہر کرنے کے لئے پیر پھیلا دیتا ہے اور شکاری پیر میں رسی باندھ کر کھینچ لیتا ہے ۔یہ انتہائی احمقانہ عمل ہوتا ہے جس کی بنا پر بجو کو حماقت کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے آپ(ص) کا ارشاد گرامی ہے کہ جہاد سے غافل ہو کر خانہ نشین ہو جانا اور شام کے لشکروں کو مدینہ کا راستہ بتا دینا ایک بجو کا عمل تو ہو سکتا ہے لیکن عقل کا اورباب مدینة العلم کا کردارنہیں ہوسکتا ہے۔

۲۶

حَتَّى يَصِلَ إِلَيْهَا طَالِبُهَا ويَخْتِلَهَا رَاصِدُهَاولَكِنِّي أَضْرِبُ بِالْمُقْبِلِ إِلَى الْحَقِّ الْمُدْبِرَ عَنْه - وبِالسَّامِعِ الْمُطِيعِ الْعَاصِيَ الْمُرِيبَ أَبَداً - حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيَّ يَوْمِي - فَوَاللَّه مَا زِلْتُ مَدْفُوعاً عَنْ حَقِّي - مُسْتَأْثَراً عَلَيَّ مُنْذُ قَبَضَ اللَّه نَبِيَّه صوسلم حَتَّى يَوْمِ النَّاسِ هَذَا.

(۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذم فيها أتباع الشيطان

اتَّخَذُوا الشَّيْطَانَ لأَمْرِهِمْ مِلَاكاً واتَّخَذَهُمْ لَه أَشْرَاكاً فَبَاضَ وفَرَّخَ فِي صُدُورِهِمْ ودَبَّ ودَرَجَ فِي حُجُورِهِمْ - فَنَظَرَ بِأَعْيُنِهِمْ ونَطَقَ بِأَلْسِنَتِهِمْ - فَرَكِبَ بِهِمُ الزَّلَلَ وزَيَّنَ لَهُمُ الْخَطَلَ فِعْلَ مَنْ قَدْ شَرِكَه الشَّيْطَانُ فِي سُلْطَانِه ونَطَقَ بِالْبَاطِلِ عَلَى لِسَانِه!

یہاں تک کہ گھات لگانے والا اسے پکڑ لیتا ہے۔میں حق کی طرف آنے والوں کے ذریعہ انحراف کرنے والوں پر اوراطاعت کرنے والوں کے سہارے معصیت کا ر تشکیک کرنے والوں پر مسلسل ضرب لگاتا رہوں گا یہاں تک کہ میرا آخری دن آجائے۔خدا گواہ ہے کہ میں ہمیشہ اپنے حق سے محروم رکھا گیا ہوں اور دوسروں کو مجھ پرمقدم کیا گیا ہے جب سے سرکار دو عالم(ص) کا انتقال ہوا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

(۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جس میں شیطان کے پیروکاروں کی مذمت کی گئی ہے

ان لوگوں نے شیطان کو اپنے امور کا مالک و مختار بنالیا ہے اور اس نے انہیں اپناآلہ کا ر قرار دے لیا ہے اور انہیں کی سینوں میں(۱) انڈے بچے د ئی ے ہیں اور وہ انہیں کی آغوش میں پلے بڑھے ہیں۔اب شیطان انہیں کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور انہیں کی زبان سے بولتا ہے۔انہیں لغزش کی راہ پر لگا دیا ہے اوران کے لئے غلط باتوں کو آراستہ کردیا ہے جیسے کہ اس نے انہیں اپنے کاروبارمیں شریک بنالیا ہو اور اپنے حرف باطل کو انہیں کی زبان سے ظاہر کرتا ہو۔

(۱)شیطانوں کی تخلیق میں انڈے بچے ہوتے ہیں یا نہیں۔یہ مسئلہ اپنی جگہ پرقابل تحقیق ہے لیکن حضرت کی مراد یہ ہے کہ شیاطین اپنے معنوی بچوں کو انسانی معاشرہ سے الگ کسی ماحول میں نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان کی پرورش اسی ماحول میں کرتے ہیں اور پھر انہیں کے ذریعہ اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔

زمانہ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو انداز ہو گا کہ شیاطین زمانہ اپنی اولاد کو مسلمانوں کی آغوش میں پالتے ہیں اور مسلمانوں کی اولاد کو اپنی گود میں پالتے ہیں تاکہ مستقبل میں انہیں مکمل طور پر استعمال کیا جا سکے اور اسلام کو اسلام کے ذریعہ فنا کیا جا سکے جس کا سلسلہ کل کے شام سے شروع ہوا تھا اور آج کے عالم اسلام تک جاری و ساری ہے۔

۲۷

(۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يعني به الزبير في حال اقتضت ذلك ويدعوه للدخول في البيعة ثانية

يَزْعُمُ أَنَّه قَدْ بَايَعَ بِيَدِه ولَمْ يُبَايِعْ بِقَلْبِه - فَقَدْ أَقَرَّ بِالْبَيْعَةِ وادَّعَى الْوَلِيجَةَ - فَلْيَأْتِ عَلَيْهَا بِأَمْرٍ يُعْرَفُ - وإِلَّا فَلْيَدْخُلْ فِيمَا خَرَجَ مِنْه.

(۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفته وصفة خصومه ويقال إنها في أصحاب الجمل

وقَدْ أَرْعَدُوا وأَبْرَقُوا ومَعَ هَذَيْنِ الأَمْرَيْنِ الْفَشَلُ ولَسْنَا نُرْعِدُ حَتَّى نُوقِعَ ولَا نُسِيلُ حَتَّى نُمْطِرَ.

(۸)

آپ کا ارشاد گرامی

زبیر کے بارے میں

جب ایسے حالات پیدا ہوگئے اور اسے دوبارہ بیعت کے دائرہ میں داخل ہونا پڑے گا جس سے نکل گیا ہے

زبیر کا خیال یہ ہے کہ اس نے صرف ہاتھ سے میری بیعت کی ہے اور دل سے بیعت نہیں کی ہے۔تو بیعت کا تو بہر حال اقرار کرلیا ہے۔اب صرف دل کے کھوٹ کا ادعا کرتا ہے تو اسے اس کا واضح ثبوت فراہم کرناپڑے گاورنہ اسی بیعت میں دوبارہ داخل ہوناپڑے گا جس سے نکل گیا ہے۔

(۹)

آپ کے کلام کا ایک حصہ

جس میں اپنے اوربعض مخالفین کے اوصاف کا تذکرہ فرمایا ہے اور شاید اس سے مراد اہل جمل ہیں۔

یہ لوگ بہت گرجے اوربہت چمکے لیکن آخر میں ناکام ہی رہے جب کہ اس وقت تک گرجتے نہیں ہیں جب تک دشمن پر ٹوٹ نہ پڑیں اور اس وقت تک لفظوں کی روانی نہیں دکھلاتے جب تک کہ برس نہ پڑیں۔

۲۸

(۱۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يريد الشيطان أو يكني به عن قوم

أَلَا وإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ جَمَعَ حِزْبَه - واسْتَجْلَبَ خَيْلَه ورَجِلَه وإِنَّ مَعِي لَبَصِيرَتِي مَا لَبَّسْتُ عَلَى نَفْسِي ولَا لُبِّسَ عَلَيَّ - وايْمُ اللَّه لأُفْرِطَنَّ لَهُمْ حَوْضاً أَنَا مَاتِحُه لَا يَصْدُرُونَ عَنْه ولَا يَعُودُونَ إِلَيْه.

(۱۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لابنه محمد ابن الحنفية - لما أعطاه الراية يوم الجمل

تَزُولُ الْجِبَالُ ولَا تَزُلْ -.

(۱۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جس کا مقصد شیطان ہے یا شیطان صفت کوئی گروہ

آگاہ ہو جائو کہ شیطان نے اپنے گروہ کوجمع کرلیا ہے اور اپنے پیادہ و سوار سمیٹ لئے ہیں۔لیکن پھربھی میرے ساتھ میری بصیرت ہے۔نہ میں نے کسی کو دھوکہ دیا ہے اور نہ واقعا دھوکہ کھایا ہے اور خدا کی قسم میں ان کے لئے ایسے حوض کو چھلکائوں گا جس کا پانی نکالنے والا بھی میں ہی ہوں گا کہ یہ نہ نکل سکیں گے اور نہ پلٹ کرآسکیں گے

(۱۱)

آپ کا ارشاد گرامی

اپنے فرزند محمد بن الخفیہ سے

( میدان جمل میں علم لشکر دیتے ہوئے)

خبردار(۱) پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے۔ تم نہ ہٹنا۔

(۱) حیرت کی بات ہے کہ جو انسان فنون جنگ کی تعلیم دیتا ہو اسے موت سے خوف زدہ ہونے کا الزام دیدیا جائے۔امیر المومنین کی مکمل تاریخ حیات گواہ ہے کہ آپ سے بڑا شجاع و بہادرکائنات میں نہیں پیدا ہوا ہے۔آپ موت کو سر چشمہ حیات تصور کرتے تھے جس کی طرف بچہ فطری طورپر ہمکتا ہے اور اسے اپنی زندگی کا راز تصور کرتا ہے۔آپ نے صفیں کے میدان میں وہ تیغ کے جوہر دکھلائے ہیں جس نے ایک مرتبہ پھر بدر واحد و خندق و خیبر کی یاد تازہ کردی تھی اور یہ ثابت کردیا تھا کہ یہ بازد ۲۵ سال کے سکوت کے بعد بھی شل نہیں ہوئے ہیں اور یہ فن حرب کسی مشق و مہارت کا نتیجہ نہیں ہے۔ محمد حنفیہ سے خطاب کرکے یہ فرمانا کہ'' پہاڑ ہٹ جائے تم نہ ہٹنا'' اس امر کی دلیل ہے کہ آپ کی استقامت اس سے کہیں زیادہ پائیدار اور استوار ہے دانتوں کو بھینچ لینے میں اشارہ ہے کہ اس طرح رگوں کے تنائو پرتلوار کا وار اثر نہیں کرتا ہے۔کاسہ سر کو عاریت دیدینے کا مطلب یہ ہے کہ مالک زندہ رکھنا چاہے گا تو دوبارہ یہ سر واپس لیا جا سکتا ہے ورنہ بندہ نے تو اس کی بارگاہ میں پیش کردیا ہے۔آنکھوں کو بند رکھنے اور آخر قوم پر نگاہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ سامنے کے لشکر کو مت دیکھنا۔بس یہ دیکھنا کہ کہاں تک جانا ہے اور کس طرح صفوں کو پامال کردینا ہے۔ آخری فقرہ جنگ اور جہاد کے فرق کو نمایاں کرتا ہے کہ جنگ جو اپنی طاقت پر بھروسہ کرتا ہے اور مجاہد نصرت الٰہی کے اعتماد پرمیدان میں قدم جماتا ہے اور جس کی خدا مدد کردے وہ کبھی مغلوب نہیں ہو سکتا ہے۔

۲۹

عَضَّ عَلَى نَاجِذِكَ أَعِرِ اللَّه جُمْجُمَتَكَ - تِدْ فِي الأَرْضِ قَدَمَكَ ارْمِ بِبَصَرِكَ أَقْصَى الْقَوْمِ وغُضَّ بَصَرَكَ واعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِ اللَّه سُبْحَانَه

(۱۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما أظفره الله بأصحاب الجمل وقَدْ قَالَ لَهعليه‌السلام بَعْضُ أَصْحَابِه - وَدِدْتُ أَنَّ أَخِي فُلَاناً كَانَ شَاهِدَنَا - لِيَرَى مَا نَصَرَكَ اللَّه بِه عَلَى أَعْدَائِكَ

فَقَالَ لَهعليه‌السلام أَهَوَى أَخِيكَ مَعَنَا فَقَالَ نَعَمْ قَالَ فَقَدْ شَهِدَنَا - ولَقَدْ شَهِدَنَا فِي عَسْكَرِنَا هَذَا أَقْوَامٌ فِي أَصْلَابِ الرِّجَالِ - وأَرْحَامِ النِّسَاءِ - سَيَرْعَفُ بِهِمُ الزَّمَانُ ويَقْوَى بِهِمُ الإِيمَانُ.

اپنے دانتوں کو بھینچ لینا۔ اپنا کاسہ سر اللہ کے حوالے کردینا۔زمین میں قدم گاڑ دینا ۔نگاہ آخر قوم پر رکھنا۔آنکھوں کو بند رکھنا اور یہ یاد رکھنا کہ مدد اللہ ہی کی طرف سے آنے والی ہے۔

(۱۲)

آپ کا ارشاد گرامی

جب پروردگار نے آپ کو اصحاب جمل پر کامیابی عطا فرمائی اور آپ کے بعض اصحاب نے کہا کہ کاش ہمارا فلاں بھائی بھی ہمارے ساتھ ہوتا تو وہ بھی دیکھتا کہ پروردگار نے کس طرح آپ کو دشمن پر فتح عنایت فرمائی ہے تو آپ نے فرمایا، کیا تیرے(۱) بھائی کی محبت بھی ہمارے ساتھ ہے ؟ اس نے عرض کی بیشک! فرمایا تو وہ ہمارے ساتھ تھا اور ہمارے اس لشکرمیں وہ تمام لوگ ہمارے ساتھ تھے جو ابھی مردوں کے صلب اور عورتوں کے رحم میں ہیں اور عنقریب زمانہ انہیں منظر عام پرلے آئے گا اور ان کے ذریعہ ایمان کو تقویت حاصل ہوگی۔

(۱) یہ دین اسلام کا ایک مخصوص امتیاز ہے کہ یہاں عذاب بد عملی کے بغیر نازل نہیں ہوتا ہے اور ثواب کا استحقاق عمل کے بغیر بھی حاصل ہو جاتا ہے اور عمل خیر کا دارومدار صرف نیت پر رکھا گیا ہے بلکہ بعض اوقات تو نیت مومن کو اس کے عمل سے بھی بہتر قرار دیا گیا ہے کہ عمل میں ریا کاری کے امکانات پائے جاتے ہیں اور نیت میں کسی طرح کی ریاکاری نہیں ہوتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پروردگارنے روزہ کو صرف اپنے لئے قرار دیا ہے اور اس کے اجرو ثواب کی مخصوص ذمہ داری اپنے اوپر رکھی ہے کہ روزہ میں نیت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے اوراخلاص نیت کا فیصلہ کرنے والا پروردگار کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔

۳۰

(۱۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذم أهل البصرة بعد وقعة الجمل

كُنْتُمْ جُنْدَ الْمَرْأَةِ وأَتْبَاعَ الْبَهِيمَةِ رَغَا فَأَجَبْتُمْ وعُقِرَ فَهَرَبْتُمْ أَخْلَاقُكُمْ دِقَاقٌ وعَهْدُكُمْ شِقَاقٌ ودِينُكُمْ نِفَاقٌ ومَاؤُكُمْ زُعَاقٌ والْمُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ مُرْتَهَنٌ بِذَنْبِه والشَّاخِصُ عَنْكُمْ مُتَدَارَكٌ بِرَحْمَةٍ مِنْ رَبِّه - كَأَنِّي بِمَسْجِدِكُمْ كَجُؤْجُؤِ

سَفِينَةٍ قَدْ بَعَثَ اللَّه عَلَيْهَا الْعَذَابَ مِنْ فَوْقِهَا ومِنْ تَحْتِهَا - وغَرِقَ مَنْ فِي ضِمْنِهَا.

وفِي رِوَايَةٍ وايْمُ اللَّه لَتَغْرَقَنَّ بَلْدَتُكُمْ حَتَّى كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مَسْجِدِهَا كَجُؤْجُؤِ سَفِينَةٍ - أَوْ نَعَامَةٍ جَاثِمَةٍ.

وفِي رِوَايَةٍ كَجُؤْجُؤِ طَيْرٍ فِي لُجَّةِ بَحْرٍ.

(۱۳)

آپ کا ارشاد گرامی

جس میں جنگ جمل کے بعد اہل بصرہ کی مذمت فرمائی ہے

افسوس تم لوگ ایک عورت کے سپاہی اور ایک جانورکے پیچھے چلنے والے تھے جس نے بلبلانا شروع کیا تو تم لبیک(۱) کہنے لگے اور وہ زخمی ہوگیا تو تم بھاگ کھڑے ہوئے۔تمہارے اخلاقیات پست۔تمہارا عہد نا قابل اعتبار۔تمہارا دین نفاق اور تمہارا پانی شور ہے۔تمہارے درمیان قیام کرنے والا گویا گناہوں کے ہاتھوں رہن ہے اور تم سے نکل جانے والا گویا رحمت پروردگار کو حاصل کر لینے والا ہے۔میں تمہاری اس مسجد کو اس عالم میں دیکھ رہا ہوں جیسے کشتی کا سینہ۔جب خدا تمہاری زمین پر اوپر اور نیچے ہر طرف سے عذاب بھیجے گا اور سارے اہل شہر غرق ہو جائیں گے۔

(دوسری روایت میں ہے)

خدا کی قسم تمہارا شہر غرق ہونے والا ہے۔یہاں تک کہ گویا میں اس کی مسجد کو ایک کشتی کے سینہ کی طرح یا ایک بیٹھے ہوئے شتر مرغ کی شکل میں دیکھ رہا ہوں

(تیسری روایت میں )

جیسے پرندہ کا سینہ سمندر کی گہرائیوں میں۔

(۱)اہل بصرہ کا برتائو امیر المومنین کے ساتھ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے اور جنگ جمل اس کا بہترین ثبوت ہے لیکن امیر المومنین کے برتائو کے بارے میں ڈاکٹر طہ حسین کا بیان ہے کہ'' آپ نے ایک کریم انسان کا برتائو کیا اور بیت المال دوست اور دشمن دونوں کے مستحقین میں تقسیم کردیا ۔اور زخمیوں پرحملہ نہیں کیا'' اور حد یہ ہے کہ قیدیوں کو کنیز نہیں بنایا بلکہ نہایت احترام کے ساتھ مدینہ واپس کردیا۔

۳۱

وفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى بِلَادُكُمْ أَنْتَنُ بِلَادِ اللَّه تُرْبَةً - أَقْرَبُهَا مِنَ الْمَاءِ وأَبْعَدُهَا مِنَ السَّمَاءِ - وبِهَا تِسْعَةُ أَعْشَارِ الشَّرِّ - الْمُحْتَبَسُ فِيهَا بِذَنْبِه والْخَارِجُ بِعَفْوِ اللَّه - كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى قَرْيَتِكُمْ هَذِه قَدْ طَبَّقَهَا الْمَاءُ حَتَّى مَا يُرَى مِنْهَا إِلَّا شُرَفُ الْمَسْجِدِ كَأَنَّه جُؤْجُؤُ طَيْرٍ فِي لُجَّةِ بَحْرٍ!

(۱۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في مثل ذلك

أَرْضُكُمْ قَرِيبَةٌ مِنَ الْمَاءِ بَعِيدَةٌ مِنَ السَّمَاءِ - خَفَّتْ عُقُولُكُمْ وسَفِهَتْ حُلُومُكُمْ فَأَنْتُمْ غَرَضٌ لِنَابِلٍ وأُكْلَةٌ لِآكِلٍ وفَرِيسَةٌ لِصَائِلٍ.

ایک روایت میں آپ کا یہ ارشاد وارد ہوا ہے۔ تمہاراشہر خاک کے اعتبارسے سب سے زیادہ بدبودار ہے کہ پانی سے سب سے زیادہ قریب ہے اور آسمان سے سب سے زیادہ دور ہے۔اس میں شر کے دس حصوں میں سے نو حصے پائے جاتے ہیں۔اس میں مقیم گناہوں کے ہاتھ گرفتار ہے۔اوراس سے نکل جانے والا عفو الٰہی میں داخل ہوگیا۔گویا میں تمہاری اس بستی کو دیکھ رہا ہوں کہ پانی نے اسے اس طرح ڈھانپ لیا ہے کہ مسجد کے کنگروں کے علاوہ کچھ نظرنہیں آرہا ہے اوروہ کنگرے بھی جس طرح پانی کی گہرائی میں پرندہ کاسینہ۔

(۱۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایسے ہی ایک موقع پر)

تمہاری زمین پانی سے قریب تر اور آسمان سے دور ہے۔تمہاری عقلیں ہلکی اورتمہاری دانائی احمقانہ(۱) ہے تم ہر تیر انداز کا نشانہ' ہر بھوکے کا لقمہ اور ہر شکاری کا شکار ہو۔

(۱) اس سے زیادہ حماقت کیا ہو سکتی ہے کہ کل جس زبان سے قتل عثمان کا فتویٰ سنا تھاآج اسی سے انتقام خون عثمان کی فریاد سن رہے ہیں اور پھربھی اعتبار کر رہے ہیں۔اس کے بعد ایک اونٹ کی حفاظت پر ہزاروں جانیں قربان کر رہے ہیں اور سرکار دو عالم (ص) کے اس ارشاد گرامی کا احساس تک نہیں ہے کہ میری ازواج میں سے کسی ایک کی سواری کو دیکھ کرحواب کے کتے بھونکیں گے اور وہ عائشہ ہی ہو سکتی ہیں۔

۳۲

(۱۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

فيما رده على المسلمين من قطائع عثمان

واللَّه لَوْ وَجَدْتُه قَدْ تُزُوِّجَ بِه النِّسَاءُ ومُلِكَ بِه الإِمَاءُ لَرَدَدْتُه - فَإِنَّ فِي الْعَدْلِ سَعَةً - ومَنْ ضَاقَ عَلَيْه الْعَدْلُ فَالْجَوْرُ عَلَيْه أَضْيَقُ!

(۱۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما بويع في المدينة وفيها يخبر الناس بعلمه بما تئول إليه أحوالهم وفيها يقسمهم إلى أقسام

(۱۵)

آپ کے کلام کا ایک حصہ

اس موضوع سے متعلق کہ آپ نے عثمان کی جاگیروں کو مسلمانوں کو واپس دے دیا

خدا کی قسم اگر میں کسی(۱) مال کو اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنادیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دیدیا گیا ہے تو بھی اسے واپس کرادیتا اس لئے کہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اس کے لئے ظلم میں تو اوربھی تنگی ہوگی۔

(۱۶)

آپ کے کلام کا ایک حصہ

(اس وقت جب آپ کی مدینہ میں بیعت کی گئی اور آپ نے لوگوں کو بیعت کے مستقبل سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی قسمیں بیان فرمائی)

(۱) تاریخ کا مسلمہ ہے کہ امیر المومنین جب بیت المال میں داخل ہوتے تھے تو سوئی دھاگہ اور روٹی کے ٹکڑے تک تقسیم کردیا کرتے تھے اور اس کے بعد جھاڑو دے کردورکعت نمازادا کرتے تھے تاکہ یہ زمین روز قیامت علی کے عدل و انصاف کی گواہی دے اور اس بنیاد پرآپ نے عثمان کی عطا کردہ جاگیروں کو واپسی کا حکم دیدیا اور صدقہ کے اونٹ عثمان کے گھر سے واپس منگوالئے کہ عثمان کسی قیمت پرزکوٰة کے مستحق نہیں تھے۔

اگرچہ بعض ہوا خواہان بنی امیہ نے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ یہ انتہائی بے رحمانہ برتائو تھا جہاں یتیموں پررحم نہیں کیا گیا اور ان کے قبضہ سے مال لے لیا گیا۔لیکن اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ ظلم اور شقاوت کا مظاہرہ اس نے کیا ہے جس نے غرباء و مساکین کا حق اپنے گھر میں جمع کرلیا ہے اور مال مسلمین پر قبضہ کرلیا ہے۔پھر یہ کوئی نیا حادثہ بھی نہیں ہے۔کل پہلی خلافت میں یتیمہ رسول اکرم (ص) پر کب رحم کیا گیا تھا جو واقعاً فدک کی حقدار تھی اور اس کے بابا نے اسے یہ جاگیر حکم خدا سے عطا کردی تھی۔اولاد عثمان تو حقدار بھی نہیں ہے اور کیا اولاد عثمان کامرتبہ اولاد رسول (ص) سے بلند تر ہے یا ہر دور کے لئے ایک نئی شریعت مرتب کی جاتی ہے اور اس کا محور سرکاری مصالح اورجماعتی فوائد ہی ہوتے ہیں ؟

۳۳

ذِمَّتِي بِمَا أَقُولُ رَهِينَةٌ( وأَنَا بِه زَعِيمٌ ) إِنَّ مَنْ صَرَّحَتْ لَه الْعِبَرُ عَمَّا بَيْنَ يَدَيْه مِنَ الْمَثُلَاتِ حَجَزَتْه التَّقْوَى عَنْ تَقَحُّمِ الشُّبُهَاتِ أَلَا وإِنَّ بَلِيَّتَكُمْ قَدْ عَادَتْ كَهَيْئَتِهَا يَوْمَ بَعَثَ اللَّه نَبِيَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله والَّذِي بَعَثَه بِالْحَقِّ لَتُبَلْبَلُنَّ بَلْبَلَةً ولَتُغَرْبَلُنَّ غَرْبَلَةً ولَتُسَاطُنَّ سَوْطَ الْقِدْرِ حَتَّى يَعُودَ أَسْفَلُكُمْ أَعْلَاكُمْ وأَعْلَاكُمْ أَسْفَلَكُمْ - ولَيَسْبِقَنَّ سَابِقُونَ كَانُوا قَصَّرُوا - ولَيُقَصِّرَنَّ سَبَّاقُونَ كَانُوا سَبَقُوا - واللَّه مَا كَتَمْتُ وَشْمَةً ولَا كَذَبْتُ كِذْبَةً - ولَقَدْ نُبِّئْتُ بِهَذَا الْمَقَامِ وهَذَا الْيَوْمِ - أَلَا وإِنَّ الْخَطَايَا خَيْلٌ شُمُسٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا - وخُلِعَتْ لُجُمُهَا فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِي النَّارِ - أَلَا وإِنَّ التَّقْوَى مَطَايَا ذُلُلٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا،

وأُعْطُوا أَزِمَّتَهَا فَأَوْرَدَتْهُمُ الْجَنَّةَ - حَقٌّ وبَاطِلٌ ولِكُلٍّ أَهْلٌ - فَلَئِنْ أَمِرَ الْبَاطِلُ لَقَدِيماً فَعَلَ - ولَئِنْ قَلَّ الْحَقُّ فَلَرُبَّمَا

میں اپنے قول کا خود ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں اور جس شخص پر گذشتہ اقوام کی سزائوں نے عبرتوں کو واضح کردیا ہو اسے تقوی شبہات میں داخل ہونے سے یقینا روک دے گا۔ آگاہ ہو جائو آج تمہارے لئے وہ آزمائشی دور پلٹ آیا ہے جو اس وقت تھا جب پروردگار نے اپنے رسول (ص) کوبھیجا تھا۔قسم ہے اس پروردگار کی جس نے آپ(ص) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تھا کہ تم سختی کے ساتھ تہ و بالا کئے جائو گے تمہیں باقاعدہ چھانا جائے گا اور دیگ کی طرح چمچے الٹ پلٹ کیا جائے گا یہاں تک کہ اسفل اعلیٰ ہو جائے اوراعلیٰ اسفل بن جائے اور جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ آگے بڑھ جائیں اور جوآگے بڑھ گئے ہیں وہ پیچھے آجائیں۔خدا گواہ ہے کہ میں نے نہ کسی کلمہ کو چھپایا ہے اورنہ کوئی غلط بیانی کی ہے اور مجھے اس منزل اور اس دن کی پہلے ہی خبردے دی گئی تھی۔

یاد رکھو کہ خطائیں وہ سر کش سواریاں ہیں جن پر اہل خطا کو سوار کردیا جائے اور ان کی لگام کو ڈھیلا چھوڑ دیا جائے اور وہ سوار کو لے کرجہنم میں پھاند پڑیں اورتقوی ان رام کی ہوئی سواریوں کے مانند ہے جن پر لوگ سوار کیے جائیں اور ان کی لگام ان کے ہاتھوں میں دے دی جائے تو وہ اپنے سواروں کو جنت تک پہنچادیں۔

دنیا میں حق و باطل دونوں ہیں اور دونوں کے اہل بھی ہیں۔اب اگر باطل زیادہ ہوگیا ہے تو یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے اور اگر حق کم ہوگیا ہے تو یہ بھی ہوتا رہا ہے

۳۴

ولَعَلَّ ولَقَلَّمَا أَدْبَرَ شَيْءٌ فَأَقْبَلَ!

قال السيد الشريف وأقول إن في هذا الكلام الأدنى من مواقع الإحسان ما لا تبلغه مواقع الاستحسان وإن حظ العجب منه أكثر من حظ العجب به وفيه مع الحال التي وصفنا زوائد من الفصاحة لا يقوم بها لسان ولا يطلع فجها إنسان ولا يعرف ما أقول إلا من ضرب في هذه الصناعة بحق وجرى فيها على عرق( وما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ ) .

ومن هذه الخطبة وفيها يقسم الناس إلى ثلاثة أصناف

شُغِلَ مَنِ الْجَنَّةُ والنَّارُ أَمَامَه - سَاعٍ سَرِيعٌ نَجَا وطَالِبٌ بَطِيءٌ رَجَا ومُقَصِّرٌ فِي النَّارِ هَوَى الْيَمِينُ والشِّمَالُ مَضَلَّةٌ والطَّرِيقُ الْوُسْطَى هِيَ الْجَادَّةُ عَلَيْهَا بَاقِي الْكِتَابِ وآثَارُ النُّبُوَّةِ - ومِنْهَا مَنْفَذُ السُّنَّةِ

اور اس کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی شے پیچھے ہٹ جانے کے بعد دوبارہ منظر عام پرآجائے ۔

سیدرضی : اس مختصر سے کلام میں اس قدر خوبیاں پائی جاتی ہیں جہاں تک کسی کی داد و تعریف نہیں پہنچ سکتی ہے اور اس میں حیرت و استعجاب کا حصہ پسندیدگی کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔اس میں فصاحت کے وہ پہلو بھی ہیں جن کو کوئی زبان بیان نہیں کر سکتی ہے اور ان کی گہرائیوں کا کوئی انسان ادراک نہیں کر سکتا ہے۔اور اس حقیقت کو وہی انسان سمجھ سکتا ہے جس نے فن بلاغت کا حق ادا کیا ہو اور اس کے رگ و ریشہ سے با خبر ہو۔ اور ان حقائق کو اہل علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔

اسی خطبہ کا ایک حصہ جس میں لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے

وہ شخص کسی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں رکھتا جس کی نگاہ میں جنت و جہنم کا نقشہ ہو۔ تیز رفتاری سے کام کرنے والا نجات پا لیتا ہے اور سست رفتاری سے کام کرکے جنت کی طلب گاری کرنے والا بھی امید وار رہتا ہے لیکن کوتاہی کرنے والا جہنم میں گر پڑتا ہے۔دائیں بائیں گمراہیوں کی منزلیں ہیں اور سیدھا راستہ صرف درمیانی راستہ ہے۔ای راستہ پر رہ جانے والی کتاب خدا اور نبوت کے آثار ہیں اور اسی سے شریعت کا نفاذ ہوتا ہے

۳۵

وإِلَيْهَا مَصِيرُ الْعَاقِبَةِ هَلَكَ مَنِ ادَّعَى و( خابَ مَنِ افْتَرى ) مَنْ أَبْدَى صَفْحَتَه لِلْحَقِّ هَلَكَ وكَفَى بِالْمَرْءِ جَهْلًا أَلَّا يَعْرِفَ قَدْرَه لَا يَهْلِكُ عَلَى التَّقْوَى سِنْخُ أَصْلٍ ولَا يَظْمَأُ عَلَيْهَا زَرْعُ قَوْمٍ - فَاسْتَتِرُوا فِي بُيُوتِكُمْ( وأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ ) - والتَّوْبَةُ مِنْ وَرَائِكُمْ ولَا يَحْمَدْ حَامِدٌ إِلَّا رَبَّه ولَا يَلُمْ لَائِمٌ إِلَّا نَفْسَه.

اور اسی کی طرف عاقبت کی بازگشت ہے۔غلط ادعا کرنے والا ہلاک ہوا اور افترا کرنے والا ناکام ونامرادہوا۔جس نے حق کے مقابلہ میں سر نکالا وہ ہلاک ہوگیا اور انسان کی جہالت(۱) کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسے اپنی ذات کا بھی عرفان نہ ہو۔ جو بنیاد تقوی پرقائم ہوتی ہے اس میں ہلاکت نہیں ہوتی ہے اوراس کے ہوتے ہوئے کسی قوم کی کھیتی پیاس سے برباد نہیں ہوتی ہے۔اب تم اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھ جائو اور اپنے باہمی امور کی اصلاح کرو۔توبہ تمہارے سامنے ہے۔ تعریف کرنے والے کافرض ہے کہ اپنے رب کی تعریف کرے اور ملامت کرنے والے کو چاہیے کہ اپنے نفس کی ملامت کرے۔

(۱)مالک کائنات نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں کا مالک بنایا ہے اور اس کی فطرت میں خیروشر کا سارا عرفان ودیعت کردیا ہے لیکن انسان کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ ان صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتا ہے اور ہمیشہ اپنے کو بیچارہ ہی سمجھتا ہے جو جہالت کی بد ترین منزل ہے کہ انسان کو اپنی ہی قدرو قیمت کا اندازہ نہ ہوسکے۔ کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے:

اپنی ہی ذات کا انسان کو عرفان نہ ہوا

خاک پھر خاک تھی اوقات سے آگے نہ بڑھی

۳۶

(۱۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفة من يتصدى للحكم بين الأمة وليس لذلك بأهل وفيها: أبغض الخلائق إلى اللَّه صنفان

الصنف الأول: إنَّ أَبْغَضَ الْخَلَائِقِ إِلَى اللَّه رَجُلَانِ - رَجُلٌ وَكَلَه اللَّه إِلَى نَفْسِه فَهُوَ جَائِرٌ عَنْ قَصْدِ السَّبِيلِ مَشْغُوفٌ بِكَلَامِ بِدْعَةٍ ودُعَاءِ ضَلَالَةٍ - فَهُوَ فِتْنَةٌ لِمَنِ افْتَتَنَ بِه ضَالٌّ عَنْ هَدْيِ مَنْ كَانَ قَبْلَه - مُضِلٌّ لِمَنِ اقْتَدَى بِه فِي حَيَاتِه وبَعْدَ وَفَاتِه - حَمَّالٌ خَطَايَا غَيْرِه رَهْنٌ بِخَطِيئَتِه.

(۱۷)

(ان نا اہلوں کے بارے میں جوصلاحیت کے بغیر فیصلہ کا کام شروع کر دیتے ہیں اور اسی ذیل میں دوبد ترین اقسام مخلوقات کا ذکربھی ہے)

قسم اول: یاد رکھو کہ پروردگار کی نگاہ میں بد ترین خلائق دو طرح کے افراد ہیں۔وہ شخص جسے پروردگار نے اسی کے رحم و کرم(۱) پرچھوڑدیا ہے اور وہ درمیانی راستہ سے ہٹ گیا ہے۔صرف بدعت کا دلدادہ ہے اور گمراہی کی دعوت پر فریفتہ ہے۔یہ دوسرے افراد کے لئے ایک مستقل فتنہ ہے اور سابق افراد کی ہدایت سے بہکا ہوا ہے۔اپنے پیروکاروں کوگمراہ کرنے والا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی یہ دوسروں کی غلطیوں کا بھی بوجھ اٹھانے والا ہے اور ان کی خطائوں میں بھی گرفتار ہے۔

(۱)جاہل انسانوں کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ پروردگار انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے اوروہ جو چاہیں کریں کسی طرح کی کوئی پابندی نہ ہو حالانکہ در حقیقت یہ بد ترین عذاب الٰہی ہے۔انسان کی فلاح و بہبود اسی میں ہے کہ مالک اسے اپنے رحم و کرم کے سایہ میں رکھے ورنہ گر اس سے توفیقات کوسلب کرکے اس کے حال پر چھوڑ دیا تو وہ لمحوں میں فرعون' قارون' نمرود' یزید' حجاج اور متوکل بن سکتا ہے۔اگرچہ اسے احساس یہی رہے گا کہ اس نے کائنات کا اقتدار حاصل کرلیا ہے اور پروردگار اس کے حال پر بہت زیادہ مہربان ہے۔

۳۷

الصنف الثاني: ورَجُلٌ قَمَشَ جَهْلًا مُوضِعٌ فِي جُهَّالِ الأُمَّةِ عَادٍ فِي أَغْبَاشِ الْفِتْنَةِ عَمٍ بِمَا فِي عَقْدِ الْهُدْنَةِ قَدْ سَمَّاه أَشْبَاه النَّاسِ عَالِماً ولَيْسَ بِه بَكَّرَ فَاسْتَكْثَرَ مِنْ جَمْعٍ مَا قَلَّ مِنْه خَيْرٌ مِمَّا كَثُرَ حَتَّى إِذَا ارْتَوَى مِنْ مَاءٍ آجِنٍ واكْتَثَرَ مِنْ غَيْرِ طَائِلٍجَلَسَ بَيْنَ النَّاسِ قَاضِياً ضَامِناً لِتَخْلِيصِ مَا الْتَبَسَ عَلَى غَيْرِه فَإِنْ نَزَلَتْ بِه إِحْدَى الْمُبْهَمَاتِ هَيَّأَ لَهَا حَشْواً رَثًّا مِنْ رَأْيِه ثُمَّ قَطَعَ بِه فَهُوَ مِنْ لَبْسِ الشُّبُهَاتِ فِي مِثْلِ نَسْجِ الْعَنْكَبُوتِ - لَا يَدْرِي أَصَابَ أَمْ أَخْطَأَ - فَإِنْ أَصَابَ خَافَ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَخْطَأَ وإِنْ أَخْطَأَ رَجَا أَنْ يَكُونَ قَدْ أَصَابَ جَاهِلٌ خَبَّاطُ جَهَالَاتٍ عَاشٍ رَكَّابُ عَشَوَاتٍ لَمْ يَعَضَّ عَلَى الْعِلْمِ بِضِرْسٍ قَاطِعٍ -

قسم دوم: وہ شخص جس نے جہالتوں(۱) کو سمیٹ لیا ہے اور انہیں کے سہارے جاہلوں کے درمیان دوڑ لگا رہا ہے۔فتنوں کی تاریکیوں میں دوڑ رہا ہے اور امن و صلح کے فوائدسے یکسر غافل ہے۔انسان نما لوگوں نے اسکا نام عالم رکھ دیا ہے حالانکہ اس کا علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔صبح سویرے ان باتوں کی تلاش میں نکل پڑتا ہے جن کا قلیل ان کے کثیر سے بہتر ہے۔یہاں تک کہ جب گندہ پانی سے سیراب ہو جاتا ہے اور مہمل اوربے فائدہ باتوں کو جمع کرلیتا ہے تو لوگوں کے درمیان قاضی بن کر بیٹھ جاتا ہے اوراس امر کی ذمہ داری لے لیتا ہے کہ جو امور دوسرے لوگوں پر مشتبہ ہیں وہ انہیں صاف کردیگا۔اس کے بعد جب کو ئی مبہم مسئلہ آجاتا ہے تو اس کے لئے بے سود اورفرسودہ دلائل کو اکٹھا کرتا ہے اور انہیں سے فیصلہ کر دیتا ہے۔یہ شبہات میں اسی طرح گرفتار ہے جس طرح مکڑی اپنے جالے میں پھنس جاتی ہے۔اسے یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ صحیح فیصلہ کیا ہے یا غلط۔اگر صحیح کیا ہے تو بھی ڈرتا ہے کہ شائد غلط ہو۔اور اگر غلط کیا ہے تو بھی یہ امید رکھتا ہے کہ شائد صحیح ہو ۔ ایسا جاہل ہے جو جہالتوں میں بھٹک رہا ہے اور ایسا اندھا ہے جو اندھیروں کی سواری پر سوار ہو۔نہ علم میں کوئی حتمی بات سمجھا ہے

(۱) قاضیوں کی یہ قسم ہر دورمیں رہی ہے اور ہر علاقہ میں پائی جاتی ہے۔بعض لوگ گائوں یا شہر میں اسی بات کواپنا امتیاز تصورکرتے ہیںکہ انہیں فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے اگرچہ ان می کسی قسم کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہی وہ قسم ہے جس نے دین خدا کو تباہ اورخلق خدا کو گمراہ کیا ہے اور یہی قسم شریح سے شروع ہو کر ان افراد تک پہنچ گئی ہے جو دوسروں کے مسائل کو باآسانی طے کردیتے ہیں اور اپنے مسئلہ میں کسی طرح کے فیصلہ سے راضی نہیں ہوتے ہیں اور نہ کسی کی رائے کو سننے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔

۳۸

يَذْرُو الرِّوَايَاتِ ذَرْوَ الرِّيحِ الْهَشِيمَ لَا مَلِيٌّ واللَّه بِإِصْدَارِ مَا وَرَدَ عَلَيْه - ولَا أَهْلٌ لِمَا قُرِّظَ بِه لَا يَحْسَبُ الْعِلْمَ فِي شَيْءٍ مِمَّا أَنْكَرَه - ولَا يَرَى أَنَّ مِنْ وَرَاءِ مَا بَلَغَ مَذْهَباً لِغَيْرِه - وإِنْ أَظْلَمَ عَلَيْه أَمْرٌ اكْتَتَمَ بِه لِمَا يَعْلَمُ مِنْ جَهْلِ نَفْسِه - تَصْرُخُ مِنْ جَوْرِ قَضَائِه الدِّمَاءُ - وتَعَجُّ مِنْه الْمَوَارِيثُ إِلَى اللَّه أَشْكُو - مِنْ مَعْشَرٍ يَعِيشُونَ جُهَّالًا ويَمُوتُونَ ضُلَّالًا - لَيْسَ فِيهِمْ سِلْعَةٌ أَبْوَرُ مِنَ الْكِتَابِ إِذَا تُلِيَ حَقَّ تِلَاوَتِه - ولَا سِلْعَةٌ أَنْفَقُ بَيْعاً - ولَا أَغْلَى ثَمَناً مِنَ الْكِتَابِ إِذَا حُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِه - ولَا عِنْدَهُمْ أَنْكَرُ مِنَ الْمَعْرُوفِ ولَا أَعْرَفُ مِنَ الْمُنْكَرِ!

(۱۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذم اختلاف العلماء في الفتيا

وفيه يذم أهل الرأي ويكل أمر الحكم في أمور الدين للقرآن

اورنہ کسی حققت کو پرکھا ہے۔روایات کو یوں اڑا دیتا ہے جس طرح تیز ہوا تنکوں کو اڑا دیتی ہے۔خدا گواہ ہے کہ یہ ان فیصلوں کے صادر کرنے کے قابل نہیں ہے جو اس پر وار د ہوتے ہیں اور اس کام کا اہل نہیں ہے جو اس کے حوالہ کیا گیا ہے۔جس چیز کوناقابل توجہ سمجھتا ہے اس میں علم کا احتمال بھی نہیں دیتاہے اوراپنی پہنچ کے ماوراء کسی اور رائے کا تر بھی نہیں کرتا ہے۔اگر کوئی مسئلہ واضح نہیں ہوتا ہے تواسے چھپا دیتا ہے کہ اسے اپنی جہالت کا علم ہے۔ناحق بہائے ہوئے خون اس کے فیصلوں کے ظلم سے فریادی اور غلط تقسیم کی ہوئی میراث چلا رہی ہے۔میں خدا کی بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں ایسے گروہ کی جو زندہ رہتے ہیں تو جہالت کے ساتھ اور مر جاتے ہیں تو ضلالت کے ساتھ۔ان کے نزدیک کوئی متاع کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت نہیں ہے اگر اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور کوئی متاع اس کتاب سے زیادہ قیمتی اورفائدہ مند نہیں ہے اگر اس کے مفاہیم میں تحریف کردی جائے۔ ان کے لئے معروف سے زیادہ منکر کچھ نہیں ہے اور منکر سے زیادہ معروف کچھ نہیں ہے۔

(۱۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(علماء کے درمیان اختلاف فتویٰ کے بارے میں اور اسی میں اہل رائے کی مذمت اور قرآن کی مرجعت کا ذکر کیا گیا ہے)

۳۹

ذم أهل الرأي

تَرِدُ عَلَى أَحَدِهِمُ الْقَضِيَّةُ فِي حُكْمٍ مِنَ الأَحْكَامِ فَيَحْكُمُ فِيهَا بِرَأْيِه ثُمَّ تَرِدُ تِلْكَ الْقَضِيَّةُ بِعَيْنِهَا عَلَى غَيْرِه فَيَحْكُمُ فِيهَا بِخِلَافِ قَوْلِه ثُمَّ يَجْتَمِعُ الْقُضَاةُ بِذَلِكَ عِنْدَ الإِمَامِ الَّذِي اسْتَقْضَاهُمْ فَيُصَوِّبُ آرَاءَهُمْ جَمِيعاً وإِلَهُهُمْ وَاحِدٌ ونَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ وكِتَابُهُمْ وَاحِدٌ!

أَفَأَمَرَهُمُ اللَّه سُبْحَانَه بِالِاخْتِلَافِ فَأَطَاعُوه - أَمْ نَهَاهُمْ عَنْه فَعَصَوْه!

الحكم للقرآن

أَمْ أَنْزَلَ اللَّه سُبْحَانَه دِيناً نَاقِصاً - فَاسْتَعَانَ بِهِمْ عَلَى إِتْمَامِه أَمْ كَانُوا شُرَكَاءَ لَه فَلَهُمْ أَنْ يَقُولُوا وعَلَيْه أَنْ يَرْضَى أَمْ أَنْزَلَ اللَّه سُبْحَانَه دِيناً تَامّاً فَقَصَّرَ الرَّسُولُصلى‌الله‌عليه‌وآله عَنْ تَبْلِيغِه وأَدَائِه - واللَّه سُبْحَانَه يَقُولُ:( ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ مِنْ شَيْءٍ ) وفِيه تِبْيَانٌ لِكُلِّ شَيْءٍ وذَكَرَ أَنَّ الْكِتَابَ يُصَدِّقُ بَعْضُه بَعْضاً وأَنَّه لَا اخْتِلَافَ فِيه فَقَالَ سُبْحَانَه:( ولَوْ كانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ الله لَوَجَدُوا فِيه اخْتِلافاً كَثِيراً ) وإِنَّ الْقُرْآنَ

مذمت اہل رائے:

ان لوگوں کا عالم یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس کسی مسئلہ کا فیصلہ آتا ہے تو وہ اپنی رائے سے فیصلہ کر دیتا ہے اور پھر یہی قضیہ بعینہ دوسرے کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کے خلاف فیصلہ کر دیتا ہے۔اس کے بعد تمام قضاة اس حاکم کے پاس جمع ہوتے ہیں جس نے انہیں قاضی بنایا ہے تو وہ سب کی رائے کی تائید کر دیتا ہے جب کہ سب کا خدا ایک' نبی ایک اور کتاب ایک ہے۔تو کیا خدا(۱) ہی نے انہیں اختلاف کا حکم دیا ہے اور یہ اس کی اطاعت کر رہے ہیں یا اس نے انہیں اختلاف سے منع کیا ہے مگر پھربھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں ؟ یا خدا نے دین ناقص نازل کیا ہے اوران سے اس کی تکمیل کے لئے مدد مانگی ہے یا یہ سبخود اس کی خدائی ہی میں شریک ہیں اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ یہ بات کہیں اور خدا کا فرض ہے کہ وہ قبول کرے یاخدانے دین کامل نازل کیا تھا اور رسول اکرم (ص)نے اس کی تبلیغ اور ادائیگی میں کوتاہی کردی ہے جب کہ اس کا اعلان ہے کہ ہم نے کتاب میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کی ہے اور اس میں ہر شے کا بیان موجود ہے۔اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تصدیق کرت ہے اور اس میں کسی طرح کا اختلاف نہیں ہے۔ یہ قرآن غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بے پناہ اختلاف ہوتا۔ یہ قرآن وہ ہے ۔

(۱)یاد رہے کہ امیر المومنین نے مسئلہ کے تمام احتمالات کا سدباب کردیا ہے اور اب کسی رائے پرست انسان کے لئے فرار کرنے کا کوئیراستہ نہیں ہے اور اسے مذہب میں رائے اور قیاس کو استعمال کرنے کے لئے ایک نہایک مہمل بنیاد کواختیارکرناپڑے گا۔اس کے بغیر رائے اورقیاس کا کوئی جواز نہیں ہے۔

۴۰

ظَاهِرُه أَنِيقٌ وبَاطِنُه عَمِيقٌ

لَا تَفْنَى عَجَائِبُه ولَا تَنْقَضِي غَرَائِبُه ولَا تُكْشَفُ الظُّلُمَاتُ إِلَّا بِه.

(۱۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله للأشعث بن قيس وهو على منبر الكوفة يخطب، فمضى في بعض كلامه شيء اعترضه الأشعث فيه، فقال: يا أمير المؤمنين، هذه عليك لا لك، فخفضعليه‌السلام إليه بصره ثم قال:

مَا يُدْرِيكَ مَا عَلَيَّ مِمَّا لِي عَلَيْكَ لَعْنَةُ اللَّه ولَعْنَةُ اللَّاعِنِينَ حَائِكٌ ابْنُ حَائِكٍ مُنَافِقٌ ابْنُ كَافِرٍ واللَّه لَقَدْ أَسَرَكَ الْكُفْرُ مَرَّةً والإِسْلَامُ

أُخْرَى فَمَا فَدَاكَ مِنْ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مَالُكَ ولَا حَسَبُكَ وإِنَّ امْرَأً دَلَّ عَلَى قَوْمِه السَّيْفَ وسَاقَ إِلَيْهِمُ الْحَتْفَ لَحَرِيٌّ أَنْ يَمْقُتَه الأَقْرَبُ ولَا يَأْمَنَه الأَبْعَدُ!

قال السيد الشريف يريدعليه‌السلام أنه أسر في الكفر مرة وفي الإسلام مرة. وأما قولهعليه‌السلام دل على قومه السيف فأراد به حديثا كان للأشعث مع خالد بن الوليد باليمامة غر فيه قومه ومكر بهم حتى أوقع بهم خالد وكان قومه بعد ذلك يسمونه عرف النار وهو اسم للغادر عندهم.

جس کا ظاہرخوبصورت اورب اطن عمیق اور گہرا ہے اس کے عجائب فنا ہونے والے نہیں ہیں اور تاریکیوں کاخاتمہ اس کےعلاوہ اور کسی کلام سے نہیں ہو سکتا ہے۔

(۱۹)

آپ کا ارشاد گرامی

جسے اس وقت فرمایا جب منبر کوفہ پر خطبہ دے رہے تھے اوراشعث بن قیس نے ٹوک دیا کہ یہ بیان آپ خود اپنے خلاف دے رہے ہیں۔ آپ نے پہلے نگاہوں کونیچا کرکے سکوت فرمایا اور پھرپر جلال انداز سے فرمایا:

تجھے کیاخبرکہ کون سی بات میرےموافق ہے اور کون سی میرے خلاف ہےتجھ پرخدا اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت۔تو سخن باف اور تانے بانے درست کرنے والے کافرزند ہےتو منافق ہے اورتیرا باپ کھلا ہوا کافر تھا۔خدا کی قسم توایک مرتبہ کفر کا قیدی بنا اوردوسری مرتبہ اسلام کا لیکن نہ تیرا مال کامآیا نہ حسب۔اورجوشخص بھی اپنی قوم کی طرف تلوار کو راستہ بتائے گا اور موت کو کھینچ کرلائے گا وہ اس بات کاحقدار ہےکہ قریب والےاس سے نفرت کریں اوردوروالےاس پربھروسہ نہ کریں۔

(سیدرضی:امام کامقصدیہ ہے کہ اشعث بن قیس ایک مرتبہ دور کفرمیں قیدی بنا تھااور دوسری مرتبہ اسلام لانےکے بعد!۔تلوارکی رہنمائی کا مقصدیہ ہےکہ جب یمامہ میں خالد بن ولیدنےچڑھائی کی تواس نےاپنی قوم سے غداری کی اورسب کوخالدکی تلوارکےحوالہ کردیا جس کے بعدسے اس کالقب''عرف النار''ہوگیاجواس دورمیں ہرغدارکالقب ہواکرتا تھا)۔

۴۱

(۲۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه ينفر من الغفلة وينبه إلى الفرار للَّه

فَإِنَّكُمْ لَوْ قَدْ عَايَنْتُمْ مَا قَدْ عَايَنَ مَنْ مَاتَ مِنْكُمْ - لَجَزِعْتُمْ ووَهِلْتُمْ وسَمِعْتُمْ وأَطَعْتُمْ - ولَكِنْ مَحْجُوبٌ عَنْكُمْ مَا قَدْ عَايَنُوا - وقَرِيبٌ مَا يُطْرَحُ الْحِجَابُ - ولَقَدْ بُصِّرْتُمْ إِنْ أَبْصَرْتُمْ وأُسْمِعْتُمْ إِنْ سَمِعْتُمْ - وهُدِيتُمْ إِنِ اهْتَدَيْتُمْ - وبِحَقٍّ أَقُولُ لَكُمْ لَقَدْ جَاهَرَتْكُمُ الْعِبَرُ وزُجِرْتُمْ بِمَا فِيه مُزْدَجَرٌ - ومَا يُبَلِّغُ عَنِ اللَّه بَعْدَ رُسُلِ السَّمَاءِ إِلَّا الْبَشَرُ.

(۲۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي كلمة جامعة للعظة والحكمة

فَإِنَّ الْغَايَةَ أَمَامَكُمْ وإِنَّ وَرَاءَكُمُ السَّاعَةَ تَحْدُوكُمْ

(۲۰)

آپ کا ارشاد گرامی

جس میں غفلت سے بیدار کیا گیا ہے اور خدا کی طرف دوڑ کرآنے کی دعوت دی گئی ہے

یقینا جن حالات کو تم سے پہلے مرنے والوں نے دیکھ لیا ہے اگر تم بھی دیکھ لیتے تو پریشان و مضطرب ہو جاتے اور بات سننے اور اطاعت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے لیکن مشکل یہ ہے کہ ابھی وہ چیزیں تمہارے لئے پس حجاب ہیں اور عنقریب یہ پردہ اٹھنے والا ہے۔بیشک تمہیں سب کچھ دکھایا جا چکا ہے اگر تم نگاہ بینا رکھتے ہو اور سب کچھ سنایا جا چکا ہے اگرتم گوش شنوار رکھتے ہو اور تمہیں ہدایت دی جا چکی ہے اگرتم ہدایت حاصل کرنا چاہو اور میں بالکل برحق کہہ رہا ہوں کہ عبرتیں تمہارے سامنے کھل کر آچکی ہیں اورتمہیں اس قدر ڈرایا جا چکا ہے جو بقدر کافی ہے اور ظاہر ہے کہ آسمانی فرشتوں کے بعد الٰہی پیغام کو انسان ہی پہنچانے والا ہے۔

(۲۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

بیشک منزل مقصود تمہارے سامنے ہے اور ساعت موت تمہارے تعاقب میں ہے اور تمہیں اپنے ساتھ لے کر چل رہی ہے۔

۴۲

تَخَفَّفُوا تَلْحَقُوا فَإِنَّمَا يُنْتَظَرُ بِأَوَّلِكُمْ آخِرُكُمْ.

قال السيد الشريف أقول إن هذا الكلام لو وزن بعد كلام الله سبحانه وبعد كلام رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله بكل كلام لمال به راجحا وبرز عليه سابقا. فأما قولهعليه‌السلام تخففوا تلحقوا فما سمع كلام أقل منه مسموعا ولا أكثر منه محصولا وما أبعد غورها من كلمة وأنقع نطفتها من حكمة وقد نبهنا في كتاب الخصائص على عظم قدرها وشرف جوهرها.

(۲۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

حين بلغه خبر الناكثين ببيعته وفيها يذم عملهم ويلزمهم دم عثمان ويتهددهم بالحرب

اپنا بوجھ(۱) ہلکا کر لو تاکہ پہلے والوں سے ملحق ہو جائو کہ ابھی تمہارے سابقین سے تمہارا انتظار کرایا جا رہا ہے۔

سید رضی: اس کلام کو کلام خدا و رسول (ص) کے بعد کسی کلام کے ساتھ رکھ دیا جائے تو اس کا پلہ بھاری ہی رہے گا اور یہ سب سے آگے نکل جائے گا۔'' تحففوا لحقوا'' سے زیادہ مختصر اوربلیغ کلام تو کبھی دیکھا اور سنا ہی نہیں گیا ہے۔اسی کلمہ میں کس قدر گہرائی پائی جاتی ہے اور اس حکمت کا چشمہ کس قدرشفاف ہے۔ہم نے کتاب خصائص میں اس کی قدرو قیمت اور عظمت و شرافت پر مکمل تبصر ہ کیا ہے۔

(۲۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جب آپ کو خبر دی گئی کہ کچھ لوگوں نے آپ کی بیعت توڑدی ہے

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گناہ انسانی زندگی کے لئے ایک بوجھ کی حیثیت رکھتا ہے اور یہی بوجھ ہے جو انسان کوآگے نہیں بڑھنے دیتا ہے اور وہ اسی دنیا داری میں مبتلا رہ جاتا ہے ورنہ انسان کا بوجھ ہلکا ہو جائے تو تیز قدم بڑھا کر ان سابقین سے ملحق ہو سکتا ہے جو نیکیوں کی طرف سبقت کرتے ہوئے بلند ترین منزلوں تک پہنچ گئے ہیں۔

امیر المومنین کی دی ہوئی یہ مثال وہ ہے جس کا تجربہ ہر انسان کی زندگی میں برابر سامنے آتا رہتا ہے کہ قافلہ میں جس کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے وہ پیچھے رہ جاتا ہے اور جس کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے وہ آگے بڑھ جاتا ہے۔صری مشکل یہ ہے کہ انسان کو گناہوں کے پوجھ ہونے کا احساس نہیں ہے۔شاعرنے کیا خوب کہا ہے:

چلنے نہ دیا بار گنہ نے پیدل

تابوت میں کاندھوں پر سوارآیا ہوں

۴۳

ذم الناكثين

أَلَا وإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ ذَمَّرَ حِزْبَه واسْتَجْلَبَ جَلَبَه لِيَعُودَ الْجَوْرُ إِلَى أَوْطَانِه ويَرْجِعَ الْبَاطِلُ إِلَى نِصَابِه واللَّه مَا أَنْكَرُوا عَلَيَّ مُنْكَراً - ولَا جَعَلُوا بَيْنِي وبَيْنَهُمْ نَصِفاً.

دم عثمان

وإِنَّهُمْ لَيَطْلُبُونَ حَقّاً هُمْ تَرَكُوه ودَماً هُمْ سَفَكُوه - فَلَئِنْ كُنْتُ شَرِيكَهُمْ فِيه فَإِنَّ لَهُمْ لَنَصِيبَهُمْ مِنْه - ولَئِنْ كَانُوا وَلُوه دُونِي فَمَا التَّبِعَةُ إِلَّا عِنْدَهُمْ - وإِنَّ أَعْظَمَ حُجَّتِهِمْ لَعَلَى أَنْفُسِهِمْ - يَرْتَضِعُونَ أُمّاً قَدْ فَطَمَتْ ويُحْيُونَ بِدْعَةً قَدْ أُمِيتَتْ - يَا خَيْبَةَ الدَّاعِي مَنْ دَعَا وإِلَامَ أُجِيبَ - وإِنِّي لَرَاضٍ بِحُجَّةِ اللَّه عَلَيْهِمْ وعِلْمِه فِيهِمْ.

آگاہ ہو جائو کہ شیطان نے اپنے گروہ کو بھڑکانا شروع کردیا ہے اور فوج کوجمع کرلیا ہے تاکہ ظلم اپنی منزل پر پلٹ آئے اور باطل اپنے مرکز کی طرف واپس آجائے۔خدا کی قسم ان لوگوں نے نہ مجھ پر کوئی سچا الزام لگایا ہے اور نہ میرے اور اپنے درمیان کوئی انصاف کیا ہے۔

یہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کر رہے ہیں جو خود انہوں نے نظر انداز کیا ہے اور اس خون کا تقاضا کر رہے ہیں جوخود انہوں نے بہایا ہے۔پھر اگر میں ان کے ساتھ شریک تھا تو ان کا بھی تو ایک حصہ تھا اور وہ تنہا مجرم تھے تو ذمہ داری بھی انہیں پر ہے۔بیشک ان کی عظیم ترین دلیل بھی انہیں کے خلاف ہے۔یہ اس ماں سے دود ھ پینا چاہتے ہیں جس کا دودھ ختم ہو چکا ہے اور اس بدعت کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جو مر چکی(۱) ہے۔ ہائے کس قدر نا مراد یہ جنگ کا داعی(۲) ہے۔کون پکا ر رہا ہے ؟ اور کس مقصد کے لئے اس کی بات سنی جا رہی ہے ؟ میں اس بات سے خوش ہوں کہ پروردگار کی حجت ان پر تمام ہو چکی ہے اور وہ ان کے حالات سے با خبر ہے۔

(۱)تاریخ کا مسلمہ ہے کہ عثمان نے اپنے دور حکومت میں اپنے پیشر و تمام حکام کے خلاف اقربا پرستی اوربیت المال کی بے بنیاد تقسیم کا بازار گرم کر دیا تھا اور یہی بات ان کے قتل کا بنیادی سبب بن گئی۔ظاہر ہے کہ ان کے قتل کے بعد یہ بدعت بھی مردہ ہوچکی تھی لیکن طلحہ نے امیر المومنین سے بصرہ کی گورنری اور زبیر نے کوفہ کی گورنری کا مطالبہ کرکے پھر اس بدعت کو زندہ کرنا چاہا جو ایک امام معصوم کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتا ہے چاہے اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔

(۲)ابن ابی الحدید کے نزدیک داعی سے مراد طلحہ'زبیر اور عائشہ ہیں جنہوں نے آپ کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکائی تھی لیکن انجام کار سب کو ناکام اور نا مراد ہونا پڑا اور کوئی نتیجہ ہاتھ نہ آیا جس کی طرف آپ نے تحقیر آمیز لہجہ میں اشارہ کیاہے اور صاف واضح کردیا ہے کہ میں جنگ سے ڈرنے والا نہیں ہوں۔تلوار میرا تکیہ ہے اور یقین میرا سہارا۔اس کے بعد مجھے کس چیز سے خوفزدہ کیا جا سکتا ہے۔

۴۴

التهديد بالحرب

فَإِنْ أَبَوْا أَعْطَيْتُهُمْ حَدَّ السَّيْفِ - وكَفَى بِه شَافِياً مِنَ الْبَاطِلِ ونَاصِراً لِلْحَقِّ - ومِنَ الْعَجَبِ بَعْثُهُمْ إِلَيَّ أَنْ أَبْرُزَ لِلطِّعَانِ وأَنْ أَصْبِرَ لِلْجِلَادِ - هَبِلَتْهُمُ الْهَبُولُ لَقَدْ كُنْتُ ومَا أُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ ولَا أُرْهَبُ بِالضَّرْبِ وإِنِّي لَعَلَى يَقِينٍ مِنْ رَبِّي وغَيْرِ شُبْهَةٍ مِنْ دِينِي

(۲۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وتشتمل على تهذيب الفقراء بالزهد وتأديب الأغنياء بالشفقة

تهذيب الفقراء

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الأَمْرَ يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ كَقَطَرَاتِ الْمَطَرِ إِلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا قُسِمَ لَهَا مِنْ زِيَادَةٍ أَوْ نُقْصَانٍ فَإِنْ رَأَى أَحَدُكُمْ لأَخِيه غَفِيرَةً فِي أَهْلٍ أَوْ مَالٍ أَوْ نَفْسٍ فَلَا تَكُونَنَّ لَه فِتْنَةً فَإِنَّ الْمَرْءَ الْمُسْلِمَ مَا لَمْ يَغْشَ دَنَاءَةً تَظْهَرُ فَيَخْشَعُ لَهَا إِذَا ذُكِرَتْ ويُغْرَى بِهَا لِئَامُ النَّاسِ كَانَ كَالْفَالِجِ الْيَاسِرِ الَّذِي يَنْتَظِرُ أَوَّلَ فَوْزَةٍ مِنْ قِدَاحِه تُوجِبُ لَه الْمَغْنَمَ ويُرْفَعُ بِهَا عَنْه الْمَغْرَمُ

اب اگر ان لوگوں نے حق کا انکار کیا ہے تو میں انہیں تلوار کی باڑھ عطا کروں گا کہ وہی باطل کی بیماری سے شفا دینے والی اور حق کی واقعی مددگار ہے۔حیرت انگیز بات ہے کہ یہ لوگ مجھے نیزہ بازی کے میدان میں نکلنے اور تلوار کی جنگ سہنے کی دعوت دے رہے ہیں۔رونے والیاں ان کے غم میں روئیں۔مجھے تو کبھی بھی جنگ سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکا ہے اور نہ میں شمشیر زنی سے مرعوب ہوا ہوں میں تو اپنے پروردگار کی طرف سے منزل یقین پر ہوں اور مجھے دین کے بارے میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں ہے۔

(۲۳)

آپ کے ایک خطبہ کا ایک حصہ

یہ خطبہ فقراء کی تہذیب اور ثروت مندوں کی شفقت پر مشتمل ہے

امام بعد! انسان کے مقسوم میں کم یا زیادہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا امرآسمان سے زمین کی طرف بارش کے قطرات کی طرح نازل ہوتا ہے۔لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے بھائی کے پاس اہل و مال یا نفس کی فراوانی دیکھے تو اس کے لئے فتنہ نہ بنے۔کہ مرد مسلم کے کردار میں اگر ایسی پستی نہیں ہے جس کے ظاہر ہو جانے کے بعد جب بھی اس کاذکر کیا جائے اس کی نگاہ شرم سے جھک جائے اور پست لوگو کے حوصلے اس سے بلند ہو جائیں تو اس کی مثال اس کامیاب جواری کی ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک

کر پہلے ہی مرحلہ میں کامیابی کا انتظار کرتا ہے جس سے فائدہ حاصل ہو اور گذشتہ فساد کی تلافی ہو جائے۔

۴۵

وكَذَلِكَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ الْبَرِيءُ مِنَ الْخِيَانَةِ يَنْتَظِرُ مِنَ اللَّه إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ إِمَّا دَاعِيَ اللَّه فَمَا عِنْدَ اللَّه خَيْرٌ لَه وإِمَّا رِزْقَ اللَّه فَإِذَا هُوَ ذُو أَهْلٍ ومَالٍ ومَعَه دِينُه وحَسَبُه وإِنَّ الْمَالَ والْبَنِينَ حَرْثُ الدُّنْيَا والْعَمَلَ الصَّالِحَ حَرْثُ الآخِرَةِ - وقَدْ يَجْمَعُهُمَا اللَّه تَعَالَى لأَقْوَامٍ - فَاحْذَرُوا مِنَ اللَّه مَا حَذَّرَكُمْ

مِنْ نَفْسِه - واخْشَوْه خَشْيَةً لَيْسَتْ بِتَعْذِيرٍ واعْمَلُوا فِي غَيْرِ رِيَاءٍ ولَا سُمْعَةٍ - فَإِنَّه مَنْ يَعْمَلْ لِغَيْرِ اللَّه يَكِلْه اللَّه لِمَنْ عَمِلَ لَه نَسْأَلُ اللَّه مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ ومُعَايَشَةَ السُّعَدَاءِ - ومُرَافَقَةَ الأَنْبِيَاءِ.

تأديب الأغنياء

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّه لَا يَسْتَغْنِي الرَّجُلُ - وإِنْ كَانَ ذَا مَالٍ عَنْ - عِتْرَتِه ودِفَاعِهِمْ عَنْه بِأَيْدِيهِمْ وأَلْسِنَتِهِمْ - وهُمْ أَعْظَمُ النَّاسِ حَيْطَةً مِنْ وَرَائِه وأَلَمُّهُمْ لِشَعَثِه وأَعْطَفُهُمْ عَلَيْه عِنْدَ نَازِلَةٍ إِذَا نَزَلَتْ بِه - ولِسَانُ الصِّدْقِ يَجْعَلُه اللَّه لِلْمَرْءِ فِي النَّاسِ - خَيْرٌ لَه مِنَ الْمَالِ يَرِثُه غَيْرُه.

.

یہی حال اس مرد مسلمان کا ہے جس کا دامن خیانت سے پاک ہو کہ وہ ہمیشہ پروردگار سے دو میں سے ایک نیکی کا امید وار رہتا ہے یا داعی اجل آجائے تو جو کچھ اس کی بارگاہ میں ہے وہ اس دنیا سے کہیں زیادہ بہتر ہے یا رزق خدا حاصل ہو جائے تو وہ صاحب اہل و مال بھی ہوگا اور اس کا دین اور وقار بھی بر قرار رہے گا۔یاد رکھو مال اور اولاد دنیا کی کھیتی ہے اور عمل صالح آخرت کی کھیتی ہے اور کبھی کبھی پروردگار بعض اقوام کے لئے دونوں کوجمع کردیتا ہے لہٰذا خدا سے اس طرح ڈرو جس طرح اس نے ڈرنے کا حکم دیا ہے اور اس کا خوف اس طرح پیدا کرو کہ پھر معذرت نہ کرنا پڑے۔عمل کرو۔ تو دکھانے سنانے سے الگ رکھو کہ جو شخص بھی غیر خدا کے واسطے عمل کرتاہے خدا اسے اسی شخص کے حوالے کردیتا ہے۔میںپروردگار سے شہیدوں کی منزل۔نیک بندوں کی صحبت اور انبیاء کرام کی رفاقت کی دعاکرتا ہوں۔

ایہا الناس! یاد رکھو کہ کوئی شخص کسی قدر بھی صاحب مال کیوں نہ ہو جائے اپنے قبیلہ اور ان لوگوں کے ہاتھ اور زبان کے ذریعہ دفاع کرنے سے بے نیاز نہی ہو سکتا ہے۔یہ لوگ انسان کے بہترین محافظ ہوتے ہیں اس کی پراگندگی کے دور کرنے والے اورمصیبت کے نزول کے وقت اس کے حال پر مہربان ہوتے ہیں۔پروردگار بندہ کے لئے جوذکرخیر لوگوں کے درمیان قرار دیتا ہے وہ اس مال سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے جس کے وارث دوسرے افراد ہو جاتے ہیں۔

۴۶

ومنها أَلَا لَا يَعْدِلَنَّ أَحَدُكُمْ عَنِ الْقَرَابَةِ يَرَى بِهَا الْخَصَاصَةَ أَنْ يَسُدَّهَا بِالَّذِي لَا يَزِيدُه إِنْ أَمْسَكَه - ولَا يَنْقُصُه إِنْ أَهْلَكَه ومَنْ يَقْبِضْ يَدَه عَنْ عَشِيرَتِه - فَإِنَّمَا تُقْبَضُ مِنْه عَنْهُمْ يَدٌ وَاحِدَةٌ - وتُقْبَضُ مِنْهُمْ عَنْه أَيْدٍ كَثِيرَةٌ - ومَنْ تَلِنْ حَاشِيَتُه يَسْتَدِمْ مِنْ قَوْمِه الْمَوَدَّةَ.

قال السيد الشريف أقول الغفيرة هاهنا الزيادة والكثرة من قولهم للجمع الكثير الجم الغفير والجماء الغفير - ويروى عفوة من أهل أو مال - والعفوة الخيار من الشيء يقال أكلت عفوة الطعام أي خياره. وما أحسن المعنى الذي أرادهعليه‌السلام بقوله ومن يقبض يده عن عشيرته... إلى تمام الكلام - فإن الممسك خيره عن عشيرته إنما يمسك نفع يد واحدة - فإذا احتاج إلى نصرتهم واضطر إلى مرافدتهم قعدوا عن نصره وتثاقلوا عن صوته - فمنع ترافد الأيدي الكثيرة وتناهض الأقدام الجمة

آگاہ ہو جائو کہ تم سے کوئی شخص بھی اپنے اقربا(۱) کومحتاج دیکھ کر اس مال سے حاجت برآری کرنے سے گریز نہ کرے جو باقی رہ جائے تو بڑھ نہیں جائے گا اورخرچ کردیا جائے تو کم نہیں ہو جائے گا۔اس لئے کہ جو شخص بھی اپنے عشیرہ اورقبیلہ سے اپنا ہاتھ روک لیتا ہے تو اس قبیلہ سے ایک ہاتھ رک جاتا ہے اور خود اس کے لئے بیشمار ہاتھ رک جاتے ہیں۔اور جس کے مزاج میں نرمی ہوتی ہے وہ قوم کی محبت کو ہمیشہ کے لئے حاصل کر لیتا ہے۔

سید رضی: اس مقام پر غفیرہ کثرت کے معنی میں ہے جس طرح جمع کثیر کو جمع کثری کہا جاتا ہے۔بعض روایات میں غفیرہ کے بجائے عفوہ ہے جو منتخب اور پسندیدہ شے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے'' عفوہ الطعام'' پسندیدہ کھانے کوکہا جاتا ہے اور امام علیہ نے اس مقام پر بہترین نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر کسی نے اپنا ہاتھ عشیرہ سے کھینچ لیا تو گویا کہ ایک ہاتھ کم ہوگیا۔لیکن جب اسے ان کی نصرت اور امداد کی ضرورت ہوگی اوروہ ہاتھ کھینچ لیں گے اور اس کی آواز پر لبیک نہیں کہیں گے تو بہتے سے بڑھنے والے ہاتھوں اور اٹھنے والے قدموں سے محروم ہو جائے گا۔

(۱)اگرچہ اسلام نے بظاہر فقیر کو غنی کے مال میں یا رشتہ دار کو رشتہ دارکے مال میں شریک نہیں بنایا ہے لیکن اس کا یہ فلسفہ کہ تمام املاک دنیا کا مالک حقیقی پروردگار ہے اور اس کے اعتبارسے تمام بندے ایک جیسے ہیں۔سب اس کے بندے ہیں اور سب کے رزق کی ذمہ داری اسی کی ذات اقدس پر ہے۔اس امرکی علامت ہے کہ اس نے ہر غنی کے مال میں ایک حصہ فقیروں اورمحتاجوں کا ضرور قرار دیا ہے اوراسے جبراً واپس نہیں لیا ہے بلکہ خود غنی کو انفاق کا حکم دیا ہے تاکہ مال اس کے اختیار سے فقیر تک جائے۔اس طرح وہ آخرت میں اجرو ثواب کا حقدار ہو جائے گا اور دنای میں فقیر کے دل میں اس کی جگہ ن جائے گی جو صاحبان ایمان کاش رف ہے کہ پروردگار لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت قرار دے دیتا ہے۔ پھر اس انفاق میں کسی طرح کا نقصان بھی نہیں ہے۔مال یوں ہی باقی رہ گیا تو بھی دوسروں ہی کے کام آئے گا تو کیوں نہ ایسا ہو کہ اسی کے کام آجائے جس کے زور بازو نے جمع کیا ہے اور پھروہ جماعت بھی ہاتھ آجائے جو کسی وقت بھی کام آسکتی ہے۔جگر جگر ہوتا ہے اور دگردگر ہوتا ہے۔

۴۷

(۲۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي كلمة جامعة له، فيها تسويغ قتال المخالف، والدعوة إلى طاعة اللَّه،

والترقي فيها لضمان الفوز

ولَعَمْرِي مَا عَلَيَّ مِنْ قِتَالِ مَنْ خَالَفَ الْحَقَّ وخَابَطَ الْغَيَّ مِنْ إِدْهَانٍ ولَا إِيهَانٍ فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه وفِرُّوا إِلَى اللَّه مِنَ اللَّه - وامْضُوا فِي الَّذِي نَهَجَه لَكُمْ وقُومُوا بِمَا عَصَبَه بِكُمْ فَعَلِيٌّ ضَامِنٌ لِفَلْجِكُمْ آجِلًا إِنْ لَمْ تُمْنَحُوه عَاجِلًا.

(۲۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وقد تواترت عليه الأخبارباستيلاء أصحاب معاوية على البلاد وقدم عليه عاملاه على اليمن وهما عبيد الله بن عباس وسعيد بن نمران لما غلب عليهما بسر بن أبي أرطاة

(۲۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جس میں اطاعت خداکی دعوت دی گئی ہے

میری جان کی قسم! میں حق کی مخالفت کرنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جہاد کرنے میں نہ کوئی نرمی کر سکتا ہوں اور نہ سستی اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اس کے غضب سے فرار کرکے اس کی رحمت میں پناہ لو۔اس راستہ پر چلو جو اس نے بنادیا ہے۔اوران احکام پرعمل کروجنہیں تم سے مربوط کردیا گیا ہے۔اس کے بعد علی تمہاری کامیابی کا آخرت میں بہر حال ذمہ دار ہے چاہے دنیا میں حاصل نہ ہوسکے

(۲۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جب آپ کو مسلسل(۱) خبردی گئی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے شہروں پر قبضہ کرلیا ہے اور آپ کے دو عامل یمن عبید اللہ بن عباس اورسعید بن نمران بسر بن ابی ارطاة کے مظالم سے پریشان ہو کرآپ کی خدمت میں آگئے۔

(۱)امیر المومنین کی خلافت کا جائزہ لیا جائے تو مصائب و مشکلات میں سرکار دوعالم (ص) کے دور رسالت سے کچھ کم نہیں ہے۔آپ نے تیرہ سال مکہ میں مصیبتیں برداشت کی اور دس سال مدینہ میں جنگوں کا مقابلہ کرتے رہے اور یہی حال مولائے کائنات کا رہا۔ذی الحجہ ۳۵ھ میں خلافت ملی اور ماہ مبارک ۴۰ھ میں شہید ہوگئے۔کل دور حکومت ۴ سال ۹ ماہ ۲ دن رہا اوراس میں بھی تین بڑ ے بڑے معرکے ہوئے اور چھوٹی چھوٹی جھڑپیں مسلسل ہوتی رہیں۔جہاں علاقوں پر قبضہ کیا جا رہا تھا اور چاہتے والوں کو اذیت دی جا رہی تھی۔معاویہ نے عمرو عاص کے مشورہ سے بسر بن ابی ارطاة کو تلاش کرلیا تھا اوراس جلاد کو مطلق العنان بنا کرچھوڑ دیا تھا۔ظاہر ہے کہ'' پاگل کتے '' کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو شہر والوں کا کیا حال ہوگا اور علاقہ کے امن و امان میں کیا باقی رہ جائے گا۔

۴۸

فقامعليه‌السلام على المنبر ضجرا بتثاقل أصحابه عن الجهاد ومخالفتهم له في الرأي فقال:

مَا هِيَ إِلَّا الْكُوفَةُ أَقْبِضُهَا وأَبْسُطُهَا إِنْ لَمْ تَكُونِي إِلَّا أَنْتِ تَهُبُّ أَعَاصِيرُكِ فَقَبَّحَكِ اللَّه!

وتَمَثَّلَ بِقَوْلِ الشَّاعِرِ

لَعَمْرُ أَبِيكَ الْخَيْرِ يَا عَمْرُو إِنَّنِي

عَلَى وَضَرٍ مِنْ ذَا الإِنَاءِ قَلِيلِ

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام

أُنْبِئْتُ بُسْراً قَدِ اطَّلَعَ الْيَمَنَ وإِنِّي واللَّه لأَظُنُّ أَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ سَيُدَالُونَ مِنْكُمْ بِاجْتِمَاعِهِمْ عَلَى بَاطِلِهِمْ وتَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ - وبِمَعْصِيَتِكُمْ إِمَامَكُمْ فِي الْحَقِّ وطَاعَتِهِمْ إِمَامَهُمْ فِي الْبَاطِلِ وبِأَدَائِهِمُ الأَمَانَةَ إِلَى صَاحِبِهِمْ وخِيَانَتِكُمْ وبِصَلَاحِهِمْ فِي بِلَادِهِمْ وفَسَادِكُمْ فَلَوِ ائْتَمَنْتُ أَحَدَكُمْ عَلَى قَعْبٍ لَخَشِيتُ أَنْ يَذْهَبَ بِعِلَاقَتِه

اللَّهُمَّ إِنِّي قَدْ مَلِلْتُهُمْ ومَلُّونِي وسَئِمْتُهُمْ وسَئِمُونِي

تو آپ نے اصحاب کی کوتاہی جہاد سے بد دل ہو کر منبر پر کھڑے ہو کریہ خطبہ ارشاد فرمایا: اب یہی کوفہ ہے جس کا بست و کشاد میرے ہاتھ میں ہے۔اے کوفہ اگر توایسا ہی رہا اور یونہی تیری آندھیاں چلتی رہیں تو خدا تیرا برا کرے گا۔

( اس کے بعد شاعرکے اس شعر کی تمثیل بیان فرمائی) اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم' مجھے تو اس برتن کی تہ میں لگی ہوئی چکنائی ہی ملی ہے۔

اس کے بعد فرمایا: مجھے خبر دی گئی ہے کہ بسر یمن تک آگیا ہے اور خدا کی قسم میرا خیال یہ ہے کہ عنقریب یہ لوگ تم سے اقتدار کو چھین لیں گے۔اس لئے کہ یہ اپنے باطل پر متحد ہیں اور تم اپنے حق پر متحد نہیں ہو۔یہ اپنے پیشوا کی باطل میں(۱) اطاعت کرتے ہیں اور تم اپنے امام کی حق میں بھی نا فرمانی کرتے ہو۔یہ اپنے مالک کی امانت اس کے حوالے کر دیتے ہیں اور تم خیانت کرتے ہو۔یہ اپنے شہروں میں امن وامان رکھتے ہیں اورتم اپنے شہر میں بھی فساد کرتے ہو۔میں تو تم میں سے کسی کو لکڑی کے پیالہ کا بھی امین بنائوں تو یہ خوف رہے گا کہ وہ کنڈا لے کر بھاگ جائے گا خدایامیں ان سے تنگ آگیا ہوں اور یہ مجھ سے تنگ آگئے ہیں۔میں ان سے اکتا گیا ہوں اور یہ مجھ سے اکتا گئے ہیں

(۱)ذرا جا حظ کی قابلیت ملاحظہ فرمائیے۔ فرماتے ہیں کہ کوفہ والے اس لئے نہیں اطاعت کرتے تھے کہ ان کی نگاہ تنقیدی اوربصیرت آمیز تھی اور شام والے احمق اورجاہل تھے اس لئے اطاعت کر لیتے تھے۔ان قابلیت مآب سے کون دریافت کرے کہ کوفہ والوں نے مولائے کائنات کے کس عیب کی بناپر اطاعت چھوڑ دی تھی اور کس تنقیدی نظر سے آپ کی زندگی کو دیکھ لیا تھا۔حقیقت امریہ ہے کہ کوفہ و شام دونوں ضمیر فروش تھے۔شام والوں کو خریدار مل گیا تھا اور کوفہ میں حضرت علی نے یہ طریقہ کار اختیار کرلیا تھا کہ منہ مانگی قیمت نہیں عطا کی تھی لہٰذا بغاوت کا ہونا ناگزیر تھا اوریہ کوئی حیرت انگیز امرنہیں ہے۔

۴۹

فَأَبْدِلْنِي بِهِمْ خَيْراً مِنْهُمْ وأَبْدِلْهُمْ بِي شَرّاً مِنِّي - اللَّهُمَّ مِثْ قُلُوبَهُمْ كَمَا يُمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ - أَمَا واللَّه لَوَدِدْتُ أَنَّ لِي بِكُمْ أَلْفَ فَارِسٍ - مِنْ بَنِي فِرَاسِ بْنِ غَنْمٍ.

هُنَالِكَ لَوْ دَعَوْتَ أَتَاكَ مِنْهُمْ

فَوَارِسُ مِثْلُ أَرْمِيَةِ الْحَمِيمِ

ثُمَّ نَزَلَعليه‌السلام مِنَ الْمِنْبَرِ

قال السيد الشريف - أقول الأرمية جمع رميّ وهو السحاب - والحميم هاهنا وقت الصيف - وإنما خص الشاعر سحاب الصيف بالذكر - لأنه أشد جفولا وأسرع خفوفا لأنه لا ماء فيه - وإنما يكون السحاب ثقيل السير لامتلائه بالماء - وذلك لا يكون في الأكثر إلا زمان الشتاء - وإنما أراد الشاعر وصفهم بالسرعة إذا دعوا - والإغاثة إذا استغيثوا - والدليل على ذلك قوله:

هنالك لو دعوت أتاك منهم

لہٰذا مجھے ان سے بہتر قوم عنایت(۱) کردے اور انہیں مجھ سے ''بدتر'' حاکم دیدے اور ان کے دلوں کو یوں پگھلا دے جس طرح پانی میں نمک گھولا جاتا ہے۔خدا کی قسم میں یہ پسند کرتا ہوں کہ ان سب کے بدلے مجھے بنی فراس بن غنم کے صرف ایک ہزار سپاہی مل جائیں۔جن کے بارے میں ان کے شاعرنے کہا تھا:

''اس وقت میں اگر تو انہیں آواز دے گا تو ایسے شہسوار سامنے آئیں گے جن کی تیز رفتاری گرمیوں کے بالدوں سے زیادہ سریع تر ہوگی''

سید رضی : ارمیہ رمیی کی جمع ہے جس کے معنی بادل کے ہیں اورحمیم گرمی کے زمانہ کے معنی میں ہے۔شعرنے گرمی کے بادلوں کاذکر اس لئے کیا ہے کہ ان کی رفتارتیز تر اورسبک ترہوتی ہے اس لئے کہ ان میں پانی نہیں ہوتا ہے۔بادل کی رفتار اس وقت سست ہو جاتی ہے جب اس میں پانی بھرجاتا ہے اوریہ عام طور پر سردی کے زمانہ میں ہوتا ہے۔شاعرنے اپنی قوم کی آواز پر لبیک کہنے اور مظلوم کی فریاد رسی میں سبک رفتاری کا ذکر کیا ہے جس کی دلیل '' لودعوت '' ہے

(۲)کسی قوم کے لئے ڈوب مرنے کی بات ہے کہ اس کا معصوم رہنما اس سے اس قدرعاجزآجائے کہ اس کے حق میں درپردہ بد دعا کرنے کے لئے تیار ہوجائے اور اسے دشمن کے ہاتھ فروخت کردینے پرآمادہ ہوجائے۔ اہل کوفہ کی بد بختی کی آخری منزل تھی کہ وہ اپنے معصوم رہنما کو بھی تحفظ فراہم نہ کر سکے اور ان کے درمیان ان کا ارہنما عین حالت سجدہ میں شہید کردیا گیا۔کوفہ کا قیاس مدینہ کے حالات پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔مدینہنے اپنے حاکم کا ساتھ نہیں دیا اس لئے کہ وہ خود اس کے حرکات سے عاجز تھے اور مسلسل احتجاج کر چکے تھے لیکن کوفہمیں ایسا کچھ نہیں تھا یا واضح لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے۔کہ مدینہ کے حکام کے قاتل اپنے عملپر مطمئن تھے اور انہیں کسی طرح کی شرمندگی کا احسان نہیں تھا لیکن کوفہ میں جب امیر المومنین نے اپنے قاتل سے دریافت کیا کہ کیا میں تیرا کوئی برا امام تھا؟تو اس نے برجستہ یہی جواب دیا کہ کہ آپ کسی جہنم میں جانے والے کو روک نہیں سکتے ہیں۔گویا مدینہ سے کوفہ تک کے حالات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مدینہ کے مقتول اپنے ظلم کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اور کوفہ کا شہید اپنے عدل و انصاف کی بنیاد پر شہید ہوا ہے اورایسے ہی شہید کو یہ کہنے کا حق ہے کہ '' فزت و رب الکعبة '' ( پروردگار کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا)۔

۵۰

(۲۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف العرب قبل البعثة ثم يصف حاله قبل البيعة له

العرب قبل البعثة

إِنَّ اللَّه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نَذِيراً لِلْعَالَمِينَ - وأَمِيناً عَلَى التَّنْزِيلِ - وأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَى شَرِّ دِينٍ وفِي شَرِّ دَارٍ - مُنِيخُونَ بَيْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وحَيَّاتٍ صُمٍّ تَشْرَبُونَ الْكَدِرَ وتَأْكُلُونَ الْجَشِبَ وتَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وتَقْطَعُونَ أَرْحَامَكُمْ - الأَصْنَامُ فِيكُمْ مَنْصُوبَةٌ والآثَامُ بِكُمْ مَعْصُوبَةٌ

ومنها صفته قبل البيعة له

فَنَظَرْتُ فَإِذَا لَيْسَ لِي مُعِينٌ إِلَّا أَهْلُ بَيْتِي - فَضَنِنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَوْتِ - وأَغْضَيْتُ عَلَى الْقَذَى وشَرِبْتُ عَلَى الشَّجَا وصَبَرْتُ عَلَى أَخْذِ الْكَظَمِوعَلَى أَمَرَّ مِنْ طَعْمِ الْعَلْقَمِ.

ومنها:

ولَمْ يُبَايِعْ حَتَّى شَرَطَ أَنْ يُؤْتِيَه عَلَى الْبَيْعَةِ ثَمَناً

(۲۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں بعثت سے پہلے عرب کی حالت کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر اپنی بیعت سے پہلے کیے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے)

یقینا اللہ نے حضرت محمد (ص) کو عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اورتنزیل کا امانت دار بنا کر اس وقت بھیجا ہے جب تم گروہ عرب بد ترین دین کے مالک اور بد ترین علاقہ کے رہنے والے تھے۔نا ہموار پتھروں او زہریلے سانپوں کے درمیان بود باش رکھتے تھے۔گندہ پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کرتے تھے۔آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے۔بت تمہارے درمیان نصب تھے اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے

(بیعت کے ہنگام)

میں نے دیکھا کہ سوائے میرے گھر والوں کے کوئی میرا مدد گار نہی ہے تو میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے گریز کیا اور اس حال میں چشم پوشی کی کہ آنکھوں میں خس و خاشاک تھا۔میں نے غم و غصہ کے گھونٹ پئے اور گلو گرفتگی اورخنطل سے زیادہ تلخ حالات پرصبر کیا۔

یاد رکھو ! عمرو عاص نے معاویہ کی بیعت اس وقت تک نہیں کی جب تک کہ بیعت کی قیمت نہیں طے کرلی۔

۵۱

فَلَا ظَفِرَتْ يَدُ الْبَائِعِ وخَزِيَتْ أَمَانَةُ الْمُبْتَاعِ فَخُذُوا لِلْحَرْبِ أُهْبَتَهَا وأَعِدُّوا لَهَا عُدَّتَهَا - فَقَدْ شَبَّ لَظَاهَا وعَلَا سَنَاهَا واسْتَشْعِرُوا الصَّبْرَ فَإِنَّه أَدْعَى إِلَى النَّصْرِ.

(۲۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وقد قالها يستنهض بها الناس حين ورد خبر غزو الأنبار بجيش معاوية فلم ينهضوا. وفيها يذكر فضل الجهاد، ويستنهض الناس، ويذكر علمه بالحرب،ويلقي عليهم التبعة لعدم طاعته

خدا نے چاہا تو بیعت کرنے والے کا سودا کامیاب نہ ہوگا اور بیعت لینے والے کوبھی صرف رسوائی ہی نصیب ہوگی۔ لہٰذا اب جنگ کا سامان سنبھال لو اوراس کے اسباب مہیا کر لو کہ اس کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں اورلپیٹیں بلندڈ ہو چکی ہیں اور دیکھوصبر کو اپنا شعاربنالو کہ یہ نصرت و کامرانی کا بہترین ذریعہ ہے۔

(۲۷)

(جو اس وقت ارشد فرمایا جب آپ کو خبر ملی کہ

معاویہ(۱) کے لشکرنے انبار پر حملہ کردیا ہے ۔اس خطبہ میں جہاد کی فضیلت کا ذکر کرکے لوگوں کو جنگ پر آمادہ کیا گیا ہے اوراپنی جنگی مہارت کا تذکرہ کرکے نا فرمانی کی ذمہ داری لشکر والوں پر ڈالی گئی ہے)

(۱)معاویہ نے امیر المومنین کی خلافت کے خلاف بغاوت کا اعلان کرکے پہلے صفین کا میدان کا رزار گرم کیا۔اس کے بعد ہر علاقہ میں فتنہ وفساد کی آگ بھڑکائی تاکہ آپ کو ایک لمحہ کے لئے سکون نصیب نہ ہو سکے۔اور آپ اپنے نظام عدل و انصاف کو سکون کے ساتھ رائج نہ کرسکیں۔معاویہ کے انہیں حرکات میں سے ایک کام یہ بھی تھا کہ بنی غامد کے ایک شخص سفیان بن عوف کو چھ ہزار کا لشکردے کر روانہ کردیا کہ عراق کے مختلف علاقوں پر غارت کا کام شروع کرے۔چنانچہ اس نے انبار پر حملہ کردیا جہاں حضرت کا مختصر سا سرحدی حفاظتی دستہ تھا اور وہ اس لشکر سے مقابلہ نہ کرسکا صرف چند افراد ثابت قدم رہے۔باقی سب بھاگ کھڑے ہوئے اور اس کے بعد سفیان کا لشکر آبادی میں داخل ہوگیا اور بیحد لوٹ مچائی۔جس کی خبرنے حضرت کو بے چین کردیا اور آپ نے منبر پر آکر قوم کو غیرت دلائی لیکن کوئی لشکرتیارنہ ہو سکا جس کے بعد آپ خود روانہ ہوگئے اور اس صورت حال کو دیکھ کر چند افراد کو غیرت آگئی اور ایک لشکر سفیان کے مقابلہ کے لئے سعید بن قیس کی قیادت میں روانہ ہوگیا مگر اتفاق سے اس وقت سفیان کا لشکر واپس جا چکا تھا اوریہ لشکر جنگ کے بغیر واپس آگیا اور آپ نے ناسازی مزاج کے باوجود یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔بعض حضرت کا خیال ہے کہ یہ خطبہ کوفہ واپس آنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ مقابلہ نخیلہ ہی پر ارشاد فرمایا تھا بہر حال صورت واقعہ انتہائی افسوس ناک اور درد ناک تھی اور اسلام میں اس کی بیشمار مثالیں پائی جاتی ہیں۔

۵۲

فضل الجهاد

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْجِهَادَ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ - فَتَحَه اللَّه لِخَاصَّةِ أَوْلِيَائِه وهُوَ لِبَاسُ التَّقْوَى - ودِرْعُ اللَّه الْحَصِينَةُ وجُنَّتُه الْوَثِيقَةُ - فَمَنْ تَرَكَه رَغْبَةً عَنْه أَلْبَسَه اللَّه ثَوْبَ الذُّلِّ وشَمِلَه الْبَلَاءُ - ودُيِّثَ بِالصَّغَارِ والْقَمَاءَةِ وضُرِبَ عَلَى قَلْبِه بِالإِسْهَابِ وأُدِيلَ الْحَقُّ مِنْه بِتَضْيِيعِ الْجِهَادِ - وسِيمَ الْخَسْفَ ومُنِعَ النَّصَفَ

استنهاض الناس

أَلَا وإِنِّي قَدْ دَعَوْتُكُمْ إِلَى قِتَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ - لَيْلًا ونَهَاراً وسِرّاً وإِعْلَاناً - وقُلْتُ لَكُمُ اغْزُوهُمْ قَبْلَ أَنْ يَغْزُوكُمْ - فَوَاللَّه مَا غُزِيَ قَوْمٌ قَطُّ فِي عُقْرِ دَارِهِمْ إِلَّا ذَلُّوا - فَتَوَاكَلْتُمْ وتَخَاذَلْتُمْ - حَتَّى شُنَّتْ عَلَيْكُمُ الْغَارَاتُ ومُلِكَتْ عَلَيْكُمُ الأَوْطَانُ - وهَذَا أَخُو غَامِدٍ [و] قَدْ وَرَدَتْ خَيْلُه الأَنْبَارَ وقَدْ قَتَلَ حَسَّانَ بْنَ حَسَّانَ الْبَكْرِيَّ - وأَزَالَ خَيْلَكُمْ عَنْ مَسَالِحِهَا

اما بعد! جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے پروردگارنے اپنے مخصوص اولیاء کے لئے کھولا ہے۔یہ تقویٰ کا لباس اور اللہ کی محفوظ و مستحکم زرہ اور مضبوط سپرہے۔جس نے اعراض کرتے ہوئے نظر انداز کردیا اسے اللہ ذلت کا لباس پہنا دے گا اور اس پر مصیبت حاوی ہو جائے گی اور اسے ذلت و خواری کے ساتھ ٹھکرا دیا جائے گا اوراس کے دل پر غفلت کا پردہ ڈال دیا جائے گا اور جہاد کو ضائع کرنے کی بنا پر حق اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور اسے ذلت برداشت کرناپڑے گی اور وہ انصاف سے محروم ہو جائے گا

آگاہ ہو جائو کہ میں نے تم لوگوں کواس قوم سے جہاد کرنے کے لئے دن میں پکارا اور رات میں آواز دی۔خفیہ طریقہ سے دعوت دی اور علی الاعلان آمادہ کیا اور برابر سمجھایاکہ ان کے حملہ کرنے سے پہلے تم میدان میں نکل آئو کہ خدا کی قسم جس قوم سے اس کے گھر کے اندر جنگ کی جاتی ہے اس کا حصہ ذلت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن تم نے ٹال مٹول کیا اورسستی کا مظاہرہ کیا۔یہاں تک کہ تم پر مسلسل حملے شروع ہوگئے اور تمہارے علاقوں پر قبضہ کرلیا گیا۔( دیکھو یہ بنی غامد کے آدمی ( سفیان بن عوف) کی فوج انبار میں داخل ہوگئی ہے اوراس نے حسان بن حسان بکری کو قتل کردیا ہے اور تمہارے سپاہیوں کوان کے مراکز سے نکال باہر کردیا ہے

۵۳

ولَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ كَانَ يَدْخُلُ - عَلَى الْمَرْأَةِ الْمُسْلِمَةِ والأُخْرَى الْمُعَاهِدَةِ فَيَنْتَزِعُ حِجْلَهَا وقُلُبَهَا وقَلَائِدَهَا ورُعُثَهَا مَا تَمْتَنِعُ مِنْه إِلَّا بِالِاسْتِرْجَاعِ والِاسْتِرْحَامِ ثُمَّ انْصَرَفُوا وَافِرِينَ مَا نَالَ رَجُلًا مِنْهُمْ كَلْمٌ ولَا أُرِيقَ لَهُمْ دَمٌ - فَلَوْ أَنَّ امْرَأً مُسْلِماً مَاتَ مِنْ بَعْدِ هَذَا أَسَفاً - مَا كَانَ بِه مَلُوماً بَلْ كَانَ بِه عِنْدِي جَدِيراً - فَيَا عَجَباً عَجَباً واللَّه يُمِيتُ الْقَلْبَ ويَجْلِبُ الْهَمَّ - مِنَ اجْتِمَاعِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ عَلَى بَاطِلِهِمْ - وتَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ - فَقُبْحاً لَكُمْ وتَرَحاً حِينَ صِرْتُمْ غَرَضاً يُرْمَى - يُغَارُ عَلَيْكُمْ ولَا تُغِيرُونَ - وتُغْزَوْنَ ولَا تَغْزُونَ ويُعْصَى اللَّه وتَرْضَوْنَ - فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِالسَّيْرِ إِلَيْهِمْ فِي أَيَّامِ الْحَرِّ - قُلْتُمْ هَذِه حَمَارَّةُ الْقَيْظِ أَمْهِلْنَا يُسَبَّخْ عَنَّا الْحَرُّ وإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِالسَّيْرِ إِلَيْهِمْ فِي الشِّتَاءِ - قُلْتُمْ هَذِه صَبَارَّةُ الْقُرِّ أَمْهِلْنَا يَنْسَلِخْ عَنَّا الْبَرْدُ - كُلُّ هَذَا فِرَاراً مِنَ الْحَرِّ والْقُرِّ - فَإِذَا كُنْتُمْ مِنَ الْحَرِّ والْقُرِّ تَفِرُّونَ - فَأَنْتُمْ واللَّه مِنَ السَّيْفِ أَفَرُّ!

اورمجھے تو یہاں تک خبر ملی ہے کہ دشمن کا ایک ایک سپاہی مسلمان یا مسلمانوں کے معاہدہ میں رہنے والی عورت کے پاس وارد ہوتا تھااوراس کے پیروں کےکڑے ' ہاتھ کے کنگن 'گلے کے گلو بند اور کان کے گوشوارے اتار لیتا تھا اور وہ سوائے انا للہ پڑھنے اور رحم و کرم کی درخواست کرنے کے کچھ نہیں کر سکتی تھی اور وہ سارا سازو سامان لے کر چلا جاتاتھا نہ کوئی زخز کھاتا تھا اور نہ کسی طرح کا خون بہتا تھا۔اس صورت حال کے بعداگر کوئی مرد مسلمان صدمہ سے مربھی جائے توقابل ملامت نہیں ہے بلکہ میرے نزدیک حق بجانب ہے کس قدر حیرت انگیز اور تعجب خیز صورت حال ہے۔خدا کی قسم یہ بات دل کوہ مردہ بنا دینے والی اور ہم و غم کو سیمٹنے والی ہے کہ یہ لوگ اپنے باطل پرمجتمع اورمتحد ہیں اور تم اپنے حق پر بھی متحد نہیں ہو۔تمہارا برا ہو کیا افسوسناک حال ہے تمہارا۔کہ تم تیر اندازوں کا مستقل نشانہ بن گئے ہو۔تم پر حملہ کیا جارہا ہے اور تم حملہ نہیں کرتے ہوتم سے جنگ کی جا رہی ہے اور تم باہرنہیں نکلتے ہو۔لوگ خدا کی نا فرمانی کر رہے ہیں اورتم اس صورت حال سے خوش ہو۔میں تمہیں گرمی میں جہاد کے لئے نکلنے کی دعوت دیتا ہ وں تو کہتے ہو کہ شدیدگرمی ہے۔تھوڑی مہلت دیجئے کہ گرمی گزرجائے۔اس کے بعد سردی میں بلاتا ہوں تو کہتے ہو سخت جاڑا پڑ رہا ہے ذراٹھہر جائیےکہ سردی ختم ہوجائے حالانکہ یہ سب جنگ سےفرارکرنے کے بہانے ہیں ورنہ جو قوم سردی اورگرمی سےفرارکرتی ہووہ تلواروں سےکس قدر فرار کرے گی۔

۵۴

البرم بالناس

يَا أَشْبَاه الرِّجَالِ ولَا رِجَالَ - حُلُومُ الأَطْفَالِ وعُقُولُ رَبَّاتِ الْحِجَالِ لَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَرَكُمْ ولَمْ أَعْرِفْكُمْ مَعْرِفَةً - واللَّه جَرَّتْ نَدَماً وأَعْقَبَتْ سَدَماً

قَاتَلَكُمُ اللَّه لَقَدْ مَلأْتُمْ قَلْبِي قَيْحاً وشَحَنْتُمْ صَدْرِي غَيْظاً - وجَرَّعْتُمُونِي نُغَبَ التَّهْمَامِ أَنْفَاساً وأَفْسَدْتُمْ عَلَيَّ رَأْيِي بِالْعِصْيَانِ والْخِذْلَانِ - حَتَّى لَقَدْ قَالَتْ قُرَيْشٌ إِنَّ ابْنَ أَبِيطَالِبٍ رَجُلٌ شُجَاعٌ ولَكِنْ لَا عِلْمَ لَه بِالْحَرْبِ.

لِلَّه أَبُوهُمْ - وهَلْ أَحَدٌ مِنْهُمْ أَشَدُّ لَهَا مِرَاساً وأَقْدَمُ فِيهَا مَقَاماً مِنِّي - لَقَدْ نَهَضْتُ فِيهَا ومَا بَلَغْتُ الْعِشْرِينَ - وهَا أَنَا ذَا قَدْ ذَرَّفْتُ عَلَى السِّتِّينَ ولَكِنْ لَا رَأْيَ لِمَنْ لَا يُطَاعُ!

اے مردوں کی شکل و صورت والواور واقعا نا مردو! تمہاری فکریں بچوں جیسی اور عقلیں حجلہ نشین عورتوں جیسی ہیں۔میری دلی خواہش تھی کہ کاش میں تمہیں نہ دیکھتا(۱) اورتم سے متعارف نہ ہوتا۔جس کا نتیجہ صرف ندامت اور رنج و افسوس ہے۔ اللہ تمہیں غارت کردے تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینہ کورنج و غم سے چھلکا دیا ہے۔تم نے ہرسانس میں ہم و غم کے گھونٹ پلائے ہیں اور اپنی نا فرمانی اور سرکشی سے میری رائے کوبھی بیکار وبے اثر بنادیا ہے یہاں تک کہ اب قریش والے یہ کہنے لگے ہیں کہ فرزند ابو طالب بہادرتو ہیں لیکن انہیں فنون جنگ کا علم نہیں ہے۔

اللہ ان کا بھلا کرے۔کیا ان میں کوئی بھی ایسا ہے جو مجھ سے زیادہ جنگ کا تجربہ رکھتا ہو اور مجھ سے پہلے سے کوئی مقام رکھتا ہو۔میں نے جہاد کے لئے اس وقت قیام کیا ہے جب میری عمر۲۰ سال بھی نہیں تھی اور اب تو۶۰ سے زیادہ ہو چکی ہے۔لیکن کیا کیا جائے۔جس کی اطاعت نہیں کی جاتی ہے اس کی رائے کوئی رائے نہیں ہوتی ہے۔

(۱) کسی قوم کی ذلت و رسوائی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کا سز براہ حضرت علی بن ابی طالب جیسا انسان ہو اور وہ ان سے اس قدر بد دل ہو کہ ان کی شکلوں کو دیکھنابھی گوارہ نہ کرتا ہو۔ایسی قوم دنیا میں زندہ رہنے کے قابل نہیں ہے اورآخرت میں بھی اس کا انجام جہنم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس مقام پر مولائے کائنات نے ایک اورنکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ تمہاری ناف رمانی اور سر کشی نے میری رائے کوبھی برباد کردیا ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ راہنما اور سر براہ کسی قدر بھی ذکی اور عبقری کیوں نہ ہو اگر قوم اس کی اطاعت سے انکار کردے تو نافہم انسان یہی خیال کرتا ہے کہ شاید یہ رائے اورحکم قابل اطاعت نہ تھا اسی لئے قوم نے اسے نظر انداز کردیا ہے۔خصوصیت کے ساتھ اگر کام ہی اجتماعی ہو تو اجتماع کا انحراف کام کوبھی معطل کر دیتا ہے اور اس کے نتائج بہر حال نا مناسب اورغلط ہوتے ہیں جس کاتجربہ مولائے کائنات کے سامنے آیا کہ قوم نے آپ کے حکم کے مطابق جہاد کرنے سے انکار کردیا اور گرمی و سردی کے بہانے بنانا شروع کردئیے اور اس کے نتیجہ میں دشمنوں ے یہ کہنا شروع کردیا کہ علی فنون جنگ سے با خبر نہیں ہیں حالانکہ علی سے زیادہ اسلام میں کوئی ماہر جنگ و جہاد نہیں تھا جس نے اپنی ساری زندگی اسلامی مجاہدات کے میدانوں میں گزاری تھی اور مسلسل تیغ آزمائی کا ثبوت دیا تھا اور جس کی طرف خود آپ نے بھی اشارہ فرمایا ہے اور اپنی تاریخ حیات کو اس کا گواہ قرار دیا ہے۔

۵۵

(۲۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهو فصل من الخطبة التي أولها «الحمد للَّه غير مقنوط من رحمته» وفيه أحد عشر تنبيها

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الدُّنْيَا أَدْبَرَتْ وآذَنَتْ بِوَدَاعٍ - وإِنَّ الآخِرَةَ قَدْ أَقْبَلَتْ وأَشْرَفَتْ بِاطِّلَاعٍ أَلَا وإِنَّ الْيَوْمَ الْمِضْمَارَ وغَداً السِّبَاقَ - والسَّبَقَةُ الْجَنَّةُ والْغَايَةُ النَّارُ - أَفَلَا تَائِبٌ مِنْ خَطِيئَتِه قَبْلَ مَنِيَّتِه أَلَا عَامِلٌ لِنَفْسِه قَبْلَ يَوْمِ بُؤْسِه أَلَا وإِنَّكُمْ فِي أَيَّامِ أَمَلٍ مِنْ وَرَائِه أَجَلٌ - فَمَنْ عَمِلَ فِي أَيَّامِ أَمَلِه قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِه - فَقَدْ نَفَعَه عَمَلُه ولَمْ يَضْرُرْه أَجَلُه - ومَنْ قَصَّرَ فِي أَيَّامِ أَمَلِه قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِه - فَقَدْ خَسِرَ عَمَلُه وضَرَّه أَجَلُه –

أَلَا فَاعْمَلُوا فِي الرَّغْبَةِ كَمَا تَعْمَلُونَ فِي الرَّهْبَةِ

(۲۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو اس خطبہ کی ایک فصل کی حیثیت رکھتا ہے جس کاآغاز'' الحمد للہ غیر مقنوط من رحمة '' سے ہوا ہے اور اس میں گیارہ تنبیہات ہیں)

اما بعد!یہ دنیا پیٹھ پھیر چکی ہے اور اس نے اپنے وداع کا اعلان کردیا ہے اور آخرت سامنے آرہی ہے اور اس کے آثارنمایاں ہوگئے ہیں۔یاد رکھو کہ آج میدان عمل ہے اور کل مقابلہ ہوگا جہاں سبقت کرنے والے کا انعام جنت ہوگا اوربدعمل کا انجام جہنم ہوگا۔کیا اب بھی کوئی ایسا نہیں ہے جو موت سے پہلے خطائوں سے توبہ کرلے اور سختی کے دن سے پہلے اپنے نفس کے لئے عمل کرلے۔یاد رکھو کہ تم آج امیدوں کے دنوں میں ہو جس کے پیچھے موت لگی ہوئی ہے تو جس شخص نے امید کے دنوں میں موت آنے سے پہلے عمل کرلیا اسے اس کا عمل یقینا فائدہ پہنچائے گا اور موت کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی لیکن جس نے موت سے پہلے امید کے دنوں میں عمل نہیں کیا اس نے عمل کی منزل میں گھاٹا اٹھایا اور اس کی موت بھی نقصان دہ ہوگی۔

آگاہ ہو جائو۔تم لوگ راحت کے حالات میں اسی طرح عمل کرو جس طرح خوف کے عالم میں کرتے ہو

۵۶

أَلَا وإِنِّي لَمْ أَرَ كَالْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا ولَا كَالنَّارِ نَامَ هَارِبُهَا - أَلَا وإِنَّه مَنْ لَا يَنْفَعُه الْحَقُّ يَضُرُّه الْبَاطِلُ - ومَنْ لَا يَسْتَقِيمُ بِه الْهُدَى يَجُرُّ بِه الضَّلَالُ إِلَى الرَّدَى - أَلَا وإِنَّكُمْ قَدْ أُمِرْتُمْ بِالظَّعْنِ ودُلِلْتُمْ عَلَى الزَّادِ - وإِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ اثْنَتَانِ اتِّبَاعُ الْهَوَى وطُولُ الأَمَلِ - فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا - مَا تَحْرُزُونَ بِه أَنْفُسَكُمْ غَداً.

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه وأقول إنه لو كان كلام يأخذ بالأعناق - إلى الزهد في الدنيا - ويضطر إلى عمل الآخرة - لكان هذا الكلام - وكفى به قاطعا لعلائق الآمال - وقادحا زناد الاتعاظ والازدجار -

کہ میں(۱) نے جنت جیسا کوئی مطلوب نہیں دیکھا ہے جس کے طلب گار سب سو رہے ہیں اور جہنم جیسا کوئی خطرہ نہیں دیکھا جس سے بھاگنے والے سب خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔یاد رکھو کہ جسے حق فائدہ پہنچا سکے گا اسے باطل ضرور نقصان پہنچائے گا اور جسے ہدایت سیدھے راستہ پر نہ لا سکے گی اسے گمراہی بہر حال کھینچ کر ہلاکت تک پہنچادے گی۔ آگاہ ہو جائو کہ تمہیں کوچ کا حکم مل چکا ہے اور تمہیں زاد سفر بھی بتایا جا چکا ہے اور تمہارے لئے سب سے بڑا خوفناک خطرہ دو چیزوں کا ہے۔خواہشات کا اتباع اور امیدوں کا طولانی ہونا۔لہٰذا جب تک دنیا میں ہواس دنیا سے وہ زاد راہ حاصل کرلو جس کے ذریعہ کل اپنے نفس کا تحفظ کرسکو۔

سید رضی : اگر کوئی ایسا کلام ہو سکتا ہے جو انسان کی گردن پکڑ کر اسے زہد کی منزل تک پہنچا دے اور اسے عمل آخرت پر مجبور کردے تو وہ یہی کلام ہے۔یہ کلام دنیا کی امیدوں کے قطع کرنے اوروعظ و نصیحت قبول کرنے کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لئے کافی ہوتا ۔

(۱)زمانہ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ شائد اس دنیا کی اس سے بڑی کوئی حقیقت اورصداقت نہیں ہے۔جس شخص سے پوچھئے وہ جنت کا مشتاق ہے اور جس شخص کو دیکھئے وہ جہنم کے نام سے پناہ مانگتا ہے۔لیکن منزل عمل میں دونوں اس طرح سو رہے ہیں جیسے کہ یہ معشوق از خودگھر آنے والا ہے اور یہ خطرہ از خودٹل جانے والاہے۔نہ جنت کے عاشق جنت کے لئے کوئی عمل کر رہے ہیں اور نہ جہنم سے خوفزدہ اس سے بچنے کا انتظام کر رہے ہیں بلکہ دونوں کاخیال یہ ہے کہ مذہب میں کچھ افراد ایسے ہیں جنہوں نے اس بات کا ٹھیکہ لے لیا ہے کہ وہ جنت کا انتظام بھی کریں گے اور جہنم سے بچانے کا بندوبست بھی کریں گے اور اس سلسلہ میں ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔حالانکہ دنیا کے چند روز معشوق کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہیں۔یہاں کوئی دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتا ہے۔دولت کے لئے سب خود دوڑتے ہیں۔شہرت کے لئے سب خود مرتے ہیں۔عورت کے لئے سب خود دیوانے بنتے ہیں۔عہدہ کے لئے سب خود راتوں کی نیند حرام کرتے ہیں۔خدا جانے یہ ابدی معشوق جنت جیسا محبوب ہے جس کا معاملہ دوسروں کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا جاتا ہے اور انسان غفلت کی نیند سو جاتا ہے۔کاش یہ انسان واقعاً مشتاق اور خوفزدہ ہوتا تو یقینا اس کا یہ کردار نہ ہوتا۔''فاعتبروا یا اولی الا بصار''

۵۷

ومن أعجبه قولهعليه‌السلام - ألا وإن اليوم المضمار وغدا السباق - والسبقة الجنة والغاية النار - فإن فيه مع فخامة اللفظ وعظم قدر المعنى - وصادق التمثيل وواقع التشبيه - سرا عجيبا ومعنى لطيفا - وهو قولهعليه‌السلام والسبقة الجنة والغاية النار - فخالف بين اللفظين لاختلاف المعنيين - ولم يقل السبقة النار - كما قال السبقة الجنة - لأن الاستباق إنما يكون إلى أمر محبوب - وغرض مطلوب - وهذه صفة الجنة - وليس هذا المعنى موجودا في النار - نعوذ بالله منها فلم يجز أن يقول - والسبقة النار بل قال والغاية النار - لأن الغاية قد ينتهي إليها من لا يسره الانتهاء إليها - ومن يسره ذلك فصلح أن يعبر بها عن الأمرين معا - فهي في هذا الموضع كالمصير والمآل - قال الله تعالى:( قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ ) - ولا يجوز في هذا الموضع أن يقال - سبْقتكم بسكون الباء إلى النار - فتأمل ذلك فباطنه عجيب وغوره بعيد لطيف - وكذلك أكثر كلامهعليه‌السلام - وفي بعض النسخ - وقد جاء في رواية أخرى والسُّبْقة الجنة بضم السين - والسبقة عندهم اسم لما يجعل للسابق -

خصوصیت کے ساتھ حضرت کا یہ ارشاد کہ''آج میدان عمل ہے اور کل مقابلہ۔اس کے بعد منزل مقصود جنت ہے اور انجام جہنم۔اس میں الفاظ کی عظمت ' معانی کی قدر و منزلت تمثیل کی صداقت اور تشبیہ کی واقعیت کے ساتھ وہ عجیب و غریب رازنجات اورلطافت مفہوم ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ۔پھر حضرت نے جنت و جہنم کے بارے میں ''سبقہ'' اور ''غایتہ'' کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں صرف لفظی اختلاف نہیں ہے بلکہ واقعاً معنوی افتراق وامتیاز پایا جاتا ہے کہ نہ جہنم کو سبقہ ( منزل) کہاجا سکتا ہے اور نہ جنت کو غایة (انجام) جہاں تک انسان خود بخودپہنچ جائے گا بلکہ جنت کے لئے دوڑ دھوپ کرنا ہوگی جس کے بعد انعام ملنے والا ہے اور جہنم بدعملی کے نتیجہ میں خودبخود سامنے آجائے گا۔اس کے لئے کسی اشتیاق اورمحنت کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر آپ نے جہنم کو غایتہ قرار دیا ہے جس طرح کہ قرآن مجید نے اسے ''مصیر '' سے تعبیر کیا ہے۔ ''فان مصیر کم الی النار ''حقیقتاً اس نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کا باطن انتہائی عجیب و غریب اور اس کی گہرائی انتہائی لطیف ہے اوریہ تنہا اس کلام کی بات نہیں ہے۔حضرت کے کلمات میں عام طور سے یہی بلاغت پائی جاتی ہے اور اس کے معانی میں اسی طرح کی لطافت اور گہرائی نظر آتی ہے۔بعض روایات میں جنت کے لئے سبقتہ کے بجائے سبقتہ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی انعام کے ہیں

۵۸

إذا سبق من مال أو عرض - والمعنيان متقاربان - لأن ذلك لا يكون جزاء على فعل الأمر المذموم - وإنما يكون جزاء على فعل الأمر المحمود.

(۲۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد غارة الضحاك بن قيس صاحب معاوية على الحاجّ بعد قصة الحكمين

وفيها يستنهض أصحابه لما حدث في الأطراف

أَيُّهَا النَّاسُ الْمُجْتَمِعَةُ أَبْدَانُهُمْ - الْمُخْتَلِفَةُ أَهْوَاؤُهُمْ كَلَامُكُمْ يُوهِي الصُّمَّ الصِّلَابَ وفِعْلُكُمْ يُطْمِعُ فِيكُمُ الأَعْدَاءَ – تَقُولُونَ فِي الْمَجَالِسِ كَيْتَ وكَيْتَ فَإِذَا جَاءَ الْقِتَالُ قُلْتُمْ حِيدِي حَيَادِ مَا عَزَّتْ دَعْوَةُ مَنْ دَعَاكُمْ - ولَا اسْتَرَاحَ قَلْبُ مَنْ قَاسَاكُمْ - أَعَالِيلُ بِأَضَالِيلَ وسَأَلْتُمُونِي التَّطْوِيلَ دِفَاعَ ذِي الدَّيْنِ الْمَطُولِ لَا يَمْنَعُ الضَّيْمَ الذَّلِيلُ - ولَا يُدْرَكُ الْحَقُّ إِلَّا بِالْجِدِّ

اور کھلی ہوئی بات ہے کہ انعام بھی کسی مذموم عمل پر نہیں ملتا ہے بلکہ اس کا تعلق بھی قابل تعریف اعمال ہی سے ہوتا ہے لہٰذا عمل بہر حال ضروری ہے اور عمل کا قابل تعریف ہونا بھی لازمی ہے۔

(۲۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جب تحکیم کے بعد معاویہ (۱) کے سپاہی ضحاک بن قیس نے حجاج کے قابلہ پر حملہ کردیا اور حضرت کواس کی خبر دی گئی تو آپ نے لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

اے وہ لوگو!جن کے جسم ایک جگہ پر ہیں اور خواہشات الگ الگ ہیں۔تمہارا کلام تو سخت ترین پتھر کوبھی نرم کر سکتا ہے لیکن تمہارے حرکات دشمنوں کوبھی تمہارے بارے میں پرامید بنا دیتے ہیں۔تم محفلوں میں بیٹھ کر ایسی ایسی باتیں کرتے ہو کہ خدا کی پناہ لیکن جب جنگ کا نقشہ کرے گا اس کے دل کوکبھی سکون نہ ملے گا۔تمہارے پاس صرف بہانے ہیں اور غلط سلط حوالے اورپھر مجھ سے تاخیر جنگ کی فرمائش جیسے کوئی نا دہندہ قرض کوٹالنا چاہتا ہے۔یاد رکھو ذلیل آدمی ذلت کو نہیں روک سکتا ہے اورحق محنت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتاہے۔

(۱)معاویہ کا ایک مستقل مقصد یہ بھی تھا کہ امیر المومنین کسی آن چین سے نہ بیٹھنے پائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ واقعی اسلام قوم کے سامنے پیش کردیں اور اموی افکار کا جنازہ نکل جائے۔اس لئے وہ مسلسل ریشہ دوانیوں میں لگا رہتا تھا۔آخر ایک مرتبہ ضحاک بن قیس کوچارہزار کالشکر دے کر روانہ کردیا اور اس نے سارے علاقہ میں کشت و خون شروع کردیا۔آپ نے منبرپرآکرقوم کو غیرت دلائی لیکن کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔اور لوگ جنگ سے کنارہ کشی کرتے رہے۔یہاں تک کہ حجربن عدی چار ہزار سپاہیوں کو لے کرنکل پڑے اور مقام تدمر پردونوں کا سامنا ہوگیا لیکن معاویہ کا لشکربھاگ کھڑا ہوا اورصرف ۱۹ افراد معاویہ کے کام آئے جب کہ حجر کے سپاہیوں میں دو افراد نے جام شہادت نوش فرمایا۔

۵۹

أَيَّ دَارٍ بَعْدَ دَارِكُمْ تَمْنَعُونَ - ومَعَ أَيِّ إِمَامٍ بَعْدِي تُقَاتِلُونَ - الْمَغْرُورُ واللَّه مَنْ غَرَرْتُمُوه - ومَنْ فَازَ بِكُمْ فَقَدْ فَازَ واللَّه بِالسَّهْمِ الأَخْيَبِ ومَنْ رَمَى بِكُمْ فَقَدْ رَمَى بِأَفْوَقَ نَاصِلٍ أَصْبَحْتُ واللَّه لَا أُصَدِّقُ قَوْلَكُمْ - ولَا أَطْمَعُ فِي نَصْرِكُمْ - ولَا أُوعِدُ الْعَدُوَّ بِكُمْ - مَا بَالُكُمْ مَا دَوَاؤُكُمْ مَا طِبُّكُمْ - الْقَوْمُ رِجَالٌ أَمْثَالُكُمْ - أَقَوْلًا بِغَيْرِ عِلْمٍ - وغَفْلةً مِنْ غَيْرِ وَرَعٍ - وطَمَعاً فِي غَيْرِ حَقٍّ!؟

(۳۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معنى قتل عثمان

وهو حكم له على عثمان وعليه وعلى الناس بما فعلوا وبراءة له من دمه

لَوْ أَمَرْتُ بِه لَكُنْتُ قَاتِلًا

تم جب اپنے گھر کا دفاع نہ کر سکوگے تو کس کے گھر کا دفاع کروگے اور جب میرے ساتھ جہاد نہ کروگے تو کس کے ساتھ جہاد کروگے۔خدا کی قسم وہ فریب خوردہ ہے جو تمہارے دھوکہ میں آجائے اور جو تمہارے سہارے کامیابی چاہے گا اسے صرف نا کامی کا تیر ہاتھ آئے گا۔اور جس نے تمہارے ذریعہ تیر پھینکا اس نے وہ تیر پھینکا جس کا پیکان ٹوٹ چکا ہے اور سو فار ختم ہو چکا ہے۔خدا کی قسم میں ان حالات میں نہ تمہارے قول کی تصدیق کر سکتا ہوں اور نہ تمہاری نصرت کی امیدرکھتا ہوں اور نہ تمہارے ذریعہ کسی دشمن کو تہدید کر سکتا ہوں۔آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تمہاری دوا کیا ہے؟ تمہارا علاج کیا ہے؟ آخر وہ لوگ بھی تو تمہارے ہی جیسے انسان ہیں ۔یہ بغیر علم کی باتیں کب تک اوریہ بغیر تقویٰ کی غفلت تابکے اوربغیر حق کے بلندی کی خواہش کہاں تک؟

(۳۰)

آپ کا ارشاد گرامی

قتل عثمان کی حقیقت کے بارے میں

یاد رکھواگر میں نے اس قتل(۱) کاحکم دیا ہوتا تو یقینا میں قاتل ہوتا

(۱)یہ تاریخ کا مسلمہ ہے کہ عثمان نے سارے ملک پر بنی امیہ کا اقتدار قائم کردیا تھا اوربیت المال کو بے تحاشہ اپنے خاندان والوں کے حوالے کردیا تھا جس کی فریاد پورے عالم اسلام میں شروع ہوگئی تھی اور کوفہ اور مصر تک کے لوگ فریاد لے کر آگئے تھے۔امیر المومنین نے درمیان میں پڑ کر مصالحت کرائی اوریہ طے ہوگیا کہ مدینہ کے حالات کی ضروری اصلاح کی جائے اور مصر کا حاکم محمدبن ابی بکر کو بنادیا جائے ۔لیکن مخالفین کے جانے کے بعد عثمان نے ہر بات کا انکار کردیا اور والی مصر کے نام محمدبن ابی بکر کے قتل کا فرمان بھیج دیا۔خط راستہ میں پکڑ لیا گیا اور اب جو لوگوں نے واپس آکر مدینہ والوں کو حالات سے آگاہ کیا تو توبہ کا امکان بھی ختم ہوگیا اورچاروں طرف سے محاصرہ ہوگیا۔اب امیر المومنین کی مداخلت کے امکانات بھی ختم ہوگئے تھے۔اوربالآخر عثمان کو اپنے اعمال اور بنی امیہ کی اقرباء نوازی کی سزا برداشت کرنا پڑی اور پھر کوئی مروان یا معاویہ کام نہیں آیا۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863