نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657060 / ڈاؤنلوڈ: 15926
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

وتُعْطِي - وعَلَى مَا تُعَافِي وتَبْتَلِي – حَمْدا يَكُونُ أَرْضَى الْحَمْدِ لَكَ - وأَحَبَّ الْحَمْدِ إِلَيْكَ وأَفْضَلَ الْحَمْدِ عِنْدَكَ.حَمْداً يَمْلأُ مَا خَلَقْتَ ويَبْلُغُ مَا أَرَدْتَ - حَمْداً لَا يُحْجَبُ عَنْكَ ولَا يُقْصَرُ دُونَكَ.

حَمْداً لَا يَنْقَطِعُ عَدَدُه ولَا يَفْنَى مَدَدُه - فَلَسْنَا نَعْلَمُ كُنْه عَظَمَتِكَ - إِلَّا أَنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ حَيٌّ قَيُّومُ - لَا تَأْخُذُكَ سِنَةٌ ولَا نَوْمٌ - لَمْ يَنْتَه إِلَيْكَ نَظَرٌ ولَمْ يُدْرِكْكَ بَصَرٌ - أَدْرَكْتَ الأَبْصَارَ وأَحْصَيْتَ الأَعْمَالَ - وأَخَذْتَ بِالنَّوَاصِي والأَقْدَامِ –

ومَا الَّذِي نَرَى مِنْ خَلْقِكَ - ونَعْجَبُ لَه مِنْ قُدْرَتِكَ - ونَصِفُه مِنْ عَظِيمِ سُلْطَانِكَ - ومَا تَغَيَّبَ عَنَّا مِنْه وقَصُرَتْ أَبْصَارُنَا عَنْه - وانْتَهَتْ عُقُولُنَا دُونَه - وحَالَتْ سُتُورُ الْغُيُوبِ بَيْنَنَا وبَيْنَه أَعْظَمُ - فَمَنْ فَرَّغَ قَلْبَه وأَعْمَلَ فِكْرَه

لیتا ہے یاعطا کردیتا ہے اور جن بلائوں سے نجات دے دیتا ہے یا جن میں مبتلا کردیتا ہے۔ایسی حمد جو تیرے لئے انتہائی پسندیدہ ہو اور محبوب ترین ہواور بہترین ہو۔ ایسی حمد جو ساری کائنات کو مملو کردے اور جہاںتک چاہے پہنچ جائے۔اورایسی حمد جس کے سامنے نہ کوئی حاجب ہو اور نہ تیری بارگاہ تک پہنچنے سے قاصر ہو۔

وہ حمد جس کا سلسلہ رک نہ سکے اورجس کی مدت تمام نہ ہوسکے ۔ہم تیری عظمت کی حقیقت سے با خبر نہیں ہیں لیکن یہ جانتے ہیں کہ تو ہمیشہ زندہ ہے اور ہر شے تیرے ارادہ سے قام ہے۔تیرے لئے نہ نیند ہے اورنہ اونگھ نہ کوئی نظر تجھ تک پہنچ سکتی ہے اور نہ کوئی نگاہ تیرا ادراک کر سکتی ہے۔تونے تمام نگاہوں کا ادراک کرلیا ہے اورتمام اعمال کو شمارکرلای ہے۔ہرایک کی پیشانی اورقدم سب تیرے ہی قبضہ میں ہیں۔

ہم تیری جس خلقت(۱) کامشاہدہ کر رہے ہیں اور جس قدرت سے تعجب کر رہے ہیں اور جس عظیم سلطنت کی توصیف کر رہے ہیں اس کی حقیقت کیاہے۔ وہ مخلوقات جو ہماری نگاہوں سے غائب ہے اورجہاں تک ہماری نگاہ نہیں پہنچ سکتی ہے اور جس کے قریب جا کر ہماری عقل ٹھہر گئی ہے اور جہاں غیب کے پردے حائل ہوگئے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ عظیم تر ہے۔لہٰذا جو اپنے دل کو فارغ کرلے اور اپنی فکر کواستعمال کرے تاکہ یہ

(۱) جب انسان انہیں مخلوقات کی حقیقت کے ادراک سے عاجز ہے جو نگاہوں کے سامنے آرہی ہیں اور جواحساس کے حدود کے اندر ہیں تو ان مخلوقات کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جو انسانی حواس کی زد سے باہر ہیں اور جن تک عق بشر کی رسائی ہیں ہے اور جب مخلوقات کی حقیقت تک انسانی فکرکی رسائی نہیں ہے تو خالق کی حقیقت کا عرفان کس طرح ممکن ہے اور انسان اس کی حمد کا حق کس طرح ادا کر سکتا ہے۔

۲۸۱

لِيَعْلَمَ كَيْفَ أَقَمْتَ عَرْشَكَ وكَيْفَ ذَرَأْتَ خَلْقَكَ - وكَيْفَ عَلَّقْتَ فِي الْهَوَاءِ سَمَاوَاتِكَ - وكَيْفَ مَدَدْتَ عَلَى مَوْرِ الْمَاءِ أَرْضَكَ رَجَعَ طَرْفُه حَسِيراً - وعَقْلُه مَبْهُوراً وسَمْعُه وَالِهاً وفِكْرُه حَائِراً.

كيف يكون الرجاء

منها - يَدَّعِي بِزَعْمِه أَنَّه يَرْجُو اللَّه كَذَبَ والْعَظِيمِ - مَا بَالُه لَا يَتَبَيَّنُ رَجَاؤُه فِي عَمَلِه - فَكُلُّ مَنْ رَجَا عُرِفَ رَجَاؤُه فِي عَمَلِه – وكُلُّ رَجَاءٍ إِلَّا رَجَاءَ اللَّه تَعَالَى فَإِنَّه مَدْخُولٌ - وكُلُّ خَوْفٍ مُحَقَّقٌ إِلَّا خَوْفَ اللَّه فَإِنَّه مَعْلُولٌ - يَرْجُو اللَّه فِي الْكَبِيرِ ويَرْجُو الْعِبَادَ فِي الصَّغِيرِ - فَيُعْطِي الْعَبْدَ مَا لَا يُعْطِي الرَّبَّ -

دریافت کرس کے کہ تو نے اپنے عرش کو کس طرح قائم کیا ہے۔اپنی مخلوقات کو کس طرح ایجاد کیا ہے اور فضائے بسیط میں کس طرح آسمانوں کو معلق کیا ہے۔اور پانی کی موجوں پرکس طرح زمین کا فرش بچھایاہے تواس کی نگاہ تھک کر پلٹ آئے گی اور عقل مدہوش ہو جائے گی اور کان حیران و سراسیمہ ہو جائیں گے اور فکر راستہ گم کردے گی۔

اسی خطبہ کا ایک حصہ

بعض افراد کا اپنے زعم ناقص میں دعویٰ ہے کہ وہ رحمت خدا کے امید وار ہیں حالانکہ خدائے عظیم گواہ ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں آخرکیا وجہ ہے کہ ان کی امید کی جھلک ان کے اعمال میں نظر نہیں آتی ہے جب کہ ہر امیدوار کی امید اس کے اعمال سے واضح ہو جاتی ہے سوائے پروردگار سے لو لگانے کے کہ یہی امید مشکوک ہے اور اسی طرح ہرخوف ثابت ہو جاتاہے سوائے خوف خداکے کہ یہی غیر یقینی ہے۔انسان اللہ سے بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہے اوربندوں سے چھوٹی امیدیں رکھتا ہے لیکن بندوں کو وہ سارے آداب(۱) و حقوق دے دیتا ہے جو پروردگار

(۱) انسان کی نجات وآخرت کے دو بنیادی رکن ہیں۔ایک خوف اورایک امید۔اسلام نے قدم قدم پر انہیں دو چیزوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور انہیں ایمان اور عمل کاخلاصہ قراردیا ہے۔سورہ مبارکہ حمد جس میں سارا قرآن سمٹا ہوا ہے۔اس میں بھی رحمان و رحیم امید کا اشارہ ہے اور مالک یوم الدین خوف کا لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ انسان نہ واقعاًخداسے امید رکھتا ہے اورنہ اس سے خوف زدہ ہوتا ہے۔امیدوار ہوتا تو دعائوں اورعبادتوں میں دل لگتا کہ ان میں طلب ہی طلب پائی جاتی ہے اورخوف زدہ ہوتا توگناہوں سے پرہیز کرتا کہ گناہ ہی انسان کو عذاب الیم سے دوچار کردیتے ہیں۔

دنیا کی ہر امید اور اس کے ہرخوف کا کردار سے نمایاں ہوجانا اور آخرت کی امید وہم کا واضح نہہونا اس بات کی علامت ہے کہ دنیا اس کے کردارمیں ایک حقیقت ہے اورآخرت صرف الفاظ کامجموعہ اورتلفظ کی بازی گری ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۲۸۲

فَمَا بَالُ اللَّه جَلَّ ثَنَاؤُه يُقَصَّرُ بِه عَمَّا يُصْنَعُ بِه لِعِبَادِه - أَتَخَافُ أَنْ تَكُونَ فِي رَجَائِكَ لَه كَاذِباً - أَوْ تَكُونَ لَا تَرَاه لِلرَّجَاءِ مَوْضِعاً - وكَذَلِكَ إِنْ هُوَ خَافَ عَبْداً مِنْ عَبِيدِه - أَعْطَاه مِنْ خَوْفِه مَا لَا يُعْطِي رَبَّه

فَجَعَلَ خَوْفَه مِنَ الْعِبَادِ نَقْداً - وخَوْفَه مِنْ خَالِقِه ضِمَاراً ووَعْداً - وكَذَلِكَ مَنْ عَظُمَتِ الدُّنْيَا فِي عَيْنِه - وكَبُرَ مَوْقِعُهَا مِنْ قَلْبِه آثَرَهَا عَلَى اللَّه تَعَالَى - فَانْقَطَعَ إِلَيْهَا وصَارَ عَبْداً لَهَا.

رسول اللَّه

ولَقَدْ كَانَ فِي رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَافٍ لَكَ فِي الأُسْوَةِ - ودَلِيلٌ لَكَ عَلَى ذَمِّ الدُّنْيَا وعَيْبِهَا - وكَثْرَةِ مَخَازِيهَا ومَسَاوِيهَا - إِذْ قُبِضَتْ عَنْه أَطْرَافُهَا ووُطِّئَتْ لِغَيْرِه أَكْنَافُهَا - وفُطِمَ عَنْ رَضَاعِهَا وزُوِيَ عَنْ زَخَارِفِهَا.

موسى

وإِنْ شِئْتَ ثَنَّيْتُ بِمُوسَى كَلِيمِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حَيْثُ يَقُولُ –( رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ) -

کونہیں دیتا ہے۔تو آخر یہ کیا ہے کہ خدا کے بارے میں اس سلوک سے بھی کوتاہی کی جاتی ہے جو بندوں کے لئے کردیا جاتا ہے۔کیا تمہیں کبھی اس بات کا خوف پیدا ہوا ہے کہ کہیں تم اپنی امیدوں میں جھوٹے تو نہیں ہویا تم اسے محل امید ہی نہیں تصور کرتے ہو ۔

اسی طرح انسان جب کسی بندہ سے خوف زدہ ہوتا ہے تو اسے وہ سارے حقوق دے دیتا ہے جو پروردگار کو بھی نہیں دیتا ہے۔گویا بندوں کے خوف کو نقد تصور کرتا ہے اور خوف خدا کو صرف وعدہ اور ٹالنے کی چیز بنا رکھا ہے۔

یہی حال اس شخص کا بھی ہے جس کی نظر میں دنیا عظیم ہوتی ہے اور اس کے دل میں اس کی جگہ بڑی ہوتی ہے تو وہ دنیا کو آخرت پرمقدم کردیتا ہے۔اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اوراپنے کواس کا بندہ بنا دیتا ہے۔

رسول اکرم (ص)

یقینا رسول اکرم (ص) کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے اوردنیا کی ذلتاور اس کے عیوب کے لئے بہترین رہنما ہے کہ اس میں ذلت و رسوائی کے مقامات بکثرت پائے جاتے ہیں۔دیکھو اس دنیا کے اطراف حضور سے سمیٹ لئے گئے اور غیروں کے لئے ہموار کردئیے گئے۔آپ کو اس کے منافع سے الگ رکھا گیا اور اس کی آرائشوں سے کنارہ کش کردیا گیا۔اور اگر آپکے علاوہ دوسری مثال چاہتے ہو تو وہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی مثال ہے جنہوں نے خدا کی بارگاہ میں گزارش کی کہ'' پروردگار میں تیری طرف نازل ہونے والے خیر کا محتاج ہوں ''

۲۸۳

واللَّه مَا سَأَلَه إِلَّا خُبْزاً يَأْكُلُه - لأَنَّه كَانَ يَأْكُلُ بَقْلَةَ الأَرْضِ - ولَقَدْ كَانَتْ خُضْرَةُ الْبَقْلِ تُرَى مِنْ شَفِيفِ صِفَاقِ بَطْنِه - لِهُزَالِه وتَشَذُّبِ لَحْمِه

داود

وإِنْ شِئْتَ ثَلَّثْتُ بِدَاوُدَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صَاحِبِ الْمَزَامِيرِ وقَارِئِ أَهْلِ الْجَنَّةِ - فَلَقَدْ كَانَ يَعْمَلُ سَفَائِفَ الْخُوصِ بِيَدِه - ويَقُولُ لِجُلَسَائِه أَيُّكُمْ يَكْفِينِي بَيْعَهَا - ويَأْكُلُ قُرْصَ الشَّعِيرِ مِنْ ثَمَنِهَا.

عيسى

وإِنْ شِئْتَ قُلْتُ فِي عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَعليه‌السلام - فَلَقَدْ كَانَ يَتَوَسَّدُ الْحَجَرَ - ويَلْبَسُ الْخَشِنَ ويَأْكُلُ الْجَشِبَ - وكَانَ إِدَامُه الْجُوعَ وسِرَاجُه بِاللَّيْلِ الْقَمَرَ - وظِلَالُه فِي الشِّتَاءِ مَشَارِقَ الأَرْضِ ومَغَارِبَهَا - وفَاكِهَتُه ورَيْحَانُه مَا تُنْبِتُ الأَرْضُ لِلْبَهَائِمِ - ولَمْ تَكُنْ لَه زَوْجَةٌ تَفْتِنُه ولَا وَلَدٌ يَحْزُنُه - ولَا مَالٌ يَلْفِتُه ولَا طَمَعٌ يُذِلُّه - دَابَّتُه رِجْلَاه وخَادِمُه يَدَاه.

الرسول الأعظم

فَتَأَسَّ بِنَبِيِّكَ الأَطْيَبِ الأَطْهَرِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَإِنَّ فِيه أُسْوَةً لِمَنْ تَأَسَّى

لیکن خدا گواہ ہے کہ انہوں نے ایک لقمہ نان کے علاوہ کوئی سوال نہیں کیا۔وہ زمین کی سبزی کھا لیا کرتے تھے اور اسی لئے ان کے شکم کی نرم و نازک کھال سے سبزی کا رنگ نظر آیا کرتا تھا کہ وہ انتہائی لاغر ہوگئے تھے اور ان کا گوشت گل گیا تھا۔

تیسری جناب دائود کی ہے جو صاحب زبور اورقاری اہل جنت تھے۔مگر وہ اپنے ہاتھ سے کھجور کے پتوں سے توکریاں بنایاکرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے کہ کون ایسا ہے جو مجھے ان کے فروختکرنے میں مدد دے اور پھر انہیں بیچ کر جو کی روٹیاں کھالیا کرتے تھے۔ اس کے بعد چاہو تو میں عیسی بن مریم کی زندگی کا حال بیان کروں۔جو پتھروں پرتکیہ کرتے تھے ۔ کھردار لباس پہنتے تھے اور معمولی غذا پر گزارا کیا کرتے تھے۔ان کے کھانے میں سالن کی جگہ بھوک تھی اور رات میں چراغ کے بدلے چاند کی روشنی تھی۔سردی میں سایہ کے بدلے مشرق و مغرب کا آسمانی سائبان تھا۔ان کے میوے اور پھول وہ نباتات تھے جو جانوروں کے کام آتے ہیں۔ان کے پاس کوئی زوجہ نہ تھی جو انہیں مشغول کر لیتی اورنہ کوئی اولاد تھی جس کا رنج و غم ہوتا اور نہ کوئی مال تھا جو اپنی طرف متوجہ کر لیتا اور نہ کوئی طمع تھی جو ذلت کا شکار بنا دیتی ۔ان کے پیر ان کی سواری تھے اور ان کے ہاتھ ان کے خادم ۔

رسول اکرم (ص)

تم لوگاپنے طیب و طاہر پیغمبر کا اتباع کرو کہ ان کی زندگی میں پیروی کرنے والے کے لئے بہترین نمونہ اور

۲۸۴

وعَزَاءً لِمَنْ تَعَزَّى - وأَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللَّه الْمُتَأَسِّي بِنَبِيِّه - والْمُقْتَصُّ لأَثَرِه - قَضَمَ الدُّنْيَا قَضْماً ولَمْ يُعِرْهَا طَرْفاً - أَهْضَمُ أَهْلِ الدُّنْيَا كَشْحاً - وأَخْمَصُهُمْ مِنَ الدُّنْيَا بَطْناً - عُرِضَتْ عَلَيْه الدُّنْيَا فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَهَا - وعَلِمَ أَنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَبْغَضَ شَيْئاً فَأَبْغَضَه - وحَقَّرَ شَيْئاً فَحَقَّرَه وصَغَّرَ شَيْئاً فَصَغَّرَه - ولَوْ لَمْ يَكُنْ فِينَا إِلَّا حُبُّنَا مَا أَبْغَضَ اللَّه ورَسُولُه - وتَعْظِيمُنَا مَا صَغَّرَ اللَّه ورَسُولُه - لَكَفَى بِه شِقَاقاً لِلَّه ومُحَادَّةً عَنْ أَمْرِ اللَّه - ولَقَدْ كَانَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَأْكُلُ عَلَى الأَرْضِ - ويَجْلِسُ جِلْسَةَ الْعَبْدِ ويَخْصِفُ بِيَدِه نَعْلَه - ويَرْقَعُ بِيَدِه ثَوْبَه ويَرْكَبُ الْحِمَارَ الْعَارِيَ - ويُرْدِفُ خَلْفَه - ويَكُونُ السِّتْرُ عَلَى بَابِ بَيْتِه فَتَكُونُ فِيه التَّصَاوِيرُ فَيَقُولُ - يَا فُلَانَةُ لإِحْدَى أَزْوَاجِه غَيِّبِيه عَنِّي - فَإِنِّي إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْه ذَكَرْتُ الدُّنْيَا وزَخَارِفَهَا - فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْيَا بِقَلْبِه وأَمَاتَ ذِكْرَهَا مِنْ نَفْسِه - وأَحَبَّ أَنْ تَغِيبَ زِينَتُهَا عَنْ عَيْنِه

صبرو سکون کے طلب گاروں کے لئے بہترین سامان صبرو سکون ہے۔اللہ کی نظر میں محبوب ترین بندہ وہ ہے جو اس کے پیغمبر کا اتباع کرے اور ان کے نقش قدم پر آگے بڑھائے۔انہوںنے دنیا سے صرف مختصر غذا حاصل کی اور اسے نظر بھرکردیکھا بھی نہیں ۔ساری دنیا میں سب سے زیادہ خالی شکم اور شکم تہی میں بسر کرنے والے وہی تھے ان کے سامنے دنیا پیش کی گئی تو اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور یہ دیکھ لیا کہ پروردگار اسے پسند نہیں کرتا ہے تو خود بھی نا پسند کیا اور خداحقیر سمجھتا ہے توخود بھی حقیر سمجھا اور اس نے چھوٹا بنا دیا ہے تو خودب ھی چھوٹا ہی قراردیا۔اور اگر ہم میں اس کے علاوہ کوئی عیب نہ ہوتا کہ ہم خدا و رسول (ص) کے مبغوض کو محبوب سمجھنے لگے ہیں اور خدا و رسول (ص) کی نگاہ میں صغیر و حقیر کو عظیم سمجھنے لگے ہیں تو یہی عیب خدا کی مخالفت اور اسکے حکم سے انحراف کے لئے کافی تھا۔دیکھو پیغمبر اکرم (ص) ہمیشہ زمین پر بیٹھ کر کھاتے تھے۔غلاموں کے انداز سے بیٹھتے تھے اور کسی نہ کسی کو ساتھ بٹھا بھی لیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اپنے مکان کے دروازہ پر ایسا پردہ دیکھ لیا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں تو ایک زوجہ(۱) سے فرمایا کہ خبر دار اسے ہٹائو۔میں اس کی طرف دیکھوں گا تو دنیا اور اس کی آرائش یاد آئے گی۔

(۱) واضح رہے کہ اس واقعہ کا تعلق ازواج کی زندگی اور ان کے گھروں سے ہے۔اس کی اہل بیت کے گھر سے کوئی تعلق نہیں ہے جسے بعض راویوں نے اہل بیت کی طرف موڑ دیا ہے تاکہ ان کی زندگی میں بھی عیش و عشرت کا اثبات کر سکیں۔جب کہ اہل بیت کی زندگی تاریخ اسلام میں مکمل طور پر آئینہ ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ ان حضرات نے تمام تر اختیارات کے باوجود اپنی زندگی انتہائی سادگی سے گزار دی ہے اور سارا مال دنیا راہ خدامیں صرف کردیا ہے۔

۲۸۵

لِكَيْلَا يَتَّخِذَ مِنْهَا رِيَاشاً ولَا يَعْتَقِدَهَا قَرَاراً - ولَا يَرْجُوَ فِيهَا مُقَاماً فَأَخْرَجَهَا مِنَ النَّفْسِ - وأَشْخَصَهَا عَنِ الْقَلْبِ وغَيَّبَهَا عَنِ الْبَصَرِ - وكَذَلِكَ مَنْ أَبْغَضَ شَيْئاً أَبْغَضَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَيْه - وأَنْ يُذْكَرَ عِنْدَه.

ولَقَدْ كَانَ فِي رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - مَا يَدُلُّكُ عَلَى مَسَاوِئِ الدُّنْيَا وعُيُوبِهَا - إِذْ جَاعَ فِيهَا مَعَ خَاصَّتِه - وزُوِيَتْ عَنْه زَخَارِفُهَا مَعَ عَظِيمِ زُلْفَتِه -

فَلْيَنْظُرْ نَاظِرٌ بِعَقْلِه – أَكْرَمَ اللَّه مُحَمَّداً بِذَلِكَ أَمْ أَهَانَه - فَإِنْ قَالَ أَهَانَه فَقَدْ كَذَبَ واللَّه الْعَظِيمِ بِالإِفْكِ الْعَظِيمِ - وإِنْ قَالَ أَكْرَمَه - فَلْيَعْلَمْ أَنَّ اللَّه قَدْ أَهَانَ غَيْرَه حَيْثُ بَسَطَ الدُّنْيَا لَه - وزَوَاهَا عَنْ أَقْرَبِ النَّاسِ مِنْه - فَتَأَسَّى مُتَأَسٍّ بِنَبِيِّه - واقْتَصَّ أَثَرَه ووَلَجَ مَوْلِجَه

آپ نے دنیا سے دل سے کنارہ کشی فرمائی اور اس کی یاد کو اپنے دل سے محو کردیا اور یہ چاہاکہ اس کی زینت نگاہوں سے دور رہے تاکہ نہ بہترین لباس بنائیں اور نہ اسے پانے دل میں جگہ دیں اور نہ اس دنیا میں کسی مقام کی آرزو کریں۔آپ نے دنیا کو نفس سے نکال دیا اور دل سے دور کردیا اور نگاہوں سے بھی غائب کردیا اور یہی ہر انسان کا اصول ہے کہ جس چیز کو نا پسند کرتا ہے اس کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتا ہے اور اس کے ذکر کوبھی نا پسند کر تا ہے۔یقینا رسول (ص) اللہ کی زندگی میں وہ ساری باتیں پائی جاتی ہیں جو دنیا کے عیوب اور اس کی خرابیوں کی نشاندہی کر سکتی ہیں کہ آپ نے اپنے گھر والوں سمیت بھوکا رہنا گوارا کیا ے اورخدا کی بارگاہ میں انتہائی تقرب کے باوجود دنیا کی زینتوں کو آپ سے الگ رکھا گیا ہے۔

اب ہر انسان کو نگاہ عقل سے دیکھنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ اس صورت حال اور اس طرح کی زندگی سے پروردگار نے اپنے پیغمبر (ص) کو عزت دی ہے یا انہیں ذلیل بنایا ہے۔اگر کسی کا خیال یہ ہے کہ ذلیل بنایا ہے تو وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے اور اگر احساس یہ ہے کہ عزت دی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اللہ نے اس کے لئے دنیا کو فرش کردیا ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اسے ذلیل بنا دیا ہے کہ اپنے قریب ترین بندہ سے اسے دور رکھا تھا ۔اب ہر شخص کو رسول اکرم (ص) کا اتباع کرنا چاہیے۔ان کا نقش قدم پرچلنا چاہیے اور ان کی منزل پر قدم رکھنا چاہیے

۲۸۶

وإِلَّا فَلَا يَأْمَنِ الْهَلَكَةَ - فَإِنَّ اللَّه جَعَلَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَلَماً لِلسَّاعَةِ - ومُبَشِّراً بِالْجَنَّةِ ومُنْذِراً بِالْعُقُوبَةِ - خَرَجَ مِنَ الدُّنْيَا خَمِيصاً ووَرَدَ الآخِرَةَ سَلِيماً - لَمْ يَضَعْ حَجَراً عَلَى حَجَرٍ - حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِه وأَجَابَ دَاعِيَ رَبِّه - فَمَا أَعْظَمَ مِنَّةَ اللَّه عِنْدَنَا - حِينَ أَنْعَمَ عَلَيْنَا بِه سَلَفاً نَتَّبِعُه وقَائِداً نَطَأُ عَقِبَه - واللَّه لَقَدْ رَقَّعْتُ مِدْرَعَتِي هَذِه حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَاقِعِهَا - ولَقَدْ قَالَ لِي قَائِلٌ أَلَا تَنْبِذُهَا عَنْكَ - فَقُلْتُ اغْرُبْ عَنِّي فَعِنْدَ الصَّبَاحِ يَحْمَدُ الْقَوْمُ السُّرَى !

(۱۶۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في صفة النبي وأهل بيته وأتباع دينه، وفيها يعظ بالتقوى

ورنہ ہلاکت سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔پروردگار نے پیغمبر اسلام کو قرب قیامت کی علامت جنت کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنایا ہے۔وہ دنیا سے بھوکے چلے گئے لیکن آخرت میں سلامتی کے ساتھ وارد ہوئے ۔انہوںنے تعمیر کے لئے پتھر(۱) پر پتھر نہیں رکھا اور دنیا سے رخصت ہوگئے اور اپنے پروردگار کیدعوت پر لبیک کہہ دی۔پروردگار کا کتنا عظیم احسان ہے کہ اس نے ہمیں ان کا جیسا رہنما عطا فرمایا ہے جس کا اتباع کیا جائے اور قائد دیا ہے جس کے نقش قدم پر قدم جمائے جائیں۔خداکی قسم میں نے اس قمیض میں اتنے پیوند لگوائے ہیں کہ اب رفو گر کو دیتے ہوئے شرم آنے لگی ہے۔مجھ سے ایک شخص نے یہ بھی کہا تھا کہ اسے پھینک کیوں نہیں دیتے تومیں نے اس سے کہہ دیا کہ مجھ سے دور ہو جا۔'' صبح ہونے کے بعد قوم کو رات میں سفر کرنے کی قدر ہوتی ہے ''

(۱۶۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رسول اکرم (ص) کے صفات ' اہل بیت کی فضیلت اور تقویٰ و اتباع رسول (ص) کی دعوت کا تذکرہ کیا گیا ہے)

(۱) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر مسلمان کوآوارہ وطن اورخانہ بدوش ہوناچاہیے اور خیموں اور چھولداریوں میں زندگی گزار دینا چاہیے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان کو دنیا کی اہمیت و عظمت کا قائل نہیں ہونا چاہیے اور اسے صرف بطور ضرورت اور بقدر ضرورت استعمال کرنا چاہیے وہ مکمل طور سے قبضہ میں آجائے تو انسان کو باعزت نہیں بنا سکتی ہے اور سوفیصد ہی اتھوں سے نکل جائے توذلیل نہیں کر سکتی ہے۔عزت و ذلت کا معیار مال و دولت اورجاہ و منصب نہیں ہے۔اس کامعیار صرف عبادت الٰہی اور اطاعت پروردگار ہے جس کے بعد ملک دنیا کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے۔

۲۸۷

الرسول وأهله وأتباع دينه

ابْتَعَثَه بِالنُّورِ الْمُضِيءِ والْبُرْهَانِ الْجَلِيِّ - والْمِنْهَاجِ الْبَادِي والْكِتَابِ الْهَادِي - أُسْرَتُه خَيْرُ أُسْرَةٍ وشَجَرَتُه خَيْرُ شَجَرَةٍ - أَغْصَانُهَا مُعْتَدِلَةٌ وثِمَارُهَا مُتَهَدِّلَةٌ - مَوْلِدُه بِمَكَّةَ وهِجْرَتُه بِطَيْبَةَ .عَلَا بِهَا ذِكْرُه وامْتَدَّ مِنْهَا صَوْتُه - أَرْسَلَه بِحُجَّةٍ كَافِيَةٍ ومَوْعِظَةٍ شَافِيَةٍ ودَعْوَةٍ مُتَلَافِيَةٍ - أَظْهَرَ بِه الشَّرَائِعَ الْمَجْهُولَةَ - وقَمَعَ بِه الْبِدَعَ الْمَدْخُولَةَ - وبَيَّنَ بِه الأَحْكَامَ الْمَفْصُولَةَ - فَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلَامِ دَيْناً تَتَحَقَّقْ شِقْوَتُه - وتَنْفَصِمْ عُرْوَتُه وتَعْظُمْ كَبْوَتُه - ويَكُنْ مَآبُه إِلَى الْحُزْنِ الطَّوِيلِ والْعَذَابِ الْوَبِيلِ.

وأَتَوَكَّلُ عَلَى اللَّه تَوَكُّلَ الإِنَابَةِ إِلَيْه - وأَسْتَرْشِدُه السَّبِيلَ الْمُؤَدِّيَةَ إِلَى جَنَّتِه - الْقَاصِدَةَ إِلَى مَحَلِّ رَغْبَتِه.

النصح بالتقوى

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه وطَاعَتِه - فَإِنَّهَا النَّجَاةُ غَداً والْمَنْجَاةُ أَبَداً - رَهَّبَ فَأَبْلَغَ ورَغَّبَ فَأَسْبَغَ -

پروردگار نے آپ کو روشن نور۔واضح دلیل۔نمایاں راستہ اور ہدایت کرنے والی کتاب کے ساتھ بھیجا ہے ۔آپ کا خاندان بہترین خاندان اورآپ کا شجرہ بہترین شجرہ ہے۔جس کی شاخیں معتدل ہیں اورثمرات دسترس کے اندر ہیں۔آپ کی جائے ولادت مکہ مکرمہ ہے اور مقام ہجرت ارض طیبہ۔یہیں سے آپ کاذکر بلند ہوا ہے اور یہیں سے آپ کی آواز پھیلی ہے۔پروردگار نے آپ کو کفایت کرنے والی حجت ' شفا دینے والی نصیحت' گذشتہ تمام امور کی تلافی کرنے والی دعوت کے ساتھ بھیجا ہے۔آپ کے ذریعہ غیر معروف شریعتوں کو ظاہر کیاہے اور مہمل بدعتوں کا قلع قمع کردیا ہے اور واضح احکام کو بیان کردیا ہے لہٰذا اب جوبھی اسلام کے علاوہ کسی راستہ کواختیار کرے گا اس کی شقاوت ثابت ہو جائے گی اور ریسمان حیات بکھر جائے گی اور منہ کے بھل گرنا سخت ہو جائے گا اور انجام کار دائمی حزن والم اورشدید ترین عذاب ہوگا۔

میں خدا پراسی طرح بھروسہ کرتا ہوں جس طرح اس کی طرف توجہ کرنے والے کرتے ہیں اور اس سے اس راستہ کی ہدایت طلب کرتا ہوں جو اس کی جنت تک پہنچانے والا اور اس کی منزل مطلوب کی طرف لے جانا والا ہے۔

بند گان خدا !میں تمہیں تقویٰ الٰہی اور اس کی اطاعت کی وصیت کرتاہوں کہ اس میں کل نجات ہے اور یہی ہمیشہ کے لئے مرکزنجات ہے۔اس نے تمہیں

۲۸۸

ووَصَفَ لَكُمُ الدُّنْيَا وانْقِطَاعَهَا - وزَوَالَهَا وانْتِقَالَهَا - فَأَعْرِضُوا عَمَّا يُعْجِبُكُمْ فِيهَا لِقِلَّةِ مَا يَصْحَبُكُمْ مِنْهَا - أَقْرَبُ دَارٍ مِنْ سَخَطِ اللَّه وأَبْعَدُهَا مِنْ رِضْوَانِ اللَّه - فَغُضُّوا عَنْكُمْ عِبَادَ اللَّه غُمُومَهَا وأَشْغَالَهَا - لِمَا قَدْ أَيْقَنْتُمْ بِه مِنْ فِرَاقِهَا وتَصَرُّفِ حَالَاتِهَا - فَاحْذَرُوهَا حَذَرَ الشَّفِيقِ النَّاصِحِ والْمُجِدِّ الْكَادِحِ - واعْتَبِرُوا بِمَا قَدْ رَأَيْتُمْ مِنْ مَصَارِعِ الْقُرُونِ قَبْلَكُمْ - قَدْ تَزَايَلَتْ أَوْصَالُهُمْ - وزَالَتْ أَبْصَارُهُمْ وأَسْمَاعُهُمْ - وذَهَبَ شَرَفُهُمْ وعِزُّهُمْ - وانْقَطَعَ سُرُورُهُمْ ونَعِيمُهُمْ - فَبُدِّلُوا بِقُرْبِ الأَوْلَادِ فَقْدَهَا - وبِصُحْبَةِ الأَزْوَاجِ مُفَارَقَتَهَا - لَا يَتَفَاخَرُونَ ولَا يَتَنَاسَلُونَ - ولَا يَتَزَاوَرُونَ ولَا يَتَحَاوَرُونَ - فَاحْذَرُوا عِبَادَ اللَّه حَذَرَ الْغَالِبِ لِنَفْسِه - الْمَانِعِ لِشَهْوَتِه النَّاظِرِ بِعَقْلِه - فَإِنَّ الأَمْرَ وَاضِحٌ والْعَلَمَ قَائِمٌ - والطَّرِيقَ جَدَدٌ والسَّبِيلَ قَصْدٌ

ڈرایا تو مکمل طور سے ڈرایا اور رغبت دلائی تو مکمل رغبت کا انتظام کیا۔تمہارے لئے دنیا اور اس کی جدائی اس کے زوال اور اس سے انتقال سب کی توصیف کردی ہے لہٰذا اس میں جو چیز اچھی لگے اس سے اعراض کرو کہ ساتھ جانے والی شے بہت کم ہے دیکھو یہ گھر غضب الٰہی سے قری تر اور رضائے الٰہی سے دور تر ہے۔

بند گان خدا! ہم و غم اور اس کے اشغال سے چشم پوشی کرلو کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس سے بہر حال جدا ہونا ہے اور اس کے حالات برابر بدلتے رہتے ہیں۔اس سے اس طرح احتیاط کرو جس طرح ایک خوف زدہ اور اپنے نفس کامخلص اور جانفشانی کے ساتھ کوشش کرنے والا احتیاط کرتا ے اور اس سے عبرت حاصل کرو ان مناظرکے ذریعہ جو تم نے خود دیکھ لئے ہیں کہ گذشتہ نسلیں ہلاک ہوگئیں۔ان کے جوڑ بند الگ الگ ہوگئے۔انکیآنکھیں اور ان کے کان ختم ہوگئے۔ان کی شرافت اورعزت چلی گئی۔ان کی مسرت اورنعمت کاخاتمہ ہوگیا۔اولاد کاقرب فقدان میں تبدیل ہوگیا اور ازواج کی صحبت فراق میں بدل گئی۔اب نہ باہمی مفاخرت رہ گئی ہے اور نہ نسلوں کا سلسلہ ' نہ ملاقاتیں رہ گئی ہیں اورنہ بات چیت۔

لہٰذا بندگان خدا! ڈرو اس شخص کی طرح جو اپنے نفس پرقابو رکھتا ہو۔اپنی خواہشات کو روک سکتا ہو اوراپنی عقل کی آنکھوں سے دیکھتا ہو۔مسئلہ بالکل واضح ہے۔نشانیاں قائم ہیں راستہ سیدھا ہے اور صراط بالکل مستقیم ہے۔

۲۸۹

(۱۶۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لبعض أصحابه وقد سأله: كيف دفعكم قومكم عن هذا المقام وأنتم أحق به فقال:

يَا أَخَا بَنِي أَسَدٍ إِنَّكَ لَقَلِقُ الْوَضِينِ - تُرْسِلُ فِي غَيْرِ سَدَدٍ - ولَكَ بَعْدُ ذِمَامَةُ الصِّهْرِ وحَقُّ الْمَسْأَلَةِ - وقَدِ اسْتَعْلَمْتَ فَاعْلَمْ - أَمَّا الِاسْتِبْدَادُ عَلَيْنَا بِهَذَا الْمَقَامِ - ونَحْنُ الأَعْلَوْنَ نَسَباً والأَشَدُّونَ بِالرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نَوْطاً فَإِنَّهَا كَانَتْ أَثَرَةً شَحَّتْ عَلَيْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ - وسَخَتْ عَنْهَا نُفُوسُ آخَرِينَ - والْحَكَمُ اللَّه والْمَعْوَدُ إِلَيْه الْقِيَامَةُ.

ودَعْ عَنْكَ نَهْباً صِيحَ فِي حَجَرَاتِه

ولَكِنْ حَدِيثاً مَا حَدِيثُ الرَّوَاحِلِ

وهَلُمَّ الْخَطْبَ فِي ابْنِ أَبِي سُفْيَانَ - فَلَقَدْ أَضْحَكَنِي الدَّهْرُ بَعْدَ إِبْكَائِه - ولَا غَرْوَ واللَّه - فَيَا لَه خَطْباً يَسْتَفْرِغُ الْعَجَبَ

(۱۶۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس شخص سے جس نے یہ سوال کرلیا کہ لوگوں نے آپ کو آپ کی منزل سے کس طرح ہٹا دیا)

اے برادر بنی اسد! تم بہت تنگ حوصلہ ہو اورغلط راستہ پر چل پڑے ہو۔لیکن بہرحال تمہیں قرابت(۱) کاحق بھی حاصل ہے اور سوال کا حق بھی ہے اورتم نے در یا فت بھی کرلی ہے تو اب سنو! ہمارے بلند نسب اور رسول اکرم (ص) سے قریب ترین تعلق کے باوجود قوم نے ہم سے اس حق کو اس لئے چھین لیاکہ اس میں ایک خود غرضی تھی جس پرایک جماعت کے نفس مرمٹے تھے اور دوسری جماعت(۲) نے چشم پوشی سے کام لیا تھا لیکن بہرحال حاکم اللہ ہے اور روز قیامت اسی کی بارگاہ میں پلٹ کرجانا ہے۔(اس لوٹ مار کا ذکر چھوڑو جس کا شور(۳) چاروں طرف مچا ہواتھا اب اونٹنیوں کی بات کرو جو اپنے قبضہ میں رہ کرنکل گئی ہیں ) اب آئو اس مصیبت کودیکھو جو ابو سفیان کے بیٹے کی طرف سے آئی ہے کہ زمانہ نے رلانے کے بعد ہنسا دیا ہے اور بخدااس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے تعجب تو اس حادثہ پر ہے

(۱) شاید اس امرکی طرف اشارہ ہو کہ سرکار دو عالم (ص) کی ایک زوجہ زینت جحش اسدی تھیں اور ان کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب آپ کی پھوپھی تھیں۔

(۲) اس میں دونوں احتمالات پائے جاتے ہیں۔یا اس قوم کی طرف اشارہ ہے جس نے حق اہل بیت کا تحفظ نہیں کیا اور تغافل سے کام لیا۔یا خود اپنے کردار کی بلندی کی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے بھی چشم پوشی سے کام لیا اور مقابلہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اس طرح ظالموں نے منصب پر مکمل طور سے قبضہ کرلیا۔

(۳) یہ امرء القیس کامصرع ہے جب اس کے باپ کو قتل کردیا گیا تو وہ انتقام کے لئے قبائل کی کمک تلاش کر رہا تھا۔ایک مقام پر مقیم تھاکہ لوگ اس کے اونٹ پکڑ لے گئے۔اس نے میزبان سے فریاد کی میزبان نے کہا کہ میں ابھی واپس لاتا ہوں۔ثبوت میں تمہاری اونٹنیاں لے جاتا ہوں اور اس طرح اونٹ کے ساتھ اونٹنی پر بھی قبضہ کرلیا۔

۲۹۰

ويُكْثِرُ الأَوَدَ - حَاوَلَ الْقَوْمُ إِطْفَاءَ نُورِ اللَّه مِنْ مِصْبَاحِه - وسَدَّ فَوَّارِه مِنْ يَنْبُوعِه - وجَدَحُوا بَيْنِي وبَيْنَهُمْ شِرْباً وَبِيئاً - فَإِنْ تَرْتَفِعْ عَنَّا وعَنْهُمْ مِحَنُ الْبَلْوَى - أَحْمِلْهُمْ مِنَ الْحَقِّ عَلَى مَحْضِه وإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى –( فَلا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَراتٍ - إِنَّ الله عَلِيمٌ بِما يَصْنَعُونَ ) .

(۱۶۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

الخالق جل وعلا

الْحَمْدُ لِلَّه خَالِقِ الْعِبَادِ وسَاطِحِ الْمِهَادِ - ومُسِيلِ الْوِهَادِ ومُخْصِبِ النِّجَادِ - لَيْسَ لأَوَّلِيَّتِه ابْتِدَاءٌ ولَا لأَزَلِيَّتِه انْقِضَاءٌ - هُوَ الأَوَّلُ ولَمْ يَزَلْ والْبَاقِي بِلَا أَجَلٍ - خَرَّتْ لَه الْجِبَاه ووَحَّدَتْه الشِّفَاه - حَدَّ الأَشْيَاءَ عِنْدَ خَلْقِه لَهَا إِبَانَةً لَه مِنْ شَبَهِهَا

جس نے تعجب کابھی خاتمہ کردیا ہے اور کجی کو بڑھا وا دیا ہے۔قوم نے چاہا تھاکہ نور الٰہی کواس کے چراغ ہی سے خاموش کردیا جائے اور فوارہ کو چشمہ ہی سے بند کردیا جائے ۔میرے اور اپنے درمیان زہریلے گھونٹوں کی آمیزش کردی کہ اگر مجھ سے اور ان سے ابتلاء کی زحمتیں ختم ہو گئیں تومیں انہیں خالص حق(۱) کےراستہ پرچلائوں گا اور اگر کئی دوسری صورت ہوگئی توتمہیں حسرت و افسوس سے اپنی جان نہیں دینی چاہیے ۔اللہ ان کے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

(۱۶۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جوبندوں کا خلق کرنے والا۔زمین کا فرش بچھانے والا۔وادیوں میں پانی کا بہانے والا اور ٹیلوں کا سر سبز و شاداب بنانے والا ہے۔اس کی اولیت کی کوئی ابتدا نہیں ہے اور اس کی ازلیت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔وہ ابتدا ء سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔وہ باقی ہے اور اس کی بقا کی کوئی مدت نہیں ہے۔پیشانیاں اس کے سامنے سجدہ ریز اور لب اس کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے ہیں۔اس نے تخلیق کے ساتھ ہی ہرشے کے حدود معین کردئیے ہیں تاکہ وہ کسی سے مشابہ نہ ہونے پائیں

(۱) یہ مکتب اہل بیت کاخاصہ ہے کہ ہمیشہ حق کے راستے پرچلنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اسی راستہ پر چلانا چاہیے اور اس راہ میں کسی طرح کی زحمت و مصیبت کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے۔چنانچہ بعض مورخین کے بیان کے مطابق جب دورعمر بن خطاب میں سلمانفارسی کو مدئان کاگورنر بنایا گیا اور انہوں نے کاروبارکی نگرانی کا قانون نافذ کیا تو ارباب ثروت و تجارت نے خلیفہ سے شکایت کردی اور انہوں نے فی الفور جناب سلمان کو معزول کردیا کہ کہیں نگرانی اور محاسبہ کاتصور سارے ملک میں نہ پھیل جائے کہ ارباب مصالح و منافع بغاوت پرآمادہ ہو جائیں اور حکومت کو حق کی راہ پر چلنے کے لئے خاطر خواہ قیمت ادا کرنا پڑے ۔

۲۹۱

لَا تُقَدِّرُه الأَوْهَامُ بِالْحُدُودِ والْحَرَكَاتِ - ولَا بِالْجَوَارِحِ والأَدَوَاتِ لَا يُقَالُ لَه مَتَى - ولَا يُضْرَبُ لَه أَمَدٌ بِحَتَّى - الظَّاهِرُ لَا يُقَالُ مِمَّ والْبَاطِنُ لَا يُقَالُ فِيمَ - لَا شَبَحٌ فَيُتَقَصَّى ولَا مَحْجُوبٌ فَيُحْوَى - لَمْ يَقْرُبْ مِنَ الأَشْيَاءِ بِالْتِصَاقٍ - ولَمْ يَبْعُدْ عَنْهَا بِافْتِرَاقٍ - ولَا يَخْفَى عَلَيْه مِنْ عِبَادِه شُخُوصُ لَحْظَةٍ - ولَا كُرُورُ لَفْظَةٍ ولَا ازْدِلَافُ رَبْوَةٍ - ولَا انْبِسَاطُ خُطْوَةٍ فِي لَيْلٍ دَاجٍ - ولَا غَسَقٍ سَاجٍ يَتَفَيَّأُ عَلَيْه الْقَمَرُ الْمُنِيرُ - وتَعْقُبُه الشَّمْسُ ذَاتُ النُّورِ فِي الأُفُولِ والْكُرُورِ - وتَقَلُّبِ الأَزْمِنَةِ والدُّهُورِ - مِنْ إِقْبَالِ لَيْلٍ مُقْبِلٍ وإِدْبَارِ نَهَارٍ مُدْبِرٍ - قَبْلَ كُلِّ غَايَةٍ ومُدَّةِ وكُلِّ إِحْصَاءٍ وعِدَّةٍ - تَعَالَى عَمَّا يَنْحَلُه الْمُحَدِّدُونَ مِنْ صِفَاتِ الأَقْدَارِ - ونِهَايَاتِ الأَقْطَارِ وتَأَثُّلِ الْمَسَاكِنِ - وتَمَكُّنِ الأَمَاكِنِ - فَالْحَدُّ لِخَلْقِه مَضْرُوبٌ وإِلَى غَيْرِه مَنْسُوبٌ.

ابتداع المخلوقين

لَمْ يَخْلُقِ الأَشْيَاءَ مِنْ أُصُولٍ أَزَلِيَّةٍ - ولَا مِنْ أَوَائِلَ أَبَدِيَّةٍ - بَلْ خَلَقَ مَا خَلَقَ

انسانی ادہام اس کے لئے حدود و حرکات اور اعضاء و جوارح کاتعین نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کب سے ہے اور نہ یہ حد بندی کی جا سکتی ہے کہ کب تک رہے گا۔وہ ظاہر ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتاہے کہ کس چیز سے اور باطن ہے لیکن یہ نہیں سوچا جا سکتا ہے کہ کس چیز میں ؟ وہ نہ کوئی ڈھانچہ ہے کہ ختم ہو جائے اور نہ کسی حجاب میں ہے کہ محدود ہو جائے۔ظاہری اتصال کی بنیاد پر اشیاء سے قریب نہیں ہے اور جسمانی جدائی کی بنا پر دورنہیں ہے۔اس کے اوپر بندوں کے حالات میں سے نہ ایک کاجھیکنا مخفی ہے اور نہ الفاظ کا دہرانا۔نہ بلندی کا دور سے جھلکنا پوشیدہ ہے اور نہ قدم کا آگے بڑھنا۔نہ اندھیری رات میں اور نہ چھائی ہوئی اندھیاریوں میں جن پر روشن چاند اپنی کرنوں کا سایہ ڈالتا ہے اور روشن آفتاب طلوع وغروب میں اور زمانہ کی ان گردشوں میں جو آنے والی رات کی آمد اور جانے والے دن کے گزرنے سے پیدا ہوتی ہے۔وہ ہر انتہا و مدت سے پہلے ہے اور ہر احصاء و شمارسے ماوراء ہے۔وہ ان صفات سے بلند تر ہے جنہیں محدود سمجھ لینے والے اس کی طرف منسوب کر دیتے ہیں چاہے وہ صفتوں کے انداز ے ہوں یا اطراف و جوانب کی حدیں۔مکانات میں قیام ہو یا مساکن میں قرار۔حد بندی اس کی مخلوقات کے لئے ہے اور اس کی نسبت اس کے غیر کی طرف ہوتی ہے۔ اس نے اشیاء کی تخلیق نہ ازلی مواد سے کی ہے اور نہ ابدی مثالوں سے ۔جوکچھ بھی خلق کیا ہے خود خلق کیا ہے

۲۹۲

فَأَقَامَ حَدَّه - وصَوَّرَ فَأَحْسَنَ صُورَتَه - لَيْسَ لِشَيْءٍ مِنْه امْتِنَاعٌ ولَا لَه بِطَاعَةِ شَيْءٍ انْتِفَاعٌ - عِلْمُه بِالأَمْوَاتِ الْمَاضِينَ كَعِلْمِه بِالأَحْيَاءِ الْبَاقِينَ - وعِلْمُه بِمَا فِي السَّمَاوَاتِ الْعُلَى - كَعِلْمِه بِمَا فِي الأَرَضِينَ السُّفْلَى.

منها - أَيُّهَا الْمَخْلُوقُ السَّوِيُّ والْمُنْشَأُ الْمَرْعِيُّ - فِي ظُلُمَاتِ الأَرْحَامِ ومُضَاعَفَاتِ الأَسْتَارِ -. بُدِئْتَ( مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ ) ووُضِعْتَ( فِي قَرارٍ مَكِينٍ إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ ) وأَجَلٍ مَقْسُومٍ - تَمُورُ فِي بَطْنِ أُمِّكَ جَنِيناً لَا تُحِيرُ دُعَاءً ولَا تَسْمَعُ نِدَاءً - ثُمَّ أُخْرِجْتَ مِنْ مَقَرِّكَ إِلَى دَارٍ لَمْ تَشْهَدْهَا - ولَمْ تَعْرِفْ سُبُلَ مَنَافِعِهَا.فَمَنْ هَدَاكَ لِاجْتِرَارِ الْغِذَاءِ مِنْ ثَدْيِ أُمِّكَ - وعَرَّفَكَ عِنْدَ الْحَاجَةِ مَوَاضِعَ طَلَبِكَ وإِرَادَتِكَ - هَيْهَاتَ إِنَّ مَنْ يَعْجِزُ عَنْ صِفَاتِ ذِي الْهَيْئَةِ والأَدَوَاتِ - فَهُوَ عَنْ صِفَاتِ خَالِقِه أَعْجَزُ - ومِنْ تَنَاوُلِه بِحُدُودِ الْمَخْلُوقِينَ أَبْعَدُ!

اوراس کی حدیں معین کردی ہیں اور ہر صورت کو حسین بنا دیاہے۔کوئی شے بھی اس کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتی ہے اورنہ کسی کی اطاعت میں اس کا کوئی فائدہ ہے۔اس کا علم ماضی کے مرنے والے افراد کے بارے میں ویسا ہی ہے جیسا کہ رہ جانے والے زندوں کے بارے میں ہے اور وہ بلند ترین آسمانوں کے بارے میں ویسا ہی علم رکھتا ہے جس طرح کہ پست ترین زمینوں کے بارے میں رکھتا ہے۔

(دوسرا حصہ) اے وہ انسان جسے ہر اعتبار سے درست بنایا گیاہے اور رحم کے اندھیروں اور پردہ درپردہ ظلمتوں میں مکمل نگرانی کے ساتھ خلق کیا گیا ہے۔تیری ابتدا خالص مٹی سے ہوئی ہے اورتجھے ایک خاص مرکز میں ایک خاص مدت تک رکھا گیا ہے۔تو شکم مادر میں اس طرح حرکت کر رہا تھا کہ نہ آواز کا جواب دے سکتاتھا اورنہ کسی آواز کو سن سکتا تھا۔اس کے بعد تجھے وہاں سے نکال کر اس گھرمیں لایا گیاجسے تونے دیکھا بھی نہیں تھا اور جہاں کے منافع کے راستوں سے با خبر بھی نہیں تھا۔بتا تجھے پستان مادرسے دودھ حاصل کرنے کی ہدایت کس نے دی ہے اور ضرورت کے وقت موارد طلب وارادہ کا پتہ کس نے بتایا ہے ؟ ہوشیار ۔جوش خص ایک صاحب ہئیت و اعضاء مخلوق کے صفات کے پہچاننے سے عاجز ہوگا وہ خالق کے صفات کو پہچاننے سے یقینا زیادہ عاجز ہوگا اور مخلوقات کے حدود کے ذریعہ اسے حاصل کرنے سے یقینا دورتر ہوگا۔

۲۹۳

(۱۶۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما اجتمع الناس شكوا ما نقموه على عثمان

وسألوه مخاطبته لهم واستعتابه لهم فدخل عليه فقال

إِنَّ النَّاسَ وَرَائِي - وقَدِ اسْتَسْفَرُونِي بَيْنَكَ وبَيْنَهُمْ - ووَ اللَّه مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لَكَ - مَا أَعْرِفُ شَيْئاً تَجْهَلُه - ولَا أَدُلُّكَ عَلَى أَمْرٍ لَا تَعْرِفُه - إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نَعْلَمُ - مَا سَبَقْنَاكَ إِلَى شَيْءٍ فَنُخْبِرَكَ عَنْه - ولَا خَلَوْنَا بِشَيْءٍ فَنُبَلِّغَكَه - وقَدْ رَأَيْتَ كَمَا رَأَيْنَا وسَمِعْتَ كَمَا سَمِعْنَا - وصَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَمَا صَحِبْنَا -

(۱۶۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب لوگوں نے آپ کے پاس آکر عثمان کے مظالم کا ذکرکیا اور ان کی فہمائش اورتنبیہ کا تقاضا کیا توآپ نے عثمان کے پاس جا کر فرمایا )

لوگ میرے پیچھے منتظر ہیں اور انہوںنے مجھے اپنے اور تمہارے درمیان(۱) واسطہ قرار دیا ہے اورخداکی قسم میں نہیں جانتا ہوں کہ میں تم سے کیا کہوں؟میں کوئی ایسی بات نہیں جانتا ہوں جس کا تمہیں علم نہ ہو اور کسی ایی بات کی نشاندہی نہیں کر سکتا ہوں جو تمہیں معلوم نہ ہو تمہیں تمام وہ باتیں معلوم ہیں جو مجھے معلوم ہیں اور میں ن کسی امر کی طرف سبقت نہیں کی ہے کہ اس کی اطلاع تمہیں کروں اور نہ کوئی بات چپکے سے سن لی ہے کہ تمہیں با خبرکروں۔تم نے وہ سب خود دیکھا ہے جو میں نے دیکھا ہے اوروہ سب کچھ خود بھی سنا ہے جومیں نے سنا ہے اور رسول اکرم (ص) کے پاس ویسے ہی رہے ہو جیسے میں رہا ہوں

(۱) امیر المومنین کے علاوہ دنیا کا کوئی دوسرا انسان ہوتا تواس موقع کو غنیمت تصور کرکے احتجاج کرنے والوں کے حوصلے مزید بلند کردیتا اور لمحوں میں عثمان کاخاتمہ کر ا دیتا لیکن آپ نے اپنی شرعی ذمہ داری اور اسلامی مسئولیت کاخیال کرکے انقلابی جماعت کو روکا اورچاہاکہ پہلے تمام حجت کردیا جائے تاکہ عثمان کو اصلاح امر کا موقع مل جائے اور بنی امیہ مجھے قتل عثمان کا ملزم نہ ٹھہرانے پائیں۔ورنہ عثمان کے دور کے مظالم عالم آشکارتھے۔ان کے بارے میں کسی تحقیق اور تفتیش کی ضرورت نہیں تھی جناب ابوذر کاشہر بدر کرادیا جانا جناب عبداللہ بن مسعود کی پسلیوںکا توڑ دیا جانا۔جناب عمار یاسر کے شکم کو جوتیوں سے پامال کردینا۔وہ مظالم ہیں جنہیں سارا عالم اسلام اور بالخصوص مدینتہ الرسول خوب جانتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے درمیان میں پڑ کر اصلاح حال کے بارے میں یہ فارمولا پیش کیا مدینہ کے معاملات کی فی الفور اصلاح کی جائے اورباہر کے لئے بقدر ضرورت مہلت لے لی جائے لیکن خلیفہ کو اصلاح نہیں کرنا تھی نہیں کی اور آخر ش وہی انجام ہوا جس کے پیش نظرامیر المومنین نے اس قدر زحمت برداشت کی تھی اور جس کے بعد بنی امیہ کو نئے فتنوں کاموقع مل گیا اور ان سے امیر المومنین کو بھی دوچار ہونا پڑا۔

۲۹۴

ومَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ - ولَا ابْنُ الْخَطَّابِ بِأَوْلَى بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْكَ - وأَنْتَ أَقْرَبُ إِلَى أَبِي رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَشِيجَةَ رَحِمٍ مِنْهُمَا - وقَدْ نِلْتَ مِنْ صِهْرِه مَا لَمْ يَنَالَا فَاللَّه اللَّه فِي نَفْسِكَ - فَإِنَّكَ واللَّه مَا تُبَصَّرُ مِنْ عَمًى - ولَا تُعَلَّمُ مِنْ جَهْلٍ - وإِنَّ الطُّرُقَ لَوَاضِحَةٌ وإِنَّ أَعْلَامَ الدِّينِ لَقَائِمَةٌ - فَاعْلَمْ أَنَّ أَفْضَلَ عِبَادِ اللَّه عِنْدَ اللَّه إِمَامٌ عَادِلٌ،هُدِيَ وهَدَى فَأَقَامَ سُنَّةً مَعْلُومَةً - وأَمَاتَ بِدْعَةً مَجْهُولَةً - وإِنَّ السُّنَنَ لَنَيِّرَةٌ لَهَا أَعْلَامٌ - وإِنَّ الْبِدَعَ لَظَاهِرَةٌ لَهَا أَعْلَامٌ - وإِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّه إِمَامٌ جَائِرٌ ضَلَّ وضُلَّ بِه - فَأَمَاتَ سُنَّةً مَأْخُوذَةً وأَحْيَا بِدْعَةً مَتْرُوكَةً - وإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ - يُؤْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِالإِمَامِ الْجَائِرِ - ولَيْسَ مَعَه نَصِيرٌ ولَا عَاذِرٌ - فَيُلْقَى فِي نَارِ جَهَنَّمَ

ابن ابی قحافہ اور ابن الخطاب حق پر عمل کرنے کے لئے تم سے زیادہ اولیٰ نہیں تھے تم ان کی نسبت رسول اللہ سے زیادہ قریبی رشتہ رکھتے ہو۔اورتمہیں وہدامادی کا شرف بھی حاصل ہے ہے جوانہیں حاصل نہیں تھا لہٰذا خدارا اپنے نفس کو بچائو کہ تمہیں اندھے پن سے بصارت یاجہالت سے علم نہیں دیا جا رہا ہے۔راستے بالکل واضح ہیں اور نشانات دین قائم ہیں۔یاد رکھوخدا کے نزدیک بہترین بندہ وہ امام عادل ہے۔جو خود ہدایت یافتہ ہو اوردوسروں کوہدایت دے۔جانی پہچانی سنت کو قائم کرے اور مجہول بدعت کو مردہ بنادے۔دیکھو ضیا بخش سنتوں کے نشانات بھی روشن ہیں اوربدعتوں کے نشانات بھی واضح ہیں اوربد ترین انسان خداکی نگاہ میں وہ ظالم پیشوا ہے جو خود بھی گمراہ ہو اور لوگوں کو بھی گمراہ کرے۔پیغمبر سے ملی ہوئی سنتوں کو مردہ بنادے اور قابل ترک بدعتوں کو زندہ کردے میں نے رسول اکرم (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ روز قیامت ظالم(۱) رہنماکو اس عالم میں لایا جائے گا کہ نہ کوئی اس کا مدد گار ہوگا اورنہ عذر خواہی کرنے والا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا

(۱)در حقیقت رہنما اور ظالم وہ دو متضاد الفاظ ہیں جنہیں کسی عالم شرافت و کرامت میں جمع نہیں ہونا چاہیے۔انسان کو رہنمائی کا شوق ہے تو پہلے اپنے کردار میں عدالت و شرافت پیدا کرے۔اس کے بعد آگے چلنے کا ارادہ کرے۔اس کے بغیر رہنمائی کا شوق انسان کو جہنم تک تو پہنچا سکتا ہے رہنما نہیں بنا سکتا ے جیسا کہ سرکار دو عالم (ص) نے فرمایا ہے اور اس عذاب کی شدت کا راز یہی ہے کہ رہنما کی وجہ سے بے شمار لوگ مزید گمراہ ہوتے ہیں اور اس کے ظلم سے بے حساب لوگوں کو ظلم کاجواز فراہم ہو جاتا ہے اورسارا معاشرہ تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔

عثمان کا دور پہلا دور تھا جب سابق کی ظاہرداری بھی ختم ہوگئی تھی اور کھلم کھلا ظلم کا بازار گرم ہوگیا تھا۔اس لئے اتنا شدید رد عمل دیکھنے میں آیا ورنہ اس کے بعد سے تو آج تک سارا عالم اسلام انہیں خاندان پروریوں کا شکار ہے اور عوام کی ساری دولت ایک ایک خاندان کے عیاش شہزادوں پر صرف ہو رہی ہے اورمدینہ کے مسلمانوں میں بھی غیرت کی حرکت نہیں پیدا ہو رہی ہے تو باقی عالم اسلام اور دوسرے علاقوں کا کیا تذکرہ ہے۔

۲۹۵

فَيَدُورُ فِيهَا كَمَا تَدُورُ الرَّحَى - ثُمَّ يَرْتَبِطُ فِي قَعْرِهَا - وإِنِّي أَنْشُدُكَ اللَّه أَلَّا تَكُونَ إِمَامَ هَذِه الأُمَّةِ الْمَقْتُولَ - فَإِنَّه كَانَ يُقَالُ - يُقْتَلُ فِي هَذِه الأُمَّةِ إِمَامٌ يَفْتَحُ عَلَيْهَا الْقَتْلَ - والْقِتَالَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - ويَلْبِسُ أُمُورَهَا عَلَيْهَا ويَبُثُّ الْفِتَنَ فِيهَا - فَلَا يُبْصِرُونَ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ - يَمُوجُونَ فِيهَا مَوْجاً ويَمْرُجُونَ فِيهَا مَرْجاً - فَلَا تَكُونَنَّ لِمَرْوَانَ سَيِّقَةً يَسُوقُكَ حَيْثُ شَاءَ بَعْدَ جَلَالِ السِّنِّ - وتَقَضِّي الْعُمُرِ فَقَالَ لَه عُثْمَانُرضي‌الله‌عنه س - كَلِّمِ النَّاسَ فِي أَنْ يُؤَجِّلُونِي - حَتَّى أَخْرُجَ إِلَيْهِمْ مِنْ مَظَالِمِهِمْ - فَقَالَعليه‌السلام - مَا كَانَ بِالْمَدِينَةِ فَلَا أَجَلَ فِيه - ومَا غَابَ فَأَجَلُه وُصُولُ أَمْرِكَ إِلَيْه.

(۱۶۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها عجيب خلقة الطاوس

خلقة الطيور

ابْتَدَعَهُمْ خَلْقاً عَجِيباً مِنْ حَيَوَانٍ ومَوَاتٍ - وسَاكِنٍ وذِي حَرَكَاتٍ؛وأَقَامَ

اور وہ اس طرح چکر کھائے گا جس طرح چکی۔اس کے بعد اسے قعر جہنم میں جکڑ دیا جائے گا۔میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ خدارا تم اس امت کے مقتول پیشوا نہ بنو اس لئے کہ دور قدیم سے کہاجا رہا ہے کہ اس امت میں ایک پیشوا قتل کیا جائے گا جس کے بعد قیامت تک قتل و قتال کا دروازہ کھل جائے گا اور سارے امور مشتبہ ہو جائیں گے اور فتنے پھیل جائیں گے اور لوگ حق و باطل میں امتیاز نہ کر سکیں گے اور اسی میں چکر کھاتے رہیں گے اور تہ و بالا ہوتے رہیں گے ۔خدارا امروان کی سواری نہ بن جائو کہ وہ جدھر چاہے کھینچ کرلے جائے کہ تمہارا سن زیادہ ہوچکا ہے اور تمہاری عمر خاتمہ کے قریب آچکی ہے۔

عثمان نے اس ساری گفتگو کو سن کر کہا کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ ذرا مہلت دیں تاکہ میں ان کی حق تلفیوں کا علا ج کرس کوں؟ آپ نے فرمایا کہ جہاں تک مدینہ کے معاملات کا تعلق ہے ان میں کسی مہلت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور جہاں تک باہر کے معاملات کاتعلق ہے ان میں صرف اتنی مہلت دی جا سکتی ہے کہ تمہاراحکم وہاں تک پہنچ جائے۔

(۱۶۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں مورکی عجیب وغریب خلقت کاتذکرہ کیا گیا ہے )

اللہ نے اپنی تمام مخلوقات کو عجیب وغریب بنایا ہےچاہے وہ ذی حیات ہوں یا بےجان۔ساکن ہوں یامتحرک اوران سب

۲۹۶

مِنْ شَوَاهِدِ الْبَيِّنَاتِ عَلَى لَطِيفِ صَنْعَتِه - وعَظِيمِ قُدْرَتِه - مَا انْقَادَتْ لَه الْعُقُولُ مُعْتَرِفَةً بِه ومَسَلِّمَةً لَه - ونَعَقَتْ فِي أَسْمَاعِنَا دَلَائِلُه عَلَى وَحْدَانِيَّتِه - ومَا ذَرَأَ مِنْ مُخْتَلِفِ صُوَرِ الأَطْيَارِ - الَّتِي أَسْكَنَهَا أَخَادِيدَ الأَرْضِ - وخُرُوقَ فِجَاجِهَا ورَوَاسِيَ أَعْلَامِهَا - مِنْ ذَاتِ أَجْنِحَةٍ مُخْتَلِفَةٍ وهَيْئَاتٍ مُتَبَايِنَةٍ - مُصَرَّفَةٍ فِي زِمَامِ التَّسْخِيرِ - ومُرَفْرِفَةٍ بِأَجْنِحَتِهَا فِي مَخَارِقِ الْجَوِّ الْمُنْفَسِحِ - والْفَضَاءِ الْمُنْفَرِجِ - كَوَّنَهَا بَعْدَ إِذْ لَمْ تَكُنْ فِي عَجَائِبِ صُوَرٍ ظَاهِرَةٍ - ورَكَّبَهَا فِي حِقَاقِ مَفَاصِلَ مُحْتَجِبَةٍ - ومَنَعَ بَعْضَهَا بِعَبَالَةِ خَلْقِه أَنْ يَسْمُوَ فِي الْهَوَاءِ خُفُوفاً - وجَعَلَه يَدِفُّ دَفِيفاً - ونَسَقَهَا عَلَى اخْتِلَافِهَا فِي الأَصَابِيغِ بِلَطِيفِ قُدْرَتِه - ودَقِيقِ صَنْعَتِه.

کے ذریعہ اپنی لطیف صنعت اور عظیم قدرت کے وہ شواہد قائم کردئیے ہیں جن کے سامنے عقلیں بکمال اعتراف و تسلیم سرخم کئے ہوئے ہیں اور پھر ہمارے کانوں میں اس کی وحدانیت کے دلائل ان مختلف صورتوں(۱) کے پرندوںکی تخلیق کی شکل میں گونج رہے ہیں جنہیں زمین کے گڑھو ۔دروں کے شگافوں ' پہاڑوں کی بلندیوں پرآباد کیا ہے جن کے پر مختلف قسم کے اورجن کی ہئیت جدا گانہ انداز کی ہے اور انہیں تسخیر کی زمام کے ذریعہ حرکت دی جا رہی ہے اور وہ اپنے پروں کو وسیع فضا کے راستوں اور کشادہ ہوا کی وسعتوں میں پھڑ پھڑا رہے ہیں۔انہیں عالم عدم سے نکال کرعجیب و غریب ظاہری صورتوں میں پیدا کیا ہے اور گوشت و پوست میں ڈھکے ہوئے جوڑوں کے سروں سے ان کے جسموں کی ساخت قائم کی ہے۔بعض کو ان کے جسم کی سنگینی نے ہوا میں بلند ہو کر تیز پرواز سے روک دیا ہے اوروہ صرف ذرا اونچے ہوکر پرواز کر رہے ہیں اور پھر اپنی لطیف قدرت اور دقیق صنعت کے ذریعہ انہیں مختلف رنگوں کے ساتھ منظم و مرتب کیا ہے

(۱)علم الحیوان کے ماہر روبرٹ سن کابیان ہے کہ دنیا میں ایک ارب قسم کے پرندے پائے جاتے ہیں اور سب اپنے اپنے مقام پرعجیب و غریب خلقت کے مالک ہیں سب سے بڑا پرندہ شتر مرغ ہے اور سب سے چھوٹا طنان جس کا طول پانچ سینٹی میٹر ہوتا ہے لیکن ایک گھنٹہ میں ۸۰۔۹۰ کلو میٹر پرواز کر لیتا ہے اور ایک سکنڈ میں ۵۰ سے لے کر ۲۰۰ مرتبہ اپنے پروں کو حرکت دیتا ہے۔بعض پرندوں کا ایک قدم چھ میٹر کے برابر ہوتا ہے اور وہ زمین پر ۸۰ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتے ہیں اوربعض چھ ہزار میٹرکی بلندی پر پرواز کر سکتے ہیں ۔بعض پانی کے اندر ۱۸ میٹر کی گہرائی تک چلے جاتے ہیں اور بعض صرف سمندروں کے اس پار سے اس پار تک چکر لگاتے رہتے ہیں۔ لیکن ان سب سے زیادہ حیرت انگیز امیر المومنین کی نگاہ میں مور کی خلقت ہے جس کو مختلف رنگوں میں رنگ دیا گیا ہے اور مختلف خصوصیات سے نوازدیا گیا ہے اور بات ہے کہ بہترین پروں کے ساتھ نازک ترین پیر بھی دیدئیے گئے ہیں تاکہ اس میں بھی غرورنہ پیدا ہو اور انسان کوب ھی ہوش آجائے کہ جس کے وجود کا ایک رخ رنگین ہوتا ہے اور اس کا دوسرا رخ کمزور بھی ہوتا ہے لہٰذا غرور و استکبار کا کوئی امکان نہیں ہے۔بلکہ تقاضائے شرافت یہ ہے کہ حسین رخ کا شکیرہ ادا کرے کہ یہ بھی مالک کا کرم ہے اس کا اپنا کوئی حق نہیں ہے جسے مالک نے اداکردیا ہو۔

۲۹۷

- فَمِنْهَا مَغْمُوسٌ فِي قَالَبِ لَوْنٍ لَا يَشُوبُه غَيْرُ لَوْنِ مَا غُمِسَ فِيه - ومِنْهَا مَغْمُوسٌ فِي لَوْنِ صِبْغٍ قَدْ طُوِّقَ بِخِلَافِ مَا صُبِغَ بِه

الطاوس

ومِنْ أَعْجَبِهَا خَلْقاً الطَّاوُسُ - الَّذِي أَقَامَه فِي أَحْكَمِ تَعْدِيلٍ - ونَضَّدَ أَلْوَانَه فِي أَحْسَنِ تَنْضِيدٍ - بِجَنَاحٍ أَشْرَجَ قَصَبَه وذَنَبٍ أَطَالَ مَسْحَبَه - إِذَا دَرَجَ إِلَى الأُنْثَى نَشَرَه مِنْ طَيِّه - وسَمَا بِه مُطِلاًّ عَلَى رَأْسِه - كَأَنَّه قِلْعُ دَارِيٍّ عَنَجَه نُوتِيُّه - يَخْتَالُ بِأَلْوَانِه ويَمِيسُ بِزَيَفَانِه - يُفْضِي كَإِفْضَاءِ الدِّيَكَةِ - ويَؤُرُّ بِمَلَاقِحِه أَرَّ الْفُحُولِ الْمُغْتَلِمَةِ لِلضِّرَابِ - أُحِيلُكَ مِنْ ذَلِكَ عَلَى مُعَايَنَةٍ - لَا كَمَنْ يُحِيلُ عَلَى ضَعِيفٍ إِسْنَادُه - ولَوْ كَانَ كَزَعْمِ مَنْ يَزْعُمُ - أَنَّه يُلْقِحُ بِدَمْعَةٍ تَسْفَحُهَا مَدَامِعُه - فَتَقِفُ فِي ضَفَّتَيْ جُفُونِه - وأَنَّ أُنْثَاه تَطْعَمُ ذَلِكَ - ثُمَّ تَبِيضُ لَا مِنْ لِقَاحِ

کہ بعض ایک ہی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ دوسرے رنگ کا شائبہ بھی نہیں ہے اور بعض ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں لیکن ان کے گلے کا طوق دوسرے رنگ کا ہے۔

(طائوس)

ان سب میں عجیب ترین خلقت مور کی ہے جسے محکم ترین توازن کے سانحہ میں ڈھال دیا ہے اور اس کے رنگوں میں حسین ترین تنظیم قائم کی ہے اسے وہ رنگین پردے ہیں جن کی جڑوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے اور وہ دم دی ہے جو دور تک کھینچتی چلی جاتی ہے ۔جب وہ اپنی مادہ کا رخ کرتا ہے تو اسے پھیلا لیتا ہے(۱) اور اپنے سر کے اوپر اس طرح سایہ فگن کر لیتا ہے جیسے مقام دارین کی کشتی کا بادبان جسے ملاح ادھرادھر موڑ رہا ہو۔وہ اپنے رنگوںپراترتا ہے اوراس کی جنبشوں کے ساتھ جھومنے لگتا ہے۔اپنی مادہ سے اس طرح جفتی کھاتا ہے جس طرح مرغ اوراسے اس طرح حاملہ بناتا ہے جس طرح جوش و ہیجان میں ھبرے ہوئے جانور۔میں اس مسئلہ میں تمہیں مشاہدہ کے حوالہ کر رہا ہوں۔نہ اس شخص کی طرح جو کسی کمزور سند کے حوالہ کردے اور اگر گمان کرنے والوں کا یہ گمان صحیح ہوتا کہ وہ ان آنسوئوں کے ذریعہ حمل ٹھہراتا ہے جواس کیآنکھوں سے باہرنکل کرپلکوں پر ٹھہر جاتے ہیں اور مادہ اسے پی لیتی ہے اس کے بعد انڈے دیتی ہے اور اس میں نرو مادہ کا کوئی اتصال نہیں ہوتا ہے سوائے ان پھوٹ پڑنے

(۱)ایک حسین ترین فطرت ہے کہ نر اپنی مادہ کے پاس جائے تو حسن و جمال کے ساتھ جائے تاکہاسے بھی انس حاصل ہو اوروہ بھی اپنے نرکے جمال پر فخر کر سکے ایسا نہ ہوکہ عمل فقط ایک جنسی عمل رہ جائے اور سکون نفس کا کوئی راستہ نہ نکل سکے۔

۲۹۸

فَحْلٍ سِوَى الدَّمْعِ الْمُنْبَجِسِ - لَمَا كَانَ ذَلِكَ بِأَعْجَبَ مِنْ مُطَاعَمَةِ الْغُرَابِ تَخَالُ قَصَبَه مَدَارِيَ مِنْ فِضَّةٍ - ومَا أُنْبِتَ عَلَيْهَا مِنْ عَجِيبِ دَارَاتِه - وشُمُوسِه خَالِصَ الْعِقْيَانِ وفِلَذَ الزَّبَرْجَدِ - فَإِنْ شَبَّهْتَه بِمَا أَنْبَتَتِ الأَرْضُ - قُلْتَ جَنًى جُنِيَ مِنْ زَهْرَةِ كُلِّ رَبِيعٍ - وإِنْ ضَاهَيْتَه بِالْمَلَابِسِ فَهُوَ كَمَوْشِيِّ الْحُلَلِ - أَوْ كَمُونِقِ عَصْبِ الْيَمَنِ - وإِنْ شَاكَلْتَه بِالْحُلِيِّ فَهُوَ كَفُصُوصٍ ذَاتِ أَلْوَانٍ - قَدْ نُطِّقَتْ بِاللُّجَيْنِ الْمُكَلَّلِ - يَمْشِي مَشْيَ الْمَرِحِ الْمُخْتَالِ ويَتَصَفَّحُ ذَنَبَه وجَنَاحَيْه - فَيُقَهْقِه ضَاحِكاً لِجَمَالِ سِرْبَالِه وأَصَابِيغِ وِشَاحِه - فَإِذَا رَمَى بِبَصَرِه إِلَى قَوَائِمِه - زَقَا مُعْوِلًا بِصَوْتٍ يَكَادُ يُبِينُ عَنِ اسْتِغَاثَتِه - ويَشْهَدُ بِصَادِقِ تَوَجُّعِه - لأَنَّ قَوَائِمَه حُمْشٌ كَقَوَائِمِ الدِّيَكَةِ الْخِلَاسِيَّةِ وقَدْ نَجَمَتْ مِنْ ظُنْبُوبِ سَاقِه صِيصِيَةٌ خَفِيَّةٌ - ولَه فِي مَوْضِعِ الْعُرْفِ قُنْزُعَةٌ خَضْرَاءُ مُوَشَّاةٌ -

والے آنسوئوں کے تویہ بات کوے کے باہمی کھانے پینے کے ذریعہ حمل ٹھہرانے سے زیادہ تعجب خیز نہ ہوتی۔ تم اس کی رنگینی پر غور کرو تو ایسا محسوس کروگے جیسے پروں کی درمیانی تیلیاں چاندی کی سلائیاں ہیں اور ان پر جو عجیب و غریب ہالے اورسورج کی شعاعوں جیسے جو پرو بال اگ آئے ہیں وہ خالص سونے اور زمرد کے ٹکڑے ہیں اور اگر انہیں زمین کے نباتات سے تشبیہ دینا چاہو گے تو یہ کہو گے کہ یہ ہر موسم بہارکے پھولوں(۱) کا ایک شگوفہ ہے اور اگر لباس سے تشبیہ دینا چاہوگے تو کہو گے کہ یہ نقش دار حلوں یا خوشنما یمنی چادروں جیسے ہیں اور اگر زیورات ہی سے تشبیہ دینا چاہو گے تو اس طرح کہو گے کہی ہ رنگ برنگ کے نگینے ہیں جوچاندی کے دائروں میں جڑ دئیے گئے ہیں۔یہ جانور اپنی رفتار میں ایک مغرور اور متکبر شخص کی طرح خرام ناز سے چلتا ہے اور اپنے بال و پر اور اپنی دم کو دیکھتا رہتا ہے۔اپنے فطری لباس کی خوبصورتی اوراپنی چادر حیات کی رنگینی کودیکھ کر قہقہہ لگاتا ہے اور اس کے بعد جب پیروں پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس طرح بلند آوازسے روتا ہے جیسے فطرت کی ستم ظریفی کی فریاد کررہا ہو اوراپنے واقعی درد دل کی شہادت دے رہا ہو اس لئے کہ اس کے پیر دوغلے مرغوں کے پیروں کی طرح دبلے پتلے اور باریک ہوتے ہیں اور اس کی پنڈلی کے کنارہ پر ایک ہلکا سا کانٹا ہوتا ہے اور اس کی گردن پربالوں کے بدلے سبز رنگ کے منقش پروں کا ایک گچھا ہوتا ہے

(۱)کہا جاتا ہے کہ صرف فلپین میں دس ہزار قسم کے پھول پائے جاتے ہیں تو باقی کائنات کا کیا ذکر ہے۔

۲۹۹

ومَخْرَجُ عَنُقِه كَالإِبْرِيقِ - ومَغْرِزُهَا إِلَى حَيْثُ بَطْنُه كَصِبْغِ الْوَسِمَةِ الْيَمَانِيَّةِ – أَوْ كَحَرِيرَةٍ مُلْبَسَةٍ مِرْآةً ذَاتَ صِقَالٍ - وكَأَنَّه مُتَلَفِّعٌ بِمِعْجَرٍ أَسْحَمَ - إِلَّا أَنَّه يُخَيَّلُ لِكَثْرَةِ مَائِه وشِدَّةِ بَرِيقِه - أَنَّ الْخُضْرَةَ النَّاضِرَةَ مُمْتَزِجَةٌ بِه - ومَعَ فَتْقِ سَمْعِه خَطٍّ كَمُسْتَدَقِّ الْقَلَمِ فِي لَوْنِ الأُقْحُوَانِ - أَبْيَضُ يَقَقٌ فَهُوَ بِبَيَاضِه فِي سَوَادِ مَا هُنَالِكَ يَأْتَلِقُ - وقَلَّ صِبْغٌ إِلَّا وقَدْ أَخَذَ مِنْه بِقِسْطٍ - وعَلَاه بِكَثْرَةِ صِقَالِه وبَرِيقِه - وبَصِيصِ دِيبَاجِه ورَوْنَقِه - فَهُوَ كَالأَزَاهِيرِ الْمَبْثُوثَةِ لَمْ تُرَبِّهَا أَمْطَارُ رَبِيعٍ - ولَا شُمُوسُ قَيْظٍ وقَدْ يَنْحَسِرُ مِنْ رِيشِه ويَعْرَى مِنْ لِبَاسِه - فَيَسْقُطُ تَتْرَى ويَنْبُتُ تِبَاعاً

۔اس کی گردن کا پھیلائو صراحی کی گردن کی طرح ہوتا ہے اور اس کے گرد نے کی جگہ سے لے کر پیٹ تک کا حصہ یمنی وسمہ جیسا سبز رنگ یا اس ریشم جیسا ہوتا ہے جسے صیقل کئے ہوئے آئینہ پر پہنادیا گیا ہو۔ایسا معلوم ہوتا ہے وہ سیاہ رنگ کی اوڑھنی میں لپٹا ہوا ہے لیکن وہ اپنی آب و تاب کی کثرت اور چمک دمک کی شدت سے اس طرح محسوس ہوتی ہے جیسے اس میں ترو تازہ سبزی الگ سے شامل کردی گئی ہو۔اس کے کانوں کے شگاف سے متصل بابونہ کے پھولوں جیسی نوک قلم کے مانند ایک باریک لکیر ہوتی ہے اور وہ اپنی سفیدی کے ساتھ اس جگہ کی سیاہی کے درمیان چمکتی رہتی ہے۔شائد ہی کوئی رنگ ایسا ہو جس کا کوئی حصہ اس جانور کو نہ ملا ہو مگراس لکیر کی صیقل اوراس کے ریشمی پیکر کی چمک دمک سب پرغالب رہتی ہے۔اس کی مثال ان بکھری ہوئی کلیوں کے مانند ہوتی ہے جنہیں نہ بہار کی بارشوں نے پالا ہو اور نہ گرمی کے سورج کی شعاعوں نے ۔وہ کبھی کبھی اپنے بال و پر سے جدابھی ہو جاتا ہے اوراس رنگین لباس کو اتارکربرہنہ ہو جاتا ہے۔اس کے بال و پر جھڑ جاتے ہیں اور دوبارہ(۱) پھر اگ آتے ہیں۔

(۱)بعض افراد کا خیال ہے کہ مور کے بدن میں تقریباً تین ہزار سے چار ہزار تک پر ہوتے ہیں اور وہ انہیں پروں کو دیکھ کراکڑتا رہتا ہے اورصحرا میں رقص کرتا رہتا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اپنے کمال کا مظاہرہ وہاں کرتا ہے جہاں کوئی قدر داں نہیں ہوتا ہے اورنہ اس سے استفادہ کرنے والا ہوتا ہے۔صرف اپنی ذات کی تسکین اور اپنی انا کی تسلی کا سامان فراہم کرتا ہے اوریہی فرق ہے انسان اور حیوان میں کہ انسانی کمالات انا کی تسکین اور تسلی کے لئے نہیں ہیں ان کا مصرف خلق خدا کو فائدہ پہنچانا اور سماج کو فضیاب کرنا ہے۔لہٰذا انسان اپنے کمالات سے معاشرہ کو مستفیض کرتا ہے تو انسان ہے ورنہایک مور ہے جو صحرا میں ناچتا رہتا ہے اوراپنے نفس کو خوش کرتا رہتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ یہ خوشی بھی دائمی نہیں ہوتی اوراسے بھی چند لمحوں میں پیروں کی حقارت ختم کر دیتی ہے اورایک نیا سبق سکھا دیتی ہے کہ عمومی افادیت تو کام بھی آسکتی ہے اور اسے دوام بھی مل سکتا ہے۔لیکن ذاتی تسکین کی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہاسے دوام نصیب ہو سکتا ہے۔

۳۰۰

فَيَنْحَتُّ مِنْ قَصَبِه انْحِتَاتَ أَوْرَاقِ الأَغْصَانِ - ثُمَّ يَتَلَاحَقُ نَامِياً حَتَّى يَعُودَ كَهَيْئَتِه قَبْلَ سُقُوطِه - لَا يُخَالِفُ سَالِفَ أَلْوَانِه - ولَا يَقَعُ لَوْنٌ فِي غَيْرِ مَكَانِه - وإِذَا تَصَفَّحْتَ شَعْرَةً مِنْ شَعَرَاتِ قَصَبِه - أَرَتْكَ حُمْرَةً وَرْدِيَّةً وتَارَةً خُضْرَةً زَبَرْجَدِيَّةً - وأَحْيَاناً صُفْرَةً عَسْجَدِيَّةً - فَكَيْفَ تَصِلُ إِلَى صِفَةِ هَذَا عَمَائِقُ الْفِطَنِ - أَوْ تَبْلُغُه قَرَائِحُ الْعُقُولِ - أَوْ تَسْتَنْظِمُ وَصْفَه أَقْوَالُ الْوَاصِفِينَ!وأَقَلُّ أَجْزَائِه قَدْ أَعْجَزَ الأَوْهَامَ أَنْ تُدْرِكَه - والأَلْسِنَةَ أَنْ تَصِفَه - فَسُبْحَانَ الَّذِي بَهَرَ الْعُقُولَ عَنْ وَصْفِ خَلْقٍ جَلَّاه لِلْعُيُونِ - فَأَدْرَكَتْه مَحْدُوداً مُكَوَّناً ومُؤَلَّفاً مُلَوَّناً - وأَعْجَزَ الأَلْسُنَ عَنْ تَلْخِيصِ صِفَتِه - وقَعَدَ بِهَا عَنْ تَأْدِيَةِ نَعْتِه!

صغار المخلوقات

وسُبْحَانَ مَنْ أَدْمَجَ قَوَائِمَ الذَّرَّةِ - والْهَمَجَةِ إِلَى مَا فَوْقَهُمَا مِنْ خَلْقِ الْحِيتَانِ والْفِيَلَةِ - ووَأَى عَلَى نَفْسِه أَلَّا يَضْطَرِبَ شَبَحٌ مِمَّا أَوْلَجَ فِيه الرُّوحَ -

یہ بال و پر اس طرح گرتے ہیں جیسے درخت کی شاخوں سے پتے گرتے ہیں اور پھر دوبارہ یوں اگ آتے ہیںکہ بالکل پہلے جیسے ہو جاتے ہیں ۔نہ پرانے رنگوں سے کوئی مختلف رنگ ہوتا ہے اور نہ کسی رنگ کی جگہ تبدیل ہوتی ہے۔بلکہ اگر تم اس کے ریشوں میں کسی ایک ریشہ پر بھی غور کرو گے تو تمہیں کبھی گلاب کی سرخی نظر آئے گی اور کبھی زمرد کی سبزی اور پھر کبھی سونے کی زردی۔بھلا اس تخلیق کی توصیف تک فکروں کی گہرائیاں کس طرح پہنچ سکتی ہیں اور ان دقائق کو عقل کی جودت کس طرح پا سکتی ہے یا تو صیف کرنے والے اس کے اوصاف کو کس طرح مرتب کر سکتے ہیں۔

جب کہ اس کے چھوٹے سے ایک جزء نے اوہام کو وہاں تک رسائی سے عاجز کردیا ہے اور زبانوں کی اس کی توصیف سے درماندہ کردیا ہے۔

پاک و بے نیاز ہے وہ مالک جس نے عقلوں کو متحیر کردیا ہے اس ایک مخلوق کی توصیف سے جسے نگاہوں کے سامنے واضح کردیا ہے اور نگاہوں نے اسے محدود اور مرتب و مرکب و ملون شکل میں دیکھ لیا ہے اور پھر زبان کو بھی اس کی صفت کا خلاصہ بیان کرنے اوراس کی تعریف کا حق ادا کرنے سے عاجز کردیا۔

اور پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے چیونٹی اور مچھر سے لے کر ان سے بڑی مچھلیوں اور ہاتھیوں تک کے پیروں کو مضبوط و مستحکم بنایا ہے اور اپنے لئے لازم قرار دے لیا ہے کہ کوئی ذی روح ڈھانچہ حرکت نہیں کر ے گا

۳۰۱

إِلَّا وجَعَلَ الْحِمَامَ مَوْعِدَه والْفَنَاءَ غَايَتَه.

منها في صفة الجنة

فَلَوْ رَمَيْتَ بِبَصَرِ قَلْبِكَ نَحْوَ مَا يُوصَفُ لَكَ مِنْهَا - لَعَزَفَتْ نَفْسُكَ عَنْ بَدَائِعِ مَا أُخْرِجَ إِلَى الدُّنْيَا - مِنْ شَهَوَاتِهَا ولَذَّاتِهَا وزَخَارِفِ مَنَاظِرِهَا - ولَذَهِلَتْ بِالْفِكْرِ فِي اصْطِفَاقِ أَشْجَارٍ - غُيِّبَتْ عُرُوقُهَا فِي كُثْبَانِ الْمِسْكِ عَلَى سَوَاحِلِ أَنْهَارِهَا - وفِي تَعْلِيقِ كَبَائِسِ اللُّؤْلُؤِ الرَّطْبِ فِي عَسَالِيجِهَا وأَفْنَانِهَا - وطُلُوعِ تِلْكَ الثِّمَارِ مُخْتَلِفَةً فِي غُلُفِ أَكْمَامِهَا - تُجْنَى مِنْ غَيْرِ تَكَلُّفٍ فَتَأْتِي عَلَى مُنْيَةِ مُجْتَنِيهَا - ويُطَافُ عَلَى نُزَّالِهَا فِي أَفْنِيَةِ قُصُورِهَا - بِالأَعْسَالِ الْمُصَفَّقَةِ والْخُمُورِ الْمُرَوَّقَةِ - قَوْمٌ لَمْ تَزَلِ الْكَرَامَةُ تَتَمَادَى بِهِمْ - حَتَّى حَلُّوا دَارَ الْقَرَارِ وأَمِنُوا نُقْلَةَ الأَسْفَارِ - فَلَوْ شَغَلْتَ قَلْبَكَ أَيُّهَا الْمُسْتَمِعُ - بِالْوُصُولِ إِلَى مَا يَهْجُمُ عَلَيْكَ مِنْ تِلْكَ الْمَنَاظِرِ الْمُونِقَةِ - لَزَهِقَتْ نَفْسُكَ شَوْقاً إِلَيْهَا -

مگر یہ کہ اس کی اصلی وعدہ گاہ موت(۱) ہوگی اور اس کا انجام کا رفنا ہوگا۔

اب اگر تم ان بیانات پر دل کی نگاہوں سے نظر ڈالو گے تو تمہارا نفس دنیا کی تمام شہوتوں ۔لذتوں اور زینتوں سے بیزار ہو جائے گا اور تمہاری فکر ان درختوں کے پتوں کی کھڑ کھڑاہٹ میں گم ہو جائے گی جن کی جڑیں ساحل دریا پر مشک کے ٹیلوں میں ڈوبی ہوئی ہیں اور ان ترو تازہ موتیوں کے گچھوں کے لٹکنے اور سبز پتیوں کے غلافوں میں مختلف قسم کے پھلوں کے نکلنے کے نظاروں میں گم ہو جائے گی جنہیں بغیر کسی زحمت کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور وہاں وارد ہونے والوں کے گرد محلوں کے آنگنوں میں صاف و شفاف شہد اورپاک و پاکیزہ شراب کے دور چل رہے ہوں گے۔وہاں وہ قوم ہوگی جس کی کرامتوں نے اسے کھینچ کر ہمیشگی کی منزل تک پہنچا دیا ہے اور انہیں سفر کی مزید زحمت سے محفوظ کردیا ہے۔اسے میری گفتگو سننے والو! اگر تم لوگ اپنے دلوں کو مشغول کرلو اس منزل تک پہنچنے کے لئے جہاں یہ دلکش نظارے پائے جاتے ہیں تو تمہاری جان اشتیاق کے مارے از خود نکل جائے گی

(۱) کیا عبرت ناک ہے یہ زندگی ایک طرف راحتیں ،لذتیں ، آرائشیں، زیبائشیںہیں اور دوسری طرف موت کا بھیانک چہرہ! انسان ایک نظر اسآرائش وزیبائش کی طرف کتا ہے اور دوسری نظر اس کے انجام کارکی طرف۔بالکل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک طرف مور کے پر ہیں اور دوسری طرف پیر۔پروں کو دیکھ کر غرور پیدا ہوتا ہے اور پیروں کو دیکھ کر اوقات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

انسان اپنی زندگی کے حقائق پرنظر کرے تو اسے اندازہ ہوگا کہ اس کی پوری حیات ایک مور کی زندگی ہے جہاں ایک طرف راحت و آرام ، آرائش و زیبائش کا ہنگامہ ہے اور دوسری طرف موت کا بھیانک چہرہ۔

ظاہر ہے کہ جو انسان اس چہرہ کو دیکھ لے اسے کوئی چیز حسین اور دلکش محسوس نہ ہوگی اور وہ اس پر فریب دنیا سے جلد از جلد نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

۳۰۲

ولَتَحَمَّلْتَ مِنْ مَجْلِسِي هَذَا - إِلَى مُجَاوَرَةِ أَهْلِ الْقُبُورِ اسْتِعْجَالًا بِهَا - جَعَلَنَا اللَّه وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ يَسْعَى بِقَلْبِه - إِلَى مَنَازِلِ الأَبْرَارِ بِرَحْمَتِه.

تفسير بعض ما في هذه الخطبة من الغريب

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - قولهعليه‌السلام يؤر بملاقحه الأر كناية عن النكاح - يقال أر الرجل المرأة يؤرها إذا نكحها -. وقولهعليه‌السلام كأنه قلع داري عنجه نوتيه - القلع شراع السفينة - وداري منسوب إلى دارين - وهي بلدة على البحر يجلب منها الطيب - وعنجه أي عطفه - يقال عنجت الناقة كنصرت أعنجها عنجا إذا عطفتها - والنوتي الملاح -. وقولهعليه‌السلام ضفتي جفونه أراد جانبي جفونه - والضفتان الجانبان -. وقولهعليه‌السلام وفلذ الزبرجد - الفلذ جمع فلذة وهي القطعة -. وقولهعليه‌السلام كبائس اللؤلؤ الرطب - الكباسة العذق - والعساليج الغصون واحدها عسلوج

اور تم میری اس مجلس سے اٹھ کر قبروں میں رہنے والوں کی ہمسائیگی کے لئے آمادہ ہو جائو گے تاکہ جلد یہ نعمتیں حاصل ہوجائیں۔

اللہ ہمیں اور تمہیں دونوں کو اپنی رحمت کے طفیل ان لوگوں میں قراردے جو اپنے دل کی گہرائیوں سے نیک کردار بندوں کی منزلوں کے لئے سعی کر رہے ہیں۔

(بعض الفاظ کی وضاحت)

یور بملاقحہ۔ار نکاح کا کنایہ ہے کہ جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو کہا جاتا ہے ار الرجل۔

حضرت کا ارشاد''کانہ قلع داری عنجہ نوتیہ '' قلع کشتی کے بادبان کو کہا جاتا ہے اور داری مقام دارین کی طرف منسوب ہے جو ساحل بحر پرآباد ہے اور وہاں سے خوشبو وغیرہ وارد کی جاتی ہے۔

عنجہ یعنی موڑ دیا جس کا استعمال اس طرح ہوتا ہے کہ عنجت الناقة یعنی میں نے اونٹنی کے رخ کو موڑ دیا۔

نوتی ملاح کو کہاجاتا ہے۔ضفتی جفرنہ یعنی پلکوں کے کنارے ۔صفتان یعنی دونوں کنارے ۔

فلذ الزبرجد۔فلذ فلذة کی جمع ہے یعنی ٹکڑا۔

کبائس اللئو لوء الرطب ۔کباسہ کھجور کا خوشہ

عیالج جمع علوج ۔شاخیں

۳۰۳

(۱۶۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

الحث على التآلف

لِيَتَأَسَّ صَغِيرُكُمْ بِكَبِيرِكُمْ - ولْيَرْأَفْ كَبِيرُكُمْ بِصَغِيرِكُمْ - ولَا تَكُونُوا كَجُفَاةِ الْجَاهِلِيَّةِ - لَا فِي الدِّينِ يَتَفَقَّهُونَ ولَا عَنِ اللَّه يَعْقِلُونَ - كَقَيْضِ بَيْضٍ فِي أَدَاحٍ - يَكُونُ كَسْرُهَا وِزْراً ويُخْرِجُ حِضَانُهَا شَرّاً.

بنو أمية

ومنها - افْتَرَقُوا بَعْدَ أُلْفَتِهِمْ وتَشَتَّتُوا عَنْ أَصْلِهِمْ - فَمِنْهُمْ آخِذٌ بِغُصْنٍ أَيْنَمَا مَالَ مَالَ مَعَه - عَلَى أَنَّ اللَّه تَعَالَى سَيَجْمَعُهُمْ لِشَرِّ يَوْمٍ لِبَنِي أُمَيَّةَ - كَمَا تَجْتَمِعُ قَزَعُ الْخَرِيفِ - يُؤَلِّفُ اللَّه بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَجْمَعُهُمْ رُكَاماً كَرُكَامِ السَّحَابِ - ثُمَّ يَفْتَحُ لَهُمْ أَبْوَاباً - يَسِيلُونَ مِنْ مُسْتَثَارِهِمْ كَسَيْلِ الْجَنَّتَيْنِ - حَيْثُ لَمْ تَسْلَمْ عَلَيْه قَارَةٌ - ولَمْ تَثْبُتْ عَلَيْه أَكَمَةٌ - ولَمْ يَرُدَّ سَنَنَه رَصُّ طَوْدٍ ولَا حِدَابُ أَرْضٍ - يُذَعْذِعُهُمُ اللَّه فِي بُطُونِ أَوْدِيَتِه -

(۱۶۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

دعوت اتحاد و اتفاق

تمہارے چھوٹوں کوچاہیےکہ اپنے بڑوں کی پیروی کریں اوربڑوں کافرض ہےکہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں اورخبردار تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہو جانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اللہ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھےان کی مثال ان انڈوں کے چھلوں جیسی ہے جو شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہوںکہ ان کاتوڑنا تو جرم ہے لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا ہے۔

(ایک اور حصہ) یہ لوگ باہمی محبت کے بعد الگ الگ ہوگئے اور اپنی اصل سے جدا ہوگئے بعض لوگوں نے ایک شاخکو پکڑ لیا ہے اور اب اسی کے ساتھ جھکتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ انہیں بنی امیہ کے بد ترین دن کیلئے جمع کردے گا جس طرح کہ خریف میں بادل کے ٹکڑے جمع ہو جاتے ہیں ۔پھر ان کے درمیان محبت پیدا کرے گا پھر انہیں تہ بہ تہ ابرکے ٹکڑوں کی طرح ایک مضبوط گروہ بنادے گا۔پھر ان کے لئے ایسے دروازوں کو کھول دے گا کہ یہ اپنے ابھرنے کی جگہ سے شہر صبا کے دو باغوں کے اس سیلاب کی طرح بہ نکلیں گے جن سے نہ کوئی چٹان محفوظ رہی تھی اورنہ کوئی ٹیلہ ٹھہر سکا تھا۔ نہ پہاڑ کی چوٹی اس کے دھارے کو موڑ سکی تھی اورنہ زمین کی اونچائی۔اللہ انہیں گھاٹیوں کے نشیبوں میں متفرق

۳۰۴

ثُمَّ يَسْلُكُهُمْ يَنَابِيعَ فِي الأَرْضِ - يَأْخُذُ بِهِمْ مِنْ قَوْمٍ حُقُوقَ قَوْمٍ - ويُمَكِّنُ لِقَوْمٍ فِي دِيَارِ قَوْمٍ - وايْمُ اللَّه لَيَذُوبَنَّ مَا فِي أَيْدِيهِمْ بَعْدَ الْعُلُوِّ والتَّمْكِينِ - كَمَا تَذُوبُ الأَلْيَةُ عَلَى النَّارِ.

الناس آخر الزمان

أَيُّهَا النَّاسُ لَوْ لَمْ تَتَخَاذَلُوا عَنْ نَصْرِ الْحَقِّ - ولَمْ تَهِنُوا عَنْ تَوْهِينِ الْبَاطِلِ - لَمْ يَطْمَعْ فِيكُمْ مَنْ لَيْسَ مِثْلَكُمْ - ولَمْ يَقْوَ مَنْ قَوِيَ عَلَيْكُمْ - لَكِنَّكُمْ تِهْتُمْ مَتَاه بَنِي إِسْرَائِيلَ - ولَعَمْرِي لَيُضَعَّفَنَّ لَكُمُ التِّيه مِنْ بَعْدِي أَضْعَافاً - بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ - وقَطَعْتُمُ الأَدْنَى ووَصَلْتُمُ الأَبْعَدَ - واعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِنِ اتَّبَعْتُمُ الدَّاعِيَ لَكُمْ - سَلَكَ بِكُمْ مِنْهَاجَ الرَّسُولِ وكُفِيتُمْ مَئُونَةَ الِاعْتِسَافِ - ونَبَذْتُمُ الثِّقْلَ الْفَادِحَ عَنِ الأَعْنَاقِ.

(۱۶۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في أوائل خلافته

إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَنْزَلَ كِتَاباً هَادِياً

کردے گا اور پھر انہیں چشموں کے بہائو کی طرح زمین میں پھیلا دے گا۔ان کے ذریعہ ایک قوم کے حقوق دوسری قوم سےحاصل کرےگا اورایک جماعت کودوسری جماعت کے دیر میں اقتدار عطا کرےگا۔خدا کی قسم ان کے اتدار و اختیار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہوگا وہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح کہ آگ پر چربی پگھل جاتی ہے۔

(آخر زمانہ کے لوگ)

ایہا الناس! اگر تم حق کی مدد کرنے میں کوت ا ہی نہ کرتے اورباطل کو کمزور بنانے میں سستی کا مظاہرہ نہ کرتے تو تمہارے بارے میں وہ قوم طمع نہ کرتی جو تم جیسی نہیں ہے اور تم پر یہ لوگ قوی نہ ہو جاتے۔ لیکن افسوس کہ تم بنی اسرائیل کی طرح گمراہ ہوگئے اور میری جان کی قسم میرے بعد تمہاری یہ حیرانی اور سر گردانی دوچند ہو جائے گی کہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے۔قریب ترین سے قطع تعلق کرلیاہے اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔یادرکھو کہ اگر تم داعی حق کا اتباع کر لیتے تو وہ تمہیں رسول اکرم (ص) کے راستہ پر چلاتا اور تمہیں کجروی کی زحمتوں سے بچالیتا اور تم اس سنگین بوجھ کو اپنی گردنوں سے اتار پھینک دیتے۔

(۱۶۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(ابتدائے خلافت کے دورمیں)

پروردگار نے اس کتاب ہدایت کو نازل کیا

۳۰۵

بَيَّنَ فِيه الْخَيْرَ والشَّرَّ - فَخُذُوا نَهْجَ الْخَيْرِ تَهْتَدُوا - واصْدِفُوا عَنْ سَمْتِ الشَّرِّ تَقْصِدُوا.

الْفَرَائِضَ الْفَرَائِضَ أَدُّوهَا إِلَى اللَّه تُؤَدِّكُمْ إِلَى الْجَنَّةِ - إِنَّ اللَّه حَرَّمَ حَرَاماً غَيْرَ مَجْهُولٍ - وأَحَلَّ حَلَالًا غَيْرَ مَدْخُولٍ - وفَضَّلَ حُرْمَةَ الْمُسْلِمِ عَلَى الْحُرَمِ كُلِّهَا - وشَدَّ بِالإِخْلَاصِ والتَّوْحِيدِ حُقُوقَ الْمُسْلِمِينَ فِي مَعَاقِدِهَا - فَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِه ويَدِه إِلَّا بِالْحَقِّ - ولَا يَحِلُّ أَذَى الْمُسْلِمِ إِلَّا بِمَا يَجِبُ.

بَادِرُوا أَمْرَ الْعَامَّةِ وخَاصَّةَ أَحَدِكُمْ وهُوَ الْمَوْتُ - فَإِنَّ النَّاسَ أَمَامَكُمْ وإِنَّ السَّاعَةَ تَحْدُوكُمْ مِنْ خَلْفِكُمْ - تَخَفَّفُوا تَلْحَقُوا فَإِنَّمَا يُنْتَظَرُ بِأَوَّلِكُمْ آخِرُكُمْ.

اتَّقُوا اللَّه فِي عِبَادِه وبِلَادِه - فَإِنَّكُمْ

ہے جس میں خیرو شر کی وضاحت کردی ہے لہٰذا تم خیر کے راستہ کو اختیارکرو تاکہ ہدایت پاجائو اور شرکے رخ سے منہ موڑ لو تاکہ سیدھے راستہ پرآجائو۔

فرائض کا خیال رکھو اور انہیں ادا کرو تاکہ وہ تمہیں جنت تک پہنچا دیں۔اللہ نے جس حرام کوحرام قرار دیا ہے وہ مجہول نہیں ہے اور جس حلال کو حلال بنایا ہے وہ مشتبہ نہیں ہے۔اس نے مسلمانوں کی حرمت کو تمام محترم چیزوں سے افضل قرار دیا ہے اور مسلمانوں کے حقوق کو ان کی منزلوں میں اخلاص اور ریگانگت سے باندھ دیا ہے۔اب مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام مسلمان(۱) محفوظرہیں مگر یہ کہ کسی حق کی بنا پر ان پر ہاتھ ڈالا جائے اور کسی مسلمان کے لئے مسلمان کو تکلیف دینا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا واقعی سبب پیدا ہو جائے۔

اس امرکی طرف سبقت کرو جو ہر ایک کے لئے ہے اور تمہارے لئے بھی ہے اور وہ ہے موت۔لوگ تمہارے آگے جا چکے ہیں اور تمہارا وقت تمہیں ہنکا کرلے جا رہا ہے۔سامان ہلکا رکھو تاکہ اگلے لوگوں سے ملحق ہو جائو اس لئے کہ ان پہلے والوں کے ذریعہ تمہارا انتظار کیا جا رہا ہے۔

اللہ سے ڈرو اس کے بندوں کے بارے میں بھی اور شہروں کے بارے میں بھی ۔اس لئے کہ تم سے زمینوں

(۱) اس قانون میں مسلمانوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔مسلمان وہی ہوتا ہے جس کے ہاتھ یا اس کی زبان سے کسی فروبشر کو اذیت نہ ہو اور سب اس کے شر سے محفوظ رہیں۔لیکن یہ اسی وقت تک ہے جب کسی کے بارے میں زبان کھولنا یا ہاتھ اٹھانا شر شمار ہو ورنہ اگر انسان اس امر کا مستحق ہوگیا ہے کہ اس کے کردار پر تنقید نہ کرنا اسے قرار واقعی سزا نہ دینا دین خدا کی توہین ہے تو کوئی شخص بھی دین خدا سے زیادہمحترم نہیں ہے۔انسان کا احترام دین خداکے طفیل میں ہے اگر دین خدا ہی کا احترام نہ رہ گیا تو کسی شخص کے احترام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

۳۰۶

مَسْئُولُونَ حَتَّى عَنِ الْبِقَاعِ والْبَهَائِمِ - أَطِيعُوا اللَّه ولَا تَعْصُوه - وإِذَا رَأَيْتُمُ الْخَيْرَ فَخُذُوا بِه - وإِذَا رَأَيْتُمُ الشَّرَّ فَأَعْرِضُوا عَنْه.

(۱۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

بعد ما بويع له بالخلافة، وقد قال له قوم من الصحابة: لو عاقبتقوما ممن أجلب على عثمان فقالعليه‌السلام :

يَا إِخْوَتَاه إِنِّي لَسْتُ أَجْهَلُ مَا تَعْلَمُونَ - ولَكِنْ كَيْفَ لِي بِقُوَّةٍ والْقَوْمُ الْمُجْلِبُونَ - عَلَى حَدِّ شَوْكَتِهِمْ يَمْلِكُونَنَا ولَا نَمْلِكُهُمْ - وهَا هُمْ هَؤُلَاءِ قَدْ ثَارَتْ مَعَهُمْ عِبْدَانُكُمْ - والْتَفَّتْ إِلَيْهِمْ أَعْرَابُكُمْ - وهُمْ خِلَالَكُمْ يَسُومُونَكُمْ مَا شَاءُوا - وهَلْ تَرَوْنَ مَوْضِعاً لِقُدْرَةٍ عَلَى شَيْءٍ تُرِيدُونَه - إِنَّ هَذَا الأَمْرَ أَمْرُ جَاهِلِيَّةٍ - وإِنَّ لِهَؤُلَاءِ الْقَوْمِ مَادَّةً - إِنَّ النَّاسَ مِنْ هَذَا الأَمْرِ إِذَا حُرِّكَ عَلَى أُمُورٍ - فِرْقَةٌ تَرَى مَا تَرَوْنَ وفِرْقَةٌ تَرَى مَا لَا تَرَوْنَ - وفِرْقَةٌ لَا تَرَى هَذَا ولَا ذَاكَ - فَاصْبِرُوا حَتَّى يَهْدَأَ النَّاسُ

اور جانوروں کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔اللہ کی اطاعت کرو اورناف رمانی نہ کرو۔خیر کو دیکھو تو فوراً لے لو اور شریرنظر پڑ جائے تو کنارہ کش ہو جائو۔

(۱۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب بیعت خلافت کے بعد بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ کاش آپ عثمان پر زیادتی کرنے والوں کو سبزا دیتے )

بھائیو! جو تم جانتے ہو میں اس سے نا واقف نہیں ہوں لیکن میرے پاس اس کی طاقت کہاں ہے ؟ ابھی وہ قوم اپنی طاقت و قوت(۱) پر قائم ہے۔وہ ہمارا اختیار رکھتی ہے اور ہمارے پاس اس کا اختیارنہیں ہے اور پھر تمہارے غلام بھی ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور تمہارے دیہاتی بھی ان کے گرد جمع ہوگئے ہیں اور وہ تمہارے درمیان اس حالت میں ہیں کہ تمہیں جس طرح چاہیں اذیت پہنچا سکتے ہیں کیا تمہاری نظر میں جو کچھ تم چاہتے ہو اس کی کوئی گنجائش ہے۔بیشک یہ صرف جہالت اور نادانی کا مطالبہ ہے اور اس قوم کے پاس طاقت کا سرچشمہ موجود ہے۔اس معاملہ میں اگر لوگوں کو حرکت بھی دی جائے تو وہ چند فرقوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ایک فرقہ وہی سوچے گا جو تم سوچ رہے ہو اور دوسرا گروہ اس کے خلاف رائے کاحامل ہوگا۔تیسرا گروہ دونوں سے غیر جانبدار بن جائے گا لہٰذا مناسب یہی ہے کہ صبر کرو یہاں تک کہ لوگ ذرا

۳۰۷

وتَقَعَ الْقُلُوبُ مَوَاقِعَهَا - وتُؤْخَذَ الْحُقُوقُ مُسْمَحَةً - فَاهْدَءُوا عَنِّي وانْظُرُوا مَا ذَا يَأْتِيكُمْ بِه أَمْرِي - ولَا تَفْعَلُوا فَعْلَةً تُضَعْضِعُ قُوَّةً وتُسْقِطُ مُنَّةً - وتُورِثُ وَهْناً وذِلَّةً وسَأُمْسِكُ الأَمْرَ مَا اسْتَمْسَكَ - وإِذَا لَمْ أَجِدْ بُدّاً فَآخِرُ الدَّوَاءِ الْكَيُّ

(۱۶۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند مسير أصحاب الجمل إلى البصرة

الأمور الجامعة للمسلمين

إِنَّ اللَّه بَعَثَ رَسُولًا هَادِياً بِكِتَابٍ نَاطِقٍ وأَمْرٍ قَائِمٍ - لَا يَهْلِكُ عَنْه إِلَّا هَالِكٌ - وإِنَّ الْمُبْتَدَعَاتِ الْمُشَبَّهَاتِ هُنَّ الْمُهْلِكَاتُ - إِلَّا مَا حَفِظَ اللَّه مِنْهَا - وإِنَّ فِي سُلْطَانِ اللَّه عِصْمَةً لأَمْرِكُمْ - فَأَعْطُوه طَاعَتَكُمْ غَيْرَ مُلَوَّمَةٍ ولَا مُسْتَكْرَه بِهَا - واللَّه لَتَفْعَلُنَّ أَوْ

مطمئن ہو جائیں اور دل ٹھہر جائیں اور اس کے بعد دیکھو کہ میں کیاکرتا ہوں ۔خبر دار کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جو طاقت کو کمزور بنادے اور قوت کو پامال کردے اور کمزوری و ذلت کاب اعث ہو جائے۔میں جہاں تک ممکن ہو گا اس جنگ کو روکے رہوں گا۔اس کے بعد جب کوئی چارہ کارنہ رہ جائے گا توآخری علاج داغنا ہی ہوتا ہے۔

(۱۶۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب اصحاب جمل بصرہ کی طرف جا رہے تھے)

اللہ نے اپنے رسول ہادی کو بولتی کتاب اور مستحکم امر کے ساتھ بھیجا ہے اس کے ہوتے ہوئے وہی ہلاک ہو سکتا ہے جس کا مقدر ہی ہلاکت ہو اور نئی نئی بدعتیں اورنئے نئے شبہات ہی ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں مگر یہ کہ اللہ ہی کسی کو بچالے اور پروردگار کی طرف سے معین ہونے والا حاکم ہی تمہارے امور کی حفاظت کرسکتا ہے لہٰذا اسے ایسی مکمل اطاعت دے دو جونہ قابل ملامت ہو اورنہ بددلی کا نتیجہ ہو۔خدا کی قسم یا تو

(۱)عثمان کے خلاف قیام کرنے والے صرف مدینہ کے افراد ہوتے جب بھی مقابلہ آسان نہیں تھا۔چہ جائیکہ بقول طبری اس جماعت میں چھ سو مصری بھی شامل تھے اورایک ہزار کوفہ کے سپاہی بھی آگئے تھے اوردیگر علاقے کے مظلومین نے بھی مہم میں شرکت کرلی تھی۔ایسے حالات میں ایک شخص جمل و صفین کے معرکے بھی برداشت کرے اور ان تمام انقلابیوں کامحاسبہ بھی شروع کردے یہ ایک نا ممکن امر ہے اور پھرمحاسبہ کے عمل میں ام المومنین اور معاویہ کو بھی شامل کرنا پڑے گا کہ قتل عثمان کی مہم میں یہ افراد بھی برابر کے شریک تھے بلکہ ام المومنین نے توباقاعدہ لوگوں کو قتل پر آمادہ کیاتھا۔

ایسے حالات میں مسئلہ اس قدرآسان نہیں تھا جس قدر بعض سادہ لوح افراد تصور کر رہے تھے یا بعض فتنہ پرداز اسے ہوا دے رہے تھے۔

۳۰۸

لَيَنْقُلَنَّ اللَّه عَنْكُمْ سُلْطَانَ الإِسْلَامِ - ثُمَّ لَا يَنْقُلُه إِلَيْكُمْ أَبَداً - حَتَّى يَأْرِزَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِكُمْ.

التنفير من خصومه

إِنَّ هَؤُلَاءِ قَدْ تَمَالَئُوا عَلَى سَخْطَةِ إِمَارَتِي - وسَأَصْبِرُ مَا لَمْ أَخَفْ عَلَى جَمَاعَتِكُمْ - فَإِنَّهُمْ إِنْ تَمَّمُوا عَلَى فَيَالَةِ هَذَا الرَّأْيِ - انْقَطَعَ نِظَامُ الْمُسْلِمِينَ - وإِنَّمَا طَلَبُوا هَذِه الدُّنْيَا حَسَداً لِمَنْ أَفَاءَهَا اللَّه عَلَيْه - فَأَرَادُوا رَدَّ الأُمُورِ عَلَى أَدْبَارِهَا - ولَكُمْ عَلَيْنَا الْعَمَلُ بِكِتَابِ اللَّه تَعَالَى - وسِيرَةِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - والْقِيَامُ بِحَقِّه والنَّعْشُ لِسُنَّتِه.

(۱۷۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في وجوب اتباع الحق عند قيام الحجة كلَّم به بعض العرب

وقَدْ أَرْسَلَه قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ لَمَّا قَرُبَعليه‌السلام مِنْهَا - لِيَعْلَمَ لَهُمْ مِنْه حَقِيقَةَ حَالِه مَعَ أَصْحَابِ الْجَمَلِ - لِتَزُولَ الشُّبْهَةُ مِنْ نُفُوسِهِمْ - فَبَيَّنَ لَهعليه‌السلام مِنْ أَمْرِه مَعَهُمْ - مَا عَلِمَ بِه أَنَّه عَلَى الْحَقِّ - ثُمَّ قَالَ لَه بَايِعْ - فَقَالَ

تم ایسی اطاعت کروگے یا پھر تم سے اسلامی اقتدار چھن جائے گا اور پھر کبھی تمہاری طرف پلٹ کرنہ آئے گا یہاں تک کہ کسی غیرکے سایہ میں پناہ لے لے۔

دیکھو یہ لوگ میری حکومت سے ناراضگی پر متحد ہو چکے ہیں اوراب میں اس وقت تک صبر کروں گا جب تک تمہاری جماعت کے بارے میں کوئی اندیشہ نہ پیدا ہو جائے ۔اس لئے کہاگر وہ اپنی رائے کی کموری کے باوجود اس امر میں کامیاب ہوگئے تو مسلمانوں کا رشتہ نظم و نسق بالکل ٹوٹ کر رہ جائے گا۔ان لوگوں نے اس دنیا کو صرف ان لوگوں سے حسد کی بنا پر طلب کیا ہے جنہیں اللہ نے خلیفہ و حاکم بنایا ہے۔اب یہ چاہتے ہیں کہ معاملات کو الٹے پائوں جاہلیت کی طرف پلٹا دیں ۔تمہارے لئے میرے ذمہ یہی کام ہے کہ کتاب خدا اور سنت رسول (ص) پر عمل کروں ۔ان کے حق کو قائم کروں اور ان کی سنت کو بلند و بالا قرار دوں ۔

(۱۷۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(دلیل قائم ہو جانے کےبعدحق کے اتباع کےسلسلہ میں )

جب اہل بصرہ نے بعض افراد کواس غرض سے بھیجا کہ اہل جمل کے بارے میں حضرت کے موقف کو دریافت کریں تاکہ کسی طرح کا شبہ باقی نہ رہ جائے توآپ نے جملہ امور کی مکمل وضاحت فرمائی تاکہ واضح ہو جائے کہ آپ حق پر ہیں ۔اس کے بعد فرمایا کہ جب حق واضح ہوگیا تو میرے ہاتھ پر بیعت کرلو۔اس نے کہا کہ

۳۰۹

إِنِّي رَسُولُ قَوْمٍ - ولَا أُحْدِثُ حَدَثاً حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْهِمْ فَقَالَعليه‌السلام

أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ الَّذِينَ وَرَاءَكَ بَعَثُوكَ رَائِداً - تَبْتَغِي لَهُمْ مَسَاقِطَ الْغَيْثِ،فَرَجَعْتَ إِلَيْهِمْ وأَخْبَرْتَهُمْ عَنِ الْكَلإِ والْمَاءِ - فَخَالَفُوا إِلَى الْمَعَاطِشِ والْمَجَادِبِ مَا كُنْتَ صَانِعاً - قَالَ كُنْتُ تَارِكَهُمْ ومُخَالِفَهُمْ إِلَى الْكَلإِ والْمَاءِ - فَقَالَعليه‌السلام فَامْدُدْ إِذاً يَدَكَ - فَقَالَ الرَّجُلُ - فَوَاللَّه مَا اسْتَطَعْتُ أَنْ أَمْتَنِعَ عِنْدَ قِيَامِ الْحُجَّةِ عَلَيَّ - فَبَايَعْتُهعليه‌السلام

والرَّجُلُ يُعْرَفُ بِكُلَيْبٍ الْجَرْمِيِّ.

(۱۷۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما عزم على لقاء القوم بصفين

الدعاء

اللَّهُمَّ رَبَّ السَّقْفِ الْمَرْفُوعِ والْجَوِّ الْمَكْفُوفِ - الَّذِي جَعَلْتَه مَغِيضاً لِلَّيْلِ والنَّهَارِ

میں ایک قوم کا نمائندہ ہوں اور ان کی طرف رجوع کئے بغیر کوئی اقدام نہیں کر سکتا ہوں۔فرمایا کہ

تمہارا کیاخیال(۱) ہے اگر اس قوم نے تمہیں نمائندہ بنا کر بھیجا ہوتا کہ جائو تلاش کرو جہاں بارش ہوئی ہو اور پانی کی کوئی سبیل ہو اورتم واپس جا کر پانی اور سبزہ کی خبردیتے اوروہ لوگ تمہاری مخالفت کرکے ایسی جگہ کا انتخاب کرتے جہاں پانی کا قحط اورخشک سالی کا دوردورہ ہو تو اس وقت تمہارا اقدام کیا ہوتا ؟ اس نے کہاکہ میں انہیں چھوڑ کر آب و دانہ کی طرف چلا جاتا ۔فرمایا پھراب ہاتھ بڑھائو اور بیعت کر لو کہ چشمہ ہدایت تو مل گیا ہے۔اس نے کہاکہ اب حجت تمام ہوچکی ہے اورمیرے پاس انکار کا کوئی جواز نہیں رہ گیا ہے اور یہ کہہ کر حضرت کے دست حق پرست پر بیعت کرلی۔

(تاریخ میں اس شخص کو کلیب جرمی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے )

(۱۷۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب اصحاب معاویہ سےصفین میں مقابلہ کےلئے ارادہ فرمالیا)

اے پروردگار جو بلند ترین چھت اور ٹھہری ہوئی فضا کا مالک ہے۔جسنےاس فضاکوشب وروز کےسر چھپانے کی منزل

(۱) یہ استدلال اپنے حسن و جمال کے علاوہ اس معنویت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اسلام میں میری حیثیت ایک سر سبز و شاداب گلستان کی ہے جہاں اسلامی احکام و تعلیمات کی بہاریں خیمہ زن رہتی ہیں اور میرے علاوہ تمام افراد ایک ریگستان سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔کس قدر حیرت کی بات ہے کہ انسان سبزہ زار اور چشمہ آب حیات کو چھوڑ کر پھر ریگستانوں کی طرف پلٹ جائے اور تشنہ کامی کی زندگی گزارتا رہے۔جو تمام اہل شام کا مقدر بن چکا ہے۔

۳۱۰

ومَجْرًى لِلشَّمْسِ والْقَمَرِ ومُخْتَلَفاً لِلنُّجُومِ السَّيَّارَةِ - وجَعَلْتَ سُكَّانَه سِبْطاً مِنْ مَلَائِكَتِكَ - لَا يَسْأَمُونَ مِنْ عِبَادَتِكَ - ورَبَّ هَذِه الأَرْضِ الَّتِي جَعَلْتَهَا قَرَاراً لِلأَنَامِ - ومَدْرَجاً لِلْهَوَامِّ والأَنْعَامِ - ومَا لَا يُحْصَى مِمَّا يُرَى ومَا لَا يُرَى - ورَبَّ الْجِبَالِ الرَّوَاسِي الَّتِي جَعَلْتَهَا لِلأَرْضِ أَوْتَاداً - ولِلْخَلْقِ اعْتِمَاداً إِنْ أَظْهَرْتَنَا عَلَى عَدُوِّنَا - فَجَنِّبْنَا الْبَغْيَ وسَدِّدْنَا لِلْحَقِّ - وإِنْ أَظْهَرْتَهُمْ عَلَيْنَا فَارْزُقْنَا الشَّهَادَةَ - واعْصِمْنَا مِنَ الْفِتْنَةِ.

الدعوة للقتال

أَيْنَ الْمَانِعُ لِلذِّمَارِ - والْغَائِرُ عِنْدَ نُزُولِ الْحَقَائِقِ مِنْ أَهْلِ الْحِفَاظِ - الْعَارُ وَرَاءَكُمْ والْجَنَّةُ أَمَامَكُمْ!

(۱۷۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

حمد الله

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَا تُوَارِي عَنْه سَمَاءٌ سَمَاءً - ولَا أَرْضٌ أَرْضاً.

اورشمس و قمرکے سیر کا میدان اور ستاروں کی آمدورفت کی جولاں گاہ قرار دیا ہے۔اس کا ساکن ملائکہ کے اس گروہ کو قراردیا ہے جو تیری عبادت سے خستہ حال نہیں ہوتے ہیں۔توہی اس زمین کا بھی مالک ہے جسے لوگوں کا مستقر بنایا ہے اور جانوروں ' کپڑوں مکوڑوں اوربے شمار مرئی اور غیرمرئی مخلوقات کے چلنے پھرنے کی جگہ قرار دیا ہے۔تو ہی ان سربفلک پہاڑوں کامالک ہے جنہیں زمین کے ٹھہرائو کے لئے میخ کا درجہ دیا گیا ہے اورمخلوقات کاسہارا قرار دیا گیا ہے۔اگر تونے دشمن کے مقابلہ میں غلبہ عنایت فرمایا تو' ہمیں ظلم سے محفوظ رکھنا اورحق کے سیدھے راستہ پر قائم رکھنا اور اگر دشمن کو ہم پر غلبہ حاصل ہو جائے تو ہمیں شہادت کا شرف عطا فرمانا اور فتنہ سے محفوظ رکھنا۔

دعوت جہاد

کہاں ہیں وہ عزت وآبروکے پاسبان اورمصیبتوں کے نزول کے بعد ننگ ونام کی حفاظت کرنے والے صاحبان عزت و غیرت۔یاد رکھو ذلت و عار تمہارے پیچھے ہے اور جنت تمہارےآگے ۔

(۱۷۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(حمد خدا)

ساری تعریف اس اللہ کےلئے ہےجس کے سامنے ایک آسمان دوسرےآسمان کو اور ایک زمین دوسری زمین کوچھپا نہیں سکتی ہے۔

۳۱۱

يوم الشورى

منها - وقَدْ قَالَ قَائِلٌ إِنَّكَ عَلَى هَذَا الأَمْرِ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ لَحَرِيصٌ - فَقُلْتُ بَلْ أَنْتُمْ واللَّه لأَحْرَصُ وأَبْعَدُ وأَنَا أَخَصُّ وأَقْرَبُ - وإِنَّمَا طَلَبْتُ حَقّاً لِي وأَنْتُمْ تَحُولُونَ بَيْنِي وبَيْنَه - وتَضْرِبُونَ وَجْهِي دُونَه - فَلَمَّا قَرَّعْتُه بِالْحُجَّةِ فِي الْمَلإِ الْحَاضِرِينَ - هَبَّ كَأَنَّه بُهِتَ لَا يَدْرِي مَا يُجِيبُنِي بِه!

الاستنصار على قريش

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَعْدِيكَ عَلَى قُرَيْشٍ ومَنْ أَعَانَهُمْ - فَإِنَّهُمْ قَطَعُوا رَحِمِي وصَغَّرُوا عَظِيمَ مَنْزِلَتِيَ - وأَجْمَعُوا عَلَى مُنَازَعَتِي أَمْراً هُوَ لِي - ثُمَّ قَالُوا أَلَا إِنَّ فِي الْحَقِّ أَنْ تَأْخُذَه وفِي الْحَقِّ أَنْ تَتْرُكَه.

منها في ذكر أصحاب الجمل

فَخَرَجُوا يَجُرُّونَ حُرْمَةَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - كَمَا تُجَرُّ الأَمَةُ عِنْدَ شِرَائِهَا

(روز شوریٰ)

ایک شخص(۱) نے مجھ سے یہاں تک کہہ دیا کہ فرزند ابو طالب! آپ میں اس خلافت کی طمع پائی جاتی ہے؟ تو میں نے کہا کہ خدا کی قسم تم لوگ زیادہ حریص ہو حالانکہ تم دور والے ہو۔میں تو اس ا اہل بھی ہوں اور پیغمبر (ص) سے قریب تر بھی ہوں۔میں نے اس حق کا مطالبہ کیا ہے جس کا میں حقدار ہوں لیکن تم لوگ میرے اور اس کے درمیان حائل ہوگئے ہو اور میرے ہی رخ کو اس کی طرف سے موڑنا چاہتے ہو پھر جب میں نے بھری محفل میں دلائل کے ذریعہ سے کانوں کے پردوں کو کھٹکھٹایا تو ہوشیار ہوگیا اور ایسا مبہوت ہوگیا کہ کوئی جواب سمجھ نہیں آرہا تھا۔

(قریش کے خلاف فریاد)

خدایا! میں قریش اور ان کے انصار کے مقابلہ میں تجھ سے مدد چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے میری قرابت کا رشتہ توڑ دیا اورمیری عظیم منزلت کو حقیر بنادیا۔مجھ سے اس امرکے لئے جھگڑا کرنے پر تیار ہوگئے جس کامیں واقعاً حقدار تھا اور پھر یہ کہنے لگے کہ آپ اسے لے لیں توبھی صحیح ہے اور اس سے دستبردار ہو جائیں توبھی برحق ہے۔

(اصحاب جمل کے باے میں)

یہ ظالم اس شان سے برآمد ہوئے کہ حرم رسول (ص) کویوں کھینچ کر میدان میں لا رہے تھے جیسے کنیزیں خرید و

(۱)بعض حضرات کاخیال ہے کہ یہ بات شوریٰ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہی تھی اور بعض کاخیال ہے کہ سقیفہ کے موقع پر ابو عبیدہ بن الجراح نے کہی تھی اوردونوں ہی امکانات پائے جاتے ہیں کہ دونوں کی فطرت ایک جیسی تھی اوردونوں امیر المومنین کی مخالفت پر متحد تھے۔

۳۱۲

مُتَوَجِّهِينَ بِهَا إِلَى الْبَصْرَةِ - فَحَبَسَا نِسَاءَهُمَا فِي بُيُوتِهِمَا - وأَبْرَزَا حَبِيسَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لَهُمَا ولِغَيْرِهِمَا - فِي جَيْشٍ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وقَدْ أَعْطَانِي الطَّاعَةَ - وسَمَحَ لِي بِالْبَيْعَةِ طَائِعاً غَيْرَ مُكْرَه - فَقَدِمُوا عَلَى عَامِلِي بِهَا - وخُزَّانِ بَيْتِ مَالِ الْمُسْلِمِينَ وغَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِهَا - فَقَتَلُوا طَائِفَةً صَبْراً وطَائِفَةً غَدْراً - فَوَاللَّه لَوْ لَمْ يُصِيبُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - إِلَّا رَجُلًا وَاحِداً مُعْتَمِدِينَ لِقَتْلِه - بِلَا جُرْمٍ جَرَّه لَحَلَّ لِي قَتْلُ ذَلِكَ الْجَيْشِ كُلِّه - إِذْ حَضَرُوه فَلَمْ يُنْكِرُوا - ولَمْ يَدْفَعُوا عَنْه بِلِسَانٍ ولَا بِيَدٍ - دَعْ مَا أَنَّهُمْ قَدْ قَتَلُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - مِثْلَ الْعِدَّةِ الَّتِي دَخَلُوا بِهَا عَلَيْهِمْ!

(۱۷۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في رسول اللَّه،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ومن هو جدير بأن يكون للخلافة وفي هوان الدنيا

فروخت کے وقت لے جائی جاتی ہے۔ان کا رخ بصرہ کی طرف تھا۔ان دونوں(۱) نے اپنی عورتوں کو گھر میں بند کر رکھا تھا اور زوجہ رسول (ص) کو میدان میں لا رہے تھے۔جب کہ ان کے لشکر میں کوئی ایسا نہ تھا جو پہلے میری بیعت نہ کر چکا ہو اوربغیرکسی جبر و اکراہ کے میری اطاعت میں نہ رہ چکا ہو۔یہ لوگ پہلے میرے عامل(۲) بصرہ اورخازن بیت المال جیسے افراد پرحملہ آور ہوئے توایک جماعت کو گرفتار کرکے قتل کردیا اورایک کودھوکہ میں تلوار کے گھاٹ اتاردیا۔خدا کی قسم اگر یہ تمام مسلمانوں میں صرف ایک شخص کوبھی قصداً قتل کردیتے تو بھی میرے واسطے پورے لشکرسے جنگ کرنے جواز موجود تھا کہ دیگرافراد حاضر رہے اور انہوں نے نا پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا اور اپنی زبان(۳) یااپنے ہاتھ سے دفاع نہیں کیا اور پھرجب کہ مسلمانوں میں سے اتنے افراد کو قتل کردیا ہے جتنی ان کے پورے لشکر کی تعداد تھی۔

(۱۷۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(رسول اکرم (ص) کے بارے میں اوراس امر کی وضاحت کے سلسلہ میں کہ خلافت کاواقعی حقدار کون ہے ؟)

(۱)اس سے مراد طلحہ و زبری ہیں جنہوں نے زوجہ رسول (ص) کا اتنا بھی احترام نہیں کیا جتنا اپنے گھرکی عورتوں کا کیاکرتے تھے۔

(۲)جناب عثمان بن حنیف کا مثلہ کردیا اوران کے ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت کو تہ تیغ کردیا۔

(۳)فقہی اعتبارسے دفاع نہ کرنے والوں کا قتل جائز نہیں ہوتا ہے لیکن یہاں وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے امام برحق کے خلاف خروج کرکے فساد فی الارض کا ارتکاب کیاتھا اور یہجرم جواز قتل کے لئے کافی ہوتا ہے۔

۳۱۳

رسول الله أَمِينُ وَحْيِه وخَاتَمُ رُسُلِه - وبَشِيرُ رَحْمَتِه ونَذِيرُ نِقْمَتِه.

الجدير بالخلافة

أَيُّهَا النَّاسُ - إِنَّ أَحَقَّ النَّاسِ بِهَذَا الأَمْرِ أَقْوَاهُمْ عَلَيْه – وأَعْلَمُهُمْ بِأَمْرِ اللَّه فِيه - فَإِنْ شَغَبَ شَاغِبٌ اسْتُعْتِبَ فَإِنْ أَبَى قُوتِلَ - ولَعَمْرِي لَئِنْ كَانَتِ الإِمَامَةُ لَا تَنْعَقِدُ - حَتَّى يَحْضُرَهَا عَامَّةُ النَّاسِ فَمَا إِلَى ذَلِكَ سَبِيلٌ - ولَكِنْ أَهْلُهَا يَحْكُمُونَ عَلَى مَنْ غَابَ عَنْهَا - ثُمَّ لَيْسَ لِلشَّاهِدِ أَنْ يَرْجِعَ ولَا لِلْغَائِبِ أَنْ يَخْتَارَ - أَلَا وإِنِّي أُقَاتِلُ رَجُلَيْنِ - رَجُلًا ادَّعَى مَا لَيْسَ لَه وآخَرَ مَنَعَ الَّذِي عَلَيْه.

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - فَإِنَّهَا خَيْرُ مَا تَوَاصَى الْعِبَادُ بِه - وخَيْرُ عَوَاقِبِ الأُمُورِ عِنْدَ اللَّه - وقَدْ فُتِحَ بَابُ الْحَرْبِ بَيْنَكُمْ وبَيْنَ أَهْلِ الْقِبْلَةِ - ولَا يَحْمِلُ هَذَا الْعَلَمَ إِلَّا أَهْلُ الْبَصَرِ والصَّبْرِ - والْعِلْمِ بِمَوَاضِعِ الْحَقِّ - فَامْضُوا

پیغمبراسلام (ص) وحی الٰہی کے امانتدار اور خاتم المرسلین تھے۔رحمت الٰہی کی بشارت دینے والے اور عذاب الٰہی سے ڈرانے والے تھے ۔لوگو!یاد رکھو اس امرکا سب سے زیادہ حقدار وہی ہےجو سب سے زیادہ طاقتور اوردین الٰہی کاواقف کارہو اس کےبعداگر کوئی فتنہ پرداز فتنہ کھڑا کرے گاتو پہلے اسے توبہ کی دعوت دی جائے گی۔اس کے بعد اگرانکارکرے گا تو قتل کردیا جائے گا۔میری جان کی قسم اگر امامت کامسئلہ تمام افرادبشر کےاجتماع کے بغیر طے نہیں ہو سکتا ہے تواس اجتماع کاتو کوئی راستہ ہی نہیں ہے ہوتایہی ہے کہ حاضرین کا فیصلہ غائب افراد پرنافذ ہو جاتا ہے اور نہ حاضر کواپنی بیعت سے رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے اورنہ غائب کو دوسرا راستہ اختیار کرنے کا جواز ہوتا ہے۔ یاد رکھو میں دونوں طرح کے افراد سے جہاد کروں گا۔ان سے بھی جو غیر حق کے دعویدار ہوں گے اور ان سے بھی جوحقدار کو اس کا حق نہ دیں گے بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتاہوں کہ یہ بندوں کے درمیان بہترین وصیت ہے اور پیش پروردگار انجام کے اعتبارسے بہترین عمل ہے۔دیکھو !تمہارے اوراہل قبلہ مسلمانوں کے درمیان جنگ کا دروازہ کھولا جا چکا ہے۔اب اس علم(۱) کووہی اٹھائے گا جو صاحب بصیرت و صبرہوگا اورحق کےمراکزکا پہچاننے والا ہوگا۔تمہارا فرض ہے کہ میرے

(۱)علم لشکر قوم کی سر بلندی کی نشانی اور لشکرکے وقار و عزت کی علامت ہوتا ہے لہٰذا اس کواٹھانے والے کوبھی صاحب بصیرت و برداشت ہونا ضروری ہے ورنہ اگر پرچم سرنگوں ہوگیا تو نہ لشکر کاکوئی وقار رہ جائے گا اورنہمذہب کا کوئی اعتبار رہ جائے گا۔سرکار دو عالم (ص) نے انہیں خصوصیات کے پیش نظر خیبر کے موقع پر اعلان فرمایا تھاکہ کل میں اس کو علم دوں گا جو کرار' غیر فرار' محب خداو رسول (ص) محبوب خدا اور رسول (ص) اورمرد میدان ہوگا کہ اس کے علاوہ کوئی شخص علم برداری کا اہل نہیں ہو سکتا ہے۔

۳۱۴

لِمَا تُؤْمَرُونَ بِه وقِفُوا عِنْدَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْه - ولَا تَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ حَتَّى تَتَبَيَّنُوا - فَإِنَّ لَنَا مَعَ كُلِّ أَمْرٍ تُنْكِرُونَه غِيَراً

هوان الدنيا

أَلَا وإِنَّ هَذِه الدُّنْيَا الَّتِي أَصْبَحْتُمْ تَتَمَنَّوْنَهَا - وتَرْغَبُونَ فِيهَا وأَصْبَحَتْ تُغْضِبُكُمْ وتُرْضِيكُمْ - لَيْسَتْ بِدَارِكُمْ ولَا مَنْزِلِكُمُ الَّذِي خُلِقْتُمْ لَه - ولَا الَّذِي دُعِيتُمْ إِلَيْه - أَلَا وإِنَّهَا لَيْسَتْ بِبَاقِيَةٍ لَكُمْ ولَا تَبْقَوْنَ عَلَيْهَا - وهِيَ وإِنْ غَرَّتْكُمْ مِنْهَا فَقَدْ حَذَّرَتْكُمْ شَرَّهَا - فَدَعُوا غُرُورَهَا لِتَحْذِيرِهَا وأَطْمَاعَهَا لِتَخْوِيفِهَا - وسَابِقُوا فِيهَا إِلَى الدَّارِ الَّتِي دُعِيتُمْ إِلَيْهَا - وانْصَرِفُوا بِقُلُوبِكُمْ عَنْهَا - ولَا يَخِنَّنَّ أَحَدُكُمْ خَنِينَ الأَمَةِ عَلَى مَا زُوِيَ عَنْه مِنْهَا - واسْتَتِمُّوا نِعْمَةَ اللَّه عَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ عَلَى طَاعَةِ اللَّه

والْمُحَافَظَةِ عَلَى مَا اسْتَحْفَظَكُمْ مِنْ كِتَابِه - أَلَا وإِنَّه لَا يَضُرُّكُمْ تَضْيِيعُ شَيْءٍ مِنْ دُنْيَاكُمْ - بَعْدَ حِفْظِكُمْ قَائِمَةَ دِينِكُمْ - أَلَا وإِنَّه لَا يَنْفَعُكُمْ بَعْدَ تَضْيِيعِ دِينِكُمْ شَيْءٌ -

احکام کے مطابق قدم آگے بڑھائو اور میں جہاں روک دوں وہاںرک جائو۔اور خبردار کسی مسئلہ میں بھی تحقیق کے بغیر جلد بازی سے کام نہ لینا کہ مجھے جن باتوں کاتم انکار کرتے ہوان میں غیر معمولی انقلاب کا اندیشہ رہتا ہے ۔

یاد رکھو! یہ دنیا جس کی تم آرزو کر رہے ہو اور اورجس میں تم رغبت کا اظہار کر رہے ہو اور جو کبھی کبھی تم سے عداوت کرتی ہے اور کبھی تمہیں خوش کر دیتی ہے۔ یہ تمہاراواقعی گھر اور تمہاری واقعی منزل نہیں ہے جس کے لئے تمہیں خلق کیا گیا ہے اور جس کی طرف تمہیں دعوت دی گئی ہے اور پھر یہ باقی رہنے والی بھی نہیں ہے اور تم بھی اس میں باقی رہنے والے نہیں ہو۔یہ اگر کبھی دھوکہ دیتی ہے تو دوسرے وقت اپنے شر سے ہوشیار بھی کردیتی ہے۔لہٰذا اس کے دھوکہ سے بچواوراس کی تنبیہ پرعمل کرو۔اس کی لالچ کو نظر اندازکرو اور اس کی تخویف کاخیال رکھو۔اس میں رہ کر اس گھر کی طرف سبقت کرو' جس کی تمہیں دعوت دی گئی ہے۔اوراپنے دلوں کا رخ اس کی طرف سے موڑ لو اورخبر دار تم میںسے کوئی بھی شخص اس کی کسی نعمت سے محرومی کی بنا پرکنیزوں کی طرح رونے نہ بیٹھ جائے۔اللہ سے اس کی نعمتوں کی تکمیل کامطالبہ کرو اس کی اطاعت پر صبر کرنے اور اس کی کتاب کے احکام کی مخافظت کرنے کے ذریعہ۔

یاد رکھو اگر تم نے دین کی بنیادکو محفوظ کردیا تو دنیا کی کسی شے کی بربادی بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور اگر تم نے دین کو برباد کردیا تو دنیا میں کسی شے

۳۱۵

حَافَظْتُمْ عَلَيْه مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ - أَخَذَ اللَّه بِقُلُوبِنَا وقُلُوبِكُمْ إِلَى الْحَقِّ - وأَلْهَمَنَا وإِيَّاكُمُ الصَّبْرَ!

(۱۷۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معنى طلحة بن عبيد الله

وقد قاله حين بلغه خروج طلحة والزبير إلى البصرة لقتاله

قَدْ كُنْتُ ومَا أُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ - ولَا أُرَهَّبُ بِالضَّرْبِ - وأَنَا عَلَى مَا قَدْ وَعَدَنِي رَبِّي مِنَ النَّصْرِ - واللَّه مَا اسْتَعْجَلَ مُتَجَرِّداً لِلطَّلَبِ بِدَمِ عُثْمَانَ - إِلَّا خَوْفاً مِنْ أَنْ يُطَالَبَ بِدَمِه لأَنَّه مَظِنَّتُه - ولَمْ يَكُنْ فِي الْقَوْمِ أَحْرَصُ عَلَيْه مِنْه - فَأَرَادَ أَنْ يُغَالِطَ بِمَا أَجْلَبَ فِيه - لِيَلْتَبِسَ الأَمْرُ ويَقَعَ الشَّكُّ -. ووَ اللَّه مَا صَنَعَ فِي أَمْرِ عُثْمَانَ وَاحِدَةً مِنْ ثَلَاثٍ - لَئِنْ كَانَ ابْنُ عَفَّانَ ظَالِماً كَمَا كَانَ يَزْعُمُ - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه

کی حفاظت بھی فائدہ نہیں دے سکتی ہے ۔اللہ ہم سب کے دل کو حق کے راستہ پر لگا دے اور سب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔

(۱۷۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(طلحہ بن عبید اللہ کے بارے میں جب آپ کو خبر دی گئی کہ طلحہ و زبیر جنگ کے لئے بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے ہیں )

مجھے کسی زمانہ میں بھی نہ جنگ سے مرعوب کیا جا سکا ہے اور نہ حرب و ضرب سے ڈرایا جا سکا ہے۔میں اپنے پروردگار کے وعدہ نصرت پرمطمئن ہوں اور خدا کی قسم اس شخص(۱) نے خون عثمان کے مطالبہ کے ساتھ تلوار کھینچنے میں صرف اس لئے جلد بازی سے کام لیا ہے کہ کہیں اسی سے اس خون کا مطالبہ نہ کردیا جائے کہ اس امر کا گمان غالب ہے اور قوم میں اس سے زیادہ عثمان کے خون کا پیاسا کوئی نہ تھا۔اب یہ اس فوج کشی کے ذریعہ لوگوں کو مغالطہ میں رکھنا چاہتا ہے اور مسئلہ کو مشتبہ اورمشکوک بنا دینا چاہتا ہے حالانکہ خدا گواہ ہے کہ عثمان کے معاملہ میں اس کا معاملہ تین حال سے خالی نہیں تھا۔اگرعثمان ظالم تھا جیسا کہ اس کا اپنا خیال تھا تواس کا

(۱)مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ عثمان کے آخر دورحیات میں ان کے قاتلوں کا اجتماع طلحہ کے گھرمیں ہوا کرتا تھا اور امیرالمومنین ہی نے اس راز کا انکشاف کیا تھا اس کے بعد طلحہ ہی نے جنازہ پر تیر برسائے تھے اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا تھا لیکن چار دن کے بعد یہی ظالم خون عثمان کا وارث بن گیا اور عثمان کے واقعی محسن کو ان کے خون کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کو سوچنے کا موقع مل جائے اور بنی امیہ طلحہ سے انتقام لینے کے لئے تیار ہو جائیں اور یہ طریقہ ہرشاطر سیاست کارکا ہوتا ہے کہ وہ مسائل کو اس طرح مشتبہ بنا دیناچاہتا ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ ہونے پائے ۔چاہے اس راہ میں اپنے سفارت کاروں ہی کو کیوں نہ قربان کرنا پڑے؟

۳۱۶

أَنْ يُوَازِرَ قَاتِلِيه - وأَنْ يُنَابِذَ نَاصِرِيه -. ولَئِنْ كَانَ مَظْلُوماً - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُنَهْنِهِينَ عَنْه - والْمُعَذِّرِينَ فِيه - ولَئِنْ كَانَ فِي شَكٍّ مِنَ الْخَصْلَتَيْنِ - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه أَنْ يَعْتَزِلَه - ويَرْكُدَ جَانِباً ويَدَعَ النَّاسَ مَعَه - فَمَا فَعَلَ وَاحِدَةً مِنَ الثَّلَاثِ - وجَاءَ بِأَمْرٍ لَمْ يُعْرَفْ بَابُه ولَمْ تَسْلَمْ مَعَاذِيرُه

(۱۷۵)

من خطبة لهعليه‌السلام

في الموعظة وبيان قرباه من رسول اللَّه

أَيُّهَا النَّاسُ غَيْرُ الْمَغْفُولِ عَنْهُمْ - والتَّارِكُونَ الْمَأْخُوذُ مِنْهُمْ - مَا لِي أَرَاكُمْ عَنِ اللَّه ذَاهِبِينَ وإِلَى غَيْرِه رَاغِبِينَ - كَأَنَّكُمْ نَعَمٌ أَرَاحَ بِهَا سَائِمٌ إِلَى مَرْعًى وَبِيٍّ ومَشْرَبٍ دَوِيٍّ - وإِنَّمَا هِيَ كَالْمَعْلُوفَةِ لِلْمُدَى لَا تَعْرِفُ مَا ذَا يُرَادُ بِهَا - إِذَا أُحْسِنَ إِلَيْهَا تَحْسَبُ يَوْمَهَا دَهْرَهَا وشِبَعَهَا أَمْرَهَا

فرض تھا کہ قاتلوں کی مدد کرتا اور عثمان کے مدد گاروں کو ٹھکرا دیتا اور اگروہ مظلوم تھا تو اس کا فرض تھا کہ اس کے قتل سے روکنے والوں اور اس کی طرف سے معذرت کرنے والوں میں شامل ہو جاتا اور اگر یہ دونوں باتیں مشکوک تھیں تو اس کے لئے مناسب تھاکہ اس معاملہ سے الگ ہوکرایک گوشہ میں بیٹھ جاتا اور انہیں قوم کے حوالہ کر دیتا لیکن اس نے ان تین میں سے کوئی بھی طریقہ اختیارنہیں کیا اور ایسا طریقہ اختیار کیا جس کی صحت کا کوئی جواز نہیں تھا اوراس کی معذرت کاکوئی راستہ نہیں تھا۔

(۱۷۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

( جس میں موعظت کے ساتھ رسول اکرم (ص) سے قرابت کا ذکر کیا گیا ہے)

ا ے وہ غافلو جن کی طرف سے غفلت نہیں برتی جا سکتی ہے اوراے چھوڑ دینے والو جن کو چھوڑا نہیں جاسکتا ہے۔مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں اللہ سے دور بھاگتے ہوئے اور غیر خدا کی رغبت کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔گویا تم وہ اونٹ ہو جن کا چرواہا ایک ہلاک کردینے والی چراگاہ اور تباہ کردینے والے گھاٹ پر لے آیا ہو یا وہ چوپایہ ہو جسے چھریوں کے لئے پالا گیا ہے کہ اسے نہیں معلوم ہے کہ اس کے ساتھ برتائو کا واقعی مقصد کیا ہے اورجب اچھا برتاو کیا جاتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ ایک دن ہی سارا زمانہ ہے اور یہ شکم سیری ہی کل کام ہے۔

۳۱۷

واللَّه لَوْ شِئْتُ أَنْ أُخْبِرَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْكُمْ - بِمَخْرَجِه ومَوْلِجِه وجَمِيعِ شَأْنِه لَفَعَلْتُ - ولَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَكْفُرُوا فِيَّ بِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

أَلَا وإِنِّي مُفْضِيه إِلَى الْخَاصَّةِ مِمَّنْ يُؤْمَنُ ذَلِكَ مِنْه - والَّذِي بَعَثَه بِالْحَقِّ واصْطَفَاه عَلَى الْخَلْقِ - مَا أَنْطِقُ إِلَّا صَادِقاً - وقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ بِذَلِكَ كُلِّه وبِمَهْلِكِ مَنْ يَهْلِكُ - ومَنْجَى مَنْ يَنْجُو ومَآلِ هَذَا الأَمْرِ - ومَا أَبْقَى شَيْئاً يَمُرُّ عَلَى رَأْسِي إِلَّا أَفْرَغَه فِي أُذُنَيَّ - وأَفْضَى بِه إِلَيَّ.

أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي واللَّه مَا أَحُثُّكُمْ عَلَى طَاعَةٍ - إِلَّا وأَسْبِقُكُمْ إِلَيْهَا - ولَا أَنْهَاكُمْ عَنْ مَعْصِيَةٍ إِلَّا وأَتَنَاهَى قَبْلَكُمْ عَنْهَا..

خدا کی قسم میں چاہوں تو ہر شخص کواس کے داخل اور خارج ہونے کی منزل سے آگاہ کر سکتا ہوں اور جملہ حالات کو بتا سکتا ہوں۔لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم مجھ میں گم ہو کر رسول اکرم (ص) کا انکار نہ کردو اور یاد رکھو کہ میں ان باتوں سے ان لوگوں کو بہر حال آگاہ کردوں گا جن سے گمراہی کاخطرہ نہیں ہے۔ قسم ہے اس ذات اقدس کی جس نے انہیں حق کے ساتھ بھیجا ہے اورمخلوقات میں منتخب قرار دیا ہے کہ میں سوائے سچ کے کوئی کلام نہیں کرتا ہو۔انہوں نے یہ ساری باتیں مجھے بتا دی ہیں اور ہر ہلاک ہونے والے کی ہلاکت اور نجات پانے والے کی نجات کا راستہ بھی بتا دیا ہے اور اس امر خلافت کے انجام سے بھی با خبر کردیا ہے اور کوئی ایسی شے نہیں ہے جو میرے سر سے گزرنے والی ہو اور اسے میرے کانوں میں نہ ڈال دیا ہو اور مجھ تک پہنچا نہ دیا ہو۔

لوگو!خا گواہ ہے کہ میں تمہیں کسی اطاعت پرآمادہ نہیں کرتا ہوں مگر پہلے خود سبقت کرتا ہوں اور کسی معصیت سے نہیں روکتا ہوں مگر یہ کہ پہلے خود اس سے باز رہتا ہوں۔

۳۱۸

(۱۷۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يعظ ويبين فضل القرآن وينهى عن البدعة

عظة الناس

انْتَفِعُوا بِبَيَانِ اللَّه واتَّعِظُوا بِمَوَاعِظِ اللَّه - واقْبَلُوا نَصِيحَةَ اللَّه - فَإِنَّ اللَّه قَدْ أَعْذَرَ إِلَيْكُمْ بِالْجَلِيَّةِ واتَّخَذَ عَلَيْكُمُ الْحُجَّةَ - وبَيَّنَ لَكُمْ مَحَابَّه مِنَ الأَعْمَالِ ومَكَارِهَه مِنْهَا - لِتَتَّبِعُوا هَذِه وتَجْتَنِبُوا هَذِه - فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَانَ يَقُولُ - إِنَّ الْجَنَّةَ حُفَّتْ بِالْمَكَارِه - وإِنَّ النَّارَ حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ.

واعْلَمُوا أَنَّه مَا مِنْ طَاعَةِ اللَّه شَيْءٌ إِلَّا يَأْتِي فِي كُرْه - ومَا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّه شَيْءٌ إِلَّا يَأْتِي فِي شَهْوَةٍ - فَرَحِمَ اللَّه امْرَأً نَزَعَ عَنْ شَهْوَتِه وقَمَعَ هَوَى نَفْسِه - فَإِنَّ هَذِه النَّفْسَ أَبْعَدُ شَيْءٍ مَنْزِعاً - وإِنَّهَا لَا تَزَالُ

(۱۷۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں موعظہ کے ساتھ قرآن کے فضائل اوربدعتوں سے مانعت کاتذکرہ کیا گیا ہے )

(قرآن حکیم)

دیکھو پروردگار کے بیان سے فائدہ اٹھائو اور اس کے مواعظ سے نصیحت حاصل کرو اور اس کی نصیحت کوقبول کرو کہ اس نے واضح بیانات کی ذریعہ تمہارے ہر عذرکوختم کردیاہے اورتم پرحجت تمام کردی ہے تمہارے لئے اپنے محبوب اورنا پسندیدہ تمام اعمال کی وضاحت کردی ہے تاکہ تم ایک قسم کا اتباع کرواوردوسری سے اجتناب کرو کہ رسول اکرم (ص) برابر یہ فرمایا کرتے تھے کہ جنت ناگواریوں(۱) میں گھیردی گئی ہے اورجہنم کو خواہشات کے گھیرے میں ڈال دیا گیا ہے۔

یاد رکھو کہ خدا کی کوئی اطاعت ایسی نہیں ہے جس میں ناگواری کی شکل نہ ہو اور اس کی کوئی معصیت ایسی نہیں ہے جس میں خواہش کا کوئی پہلو نہ ہو۔اللہ اس بندہ پر رحمت نازل کرے جوخواہشات سے الگ ہوجائے اورنفس کے ہوا و ہوس کو اکھاڑ کر پھینک دے کہ یہ نفس خواہشات میں بہت دور تک کھینچ جانے والا ہے اور یہ ہمیشہ

(۱)ان نا گواریوں اور دشواریوں سے مراد صرف عبادات نہیں ہیں کہ وہ صرف کاہل اوربے دین افراد کے لئے دشوار ہیں ورنہ سنجیدہ اوردیندار افراد ان میں لذت اور راحت ہی کا احساس کرتے ہیں۔درحقیقت ان دشواریوں سے مراد وہ جہاد ہے جس میں ہر راہ حیات میں ساری توانائیوں کو خرچ کرنا پڑتا ہے اور ہر طرح کی زحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیساکہ سورہ ٔ مبارکہ توبہ میں اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ نے صاحبان ایمان کے جان و مال کو خرید لیا ہے اورانہیں جنت دیدی ہے۔یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمن کو تہ تیغ کرنے کے ساتھ خودبھی شہیدہوجاتے ہیں۔

۳۱۹

تَنْزِعُ إِلَى مَعْصِيَةٍ فِي هَوًى.

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه أَنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يُصْبِحُ ولَا يُمْسِي - إِلَّا ونَفْسُه ظَنُونٌ عِنْدَه - فَلَا يَزَالُ زَارِياً عَلَيْهَا ومُسْتَزِيداً لَهَا - فَكُونُوا كَالسَّابِقِينَ قَبْلَكُمْ والْمَاضِينَ أَمَامَكُمْ - قَوَّضُوا مِنَ الدُّنْيَا تَقْوِيضَ الرَّاحِلِ وطَوَوْهَا طَيَّ الْمَنَازِلِ.

فضل القرآن

واعْلَمُوا أَنَّ هَذَا الْقُرْآنَ هُوَ النَّاصِحُ الَّذِي لَا يَغُشُّ - والْهَادِي الَّذِي لَا يُضِلُّ والْمُحَدِّثُ الَّذِي لَا يَكْذِبُ - ومَا جَالَسَ هَذَا الْقُرْآنَ أَحَدٌ إِلَّا قَامَ عَنْه بِزِيَادَةٍ أَوْ نُقْصَانٍ - زِيَادَةٍ فِي هُدًى أَوْ نُقْصَانٍ مِنْ عَمًى –

واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ عَلَى أَحَدٍ بَعْدَ الْقُرْآنِ مِنْ فَاقَةٍ - ولَا لأَحَدٍ قَبْلَ الْقُرْآنِ مِنْ غِنًى - فَاسْتَشْفُوه مِنْ أَدْوَائِكُمْ - واسْتَعِينُوا بِه عَلَى لأْوَائِكُمْ - فَإِنَّ فِيه شِفَاءً مِنْ أَكْبَرِ الدَّاءِ - وهُوَ الْكُفْرُ والنِّفَاقُ والْغَيُّ والضَّلَالُ - فَاسْأَلُوا اللَّه بِه وتَوَجَّهُوا إِلَيْه بِحُبِّه - ولَا تَسْأَلُوا بِه

گناہوں کی خواہش ہی کی طرف کھینچتا رہتا ہے ۔

بندگان خدا ! یاد رکھو کہ مردمومن ہمیشہ صبح و شام اپنے نفس سے بدگمان ہی رہتا ہے اوراس سے ناراض ہی رہتا ہے اور ناراضگی میں اضافہ ہی کرتا رہتا ہے لہٰذا تم بھی اپنے پہلے والوں کے مانند ہو جائو جو تمہارے آگے آگے جا رہے ہیں کہ انہوں نے دنیا سے اپنے خیمہ ڈیرہ کو اٹھا لیا ہے اورایک مسافر کی طرح دنیاکی منزلوں کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے ہیں۔

یاد رکھو کہ یہ قرآن وہ ناصح ہے جودھوکہ نہیں دیتاہے اور وہ ہادی ہے جوگمراہ نہیں کرتا ہے۔وہ بیان کرنے والا ہے جو غلط بیانی سے کام لینے والا نہیں ہے۔کوئی شخص اس کے پاس(۱) نہیں بیٹھتاہے مگر یہ کہ جب اٹھتا ہے توہدایت میں اضافہ کر لیتا ہے یا کم سے کم گمراہی میں کمی کر لیتا ہے۔

یاد رکھو! قرآن کے بعد کوئی کسی کا محتاج نہیں ہو سکتاہے اور قرآن سے پہلے کوئی بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے ۔اپنی بیماریوں میں اس سے شفا حاصل کرواور اپنی مصیبتوں میں اس سے مدد مانگو کہ اس میں بد ترین بیماری کفرو نفاق اورگمراہی و بے راہ روی کا علاج بھی موجود ہے۔اس کے ذریعہ اللہ سے سوال کرو اوراس کی محبت کے وسیلہ سے اس کی طرف رخ کرو اوراس کے ذریعہ

(۱)کتنی حسین ترین تعبیر ہے تلاوت قرآن اور فہم قرآن کی کہ انسان قرآن کے ساتھ اس طرح رہے جس طرح کوئی شخص اپنے ہم نشین کے ساتھ بیٹھتا ہے اور اس سے مانوس رہتا ہے اورجس کے نتیجہ میں جمال ہم نشین سے متاثر ہوتا ہے۔مسلمانوں کاتعلق صرف قرآن مجید کے الفاظ سے نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے معانی سے ہوتا ہے تاکہ اس کے مفاہیم سے آشنا ہو سکے اور اس کے تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکے۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863