نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656907 / ڈاؤنلوڈ: 15924
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

خندق کھورنے لگے امیر المؤمنین کھدی ہوئی مٹی کو خندق سے نکال کر باہر لے جار رہے تھے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اتنا کام کیا کہ پسینہ سے تر ہوگئے اور تھکاوٹ کے آثار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ سے نمایاں تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''لا عیش لا عیش الاخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرین '' (۱)

آخرت کے آرام کے سوا اور کوئی آرام نہیں ہے اے اللہ مہاجرین و انصار کی مغفرت فرما_

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بہ نفس نفیس خندق کھودنے اور مٹی اٹھانے میں منہمک میں تو ان کو اور زیادہ جوش سے کام کرنے لگے_

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں : خندق کھودتے کھودتے ہم ایک بہت ہی سخت جگہ پر پہونچے ہم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اب کیا کیا جائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : وہاں تھوڑا پانی ڈال دو اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں خود تشریف لائے حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھو کے بھی تھے اور پشت پر پتھر باندھے ہوئے تھے لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین مرتبہ خدا کا نام زبان پر جاری کرنے کے بعد اس جگہ پر ضرب لگائی تو وہ جگہ بڑی آسانی سے کھد گئی_(۲)

عمرو بن عوف کہتے ہیں کہ میں اور سلمان اور انصار میں سے چند افراد مل کر چالیس ہاتھ کے قریب زمین کھود رہے تھے ایک جگہ سخت پتھر آگیا جس کی وجہ سے ہمارے آلات ٹوٹ

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲ ص ۲۱۸) _

۲ (بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۱۸۱

گئے ہم نے سلمان سے کہا تم جاکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ماجرا بیان کردو سلمان نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سارا واقعہ بیان کردیاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود تشریف لائے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند ضربوں میں پتھر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا _(۱)

کھانا تیار کرنے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت

جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اصحاب اپنی سواریوں سے اترے اور اپنا سامان اتار لیا تو یہ طے پایا کہ بھیڑ کو ذبح کرکے کھانا تیار کیا جائے _

اصحاب میں سے ایک نے کہا گوسفند ذبح کرنے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے ، دوسرے نے کہا اس کی کھال میں اتاروں گا ، تیسرے نے کہا گوشت میں پکاؤں گا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جنگل سے لکڑی لانے کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زحمت نہ فرمائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آرام سے بیٹھیں ان سارے کاموں کو ہم لوگ فخر کے ساتھ انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ سارا کام کرلو گے لیکن خدا کسی بندہ کو اس کے دوستوں کے درمیان امتیازی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتا _پھر اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحرا کی جانب گئے اور وہاں سے لکڑی و غیرہ جمع کرکے لے آئے _(۲)

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۲) ( داستان راستان منقول از کحل البصر ص ۶۸)_

۱۸۲

شجاعت کے معنی :

شجاعت کے معنی دلیری اور بہادری کے ہیں علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے یہ ایک ایسی غصہ والی طاقت ہے جس کے ذریعہ نفس اس شخص پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے دشمنی ہوجاتی ہے _(۱)

جب میدان کا رزار گرم ہو اور خطرہ سامنے آجائے تو کسی انسان کی شجاعت اور بزدلی کا اندازہ ایسے ہی موقع پر لگایا جاتا ہے _

شجاعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

صدر اسلام میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تاریخ کی گواہی کے مطابق اس میں کامیابی کی بہت بڑی وجہ حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت تھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس بہت سی جنگوں میں موجود تھے اور جنگ کی کمان اپنے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تھے _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت علیعليه‌السلام کی زبانی :

تقریبا چالیس سال کا زمانہ علیعليه‌السلام نے میدان جنگ میں گذارا عرب کے بڑے بڑے

___________________

۱) (لغت نامہ دہخدا مادہ شجاعت)

۱۸۳

پہلوانوں کو زیر کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ بیان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کی بہترین دلیل ہے کہ آپعليه‌السلام فرماتا ہیں :

''کنا اذا احمر الباس و القی القوم اتقینا برسول الله فما کان احد اقرب الی العدو منه'' (۱)

جب جنگ کی آگ بھڑکتی تھی اور لشکر آپس میں ٹکراتے تھے تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لیتے تھے ایسے موقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک ہوئے تھے_

دوسری جگہ فرماتے ہیں :

''لقد رایتنی یوم بدر و نحن نلوذ بالنبی و هو اقربنا الی العدو و کان من اشد الناس یومئذ'' (۲)

بے شک تم نے مجھ کو جنگ بدر کے دن دیکھا ہوگا اس دن ہم رسول خدا کی پناہ میں تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک اور لشکر میں سب سے زیادہ قوی تھے_

جنگ '' حنین '' میں براء بن مالک سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کے بارے میں دوسری روایت نقل ہوئے ہے جب قبیلہ قیس کے ایک شخص نے براء سے پوچھا کہ کیا تم جنگ حنین کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تم نے ان کی مدد نہیں کی

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳) _

۲) ( الوفا باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۴

تھی ؟ تو انہوں نے کہا :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محاذ جنگ سے فرار نہیں اختیار کیا قبیلہ '' ہوازان '' کے افراد بڑے ماہر تیرانداز تھے _ ابتداء میں جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے فرار اختیار کیا _ جب ہم نے یہ ماحول دیکھا تو ہم مال غنیمت لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے ، اچانک انہوں نے ہم پر تیروں سے حملہ کردیا ہیں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ وہ سفید گھوڑے پر سوارہیں_ ابو سفیان بن حارث نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما رہے ہیں :

''اناالنبی لا کذب و انا بن عبدالمطلب'' (۱)

میں راست گو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں میں فرزند عبدالمطلب ہوں _

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۵

خلاصہ درس :

۱ _ باہمی امداد اور تعاون معاشرتی زندگی کی اساس ہے اس سے افراد قوم کے دلوں میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے _

۲ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف باہمی تعاون کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے کام میں خود بھی شریک ہوجاتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل سے باہمی تعاون کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے _

۳_شجاعت کے معنی میدان کار زار میں دلیری اور بہادری کے مظاہرہ کے ہیں اور علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے _

۴_ تاریخ گواہ ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ہیں ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور استقامت فتح کا سب سے اہم سبب تھا_

۵_ امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جنگ بدر کے دن ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لے لی اور وہ دشمنوں کے سب سے زیادہ قریب تھے اور اس دن تمام لوگوں میں سے سب زیادہ قوی اور طاقت ور تھے_

۱۸۶

سوالات :

۱_ باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کی اہمیت کو ایک روایت کے ذریعے بیان کیجئے؟

۲_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ابوطالب کے ساتھ کس زمانہ اور کس چیز میں تعاون تھا ؟

۳ _ وہ امور جن کا تعلق معاشرتی امور سے تھا ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا روش تھی مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۴_ شجاعت کا کیا مطلب ہے ؟

۵_ علمائے اخلاق نے شجاعت کی کیا تعریف کی ہے ؟

۶_ جنگوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کیا تھی ؟ بیان کیجئے؟

۱۸۷

تیرہواں سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بخشش و عطا )

دین اسلام میں جس صفت اور خصلت کی بڑی تعریف کی گئی ہے اور معصومینعليه‌السلام کے اقوال میں جس پر بڑا زور دیا گیا ہے وہ جود و سخا کی صفت ہے _

سخاوت عام طور پر زہد اور دنیا سے عدم رغبت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اور یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء کرامعليه‌السلام سب سے بڑے زاہد اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے افراد تھے اس بنا پر سخاوت کی صفت بھی زہد کے نتیجہ کے طور پر ان کی ایک علامت اور خصوصیت شمار کی جاتی ہے _

اس خصوصیت کا اعلی درجہ یعنی ایثار تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصاً پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ما جبل الله اولیائه الا علی السخا ء و حسن الخلق'' (۱)

___________________

۱) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی )_

۱۸۸

سخاوت اور حسن خلق کی سرشت کے بغیر خدا نے اپنے اولیاء کو پیدا نہیں کیا ہے _

سخاوت کی تعریف :

سخاوت یعنی مناسب انداز میں اس طرح فائدہ پہونچانا کہ اس سے کسی غرض کی بونہ آتی ہو اور نہ اس کے عوض کسی چیز کا تقاضا ہو(۱)

اسی معنی میں سخی مطلق صرف خدا کی ذات ہے جس کی بخشش غرض مندی پر مبنی نہیں ہے انبیاءعليه‌السلام خدا '' جن کے قافلہ سالار حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب اور اخلاق الہی سے مزین ہیں'' سخاوت میں تمام انسانوں سے نمایان حیثیت کے مالک ہیں _

علماء اخلاق نے نفس کے ملکات اور صفات کو تقسیم کرتے ہوئے سخاوت کو بخل کا مد مقابل قرار دیا ہے اس بنا پر سخاوت کو اچھی طرح پہچاننے کے لئے اس کی ضد کو بھی پہچاننا لازمی ہے _

مرحوم نراقی تحریر فرماتے ہیں :'' البخل هو الامساک حیث ینبغی البذل کما ان الاسراف هو البذل حیث ینبغی الامساک و کلا هما مذمومان و المحمود هو الوسط و هو الجود و السخا ء'' (۲) بخشش کی جگہ پر بخشش و عطا

___________________

۱) ( فرہنگ دہخدا ، منقول از کشاف اصطلاحات الفنون)_

۲) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت)_

۱۸۹

نہ کرنا بخل ہے اور جہاں بخشش کی جگہ نہیں ہے وہاں بخشش و عطا سے کام لینا اسراف ہے یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ میں ان میں سے نیک صفت وہ ہے جو درمیانی ہے اور وہ ہے جودوسخا_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن نے کہا ہے :

( لا تجعل یدک مغلولة الی عنقک و لا تبسطها کل البسط فتقعد ملوما محسورا ) (۱)

اپنے ہاتھوں کو لوگوں پر احسان کرنے میں نہ تو بالکل بندھا ہوا رکھیں اور نہ بہت کھلا ہوا ان میں سے دونوں باتیں مذمت و حسرت کے ساتھ بیٹھے کا باعث ہیں _

اپنے اچھے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :

( و الذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا و کان بین ذالک قواما ) (۲)

اور وہ لوگ جو مسکینوں پر انفاق کرتے وقت اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ احسان میں میانہ رو ہوتے ہیں _

مگر صرف انہیں باتوں سے سخاوت متحقق نہیں ہوتی بلکہ دل کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے مرحوم نراقی لکھتے ہیں :''و لا یکفی فی تحقق الجود و السخا ان یفعل

___________________

۱) ( الاسراء ۲۹) _

۲) (فرقان ۶۷) _

۱۹۰

ذلک بالجوارح ما لم یکن قلبه طیبا غیر منازع له فیه'' (۱) سخاوت کے تحقق کیلئے صرف سخاوت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دل کا بھی اس کام پر راضی ہونا اور نزاع نہ کرنا ضروری ہے _

سخاوت کی اہمیت :

اسلام کی نظر میں سخاوت ایک بہترین اور قابل تعریف صفت ہے اس کی بہت تاکید بھی کی گئی ہے نمونہ کے طور پر اس کی قدر و قیمت کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں_

''السخا شجرة من شجر الجنة ، اغصانها متدلیة علی الارض فمن اخذ منها غصنا قاده ذالک الغصن الی الجنة '' (۲)

سخاوت جنت کا ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں زمین پر جھکی ہوئی ہیں جو اس شاخ کو پکڑلے وہ شاخ اسے جنت تک پہونچا دے گی _

''قال جبرئیل: قال الله تعالی : ان هذا دین ارتضیته لنفسی و لن یصلحه الا السخاء و حسن الخلق فاکرموه بهما ما استطعم '' (۳)

___________________

۱) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت )_

۲) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی ) _

۳) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷ فیض کاشانی ) _

۱۹۱

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خدا سے نقل کیا ہے کہ خداوند فرماتا ہے : اسلام ایک ایسا دین ہے جس کو میں نے اپنے لیئے منتخب کر لیا ہے اس میں جود و سخا اور حسن خلق کے بغیر بھلائی نہیں ہے پس اس کو ان دو چیزوں کے ساتھ ( سخاوت او حسن خلق ) جہاں تک ہوسکے عزیز رکھو _

''تجافوا عن ذنب السخی فان الله آخذ بیده کلما عثر'' (۱) سخی کے گناہوں کو نظر انداز کردو کہ خدا ( اس کی سخاوت کی وجہ سے ) لغزشوں سے اس کے ہاتھ روک دیتا ہے _

سخاوت کے آثار :

خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب چیز ہے کہ بہت سی جگہوں پر اس نے سخاوت کی وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے ساتھ مدارات کا حکم دیا ہے_

۱ _ بہت بولنے والا سخی

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ یمن سے ایک وفدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کیلئے آیا ان میں ایک ایسا بھی شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بڑی باتیں اور جدال کرنے والا شخص تھا اس نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ غصہ کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابرو اور چہرہ سے پسینہ ٹپکنے لگا _

___________________

۱) (جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۷ مطبوعہ بیروت )_

۱۹۲

اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سلام کہا ہے اور ارشاد فرمایا: کہ یہ شخص ایک سخی انسان ہے جو لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے _ یہ بات سن کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ کم ہوگیا اس شخص کی طرف مخاطب ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر جبرئیل نے مجھ کو یہ خبر نہ دی ہوتی کہ تو ایک سخی انسان ہے تو میں تیرے ساتھ بڑا سخت رویہ اختیار کرتا ایسا رویہ جس کی بنا پر تودوسروں کے لئے نمونہ عبرت بن جاتا _

اس شخص نے کہا : کہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا سخاوت کو پسند کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا : ہاں ، اس شخص نے یہ سن کے کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کیا اور کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں نے آج تک کسی کو اپنے مال سے محروم نہیں کیا ہے(۱)

۲_سخاوت روزی میں اضافہ کا سبب ہے :

مسلمانوں میں سخاوت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ روزی کے معاملہ میں خدا پر توکل کرتے ہیں جو خدا کو رازق مانتا ہے اور اس بات کا معتقد ہے کہ اس کی روزی بندہ تک ضرور پہنچے گی وہ بخشش و عطا سے انکار نہیں کرتا اس لئے کہ اس کو یہ معلوم ہے کہ خداوند عالم اس کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا _

انفاق اور بخشش سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معراج کے واقعات بتاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے_

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۲ ص ۸۴)_

۱۹۳

''و رایت ملکین ینادیان فی السماء احدهما یقول : اللهم اعط کل منفق خلفا و الاخر یقول : اللهم اعط کل ممسک تلفا'' (۱)

میں نے آسمان پر دو فرشتوں کو آواز دیتے ہوئے دیکھا ان میں سے ایک کہہ رہا تھا خدایا ہر انفاق کرنے والے کو اس کا عوض عطا کر _ دوسرا کہہ رہا تھا ہر بخیل کے مال کو گھٹادے _

دل سے دنیا کی محبت کو نکالنا :

بخل کے مد مقابل جو صفت ہے اس کا نام سخاوت ہے _ بخل کا سرچشمہ دنیا سے ربط و محبت ہے اس بنا پر سخاوت کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے اندر دنیا کی محبت ختم ہوجاتی ہے _ اس کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے اور اس جگہ حقیقی محبوب کا عشق سماجاتا ہے _

اصحاب کی روایت کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سخاوت

جناب جابر بیان کرتے ہیں :

''ما سئل رسول الله شیئا قط فقال : لا'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' نہیں '' نہیں فرمایا _

امیرالمؤمنینعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں ہمیشہ فرمایا کرتے تھے :

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۱۸ ص ۳۲۳) _

۲) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۱) _

۱۹۴

'' کان اجود الناس کفا و اجرا الناس صدرا و اصدق الناس لهجةو اوفاهم ذمة و الینهم عریکهة و اکرمهم عشیرة من راه بدیهة هابه و من خالطه معرفة احبه لم ارقبله و بعده مثله '' (۱)

بخشش و عطا میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ سب سے زیادہ کھلے ہوئے تھے_ شجاعت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ تھا ، آپ کی زبان سب سے زیادہ سچی تھی ، وفائے عہد کی صفت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سب سے زیادہ موجود تھی ، تمام انسانوں سے زیادہ نرم عادت کے مالک تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان تمام خاندانوں سے زیادہ بزرگ تھا ، آپ کو جو دیکھتا تھا اسکے اوپر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور جب کوئی معرفت کی غرض سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بیٹھتا تھا وہ اپنے دل میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت لیکر اٹھتا تھا _ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے یا آپ کے بعد کسی کو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا نہیں پایا _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقبول کی یہ صفت تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو بھی ملتا تھا وہ عطا کردیتے تھے اپنے لئے کوئی چیز بچاکر نہیں رکھتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے نوے ہزار درہم لایا گیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان درہموں کو تقسیم کردیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی ساءل کو واپس نہیں کیا جب تک اسے فارغ نہیں کیا _(۲)

___________________

۱) ( مکارم الاخلاق ص ۱۸) _

۲) (ترجمہ احیاء علوم الدین ج ۲ ص ۷۱)_

۱۹۵

خلاصہ درس :

۱) اسلام نے جس چیز کی تاکید کی اور جس پر سیرت معصومینعليه‌السلام کی روایتوںمیں توجہ دلائی گئی ہے وہ سخاوت کی صفت ہے _

۲) تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصا ً پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صفت کے اعلی درجہ '' ایثار '' فائز تھے _

۳) سخاوت یعنی مناسب جگہوں پر اس طرح سے فائدہ پہونچانا کہ غرض مندی کی بو اس میں نہ آتی ہوا اور نہ کسی عوض کے تقاضے کی فکر ہو _

۴) سخاوت بخل کی ضد ہے بخل اور اسراف کے درمیان جو راستہ ہے اس کا نام سخاوت ہے_

۵)خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب صفت ہے کہ اس نے اپنے حبیب کو کافر سخی انسان کی عزت کرنے کا حکم دیا _

۶) انفاق اور بخشش نعمت و روزی میں اضافہ کا سبب ہے_

۷)رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو ملتا تھا اس کو بخش دیا کرتے تھے اپنے پاس بچاکر کچھ بھی نہیں رکھتے تھے_

۱۹۶

سوالات :

۱_ جود و سخاوت کا کیا مطلب ہے ؟

۲_ سب سے اعلی درجہ کی سخاوت کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے ؟

۳_قرآن کریم کی ایک آیت کے ذریعہ سخاوت کے معنی بیان کیجئے؟

۴_ سخاوت کی اہمیت اور قدر و قیمت بتانے کیلئے ایک روایت پیش کیجئے؟

۵_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جودو سخا کی ایک روایت کے ذریعے وضاحت کیجئے؟

۱۹۷

چودھواں سبق:

(سخاوت ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خداداد صفت )

ابن عباس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول نقل کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انا ادیب الله و علی ادیبی امرنی ربی بالسخاء و البر و نهانی عن البخل و الجفاء و ما شئ ابغض الی الله عزوجل من البخل و سوء الخلق و انه لیفسد العمل کما یفسد الخل العسل '' (۱)

میری تربیت خدا نے کی ہے اور میں نے علی علیہ السلام کی تربیت کی ہے ، خدا نے مجھ کو سخاوت اور نیکی کا حکم دیا ہے اور اس نے مجھے بخل اور جفا سے منع کیا ہے ، خدا کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ برا اخلاق عمل کو اسی طرح خراب کردیتا ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے _ جبیربن مطعم سے منقول ہے کہ ''حنین'' سے واپسی کے بعد ، اعراب مال غنیمت میں سے اپنا حصہ لینے کیلئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارد گرد اکھٹے ہوئے اور بھیڑ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ردا اچک لے گئے _

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۱۷_

۱۹۸

حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ردوا علی ردائی اتخشون علی البخل ؟ فلو کان لی عدد هذه العضاة ذهبا لقسمته بینکم و لا تجدونی بخیلا و لا کذابا و لا جبانا'' (۱)

میری ردا مجھ کو واپس کردو کیا تم کو یہ خوف ہے کہ میں بخل کرونگا ؟ اگر اس خار دار جھاڑی کے برابر بھی سونا میرے پاس ہو تو میں تم لوگوں کے درمیان سب تقسیم کردوں گا تم مجھ کو بخیل جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے _

صدقہ کو حقیر جاننا

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ : ایک دن ایک ساءل میرے گھر آیا ، میں نے کنیز سے کہا کہ اس کو کھانا دیدو ، کنیز نے وہ چیز مجھے دکھائی جو اس ساءل کو دینی تھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے عائشہ تم اس کو گن لوتا کہ تمہارے لئے گنا نہ جائے_(۲)

انفاق کے سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ انفاق کرنے والا اپنے اس عمل کو بڑا نہ سمجھے ورنہ اگر کوئی کسی عمل کو بہت عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اندر غرور اور خود پسندی پیدا ہوگی کہ جو اسے کمال سے دور کرتی ہے یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کو لگ جاتی ہے اس کو ہلاکت اور رسوائی تک پہونچا دیتی ہے _

___________________

۱) الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۲ _

۲) شرف النبی ج ۶۹_

۱۹۹

اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد :

'' رایت المعروف لا یصلح الابثلاث خصال : تصغیره و تستیره و تعجیله ، فانت اذا صغرته عظمته من تصنعه الیه و اذا سترته تممته و اذا عجلته هناته و ان کان غیر ذلک محقته و نکدته'' (۱)

نیک کام میں بھلائی نہیں ہے مگر تین باتوں کی وجہ سے اس کو چھوٹا سمجھنے ، چھپا کر صدقہ دینے اور جلدی کرنے سے اگر تم اس کو چھوٹا سمجھ کر انجام دو گے تو جس کے لئے تم وہ کام کررے ہو اس کی نظر میں وہ کام بڑا شمار کیا جائیگا اگر تم نے اسے چھپا کر انجام دیا تو تم نے اس کام کو کمال تک پہونچا دیا اگر اس کو کرنے میں جلدی کی تو تم نے اچھا کام انجام دیا اس کے علاوہ اگر دوسری کوئی صورت اپنائی ہو تو گویا تم نے ( اس نیک کام ) کو برباد کردیا _

اس طرح کے نمونے ائمہ کی سیرت میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں ،رات کی تاریکی میں روٹیوں کا بورا پیٹھ پر لاد کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا عمل حضرت امیرالمومنین اور معصومین علیہم السلام کی زندگی میں محتاج بیان نہیں ہے _

___________________

۱) (جامع السعادہ ج ۲ ص ۱۳۵)_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

وتُعْطِي - وعَلَى مَا تُعَافِي وتَبْتَلِي – حَمْدا يَكُونُ أَرْضَى الْحَمْدِ لَكَ - وأَحَبَّ الْحَمْدِ إِلَيْكَ وأَفْضَلَ الْحَمْدِ عِنْدَكَ.حَمْداً يَمْلأُ مَا خَلَقْتَ ويَبْلُغُ مَا أَرَدْتَ - حَمْداً لَا يُحْجَبُ عَنْكَ ولَا يُقْصَرُ دُونَكَ.

حَمْداً لَا يَنْقَطِعُ عَدَدُه ولَا يَفْنَى مَدَدُه - فَلَسْنَا نَعْلَمُ كُنْه عَظَمَتِكَ - إِلَّا أَنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ حَيٌّ قَيُّومُ - لَا تَأْخُذُكَ سِنَةٌ ولَا نَوْمٌ - لَمْ يَنْتَه إِلَيْكَ نَظَرٌ ولَمْ يُدْرِكْكَ بَصَرٌ - أَدْرَكْتَ الأَبْصَارَ وأَحْصَيْتَ الأَعْمَالَ - وأَخَذْتَ بِالنَّوَاصِي والأَقْدَامِ –

ومَا الَّذِي نَرَى مِنْ خَلْقِكَ - ونَعْجَبُ لَه مِنْ قُدْرَتِكَ - ونَصِفُه مِنْ عَظِيمِ سُلْطَانِكَ - ومَا تَغَيَّبَ عَنَّا مِنْه وقَصُرَتْ أَبْصَارُنَا عَنْه - وانْتَهَتْ عُقُولُنَا دُونَه - وحَالَتْ سُتُورُ الْغُيُوبِ بَيْنَنَا وبَيْنَه أَعْظَمُ - فَمَنْ فَرَّغَ قَلْبَه وأَعْمَلَ فِكْرَه

لیتا ہے یاعطا کردیتا ہے اور جن بلائوں سے نجات دے دیتا ہے یا جن میں مبتلا کردیتا ہے۔ایسی حمد جو تیرے لئے انتہائی پسندیدہ ہو اور محبوب ترین ہواور بہترین ہو۔ ایسی حمد جو ساری کائنات کو مملو کردے اور جہاںتک چاہے پہنچ جائے۔اورایسی حمد جس کے سامنے نہ کوئی حاجب ہو اور نہ تیری بارگاہ تک پہنچنے سے قاصر ہو۔

وہ حمد جس کا سلسلہ رک نہ سکے اورجس کی مدت تمام نہ ہوسکے ۔ہم تیری عظمت کی حقیقت سے با خبر نہیں ہیں لیکن یہ جانتے ہیں کہ تو ہمیشہ زندہ ہے اور ہر شے تیرے ارادہ سے قام ہے۔تیرے لئے نہ نیند ہے اورنہ اونگھ نہ کوئی نظر تجھ تک پہنچ سکتی ہے اور نہ کوئی نگاہ تیرا ادراک کر سکتی ہے۔تونے تمام نگاہوں کا ادراک کرلیا ہے اورتمام اعمال کو شمارکرلای ہے۔ہرایک کی پیشانی اورقدم سب تیرے ہی قبضہ میں ہیں۔

ہم تیری جس خلقت(۱) کامشاہدہ کر رہے ہیں اور جس قدرت سے تعجب کر رہے ہیں اور جس عظیم سلطنت کی توصیف کر رہے ہیں اس کی حقیقت کیاہے۔ وہ مخلوقات جو ہماری نگاہوں سے غائب ہے اورجہاں تک ہماری نگاہ نہیں پہنچ سکتی ہے اور جس کے قریب جا کر ہماری عقل ٹھہر گئی ہے اور جہاں غیب کے پردے حائل ہوگئے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ عظیم تر ہے۔لہٰذا جو اپنے دل کو فارغ کرلے اور اپنی فکر کواستعمال کرے تاکہ یہ

(۱) جب انسان انہیں مخلوقات کی حقیقت کے ادراک سے عاجز ہے جو نگاہوں کے سامنے آرہی ہیں اور جواحساس کے حدود کے اندر ہیں تو ان مخلوقات کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جو انسانی حواس کی زد سے باہر ہیں اور جن تک عق بشر کی رسائی ہیں ہے اور جب مخلوقات کی حقیقت تک انسانی فکرکی رسائی نہیں ہے تو خالق کی حقیقت کا عرفان کس طرح ممکن ہے اور انسان اس کی حمد کا حق کس طرح ادا کر سکتا ہے۔

۲۸۱

لِيَعْلَمَ كَيْفَ أَقَمْتَ عَرْشَكَ وكَيْفَ ذَرَأْتَ خَلْقَكَ - وكَيْفَ عَلَّقْتَ فِي الْهَوَاءِ سَمَاوَاتِكَ - وكَيْفَ مَدَدْتَ عَلَى مَوْرِ الْمَاءِ أَرْضَكَ رَجَعَ طَرْفُه حَسِيراً - وعَقْلُه مَبْهُوراً وسَمْعُه وَالِهاً وفِكْرُه حَائِراً.

كيف يكون الرجاء

منها - يَدَّعِي بِزَعْمِه أَنَّه يَرْجُو اللَّه كَذَبَ والْعَظِيمِ - مَا بَالُه لَا يَتَبَيَّنُ رَجَاؤُه فِي عَمَلِه - فَكُلُّ مَنْ رَجَا عُرِفَ رَجَاؤُه فِي عَمَلِه – وكُلُّ رَجَاءٍ إِلَّا رَجَاءَ اللَّه تَعَالَى فَإِنَّه مَدْخُولٌ - وكُلُّ خَوْفٍ مُحَقَّقٌ إِلَّا خَوْفَ اللَّه فَإِنَّه مَعْلُولٌ - يَرْجُو اللَّه فِي الْكَبِيرِ ويَرْجُو الْعِبَادَ فِي الصَّغِيرِ - فَيُعْطِي الْعَبْدَ مَا لَا يُعْطِي الرَّبَّ -

دریافت کرس کے کہ تو نے اپنے عرش کو کس طرح قائم کیا ہے۔اپنی مخلوقات کو کس طرح ایجاد کیا ہے اور فضائے بسیط میں کس طرح آسمانوں کو معلق کیا ہے۔اور پانی کی موجوں پرکس طرح زمین کا فرش بچھایاہے تواس کی نگاہ تھک کر پلٹ آئے گی اور عقل مدہوش ہو جائے گی اور کان حیران و سراسیمہ ہو جائیں گے اور فکر راستہ گم کردے گی۔

اسی خطبہ کا ایک حصہ

بعض افراد کا اپنے زعم ناقص میں دعویٰ ہے کہ وہ رحمت خدا کے امید وار ہیں حالانکہ خدائے عظیم گواہ ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں آخرکیا وجہ ہے کہ ان کی امید کی جھلک ان کے اعمال میں نظر نہیں آتی ہے جب کہ ہر امیدوار کی امید اس کے اعمال سے واضح ہو جاتی ہے سوائے پروردگار سے لو لگانے کے کہ یہی امید مشکوک ہے اور اسی طرح ہرخوف ثابت ہو جاتاہے سوائے خوف خداکے کہ یہی غیر یقینی ہے۔انسان اللہ سے بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہے اوربندوں سے چھوٹی امیدیں رکھتا ہے لیکن بندوں کو وہ سارے آداب(۱) و حقوق دے دیتا ہے جو پروردگار

(۱) انسان کی نجات وآخرت کے دو بنیادی رکن ہیں۔ایک خوف اورایک امید۔اسلام نے قدم قدم پر انہیں دو چیزوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور انہیں ایمان اور عمل کاخلاصہ قراردیا ہے۔سورہ مبارکہ حمد جس میں سارا قرآن سمٹا ہوا ہے۔اس میں بھی رحمان و رحیم امید کا اشارہ ہے اور مالک یوم الدین خوف کا لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ انسان نہ واقعاًخداسے امید رکھتا ہے اورنہ اس سے خوف زدہ ہوتا ہے۔امیدوار ہوتا تو دعائوں اورعبادتوں میں دل لگتا کہ ان میں طلب ہی طلب پائی جاتی ہے اورخوف زدہ ہوتا توگناہوں سے پرہیز کرتا کہ گناہ ہی انسان کو عذاب الیم سے دوچار کردیتے ہیں۔

دنیا کی ہر امید اور اس کے ہرخوف کا کردار سے نمایاں ہوجانا اور آخرت کی امید وہم کا واضح نہہونا اس بات کی علامت ہے کہ دنیا اس کے کردارمیں ایک حقیقت ہے اورآخرت صرف الفاظ کامجموعہ اورتلفظ کی بازی گری ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۲۸۲

فَمَا بَالُ اللَّه جَلَّ ثَنَاؤُه يُقَصَّرُ بِه عَمَّا يُصْنَعُ بِه لِعِبَادِه - أَتَخَافُ أَنْ تَكُونَ فِي رَجَائِكَ لَه كَاذِباً - أَوْ تَكُونَ لَا تَرَاه لِلرَّجَاءِ مَوْضِعاً - وكَذَلِكَ إِنْ هُوَ خَافَ عَبْداً مِنْ عَبِيدِه - أَعْطَاه مِنْ خَوْفِه مَا لَا يُعْطِي رَبَّه

فَجَعَلَ خَوْفَه مِنَ الْعِبَادِ نَقْداً - وخَوْفَه مِنْ خَالِقِه ضِمَاراً ووَعْداً - وكَذَلِكَ مَنْ عَظُمَتِ الدُّنْيَا فِي عَيْنِه - وكَبُرَ مَوْقِعُهَا مِنْ قَلْبِه آثَرَهَا عَلَى اللَّه تَعَالَى - فَانْقَطَعَ إِلَيْهَا وصَارَ عَبْداً لَهَا.

رسول اللَّه

ولَقَدْ كَانَ فِي رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَافٍ لَكَ فِي الأُسْوَةِ - ودَلِيلٌ لَكَ عَلَى ذَمِّ الدُّنْيَا وعَيْبِهَا - وكَثْرَةِ مَخَازِيهَا ومَسَاوِيهَا - إِذْ قُبِضَتْ عَنْه أَطْرَافُهَا ووُطِّئَتْ لِغَيْرِه أَكْنَافُهَا - وفُطِمَ عَنْ رَضَاعِهَا وزُوِيَ عَنْ زَخَارِفِهَا.

موسى

وإِنْ شِئْتَ ثَنَّيْتُ بِمُوسَى كَلِيمِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حَيْثُ يَقُولُ –( رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ) -

کونہیں دیتا ہے۔تو آخر یہ کیا ہے کہ خدا کے بارے میں اس سلوک سے بھی کوتاہی کی جاتی ہے جو بندوں کے لئے کردیا جاتا ہے۔کیا تمہیں کبھی اس بات کا خوف پیدا ہوا ہے کہ کہیں تم اپنی امیدوں میں جھوٹے تو نہیں ہویا تم اسے محل امید ہی نہیں تصور کرتے ہو ۔

اسی طرح انسان جب کسی بندہ سے خوف زدہ ہوتا ہے تو اسے وہ سارے حقوق دے دیتا ہے جو پروردگار کو بھی نہیں دیتا ہے۔گویا بندوں کے خوف کو نقد تصور کرتا ہے اور خوف خدا کو صرف وعدہ اور ٹالنے کی چیز بنا رکھا ہے۔

یہی حال اس شخص کا بھی ہے جس کی نظر میں دنیا عظیم ہوتی ہے اور اس کے دل میں اس کی جگہ بڑی ہوتی ہے تو وہ دنیا کو آخرت پرمقدم کردیتا ہے۔اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اوراپنے کواس کا بندہ بنا دیتا ہے۔

رسول اکرم (ص)

یقینا رسول اکرم (ص) کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے اوردنیا کی ذلتاور اس کے عیوب کے لئے بہترین رہنما ہے کہ اس میں ذلت و رسوائی کے مقامات بکثرت پائے جاتے ہیں۔دیکھو اس دنیا کے اطراف حضور سے سمیٹ لئے گئے اور غیروں کے لئے ہموار کردئیے گئے۔آپ کو اس کے منافع سے الگ رکھا گیا اور اس کی آرائشوں سے کنارہ کش کردیا گیا۔اور اگر آپکے علاوہ دوسری مثال چاہتے ہو تو وہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی مثال ہے جنہوں نے خدا کی بارگاہ میں گزارش کی کہ'' پروردگار میں تیری طرف نازل ہونے والے خیر کا محتاج ہوں ''

۲۸۳

واللَّه مَا سَأَلَه إِلَّا خُبْزاً يَأْكُلُه - لأَنَّه كَانَ يَأْكُلُ بَقْلَةَ الأَرْضِ - ولَقَدْ كَانَتْ خُضْرَةُ الْبَقْلِ تُرَى مِنْ شَفِيفِ صِفَاقِ بَطْنِه - لِهُزَالِه وتَشَذُّبِ لَحْمِه

داود

وإِنْ شِئْتَ ثَلَّثْتُ بِدَاوُدَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صَاحِبِ الْمَزَامِيرِ وقَارِئِ أَهْلِ الْجَنَّةِ - فَلَقَدْ كَانَ يَعْمَلُ سَفَائِفَ الْخُوصِ بِيَدِه - ويَقُولُ لِجُلَسَائِه أَيُّكُمْ يَكْفِينِي بَيْعَهَا - ويَأْكُلُ قُرْصَ الشَّعِيرِ مِنْ ثَمَنِهَا.

عيسى

وإِنْ شِئْتَ قُلْتُ فِي عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَعليه‌السلام - فَلَقَدْ كَانَ يَتَوَسَّدُ الْحَجَرَ - ويَلْبَسُ الْخَشِنَ ويَأْكُلُ الْجَشِبَ - وكَانَ إِدَامُه الْجُوعَ وسِرَاجُه بِاللَّيْلِ الْقَمَرَ - وظِلَالُه فِي الشِّتَاءِ مَشَارِقَ الأَرْضِ ومَغَارِبَهَا - وفَاكِهَتُه ورَيْحَانُه مَا تُنْبِتُ الأَرْضُ لِلْبَهَائِمِ - ولَمْ تَكُنْ لَه زَوْجَةٌ تَفْتِنُه ولَا وَلَدٌ يَحْزُنُه - ولَا مَالٌ يَلْفِتُه ولَا طَمَعٌ يُذِلُّه - دَابَّتُه رِجْلَاه وخَادِمُه يَدَاه.

الرسول الأعظم

فَتَأَسَّ بِنَبِيِّكَ الأَطْيَبِ الأَطْهَرِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَإِنَّ فِيه أُسْوَةً لِمَنْ تَأَسَّى

لیکن خدا گواہ ہے کہ انہوں نے ایک لقمہ نان کے علاوہ کوئی سوال نہیں کیا۔وہ زمین کی سبزی کھا لیا کرتے تھے اور اسی لئے ان کے شکم کی نرم و نازک کھال سے سبزی کا رنگ نظر آیا کرتا تھا کہ وہ انتہائی لاغر ہوگئے تھے اور ان کا گوشت گل گیا تھا۔

تیسری جناب دائود کی ہے جو صاحب زبور اورقاری اہل جنت تھے۔مگر وہ اپنے ہاتھ سے کھجور کے پتوں سے توکریاں بنایاکرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے کہ کون ایسا ہے جو مجھے ان کے فروختکرنے میں مدد دے اور پھر انہیں بیچ کر جو کی روٹیاں کھالیا کرتے تھے۔ اس کے بعد چاہو تو میں عیسی بن مریم کی زندگی کا حال بیان کروں۔جو پتھروں پرتکیہ کرتے تھے ۔ کھردار لباس پہنتے تھے اور معمولی غذا پر گزارا کیا کرتے تھے۔ان کے کھانے میں سالن کی جگہ بھوک تھی اور رات میں چراغ کے بدلے چاند کی روشنی تھی۔سردی میں سایہ کے بدلے مشرق و مغرب کا آسمانی سائبان تھا۔ان کے میوے اور پھول وہ نباتات تھے جو جانوروں کے کام آتے ہیں۔ان کے پاس کوئی زوجہ نہ تھی جو انہیں مشغول کر لیتی اورنہ کوئی اولاد تھی جس کا رنج و غم ہوتا اور نہ کوئی مال تھا جو اپنی طرف متوجہ کر لیتا اور نہ کوئی طمع تھی جو ذلت کا شکار بنا دیتی ۔ان کے پیر ان کی سواری تھے اور ان کے ہاتھ ان کے خادم ۔

رسول اکرم (ص)

تم لوگاپنے طیب و طاہر پیغمبر کا اتباع کرو کہ ان کی زندگی میں پیروی کرنے والے کے لئے بہترین نمونہ اور

۲۸۴

وعَزَاءً لِمَنْ تَعَزَّى - وأَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللَّه الْمُتَأَسِّي بِنَبِيِّه - والْمُقْتَصُّ لأَثَرِه - قَضَمَ الدُّنْيَا قَضْماً ولَمْ يُعِرْهَا طَرْفاً - أَهْضَمُ أَهْلِ الدُّنْيَا كَشْحاً - وأَخْمَصُهُمْ مِنَ الدُّنْيَا بَطْناً - عُرِضَتْ عَلَيْه الدُّنْيَا فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَهَا - وعَلِمَ أَنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَبْغَضَ شَيْئاً فَأَبْغَضَه - وحَقَّرَ شَيْئاً فَحَقَّرَه وصَغَّرَ شَيْئاً فَصَغَّرَه - ولَوْ لَمْ يَكُنْ فِينَا إِلَّا حُبُّنَا مَا أَبْغَضَ اللَّه ورَسُولُه - وتَعْظِيمُنَا مَا صَغَّرَ اللَّه ورَسُولُه - لَكَفَى بِه شِقَاقاً لِلَّه ومُحَادَّةً عَنْ أَمْرِ اللَّه - ولَقَدْ كَانَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَأْكُلُ عَلَى الأَرْضِ - ويَجْلِسُ جِلْسَةَ الْعَبْدِ ويَخْصِفُ بِيَدِه نَعْلَه - ويَرْقَعُ بِيَدِه ثَوْبَه ويَرْكَبُ الْحِمَارَ الْعَارِيَ - ويُرْدِفُ خَلْفَه - ويَكُونُ السِّتْرُ عَلَى بَابِ بَيْتِه فَتَكُونُ فِيه التَّصَاوِيرُ فَيَقُولُ - يَا فُلَانَةُ لإِحْدَى أَزْوَاجِه غَيِّبِيه عَنِّي - فَإِنِّي إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْه ذَكَرْتُ الدُّنْيَا وزَخَارِفَهَا - فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْيَا بِقَلْبِه وأَمَاتَ ذِكْرَهَا مِنْ نَفْسِه - وأَحَبَّ أَنْ تَغِيبَ زِينَتُهَا عَنْ عَيْنِه

صبرو سکون کے طلب گاروں کے لئے بہترین سامان صبرو سکون ہے۔اللہ کی نظر میں محبوب ترین بندہ وہ ہے جو اس کے پیغمبر کا اتباع کرے اور ان کے نقش قدم پر آگے بڑھائے۔انہوںنے دنیا سے صرف مختصر غذا حاصل کی اور اسے نظر بھرکردیکھا بھی نہیں ۔ساری دنیا میں سب سے زیادہ خالی شکم اور شکم تہی میں بسر کرنے والے وہی تھے ان کے سامنے دنیا پیش کی گئی تو اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور یہ دیکھ لیا کہ پروردگار اسے پسند نہیں کرتا ہے تو خود بھی نا پسند کیا اور خداحقیر سمجھتا ہے توخود بھی حقیر سمجھا اور اس نے چھوٹا بنا دیا ہے تو خودب ھی چھوٹا ہی قراردیا۔اور اگر ہم میں اس کے علاوہ کوئی عیب نہ ہوتا کہ ہم خدا و رسول (ص) کے مبغوض کو محبوب سمجھنے لگے ہیں اور خدا و رسول (ص) کی نگاہ میں صغیر و حقیر کو عظیم سمجھنے لگے ہیں تو یہی عیب خدا کی مخالفت اور اسکے حکم سے انحراف کے لئے کافی تھا۔دیکھو پیغمبر اکرم (ص) ہمیشہ زمین پر بیٹھ کر کھاتے تھے۔غلاموں کے انداز سے بیٹھتے تھے اور کسی نہ کسی کو ساتھ بٹھا بھی لیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اپنے مکان کے دروازہ پر ایسا پردہ دیکھ لیا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں تو ایک زوجہ(۱) سے فرمایا کہ خبر دار اسے ہٹائو۔میں اس کی طرف دیکھوں گا تو دنیا اور اس کی آرائش یاد آئے گی۔

(۱) واضح رہے کہ اس واقعہ کا تعلق ازواج کی زندگی اور ان کے گھروں سے ہے۔اس کی اہل بیت کے گھر سے کوئی تعلق نہیں ہے جسے بعض راویوں نے اہل بیت کی طرف موڑ دیا ہے تاکہ ان کی زندگی میں بھی عیش و عشرت کا اثبات کر سکیں۔جب کہ اہل بیت کی زندگی تاریخ اسلام میں مکمل طور پر آئینہ ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ ان حضرات نے تمام تر اختیارات کے باوجود اپنی زندگی انتہائی سادگی سے گزار دی ہے اور سارا مال دنیا راہ خدامیں صرف کردیا ہے۔

۲۸۵

لِكَيْلَا يَتَّخِذَ مِنْهَا رِيَاشاً ولَا يَعْتَقِدَهَا قَرَاراً - ولَا يَرْجُوَ فِيهَا مُقَاماً فَأَخْرَجَهَا مِنَ النَّفْسِ - وأَشْخَصَهَا عَنِ الْقَلْبِ وغَيَّبَهَا عَنِ الْبَصَرِ - وكَذَلِكَ مَنْ أَبْغَضَ شَيْئاً أَبْغَضَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَيْه - وأَنْ يُذْكَرَ عِنْدَه.

ولَقَدْ كَانَ فِي رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - مَا يَدُلُّكُ عَلَى مَسَاوِئِ الدُّنْيَا وعُيُوبِهَا - إِذْ جَاعَ فِيهَا مَعَ خَاصَّتِه - وزُوِيَتْ عَنْه زَخَارِفُهَا مَعَ عَظِيمِ زُلْفَتِه -

فَلْيَنْظُرْ نَاظِرٌ بِعَقْلِه – أَكْرَمَ اللَّه مُحَمَّداً بِذَلِكَ أَمْ أَهَانَه - فَإِنْ قَالَ أَهَانَه فَقَدْ كَذَبَ واللَّه الْعَظِيمِ بِالإِفْكِ الْعَظِيمِ - وإِنْ قَالَ أَكْرَمَه - فَلْيَعْلَمْ أَنَّ اللَّه قَدْ أَهَانَ غَيْرَه حَيْثُ بَسَطَ الدُّنْيَا لَه - وزَوَاهَا عَنْ أَقْرَبِ النَّاسِ مِنْه - فَتَأَسَّى مُتَأَسٍّ بِنَبِيِّه - واقْتَصَّ أَثَرَه ووَلَجَ مَوْلِجَه

آپ نے دنیا سے دل سے کنارہ کشی فرمائی اور اس کی یاد کو اپنے دل سے محو کردیا اور یہ چاہاکہ اس کی زینت نگاہوں سے دور رہے تاکہ نہ بہترین لباس بنائیں اور نہ اسے پانے دل میں جگہ دیں اور نہ اس دنیا میں کسی مقام کی آرزو کریں۔آپ نے دنیا کو نفس سے نکال دیا اور دل سے دور کردیا اور نگاہوں سے بھی غائب کردیا اور یہی ہر انسان کا اصول ہے کہ جس چیز کو نا پسند کرتا ہے اس کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتا ہے اور اس کے ذکر کوبھی نا پسند کر تا ہے۔یقینا رسول (ص) اللہ کی زندگی میں وہ ساری باتیں پائی جاتی ہیں جو دنیا کے عیوب اور اس کی خرابیوں کی نشاندہی کر سکتی ہیں کہ آپ نے اپنے گھر والوں سمیت بھوکا رہنا گوارا کیا ے اورخدا کی بارگاہ میں انتہائی تقرب کے باوجود دنیا کی زینتوں کو آپ سے الگ رکھا گیا ہے۔

اب ہر انسان کو نگاہ عقل سے دیکھنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ اس صورت حال اور اس طرح کی زندگی سے پروردگار نے اپنے پیغمبر (ص) کو عزت دی ہے یا انہیں ذلیل بنایا ہے۔اگر کسی کا خیال یہ ہے کہ ذلیل بنایا ہے تو وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے اور اگر احساس یہ ہے کہ عزت دی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اللہ نے اس کے لئے دنیا کو فرش کردیا ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اسے ذلیل بنا دیا ہے کہ اپنے قریب ترین بندہ سے اسے دور رکھا تھا ۔اب ہر شخص کو رسول اکرم (ص) کا اتباع کرنا چاہیے۔ان کا نقش قدم پرچلنا چاہیے اور ان کی منزل پر قدم رکھنا چاہیے

۲۸۶

وإِلَّا فَلَا يَأْمَنِ الْهَلَكَةَ - فَإِنَّ اللَّه جَعَلَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَلَماً لِلسَّاعَةِ - ومُبَشِّراً بِالْجَنَّةِ ومُنْذِراً بِالْعُقُوبَةِ - خَرَجَ مِنَ الدُّنْيَا خَمِيصاً ووَرَدَ الآخِرَةَ سَلِيماً - لَمْ يَضَعْ حَجَراً عَلَى حَجَرٍ - حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِه وأَجَابَ دَاعِيَ رَبِّه - فَمَا أَعْظَمَ مِنَّةَ اللَّه عِنْدَنَا - حِينَ أَنْعَمَ عَلَيْنَا بِه سَلَفاً نَتَّبِعُه وقَائِداً نَطَأُ عَقِبَه - واللَّه لَقَدْ رَقَّعْتُ مِدْرَعَتِي هَذِه حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَاقِعِهَا - ولَقَدْ قَالَ لِي قَائِلٌ أَلَا تَنْبِذُهَا عَنْكَ - فَقُلْتُ اغْرُبْ عَنِّي فَعِنْدَ الصَّبَاحِ يَحْمَدُ الْقَوْمُ السُّرَى !

(۱۶۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في صفة النبي وأهل بيته وأتباع دينه، وفيها يعظ بالتقوى

ورنہ ہلاکت سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔پروردگار نے پیغمبر اسلام کو قرب قیامت کی علامت جنت کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنایا ہے۔وہ دنیا سے بھوکے چلے گئے لیکن آخرت میں سلامتی کے ساتھ وارد ہوئے ۔انہوںنے تعمیر کے لئے پتھر(۱) پر پتھر نہیں رکھا اور دنیا سے رخصت ہوگئے اور اپنے پروردگار کیدعوت پر لبیک کہہ دی۔پروردگار کا کتنا عظیم احسان ہے کہ اس نے ہمیں ان کا جیسا رہنما عطا فرمایا ہے جس کا اتباع کیا جائے اور قائد دیا ہے جس کے نقش قدم پر قدم جمائے جائیں۔خداکی قسم میں نے اس قمیض میں اتنے پیوند لگوائے ہیں کہ اب رفو گر کو دیتے ہوئے شرم آنے لگی ہے۔مجھ سے ایک شخص نے یہ بھی کہا تھا کہ اسے پھینک کیوں نہیں دیتے تومیں نے اس سے کہہ دیا کہ مجھ سے دور ہو جا۔'' صبح ہونے کے بعد قوم کو رات میں سفر کرنے کی قدر ہوتی ہے ''

(۱۶۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رسول اکرم (ص) کے صفات ' اہل بیت کی فضیلت اور تقویٰ و اتباع رسول (ص) کی دعوت کا تذکرہ کیا گیا ہے)

(۱) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر مسلمان کوآوارہ وطن اورخانہ بدوش ہوناچاہیے اور خیموں اور چھولداریوں میں زندگی گزار دینا چاہیے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان کو دنیا کی اہمیت و عظمت کا قائل نہیں ہونا چاہیے اور اسے صرف بطور ضرورت اور بقدر ضرورت استعمال کرنا چاہیے وہ مکمل طور سے قبضہ میں آجائے تو انسان کو باعزت نہیں بنا سکتی ہے اور سوفیصد ہی اتھوں سے نکل جائے توذلیل نہیں کر سکتی ہے۔عزت و ذلت کا معیار مال و دولت اورجاہ و منصب نہیں ہے۔اس کامعیار صرف عبادت الٰہی اور اطاعت پروردگار ہے جس کے بعد ملک دنیا کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے۔

۲۸۷

الرسول وأهله وأتباع دينه

ابْتَعَثَه بِالنُّورِ الْمُضِيءِ والْبُرْهَانِ الْجَلِيِّ - والْمِنْهَاجِ الْبَادِي والْكِتَابِ الْهَادِي - أُسْرَتُه خَيْرُ أُسْرَةٍ وشَجَرَتُه خَيْرُ شَجَرَةٍ - أَغْصَانُهَا مُعْتَدِلَةٌ وثِمَارُهَا مُتَهَدِّلَةٌ - مَوْلِدُه بِمَكَّةَ وهِجْرَتُه بِطَيْبَةَ .عَلَا بِهَا ذِكْرُه وامْتَدَّ مِنْهَا صَوْتُه - أَرْسَلَه بِحُجَّةٍ كَافِيَةٍ ومَوْعِظَةٍ شَافِيَةٍ ودَعْوَةٍ مُتَلَافِيَةٍ - أَظْهَرَ بِه الشَّرَائِعَ الْمَجْهُولَةَ - وقَمَعَ بِه الْبِدَعَ الْمَدْخُولَةَ - وبَيَّنَ بِه الأَحْكَامَ الْمَفْصُولَةَ - فَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلَامِ دَيْناً تَتَحَقَّقْ شِقْوَتُه - وتَنْفَصِمْ عُرْوَتُه وتَعْظُمْ كَبْوَتُه - ويَكُنْ مَآبُه إِلَى الْحُزْنِ الطَّوِيلِ والْعَذَابِ الْوَبِيلِ.

وأَتَوَكَّلُ عَلَى اللَّه تَوَكُّلَ الإِنَابَةِ إِلَيْه - وأَسْتَرْشِدُه السَّبِيلَ الْمُؤَدِّيَةَ إِلَى جَنَّتِه - الْقَاصِدَةَ إِلَى مَحَلِّ رَغْبَتِه.

النصح بالتقوى

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه وطَاعَتِه - فَإِنَّهَا النَّجَاةُ غَداً والْمَنْجَاةُ أَبَداً - رَهَّبَ فَأَبْلَغَ ورَغَّبَ فَأَسْبَغَ -

پروردگار نے آپ کو روشن نور۔واضح دلیل۔نمایاں راستہ اور ہدایت کرنے والی کتاب کے ساتھ بھیجا ہے ۔آپ کا خاندان بہترین خاندان اورآپ کا شجرہ بہترین شجرہ ہے۔جس کی شاخیں معتدل ہیں اورثمرات دسترس کے اندر ہیں۔آپ کی جائے ولادت مکہ مکرمہ ہے اور مقام ہجرت ارض طیبہ۔یہیں سے آپ کاذکر بلند ہوا ہے اور یہیں سے آپ کی آواز پھیلی ہے۔پروردگار نے آپ کو کفایت کرنے والی حجت ' شفا دینے والی نصیحت' گذشتہ تمام امور کی تلافی کرنے والی دعوت کے ساتھ بھیجا ہے۔آپ کے ذریعہ غیر معروف شریعتوں کو ظاہر کیاہے اور مہمل بدعتوں کا قلع قمع کردیا ہے اور واضح احکام کو بیان کردیا ہے لہٰذا اب جوبھی اسلام کے علاوہ کسی راستہ کواختیار کرے گا اس کی شقاوت ثابت ہو جائے گی اور ریسمان حیات بکھر جائے گی اور منہ کے بھل گرنا سخت ہو جائے گا اور انجام کار دائمی حزن والم اورشدید ترین عذاب ہوگا۔

میں خدا پراسی طرح بھروسہ کرتا ہوں جس طرح اس کی طرف توجہ کرنے والے کرتے ہیں اور اس سے اس راستہ کی ہدایت طلب کرتا ہوں جو اس کی جنت تک پہنچانے والا اور اس کی منزل مطلوب کی طرف لے جانا والا ہے۔

بند گان خدا !میں تمہیں تقویٰ الٰہی اور اس کی اطاعت کی وصیت کرتاہوں کہ اس میں کل نجات ہے اور یہی ہمیشہ کے لئے مرکزنجات ہے۔اس نے تمہیں

۲۸۸

ووَصَفَ لَكُمُ الدُّنْيَا وانْقِطَاعَهَا - وزَوَالَهَا وانْتِقَالَهَا - فَأَعْرِضُوا عَمَّا يُعْجِبُكُمْ فِيهَا لِقِلَّةِ مَا يَصْحَبُكُمْ مِنْهَا - أَقْرَبُ دَارٍ مِنْ سَخَطِ اللَّه وأَبْعَدُهَا مِنْ رِضْوَانِ اللَّه - فَغُضُّوا عَنْكُمْ عِبَادَ اللَّه غُمُومَهَا وأَشْغَالَهَا - لِمَا قَدْ أَيْقَنْتُمْ بِه مِنْ فِرَاقِهَا وتَصَرُّفِ حَالَاتِهَا - فَاحْذَرُوهَا حَذَرَ الشَّفِيقِ النَّاصِحِ والْمُجِدِّ الْكَادِحِ - واعْتَبِرُوا بِمَا قَدْ رَأَيْتُمْ مِنْ مَصَارِعِ الْقُرُونِ قَبْلَكُمْ - قَدْ تَزَايَلَتْ أَوْصَالُهُمْ - وزَالَتْ أَبْصَارُهُمْ وأَسْمَاعُهُمْ - وذَهَبَ شَرَفُهُمْ وعِزُّهُمْ - وانْقَطَعَ سُرُورُهُمْ ونَعِيمُهُمْ - فَبُدِّلُوا بِقُرْبِ الأَوْلَادِ فَقْدَهَا - وبِصُحْبَةِ الأَزْوَاجِ مُفَارَقَتَهَا - لَا يَتَفَاخَرُونَ ولَا يَتَنَاسَلُونَ - ولَا يَتَزَاوَرُونَ ولَا يَتَحَاوَرُونَ - فَاحْذَرُوا عِبَادَ اللَّه حَذَرَ الْغَالِبِ لِنَفْسِه - الْمَانِعِ لِشَهْوَتِه النَّاظِرِ بِعَقْلِه - فَإِنَّ الأَمْرَ وَاضِحٌ والْعَلَمَ قَائِمٌ - والطَّرِيقَ جَدَدٌ والسَّبِيلَ قَصْدٌ

ڈرایا تو مکمل طور سے ڈرایا اور رغبت دلائی تو مکمل رغبت کا انتظام کیا۔تمہارے لئے دنیا اور اس کی جدائی اس کے زوال اور اس سے انتقال سب کی توصیف کردی ہے لہٰذا اس میں جو چیز اچھی لگے اس سے اعراض کرو کہ ساتھ جانے والی شے بہت کم ہے دیکھو یہ گھر غضب الٰہی سے قری تر اور رضائے الٰہی سے دور تر ہے۔

بند گان خدا! ہم و غم اور اس کے اشغال سے چشم پوشی کرلو کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس سے بہر حال جدا ہونا ہے اور اس کے حالات برابر بدلتے رہتے ہیں۔اس سے اس طرح احتیاط کرو جس طرح ایک خوف زدہ اور اپنے نفس کامخلص اور جانفشانی کے ساتھ کوشش کرنے والا احتیاط کرتا ے اور اس سے عبرت حاصل کرو ان مناظرکے ذریعہ جو تم نے خود دیکھ لئے ہیں کہ گذشتہ نسلیں ہلاک ہوگئیں۔ان کے جوڑ بند الگ الگ ہوگئے۔انکیآنکھیں اور ان کے کان ختم ہوگئے۔ان کی شرافت اورعزت چلی گئی۔ان کی مسرت اورنعمت کاخاتمہ ہوگیا۔اولاد کاقرب فقدان میں تبدیل ہوگیا اور ازواج کی صحبت فراق میں بدل گئی۔اب نہ باہمی مفاخرت رہ گئی ہے اور نہ نسلوں کا سلسلہ ' نہ ملاقاتیں رہ گئی ہیں اورنہ بات چیت۔

لہٰذا بندگان خدا! ڈرو اس شخص کی طرح جو اپنے نفس پرقابو رکھتا ہو۔اپنی خواہشات کو روک سکتا ہو اوراپنی عقل کی آنکھوں سے دیکھتا ہو۔مسئلہ بالکل واضح ہے۔نشانیاں قائم ہیں راستہ سیدھا ہے اور صراط بالکل مستقیم ہے۔

۲۸۹

(۱۶۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لبعض أصحابه وقد سأله: كيف دفعكم قومكم عن هذا المقام وأنتم أحق به فقال:

يَا أَخَا بَنِي أَسَدٍ إِنَّكَ لَقَلِقُ الْوَضِينِ - تُرْسِلُ فِي غَيْرِ سَدَدٍ - ولَكَ بَعْدُ ذِمَامَةُ الصِّهْرِ وحَقُّ الْمَسْأَلَةِ - وقَدِ اسْتَعْلَمْتَ فَاعْلَمْ - أَمَّا الِاسْتِبْدَادُ عَلَيْنَا بِهَذَا الْمَقَامِ - ونَحْنُ الأَعْلَوْنَ نَسَباً والأَشَدُّونَ بِالرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نَوْطاً فَإِنَّهَا كَانَتْ أَثَرَةً شَحَّتْ عَلَيْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ - وسَخَتْ عَنْهَا نُفُوسُ آخَرِينَ - والْحَكَمُ اللَّه والْمَعْوَدُ إِلَيْه الْقِيَامَةُ.

ودَعْ عَنْكَ نَهْباً صِيحَ فِي حَجَرَاتِه

ولَكِنْ حَدِيثاً مَا حَدِيثُ الرَّوَاحِلِ

وهَلُمَّ الْخَطْبَ فِي ابْنِ أَبِي سُفْيَانَ - فَلَقَدْ أَضْحَكَنِي الدَّهْرُ بَعْدَ إِبْكَائِه - ولَا غَرْوَ واللَّه - فَيَا لَه خَطْباً يَسْتَفْرِغُ الْعَجَبَ

(۱۶۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس شخص سے جس نے یہ سوال کرلیا کہ لوگوں نے آپ کو آپ کی منزل سے کس طرح ہٹا دیا)

اے برادر بنی اسد! تم بہت تنگ حوصلہ ہو اورغلط راستہ پر چل پڑے ہو۔لیکن بہرحال تمہیں قرابت(۱) کاحق بھی حاصل ہے اور سوال کا حق بھی ہے اورتم نے در یا فت بھی کرلی ہے تو اب سنو! ہمارے بلند نسب اور رسول اکرم (ص) سے قریب ترین تعلق کے باوجود قوم نے ہم سے اس حق کو اس لئے چھین لیاکہ اس میں ایک خود غرضی تھی جس پرایک جماعت کے نفس مرمٹے تھے اور دوسری جماعت(۲) نے چشم پوشی سے کام لیا تھا لیکن بہرحال حاکم اللہ ہے اور روز قیامت اسی کی بارگاہ میں پلٹ کرجانا ہے۔(اس لوٹ مار کا ذکر چھوڑو جس کا شور(۳) چاروں طرف مچا ہواتھا اب اونٹنیوں کی بات کرو جو اپنے قبضہ میں رہ کرنکل گئی ہیں ) اب آئو اس مصیبت کودیکھو جو ابو سفیان کے بیٹے کی طرف سے آئی ہے کہ زمانہ نے رلانے کے بعد ہنسا دیا ہے اور بخدااس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے تعجب تو اس حادثہ پر ہے

(۱) شاید اس امرکی طرف اشارہ ہو کہ سرکار دو عالم (ص) کی ایک زوجہ زینت جحش اسدی تھیں اور ان کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب آپ کی پھوپھی تھیں۔

(۲) اس میں دونوں احتمالات پائے جاتے ہیں۔یا اس قوم کی طرف اشارہ ہے جس نے حق اہل بیت کا تحفظ نہیں کیا اور تغافل سے کام لیا۔یا خود اپنے کردار کی بلندی کی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے بھی چشم پوشی سے کام لیا اور مقابلہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اس طرح ظالموں نے منصب پر مکمل طور سے قبضہ کرلیا۔

(۳) یہ امرء القیس کامصرع ہے جب اس کے باپ کو قتل کردیا گیا تو وہ انتقام کے لئے قبائل کی کمک تلاش کر رہا تھا۔ایک مقام پر مقیم تھاکہ لوگ اس کے اونٹ پکڑ لے گئے۔اس نے میزبان سے فریاد کی میزبان نے کہا کہ میں ابھی واپس لاتا ہوں۔ثبوت میں تمہاری اونٹنیاں لے جاتا ہوں اور اس طرح اونٹ کے ساتھ اونٹنی پر بھی قبضہ کرلیا۔

۲۹۰

ويُكْثِرُ الأَوَدَ - حَاوَلَ الْقَوْمُ إِطْفَاءَ نُورِ اللَّه مِنْ مِصْبَاحِه - وسَدَّ فَوَّارِه مِنْ يَنْبُوعِه - وجَدَحُوا بَيْنِي وبَيْنَهُمْ شِرْباً وَبِيئاً - فَإِنْ تَرْتَفِعْ عَنَّا وعَنْهُمْ مِحَنُ الْبَلْوَى - أَحْمِلْهُمْ مِنَ الْحَقِّ عَلَى مَحْضِه وإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى –( فَلا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَراتٍ - إِنَّ الله عَلِيمٌ بِما يَصْنَعُونَ ) .

(۱۶۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

الخالق جل وعلا

الْحَمْدُ لِلَّه خَالِقِ الْعِبَادِ وسَاطِحِ الْمِهَادِ - ومُسِيلِ الْوِهَادِ ومُخْصِبِ النِّجَادِ - لَيْسَ لأَوَّلِيَّتِه ابْتِدَاءٌ ولَا لأَزَلِيَّتِه انْقِضَاءٌ - هُوَ الأَوَّلُ ولَمْ يَزَلْ والْبَاقِي بِلَا أَجَلٍ - خَرَّتْ لَه الْجِبَاه ووَحَّدَتْه الشِّفَاه - حَدَّ الأَشْيَاءَ عِنْدَ خَلْقِه لَهَا إِبَانَةً لَه مِنْ شَبَهِهَا

جس نے تعجب کابھی خاتمہ کردیا ہے اور کجی کو بڑھا وا دیا ہے۔قوم نے چاہا تھاکہ نور الٰہی کواس کے چراغ ہی سے خاموش کردیا جائے اور فوارہ کو چشمہ ہی سے بند کردیا جائے ۔میرے اور اپنے درمیان زہریلے گھونٹوں کی آمیزش کردی کہ اگر مجھ سے اور ان سے ابتلاء کی زحمتیں ختم ہو گئیں تومیں انہیں خالص حق(۱) کےراستہ پرچلائوں گا اور اگر کئی دوسری صورت ہوگئی توتمہیں حسرت و افسوس سے اپنی جان نہیں دینی چاہیے ۔اللہ ان کے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

(۱۶۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جوبندوں کا خلق کرنے والا۔زمین کا فرش بچھانے والا۔وادیوں میں پانی کا بہانے والا اور ٹیلوں کا سر سبز و شاداب بنانے والا ہے۔اس کی اولیت کی کوئی ابتدا نہیں ہے اور اس کی ازلیت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔وہ ابتدا ء سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔وہ باقی ہے اور اس کی بقا کی کوئی مدت نہیں ہے۔پیشانیاں اس کے سامنے سجدہ ریز اور لب اس کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے ہیں۔اس نے تخلیق کے ساتھ ہی ہرشے کے حدود معین کردئیے ہیں تاکہ وہ کسی سے مشابہ نہ ہونے پائیں

(۱) یہ مکتب اہل بیت کاخاصہ ہے کہ ہمیشہ حق کے راستے پرچلنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اسی راستہ پر چلانا چاہیے اور اس راہ میں کسی طرح کی زحمت و مصیبت کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے۔چنانچہ بعض مورخین کے بیان کے مطابق جب دورعمر بن خطاب میں سلمانفارسی کو مدئان کاگورنر بنایا گیا اور انہوں نے کاروبارکی نگرانی کا قانون نافذ کیا تو ارباب ثروت و تجارت نے خلیفہ سے شکایت کردی اور انہوں نے فی الفور جناب سلمان کو معزول کردیا کہ کہیں نگرانی اور محاسبہ کاتصور سارے ملک میں نہ پھیل جائے کہ ارباب مصالح و منافع بغاوت پرآمادہ ہو جائیں اور حکومت کو حق کی راہ پر چلنے کے لئے خاطر خواہ قیمت ادا کرنا پڑے ۔

۲۹۱

لَا تُقَدِّرُه الأَوْهَامُ بِالْحُدُودِ والْحَرَكَاتِ - ولَا بِالْجَوَارِحِ والأَدَوَاتِ لَا يُقَالُ لَه مَتَى - ولَا يُضْرَبُ لَه أَمَدٌ بِحَتَّى - الظَّاهِرُ لَا يُقَالُ مِمَّ والْبَاطِنُ لَا يُقَالُ فِيمَ - لَا شَبَحٌ فَيُتَقَصَّى ولَا مَحْجُوبٌ فَيُحْوَى - لَمْ يَقْرُبْ مِنَ الأَشْيَاءِ بِالْتِصَاقٍ - ولَمْ يَبْعُدْ عَنْهَا بِافْتِرَاقٍ - ولَا يَخْفَى عَلَيْه مِنْ عِبَادِه شُخُوصُ لَحْظَةٍ - ولَا كُرُورُ لَفْظَةٍ ولَا ازْدِلَافُ رَبْوَةٍ - ولَا انْبِسَاطُ خُطْوَةٍ فِي لَيْلٍ دَاجٍ - ولَا غَسَقٍ سَاجٍ يَتَفَيَّأُ عَلَيْه الْقَمَرُ الْمُنِيرُ - وتَعْقُبُه الشَّمْسُ ذَاتُ النُّورِ فِي الأُفُولِ والْكُرُورِ - وتَقَلُّبِ الأَزْمِنَةِ والدُّهُورِ - مِنْ إِقْبَالِ لَيْلٍ مُقْبِلٍ وإِدْبَارِ نَهَارٍ مُدْبِرٍ - قَبْلَ كُلِّ غَايَةٍ ومُدَّةِ وكُلِّ إِحْصَاءٍ وعِدَّةٍ - تَعَالَى عَمَّا يَنْحَلُه الْمُحَدِّدُونَ مِنْ صِفَاتِ الأَقْدَارِ - ونِهَايَاتِ الأَقْطَارِ وتَأَثُّلِ الْمَسَاكِنِ - وتَمَكُّنِ الأَمَاكِنِ - فَالْحَدُّ لِخَلْقِه مَضْرُوبٌ وإِلَى غَيْرِه مَنْسُوبٌ.

ابتداع المخلوقين

لَمْ يَخْلُقِ الأَشْيَاءَ مِنْ أُصُولٍ أَزَلِيَّةٍ - ولَا مِنْ أَوَائِلَ أَبَدِيَّةٍ - بَلْ خَلَقَ مَا خَلَقَ

انسانی ادہام اس کے لئے حدود و حرکات اور اعضاء و جوارح کاتعین نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کب سے ہے اور نہ یہ حد بندی کی جا سکتی ہے کہ کب تک رہے گا۔وہ ظاہر ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتاہے کہ کس چیز سے اور باطن ہے لیکن یہ نہیں سوچا جا سکتا ہے کہ کس چیز میں ؟ وہ نہ کوئی ڈھانچہ ہے کہ ختم ہو جائے اور نہ کسی حجاب میں ہے کہ محدود ہو جائے۔ظاہری اتصال کی بنیاد پر اشیاء سے قریب نہیں ہے اور جسمانی جدائی کی بنا پر دورنہیں ہے۔اس کے اوپر بندوں کے حالات میں سے نہ ایک کاجھیکنا مخفی ہے اور نہ الفاظ کا دہرانا۔نہ بلندی کا دور سے جھلکنا پوشیدہ ہے اور نہ قدم کا آگے بڑھنا۔نہ اندھیری رات میں اور نہ چھائی ہوئی اندھیاریوں میں جن پر روشن چاند اپنی کرنوں کا سایہ ڈالتا ہے اور روشن آفتاب طلوع وغروب میں اور زمانہ کی ان گردشوں میں جو آنے والی رات کی آمد اور جانے والے دن کے گزرنے سے پیدا ہوتی ہے۔وہ ہر انتہا و مدت سے پہلے ہے اور ہر احصاء و شمارسے ماوراء ہے۔وہ ان صفات سے بلند تر ہے جنہیں محدود سمجھ لینے والے اس کی طرف منسوب کر دیتے ہیں چاہے وہ صفتوں کے انداز ے ہوں یا اطراف و جوانب کی حدیں۔مکانات میں قیام ہو یا مساکن میں قرار۔حد بندی اس کی مخلوقات کے لئے ہے اور اس کی نسبت اس کے غیر کی طرف ہوتی ہے۔ اس نے اشیاء کی تخلیق نہ ازلی مواد سے کی ہے اور نہ ابدی مثالوں سے ۔جوکچھ بھی خلق کیا ہے خود خلق کیا ہے

۲۹۲

فَأَقَامَ حَدَّه - وصَوَّرَ فَأَحْسَنَ صُورَتَه - لَيْسَ لِشَيْءٍ مِنْه امْتِنَاعٌ ولَا لَه بِطَاعَةِ شَيْءٍ انْتِفَاعٌ - عِلْمُه بِالأَمْوَاتِ الْمَاضِينَ كَعِلْمِه بِالأَحْيَاءِ الْبَاقِينَ - وعِلْمُه بِمَا فِي السَّمَاوَاتِ الْعُلَى - كَعِلْمِه بِمَا فِي الأَرَضِينَ السُّفْلَى.

منها - أَيُّهَا الْمَخْلُوقُ السَّوِيُّ والْمُنْشَأُ الْمَرْعِيُّ - فِي ظُلُمَاتِ الأَرْحَامِ ومُضَاعَفَاتِ الأَسْتَارِ -. بُدِئْتَ( مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ ) ووُضِعْتَ( فِي قَرارٍ مَكِينٍ إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ ) وأَجَلٍ مَقْسُومٍ - تَمُورُ فِي بَطْنِ أُمِّكَ جَنِيناً لَا تُحِيرُ دُعَاءً ولَا تَسْمَعُ نِدَاءً - ثُمَّ أُخْرِجْتَ مِنْ مَقَرِّكَ إِلَى دَارٍ لَمْ تَشْهَدْهَا - ولَمْ تَعْرِفْ سُبُلَ مَنَافِعِهَا.فَمَنْ هَدَاكَ لِاجْتِرَارِ الْغِذَاءِ مِنْ ثَدْيِ أُمِّكَ - وعَرَّفَكَ عِنْدَ الْحَاجَةِ مَوَاضِعَ طَلَبِكَ وإِرَادَتِكَ - هَيْهَاتَ إِنَّ مَنْ يَعْجِزُ عَنْ صِفَاتِ ذِي الْهَيْئَةِ والأَدَوَاتِ - فَهُوَ عَنْ صِفَاتِ خَالِقِه أَعْجَزُ - ومِنْ تَنَاوُلِه بِحُدُودِ الْمَخْلُوقِينَ أَبْعَدُ!

اوراس کی حدیں معین کردی ہیں اور ہر صورت کو حسین بنا دیاہے۔کوئی شے بھی اس کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتی ہے اورنہ کسی کی اطاعت میں اس کا کوئی فائدہ ہے۔اس کا علم ماضی کے مرنے والے افراد کے بارے میں ویسا ہی ہے جیسا کہ رہ جانے والے زندوں کے بارے میں ہے اور وہ بلند ترین آسمانوں کے بارے میں ویسا ہی علم رکھتا ہے جس طرح کہ پست ترین زمینوں کے بارے میں رکھتا ہے۔

(دوسرا حصہ) اے وہ انسان جسے ہر اعتبار سے درست بنایا گیاہے اور رحم کے اندھیروں اور پردہ درپردہ ظلمتوں میں مکمل نگرانی کے ساتھ خلق کیا گیا ہے۔تیری ابتدا خالص مٹی سے ہوئی ہے اورتجھے ایک خاص مرکز میں ایک خاص مدت تک رکھا گیا ہے۔تو شکم مادر میں اس طرح حرکت کر رہا تھا کہ نہ آواز کا جواب دے سکتاتھا اورنہ کسی آواز کو سن سکتا تھا۔اس کے بعد تجھے وہاں سے نکال کر اس گھرمیں لایا گیاجسے تونے دیکھا بھی نہیں تھا اور جہاں کے منافع کے راستوں سے با خبر بھی نہیں تھا۔بتا تجھے پستان مادرسے دودھ حاصل کرنے کی ہدایت کس نے دی ہے اور ضرورت کے وقت موارد طلب وارادہ کا پتہ کس نے بتایا ہے ؟ ہوشیار ۔جوش خص ایک صاحب ہئیت و اعضاء مخلوق کے صفات کے پہچاننے سے عاجز ہوگا وہ خالق کے صفات کو پہچاننے سے یقینا زیادہ عاجز ہوگا اور مخلوقات کے حدود کے ذریعہ اسے حاصل کرنے سے یقینا دورتر ہوگا۔

۲۹۳

(۱۶۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما اجتمع الناس شكوا ما نقموه على عثمان

وسألوه مخاطبته لهم واستعتابه لهم فدخل عليه فقال

إِنَّ النَّاسَ وَرَائِي - وقَدِ اسْتَسْفَرُونِي بَيْنَكَ وبَيْنَهُمْ - ووَ اللَّه مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لَكَ - مَا أَعْرِفُ شَيْئاً تَجْهَلُه - ولَا أَدُلُّكَ عَلَى أَمْرٍ لَا تَعْرِفُه - إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نَعْلَمُ - مَا سَبَقْنَاكَ إِلَى شَيْءٍ فَنُخْبِرَكَ عَنْه - ولَا خَلَوْنَا بِشَيْءٍ فَنُبَلِّغَكَه - وقَدْ رَأَيْتَ كَمَا رَأَيْنَا وسَمِعْتَ كَمَا سَمِعْنَا - وصَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَمَا صَحِبْنَا -

(۱۶۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب لوگوں نے آپ کے پاس آکر عثمان کے مظالم کا ذکرکیا اور ان کی فہمائش اورتنبیہ کا تقاضا کیا توآپ نے عثمان کے پاس جا کر فرمایا )

لوگ میرے پیچھے منتظر ہیں اور انہوںنے مجھے اپنے اور تمہارے درمیان(۱) واسطہ قرار دیا ہے اورخداکی قسم میں نہیں جانتا ہوں کہ میں تم سے کیا کہوں؟میں کوئی ایسی بات نہیں جانتا ہوں جس کا تمہیں علم نہ ہو اور کسی ایی بات کی نشاندہی نہیں کر سکتا ہوں جو تمہیں معلوم نہ ہو تمہیں تمام وہ باتیں معلوم ہیں جو مجھے معلوم ہیں اور میں ن کسی امر کی طرف سبقت نہیں کی ہے کہ اس کی اطلاع تمہیں کروں اور نہ کوئی بات چپکے سے سن لی ہے کہ تمہیں با خبرکروں۔تم نے وہ سب خود دیکھا ہے جو میں نے دیکھا ہے اوروہ سب کچھ خود بھی سنا ہے جومیں نے سنا ہے اور رسول اکرم (ص) کے پاس ویسے ہی رہے ہو جیسے میں رہا ہوں

(۱) امیر المومنین کے علاوہ دنیا کا کوئی دوسرا انسان ہوتا تواس موقع کو غنیمت تصور کرکے احتجاج کرنے والوں کے حوصلے مزید بلند کردیتا اور لمحوں میں عثمان کاخاتمہ کر ا دیتا لیکن آپ نے اپنی شرعی ذمہ داری اور اسلامی مسئولیت کاخیال کرکے انقلابی جماعت کو روکا اورچاہاکہ پہلے تمام حجت کردیا جائے تاکہ عثمان کو اصلاح امر کا موقع مل جائے اور بنی امیہ مجھے قتل عثمان کا ملزم نہ ٹھہرانے پائیں۔ورنہ عثمان کے دور کے مظالم عالم آشکارتھے۔ان کے بارے میں کسی تحقیق اور تفتیش کی ضرورت نہیں تھی جناب ابوذر کاشہر بدر کرادیا جانا جناب عبداللہ بن مسعود کی پسلیوںکا توڑ دیا جانا۔جناب عمار یاسر کے شکم کو جوتیوں سے پامال کردینا۔وہ مظالم ہیں جنہیں سارا عالم اسلام اور بالخصوص مدینتہ الرسول خوب جانتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے درمیان میں پڑ کر اصلاح حال کے بارے میں یہ فارمولا پیش کیا مدینہ کے معاملات کی فی الفور اصلاح کی جائے اورباہر کے لئے بقدر ضرورت مہلت لے لی جائے لیکن خلیفہ کو اصلاح نہیں کرنا تھی نہیں کی اور آخر ش وہی انجام ہوا جس کے پیش نظرامیر المومنین نے اس قدر زحمت برداشت کی تھی اور جس کے بعد بنی امیہ کو نئے فتنوں کاموقع مل گیا اور ان سے امیر المومنین کو بھی دوچار ہونا پڑا۔

۲۹۴

ومَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ - ولَا ابْنُ الْخَطَّابِ بِأَوْلَى بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْكَ - وأَنْتَ أَقْرَبُ إِلَى أَبِي رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَشِيجَةَ رَحِمٍ مِنْهُمَا - وقَدْ نِلْتَ مِنْ صِهْرِه مَا لَمْ يَنَالَا فَاللَّه اللَّه فِي نَفْسِكَ - فَإِنَّكَ واللَّه مَا تُبَصَّرُ مِنْ عَمًى - ولَا تُعَلَّمُ مِنْ جَهْلٍ - وإِنَّ الطُّرُقَ لَوَاضِحَةٌ وإِنَّ أَعْلَامَ الدِّينِ لَقَائِمَةٌ - فَاعْلَمْ أَنَّ أَفْضَلَ عِبَادِ اللَّه عِنْدَ اللَّه إِمَامٌ عَادِلٌ،هُدِيَ وهَدَى فَأَقَامَ سُنَّةً مَعْلُومَةً - وأَمَاتَ بِدْعَةً مَجْهُولَةً - وإِنَّ السُّنَنَ لَنَيِّرَةٌ لَهَا أَعْلَامٌ - وإِنَّ الْبِدَعَ لَظَاهِرَةٌ لَهَا أَعْلَامٌ - وإِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّه إِمَامٌ جَائِرٌ ضَلَّ وضُلَّ بِه - فَأَمَاتَ سُنَّةً مَأْخُوذَةً وأَحْيَا بِدْعَةً مَتْرُوكَةً - وإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ - يُؤْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِالإِمَامِ الْجَائِرِ - ولَيْسَ مَعَه نَصِيرٌ ولَا عَاذِرٌ - فَيُلْقَى فِي نَارِ جَهَنَّمَ

ابن ابی قحافہ اور ابن الخطاب حق پر عمل کرنے کے لئے تم سے زیادہ اولیٰ نہیں تھے تم ان کی نسبت رسول اللہ سے زیادہ قریبی رشتہ رکھتے ہو۔اورتمہیں وہدامادی کا شرف بھی حاصل ہے ہے جوانہیں حاصل نہیں تھا لہٰذا خدارا اپنے نفس کو بچائو کہ تمہیں اندھے پن سے بصارت یاجہالت سے علم نہیں دیا جا رہا ہے۔راستے بالکل واضح ہیں اور نشانات دین قائم ہیں۔یاد رکھوخدا کے نزدیک بہترین بندہ وہ امام عادل ہے۔جو خود ہدایت یافتہ ہو اوردوسروں کوہدایت دے۔جانی پہچانی سنت کو قائم کرے اور مجہول بدعت کو مردہ بنادے۔دیکھو ضیا بخش سنتوں کے نشانات بھی روشن ہیں اوربدعتوں کے نشانات بھی واضح ہیں اوربد ترین انسان خداکی نگاہ میں وہ ظالم پیشوا ہے جو خود بھی گمراہ ہو اور لوگوں کو بھی گمراہ کرے۔پیغمبر سے ملی ہوئی سنتوں کو مردہ بنادے اور قابل ترک بدعتوں کو زندہ کردے میں نے رسول اکرم (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ روز قیامت ظالم(۱) رہنماکو اس عالم میں لایا جائے گا کہ نہ کوئی اس کا مدد گار ہوگا اورنہ عذر خواہی کرنے والا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا

(۱)در حقیقت رہنما اور ظالم وہ دو متضاد الفاظ ہیں جنہیں کسی عالم شرافت و کرامت میں جمع نہیں ہونا چاہیے۔انسان کو رہنمائی کا شوق ہے تو پہلے اپنے کردار میں عدالت و شرافت پیدا کرے۔اس کے بعد آگے چلنے کا ارادہ کرے۔اس کے بغیر رہنمائی کا شوق انسان کو جہنم تک تو پہنچا سکتا ہے رہنما نہیں بنا سکتا ے جیسا کہ سرکار دو عالم (ص) نے فرمایا ہے اور اس عذاب کی شدت کا راز یہی ہے کہ رہنما کی وجہ سے بے شمار لوگ مزید گمراہ ہوتے ہیں اور اس کے ظلم سے بے حساب لوگوں کو ظلم کاجواز فراہم ہو جاتا ہے اورسارا معاشرہ تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔

عثمان کا دور پہلا دور تھا جب سابق کی ظاہرداری بھی ختم ہوگئی تھی اور کھلم کھلا ظلم کا بازار گرم ہوگیا تھا۔اس لئے اتنا شدید رد عمل دیکھنے میں آیا ورنہ اس کے بعد سے تو آج تک سارا عالم اسلام انہیں خاندان پروریوں کا شکار ہے اور عوام کی ساری دولت ایک ایک خاندان کے عیاش شہزادوں پر صرف ہو رہی ہے اورمدینہ کے مسلمانوں میں بھی غیرت کی حرکت نہیں پیدا ہو رہی ہے تو باقی عالم اسلام اور دوسرے علاقوں کا کیا تذکرہ ہے۔

۲۹۵

فَيَدُورُ فِيهَا كَمَا تَدُورُ الرَّحَى - ثُمَّ يَرْتَبِطُ فِي قَعْرِهَا - وإِنِّي أَنْشُدُكَ اللَّه أَلَّا تَكُونَ إِمَامَ هَذِه الأُمَّةِ الْمَقْتُولَ - فَإِنَّه كَانَ يُقَالُ - يُقْتَلُ فِي هَذِه الأُمَّةِ إِمَامٌ يَفْتَحُ عَلَيْهَا الْقَتْلَ - والْقِتَالَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - ويَلْبِسُ أُمُورَهَا عَلَيْهَا ويَبُثُّ الْفِتَنَ فِيهَا - فَلَا يُبْصِرُونَ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ - يَمُوجُونَ فِيهَا مَوْجاً ويَمْرُجُونَ فِيهَا مَرْجاً - فَلَا تَكُونَنَّ لِمَرْوَانَ سَيِّقَةً يَسُوقُكَ حَيْثُ شَاءَ بَعْدَ جَلَالِ السِّنِّ - وتَقَضِّي الْعُمُرِ فَقَالَ لَه عُثْمَانُرضي‌الله‌عنه س - كَلِّمِ النَّاسَ فِي أَنْ يُؤَجِّلُونِي - حَتَّى أَخْرُجَ إِلَيْهِمْ مِنْ مَظَالِمِهِمْ - فَقَالَعليه‌السلام - مَا كَانَ بِالْمَدِينَةِ فَلَا أَجَلَ فِيه - ومَا غَابَ فَأَجَلُه وُصُولُ أَمْرِكَ إِلَيْه.

(۱۶۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها عجيب خلقة الطاوس

خلقة الطيور

ابْتَدَعَهُمْ خَلْقاً عَجِيباً مِنْ حَيَوَانٍ ومَوَاتٍ - وسَاكِنٍ وذِي حَرَكَاتٍ؛وأَقَامَ

اور وہ اس طرح چکر کھائے گا جس طرح چکی۔اس کے بعد اسے قعر جہنم میں جکڑ دیا جائے گا۔میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ خدارا تم اس امت کے مقتول پیشوا نہ بنو اس لئے کہ دور قدیم سے کہاجا رہا ہے کہ اس امت میں ایک پیشوا قتل کیا جائے گا جس کے بعد قیامت تک قتل و قتال کا دروازہ کھل جائے گا اور سارے امور مشتبہ ہو جائیں گے اور فتنے پھیل جائیں گے اور لوگ حق و باطل میں امتیاز نہ کر سکیں گے اور اسی میں چکر کھاتے رہیں گے اور تہ و بالا ہوتے رہیں گے ۔خدارا امروان کی سواری نہ بن جائو کہ وہ جدھر چاہے کھینچ کرلے جائے کہ تمہارا سن زیادہ ہوچکا ہے اور تمہاری عمر خاتمہ کے قریب آچکی ہے۔

عثمان نے اس ساری گفتگو کو سن کر کہا کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ ذرا مہلت دیں تاکہ میں ان کی حق تلفیوں کا علا ج کرس کوں؟ آپ نے فرمایا کہ جہاں تک مدینہ کے معاملات کا تعلق ہے ان میں کسی مہلت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور جہاں تک باہر کے معاملات کاتعلق ہے ان میں صرف اتنی مہلت دی جا سکتی ہے کہ تمہاراحکم وہاں تک پہنچ جائے۔

(۱۶۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں مورکی عجیب وغریب خلقت کاتذکرہ کیا گیا ہے )

اللہ نے اپنی تمام مخلوقات کو عجیب وغریب بنایا ہےچاہے وہ ذی حیات ہوں یا بےجان۔ساکن ہوں یامتحرک اوران سب

۲۹۶

مِنْ شَوَاهِدِ الْبَيِّنَاتِ عَلَى لَطِيفِ صَنْعَتِه - وعَظِيمِ قُدْرَتِه - مَا انْقَادَتْ لَه الْعُقُولُ مُعْتَرِفَةً بِه ومَسَلِّمَةً لَه - ونَعَقَتْ فِي أَسْمَاعِنَا دَلَائِلُه عَلَى وَحْدَانِيَّتِه - ومَا ذَرَأَ مِنْ مُخْتَلِفِ صُوَرِ الأَطْيَارِ - الَّتِي أَسْكَنَهَا أَخَادِيدَ الأَرْضِ - وخُرُوقَ فِجَاجِهَا ورَوَاسِيَ أَعْلَامِهَا - مِنْ ذَاتِ أَجْنِحَةٍ مُخْتَلِفَةٍ وهَيْئَاتٍ مُتَبَايِنَةٍ - مُصَرَّفَةٍ فِي زِمَامِ التَّسْخِيرِ - ومُرَفْرِفَةٍ بِأَجْنِحَتِهَا فِي مَخَارِقِ الْجَوِّ الْمُنْفَسِحِ - والْفَضَاءِ الْمُنْفَرِجِ - كَوَّنَهَا بَعْدَ إِذْ لَمْ تَكُنْ فِي عَجَائِبِ صُوَرٍ ظَاهِرَةٍ - ورَكَّبَهَا فِي حِقَاقِ مَفَاصِلَ مُحْتَجِبَةٍ - ومَنَعَ بَعْضَهَا بِعَبَالَةِ خَلْقِه أَنْ يَسْمُوَ فِي الْهَوَاءِ خُفُوفاً - وجَعَلَه يَدِفُّ دَفِيفاً - ونَسَقَهَا عَلَى اخْتِلَافِهَا فِي الأَصَابِيغِ بِلَطِيفِ قُدْرَتِه - ودَقِيقِ صَنْعَتِه.

کے ذریعہ اپنی لطیف صنعت اور عظیم قدرت کے وہ شواہد قائم کردئیے ہیں جن کے سامنے عقلیں بکمال اعتراف و تسلیم سرخم کئے ہوئے ہیں اور پھر ہمارے کانوں میں اس کی وحدانیت کے دلائل ان مختلف صورتوں(۱) کے پرندوںکی تخلیق کی شکل میں گونج رہے ہیں جنہیں زمین کے گڑھو ۔دروں کے شگافوں ' پہاڑوں کی بلندیوں پرآباد کیا ہے جن کے پر مختلف قسم کے اورجن کی ہئیت جدا گانہ انداز کی ہے اور انہیں تسخیر کی زمام کے ذریعہ حرکت دی جا رہی ہے اور وہ اپنے پروں کو وسیع فضا کے راستوں اور کشادہ ہوا کی وسعتوں میں پھڑ پھڑا رہے ہیں۔انہیں عالم عدم سے نکال کرعجیب و غریب ظاہری صورتوں میں پیدا کیا ہے اور گوشت و پوست میں ڈھکے ہوئے جوڑوں کے سروں سے ان کے جسموں کی ساخت قائم کی ہے۔بعض کو ان کے جسم کی سنگینی نے ہوا میں بلند ہو کر تیز پرواز سے روک دیا ہے اوروہ صرف ذرا اونچے ہوکر پرواز کر رہے ہیں اور پھر اپنی لطیف قدرت اور دقیق صنعت کے ذریعہ انہیں مختلف رنگوں کے ساتھ منظم و مرتب کیا ہے

(۱)علم الحیوان کے ماہر روبرٹ سن کابیان ہے کہ دنیا میں ایک ارب قسم کے پرندے پائے جاتے ہیں اور سب اپنے اپنے مقام پرعجیب و غریب خلقت کے مالک ہیں سب سے بڑا پرندہ شتر مرغ ہے اور سب سے چھوٹا طنان جس کا طول پانچ سینٹی میٹر ہوتا ہے لیکن ایک گھنٹہ میں ۸۰۔۹۰ کلو میٹر پرواز کر لیتا ہے اور ایک سکنڈ میں ۵۰ سے لے کر ۲۰۰ مرتبہ اپنے پروں کو حرکت دیتا ہے۔بعض پرندوں کا ایک قدم چھ میٹر کے برابر ہوتا ہے اور وہ زمین پر ۸۰ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتے ہیں اوربعض چھ ہزار میٹرکی بلندی پر پرواز کر سکتے ہیں ۔بعض پانی کے اندر ۱۸ میٹر کی گہرائی تک چلے جاتے ہیں اور بعض صرف سمندروں کے اس پار سے اس پار تک چکر لگاتے رہتے ہیں۔ لیکن ان سب سے زیادہ حیرت انگیز امیر المومنین کی نگاہ میں مور کی خلقت ہے جس کو مختلف رنگوں میں رنگ دیا گیا ہے اور مختلف خصوصیات سے نوازدیا گیا ہے اور بات ہے کہ بہترین پروں کے ساتھ نازک ترین پیر بھی دیدئیے گئے ہیں تاکہ اس میں بھی غرورنہ پیدا ہو اور انسان کوب ھی ہوش آجائے کہ جس کے وجود کا ایک رخ رنگین ہوتا ہے اور اس کا دوسرا رخ کمزور بھی ہوتا ہے لہٰذا غرور و استکبار کا کوئی امکان نہیں ہے۔بلکہ تقاضائے شرافت یہ ہے کہ حسین رخ کا شکیرہ ادا کرے کہ یہ بھی مالک کا کرم ہے اس کا اپنا کوئی حق نہیں ہے جسے مالک نے اداکردیا ہو۔

۲۹۷

- فَمِنْهَا مَغْمُوسٌ فِي قَالَبِ لَوْنٍ لَا يَشُوبُه غَيْرُ لَوْنِ مَا غُمِسَ فِيه - ومِنْهَا مَغْمُوسٌ فِي لَوْنِ صِبْغٍ قَدْ طُوِّقَ بِخِلَافِ مَا صُبِغَ بِه

الطاوس

ومِنْ أَعْجَبِهَا خَلْقاً الطَّاوُسُ - الَّذِي أَقَامَه فِي أَحْكَمِ تَعْدِيلٍ - ونَضَّدَ أَلْوَانَه فِي أَحْسَنِ تَنْضِيدٍ - بِجَنَاحٍ أَشْرَجَ قَصَبَه وذَنَبٍ أَطَالَ مَسْحَبَه - إِذَا دَرَجَ إِلَى الأُنْثَى نَشَرَه مِنْ طَيِّه - وسَمَا بِه مُطِلاًّ عَلَى رَأْسِه - كَأَنَّه قِلْعُ دَارِيٍّ عَنَجَه نُوتِيُّه - يَخْتَالُ بِأَلْوَانِه ويَمِيسُ بِزَيَفَانِه - يُفْضِي كَإِفْضَاءِ الدِّيَكَةِ - ويَؤُرُّ بِمَلَاقِحِه أَرَّ الْفُحُولِ الْمُغْتَلِمَةِ لِلضِّرَابِ - أُحِيلُكَ مِنْ ذَلِكَ عَلَى مُعَايَنَةٍ - لَا كَمَنْ يُحِيلُ عَلَى ضَعِيفٍ إِسْنَادُه - ولَوْ كَانَ كَزَعْمِ مَنْ يَزْعُمُ - أَنَّه يُلْقِحُ بِدَمْعَةٍ تَسْفَحُهَا مَدَامِعُه - فَتَقِفُ فِي ضَفَّتَيْ جُفُونِه - وأَنَّ أُنْثَاه تَطْعَمُ ذَلِكَ - ثُمَّ تَبِيضُ لَا مِنْ لِقَاحِ

کہ بعض ایک ہی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ دوسرے رنگ کا شائبہ بھی نہیں ہے اور بعض ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں لیکن ان کے گلے کا طوق دوسرے رنگ کا ہے۔

(طائوس)

ان سب میں عجیب ترین خلقت مور کی ہے جسے محکم ترین توازن کے سانحہ میں ڈھال دیا ہے اور اس کے رنگوں میں حسین ترین تنظیم قائم کی ہے اسے وہ رنگین پردے ہیں جن کی جڑوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے اور وہ دم دی ہے جو دور تک کھینچتی چلی جاتی ہے ۔جب وہ اپنی مادہ کا رخ کرتا ہے تو اسے پھیلا لیتا ہے(۱) اور اپنے سر کے اوپر اس طرح سایہ فگن کر لیتا ہے جیسے مقام دارین کی کشتی کا بادبان جسے ملاح ادھرادھر موڑ رہا ہو۔وہ اپنے رنگوںپراترتا ہے اوراس کی جنبشوں کے ساتھ جھومنے لگتا ہے۔اپنی مادہ سے اس طرح جفتی کھاتا ہے جس طرح مرغ اوراسے اس طرح حاملہ بناتا ہے جس طرح جوش و ہیجان میں ھبرے ہوئے جانور۔میں اس مسئلہ میں تمہیں مشاہدہ کے حوالہ کر رہا ہوں۔نہ اس شخص کی طرح جو کسی کمزور سند کے حوالہ کردے اور اگر گمان کرنے والوں کا یہ گمان صحیح ہوتا کہ وہ ان آنسوئوں کے ذریعہ حمل ٹھہراتا ہے جواس کیآنکھوں سے باہرنکل کرپلکوں پر ٹھہر جاتے ہیں اور مادہ اسے پی لیتی ہے اس کے بعد انڈے دیتی ہے اور اس میں نرو مادہ کا کوئی اتصال نہیں ہوتا ہے سوائے ان پھوٹ پڑنے

(۱)ایک حسین ترین فطرت ہے کہ نر اپنی مادہ کے پاس جائے تو حسن و جمال کے ساتھ جائے تاکہاسے بھی انس حاصل ہو اوروہ بھی اپنے نرکے جمال پر فخر کر سکے ایسا نہ ہوکہ عمل فقط ایک جنسی عمل رہ جائے اور سکون نفس کا کوئی راستہ نہ نکل سکے۔

۲۹۸

فَحْلٍ سِوَى الدَّمْعِ الْمُنْبَجِسِ - لَمَا كَانَ ذَلِكَ بِأَعْجَبَ مِنْ مُطَاعَمَةِ الْغُرَابِ تَخَالُ قَصَبَه مَدَارِيَ مِنْ فِضَّةٍ - ومَا أُنْبِتَ عَلَيْهَا مِنْ عَجِيبِ دَارَاتِه - وشُمُوسِه خَالِصَ الْعِقْيَانِ وفِلَذَ الزَّبَرْجَدِ - فَإِنْ شَبَّهْتَه بِمَا أَنْبَتَتِ الأَرْضُ - قُلْتَ جَنًى جُنِيَ مِنْ زَهْرَةِ كُلِّ رَبِيعٍ - وإِنْ ضَاهَيْتَه بِالْمَلَابِسِ فَهُوَ كَمَوْشِيِّ الْحُلَلِ - أَوْ كَمُونِقِ عَصْبِ الْيَمَنِ - وإِنْ شَاكَلْتَه بِالْحُلِيِّ فَهُوَ كَفُصُوصٍ ذَاتِ أَلْوَانٍ - قَدْ نُطِّقَتْ بِاللُّجَيْنِ الْمُكَلَّلِ - يَمْشِي مَشْيَ الْمَرِحِ الْمُخْتَالِ ويَتَصَفَّحُ ذَنَبَه وجَنَاحَيْه - فَيُقَهْقِه ضَاحِكاً لِجَمَالِ سِرْبَالِه وأَصَابِيغِ وِشَاحِه - فَإِذَا رَمَى بِبَصَرِه إِلَى قَوَائِمِه - زَقَا مُعْوِلًا بِصَوْتٍ يَكَادُ يُبِينُ عَنِ اسْتِغَاثَتِه - ويَشْهَدُ بِصَادِقِ تَوَجُّعِه - لأَنَّ قَوَائِمَه حُمْشٌ كَقَوَائِمِ الدِّيَكَةِ الْخِلَاسِيَّةِ وقَدْ نَجَمَتْ مِنْ ظُنْبُوبِ سَاقِه صِيصِيَةٌ خَفِيَّةٌ - ولَه فِي مَوْضِعِ الْعُرْفِ قُنْزُعَةٌ خَضْرَاءُ مُوَشَّاةٌ -

والے آنسوئوں کے تویہ بات کوے کے باہمی کھانے پینے کے ذریعہ حمل ٹھہرانے سے زیادہ تعجب خیز نہ ہوتی۔ تم اس کی رنگینی پر غور کرو تو ایسا محسوس کروگے جیسے پروں کی درمیانی تیلیاں چاندی کی سلائیاں ہیں اور ان پر جو عجیب و غریب ہالے اورسورج کی شعاعوں جیسے جو پرو بال اگ آئے ہیں وہ خالص سونے اور زمرد کے ٹکڑے ہیں اور اگر انہیں زمین کے نباتات سے تشبیہ دینا چاہو گے تو یہ کہو گے کہ یہ ہر موسم بہارکے پھولوں(۱) کا ایک شگوفہ ہے اور اگر لباس سے تشبیہ دینا چاہوگے تو کہو گے کہ یہ نقش دار حلوں یا خوشنما یمنی چادروں جیسے ہیں اور اگر زیورات ہی سے تشبیہ دینا چاہو گے تو اس طرح کہو گے کہی ہ رنگ برنگ کے نگینے ہیں جوچاندی کے دائروں میں جڑ دئیے گئے ہیں۔یہ جانور اپنی رفتار میں ایک مغرور اور متکبر شخص کی طرح خرام ناز سے چلتا ہے اور اپنے بال و پر اور اپنی دم کو دیکھتا رہتا ہے۔اپنے فطری لباس کی خوبصورتی اوراپنی چادر حیات کی رنگینی کودیکھ کر قہقہہ لگاتا ہے اور اس کے بعد جب پیروں پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس طرح بلند آوازسے روتا ہے جیسے فطرت کی ستم ظریفی کی فریاد کررہا ہو اوراپنے واقعی درد دل کی شہادت دے رہا ہو اس لئے کہ اس کے پیر دوغلے مرغوں کے پیروں کی طرح دبلے پتلے اور باریک ہوتے ہیں اور اس کی پنڈلی کے کنارہ پر ایک ہلکا سا کانٹا ہوتا ہے اور اس کی گردن پربالوں کے بدلے سبز رنگ کے منقش پروں کا ایک گچھا ہوتا ہے

(۱)کہا جاتا ہے کہ صرف فلپین میں دس ہزار قسم کے پھول پائے جاتے ہیں تو باقی کائنات کا کیا ذکر ہے۔

۲۹۹

ومَخْرَجُ عَنُقِه كَالإِبْرِيقِ - ومَغْرِزُهَا إِلَى حَيْثُ بَطْنُه كَصِبْغِ الْوَسِمَةِ الْيَمَانِيَّةِ – أَوْ كَحَرِيرَةٍ مُلْبَسَةٍ مِرْآةً ذَاتَ صِقَالٍ - وكَأَنَّه مُتَلَفِّعٌ بِمِعْجَرٍ أَسْحَمَ - إِلَّا أَنَّه يُخَيَّلُ لِكَثْرَةِ مَائِه وشِدَّةِ بَرِيقِه - أَنَّ الْخُضْرَةَ النَّاضِرَةَ مُمْتَزِجَةٌ بِه - ومَعَ فَتْقِ سَمْعِه خَطٍّ كَمُسْتَدَقِّ الْقَلَمِ فِي لَوْنِ الأُقْحُوَانِ - أَبْيَضُ يَقَقٌ فَهُوَ بِبَيَاضِه فِي سَوَادِ مَا هُنَالِكَ يَأْتَلِقُ - وقَلَّ صِبْغٌ إِلَّا وقَدْ أَخَذَ مِنْه بِقِسْطٍ - وعَلَاه بِكَثْرَةِ صِقَالِه وبَرِيقِه - وبَصِيصِ دِيبَاجِه ورَوْنَقِه - فَهُوَ كَالأَزَاهِيرِ الْمَبْثُوثَةِ لَمْ تُرَبِّهَا أَمْطَارُ رَبِيعٍ - ولَا شُمُوسُ قَيْظٍ وقَدْ يَنْحَسِرُ مِنْ رِيشِه ويَعْرَى مِنْ لِبَاسِه - فَيَسْقُطُ تَتْرَى ويَنْبُتُ تِبَاعاً

۔اس کی گردن کا پھیلائو صراحی کی گردن کی طرح ہوتا ہے اور اس کے گرد نے کی جگہ سے لے کر پیٹ تک کا حصہ یمنی وسمہ جیسا سبز رنگ یا اس ریشم جیسا ہوتا ہے جسے صیقل کئے ہوئے آئینہ پر پہنادیا گیا ہو۔ایسا معلوم ہوتا ہے وہ سیاہ رنگ کی اوڑھنی میں لپٹا ہوا ہے لیکن وہ اپنی آب و تاب کی کثرت اور چمک دمک کی شدت سے اس طرح محسوس ہوتی ہے جیسے اس میں ترو تازہ سبزی الگ سے شامل کردی گئی ہو۔اس کے کانوں کے شگاف سے متصل بابونہ کے پھولوں جیسی نوک قلم کے مانند ایک باریک لکیر ہوتی ہے اور وہ اپنی سفیدی کے ساتھ اس جگہ کی سیاہی کے درمیان چمکتی رہتی ہے۔شائد ہی کوئی رنگ ایسا ہو جس کا کوئی حصہ اس جانور کو نہ ملا ہو مگراس لکیر کی صیقل اوراس کے ریشمی پیکر کی چمک دمک سب پرغالب رہتی ہے۔اس کی مثال ان بکھری ہوئی کلیوں کے مانند ہوتی ہے جنہیں نہ بہار کی بارشوں نے پالا ہو اور نہ گرمی کے سورج کی شعاعوں نے ۔وہ کبھی کبھی اپنے بال و پر سے جدابھی ہو جاتا ہے اوراس رنگین لباس کو اتارکربرہنہ ہو جاتا ہے۔اس کے بال و پر جھڑ جاتے ہیں اور دوبارہ(۱) پھر اگ آتے ہیں۔

(۱)بعض افراد کا خیال ہے کہ مور کے بدن میں تقریباً تین ہزار سے چار ہزار تک پر ہوتے ہیں اور وہ انہیں پروں کو دیکھ کراکڑتا رہتا ہے اورصحرا میں رقص کرتا رہتا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اپنے کمال کا مظاہرہ وہاں کرتا ہے جہاں کوئی قدر داں نہیں ہوتا ہے اورنہ اس سے استفادہ کرنے والا ہوتا ہے۔صرف اپنی ذات کی تسکین اور اپنی انا کی تسلی کا سامان فراہم کرتا ہے اوریہی فرق ہے انسان اور حیوان میں کہ انسانی کمالات انا کی تسکین اور تسلی کے لئے نہیں ہیں ان کا مصرف خلق خدا کو فائدہ پہنچانا اور سماج کو فضیاب کرنا ہے۔لہٰذا انسان اپنے کمالات سے معاشرہ کو مستفیض کرتا ہے تو انسان ہے ورنہایک مور ہے جو صحرا میں ناچتا رہتا ہے اوراپنے نفس کو خوش کرتا رہتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ یہ خوشی بھی دائمی نہیں ہوتی اوراسے بھی چند لمحوں میں پیروں کی حقارت ختم کر دیتی ہے اورایک نیا سبق سکھا دیتی ہے کہ عمومی افادیت تو کام بھی آسکتی ہے اور اسے دوام بھی مل سکتا ہے۔لیکن ذاتی تسکین کی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہاسے دوام نصیب ہو سکتا ہے۔

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863