نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657087 / ڈاؤنلوڈ: 15926
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

وتُعْطِي - وعَلَى مَا تُعَافِي وتَبْتَلِي – حَمْدا يَكُونُ أَرْضَى الْحَمْدِ لَكَ - وأَحَبَّ الْحَمْدِ إِلَيْكَ وأَفْضَلَ الْحَمْدِ عِنْدَكَ.حَمْداً يَمْلأُ مَا خَلَقْتَ ويَبْلُغُ مَا أَرَدْتَ - حَمْداً لَا يُحْجَبُ عَنْكَ ولَا يُقْصَرُ دُونَكَ.

حَمْداً لَا يَنْقَطِعُ عَدَدُه ولَا يَفْنَى مَدَدُه - فَلَسْنَا نَعْلَمُ كُنْه عَظَمَتِكَ - إِلَّا أَنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ حَيٌّ قَيُّومُ - لَا تَأْخُذُكَ سِنَةٌ ولَا نَوْمٌ - لَمْ يَنْتَه إِلَيْكَ نَظَرٌ ولَمْ يُدْرِكْكَ بَصَرٌ - أَدْرَكْتَ الأَبْصَارَ وأَحْصَيْتَ الأَعْمَالَ - وأَخَذْتَ بِالنَّوَاصِي والأَقْدَامِ –

ومَا الَّذِي نَرَى مِنْ خَلْقِكَ - ونَعْجَبُ لَه مِنْ قُدْرَتِكَ - ونَصِفُه مِنْ عَظِيمِ سُلْطَانِكَ - ومَا تَغَيَّبَ عَنَّا مِنْه وقَصُرَتْ أَبْصَارُنَا عَنْه - وانْتَهَتْ عُقُولُنَا دُونَه - وحَالَتْ سُتُورُ الْغُيُوبِ بَيْنَنَا وبَيْنَه أَعْظَمُ - فَمَنْ فَرَّغَ قَلْبَه وأَعْمَلَ فِكْرَه

لیتا ہے یاعطا کردیتا ہے اور جن بلائوں سے نجات دے دیتا ہے یا جن میں مبتلا کردیتا ہے۔ایسی حمد جو تیرے لئے انتہائی پسندیدہ ہو اور محبوب ترین ہواور بہترین ہو۔ ایسی حمد جو ساری کائنات کو مملو کردے اور جہاںتک چاہے پہنچ جائے۔اورایسی حمد جس کے سامنے نہ کوئی حاجب ہو اور نہ تیری بارگاہ تک پہنچنے سے قاصر ہو۔

وہ حمد جس کا سلسلہ رک نہ سکے اورجس کی مدت تمام نہ ہوسکے ۔ہم تیری عظمت کی حقیقت سے با خبر نہیں ہیں لیکن یہ جانتے ہیں کہ تو ہمیشہ زندہ ہے اور ہر شے تیرے ارادہ سے قام ہے۔تیرے لئے نہ نیند ہے اورنہ اونگھ نہ کوئی نظر تجھ تک پہنچ سکتی ہے اور نہ کوئی نگاہ تیرا ادراک کر سکتی ہے۔تونے تمام نگاہوں کا ادراک کرلیا ہے اورتمام اعمال کو شمارکرلای ہے۔ہرایک کی پیشانی اورقدم سب تیرے ہی قبضہ میں ہیں۔

ہم تیری جس خلقت(۱) کامشاہدہ کر رہے ہیں اور جس قدرت سے تعجب کر رہے ہیں اور جس عظیم سلطنت کی توصیف کر رہے ہیں اس کی حقیقت کیاہے۔ وہ مخلوقات جو ہماری نگاہوں سے غائب ہے اورجہاں تک ہماری نگاہ نہیں پہنچ سکتی ہے اور جس کے قریب جا کر ہماری عقل ٹھہر گئی ہے اور جہاں غیب کے پردے حائل ہوگئے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ عظیم تر ہے۔لہٰذا جو اپنے دل کو فارغ کرلے اور اپنی فکر کواستعمال کرے تاکہ یہ

(۱) جب انسان انہیں مخلوقات کی حقیقت کے ادراک سے عاجز ہے جو نگاہوں کے سامنے آرہی ہیں اور جواحساس کے حدود کے اندر ہیں تو ان مخلوقات کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جو انسانی حواس کی زد سے باہر ہیں اور جن تک عق بشر کی رسائی ہیں ہے اور جب مخلوقات کی حقیقت تک انسانی فکرکی رسائی نہیں ہے تو خالق کی حقیقت کا عرفان کس طرح ممکن ہے اور انسان اس کی حمد کا حق کس طرح ادا کر سکتا ہے۔

۲۸۱

لِيَعْلَمَ كَيْفَ أَقَمْتَ عَرْشَكَ وكَيْفَ ذَرَأْتَ خَلْقَكَ - وكَيْفَ عَلَّقْتَ فِي الْهَوَاءِ سَمَاوَاتِكَ - وكَيْفَ مَدَدْتَ عَلَى مَوْرِ الْمَاءِ أَرْضَكَ رَجَعَ طَرْفُه حَسِيراً - وعَقْلُه مَبْهُوراً وسَمْعُه وَالِهاً وفِكْرُه حَائِراً.

كيف يكون الرجاء

منها - يَدَّعِي بِزَعْمِه أَنَّه يَرْجُو اللَّه كَذَبَ والْعَظِيمِ - مَا بَالُه لَا يَتَبَيَّنُ رَجَاؤُه فِي عَمَلِه - فَكُلُّ مَنْ رَجَا عُرِفَ رَجَاؤُه فِي عَمَلِه – وكُلُّ رَجَاءٍ إِلَّا رَجَاءَ اللَّه تَعَالَى فَإِنَّه مَدْخُولٌ - وكُلُّ خَوْفٍ مُحَقَّقٌ إِلَّا خَوْفَ اللَّه فَإِنَّه مَعْلُولٌ - يَرْجُو اللَّه فِي الْكَبِيرِ ويَرْجُو الْعِبَادَ فِي الصَّغِيرِ - فَيُعْطِي الْعَبْدَ مَا لَا يُعْطِي الرَّبَّ -

دریافت کرس کے کہ تو نے اپنے عرش کو کس طرح قائم کیا ہے۔اپنی مخلوقات کو کس طرح ایجاد کیا ہے اور فضائے بسیط میں کس طرح آسمانوں کو معلق کیا ہے۔اور پانی کی موجوں پرکس طرح زمین کا فرش بچھایاہے تواس کی نگاہ تھک کر پلٹ آئے گی اور عقل مدہوش ہو جائے گی اور کان حیران و سراسیمہ ہو جائیں گے اور فکر راستہ گم کردے گی۔

اسی خطبہ کا ایک حصہ

بعض افراد کا اپنے زعم ناقص میں دعویٰ ہے کہ وہ رحمت خدا کے امید وار ہیں حالانکہ خدائے عظیم گواہ ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں آخرکیا وجہ ہے کہ ان کی امید کی جھلک ان کے اعمال میں نظر نہیں آتی ہے جب کہ ہر امیدوار کی امید اس کے اعمال سے واضح ہو جاتی ہے سوائے پروردگار سے لو لگانے کے کہ یہی امید مشکوک ہے اور اسی طرح ہرخوف ثابت ہو جاتاہے سوائے خوف خداکے کہ یہی غیر یقینی ہے۔انسان اللہ سے بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہے اوربندوں سے چھوٹی امیدیں رکھتا ہے لیکن بندوں کو وہ سارے آداب(۱) و حقوق دے دیتا ہے جو پروردگار

(۱) انسان کی نجات وآخرت کے دو بنیادی رکن ہیں۔ایک خوف اورایک امید۔اسلام نے قدم قدم پر انہیں دو چیزوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور انہیں ایمان اور عمل کاخلاصہ قراردیا ہے۔سورہ مبارکہ حمد جس میں سارا قرآن سمٹا ہوا ہے۔اس میں بھی رحمان و رحیم امید کا اشارہ ہے اور مالک یوم الدین خوف کا لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ انسان نہ واقعاًخداسے امید رکھتا ہے اورنہ اس سے خوف زدہ ہوتا ہے۔امیدوار ہوتا تو دعائوں اورعبادتوں میں دل لگتا کہ ان میں طلب ہی طلب پائی جاتی ہے اورخوف زدہ ہوتا توگناہوں سے پرہیز کرتا کہ گناہ ہی انسان کو عذاب الیم سے دوچار کردیتے ہیں۔

دنیا کی ہر امید اور اس کے ہرخوف کا کردار سے نمایاں ہوجانا اور آخرت کی امید وہم کا واضح نہہونا اس بات کی علامت ہے کہ دنیا اس کے کردارمیں ایک حقیقت ہے اورآخرت صرف الفاظ کامجموعہ اورتلفظ کی بازی گری ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۲۸۲

فَمَا بَالُ اللَّه جَلَّ ثَنَاؤُه يُقَصَّرُ بِه عَمَّا يُصْنَعُ بِه لِعِبَادِه - أَتَخَافُ أَنْ تَكُونَ فِي رَجَائِكَ لَه كَاذِباً - أَوْ تَكُونَ لَا تَرَاه لِلرَّجَاءِ مَوْضِعاً - وكَذَلِكَ إِنْ هُوَ خَافَ عَبْداً مِنْ عَبِيدِه - أَعْطَاه مِنْ خَوْفِه مَا لَا يُعْطِي رَبَّه

فَجَعَلَ خَوْفَه مِنَ الْعِبَادِ نَقْداً - وخَوْفَه مِنْ خَالِقِه ضِمَاراً ووَعْداً - وكَذَلِكَ مَنْ عَظُمَتِ الدُّنْيَا فِي عَيْنِه - وكَبُرَ مَوْقِعُهَا مِنْ قَلْبِه آثَرَهَا عَلَى اللَّه تَعَالَى - فَانْقَطَعَ إِلَيْهَا وصَارَ عَبْداً لَهَا.

رسول اللَّه

ولَقَدْ كَانَ فِي رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَافٍ لَكَ فِي الأُسْوَةِ - ودَلِيلٌ لَكَ عَلَى ذَمِّ الدُّنْيَا وعَيْبِهَا - وكَثْرَةِ مَخَازِيهَا ومَسَاوِيهَا - إِذْ قُبِضَتْ عَنْه أَطْرَافُهَا ووُطِّئَتْ لِغَيْرِه أَكْنَافُهَا - وفُطِمَ عَنْ رَضَاعِهَا وزُوِيَ عَنْ زَخَارِفِهَا.

موسى

وإِنْ شِئْتَ ثَنَّيْتُ بِمُوسَى كَلِيمِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حَيْثُ يَقُولُ –( رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ) -

کونہیں دیتا ہے۔تو آخر یہ کیا ہے کہ خدا کے بارے میں اس سلوک سے بھی کوتاہی کی جاتی ہے جو بندوں کے لئے کردیا جاتا ہے۔کیا تمہیں کبھی اس بات کا خوف پیدا ہوا ہے کہ کہیں تم اپنی امیدوں میں جھوٹے تو نہیں ہویا تم اسے محل امید ہی نہیں تصور کرتے ہو ۔

اسی طرح انسان جب کسی بندہ سے خوف زدہ ہوتا ہے تو اسے وہ سارے حقوق دے دیتا ہے جو پروردگار کو بھی نہیں دیتا ہے۔گویا بندوں کے خوف کو نقد تصور کرتا ہے اور خوف خدا کو صرف وعدہ اور ٹالنے کی چیز بنا رکھا ہے۔

یہی حال اس شخص کا بھی ہے جس کی نظر میں دنیا عظیم ہوتی ہے اور اس کے دل میں اس کی جگہ بڑی ہوتی ہے تو وہ دنیا کو آخرت پرمقدم کردیتا ہے۔اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اوراپنے کواس کا بندہ بنا دیتا ہے۔

رسول اکرم (ص)

یقینا رسول اکرم (ص) کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے اوردنیا کی ذلتاور اس کے عیوب کے لئے بہترین رہنما ہے کہ اس میں ذلت و رسوائی کے مقامات بکثرت پائے جاتے ہیں۔دیکھو اس دنیا کے اطراف حضور سے سمیٹ لئے گئے اور غیروں کے لئے ہموار کردئیے گئے۔آپ کو اس کے منافع سے الگ رکھا گیا اور اس کی آرائشوں سے کنارہ کش کردیا گیا۔اور اگر آپکے علاوہ دوسری مثال چاہتے ہو تو وہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی مثال ہے جنہوں نے خدا کی بارگاہ میں گزارش کی کہ'' پروردگار میں تیری طرف نازل ہونے والے خیر کا محتاج ہوں ''

۲۸۳

واللَّه مَا سَأَلَه إِلَّا خُبْزاً يَأْكُلُه - لأَنَّه كَانَ يَأْكُلُ بَقْلَةَ الأَرْضِ - ولَقَدْ كَانَتْ خُضْرَةُ الْبَقْلِ تُرَى مِنْ شَفِيفِ صِفَاقِ بَطْنِه - لِهُزَالِه وتَشَذُّبِ لَحْمِه

داود

وإِنْ شِئْتَ ثَلَّثْتُ بِدَاوُدَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صَاحِبِ الْمَزَامِيرِ وقَارِئِ أَهْلِ الْجَنَّةِ - فَلَقَدْ كَانَ يَعْمَلُ سَفَائِفَ الْخُوصِ بِيَدِه - ويَقُولُ لِجُلَسَائِه أَيُّكُمْ يَكْفِينِي بَيْعَهَا - ويَأْكُلُ قُرْصَ الشَّعِيرِ مِنْ ثَمَنِهَا.

عيسى

وإِنْ شِئْتَ قُلْتُ فِي عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَعليه‌السلام - فَلَقَدْ كَانَ يَتَوَسَّدُ الْحَجَرَ - ويَلْبَسُ الْخَشِنَ ويَأْكُلُ الْجَشِبَ - وكَانَ إِدَامُه الْجُوعَ وسِرَاجُه بِاللَّيْلِ الْقَمَرَ - وظِلَالُه فِي الشِّتَاءِ مَشَارِقَ الأَرْضِ ومَغَارِبَهَا - وفَاكِهَتُه ورَيْحَانُه مَا تُنْبِتُ الأَرْضُ لِلْبَهَائِمِ - ولَمْ تَكُنْ لَه زَوْجَةٌ تَفْتِنُه ولَا وَلَدٌ يَحْزُنُه - ولَا مَالٌ يَلْفِتُه ولَا طَمَعٌ يُذِلُّه - دَابَّتُه رِجْلَاه وخَادِمُه يَدَاه.

الرسول الأعظم

فَتَأَسَّ بِنَبِيِّكَ الأَطْيَبِ الأَطْهَرِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَإِنَّ فِيه أُسْوَةً لِمَنْ تَأَسَّى

لیکن خدا گواہ ہے کہ انہوں نے ایک لقمہ نان کے علاوہ کوئی سوال نہیں کیا۔وہ زمین کی سبزی کھا لیا کرتے تھے اور اسی لئے ان کے شکم کی نرم و نازک کھال سے سبزی کا رنگ نظر آیا کرتا تھا کہ وہ انتہائی لاغر ہوگئے تھے اور ان کا گوشت گل گیا تھا۔

تیسری جناب دائود کی ہے جو صاحب زبور اورقاری اہل جنت تھے۔مگر وہ اپنے ہاتھ سے کھجور کے پتوں سے توکریاں بنایاکرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے کہ کون ایسا ہے جو مجھے ان کے فروختکرنے میں مدد دے اور پھر انہیں بیچ کر جو کی روٹیاں کھالیا کرتے تھے۔ اس کے بعد چاہو تو میں عیسی بن مریم کی زندگی کا حال بیان کروں۔جو پتھروں پرتکیہ کرتے تھے ۔ کھردار لباس پہنتے تھے اور معمولی غذا پر گزارا کیا کرتے تھے۔ان کے کھانے میں سالن کی جگہ بھوک تھی اور رات میں چراغ کے بدلے چاند کی روشنی تھی۔سردی میں سایہ کے بدلے مشرق و مغرب کا آسمانی سائبان تھا۔ان کے میوے اور پھول وہ نباتات تھے جو جانوروں کے کام آتے ہیں۔ان کے پاس کوئی زوجہ نہ تھی جو انہیں مشغول کر لیتی اورنہ کوئی اولاد تھی جس کا رنج و غم ہوتا اور نہ کوئی مال تھا جو اپنی طرف متوجہ کر لیتا اور نہ کوئی طمع تھی جو ذلت کا شکار بنا دیتی ۔ان کے پیر ان کی سواری تھے اور ان کے ہاتھ ان کے خادم ۔

رسول اکرم (ص)

تم لوگاپنے طیب و طاہر پیغمبر کا اتباع کرو کہ ان کی زندگی میں پیروی کرنے والے کے لئے بہترین نمونہ اور

۲۸۴

وعَزَاءً لِمَنْ تَعَزَّى - وأَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللَّه الْمُتَأَسِّي بِنَبِيِّه - والْمُقْتَصُّ لأَثَرِه - قَضَمَ الدُّنْيَا قَضْماً ولَمْ يُعِرْهَا طَرْفاً - أَهْضَمُ أَهْلِ الدُّنْيَا كَشْحاً - وأَخْمَصُهُمْ مِنَ الدُّنْيَا بَطْناً - عُرِضَتْ عَلَيْه الدُّنْيَا فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَهَا - وعَلِمَ أَنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَبْغَضَ شَيْئاً فَأَبْغَضَه - وحَقَّرَ شَيْئاً فَحَقَّرَه وصَغَّرَ شَيْئاً فَصَغَّرَه - ولَوْ لَمْ يَكُنْ فِينَا إِلَّا حُبُّنَا مَا أَبْغَضَ اللَّه ورَسُولُه - وتَعْظِيمُنَا مَا صَغَّرَ اللَّه ورَسُولُه - لَكَفَى بِه شِقَاقاً لِلَّه ومُحَادَّةً عَنْ أَمْرِ اللَّه - ولَقَدْ كَانَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَأْكُلُ عَلَى الأَرْضِ - ويَجْلِسُ جِلْسَةَ الْعَبْدِ ويَخْصِفُ بِيَدِه نَعْلَه - ويَرْقَعُ بِيَدِه ثَوْبَه ويَرْكَبُ الْحِمَارَ الْعَارِيَ - ويُرْدِفُ خَلْفَه - ويَكُونُ السِّتْرُ عَلَى بَابِ بَيْتِه فَتَكُونُ فِيه التَّصَاوِيرُ فَيَقُولُ - يَا فُلَانَةُ لإِحْدَى أَزْوَاجِه غَيِّبِيه عَنِّي - فَإِنِّي إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْه ذَكَرْتُ الدُّنْيَا وزَخَارِفَهَا - فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْيَا بِقَلْبِه وأَمَاتَ ذِكْرَهَا مِنْ نَفْسِه - وأَحَبَّ أَنْ تَغِيبَ زِينَتُهَا عَنْ عَيْنِه

صبرو سکون کے طلب گاروں کے لئے بہترین سامان صبرو سکون ہے۔اللہ کی نظر میں محبوب ترین بندہ وہ ہے جو اس کے پیغمبر کا اتباع کرے اور ان کے نقش قدم پر آگے بڑھائے۔انہوںنے دنیا سے صرف مختصر غذا حاصل کی اور اسے نظر بھرکردیکھا بھی نہیں ۔ساری دنیا میں سب سے زیادہ خالی شکم اور شکم تہی میں بسر کرنے والے وہی تھے ان کے سامنے دنیا پیش کی گئی تو اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور یہ دیکھ لیا کہ پروردگار اسے پسند نہیں کرتا ہے تو خود بھی نا پسند کیا اور خداحقیر سمجھتا ہے توخود بھی حقیر سمجھا اور اس نے چھوٹا بنا دیا ہے تو خودب ھی چھوٹا ہی قراردیا۔اور اگر ہم میں اس کے علاوہ کوئی عیب نہ ہوتا کہ ہم خدا و رسول (ص) کے مبغوض کو محبوب سمجھنے لگے ہیں اور خدا و رسول (ص) کی نگاہ میں صغیر و حقیر کو عظیم سمجھنے لگے ہیں تو یہی عیب خدا کی مخالفت اور اسکے حکم سے انحراف کے لئے کافی تھا۔دیکھو پیغمبر اکرم (ص) ہمیشہ زمین پر بیٹھ کر کھاتے تھے۔غلاموں کے انداز سے بیٹھتے تھے اور کسی نہ کسی کو ساتھ بٹھا بھی لیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اپنے مکان کے دروازہ پر ایسا پردہ دیکھ لیا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں تو ایک زوجہ(۱) سے فرمایا کہ خبر دار اسے ہٹائو۔میں اس کی طرف دیکھوں گا تو دنیا اور اس کی آرائش یاد آئے گی۔

(۱) واضح رہے کہ اس واقعہ کا تعلق ازواج کی زندگی اور ان کے گھروں سے ہے۔اس کی اہل بیت کے گھر سے کوئی تعلق نہیں ہے جسے بعض راویوں نے اہل بیت کی طرف موڑ دیا ہے تاکہ ان کی زندگی میں بھی عیش و عشرت کا اثبات کر سکیں۔جب کہ اہل بیت کی زندگی تاریخ اسلام میں مکمل طور پر آئینہ ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ ان حضرات نے تمام تر اختیارات کے باوجود اپنی زندگی انتہائی سادگی سے گزار دی ہے اور سارا مال دنیا راہ خدامیں صرف کردیا ہے۔

۲۸۵

لِكَيْلَا يَتَّخِذَ مِنْهَا رِيَاشاً ولَا يَعْتَقِدَهَا قَرَاراً - ولَا يَرْجُوَ فِيهَا مُقَاماً فَأَخْرَجَهَا مِنَ النَّفْسِ - وأَشْخَصَهَا عَنِ الْقَلْبِ وغَيَّبَهَا عَنِ الْبَصَرِ - وكَذَلِكَ مَنْ أَبْغَضَ شَيْئاً أَبْغَضَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَيْه - وأَنْ يُذْكَرَ عِنْدَه.

ولَقَدْ كَانَ فِي رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - مَا يَدُلُّكُ عَلَى مَسَاوِئِ الدُّنْيَا وعُيُوبِهَا - إِذْ جَاعَ فِيهَا مَعَ خَاصَّتِه - وزُوِيَتْ عَنْه زَخَارِفُهَا مَعَ عَظِيمِ زُلْفَتِه -

فَلْيَنْظُرْ نَاظِرٌ بِعَقْلِه – أَكْرَمَ اللَّه مُحَمَّداً بِذَلِكَ أَمْ أَهَانَه - فَإِنْ قَالَ أَهَانَه فَقَدْ كَذَبَ واللَّه الْعَظِيمِ بِالإِفْكِ الْعَظِيمِ - وإِنْ قَالَ أَكْرَمَه - فَلْيَعْلَمْ أَنَّ اللَّه قَدْ أَهَانَ غَيْرَه حَيْثُ بَسَطَ الدُّنْيَا لَه - وزَوَاهَا عَنْ أَقْرَبِ النَّاسِ مِنْه - فَتَأَسَّى مُتَأَسٍّ بِنَبِيِّه - واقْتَصَّ أَثَرَه ووَلَجَ مَوْلِجَه

آپ نے دنیا سے دل سے کنارہ کشی فرمائی اور اس کی یاد کو اپنے دل سے محو کردیا اور یہ چاہاکہ اس کی زینت نگاہوں سے دور رہے تاکہ نہ بہترین لباس بنائیں اور نہ اسے پانے دل میں جگہ دیں اور نہ اس دنیا میں کسی مقام کی آرزو کریں۔آپ نے دنیا کو نفس سے نکال دیا اور دل سے دور کردیا اور نگاہوں سے بھی غائب کردیا اور یہی ہر انسان کا اصول ہے کہ جس چیز کو نا پسند کرتا ہے اس کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتا ہے اور اس کے ذکر کوبھی نا پسند کر تا ہے۔یقینا رسول (ص) اللہ کی زندگی میں وہ ساری باتیں پائی جاتی ہیں جو دنیا کے عیوب اور اس کی خرابیوں کی نشاندہی کر سکتی ہیں کہ آپ نے اپنے گھر والوں سمیت بھوکا رہنا گوارا کیا ے اورخدا کی بارگاہ میں انتہائی تقرب کے باوجود دنیا کی زینتوں کو آپ سے الگ رکھا گیا ہے۔

اب ہر انسان کو نگاہ عقل سے دیکھنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ اس صورت حال اور اس طرح کی زندگی سے پروردگار نے اپنے پیغمبر (ص) کو عزت دی ہے یا انہیں ذلیل بنایا ہے۔اگر کسی کا خیال یہ ہے کہ ذلیل بنایا ہے تو وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے اور اگر احساس یہ ہے کہ عزت دی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اللہ نے اس کے لئے دنیا کو فرش کردیا ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اسے ذلیل بنا دیا ہے کہ اپنے قریب ترین بندہ سے اسے دور رکھا تھا ۔اب ہر شخص کو رسول اکرم (ص) کا اتباع کرنا چاہیے۔ان کا نقش قدم پرچلنا چاہیے اور ان کی منزل پر قدم رکھنا چاہیے

۲۸۶

وإِلَّا فَلَا يَأْمَنِ الْهَلَكَةَ - فَإِنَّ اللَّه جَعَلَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَلَماً لِلسَّاعَةِ - ومُبَشِّراً بِالْجَنَّةِ ومُنْذِراً بِالْعُقُوبَةِ - خَرَجَ مِنَ الدُّنْيَا خَمِيصاً ووَرَدَ الآخِرَةَ سَلِيماً - لَمْ يَضَعْ حَجَراً عَلَى حَجَرٍ - حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِه وأَجَابَ دَاعِيَ رَبِّه - فَمَا أَعْظَمَ مِنَّةَ اللَّه عِنْدَنَا - حِينَ أَنْعَمَ عَلَيْنَا بِه سَلَفاً نَتَّبِعُه وقَائِداً نَطَأُ عَقِبَه - واللَّه لَقَدْ رَقَّعْتُ مِدْرَعَتِي هَذِه حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَاقِعِهَا - ولَقَدْ قَالَ لِي قَائِلٌ أَلَا تَنْبِذُهَا عَنْكَ - فَقُلْتُ اغْرُبْ عَنِّي فَعِنْدَ الصَّبَاحِ يَحْمَدُ الْقَوْمُ السُّرَى !

(۱۶۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في صفة النبي وأهل بيته وأتباع دينه، وفيها يعظ بالتقوى

ورنہ ہلاکت سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔پروردگار نے پیغمبر اسلام کو قرب قیامت کی علامت جنت کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنایا ہے۔وہ دنیا سے بھوکے چلے گئے لیکن آخرت میں سلامتی کے ساتھ وارد ہوئے ۔انہوںنے تعمیر کے لئے پتھر(۱) پر پتھر نہیں رکھا اور دنیا سے رخصت ہوگئے اور اپنے پروردگار کیدعوت پر لبیک کہہ دی۔پروردگار کا کتنا عظیم احسان ہے کہ اس نے ہمیں ان کا جیسا رہنما عطا فرمایا ہے جس کا اتباع کیا جائے اور قائد دیا ہے جس کے نقش قدم پر قدم جمائے جائیں۔خداکی قسم میں نے اس قمیض میں اتنے پیوند لگوائے ہیں کہ اب رفو گر کو دیتے ہوئے شرم آنے لگی ہے۔مجھ سے ایک شخص نے یہ بھی کہا تھا کہ اسے پھینک کیوں نہیں دیتے تومیں نے اس سے کہہ دیا کہ مجھ سے دور ہو جا۔'' صبح ہونے کے بعد قوم کو رات میں سفر کرنے کی قدر ہوتی ہے ''

(۱۶۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں رسول اکرم (ص) کے صفات ' اہل بیت کی فضیلت اور تقویٰ و اتباع رسول (ص) کی دعوت کا تذکرہ کیا گیا ہے)

(۱) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر مسلمان کوآوارہ وطن اورخانہ بدوش ہوناچاہیے اور خیموں اور چھولداریوں میں زندگی گزار دینا چاہیے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان کو دنیا کی اہمیت و عظمت کا قائل نہیں ہونا چاہیے اور اسے صرف بطور ضرورت اور بقدر ضرورت استعمال کرنا چاہیے وہ مکمل طور سے قبضہ میں آجائے تو انسان کو باعزت نہیں بنا سکتی ہے اور سوفیصد ہی اتھوں سے نکل جائے توذلیل نہیں کر سکتی ہے۔عزت و ذلت کا معیار مال و دولت اورجاہ و منصب نہیں ہے۔اس کامعیار صرف عبادت الٰہی اور اطاعت پروردگار ہے جس کے بعد ملک دنیا کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے۔

۲۸۷

الرسول وأهله وأتباع دينه

ابْتَعَثَه بِالنُّورِ الْمُضِيءِ والْبُرْهَانِ الْجَلِيِّ - والْمِنْهَاجِ الْبَادِي والْكِتَابِ الْهَادِي - أُسْرَتُه خَيْرُ أُسْرَةٍ وشَجَرَتُه خَيْرُ شَجَرَةٍ - أَغْصَانُهَا مُعْتَدِلَةٌ وثِمَارُهَا مُتَهَدِّلَةٌ - مَوْلِدُه بِمَكَّةَ وهِجْرَتُه بِطَيْبَةَ .عَلَا بِهَا ذِكْرُه وامْتَدَّ مِنْهَا صَوْتُه - أَرْسَلَه بِحُجَّةٍ كَافِيَةٍ ومَوْعِظَةٍ شَافِيَةٍ ودَعْوَةٍ مُتَلَافِيَةٍ - أَظْهَرَ بِه الشَّرَائِعَ الْمَجْهُولَةَ - وقَمَعَ بِه الْبِدَعَ الْمَدْخُولَةَ - وبَيَّنَ بِه الأَحْكَامَ الْمَفْصُولَةَ - فَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلَامِ دَيْناً تَتَحَقَّقْ شِقْوَتُه - وتَنْفَصِمْ عُرْوَتُه وتَعْظُمْ كَبْوَتُه - ويَكُنْ مَآبُه إِلَى الْحُزْنِ الطَّوِيلِ والْعَذَابِ الْوَبِيلِ.

وأَتَوَكَّلُ عَلَى اللَّه تَوَكُّلَ الإِنَابَةِ إِلَيْه - وأَسْتَرْشِدُه السَّبِيلَ الْمُؤَدِّيَةَ إِلَى جَنَّتِه - الْقَاصِدَةَ إِلَى مَحَلِّ رَغْبَتِه.

النصح بالتقوى

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه وطَاعَتِه - فَإِنَّهَا النَّجَاةُ غَداً والْمَنْجَاةُ أَبَداً - رَهَّبَ فَأَبْلَغَ ورَغَّبَ فَأَسْبَغَ -

پروردگار نے آپ کو روشن نور۔واضح دلیل۔نمایاں راستہ اور ہدایت کرنے والی کتاب کے ساتھ بھیجا ہے ۔آپ کا خاندان بہترین خاندان اورآپ کا شجرہ بہترین شجرہ ہے۔جس کی شاخیں معتدل ہیں اورثمرات دسترس کے اندر ہیں۔آپ کی جائے ولادت مکہ مکرمہ ہے اور مقام ہجرت ارض طیبہ۔یہیں سے آپ کاذکر بلند ہوا ہے اور یہیں سے آپ کی آواز پھیلی ہے۔پروردگار نے آپ کو کفایت کرنے والی حجت ' شفا دینے والی نصیحت' گذشتہ تمام امور کی تلافی کرنے والی دعوت کے ساتھ بھیجا ہے۔آپ کے ذریعہ غیر معروف شریعتوں کو ظاہر کیاہے اور مہمل بدعتوں کا قلع قمع کردیا ہے اور واضح احکام کو بیان کردیا ہے لہٰذا اب جوبھی اسلام کے علاوہ کسی راستہ کواختیار کرے گا اس کی شقاوت ثابت ہو جائے گی اور ریسمان حیات بکھر جائے گی اور منہ کے بھل گرنا سخت ہو جائے گا اور انجام کار دائمی حزن والم اورشدید ترین عذاب ہوگا۔

میں خدا پراسی طرح بھروسہ کرتا ہوں جس طرح اس کی طرف توجہ کرنے والے کرتے ہیں اور اس سے اس راستہ کی ہدایت طلب کرتا ہوں جو اس کی جنت تک پہنچانے والا اور اس کی منزل مطلوب کی طرف لے جانا والا ہے۔

بند گان خدا !میں تمہیں تقویٰ الٰہی اور اس کی اطاعت کی وصیت کرتاہوں کہ اس میں کل نجات ہے اور یہی ہمیشہ کے لئے مرکزنجات ہے۔اس نے تمہیں

۲۸۸

ووَصَفَ لَكُمُ الدُّنْيَا وانْقِطَاعَهَا - وزَوَالَهَا وانْتِقَالَهَا - فَأَعْرِضُوا عَمَّا يُعْجِبُكُمْ فِيهَا لِقِلَّةِ مَا يَصْحَبُكُمْ مِنْهَا - أَقْرَبُ دَارٍ مِنْ سَخَطِ اللَّه وأَبْعَدُهَا مِنْ رِضْوَانِ اللَّه - فَغُضُّوا عَنْكُمْ عِبَادَ اللَّه غُمُومَهَا وأَشْغَالَهَا - لِمَا قَدْ أَيْقَنْتُمْ بِه مِنْ فِرَاقِهَا وتَصَرُّفِ حَالَاتِهَا - فَاحْذَرُوهَا حَذَرَ الشَّفِيقِ النَّاصِحِ والْمُجِدِّ الْكَادِحِ - واعْتَبِرُوا بِمَا قَدْ رَأَيْتُمْ مِنْ مَصَارِعِ الْقُرُونِ قَبْلَكُمْ - قَدْ تَزَايَلَتْ أَوْصَالُهُمْ - وزَالَتْ أَبْصَارُهُمْ وأَسْمَاعُهُمْ - وذَهَبَ شَرَفُهُمْ وعِزُّهُمْ - وانْقَطَعَ سُرُورُهُمْ ونَعِيمُهُمْ - فَبُدِّلُوا بِقُرْبِ الأَوْلَادِ فَقْدَهَا - وبِصُحْبَةِ الأَزْوَاجِ مُفَارَقَتَهَا - لَا يَتَفَاخَرُونَ ولَا يَتَنَاسَلُونَ - ولَا يَتَزَاوَرُونَ ولَا يَتَحَاوَرُونَ - فَاحْذَرُوا عِبَادَ اللَّه حَذَرَ الْغَالِبِ لِنَفْسِه - الْمَانِعِ لِشَهْوَتِه النَّاظِرِ بِعَقْلِه - فَإِنَّ الأَمْرَ وَاضِحٌ والْعَلَمَ قَائِمٌ - والطَّرِيقَ جَدَدٌ والسَّبِيلَ قَصْدٌ

ڈرایا تو مکمل طور سے ڈرایا اور رغبت دلائی تو مکمل رغبت کا انتظام کیا۔تمہارے لئے دنیا اور اس کی جدائی اس کے زوال اور اس سے انتقال سب کی توصیف کردی ہے لہٰذا اس میں جو چیز اچھی لگے اس سے اعراض کرو کہ ساتھ جانے والی شے بہت کم ہے دیکھو یہ گھر غضب الٰہی سے قری تر اور رضائے الٰہی سے دور تر ہے۔

بند گان خدا! ہم و غم اور اس کے اشغال سے چشم پوشی کرلو کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس سے بہر حال جدا ہونا ہے اور اس کے حالات برابر بدلتے رہتے ہیں۔اس سے اس طرح احتیاط کرو جس طرح ایک خوف زدہ اور اپنے نفس کامخلص اور جانفشانی کے ساتھ کوشش کرنے والا احتیاط کرتا ے اور اس سے عبرت حاصل کرو ان مناظرکے ذریعہ جو تم نے خود دیکھ لئے ہیں کہ گذشتہ نسلیں ہلاک ہوگئیں۔ان کے جوڑ بند الگ الگ ہوگئے۔انکیآنکھیں اور ان کے کان ختم ہوگئے۔ان کی شرافت اورعزت چلی گئی۔ان کی مسرت اورنعمت کاخاتمہ ہوگیا۔اولاد کاقرب فقدان میں تبدیل ہوگیا اور ازواج کی صحبت فراق میں بدل گئی۔اب نہ باہمی مفاخرت رہ گئی ہے اور نہ نسلوں کا سلسلہ ' نہ ملاقاتیں رہ گئی ہیں اورنہ بات چیت۔

لہٰذا بندگان خدا! ڈرو اس شخص کی طرح جو اپنے نفس پرقابو رکھتا ہو۔اپنی خواہشات کو روک سکتا ہو اوراپنی عقل کی آنکھوں سے دیکھتا ہو۔مسئلہ بالکل واضح ہے۔نشانیاں قائم ہیں راستہ سیدھا ہے اور صراط بالکل مستقیم ہے۔

۲۸۹

(۱۶۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لبعض أصحابه وقد سأله: كيف دفعكم قومكم عن هذا المقام وأنتم أحق به فقال:

يَا أَخَا بَنِي أَسَدٍ إِنَّكَ لَقَلِقُ الْوَضِينِ - تُرْسِلُ فِي غَيْرِ سَدَدٍ - ولَكَ بَعْدُ ذِمَامَةُ الصِّهْرِ وحَقُّ الْمَسْأَلَةِ - وقَدِ اسْتَعْلَمْتَ فَاعْلَمْ - أَمَّا الِاسْتِبْدَادُ عَلَيْنَا بِهَذَا الْمَقَامِ - ونَحْنُ الأَعْلَوْنَ نَسَباً والأَشَدُّونَ بِالرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نَوْطاً فَإِنَّهَا كَانَتْ أَثَرَةً شَحَّتْ عَلَيْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ - وسَخَتْ عَنْهَا نُفُوسُ آخَرِينَ - والْحَكَمُ اللَّه والْمَعْوَدُ إِلَيْه الْقِيَامَةُ.

ودَعْ عَنْكَ نَهْباً صِيحَ فِي حَجَرَاتِه

ولَكِنْ حَدِيثاً مَا حَدِيثُ الرَّوَاحِلِ

وهَلُمَّ الْخَطْبَ فِي ابْنِ أَبِي سُفْيَانَ - فَلَقَدْ أَضْحَكَنِي الدَّهْرُ بَعْدَ إِبْكَائِه - ولَا غَرْوَ واللَّه - فَيَا لَه خَطْباً يَسْتَفْرِغُ الْعَجَبَ

(۱۶۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس شخص سے جس نے یہ سوال کرلیا کہ لوگوں نے آپ کو آپ کی منزل سے کس طرح ہٹا دیا)

اے برادر بنی اسد! تم بہت تنگ حوصلہ ہو اورغلط راستہ پر چل پڑے ہو۔لیکن بہرحال تمہیں قرابت(۱) کاحق بھی حاصل ہے اور سوال کا حق بھی ہے اورتم نے در یا فت بھی کرلی ہے تو اب سنو! ہمارے بلند نسب اور رسول اکرم (ص) سے قریب ترین تعلق کے باوجود قوم نے ہم سے اس حق کو اس لئے چھین لیاکہ اس میں ایک خود غرضی تھی جس پرایک جماعت کے نفس مرمٹے تھے اور دوسری جماعت(۲) نے چشم پوشی سے کام لیا تھا لیکن بہرحال حاکم اللہ ہے اور روز قیامت اسی کی بارگاہ میں پلٹ کرجانا ہے۔(اس لوٹ مار کا ذکر چھوڑو جس کا شور(۳) چاروں طرف مچا ہواتھا اب اونٹنیوں کی بات کرو جو اپنے قبضہ میں رہ کرنکل گئی ہیں ) اب آئو اس مصیبت کودیکھو جو ابو سفیان کے بیٹے کی طرف سے آئی ہے کہ زمانہ نے رلانے کے بعد ہنسا دیا ہے اور بخدااس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے تعجب تو اس حادثہ پر ہے

(۱) شاید اس امرکی طرف اشارہ ہو کہ سرکار دو عالم (ص) کی ایک زوجہ زینت جحش اسدی تھیں اور ان کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب آپ کی پھوپھی تھیں۔

(۲) اس میں دونوں احتمالات پائے جاتے ہیں۔یا اس قوم کی طرف اشارہ ہے جس نے حق اہل بیت کا تحفظ نہیں کیا اور تغافل سے کام لیا۔یا خود اپنے کردار کی بلندی کی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے بھی چشم پوشی سے کام لیا اور مقابلہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اس طرح ظالموں نے منصب پر مکمل طور سے قبضہ کرلیا۔

(۳) یہ امرء القیس کامصرع ہے جب اس کے باپ کو قتل کردیا گیا تو وہ انتقام کے لئے قبائل کی کمک تلاش کر رہا تھا۔ایک مقام پر مقیم تھاکہ لوگ اس کے اونٹ پکڑ لے گئے۔اس نے میزبان سے فریاد کی میزبان نے کہا کہ میں ابھی واپس لاتا ہوں۔ثبوت میں تمہاری اونٹنیاں لے جاتا ہوں اور اس طرح اونٹ کے ساتھ اونٹنی پر بھی قبضہ کرلیا۔

۲۹۰

ويُكْثِرُ الأَوَدَ - حَاوَلَ الْقَوْمُ إِطْفَاءَ نُورِ اللَّه مِنْ مِصْبَاحِه - وسَدَّ فَوَّارِه مِنْ يَنْبُوعِه - وجَدَحُوا بَيْنِي وبَيْنَهُمْ شِرْباً وَبِيئاً - فَإِنْ تَرْتَفِعْ عَنَّا وعَنْهُمْ مِحَنُ الْبَلْوَى - أَحْمِلْهُمْ مِنَ الْحَقِّ عَلَى مَحْضِه وإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى –( فَلا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَراتٍ - إِنَّ الله عَلِيمٌ بِما يَصْنَعُونَ ) .

(۱۶۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

الخالق جل وعلا

الْحَمْدُ لِلَّه خَالِقِ الْعِبَادِ وسَاطِحِ الْمِهَادِ - ومُسِيلِ الْوِهَادِ ومُخْصِبِ النِّجَادِ - لَيْسَ لأَوَّلِيَّتِه ابْتِدَاءٌ ولَا لأَزَلِيَّتِه انْقِضَاءٌ - هُوَ الأَوَّلُ ولَمْ يَزَلْ والْبَاقِي بِلَا أَجَلٍ - خَرَّتْ لَه الْجِبَاه ووَحَّدَتْه الشِّفَاه - حَدَّ الأَشْيَاءَ عِنْدَ خَلْقِه لَهَا إِبَانَةً لَه مِنْ شَبَهِهَا

جس نے تعجب کابھی خاتمہ کردیا ہے اور کجی کو بڑھا وا دیا ہے۔قوم نے چاہا تھاکہ نور الٰہی کواس کے چراغ ہی سے خاموش کردیا جائے اور فوارہ کو چشمہ ہی سے بند کردیا جائے ۔میرے اور اپنے درمیان زہریلے گھونٹوں کی آمیزش کردی کہ اگر مجھ سے اور ان سے ابتلاء کی زحمتیں ختم ہو گئیں تومیں انہیں خالص حق(۱) کےراستہ پرچلائوں گا اور اگر کئی دوسری صورت ہوگئی توتمہیں حسرت و افسوس سے اپنی جان نہیں دینی چاہیے ۔اللہ ان کے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

(۱۶۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جوبندوں کا خلق کرنے والا۔زمین کا فرش بچھانے والا۔وادیوں میں پانی کا بہانے والا اور ٹیلوں کا سر سبز و شاداب بنانے والا ہے۔اس کی اولیت کی کوئی ابتدا نہیں ہے اور اس کی ازلیت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔وہ ابتدا ء سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔وہ باقی ہے اور اس کی بقا کی کوئی مدت نہیں ہے۔پیشانیاں اس کے سامنے سجدہ ریز اور لب اس کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے ہیں۔اس نے تخلیق کے ساتھ ہی ہرشے کے حدود معین کردئیے ہیں تاکہ وہ کسی سے مشابہ نہ ہونے پائیں

(۱) یہ مکتب اہل بیت کاخاصہ ہے کہ ہمیشہ حق کے راستے پرچلنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اسی راستہ پر چلانا چاہیے اور اس راہ میں کسی طرح کی زحمت و مصیبت کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے۔چنانچہ بعض مورخین کے بیان کے مطابق جب دورعمر بن خطاب میں سلمانفارسی کو مدئان کاگورنر بنایا گیا اور انہوں نے کاروبارکی نگرانی کا قانون نافذ کیا تو ارباب ثروت و تجارت نے خلیفہ سے شکایت کردی اور انہوں نے فی الفور جناب سلمان کو معزول کردیا کہ کہیں نگرانی اور محاسبہ کاتصور سارے ملک میں نہ پھیل جائے کہ ارباب مصالح و منافع بغاوت پرآمادہ ہو جائیں اور حکومت کو حق کی راہ پر چلنے کے لئے خاطر خواہ قیمت ادا کرنا پڑے ۔

۲۹۱

لَا تُقَدِّرُه الأَوْهَامُ بِالْحُدُودِ والْحَرَكَاتِ - ولَا بِالْجَوَارِحِ والأَدَوَاتِ لَا يُقَالُ لَه مَتَى - ولَا يُضْرَبُ لَه أَمَدٌ بِحَتَّى - الظَّاهِرُ لَا يُقَالُ مِمَّ والْبَاطِنُ لَا يُقَالُ فِيمَ - لَا شَبَحٌ فَيُتَقَصَّى ولَا مَحْجُوبٌ فَيُحْوَى - لَمْ يَقْرُبْ مِنَ الأَشْيَاءِ بِالْتِصَاقٍ - ولَمْ يَبْعُدْ عَنْهَا بِافْتِرَاقٍ - ولَا يَخْفَى عَلَيْه مِنْ عِبَادِه شُخُوصُ لَحْظَةٍ - ولَا كُرُورُ لَفْظَةٍ ولَا ازْدِلَافُ رَبْوَةٍ - ولَا انْبِسَاطُ خُطْوَةٍ فِي لَيْلٍ دَاجٍ - ولَا غَسَقٍ سَاجٍ يَتَفَيَّأُ عَلَيْه الْقَمَرُ الْمُنِيرُ - وتَعْقُبُه الشَّمْسُ ذَاتُ النُّورِ فِي الأُفُولِ والْكُرُورِ - وتَقَلُّبِ الأَزْمِنَةِ والدُّهُورِ - مِنْ إِقْبَالِ لَيْلٍ مُقْبِلٍ وإِدْبَارِ نَهَارٍ مُدْبِرٍ - قَبْلَ كُلِّ غَايَةٍ ومُدَّةِ وكُلِّ إِحْصَاءٍ وعِدَّةٍ - تَعَالَى عَمَّا يَنْحَلُه الْمُحَدِّدُونَ مِنْ صِفَاتِ الأَقْدَارِ - ونِهَايَاتِ الأَقْطَارِ وتَأَثُّلِ الْمَسَاكِنِ - وتَمَكُّنِ الأَمَاكِنِ - فَالْحَدُّ لِخَلْقِه مَضْرُوبٌ وإِلَى غَيْرِه مَنْسُوبٌ.

ابتداع المخلوقين

لَمْ يَخْلُقِ الأَشْيَاءَ مِنْ أُصُولٍ أَزَلِيَّةٍ - ولَا مِنْ أَوَائِلَ أَبَدِيَّةٍ - بَلْ خَلَقَ مَا خَلَقَ

انسانی ادہام اس کے لئے حدود و حرکات اور اعضاء و جوارح کاتعین نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کب سے ہے اور نہ یہ حد بندی کی جا سکتی ہے کہ کب تک رہے گا۔وہ ظاہر ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتاہے کہ کس چیز سے اور باطن ہے لیکن یہ نہیں سوچا جا سکتا ہے کہ کس چیز میں ؟ وہ نہ کوئی ڈھانچہ ہے کہ ختم ہو جائے اور نہ کسی حجاب میں ہے کہ محدود ہو جائے۔ظاہری اتصال کی بنیاد پر اشیاء سے قریب نہیں ہے اور جسمانی جدائی کی بنا پر دورنہیں ہے۔اس کے اوپر بندوں کے حالات میں سے نہ ایک کاجھیکنا مخفی ہے اور نہ الفاظ کا دہرانا۔نہ بلندی کا دور سے جھلکنا پوشیدہ ہے اور نہ قدم کا آگے بڑھنا۔نہ اندھیری رات میں اور نہ چھائی ہوئی اندھیاریوں میں جن پر روشن چاند اپنی کرنوں کا سایہ ڈالتا ہے اور روشن آفتاب طلوع وغروب میں اور زمانہ کی ان گردشوں میں جو آنے والی رات کی آمد اور جانے والے دن کے گزرنے سے پیدا ہوتی ہے۔وہ ہر انتہا و مدت سے پہلے ہے اور ہر احصاء و شمارسے ماوراء ہے۔وہ ان صفات سے بلند تر ہے جنہیں محدود سمجھ لینے والے اس کی طرف منسوب کر دیتے ہیں چاہے وہ صفتوں کے انداز ے ہوں یا اطراف و جوانب کی حدیں۔مکانات میں قیام ہو یا مساکن میں قرار۔حد بندی اس کی مخلوقات کے لئے ہے اور اس کی نسبت اس کے غیر کی طرف ہوتی ہے۔ اس نے اشیاء کی تخلیق نہ ازلی مواد سے کی ہے اور نہ ابدی مثالوں سے ۔جوکچھ بھی خلق کیا ہے خود خلق کیا ہے

۲۹۲

فَأَقَامَ حَدَّه - وصَوَّرَ فَأَحْسَنَ صُورَتَه - لَيْسَ لِشَيْءٍ مِنْه امْتِنَاعٌ ولَا لَه بِطَاعَةِ شَيْءٍ انْتِفَاعٌ - عِلْمُه بِالأَمْوَاتِ الْمَاضِينَ كَعِلْمِه بِالأَحْيَاءِ الْبَاقِينَ - وعِلْمُه بِمَا فِي السَّمَاوَاتِ الْعُلَى - كَعِلْمِه بِمَا فِي الأَرَضِينَ السُّفْلَى.

منها - أَيُّهَا الْمَخْلُوقُ السَّوِيُّ والْمُنْشَأُ الْمَرْعِيُّ - فِي ظُلُمَاتِ الأَرْحَامِ ومُضَاعَفَاتِ الأَسْتَارِ -. بُدِئْتَ( مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ ) ووُضِعْتَ( فِي قَرارٍ مَكِينٍ إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ ) وأَجَلٍ مَقْسُومٍ - تَمُورُ فِي بَطْنِ أُمِّكَ جَنِيناً لَا تُحِيرُ دُعَاءً ولَا تَسْمَعُ نِدَاءً - ثُمَّ أُخْرِجْتَ مِنْ مَقَرِّكَ إِلَى دَارٍ لَمْ تَشْهَدْهَا - ولَمْ تَعْرِفْ سُبُلَ مَنَافِعِهَا.فَمَنْ هَدَاكَ لِاجْتِرَارِ الْغِذَاءِ مِنْ ثَدْيِ أُمِّكَ - وعَرَّفَكَ عِنْدَ الْحَاجَةِ مَوَاضِعَ طَلَبِكَ وإِرَادَتِكَ - هَيْهَاتَ إِنَّ مَنْ يَعْجِزُ عَنْ صِفَاتِ ذِي الْهَيْئَةِ والأَدَوَاتِ - فَهُوَ عَنْ صِفَاتِ خَالِقِه أَعْجَزُ - ومِنْ تَنَاوُلِه بِحُدُودِ الْمَخْلُوقِينَ أَبْعَدُ!

اوراس کی حدیں معین کردی ہیں اور ہر صورت کو حسین بنا دیاہے۔کوئی شے بھی اس کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتی ہے اورنہ کسی کی اطاعت میں اس کا کوئی فائدہ ہے۔اس کا علم ماضی کے مرنے والے افراد کے بارے میں ویسا ہی ہے جیسا کہ رہ جانے والے زندوں کے بارے میں ہے اور وہ بلند ترین آسمانوں کے بارے میں ویسا ہی علم رکھتا ہے جس طرح کہ پست ترین زمینوں کے بارے میں رکھتا ہے۔

(دوسرا حصہ) اے وہ انسان جسے ہر اعتبار سے درست بنایا گیاہے اور رحم کے اندھیروں اور پردہ درپردہ ظلمتوں میں مکمل نگرانی کے ساتھ خلق کیا گیا ہے۔تیری ابتدا خالص مٹی سے ہوئی ہے اورتجھے ایک خاص مرکز میں ایک خاص مدت تک رکھا گیا ہے۔تو شکم مادر میں اس طرح حرکت کر رہا تھا کہ نہ آواز کا جواب دے سکتاتھا اورنہ کسی آواز کو سن سکتا تھا۔اس کے بعد تجھے وہاں سے نکال کر اس گھرمیں لایا گیاجسے تونے دیکھا بھی نہیں تھا اور جہاں کے منافع کے راستوں سے با خبر بھی نہیں تھا۔بتا تجھے پستان مادرسے دودھ حاصل کرنے کی ہدایت کس نے دی ہے اور ضرورت کے وقت موارد طلب وارادہ کا پتہ کس نے بتایا ہے ؟ ہوشیار ۔جوش خص ایک صاحب ہئیت و اعضاء مخلوق کے صفات کے پہچاننے سے عاجز ہوگا وہ خالق کے صفات کو پہچاننے سے یقینا زیادہ عاجز ہوگا اور مخلوقات کے حدود کے ذریعہ اسے حاصل کرنے سے یقینا دورتر ہوگا۔

۲۹۳

(۱۶۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما اجتمع الناس شكوا ما نقموه على عثمان

وسألوه مخاطبته لهم واستعتابه لهم فدخل عليه فقال

إِنَّ النَّاسَ وَرَائِي - وقَدِ اسْتَسْفَرُونِي بَيْنَكَ وبَيْنَهُمْ - ووَ اللَّه مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لَكَ - مَا أَعْرِفُ شَيْئاً تَجْهَلُه - ولَا أَدُلُّكَ عَلَى أَمْرٍ لَا تَعْرِفُه - إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نَعْلَمُ - مَا سَبَقْنَاكَ إِلَى شَيْءٍ فَنُخْبِرَكَ عَنْه - ولَا خَلَوْنَا بِشَيْءٍ فَنُبَلِّغَكَه - وقَدْ رَأَيْتَ كَمَا رَأَيْنَا وسَمِعْتَ كَمَا سَمِعْنَا - وصَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَمَا صَحِبْنَا -

(۱۶۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب لوگوں نے آپ کے پاس آکر عثمان کے مظالم کا ذکرکیا اور ان کی فہمائش اورتنبیہ کا تقاضا کیا توآپ نے عثمان کے پاس جا کر فرمایا )

لوگ میرے پیچھے منتظر ہیں اور انہوںنے مجھے اپنے اور تمہارے درمیان(۱) واسطہ قرار دیا ہے اورخداکی قسم میں نہیں جانتا ہوں کہ میں تم سے کیا کہوں؟میں کوئی ایسی بات نہیں جانتا ہوں جس کا تمہیں علم نہ ہو اور کسی ایی بات کی نشاندہی نہیں کر سکتا ہوں جو تمہیں معلوم نہ ہو تمہیں تمام وہ باتیں معلوم ہیں جو مجھے معلوم ہیں اور میں ن کسی امر کی طرف سبقت نہیں کی ہے کہ اس کی اطلاع تمہیں کروں اور نہ کوئی بات چپکے سے سن لی ہے کہ تمہیں با خبرکروں۔تم نے وہ سب خود دیکھا ہے جو میں نے دیکھا ہے اوروہ سب کچھ خود بھی سنا ہے جومیں نے سنا ہے اور رسول اکرم (ص) کے پاس ویسے ہی رہے ہو جیسے میں رہا ہوں

(۱) امیر المومنین کے علاوہ دنیا کا کوئی دوسرا انسان ہوتا تواس موقع کو غنیمت تصور کرکے احتجاج کرنے والوں کے حوصلے مزید بلند کردیتا اور لمحوں میں عثمان کاخاتمہ کر ا دیتا لیکن آپ نے اپنی شرعی ذمہ داری اور اسلامی مسئولیت کاخیال کرکے انقلابی جماعت کو روکا اورچاہاکہ پہلے تمام حجت کردیا جائے تاکہ عثمان کو اصلاح امر کا موقع مل جائے اور بنی امیہ مجھے قتل عثمان کا ملزم نہ ٹھہرانے پائیں۔ورنہ عثمان کے دور کے مظالم عالم آشکارتھے۔ان کے بارے میں کسی تحقیق اور تفتیش کی ضرورت نہیں تھی جناب ابوذر کاشہر بدر کرادیا جانا جناب عبداللہ بن مسعود کی پسلیوںکا توڑ دیا جانا۔جناب عمار یاسر کے شکم کو جوتیوں سے پامال کردینا۔وہ مظالم ہیں جنہیں سارا عالم اسلام اور بالخصوص مدینتہ الرسول خوب جانتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے درمیان میں پڑ کر اصلاح حال کے بارے میں یہ فارمولا پیش کیا مدینہ کے معاملات کی فی الفور اصلاح کی جائے اورباہر کے لئے بقدر ضرورت مہلت لے لی جائے لیکن خلیفہ کو اصلاح نہیں کرنا تھی نہیں کی اور آخر ش وہی انجام ہوا جس کے پیش نظرامیر المومنین نے اس قدر زحمت برداشت کی تھی اور جس کے بعد بنی امیہ کو نئے فتنوں کاموقع مل گیا اور ان سے امیر المومنین کو بھی دوچار ہونا پڑا۔

۲۹۴

ومَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ - ولَا ابْنُ الْخَطَّابِ بِأَوْلَى بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْكَ - وأَنْتَ أَقْرَبُ إِلَى أَبِي رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَشِيجَةَ رَحِمٍ مِنْهُمَا - وقَدْ نِلْتَ مِنْ صِهْرِه مَا لَمْ يَنَالَا فَاللَّه اللَّه فِي نَفْسِكَ - فَإِنَّكَ واللَّه مَا تُبَصَّرُ مِنْ عَمًى - ولَا تُعَلَّمُ مِنْ جَهْلٍ - وإِنَّ الطُّرُقَ لَوَاضِحَةٌ وإِنَّ أَعْلَامَ الدِّينِ لَقَائِمَةٌ - فَاعْلَمْ أَنَّ أَفْضَلَ عِبَادِ اللَّه عِنْدَ اللَّه إِمَامٌ عَادِلٌ،هُدِيَ وهَدَى فَأَقَامَ سُنَّةً مَعْلُومَةً - وأَمَاتَ بِدْعَةً مَجْهُولَةً - وإِنَّ السُّنَنَ لَنَيِّرَةٌ لَهَا أَعْلَامٌ - وإِنَّ الْبِدَعَ لَظَاهِرَةٌ لَهَا أَعْلَامٌ - وإِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّه إِمَامٌ جَائِرٌ ضَلَّ وضُلَّ بِه - فَأَمَاتَ سُنَّةً مَأْخُوذَةً وأَحْيَا بِدْعَةً مَتْرُوكَةً - وإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ - يُؤْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِالإِمَامِ الْجَائِرِ - ولَيْسَ مَعَه نَصِيرٌ ولَا عَاذِرٌ - فَيُلْقَى فِي نَارِ جَهَنَّمَ

ابن ابی قحافہ اور ابن الخطاب حق پر عمل کرنے کے لئے تم سے زیادہ اولیٰ نہیں تھے تم ان کی نسبت رسول اللہ سے زیادہ قریبی رشتہ رکھتے ہو۔اورتمہیں وہدامادی کا شرف بھی حاصل ہے ہے جوانہیں حاصل نہیں تھا لہٰذا خدارا اپنے نفس کو بچائو کہ تمہیں اندھے پن سے بصارت یاجہالت سے علم نہیں دیا جا رہا ہے۔راستے بالکل واضح ہیں اور نشانات دین قائم ہیں۔یاد رکھوخدا کے نزدیک بہترین بندہ وہ امام عادل ہے۔جو خود ہدایت یافتہ ہو اوردوسروں کوہدایت دے۔جانی پہچانی سنت کو قائم کرے اور مجہول بدعت کو مردہ بنادے۔دیکھو ضیا بخش سنتوں کے نشانات بھی روشن ہیں اوربدعتوں کے نشانات بھی واضح ہیں اوربد ترین انسان خداکی نگاہ میں وہ ظالم پیشوا ہے جو خود بھی گمراہ ہو اور لوگوں کو بھی گمراہ کرے۔پیغمبر سے ملی ہوئی سنتوں کو مردہ بنادے اور قابل ترک بدعتوں کو زندہ کردے میں نے رسول اکرم (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ روز قیامت ظالم(۱) رہنماکو اس عالم میں لایا جائے گا کہ نہ کوئی اس کا مدد گار ہوگا اورنہ عذر خواہی کرنے والا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا

(۱)در حقیقت رہنما اور ظالم وہ دو متضاد الفاظ ہیں جنہیں کسی عالم شرافت و کرامت میں جمع نہیں ہونا چاہیے۔انسان کو رہنمائی کا شوق ہے تو پہلے اپنے کردار میں عدالت و شرافت پیدا کرے۔اس کے بعد آگے چلنے کا ارادہ کرے۔اس کے بغیر رہنمائی کا شوق انسان کو جہنم تک تو پہنچا سکتا ہے رہنما نہیں بنا سکتا ے جیسا کہ سرکار دو عالم (ص) نے فرمایا ہے اور اس عذاب کی شدت کا راز یہی ہے کہ رہنما کی وجہ سے بے شمار لوگ مزید گمراہ ہوتے ہیں اور اس کے ظلم سے بے حساب لوگوں کو ظلم کاجواز فراہم ہو جاتا ہے اورسارا معاشرہ تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔

عثمان کا دور پہلا دور تھا جب سابق کی ظاہرداری بھی ختم ہوگئی تھی اور کھلم کھلا ظلم کا بازار گرم ہوگیا تھا۔اس لئے اتنا شدید رد عمل دیکھنے میں آیا ورنہ اس کے بعد سے تو آج تک سارا عالم اسلام انہیں خاندان پروریوں کا شکار ہے اور عوام کی ساری دولت ایک ایک خاندان کے عیاش شہزادوں پر صرف ہو رہی ہے اورمدینہ کے مسلمانوں میں بھی غیرت کی حرکت نہیں پیدا ہو رہی ہے تو باقی عالم اسلام اور دوسرے علاقوں کا کیا تذکرہ ہے۔

۲۹۵

فَيَدُورُ فِيهَا كَمَا تَدُورُ الرَّحَى - ثُمَّ يَرْتَبِطُ فِي قَعْرِهَا - وإِنِّي أَنْشُدُكَ اللَّه أَلَّا تَكُونَ إِمَامَ هَذِه الأُمَّةِ الْمَقْتُولَ - فَإِنَّه كَانَ يُقَالُ - يُقْتَلُ فِي هَذِه الأُمَّةِ إِمَامٌ يَفْتَحُ عَلَيْهَا الْقَتْلَ - والْقِتَالَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - ويَلْبِسُ أُمُورَهَا عَلَيْهَا ويَبُثُّ الْفِتَنَ فِيهَا - فَلَا يُبْصِرُونَ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ - يَمُوجُونَ فِيهَا مَوْجاً ويَمْرُجُونَ فِيهَا مَرْجاً - فَلَا تَكُونَنَّ لِمَرْوَانَ سَيِّقَةً يَسُوقُكَ حَيْثُ شَاءَ بَعْدَ جَلَالِ السِّنِّ - وتَقَضِّي الْعُمُرِ فَقَالَ لَه عُثْمَانُرضي‌الله‌عنه س - كَلِّمِ النَّاسَ فِي أَنْ يُؤَجِّلُونِي - حَتَّى أَخْرُجَ إِلَيْهِمْ مِنْ مَظَالِمِهِمْ - فَقَالَعليه‌السلام - مَا كَانَ بِالْمَدِينَةِ فَلَا أَجَلَ فِيه - ومَا غَابَ فَأَجَلُه وُصُولُ أَمْرِكَ إِلَيْه.

(۱۶۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها عجيب خلقة الطاوس

خلقة الطيور

ابْتَدَعَهُمْ خَلْقاً عَجِيباً مِنْ حَيَوَانٍ ومَوَاتٍ - وسَاكِنٍ وذِي حَرَكَاتٍ؛وأَقَامَ

اور وہ اس طرح چکر کھائے گا جس طرح چکی۔اس کے بعد اسے قعر جہنم میں جکڑ دیا جائے گا۔میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ خدارا تم اس امت کے مقتول پیشوا نہ بنو اس لئے کہ دور قدیم سے کہاجا رہا ہے کہ اس امت میں ایک پیشوا قتل کیا جائے گا جس کے بعد قیامت تک قتل و قتال کا دروازہ کھل جائے گا اور سارے امور مشتبہ ہو جائیں گے اور فتنے پھیل جائیں گے اور لوگ حق و باطل میں امتیاز نہ کر سکیں گے اور اسی میں چکر کھاتے رہیں گے اور تہ و بالا ہوتے رہیں گے ۔خدارا امروان کی سواری نہ بن جائو کہ وہ جدھر چاہے کھینچ کرلے جائے کہ تمہارا سن زیادہ ہوچکا ہے اور تمہاری عمر خاتمہ کے قریب آچکی ہے۔

عثمان نے اس ساری گفتگو کو سن کر کہا کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ ذرا مہلت دیں تاکہ میں ان کی حق تلفیوں کا علا ج کرس کوں؟ آپ نے فرمایا کہ جہاں تک مدینہ کے معاملات کا تعلق ہے ان میں کسی مہلت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور جہاں تک باہر کے معاملات کاتعلق ہے ان میں صرف اتنی مہلت دی جا سکتی ہے کہ تمہاراحکم وہاں تک پہنچ جائے۔

(۱۶۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں مورکی عجیب وغریب خلقت کاتذکرہ کیا گیا ہے )

اللہ نے اپنی تمام مخلوقات کو عجیب وغریب بنایا ہےچاہے وہ ذی حیات ہوں یا بےجان۔ساکن ہوں یامتحرک اوران سب

۲۹۶

مِنْ شَوَاهِدِ الْبَيِّنَاتِ عَلَى لَطِيفِ صَنْعَتِه - وعَظِيمِ قُدْرَتِه - مَا انْقَادَتْ لَه الْعُقُولُ مُعْتَرِفَةً بِه ومَسَلِّمَةً لَه - ونَعَقَتْ فِي أَسْمَاعِنَا دَلَائِلُه عَلَى وَحْدَانِيَّتِه - ومَا ذَرَأَ مِنْ مُخْتَلِفِ صُوَرِ الأَطْيَارِ - الَّتِي أَسْكَنَهَا أَخَادِيدَ الأَرْضِ - وخُرُوقَ فِجَاجِهَا ورَوَاسِيَ أَعْلَامِهَا - مِنْ ذَاتِ أَجْنِحَةٍ مُخْتَلِفَةٍ وهَيْئَاتٍ مُتَبَايِنَةٍ - مُصَرَّفَةٍ فِي زِمَامِ التَّسْخِيرِ - ومُرَفْرِفَةٍ بِأَجْنِحَتِهَا فِي مَخَارِقِ الْجَوِّ الْمُنْفَسِحِ - والْفَضَاءِ الْمُنْفَرِجِ - كَوَّنَهَا بَعْدَ إِذْ لَمْ تَكُنْ فِي عَجَائِبِ صُوَرٍ ظَاهِرَةٍ - ورَكَّبَهَا فِي حِقَاقِ مَفَاصِلَ مُحْتَجِبَةٍ - ومَنَعَ بَعْضَهَا بِعَبَالَةِ خَلْقِه أَنْ يَسْمُوَ فِي الْهَوَاءِ خُفُوفاً - وجَعَلَه يَدِفُّ دَفِيفاً - ونَسَقَهَا عَلَى اخْتِلَافِهَا فِي الأَصَابِيغِ بِلَطِيفِ قُدْرَتِه - ودَقِيقِ صَنْعَتِه.

کے ذریعہ اپنی لطیف صنعت اور عظیم قدرت کے وہ شواہد قائم کردئیے ہیں جن کے سامنے عقلیں بکمال اعتراف و تسلیم سرخم کئے ہوئے ہیں اور پھر ہمارے کانوں میں اس کی وحدانیت کے دلائل ان مختلف صورتوں(۱) کے پرندوںکی تخلیق کی شکل میں گونج رہے ہیں جنہیں زمین کے گڑھو ۔دروں کے شگافوں ' پہاڑوں کی بلندیوں پرآباد کیا ہے جن کے پر مختلف قسم کے اورجن کی ہئیت جدا گانہ انداز کی ہے اور انہیں تسخیر کی زمام کے ذریعہ حرکت دی جا رہی ہے اور وہ اپنے پروں کو وسیع فضا کے راستوں اور کشادہ ہوا کی وسعتوں میں پھڑ پھڑا رہے ہیں۔انہیں عالم عدم سے نکال کرعجیب و غریب ظاہری صورتوں میں پیدا کیا ہے اور گوشت و پوست میں ڈھکے ہوئے جوڑوں کے سروں سے ان کے جسموں کی ساخت قائم کی ہے۔بعض کو ان کے جسم کی سنگینی نے ہوا میں بلند ہو کر تیز پرواز سے روک دیا ہے اوروہ صرف ذرا اونچے ہوکر پرواز کر رہے ہیں اور پھر اپنی لطیف قدرت اور دقیق صنعت کے ذریعہ انہیں مختلف رنگوں کے ساتھ منظم و مرتب کیا ہے

(۱)علم الحیوان کے ماہر روبرٹ سن کابیان ہے کہ دنیا میں ایک ارب قسم کے پرندے پائے جاتے ہیں اور سب اپنے اپنے مقام پرعجیب و غریب خلقت کے مالک ہیں سب سے بڑا پرندہ شتر مرغ ہے اور سب سے چھوٹا طنان جس کا طول پانچ سینٹی میٹر ہوتا ہے لیکن ایک گھنٹہ میں ۸۰۔۹۰ کلو میٹر پرواز کر لیتا ہے اور ایک سکنڈ میں ۵۰ سے لے کر ۲۰۰ مرتبہ اپنے پروں کو حرکت دیتا ہے۔بعض پرندوں کا ایک قدم چھ میٹر کے برابر ہوتا ہے اور وہ زمین پر ۸۰ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتے ہیں اوربعض چھ ہزار میٹرکی بلندی پر پرواز کر سکتے ہیں ۔بعض پانی کے اندر ۱۸ میٹر کی گہرائی تک چلے جاتے ہیں اور بعض صرف سمندروں کے اس پار سے اس پار تک چکر لگاتے رہتے ہیں۔ لیکن ان سب سے زیادہ حیرت انگیز امیر المومنین کی نگاہ میں مور کی خلقت ہے جس کو مختلف رنگوں میں رنگ دیا گیا ہے اور مختلف خصوصیات سے نوازدیا گیا ہے اور بات ہے کہ بہترین پروں کے ساتھ نازک ترین پیر بھی دیدئیے گئے ہیں تاکہ اس میں بھی غرورنہ پیدا ہو اور انسان کوب ھی ہوش آجائے کہ جس کے وجود کا ایک رخ رنگین ہوتا ہے اور اس کا دوسرا رخ کمزور بھی ہوتا ہے لہٰذا غرور و استکبار کا کوئی امکان نہیں ہے۔بلکہ تقاضائے شرافت یہ ہے کہ حسین رخ کا شکیرہ ادا کرے کہ یہ بھی مالک کا کرم ہے اس کا اپنا کوئی حق نہیں ہے جسے مالک نے اداکردیا ہو۔

۲۹۷

- فَمِنْهَا مَغْمُوسٌ فِي قَالَبِ لَوْنٍ لَا يَشُوبُه غَيْرُ لَوْنِ مَا غُمِسَ فِيه - ومِنْهَا مَغْمُوسٌ فِي لَوْنِ صِبْغٍ قَدْ طُوِّقَ بِخِلَافِ مَا صُبِغَ بِه

الطاوس

ومِنْ أَعْجَبِهَا خَلْقاً الطَّاوُسُ - الَّذِي أَقَامَه فِي أَحْكَمِ تَعْدِيلٍ - ونَضَّدَ أَلْوَانَه فِي أَحْسَنِ تَنْضِيدٍ - بِجَنَاحٍ أَشْرَجَ قَصَبَه وذَنَبٍ أَطَالَ مَسْحَبَه - إِذَا دَرَجَ إِلَى الأُنْثَى نَشَرَه مِنْ طَيِّه - وسَمَا بِه مُطِلاًّ عَلَى رَأْسِه - كَأَنَّه قِلْعُ دَارِيٍّ عَنَجَه نُوتِيُّه - يَخْتَالُ بِأَلْوَانِه ويَمِيسُ بِزَيَفَانِه - يُفْضِي كَإِفْضَاءِ الدِّيَكَةِ - ويَؤُرُّ بِمَلَاقِحِه أَرَّ الْفُحُولِ الْمُغْتَلِمَةِ لِلضِّرَابِ - أُحِيلُكَ مِنْ ذَلِكَ عَلَى مُعَايَنَةٍ - لَا كَمَنْ يُحِيلُ عَلَى ضَعِيفٍ إِسْنَادُه - ولَوْ كَانَ كَزَعْمِ مَنْ يَزْعُمُ - أَنَّه يُلْقِحُ بِدَمْعَةٍ تَسْفَحُهَا مَدَامِعُه - فَتَقِفُ فِي ضَفَّتَيْ جُفُونِه - وأَنَّ أُنْثَاه تَطْعَمُ ذَلِكَ - ثُمَّ تَبِيضُ لَا مِنْ لِقَاحِ

کہ بعض ایک ہی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ دوسرے رنگ کا شائبہ بھی نہیں ہے اور بعض ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں لیکن ان کے گلے کا طوق دوسرے رنگ کا ہے۔

(طائوس)

ان سب میں عجیب ترین خلقت مور کی ہے جسے محکم ترین توازن کے سانحہ میں ڈھال دیا ہے اور اس کے رنگوں میں حسین ترین تنظیم قائم کی ہے اسے وہ رنگین پردے ہیں جن کی جڑوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے اور وہ دم دی ہے جو دور تک کھینچتی چلی جاتی ہے ۔جب وہ اپنی مادہ کا رخ کرتا ہے تو اسے پھیلا لیتا ہے(۱) اور اپنے سر کے اوپر اس طرح سایہ فگن کر لیتا ہے جیسے مقام دارین کی کشتی کا بادبان جسے ملاح ادھرادھر موڑ رہا ہو۔وہ اپنے رنگوںپراترتا ہے اوراس کی جنبشوں کے ساتھ جھومنے لگتا ہے۔اپنی مادہ سے اس طرح جفتی کھاتا ہے جس طرح مرغ اوراسے اس طرح حاملہ بناتا ہے جس طرح جوش و ہیجان میں ھبرے ہوئے جانور۔میں اس مسئلہ میں تمہیں مشاہدہ کے حوالہ کر رہا ہوں۔نہ اس شخص کی طرح جو کسی کمزور سند کے حوالہ کردے اور اگر گمان کرنے والوں کا یہ گمان صحیح ہوتا کہ وہ ان آنسوئوں کے ذریعہ حمل ٹھہراتا ہے جواس کیآنکھوں سے باہرنکل کرپلکوں پر ٹھہر جاتے ہیں اور مادہ اسے پی لیتی ہے اس کے بعد انڈے دیتی ہے اور اس میں نرو مادہ کا کوئی اتصال نہیں ہوتا ہے سوائے ان پھوٹ پڑنے

(۱)ایک حسین ترین فطرت ہے کہ نر اپنی مادہ کے پاس جائے تو حسن و جمال کے ساتھ جائے تاکہاسے بھی انس حاصل ہو اوروہ بھی اپنے نرکے جمال پر فخر کر سکے ایسا نہ ہوکہ عمل فقط ایک جنسی عمل رہ جائے اور سکون نفس کا کوئی راستہ نہ نکل سکے۔

۲۹۸

فَحْلٍ سِوَى الدَّمْعِ الْمُنْبَجِسِ - لَمَا كَانَ ذَلِكَ بِأَعْجَبَ مِنْ مُطَاعَمَةِ الْغُرَابِ تَخَالُ قَصَبَه مَدَارِيَ مِنْ فِضَّةٍ - ومَا أُنْبِتَ عَلَيْهَا مِنْ عَجِيبِ دَارَاتِه - وشُمُوسِه خَالِصَ الْعِقْيَانِ وفِلَذَ الزَّبَرْجَدِ - فَإِنْ شَبَّهْتَه بِمَا أَنْبَتَتِ الأَرْضُ - قُلْتَ جَنًى جُنِيَ مِنْ زَهْرَةِ كُلِّ رَبِيعٍ - وإِنْ ضَاهَيْتَه بِالْمَلَابِسِ فَهُوَ كَمَوْشِيِّ الْحُلَلِ - أَوْ كَمُونِقِ عَصْبِ الْيَمَنِ - وإِنْ شَاكَلْتَه بِالْحُلِيِّ فَهُوَ كَفُصُوصٍ ذَاتِ أَلْوَانٍ - قَدْ نُطِّقَتْ بِاللُّجَيْنِ الْمُكَلَّلِ - يَمْشِي مَشْيَ الْمَرِحِ الْمُخْتَالِ ويَتَصَفَّحُ ذَنَبَه وجَنَاحَيْه - فَيُقَهْقِه ضَاحِكاً لِجَمَالِ سِرْبَالِه وأَصَابِيغِ وِشَاحِه - فَإِذَا رَمَى بِبَصَرِه إِلَى قَوَائِمِه - زَقَا مُعْوِلًا بِصَوْتٍ يَكَادُ يُبِينُ عَنِ اسْتِغَاثَتِه - ويَشْهَدُ بِصَادِقِ تَوَجُّعِه - لأَنَّ قَوَائِمَه حُمْشٌ كَقَوَائِمِ الدِّيَكَةِ الْخِلَاسِيَّةِ وقَدْ نَجَمَتْ مِنْ ظُنْبُوبِ سَاقِه صِيصِيَةٌ خَفِيَّةٌ - ولَه فِي مَوْضِعِ الْعُرْفِ قُنْزُعَةٌ خَضْرَاءُ مُوَشَّاةٌ -

والے آنسوئوں کے تویہ بات کوے کے باہمی کھانے پینے کے ذریعہ حمل ٹھہرانے سے زیادہ تعجب خیز نہ ہوتی۔ تم اس کی رنگینی پر غور کرو تو ایسا محسوس کروگے جیسے پروں کی درمیانی تیلیاں چاندی کی سلائیاں ہیں اور ان پر جو عجیب و غریب ہالے اورسورج کی شعاعوں جیسے جو پرو بال اگ آئے ہیں وہ خالص سونے اور زمرد کے ٹکڑے ہیں اور اگر انہیں زمین کے نباتات سے تشبیہ دینا چاہو گے تو یہ کہو گے کہ یہ ہر موسم بہارکے پھولوں(۱) کا ایک شگوفہ ہے اور اگر لباس سے تشبیہ دینا چاہوگے تو کہو گے کہ یہ نقش دار حلوں یا خوشنما یمنی چادروں جیسے ہیں اور اگر زیورات ہی سے تشبیہ دینا چاہو گے تو اس طرح کہو گے کہی ہ رنگ برنگ کے نگینے ہیں جوچاندی کے دائروں میں جڑ دئیے گئے ہیں۔یہ جانور اپنی رفتار میں ایک مغرور اور متکبر شخص کی طرح خرام ناز سے چلتا ہے اور اپنے بال و پر اور اپنی دم کو دیکھتا رہتا ہے۔اپنے فطری لباس کی خوبصورتی اوراپنی چادر حیات کی رنگینی کودیکھ کر قہقہہ لگاتا ہے اور اس کے بعد جب پیروں پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس طرح بلند آوازسے روتا ہے جیسے فطرت کی ستم ظریفی کی فریاد کررہا ہو اوراپنے واقعی درد دل کی شہادت دے رہا ہو اس لئے کہ اس کے پیر دوغلے مرغوں کے پیروں کی طرح دبلے پتلے اور باریک ہوتے ہیں اور اس کی پنڈلی کے کنارہ پر ایک ہلکا سا کانٹا ہوتا ہے اور اس کی گردن پربالوں کے بدلے سبز رنگ کے منقش پروں کا ایک گچھا ہوتا ہے

(۱)کہا جاتا ہے کہ صرف فلپین میں دس ہزار قسم کے پھول پائے جاتے ہیں تو باقی کائنات کا کیا ذکر ہے۔

۲۹۹

ومَخْرَجُ عَنُقِه كَالإِبْرِيقِ - ومَغْرِزُهَا إِلَى حَيْثُ بَطْنُه كَصِبْغِ الْوَسِمَةِ الْيَمَانِيَّةِ – أَوْ كَحَرِيرَةٍ مُلْبَسَةٍ مِرْآةً ذَاتَ صِقَالٍ - وكَأَنَّه مُتَلَفِّعٌ بِمِعْجَرٍ أَسْحَمَ - إِلَّا أَنَّه يُخَيَّلُ لِكَثْرَةِ مَائِه وشِدَّةِ بَرِيقِه - أَنَّ الْخُضْرَةَ النَّاضِرَةَ مُمْتَزِجَةٌ بِه - ومَعَ فَتْقِ سَمْعِه خَطٍّ كَمُسْتَدَقِّ الْقَلَمِ فِي لَوْنِ الأُقْحُوَانِ - أَبْيَضُ يَقَقٌ فَهُوَ بِبَيَاضِه فِي سَوَادِ مَا هُنَالِكَ يَأْتَلِقُ - وقَلَّ صِبْغٌ إِلَّا وقَدْ أَخَذَ مِنْه بِقِسْطٍ - وعَلَاه بِكَثْرَةِ صِقَالِه وبَرِيقِه - وبَصِيصِ دِيبَاجِه ورَوْنَقِه - فَهُوَ كَالأَزَاهِيرِ الْمَبْثُوثَةِ لَمْ تُرَبِّهَا أَمْطَارُ رَبِيعٍ - ولَا شُمُوسُ قَيْظٍ وقَدْ يَنْحَسِرُ مِنْ رِيشِه ويَعْرَى مِنْ لِبَاسِه - فَيَسْقُطُ تَتْرَى ويَنْبُتُ تِبَاعاً

۔اس کی گردن کا پھیلائو صراحی کی گردن کی طرح ہوتا ہے اور اس کے گرد نے کی جگہ سے لے کر پیٹ تک کا حصہ یمنی وسمہ جیسا سبز رنگ یا اس ریشم جیسا ہوتا ہے جسے صیقل کئے ہوئے آئینہ پر پہنادیا گیا ہو۔ایسا معلوم ہوتا ہے وہ سیاہ رنگ کی اوڑھنی میں لپٹا ہوا ہے لیکن وہ اپنی آب و تاب کی کثرت اور چمک دمک کی شدت سے اس طرح محسوس ہوتی ہے جیسے اس میں ترو تازہ سبزی الگ سے شامل کردی گئی ہو۔اس کے کانوں کے شگاف سے متصل بابونہ کے پھولوں جیسی نوک قلم کے مانند ایک باریک لکیر ہوتی ہے اور وہ اپنی سفیدی کے ساتھ اس جگہ کی سیاہی کے درمیان چمکتی رہتی ہے۔شائد ہی کوئی رنگ ایسا ہو جس کا کوئی حصہ اس جانور کو نہ ملا ہو مگراس لکیر کی صیقل اوراس کے ریشمی پیکر کی چمک دمک سب پرغالب رہتی ہے۔اس کی مثال ان بکھری ہوئی کلیوں کے مانند ہوتی ہے جنہیں نہ بہار کی بارشوں نے پالا ہو اور نہ گرمی کے سورج کی شعاعوں نے ۔وہ کبھی کبھی اپنے بال و پر سے جدابھی ہو جاتا ہے اوراس رنگین لباس کو اتارکربرہنہ ہو جاتا ہے۔اس کے بال و پر جھڑ جاتے ہیں اور دوبارہ(۱) پھر اگ آتے ہیں۔

(۱)بعض افراد کا خیال ہے کہ مور کے بدن میں تقریباً تین ہزار سے چار ہزار تک پر ہوتے ہیں اور وہ انہیں پروں کو دیکھ کراکڑتا رہتا ہے اورصحرا میں رقص کرتا رہتا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اپنے کمال کا مظاہرہ وہاں کرتا ہے جہاں کوئی قدر داں نہیں ہوتا ہے اورنہ اس سے استفادہ کرنے والا ہوتا ہے۔صرف اپنی ذات کی تسکین اور اپنی انا کی تسلی کا سامان فراہم کرتا ہے اوریہی فرق ہے انسان اور حیوان میں کہ انسانی کمالات انا کی تسکین اور تسلی کے لئے نہیں ہیں ان کا مصرف خلق خدا کو فائدہ پہنچانا اور سماج کو فضیاب کرنا ہے۔لہٰذا انسان اپنے کمالات سے معاشرہ کو مستفیض کرتا ہے تو انسان ہے ورنہایک مور ہے جو صحرا میں ناچتا رہتا ہے اوراپنے نفس کو خوش کرتا رہتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ یہ خوشی بھی دائمی نہیں ہوتی اوراسے بھی چند لمحوں میں پیروں کی حقارت ختم کر دیتی ہے اورایک نیا سبق سکھا دیتی ہے کہ عمومی افادیت تو کام بھی آسکتی ہے اور اسے دوام بھی مل سکتا ہے۔لیکن ذاتی تسکین کی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہاسے دوام نصیب ہو سکتا ہے۔

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

۳۴۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْعِصْمَةِ تَعَذُّرُ الْمَعَاصِي.

۳۴۶ - وقَالَعليه‌السلام مَاءُ وَجْهِكَ جَامِدٌ يُقْطِرُه السُّؤَالُ - فَانْظُرْ عِنْدَ مَنْ تُقْطِرُه.

۳۴۷ - وقَالَعليه‌السلام الثَّنَاءُ بِأَكْثَرَ مِنَ الِاسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ - والتَّقْصِيرُ عَنِ الِاسْتِحْقَاقِ عِيٌّ أَوْ حَسَدٌ.

۳۴۸ - وقَالَعليه‌السلام أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَهَانَ بِه صَاحِبُه.

۳۴۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَظَرَ فِي عَيْبِ نَفْسِه اشْتَغَلَ عَنْ عَيْبِ غَيْرِه

(۳۴۵)

گناہوں تک رسائی کا نہ ہونا بھی ایک طرح کی پاکدامنی(۱) ہے۔

(۳۴۶)

تمہاری آبرو محفوظ ہے اور سوال اسے مٹا دیتا ہے لہٰذا یہ دیکھتے رہو کہ کس کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہو اور آبرو کا سودا کررہے ہو ۔

(۳۴۷)

استحقاق سے زیادہ تعریف کرناخوشامد ہے اور استحقاق سے کم تعریف کرناعاجزی ہے یا حسد۔

(۳۴۸)

سب سے سخت گناہوہ ہے جسے گناہ گار ہلکا(۲) قراردیدے ۔

(۳۴۹)

جواپنے عیب پر نگاہ رکھتا ہے وہ دوسروں کے عیب سے غافل ہو جاتا ہے

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گناہوں کے بارے میں شریعت کامطالبہ صرف یہ ہے کہ انسان ان سے اجتناب کرے اور ان میں مبتلا نہ ہونے پائے چاہے اس کا سبب اس کا تقدس ہو یا مجبوری۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اپنے اختیار سے گناہوں کا ترک کردینے والا مستحق اجرو ثواب بھی ہوسکتا ہے اور مجبور اً ترک کردینے والا کس اجرو ثواب کا حقدار نہیں ہو سکتا ہے ۔

(۲)غیر معصوم انسان کی زندگی کے بارے میں گناہوں کے امکانات توہمہ وقت رہتے ہیں لیکن انسان کی شرافت نفس یہ ہے کہ جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تواسے گناہ تصور کرے اور اس کی تلافی کی فکر کرے ورنہ اگر اسے خفیف اور ہلکا تصور کرلیا تو یہ دوسرا گناہ ہوگا جو پہلے گناہ سے بد تر ہوگا کہ پہلا گناہنفس کی کمزوری سے پیداہواتھا اور یہ ایمان اور عقیدہ کی کمزوری سے پیدا ہوا ہے۔

۷۴۱

- ومَنْ رَضِيَ بِرِزْقِ اللَّه لَمْ يَحْزَنْ عَلَى مَا فَاتَه - ومَنْ سَلَّ سَيْفَ الْبَغْيِ قُتِلَ بِه - ومَنْ كَابَدَ الأُمُورَ عَطِبَ - ومَنِ اقْتَحَمَ اللُّجَجَ غَرِقَ - ومَنْ دَخَلَ مَدَاخِلَ السُّوءِ اتُّهِمَ - ومَنْ كَثُرَ كَلَامُه كَثُرَ خَطَؤُه - ومَنْ كَثُرَ خَطَؤُه قَلَّ حَيَاؤُه - ومَنْ قَلَّ حَيَاؤُه قَلَّ وَرَعُه - ومَنْ قَلَّ وَرَعُه مَاتَ قَلْبُه - ومَنْ مَاتَ قَلْبُه دَخَلَ النَّارَ - ومَنْ نَظَرَ فِي عُيُوبِ النَّاسِ فَأَنْكَرَهَا - ثُمَّ رَضِيَهَا لِنَفْسِه فَذَلِكَ الأَحْمَقُ بِعَيْنِه - والْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ - ومَنْ أَكْثَرَ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ - رَضِيَ مِنَ الدُّنْيَا بِالْيَسِيرِ - ومَنْ عَلِمَ أَنَّ كَلَامَه مِنْ عَمَلِه - قَلَّ كَلَامُه إِلَّا فِيمَا يَعْنِيه.

۳۵۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلظَّالِمِ مِنَ الرِّجَالِ ثَلَاثُ عَلَامَاتٍ - يَظْلِمُ مَنْ فَوْقَه بِالْمَعْصِيَةِ - ومَنْ دُونَه بِالْغَلَبَةِ

اور جو رزق خدا پر راضی رہتا ہے وہ کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے پر رنجیدہ نہیں ہوتا ہے۔جو بغاوت کی تلوار کھینچتا ہے خوداسی سے ماراجاتا ہے اور جواہ امورکو زبر دستی انجام دیناچاہتا ہے وہ تباہ ہو جاتا ہے لہروں میں پھاند پڑنے والا ڈوب جاتا ہے اورغلط جگہوں پردخل ہونے والا بدنام ہو جاتا ہے۔جس کی باتیں زیادہ ہوتیںہیں اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں اورجس کی غلطیاں زیادہ ہوتی ہیں اس کی حیاکم ہو جاتی ہے اورجس کی حیاکم ہو جاتی ہے اس کا تقویٰ بھی کم ہوجاتا ہے اورجس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اس کادل مردہ ہوجاتا ہے اور جس کادل مردہ ہوجاتا ہے وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے ۔

جولوگوں کے عیب کو دیکھ کرناگواری کا اظہارکرے اورپھراسی عیب کو اپنے لئے پسند کرلے تو اسی کو احمق کہا جاتا ہے ۔

قناعت ایک ایسا سرمایہ ہے جوختم ہونے والا نہیں ہے۔

جوموت کو برابر یاد کرتا رہتا ہے وہ دنیا کے مختصر حصہ پر بھی راضی ہو جاتا ہے۔اور جسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام بھی عمل کا ایک حصہ ہے وہ ضرورت سے زیادہ کلام نہیں کرتا ہے۔

(۳۵۰)

لوگوں میں ظالم کی تین علامات ہوتی ہیں۔اپنے سے بالاتر پر معصیت کے ذریعہ ظلم کرتا ہے۔اپنے سے کمتر پرغلبہ و قہر کے ذریعہ ظلم کرتا ہے اور پھر ظالم قوم کی

۷۴۲

ويُظَاهِرُ الْقَوْمَ الظَّلَمَةَ

۳۵۱ - وقَالَعليه‌السلام عِنْدَ تَنَاهِي الشِّدَّةِ تَكُونُ الْفَرْجَةُ - وعِنْدَ تَضَايُقِ حَلَقِ الْبَلَاءِ يَكُونُ الرَّخَاءُ.

۳۵۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ أَصْحَابِه - لَا تَجْعَلَنَّ أَكْثَرَ شُغُلِكَ بِأَهْلِكَ ووَلَدِكَ - فَإِنْ يَكُنْ أَهْلُكَ ووَلَدُكَ أَوْلِيَاءَ اللَّه - فَإِنَّ اللَّه لَا يُضِيعُ أَوْلِيَاءَه - وإِنْ يَكُونُوا أَعْدَاءَ اللَّه فَمَا هَمُّكَ وشُغُلُكَ بِأَعْدَاءِ اللَّه.

۳۵۳ - وقَالَعليه‌السلام أَكْبَرُ الْعَيْبِ أَنْ تَعِيبَ مَا فِيكَ مِثْلُه

حمایت(۱) کرتا ہے۔

(۳۵۱)

سختیوں کی انتہا ہی پر کشائش حال پیدا ہوتی ہے اور بلائوں کے حلقوں کی تنگی ہی کے موقع پرآسائش(۲) پیدا ہوتی ہے۔

(۳۵۲)

اپنے بعض اصحاب سے خطاب کرکے فرمایا: زیادہ حصہ بیوی بچوں کی فکرمیں مت رہا کرو کہ اگر یہ اللہ کے دوست ہیں تواللہ انہیں(۳) برباد نہیں ہونے دے گا اور اگراس کے دشمن ہیں تو تم دشمنان خدا کے بارے میں کیوں فکر مند ہو۔

(مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے دائرہ سے باہرنکل کر سماج اورمعاشرہکے بارے میں بھی فکر کرے ۔صرف کنویں کامینڈک بن کرنہ رہ جائے )

(۳۵۳)

بد ترین عیب یہ ہے کہ انسان کسی عیب کو برا کہے اور پھر اس میں وہی عیب پایا جاتا ہو۔

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ صرف ظلم کرنا ہی ظلم نہیں ہے بلکہ ظالم کی حمایت بھی ایک طرح کا ظلم ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس ظلم سے بھی محفوظ رہے اور مکمل عادلانہ زندگی گذارے اور ہر شے کو اسی مقام پر رکھے جو اس کا محل اورموقع ہے۔

(۲)مقصد یہ ے کہ انسان کو سختیوں اور تنگیوں میں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ حوصلہ کو بلند رکھنا چاہیے اور سر گرم عمل رہنا چاہیے کہ قرآن کریم نے سہولت کو تنگی اورزحمت کے بعد نہیں رکھا ہے بلکہ اسی کے ساتھ رکھاہے '' ان مع الیسر یسرا ''

(۳)اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے انسان اہل و عیال کی طرف سے یکسر غافل و جائے اورانہیں پروردگار کے رحم و کرم پر چھوڑدے۔پروردگار کا رحم و کرم ماں باپ سے یقینا زیادہ ہے لیکن ماں باپ کی اپنی بھی ایک ذمہداری ہے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ بقدرواجب خدمت کرکے باقی معاملات کو پروردگار کے حوالہ کردے اوران کی طرف سراپا توجہ بن کر پروردگار سے غافل نہ ہو جائے ۔

۷۴۳

۳۵۴ - وهَنَّأَ بِحَضْرَتِه رَجُلٌ رَجُلًا بِغُلَامٍ وُلِدَ لَه - فَقَالَ لَه لِيَهْنِئْكَ الْفَارِسُ - فَقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ ذَلِكَ - ولَكِنْ قُلْ شَكَرْتَ الْوَاهِبَ - وبُورِكَ لَكَ فِي الْمَوْهُوبِ - وبَلَغَ أَشُدَّه ورُزِقْتَ بِرَّه.

۳۵۵ - وبَنَى رَجُلٌ مِنْ عُمَّالِه بِنَاءً فَخْماً - فَقَالَعليه‌السلام أَطْلَعَتِ الْوَرِقُ رُءُوسَهَا - إِنَّ الْبِنَاءَ يَصِفُ لَكَ الْغِنَى.

۳۵۶ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام لَوْ سُدَّ عَلَى رَجُلٍ بَابُ بَيْتِه وتُرِكَ فِيه - مِنْ أَيْنَ كَانَ يَأْتِيه رِزْقُه - فَقَالَعليه‌السلام مِنْ حَيْثُ يَأْتِيه أَجَلُه.

۳۵۷ - وعَزَّى قَوْماً عَنْ مَيِّتٍ مَاتَ لَهُمْ فَقَالَعليه‌السلام - إِنَّ هَذَا الأَمْرَ لَيْسَ لَكُمْ بَدَأَ - ولَا إِلَيْكُمُ انْتَهَى - وقَدْ كَانَ صَاحِبُكُمْ

(۳۵۴)

حضرت کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو فرزند کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ شہسوار مبارک ہو۔توآپ نے فرمایا کہ یہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ تم نے دینے والے کا شکریہ ادا کیاہے لہٰذا تمہیں یہ تحفہ مبارک ہو۔خداکرے کہ یہ منزل کمال تک پہنچے اور تمہیں اس کی نیکی نصیب ہو۔

(۳۵۵)

آپ کے عمال میں سے ایک شخص نے عظیم عمارت تعمیر کرلی تو آپ نے فرمایا کہ چاندی کے سکوں نے سر نکال لیا ہے ۔یقینا یہ تعمیر تمہاری مالداری کی غمازی کرتی ہے۔

(۳۵۶)

کسی نے آپ سے سوال کیا کہ اگر کسی شخص کے گھر کادروازہ بند کردیا جائے اوراسے تنہا چھوڑ دیا جائے تو اس کا رزق کہاں سے آئے گا ؟ فرمایا کہ جہاں سے اس کی موت آئے گی ۔

(۳۵۷)

ایک جماعت کو کسی مرنے والے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے فرمایا: یہ بات تمہارے یہاں کوئی نئی نہیں ہے اور نہ تمہیں پر اس کی انتہا ہے۔تمہارا یہ ساتھی سر

۷۴۴

هَذَا يُسَافِرُ فَعُدُّوه فِي بَعْضِ أَسْفَارِه - فَإِنْ قَدِمَ عَلَيْكُمْ وإِلَّا قَدِمْتُمْ عَلَيْه.

۳۵۸ - وقَالَعليه‌السلام أَيُّهَا النَّاسُ لِيَرَكُمُ اللَّه مِنَ النِّعْمَةِ وَجِلِينَ - كَمَا يَرَاكُمْ مِنَ النِّقْمَةِ فَرِقِينَ - إِنَّه مَنْ وُسِّعَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اسْتِدْرَاجاً فَقَدْ أَمِنَ مَخُوفاً - ومَنْ ضُيِّقَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اخْتِبَاراً فَقَدْ ضَيَّعَ مَأْمُولًا

۳۵۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَسْرَى الرَّغْبَةِ أَقْصِرُوا ،فَإِنَّ الْمُعَرِّجَ عَلَى الدُّنْيَا لَا يَرُوعُه مِنْهَا - إِلَّا صَرِيفُ أَنْيَابِ الْحِدْثَانِ أَيُّهَا النَّاسُ تَوَلَّوْا مِنْ أَنْفُسِكُمْ تَأْدِيبَهَا - واعْدِلُوا بِهَا عَنْ ضَرَاوَةِ عَادَاتِهَا.

گرم سفر رہا کرتاتھا تو سمجھو کہ یہ بھی ایک سفر ہے اس کے بعد یا وہ تمہارے پاس وارد ہوگا یاتم اس کے پاس وارد ہوگے۔

(۳۵۸)

لوگو! اللہ نعمت کے موقع پر بھی تمہیں(۱) ویسے ہی خوفزدہ دیکھے جس طرح عذاب کے معاملہ میں ہراساں دیکھتا ہے کہ جس شخص کو فراخدستی حاصل ہو جائے اور وہ اسے عذاب کی لپیٹ نہ سمجھے تو اس نے خوفناک چیز سے بھی اپنے کومطمئن سمجھ لیا ہے اور جو تنگدستی میں مبتلا ہو جائے اوراسے امتحان نہ سمجھے اس نے اس ثواب کوبھی ضائع کردیا جس کی امید کی جاتی ہے۔

(۳۵۹)

اے حرص و طمع کے اسیرو!اب باز آجائو۔کہ دنیا پر ٹوٹ پڑنے والوں کو حوادث زمانہ کے دانت پیسنے کے علاوہ کوئی خوف زدہ نہیں کر سکتا ہے ۔

اے لوگو! اپنے نفس کی اصلاح کی ذمہ داری خود سنبھال لو اور اپنی عادتوں کے تقاضوں(۲) سے منہ موڑ لو۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ زندگانی کے دونوں طرح کے حالات میں دونوں طرح کے احتمالات پائے جاتے ہیں۔راحت وآرام میں امکان فضل و کرم بھی ہے اور احتمال مہلت و اتمام حجت بھی ہے اور اسی طرح مصیبت اور پریشانی کے ماحول میں احتمال عتاب و عقاب بھی ہے اور احتمال امتحان و اختیار بھی ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ راحتوں کے ماحول میں اس خطرہ سے محفوظ نہ ہو جائے کہ اس طرح بھی قوموں کو عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے اور پریشانیوں کے حالات میں اس رخ سے غافل نہ ہو جائے کہ یہ امتحان بھی ہوسکتا ہے اوراس میں صبرو تحمل کا مظاہرہ کرکے اجرو ثواب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ خواہشات کے اسیر نہ بنواور دنیا کا اعتبارنہکرو۔انجام کار کی زحمتوں سے ہوشیار رہو اور اپنے نفس کواپنے قابو میں رکھو تاکہ بیجا رسوم اورمہمل عادات کا اتباع نہ کرو۔

۷۴۵

۳۶۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَظُنَّنَّ بِكَلِمَةٍ خَرَجَتْ مِنْ أَحَدٍ سُوءاً - وأَنْتَ تَجِدُ لَهَا فِي الْخَيْرِ مُحْتَمَلًا.

۳۶۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا كَانَتْ لَكَ إِلَى اللَّه سُبْحَانَه حَاجَةٌ - فَابْدَأْ بِمَسْأَلَةِ الصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ثُمَّ سَلْ حَاجَتَكَ - فَإِنَّ اللَّه أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ حَاجَتَيْنِ - فَيَقْضِيَ إِحْدَاهُمَا ويَمْنَعَ الأُخْرَى.

۳۶۲ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ضَنَّ بِعِرْضِه فَلْيَدَعِ الْمِرَاءَ

۳۶۳ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْخُرْقِ الْمُعَاجَلَةُ قَبْلَ الإِمْكَانِ - والأَنَاةُ بَعْدَ الْفُرْصَةِ

(۳۶۰)

کسی کی بات کے غلط معنی(۱) نہ لو جب تک صحیح معنی کا امکان موجود ہے۔

(۳۶۱)

اگر پروردگار کی بار گاہ(۲) میں تمہاری کوئی حاجت ہو تو اس کی طلب کا آغاز رسو ل اکرم (ص) پر صلوات سے کرو اور اس کے بعد اپنی حاجت طلب کرو کہ پروردگار اس بات سے بالاتر ہے کہ اس سے دو باتوں کا سوال کیا جائے اور وہ ایک کو پورا کردے اور ایک کو نظر انداز کردے ۔

(۳۶۲)

جو اپنی آبرو کو بچانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرے۔

(۳۶۳)

کسی بات کے امکان سے پہلے جلدی کرنا اور وقت آجانے پر دیر کرنا دونوں ہی حماقت ہے۔

(۱)کاش ہر شخص اس تعلیم کو اختیار کرلیتا تو سماج کے بے شمارمفاسد سے نجات مل جاتی اور دنیامیں فتنہ و فساد اکثر راستے بند ہو جاتے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا ہے اورہر شخص دوسرے کے بیان میں غلط پہلو پہلے تلاش کرتا ہے اور صحیح رخ کے بارے میں بعد میں سوچتا ہے۔

(۲)یہ صحیح ہے کہ رسول اکرم (ص) ہماری صلوات اوردعائے رحمت کے محتاج نہیں ہیں لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنے ادائے شکر سے غافل ہو جائیں اور ان کی طرف سے ملنے والی نعمت ہدایت کا کسی شکل میں کوئی بدلہ دیں۔ورنہ پروردگار بھی ہماری عبادتوں کامحتاج نہیں ہے تو ہر انسان عبادتوں کو نظراندازکرکے چین سے سوجائے ۔صلوات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان پروردگار کی نظر عنایت کا حقدار ہو جاتا ہے اور اس طرح اس کی دعائیں قابل قبول ہو جاتی ہیں۔

۷۴۶

۳۶۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَسْأَلْ عَمَّا لَا يَكُونُ - فَفِي الَّذِي قَدْ كَانَ لَكَ شُغُلٌ

۳۶۵ - وقَالَعليه‌السلام الْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ والِاعْتِبَارُ مُنْذِرٌ نَاصِحٌ - وكَفَى أَدَباً لِنَفْسِكَ تَجَنُّبُكَ مَا كَرِهْتَه لِغَيْرِكَ.

۳۶۶ - وقَالَعليه‌السلام الْعِلْمُ مَقْرُونٌ بِالْعَمَلِ فَمَنْ عَلِمَ عَمِلَ - والْعِلْمُ يَهْتِفُ بِالْعَمَلِ - فَإِنْ أَجَابَه وإِلَّا ارْتَحَلَ عَنْه.

(۳۶۴)

جو بات ہونے والی نہیں ہے۔اس کے بارے میں سوال مت کرو کہ جو ہوگیا ہے وہی تمہارے لئے کافی ہے۔

(۳۶۵)

فکر(۱) ایک شفاف آئینہ ہے اورعبرت حاصل کرنا ایک انتہائی مخلص متنبہ کرنیوالا ے۔تمہارے نفس کے ادب کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس چیز کو دوسروں کے لئے نا پسند کرتے ہو اس سے خود بھی پرہیز کرو۔

(۳۶۶)

علم کا مقدر عمل(۲) سے جڑا ہوا ہے اورجو واقعی صاحب علم ہوتا ہے وہ عمل بھی کرتا ہے۔یاد رکھو کہ علم عمل کے لئے آوازدیتا ہے اور انسان سن لیتا ہے تو خیر ورنہ خود بھی رخصت ہو جاتا ہے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فکر ایک شفاف آئینہ ہے جس میں بآسانی مجہولات کاچہرہ دیکھ لیا جاتا ہے اور اہل منطق نے اس کی یہی تعریف کی ہے کہ معلومات کی اس طرح مرتب کیا جائے کہ اس سے مجہولات کاعلم حاصل ہو جائے ۔لیکن صرف مستقبل کاچہرہ دیکھ لینا ہی کوئی ہنرنہیں ہے۔اصل ہنر اور کام اس سے عبرت حاصل کرنا ہے کہ انسان کے حق میں عبرت سے زیادہ مخلص نصیحت کرنے والا کوئی نہیں ہے اور یہی عبرت ہے جو اسے ہر برائی اور مصیبت سے بچا سکتی ہے ورنہ اس کے علاوہ کوئی یہ کار خیر انجام دینے والا نہیں ہے۔

(۲)بلا شک و شبہ علم ایک کمال ہے اور مجہولات کاحاصل کرلینا ایک ہنر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسے با کمال اور صاحب ہنر کس طرح کہاجاسکتا ہے جو یہ تودریافت کرلے کہ فلاں چیز میں زہر ہے مگر اس سے اجتناب نہ کرے۔ایسے شخص کو تو مزید احمق اور نالائق تصور کیا جاتا ہے۔

علم کا کمال ہی یہ ہے کہ انسان اس کے مطابق عمل کرے تاکہ صاحب علم اور صاحب کمال کہے جانے کاحقدار ہو جائے ورنہ علم ایک وبال ہو جائے گا اوراپنی ناقدری سے ناراض ہو کر رخصت بھی ہو جائے گا۔صرف نام علم باقی رہ جائے گا ور حقیقت علم ختم ہو جائے گی۔

۷۴۷

۳۶۷ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَتَاعُ الدُّنْيَا حُطَامٌ مُوبِئٌ - فَتَجَنَّبُوا مَرْعَاه قُلْعَتُهَا أَحْظَى مِنْ طُمَأْنِينَتِهَا - وبُلْغَتُهَا أَزْكَى مِنْ ثَرْوَتِهَا - حُكِمَ عَلَى مُكْثِرٍ مِنْهَا بِالْفَاقَةِ - وأُعِينَ مَنْ غَنِيَ عَنْهَا بِالرَّاحَةِ - مَنْ رَاقَه زِبْرِجُهَا أَعْقَبَتْ نَاظِرَيْه كَمَهاً - ومَنِ اسْتَشْعَرَ الشَّغَفَ بِهَا مَلأَتْ ضَمِيرَه أَشْجَاناً - لَهُنَّ رَقْصٌ عَلَى سُوَيْدَاءِ قَلْبِه - هَمٌّ يَشْغَلُه وغَمٌّ يَحْزُنُه - كَذَلِكَ حَتَّى يُؤْخَذَ بِكَظَمِه فَيُلْقَى بِالْفَضَاءِ مُنْقَطِعاً أَبْهَرَاه - هَيِّناً عَلَى اللَّه فَنَاؤُه وعَلَى الإِخْوَانِ إِلْقَاؤُه - وإِنَّمَا يَنْظُرُ الْمُؤْمِنُ إِلَى الدُّنْيَا بِعَيْنِ الِاعْتِبَارِ - ويَقْتَاتُ مِنْهَا بِبَطْنِ الِاضْطِرَارِ - ويَسْمَعُ فِيهَا بِأُذُنِ الْمَقْتِ والإِبْغَاضِ - إِنْ قِيلَ أَثْرَى قِيلَ أَكْدَى - وإِنْ فُرِحَ لَه بِالْبَقَاءِ حُزِنَ لَه

(۳۶۷)

ایہاالناس! دنیا کا سرمایہ ایک سڑفا بھوسہ ہے جس سے وباء پھیلنے والی ہے لہٰذا اس کی چراگاہ سے ہوشیار رہو اس دنیا سے چل چلائو سکون کے ساتھ رہنے سے زیادہ فائدہ مند ہے اور یہاں کابقدر ضرورت سامان ثروت سے زیادہ برکت والا ہے ۔یہاں کے دولت مند کے بارے میں ایک دن احتیاج لکھ دی گئی ہے اوراس سے بے نیاز رہنے والے کو راحت کا سہارا دے دیا جاتا ہے ۔جسے اس کی زینت پسندآگئی اس کی آنکھوں کوانجام کاری ہ اندھا کردیتی ہے اورجس نے اس سے شغف کو شعار بنا لیا اس کے ضمیر کو رنج و اندوہ سے بھردیتی ہے اور یہ فکریں اس کے نقطہ قلب کے گرد چکر لگاتی رہتی ہیں بعض اسے مشغول بنالیتی ہیں اور بعض محزون بنادیتی ہیں اور یہ سلسلہ یوں ہی قائم رہتا ہے یہاں تک کہاس کا گلا گھونٹ دیا جائے اوراسے فضائ( قبر) میں ڈال دیا جائے جہاں دل کی دونوں رگیں کٹ جائیں۔خداکے لئے اس کا فناکردینا بھی آسان ہے اور بھائیوںکے لئے اسے قبر میں ڈال دینابھی مشکل نہیں ہے۔مومن وہی ہے جو دنیاکی طرف عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پیٹ کی ضرورت بھر سامان پر گذارا کر لیتا ہے۔اس کی باتوں کہ عداوت و نفرت کے کانوں سے سنتا ہے۔کہ جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مالدار ہوگیا ہے تو فوراً آوازآتی ہے کہ نادار ہوگیا ہے۔اور جب کسی کو بقا کے تصور سے مسرور کیا جاتا ہے تو فناکے خیال سے رنجیدہ بنادیاجاتاہے

۷۴۸

بِالْفَنَاءِ - هَذَا ولَمْ يَأْتِهِمْ يَوْمٌ فِيه يُبْلِسُونَ

۳۶۸ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه وَضَعَ الثَّوَابَ عَلَى طَاعَتِه - والْعِقَابَ عَلَى مَعْصِيَتِه ذِيَادَةً لِعِبَادِه عَنْ نِقْمَتِه - وحِيَاشَةً لَهُمْ إِلَى جَنَّتِه.

۳۶۹ - وقَالَعليه‌السلام يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ - لَا يَبْقَى فِيهِمْ مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُه - ومِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُه - ومَسَاجِدُهُمْ يَوْمَئِذٍ عَامِرَةٌ مِنَ الْبِنَاءِ - خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى - سُكَّانُهَا وعُمَّارُهَا شَرُّ أَهْلِ الأَرْضِ - مِنْهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وإِلَيْهِمْ تَأْوِي الْخَطِيئَةُ - يَرُدُّونَ مَنْ شَذَّ عَنْهَا فِيهَا - ويَسُوقُونَ مَنْ تَأَخَّرَ عَنْهَا إِلَيْهَا - يَقُولُ اللَّه سُبْحَانَه فَبِي حَلَفْتُ - لأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ فِتْنَةً تَتْرُكُ الْحَلِيمَ فِيهَا حَيْرَانَ - وقَدْ فَعَلَ ونَحْنُ نَسْتَقِيلُ اللَّه عَثْرَةَ الْغَفْلَةِ.

۔اور یہ سباس وقت ہے جب ابھی وہ دن نہیں آیا ہے جب دن اہل دنیا مایوسی کاشکار ہوجائیں گے۔

(۳۶۸)

پروردگار عالم نے اطاعت پر ثواب اور معصیت پر عقاب اسی لئے رکھا ہے تاکہ بندوں کو اپنے غضب سے دور رکھ سکے اور انہیں گھیر جنت کی طرف لے آئے ۔

(۳۶۹)

لوگوں پر ایک ایسا دوربھی آنے والا ہے جب قرآن صرف نقوش باقی رہ جائیں گے اور اسلام میں صرف نام باقی رہ جائے گا مسجدیں(۱) تعمیرات کے اعتبار سے آباد ہوں گی اور ہدایت کے اعتبار سے برباد ہوں گی۔اس کے رہنے والے اورآباد کرنے والے سب بد ترین اہل زمانہ ہوں گے۔انہیں سے فتنہ باہر آئے گا اورانہیں کی طرف غلطیوں کو پناہ ملے گی۔جو اس سے بچ کر جانا چاہے گا اسے اس کی طرف پلٹا دیں گے اور جودور رہنا چاہے گا اسے ہنکا کرلے آئیں گے

پروردگار کا ارشاد ہے کہ میری ذات کی قسم میں ان لوگوں پر ایک ایسے فتنہ کو مسلط کردوں گا جو صاحب عقل کوبھی حیرت زدہ بنادے گا اور یہ یقینا ہو کر رہے گا۔ہم اس کی بارگاہ میں غفلتوں کی لغزشوں سے پناہ چاہتے ہیں۔

(۱)شائد کہ ہمارا دور اس ارشاد گرامی کا بہترین مصداق ہے جہاں مساجد کی تعمیر بھی ایک فیشن ہوگئی ہے اور اس کا اجتماع بھی ایک فنکشن ہو کر رہ گیا ہے ۔روح مسجد فنا ہوگئی ہے اور مساجد سے وہ کام نہیں لیا جا رہا ہے جو مولائے کائنات کے دور میں لیا جارہا تھا جہاں اسلام کی ہر تحریک کا مرکز مسجد تھی اورباطل سے ہر مقابلہ کامنصوبہ مسجد میں تیار ہوتا تھا۔لیکن آج مسجدیں صرف حکومتوں کے لئے دعائے خیر کامرکز ہیں اور ان کی شخصیتوں کے پروپگینڈہ کابہترین پلیٹ فارم ہیں۔رب کریم اس صورت حال کی اصلاح فرمائے ۔!

۷۴۹

۳۷۰ - ورُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام قَلَّمَا اعْتَدَلَ بِه الْمِنْبَرُ - إِلَّا قَالَ أَمَامَ الْخُطْبَةِ - أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّه - فَمَا خُلِقَ امْرُؤٌ عَبَثاً فَيَلْهُوَ - ولَا تُرِكَ سُدًى فَيَلْغُوَ - ومَا دُنْيَاه الَّتِي تَحَسَّنَتْ لَه بِخَلَفٍ - مِنَ الآخِرَةِ الَّتِي قَبَّحَهَا سُوءُ النَّظَرِ عِنْدَه - ومَا الْمَغْرُورُ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الدُّنْيَا بِأَعْلَى هِمَّتِه - كَالآخَرِ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الآخِرَةِ بِأَدْنَى سُهْمَتِه

۳۷۱ - وقَالَعليه‌السلام لَا شَرَفَ أَعْلَى مِنَ الإِسْلَامِ - ولَا عِزَّ أَعَزُّ مِنَ التَّقْوَى - ولَا مَعْقِلَ أَحْسَنُ مِنَ الْوَرَعِ - ولَا شَفِيعَ أَنْجَحُ مِنَ التَّوْبَةِ - ولَا كَنْزَ أَغْنَى مِنَ الْقَنَاعَةِ - ولَا مَالَ أَذْهَبُ لِلْفَاقَةِ مِنَ الرِّضَى بِالْقُوتِ - ومَنِ اقْتَصَرَ عَلَى بُلْغَةِ الْكَفَافِ - فَقَدِ انْتَظَمَ الرَّاحَةَ وتَبَوَّأَ خَفْضَ الدَّعَةِ - والرَّغْبَةُ مِفْتَاحُ النَّصَبِ

ومَطِيَّةُ التَّعَبِ - والْحِرْصُ والْكِبْرُ والْحَسَدُ - دَوَاعٍ إِلَى التَّقَحُّمِ فِي الذُّنُوبِ - والشَّرُّ جَامِعُ مَسَاوِئِ الْعُيُوبِ.

(۳۷۰)

کہا جاتا ہے کہ آپ جب بھی منبر پرتشریف لے جاتے تھے تو خطبہ سے پہلے یہ کلمات ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔

لوگو! اللہ سے ڈرو۔اس نے کسی کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے کہ کھیل کود میں لگ جائے اور نہ آزاد چھوڑ دیا ہے کہ لغویتیں کرنے لگے۔یہ دنیا جو انسان کی نگاہ میں آراستہ ہوگئی ہے یہ اس آخرت کا بدل نہیں بن سکتی ہے جسے بری نگاہ نے قبیح بنادیا ہے ۔جو فریب خوردہ دنیا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے وہ اس کا جیسا نہیں ہے جو آخرت میں ادنیٰ حصہ بھی حاصل کرلے ۔

(۳۷۱)

اسلام سے بلند تر کوئی شرف نہیں ہے اور تقویٰ سے زیادہ باعزت کوئی عزت نہیں ہے۔پرہیز گاری سے بہترکوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور توبہ سے زیادہ کامیاب کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔قناعت سے زیادہ مالدار بنانے والا کوئی خزانہ نہیں ہے اور روزی پر راضی ہو جانے سے زیادہ فقر و فاقہ کو دورکرنے والا نہیں ہے ۔

جس نے بقدرکفایت سامان پرگذارا کرلیا اس نے راحت کو حاصل کرلیا اور سکون کی منزل میں گھر بنالیا۔

خواہش رنج و تکلیف کی کنجی اور تکان و زحمت کی سواری ہے۔

حرص ' تکبر اورحسد گناہوں میں کود پڑنے کے اسباب و محرکات ہیں اورش ر تمام برائیوں کاجامع ہے

۷۵۰

۳۷۲ - وقَالَعليه‌السلام لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّه الأَنْصَارِيِّ - يَا جَابِرُ قِوَامُ الدِّينِ والدُّنْيَا بِأَرْبَعَةٍ - عَالِمٍ مُسْتَعْمِلٍ عِلْمَه - وجَاهِلٍ لَا يَسْتَنْكِفُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وجَوَادٍ لَا يَبْخَلُ بِمَعْرُوفِه - وفَقِيرٍ لَا يَبِيعُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه - فَإِذَا ضَيَّعَ الْعَالِمُ عِلْمَه - اسْتَنْكَفَ الْجَاهِلُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وإِذَا بَخِلَ الْغَنِيُّ بِمَعْرُوفِه - بَاعَ الْفَقِيرُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه.

يَا جَابِرُ مَنْ كَثُرَتْ نِعَمُ اللَّه عَلَيْه - كَثُرَتْ حَوَائِجُ النَّاسِ إِلَيْه - فَمَنْ قَامَ لِلَّه فِيهَا بِمَا يَجِبُ فِيهَا عَرَّضَهَا لِلدَّوَامِ والْبَقَاءِ ومَنْ لَمْ يَقُمْ فِيهَا بِمَا يَجِبُ عَرَّضَهَا لِلزَّوَالِ والْفَنَاءِ.

۳۷۳ - ورَوَى ابْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ فِي تَارِيخِه: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى الْفَقِيه - وكَانَ مِمَّنْ خَرَجَ لِقِتَالِ الْحَجَّاجِ مَعَ ابْنِ الأَشْعَثِ - أَنَّه قَالَ فِيمَا كَانَ يَحُضُّ بِه النَّاسَ عَلَى الْجِهَادِ - إِنِّي سَمِعْتُ عَلِيّاً رَفَعَ اللَّه دَرَجَتَه فِي الصَّالِحِينَ - وأَثَابَه ثَوَابَ الشُّهَدَاءِ والصِّدِّيقِينَ - يَقُولُ يَوْمَ لَقِينَا أَهْلَ الشَّامِ.

(۳۷۲)

آپ نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا کہ جابر دین و دنیا کا قیام چارچیزوں سے ہے

وہ عالم جو اپنے علم کو استعمال بھی کرے اور وہ جاہل جو علم حاصل کرنے سے انکارنہ کرے وہ سختی جو اپنی نیکیوں میں بخل نہ کرے ۔اور فقیرو جو اپنی آخرت کو دنیاکے عوض فروخت نہ کرے ۔

لہٰذا ( یاد رکھو ) اگر عالم اپنے کوبرباد کردے گا تو جاہل بھی اس کے حصول سے اکڑ جائے گا اور اگر غنی اپنی نیکیوں میں بخل کرے گا توفقیر بھی آخرت کو دنیاکے عوض بیچنے پرآمادہ ہو جائے گا۔

جابر ! جس پراللہ کی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اس کی طرفرلوگوں کی احتیاج بھی زیادہ ہوتی ہے لہٰذا جو شخص اپنے مال میں اللہ کے فرائض کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ اس کی بقا و دوام کا سامان فراہم کرلیتا ہے اورجوان وابجات کوادا نہیں کرتا ہے وہ اسے زوال و فنا کے راستہ پر لگا دیتا ہے ۔

(۳۷۳)

ابن جریر طبری نے اپنی تریخ میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے نقل کیا ہے جو حجاج سے مقابلہ کرنے کے لئے ابن اشعث سے نکلا تھا اور لوگوں کوجہاد پرآمادہ کر رہا تھا کہ میں نے حضرت علی ( خداصالحین میں ان کے درجات کو کا ثواب عنایت کرے ) سے اسدن سنا ہے جب ہم لوگ شام والوں سے مقابلہ کر رہے تھے کہ حضرت نے فرمایا:

۷۵۱

أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ - إِنَّه مَنْ رَأَى عُدْوَاناً يُعْمَلُ بِه - ومُنْكَراً يُدْعَى إِلَيْه - فَأَنْكَرَه بِقَلْبِه فَقَدْ سَلِمَ وبَرِئَ - ومَنْ أَنْكَرَه بِلِسَانِه فَقَدْ أُجِرَ - وهُوَ أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِه - ومَنْ أَنْكَرَه بِالسَّيْفِ - لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّه هِيَ الْعُلْيَا وكَلِمَةُ الظَّالِمِينَ هِيَ السُّفْلَى - فَذَلِكَ الَّذِي أَصَابَ سَبِيلَ الْهُدَى - وقَامَ عَلَى الطَّرِيقِ ونَوَّرَ فِي قَلْبِه الْيَقِينُ.

۳۷۴ - وفِي كَلَامٍ آخَرَ لَه يَجْرِي هَذَا الْمَجْرَى: فَمِنْهُمُ الْمُنْكِرُ لِلْمُنْكَرِ بِيَدِه ولِسَانِه وقَلْبِه - فَذَلِكَ الْمُسْتَكْمِلُ لِخِصَالِ الْخَيْرِ - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِلِسَانِه وقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه - فَذَلِكَ مُتَمَسِّكٌ بِخَصْلَتَيْنِ مِنْ خِصَالِ الْخَيْرِ - ومُضَيِّعٌ خَصْلَةً - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه ولِسَانِه - فَذَلِكَ الَّذِي ضَيَّعَ أَشْرَفَ الْخَصْلَتَيْنِ مِنَ الثَّلَاثِ - وتَمَسَّكَ بِوَاحِدَةٍ -

ایمان والو! جوشخص یہ دیکھے کہ ظلم و تعدی پر عمل ہو رہا ہے اور برائیوں کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور اپنے دل سے اس کا انکار کردے توگویا کہ محفو ظ رہ گیا اور بری(۱) ہوگیا۔اور اگر زبان سے انکار کردے تواجرکا حقداربھی ہوگیا کہ یہ صرف قلبی انکار سے بہتر صورت ہے اور اگر کوئی شخص تلوار کے ذریعہ اس کی روک تھام کرے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے اور ظالمین کی بات پستہو جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کے راستہ کو پالیا ہے اورسیدھے راستہ پر قائم ہوگیا ہے اور اس کے دل میں یقین کی روشنی پیدا ہوگئی ہے۔

(۳۷۴)

( اسی موضوع سے متعلق دوسرے موقع پرارشاد فرمایا ) بعض لوگ منکرات کا انکار دل۔زبان اور ہاتھ سب سے کرتے ہیں تو یہ خیر کے تمام شعبوں کے مالک ہیں اور بعض لوگ صرف زبان اوردل سے انکار کرتے ہیں اور ہاتھ سے روک تھام نہیں کرتے ہیں تو انہوں نے نیکی کی دوخصلتوں کو حاصل کیا ہے اور ایک خصلت کو برباد کردیا ہے۔اور بعض لوگ صرف دل سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہاتھ استعمال کرتے ہیں اور نہ زبان۔تو انہوں نے دوخصلتوں کو ضائع کردیا ہے اور صرف ایک کو پکڑ لیا ہے۔

(۱)اس فقرہ میں سلامتی اوربراء ت کامفہوم یہی ہے کہ منکرات کو برا سمجھنا اور اس سے راضی نہ ہونا انسان کی فطرت سلیم کا حصہ ہے جس کا تقاضا اندر سے برابر جاری رہتا ہے لہٰذا اگر اس نے بیزاری کا اظہار کردیا توگویا فطرت کے سلیم ہونے کا ثبوت دے دیا اوراس فریضہ سے سبکدوش ہوگیا جو فطرت سلیم نے اس کے ذمہ عائد کیا تھا۔ورنہاگر ایسا بھی نہ کرتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ فطرت سلیم پرخارجی عناصر غالبآگئے ہیں اور انہوں نے بری الذمہ ہونے سے روک دیا ہے ۔

۷۵۲

ومِنْهُمْ تَارِكٌ لإِنْكَارِ الْمُنْكَرِ بِلِسَانِه وقَلْبِه ويَدِه - فَذَلِكَ مَيِّتُ الأَحْيَاءِ - ومَا أَعْمَالُ الْبِرِّ كُلُّهَا والْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّه - عِنْدَ الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ - إِلَّا كَنَفْثَةٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ - وإِنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ - لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ ولَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ - وأَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّه كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ.

۳۷۵ - وعَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام يَقُولُ: أَوَّلُ مَا تُغْلَبُونَ عَلَيْه مِنَ الْجِهَادِ - الْجِهَادُ بِأَيْدِيكُمْ ثُمَّ بِأَلْسِنَتِكُمْ ثُمَّ بِقُلُوبِكُمْ - فَمَنْ لَمْ يَعْرِفْ بِقَلْبِه مَعْرُوفاً ولَمْ يُنْكِرْ مُنْكَراً - قُلِبَ فَجُعِلَ أَعْلَاه أَسْفَلَه وأَسْفَلُه أَعْلَاه.

۳۷۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الْحَقَّ ثَقِيلٌ مَرِيءٌ وإِنَّ الْبَاطِلَ خَفِيفٌ وَبِيءٌ

اوربعض وہ بھی ہیں جو دل۔زبان اور ہاتھ کسی سے بھی برائیوں کا انکارنہیں کرتے ہیں تو یہ زندوں کی درمیان مردہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یاد رکھو کہ جملہ اعمال خیر مع جہاد راہ خدا۔امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے مقابلہ میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جوگہرے سمندر میں لعاب دہن کے ذرات کی حیثیت ہوتی ہے۔

اور ان تمام اعمال سے بلند تر عمل حاکم ظالم کے سامنے کلمۂ انصاف(۱) کااعلان ہے۔

(۳۷۵)

ابو حجیفہ سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امیر المومنین کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلے تم ہاتھ کے جہاد میں مغلوب ہوگے اس کے بعد زبان کے جہادمیں اور اس کے بعد دل کے جہاد میں ۔مگر یہ یاد رکھنا کہ اگر کسی شخص نے دل سے اچھائی کواچھا اوربرائی کو برا نہیں سمجھا تواسے اس طرح الٹ پلٹ دیاجائے گا کہ پست بلند ہو جائے اور بلند پست ہو جائے ۔

(۳۷۶)

حق ہمیشہ سنگین ہوتا ہے مگرخوشگوار ہوتا ہے اور باطل ہمیشہ آسان ہوتا ہے مگرمہلک ہوتا ہے

(۱)تاریخ اسلام میں اس کی بہترین مثال ابن السکیت کاکردار ہے جہاں ان سے متوکل نے سردربار یہ سوال کرلیا کہ تمہاری نگاہ میں میرے دونوں فرزند معتبر اورموید بہترین یا علی کے دونوں فرزند حسن و حسین تو ابن السکیت نے سلطان ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا کہ حسن و حسین کاکیا ذکر ہے تیرے فرزند اور تو دونوں مل کرعلی کے غلام قنبر کی جوتیوں کے تسمہ کے برابر نہیں ہیں۔

جس کے بعد متوکل نے حکم دے دیاکہ ان کی زبان کی گدی سے کھینچ لیا جائے اورابن السکیت نے نہایت درجہ سکون قلب کے ساتھ اس قربانی کو پیش کردیا اور اپنے پیشرو مثیم تمار۔حجر بن عدی۔عمروبن الحمق۔ابوذر۔عماریاسر اورمختار سے ملحق ہوگئے ۔

۷۵۳

۳۷۷ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَأْمَنَنَّ عَلَى خَيْرِ هَذِه الأُمَّةِ عَذَابَ اللَّه،لِقَوْلِه تَعَالَى -( فَلا يَأْمَنُ مَكْرَ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْخاسِرُونَ ) - ولَا تَيْأَسَنَّ لِشَرِّ هَذِه الأُمَّةِ مِنْ رَوْحِ اللَّه لِقَوْلِه تَعَالَى -( إِنَّه لا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْكافِرُونَ ) .

۳۷۸ - وقَالَعليه‌السلام الْبُخْلُ جَامِعٌ لِمَسَاوِئِ الْعُيُوبِ - وهُوَ زِمَامٌ يُقَادُ بِه إِلَى كُلِّ سُوءٍ.

۳۷۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ الرِّزْقُ رِزْقَانِ رِزْقٌ تَطْلُبُه -

(۳۷۷)

دیکھو اس امت کے بہترین آدمی کے بارے میں بھی عذاب سے مطمئن نہ ہو جانا کہ عذاب الٰہی کی طرف سے صرف خسارہ والے ہی مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اسی طرح اس امت کے بد ترین کے بارے میں بھی رحمت خداسے مایوس نہ ہو جانا کہ رحمت خدا سے مایوسی صرف کافروں کا حصہ ہے۔

(واضح رہے کہ اس ارشاد کا تعلق صرف ان گناہ گاروں سے ہے جن کا عمل انہیں سرحد کفر تک نہ پہنچا دے ورنہ کافر تو بہرحال رحمت خداسے مایوس رہتا ہے۔

(۳۷۸)

بخل عیوب کی تمام برائیوں کا جامع ہے۔اوریہی وہ زمام ہے جس کے ذریعہ انسان کو ہر برائی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔

(۳۷۰)

ابن آدم ! رزق کی دو قسمیں ہیں۔ایک رزق وہ ہے جسے تم تلاش کر رہے ہو اورایک رزق(۱) وہ ہے جو تم کو

(۱)اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ انسان محنت و مشقت چھوڑ دے اوراس امید میں بیٹھ جائے کہ رزق کی دوسری قسم بہرحال حاصل ہو جاے گی اوراسی پر قناعت کرلے گا ۔بلکہ یہ درحقیقت اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے یہاں محنت و مشقت بہرحال کرنا اوریہ انسان کے فرائض انسانیت وعبدیت میں شامل ہے لیکن اس کے بعد بھی رزق کا ایک حصہ ہے جو انسان کی محنت و مشقت سے بالاتر ہے اور وہ ان اسباب کے ذریعہ پہنچ جاتا ہے جن کا انسان تصوربھی نہیں کرتا ہے جس طرح کہ آپ گھر سے نکلیں اور کوئی شخص راستہ میں ایک گلاب پانی یا ایک پیالی چائے پلاے ۔ظاہر ہے کہ یہ پانی یا چائے نہ آپ کے حساب رزق کاکوئی حصہ ہے اور نہ آپنے اس کے لئے کوئی محنت کی ہے ۔یہ پروردگار کا ایک کر م ہے جوآپکے شامل حال ہوگیا ہے اور اس نے اس نکتہ کی وضاحت کردی کہ اگر زندگانی دنیا میں محنت ناکام بھی ہو جائے تو رزق کا سلسلہ بند ہونے والا نہیں ہے۔پروردگار کے پاس اپنے وسائل موجودہیں وہ ان وسائل سے رزق فراہم کردے گا۔وہ مسبب الاسباب ہے اسباب کا پابند نہیں ہے۔

۷۵۴

ورِزْقٌ يَطْلُبُكَ فَإِنْ لَمْ تَأْتِه أَتَاكَ - فَلَا تَحْمِلْ هَمَّ سَنَتِكَ عَلَى هَمِّ يَوْمِكَ - كَفَاكَ كُلُّ يَوْمٍ عَلَى مَا فِيه - فَإِنْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَإِنَّ اللَّه تَعَالَى سَيُؤْتِيكَ فِي كُلِّ غَدٍ جَدِيدٍ مَا قَسَمَ لَكَ - وإِنْ لَمْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَمَا تَصْنَعُ بِالْهَمِّ فِيمَا لَيْسَ لَكَ - ولَنْ يَسْبِقَكَ إِلَى رِزْقِكَ طَالِبٌ - ولَنْ يَغْلِبَكَ عَلَيْه غَالِبٌ - ولَنْ يُبْطِئَ عَنْكَ مَا قَدْ قُدِّرَ لَكَ.

قال الرضي وقد مضى هذا الكلام - فيما تقدم من هذا الباب - إلا أنه هاهنا أوضح وأشرح فلذلك كررناه - على القاعدة المقررة في أول الكتاب.

۳۸۰ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ مُسْتَقْبِلٍ يَوْماً لَيْسَ بِمُسْتَدْبِرِه - ومَغْبُوطٍ فِي أَوَّلِ لَيْلِه قَامَتْ بَوَاكِيه فِي آخِرِه.

۳۸۱ - وقَالَعليه‌السلام الْكَلَامُ فِي وَثَاقِكَ مَا لَمْ تَتَكَلَّمْ بِه - فَإِذَا تَكَلَّمْتَ بِه صِرْتَ فِي وَثَاقِه - فَاخْزُنْ لِسَانَكَ كَمَا تَخْزُنُ ذَهَبَكَ ووَرِقَكَ - فَرُبَّ كَلِمَةٍ

تلاش کر رہا ہے کہ اگر تم اس تک نہ پہنچو گے تو وہ تمہارے پاس آجائے گا۔لہٰذا ایک سال کے ہم و غم کو ایک دن پر بار نہ کردو۔ہر دن کے لئے اسی دن کی فکر کافی ہے۔اس کے بعد اگر تمہاری عمر میں ایک سال باقی رہ گیا ہے تو ہرآنے والا دن اپنا رزق اپنے ساتھ لے کرآئے گا اوراگر سال باقی نہیں رہ گیا ہے تو سال بھر کی فکر کی ضرورت ہی کیا ہے۔تمہارے رزق کو تم سے پہلے کوئی پا نہیں سکتا ہے اور تمہارے حصہ پر کوئی غالب نہیں آسکتا ہے بلکہ جو تمہارے حق میں مقدر ہوچکا ہے وہ دیر سے بھی نہیں آئے گا۔

سید رضی : یہ ارشاد گرامی اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے مگر یہاں زیادہ واضح اور مفصل ہے لہٰذا دوبارہ ذکر کردیا گیا ہے۔

(۳۸۰)

بہت سے لوگ ایسے دن کا سامنا کرنے والے ہیں جس سے پیٹھ پھیرانے والے نہیں ہیں۔اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی قسمت پر سر شام رشک کیا جاتا ہے اور صبح ہوتے ہوتے ان پر رونے والیوں کا ہجوم لگ جاتا ہے ۔

(۳۸۱)

گفتگو تمہارے قبضہ میں ہے۔جب تک اس کااظہار نہ ہو جائے ۔اس کے بعد پھر تم اس کے قبضہ میں چلے جاتے ہو۔لہٰذا اپنی زبان کو ویسے ہی محفوظ رکھو جسے سونے چاندی کی حفاظت کرتے ہو۔کہ بعض کلمات نعمتوں کو

۷۵۵

سَلَبَتْ نِعْمَةً وجَلَبَتْ نِقْمَةً.

۳۸۲ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ مَا لَا تَعْلَمُ بَلْ لَا تَقُلْ كُلَّ مَا تَعْلَمُ - فَإِنَّ اللَّه فَرَضَ عَلَى جَوَارِحِكَ كُلِّهَا - فَرَائِضَ يَحْتَجُّ بِهَا عَلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

۳۸۳ - وقَالَعليه‌السلام احْذَرْ أَنْ يَرَاكَ اللَّه عِنْدَ مَعْصِيَتِه - ويَفْقِدَكَ عِنْدَ طَاعَتِه - فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ - وإِذَا قَوِيتَ فَاقْوَ عَلَى طَاعَةِ اللَّه - وإِذَا ضَعُفْتَ فَاضْعُفْ عَنْ مَعْصِيَةِ اللَّه.

۳۸۴ - وقَالَعليه‌السلام الرُّكُونُ إِلَى الدُّنْيَا مَعَ مَا تُعَايِنُ مِنْهَا جَهْلٌ - والتَّقْصِيرُ فِي حُسْنِ الْعَمَلِ - إِذَا وَثِقْتَ بِالثَّوَابِ عَلَيْه غَبْنٌ - والطُّمَأْنِينَةُ إِلَى كُلِّ أَحَدٍ قَبْلَ الِاخْتِبَارِ لَه عَجْزٌ.

۳۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنْ هَوَانِ الدُّنْيَا عَلَى اللَّه أَنَّه لَا يُعْصَى إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنَالُ مَا عِنْدَه إِلَّا بِتَرْكِهَا.

سلب کر لیتے ہیں اورعذاب کو جذب کرلیتے ہیں۔

(۳۸۲)

جوبات نہیں جانتے ہو اسے زبان سے مت نکالو بلکہ ہر وہ بات جسے جانتے ہو اسے بھی مت بیان کرو کہ اللہ نے ہر عضو بدن کے کچھ فرائض قراردئیے ہیں اور انہیں کے ذریعہ روز قیامت حجت قائم کرنے والا ہے۔

(۳۸۳)

اس بات سے ڈرو کہ اللہ تمہیں معصیت کے موقع پرحاضر دیکھے اور اطاعت کے موقع پر غائب پائے کہ اس طرح خسارہ والوں میں شمار ہو جائو گے ۔اگر تمہارے پاس طاقت ہے تو اس کا اظہار اطاعت خدا میں کرو اور اگر کمزوری دکھلانا ہے تو اسے معصیت کے موقع پر دکھلائو۔

(۳۸۴)

دنیا کیحالات دیکھنے کے باوجود اس کی طرف رجحان اور میلان صرف جہالت ہے۔اورثواب کے یقین کے بعد بھی نیک عمل میں کوتاہی کرنا خسارہ ہے۔امتحان سے پہلے ہر ایک پر اعتبار کرلینا عاجزی اور کمزوری ہے۔

(۳۸۵)

خداکی نگاہ میں دنیا کی حقارت کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اس کی معصیت اسی دنیا میں ہوتی ہے اور اس کی اصلی نعمتیں اس کوچھوڑنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہیں۔

۷۵۶

۳۸۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ طَلَبَ شَيْئاً نَالَه أَوْ بَعْضَه.

۳۸۷ - وقَالَعليه‌السلام مَا خَيْرٌ بِخَيْرٍ بَعْدَه النَّارُ - ومَا شَرٌّ بِشَرٍّ بَعْدَه الْجَنَّةُ - وكُلُّ نَعِيمٍ دُونَ الْجَنَّةِ فَهُوَ مَحْقُورٌ - وكُلُّ بَلَاءٍ دُونَ النَّارِ عَافِيَةٌ.

۳۸۸ - وقَالَعليه‌السلام أَلَا وإِنَّ مِنَ الْبَلَاءِ الْفَاقَةَ - وأَشَدُّ مِنَ الْفَاقَةِ مَرَضُ الْبَدَنِ - وأَشَدُّ مِنْ مَرَضِ الْبَدَنِ مَرَضُ الْقَلْبِ - أَلَا وإِنَّ مِنْ صِحَّةِ الْبَدَنِ تَقْوَى الْقَلْبِ.

(۳۸۶)

جو کسی شے کا طلب گار ہوتا ہے وہ کل یا جزء بہرحال حاصل کر لیتا ہے۔

(۳۸۷)

وہ بھلائی بھلائی نہیں ہے جس کا انجام جہنم ہو۔اوروہ برائی برائی نہیں ہے جس کی عاقبت جنت ہو۔جنت کے علاوہ ہر نعمت حقیر ہے اور جہنم سے بچ جانے کے بعد ہر مصیبت عافیت ہے۔

(۳۸۸)

یاد رکھو کہ فقرو فاقہ بھی ایک بلاء ہے اور اس سے زیادہ سخت مصیبت بدن کی بیماری ہے اور اس سے زیادہ دشوار گذار دل کی بیماری ہے۔مالداری یقینا ایک نعمت ہے لیکن اس سے بڑی نعمت صحت(۱) بدن ہے اور اس سے بڑی نعمت دل کی پرہیز گاری ہے۔

(۱) یہ نکتہ ان غرباء اورفقراء کے سمجھنے کے لئے ہے جوہمیشہ غربت کا مرثیہ پڑھتے رہتے ہیں اور کبھی صحت کا شکیرہ نہیں اداکرتے ہیں جب کہ تجربات کی دنیا میں یہبات ثابت ہوچکی ہے کہ امراض کا اوسط دولت مندوں میں غریبوں سے کہیں زیادہ ہے اور ہارٹ اٹیک کے بیشتر مریض اسی انچے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔بلکہ بعض اوقات توامیروں کی زندگی میں غذائوں سے زیادہ حصہ دوائوں کا ہوتا ہے اوروہ بیشمار غذائوں سے یکسر محروم ہو جاتے ہیں۔

صحت بدن پروردگار کا ایک مخصوص کرم ہے جو وہ اپنے بندوں کے شامل حال کردیتا ہے لیکن غریبوں کوبھی اس نکتہ کا خیال رکھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے اس صحت کاشکریہ ادا کیا اور صرف غربت کی شکایت کرتے رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جسمانی اعتبارسے صحت مند ہیں لیکن روحانی اعتبار سے بہر حال مریض ہیں اوریہ مرض ناقابل علاج ہو چکا ہے۔رب کریم ہر مومن و مومنہ کو اس مرض سے نجات عطا فرمائے

۷۵۷

۳۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْطَأَ بِه عَمَلُه لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه: وفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى: مَنْ فَاتَه حَسَبُ نَفْسِه لَمْ يَنْفَعْه حَسَبُ آبَائِه.

۳۹۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلْمُؤْمِنِ ثَلَاثُ سَاعَاتٍ فَسَاعَةٌ يُنَاجِي فِيهَا رَبَّه - وسَاعَةٌ يَرُمُّ مَعَاشَه - وسَاعَةٌ يُخَلِّي بَيْنَ نَفْسِه - وبَيْنَ لَذَّتِهَا فِيمَا يَحِلُّ ويَجْمُلُ - ولَيْسَ لِلْعَاقِلِ أَنْ يَكُونَ شَاخِصاً إِلَّا فِي ثَلَاثٍ - مَرَمَّةٍ لِمَعَاشٍ أَوْ خُطْوَةٍ فِي مَعَادٍ - أَوْ لَذَّةٍ فِي غَيْرِ مُحَرَّمٍ.

۳۹۱ - وقَالَعليه‌السلام ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُبَصِّرْكَ اللَّه عَوْرَاتِهَا - ولَا تَغْفُلْ فَلَسْتَ بِمَغْفُولٍ عَنْكَ.

۳۹۲ - وقَالَعليه‌السلام تَكَلَّمُوا تُعْرَفُوا فَإِنَّ الْمَرْءَ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِه.

(۳۸۹)

جس کو عمل پیچھے ہٹا دے اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتاہے۔یا ( دوسری روایت میں ) جس کے ہاتھ سے اپنا کردار نکل جائے اسے آباء واجداد کے کارنامے فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہیں۔

(۳۹۰)

مومن کی زندگی کے تین اوقات ہوتے ہیں۔ ایک ساعت میں وہ اپنے رب سے راز و نیاز کرتا ہے اور دوسرے وقت میں اپنے معاش کی اصلاح کرتا ہے اور تیسرے وقت میں اپنے نفس کوان لذتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے جوحلال اور پاکیزہ ہیں ۔

کسی عقل مند کویہ زیب نہیں دیتا ہے کہ اپنے گھرسے دور ہو جائے مگر یہ کہ تین میں سے کوئی ایک کام ہو۔اپنے معاش کی اصلاح کرے ' آخرت کی طرف قدم آگے بڑھائے 'حلال اورپاکیزہ لذت حاصل کرے۔

(۳۹۱)

دنیامیں زہد اختیار کرو تاکہ اللہ تمہیں اس کی برائیوں سے آگاہ کردے ۔اورخبر دار غافل نہ ہو جائو کہ تمہاری طرف سے غفلت نہیں برتی جائے گی۔

(۳۹۲)

بولو تاکہ پہچانے جائو اس لئے کہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی رہتی ہے۔

۷۵۸

۳۹۳ - وقَالَعليه‌السلام خُذْ مِنَ الدُّنْيَا مَا أَتَاكَ - وتَوَلَّ عَمَّا تَوَلَّى عَنْكَ - فَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَفْعَلْ فَأَجْمِلْ فِي الطَّلَبِ

۳۹۴ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ قَوْلٍ أَنْفَذُ مِنْ صَوْلٍ

۳۹۵ - وقَالَعليه‌السلام كُلُّ مُقْتَصَرٍ عَلَيْه كَافٍ.

۳۹۶ - وقَالَعليه‌السلام الْمَنِيَّةُ ولَا الدَّنِيَّةُ والتَّقَلُّلُ ولَا التَّوَسُّلُ ومَنْ لَمْ يُعْطَ قَاعِداً لَمْ يُعْطَ قَائِماً

(۳۹۳)

جو دنیا میں حاصل ہو جائے اسے لے لو اور جو چیز تم سے منہ موڑ لے تم بھی اس سے منہ پھیر لو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے ہو تو طلب میں میانہ روی سے کام لو۔

(۳۹۴)

بہت سے الفاظ حملوں(۱) سے زیادہاثر رکھنے والے ہوتے ہیں۔

(۳۹۵)

جس پر اکتفا(۲) کرلی جائے وہی کافی ہے۔

(۳۹۶)

موت ہو لیکن خبردار ذلت نہ ہو۔

کم ہو لیکن دوسروں کو وسیلہ نہ بنانا پڑے۔

جسے بیٹھ کر(۳) نہیں مل سکتا ہے اسے کھڑے ہو کر بھی نہیں مل سکتا ہے

(۱)اسی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ تلوار کا زخم بھرجاتا ہے لیکن زبان کا زخم نہیں بھرتا ہے۔اوراس کے علاوہ دونوں کا بنیادی فرق یہ ہے کہ حملوں کا اثر محدود علاقوں پر ہوتا ہے اورجملوں کا اثر ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے جس کا مشاہدہ اس دورمیں بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ حملے تمام دنیا میں بند پڑتے ہیں لیکن جملے اپنا کام کر رہے ہیں اور میڈیا ساری دنیا میں زہر پھیلا رہا ہے اورسارے عالم انسانیت کو ہرجہت اور ہراعتبار سے تباہی اوربربادی کے گھاٹ اتار رہا ہے۔

(۲)حرص و ہوس وہ بیماری ہے جس کاعلاج قناعت اورکفایت شعاری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔یہ دنیا ایسی ہے کہ اگر انسان اس کی لالچ میں پڑ جائے تو ملک فرعون اور اقتداریزید وحجاج بھی کم پڑ جاتا ہے اور کفایت شعاری پر آجائے تو جو کی روٹیاں بھی اس کے کردار کا ایک حصہ بن جاتی ہیں اور وہ نہایت درجہ بے نیازی کے ساتھ دنیا کوطلاق دینے پرآمادہ ہو جاتا ہے اورپھر جوع کرنے کاب ھی ارادہ نہیں کرتا ہے۔

(۳)یہاں بیٹھنے سے مراد بیٹھ جانانہیں ہے ورنہ اس نصیحت کو سن کر ہر انسان بیٹھ جائے گا اور محنت و مشقت کا سلسلہ ہی موقوف ہو جائے گا بلکہ اس بیٹھنے سے مراد بقدر ضرورت محنت کرنا ہے جوانسانی زندگی کے لئے کافی ہواور انسان اس سے زیادہجان دینے پر آمادہ نہ ہوجائے کہ اس کاکوئی فائدہ نہیں ہے اور فضول محنت سے کچھ زیادہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

۷۵۹

والدَّهْرُ يَوْمَانِ يَوْمٌ لَكَ ويَوْمٌ عَلَيْكَ - فَإِذَا كَانَ لَكَ فَلَا تَبْطَرْ - وإِذَا كَانَ عَلَيْكَ فَاصْبِرْ.

۳۹۷ - وقَالَعليه‌السلام نِعْمَ الطِّيبُ الْمِسْكُ خَفِيفٌ مَحْمِلُه عَطِرٌ رِيحُه.

۳۹۸ - وقَالَعليه‌السلام ضَعْ فَخْرَكَ واحْطُطْ كِبْرَكَ واذْكُرْ قَبْرَكَ.

۳۹۹ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ حَقّاً - وإِنَّ لِلْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ حَقّاً - فَحَقُّ الْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ - أَنْ يُطِيعَه فِي كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا فِي مَعْصِيَةِ اللَّه سُبْحَانَه - وحَقُّ الْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ - أَنْ يُحَسِّنَ اسْمَه ويُحَسِّنَ أَدَبَه ويُعَلِّمَه الْقُرْآنَ.

زمانہ دونوں کا نام ہے۔ایک دن تمہارے حق میں ہوتا ہے تو دوسرا تمہارے خلاف ہوتا ہے لہٰذا اگر تمہارے حق میں ہو تو مغرور نہ ہو جانا اور تمہارے خلاف ہو جائے تو صبر سے کام لینا۔

(۳۹۷)

بہترین خوشبو کا نام مشک ہے جس کاوزن انتہائی ہلکا ہوتا ہے اورخوشبو نہایت درجہ مہک دار ہوتی ہے۔

(۳۹۸)

فخرو سر بلندی کوچھوڑ دو اورتکبر و غرور کو فنا کردواور پھراپنی قبر کو یاد کرو۔

(۳۹۹)

فرزند کا باپ پر ایک حق ہوتا ہے اورباپ کا فرزند پرایک حق ہوتا ہے۔باپ کاحق یہ ہے کہ بیٹا ہر مسئلہ میں اس کی اطاعت کرے معصیت پروردگار کے علاوہ اور فرزند کاحق باپ پر یہ ہے کہ اس کا اچھاسانام تجویزکرے اوراسے بہترین ادب سکھائے ۔اور قرآن مجید کی تعلیم دے ۔

۷۶۰

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863