نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 632499
ڈاؤنلوڈ: 15173

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 632499 / ڈاؤنلوڈ: 15173
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

خِضْمَةَ الإِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِيعِ ، إِلَى أَنِ انْتَكَثَ عَلَيْه فَتْلُه وأَجْهَزَ عَلَيْه عَمَلُه، وكَبَتْ بِه بِطْنَتُه

مبايعة علي

فَمَا رَاعَنِي إِلَّا والنَّاسُ كَعُرْفِ الضَّبُعِ ، إِلَيَّ يَنْثَالُونَ عَلَيَّ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ، حَتَّى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ وشُقَّ عِطْفَايَ مُجْتَمِعِينَ حَوْلِي كَرَبِيضَةِ الْغَنَمِ ، فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالأَمْرِ نَكَثَتْ طَائِفَةٌ ومَرَقَتْ أُخْرَى وقَسَطَ آخَرُونَ كَأَنَّهُمْ لَمْ يَسْمَعُوا اللَّه سُبْحَانَه يَقُولُ:( تِلْكَ الدَّارُ الآخِرَةُ نَجْعَلُها لِلَّذِينَ، لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الأَرْضِ ولا فَساداً، والْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ) ،

جس طرح اونٹ بہار کی گھاس کو چرلیتا ہے یہاں تک کہ اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کے اعمال نے اس کا خاتمہ کردیا اور شکم پری نے منہ کے بل گرادیا

اس وقت مجھے جس چیزنے دہشت زدہ کردیا یہ تھی کہ لوگ بجوں کی گردن(۱) کے بال کی طرح میرے گرد جمع ہوگئے اور چاروں طرف سے میرے اوپر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ حسن و حسین کچل گئے اور میری ردا کے کنارے پھٹ گئے ۔یہ سب میرے گرد بکریوں کے گلہ کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔لیکن جب میں نے ذمہ داری سنبھالی اوراٹھ کھڑے ہوا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ دی اوردوسرا دین سے باہرنکل گیا اور تیسرے نے فسق اختیار کرلیا جیسے کہ ان لوگوں نے یہ ارشاد الٰہی سنا ہی نہیں ہے کہ'' یہ دارآخرت ہم صرف ان لوگوں کے لئے قراردیتے ہیں جو دنیا میں بلندی اور فساد نہیں چاہتے ہیں اور عاقبت صرف اہل تقوی کے لئے ہیں ''۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عثمان کے تصرفات نے تمام عالم اسلام کوناراض کردیا تھا۔حضرت عائشہ انہیں نعثل یہودی قراردے کر لوگوں کو قتل پرآمادہ کر رہی تھیں۔طلحہ انہیں واجب القتل قراردے رہا تھا۔زبیر در پردہ قاتلوں کی حمایت کر رہا تھا لیکن ان سب کا مقصد امت اسلامیہ کو نا اہل سے نجات دلانا نہیں تھا بلکہ آئندہ خلافت کی زمین کو ہموار کرنا تھا اورحضرت علی اس حقیقت سے مکمل طور پر باخبر تھے۔اس لئے جب انقلابی گروہ نے خلافت کی پیشکش تو آپنے انکار کردیا کہ قتل کا سارا الزام اپنی گردن پرآجائے گا اور اس وقت تک قبول نہیں کیا جب تک تمام انصار و مہاجرین نے اس امر کا اقرارنہیں کرلیا کہ آپ کے علاوہ امت کا مشکل کشاہ کوئی نہیں ہے اور اس کے بعد بھی منبر رسول (ص) پر بٹھ کر بیعت لی تاکہ جانشینی کاصحیح مفہوم واضح ہو جائے۔یہ اور بات ہے کہ اس وقت بھی سعد بن ابی وقاص اورعبداللہ بن عمر جیسے افراد نے بیعت نہیں کی اور حضرت عائشہ کو بھی جیسے ہی اس '' حادثہ'' کی اطلاع ملی انہوں نے عثمان کی مظلومیت کا اعلان شروع کردیا اور طلحہ و زبیر کی محرومی کا انتقام لینے کا ارادہ کرلیا۔آپ کے حضرت علی سے اختلاف کی ایک بنیاد یہ بھی تھی کہ حضور(ص) نے اولاد علی کواپنی اولاد قراردے دیا تھا اور قرآن مجید نے انہیں ابنائنا کالقب دے دیا تھا اورحضرت عائشہ مستقل طور پر محروم اولاد تھیں لہٰذا ان میں یہ جذبہ حسد پیدا ہونا ہی چاہتے تھا۔

۲۱

بَلَى واللَّه لَقَدْ سَمِعُوهَا ووَعَوْهَا، ولَكِنَّهُمْ حَلِيَتِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِهِمْ ورَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا

أَمَا والَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وبَرَأَ النَّسَمَةَ ، لَوْ لَا حُضُورُ الْحَاضِرِ وقِيَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِ النَّاصِرِ، ومَا أَخَذَ اللَّه عَلَى الْعُلَمَاءِ، أَلَّا يُقَارُّوا عَلَى كِظَّةِ ظَالِمٍ ولَا سَغَبِ مَظْلُومٍ، لأَلْقَيْتُ حَبْلَهَا عَلَى غَارِبِهَا - ولَسَقَيْتُ آخِرَهَا بِكَأْسِ أَوَّلِهَا - ولأَلْفَيْتُمْ دُنْيَاكُمْ هَذِه أَزْهَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ

قَالُوا وقَامَ إِلَيْه رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ السَّوَادِ - عِنْدَ بُلُوغِه إِلَى هَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِه - فَنَاوَلَه كِتَاباً قِيلَ إِنَّ فِيه مَسَائِلَ كَانَ يُرِيدُ الإِجَابَةَ عَنْهَا فَأَقْبَلَ يَنْظُرُ فِيه [فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَتِه] قَالَ لَه ابْنُ عَبَّاسٍ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - لَوِ اطَّرَدَتْ خُطْبَتُكَ مِنْ حَيْثُ أَفْضَيْتَ!

فَقَالَ هَيْهَاتَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ - تِلْكَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ

ہاں ہاں خداکی قسم ان لوگوں نے یہ ارشاد سنا بھی ہے اور سمجھے بھی ہیں لیکن دنیا ان کی نگاہوں میں آراستہ ہوگئی اور اس کی چمک دمک نے انہیں نبھا لیا۔

آگاہ ہو جائو وہ خدا گواہ ہے جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اورذی روح کو پیدا کیا ہے کہ اگر حاضرین کی موجودگی اور انصار کے وجود سے حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اوراللہ کا اہل علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پرچین سے نہ بیٹھنا تو میں آج بھی اس خلافت کی رسی کو اسی کی گردن پر ڈال کر ہنکا دیتا اور اس کی آخر کواول ہی کے کاسہ سے سیراب کرتا اور تم دیکھ لیتے کہ تمہاری دنیا میری نظرمیں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس موقع پرایک عراقی باشندہ اٹھ کھڑا ہوا اوراس نے آپ کو ایک خط دیا جس ک بارے میں خیال ہے کہ اس میں کچھ فوری جواب طلب مسائل تھے۔چنانچہ آپ نے اس خط کو پڑھنا شروع کردیا اور جب فارغ ہوئے تو ابن عباس نے عرض کی کہ حضوربیان جاری رہے؟فرمایا کہ افسوس ابن عباس یہ توایک شقشقہ تھا جوابھر کر دب گیا۔

(شقشقہ اونٹ کے منہ میں وہ گوشت کا لوتھڑا ہے جو غصہ اور ہیجان کے وقت باہر نکل آتا ہے )

۲۲

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَاللَّه مَا أَسَفْتُ عَلَى كَلَامٍ قَطُّ - كَأَسَفِي عَلَى هَذَا الْكَلَامِ - أَلَّا يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام بَلَغَ مِنْه حَيْثُ أَرَادَ.

* *

قال الشريف رضيرضي‌الله‌عنه قولهعليه‌السلام كراكب الصعبة إن أشنق لها خرم - وإن أسلس لها تقحم - يريد أنه إذا شدد عليها في جذب الزمام - وهي تنازعه رأسها خرم أنفها - وإن أرخى لها شيئا مع صعوبتها - تقحمت به فلم يملكها - يقال أشنق الناقة إذا جذب رأسها بالزمام فرفعه - وشنقها أيضا ذكر ذلك ابن السكيت في إصلاح المنطق - وإنما قالعليه‌السلام أشنق لها ولم يقل أشنقها - لأنه جعله في مقابلة قوله أسلس لها - فكأنهعليه‌السلام قال إن رفع لها رأسها بمعنى أمسكه عليها بالزمام -

ابن عباس کہتے ہیں کہ بخدا قسم مجھے کسی کلام کے نا تمام رہ جانے کا اس قدر افسوس نہیں ہوا جتنا افسوس اس امر پرہوا کہ امیر المومنین اپنی بات پوری نہ فرما سکے اور آپ کا کلام نا تمام رہ گیا۔

سید شریف رضی فرماتے ہیں کہ امیر المومنین کے ارشاد''ان اشنقلها…… کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ناقہ پر مہارکھینچنے میں سختی کی جائے گیاور وہ سر کشی پرآمادہ ہو جائے گا تو اس کی ناک زخمی ہو جائے گی اوراگر ڈھیلا چھوڑ دیا جائے تو اختیار سے باہر نکل جائے گا۔عرب''اشنق الناقة'' اس موقع پر استعمال کرتے ہیں جب اس کے سر کو مہار کے ذریعہ کھینچا جاتا ہے اور وہ سر اٹھالیتا ہے۔اس کیفیت کو''شنقها ''سے بھی تعبیر کرتے ہیں جیسا کہ ابن السکیت نے'' اصلاح المنطق'' میں بیان کیا ہے۔لیکن امیرالمومنین نے اس میں ایک لام کا اضافہ کردیا ہے ''اشنق لھا'' تاکہ بعد کے جملہ'' اسلس لها '' سے ہم آہنگ ہو جائے اور فصاحت کا نظام درہم برہم نہ ہونے پائے۔

۲۳

(۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي من أفصح كلامهعليه‌السلام وفيها يعظ الناس ويهديهم من ضلالتهم

ويقال: إنه خطبها بعد قتل طلحة والزبير

بِنَا اهْتَدَيْتُمْ فِي الظَّلْمَاءِ وتَسَنَّمْتُمْ ذُرْوَةَ - الْعَلْيَاءِ وبِنَا أَفْجَرْتُمْ عَنِ السِّرَارِ - وُقِرَ سَمْعٌ لَمْ يَفْقَه الْوَاعِيَةَ - وكَيْفَ يُرَاعِي النَّبْأَةَ مَنْ أَصَمَّتْه الصَّيْحَةُ - رُبِطَ جَنَانٌ لَمْ يُفَارِقْه الْخَفَقَانُ - مَا زِلْتُ أَنْتَظِرُ بِكُمْ عَوَاقِبَ الْغَدْرِ - وأَتَوَسَّمُكُمْ بِحِلْيَةِ الْمُغْتَرِّينَ - حَتَّى سَتَرَنِي عَنْكُمْ جِلْبَابُ الدِّينِ - وبَصَّرَنِيكُمْ صِدْقُ النِّيَّةِ - أَقَمْتُ لَكُمْ عَلَى سَنَنِ الْحَقِّ فِي جَوَادِّ الْمَضَلَّةِ - حَيْثُ تَلْتَقُونَ ولَا دَلِيلَ وتَحْتَفِرُونَ ولَا تُمِيهُونَ.

الْيَوْمَ أُنْطِقُ لَكُمُ الْعَجْمَاءَ ذَاتَ الْبَيَانِ

(۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جوفصیح ترین کلمات میں شمار ہوتا ہے اور جس میں لوگوں کو نصیحت کی گئی ہے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کے راستہ پرلایا گیا ہے۔(طلحہ و زبیر کی بغاوت اورقتل عثمان کے پس منظر میں فرمایا)

تم لوگوں نے ہماری ہی وجہ سے تاریکیوں میں ہدایت کا راستہ پایاہے اوربلندی کے کوہان پر قدم جمائے ہیں اور ہماری ہی وجہ سے اندھری راتوں سے اجالے کی طرف باہرآئے ہو۔ وہ کان بہرے ہو جائیں جو پکارنے والے کی آواز نہ سن سکیں اور وہ لوگ بھلا دھیمی آواز کو کیا سن سکیں گے جن کے کان بلند ترین آوازوں کے سامنے بھی بہرے ہی رہے ہوں۔مطمئن دل وہی ہوتا ہے جویاد الٰہی اورخوف خدا میں مسلسل دھڑکتا رہتا ہے۔میں روزاول سے تمہاری غداری کے انجام کا انتظار کر رہا ہوں اور تمہیں فریب خوردہ لوگوں کے انداز سے پہچان رہا ہوں۔مجھے تم سے دینداری کی چادر نے پوشیدہ کردیا ہے لیکن صدق نیت نے میرے لئے تمہارے حالات کو آئینہ کردیا ہے۔میں نے تمہارے لئے گمراہی کی منزلوں میں حق کے راستوں پر قیام کیا ہے جہاں تم ایک دوسرے سے ملتے تھے لیکن کوئی راہنما نہ تھا اور کنواں کھودتے تھے لیکن پانی نصیب نہ ہوتا تھا۔

آج میں تمہارے لئے اپنی اس زبان خاموش کو گویا بنا رہا ہوں جس میں بڑی قوت بیان ہے

۲۴

عَزَبَ رَأْيُ امْرِئٍ تَخَلَّفَ عَنِّي - مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُه - لَمْ يُوجِسْ مُوسَىعليه‌السلام خِيفَةً عَلَى نَفْسِه - بَلْ أَشْفَقَ مِنْ غَلَبَةِ الْجُهَّالِ ودُوَلِ الضَّلَالِ الْيَوْمَ تَوَاقَفْنَا عَلَى سَبِيلِ الْحَقِّ والْبَاطِلِ مَنْ وَثِقَ بِمَاءٍ لَمْ يَظْمَأْ!

(۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما قبض رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله

وخاطبه العباس وأبو سفيان بن حرب - في أن يبايعا له بالخلافة (وذلك بعد أن تمت البيعة لأبي بكرفي السقيفة، وفيها ينهى عن الفتنة ويبين عن خلقه وعلمه)

النهي عن الفتنة

أَيُّهَا النَّاسُ شُقُّوا أَمْوَاجَ الْفِتَنِ بِسُفُنِ النَّجَاةِ - وعَرِّجُوا عَنْ طَرِيقِ الْمُنَافَرَةِ - وضَعُوا تِيجَانَ الْمُفَاخَرَةِ - أَفْلَحَ مَنْ نَهَضَ بِجَنَاحٍ أَوِ اسْتَسْلَمَ فَأَرَاحَ - هَذَا مَاءٌ آجِنٌ

یاد رکھو کہ اس شخص کی رائے گم ہوگئی ہے جس نے مجھ سے رو گردانی کی ہے۔میں نے روز اول سے آج تک حق کے بارے میں کبھی شک نہیں کیا میرا سکوت مثل موسی ہے موسی کو اپنے نفس کے بارے میں خوف نہیں تھاانہیں دربار فرعون میں صرف یہ خوف تھا کہ کہیں جاہل جادوگر اورگمراہ حکام عوام کی عقلوں پر غالب نہ آجائیں۔آج ہم سے حق و باطل کے راستہ پرآمنے سامنے ہیں اوریاد رکھو جسے پانی پر اعتماد ہوتا ہے وہ پیاسا نہیں رہتا ہے۔

(۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جو آپ کے وفات پیغمبراسلام(ص) کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا جب عباس اورابو سفیان نے آپ سے بیعت لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

ایہا الناس! فتنوں کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیر کرنکل جائو اور منافرت کے راستوں سے الگ رہو۔باہمی فخر و مباہات کے تاج اتار دو کہ کامیابی اسی کا حصہ ہے جو اٹھے تو بال و پر کے ساتھ اٹھے ورنہ کرسی کو دوسروں کے حوالے کرکے اپنے کوآزاد کرلے۔یہ پانی بڑا گندہ(۱) ہے۔

(۱) امیر المومنین نے حالات کی وہ بہترین تصویر کشی کی ہے جس کی طرف ابو سفیان جیسے افراد متوجہ نہیں تھے یا سازشوں کا پردہ ڈالنا چاہتے تھے آپ نے واضح لفظوں میں فرمادیا کہ مجھے اس مطالبہ بیعت اوروعدہ نصرت کا انجام معلوم ہے اور میں اس وقت قیام کونا وقت قیام تصور کرتا ہوں جس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ انسان پہلے بال و پر تلاش کرلے اس کے بعد اڑنے کا ارادہ کرے ورنہ خاموش ہو کر بیٹھ جائے کہ اس میں عافیت ہے اور یہی تقاضائے عقل و منطق ہے۔میں اس طعن و طنز سے بھی با خبر ہوں جو میرے اقدامات کے بارے میں استعمال ہو رہے ہیں لیکن میں کوئی جذباتی انسان نہیں ہوں کہ ان جملوں سے گھبرا جائوں۔میں مشیت الٰہی کا پابند ہوں اور اس کے خلاف ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتا ہوں۔

۲۵

ولُقْمَةٌ يَغَصُّ بِهَا آكِلُهَا. ومُجْتَنِي الثَّمَرَةِ لِغَيْرِ وَقْتِ إِينَاعِهَا كَالزَّارِعِ بِغَيْرِ أَرْضِه.

خلقه وعلمه

فَإِنْ أَقُلْ يَقُولُوا حَرَصَ عَلَى الْمُلْكِ - وإِنْ أَسْكُتْ يَقُولُوا جَزِعَ مِنَ الْمَوْتِ - هَيْهَاتَ بَعْدَ اللَّتَيَّا والَّتِي واللَّه لَابْنُ أَبِي طَالِبٍ آنَسُ بِالْمَوْتِ - مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْيِ أُمِّه - بَلِ انْدَمَجْتُ عَلَى مَكْنُونِ عِلْمٍ لَوْ بُحْتُ بِه لَاضْطَرَبْتُمْ - اضْطِرَابَ الأَرْشِيَةِ فِي الطَّوِيِّ الْبَعِيدَةِ!

(۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لا أشير عليه بألا يتبع طلحة والزبير ولا يرصد لهما القتالوفيه يبين عن صفته بأنه عليه‌السلام لا يخدع

واللَّه لَا أَكُونُ كَالضَّبُعِ تَنَامُ عَلَى طُولِ اللَّدْمِ

اور اس لقمہ میں اچھو لگ جانے کاخطرہ ہے اور یاد رکھو کہ نا وقت پھل چننے والا ایسا ہی ہے جیسے نا مناسب زمین میں زراعت کرنے والا۔ (میری مشکل یہ ہے کہ) میں بولتا ہوں تو کہتے ہیں کہ اقتدار کی لالچ رکھتے ہیں اورخاموش ہو جاتا ہوں تو کہتے ہیں کہ موت سے ڈر گئے ہیں۔

افسوس اب یہ بات جب میں تمام مراحل دیکھ چکا ہوں۔خدا کی قسم ابو طالب کافرزند موت سے اس سے زیادہ مانوس ہے جتنا بچہ سر چشمہ حیات سے مانوس ہوتا ہے۔البتہ میرے سینہ کی تہوں میں ایک ایسا پوشیدہ علم ہے جو مجھے مجبور کئے ہوئے ہے ورنہ اسے ظاہر کردوں تو تم اسی طرح لرزنے لگو گے جس طرح گہرے کنویں میں رسی تھرتھراتی اور لرزتی ہے۔

(۶)

حضرت کا ارشاد گرامی

جب آپ کو مشورہ دیا گیا کہ طلحہ و زبیر کا پیچھا نہ کریں اور ان سے جنگ کا بندو بست نہ کریں

خدا کی قسم میں اس بجو(۱) کے مانند نہیں ہو سکتا جس کا شکاری مسلسل کھٹکھٹاتا رہتا ہے اور وہ آنکھ بند کئے پڑا رہتا ہے ،

(۱) بجو کو عربی میں ام عامر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس کے شکار کا طریقہ یہ ہے کہ شکاری اس کے گرد گھیرا ڈال کر زمین کو تھپتھپاتا ہے اور وہ اندر سوراخ میں گھس کر بیٹھ جاتا ہے۔پھر شکاری اعلان کرتا ہے کہ ام عامر نہیں ہے اور وہ اپنے کو سویا ہوا ظاہر کرنے کے لئے پیر پھیلا دیتا ہے اور شکاری پیر میں رسی باندھ کر کھینچ لیتا ہے ۔یہ انتہائی احمقانہ عمل ہوتا ہے جس کی بنا پر بجو کو حماقت کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے آپ(ص) کا ارشاد گرامی ہے کہ جہاد سے غافل ہو کر خانہ نشین ہو جانا اور شام کے لشکروں کو مدینہ کا راستہ بتا دینا ایک بجو کا عمل تو ہو سکتا ہے لیکن عقل کا اورباب مدینة العلم کا کردارنہیں ہوسکتا ہے۔

۲۶

حَتَّى يَصِلَ إِلَيْهَا طَالِبُهَا ويَخْتِلَهَا رَاصِدُهَاولَكِنِّي أَضْرِبُ بِالْمُقْبِلِ إِلَى الْحَقِّ الْمُدْبِرَ عَنْه - وبِالسَّامِعِ الْمُطِيعِ الْعَاصِيَ الْمُرِيبَ أَبَداً - حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيَّ يَوْمِي - فَوَاللَّه مَا زِلْتُ مَدْفُوعاً عَنْ حَقِّي - مُسْتَأْثَراً عَلَيَّ مُنْذُ قَبَضَ اللَّه نَبِيَّه صوسلم حَتَّى يَوْمِ النَّاسِ هَذَا.

(۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذم فيها أتباع الشيطان

اتَّخَذُوا الشَّيْطَانَ لأَمْرِهِمْ مِلَاكاً واتَّخَذَهُمْ لَه أَشْرَاكاً فَبَاضَ وفَرَّخَ فِي صُدُورِهِمْ ودَبَّ ودَرَجَ فِي حُجُورِهِمْ - فَنَظَرَ بِأَعْيُنِهِمْ ونَطَقَ بِأَلْسِنَتِهِمْ - فَرَكِبَ بِهِمُ الزَّلَلَ وزَيَّنَ لَهُمُ الْخَطَلَ فِعْلَ مَنْ قَدْ شَرِكَه الشَّيْطَانُ فِي سُلْطَانِه ونَطَقَ بِالْبَاطِلِ عَلَى لِسَانِه!

یہاں تک کہ گھات لگانے والا اسے پکڑ لیتا ہے۔میں حق کی طرف آنے والوں کے ذریعہ انحراف کرنے والوں پر اوراطاعت کرنے والوں کے سہارے معصیت کا ر تشکیک کرنے والوں پر مسلسل ضرب لگاتا رہوں گا یہاں تک کہ میرا آخری دن آجائے۔خدا گواہ ہے کہ میں ہمیشہ اپنے حق سے محروم رکھا گیا ہوں اور دوسروں کو مجھ پرمقدم کیا گیا ہے جب سے سرکار دو عالم(ص) کا انتقال ہوا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

(۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جس میں شیطان کے پیروکاروں کی مذمت کی گئی ہے

ان لوگوں نے شیطان کو اپنے امور کا مالک و مختار بنالیا ہے اور اس نے انہیں اپناآلہ کا ر قرار دے لیا ہے اور انہیں کی سینوں میں(۱) انڈے بچے د ئی ے ہیں اور وہ انہیں کی آغوش میں پلے بڑھے ہیں۔اب شیطان انہیں کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور انہیں کی زبان سے بولتا ہے۔انہیں لغزش کی راہ پر لگا دیا ہے اوران کے لئے غلط باتوں کو آراستہ کردیا ہے جیسے کہ اس نے انہیں اپنے کاروبارمیں شریک بنالیا ہو اور اپنے حرف باطل کو انہیں کی زبان سے ظاہر کرتا ہو۔

(۱)شیطانوں کی تخلیق میں انڈے بچے ہوتے ہیں یا نہیں۔یہ مسئلہ اپنی جگہ پرقابل تحقیق ہے لیکن حضرت کی مراد یہ ہے کہ شیاطین اپنے معنوی بچوں کو انسانی معاشرہ سے الگ کسی ماحول میں نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان کی پرورش اسی ماحول میں کرتے ہیں اور پھر انہیں کے ذریعہ اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔

زمانہ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو انداز ہو گا کہ شیاطین زمانہ اپنی اولاد کو مسلمانوں کی آغوش میں پالتے ہیں اور مسلمانوں کی اولاد کو اپنی گود میں پالتے ہیں تاکہ مستقبل میں انہیں مکمل طور پر استعمال کیا جا سکے اور اسلام کو اسلام کے ذریعہ فنا کیا جا سکے جس کا سلسلہ کل کے شام سے شروع ہوا تھا اور آج کے عالم اسلام تک جاری و ساری ہے۔

۲۷

(۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يعني به الزبير في حال اقتضت ذلك ويدعوه للدخول في البيعة ثانية

يَزْعُمُ أَنَّه قَدْ بَايَعَ بِيَدِه ولَمْ يُبَايِعْ بِقَلْبِه - فَقَدْ أَقَرَّ بِالْبَيْعَةِ وادَّعَى الْوَلِيجَةَ - فَلْيَأْتِ عَلَيْهَا بِأَمْرٍ يُعْرَفُ - وإِلَّا فَلْيَدْخُلْ فِيمَا خَرَجَ مِنْه.

(۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفته وصفة خصومه ويقال إنها في أصحاب الجمل

وقَدْ أَرْعَدُوا وأَبْرَقُوا ومَعَ هَذَيْنِ الأَمْرَيْنِ الْفَشَلُ ولَسْنَا نُرْعِدُ حَتَّى نُوقِعَ ولَا نُسِيلُ حَتَّى نُمْطِرَ.

(۸)

آپ کا ارشاد گرامی

زبیر کے بارے میں

جب ایسے حالات پیدا ہوگئے اور اسے دوبارہ بیعت کے دائرہ میں داخل ہونا پڑے گا جس سے نکل گیا ہے

زبیر کا خیال یہ ہے کہ اس نے صرف ہاتھ سے میری بیعت کی ہے اور دل سے بیعت نہیں کی ہے۔تو بیعت کا تو بہر حال اقرار کرلیا ہے۔اب صرف دل کے کھوٹ کا ادعا کرتا ہے تو اسے اس کا واضح ثبوت فراہم کرناپڑے گاورنہ اسی بیعت میں دوبارہ داخل ہوناپڑے گا جس سے نکل گیا ہے۔

(۹)

آپ کے کلام کا ایک حصہ

جس میں اپنے اوربعض مخالفین کے اوصاف کا تذکرہ فرمایا ہے اور شاید اس سے مراد اہل جمل ہیں۔

یہ لوگ بہت گرجے اوربہت چمکے لیکن آخر میں ناکام ہی رہے جب کہ اس وقت تک گرجتے نہیں ہیں جب تک دشمن پر ٹوٹ نہ پڑیں اور اس وقت تک لفظوں کی روانی نہیں دکھلاتے جب تک کہ برس نہ پڑیں۔

۲۸

(۱۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يريد الشيطان أو يكني به عن قوم

أَلَا وإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ جَمَعَ حِزْبَه - واسْتَجْلَبَ خَيْلَه ورَجِلَه وإِنَّ مَعِي لَبَصِيرَتِي مَا لَبَّسْتُ عَلَى نَفْسِي ولَا لُبِّسَ عَلَيَّ - وايْمُ اللَّه لأُفْرِطَنَّ لَهُمْ حَوْضاً أَنَا مَاتِحُه لَا يَصْدُرُونَ عَنْه ولَا يَعُودُونَ إِلَيْه.

(۱۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لابنه محمد ابن الحنفية - لما أعطاه الراية يوم الجمل

تَزُولُ الْجِبَالُ ولَا تَزُلْ -.

(۱۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جس کا مقصد شیطان ہے یا شیطان صفت کوئی گروہ

آگاہ ہو جائو کہ شیطان نے اپنے گروہ کوجمع کرلیا ہے اور اپنے پیادہ و سوار سمیٹ لئے ہیں۔لیکن پھربھی میرے ساتھ میری بصیرت ہے۔نہ میں نے کسی کو دھوکہ دیا ہے اور نہ واقعا دھوکہ کھایا ہے اور خدا کی قسم میں ان کے لئے ایسے حوض کو چھلکائوں گا جس کا پانی نکالنے والا بھی میں ہی ہوں گا کہ یہ نہ نکل سکیں گے اور نہ پلٹ کرآسکیں گے

(۱۱)

آپ کا ارشاد گرامی

اپنے فرزند محمد بن الخفیہ سے

( میدان جمل میں علم لشکر دیتے ہوئے)

خبردار(۱) پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے۔ تم نہ ہٹنا۔

(۱) حیرت کی بات ہے کہ جو انسان فنون جنگ کی تعلیم دیتا ہو اسے موت سے خوف زدہ ہونے کا الزام دیدیا جائے۔امیر المومنین کی مکمل تاریخ حیات گواہ ہے کہ آپ سے بڑا شجاع و بہادرکائنات میں نہیں پیدا ہوا ہے۔آپ موت کو سر چشمہ حیات تصور کرتے تھے جس کی طرف بچہ فطری طورپر ہمکتا ہے اور اسے اپنی زندگی کا راز تصور کرتا ہے۔آپ نے صفیں کے میدان میں وہ تیغ کے جوہر دکھلائے ہیں جس نے ایک مرتبہ پھر بدر واحد و خندق و خیبر کی یاد تازہ کردی تھی اور یہ ثابت کردیا تھا کہ یہ بازد ۲۵ سال کے سکوت کے بعد بھی شل نہیں ہوئے ہیں اور یہ فن حرب کسی مشق و مہارت کا نتیجہ نہیں ہے۔ محمد حنفیہ سے خطاب کرکے یہ فرمانا کہ'' پہاڑ ہٹ جائے تم نہ ہٹنا'' اس امر کی دلیل ہے کہ آپ کی استقامت اس سے کہیں زیادہ پائیدار اور استوار ہے دانتوں کو بھینچ لینے میں اشارہ ہے کہ اس طرح رگوں کے تنائو پرتلوار کا وار اثر نہیں کرتا ہے۔کاسہ سر کو عاریت دیدینے کا مطلب یہ ہے کہ مالک زندہ رکھنا چاہے گا تو دوبارہ یہ سر واپس لیا جا سکتا ہے ورنہ بندہ نے تو اس کی بارگاہ میں پیش کردیا ہے۔آنکھوں کو بند رکھنے اور آخر قوم پر نگاہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ سامنے کے لشکر کو مت دیکھنا۔بس یہ دیکھنا کہ کہاں تک جانا ہے اور کس طرح صفوں کو پامال کردینا ہے۔ آخری فقرہ جنگ اور جہاد کے فرق کو نمایاں کرتا ہے کہ جنگ جو اپنی طاقت پر بھروسہ کرتا ہے اور مجاہد نصرت الٰہی کے اعتماد پرمیدان میں قدم جماتا ہے اور جس کی خدا مدد کردے وہ کبھی مغلوب نہیں ہو سکتا ہے۔

۲۹

عَضَّ عَلَى نَاجِذِكَ أَعِرِ اللَّه جُمْجُمَتَكَ - تِدْ فِي الأَرْضِ قَدَمَكَ ارْمِ بِبَصَرِكَ أَقْصَى الْقَوْمِ وغُضَّ بَصَرَكَ واعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِ اللَّه سُبْحَانَه

(۱۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما أظفره الله بأصحاب الجمل وقَدْ قَالَ لَهعليه‌السلام بَعْضُ أَصْحَابِه - وَدِدْتُ أَنَّ أَخِي فُلَاناً كَانَ شَاهِدَنَا - لِيَرَى مَا نَصَرَكَ اللَّه بِه عَلَى أَعْدَائِكَ

فَقَالَ لَهعليه‌السلام أَهَوَى أَخِيكَ مَعَنَا فَقَالَ نَعَمْ قَالَ فَقَدْ شَهِدَنَا - ولَقَدْ شَهِدَنَا فِي عَسْكَرِنَا هَذَا أَقْوَامٌ فِي أَصْلَابِ الرِّجَالِ - وأَرْحَامِ النِّسَاءِ - سَيَرْعَفُ بِهِمُ الزَّمَانُ ويَقْوَى بِهِمُ الإِيمَانُ.

اپنے دانتوں کو بھینچ لینا۔ اپنا کاسہ سر اللہ کے حوالے کردینا۔زمین میں قدم گاڑ دینا ۔نگاہ آخر قوم پر رکھنا۔آنکھوں کو بند رکھنا اور یہ یاد رکھنا کہ مدد اللہ ہی کی طرف سے آنے والی ہے۔

(۱۲)

آپ کا ارشاد گرامی

جب پروردگار نے آپ کو اصحاب جمل پر کامیابی عطا فرمائی اور آپ کے بعض اصحاب نے کہا کہ کاش ہمارا فلاں بھائی بھی ہمارے ساتھ ہوتا تو وہ بھی دیکھتا کہ پروردگار نے کس طرح آپ کو دشمن پر فتح عنایت فرمائی ہے تو آپ نے فرمایا، کیا تیرے(۱) بھائی کی محبت بھی ہمارے ساتھ ہے ؟ اس نے عرض کی بیشک! فرمایا تو وہ ہمارے ساتھ تھا اور ہمارے اس لشکرمیں وہ تمام لوگ ہمارے ساتھ تھے جو ابھی مردوں کے صلب اور عورتوں کے رحم میں ہیں اور عنقریب زمانہ انہیں منظر عام پرلے آئے گا اور ان کے ذریعہ ایمان کو تقویت حاصل ہوگی۔

(۱) یہ دین اسلام کا ایک مخصوص امتیاز ہے کہ یہاں عذاب بد عملی کے بغیر نازل نہیں ہوتا ہے اور ثواب کا استحقاق عمل کے بغیر بھی حاصل ہو جاتا ہے اور عمل خیر کا دارومدار صرف نیت پر رکھا گیا ہے بلکہ بعض اوقات تو نیت مومن کو اس کے عمل سے بھی بہتر قرار دیا گیا ہے کہ عمل میں ریا کاری کے امکانات پائے جاتے ہیں اور نیت میں کسی طرح کی ریاکاری نہیں ہوتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پروردگارنے روزہ کو صرف اپنے لئے قرار دیا ہے اور اس کے اجرو ثواب کی مخصوص ذمہ داری اپنے اوپر رکھی ہے کہ روزہ میں نیت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے اوراخلاص نیت کا فیصلہ کرنے والا پروردگار کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔

۳۰

(۱۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذم أهل البصرة بعد وقعة الجمل

كُنْتُمْ جُنْدَ الْمَرْأَةِ وأَتْبَاعَ الْبَهِيمَةِ رَغَا فَأَجَبْتُمْ وعُقِرَ فَهَرَبْتُمْ أَخْلَاقُكُمْ دِقَاقٌ وعَهْدُكُمْ شِقَاقٌ ودِينُكُمْ نِفَاقٌ ومَاؤُكُمْ زُعَاقٌ والْمُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ مُرْتَهَنٌ بِذَنْبِه والشَّاخِصُ عَنْكُمْ مُتَدَارَكٌ بِرَحْمَةٍ مِنْ رَبِّه - كَأَنِّي بِمَسْجِدِكُمْ كَجُؤْجُؤِ

سَفِينَةٍ قَدْ بَعَثَ اللَّه عَلَيْهَا الْعَذَابَ مِنْ فَوْقِهَا ومِنْ تَحْتِهَا - وغَرِقَ مَنْ فِي ضِمْنِهَا.

وفِي رِوَايَةٍ وايْمُ اللَّه لَتَغْرَقَنَّ بَلْدَتُكُمْ حَتَّى كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مَسْجِدِهَا كَجُؤْجُؤِ سَفِينَةٍ - أَوْ نَعَامَةٍ جَاثِمَةٍ.

وفِي رِوَايَةٍ كَجُؤْجُؤِ طَيْرٍ فِي لُجَّةِ بَحْرٍ.

(۱۳)

آپ کا ارشاد گرامی

جس میں جنگ جمل کے بعد اہل بصرہ کی مذمت فرمائی ہے

افسوس تم لوگ ایک عورت کے سپاہی اور ایک جانورکے پیچھے چلنے والے تھے جس نے بلبلانا شروع کیا تو تم لبیک(۱) کہنے لگے اور وہ زخمی ہوگیا تو تم بھاگ کھڑے ہوئے۔تمہارے اخلاقیات پست۔تمہارا عہد نا قابل اعتبار۔تمہارا دین نفاق اور تمہارا پانی شور ہے۔تمہارے درمیان قیام کرنے والا گویا گناہوں کے ہاتھوں رہن ہے اور تم سے نکل جانے والا گویا رحمت پروردگار کو حاصل کر لینے والا ہے۔میں تمہاری اس مسجد کو اس عالم میں دیکھ رہا ہوں جیسے کشتی کا سینہ۔جب خدا تمہاری زمین پر اوپر اور نیچے ہر طرف سے عذاب بھیجے گا اور سارے اہل شہر غرق ہو جائیں گے۔

(دوسری روایت میں ہے)

خدا کی قسم تمہارا شہر غرق ہونے والا ہے۔یہاں تک کہ گویا میں اس کی مسجد کو ایک کشتی کے سینہ کی طرح یا ایک بیٹھے ہوئے شتر مرغ کی شکل میں دیکھ رہا ہوں

(تیسری روایت میں )

جیسے پرندہ کا سینہ سمندر کی گہرائیوں میں۔

(۱)اہل بصرہ کا برتائو امیر المومنین کے ساتھ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے اور جنگ جمل اس کا بہترین ثبوت ہے لیکن امیر المومنین کے برتائو کے بارے میں ڈاکٹر طہ حسین کا بیان ہے کہ'' آپ نے ایک کریم انسان کا برتائو کیا اور بیت المال دوست اور دشمن دونوں کے مستحقین میں تقسیم کردیا ۔اور زخمیوں پرحملہ نہیں کیا'' اور حد یہ ہے کہ قیدیوں کو کنیز نہیں بنایا بلکہ نہایت احترام کے ساتھ مدینہ واپس کردیا۔

۳۱

وفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى بِلَادُكُمْ أَنْتَنُ بِلَادِ اللَّه تُرْبَةً - أَقْرَبُهَا مِنَ الْمَاءِ وأَبْعَدُهَا مِنَ السَّمَاءِ - وبِهَا تِسْعَةُ أَعْشَارِ الشَّرِّ - الْمُحْتَبَسُ فِيهَا بِذَنْبِه والْخَارِجُ بِعَفْوِ اللَّه - كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى قَرْيَتِكُمْ هَذِه قَدْ طَبَّقَهَا الْمَاءُ حَتَّى مَا يُرَى مِنْهَا إِلَّا شُرَفُ الْمَسْجِدِ كَأَنَّه جُؤْجُؤُ طَيْرٍ فِي لُجَّةِ بَحْرٍ!

(۱۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في مثل ذلك

أَرْضُكُمْ قَرِيبَةٌ مِنَ الْمَاءِ بَعِيدَةٌ مِنَ السَّمَاءِ - خَفَّتْ عُقُولُكُمْ وسَفِهَتْ حُلُومُكُمْ فَأَنْتُمْ غَرَضٌ لِنَابِلٍ وأُكْلَةٌ لِآكِلٍ وفَرِيسَةٌ لِصَائِلٍ.

ایک روایت میں آپ کا یہ ارشاد وارد ہوا ہے۔ تمہاراشہر خاک کے اعتبارسے سب سے زیادہ بدبودار ہے کہ پانی سے سب سے زیادہ قریب ہے اور آسمان سے سب سے زیادہ دور ہے۔اس میں شر کے دس حصوں میں سے نو حصے پائے جاتے ہیں۔اس میں مقیم گناہوں کے ہاتھ گرفتار ہے۔اوراس سے نکل جانے والا عفو الٰہی میں داخل ہوگیا۔گویا میں تمہاری اس بستی کو دیکھ رہا ہوں کہ پانی نے اسے اس طرح ڈھانپ لیا ہے کہ مسجد کے کنگروں کے علاوہ کچھ نظرنہیں آرہا ہے اوروہ کنگرے بھی جس طرح پانی کی گہرائی میں پرندہ کاسینہ۔

(۱۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایسے ہی ایک موقع پر)

تمہاری زمین پانی سے قریب تر اور آسمان سے دور ہے۔تمہاری عقلیں ہلکی اورتمہاری دانائی احمقانہ(۱) ہے تم ہر تیر انداز کا نشانہ' ہر بھوکے کا لقمہ اور ہر شکاری کا شکار ہو۔

(۱) اس سے زیادہ حماقت کیا ہو سکتی ہے کہ کل جس زبان سے قتل عثمان کا فتویٰ سنا تھاآج اسی سے انتقام خون عثمان کی فریاد سن رہے ہیں اور پھربھی اعتبار کر رہے ہیں۔اس کے بعد ایک اونٹ کی حفاظت پر ہزاروں جانیں قربان کر رہے ہیں اور سرکار دو عالم (ص) کے اس ارشاد گرامی کا احساس تک نہیں ہے کہ میری ازواج میں سے کسی ایک کی سواری کو دیکھ کرحواب کے کتے بھونکیں گے اور وہ عائشہ ہی ہو سکتی ہیں۔

۳۲

(۱۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

فيما رده على المسلمين من قطائع عثمان

واللَّه لَوْ وَجَدْتُه قَدْ تُزُوِّجَ بِه النِّسَاءُ ومُلِكَ بِه الإِمَاءُ لَرَدَدْتُه - فَإِنَّ فِي الْعَدْلِ سَعَةً - ومَنْ ضَاقَ عَلَيْه الْعَدْلُ فَالْجَوْرُ عَلَيْه أَضْيَقُ!

(۱۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما بويع في المدينة وفيها يخبر الناس بعلمه بما تئول إليه أحوالهم وفيها يقسمهم إلى أقسام

(۱۵)

آپ کے کلام کا ایک حصہ

اس موضوع سے متعلق کہ آپ نے عثمان کی جاگیروں کو مسلمانوں کو واپس دے دیا

خدا کی قسم اگر میں کسی(۱) مال کو اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنادیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دیدیا گیا ہے تو بھی اسے واپس کرادیتا اس لئے کہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اس کے لئے ظلم میں تو اوربھی تنگی ہوگی۔

(۱۶)

آپ کے کلام کا ایک حصہ

(اس وقت جب آپ کی مدینہ میں بیعت کی گئی اور آپ نے لوگوں کو بیعت کے مستقبل سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی قسمیں بیان فرمائی)

(۱) تاریخ کا مسلمہ ہے کہ امیر المومنین جب بیت المال میں داخل ہوتے تھے تو سوئی دھاگہ اور روٹی کے ٹکڑے تک تقسیم کردیا کرتے تھے اور اس کے بعد جھاڑو دے کردورکعت نمازادا کرتے تھے تاکہ یہ زمین روز قیامت علی کے عدل و انصاف کی گواہی دے اور اس بنیاد پرآپ نے عثمان کی عطا کردہ جاگیروں کو واپسی کا حکم دیدیا اور صدقہ کے اونٹ عثمان کے گھر سے واپس منگوالئے کہ عثمان کسی قیمت پرزکوٰة کے مستحق نہیں تھے۔

اگرچہ بعض ہوا خواہان بنی امیہ نے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ یہ انتہائی بے رحمانہ برتائو تھا جہاں یتیموں پررحم نہیں کیا گیا اور ان کے قبضہ سے مال لے لیا گیا۔لیکن اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ ظلم اور شقاوت کا مظاہرہ اس نے کیا ہے جس نے غرباء و مساکین کا حق اپنے گھر میں جمع کرلیا ہے اور مال مسلمین پر قبضہ کرلیا ہے۔پھر یہ کوئی نیا حادثہ بھی نہیں ہے۔کل پہلی خلافت میں یتیمہ رسول اکرم (ص) پر کب رحم کیا گیا تھا جو واقعاً فدک کی حقدار تھی اور اس کے بابا نے اسے یہ جاگیر حکم خدا سے عطا کردی تھی۔اولاد عثمان تو حقدار بھی نہیں ہے اور کیا اولاد عثمان کامرتبہ اولاد رسول (ص) سے بلند تر ہے یا ہر دور کے لئے ایک نئی شریعت مرتب کی جاتی ہے اور اس کا محور سرکاری مصالح اورجماعتی فوائد ہی ہوتے ہیں ؟

۳۳

ذِمَّتِي بِمَا أَقُولُ رَهِينَةٌ( وأَنَا بِه زَعِيمٌ ) إِنَّ مَنْ صَرَّحَتْ لَه الْعِبَرُ عَمَّا بَيْنَ يَدَيْه مِنَ الْمَثُلَاتِ حَجَزَتْه التَّقْوَى عَنْ تَقَحُّمِ الشُّبُهَاتِ أَلَا وإِنَّ بَلِيَّتَكُمْ قَدْ عَادَتْ كَهَيْئَتِهَا يَوْمَ بَعَثَ اللَّه نَبِيَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله والَّذِي بَعَثَه بِالْحَقِّ لَتُبَلْبَلُنَّ بَلْبَلَةً ولَتُغَرْبَلُنَّ غَرْبَلَةً ولَتُسَاطُنَّ سَوْطَ الْقِدْرِ حَتَّى يَعُودَ أَسْفَلُكُمْ أَعْلَاكُمْ وأَعْلَاكُمْ أَسْفَلَكُمْ - ولَيَسْبِقَنَّ سَابِقُونَ كَانُوا قَصَّرُوا - ولَيُقَصِّرَنَّ سَبَّاقُونَ كَانُوا سَبَقُوا - واللَّه مَا كَتَمْتُ وَشْمَةً ولَا كَذَبْتُ كِذْبَةً - ولَقَدْ نُبِّئْتُ بِهَذَا الْمَقَامِ وهَذَا الْيَوْمِ - أَلَا وإِنَّ الْخَطَايَا خَيْلٌ شُمُسٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا - وخُلِعَتْ لُجُمُهَا فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِي النَّارِ - أَلَا وإِنَّ التَّقْوَى مَطَايَا ذُلُلٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا،

وأُعْطُوا أَزِمَّتَهَا فَأَوْرَدَتْهُمُ الْجَنَّةَ - حَقٌّ وبَاطِلٌ ولِكُلٍّ أَهْلٌ - فَلَئِنْ أَمِرَ الْبَاطِلُ لَقَدِيماً فَعَلَ - ولَئِنْ قَلَّ الْحَقُّ فَلَرُبَّمَا

میں اپنے قول کا خود ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں اور جس شخص پر گذشتہ اقوام کی سزائوں نے عبرتوں کو واضح کردیا ہو اسے تقوی شبہات میں داخل ہونے سے یقینا روک دے گا۔ آگاہ ہو جائو آج تمہارے لئے وہ آزمائشی دور پلٹ آیا ہے جو اس وقت تھا جب پروردگار نے اپنے رسول (ص) کوبھیجا تھا۔قسم ہے اس پروردگار کی جس نے آپ(ص) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تھا کہ تم سختی کے ساتھ تہ و بالا کئے جائو گے تمہیں باقاعدہ چھانا جائے گا اور دیگ کی طرح چمچے الٹ پلٹ کیا جائے گا یہاں تک کہ اسفل اعلیٰ ہو جائے اوراعلیٰ اسفل بن جائے اور جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ آگے بڑھ جائیں اور جوآگے بڑھ گئے ہیں وہ پیچھے آجائیں۔خدا گواہ ہے کہ میں نے نہ کسی کلمہ کو چھپایا ہے اورنہ کوئی غلط بیانی کی ہے اور مجھے اس منزل اور اس دن کی پہلے ہی خبردے دی گئی تھی۔

یاد رکھو کہ خطائیں وہ سر کش سواریاں ہیں جن پر اہل خطا کو سوار کردیا جائے اور ان کی لگام کو ڈھیلا چھوڑ دیا جائے اور وہ سوار کو لے کرجہنم میں پھاند پڑیں اورتقوی ان رام کی ہوئی سواریوں کے مانند ہے جن پر لوگ سوار کیے جائیں اور ان کی لگام ان کے ہاتھوں میں دے دی جائے تو وہ اپنے سواروں کو جنت تک پہنچادیں۔

دنیا میں حق و باطل دونوں ہیں اور دونوں کے اہل بھی ہیں۔اب اگر باطل زیادہ ہوگیا ہے تو یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے اور اگر حق کم ہوگیا ہے تو یہ بھی ہوتا رہا ہے

۳۴

ولَعَلَّ ولَقَلَّمَا أَدْبَرَ شَيْءٌ فَأَقْبَلَ!

قال السيد الشريف وأقول إن في هذا الكلام الأدنى من مواقع الإحسان ما لا تبلغه مواقع الاستحسان وإن حظ العجب منه أكثر من حظ العجب به وفيه مع الحال التي وصفنا زوائد من الفصاحة لا يقوم بها لسان ولا يطلع فجها إنسان ولا يعرف ما أقول إلا من ضرب في هذه الصناعة بحق وجرى فيها على عرق( وما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ ) .

ومن هذه الخطبة وفيها يقسم الناس إلى ثلاثة أصناف

شُغِلَ مَنِ الْجَنَّةُ والنَّارُ أَمَامَه - سَاعٍ سَرِيعٌ نَجَا وطَالِبٌ بَطِيءٌ رَجَا ومُقَصِّرٌ فِي النَّارِ هَوَى الْيَمِينُ والشِّمَالُ مَضَلَّةٌ والطَّرِيقُ الْوُسْطَى هِيَ الْجَادَّةُ عَلَيْهَا بَاقِي الْكِتَابِ وآثَارُ النُّبُوَّةِ - ومِنْهَا مَنْفَذُ السُّنَّةِ

اور اس کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی شے پیچھے ہٹ جانے کے بعد دوبارہ منظر عام پرآجائے ۔

سیدرضی : اس مختصر سے کلام میں اس قدر خوبیاں پائی جاتی ہیں جہاں تک کسی کی داد و تعریف نہیں پہنچ سکتی ہے اور اس میں حیرت و استعجاب کا حصہ پسندیدگی کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔اس میں فصاحت کے وہ پہلو بھی ہیں جن کو کوئی زبان بیان نہیں کر سکتی ہے اور ان کی گہرائیوں کا کوئی انسان ادراک نہیں کر سکتا ہے۔اور اس حقیقت کو وہی انسان سمجھ سکتا ہے جس نے فن بلاغت کا حق ادا کیا ہو اور اس کے رگ و ریشہ سے با خبر ہو۔ اور ان حقائق کو اہل علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔

اسی خطبہ کا ایک حصہ جس میں لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے

وہ شخص کسی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں رکھتا جس کی نگاہ میں جنت و جہنم کا نقشہ ہو۔ تیز رفتاری سے کام کرنے والا نجات پا لیتا ہے اور سست رفتاری سے کام کرکے جنت کی طلب گاری کرنے والا بھی امید وار رہتا ہے لیکن کوتاہی کرنے والا جہنم میں گر پڑتا ہے۔دائیں بائیں گمراہیوں کی منزلیں ہیں اور سیدھا راستہ صرف درمیانی راستہ ہے۔ای راستہ پر رہ جانے والی کتاب خدا اور نبوت کے آثار ہیں اور اسی سے شریعت کا نفاذ ہوتا ہے

۳۵

وإِلَيْهَا مَصِيرُ الْعَاقِبَةِ هَلَكَ مَنِ ادَّعَى و( خابَ مَنِ افْتَرى ) مَنْ أَبْدَى صَفْحَتَه لِلْحَقِّ هَلَكَ وكَفَى بِالْمَرْءِ جَهْلًا أَلَّا يَعْرِفَ قَدْرَه لَا يَهْلِكُ عَلَى التَّقْوَى سِنْخُ أَصْلٍ ولَا يَظْمَأُ عَلَيْهَا زَرْعُ قَوْمٍ - فَاسْتَتِرُوا فِي بُيُوتِكُمْ( وأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ ) - والتَّوْبَةُ مِنْ وَرَائِكُمْ ولَا يَحْمَدْ حَامِدٌ إِلَّا رَبَّه ولَا يَلُمْ لَائِمٌ إِلَّا نَفْسَه.

اور اسی کی طرف عاقبت کی بازگشت ہے۔غلط ادعا کرنے والا ہلاک ہوا اور افترا کرنے والا ناکام ونامرادہوا۔جس نے حق کے مقابلہ میں سر نکالا وہ ہلاک ہوگیا اور انسان کی جہالت(۱) کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسے اپنی ذات کا بھی عرفان نہ ہو۔ جو بنیاد تقوی پرقائم ہوتی ہے اس میں ہلاکت نہیں ہوتی ہے اوراس کے ہوتے ہوئے کسی قوم کی کھیتی پیاس سے برباد نہیں ہوتی ہے۔اب تم اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھ جائو اور اپنے باہمی امور کی اصلاح کرو۔توبہ تمہارے سامنے ہے۔ تعریف کرنے والے کافرض ہے کہ اپنے رب کی تعریف کرے اور ملامت کرنے والے کو چاہیے کہ اپنے نفس کی ملامت کرے۔

(۱)مالک کائنات نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں کا مالک بنایا ہے اور اس کی فطرت میں خیروشر کا سارا عرفان ودیعت کردیا ہے لیکن انسان کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ ان صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتا ہے اور ہمیشہ اپنے کو بیچارہ ہی سمجھتا ہے جو جہالت کی بد ترین منزل ہے کہ انسان کو اپنی ہی قدرو قیمت کا اندازہ نہ ہوسکے۔ کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے:

اپنی ہی ذات کا انسان کو عرفان نہ ہوا

خاک پھر خاک تھی اوقات سے آگے نہ بڑھی

۳۶

(۱۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفة من يتصدى للحكم بين الأمة وليس لذلك بأهل وفيها: أبغض الخلائق إلى اللَّه صنفان

الصنف الأول: إنَّ أَبْغَضَ الْخَلَائِقِ إِلَى اللَّه رَجُلَانِ - رَجُلٌ وَكَلَه اللَّه إِلَى نَفْسِه فَهُوَ جَائِرٌ عَنْ قَصْدِ السَّبِيلِ مَشْغُوفٌ بِكَلَامِ بِدْعَةٍ ودُعَاءِ ضَلَالَةٍ - فَهُوَ فِتْنَةٌ لِمَنِ افْتَتَنَ بِه ضَالٌّ عَنْ هَدْيِ مَنْ كَانَ قَبْلَه - مُضِلٌّ لِمَنِ اقْتَدَى بِه فِي حَيَاتِه وبَعْدَ وَفَاتِه - حَمَّالٌ خَطَايَا غَيْرِه رَهْنٌ بِخَطِيئَتِه.

(۱۷)

(ان نا اہلوں کے بارے میں جوصلاحیت کے بغیر فیصلہ کا کام شروع کر دیتے ہیں اور اسی ذیل میں دوبد ترین اقسام مخلوقات کا ذکربھی ہے)

قسم اول: یاد رکھو کہ پروردگار کی نگاہ میں بد ترین خلائق دو طرح کے افراد ہیں۔وہ شخص جسے پروردگار نے اسی کے رحم و کرم(۱) پرچھوڑدیا ہے اور وہ درمیانی راستہ سے ہٹ گیا ہے۔صرف بدعت کا دلدادہ ہے اور گمراہی کی دعوت پر فریفتہ ہے۔یہ دوسرے افراد کے لئے ایک مستقل فتنہ ہے اور سابق افراد کی ہدایت سے بہکا ہوا ہے۔اپنے پیروکاروں کوگمراہ کرنے والا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی یہ دوسروں کی غلطیوں کا بھی بوجھ اٹھانے والا ہے اور ان کی خطائوں میں بھی گرفتار ہے۔

(۱)جاہل انسانوں کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ پروردگار انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے اوروہ جو چاہیں کریں کسی طرح کی کوئی پابندی نہ ہو حالانکہ در حقیقت یہ بد ترین عذاب الٰہی ہے۔انسان کی فلاح و بہبود اسی میں ہے کہ مالک اسے اپنے رحم و کرم کے سایہ میں رکھے ورنہ گر اس سے توفیقات کوسلب کرکے اس کے حال پر چھوڑ دیا تو وہ لمحوں میں فرعون' قارون' نمرود' یزید' حجاج اور متوکل بن سکتا ہے۔اگرچہ اسے احساس یہی رہے گا کہ اس نے کائنات کا اقتدار حاصل کرلیا ہے اور پروردگار اس کے حال پر بہت زیادہ مہربان ہے۔

۳۷

الصنف الثاني: ورَجُلٌ قَمَشَ جَهْلًا مُوضِعٌ فِي جُهَّالِ الأُمَّةِ عَادٍ فِي أَغْبَاشِ الْفِتْنَةِ عَمٍ بِمَا فِي عَقْدِ الْهُدْنَةِ قَدْ سَمَّاه أَشْبَاه النَّاسِ عَالِماً ولَيْسَ بِه بَكَّرَ فَاسْتَكْثَرَ مِنْ جَمْعٍ مَا قَلَّ مِنْه خَيْرٌ مِمَّا كَثُرَ حَتَّى إِذَا ارْتَوَى مِنْ مَاءٍ آجِنٍ واكْتَثَرَ مِنْ غَيْرِ طَائِلٍجَلَسَ بَيْنَ النَّاسِ قَاضِياً ضَامِناً لِتَخْلِيصِ مَا الْتَبَسَ عَلَى غَيْرِه فَإِنْ نَزَلَتْ بِه إِحْدَى الْمُبْهَمَاتِ هَيَّأَ لَهَا حَشْواً رَثًّا مِنْ رَأْيِه ثُمَّ قَطَعَ بِه فَهُوَ مِنْ لَبْسِ الشُّبُهَاتِ فِي مِثْلِ نَسْجِ الْعَنْكَبُوتِ - لَا يَدْرِي أَصَابَ أَمْ أَخْطَأَ - فَإِنْ أَصَابَ خَافَ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَخْطَأَ وإِنْ أَخْطَأَ رَجَا أَنْ يَكُونَ قَدْ أَصَابَ جَاهِلٌ خَبَّاطُ جَهَالَاتٍ عَاشٍ رَكَّابُ عَشَوَاتٍ لَمْ يَعَضَّ عَلَى الْعِلْمِ بِضِرْسٍ قَاطِعٍ -

قسم دوم: وہ شخص جس نے جہالتوں(۱) کو سمیٹ لیا ہے اور انہیں کے سہارے جاہلوں کے درمیان دوڑ لگا رہا ہے۔فتنوں کی تاریکیوں میں دوڑ رہا ہے اور امن و صلح کے فوائدسے یکسر غافل ہے۔انسان نما لوگوں نے اسکا نام عالم رکھ دیا ہے حالانکہ اس کا علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔صبح سویرے ان باتوں کی تلاش میں نکل پڑتا ہے جن کا قلیل ان کے کثیر سے بہتر ہے۔یہاں تک کہ جب گندہ پانی سے سیراب ہو جاتا ہے اور مہمل اوربے فائدہ باتوں کو جمع کرلیتا ہے تو لوگوں کے درمیان قاضی بن کر بیٹھ جاتا ہے اوراس امر کی ذمہ داری لے لیتا ہے کہ جو امور دوسرے لوگوں پر مشتبہ ہیں وہ انہیں صاف کردیگا۔اس کے بعد جب کو ئی مبہم مسئلہ آجاتا ہے تو اس کے لئے بے سود اورفرسودہ دلائل کو اکٹھا کرتا ہے اور انہیں سے فیصلہ کر دیتا ہے۔یہ شبہات میں اسی طرح گرفتار ہے جس طرح مکڑی اپنے جالے میں پھنس جاتی ہے۔اسے یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ صحیح فیصلہ کیا ہے یا غلط۔اگر صحیح کیا ہے تو بھی ڈرتا ہے کہ شائد غلط ہو۔اور اگر غلط کیا ہے تو بھی یہ امید رکھتا ہے کہ شائد صحیح ہو ۔ ایسا جاہل ہے جو جہالتوں میں بھٹک رہا ہے اور ایسا اندھا ہے جو اندھیروں کی سواری پر سوار ہو۔نہ علم میں کوئی حتمی بات سمجھا ہے

(۱) قاضیوں کی یہ قسم ہر دورمیں رہی ہے اور ہر علاقہ میں پائی جاتی ہے۔بعض لوگ گائوں یا شہر میں اسی بات کواپنا امتیاز تصورکرتے ہیںکہ انہیں فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے اگرچہ ان می کسی قسم کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہی وہ قسم ہے جس نے دین خدا کو تباہ اورخلق خدا کو گمراہ کیا ہے اور یہی قسم شریح سے شروع ہو کر ان افراد تک پہنچ گئی ہے جو دوسروں کے مسائل کو باآسانی طے کردیتے ہیں اور اپنے مسئلہ میں کسی طرح کے فیصلہ سے راضی نہیں ہوتے ہیں اور نہ کسی کی رائے کو سننے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔

۳۸

يَذْرُو الرِّوَايَاتِ ذَرْوَ الرِّيحِ الْهَشِيمَ لَا مَلِيٌّ واللَّه بِإِصْدَارِ مَا وَرَدَ عَلَيْه - ولَا أَهْلٌ لِمَا قُرِّظَ بِه لَا يَحْسَبُ الْعِلْمَ فِي شَيْءٍ مِمَّا أَنْكَرَه - ولَا يَرَى أَنَّ مِنْ وَرَاءِ مَا بَلَغَ مَذْهَباً لِغَيْرِه - وإِنْ أَظْلَمَ عَلَيْه أَمْرٌ اكْتَتَمَ بِه لِمَا يَعْلَمُ مِنْ جَهْلِ نَفْسِه - تَصْرُخُ مِنْ جَوْرِ قَضَائِه الدِّمَاءُ - وتَعَجُّ مِنْه الْمَوَارِيثُ إِلَى اللَّه أَشْكُو - مِنْ مَعْشَرٍ يَعِيشُونَ جُهَّالًا ويَمُوتُونَ ضُلَّالًا - لَيْسَ فِيهِمْ سِلْعَةٌ أَبْوَرُ مِنَ الْكِتَابِ إِذَا تُلِيَ حَقَّ تِلَاوَتِه - ولَا سِلْعَةٌ أَنْفَقُ بَيْعاً - ولَا أَغْلَى ثَمَناً مِنَ الْكِتَابِ إِذَا حُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِه - ولَا عِنْدَهُمْ أَنْكَرُ مِنَ الْمَعْرُوفِ ولَا أَعْرَفُ مِنَ الْمُنْكَرِ!

(۱۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذم اختلاف العلماء في الفتيا

وفيه يذم أهل الرأي ويكل أمر الحكم في أمور الدين للقرآن

اورنہ کسی حققت کو پرکھا ہے۔روایات کو یوں اڑا دیتا ہے جس طرح تیز ہوا تنکوں کو اڑا دیتی ہے۔خدا گواہ ہے کہ یہ ان فیصلوں کے صادر کرنے کے قابل نہیں ہے جو اس پر وار د ہوتے ہیں اور اس کام کا اہل نہیں ہے جو اس کے حوالہ کیا گیا ہے۔جس چیز کوناقابل توجہ سمجھتا ہے اس میں علم کا احتمال بھی نہیں دیتاہے اوراپنی پہنچ کے ماوراء کسی اور رائے کا تر بھی نہیں کرتا ہے۔اگر کوئی مسئلہ واضح نہیں ہوتا ہے تواسے چھپا دیتا ہے کہ اسے اپنی جہالت کا علم ہے۔ناحق بہائے ہوئے خون اس کے فیصلوں کے ظلم سے فریادی اور غلط تقسیم کی ہوئی میراث چلا رہی ہے۔میں خدا کی بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں ایسے گروہ کی جو زندہ رہتے ہیں تو جہالت کے ساتھ اور مر جاتے ہیں تو ضلالت کے ساتھ۔ان کے نزدیک کوئی متاع کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت نہیں ہے اگر اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور کوئی متاع اس کتاب سے زیادہ قیمتی اورفائدہ مند نہیں ہے اگر اس کے مفاہیم میں تحریف کردی جائے۔ ان کے لئے معروف سے زیادہ منکر کچھ نہیں ہے اور منکر سے زیادہ معروف کچھ نہیں ہے۔

(۱۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(علماء کے درمیان اختلاف فتویٰ کے بارے میں اور اسی میں اہل رائے کی مذمت اور قرآن کی مرجعت کا ذکر کیا گیا ہے)

۳۹

ذم أهل الرأي

تَرِدُ عَلَى أَحَدِهِمُ الْقَضِيَّةُ فِي حُكْمٍ مِنَ الأَحْكَامِ فَيَحْكُمُ فِيهَا بِرَأْيِه ثُمَّ تَرِدُ تِلْكَ الْقَضِيَّةُ بِعَيْنِهَا عَلَى غَيْرِه فَيَحْكُمُ فِيهَا بِخِلَافِ قَوْلِه ثُمَّ يَجْتَمِعُ الْقُضَاةُ بِذَلِكَ عِنْدَ الإِمَامِ الَّذِي اسْتَقْضَاهُمْ فَيُصَوِّبُ آرَاءَهُمْ جَمِيعاً وإِلَهُهُمْ وَاحِدٌ ونَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ وكِتَابُهُمْ وَاحِدٌ!

أَفَأَمَرَهُمُ اللَّه سُبْحَانَه بِالِاخْتِلَافِ فَأَطَاعُوه - أَمْ نَهَاهُمْ عَنْه فَعَصَوْه!

الحكم للقرآن

أَمْ أَنْزَلَ اللَّه سُبْحَانَه دِيناً نَاقِصاً - فَاسْتَعَانَ بِهِمْ عَلَى إِتْمَامِه أَمْ كَانُوا شُرَكَاءَ لَه فَلَهُمْ أَنْ يَقُولُوا وعَلَيْه أَنْ يَرْضَى أَمْ أَنْزَلَ اللَّه سُبْحَانَه دِيناً تَامّاً فَقَصَّرَ الرَّسُولُصلى‌الله‌عليه‌وآله عَنْ تَبْلِيغِه وأَدَائِه - واللَّه سُبْحَانَه يَقُولُ:( ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ مِنْ شَيْءٍ ) وفِيه تِبْيَانٌ لِكُلِّ شَيْءٍ وذَكَرَ أَنَّ الْكِتَابَ يُصَدِّقُ بَعْضُه بَعْضاً وأَنَّه لَا اخْتِلَافَ فِيه فَقَالَ سُبْحَانَه:( ولَوْ كانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ الله لَوَجَدُوا فِيه اخْتِلافاً كَثِيراً ) وإِنَّ الْقُرْآنَ

مذمت اہل رائے:

ان لوگوں کا عالم یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس کسی مسئلہ کا فیصلہ آتا ہے تو وہ اپنی رائے سے فیصلہ کر دیتا ہے اور پھر یہی قضیہ بعینہ دوسرے کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کے خلاف فیصلہ کر دیتا ہے۔اس کے بعد تمام قضاة اس حاکم کے پاس جمع ہوتے ہیں جس نے انہیں قاضی بنایا ہے تو وہ سب کی رائے کی تائید کر دیتا ہے جب کہ سب کا خدا ایک' نبی ایک اور کتاب ایک ہے۔تو کیا خدا(۱) ہی نے انہیں اختلاف کا حکم دیا ہے اور یہ اس کی اطاعت کر رہے ہیں یا اس نے انہیں اختلاف سے منع کیا ہے مگر پھربھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں ؟ یا خدا نے دین ناقص نازل کیا ہے اوران سے اس کی تکمیل کے لئے مدد مانگی ہے یا یہ سبخود اس کی خدائی ہی میں شریک ہیں اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ یہ بات کہیں اور خدا کا فرض ہے کہ وہ قبول کرے یاخدانے دین کامل نازل کیا تھا اور رسول اکرم (ص)نے اس کی تبلیغ اور ادائیگی میں کوتاہی کردی ہے جب کہ اس کا اعلان ہے کہ ہم نے کتاب میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کی ہے اور اس میں ہر شے کا بیان موجود ہے۔اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تصدیق کرت ہے اور اس میں کسی طرح کا اختلاف نہیں ہے۔ یہ قرآن غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بے پناہ اختلاف ہوتا۔ یہ قرآن وہ ہے ۔

(۱)یاد رہے کہ امیر المومنین نے مسئلہ کے تمام احتمالات کا سدباب کردیا ہے اور اب کسی رائے پرست انسان کے لئے فرار کرنے کا کوئیراستہ نہیں ہے اور اسے مذہب میں رائے اور قیاس کو استعمال کرنے کے لئے ایک نہایک مہمل بنیاد کواختیارکرناپڑے گا۔اس کے بغیر رائے اورقیاس کا کوئی جواز نہیں ہے۔

۴۰