نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656965 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

(۴۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند المسير إلى الشام قيل إنه خطب بها وهو بالنخيلة خارجا من الكوفة إلى صفين

الْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا وَقَبَ لَيْلٌ وغَسَقَ والْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا لَاحَ نَجْمٌ وخَفَقَ والْحَمْدُ لِلَّه غَيْرَ مَفْقُودِ الإِنْعَامِ ولَا مُكَافَإِ الإِفْضَالِ.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَعَثْتُ مُقَدِّمَتِي وأَمَرْتُهُمْ بِلُزُومِ هَذَا الْمِلْطَاطِ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرِي - وقَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَقْطَعَ هَذِه النُّطْفَةَ إِلَى شِرْذِمَةٍ مِنْكُمْ - مُوَطِّنِينَ أَكْنَافَ دِجْلَةَ - فَأُنْهِضَهُمْ مَعَكُمْ إِلَى عَدُوِّكُمْ - وأَجْعَلَهُمْ مِنْ أَمْدَادِ الْقُوَّةِ لَكُمْ.

قال السيد الشريف أقول يعنيعليه‌السلام بالملطاط هاهنا السمت الذي أمرهم بلزومه وهو شاطئ الفرات ويقال ذلك أيضا لشاطئ البحر وأصله ما استوى من الأرض ويعني بالنطفة ماء الفرات وهو من غريب العبارات وعجيبها.

(۴۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو صفین کے لئے کوفہ سے نکلتے ہوئے مقام نخیلہ پر ارشاد فرمایا تھا)

پروردگار کی حمد ہے جب بھی رات آئے اورتاریکی چھائے یا ستارہ چمکے اورڈوب جائے۔پروردگار کی حمدوثنا ہے کہ اس کی نعمتیں ختم نہیں ہوتی ہیں اور اس کے احسانات کا بدلہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔

امابعد! میں نے اپنے لشکر کا ہر اول دستہ روانہ کردیا ہے اور انہیں حکم دے دیا ہے کہ اس نہر کے کنارے ٹھہر کر میرے حکم کا انتظار کریں۔میں چاہتا ہوں کہ اس دریائے دجلہ کو عبور کرکے تمہاری(۱) ایک مختصرجماعت تک پہنچ جائوں جو اطراف دجلہ میں مقیم ہیں تاکہ انہیں تمہارے ساتھ جہاد کے لئے آمادہ کر سکوں اور ان کے ذریعہ تمہاری قوت میں اضافہ کر سکوں۔

سید رضی : ملطاط سے مراد دریا کا کنار ہ ہے اور اصل میں یہ لفظ ہموار زمین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نطفہ سے مراد فرات کا پانی ہے اور یہ عجیب و غریب تعبیرات میں ہے۔

(۱)اس جماعت سے مراد اہل مدائن ہیں جنہیں حضرت اس جہاد میں شامل کرنا چاہتے تھے اور ان کے ذریعہ لشکر کی قوت میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔خطبہ کے آغاز میں رات اور ستاروں کاذکر اسامر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ لشکراسلام کو رات کی تاریکی اورستارہ کے غروب و زوال سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔نور مطلق اور ضیاء مکمل ساتھ ہے تو تاریکی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور ستاروں کا کیا بھروسہ ہے۔ستارے تو ڈوب بھی جاتے ہیں لیکن جو پروردگار قابل حمدو ثناء ہے اس کے لئے زوال و غروب نہیں ہے اور وہ ہمیشہ بندۂ مومن کے ساتھ رہتا ہے۔!

۸۱

(۴۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه جملة من صفات الربوبية والعلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي بَطَنَ خَفِيَّاتِ الأَمُوُرِ - ودَلَّتْ عَلَيْه أَعْلَامُ الظُّهُورِ - وامْتَنَعَ عَلَى عَيْنِ الْبَصِيرِ - فَلَا عَيْنُ مَنْ لَمْ يَرَه تُنْكِرُه - ولَا قَلْبُ مَنْ أَثْبَتَه يُبْصِرُه - سَبَقَ فِي الْعُلُوِّ فَلَا شَيْءَ أَعْلَى مِنْه - وقَرُبَ فِي الدُّنُوِّ فَلَا شَيْءَ أَقْرَبُ مِنْه - فَلَا اسْتِعْلَاؤُه بَاعَدَه عَنْ شَيْءٍ مِنْ خَلْقِه - ولَا قُرْبُه سَاوَاهُمْ فِي الْمَكَانِ بِه - لَمْ يُطْلِعِ الْعُقُولَ عَلَى تَحْدِيدِ صِفَتِه - ولَمْ يَحْجُبْهَا عَنْ وَاجِبِ مَعْرِفَتِه - فَهُوَ الَّذِي تَشْهَدُ لَه أَعْلَامُ الْوُجُودِ - عَلَى إِقْرَارِ قَلْبِ ذِي الْجُحُودِ - تَعَالَى اللَّه عَمَّا يَقُولُه الْمُشَبِّهُونَ بِه - والْجَاحِدُونَ لَه عُلُوّاً كَبِيراً!

(۴۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں پروردگار کے مختلف صفات اور اس کے علم کا تذکرہ کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس خداکے لئے ہے جو مخفی امور کی گہرائیوں سے با خبر ہے اوراس کے وجود کی رہنمائی ظہور کی تمام نشانیاں کر رہی ہیں۔وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں آنے والا نہیں ہے لیکن نہ کسی نہ دیکھنے والے کی آنکھ اس کا انکار کر سکتی ہے۔اورنہ کسی اثبات کرنے والے کا دل اس کی حقیقت کو دیکھ سکتا ہے۔وہ بلندیوں میں اتنا آگے ہے کہ کوئی شے اس سے بلند تر نہیں ہے اور قربت میں اتنا قریب ہے کہ کوئی شے اس سے قریب تر نہیں ہے۔نہ اس کی بلندی اسے مخلوقات سے دور بنا سکتی ہے اور نہ اس کی قربت برابر کی جگہ پر لا سکتی ہے۔اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حدوں سے باخبر نہیں کیاہے اوربقدر واجب معرفت سے محروم بھی نہیں رکھا ہے۔وہ ایسی ہستی ہے کہ اس کے انکار کرن والے کے دل پر اس کے وجود کی نشانیاں شہادت دے رہی ہیں۔وہ مخلوقات سے تشبیہ دینے والے اور انکار کرنے والے دونوں کی باتوں سے بلند وبالاتر ہے۔

۸۲

(۵۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه بيان لما يخرب العالم به من الفتن وبيان هذه الفتن

إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وأَحْكَامٌ تُبْتَدَعُ - يُخَالَفُ فِيهَا كِتَابُ اللَّه - ويَتَوَلَّى عَلَيْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَيْرِ دِينِ اللَّه - فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ - لَمْ يَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِينَ ولَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ - انْقَطَعَتْ عَنْه أَلْسُنُ الْمُعَانِدِينَ - ولَكِنْ يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ ومِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَيُمْزَجَانِ - فَهُنَالِكَ يَسْتَوْلِي الشَّيْطَانُ عَلَى أَوْلِيَائِه - ويَنْجُو( الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ ) مِنَ اللَّه( الْحُسْنى ).

(۵۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس میں ان فتنوں کا تذکرہ ہے جو لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ان کے اثرات کا بھی تذکرہ ہے)

فتنوں) ۱) کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جن کا اتباع کیا جاتا ہے اور ان جدید ترین احکام سے ہوتی ہے جوگڑھ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سے الگ ہو جاتے ہیں کہ اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلب گاروں پرمخفی نہ ہو سکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں۔لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے ' اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے اورایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اورصرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہی جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔

(۱)اس ارشاد گرامی کا آغاز لفظ انما سے ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا کا ہرفتنہ خواہشات کی پیروی اور بدعتوں کی ایجاد سے شروع ہوتا ہے اور یہی تاریخی حقیقت ہے کہ اگر امت اسلامیہ نے روز اول کتاب خدا کے خلاف میراث کے احکام وضع نہ کئے ہوتے اور اگرمنصب و اقتدار کی خواہش میں ''من کنت مولاہ '' کا انکار نہ کیا ہوتااور کچھ لوگ کچھ لوگوں کے ہمدرد نہ ہوگئے ہوتے اور نص پیغمبر (ص) کے ساتھ سن و سال اورصحابیت و قرابت کے جھگڑے نہ شامل کردئیے ہوتے تو آج اسلام بالکل خالص اورصریح ہوتا اور امت میں کسی طرح کا فتنہ وفساد نہ ہوتا۔لیکن افسوس کہ یہ سب کچھ ہوگیا اور امت ایک دائمی فتنہ میں مبتلا ہوگئی جس کا سلسلہ چودہ صدیوں سے جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے گا۔

۸۳

(۵۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما غلب أصحاب معاوية أصحابهعليه‌السلام على شريعة الفرات بصفين ومنعوهم الماء

قَدِ اسْتَطْعَمُوكُمُ الْقِتَالَ فَأَقِرُّوا عَلَى مَذَلَّةٍ وتَأْخِيرِ مَحَلَّةٍ - أَوْ رَوُّوا السُّيُوفَ مِنَ الدِّمَاءِ تَرْوَوْا مِنَ الْمَاءِ فَالْمَوْتُ فِي حَيَاتِكُمْ مَقْهُورِينَ،والْحَيَاةُ فِي مَوْتِكُمْ قَاهِرِينَ - أَلَا وإِنَّ مُعَاوِيَةَ قَادَ لُمَةً مِنَ الْغُوَاةِ - وعَمَّسَ عَلَيْهِمُ الْخَبَرَ - حَتَّى جَعَلُوا نُحُورَهُمْ أَغْرَاضَ الْمَنِيَّةِ.

(۵۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في التزهيد في الدنيا وثواب الله للزاهد ونعم الله على الخالق

التزهيد في الدنيا

أَلَا وإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ تَصَرَّمَتْ وآذَنَتْ بِانْقِضَاءٍ - وتَنَكَّرَ مَعْرُوفُهَا وأَدْبَرَتْ حَذَّاءَ فَهِيَ تَحْفِزُ بِالْفَنَاءِ سُكَّانَهَا - وتَحْدُو بِالْمَوْتِ جِيرَانَهَا

(۵۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھیوں کو ہٹا کر صفین کے قریب فرات پرغلبہ حاصل کرلیا اور پانی بند کردیا)

دیکھو دشمنوں نے تم سے غذائے جنگ کا مطالبہ کردیا ہے اب یا تو تم ذلت اوراپنے مقام کی پستی پر قائم رہ جائو'یااپنی تلواروں کو خون سے سیراب کر دو اورخود پانی سے سیراب ہو جائو۔در حقیقت موت ذلت کی زندگی میں ہے اور زندگی عزت کی موت میں ہے۔آگاہ ہو جائو کہ معاویہ گمراہوں کی ایک جماعت کی قیادت کر رہا ہے جس پر تمام حقائق پوشیدہ ہیں اور انہوں نے جہالت کی بناپ ر اپنی گردنوں کو تیر اجل کا نشانہ بنادیا ہے۔

(۵۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا میں زہد کی ترغیب اور پیش پروردگاراس کے ثواب اور مخلوقات پر خالق کی نعمتوں کاتذکرہ کیا گیا ہے )

آگاہ ہو جائو دنیا جا رہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اس کی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں۔وہ تیزی سے منہ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف سے جا رہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔

۸۴

وقَدْ أَمَرَّ فِيهَا مَا كَانَ حُلْواً وكَدِرَ مِنْهَا مَا كَانَ صَفْواً - فَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا سَمَلَةٌ كَسَمَلَةِ الإِدَاوَةِ أَوْ جُرْعَةٌ كَجُرْعَةِ الْمَقْلَةِ لَوْ تَمَزَّزَهَا الصَّدْيَانُ لَمْ يَنْقَعْ فَأَزْمِعُوا عِبَادَ اللَّه - الرَّحِيلَ عَنْ هَذِه الدَّارِ الْمَقْدُورِ عَلَى أَهْلِهَا الزَّوَالُ - ولَا يَغْلِبَنَّكُمْ فِيهَا الأَمَلُ - ولَا يَطُولَنَّ عَلَيْكُمْ فِيهَا الأَمَدُ.

ثواب الزهاد

فَوَاللَّه لَوْ حَنَنْتُمْ حَنِينَ الْوُلَّه الْعِجَالِودَعَوْتُمْ بِهَدِيلِ الْحَمَامِ وجَأَرْتُمْ جُؤَارَ مُتَبَتِّلِي الرُّهْبَانِ - وخَرَجْتُمْ إِلَى اللَّه مِنَ الأَمْوَالِ والأَوْلَادِ - الْتِمَاسَ الْقُرْبَةِ إِلَيْه فِي ارْتِفَاعِ دَرَجَةٍ عِنْدَه - أَوْ غُفْرَانِ سَيِّئَةٍ أَحْصَتْهَا كُتُبُه - وحَفِظَتْهَا رُسُلُه لَكَانَ قَلِيلًا فِيمَا أَرْجُو لَكُمْ مِنْ ثَوَابِه - وأَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ عِقَابِه.

اس کی شیرینی تلخ ہو چکی ہے اور اس کی صفائی مکدر ہو چکی ہے۔اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو تہہ میں بچا ہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیا سا پی بھی لے تو اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے۔لہٰذا بندگان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جس کے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبر دار! تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا۔

خدا کی قسم اگر تم ان اونٹنیوں کی طرح بھی فریاد کرو جن کا بچہ گم ہوگیا ہو اور ان کبوتروں کی طرح نالہ و فغاں کرو جو اپنے جھنڈ سے الگ ہوگئے ہوں اور ان راہبوں کی طرح بھی گریہ و فریاد کرو جو اپنے گھر بار کو چھوڑ چکے ہیں اور مال و اولاد کو چھوڑ کر قربت خدا کی تلاش میں نکل پڑو تاکہ اس کی بارگاہ میں درجات بلند ہو جائیں یا وہ گناہ معاف ہو جائیں جو اس کے دفتر میں ثبت ہوگئے ہیں اور فرشتوں نے انہیں محفوظ کرلیا ہے تو بھی یہ سب اس ثواب سے کم ہوگا(۱) جس کی میں تمہارے بارے میں امید رکھتا ہوں یا جس عذاب کا تمہارے بارے میں خوف رکھتا ہوں۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ '' فکر ہر کس بقدر ہمت اوست'' دنیا کا انسان کتنا ہی بلند نظر اور عالی ہمت کیوں نہ ہو جائے مولائے کائنات کی بلندی فکر کو نہیں پا سکتا ہے اور اس درجہ علم پرفائز نہیں ہو سکتا ہے جس پر مالک کائنات نے باب مدینتہ العلم کوفائز کیا ہے۔آپ فرمانا چاہتے ہیں کہ تم لوگ میری اطاعت کرو اور میرے احکام پر عمل کرو۔اس کا اجروثواب تمہارے افکار کی رسائی کی حدوں سے بالاتر ہے۔میں تمہارے لئے بہترین ثواب کی امید رکھتا ہوں اور تمہیں بد ترین عذاب سے بچانا چاہتا ہوں لیکن اس راہ میں میرے احکام کی اطاعت کرنا ہوگی اور میرے راستہ پر چلنا ہوگا جو در حقیقت شہادت اورقربانی کا راستہ ہے اور انسان اسی راستہ پر قدم آگے بڑھانے سے گھبراتا ہے اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک دنیا دار انسان جس کی ساری فکر مال دنیا اورثروت دنیا ہے وہ بھی کسی ہلاکت کے خطرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنے کو ہلاکت سے بچانے کے لئے سارا مال و متاع قربان کردیتا ہے تو پھرآخر دیندار انسان میں یہ جذبہ کیوں نہیں پایا جاتا ہے؟ وہ جنت النعیم کو حاصل کرنے اور عذاب جہنم سے بچنے کے لئے اپنی دنیا کو قربان کیوں نہیں کرتا ہے؟ اس کا تو عقیدہ یہی ہے کہ دنیا چند روزہ اور فانی ہے اور آخرت ابدی اور دائمی ہے تو پھر فانی کوباقی کی راہ میں کیوں قربان نہیں کردیتا ؟''اف هذا الشی عجاب''

۸۵

نعم الله

وتَاللَّه لَوِ انْمَاثَتْ قُلُوبُكُمُ انْمِيَاثاً وسَالَتْ عُيُونُكُمْ مِنْ رَغْبَةٍ إِلَيْه أَوْ رَهْبَةٍ مِنْه دَماً - ثُمَّ عُمِّرْتُمْ فِي الدُّنْيَا مَا الدُّنْيَا بَاقِيَةٌ مَا جَزَتْ أَعْمَالُكُمْ عَنْكُمْ - ولَوْ لَمْ تُبْقُوا شَيْئاً مِنْ جُهْدِكُمْ - أَنْعُمَه عَلَيْكُمُ الْعِظَامَ وهُدَاه إِيَّاكُمْ لِلإِيمَانِ.

(۵۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكرى يوم النحر وصفة الأضحية

ومِنْ تَمَامِ الأُضْحِيَّةِ اسْتِشْرَافُ أُذُنِهَا وسَلَامَةُ عَيْنِهَا - فَإِذَا سَلِمَتِ الأُذُنُ والْعَيْنُ سَلِمَتِ الأُضْحِيَّةُ وتَمَّتْ - ولَوْ كَانَتْ عَضْبَاءَ الْقَرْنِ تَجُرُّ رِجْلَهَا إِلَى الْمَنْسَكِ

قال السيد الشريف والمنسك هاهنا المذبح.

(۵۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف أصحابه بصفين حين طال منعهم له من قتال أهل الشام

خدا کی قسم اگر تمہارے دل بالکل پگھل جائیں اور تمہاری آنکھوں سے آنسوئوں کے بجائے رغبت ثواب یا خوف عذاب میں خون جاری ہوجائے اور تمہیں دنیا میں آخر تک باقی رہنے کا موقع دے دیا جائے تو بھی تمہارے اعمال اس کی عظیم ترین نعمتوں اور ہدایت ایمان کا بدلہ نہیں ہو سکتے ہیں چاہے ان کی راہ میں تم کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھو۔

(۵۳)

(جس میں روز عید الضحیٰ کا تذکرہ ہے اورقربانی کے صفات کاذکر کیا گیا ہے)

قربانی کے جانور کا کمال یہ ہے کہ اس کے کان بلند ہوں اور آنکھیں سلامت ہوں کہ اگر کان اور آنکھ سلامت ہیں توگویا قربانی سالم اورمکمل ہے چاہے اس کی سینگ ٹوٹی ہوئی ہو اور وہ پیروں کو گھسیٹ کر اپنے کوقربان گاہ تک لے جائے۔

سید رضی : اس مقام پر منسلک سے مراد مذبح اورقربان گاہ ہے۔

(۵۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آپ نے اپنی بیعت کا تذکرہ کیا ہے)

۸۶

فَتَدَاكُّوا عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ يَوْمَ وِرْدِهَا وقَدْ أَرْسَلَهَا

رَاعِيهَا وخُلِعَتْ مَثَانِيهَا حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُمْ قَاتِلِيَّ أَوْ بَعْضُهُمْ قَاتِلُ بَعْضٍ لَدَيَّ - وقَدْ قَلَّبْتُ هَذَا الأَمْرَ بَطْنَه وظَهْرَه حَتَّى مَنَعَنِي النَّوْمَ - فَمَا وَجَدْتُنِي يَسَعُنِي إِلَّا قِتَالُهُمْ - أَوِ الْجُحُودُ بِمَا جَاءَ بِه مُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَكَانَتْ مُعَالَجَةُ الْقِتَالِ أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مُعَالَجَةِ الْعِقَابِ - ومَوْتَاتُ الدُّنْيَا أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مَوْتَاتِ الآخِرَةِ.

(۵۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد استبطأ أصحابه إذنه لهم في القتال بصفين

لوگ مجھ) ۱ ( پر یوں ٹوٹ پڑے جیسے وہ پیاسے اونٹ پانی پر ٹوٹ پڑتے ہیں جن کے نگرانوں نے انہیں آزاد چھوڑ دیا ہو اور ان کے پیروں کی رسیاں کھول دی ہوں یہاں تک کہ مجھے یہ احساس پیدا ہوگیا کہ یہ مجھے مار ہی ڈالیں گے یا ایک دوسرے کوقتل کردیں گے۔میں نے اس امرخلافت کو یوں الٹ پلٹ کردیکھاہے کہ میری نیند تک اڑ گئی ہے اور اب یہ محسوس کیا ہے کہ یا ان سے جہاد کرنا ہوگا یا پیغمبر (ص) کے احکام کا انکار کر دینا ہوگا۔ظاہر ہے کہ میرے لئے جنگ کی سختیوں کا برداشت کرنا عذاب کی سختی برداشت کرنے سے آسان تر ہے اور دنیا کی موت آخرت کی موت اورتباہی سے سبک تر ہے۔

(۵۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کے اصحاب نے یہ اظہار کیا کہ اہل صفین سے جہاد کی اجازت میں تاخیر سے کام لے رہے ہیں)

(۱)سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس اسلام میں روز اول سے بزور شمشیر بیعت لی جا رہی تھی اور انکار بیعت کرنے پر گھروں میں آگ لگائی جا رہی تھی یا لوگوں کو خنجر و شمشیر اورتازیانہ و درہ کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔اس میں یکبارگی یہ انقلاب کیسے آگیا کہ لوگ ایک انسان کی بیعت کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے اوریہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔کیا اس کا راز یہ تھا کہ لوگ اس ایک شخص کے علم و فضل ' زہد و تقویٰ اور شجاعت و کرم سے متاثر ہوگئے تھے۔ایسا ہوت تو یہ صورت حال بہت پہلے پیدا ہو جاتی اور لوگ اس شخص پر قربان ہو جاتے۔حالانکہ ایسا نہیں ہو سکا جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم نے شخصیت سے زیادہ حالات کو سمجھ لیا تھا۔اوریہ اندازہ کرلیا تھا کہ وہ شخص جو امت کے درمیان واقعی انصاف کر سکتا ہے اور جس کی زندگی ایک عام انسان کی زندگی کی طرح سادگی رکھتی ہے اور اس میں کسی طرح کی حرص و طمع کا گزر نہیں ہے وہ اس مرد مومن اور کل ایمان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی بیعت میں سبقت کرنا ایک انسانی اور ایمان فریضہ ہے اور در حقیقت مولائے کائنات نے اس پوری صورت حال کو ایک لفظ میں واضح کردیا ہے کہ یہ دن در حقیقت پیاسوں کے سیراب ہونے کادن تھا اور لوگ مدتوں سے تشنہ اورتشنہ کام تھے لہٰذا ان کاٹوٹ پڑنا حق بجانب تھا اس ایک تشبیہ سے ماضی اورحال دونوں کا مکمل اندازہ کیا جا سکتا ہے۔!

۸۷

أَمَّا قَوْلُكُمْ أَكُلَّ ذَلِكَ كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ - فَوَاللَّه مَا أُبَالِي - دَخَلْتُ إِلَى الْمَوْتِ أَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ إِلَيَّ - وأَمَّا قَوْلُكُمْ شَكَّاً فِي أَهْلِ الشَّامِ - فَوَاللَّه مَا دَفَعْتُ الْحَرْبَ يَوْماً - إِلَّا وأَنَا أَطْمَعُ أَنْ تَلْحَقَ بِي طَائِفَةٌ فَتَهْتَدِيَ بِي - وتَعْشُوَ إِلَى ضَوْئِي - وذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقْتُلَهَا عَلَى ضَلَالِهَا - وإِنْ كَانَتْ تَبُوءُ بِآثَامِهَا.

(۵۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يصف أصحاب رسول الله وذلك يوم صفين حين أمر الناس بالصلح

ولَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - نَقْتُلُ آبَاءَنَا وأَبْنَاءَنَا وإِخْوَانَنَا وأَعْمَامَنَا - مَا يَزِيدُنَا ذَلِكَ إِلَّا إِيمَاناً وتَسْلِيماً -

تمہارا یہ سوال کہ کیا یہ تاخیر موت کی ناگواری سے ہے تو خدا کی قسم مجھے موت کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں اس کے پاس وارد ہو جائوں یا وہ میری طرف نکل کر آجائے۔اور تمہارا یہ خیال کہ مجھے اہل شام کے باطل کے بارے میں کوئی شک ہے۔تو خدا گواہ ہے کہ میں نے ایک دن بھی جنگ کو نہیں ٹالا ہے مگر اس خیال سے کہ شائد کوئی گروہ مجھ سے ملحق ہو جائے اور ہدایت پاجائے اورمیری روشنی میں اپنی کمزور آنکھوں کا علاج کرلے کہ یہ بات میرے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں اس کی گمراہی کی بنا پر اسے قتل کردوں اگرچہ اس قتل کا گناہ اسی کے ذمہ ہوگا۔

(۵۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اصحاب رسول (ص) کویاد کیا گیا ہے اس وقت جب صفین کے موقع پر آپنے لوگوں کو صلح کا حکم دیا تھا)

ہم(۱) رسول اکرم (ص) کے ساتھ اپنے خاندان کے بزرگ' بچے 'بھائی اور چچائوں کو بھی قتل کردیا کرتے تھے اوراس سے ہمارے ایمان اور جذبہ تسلیم میں اضافہ ہی ہوتا

(۱)حضرت محمد بن ابی بکر شہادت کے بعد معاویہ نے عبداللہ بن عامر حضرمی کو بصرہ میں دوبارہ فساد پھیلانے کے لئے بھیج دیا۔وہاں حضرت کے والی ابن عباس تھے اور وہ محمد کی تعریف کے لئے کوفہ آگئے تھے۔زیاد بن عبید ان کے نائب تھے۔انہوں نے حضرت کو اطلاع دی۔آپ نے بصرہ کے بنی تمیم کا عثمانی رجحان دیکھ کر کوفہ کے بنی تمیم کو مقابلہ پر بھیجنا چاہا لیکن ان لوگوں نے برادری سے جنگ کرنے سے انکار کردیا تو حضرت نے اپنے دور قدیم کا حوالہ دیا کہ اگر رسول اکرم (ص) کے ساتھ ہم لوگ بھی قبائلی تعصب کا شکار ہوگئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔اسلام حق و صداقت کا مذہب ہے اس میں قومی اورقبائلی رجحانات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

۸۸

ومُضِيّاً عَلَى

اللَّقَمِ وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الأَلَمِ وجِدّاً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ - ولَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا والآخَرُ مِنْ عَدُوِّنَا - يَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَيْنِ يَتَخَالَسَانِ أَنْفُسَهُمَا أَيُّهُمَا يَسْقِي صَاحِبَه كَأْسَ الْمَنُونِ - فَمَرَّةً لَنَا مِنْ عَدُوِّنَا ومَرَّةً لِعَدُوِّنَا مِنَّا - فَلَمَّا رَأَى اللَّه صِدْقَنَا أَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْكَبْتَ وأَنْزَلَ عَلَيْنَا النَّصْرَ - حَتَّى اسْتَقَرَّ الإِسْلَامُ مُلْقِياً جِرَانَه ومُتَبَوِّئاً أَوْطَانَه - ولَعَمْرِي لَوْ كُنَّا نَأْتِي مَا أَتَيْتُمْ - مَا قَامَ لِلدِّينِ عَمُودٌ ولَا اخْضَرَّ لِلإِيمَانِ عُودٌ - وايْمُ اللَّه لَتَحْتَلِبُنَّهَا دَماً ولَتُتْبِعُنَّهَا نَدَماً!

(۵۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفة رجل مذموم ثم في فضله هوعليه‌السلام

أَمَّا إِنَّه سَيَظْهَرُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي رَجُلٌ رَحْبُ الْبُلْعُومِ مُنْدَحِقُ الْبَطْنِ يَأْكُلُ مَا يَجِدُ

تھا اور ہم برابر سیدھے راستہ پر بڑھتے ہی جا رہے تھے اور مصیبتوں کی سختیوں پر صبر ہی کرتے جا رہے تھے اور دشمن سے جہاد میں کوششیں ہی کرتے جا رہے تھے۔ہمارا سپاہی دشمن کے سپاہی سے اس طرح مقابلہ کرتا تھا جس طرح مردوں کا مقابلہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں۔اور ہر ایک کو یہی فکر ہو کہ دوسرے کو موت کا جام پلادیں۔پھر کبھی ہم دشمن کو مار لیتے تھے اور کبھی دشمن کو ہم پر غلبہ ہوجاتا تھا۔اس کے بعد جب خدا نے ہماری صداقت(۱) کوآزما لیا تو ہمارے دشمن پر ذلت نازل کردی اورہماری اوپر نصرت کا نزول فرمادیا یہاں تک کہ اسلام سینہ ٹیک کر اپنی جگہ جم گیا اور اپنی منزل پر قائم ہوگیا۔ میری جان کی قسم اگر ہمارا کرداربھی تمہیں جیسا ہوتا تو نہ دین کا کوئی ستون قائم ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی شاخ ہری ہوتی۔خدا کی قسم تم اپنے کرتوت سے دودھ کے بدلے خون دوھوگے اور آخرمیں پچھتائو گے۔

(۵۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایک قابل مذمت شخص کے بارے میں)

آگاہ ہو جائو کہ عنقریب تم پر ایک شخص مسلط ہو گا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا۔جو پاجائے گا کھا جائے گا

(۱)ایک عظیم حقیقت کا اعلان ہےکہ پروردگار اپنے بندوں کی بہر حال مدد کرتا ہے۔اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ'' کان حقا علینا نصر المومنین '' (مومنین کی مدد ہماری ذمہ دری ہے )'' ان الله مع الصابرین '' ( اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) لیکن اس سلسلہ میں اس حقیقت کو بہرحال سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نصرت ایمان کے اظہار کے بعد اوریہ معیت صبر کیے بعد سامنے آتی ہے جب تک انسان اپنے ایمان و صبر کا ثبوت نہیں دیدیتا ہے خدائی امداد کا نزول نہیں ہوتا ہے۔'' ان تصنرو الله ینصر کم '' (اگرتم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔نصرت الٰہی تحفہ نہیں ہے مجاہدات کا انعام ہے۔پہلے مجاہدہ نفس اس کے بعد انعام۔!

۸۹

ويَطْلُبُ مَا لَا يَجِدُ - فَاقْتُلُوه ولَنْ تَقْتُلُوه - أَلَا وإِنَّه سَيَأْمُرُكُمْ بِسَبِّي والْبَرَاءَةِ مِنِّي - فَأَمَّا السَّبُّ فَسُبُّونِي فَإِنَّه لِي زَكَاةٌ ولَكُمْ نَجَاةٌ - وأَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي - فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وسَبَقْتُ إِلَى الإِيمَانِ والْهِجْرَةِ.

(۵۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به الخوارج حين اعتزلوا الحكومة وتنادوا أن لا حكم إلا لله أَصَابَكُمْ حَاصِبٌ ولَا بَقِيَ مِنْكُمْ آثِرٌ أَبَعْدَ إِيمَانِي بِاللَّه،

وجِهَادِي مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - أَشْهَدُ عَلَى نَفْسِي بِالْكُفْرِ - لَالْكُفْرِ( قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وما أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ) - فَأُوبُوا شَرَّ مَآبٍ وارْجِعُوا عَلَى أَثَرِ الأَعْقَابِ أَمَا إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي ذُلاًّ شَامِلًا وسَيْفاً قَاطِعاً - وأَثَرَةً

اور جونہ پائے گا اس کی جستجو میں رہے گا۔تمہاری ذمہ داری ہوگی کہ اسے قتل کردو مگر تم ہر گز قتل نہ کرو گے۔ خیروہ عنقریب تمہیں' مجھے گالیاں دینے اور مجھ سے بیزاری کرنے کا بھی حکم دے گا۔تو اگر گالیوں کی بات ہو تو مجھے برا بھلا کہہ لینا کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سامان ہے اورتمہارے لئے دشمن سے نجات کا۔لیکن خبردار مجھ سے برائت نہ کرنا کہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور میں نے ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی ہے۔

(۵۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کا مخاطب ان خوارج کو بنایا گیا ہے جو تحکیم سے کنارہ کش ہوگئے اور '' لاحکم الا اللہ '' کا نعرہ لگانے لگے)

خدا کرے۔تم پرسخت آندھیاں آئیں اور کوئی تمہارے حال کا اصلاح کرنے والا نہ رہ جائے۔کیا میں پروردگار پر ایمان لانے اور رسول اکرم (ص) کے ساتھ جہاد کرنے کے بعد اپنے بارے میں کفر کا اعلان کردوں۔ایسا کروں گا تو میں گمراہ ہو جائوں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہ جائوں گا۔جائو پلٹ جائو اپنی بدترین منزل کی طرف اور واپس چلے جائو اپنے نشانات قدم پر۔مگرآگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہمہ گیر ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہوگا اور اس طریقۂ کار کا مقابلہ کرنا ہوگا

۹۰

يَتَّخِذُهَا الظَّالِمُونَ فِيكُمْ سُنَّةً.

قال الشريف قولهعليه‌السلام ولا بقي منكم آبر يروى على ثلاثة أوجه:

أحدها أن يكون كما ذكرناه آبر بالراء - من قولهم للذي يأبر النخل أي يصلحه -. ويروى آثر وهو الذي يأثر الحديث ويرويه - أي يحكيه وهو أصح الوجوه عندي - كأنهعليه‌السلام قال لا بقي منكم مخبر -. ويروى آبز بالزاي المعجمة وهو الواثب - والهالك أيضا يقال له آبز

(۵۹)

وقالعليه‌السلام

لما عزم على حرب الخوارج - وقيل له:

إن القوم عبروا جسر النهروان!

مَصَارِعُهُمْ دُونَ النُّطْفَةِ - واللَّه لَا يُفْلِتُ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ ولَا يَهْلِكُ مِنْكُمْ عَشَرَةٌ.

جسے ظالم تمہارے بارے میں اپنی سنت بنالیں گے یعنی ہر چیز کو اپنے لئے مخصوص کرلینا۔

سید رضی : حضرت کا ارشاد 'لا بقی منکم آبر'' تین طریقوں سے نقل کیا گیا ہے:

آبر: وہ شخص جو درخت خرمہ کو کانٹ چھانٹ کر اس کی اصلاح کرتا ہے۔

آثر: روایت کرنے والا۔یعنی تمہاری خبر دینے والا بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔اوریہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

آبر: کودنے والا یا ہلاک ہونے والا کہ مزید ہلاکت کے لئے بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔

(۵۹)

آپ نے اس وقت ارشاد فرمایا

جب آپ نے خوارج سے جنگ کا عزم کرلیا اور نہر وان کے پل کو پار کرلیا

یادرکھو(۱) !دشمنوں کی قتل گاہ دریا کے اس طرف ہے۔خدا کی قسم نہ ان میں کے دس باقی بچیں گے اور نہ تمہارے دس ہلاک ہو سکیں گے ۔

(۱)جب امیر المومنین کو یہ خبردی گئی کہ خوارج نے سارے ملک میں فساد پھیلانا شروع کردیا ہے ۔جناب عبداللہ بن خباب بن الارت کو ان کے گھر کی عورتوں سمیت قتل کردیا ہے اور لوگوں میں مسلسل دہشت پھیلا رہے ہیں تو آپ نے ایک شخص کو سمجھانے کے لئے بھیجا۔ان ظالموں نے اسے بھی قتل کردیا۔اس کے بعد جب حضرت عبداللہ بن خباب کے قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو صاف کہہ دیا کہ ہم سب قاتل ہیں۔اس کے بعد حضرت نے بنفس نفیس توبہ کی دعوت دی لیکن ان لوگوں نے اسے بھی ٹھکرادیا۔آخر ایک دن وہ آگیا جب لوگ ایک لاش کو لے کرآئے اور سوال کیا کہ سرکار اب فرمائیں اب کیا حکم ہے؟ تو آپ نے نعرہ تکبیر بلندکرکے جہاد کا حکم دے دیا اور پروردگار کے دئیے ہوئے علم غیب کی بناپر انجام کار سے بھی با خبر کردیا جو بقول ابن الحدید صد فیصد صحیح ثابت ہوا اور خوارج کے صرف نو افراد بچے اور حضرت کے ساتھیوں میں صرف آٹھ افراد شہید ہوئے۔

۹۱

قال الشريف يعني بالنطفة ماء النهر - وهي أفصح كناية عن الماء وإن كان كثيرا جما - وقد أشرنا إلى ذلك فيما تقدم عند مضي ما أشبهه.

(۶۰)

وقالعليه‌السلام

لما قتل الخوارج فقيل له يا أمير المؤمنين هلك القوم بأجمعهم

كَلَّا واللَّه إِنَّهُمْ نُطَفٌ فِي أَصْلَابِ الرِّجَالِ وقَرَارَاتِ النِّسَاءِ،كُلَّمَا نَجَمَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ - حَتَّى يَكُونَ آخِرُهُمْ لُصُوصاً سَلَّابِينَ.

(۶۱)

وقالعليه‌السلام

لَا تُقَاتِلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِي - فَلَيْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَأَخْطَأَه - كَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَأَدْرَكَه.

قال الشريف - يعني معاوية وأصحابه.

(۶۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما خوف من الغيلة

وإِنَّ عَلَيَّ مِنَ اللَّه جُنَّةً حَصِينَةً -.

سید رضی : نطفہ سے مراد نہر کا شفاف پانی ہے۔جو بہترین کنایہ ہے پانی کے بارے میں چاہے اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو

(۶۰)

آپ نے فرمایا

(اس وقت جب خوارج کے قتل کے بعد لوگوں نے کہا کہ اب تو قوم کاخاتمہ ہوچکا ہے)

ہرگز نہیں۔خدا گواہ ہے کہ یہ ابھی مردوں کے صلب اورعورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں کوئی سر نکالے گا اسے کاٹ دیا جائے گا۔یہاں تک کہ آخرمیں صرف لٹیرے اورچور ہو کر رہ جائیں گے۔

(۶۱)

آپ نے فرمایا

خبر دار میرے بعد خروج کرنے والوں سے جنگ نہ کرنا کہ حق کی طلب میں نکل کر بہک جانے والا اس کا جیسا نہیں ہوتا ہے جو باطل کی تلاش میں نکلے اورحاصل بھی کرلے۔

سید شریف رضی نے فرمایا : یعنی معاویہ اور اس کے پیروکار

(۶۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو اچانک قتل سے ڈرایا گیا )

یاد رکھو میرے لئے خداکی طرف سے ایک مضبوط و مستحکم سپر ہے

۹۲

فَإِذَا جَاءَ يَوْمِي انْفَرَجَتْ عَنِّي وأَسْلَمَتْنِي - فَحِينَئِذٍ لَا يَطِيشُ السَّهْمُ ولَا يَبْرَأُ الْكَلْمُ

(۶۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحذر من فتنة الدنيا

أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا دَارٌ لَا يُسْلَمُ مِنْهَا إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنْجَى بِشَيْءٍ كَانَ لَهَا - ابْتُلِيَ النَّاسُ بِهَا فِتْنَةً - فَمَا أَخَذُوه مِنْهَا لَهَا أُخْرِجُوا مِنْه وحُوسِبُوا عَلَيْه - ومَا أَخَذُوه مِنْهَا لِغَيْرِهَا قَدِمُوا عَلَيْه وأَقَامُوا فِيه - فَإِنَّهَا عِنْدَ ذَوِي الْعُقُولِ كَفَيْءِ الظِّلِّ - بَيْنَا تَرَاه سَابِغاً حَتَّى قَلَصَ وزَائِداً حَتَّى نَقَصَ.

(۶۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في المبادرة إلى صالح الأعمال

فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه وبَادِرُوا آجَالَكُمْ بِأَعْمَالِكُمْ وابْتَاعُوا

اس کے بعد جب میرا دن آجائے گا تو یہ سپر مجھ سے الگ ہوجائےگااور مجھے موت کے حوالے کردے گا۔اس وقت نہ تیر خطاکرےگا اورنہ زخم مندمل ہو سکے گا

(۶۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا کے فتنوں سے ڈرایا گیا ہے)

آگاہ ہوجائو کہ یہ دنیا ایساگھر ہےجس سےسلامتی کاسامان اسی کےاندرسےکیاجاسکتا ہےاورکوئی ایسی شےوسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہےجو دنیا ہی کےلئے ہولوگ اس دنیاکے ذریعہ آزمائےجاتے ہیں جولوگ دنیاکاسامان دنیا ہی کےلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسےچھوڑکرچلےجاتےہیں اورپھرحساب بھی دینا ہوتا ہےاورجولوگ یہاں سےوہاں کےلئےحاصل کرتےہیں وہ وہاں جاکرپالیتےہیں اوراسی میں مقیم ہو جاتے ہیں۔یہ دنیا درحقیقت صاحبان عقل کی نظرمیں ایک سایہ جیسی ہے جودیکھتے دیکھتےسمٹ جاتا ہے اورپھیلتے پھیلتے کم ہو جاتا ہے۔

(۶۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(نیک اعمال کی طرف سبقت کے بارے میں )

بندگان خدا! اللہ سے ڈرو اور اعمال کے ساتھ اجل(۱) کی طرف سبقت کرو۔اس دنیا کے فانی مال کے

(۱)انسان کے قدم موت کی طرف بلا اختیاربڑھتے جا رہے ہیں اور اسے اس امر کا احساس ا بھی نہیں ہوتا ہے نتیجہ یہ ہتا ہے کہ ایک دن موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور دائمی خسارہ اورعذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے لہٰذا تقاضائے عقل و دانش یہی ہے کہ اعمال کو ساتھ لے کر آگے بڑھے گاتا کہ جب موت کا سامانا ہوتواعمال کا سہارا رہے اورعذاب الیم سے نجات حاصل کرنے کا وسیلہ ہاتھ میں رہے۔

۹۳

مَا يَبْقَى لَكُمْ بِمَا يَزُولُ عَنْكُمْ وتَرَحَّلُوا فَقَدْ جُدَّ بِكُمْ واسْتَعِدُّوا لِلْمَوْتِ فَقَدْ أَظَلَّكُمْ وكُونُوا قَوْماً صِيحَ بِهِمْ فَانْتَبَهُوا - وعَلِمُوا أَنَّ الدُّنْيَا لَيْسَتْ لَهُمْ بِدَارٍ فَاسْتَبْدَلُوا - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يَتْرُكْكُمْ سُدًى ومَا بَيْنَ أَحَدِكُمْ وبَيْنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ - إِلَّا الْمَوْتُ أَنْ يَنْزِلَ بِه - وإِنَّ غَايَةً تَنْقُصُهَا اللَّحْظَةُ وتَهْدِمُهَا السَّاعَةُ - لَجَدِيرَةٌ بِقِصَرِ الْمُدَّةِ - وإِنَّ غَائِباً يَحْدُوه الْجَدِيدَانِ - اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَحَرِيٌّ بِسُرْعَةِ الأَوْبَةِ وإِنَّ قَادِماً يَقْدُمُ بِالْفَوْزِ أَوِ الشِّقْوَةِ - لَمُسْتَحِقٌّ لأَفْضَلِ الْعُدَّةِ - فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا - مَا تَحْرُزُونَ بِه أَنْفُسَكُمْ غَداً فَاتَّقَى عَبْدٌ رَبَّه نَصَحَ نَفْسَه وقَدَّمَ تَوْبَتَه وغَلَبَ شَهْوَتَه - فَإِنَّ أَجَلَه مَسْتُورٌ عَنْه وأَمَلَه خَادِعٌ لَه - والشَّيْطَانُ مُوَكَّلٌ بِه يُزَيِّنُ لَه الْمَعْصِيَةَ لِيَرْكَبَهَا - ويُمَنِّيه التَّوْبَةَ لِيُسَوِّفَهَا

ذریعہ باقی رہنے والی آخرت کو خرید لو اور یہاں سے کوچ کر جائو کہ تمہیں تیزی سے لیجا یا جا رہا ہے اور موت کے لئے آمادہ ہوجائو کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے اس قوم جیسے ہو جائو جیسے پکارا گیا تو فورا ہوشیار ہوگئی۔اوراس نے جان لیا کہ دنیا اس کی منزل نہیں ہے تو اسے آخرت سے بدل لیا۔اس لئے کہ پروردگار نے تمہیں بیکارنہیں پیداکیا اور نہ مہمل چھوڑ دیا ہے اور یاد رکھو کہ تمہارے اور جنت و جہنم کے درمیان اتنا ہی وقفہ ہے کہ موت نازل ہو جائے اور انجام سامنے آجائے اور وہ مدت حیات جیسے ہر لحظہ کم کر رہا ہو اور ہر ساعت اس کی عمارت کو منہدم کر رہی ہو وہ قصیر المدة ہی سمجھنے کا لائق ہے اور وہ موت جسے دن و رات ڈھکیل کر آگے لا رہے ہوں اسے بہت جلد آنے والا ہی خیال کرنا چاہیے اور وہ شخص جس کے سامنے کامیابی یا ناکامی اوربد بختی آنے والی ہے اسے بہترین سامان مہیا ہی کرنا چاہیے۔لہٰذا تم دنیا میں رہ کر دنیا سے زاد راہ حاصل کر لو جس سے کل اپنے نفس کاتحفظ کرس کو۔اس کا راستہ یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے ڈرے۔اپنے نفس سے اخلاص رکھتے ' توبہ کو مقدم کرے۔خواہشات پر غلبہ حاصل کرے اس لئے کہ اس کی اجل اس سے پوشیدہ ہے اور اس کی خواہش اسے مسلسل دھوکہ دینے والی ہے اور شیطان اس کے سر پر سوار ہے جو معصیتوں کو آراستہ کر رہا ہے تاکہ انسان مرتکب ہو جائے اور توبہ کی امیدیں دلاتا ہے تاکہ اس میں تاخیر کرے یہاں تک کہ غفلت اور بے خبری کے عالم میں موت اس پر

۹۴

إِذَا هَجَمَتْ مَنِيَّتُه عَلَيْه أَغْفَلَ مَا يَكُونُ عَنْهَا - فَيَا لَهَا حَسْرَةً عَلَى كُلِّ ذِي غَفْلَةٍ أَنْ يَكُونَ عُمُرُه عَلَيْه حُجَّةً - وأَنْ تُؤَدِّيَه أَيَّامُه إِلَى الشِّقْوَةِ - نَسْأَلُ اللَّه سُبْحَانَه - أَنْ يَجْعَلَنَا وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ لَا تُبْطِرُه نِعْمَةٌ ولَا تُقَصِّرُ بِه عَنْ طَاعَةِ رَبِّه غَايَةٌ - ولَا تَحُلُّ بِه بَعْدَ الْمَوْتِ نَدَامَةٌ ولَا كَآبَةٌ.

(۶۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها مباحث لطيفة من العلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ تَسْبِقْ لَه حَالٌ حَالًا - فَيَكُونَ أَوَّلًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ آخِراً - ويَكُونَ ظَاهِراً قَبْلَ أَنْ يَكُونَ بَاطِناً - كُلُّ مُسَمًّى بِالْوَحْدَةِ غَيْرَه قَلِيلٌ - وكُلُّ عَزِيزٍ غَيْرَه ذَلِيلٌ وكُلُّ قَوِيٍّ غَيْرَه ضَعِيفٌ - وكُلُّ مَالِكٍ غَيْرَه مَمْلُوكٌ وكُلُّ عَالِمٍ غَيْرَه مُتَعَلِّمٌ - وكُلُّ قَادِرٍ غَيْرَه يَقْدِرُ ويَعْجَزُ - وكُلُّ سَمِيعٍ غَيْرَه يَصَمُّ

حملہ آور ہوجاتی ہے۔ ہائے کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ انسان کی عمر ہی اس کے خلاف حجت بن جائے اور اس کا روز گار ہی اسے بدبختی تک پہنچادے۔پروردگار سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں قرار دے جنہیں نعمتیں مغرور نہیں بناتی ہیں اور کوئی مقصد اطاعت خدا میں کوتاہی پرآمادہ نہیں کرتا ہے اور موت کے بعد ان پر ندامت اور رنج و غم کا نزول نہیں ہوتا ہے۔

(۶۵)

(جس میں علم الٰہی کے لطیف ترین مباحث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)

تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس کے صفات میں تقدم(۱) و تاخرنہیں ہوتا ہے کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اول رہا ہو اور باطن بننے سے پہلے ظاہر رہا ہو۔اس کے علاوہ جسے بھی واحد کہا جاتا ہے اس کی وحدت قلت ہے اور جسے بھی عزیز سمجھا جاتا ہے ہے اس کی عزت ذلت ہے۔اس کے سامنے ہر قوی ضعیف ہے اور ہر مالک مملوک ہے' ہر عالم متعلم ہے اور ہر قادر عاجز ہے' ہر سننے والا لطیف آوازوں کے لئے بہرہ ہے اور اونچی آوازیں بھی اسے بہرہ بنا دیتی ہیں

(۱)یہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار کے صفات کمال عین ذات ہیں اور ذات سے الگ کوئی شے نہیں ہیں۔وہ علم کی وجہ سے عالم نہیں ہے۔بلکہ عین حقیقت علم ہے اور قدرت کے ذریعہ قادر نہیں ہے بلکہ عین قدرت کاملہ ہے اور جب یہ سارے صفات عین ذات ہیں تو ان میں تقدم و تاخر کا کوئی سوال ہی نہیں ہے وہ جس لحظہ اول ہے اسی لحظہ آخر بھی ہے اور جس اندازسے ظاہر ہے اسی اندازسے باطن بھی ہے۔اس کی ذات اقدس میں کسی طرح کا تغیر قابل تصور نہیں ہے حدیہ ہے کہ اس کی سماعت و بصارت بھی مخلوقات کی سماعت و بصارت سے بالکل الگ ہے۔دنیا کا ہر سمیع و بصیر کسی شے کو دیکھتا اور سنتا ہے اور کسی شے کے دیکھنے اورسننے سے قاصر رہتا ہے لیکن پروردگار کی ذات اقدس ایسی نہیں ہے وہ مخفی ترین مناظر ک دیکھ رہا ہے اور لطیف ترین آوازوں کو سن رہا ہے ۔وہ ایسا ظاہر ہے جو باطن نہیں ہے اور ایسا باطن ہے جو کسی عقل و فہم پرظاہر نہیں ہو سکتا ہے۔!

۹۵

عَنْ لَطِيفِ الأَصْوَاتِ - ويُصِمُّه كَبِيرُهَا ويَذْهَبُ عَنْه مَا بَعُدَ مِنْهَا - وكُلُّ بَصِيرٍ غَيْرَه يَعْمَى عَنْ خَفِيِّ الأَلْوَانِ ولَطِيفِ الأَجْسَامِ - وكُلُّ ظَاهِرٍ غَيْرَه بَاطِنٌ وكُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَه غَيْرُ ظَاهِرٍ - لَمْ يَخْلُقْ مَا خَلَقَه لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ - ولَا تَخَوُّفٍ مِنْ عَوَاقِبِ زَمَانٍ - ولَا اسْتِعَانَةٍ عَلَى نِدٍّ مُثَاوِرٍ ولَا شَرِيكٍ مُكَاثِرٍ ولَا ضِدٍّ مُنَافِرٍ ولَكِنْ خَلَائِقُ مَرْبُوبُونَ وعِبَادٌ دَاخِرُونَلَمْ يَحْلُلْ فِي الأَشْيَاءِ فَيُقَالَ هُوَ كَائِنٌ - ولَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ لَمْ يَؤُدْه خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ - ولَا تَدْبِيرُ مَا ذَرَأَ ولَا وَقَفَ بِه عَجْزٌ عَمَّا خَلَقَ - ولَا وَلَجَتْ عَلَيْه شُبْهَةٌ فِيمَا قَضَى وقَدَّرَ - بَلْ قَضَاءٌ مُتْقَنٌ وعِلْمٌ مُحْكَمٌ - وأَمْرٌ مُبْرَمٌ الْمَأْمُولُ مَعَ النِّقَمِ - الْمَرْهُوبُ مَعَ النِّعَمِ!

اور دور کی آوازیں بھی اس کی حد سے باہر نکل جاتی ہیں اور اس طرح اس کے علاوہ ہر دیکھنے والا مخفی رنگ اور لطیف جسم کو نہیں دیکھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہر ظاہر غیر باطن ہے اور ہر باطن غیر ظاہر ۔اس نے مخلوقات کو اپنی حکومت کے استحکام یا زمانہ کے نتائج کے خوف سے نہیں پیدا کیا ہے۔نہ اسے کسی برابر والے حملہ آور یا صاحب کثرت شریک یا ٹکرانیوالے مد مقابل کے مقابلہ میں مدد لینا تھی۔ یہ ساری مخلوق اسی کی پیدا کی ہوئی اورپالی ہوئی ہے اور یہ سارے بندے اسی کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔اس نے اشیاء میں حلول نہیں کیا ہے کہ اسے کسی کے اندر سمایا ہوا کہا جائے اور نہ اتنا دور ہوگیا ہے کہ الگ تھلگ خیال کیا جائے۔مخلوقات کی خلقت اورمصنوعات کی تدبیر اسے تھکا نہیں سکتی ہے اور نہ کوئی تخلیق اسے عاجز بنا سکتی ہے اور نہ کسی قضاو قدر میں اسے کوئی شبہ پیدا ہو سکتا ہے۔اس کا ہر فیصلہ محکم اوراس کا ہر علم متقن اور اس کا ہر حکم مستحکم ہے۔ناراضگی میں بھی اس سے امید وابستہ کی جاتی ہے اورنعمتوں میں بھی اس کا خوف لاحق رہتا ہے۔

۹۶

(۶۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في تعليم الحرب والمقاتلة

والمشهور أنه قاله لأصحابه ليلة الهرير أو أول اللقاء بصفين

مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ اسْتَشْعِرُوا الْخَشْيَةَ وتَجَلْبَبُوا السَّكِينَةَ وعَضُّوا عَلَى النَّوَاجِذِ فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ وأَكْمِلُوا اللأْمَةَ وقَلْقِلُوا السُّيُوفَ فِي أَغْمَادِهَا قَبْلَ سَلِّهَا - والْحَظُوا الْخَزْرَ واطْعُنُوا الشَّزْرَ ونَافِحُوا بِالظُّبَى وصِلُوا السُّيُوفَ بِالْخُطَا واعْلَمُوا أَنَّكُمْ بِعَيْنِ اللَّه ومَعَ ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللَّه - فَعَاوِدُوا الْكَرَّ واسْتَحْيُوا مِنَ الْفَرِّ فَإِنَّه عَارٌ فِي الأَعْقَابِ ونَارٌ يَوْمَ الْحِسَابِ - وطِيبُوا عَنْ أَنْفُسِكُمْ نَفْساً - وامْشُوا إِلَى الْمَوْتِ مَشْياً سُجُحاً وعَلَيْكُمْ بِهَذَا السَّوَادِ الأَعْظَمِ والرِّوَاقِ الْمُطَنَّبِ فَاضْرِبُوا ثَبَجَه فَإِنَّ الشَّيْطَانَ كَامِنٌ فِي كِسْرِه

(۶۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(تعلیم جنگ کے بارے میں )

مسلمانو!خوف(۱) خداکو اپنا شعار بنائو۔سکون و وقار کی چادر اوڑھ لو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سروں سے اچٹ جاتی ہیں۔زرہ پوشی کو مکمل کرلو۔تلواروں کو نیام سے نکالنے سے پہلے نیام کے اندرحرکت دے لو۔دشمن کو ترچھی نظر سے دیکھتے رہو اور نیزوں سے دونوں طرف وار کرتے رہو۔اسے اپنی تلواروں کی باڑھ پر رکھو اور تلواروں کے حملے قدم آگے بڑھا کرکرو اوریہ یاد رکھو کہ تم پروردگار کی نگا ہ میں اور رسول اکرم (ص) کے ابن عم کے ساتھ ہو ۔دشمن پر مسلسل حملے کرتے رہو اور فرار سے شرم کرو کہ اس کا عار نسلوں میں رہ جاتا ہے اوراس کا انجام جہنم ہوتا ہے۔اپنے نفس کو ہنسی خوشی خدا کے حوالے کردو اور موت کی طرف نہایت درجہ سکون و اطمینان سے قدم آگے بڑھائو۔تمہارا نشانہ ایک دشمن کا عظیم لشکراورطناب دار خیمہ ہونا چاہیے کہ اسی کے وسط پرحملہ کرو کہ شیطان اسی کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا

(۱)ان تعلیمات پرسنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ایک مرد مسلم کے جہاد کا انداز کیا ہونا چاہیے اوراسے دشمن کے مقابلہ میں کس طرح جنگ آزما ہونا چاہیے۔ان تعلیمات کا مختصرخلاصہ یہ ہے:۔ ۱۔دل کے اندر خوف خدا ہو'۲۔باہر سکون و اطمینان کا مظاہر ہو' ۳۔دانتوں کو بھینچ لیا جائے'۴۔آلات جنگ کو مکمل طورپر ساتھ رکھا جائے' ۵۔تلوار کو نیام کے اندرحرکت دے لی جائے کہ بر وقت نکالنے میں زحمت نہ ہو'۶۔دشمن پر غیط آلود نگاہ کی جائے ' ۷۔نیزوں کے حملے ہر طرف ہوں'۸۔تلوار دشمن کے سامنے رہے '۹۔تلوار دشمن تک نہ پہنچے توقدم بڑھاکرحملہ کرے' ۱۰۔فرار کا ارادہ نہ کرے ' ۱۱۔موت کی طرف سکون کے ساتھ قدم بڑھائے'۱۲۔جان جان آفریں کے حوالے کردے' ۱۳۔ہدف اورنشانہ پرنگاہ رکھے '۱۴۔یہ اطمینان رکھے کہ خدا ہمارے اعمال کودیکھ رہا ہے اور پیغمبر (ص) کا بھائی ہماری نگاہ کے سامنے ہے۔

ظاہر ہے کہ ان آداب میں بعض آداب ' تقویٰ ' ایمان وغیرہ دائمی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض کا تعلق نیزہ و شمشیر کے دور سے ہے لیکن اسے بھی ہردور کے آلات حرب و ضرب پرمنطبق کیاجاسکتا ہے اور اس سے فادئہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

۹۷

وقَدْ قَدَّمَ لِلْوَثْبَةِ يَداً وأَخَّرَ لِلنُّكُوصِ رِجْلًا - فَصَمْداً صَمْداً حَتَّى يَنْجَلِيَ لَكُمْ عَمُودُ الْحَقِّ –( وأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ والله مَعَكُمْ ولَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ )

(۶۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قالوا لما انتهت إلى أمير المؤمنينعليه‌السلام أنباء السقيفة بعد وفاة رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالعليه‌السلام :ما قالت الأنصار قالوا قالت منا أمير ومنكم أمير قالعليه‌السلام :

فَهَلَّا احْتَجَجْتُمْ عَلَيْهِمْ - بِأَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَصَّى بِأَنْ يُحْسَنَ إِلَى مُحْسِنِهِمْ - ويُتَجَاوَزَ عَنْ مُسِيئِهِمْ؟

قَالُوا ومَا فِي هَذَا مِنَ الْحُجَّةِ عَلَيْهِمْ؟

ہے۔اس کا حال یہ ہے کہ اس نے ایک قدم حملہ کے لئے آگے بڑھا رکھا ہے۔اور ایک بھاگنے کے لئے پیچھے کر رکھا ہے لہٰذا تم مضبوطی سے اپنے ارادہ پرجمے رہو یہاں تک کہ حق صبح کے اجالے کی طرح واضح ہو جائے اور مطمئن ہو کر بلندی تمہارا حصہ ہے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کر سکتا ہے۔

(۶۷)

آپ کا ارشاد گرامی

جب رسول اکرم (ص)کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ(۱) کی خبریں پہنچیں اور آپ نے پوچھا کہ انصار نے کیا احتجاج کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہمارا ہوگا اور ایک تمہارا۔تو آپ نے فرمایا:۔

تم لوگوں نے ان کے خلاف یہ استدلال کیوں نہیں کیا کہ رسول اکرم (ص) نے تمہارے نیک کرداروں کے ساتھ حسن سلوک اور خطا کاروں سے در گزر کرنے کی وصیت فرمائی ہے ؟

لوگوں نے کہا کہ اس میں کیا استد لال ہے؟

(۱)استاد احمد حسن یعقوب نے کتاب نظریہ عدالت صحابہ میں ایک مفصل بحث کی ہے کہ سقیفہ میں کوئی قانونی اجتماع انتخاب خلیفہ کے لئے نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی اس کا ایجنڈہ تھا اورنہ سوا لاکھ صحابہ کی بستی میں سے دس بیس ہزار افراد جمع ہوئے تھے بلکہ سعد بن عبادہ کی بیماری کی بناپر انصارعیادت کے لئے جمع ہوئے تھے اوربعض مہاجرین نے اس اجتماع کودیکھ کر یہ محسوس کیا کہ کہیں خلافت کا فیصلہ نہ ہوجائے' تو بر وقت پہنچ کر اس قدر ہنگامہ کیا کہ انصار میں پھوٹ پڑ گئی اور فی الفور حضرت ابو بکر کی خلافت کا اعلان کردیا اور ساری کاروائی لمحوں میں یوں مکمل ہوگئی کہ سعد بن عبادہ کو پامال کردیا گیا اور حضرت ابو بکر ''تاج خلافت ''سر پر رکھے ہوئے سقیفہ سے برآمد ہوگئے۔اس شان سے کہ اس عظیم مہم کی بنا پرجنازۂ رسول میں شرکت سے بھی محروم ہوگئے اورخلافت کا پہلا اثر سامنے آگیا۔

۹۸

فَقَالَعليه‌السلام :

لَوْ كَانَ الإِمَامَةُ فِيهِمْ لَمْ تَكُنِ الْوَصِيَّةُ بِهِمْ.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام :

فَمَا ذَا قَالَتْ قُرَيْشٌ - قَالُوا احْتَجَّتْ بِأَنَّهَا شَجَرَةُ الرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَقَالَعليه‌السلام احْتَجُّوا بِالشَّجَرَةِ وأَضَاعُوا الثَّمَرَةَ.

(۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما قلد محمد بن أبي بكر مصر فملكت عليه وقتل

وقَدْ أَرَدْتُ تَوْلِيَةَ مِصْرَ هَاشِمَ بْنَ عُتْبَةَ - ولَوْ وَلَّيْتُه إِيَّاهَا لَمَّا خَلَّى لَهُمُ الْعَرْصَةَولَا أَنْهَزَهُمُ الْفُرْصَةَ بِلَا ذَمٍّ لِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ - فَلَقَدْ كَانَ إِلَيَّ حَبِيباً وكَانَ لِي رَبِيباً.

فرمایاکہ اگر امارت ان کا حصہ ہوتی تو ان سے وصیت کی جاتی نہ کہ ان کے بارے میں وصیت کی جاتی ۔اس کے بعد آپ نے سوال کیا کہ قریش کی دلیل کیا تھی؟ لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے کو رسول اکرم (ص) کے شجرہ میں ثابت کر رہے تھے۔فرمایا کہ افسوس شجرہ سے استدلال کیا اورثمرہ کو ضائع کردیا

(۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے محمدبن ابی بکر کو مصر کی ذمہ داری حوالہ کی اور انہیں قتل کردیا گیا)

میرا ارادہ تھا کہ مصر کاحاکم ہاشم بن(۱) عتبہ کو بنائوں اور اگر انہیں بنا دیتا تو ہرگزمیدان کو مخالفین کے لئے خالی نہ چھوڑتے اور انہیں موقع سے فائدہ نہ اٹھانے دیتے ( لیکن حالات نے ایسا نہ کرنے دیا)

اس بیان کا مقصد محمد بن ابی بکر کی مذمت نہیں ہے اس لئے کہ وہ مجھے عزیز تھا اور میرا ہی پروردہ(۲) تھا۔

(۱)ہاشم بن عتبہ صفین میں عملدارلشکر امیر المومنین تھے۔مرقال ان کا لقب تھا کہ نہایت تیز رفتاری اورچابکدستی سے حملہ کرتے تھے۔

(۲)محمد بن ابی بکر اسما بنت عمیس کے بطن سے تھے۔جو پہلے جناب جعفر طیارکی زوجہ تھیں اور ان سے عبداللہ بن جعفر پیدا ہوئے تھے اس کے بعد ان کی شہادت کے بعد ابو بکر کی زوجیت میں آگئیں جن سے محمد پیدا ہوئے اور ان کی وفات کے بعد مولائے کائنات کی زوجیت میں آئیں اور محمد نے آپ کے زیر اثر تربیت پائی یہ اوربات ہے کہ جب عمرو عاص نے چار ہزار کے لشکرکے ساتھ مصر پرحملہ کیا تو اپنے آبائی اصول جنگ کی بنا پرمیدان سے فرار اختیار کیا اور بالآخر قتل ہوگئے اورلاش کو گدھے کی کھال میں رکھ کرجلا دیا گیا یا بروایتے زندہ ہی جلادئیے گئے اور معاویہ نے اس خبرکوسن کر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ (مروج الذہب)

امیر المومنین نے اس موقع پر ہاشم کو اسی لئے یاد کیاتھا کہ وہ میدان سے فرار نہ کر سکتے تھے اور کسی گھر کے اندر پناہ لینے کا ارادہ بھی نہیں کر سکتے تھے ۔

۹۹

(۶۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في توبيخ بعض أصحابه

كَمْ أُدَارِيكُمْ كَمَا تُدَارَى الْبِكَارُ الْعَمِدَةُ والثِّيَابُ الْمُتَدَاعِيَةُ !كُلَّمَا حِيصَتْ مِنْ جَانِبٍ تَهَتَّكَتْ مِنْ آخَرَ - كُلَّمَا أَطَلَّ عَلَيْكُمْ مَنْسِرٌ مِنْ مَنَاسِرِ أَهْلِ الشَّامِ - أَغْلَقَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بَابَه - وانْجَحَرَ انْجِحَارَ الضَّبَّةِ فِي جُحْرِهَا والضَّبُعِ فِي وِجَارِهَا الذَّلِيلُ واللَّه مَنْ نَصَرْتُمُوه - ومَنْ رُمِيَ بِكُمْ فَقَدْ رُمِيَ بِأَفْوَقَ نَاصِلٍ إِنَّكُمْ واللَّه لَكَثِيرٌ فِي الْبَاحَاتِ قَلِيلٌ تَحْتَ الرَّايَاتِ - وإِنِّي لَعَالِمٌ بِمَا يُصْلِحُكُمْ ويُقِيمُ أَوَدَكُمْ ولَكِنِّي لَا أَرَى إِصْلَاحَكُمْ بِإِفْسَادِ نَفْسِي - أَضْرَعَ اللَّه خُدُودَكُمْ وأَتْعَسَ جُدُودَكُمْ لَا تَعْرِفُونَ الْحَقَّ كَمَعْرِفَتِكُمُ الْبَاطِلَ - ولَا تُبْطِلُونَ الْبَاطِلَ كَإِبْطَالِكُمُ الْحَقَّ!

(۶۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو سر زنش کرتے ہوئے)

کب تک میں تمہارے ساتھ وہ نرمی کا برتائو کروں جو بیمار اونٹ کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کا کوہان اندر سے کھوکھلا ہوگیا ہو یا اس بوسیدہ کپڑے کے ساتھ کیا جاتا ہے جسے ایک طرف سے سیا جائے تو دوسری طرف سے پھٹ جاتا ہے۔ جب بھی شام کا کوئی دستہ تمہارے کسی دستہ کے سامنے آتا ہے تو تم میں س ے ہر شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیتاہے اور اس طرح چھپ جاتا ہے جیسے سوراخ میں گوہ یا بھٹ میں بجو۔ خدا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مدد گار ہوں گے اور جو تمہارے ذریعہ تیر اندازی کرے گا گویا وہ سو فار شکستہ اورپیکان نداشتہ تیرے نشانہ لگائے گا۔خدا کی قسم تم صحن خانہ میں بہت دکھائی دیتے ہواور پرچم لشکرکے زیر سایہ بہت کم نظرآتے ہو۔میں تمہاری اصلاح کا طریقہ جانتا ہوں اور تمہیں سیدھا کر سکتا ہوں لیکن کیا کروں اپنے دین کو برباد کرکے تمہاری اصلاح نہیں کرنا چاہتا ہوں۔خدا تمہارے چہروں کو ذلیل کرے اور تمہارے نصیب کو بد نصیب کرے۔تم حق کو اس طرح نہیں پہچانتے ہو جس طرح باطل کی معرفت رکھتے ہو اور باطل کو اس طرح باطل نہیں قراردیتے ہو جس طرح حق کو غلط ٹھہراتے ہو۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

فَيَنْحَتُّ مِنْ قَصَبِه انْحِتَاتَ أَوْرَاقِ الأَغْصَانِ - ثُمَّ يَتَلَاحَقُ نَامِياً حَتَّى يَعُودَ كَهَيْئَتِه قَبْلَ سُقُوطِه - لَا يُخَالِفُ سَالِفَ أَلْوَانِه - ولَا يَقَعُ لَوْنٌ فِي غَيْرِ مَكَانِه - وإِذَا تَصَفَّحْتَ شَعْرَةً مِنْ شَعَرَاتِ قَصَبِه - أَرَتْكَ حُمْرَةً وَرْدِيَّةً وتَارَةً خُضْرَةً زَبَرْجَدِيَّةً - وأَحْيَاناً صُفْرَةً عَسْجَدِيَّةً - فَكَيْفَ تَصِلُ إِلَى صِفَةِ هَذَا عَمَائِقُ الْفِطَنِ - أَوْ تَبْلُغُه قَرَائِحُ الْعُقُولِ - أَوْ تَسْتَنْظِمُ وَصْفَه أَقْوَالُ الْوَاصِفِينَ!وأَقَلُّ أَجْزَائِه قَدْ أَعْجَزَ الأَوْهَامَ أَنْ تُدْرِكَه - والأَلْسِنَةَ أَنْ تَصِفَه - فَسُبْحَانَ الَّذِي بَهَرَ الْعُقُولَ عَنْ وَصْفِ خَلْقٍ جَلَّاه لِلْعُيُونِ - فَأَدْرَكَتْه مَحْدُوداً مُكَوَّناً ومُؤَلَّفاً مُلَوَّناً - وأَعْجَزَ الأَلْسُنَ عَنْ تَلْخِيصِ صِفَتِه - وقَعَدَ بِهَا عَنْ تَأْدِيَةِ نَعْتِه!

صغار المخلوقات

وسُبْحَانَ مَنْ أَدْمَجَ قَوَائِمَ الذَّرَّةِ - والْهَمَجَةِ إِلَى مَا فَوْقَهُمَا مِنْ خَلْقِ الْحِيتَانِ والْفِيَلَةِ - ووَأَى عَلَى نَفْسِه أَلَّا يَضْطَرِبَ شَبَحٌ مِمَّا أَوْلَجَ فِيه الرُّوحَ -

یہ بال و پر اس طرح گرتے ہیں جیسے درخت کی شاخوں سے پتے گرتے ہیں اور پھر دوبارہ یوں اگ آتے ہیںکہ بالکل پہلے جیسے ہو جاتے ہیں ۔نہ پرانے رنگوں سے کوئی مختلف رنگ ہوتا ہے اور نہ کسی رنگ کی جگہ تبدیل ہوتی ہے۔بلکہ اگر تم اس کے ریشوں میں کسی ایک ریشہ پر بھی غور کرو گے تو تمہیں کبھی گلاب کی سرخی نظر آئے گی اور کبھی زمرد کی سبزی اور پھر کبھی سونے کی زردی۔بھلا اس تخلیق کی توصیف تک فکروں کی گہرائیاں کس طرح پہنچ سکتی ہیں اور ان دقائق کو عقل کی جودت کس طرح پا سکتی ہے یا تو صیف کرنے والے اس کے اوصاف کو کس طرح مرتب کر سکتے ہیں۔

جب کہ اس کے چھوٹے سے ایک جزء نے اوہام کو وہاں تک رسائی سے عاجز کردیا ہے اور زبانوں کی اس کی توصیف سے درماندہ کردیا ہے۔

پاک و بے نیاز ہے وہ مالک جس نے عقلوں کو متحیر کردیا ہے اس ایک مخلوق کی توصیف سے جسے نگاہوں کے سامنے واضح کردیا ہے اور نگاہوں نے اسے محدود اور مرتب و مرکب و ملون شکل میں دیکھ لیا ہے اور پھر زبان کو بھی اس کی صفت کا خلاصہ بیان کرنے اوراس کی تعریف کا حق ادا کرنے سے عاجز کردیا۔

اور پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے چیونٹی اور مچھر سے لے کر ان سے بڑی مچھلیوں اور ہاتھیوں تک کے پیروں کو مضبوط و مستحکم بنایا ہے اور اپنے لئے لازم قرار دے لیا ہے کہ کوئی ذی روح ڈھانچہ حرکت نہیں کر ے گا

۳۰۱

إِلَّا وجَعَلَ الْحِمَامَ مَوْعِدَه والْفَنَاءَ غَايَتَه.

منها في صفة الجنة

فَلَوْ رَمَيْتَ بِبَصَرِ قَلْبِكَ نَحْوَ مَا يُوصَفُ لَكَ مِنْهَا - لَعَزَفَتْ نَفْسُكَ عَنْ بَدَائِعِ مَا أُخْرِجَ إِلَى الدُّنْيَا - مِنْ شَهَوَاتِهَا ولَذَّاتِهَا وزَخَارِفِ مَنَاظِرِهَا - ولَذَهِلَتْ بِالْفِكْرِ فِي اصْطِفَاقِ أَشْجَارٍ - غُيِّبَتْ عُرُوقُهَا فِي كُثْبَانِ الْمِسْكِ عَلَى سَوَاحِلِ أَنْهَارِهَا - وفِي تَعْلِيقِ كَبَائِسِ اللُّؤْلُؤِ الرَّطْبِ فِي عَسَالِيجِهَا وأَفْنَانِهَا - وطُلُوعِ تِلْكَ الثِّمَارِ مُخْتَلِفَةً فِي غُلُفِ أَكْمَامِهَا - تُجْنَى مِنْ غَيْرِ تَكَلُّفٍ فَتَأْتِي عَلَى مُنْيَةِ مُجْتَنِيهَا - ويُطَافُ عَلَى نُزَّالِهَا فِي أَفْنِيَةِ قُصُورِهَا - بِالأَعْسَالِ الْمُصَفَّقَةِ والْخُمُورِ الْمُرَوَّقَةِ - قَوْمٌ لَمْ تَزَلِ الْكَرَامَةُ تَتَمَادَى بِهِمْ - حَتَّى حَلُّوا دَارَ الْقَرَارِ وأَمِنُوا نُقْلَةَ الأَسْفَارِ - فَلَوْ شَغَلْتَ قَلْبَكَ أَيُّهَا الْمُسْتَمِعُ - بِالْوُصُولِ إِلَى مَا يَهْجُمُ عَلَيْكَ مِنْ تِلْكَ الْمَنَاظِرِ الْمُونِقَةِ - لَزَهِقَتْ نَفْسُكَ شَوْقاً إِلَيْهَا -

مگر یہ کہ اس کی اصلی وعدہ گاہ موت(۱) ہوگی اور اس کا انجام کا رفنا ہوگا۔

اب اگر تم ان بیانات پر دل کی نگاہوں سے نظر ڈالو گے تو تمہارا نفس دنیا کی تمام شہوتوں ۔لذتوں اور زینتوں سے بیزار ہو جائے گا اور تمہاری فکر ان درختوں کے پتوں کی کھڑ کھڑاہٹ میں گم ہو جائے گی جن کی جڑیں ساحل دریا پر مشک کے ٹیلوں میں ڈوبی ہوئی ہیں اور ان ترو تازہ موتیوں کے گچھوں کے لٹکنے اور سبز پتیوں کے غلافوں میں مختلف قسم کے پھلوں کے نکلنے کے نظاروں میں گم ہو جائے گی جنہیں بغیر کسی زحمت کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور وہاں وارد ہونے والوں کے گرد محلوں کے آنگنوں میں صاف و شفاف شہد اورپاک و پاکیزہ شراب کے دور چل رہے ہوں گے۔وہاں وہ قوم ہوگی جس کی کرامتوں نے اسے کھینچ کر ہمیشگی کی منزل تک پہنچا دیا ہے اور انہیں سفر کی مزید زحمت سے محفوظ کردیا ہے۔اسے میری گفتگو سننے والو! اگر تم لوگ اپنے دلوں کو مشغول کرلو اس منزل تک پہنچنے کے لئے جہاں یہ دلکش نظارے پائے جاتے ہیں تو تمہاری جان اشتیاق کے مارے از خود نکل جائے گی

(۱) کیا عبرت ناک ہے یہ زندگی ایک طرف راحتیں ،لذتیں ، آرائشیں، زیبائشیںہیں اور دوسری طرف موت کا بھیانک چہرہ! انسان ایک نظر اسآرائش وزیبائش کی طرف کتا ہے اور دوسری نظر اس کے انجام کارکی طرف۔بالکل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک طرف مور کے پر ہیں اور دوسری طرف پیر۔پروں کو دیکھ کر غرور پیدا ہوتا ہے اور پیروں کو دیکھ کر اوقات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

انسان اپنی زندگی کے حقائق پرنظر کرے تو اسے اندازہ ہوگا کہ اس کی پوری حیات ایک مور کی زندگی ہے جہاں ایک طرف راحت و آرام ، آرائش و زیبائش کا ہنگامہ ہے اور دوسری طرف موت کا بھیانک چہرہ۔

ظاہر ہے کہ جو انسان اس چہرہ کو دیکھ لے اسے کوئی چیز حسین اور دلکش محسوس نہ ہوگی اور وہ اس پر فریب دنیا سے جلد از جلد نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

۳۰۲

ولَتَحَمَّلْتَ مِنْ مَجْلِسِي هَذَا - إِلَى مُجَاوَرَةِ أَهْلِ الْقُبُورِ اسْتِعْجَالًا بِهَا - جَعَلَنَا اللَّه وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ يَسْعَى بِقَلْبِه - إِلَى مَنَازِلِ الأَبْرَارِ بِرَحْمَتِه.

تفسير بعض ما في هذه الخطبة من الغريب

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - قولهعليه‌السلام يؤر بملاقحه الأر كناية عن النكاح - يقال أر الرجل المرأة يؤرها إذا نكحها -. وقولهعليه‌السلام كأنه قلع داري عنجه نوتيه - القلع شراع السفينة - وداري منسوب إلى دارين - وهي بلدة على البحر يجلب منها الطيب - وعنجه أي عطفه - يقال عنجت الناقة كنصرت أعنجها عنجا إذا عطفتها - والنوتي الملاح -. وقولهعليه‌السلام ضفتي جفونه أراد جانبي جفونه - والضفتان الجانبان -. وقولهعليه‌السلام وفلذ الزبرجد - الفلذ جمع فلذة وهي القطعة -. وقولهعليه‌السلام كبائس اللؤلؤ الرطب - الكباسة العذق - والعساليج الغصون واحدها عسلوج

اور تم میری اس مجلس سے اٹھ کر قبروں میں رہنے والوں کی ہمسائیگی کے لئے آمادہ ہو جائو گے تاکہ جلد یہ نعمتیں حاصل ہوجائیں۔

اللہ ہمیں اور تمہیں دونوں کو اپنی رحمت کے طفیل ان لوگوں میں قراردے جو اپنے دل کی گہرائیوں سے نیک کردار بندوں کی منزلوں کے لئے سعی کر رہے ہیں۔

(بعض الفاظ کی وضاحت)

یور بملاقحہ۔ار نکاح کا کنایہ ہے کہ جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو کہا جاتا ہے ار الرجل۔

حضرت کا ارشاد''کانہ قلع داری عنجہ نوتیہ '' قلع کشتی کے بادبان کو کہا جاتا ہے اور داری مقام دارین کی طرف منسوب ہے جو ساحل بحر پرآباد ہے اور وہاں سے خوشبو وغیرہ وارد کی جاتی ہے۔

عنجہ یعنی موڑ دیا جس کا استعمال اس طرح ہوتا ہے کہ عنجت الناقة یعنی میں نے اونٹنی کے رخ کو موڑ دیا۔

نوتی ملاح کو کہاجاتا ہے۔ضفتی جفرنہ یعنی پلکوں کے کنارے ۔صفتان یعنی دونوں کنارے ۔

فلذ الزبرجد۔فلذ فلذة کی جمع ہے یعنی ٹکڑا۔

کبائس اللئو لوء الرطب ۔کباسہ کھجور کا خوشہ

عیالج جمع علوج ۔شاخیں

۳۰۳

(۱۶۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

الحث على التآلف

لِيَتَأَسَّ صَغِيرُكُمْ بِكَبِيرِكُمْ - ولْيَرْأَفْ كَبِيرُكُمْ بِصَغِيرِكُمْ - ولَا تَكُونُوا كَجُفَاةِ الْجَاهِلِيَّةِ - لَا فِي الدِّينِ يَتَفَقَّهُونَ ولَا عَنِ اللَّه يَعْقِلُونَ - كَقَيْضِ بَيْضٍ فِي أَدَاحٍ - يَكُونُ كَسْرُهَا وِزْراً ويُخْرِجُ حِضَانُهَا شَرّاً.

بنو أمية

ومنها - افْتَرَقُوا بَعْدَ أُلْفَتِهِمْ وتَشَتَّتُوا عَنْ أَصْلِهِمْ - فَمِنْهُمْ آخِذٌ بِغُصْنٍ أَيْنَمَا مَالَ مَالَ مَعَه - عَلَى أَنَّ اللَّه تَعَالَى سَيَجْمَعُهُمْ لِشَرِّ يَوْمٍ لِبَنِي أُمَيَّةَ - كَمَا تَجْتَمِعُ قَزَعُ الْخَرِيفِ - يُؤَلِّفُ اللَّه بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَجْمَعُهُمْ رُكَاماً كَرُكَامِ السَّحَابِ - ثُمَّ يَفْتَحُ لَهُمْ أَبْوَاباً - يَسِيلُونَ مِنْ مُسْتَثَارِهِمْ كَسَيْلِ الْجَنَّتَيْنِ - حَيْثُ لَمْ تَسْلَمْ عَلَيْه قَارَةٌ - ولَمْ تَثْبُتْ عَلَيْه أَكَمَةٌ - ولَمْ يَرُدَّ سَنَنَه رَصُّ طَوْدٍ ولَا حِدَابُ أَرْضٍ - يُذَعْذِعُهُمُ اللَّه فِي بُطُونِ أَوْدِيَتِه -

(۱۶۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

دعوت اتحاد و اتفاق

تمہارے چھوٹوں کوچاہیےکہ اپنے بڑوں کی پیروی کریں اوربڑوں کافرض ہےکہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں اورخبردار تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہو جانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اللہ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھےان کی مثال ان انڈوں کے چھلوں جیسی ہے جو شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہوںکہ ان کاتوڑنا تو جرم ہے لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا ہے۔

(ایک اور حصہ) یہ لوگ باہمی محبت کے بعد الگ الگ ہوگئے اور اپنی اصل سے جدا ہوگئے بعض لوگوں نے ایک شاخکو پکڑ لیا ہے اور اب اسی کے ساتھ جھکتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ انہیں بنی امیہ کے بد ترین دن کیلئے جمع کردے گا جس طرح کہ خریف میں بادل کے ٹکڑے جمع ہو جاتے ہیں ۔پھر ان کے درمیان محبت پیدا کرے گا پھر انہیں تہ بہ تہ ابرکے ٹکڑوں کی طرح ایک مضبوط گروہ بنادے گا۔پھر ان کے لئے ایسے دروازوں کو کھول دے گا کہ یہ اپنے ابھرنے کی جگہ سے شہر صبا کے دو باغوں کے اس سیلاب کی طرح بہ نکلیں گے جن سے نہ کوئی چٹان محفوظ رہی تھی اورنہ کوئی ٹیلہ ٹھہر سکا تھا۔ نہ پہاڑ کی چوٹی اس کے دھارے کو موڑ سکی تھی اورنہ زمین کی اونچائی۔اللہ انہیں گھاٹیوں کے نشیبوں میں متفرق

۳۰۴

ثُمَّ يَسْلُكُهُمْ يَنَابِيعَ فِي الأَرْضِ - يَأْخُذُ بِهِمْ مِنْ قَوْمٍ حُقُوقَ قَوْمٍ - ويُمَكِّنُ لِقَوْمٍ فِي دِيَارِ قَوْمٍ - وايْمُ اللَّه لَيَذُوبَنَّ مَا فِي أَيْدِيهِمْ بَعْدَ الْعُلُوِّ والتَّمْكِينِ - كَمَا تَذُوبُ الأَلْيَةُ عَلَى النَّارِ.

الناس آخر الزمان

أَيُّهَا النَّاسُ لَوْ لَمْ تَتَخَاذَلُوا عَنْ نَصْرِ الْحَقِّ - ولَمْ تَهِنُوا عَنْ تَوْهِينِ الْبَاطِلِ - لَمْ يَطْمَعْ فِيكُمْ مَنْ لَيْسَ مِثْلَكُمْ - ولَمْ يَقْوَ مَنْ قَوِيَ عَلَيْكُمْ - لَكِنَّكُمْ تِهْتُمْ مَتَاه بَنِي إِسْرَائِيلَ - ولَعَمْرِي لَيُضَعَّفَنَّ لَكُمُ التِّيه مِنْ بَعْدِي أَضْعَافاً - بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ - وقَطَعْتُمُ الأَدْنَى ووَصَلْتُمُ الأَبْعَدَ - واعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِنِ اتَّبَعْتُمُ الدَّاعِيَ لَكُمْ - سَلَكَ بِكُمْ مِنْهَاجَ الرَّسُولِ وكُفِيتُمْ مَئُونَةَ الِاعْتِسَافِ - ونَبَذْتُمُ الثِّقْلَ الْفَادِحَ عَنِ الأَعْنَاقِ.

(۱۶۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في أوائل خلافته

إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَنْزَلَ كِتَاباً هَادِياً

کردے گا اور پھر انہیں چشموں کے بہائو کی طرح زمین میں پھیلا دے گا۔ان کے ذریعہ ایک قوم کے حقوق دوسری قوم سےحاصل کرےگا اورایک جماعت کودوسری جماعت کے دیر میں اقتدار عطا کرےگا۔خدا کی قسم ان کے اتدار و اختیار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہوگا وہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح کہ آگ پر چربی پگھل جاتی ہے۔

(آخر زمانہ کے لوگ)

ایہا الناس! اگر تم حق کی مدد کرنے میں کوت ا ہی نہ کرتے اورباطل کو کمزور بنانے میں سستی کا مظاہرہ نہ کرتے تو تمہارے بارے میں وہ قوم طمع نہ کرتی جو تم جیسی نہیں ہے اور تم پر یہ لوگ قوی نہ ہو جاتے۔ لیکن افسوس کہ تم بنی اسرائیل کی طرح گمراہ ہوگئے اور میری جان کی قسم میرے بعد تمہاری یہ حیرانی اور سر گردانی دوچند ہو جائے گی کہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے۔قریب ترین سے قطع تعلق کرلیاہے اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔یادرکھو کہ اگر تم داعی حق کا اتباع کر لیتے تو وہ تمہیں رسول اکرم (ص) کے راستہ پر چلاتا اور تمہیں کجروی کی زحمتوں سے بچالیتا اور تم اس سنگین بوجھ کو اپنی گردنوں سے اتار پھینک دیتے۔

(۱۶۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(ابتدائے خلافت کے دورمیں)

پروردگار نے اس کتاب ہدایت کو نازل کیا

۳۰۵

بَيَّنَ فِيه الْخَيْرَ والشَّرَّ - فَخُذُوا نَهْجَ الْخَيْرِ تَهْتَدُوا - واصْدِفُوا عَنْ سَمْتِ الشَّرِّ تَقْصِدُوا.

الْفَرَائِضَ الْفَرَائِضَ أَدُّوهَا إِلَى اللَّه تُؤَدِّكُمْ إِلَى الْجَنَّةِ - إِنَّ اللَّه حَرَّمَ حَرَاماً غَيْرَ مَجْهُولٍ - وأَحَلَّ حَلَالًا غَيْرَ مَدْخُولٍ - وفَضَّلَ حُرْمَةَ الْمُسْلِمِ عَلَى الْحُرَمِ كُلِّهَا - وشَدَّ بِالإِخْلَاصِ والتَّوْحِيدِ حُقُوقَ الْمُسْلِمِينَ فِي مَعَاقِدِهَا - فَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِه ويَدِه إِلَّا بِالْحَقِّ - ولَا يَحِلُّ أَذَى الْمُسْلِمِ إِلَّا بِمَا يَجِبُ.

بَادِرُوا أَمْرَ الْعَامَّةِ وخَاصَّةَ أَحَدِكُمْ وهُوَ الْمَوْتُ - فَإِنَّ النَّاسَ أَمَامَكُمْ وإِنَّ السَّاعَةَ تَحْدُوكُمْ مِنْ خَلْفِكُمْ - تَخَفَّفُوا تَلْحَقُوا فَإِنَّمَا يُنْتَظَرُ بِأَوَّلِكُمْ آخِرُكُمْ.

اتَّقُوا اللَّه فِي عِبَادِه وبِلَادِه - فَإِنَّكُمْ

ہے جس میں خیرو شر کی وضاحت کردی ہے لہٰذا تم خیر کے راستہ کو اختیارکرو تاکہ ہدایت پاجائو اور شرکے رخ سے منہ موڑ لو تاکہ سیدھے راستہ پرآجائو۔

فرائض کا خیال رکھو اور انہیں ادا کرو تاکہ وہ تمہیں جنت تک پہنچا دیں۔اللہ نے جس حرام کوحرام قرار دیا ہے وہ مجہول نہیں ہے اور جس حلال کو حلال بنایا ہے وہ مشتبہ نہیں ہے۔اس نے مسلمانوں کی حرمت کو تمام محترم چیزوں سے افضل قرار دیا ہے اور مسلمانوں کے حقوق کو ان کی منزلوں میں اخلاص اور ریگانگت سے باندھ دیا ہے۔اب مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام مسلمان(۱) محفوظرہیں مگر یہ کہ کسی حق کی بنا پر ان پر ہاتھ ڈالا جائے اور کسی مسلمان کے لئے مسلمان کو تکلیف دینا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا واقعی سبب پیدا ہو جائے۔

اس امرکی طرف سبقت کرو جو ہر ایک کے لئے ہے اور تمہارے لئے بھی ہے اور وہ ہے موت۔لوگ تمہارے آگے جا چکے ہیں اور تمہارا وقت تمہیں ہنکا کرلے جا رہا ہے۔سامان ہلکا رکھو تاکہ اگلے لوگوں سے ملحق ہو جائو اس لئے کہ ان پہلے والوں کے ذریعہ تمہارا انتظار کیا جا رہا ہے۔

اللہ سے ڈرو اس کے بندوں کے بارے میں بھی اور شہروں کے بارے میں بھی ۔اس لئے کہ تم سے زمینوں

(۱) اس قانون میں مسلمانوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔مسلمان وہی ہوتا ہے جس کے ہاتھ یا اس کی زبان سے کسی فروبشر کو اذیت نہ ہو اور سب اس کے شر سے محفوظ رہیں۔لیکن یہ اسی وقت تک ہے جب کسی کے بارے میں زبان کھولنا یا ہاتھ اٹھانا شر شمار ہو ورنہ اگر انسان اس امر کا مستحق ہوگیا ہے کہ اس کے کردار پر تنقید نہ کرنا اسے قرار واقعی سزا نہ دینا دین خدا کی توہین ہے تو کوئی شخص بھی دین خدا سے زیادہمحترم نہیں ہے۔انسان کا احترام دین خداکے طفیل میں ہے اگر دین خدا ہی کا احترام نہ رہ گیا تو کسی شخص کے احترام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

۳۰۶

مَسْئُولُونَ حَتَّى عَنِ الْبِقَاعِ والْبَهَائِمِ - أَطِيعُوا اللَّه ولَا تَعْصُوه - وإِذَا رَأَيْتُمُ الْخَيْرَ فَخُذُوا بِه - وإِذَا رَأَيْتُمُ الشَّرَّ فَأَعْرِضُوا عَنْه.

(۱۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

بعد ما بويع له بالخلافة، وقد قال له قوم من الصحابة: لو عاقبتقوما ممن أجلب على عثمان فقالعليه‌السلام :

يَا إِخْوَتَاه إِنِّي لَسْتُ أَجْهَلُ مَا تَعْلَمُونَ - ولَكِنْ كَيْفَ لِي بِقُوَّةٍ والْقَوْمُ الْمُجْلِبُونَ - عَلَى حَدِّ شَوْكَتِهِمْ يَمْلِكُونَنَا ولَا نَمْلِكُهُمْ - وهَا هُمْ هَؤُلَاءِ قَدْ ثَارَتْ مَعَهُمْ عِبْدَانُكُمْ - والْتَفَّتْ إِلَيْهِمْ أَعْرَابُكُمْ - وهُمْ خِلَالَكُمْ يَسُومُونَكُمْ مَا شَاءُوا - وهَلْ تَرَوْنَ مَوْضِعاً لِقُدْرَةٍ عَلَى شَيْءٍ تُرِيدُونَه - إِنَّ هَذَا الأَمْرَ أَمْرُ جَاهِلِيَّةٍ - وإِنَّ لِهَؤُلَاءِ الْقَوْمِ مَادَّةً - إِنَّ النَّاسَ مِنْ هَذَا الأَمْرِ إِذَا حُرِّكَ عَلَى أُمُورٍ - فِرْقَةٌ تَرَى مَا تَرَوْنَ وفِرْقَةٌ تَرَى مَا لَا تَرَوْنَ - وفِرْقَةٌ لَا تَرَى هَذَا ولَا ذَاكَ - فَاصْبِرُوا حَتَّى يَهْدَأَ النَّاسُ

اور جانوروں کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔اللہ کی اطاعت کرو اورناف رمانی نہ کرو۔خیر کو دیکھو تو فوراً لے لو اور شریرنظر پڑ جائے تو کنارہ کش ہو جائو۔

(۱۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب بیعت خلافت کے بعد بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ کاش آپ عثمان پر زیادتی کرنے والوں کو سبزا دیتے )

بھائیو! جو تم جانتے ہو میں اس سے نا واقف نہیں ہوں لیکن میرے پاس اس کی طاقت کہاں ہے ؟ ابھی وہ قوم اپنی طاقت و قوت(۱) پر قائم ہے۔وہ ہمارا اختیار رکھتی ہے اور ہمارے پاس اس کا اختیارنہیں ہے اور پھر تمہارے غلام بھی ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور تمہارے دیہاتی بھی ان کے گرد جمع ہوگئے ہیں اور وہ تمہارے درمیان اس حالت میں ہیں کہ تمہیں جس طرح چاہیں اذیت پہنچا سکتے ہیں کیا تمہاری نظر میں جو کچھ تم چاہتے ہو اس کی کوئی گنجائش ہے۔بیشک یہ صرف جہالت اور نادانی کا مطالبہ ہے اور اس قوم کے پاس طاقت کا سرچشمہ موجود ہے۔اس معاملہ میں اگر لوگوں کو حرکت بھی دی جائے تو وہ چند فرقوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ایک فرقہ وہی سوچے گا جو تم سوچ رہے ہو اور دوسرا گروہ اس کے خلاف رائے کاحامل ہوگا۔تیسرا گروہ دونوں سے غیر جانبدار بن جائے گا لہٰذا مناسب یہی ہے کہ صبر کرو یہاں تک کہ لوگ ذرا

۳۰۷

وتَقَعَ الْقُلُوبُ مَوَاقِعَهَا - وتُؤْخَذَ الْحُقُوقُ مُسْمَحَةً - فَاهْدَءُوا عَنِّي وانْظُرُوا مَا ذَا يَأْتِيكُمْ بِه أَمْرِي - ولَا تَفْعَلُوا فَعْلَةً تُضَعْضِعُ قُوَّةً وتُسْقِطُ مُنَّةً - وتُورِثُ وَهْناً وذِلَّةً وسَأُمْسِكُ الأَمْرَ مَا اسْتَمْسَكَ - وإِذَا لَمْ أَجِدْ بُدّاً فَآخِرُ الدَّوَاءِ الْكَيُّ

(۱۶۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند مسير أصحاب الجمل إلى البصرة

الأمور الجامعة للمسلمين

إِنَّ اللَّه بَعَثَ رَسُولًا هَادِياً بِكِتَابٍ نَاطِقٍ وأَمْرٍ قَائِمٍ - لَا يَهْلِكُ عَنْه إِلَّا هَالِكٌ - وإِنَّ الْمُبْتَدَعَاتِ الْمُشَبَّهَاتِ هُنَّ الْمُهْلِكَاتُ - إِلَّا مَا حَفِظَ اللَّه مِنْهَا - وإِنَّ فِي سُلْطَانِ اللَّه عِصْمَةً لأَمْرِكُمْ - فَأَعْطُوه طَاعَتَكُمْ غَيْرَ مُلَوَّمَةٍ ولَا مُسْتَكْرَه بِهَا - واللَّه لَتَفْعَلُنَّ أَوْ

مطمئن ہو جائیں اور دل ٹھہر جائیں اور اس کے بعد دیکھو کہ میں کیاکرتا ہوں ۔خبر دار کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جو طاقت کو کمزور بنادے اور قوت کو پامال کردے اور کمزوری و ذلت کاب اعث ہو جائے۔میں جہاں تک ممکن ہو گا اس جنگ کو روکے رہوں گا۔اس کے بعد جب کوئی چارہ کارنہ رہ جائے گا توآخری علاج داغنا ہی ہوتا ہے۔

(۱۶۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب اصحاب جمل بصرہ کی طرف جا رہے تھے)

اللہ نے اپنے رسول ہادی کو بولتی کتاب اور مستحکم امر کے ساتھ بھیجا ہے اس کے ہوتے ہوئے وہی ہلاک ہو سکتا ہے جس کا مقدر ہی ہلاکت ہو اور نئی نئی بدعتیں اورنئے نئے شبہات ہی ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں مگر یہ کہ اللہ ہی کسی کو بچالے اور پروردگار کی طرف سے معین ہونے والا حاکم ہی تمہارے امور کی حفاظت کرسکتا ہے لہٰذا اسے ایسی مکمل اطاعت دے دو جونہ قابل ملامت ہو اورنہ بددلی کا نتیجہ ہو۔خدا کی قسم یا تو

(۱)عثمان کے خلاف قیام کرنے والے صرف مدینہ کے افراد ہوتے جب بھی مقابلہ آسان نہیں تھا۔چہ جائیکہ بقول طبری اس جماعت میں چھ سو مصری بھی شامل تھے اورایک ہزار کوفہ کے سپاہی بھی آگئے تھے اوردیگر علاقے کے مظلومین نے بھی مہم میں شرکت کرلی تھی۔ایسے حالات میں ایک شخص جمل و صفین کے معرکے بھی برداشت کرے اور ان تمام انقلابیوں کامحاسبہ بھی شروع کردے یہ ایک نا ممکن امر ہے اور پھرمحاسبہ کے عمل میں ام المومنین اور معاویہ کو بھی شامل کرنا پڑے گا کہ قتل عثمان کی مہم میں یہ افراد بھی برابر کے شریک تھے بلکہ ام المومنین نے توباقاعدہ لوگوں کو قتل پر آمادہ کیاتھا۔

ایسے حالات میں مسئلہ اس قدرآسان نہیں تھا جس قدر بعض سادہ لوح افراد تصور کر رہے تھے یا بعض فتنہ پرداز اسے ہوا دے رہے تھے۔

۳۰۸

لَيَنْقُلَنَّ اللَّه عَنْكُمْ سُلْطَانَ الإِسْلَامِ - ثُمَّ لَا يَنْقُلُه إِلَيْكُمْ أَبَداً - حَتَّى يَأْرِزَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِكُمْ.

التنفير من خصومه

إِنَّ هَؤُلَاءِ قَدْ تَمَالَئُوا عَلَى سَخْطَةِ إِمَارَتِي - وسَأَصْبِرُ مَا لَمْ أَخَفْ عَلَى جَمَاعَتِكُمْ - فَإِنَّهُمْ إِنْ تَمَّمُوا عَلَى فَيَالَةِ هَذَا الرَّأْيِ - انْقَطَعَ نِظَامُ الْمُسْلِمِينَ - وإِنَّمَا طَلَبُوا هَذِه الدُّنْيَا حَسَداً لِمَنْ أَفَاءَهَا اللَّه عَلَيْه - فَأَرَادُوا رَدَّ الأُمُورِ عَلَى أَدْبَارِهَا - ولَكُمْ عَلَيْنَا الْعَمَلُ بِكِتَابِ اللَّه تَعَالَى - وسِيرَةِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - والْقِيَامُ بِحَقِّه والنَّعْشُ لِسُنَّتِه.

(۱۷۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في وجوب اتباع الحق عند قيام الحجة كلَّم به بعض العرب

وقَدْ أَرْسَلَه قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ لَمَّا قَرُبَعليه‌السلام مِنْهَا - لِيَعْلَمَ لَهُمْ مِنْه حَقِيقَةَ حَالِه مَعَ أَصْحَابِ الْجَمَلِ - لِتَزُولَ الشُّبْهَةُ مِنْ نُفُوسِهِمْ - فَبَيَّنَ لَهعليه‌السلام مِنْ أَمْرِه مَعَهُمْ - مَا عَلِمَ بِه أَنَّه عَلَى الْحَقِّ - ثُمَّ قَالَ لَه بَايِعْ - فَقَالَ

تم ایسی اطاعت کروگے یا پھر تم سے اسلامی اقتدار چھن جائے گا اور پھر کبھی تمہاری طرف پلٹ کرنہ آئے گا یہاں تک کہ کسی غیرکے سایہ میں پناہ لے لے۔

دیکھو یہ لوگ میری حکومت سے ناراضگی پر متحد ہو چکے ہیں اوراب میں اس وقت تک صبر کروں گا جب تک تمہاری جماعت کے بارے میں کوئی اندیشہ نہ پیدا ہو جائے ۔اس لئے کہاگر وہ اپنی رائے کی کموری کے باوجود اس امر میں کامیاب ہوگئے تو مسلمانوں کا رشتہ نظم و نسق بالکل ٹوٹ کر رہ جائے گا۔ان لوگوں نے اس دنیا کو صرف ان لوگوں سے حسد کی بنا پر طلب کیا ہے جنہیں اللہ نے خلیفہ و حاکم بنایا ہے۔اب یہ چاہتے ہیں کہ معاملات کو الٹے پائوں جاہلیت کی طرف پلٹا دیں ۔تمہارے لئے میرے ذمہ یہی کام ہے کہ کتاب خدا اور سنت رسول (ص) پر عمل کروں ۔ان کے حق کو قائم کروں اور ان کی سنت کو بلند و بالا قرار دوں ۔

(۱۷۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(دلیل قائم ہو جانے کےبعدحق کے اتباع کےسلسلہ میں )

جب اہل بصرہ نے بعض افراد کواس غرض سے بھیجا کہ اہل جمل کے بارے میں حضرت کے موقف کو دریافت کریں تاکہ کسی طرح کا شبہ باقی نہ رہ جائے توآپ نے جملہ امور کی مکمل وضاحت فرمائی تاکہ واضح ہو جائے کہ آپ حق پر ہیں ۔اس کے بعد فرمایا کہ جب حق واضح ہوگیا تو میرے ہاتھ پر بیعت کرلو۔اس نے کہا کہ

۳۰۹

إِنِّي رَسُولُ قَوْمٍ - ولَا أُحْدِثُ حَدَثاً حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْهِمْ فَقَالَعليه‌السلام

أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ الَّذِينَ وَرَاءَكَ بَعَثُوكَ رَائِداً - تَبْتَغِي لَهُمْ مَسَاقِطَ الْغَيْثِ،فَرَجَعْتَ إِلَيْهِمْ وأَخْبَرْتَهُمْ عَنِ الْكَلإِ والْمَاءِ - فَخَالَفُوا إِلَى الْمَعَاطِشِ والْمَجَادِبِ مَا كُنْتَ صَانِعاً - قَالَ كُنْتُ تَارِكَهُمْ ومُخَالِفَهُمْ إِلَى الْكَلإِ والْمَاءِ - فَقَالَعليه‌السلام فَامْدُدْ إِذاً يَدَكَ - فَقَالَ الرَّجُلُ - فَوَاللَّه مَا اسْتَطَعْتُ أَنْ أَمْتَنِعَ عِنْدَ قِيَامِ الْحُجَّةِ عَلَيَّ - فَبَايَعْتُهعليه‌السلام

والرَّجُلُ يُعْرَفُ بِكُلَيْبٍ الْجَرْمِيِّ.

(۱۷۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما عزم على لقاء القوم بصفين

الدعاء

اللَّهُمَّ رَبَّ السَّقْفِ الْمَرْفُوعِ والْجَوِّ الْمَكْفُوفِ - الَّذِي جَعَلْتَه مَغِيضاً لِلَّيْلِ والنَّهَارِ

میں ایک قوم کا نمائندہ ہوں اور ان کی طرف رجوع کئے بغیر کوئی اقدام نہیں کر سکتا ہوں۔فرمایا کہ

تمہارا کیاخیال(۱) ہے اگر اس قوم نے تمہیں نمائندہ بنا کر بھیجا ہوتا کہ جائو تلاش کرو جہاں بارش ہوئی ہو اور پانی کی کوئی سبیل ہو اورتم واپس جا کر پانی اور سبزہ کی خبردیتے اوروہ لوگ تمہاری مخالفت کرکے ایسی جگہ کا انتخاب کرتے جہاں پانی کا قحط اورخشک سالی کا دوردورہ ہو تو اس وقت تمہارا اقدام کیا ہوتا ؟ اس نے کہاکہ میں انہیں چھوڑ کر آب و دانہ کی طرف چلا جاتا ۔فرمایا پھراب ہاتھ بڑھائو اور بیعت کر لو کہ چشمہ ہدایت تو مل گیا ہے۔اس نے کہاکہ اب حجت تمام ہوچکی ہے اورمیرے پاس انکار کا کوئی جواز نہیں رہ گیا ہے اور یہ کہہ کر حضرت کے دست حق پرست پر بیعت کرلی۔

(تاریخ میں اس شخص کو کلیب جرمی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے )

(۱۷۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب اصحاب معاویہ سےصفین میں مقابلہ کےلئے ارادہ فرمالیا)

اے پروردگار جو بلند ترین چھت اور ٹھہری ہوئی فضا کا مالک ہے۔جسنےاس فضاکوشب وروز کےسر چھپانے کی منزل

(۱) یہ استدلال اپنے حسن و جمال کے علاوہ اس معنویت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اسلام میں میری حیثیت ایک سر سبز و شاداب گلستان کی ہے جہاں اسلامی احکام و تعلیمات کی بہاریں خیمہ زن رہتی ہیں اور میرے علاوہ تمام افراد ایک ریگستان سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔کس قدر حیرت کی بات ہے کہ انسان سبزہ زار اور چشمہ آب حیات کو چھوڑ کر پھر ریگستانوں کی طرف پلٹ جائے اور تشنہ کامی کی زندگی گزارتا رہے۔جو تمام اہل شام کا مقدر بن چکا ہے۔

۳۱۰

ومَجْرًى لِلشَّمْسِ والْقَمَرِ ومُخْتَلَفاً لِلنُّجُومِ السَّيَّارَةِ - وجَعَلْتَ سُكَّانَه سِبْطاً مِنْ مَلَائِكَتِكَ - لَا يَسْأَمُونَ مِنْ عِبَادَتِكَ - ورَبَّ هَذِه الأَرْضِ الَّتِي جَعَلْتَهَا قَرَاراً لِلأَنَامِ - ومَدْرَجاً لِلْهَوَامِّ والأَنْعَامِ - ومَا لَا يُحْصَى مِمَّا يُرَى ومَا لَا يُرَى - ورَبَّ الْجِبَالِ الرَّوَاسِي الَّتِي جَعَلْتَهَا لِلأَرْضِ أَوْتَاداً - ولِلْخَلْقِ اعْتِمَاداً إِنْ أَظْهَرْتَنَا عَلَى عَدُوِّنَا - فَجَنِّبْنَا الْبَغْيَ وسَدِّدْنَا لِلْحَقِّ - وإِنْ أَظْهَرْتَهُمْ عَلَيْنَا فَارْزُقْنَا الشَّهَادَةَ - واعْصِمْنَا مِنَ الْفِتْنَةِ.

الدعوة للقتال

أَيْنَ الْمَانِعُ لِلذِّمَارِ - والْغَائِرُ عِنْدَ نُزُولِ الْحَقَائِقِ مِنْ أَهْلِ الْحِفَاظِ - الْعَارُ وَرَاءَكُمْ والْجَنَّةُ أَمَامَكُمْ!

(۱۷۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

حمد الله

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَا تُوَارِي عَنْه سَمَاءٌ سَمَاءً - ولَا أَرْضٌ أَرْضاً.

اورشمس و قمرکے سیر کا میدان اور ستاروں کی آمدورفت کی جولاں گاہ قرار دیا ہے۔اس کا ساکن ملائکہ کے اس گروہ کو قراردیا ہے جو تیری عبادت سے خستہ حال نہیں ہوتے ہیں۔توہی اس زمین کا بھی مالک ہے جسے لوگوں کا مستقر بنایا ہے اور جانوروں ' کپڑوں مکوڑوں اوربے شمار مرئی اور غیرمرئی مخلوقات کے چلنے پھرنے کی جگہ قرار دیا ہے۔تو ہی ان سربفلک پہاڑوں کامالک ہے جنہیں زمین کے ٹھہرائو کے لئے میخ کا درجہ دیا گیا ہے اورمخلوقات کاسہارا قرار دیا گیا ہے۔اگر تونے دشمن کے مقابلہ میں غلبہ عنایت فرمایا تو' ہمیں ظلم سے محفوظ رکھنا اورحق کے سیدھے راستہ پر قائم رکھنا اور اگر دشمن کو ہم پر غلبہ حاصل ہو جائے تو ہمیں شہادت کا شرف عطا فرمانا اور فتنہ سے محفوظ رکھنا۔

دعوت جہاد

کہاں ہیں وہ عزت وآبروکے پاسبان اورمصیبتوں کے نزول کے بعد ننگ ونام کی حفاظت کرنے والے صاحبان عزت و غیرت۔یاد رکھو ذلت و عار تمہارے پیچھے ہے اور جنت تمہارےآگے ۔

(۱۷۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(حمد خدا)

ساری تعریف اس اللہ کےلئے ہےجس کے سامنے ایک آسمان دوسرےآسمان کو اور ایک زمین دوسری زمین کوچھپا نہیں سکتی ہے۔

۳۱۱

يوم الشورى

منها - وقَدْ قَالَ قَائِلٌ إِنَّكَ عَلَى هَذَا الأَمْرِ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ لَحَرِيصٌ - فَقُلْتُ بَلْ أَنْتُمْ واللَّه لأَحْرَصُ وأَبْعَدُ وأَنَا أَخَصُّ وأَقْرَبُ - وإِنَّمَا طَلَبْتُ حَقّاً لِي وأَنْتُمْ تَحُولُونَ بَيْنِي وبَيْنَه - وتَضْرِبُونَ وَجْهِي دُونَه - فَلَمَّا قَرَّعْتُه بِالْحُجَّةِ فِي الْمَلإِ الْحَاضِرِينَ - هَبَّ كَأَنَّه بُهِتَ لَا يَدْرِي مَا يُجِيبُنِي بِه!

الاستنصار على قريش

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَعْدِيكَ عَلَى قُرَيْشٍ ومَنْ أَعَانَهُمْ - فَإِنَّهُمْ قَطَعُوا رَحِمِي وصَغَّرُوا عَظِيمَ مَنْزِلَتِيَ - وأَجْمَعُوا عَلَى مُنَازَعَتِي أَمْراً هُوَ لِي - ثُمَّ قَالُوا أَلَا إِنَّ فِي الْحَقِّ أَنْ تَأْخُذَه وفِي الْحَقِّ أَنْ تَتْرُكَه.

منها في ذكر أصحاب الجمل

فَخَرَجُوا يَجُرُّونَ حُرْمَةَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - كَمَا تُجَرُّ الأَمَةُ عِنْدَ شِرَائِهَا

(روز شوریٰ)

ایک شخص(۱) نے مجھ سے یہاں تک کہہ دیا کہ فرزند ابو طالب! آپ میں اس خلافت کی طمع پائی جاتی ہے؟ تو میں نے کہا کہ خدا کی قسم تم لوگ زیادہ حریص ہو حالانکہ تم دور والے ہو۔میں تو اس ا اہل بھی ہوں اور پیغمبر (ص) سے قریب تر بھی ہوں۔میں نے اس حق کا مطالبہ کیا ہے جس کا میں حقدار ہوں لیکن تم لوگ میرے اور اس کے درمیان حائل ہوگئے ہو اور میرے ہی رخ کو اس کی طرف سے موڑنا چاہتے ہو پھر جب میں نے بھری محفل میں دلائل کے ذریعہ سے کانوں کے پردوں کو کھٹکھٹایا تو ہوشیار ہوگیا اور ایسا مبہوت ہوگیا کہ کوئی جواب سمجھ نہیں آرہا تھا۔

(قریش کے خلاف فریاد)

خدایا! میں قریش اور ان کے انصار کے مقابلہ میں تجھ سے مدد چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے میری قرابت کا رشتہ توڑ دیا اورمیری عظیم منزلت کو حقیر بنادیا۔مجھ سے اس امرکے لئے جھگڑا کرنے پر تیار ہوگئے جس کامیں واقعاً حقدار تھا اور پھر یہ کہنے لگے کہ آپ اسے لے لیں توبھی صحیح ہے اور اس سے دستبردار ہو جائیں توبھی برحق ہے۔

(اصحاب جمل کے باے میں)

یہ ظالم اس شان سے برآمد ہوئے کہ حرم رسول (ص) کویوں کھینچ کر میدان میں لا رہے تھے جیسے کنیزیں خرید و

(۱)بعض حضرات کاخیال ہے کہ یہ بات شوریٰ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہی تھی اور بعض کاخیال ہے کہ سقیفہ کے موقع پر ابو عبیدہ بن الجراح نے کہی تھی اوردونوں ہی امکانات پائے جاتے ہیں کہ دونوں کی فطرت ایک جیسی تھی اوردونوں امیر المومنین کی مخالفت پر متحد تھے۔

۳۱۲

مُتَوَجِّهِينَ بِهَا إِلَى الْبَصْرَةِ - فَحَبَسَا نِسَاءَهُمَا فِي بُيُوتِهِمَا - وأَبْرَزَا حَبِيسَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لَهُمَا ولِغَيْرِهِمَا - فِي جَيْشٍ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وقَدْ أَعْطَانِي الطَّاعَةَ - وسَمَحَ لِي بِالْبَيْعَةِ طَائِعاً غَيْرَ مُكْرَه - فَقَدِمُوا عَلَى عَامِلِي بِهَا - وخُزَّانِ بَيْتِ مَالِ الْمُسْلِمِينَ وغَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِهَا - فَقَتَلُوا طَائِفَةً صَبْراً وطَائِفَةً غَدْراً - فَوَاللَّه لَوْ لَمْ يُصِيبُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - إِلَّا رَجُلًا وَاحِداً مُعْتَمِدِينَ لِقَتْلِه - بِلَا جُرْمٍ جَرَّه لَحَلَّ لِي قَتْلُ ذَلِكَ الْجَيْشِ كُلِّه - إِذْ حَضَرُوه فَلَمْ يُنْكِرُوا - ولَمْ يَدْفَعُوا عَنْه بِلِسَانٍ ولَا بِيَدٍ - دَعْ مَا أَنَّهُمْ قَدْ قَتَلُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - مِثْلَ الْعِدَّةِ الَّتِي دَخَلُوا بِهَا عَلَيْهِمْ!

(۱۷۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في رسول اللَّه،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ومن هو جدير بأن يكون للخلافة وفي هوان الدنيا

فروخت کے وقت لے جائی جاتی ہے۔ان کا رخ بصرہ کی طرف تھا۔ان دونوں(۱) نے اپنی عورتوں کو گھر میں بند کر رکھا تھا اور زوجہ رسول (ص) کو میدان میں لا رہے تھے۔جب کہ ان کے لشکر میں کوئی ایسا نہ تھا جو پہلے میری بیعت نہ کر چکا ہو اوربغیرکسی جبر و اکراہ کے میری اطاعت میں نہ رہ چکا ہو۔یہ لوگ پہلے میرے عامل(۲) بصرہ اورخازن بیت المال جیسے افراد پرحملہ آور ہوئے توایک جماعت کو گرفتار کرکے قتل کردیا اورایک کودھوکہ میں تلوار کے گھاٹ اتاردیا۔خدا کی قسم اگر یہ تمام مسلمانوں میں صرف ایک شخص کوبھی قصداً قتل کردیتے تو بھی میرے واسطے پورے لشکرسے جنگ کرنے جواز موجود تھا کہ دیگرافراد حاضر رہے اور انہوں نے نا پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا اور اپنی زبان(۳) یااپنے ہاتھ سے دفاع نہیں کیا اور پھرجب کہ مسلمانوں میں سے اتنے افراد کو قتل کردیا ہے جتنی ان کے پورے لشکر کی تعداد تھی۔

(۱۷۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(رسول اکرم (ص) کے بارے میں اوراس امر کی وضاحت کے سلسلہ میں کہ خلافت کاواقعی حقدار کون ہے ؟)

(۱)اس سے مراد طلحہ و زبری ہیں جنہوں نے زوجہ رسول (ص) کا اتنا بھی احترام نہیں کیا جتنا اپنے گھرکی عورتوں کا کیاکرتے تھے۔

(۲)جناب عثمان بن حنیف کا مثلہ کردیا اوران کے ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت کو تہ تیغ کردیا۔

(۳)فقہی اعتبارسے دفاع نہ کرنے والوں کا قتل جائز نہیں ہوتا ہے لیکن یہاں وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے امام برحق کے خلاف خروج کرکے فساد فی الارض کا ارتکاب کیاتھا اور یہجرم جواز قتل کے لئے کافی ہوتا ہے۔

۳۱۳

رسول الله أَمِينُ وَحْيِه وخَاتَمُ رُسُلِه - وبَشِيرُ رَحْمَتِه ونَذِيرُ نِقْمَتِه.

الجدير بالخلافة

أَيُّهَا النَّاسُ - إِنَّ أَحَقَّ النَّاسِ بِهَذَا الأَمْرِ أَقْوَاهُمْ عَلَيْه – وأَعْلَمُهُمْ بِأَمْرِ اللَّه فِيه - فَإِنْ شَغَبَ شَاغِبٌ اسْتُعْتِبَ فَإِنْ أَبَى قُوتِلَ - ولَعَمْرِي لَئِنْ كَانَتِ الإِمَامَةُ لَا تَنْعَقِدُ - حَتَّى يَحْضُرَهَا عَامَّةُ النَّاسِ فَمَا إِلَى ذَلِكَ سَبِيلٌ - ولَكِنْ أَهْلُهَا يَحْكُمُونَ عَلَى مَنْ غَابَ عَنْهَا - ثُمَّ لَيْسَ لِلشَّاهِدِ أَنْ يَرْجِعَ ولَا لِلْغَائِبِ أَنْ يَخْتَارَ - أَلَا وإِنِّي أُقَاتِلُ رَجُلَيْنِ - رَجُلًا ادَّعَى مَا لَيْسَ لَه وآخَرَ مَنَعَ الَّذِي عَلَيْه.

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - فَإِنَّهَا خَيْرُ مَا تَوَاصَى الْعِبَادُ بِه - وخَيْرُ عَوَاقِبِ الأُمُورِ عِنْدَ اللَّه - وقَدْ فُتِحَ بَابُ الْحَرْبِ بَيْنَكُمْ وبَيْنَ أَهْلِ الْقِبْلَةِ - ولَا يَحْمِلُ هَذَا الْعَلَمَ إِلَّا أَهْلُ الْبَصَرِ والصَّبْرِ - والْعِلْمِ بِمَوَاضِعِ الْحَقِّ - فَامْضُوا

پیغمبراسلام (ص) وحی الٰہی کے امانتدار اور خاتم المرسلین تھے۔رحمت الٰہی کی بشارت دینے والے اور عذاب الٰہی سے ڈرانے والے تھے ۔لوگو!یاد رکھو اس امرکا سب سے زیادہ حقدار وہی ہےجو سب سے زیادہ طاقتور اوردین الٰہی کاواقف کارہو اس کےبعداگر کوئی فتنہ پرداز فتنہ کھڑا کرے گاتو پہلے اسے توبہ کی دعوت دی جائے گی۔اس کے بعد اگرانکارکرے گا تو قتل کردیا جائے گا۔میری جان کی قسم اگر امامت کامسئلہ تمام افرادبشر کےاجتماع کے بغیر طے نہیں ہو سکتا ہے تواس اجتماع کاتو کوئی راستہ ہی نہیں ہے ہوتایہی ہے کہ حاضرین کا فیصلہ غائب افراد پرنافذ ہو جاتا ہے اور نہ حاضر کواپنی بیعت سے رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے اورنہ غائب کو دوسرا راستہ اختیار کرنے کا جواز ہوتا ہے۔ یاد رکھو میں دونوں طرح کے افراد سے جہاد کروں گا۔ان سے بھی جو غیر حق کے دعویدار ہوں گے اور ان سے بھی جوحقدار کو اس کا حق نہ دیں گے بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتاہوں کہ یہ بندوں کے درمیان بہترین وصیت ہے اور پیش پروردگار انجام کے اعتبارسے بہترین عمل ہے۔دیکھو !تمہارے اوراہل قبلہ مسلمانوں کے درمیان جنگ کا دروازہ کھولا جا چکا ہے۔اب اس علم(۱) کووہی اٹھائے گا جو صاحب بصیرت و صبرہوگا اورحق کےمراکزکا پہچاننے والا ہوگا۔تمہارا فرض ہے کہ میرے

(۱)علم لشکر قوم کی سر بلندی کی نشانی اور لشکرکے وقار و عزت کی علامت ہوتا ہے لہٰذا اس کواٹھانے والے کوبھی صاحب بصیرت و برداشت ہونا ضروری ہے ورنہ اگر پرچم سرنگوں ہوگیا تو نہ لشکر کاکوئی وقار رہ جائے گا اورنہمذہب کا کوئی اعتبار رہ جائے گا۔سرکار دو عالم (ص) نے انہیں خصوصیات کے پیش نظر خیبر کے موقع پر اعلان فرمایا تھاکہ کل میں اس کو علم دوں گا جو کرار' غیر فرار' محب خداو رسول (ص) محبوب خدا اور رسول (ص) اورمرد میدان ہوگا کہ اس کے علاوہ کوئی شخص علم برداری کا اہل نہیں ہو سکتا ہے۔

۳۱۴

لِمَا تُؤْمَرُونَ بِه وقِفُوا عِنْدَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْه - ولَا تَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ حَتَّى تَتَبَيَّنُوا - فَإِنَّ لَنَا مَعَ كُلِّ أَمْرٍ تُنْكِرُونَه غِيَراً

هوان الدنيا

أَلَا وإِنَّ هَذِه الدُّنْيَا الَّتِي أَصْبَحْتُمْ تَتَمَنَّوْنَهَا - وتَرْغَبُونَ فِيهَا وأَصْبَحَتْ تُغْضِبُكُمْ وتُرْضِيكُمْ - لَيْسَتْ بِدَارِكُمْ ولَا مَنْزِلِكُمُ الَّذِي خُلِقْتُمْ لَه - ولَا الَّذِي دُعِيتُمْ إِلَيْه - أَلَا وإِنَّهَا لَيْسَتْ بِبَاقِيَةٍ لَكُمْ ولَا تَبْقَوْنَ عَلَيْهَا - وهِيَ وإِنْ غَرَّتْكُمْ مِنْهَا فَقَدْ حَذَّرَتْكُمْ شَرَّهَا - فَدَعُوا غُرُورَهَا لِتَحْذِيرِهَا وأَطْمَاعَهَا لِتَخْوِيفِهَا - وسَابِقُوا فِيهَا إِلَى الدَّارِ الَّتِي دُعِيتُمْ إِلَيْهَا - وانْصَرِفُوا بِقُلُوبِكُمْ عَنْهَا - ولَا يَخِنَّنَّ أَحَدُكُمْ خَنِينَ الأَمَةِ عَلَى مَا زُوِيَ عَنْه مِنْهَا - واسْتَتِمُّوا نِعْمَةَ اللَّه عَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ عَلَى طَاعَةِ اللَّه

والْمُحَافَظَةِ عَلَى مَا اسْتَحْفَظَكُمْ مِنْ كِتَابِه - أَلَا وإِنَّه لَا يَضُرُّكُمْ تَضْيِيعُ شَيْءٍ مِنْ دُنْيَاكُمْ - بَعْدَ حِفْظِكُمْ قَائِمَةَ دِينِكُمْ - أَلَا وإِنَّه لَا يَنْفَعُكُمْ بَعْدَ تَضْيِيعِ دِينِكُمْ شَيْءٌ -

احکام کے مطابق قدم آگے بڑھائو اور میں جہاں روک دوں وہاںرک جائو۔اور خبردار کسی مسئلہ میں بھی تحقیق کے بغیر جلد بازی سے کام نہ لینا کہ مجھے جن باتوں کاتم انکار کرتے ہوان میں غیر معمولی انقلاب کا اندیشہ رہتا ہے ۔

یاد رکھو! یہ دنیا جس کی تم آرزو کر رہے ہو اور اورجس میں تم رغبت کا اظہار کر رہے ہو اور جو کبھی کبھی تم سے عداوت کرتی ہے اور کبھی تمہیں خوش کر دیتی ہے۔ یہ تمہاراواقعی گھر اور تمہاری واقعی منزل نہیں ہے جس کے لئے تمہیں خلق کیا گیا ہے اور جس کی طرف تمہیں دعوت دی گئی ہے اور پھر یہ باقی رہنے والی بھی نہیں ہے اور تم بھی اس میں باقی رہنے والے نہیں ہو۔یہ اگر کبھی دھوکہ دیتی ہے تو دوسرے وقت اپنے شر سے ہوشیار بھی کردیتی ہے۔لہٰذا اس کے دھوکہ سے بچواوراس کی تنبیہ پرعمل کرو۔اس کی لالچ کو نظر اندازکرو اور اس کی تخویف کاخیال رکھو۔اس میں رہ کر اس گھر کی طرف سبقت کرو' جس کی تمہیں دعوت دی گئی ہے۔اوراپنے دلوں کا رخ اس کی طرف سے موڑ لو اورخبر دار تم میںسے کوئی بھی شخص اس کی کسی نعمت سے محرومی کی بنا پرکنیزوں کی طرح رونے نہ بیٹھ جائے۔اللہ سے اس کی نعمتوں کی تکمیل کامطالبہ کرو اس کی اطاعت پر صبر کرنے اور اس کی کتاب کے احکام کی مخافظت کرنے کے ذریعہ۔

یاد رکھو اگر تم نے دین کی بنیادکو محفوظ کردیا تو دنیا کی کسی شے کی بربادی بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور اگر تم نے دین کو برباد کردیا تو دنیا میں کسی شے

۳۱۵

حَافَظْتُمْ عَلَيْه مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ - أَخَذَ اللَّه بِقُلُوبِنَا وقُلُوبِكُمْ إِلَى الْحَقِّ - وأَلْهَمَنَا وإِيَّاكُمُ الصَّبْرَ!

(۱۷۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معنى طلحة بن عبيد الله

وقد قاله حين بلغه خروج طلحة والزبير إلى البصرة لقتاله

قَدْ كُنْتُ ومَا أُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ - ولَا أُرَهَّبُ بِالضَّرْبِ - وأَنَا عَلَى مَا قَدْ وَعَدَنِي رَبِّي مِنَ النَّصْرِ - واللَّه مَا اسْتَعْجَلَ مُتَجَرِّداً لِلطَّلَبِ بِدَمِ عُثْمَانَ - إِلَّا خَوْفاً مِنْ أَنْ يُطَالَبَ بِدَمِه لأَنَّه مَظِنَّتُه - ولَمْ يَكُنْ فِي الْقَوْمِ أَحْرَصُ عَلَيْه مِنْه - فَأَرَادَ أَنْ يُغَالِطَ بِمَا أَجْلَبَ فِيه - لِيَلْتَبِسَ الأَمْرُ ويَقَعَ الشَّكُّ -. ووَ اللَّه مَا صَنَعَ فِي أَمْرِ عُثْمَانَ وَاحِدَةً مِنْ ثَلَاثٍ - لَئِنْ كَانَ ابْنُ عَفَّانَ ظَالِماً كَمَا كَانَ يَزْعُمُ - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه

کی حفاظت بھی فائدہ نہیں دے سکتی ہے ۔اللہ ہم سب کے دل کو حق کے راستہ پر لگا دے اور سب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔

(۱۷۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(طلحہ بن عبید اللہ کے بارے میں جب آپ کو خبر دی گئی کہ طلحہ و زبیر جنگ کے لئے بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے ہیں )

مجھے کسی زمانہ میں بھی نہ جنگ سے مرعوب کیا جا سکا ہے اور نہ حرب و ضرب سے ڈرایا جا سکا ہے۔میں اپنے پروردگار کے وعدہ نصرت پرمطمئن ہوں اور خدا کی قسم اس شخص(۱) نے خون عثمان کے مطالبہ کے ساتھ تلوار کھینچنے میں صرف اس لئے جلد بازی سے کام لیا ہے کہ کہیں اسی سے اس خون کا مطالبہ نہ کردیا جائے کہ اس امر کا گمان غالب ہے اور قوم میں اس سے زیادہ عثمان کے خون کا پیاسا کوئی نہ تھا۔اب یہ اس فوج کشی کے ذریعہ لوگوں کو مغالطہ میں رکھنا چاہتا ہے اور مسئلہ کو مشتبہ اورمشکوک بنا دینا چاہتا ہے حالانکہ خدا گواہ ہے کہ عثمان کے معاملہ میں اس کا معاملہ تین حال سے خالی نہیں تھا۔اگرعثمان ظالم تھا جیسا کہ اس کا اپنا خیال تھا تواس کا

(۱)مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ عثمان کے آخر دورحیات میں ان کے قاتلوں کا اجتماع طلحہ کے گھرمیں ہوا کرتا تھا اور امیرالمومنین ہی نے اس راز کا انکشاف کیا تھا اس کے بعد طلحہ ہی نے جنازہ پر تیر برسائے تھے اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا تھا لیکن چار دن کے بعد یہی ظالم خون عثمان کا وارث بن گیا اور عثمان کے واقعی محسن کو ان کے خون کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کو سوچنے کا موقع مل جائے اور بنی امیہ طلحہ سے انتقام لینے کے لئے تیار ہو جائیں اور یہ طریقہ ہرشاطر سیاست کارکا ہوتا ہے کہ وہ مسائل کو اس طرح مشتبہ بنا دیناچاہتا ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ ہونے پائے ۔چاہے اس راہ میں اپنے سفارت کاروں ہی کو کیوں نہ قربان کرنا پڑے؟

۳۱۶

أَنْ يُوَازِرَ قَاتِلِيه - وأَنْ يُنَابِذَ نَاصِرِيه -. ولَئِنْ كَانَ مَظْلُوماً - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُنَهْنِهِينَ عَنْه - والْمُعَذِّرِينَ فِيه - ولَئِنْ كَانَ فِي شَكٍّ مِنَ الْخَصْلَتَيْنِ - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه أَنْ يَعْتَزِلَه - ويَرْكُدَ جَانِباً ويَدَعَ النَّاسَ مَعَه - فَمَا فَعَلَ وَاحِدَةً مِنَ الثَّلَاثِ - وجَاءَ بِأَمْرٍ لَمْ يُعْرَفْ بَابُه ولَمْ تَسْلَمْ مَعَاذِيرُه

(۱۷۵)

من خطبة لهعليه‌السلام

في الموعظة وبيان قرباه من رسول اللَّه

أَيُّهَا النَّاسُ غَيْرُ الْمَغْفُولِ عَنْهُمْ - والتَّارِكُونَ الْمَأْخُوذُ مِنْهُمْ - مَا لِي أَرَاكُمْ عَنِ اللَّه ذَاهِبِينَ وإِلَى غَيْرِه رَاغِبِينَ - كَأَنَّكُمْ نَعَمٌ أَرَاحَ بِهَا سَائِمٌ إِلَى مَرْعًى وَبِيٍّ ومَشْرَبٍ دَوِيٍّ - وإِنَّمَا هِيَ كَالْمَعْلُوفَةِ لِلْمُدَى لَا تَعْرِفُ مَا ذَا يُرَادُ بِهَا - إِذَا أُحْسِنَ إِلَيْهَا تَحْسَبُ يَوْمَهَا دَهْرَهَا وشِبَعَهَا أَمْرَهَا

فرض تھا کہ قاتلوں کی مدد کرتا اور عثمان کے مدد گاروں کو ٹھکرا دیتا اور اگروہ مظلوم تھا تو اس کا فرض تھا کہ اس کے قتل سے روکنے والوں اور اس کی طرف سے معذرت کرنے والوں میں شامل ہو جاتا اور اگر یہ دونوں باتیں مشکوک تھیں تو اس کے لئے مناسب تھاکہ اس معاملہ سے الگ ہوکرایک گوشہ میں بیٹھ جاتا اور انہیں قوم کے حوالہ کر دیتا لیکن اس نے ان تین میں سے کوئی بھی طریقہ اختیارنہیں کیا اور ایسا طریقہ اختیار کیا جس کی صحت کا کوئی جواز نہیں تھا اوراس کی معذرت کاکوئی راستہ نہیں تھا۔

(۱۷۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

( جس میں موعظت کے ساتھ رسول اکرم (ص) سے قرابت کا ذکر کیا گیا ہے)

ا ے وہ غافلو جن کی طرف سے غفلت نہیں برتی جا سکتی ہے اوراے چھوڑ دینے والو جن کو چھوڑا نہیں جاسکتا ہے۔مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں اللہ سے دور بھاگتے ہوئے اور غیر خدا کی رغبت کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔گویا تم وہ اونٹ ہو جن کا چرواہا ایک ہلاک کردینے والی چراگاہ اور تباہ کردینے والے گھاٹ پر لے آیا ہو یا وہ چوپایہ ہو جسے چھریوں کے لئے پالا گیا ہے کہ اسے نہیں معلوم ہے کہ اس کے ساتھ برتائو کا واقعی مقصد کیا ہے اورجب اچھا برتاو کیا جاتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ ایک دن ہی سارا زمانہ ہے اور یہ شکم سیری ہی کل کام ہے۔

۳۱۷

واللَّه لَوْ شِئْتُ أَنْ أُخْبِرَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْكُمْ - بِمَخْرَجِه ومَوْلِجِه وجَمِيعِ شَأْنِه لَفَعَلْتُ - ولَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَكْفُرُوا فِيَّ بِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

أَلَا وإِنِّي مُفْضِيه إِلَى الْخَاصَّةِ مِمَّنْ يُؤْمَنُ ذَلِكَ مِنْه - والَّذِي بَعَثَه بِالْحَقِّ واصْطَفَاه عَلَى الْخَلْقِ - مَا أَنْطِقُ إِلَّا صَادِقاً - وقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ بِذَلِكَ كُلِّه وبِمَهْلِكِ مَنْ يَهْلِكُ - ومَنْجَى مَنْ يَنْجُو ومَآلِ هَذَا الأَمْرِ - ومَا أَبْقَى شَيْئاً يَمُرُّ عَلَى رَأْسِي إِلَّا أَفْرَغَه فِي أُذُنَيَّ - وأَفْضَى بِه إِلَيَّ.

أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي واللَّه مَا أَحُثُّكُمْ عَلَى طَاعَةٍ - إِلَّا وأَسْبِقُكُمْ إِلَيْهَا - ولَا أَنْهَاكُمْ عَنْ مَعْصِيَةٍ إِلَّا وأَتَنَاهَى قَبْلَكُمْ عَنْهَا..

خدا کی قسم میں چاہوں تو ہر شخص کواس کے داخل اور خارج ہونے کی منزل سے آگاہ کر سکتا ہوں اور جملہ حالات کو بتا سکتا ہوں۔لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم مجھ میں گم ہو کر رسول اکرم (ص) کا انکار نہ کردو اور یاد رکھو کہ میں ان باتوں سے ان لوگوں کو بہر حال آگاہ کردوں گا جن سے گمراہی کاخطرہ نہیں ہے۔ قسم ہے اس ذات اقدس کی جس نے انہیں حق کے ساتھ بھیجا ہے اورمخلوقات میں منتخب قرار دیا ہے کہ میں سوائے سچ کے کوئی کلام نہیں کرتا ہو۔انہوں نے یہ ساری باتیں مجھے بتا دی ہیں اور ہر ہلاک ہونے والے کی ہلاکت اور نجات پانے والے کی نجات کا راستہ بھی بتا دیا ہے اور اس امر خلافت کے انجام سے بھی با خبر کردیا ہے اور کوئی ایسی شے نہیں ہے جو میرے سر سے گزرنے والی ہو اور اسے میرے کانوں میں نہ ڈال دیا ہو اور مجھ تک پہنچا نہ دیا ہو۔

لوگو!خا گواہ ہے کہ میں تمہیں کسی اطاعت پرآمادہ نہیں کرتا ہوں مگر پہلے خود سبقت کرتا ہوں اور کسی معصیت سے نہیں روکتا ہوں مگر یہ کہ پہلے خود اس سے باز رہتا ہوں۔

۳۱۸

(۱۷۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يعظ ويبين فضل القرآن وينهى عن البدعة

عظة الناس

انْتَفِعُوا بِبَيَانِ اللَّه واتَّعِظُوا بِمَوَاعِظِ اللَّه - واقْبَلُوا نَصِيحَةَ اللَّه - فَإِنَّ اللَّه قَدْ أَعْذَرَ إِلَيْكُمْ بِالْجَلِيَّةِ واتَّخَذَ عَلَيْكُمُ الْحُجَّةَ - وبَيَّنَ لَكُمْ مَحَابَّه مِنَ الأَعْمَالِ ومَكَارِهَه مِنْهَا - لِتَتَّبِعُوا هَذِه وتَجْتَنِبُوا هَذِه - فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَانَ يَقُولُ - إِنَّ الْجَنَّةَ حُفَّتْ بِالْمَكَارِه - وإِنَّ النَّارَ حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ.

واعْلَمُوا أَنَّه مَا مِنْ طَاعَةِ اللَّه شَيْءٌ إِلَّا يَأْتِي فِي كُرْه - ومَا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّه شَيْءٌ إِلَّا يَأْتِي فِي شَهْوَةٍ - فَرَحِمَ اللَّه امْرَأً نَزَعَ عَنْ شَهْوَتِه وقَمَعَ هَوَى نَفْسِه - فَإِنَّ هَذِه النَّفْسَ أَبْعَدُ شَيْءٍ مَنْزِعاً - وإِنَّهَا لَا تَزَالُ

(۱۷۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں موعظہ کے ساتھ قرآن کے فضائل اوربدعتوں سے مانعت کاتذکرہ کیا گیا ہے )

(قرآن حکیم)

دیکھو پروردگار کے بیان سے فائدہ اٹھائو اور اس کے مواعظ سے نصیحت حاصل کرو اور اس کی نصیحت کوقبول کرو کہ اس نے واضح بیانات کی ذریعہ تمہارے ہر عذرکوختم کردیاہے اورتم پرحجت تمام کردی ہے تمہارے لئے اپنے محبوب اورنا پسندیدہ تمام اعمال کی وضاحت کردی ہے تاکہ تم ایک قسم کا اتباع کرواوردوسری سے اجتناب کرو کہ رسول اکرم (ص) برابر یہ فرمایا کرتے تھے کہ جنت ناگواریوں(۱) میں گھیردی گئی ہے اورجہنم کو خواہشات کے گھیرے میں ڈال دیا گیا ہے۔

یاد رکھو کہ خدا کی کوئی اطاعت ایسی نہیں ہے جس میں ناگواری کی شکل نہ ہو اور اس کی کوئی معصیت ایسی نہیں ہے جس میں خواہش کا کوئی پہلو نہ ہو۔اللہ اس بندہ پر رحمت نازل کرے جوخواہشات سے الگ ہوجائے اورنفس کے ہوا و ہوس کو اکھاڑ کر پھینک دے کہ یہ نفس خواہشات میں بہت دور تک کھینچ جانے والا ہے اور یہ ہمیشہ

(۱)ان نا گواریوں اور دشواریوں سے مراد صرف عبادات نہیں ہیں کہ وہ صرف کاہل اوربے دین افراد کے لئے دشوار ہیں ورنہ سنجیدہ اوردیندار افراد ان میں لذت اور راحت ہی کا احساس کرتے ہیں۔درحقیقت ان دشواریوں سے مراد وہ جہاد ہے جس میں ہر راہ حیات میں ساری توانائیوں کو خرچ کرنا پڑتا ہے اور ہر طرح کی زحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیساکہ سورہ ٔ مبارکہ توبہ میں اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ نے صاحبان ایمان کے جان و مال کو خرید لیا ہے اورانہیں جنت دیدی ہے۔یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمن کو تہ تیغ کرنے کے ساتھ خودبھی شہیدہوجاتے ہیں۔

۳۱۹

تَنْزِعُ إِلَى مَعْصِيَةٍ فِي هَوًى.

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه أَنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يُصْبِحُ ولَا يُمْسِي - إِلَّا ونَفْسُه ظَنُونٌ عِنْدَه - فَلَا يَزَالُ زَارِياً عَلَيْهَا ومُسْتَزِيداً لَهَا - فَكُونُوا كَالسَّابِقِينَ قَبْلَكُمْ والْمَاضِينَ أَمَامَكُمْ - قَوَّضُوا مِنَ الدُّنْيَا تَقْوِيضَ الرَّاحِلِ وطَوَوْهَا طَيَّ الْمَنَازِلِ.

فضل القرآن

واعْلَمُوا أَنَّ هَذَا الْقُرْآنَ هُوَ النَّاصِحُ الَّذِي لَا يَغُشُّ - والْهَادِي الَّذِي لَا يُضِلُّ والْمُحَدِّثُ الَّذِي لَا يَكْذِبُ - ومَا جَالَسَ هَذَا الْقُرْآنَ أَحَدٌ إِلَّا قَامَ عَنْه بِزِيَادَةٍ أَوْ نُقْصَانٍ - زِيَادَةٍ فِي هُدًى أَوْ نُقْصَانٍ مِنْ عَمًى –

واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ عَلَى أَحَدٍ بَعْدَ الْقُرْآنِ مِنْ فَاقَةٍ - ولَا لأَحَدٍ قَبْلَ الْقُرْآنِ مِنْ غِنًى - فَاسْتَشْفُوه مِنْ أَدْوَائِكُمْ - واسْتَعِينُوا بِه عَلَى لأْوَائِكُمْ - فَإِنَّ فِيه شِفَاءً مِنْ أَكْبَرِ الدَّاءِ - وهُوَ الْكُفْرُ والنِّفَاقُ والْغَيُّ والضَّلَالُ - فَاسْأَلُوا اللَّه بِه وتَوَجَّهُوا إِلَيْه بِحُبِّه - ولَا تَسْأَلُوا بِه

گناہوں کی خواہش ہی کی طرف کھینچتا رہتا ہے ۔

بندگان خدا ! یاد رکھو کہ مردمومن ہمیشہ صبح و شام اپنے نفس سے بدگمان ہی رہتا ہے اوراس سے ناراض ہی رہتا ہے اور ناراضگی میں اضافہ ہی کرتا رہتا ہے لہٰذا تم بھی اپنے پہلے والوں کے مانند ہو جائو جو تمہارے آگے آگے جا رہے ہیں کہ انہوں نے دنیا سے اپنے خیمہ ڈیرہ کو اٹھا لیا ہے اورایک مسافر کی طرح دنیاکی منزلوں کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے ہیں۔

یاد رکھو کہ یہ قرآن وہ ناصح ہے جودھوکہ نہیں دیتاہے اور وہ ہادی ہے جوگمراہ نہیں کرتا ہے۔وہ بیان کرنے والا ہے جو غلط بیانی سے کام لینے والا نہیں ہے۔کوئی شخص اس کے پاس(۱) نہیں بیٹھتاہے مگر یہ کہ جب اٹھتا ہے توہدایت میں اضافہ کر لیتا ہے یا کم سے کم گمراہی میں کمی کر لیتا ہے۔

یاد رکھو! قرآن کے بعد کوئی کسی کا محتاج نہیں ہو سکتاہے اور قرآن سے پہلے کوئی بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے ۔اپنی بیماریوں میں اس سے شفا حاصل کرواور اپنی مصیبتوں میں اس سے مدد مانگو کہ اس میں بد ترین بیماری کفرو نفاق اورگمراہی و بے راہ روی کا علاج بھی موجود ہے۔اس کے ذریعہ اللہ سے سوال کرو اوراس کی محبت کے وسیلہ سے اس کی طرف رخ کرو اوراس کے ذریعہ

(۱)کتنی حسین ترین تعبیر ہے تلاوت قرآن اور فہم قرآن کی کہ انسان قرآن کے ساتھ اس طرح رہے جس طرح کوئی شخص اپنے ہم نشین کے ساتھ بیٹھتا ہے اور اس سے مانوس رہتا ہے اورجس کے نتیجہ میں جمال ہم نشین سے متاثر ہوتا ہے۔مسلمانوں کاتعلق صرف قرآن مجید کے الفاظ سے نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے معانی سے ہوتا ہے تاکہ اس کے مفاہیم سے آشنا ہو سکے اور اس کے تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکے۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863