نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)9%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657134 / ڈاؤنلوڈ: 15928
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تھا ممکن ہے کہ وہ پہلے امیرالمومنین ؑ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہوں،اس امید پر کہ شاید اس کے بدلے میں امیرالمومنین ؑ انہیں معاف کردیں لیکن سابقہ روایت میں گذرچکا(کہ امیرالمومنین ؑ نے معاف کرنے کی ٹیڑھی شرط رکھ دی)تو جب عمر امیرالمومنین ؑ سے مایوس ہوگئے تو ان کے دل میں بدخیالی آئی(اور وہ جنت کے خواب دیکھنے لگے)انہوں نے امیرالمومنین ؑ کو اس جماعت میں قرار دیا جو دنیا کے بندے تھے اور خدا پر جسارت کرنےوالے تھے پھر ایسی کہ امیرالمومنین ؑ کی خلافت کے ہر راستے کو مسدود کردیا گیا اور کچھ ایسی تدبیر کی خلافت پھر عثمان ہی کے خاندان میں رہے اس خاندان میں جو حکومت کے لئےکچھ بھی کرسکتا تھا اور دنیا حاصل کرنے ے لئے کسی گناہ سے پرہیز نہیں کرتا تھا عمر کی تدبیر کا یہ منشا بھی یہی تھا کہ خلافت مولا علی ؑ اور آپ ک اہل بیت ؑ تک کبھی پہنچ ہی نہ سکے ۔

عمر نے یہ حرکت یا تو عثمان کی محبت میں کی تھی یا امیرالمومنین علیہ السلام کے اعراض کرنے کے لئے کہ ان کے دل میں آپ کی طرف سے بہت پرانا کینہ تھا یا اس لئے کہ آپ نے انہیں معاف نہیں کیا تھا یا اس لئے کہ وہ ڈ ر رہے تھے کہ حکومت اگر علی ؑ اور ان کے اہلبیت ؑ تک پہنچ گئی تو ان کی حقیقت کھل کر سامنے آجائےگی اور ان کی ناانصافی جو انہوں نے اہلبیت ؑ کے ساتھ کی تھی تا کہ حکومت ان تک نہ پہنچے تو ظاہر ہوجائےگی اور لوگ اہل بیت ؑ کی بات سننے لگیں گے ۔

بہرحال جو بھی ہو یہ روایت سچی ہو یا جھوٹی ایک بات تو سمجھ میں آرہی ہے کہ امیرالمومنین ؑ کو اہمیت دیکے خلافت کے معاملات سے خودبخود پردہ اٹھایا جارہا ہے اور یہ کہ لوگوں کے سامنے حکم الٰہی بالکل ظاہر تھا(اور سب لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مولا علی ؑ خلافت کے مستحق ہیں)اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں اور یہی باتیں امیرالمومنین ؑ کے لئے قوی تر مانع ہیں جو آپ کو اور اہل بیت ؑ کو غیروں کی خلافت کے اقرار سے روکتی ہیں اور خلیفہ غاصب کی شرعیت سے انکار کرتی ہیں کاش کہ انہیں اقرار کا حق ملا ہوتا ۔

۱۲۱

اسلام کی اعلی ظرفی اجازت نہیں دیتی کہ شریعت الٰہیہ کی پیروی قہر و غلبہ اور بزور کروائی جائے

ثانیاً ۔ اسلام کی اعلیٰ مزاجی اس کے پیغام کی بلندی اور مثالی تعلیمات اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ شریع الٰہیہ کی پیروی قوت کے ذریعہ کرائی جائے اور نہ اس کی اجازت دیتی ہے کہ حقدار اپنا حق زبردستی حاصل کرے جب کہ شریعت اسلامی میں خلافت الٰہیہ کا مقام بہت بلند اور بےپناہ قدامت و عظمت کا حامل ہے بخصوص قہر و غلبہ اور زور و زبردستی کی بدولت اپنے حق پر تسلط،حسد و غیرہ کی طرح نفسانی خواہشات کی پیروی اور پسندیدہ صفات اخلاقی کے منافی ہے جس کا تذکرہ دوسرے سوال کے جواب میں بھی کچھ حد تک کیا جاچکا ہے ۔

(اسلام کے بارے میں تو کم از کم یہ بات نہیں کہی جاسکتی)البتہ اسلام ہی کے معاصر اس وقت عرب میں دودین تھے یہودی اور نصرانی،ان کے بیان کے مطابق شریعت مقدسہ کی پابندی قہر و غلبہ کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور دینی مناصب قوت کے ذریعہ حاصل کرنا جائز ہے لیکن یہ جواز بھی ان خرافاتی قصّوں کی بنیاد پر تھا جنہیں دین میں تحریف و تاویل کرکے بنایا گیا تھا اور انھیں باتوں کو وہ دونوں قومیں دین سمجھتی تھیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ہی دین چونکہ آسمانی تھے اس لئے حقیقت میں ان فضول باتوں سے پاک تھے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دین اسلام جیسا عظیم دین جو تمام ادیان کا خاتم ہے اور اپنی تشریع میں مثالیت اور ہر کمال کا جامع ہےس کے اندر یہ غلط بات جائز ہوجائے ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ طے ہوگیا کہ ائمہ اہل بیت ؑ ہی امامت کے حق دار ہیں اور ان کے حق پر خدا کی طرف سے نص ہے جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں تو پھر ان حضرات کی طرف سے دونوں خلیفہ کی خلافت کے اقرار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور شریعت کی جانب داری کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے اس لئے کہ یہ دونوں باتیں نص الٰہی کے منافی ہیں اور دونوں ہی باتیں اسلامی شریعت کے تقدس اور اس کی اعلی ظرفی اور مثالی کردار کو نقصان پہنچاتی ہیں ۔

۱۲۲

خلیفہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امت کے کاروبار کو چلانے کے لئے اپنا نائب بنائے

ہاں خلیفہ شرعی کو اس بات کا حق حاصل ہے یہ کہ وہ امت کے امور کی دیکھ ریکھ کے لئے خاص خاص شہروں میں یا خاص حالات کے تحت کسی کو اپنا نائب بنادے اسی طرح کہ یہ شخص اس کا نائب ہو اس کی زیرنگرانی ہو اور اس کا ماتحت ہو،لیکن خلیفہ وہی(مصوص من اللہ)رہےگا،یہ نیابت خلافت کا بدل ہرگز نہیں ہوگی کہ خلیفہ اس کے حق میں دست بردار ہوگیا ہو یا اس کو ہبہ کردیا ہو یا اس کے ہاتھوں خلافت کو بیج دیا ہو ۔

سب کو معلوم ہے کہ مذکورہ بالا معنی میں نیابت ان دونوں خلفا کو بہرحال حاصل نہیں تھی نہ کسی دوسرے خلیفہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی وہ لوگ تو بس خود ہی حکومت کے ولی بن بیٹھے تھے خود کو حاکم اور خلیفہ اور ائمہ اہل بیت ؑ کو اپنی رعایا اور محکوم سمجھتے تھے ۔

شیعہ اچھی طرح اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اہل بیت ؑ اپنے حق سے دست بردا رنہیں ہوئے

شیعوں کو اس بات کی کامل بصیرت ہے کہ ائمہ اہل بیت ؑ اپنے حق سے دست بردار نہٰں ہوئے تھے بلکہ ان حضرات نے ہر دور میں اس بات کی شکایت کی ہے کہ ان کا حق غصب کرلیا گیا ہے اور ان پر ظلم کیا گیا ہے،ہر عہد میں وہ ظالموں کا انکار کرتے رہے،ان سے اظہار برائت کرتے رہے اور ان کی مخالفت میں بولتے رہے وہ لوگ اس اظہار برائت اور انکار کو دین واجب التُّمسُّک کا تتمّہ مانتے تھے اور نجات کو اس پر موقوف سمجھتے تھے اس بات کی تائید میں شیعوں نے اپنے اماموں سے بیشمار حدیثیں روایت کی ہیں جو استفاضہ کی حد اور تواتر کے مرتبے کو پہنچی ہوئی ہیں،نتیجے میں صورت

۱۲۳

حال یہ ہوگئی کہ یہ عقیدہ ان کے ضروریات دین میں شامل ہوگیا وہ اس میں نہ اختلاف کرتے ہیں نہ ہی اس عقیدے کو چھوڑنے پر تیار ہیں ۔

یہ دعویٰ کرنا کہ شیعہ اپنے اماموں کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں کہاںتک حقیقت پر مبنی ہے؟

ہوسکتا ہے کہ کوئی یہ دعویٰ کرے کہ شیعہ اپنے اماموں کی طرف جھوٹے افعال کی نسبت دیتے ہیں اس معاملے میں شیعہ خطاکار ہیں اور اماموں پر بہتان باندھتے ہیں یہ دعویٰ خاص طور سے ان لوگوں کا ہے جو شیعیت کے چہرے کو مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کے اوپر بڑے بڑے گناہوں کی تہمت رکھتے ہیں لگتا ہے وہ لوگ دین اور حق کو پہچانتے ہی نہیں اور انہوں نے اپنے دینی عقیدے اور مسلک کی بنیاد محض افترا پردازی،گمراہی،بدعت اور خرافات پر رکھی ہے ۔

مذکورہ دعوی کی تردید اور شیعوں کی صداقت کے شواہد

حقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ دعویٰ اس لئے ہے کہ شیعہ حق پر ہیں اور ان کی دلیلوں کی کوئی کاٹ دشمن کے پاس موجود نہیں ہے شیعوں نے اپنی دلیلوں کو ڈ ھال بناکے ان دشمنوں کی خُصومت برداشت کی اور ان کے تمام راستے بند کردیئے،مجبور ہو کے دشمنوں نے ہٹ دھرمی اور بہتان کا سہارا لیا تا کہ شیعوں کے لئے نفرت پیدا کرسکیں اور اتنی نفرت پیدا کردیں کہ ان کا دعویٰ اور ان کی دلیلوں کی طرف کوئی توجہ ہی نہ دے ورنہ اگر ذوق جستجو رکھنےوالا انسان اپنے مسلمات و جذبات سے الگ ہو کے از نگاہ انصاف دیکھے اور دلائل و شواہد کا مطالعہ کرے تو شیعوں کی صداقت اس پر مشکوک نہیں رہےگی وہ سمجھ لےگا کہ شیعوں نے اپنے

۱۲۴

اماموں کی طرف کوئی جھوٹ نہیں منسوب کیا ہے اس لئے کہ شیعہ اماموں سے بہت محبت رکھتے ہیں بڑی عقیدت رکھتے ہیں ان کی سیرت کو مقام استدلال میں پیش کرتے ہیں اور ان کی سیرت سے سبق لےکے اسی پر زندگی گذراتے ہیں ۔

جھوٹ بولنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جب کہ شیعہ انھیں عقیدوں کی وجہ سے ہمیشہ بلاؤں کا سامنا کرتے رہے

1 ۔ اگر یہ باتیں ان کے اماموں سے صادر نہیں ہوتیں تو شیعہ ان باتوں کو محض افترا کے طور پر ان کی طرف منسوب نہیں کرتے،نہ انھیں دین سمجھ کے مانتے،نہ ان پر اپنے عقائد کی بنیاد رکھتے اس لئے کہ محض جھوٹ اور افترا کے لئے بلائیں جھیلنے اور مصیبتیں اٹھانے پر کوئی تیار نہیں ہوتا ہے،شیعہ صرف انہیں عقائد کی وجہ سے شروع ہی سے دنیا بھر کی سختیاں جھیلتے رہے اور مصیبتیں اٹھاتے رہے ہیں ۔

پھر یہ سوچیئے کہ عقائد اور معلومات میں غلطی کب ہوتی ہے جب انسان مرکز سے دور ہو مثلاً انبیائے کرام ؐ کے بارے میں یا ان کی تعلیمات کے بارے میں غلطی کا امکان اس لئے ہے کہ انبیاء ؐ اور امت کے درمیان ہزاروں صدیوں کے پردے حائل ہیں صاحب دعوت اور مبشرین اور ان کی سیرت کے ناقلین کے درمیان ایک بُعد زمانی پایا جاتا ہے،لیکن شیعہ اور سنیوں کے اماموں کے درمیان اس بُعد زمانی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے کہ یہ عقائد تو شیعوں کے یہاں امیرالمومنین علی علیہ السلام کے دور ہی میں جانے پہچانے جاچکے تھے جیسا کہ ابھی پیش کئے جائیں گے ان عقیدوں کی مزید وضاحت شہادت حسین ؑ کے بعد ہوگئی اس لئے کہ ہمارے اماموں نے یہ سمجھ لیا کہ ابھی ہمیں سلطنت کا مطالبہ نہیں کرنا ہے اور مستقبل قریب میں حکومت ہمیں نہیں ملنےوالی ہے تو آپ حضرات نے شیعہ ثقافت کی تہذیب و تربیت پر بھرپور توجہ دی اور اپنے علوم و معارف کو شیعوں کے درمیان پھیلانا شروع کیا تا کہ شیعوں کا ایک ماحول اور شیعہ طرز زندگی کا ایک خاکہ لوگوں کے سامنے آجائے شیعہ عقائد

۱۲۵

ایسے دور میں سامنے آرہے تھے جس وقت شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ رہ رہے تھے انہیں یکے بعد دیگر اپنے ائمہ ؑ سے دوسو سال تک اختصاص حاصل رہا بلکہ غیبت صغریٰ کے زمانے کو بھی اس سے ملا لیا جائے تو یہ مدت اور بڑھ جاتی ہے جس میں شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ وقت گذارتے رہے اور بلاواسطہ ان سے مستفید ہوت رہے پھر ملاوٹ کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،میں نے غیبت صغریٰ سے نواب اربعہ کے توسط سے بہرحال لگاؤ بنا ہوا تھا دوسوستر( 270) سال تک شیعہ اپنے اماموں سے ملتے جلتے رہے پھر ممکن نہیں ہے کہ ہر امام کی کوئی رائے یا کوئی نظریہ ان کے شیعوں سے پوشیدہ رہا یا کوئی اختلاف پیدا ہوا ہو ۔

اگر شیعہ مفتری ہوتے تو ان کے امام ان سے الگ ہوجاتے

اگر شیعوں کے پاس ان کے معصوم اماموں کا بنایا ہوا مذہب نہ ہوتا بلکہ ان کا خود ساختہ مذہب ہوتا تو اماموں پر واجب تھا کہ وہ شیعوں کا انکار کردیتے اور اگر شیعہ اپنے افترا اور بہتان پر اصرار کررہے ہوتے تو معصوم امام پر واجب تھا کہ وہ شیعوں کو چھوڑ دیتے انھیں خود سے دور کردیتے ان سے الگ ہوجاتے اور ان کے ساتھ مل جل کے ہرگز نہ رہتے جب کہ غلط کاروں کے ساتھ انہوں نے ایسا ہی سلوک کیا،مثلاً امیرالمومنین علیہ السلام نے انھیں چھوڑ دیا جو آپ کی ذات میں غلو کرتے تھے،امام صادق علیہ السلام ابوالخطاب اور اس کی جماعت سے الگ ہوگئے بعد کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام نے بھی ان لوگوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جو اماموں کے طریقوں سے الگ ہو کے اپنا راستہ بنارہے تھے اور معصوموں کی ذات کو ملوث کررہے تھے لیکن شیعوں کے ساتھ ان حضرات کا لگاؤ ہمیشہ بنارہا،آپ حضرات اپنے شیعوں کے ماحول میں پائے جاتے تھے شیعہ فرقہ ان سے طاقت حاصل کرتا رہا،ان کی محبت شیعوں کی پہیچان بن گئی،شیعہ انھیں کی طرف متوجہ رہے،ان کی خوشی میں خوش اور ان کے غم سے رنجیدہ،ان کی سیرت کے جویا اور ان کے طرز زندگی سے واقف ہونے کے لئے کوشاں،ان کے فقہ

۱۲۶

احادیث اور تعلیمات پر عمل پیراں رہے اور ان گرانقدر چیزوں کے اپنے مکتوبات اور کتابوں میں محافظ رہے،ان کی حدیث اور سیرت کا تذکرہ اپنی مجلسوں میں کرتے رہے،انہیں پر بھروسہ کرتے رہے اور ان کو اپنے لئے عزت کا سبب سمجھتے رہے بلکہ انھیں آثار و معالم کے ذریعہ دشمن پہ حملہ کرتے رہے۔

دنیا کا طریقہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے امام کی رائے اور خیالات کا علم اس امام کے اصحاب کے واسطے سے اور اس کے خاص لوگوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے پھر ائمہ اہل بیتؑ کے مذہب کا علم ان حضرات کے شیعوں کے واسطے سے کیوں نہیں ہوگا؟جب کہ یہ شیعہ ان حضرات کے آس پاس ہمیشہ موجود رہے،ان کے مخصوص افراد بنتے رہے اور ان کے افعال میں مدد کرتے رہے،یہ سلسلہ طویل مدت تک چلتا رہا اور سب کے سامنے یہ عمل ہوتا رہا جب کہ اس دور کے رئیسوں اور بادشاہوں سے شیعہ اتنے قریب نہیں تھے جتنا اپنے اماموں سے تھے۔

ائمہ اہل بیتؑ کی میراث کا تحفظ شیعوں ہی نے کیا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شیعہ ان حضرات سے مخصوص تھے

اس کے باوجود اگر کوئی ہٹ دھرم اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ شیعہ اہل بیت ؑ کے اماموں سے مخصوص نہیں تھے اور ان سے مذہبی معاملات میں ہدایتیں نہیں لیتے تھے اور یہ کہ شیعوں نے اہل بیت ؑ سے جھوٹی حدیثیں منسوب کی ہیں تو میں اس سے کہوں گا کہ پھر ان دعاؤں(1) اور زیارتوں(2) کا کیا کرو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)جیسے دعائے کمیل،صباح،عشرات،نیز وہ دعائیں جو حضرت امیرالمومنینؑ سے مروی ہیں اور عرفہ کے دن امام حسینؑ کی دعا،صحیفہ سجادیہ کی دعائیں،دعائے افتتاح،ابوحمزہ ثمالی جو رمضان میں پڑھی جاتی ہے نیز باقی ماہ رمضان کے روز و شب اور سحر کی دعائیں اور رجب و شعبان کی دعائیں،شب جمعہ کی دعائیں نیز اس کے علاوہ بےشمار دعائیں،مضامین عالیہ جو اللہ کی تمجید سے متعلق ہے اور اس کی تقدیس اور ثناء سے متعلق ہے۔

(2)جیسے حضرت امیرالمومنینؑ کی زیارت جو(امین اللہ)کے نام سے معروف ہے اور آپ کی باقی زیارتیں جو مختلف مناسبتوں سے پڑھی جاتی ہیں،زیارت وارثہ،نصب شعبان کی شب میں امام حسینؑ کے لئے نیز آپ کی باقی زیارتیں جو مختلف مناسبتوں سے پڑھی جاتی ہیں تمام ائمہؑ کے لئے زیارت جامعہ کبیرہ اور باقی معصومینؑ کی زیارتیں جو بلند و بالا مضامین کا دفتر ہے۔

۱۲۷

گے جو صرف شیعوں کے پاس ہیں اور ان کے اماموں سے مروی ہیں دعاؤں اور زیارتوں کی ایک بڑی مقدار ہے جو مختلف مواقع پر مختلف الفاظ میں ائمہ اہل بیت ؑ سے وارد ہوئی ہے وہ دعائیں اور زیارتیں حکمت،موعظہ،خطابت اور دوسرے مضامین عالیہ پر مشتمل ہیں جن کو پڑھ کے پتہ چلتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ ہیں جو ائمہ اہل بیت ؑ کو حاصل تھیں اور علم الٰہی کے یہ خزانے صرف شیعوں کے پاس ہیں جو شیعوں کو دوسرے فرقوں سے ممتاز کرتے ہیں اس لئے کہ ان دعاؤں اور زیارتوں کی زبان اور ان کے مضامین پکار پکار کے کہہ رہے ہیں کہ یہ مضامین صرف وہی وارد کرسکتا ہے جس کو ادھر سے علم ملا ہے اور یہ دوسروں کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ نگاہ انصاف سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکلےگا کہ ائمہ اہل بیت ؑ نے شیعوں کو جو دعائیں ودیعت کیں یا جو زیارتیں وارد فرمائیں اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ شیعہ ان سے مخصوص تھے شیعوں نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دینا ضروری سمجھا اور شیعہ ان کی رضا کے طالب اور ان کے پسندیدہ افراد تھے ۔

ورنہ یہ دعائیں اور زیارتیں سینوں کے پاس کیوں نہیں ہیں؟انہوں نے کیوں نہیں نقل کیا یا اگر نقل کیا تھا تو کیوں نہیں حفاظت سے رکھا اور اس کےحق کی رعایت کیوں نہیں کی؟(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)ہمعصر دینی مرجع سید شہاب الدین مرعشیؒ صحیفہ سجادیہ کے مقدمہ میں اپنی استدراک جو1361سنہ میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے اور ہم1353سنہگذار رہے ہیں میں نے اس کا ایک نسخہ علامہ معاصر شیخ جوہری طنطاوی کی خدمت میں ارسال کیا جو صاحب التفسیر بھی ہیں جس کی شہرت مفتی اسکندریہ کے نام سے ہوئی ہے تا کہ وہ مطالعہ کریں پھر انھوں نے صحیفہ پہنچنے کی قاہرہ سے مجھے اطلاع دی اور میرا اس گرانقدر ہدیہ پر شکریہ ادا کیا اور اس کی مدح و ثنا میں رطب اللسان ہوگئے یہاں تک کہ آپ نے کہا:اس وقت ہماری بدبختی یہ ہے کہ ہم اس اثر جاوید تک رسائی نہیں رکھتے جو نبوت اور اہل بیتؑ کی میراث کا ایک جزء ہے اور میں نے جتنا غور و خوض کیا اسے مخلوق کے کلام سے بالا اور خالق کے کلام کے بعد ہی پایا،پھر مجھے سے اس کے بارے میں سوال کیا کہ آیا علماء اسلام میں سے کسی نے اس کی شرح کی ہے پھر میں نے شارحین کے اسماء درج کئے جسے میں بھی جانتا تھا پھر میں نے ریاض السالکین سید علی خان کی خدمت پیش کیا تو انھوں نے بھی اس کے پہنچنے کی خبر دی،اور لکھا کہ میں عزم مصمم رکھتا ہوں کہ اس گرانقدر صحیفہ کی شرح کروں،اگر شیخ جوہری طنطاوی اپنی کثیر معلومات اور کثیر اطلاع کے باوجود اس صحیفہ سجادیہ سے بےخبر رہے جب کہ اس کی شہرت اور اس کا چرچا،مکتب خیال کے الگ ہونے کے باوجود شیعوں کے درمیان تھی تو پھر جو کم اطلاع رکھتے ہیں ان کے لئے کیسے ممکن ہے پھر ان کا کیا حال ہوگا جو صحیفہ سجادیہ سے کم رتبہ اور اہمیت کتاب رکھتے ہوں گے۔

۱۲۸

یہ بات ماننی پڑےگی کہ جس طرح قرآن مجید صداقت نبوت کی گواہی دیتا ہے اسی طرح یہ اور وضائف اس بات کی گوہی دیتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت ؑ کو یہ نبی ؐ کی طرف سے میراث میں ملے ہیں اور شیعوں کو یہ علم ائمہ اہل بیت ؑ کی طرف سے درحقیقت نبی ؐ کی ہدایت سے ملا ہے ۔ ائمہ اہل بیت ؑ کی واردہ کردہ دعاؤں اور زیارتوں کو دیکھئے پھر غور کیجئے کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی عظیم المرتبہ دعائیں اور اتنی معنی خیز زیارتیں شیعہ یا کوئی انسان اپنی طرف سے بنالے اور پھر اس کو اہل بیت ؑ کی طرف منسوب کردے،عادۃً یہ مشکل ہے کہ اتنے بڑے مجموعہ کی بنیاد کذب اور بہتان پر ہو اور ان ارشادت کو وارد کرنےوالا کوئی نہ ہو جو ان کو حق پر جمع کرسکے بلکہ حق تو یہ ہے کہ عادۃً یہ مشکل ہے کہ اتنے بڑے مجموعہ کی بنیاد کذب اور بہتان پر ہو اور ان ارشادت کو وارد کرنےوالا کوئی نہ ہو جو ان کو حق پر جمع کرسکے بلکہ حق تو یہ ہے کہ عادۃً ان دعاؤں کا صدور ائمہ اہل بیت ؑ کے علاوہ کسی سے بھی ناممکن ہے اس لئے کہ اہل بیت ؑ نبی کریم ؐ کے وارث ہیں اور انھوں نے سرکار سے علم لیا ہے جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اہل بیت ؑ اطہار گفتگو کے بادشاہ تھے(1) اور انہیں کے پاس حکمت اور فصل خطاب تھا ۔(2) ایک طرف تو یہ علمی ذخیرہ شیعوں کی صداقت کا گواہ ہے اس لئے کہ شیعہ اس خزانے کے تنہا وارث ہیں اس خزانے کی معرفت شیعوں کو ہے اور اسی خزانے کی وجہ سے وہ عالم اسلام میں قابل عزت ہیں دوسری طرف یہ علمی خزانہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ شیعوں اپنے اماموں کی طرف جو نسبت دی ہے وہ سب کی سب صحیح ہے اور شیعہ اپنے اماموں سے مخصوص ہیں ان کی ہدایتوں پر عمل کرتے ہیں،ان کے علوم و معارف کے حامل ہیں اور اماموں کی خاص عنایت کے مستحق ہیں شیعوں کو ان کے اماموں نے اپنے مقدس مبارک اور شریف علوم سے فیضیاب کیا ہے ۔

شیعوں کے کردار میں اماموں کے اخلاق کی جھلک

خیال وہ ہے جو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کے مقدمہ میں امیرالمومنینؑ کی سوانح حیات میں لکھا ہے،وہ لکھتے ہیں جہاں تک وسعت اخلاق خندہ پیشانی،زندہ دلی،اور تبسم کا سوال ہے تو مولائے کائنات کی ان صفات میں مثال دی جاتی ہے یہاں تک کہ آپ کے دشمن ان صفات حسنہ کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:2ص:266 (2)بحارالانوارج:9ص:209،ج:28ص:53

۱۲۹

عیب کہہ کے پیش کرتے تھے،عمروعاص نے اہل شما سے کہا علی ؑ بہت زیادہ پر مذاق آدمی ہیں(ہنسنے ہنسانےوالا)حلانکہ عمروعاص کا یہ جملہ بھی اس کا نہیں ہے بلکہ اس کا نہیں ہے بلکہ اس نے یہ جملہ عمر بن خطاب سے لیا ہے،جب عمر نے مولا علی ؑ کو خلیفہ بنانے کا ارادہ کیا تھا تو یہ کہا تھا کہ خدا تمہارے باپ کو بخشے اگر تم پر مذاق نہ ہوتے تو عمر تم ہی پر اقتصار کرتا عمروعاص نے اس میں کچھ اضافہ کیا ہے اور مقام مذمت میں وارد کیا ہے صعصعہ ابن صوحان اور آپ کے دوسرے شیعہ اور اصحاب آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ ؑ ہمارے درمیان ہم ہی جیسے بن کے رہتے تھے،نرم دل منکسر مزاج اور سہل القیادۃ تھے،پھر بھی ہم پر آپ کی ہیبت اس طرح طاری رہتی تھی جیسے ایک قطار میں بندھے ہوئے قیدیوں پر ان کے سامنے کوئی تلوار لےکے کھڑا ہو ۔

یہ اخلاق حسنہ آپ کے اولیا اور آپ کے چاہنےوالوں میں میراث کے طور پر منتقل ہوئے اور اب تک ان کے اندر باقی ہیں جس طرح آپ کے دشمنوں کو جفا بدروی اور بداخلاقی ان کے بزرگوں سے میراث میں ملی ہے اور اب تک باقی ہے جو اخلاقیات میں سطحی نظر بھی رکھتا ہے وہ اس فرق کو ضرر محسوس کرلےگا ۔(1)

ظاہر ہے کہ جب ائمہ اہل بیت ؑ کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ اپنے شیعوں کو اپنے اخلاق و کردار کے سانچے میں ڈ ھال سکتے تھے اور ان کے اندر اپنے اخلاق عالیہ کو منتقل کرسکتے تھے جیسے نرم دلی،وسعت اخلاق و غیرہ تو پھر ان کے اندر یہ صلاحیت بھی ماننی پڑےگی کہ وہ شیعوں کو امامت و خلافت کے بارے میں اپنے مذہب سے باخبر رکھتے اور انہیں حکم دیتے کہ وہ امامت کے معاملے میں ان کے مذہب کی پیروی کریں اور چونکہ شیعہ ذاتی طور پر ان حضرات سے متاثر تھے اور اخلاق میں ان کے نقش قدم پر چلتے تھے تو وہ بہرحال عقیدہ امامت و خلافت میں بھی ان کی پیروی کرتے تھے اور ان کے مزہب سے الگ نہیں تھے اس لئے کہ یہ تو ایک علمی مسئلہ تھا اور اس کا جان لینا اور مان لینا تو اخلاق و سیرت کی عملی پیروی سے زیادہ آسان ہے شیعہ ایک زمانے سے سنی بھائیوں کی بےرحمی ظلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:25۔26،علیؑ کے ایک قول اور ان کے فضائل کا ذکر۔

۱۳۰

اور زیادتی جھیلتے چلے آرہے ہیں اس کے باوجود ان کے اندر اخلاقی وسعت طبیعت کی نرمی اور خوش خلقی پائی جاتی ہے ورنہ حالات کا تو تقاضا یہ تھا کہ وہ سنیوں کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ان کی طرف سے دل میں کینہ رکھتے اور ان سے بداخلاقی سے پیش آتے یہ صرف ائمہ اہل بیت ؑ کی سیرت کا اثر ہے کہ شیعہ دشمنی کینہ اور حسد جھیل رہے ہیں لیکن اپنے اماموں کی سیرت چھوڑنے پر تیار نہیں ۔

اہل سنت کی ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے کنارہ کشی

حالات کا نگاہ انصاف سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلےگا کہ جمہور اہل سنت نے اپنے عقائد و ثقافت میں ائمہ اہل بیت ؑ سے کچھ نہیں لیا ہے اور ہمیشہ ان حضرات کو معزول سمجھا ہے،ہر دور میں سنی سماج چاہے عوام ہوں یا خواص،چاہے فقہا ہوں یا روات،سب کے سب اہل بیت سے ہمیشہ الگ رہے خاص طور سے متاخر،ائمہ ؑ کو سنیوں نے بالکل ہی نظرانداز کردیا جن کے دور میں شیعہ امامیہ کے عقائد اور معالم نکھر کر سامنے آئے اور شیعوں کو ایک مستقل اور ممتاز حیثیت ملی حالانکہ سنی حضرات اس تاریخی حقیقت سے انکار کی کوشش کرتے بہرحال اہل بیت ؑ کا احترام تو وہ بھی کرتے ہیں لیکن ان کا یہ انکار قابل قبول نہیں ہے اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اصول دین میں یہ لوگ اشاعرہ،ماتریدی اور معتزلی فرقہ کی پیروی کرتے ہیں،جب کہ فروع میں مذہب اربعہ میں سے کسی ایک مذہب پر عمل کرتے ہیں وہ اپنے عقائد و فقہ میں سے کسی بات کو ائمہ اہل بیت ؑ کی طرف منسوب نہیں کرتے حلانکہ اہل بیت ؑ کی طرف سے فقہ و اصول اور اقوال جو بھی وارد ہوئے ہیں ان میں سے اکثر مذکورہ بالا فرقوں کے نظریہ سے بالکل ہی الگ ہیں ائمہ اہل بیت ؑ کی باتوں پر صرف ائمہ اہل بیت ؑ کے شیعہ عامل ہیں،سنی ان کو سرے سے نہیں مانتے ۔

شیعیان اہل بیت ع اور دشمنان اہل بیت ع کے بارے میں سنیوں کا نظریہ

جمہور اہل سنت کے ان لوگوں سے خوب دوستی کرتے ہیں جنہوں نے اہل بیت ع سے جنگ کی یا ان کو برا بھلا کہا ایسے افراد کا یہ لوگ بہت احترام کرتے ہیں ، ان کی غلط حرکتوں سے تجاہل برتتے ہوئے انہیں کی

۱۳۱

روایتوں سے احتجاج کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی غلطیوں کی یا تو توجیہ کریں یا ان کی صفائی پیش کرکے ان کی طرف سے معذرت کرلیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اہل بیت ؑ کے شیعہ ایسے لوگوں سے ہمیشہ الگ رہے اور شروع ہی سے ان کی سخت مخالفت کی اور کڑا رویہ اپنایا(لیکن دشمنان اہل بیت ؑ کی حمایت)یہ حضرات صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے کبھی اہل بیت ؑ کی پیروی نہیں کی ان سے کوئی سروکار نہیں رکھا اور اہل بیت ؑ کے نقش قدم پر اس طرح نہیں چلے جس طرح وہ اوّلین یعنی عمر،ابوبکر کے نقش قدم پر چلتے آئے اور انہوں نے اہل بیت ؑ سے ویسی محبت بھی کبھی نہیں کی جیسی ان دونوں سے وہ محبت کرتے رہے ہیں بلکہ بعض مقامات پر تو اہل سنت کے خواص و عوام کے دل میں اہل بیت ؑ کی طرف سے جو کینہ ہے وہ ان کی تحریروں میں ظاہر بھی ہوگیا ہے،افسوس کی بات یہ ہے کہ جوش و جذبہ کے عالم میں انہوں نے اپنے دل کے حالات کھول کے بیان کردئے اور چھپانے کی کوشش کی مگر چھپا نہیں سکے ۔

ائمہ اہل بیت ؑ کے بارے میں علما اہل سنت کے کچھ نظریے

1 ۔ علامہ ذہبی سُنّی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں،ابوجعفر محمد بن علی امام بھی تھے اور مجتہد بھی یعنی کتاب خدا کی تلاوت کرنےوالے،شان میں بڑے تھے،لیکن علم قرآن میں ان کا درجہ ابن کثیر اور ان کے جیسے علما تک نہیں پہنچتا تھا،فقہ میں وہ ابوزنا اور ربیعہ سے کم تھے اور سنت نبوی کی معرفت اور اس کا تحفظ ابن شہاب اور قتادہ سے کم درجہ پر تھا ۔(1)

افسوس!ذرا دنیا کی زبوں حالی اور پستی دیکھئے یہ لوگ کس سے مقابلہ کررہے ہیں حد ہوگئی کہ ایسے(نچلے طبقے کے)لوگ محمد باقر علیہ السلام سے افضل بتائے جارہے ہیں حالانکہ امام محمد باقر ؑ کے لئے آپ کے جد کی سیرت میں نمونہ عمل ہے امیرالمومنین ؑ فرمایا کرتے تھے کہ((میری ذات اوّل ہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سیرہ اعلام النبلاءج:4ص:402ترجمہ ابی جعفر باقر

۱۳۲

کے مقابلے میں مقام شک میں کب تھی کہ مجھے ایسے لوگوں کا مقارن بنایا جارہا ہے ۔(1)

2 ۔ اور سنیوں کے امام الحدیث بخاری،انہوں نے کبھی امام جعفر صادق علیہ السلام کی کسی حدیث سے احتجاج نہیں کیا اپنی صحیح میں آپ سے کوئی روایت بھی نہیں لی(2) حالانکہ مروان بن حکم(3) ( ملعون پیغمبر ؐ )اور عمران بن حطان(4) خارجی(جس نے مولیٰ امیرالمومنین علی ؑ کے قاتل ابن مجلم کی بڑی تعریف کی ہے اور ابن ملجم کو متقی پرہیزگار اور عنداللہ ماجور قرار دیا ہے)تک سے روایتیں لی ہیں ۔

امام بخاری کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن اسود نے ان سے یحییٰ بن سعید نے کہا کہ:اگر جعفر ابن محمد کا معاملہ یہ ہے کہ اگر تم ان سے معافی مانگوگے تو وہ کوئی ہرج نہیں محسوس کریں گےاور اگر تم ان پر محمول کروگے تو وہ خود پر محمول کرلیں گے ۔(5)

3 ۔ یحییٰ بن سعید کہتا ہے کہ جعفر ابن محمد نے مجھے ایک لمبی حدیث لکھوائی وہ حدیث حج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:1ص:35

(2)تذکرۃ الحفاظ،ج:1ص:167،امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کے ضمن میں،سیر اعلام النبلاءج:6ص:269

میزان الاعتدال،ج:2ص:144،امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کے ضمن میں،المگنی فی الضعفاء،ص:134،تہذیب التہذیب ج:2ص:90امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات میں۔

(3)صحیح بخاری ج:1ص:265،کتاب صفۃ الصلاۃ،باب مغرب میں قرات کا بیان ج:2ص:567،کتاب الحج،حج تمتع افراد قرآن اور نسخ حج کے بیان میں اگر قربانی ہمراہ نہ ہو،ج:2ص:810،کتاب الوکالۃ باب اگر وکیل کو کوئی چیز ہبہ کردے یا قوم کے شفیع کو تو نبیؐ کے بقول جائز ہے جو آپ نے ہوازن گروہ کے جواب میں فرمایا تھا کہ انھوں غنیمتوں کے بارے میں سوال کیا تھا اس پر رسولؐ نے کہا میرا حصہ تمہارے لئے ہےج:3ص:1042،کتاب الجہاد و السیر،ج:3ص:1362،کتاب فضائل الصحابۃ،ج:4ص:1532،کتاب المغازی،غزوہ حدیبیہ کے باب میں ج:4ص:1677،کتاب التفسیر باب جنگ میں جانےوالوں راہ خدا میں جہاد کرنےوالوں کے برابر نہیں ہیں ج:5ص:2039،کتاب طلاق

(4)صحیح بخاری ج:5ص:کتاب اللباس ص:2194،ریشمی لباس کے باب ص:2220،باب نقص صور

(5)تاریخ کبیرج:2ص:198حالات جعفر بن محمد بن علیؑ

۱۳۳

کے بارے میں تھی لیکن ان کی لکھوائی ہوئی حدیث کے خلاف میرے دل میں پھانس ہے میرے نزدیک مجالدان سے زیادہ پیارا ہے ۔(1)

4 ۔ ابوحاتم محمد بن حبان تمیمی نے امام صادق علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ ان کا ان روایتوں سے احتجاج کیا جاسکتا ہے جو ان کی اولاد کے علاوہ لوگوں نے نقل کی ہیں،اس لئے کہ ان کی اولاد سے جو حدیثیں آئی ہیں ان میں تو بہت سے مناکیر(قابل انکار)باتیں ہیں،ہمارے اماموں میں سے جن لگوں نے ان کی اولاد کی حدیث دیکھی ہے وہی لوگ ان کے اقوال کو کمزور بتاتے ہیں(2)

حالانکہ آپ کی اولاد مسلمانوں میں سادات کا درجہ رکھتی ہے اور انہیں اولاد میں ائمہ اہل بیت ؑ بھی ہیں ۔

5 ۔ مصعب بن عبداللہ زبیری کہتے ہیں کہ مالک ابن انس جعفر بن محمد ؑ سے روایت لیتے تو تھے لیکن جب بلند مرتبہ راویوں کی حدیثیں لکھ لیتے تھے تو سب سے آخر میں امام جعفر صادق ؑ حدیث رکھتے تھے ۔(4)

6 ۔ احمد بن حنبل سے امام صادق علیہ السلام کے بارے میں پوچھا گیا تو کہنے لگے ان سے یحییٰ نے روایت کی ہے لیکن انہیں کمزور بتایا ہے ۔(5)

7 ۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں،امام صادق علیہ السلام قابل اعتبار تھے،صاحب عقل تھے صاحب حکمت،بڑے پرہیزگار اور فاضل تھے،جعفری فقہ انھیں کی طرف منسوب ہے اور شیعہ امامیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(2)سیر اعلام النبلاءج:6ص:256،جعفر بن محمد صادق علیہ السلام کی سوانح حیات میں،الکامل فی ضعفاءالرجال،ج:2ص:131۔132۔133،جعفر بن محمد صادقؑ کی سوانح حیات میں،اور کتاب نصب الرایۃ،ج:2ص:413،اور تہذیب التہذیب ج:2ص:88،

(4)تھذیب الکمال ج:5ص:76،حالات جعفر بن محمد الصادق،الکامل فی ضعفاءالرجال ج:2ص:131،حالات جعفر بن محمد الصادقؑ۔

(5)العلل و معرفۃ الرجال ص:52بحرم الدم ص:97

۱۳۴

انھیں کی فقہ پر عمل کرتے ہیں،لیکن شیعوں نے ان کے بارے میں بہت سے جھوٹ منسوب کر رکھے ہیں مجھے تو یاد نہیں ہے ابن عینیہ نے کہا ہے ان جھوٹی باتوں میں سے اس کے پاس کچھ محفوظ ہیں۔(1)

8۔ابن حجر کہتے ہیں کہ امام صادقؑ کے بارے میں سعد نے کہا ہے کہ آپ کثیرالحدیث تو ہیں لیکن آپ کی روایتوں سے احتجاج نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ وہ ضعیف راوی ہیں،ان سے ایک بار پوچھا گیا کہ کیا آپ نے یہ حدیثیں اپنے والد سے لی ہیں تو بولے ہاں پھر دوسری بار پوچھا گیا تو کہنے لگے میں نے اپنے والد کے مخطوطات میں دیکھا ہے۔(2)

9۔ابوحاتم نے حضرت امام ابوالحسن علی رضا علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے واجب ہے کہ ان کی حدیثوں کا اعتبار کیا جائے لیکن صرف ان حدیثوں کا جن کو ان کی اولاد یا ان کے شیعوں نے روایت نہیں کیا ہو،خاص طور سے ابوصلت نے۔(3)

حالانکہ امام رضا علیہ السلام کے صرف ایک ہی بیٹے تھے یعنی ابوجعفر محمد الجوادؑ۔

ابوحاتم کہتا ہے کہ ان کے صاحبزادے ان کے حوالے سے عجیب و غریب روایتیں بیان کرتے تھے اباصلت و غیرہ بھی عجائب کے راوی تھے لگتا ہے ان کو وہم ہوتا تھا یا غلطی کرتے تھے(4)

10۔ابن طاہر کہتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام اپنے آبا و اجداد کے حوالے سے عجائب بیان کیا کرتے تھے۔(5)

11۔نباتی نے امام رضا علیہ السلام کی طرف منسوب حدیث کا انکار کرتے ہوئے کہا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)التمھید،ابن عبدالبرج ج:2ص:66،حالات جعفر بن محمد بن علیؑ،

(2)تھذیب التہذیب ج:2ص:88حالات جعفر بن محمد بن علیؑ

(3)الثقات ج:8ص:456حالات علی بن موسی رضاؑ

(4)المجروحین ج:2ص:106حالات علی بن موسی الرضاؑ،تھذیب التھذیب ج:7ص:339حالات علی بن موسی الرضا،سیرہ اعلام نبلاءج:9ص:389حالات علی الرضاؑ

(5)المغنی فی الضعفاء،ج:2ص:456،میزان الاعتدال ج:5ص:192حالات علی بن موسی الرضاؑ

۱۳۵

کہ جو ایسی حدیثوں کی روایت کرتا ہے ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے اور ان سے بچا جائے۔(1)

12۔اور ابن خلدون نے بہت سخت باتیں لکھی ہیں،لکھتا ہے کہ اہل بیت کا مذہب بالکل اکیلا ہے جس کو انہوں نے بدعۃً ایجاد کیا ہے،ان کی فقہ منفرد ہے،ان کے مذہب کی بنیاد قدح صحابہ اور اپنے اماموں کی عصمت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اماموں میں اختلاف ہو ہی نہیں سکتا حالانکہ یہ سارے اصول بالکل واہیات ہیں اس طرح کی شاذ باتیں خوارج بھی کیا کرتے ہیں،ہمارے علما جمہور کا اس مذہب اور ایسے عقائد میں کوئی رول نہیں ہے بلکہ ہمارے علما نے ان عقائد سے شدت سے انکار کیا ہے اور بڑے پیمانے پر مخالفت کی ہے ہم ان کے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے نہ ان سے کوئی روایت لیتے ہیں اسلامی ملکوں میں ان کے آثار بھی نہین پائے جاتے مگر ان کے وطن میں ملتے ہیں،شیعہ کتابیں ان کے ہی شہروں میں ملیں گی جہاں ان کو حکومت چل رہی ہے۔(2)

مذکورہ بالا بیان ابن خلدون کے قلم سے اگر چہ اہل بیتؑ کی دشمنی اور ان کے بغض میں ڈوب کے نکلا ہے بلکہ خود حضرت نبیؐ کی دشمنی میں ڈوبا ہوا ہے اس لئے کہ آپؐ نے ہی اہلبیتؑ کو اپنی امت کا مرجع قرار دیا تھا جو انہیں گمراہی اور ہلاکت سے بچانے کے ذمہ دار تھے لیکن ایک بات اس بیان سے بہرحال صاف ہوگئی وہ یہ کہ علما جمہور بلکہ جمہور اہل سنت کو اہل بیتؑ سے کوئی مطلب نہیں ہے یہ لوگ اہل بیتؑ سے ہمیشہ کنارہ کشی کرتے رہے۔

مذکورہ بالا بیان اس بات کی بھی شہادت دیتا ہے کہ شیعہ ہمیشہ خود کو اہل بیتؑ سے منسوب کرتے رہے انہیں اپنا امام سمجھتے رہے اور ان کی پیروی کرتے رہے جب کہ سنی ان پر یہ الزام لگاتے رہے کہ یہ لوگ خواہ مخواہ خود کو اہل بیتؑ سے منسوب کرتے ہیں اور جھوٹ باتیں منسوب کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تہذیب التہذیب ج:7ص:339،حالات علی بن موسی الرضّا

(2)مقدمہ ابن خلدون ج:1ص:446ساتویں فصل،علم فقہ اور اس کی اتباع و فرائض

۱۳۶

کاش میں سمجھ سکتا کہ جب یہ بڑے بڑے علما اہل بیتؑ کے لوگوں کو علم میں کمتر،حدیث میں ضعیف اور شاذ و غیرہ بتارہے ہیں تو وہ کون سے اہل بیتؑ تھے جنھیں نبیؐ نے(حدیث عترت و اہل بیت میں)گمراہی سے بچنے کا ذریعہ اور ہلاکت سے نجات کا وسیلہ بتایا تھا۔(1)

کسی بھی صاحب عقل کے لئے میرا یہ سوال قابل غور ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے تا کہ اس سوال کے جواب سے انسان اطمینان بخش نتیجہ تک پہنچ سکے اور خدا کے سامنے عذر پیش کرنے کے لائق بن سکے اس دن جب وہ خدا کے سامنے کھڑا ہوگا،((یوم لا یغنی مولی عن مولی شیئاً ولا ہم ینصرون))(2)

ترجمہ آیت:((جس دن کوئی بھی دوست اپنے دوست کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکےگا اور نہ ان کی مدد کی جائےگی))۔

ائمہ اہل بیتؑ کے بارے میں عام سنیوں کے کچھ نظریئے

عام اہل سنت بھی اہل بیتؑ کے بارے میں اپنے علما کی پیروی کرتے ہیں کبھی اپنے علما کا دفاع بھی کرتے ہیں اور کبھی عجیب و غریب انداز میں صفائیاں پیش کرتے ہیں لیکن ایک بات سب میں مشترک ہے یعنی جب اہل بیتؑ کا معاملہ آتا ہے تو وہ بالکل الگ ہوجاتے ہیں اور شدت سے اہل بیتؑ سے کنارہ کشی کرتے ہیں،تاریخ کے واقعات اور مسلمان ملکوں کے حالات میرے مذکورہ بالا بیان پر شاہد ہیں۔

میں نمونے کے طور پر کچھ واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

1۔ابن اثیر363سنہکے بغداد کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے ابوتغلب بغداد کا کوتوال تھا کہ سرکشی کرنےوالے اور شرپسند عناصر نے بغداد کے مغربی علاقے میں فساد برپا کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)جیسا کہ حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ و غیرہ میں آیا ہے

(2)سورہ دخان آیت:41

۱۳۷

سنی شیعہ فساد شہر میں بہت تیزی سے پھوٹ پڑا،سوق طعام کے کچھ اہل سنت نے ایک عورت کو ناقہ پر بٹھا دیا اور اس کا نام عائشہ رکھا خود ان کے مردوں میں کسی کا نام طلحہ اور کسی کا نام زبیر رکھا گیا اور پھر دوسرے فرقے سے انہوں نے قتال شروع کیا اور کہنے لگے ہم علی بن ابی طالبؑ سے لڑرہے ہیں اسی طرح کی شرانگیز باتیں کرنے لگے۔(1)

ابن کثیر لکھتا ہے کہ عاشور کے دن بغداد میں رافضیوں کی طرح بہت سی شنیع(غلیظ)بدعتوں پر عمل کیا گیا اہل سنت اور رافضیوں کے درمیان ایک بڑا فتنہ ہوا دونوں ہی عقل سے کورے یا کم عقل تھے ان پر کسی کا کنٹرول نہیں تھا فتنہ یہ تھا کہ اہل سنت نے ایک عورت کو اونٹ پر بٹھایا اور اس کا نام عائشہ رکھا مردوں میں کسی نے اپنا نام طلحہ رکھا تو کسی نے زبیر اور کہنے لگے ہم علیؑ کیا صحاب سے جنگ کررہے ہیں نتیجہ میں بغداد کی گلیوں میں بہت خون بہا اور دونوں فرقوں میں سے بہت سے لوگ مارے گئے۔(2)

2۔جب جمہور اہل سنت نے دیکھا کہ وہ عزائے حسینؑ کو روکنے سے عاجز ہیں اور شیعوں کو حسین شہید پر ماتم کرنے سے نیہں روکا جاسکتا نہ آپ کی زیارت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے تو انہوں نے غم حسینؑ کی ضد میں ایسے طریقے قائم کئے جن سے ان کے رجحان فکر کا پتہ چلتا ہے،کاش کسی کی سمجھ میں یہ بات آجاتی کہ وہ شیعوں سے کہتے ہیں کہ ہم تم سے زیادہ حسینؑ اور اہل بیتؑ پر حق رکھتے ہیں پھر وہ اپنے طریقے پر عزائے مولا اور زیارت حسینؑ کا دستور بناتے اور اس طرح زیارت کرتے جو ان کے عقیدے کے مطابق ہوتا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے مقابلہ میں دشمنان اہل بیتؑ کی عزاداری قائم کی اور ان کی بزرگی کا اعلان کیا وہ مصعب ابن زبیر کا ماتم ٹھیک شیعوں کی طرح کرنے لگے اور جس طرح شیعہ حسینؑ مظلوم کی زیارت کرتے ہیں اسی طرح وہ مصعب ابن زبیر کی زیارت کرنے لگے یہ سلسلہ ان میں برسوں چلتا رہا۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکامل فی التاریخ ج:7ص:363،340سنہکے حادثات۔

(2)البدایہ و النھایہ ج:11ص:363،275سنہکے حادثات۔

(3)البدایہ و النھایہ ج:11ص:363،323،326سنہکے حادثات،الکامل فی التاریخ ج:8ص:363،10سنہکے حادثات

۱۳۸

ظاہر ہے کہ مصعب ابن زبیر کوئی ایسی شخصیت تو ہے نہیں کہ جس کا احترام کیا جائے نہ اس کی اندر ایسی کوئی صفت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کو مقدس سمجھا جائے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں نے مصعب ابن زبیر کا غم عزاداری کے لئے کیوں منتخب کیا،ایک بات سمجھ میں آتی ہے اور وہ اور اس کے مسلک کے لوگ جو زبیریوں کے نام سے جانے جاتے ہیں اہل بیتؑ سے کھلی ہوئی دشمنی رکھتے تھے جمہور اہل سنت کے دل میں اہل بیتؑ سے جو کینہ اور بغض بھرا ہوا ہے اس کا مظاہرہ اسی طرح ہوسکتا تھا کہ کسی دشمن اہل بیتؑ کی عزاداری کا اہتمام کیا جائے اور انہوں نے ایسا ہی کیا اور اپنے دل کینہ کا اظہار اس وسلیہ سے کیا۔

3۔ابن اثیر کے حوالہ سے عرض کرتا ہوں کہ شیعہ کے خلاف بغداد میں جو فتنہ اٹھا تھا وہ بھی اہل بیتؑ سے دشمنی کا ایک مظاہرہ تھا جو اہل سنت کی طرف سے کیا جارہا تھا اس فتنہ کا سبب یہ تھا کہ اہل کرخ(شیعوں)نے باب سماکین کو قلائین نے باب مسعود کی باقی ماندہ عمارت کو تعمیر کیا اور اس میں بہت سے گنبد بنائے ان گنبدوں پر سونے کے پانی سے ایک کتبہ لکھا کتبہ کا مضمون تھا(محمد و علی خیرالبشر)اہل سنت نے کہا یہ تحریر غلط ہے انہوں نے کہا کہ ان گنبدوں پر لکھا ہوا ہے:(محمد و علی خیر البشر فمن رضی فقد شکر و من ابیٰ فقد کفَرَ)یعنی محمد و علی خیر بشر ہیں جو اس پر راضی ہے اس نے شکر ادا کیا اور جو اس کا منکر ہے وہ کافر ہے،اہل کرخ(شیعہ)نے کہا ہم نے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے ہم اپنی مسجدوں پر یہی لکھتے چلے آئے ہیں بات خلیفہ تک پہنچ گئی اس دور میں خلیفہ عباسی قائم بامراللہ تھا اس نے عباسیوں کے نقیب ابوتمام اور علویین کے نقیب عدنان بن رضی کو دریافت حال کے لئے بھیجا اور فتنہ کو روکنے کی بھی ہدایت کی یہ دونوں آئے حالات کا جائزہ لیا اور دونون نے شیعوں کے عمل کو صحیح قرار دیا اور ان کی تصدیق کی،خلیفہ نے حکم دیا اور نواب رحیم نے بھی کہ جنگ و جدال بند کردی جائے لیکن اہل سنت نے نہیں مانا،قاضی ابن مذہب زہری اور دوسرے حنبلیوں نے لکھا ہے ان میں عبدالصمد کے اصحاب بھی شامل ہیں کہ اہل سنت نے بہت طوفان مچایا اور

۱۳۹

شہر کے رئیس الرؤسا نے شیعوں پر بہت تشدد کیا آخر شیعوں نے اس کتبے سے خیرالبشر ہٹا کر وہاں علیہما السلام لکھ دیا لیکن سنی اس پر بھی راضی نہین ہوئے ان کا مطالبہ تھا کہ ہم وہ تختی ہی اکھیڑ دیں گے جس پر محمدؐ و علیؑ لکھا ہوا ہے اور یہ کہ شیعہ اذان میں(حی علیٰ خیر العمل)نہ پکاریں شیعوں نے یہ مطالبہ رد کردیا جس کی وجہ سے فتنہ بڑھتا رہا اور تین ربیع الاول تک آپس میں قتل و غارت اور حربیہ اور باب بصرہ کے علاوہ تمام سنی محلوں میں گھوم کر لوگوں کو اس کے خون کا بدلہ لینے پر ابھارتے رہے جب دفن کرکے واپس پلٹے تو مشہد کے باب سوم پر حملہ کردیا(کاظمین پر حملہ کردیا)لوگوں نے اس کا دروازہ بند کردیا تو انہوں نے دیوار میں نقب لگانی شروع کردی اور دربانوں کو ڈرایا،دھمکایا ان غریبوں نے مارے ڈر کے دروازے کھول دیئے یہ لوگ مشہد میں درّانہ گھسے اور تمام قندیلیں لوغ لیں،محرابوں میں جو کچھ سونا چاندی تھا سب کو لوٹ لیا،سارے پردے لوٹ لئے،تربت اور دیواروں پر جو قیمتی سامان تھے وہ بھی لوٹ لیا یہاں تک کہ راہ ہوگئی تو یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس ہوئے،دوسرے دن پہلے سے زیادہ(بڑا)مجمع آیا اور مشہد(کاظمین)میں آگ لگادی گئی سارے کمروں میں اور برامدوں کو جلا ڈالا،موسیٰ بن جعفر اور محمد بن علی علیہما السلام کی ضریح میں آگ لگادی اور ان دونوں قبوں میں بھی آگ لگادی جو ان کی ضریح کے اوپر بنائے گئے تھے پھر اس ضریح کے آس پاس کی تمام چیزوں کو جلا دیا اور اتنے گندم کام کئے کہ اس سے پہلے دنیا میں ایسے کام نہیں ہوئے تھے۔

(ربیع الاوّل)مہینہ کی پانچویں تاریخ کو وہ لوگ پھر آئے اور دونوں مظلوم اماموں(یعنی موسیٰ بن جعفر اور محمد بن علی رضا علیہما السلام)کی قبر کھودنی شروع کی تا کہ دونوں حضرات کے جسم اطہر کو حنبلیوں کے قبرستان میں لے جائیں لیکن ملبہ بہت تا اس لئے نشان قبر نہیں پاسکے تو پھر آس پاس میں نقب لگا کے قبر تک پہنچنا چاہا عباسیوں کے نقیب ابوتمام نے جب یہ حرکت دیکھی اور دوسرے ہاشمیوں اور کچھ سنیوں کو یہ خبر ملی تو وہ لوگ آئے اور اپنے لوگوں کو اس فعل قبیح سے روکا۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکام فی التاریخ ج:8ص:301۔302بغداد میں جو جھگڑا ہوا اور مشہد کو جلایا یہ حادثہ سال443سنہمیں ہوا۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

فَيَنْحَتُّ مِنْ قَصَبِه انْحِتَاتَ أَوْرَاقِ الأَغْصَانِ - ثُمَّ يَتَلَاحَقُ نَامِياً حَتَّى يَعُودَ كَهَيْئَتِه قَبْلَ سُقُوطِه - لَا يُخَالِفُ سَالِفَ أَلْوَانِه - ولَا يَقَعُ لَوْنٌ فِي غَيْرِ مَكَانِه - وإِذَا تَصَفَّحْتَ شَعْرَةً مِنْ شَعَرَاتِ قَصَبِه - أَرَتْكَ حُمْرَةً وَرْدِيَّةً وتَارَةً خُضْرَةً زَبَرْجَدِيَّةً - وأَحْيَاناً صُفْرَةً عَسْجَدِيَّةً - فَكَيْفَ تَصِلُ إِلَى صِفَةِ هَذَا عَمَائِقُ الْفِطَنِ - أَوْ تَبْلُغُه قَرَائِحُ الْعُقُولِ - أَوْ تَسْتَنْظِمُ وَصْفَه أَقْوَالُ الْوَاصِفِينَ!وأَقَلُّ أَجْزَائِه قَدْ أَعْجَزَ الأَوْهَامَ أَنْ تُدْرِكَه - والأَلْسِنَةَ أَنْ تَصِفَه - فَسُبْحَانَ الَّذِي بَهَرَ الْعُقُولَ عَنْ وَصْفِ خَلْقٍ جَلَّاه لِلْعُيُونِ - فَأَدْرَكَتْه مَحْدُوداً مُكَوَّناً ومُؤَلَّفاً مُلَوَّناً - وأَعْجَزَ الأَلْسُنَ عَنْ تَلْخِيصِ صِفَتِه - وقَعَدَ بِهَا عَنْ تَأْدِيَةِ نَعْتِه!

صغار المخلوقات

وسُبْحَانَ مَنْ أَدْمَجَ قَوَائِمَ الذَّرَّةِ - والْهَمَجَةِ إِلَى مَا فَوْقَهُمَا مِنْ خَلْقِ الْحِيتَانِ والْفِيَلَةِ - ووَأَى عَلَى نَفْسِه أَلَّا يَضْطَرِبَ شَبَحٌ مِمَّا أَوْلَجَ فِيه الرُّوحَ -

یہ بال و پر اس طرح گرتے ہیں جیسے درخت کی شاخوں سے پتے گرتے ہیں اور پھر دوبارہ یوں اگ آتے ہیںکہ بالکل پہلے جیسے ہو جاتے ہیں ۔نہ پرانے رنگوں سے کوئی مختلف رنگ ہوتا ہے اور نہ کسی رنگ کی جگہ تبدیل ہوتی ہے۔بلکہ اگر تم اس کے ریشوں میں کسی ایک ریشہ پر بھی غور کرو گے تو تمہیں کبھی گلاب کی سرخی نظر آئے گی اور کبھی زمرد کی سبزی اور پھر کبھی سونے کی زردی۔بھلا اس تخلیق کی توصیف تک فکروں کی گہرائیاں کس طرح پہنچ سکتی ہیں اور ان دقائق کو عقل کی جودت کس طرح پا سکتی ہے یا تو صیف کرنے والے اس کے اوصاف کو کس طرح مرتب کر سکتے ہیں۔

جب کہ اس کے چھوٹے سے ایک جزء نے اوہام کو وہاں تک رسائی سے عاجز کردیا ہے اور زبانوں کی اس کی توصیف سے درماندہ کردیا ہے۔

پاک و بے نیاز ہے وہ مالک جس نے عقلوں کو متحیر کردیا ہے اس ایک مخلوق کی توصیف سے جسے نگاہوں کے سامنے واضح کردیا ہے اور نگاہوں نے اسے محدود اور مرتب و مرکب و ملون شکل میں دیکھ لیا ہے اور پھر زبان کو بھی اس کی صفت کا خلاصہ بیان کرنے اوراس کی تعریف کا حق ادا کرنے سے عاجز کردیا۔

اور پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے چیونٹی اور مچھر سے لے کر ان سے بڑی مچھلیوں اور ہاتھیوں تک کے پیروں کو مضبوط و مستحکم بنایا ہے اور اپنے لئے لازم قرار دے لیا ہے کہ کوئی ذی روح ڈھانچہ حرکت نہیں کر ے گا

۳۰۱

إِلَّا وجَعَلَ الْحِمَامَ مَوْعِدَه والْفَنَاءَ غَايَتَه.

منها في صفة الجنة

فَلَوْ رَمَيْتَ بِبَصَرِ قَلْبِكَ نَحْوَ مَا يُوصَفُ لَكَ مِنْهَا - لَعَزَفَتْ نَفْسُكَ عَنْ بَدَائِعِ مَا أُخْرِجَ إِلَى الدُّنْيَا - مِنْ شَهَوَاتِهَا ولَذَّاتِهَا وزَخَارِفِ مَنَاظِرِهَا - ولَذَهِلَتْ بِالْفِكْرِ فِي اصْطِفَاقِ أَشْجَارٍ - غُيِّبَتْ عُرُوقُهَا فِي كُثْبَانِ الْمِسْكِ عَلَى سَوَاحِلِ أَنْهَارِهَا - وفِي تَعْلِيقِ كَبَائِسِ اللُّؤْلُؤِ الرَّطْبِ فِي عَسَالِيجِهَا وأَفْنَانِهَا - وطُلُوعِ تِلْكَ الثِّمَارِ مُخْتَلِفَةً فِي غُلُفِ أَكْمَامِهَا - تُجْنَى مِنْ غَيْرِ تَكَلُّفٍ فَتَأْتِي عَلَى مُنْيَةِ مُجْتَنِيهَا - ويُطَافُ عَلَى نُزَّالِهَا فِي أَفْنِيَةِ قُصُورِهَا - بِالأَعْسَالِ الْمُصَفَّقَةِ والْخُمُورِ الْمُرَوَّقَةِ - قَوْمٌ لَمْ تَزَلِ الْكَرَامَةُ تَتَمَادَى بِهِمْ - حَتَّى حَلُّوا دَارَ الْقَرَارِ وأَمِنُوا نُقْلَةَ الأَسْفَارِ - فَلَوْ شَغَلْتَ قَلْبَكَ أَيُّهَا الْمُسْتَمِعُ - بِالْوُصُولِ إِلَى مَا يَهْجُمُ عَلَيْكَ مِنْ تِلْكَ الْمَنَاظِرِ الْمُونِقَةِ - لَزَهِقَتْ نَفْسُكَ شَوْقاً إِلَيْهَا -

مگر یہ کہ اس کی اصلی وعدہ گاہ موت(۱) ہوگی اور اس کا انجام کا رفنا ہوگا۔

اب اگر تم ان بیانات پر دل کی نگاہوں سے نظر ڈالو گے تو تمہارا نفس دنیا کی تمام شہوتوں ۔لذتوں اور زینتوں سے بیزار ہو جائے گا اور تمہاری فکر ان درختوں کے پتوں کی کھڑ کھڑاہٹ میں گم ہو جائے گی جن کی جڑیں ساحل دریا پر مشک کے ٹیلوں میں ڈوبی ہوئی ہیں اور ان ترو تازہ موتیوں کے گچھوں کے لٹکنے اور سبز پتیوں کے غلافوں میں مختلف قسم کے پھلوں کے نکلنے کے نظاروں میں گم ہو جائے گی جنہیں بغیر کسی زحمت کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور وہاں وارد ہونے والوں کے گرد محلوں کے آنگنوں میں صاف و شفاف شہد اورپاک و پاکیزہ شراب کے دور چل رہے ہوں گے۔وہاں وہ قوم ہوگی جس کی کرامتوں نے اسے کھینچ کر ہمیشگی کی منزل تک پہنچا دیا ہے اور انہیں سفر کی مزید زحمت سے محفوظ کردیا ہے۔اسے میری گفتگو سننے والو! اگر تم لوگ اپنے دلوں کو مشغول کرلو اس منزل تک پہنچنے کے لئے جہاں یہ دلکش نظارے پائے جاتے ہیں تو تمہاری جان اشتیاق کے مارے از خود نکل جائے گی

(۱) کیا عبرت ناک ہے یہ زندگی ایک طرف راحتیں ،لذتیں ، آرائشیں، زیبائشیںہیں اور دوسری طرف موت کا بھیانک چہرہ! انسان ایک نظر اسآرائش وزیبائش کی طرف کتا ہے اور دوسری نظر اس کے انجام کارکی طرف۔بالکل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک طرف مور کے پر ہیں اور دوسری طرف پیر۔پروں کو دیکھ کر غرور پیدا ہوتا ہے اور پیروں کو دیکھ کر اوقات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

انسان اپنی زندگی کے حقائق پرنظر کرے تو اسے اندازہ ہوگا کہ اس کی پوری حیات ایک مور کی زندگی ہے جہاں ایک طرف راحت و آرام ، آرائش و زیبائش کا ہنگامہ ہے اور دوسری طرف موت کا بھیانک چہرہ۔

ظاہر ہے کہ جو انسان اس چہرہ کو دیکھ لے اسے کوئی چیز حسین اور دلکش محسوس نہ ہوگی اور وہ اس پر فریب دنیا سے جلد از جلد نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

۳۰۲

ولَتَحَمَّلْتَ مِنْ مَجْلِسِي هَذَا - إِلَى مُجَاوَرَةِ أَهْلِ الْقُبُورِ اسْتِعْجَالًا بِهَا - جَعَلَنَا اللَّه وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ يَسْعَى بِقَلْبِه - إِلَى مَنَازِلِ الأَبْرَارِ بِرَحْمَتِه.

تفسير بعض ما في هذه الخطبة من الغريب

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - قولهعليه‌السلام يؤر بملاقحه الأر كناية عن النكاح - يقال أر الرجل المرأة يؤرها إذا نكحها -. وقولهعليه‌السلام كأنه قلع داري عنجه نوتيه - القلع شراع السفينة - وداري منسوب إلى دارين - وهي بلدة على البحر يجلب منها الطيب - وعنجه أي عطفه - يقال عنجت الناقة كنصرت أعنجها عنجا إذا عطفتها - والنوتي الملاح -. وقولهعليه‌السلام ضفتي جفونه أراد جانبي جفونه - والضفتان الجانبان -. وقولهعليه‌السلام وفلذ الزبرجد - الفلذ جمع فلذة وهي القطعة -. وقولهعليه‌السلام كبائس اللؤلؤ الرطب - الكباسة العذق - والعساليج الغصون واحدها عسلوج

اور تم میری اس مجلس سے اٹھ کر قبروں میں رہنے والوں کی ہمسائیگی کے لئے آمادہ ہو جائو گے تاکہ جلد یہ نعمتیں حاصل ہوجائیں۔

اللہ ہمیں اور تمہیں دونوں کو اپنی رحمت کے طفیل ان لوگوں میں قراردے جو اپنے دل کی گہرائیوں سے نیک کردار بندوں کی منزلوں کے لئے سعی کر رہے ہیں۔

(بعض الفاظ کی وضاحت)

یور بملاقحہ۔ار نکاح کا کنایہ ہے کہ جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو کہا جاتا ہے ار الرجل۔

حضرت کا ارشاد''کانہ قلع داری عنجہ نوتیہ '' قلع کشتی کے بادبان کو کہا جاتا ہے اور داری مقام دارین کی طرف منسوب ہے جو ساحل بحر پرآباد ہے اور وہاں سے خوشبو وغیرہ وارد کی جاتی ہے۔

عنجہ یعنی موڑ دیا جس کا استعمال اس طرح ہوتا ہے کہ عنجت الناقة یعنی میں نے اونٹنی کے رخ کو موڑ دیا۔

نوتی ملاح کو کہاجاتا ہے۔ضفتی جفرنہ یعنی پلکوں کے کنارے ۔صفتان یعنی دونوں کنارے ۔

فلذ الزبرجد۔فلذ فلذة کی جمع ہے یعنی ٹکڑا۔

کبائس اللئو لوء الرطب ۔کباسہ کھجور کا خوشہ

عیالج جمع علوج ۔شاخیں

۳۰۳

(۱۶۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

الحث على التآلف

لِيَتَأَسَّ صَغِيرُكُمْ بِكَبِيرِكُمْ - ولْيَرْأَفْ كَبِيرُكُمْ بِصَغِيرِكُمْ - ولَا تَكُونُوا كَجُفَاةِ الْجَاهِلِيَّةِ - لَا فِي الدِّينِ يَتَفَقَّهُونَ ولَا عَنِ اللَّه يَعْقِلُونَ - كَقَيْضِ بَيْضٍ فِي أَدَاحٍ - يَكُونُ كَسْرُهَا وِزْراً ويُخْرِجُ حِضَانُهَا شَرّاً.

بنو أمية

ومنها - افْتَرَقُوا بَعْدَ أُلْفَتِهِمْ وتَشَتَّتُوا عَنْ أَصْلِهِمْ - فَمِنْهُمْ آخِذٌ بِغُصْنٍ أَيْنَمَا مَالَ مَالَ مَعَه - عَلَى أَنَّ اللَّه تَعَالَى سَيَجْمَعُهُمْ لِشَرِّ يَوْمٍ لِبَنِي أُمَيَّةَ - كَمَا تَجْتَمِعُ قَزَعُ الْخَرِيفِ - يُؤَلِّفُ اللَّه بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَجْمَعُهُمْ رُكَاماً كَرُكَامِ السَّحَابِ - ثُمَّ يَفْتَحُ لَهُمْ أَبْوَاباً - يَسِيلُونَ مِنْ مُسْتَثَارِهِمْ كَسَيْلِ الْجَنَّتَيْنِ - حَيْثُ لَمْ تَسْلَمْ عَلَيْه قَارَةٌ - ولَمْ تَثْبُتْ عَلَيْه أَكَمَةٌ - ولَمْ يَرُدَّ سَنَنَه رَصُّ طَوْدٍ ولَا حِدَابُ أَرْضٍ - يُذَعْذِعُهُمُ اللَّه فِي بُطُونِ أَوْدِيَتِه -

(۱۶۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

دعوت اتحاد و اتفاق

تمہارے چھوٹوں کوچاہیےکہ اپنے بڑوں کی پیروی کریں اوربڑوں کافرض ہےکہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں اورخبردار تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہو جانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اللہ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھےان کی مثال ان انڈوں کے چھلوں جیسی ہے جو شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہوںکہ ان کاتوڑنا تو جرم ہے لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا ہے۔

(ایک اور حصہ) یہ لوگ باہمی محبت کے بعد الگ الگ ہوگئے اور اپنی اصل سے جدا ہوگئے بعض لوگوں نے ایک شاخکو پکڑ لیا ہے اور اب اسی کے ساتھ جھکتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ انہیں بنی امیہ کے بد ترین دن کیلئے جمع کردے گا جس طرح کہ خریف میں بادل کے ٹکڑے جمع ہو جاتے ہیں ۔پھر ان کے درمیان محبت پیدا کرے گا پھر انہیں تہ بہ تہ ابرکے ٹکڑوں کی طرح ایک مضبوط گروہ بنادے گا۔پھر ان کے لئے ایسے دروازوں کو کھول دے گا کہ یہ اپنے ابھرنے کی جگہ سے شہر صبا کے دو باغوں کے اس سیلاب کی طرح بہ نکلیں گے جن سے نہ کوئی چٹان محفوظ رہی تھی اورنہ کوئی ٹیلہ ٹھہر سکا تھا۔ نہ پہاڑ کی چوٹی اس کے دھارے کو موڑ سکی تھی اورنہ زمین کی اونچائی۔اللہ انہیں گھاٹیوں کے نشیبوں میں متفرق

۳۰۴

ثُمَّ يَسْلُكُهُمْ يَنَابِيعَ فِي الأَرْضِ - يَأْخُذُ بِهِمْ مِنْ قَوْمٍ حُقُوقَ قَوْمٍ - ويُمَكِّنُ لِقَوْمٍ فِي دِيَارِ قَوْمٍ - وايْمُ اللَّه لَيَذُوبَنَّ مَا فِي أَيْدِيهِمْ بَعْدَ الْعُلُوِّ والتَّمْكِينِ - كَمَا تَذُوبُ الأَلْيَةُ عَلَى النَّارِ.

الناس آخر الزمان

أَيُّهَا النَّاسُ لَوْ لَمْ تَتَخَاذَلُوا عَنْ نَصْرِ الْحَقِّ - ولَمْ تَهِنُوا عَنْ تَوْهِينِ الْبَاطِلِ - لَمْ يَطْمَعْ فِيكُمْ مَنْ لَيْسَ مِثْلَكُمْ - ولَمْ يَقْوَ مَنْ قَوِيَ عَلَيْكُمْ - لَكِنَّكُمْ تِهْتُمْ مَتَاه بَنِي إِسْرَائِيلَ - ولَعَمْرِي لَيُضَعَّفَنَّ لَكُمُ التِّيه مِنْ بَعْدِي أَضْعَافاً - بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ - وقَطَعْتُمُ الأَدْنَى ووَصَلْتُمُ الأَبْعَدَ - واعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِنِ اتَّبَعْتُمُ الدَّاعِيَ لَكُمْ - سَلَكَ بِكُمْ مِنْهَاجَ الرَّسُولِ وكُفِيتُمْ مَئُونَةَ الِاعْتِسَافِ - ونَبَذْتُمُ الثِّقْلَ الْفَادِحَ عَنِ الأَعْنَاقِ.

(۱۶۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في أوائل خلافته

إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَنْزَلَ كِتَاباً هَادِياً

کردے گا اور پھر انہیں چشموں کے بہائو کی طرح زمین میں پھیلا دے گا۔ان کے ذریعہ ایک قوم کے حقوق دوسری قوم سےحاصل کرےگا اورایک جماعت کودوسری جماعت کے دیر میں اقتدار عطا کرےگا۔خدا کی قسم ان کے اتدار و اختیار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہوگا وہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح کہ آگ پر چربی پگھل جاتی ہے۔

(آخر زمانہ کے لوگ)

ایہا الناس! اگر تم حق کی مدد کرنے میں کوت ا ہی نہ کرتے اورباطل کو کمزور بنانے میں سستی کا مظاہرہ نہ کرتے تو تمہارے بارے میں وہ قوم طمع نہ کرتی جو تم جیسی نہیں ہے اور تم پر یہ لوگ قوی نہ ہو جاتے۔ لیکن افسوس کہ تم بنی اسرائیل کی طرح گمراہ ہوگئے اور میری جان کی قسم میرے بعد تمہاری یہ حیرانی اور سر گردانی دوچند ہو جائے گی کہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے۔قریب ترین سے قطع تعلق کرلیاہے اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔یادرکھو کہ اگر تم داعی حق کا اتباع کر لیتے تو وہ تمہیں رسول اکرم (ص) کے راستہ پر چلاتا اور تمہیں کجروی کی زحمتوں سے بچالیتا اور تم اس سنگین بوجھ کو اپنی گردنوں سے اتار پھینک دیتے۔

(۱۶۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(ابتدائے خلافت کے دورمیں)

پروردگار نے اس کتاب ہدایت کو نازل کیا

۳۰۵

بَيَّنَ فِيه الْخَيْرَ والشَّرَّ - فَخُذُوا نَهْجَ الْخَيْرِ تَهْتَدُوا - واصْدِفُوا عَنْ سَمْتِ الشَّرِّ تَقْصِدُوا.

الْفَرَائِضَ الْفَرَائِضَ أَدُّوهَا إِلَى اللَّه تُؤَدِّكُمْ إِلَى الْجَنَّةِ - إِنَّ اللَّه حَرَّمَ حَرَاماً غَيْرَ مَجْهُولٍ - وأَحَلَّ حَلَالًا غَيْرَ مَدْخُولٍ - وفَضَّلَ حُرْمَةَ الْمُسْلِمِ عَلَى الْحُرَمِ كُلِّهَا - وشَدَّ بِالإِخْلَاصِ والتَّوْحِيدِ حُقُوقَ الْمُسْلِمِينَ فِي مَعَاقِدِهَا - فَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِه ويَدِه إِلَّا بِالْحَقِّ - ولَا يَحِلُّ أَذَى الْمُسْلِمِ إِلَّا بِمَا يَجِبُ.

بَادِرُوا أَمْرَ الْعَامَّةِ وخَاصَّةَ أَحَدِكُمْ وهُوَ الْمَوْتُ - فَإِنَّ النَّاسَ أَمَامَكُمْ وإِنَّ السَّاعَةَ تَحْدُوكُمْ مِنْ خَلْفِكُمْ - تَخَفَّفُوا تَلْحَقُوا فَإِنَّمَا يُنْتَظَرُ بِأَوَّلِكُمْ آخِرُكُمْ.

اتَّقُوا اللَّه فِي عِبَادِه وبِلَادِه - فَإِنَّكُمْ

ہے جس میں خیرو شر کی وضاحت کردی ہے لہٰذا تم خیر کے راستہ کو اختیارکرو تاکہ ہدایت پاجائو اور شرکے رخ سے منہ موڑ لو تاکہ سیدھے راستہ پرآجائو۔

فرائض کا خیال رکھو اور انہیں ادا کرو تاکہ وہ تمہیں جنت تک پہنچا دیں۔اللہ نے جس حرام کوحرام قرار دیا ہے وہ مجہول نہیں ہے اور جس حلال کو حلال بنایا ہے وہ مشتبہ نہیں ہے۔اس نے مسلمانوں کی حرمت کو تمام محترم چیزوں سے افضل قرار دیا ہے اور مسلمانوں کے حقوق کو ان کی منزلوں میں اخلاص اور ریگانگت سے باندھ دیا ہے۔اب مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام مسلمان(۱) محفوظرہیں مگر یہ کہ کسی حق کی بنا پر ان پر ہاتھ ڈالا جائے اور کسی مسلمان کے لئے مسلمان کو تکلیف دینا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا واقعی سبب پیدا ہو جائے۔

اس امرکی طرف سبقت کرو جو ہر ایک کے لئے ہے اور تمہارے لئے بھی ہے اور وہ ہے موت۔لوگ تمہارے آگے جا چکے ہیں اور تمہارا وقت تمہیں ہنکا کرلے جا رہا ہے۔سامان ہلکا رکھو تاکہ اگلے لوگوں سے ملحق ہو جائو اس لئے کہ ان پہلے والوں کے ذریعہ تمہارا انتظار کیا جا رہا ہے۔

اللہ سے ڈرو اس کے بندوں کے بارے میں بھی اور شہروں کے بارے میں بھی ۔اس لئے کہ تم سے زمینوں

(۱) اس قانون میں مسلمانوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔مسلمان وہی ہوتا ہے جس کے ہاتھ یا اس کی زبان سے کسی فروبشر کو اذیت نہ ہو اور سب اس کے شر سے محفوظ رہیں۔لیکن یہ اسی وقت تک ہے جب کسی کے بارے میں زبان کھولنا یا ہاتھ اٹھانا شر شمار ہو ورنہ اگر انسان اس امر کا مستحق ہوگیا ہے کہ اس کے کردار پر تنقید نہ کرنا اسے قرار واقعی سزا نہ دینا دین خدا کی توہین ہے تو کوئی شخص بھی دین خدا سے زیادہمحترم نہیں ہے۔انسان کا احترام دین خداکے طفیل میں ہے اگر دین خدا ہی کا احترام نہ رہ گیا تو کسی شخص کے احترام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

۳۰۶

مَسْئُولُونَ حَتَّى عَنِ الْبِقَاعِ والْبَهَائِمِ - أَطِيعُوا اللَّه ولَا تَعْصُوه - وإِذَا رَأَيْتُمُ الْخَيْرَ فَخُذُوا بِه - وإِذَا رَأَيْتُمُ الشَّرَّ فَأَعْرِضُوا عَنْه.

(۱۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

بعد ما بويع له بالخلافة، وقد قال له قوم من الصحابة: لو عاقبتقوما ممن أجلب على عثمان فقالعليه‌السلام :

يَا إِخْوَتَاه إِنِّي لَسْتُ أَجْهَلُ مَا تَعْلَمُونَ - ولَكِنْ كَيْفَ لِي بِقُوَّةٍ والْقَوْمُ الْمُجْلِبُونَ - عَلَى حَدِّ شَوْكَتِهِمْ يَمْلِكُونَنَا ولَا نَمْلِكُهُمْ - وهَا هُمْ هَؤُلَاءِ قَدْ ثَارَتْ مَعَهُمْ عِبْدَانُكُمْ - والْتَفَّتْ إِلَيْهِمْ أَعْرَابُكُمْ - وهُمْ خِلَالَكُمْ يَسُومُونَكُمْ مَا شَاءُوا - وهَلْ تَرَوْنَ مَوْضِعاً لِقُدْرَةٍ عَلَى شَيْءٍ تُرِيدُونَه - إِنَّ هَذَا الأَمْرَ أَمْرُ جَاهِلِيَّةٍ - وإِنَّ لِهَؤُلَاءِ الْقَوْمِ مَادَّةً - إِنَّ النَّاسَ مِنْ هَذَا الأَمْرِ إِذَا حُرِّكَ عَلَى أُمُورٍ - فِرْقَةٌ تَرَى مَا تَرَوْنَ وفِرْقَةٌ تَرَى مَا لَا تَرَوْنَ - وفِرْقَةٌ لَا تَرَى هَذَا ولَا ذَاكَ - فَاصْبِرُوا حَتَّى يَهْدَأَ النَّاسُ

اور جانوروں کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔اللہ کی اطاعت کرو اورناف رمانی نہ کرو۔خیر کو دیکھو تو فوراً لے لو اور شریرنظر پڑ جائے تو کنارہ کش ہو جائو۔

(۱۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب بیعت خلافت کے بعد بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ کاش آپ عثمان پر زیادتی کرنے والوں کو سبزا دیتے )

بھائیو! جو تم جانتے ہو میں اس سے نا واقف نہیں ہوں لیکن میرے پاس اس کی طاقت کہاں ہے ؟ ابھی وہ قوم اپنی طاقت و قوت(۱) پر قائم ہے۔وہ ہمارا اختیار رکھتی ہے اور ہمارے پاس اس کا اختیارنہیں ہے اور پھر تمہارے غلام بھی ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور تمہارے دیہاتی بھی ان کے گرد جمع ہوگئے ہیں اور وہ تمہارے درمیان اس حالت میں ہیں کہ تمہیں جس طرح چاہیں اذیت پہنچا سکتے ہیں کیا تمہاری نظر میں جو کچھ تم چاہتے ہو اس کی کوئی گنجائش ہے۔بیشک یہ صرف جہالت اور نادانی کا مطالبہ ہے اور اس قوم کے پاس طاقت کا سرچشمہ موجود ہے۔اس معاملہ میں اگر لوگوں کو حرکت بھی دی جائے تو وہ چند فرقوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ایک فرقہ وہی سوچے گا جو تم سوچ رہے ہو اور دوسرا گروہ اس کے خلاف رائے کاحامل ہوگا۔تیسرا گروہ دونوں سے غیر جانبدار بن جائے گا لہٰذا مناسب یہی ہے کہ صبر کرو یہاں تک کہ لوگ ذرا

۳۰۷

وتَقَعَ الْقُلُوبُ مَوَاقِعَهَا - وتُؤْخَذَ الْحُقُوقُ مُسْمَحَةً - فَاهْدَءُوا عَنِّي وانْظُرُوا مَا ذَا يَأْتِيكُمْ بِه أَمْرِي - ولَا تَفْعَلُوا فَعْلَةً تُضَعْضِعُ قُوَّةً وتُسْقِطُ مُنَّةً - وتُورِثُ وَهْناً وذِلَّةً وسَأُمْسِكُ الأَمْرَ مَا اسْتَمْسَكَ - وإِذَا لَمْ أَجِدْ بُدّاً فَآخِرُ الدَّوَاءِ الْكَيُّ

(۱۶۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند مسير أصحاب الجمل إلى البصرة

الأمور الجامعة للمسلمين

إِنَّ اللَّه بَعَثَ رَسُولًا هَادِياً بِكِتَابٍ نَاطِقٍ وأَمْرٍ قَائِمٍ - لَا يَهْلِكُ عَنْه إِلَّا هَالِكٌ - وإِنَّ الْمُبْتَدَعَاتِ الْمُشَبَّهَاتِ هُنَّ الْمُهْلِكَاتُ - إِلَّا مَا حَفِظَ اللَّه مِنْهَا - وإِنَّ فِي سُلْطَانِ اللَّه عِصْمَةً لأَمْرِكُمْ - فَأَعْطُوه طَاعَتَكُمْ غَيْرَ مُلَوَّمَةٍ ولَا مُسْتَكْرَه بِهَا - واللَّه لَتَفْعَلُنَّ أَوْ

مطمئن ہو جائیں اور دل ٹھہر جائیں اور اس کے بعد دیکھو کہ میں کیاکرتا ہوں ۔خبر دار کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جو طاقت کو کمزور بنادے اور قوت کو پامال کردے اور کمزوری و ذلت کاب اعث ہو جائے۔میں جہاں تک ممکن ہو گا اس جنگ کو روکے رہوں گا۔اس کے بعد جب کوئی چارہ کارنہ رہ جائے گا توآخری علاج داغنا ہی ہوتا ہے۔

(۱۶۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب اصحاب جمل بصرہ کی طرف جا رہے تھے)

اللہ نے اپنے رسول ہادی کو بولتی کتاب اور مستحکم امر کے ساتھ بھیجا ہے اس کے ہوتے ہوئے وہی ہلاک ہو سکتا ہے جس کا مقدر ہی ہلاکت ہو اور نئی نئی بدعتیں اورنئے نئے شبہات ہی ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں مگر یہ کہ اللہ ہی کسی کو بچالے اور پروردگار کی طرف سے معین ہونے والا حاکم ہی تمہارے امور کی حفاظت کرسکتا ہے لہٰذا اسے ایسی مکمل اطاعت دے دو جونہ قابل ملامت ہو اورنہ بددلی کا نتیجہ ہو۔خدا کی قسم یا تو

(۱)عثمان کے خلاف قیام کرنے والے صرف مدینہ کے افراد ہوتے جب بھی مقابلہ آسان نہیں تھا۔چہ جائیکہ بقول طبری اس جماعت میں چھ سو مصری بھی شامل تھے اورایک ہزار کوفہ کے سپاہی بھی آگئے تھے اوردیگر علاقے کے مظلومین نے بھی مہم میں شرکت کرلی تھی۔ایسے حالات میں ایک شخص جمل و صفین کے معرکے بھی برداشت کرے اور ان تمام انقلابیوں کامحاسبہ بھی شروع کردے یہ ایک نا ممکن امر ہے اور پھرمحاسبہ کے عمل میں ام المومنین اور معاویہ کو بھی شامل کرنا پڑے گا کہ قتل عثمان کی مہم میں یہ افراد بھی برابر کے شریک تھے بلکہ ام المومنین نے توباقاعدہ لوگوں کو قتل پر آمادہ کیاتھا۔

ایسے حالات میں مسئلہ اس قدرآسان نہیں تھا جس قدر بعض سادہ لوح افراد تصور کر رہے تھے یا بعض فتنہ پرداز اسے ہوا دے رہے تھے۔

۳۰۸

لَيَنْقُلَنَّ اللَّه عَنْكُمْ سُلْطَانَ الإِسْلَامِ - ثُمَّ لَا يَنْقُلُه إِلَيْكُمْ أَبَداً - حَتَّى يَأْرِزَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِكُمْ.

التنفير من خصومه

إِنَّ هَؤُلَاءِ قَدْ تَمَالَئُوا عَلَى سَخْطَةِ إِمَارَتِي - وسَأَصْبِرُ مَا لَمْ أَخَفْ عَلَى جَمَاعَتِكُمْ - فَإِنَّهُمْ إِنْ تَمَّمُوا عَلَى فَيَالَةِ هَذَا الرَّأْيِ - انْقَطَعَ نِظَامُ الْمُسْلِمِينَ - وإِنَّمَا طَلَبُوا هَذِه الدُّنْيَا حَسَداً لِمَنْ أَفَاءَهَا اللَّه عَلَيْه - فَأَرَادُوا رَدَّ الأُمُورِ عَلَى أَدْبَارِهَا - ولَكُمْ عَلَيْنَا الْعَمَلُ بِكِتَابِ اللَّه تَعَالَى - وسِيرَةِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - والْقِيَامُ بِحَقِّه والنَّعْشُ لِسُنَّتِه.

(۱۷۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في وجوب اتباع الحق عند قيام الحجة كلَّم به بعض العرب

وقَدْ أَرْسَلَه قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ لَمَّا قَرُبَعليه‌السلام مِنْهَا - لِيَعْلَمَ لَهُمْ مِنْه حَقِيقَةَ حَالِه مَعَ أَصْحَابِ الْجَمَلِ - لِتَزُولَ الشُّبْهَةُ مِنْ نُفُوسِهِمْ - فَبَيَّنَ لَهعليه‌السلام مِنْ أَمْرِه مَعَهُمْ - مَا عَلِمَ بِه أَنَّه عَلَى الْحَقِّ - ثُمَّ قَالَ لَه بَايِعْ - فَقَالَ

تم ایسی اطاعت کروگے یا پھر تم سے اسلامی اقتدار چھن جائے گا اور پھر کبھی تمہاری طرف پلٹ کرنہ آئے گا یہاں تک کہ کسی غیرکے سایہ میں پناہ لے لے۔

دیکھو یہ لوگ میری حکومت سے ناراضگی پر متحد ہو چکے ہیں اوراب میں اس وقت تک صبر کروں گا جب تک تمہاری جماعت کے بارے میں کوئی اندیشہ نہ پیدا ہو جائے ۔اس لئے کہاگر وہ اپنی رائے کی کموری کے باوجود اس امر میں کامیاب ہوگئے تو مسلمانوں کا رشتہ نظم و نسق بالکل ٹوٹ کر رہ جائے گا۔ان لوگوں نے اس دنیا کو صرف ان لوگوں سے حسد کی بنا پر طلب کیا ہے جنہیں اللہ نے خلیفہ و حاکم بنایا ہے۔اب یہ چاہتے ہیں کہ معاملات کو الٹے پائوں جاہلیت کی طرف پلٹا دیں ۔تمہارے لئے میرے ذمہ یہی کام ہے کہ کتاب خدا اور سنت رسول (ص) پر عمل کروں ۔ان کے حق کو قائم کروں اور ان کی سنت کو بلند و بالا قرار دوں ۔

(۱۷۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(دلیل قائم ہو جانے کےبعدحق کے اتباع کےسلسلہ میں )

جب اہل بصرہ نے بعض افراد کواس غرض سے بھیجا کہ اہل جمل کے بارے میں حضرت کے موقف کو دریافت کریں تاکہ کسی طرح کا شبہ باقی نہ رہ جائے توآپ نے جملہ امور کی مکمل وضاحت فرمائی تاکہ واضح ہو جائے کہ آپ حق پر ہیں ۔اس کے بعد فرمایا کہ جب حق واضح ہوگیا تو میرے ہاتھ پر بیعت کرلو۔اس نے کہا کہ

۳۰۹

إِنِّي رَسُولُ قَوْمٍ - ولَا أُحْدِثُ حَدَثاً حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْهِمْ فَقَالَعليه‌السلام

أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ الَّذِينَ وَرَاءَكَ بَعَثُوكَ رَائِداً - تَبْتَغِي لَهُمْ مَسَاقِطَ الْغَيْثِ،فَرَجَعْتَ إِلَيْهِمْ وأَخْبَرْتَهُمْ عَنِ الْكَلإِ والْمَاءِ - فَخَالَفُوا إِلَى الْمَعَاطِشِ والْمَجَادِبِ مَا كُنْتَ صَانِعاً - قَالَ كُنْتُ تَارِكَهُمْ ومُخَالِفَهُمْ إِلَى الْكَلإِ والْمَاءِ - فَقَالَعليه‌السلام فَامْدُدْ إِذاً يَدَكَ - فَقَالَ الرَّجُلُ - فَوَاللَّه مَا اسْتَطَعْتُ أَنْ أَمْتَنِعَ عِنْدَ قِيَامِ الْحُجَّةِ عَلَيَّ - فَبَايَعْتُهعليه‌السلام

والرَّجُلُ يُعْرَفُ بِكُلَيْبٍ الْجَرْمِيِّ.

(۱۷۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما عزم على لقاء القوم بصفين

الدعاء

اللَّهُمَّ رَبَّ السَّقْفِ الْمَرْفُوعِ والْجَوِّ الْمَكْفُوفِ - الَّذِي جَعَلْتَه مَغِيضاً لِلَّيْلِ والنَّهَارِ

میں ایک قوم کا نمائندہ ہوں اور ان کی طرف رجوع کئے بغیر کوئی اقدام نہیں کر سکتا ہوں۔فرمایا کہ

تمہارا کیاخیال(۱) ہے اگر اس قوم نے تمہیں نمائندہ بنا کر بھیجا ہوتا کہ جائو تلاش کرو جہاں بارش ہوئی ہو اور پانی کی کوئی سبیل ہو اورتم واپس جا کر پانی اور سبزہ کی خبردیتے اوروہ لوگ تمہاری مخالفت کرکے ایسی جگہ کا انتخاب کرتے جہاں پانی کا قحط اورخشک سالی کا دوردورہ ہو تو اس وقت تمہارا اقدام کیا ہوتا ؟ اس نے کہاکہ میں انہیں چھوڑ کر آب و دانہ کی طرف چلا جاتا ۔فرمایا پھراب ہاتھ بڑھائو اور بیعت کر لو کہ چشمہ ہدایت تو مل گیا ہے۔اس نے کہاکہ اب حجت تمام ہوچکی ہے اورمیرے پاس انکار کا کوئی جواز نہیں رہ گیا ہے اور یہ کہہ کر حضرت کے دست حق پرست پر بیعت کرلی۔

(تاریخ میں اس شخص کو کلیب جرمی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے )

(۱۷۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب اصحاب معاویہ سےصفین میں مقابلہ کےلئے ارادہ فرمالیا)

اے پروردگار جو بلند ترین چھت اور ٹھہری ہوئی فضا کا مالک ہے۔جسنےاس فضاکوشب وروز کےسر چھپانے کی منزل

(۱) یہ استدلال اپنے حسن و جمال کے علاوہ اس معنویت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اسلام میں میری حیثیت ایک سر سبز و شاداب گلستان کی ہے جہاں اسلامی احکام و تعلیمات کی بہاریں خیمہ زن رہتی ہیں اور میرے علاوہ تمام افراد ایک ریگستان سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔کس قدر حیرت کی بات ہے کہ انسان سبزہ زار اور چشمہ آب حیات کو چھوڑ کر پھر ریگستانوں کی طرف پلٹ جائے اور تشنہ کامی کی زندگی گزارتا رہے۔جو تمام اہل شام کا مقدر بن چکا ہے۔

۳۱۰

ومَجْرًى لِلشَّمْسِ والْقَمَرِ ومُخْتَلَفاً لِلنُّجُومِ السَّيَّارَةِ - وجَعَلْتَ سُكَّانَه سِبْطاً مِنْ مَلَائِكَتِكَ - لَا يَسْأَمُونَ مِنْ عِبَادَتِكَ - ورَبَّ هَذِه الأَرْضِ الَّتِي جَعَلْتَهَا قَرَاراً لِلأَنَامِ - ومَدْرَجاً لِلْهَوَامِّ والأَنْعَامِ - ومَا لَا يُحْصَى مِمَّا يُرَى ومَا لَا يُرَى - ورَبَّ الْجِبَالِ الرَّوَاسِي الَّتِي جَعَلْتَهَا لِلأَرْضِ أَوْتَاداً - ولِلْخَلْقِ اعْتِمَاداً إِنْ أَظْهَرْتَنَا عَلَى عَدُوِّنَا - فَجَنِّبْنَا الْبَغْيَ وسَدِّدْنَا لِلْحَقِّ - وإِنْ أَظْهَرْتَهُمْ عَلَيْنَا فَارْزُقْنَا الشَّهَادَةَ - واعْصِمْنَا مِنَ الْفِتْنَةِ.

الدعوة للقتال

أَيْنَ الْمَانِعُ لِلذِّمَارِ - والْغَائِرُ عِنْدَ نُزُولِ الْحَقَائِقِ مِنْ أَهْلِ الْحِفَاظِ - الْعَارُ وَرَاءَكُمْ والْجَنَّةُ أَمَامَكُمْ!

(۱۷۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

حمد الله

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَا تُوَارِي عَنْه سَمَاءٌ سَمَاءً - ولَا أَرْضٌ أَرْضاً.

اورشمس و قمرکے سیر کا میدان اور ستاروں کی آمدورفت کی جولاں گاہ قرار دیا ہے۔اس کا ساکن ملائکہ کے اس گروہ کو قراردیا ہے جو تیری عبادت سے خستہ حال نہیں ہوتے ہیں۔توہی اس زمین کا بھی مالک ہے جسے لوگوں کا مستقر بنایا ہے اور جانوروں ' کپڑوں مکوڑوں اوربے شمار مرئی اور غیرمرئی مخلوقات کے چلنے پھرنے کی جگہ قرار دیا ہے۔تو ہی ان سربفلک پہاڑوں کامالک ہے جنہیں زمین کے ٹھہرائو کے لئے میخ کا درجہ دیا گیا ہے اورمخلوقات کاسہارا قرار دیا گیا ہے۔اگر تونے دشمن کے مقابلہ میں غلبہ عنایت فرمایا تو' ہمیں ظلم سے محفوظ رکھنا اورحق کے سیدھے راستہ پر قائم رکھنا اور اگر دشمن کو ہم پر غلبہ حاصل ہو جائے تو ہمیں شہادت کا شرف عطا فرمانا اور فتنہ سے محفوظ رکھنا۔

دعوت جہاد

کہاں ہیں وہ عزت وآبروکے پاسبان اورمصیبتوں کے نزول کے بعد ننگ ونام کی حفاظت کرنے والے صاحبان عزت و غیرت۔یاد رکھو ذلت و عار تمہارے پیچھے ہے اور جنت تمہارےآگے ۔

(۱۷۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(حمد خدا)

ساری تعریف اس اللہ کےلئے ہےجس کے سامنے ایک آسمان دوسرےآسمان کو اور ایک زمین دوسری زمین کوچھپا نہیں سکتی ہے۔

۳۱۱

يوم الشورى

منها - وقَدْ قَالَ قَائِلٌ إِنَّكَ عَلَى هَذَا الأَمْرِ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ لَحَرِيصٌ - فَقُلْتُ بَلْ أَنْتُمْ واللَّه لأَحْرَصُ وأَبْعَدُ وأَنَا أَخَصُّ وأَقْرَبُ - وإِنَّمَا طَلَبْتُ حَقّاً لِي وأَنْتُمْ تَحُولُونَ بَيْنِي وبَيْنَه - وتَضْرِبُونَ وَجْهِي دُونَه - فَلَمَّا قَرَّعْتُه بِالْحُجَّةِ فِي الْمَلإِ الْحَاضِرِينَ - هَبَّ كَأَنَّه بُهِتَ لَا يَدْرِي مَا يُجِيبُنِي بِه!

الاستنصار على قريش

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَعْدِيكَ عَلَى قُرَيْشٍ ومَنْ أَعَانَهُمْ - فَإِنَّهُمْ قَطَعُوا رَحِمِي وصَغَّرُوا عَظِيمَ مَنْزِلَتِيَ - وأَجْمَعُوا عَلَى مُنَازَعَتِي أَمْراً هُوَ لِي - ثُمَّ قَالُوا أَلَا إِنَّ فِي الْحَقِّ أَنْ تَأْخُذَه وفِي الْحَقِّ أَنْ تَتْرُكَه.

منها في ذكر أصحاب الجمل

فَخَرَجُوا يَجُرُّونَ حُرْمَةَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - كَمَا تُجَرُّ الأَمَةُ عِنْدَ شِرَائِهَا

(روز شوریٰ)

ایک شخص(۱) نے مجھ سے یہاں تک کہہ دیا کہ فرزند ابو طالب! آپ میں اس خلافت کی طمع پائی جاتی ہے؟ تو میں نے کہا کہ خدا کی قسم تم لوگ زیادہ حریص ہو حالانکہ تم دور والے ہو۔میں تو اس ا اہل بھی ہوں اور پیغمبر (ص) سے قریب تر بھی ہوں۔میں نے اس حق کا مطالبہ کیا ہے جس کا میں حقدار ہوں لیکن تم لوگ میرے اور اس کے درمیان حائل ہوگئے ہو اور میرے ہی رخ کو اس کی طرف سے موڑنا چاہتے ہو پھر جب میں نے بھری محفل میں دلائل کے ذریعہ سے کانوں کے پردوں کو کھٹکھٹایا تو ہوشیار ہوگیا اور ایسا مبہوت ہوگیا کہ کوئی جواب سمجھ نہیں آرہا تھا۔

(قریش کے خلاف فریاد)

خدایا! میں قریش اور ان کے انصار کے مقابلہ میں تجھ سے مدد چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے میری قرابت کا رشتہ توڑ دیا اورمیری عظیم منزلت کو حقیر بنادیا۔مجھ سے اس امرکے لئے جھگڑا کرنے پر تیار ہوگئے جس کامیں واقعاً حقدار تھا اور پھر یہ کہنے لگے کہ آپ اسے لے لیں توبھی صحیح ہے اور اس سے دستبردار ہو جائیں توبھی برحق ہے۔

(اصحاب جمل کے باے میں)

یہ ظالم اس شان سے برآمد ہوئے کہ حرم رسول (ص) کویوں کھینچ کر میدان میں لا رہے تھے جیسے کنیزیں خرید و

(۱)بعض حضرات کاخیال ہے کہ یہ بات شوریٰ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہی تھی اور بعض کاخیال ہے کہ سقیفہ کے موقع پر ابو عبیدہ بن الجراح نے کہی تھی اوردونوں ہی امکانات پائے جاتے ہیں کہ دونوں کی فطرت ایک جیسی تھی اوردونوں امیر المومنین کی مخالفت پر متحد تھے۔

۳۱۲

مُتَوَجِّهِينَ بِهَا إِلَى الْبَصْرَةِ - فَحَبَسَا نِسَاءَهُمَا فِي بُيُوتِهِمَا - وأَبْرَزَا حَبِيسَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لَهُمَا ولِغَيْرِهِمَا - فِي جَيْشٍ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وقَدْ أَعْطَانِي الطَّاعَةَ - وسَمَحَ لِي بِالْبَيْعَةِ طَائِعاً غَيْرَ مُكْرَه - فَقَدِمُوا عَلَى عَامِلِي بِهَا - وخُزَّانِ بَيْتِ مَالِ الْمُسْلِمِينَ وغَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِهَا - فَقَتَلُوا طَائِفَةً صَبْراً وطَائِفَةً غَدْراً - فَوَاللَّه لَوْ لَمْ يُصِيبُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - إِلَّا رَجُلًا وَاحِداً مُعْتَمِدِينَ لِقَتْلِه - بِلَا جُرْمٍ جَرَّه لَحَلَّ لِي قَتْلُ ذَلِكَ الْجَيْشِ كُلِّه - إِذْ حَضَرُوه فَلَمْ يُنْكِرُوا - ولَمْ يَدْفَعُوا عَنْه بِلِسَانٍ ولَا بِيَدٍ - دَعْ مَا أَنَّهُمْ قَدْ قَتَلُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - مِثْلَ الْعِدَّةِ الَّتِي دَخَلُوا بِهَا عَلَيْهِمْ!

(۱۷۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في رسول اللَّه،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ومن هو جدير بأن يكون للخلافة وفي هوان الدنيا

فروخت کے وقت لے جائی جاتی ہے۔ان کا رخ بصرہ کی طرف تھا۔ان دونوں(۱) نے اپنی عورتوں کو گھر میں بند کر رکھا تھا اور زوجہ رسول (ص) کو میدان میں لا رہے تھے۔جب کہ ان کے لشکر میں کوئی ایسا نہ تھا جو پہلے میری بیعت نہ کر چکا ہو اوربغیرکسی جبر و اکراہ کے میری اطاعت میں نہ رہ چکا ہو۔یہ لوگ پہلے میرے عامل(۲) بصرہ اورخازن بیت المال جیسے افراد پرحملہ آور ہوئے توایک جماعت کو گرفتار کرکے قتل کردیا اورایک کودھوکہ میں تلوار کے گھاٹ اتاردیا۔خدا کی قسم اگر یہ تمام مسلمانوں میں صرف ایک شخص کوبھی قصداً قتل کردیتے تو بھی میرے واسطے پورے لشکرسے جنگ کرنے جواز موجود تھا کہ دیگرافراد حاضر رہے اور انہوں نے نا پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا اور اپنی زبان(۳) یااپنے ہاتھ سے دفاع نہیں کیا اور پھرجب کہ مسلمانوں میں سے اتنے افراد کو قتل کردیا ہے جتنی ان کے پورے لشکر کی تعداد تھی۔

(۱۷۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(رسول اکرم (ص) کے بارے میں اوراس امر کی وضاحت کے سلسلہ میں کہ خلافت کاواقعی حقدار کون ہے ؟)

(۱)اس سے مراد طلحہ و زبری ہیں جنہوں نے زوجہ رسول (ص) کا اتنا بھی احترام نہیں کیا جتنا اپنے گھرکی عورتوں کا کیاکرتے تھے۔

(۲)جناب عثمان بن حنیف کا مثلہ کردیا اوران کے ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت کو تہ تیغ کردیا۔

(۳)فقہی اعتبارسے دفاع نہ کرنے والوں کا قتل جائز نہیں ہوتا ہے لیکن یہاں وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے امام برحق کے خلاف خروج کرکے فساد فی الارض کا ارتکاب کیاتھا اور یہجرم جواز قتل کے لئے کافی ہوتا ہے۔

۳۱۳

رسول الله أَمِينُ وَحْيِه وخَاتَمُ رُسُلِه - وبَشِيرُ رَحْمَتِه ونَذِيرُ نِقْمَتِه.

الجدير بالخلافة

أَيُّهَا النَّاسُ - إِنَّ أَحَقَّ النَّاسِ بِهَذَا الأَمْرِ أَقْوَاهُمْ عَلَيْه – وأَعْلَمُهُمْ بِأَمْرِ اللَّه فِيه - فَإِنْ شَغَبَ شَاغِبٌ اسْتُعْتِبَ فَإِنْ أَبَى قُوتِلَ - ولَعَمْرِي لَئِنْ كَانَتِ الإِمَامَةُ لَا تَنْعَقِدُ - حَتَّى يَحْضُرَهَا عَامَّةُ النَّاسِ فَمَا إِلَى ذَلِكَ سَبِيلٌ - ولَكِنْ أَهْلُهَا يَحْكُمُونَ عَلَى مَنْ غَابَ عَنْهَا - ثُمَّ لَيْسَ لِلشَّاهِدِ أَنْ يَرْجِعَ ولَا لِلْغَائِبِ أَنْ يَخْتَارَ - أَلَا وإِنِّي أُقَاتِلُ رَجُلَيْنِ - رَجُلًا ادَّعَى مَا لَيْسَ لَه وآخَرَ مَنَعَ الَّذِي عَلَيْه.

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - فَإِنَّهَا خَيْرُ مَا تَوَاصَى الْعِبَادُ بِه - وخَيْرُ عَوَاقِبِ الأُمُورِ عِنْدَ اللَّه - وقَدْ فُتِحَ بَابُ الْحَرْبِ بَيْنَكُمْ وبَيْنَ أَهْلِ الْقِبْلَةِ - ولَا يَحْمِلُ هَذَا الْعَلَمَ إِلَّا أَهْلُ الْبَصَرِ والصَّبْرِ - والْعِلْمِ بِمَوَاضِعِ الْحَقِّ - فَامْضُوا

پیغمبراسلام (ص) وحی الٰہی کے امانتدار اور خاتم المرسلین تھے۔رحمت الٰہی کی بشارت دینے والے اور عذاب الٰہی سے ڈرانے والے تھے ۔لوگو!یاد رکھو اس امرکا سب سے زیادہ حقدار وہی ہےجو سب سے زیادہ طاقتور اوردین الٰہی کاواقف کارہو اس کےبعداگر کوئی فتنہ پرداز فتنہ کھڑا کرے گاتو پہلے اسے توبہ کی دعوت دی جائے گی۔اس کے بعد اگرانکارکرے گا تو قتل کردیا جائے گا۔میری جان کی قسم اگر امامت کامسئلہ تمام افرادبشر کےاجتماع کے بغیر طے نہیں ہو سکتا ہے تواس اجتماع کاتو کوئی راستہ ہی نہیں ہے ہوتایہی ہے کہ حاضرین کا فیصلہ غائب افراد پرنافذ ہو جاتا ہے اور نہ حاضر کواپنی بیعت سے رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے اورنہ غائب کو دوسرا راستہ اختیار کرنے کا جواز ہوتا ہے۔ یاد رکھو میں دونوں طرح کے افراد سے جہاد کروں گا۔ان سے بھی جو غیر حق کے دعویدار ہوں گے اور ان سے بھی جوحقدار کو اس کا حق نہ دیں گے بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتاہوں کہ یہ بندوں کے درمیان بہترین وصیت ہے اور پیش پروردگار انجام کے اعتبارسے بہترین عمل ہے۔دیکھو !تمہارے اوراہل قبلہ مسلمانوں کے درمیان جنگ کا دروازہ کھولا جا چکا ہے۔اب اس علم(۱) کووہی اٹھائے گا جو صاحب بصیرت و صبرہوگا اورحق کےمراکزکا پہچاننے والا ہوگا۔تمہارا فرض ہے کہ میرے

(۱)علم لشکر قوم کی سر بلندی کی نشانی اور لشکرکے وقار و عزت کی علامت ہوتا ہے لہٰذا اس کواٹھانے والے کوبھی صاحب بصیرت و برداشت ہونا ضروری ہے ورنہ اگر پرچم سرنگوں ہوگیا تو نہ لشکر کاکوئی وقار رہ جائے گا اورنہمذہب کا کوئی اعتبار رہ جائے گا۔سرکار دو عالم (ص) نے انہیں خصوصیات کے پیش نظر خیبر کے موقع پر اعلان فرمایا تھاکہ کل میں اس کو علم دوں گا جو کرار' غیر فرار' محب خداو رسول (ص) محبوب خدا اور رسول (ص) اورمرد میدان ہوگا کہ اس کے علاوہ کوئی شخص علم برداری کا اہل نہیں ہو سکتا ہے۔

۳۱۴

لِمَا تُؤْمَرُونَ بِه وقِفُوا عِنْدَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْه - ولَا تَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ حَتَّى تَتَبَيَّنُوا - فَإِنَّ لَنَا مَعَ كُلِّ أَمْرٍ تُنْكِرُونَه غِيَراً

هوان الدنيا

أَلَا وإِنَّ هَذِه الدُّنْيَا الَّتِي أَصْبَحْتُمْ تَتَمَنَّوْنَهَا - وتَرْغَبُونَ فِيهَا وأَصْبَحَتْ تُغْضِبُكُمْ وتُرْضِيكُمْ - لَيْسَتْ بِدَارِكُمْ ولَا مَنْزِلِكُمُ الَّذِي خُلِقْتُمْ لَه - ولَا الَّذِي دُعِيتُمْ إِلَيْه - أَلَا وإِنَّهَا لَيْسَتْ بِبَاقِيَةٍ لَكُمْ ولَا تَبْقَوْنَ عَلَيْهَا - وهِيَ وإِنْ غَرَّتْكُمْ مِنْهَا فَقَدْ حَذَّرَتْكُمْ شَرَّهَا - فَدَعُوا غُرُورَهَا لِتَحْذِيرِهَا وأَطْمَاعَهَا لِتَخْوِيفِهَا - وسَابِقُوا فِيهَا إِلَى الدَّارِ الَّتِي دُعِيتُمْ إِلَيْهَا - وانْصَرِفُوا بِقُلُوبِكُمْ عَنْهَا - ولَا يَخِنَّنَّ أَحَدُكُمْ خَنِينَ الأَمَةِ عَلَى مَا زُوِيَ عَنْه مِنْهَا - واسْتَتِمُّوا نِعْمَةَ اللَّه عَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ عَلَى طَاعَةِ اللَّه

والْمُحَافَظَةِ عَلَى مَا اسْتَحْفَظَكُمْ مِنْ كِتَابِه - أَلَا وإِنَّه لَا يَضُرُّكُمْ تَضْيِيعُ شَيْءٍ مِنْ دُنْيَاكُمْ - بَعْدَ حِفْظِكُمْ قَائِمَةَ دِينِكُمْ - أَلَا وإِنَّه لَا يَنْفَعُكُمْ بَعْدَ تَضْيِيعِ دِينِكُمْ شَيْءٌ -

احکام کے مطابق قدم آگے بڑھائو اور میں جہاں روک دوں وہاںرک جائو۔اور خبردار کسی مسئلہ میں بھی تحقیق کے بغیر جلد بازی سے کام نہ لینا کہ مجھے جن باتوں کاتم انکار کرتے ہوان میں غیر معمولی انقلاب کا اندیشہ رہتا ہے ۔

یاد رکھو! یہ دنیا جس کی تم آرزو کر رہے ہو اور اورجس میں تم رغبت کا اظہار کر رہے ہو اور جو کبھی کبھی تم سے عداوت کرتی ہے اور کبھی تمہیں خوش کر دیتی ہے۔ یہ تمہاراواقعی گھر اور تمہاری واقعی منزل نہیں ہے جس کے لئے تمہیں خلق کیا گیا ہے اور جس کی طرف تمہیں دعوت دی گئی ہے اور پھر یہ باقی رہنے والی بھی نہیں ہے اور تم بھی اس میں باقی رہنے والے نہیں ہو۔یہ اگر کبھی دھوکہ دیتی ہے تو دوسرے وقت اپنے شر سے ہوشیار بھی کردیتی ہے۔لہٰذا اس کے دھوکہ سے بچواوراس کی تنبیہ پرعمل کرو۔اس کی لالچ کو نظر اندازکرو اور اس کی تخویف کاخیال رکھو۔اس میں رہ کر اس گھر کی طرف سبقت کرو' جس کی تمہیں دعوت دی گئی ہے۔اوراپنے دلوں کا رخ اس کی طرف سے موڑ لو اورخبر دار تم میںسے کوئی بھی شخص اس کی کسی نعمت سے محرومی کی بنا پرکنیزوں کی طرح رونے نہ بیٹھ جائے۔اللہ سے اس کی نعمتوں کی تکمیل کامطالبہ کرو اس کی اطاعت پر صبر کرنے اور اس کی کتاب کے احکام کی مخافظت کرنے کے ذریعہ۔

یاد رکھو اگر تم نے دین کی بنیادکو محفوظ کردیا تو دنیا کی کسی شے کی بربادی بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور اگر تم نے دین کو برباد کردیا تو دنیا میں کسی شے

۳۱۵

حَافَظْتُمْ عَلَيْه مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ - أَخَذَ اللَّه بِقُلُوبِنَا وقُلُوبِكُمْ إِلَى الْحَقِّ - وأَلْهَمَنَا وإِيَّاكُمُ الصَّبْرَ!

(۱۷۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معنى طلحة بن عبيد الله

وقد قاله حين بلغه خروج طلحة والزبير إلى البصرة لقتاله

قَدْ كُنْتُ ومَا أُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ - ولَا أُرَهَّبُ بِالضَّرْبِ - وأَنَا عَلَى مَا قَدْ وَعَدَنِي رَبِّي مِنَ النَّصْرِ - واللَّه مَا اسْتَعْجَلَ مُتَجَرِّداً لِلطَّلَبِ بِدَمِ عُثْمَانَ - إِلَّا خَوْفاً مِنْ أَنْ يُطَالَبَ بِدَمِه لأَنَّه مَظِنَّتُه - ولَمْ يَكُنْ فِي الْقَوْمِ أَحْرَصُ عَلَيْه مِنْه - فَأَرَادَ أَنْ يُغَالِطَ بِمَا أَجْلَبَ فِيه - لِيَلْتَبِسَ الأَمْرُ ويَقَعَ الشَّكُّ -. ووَ اللَّه مَا صَنَعَ فِي أَمْرِ عُثْمَانَ وَاحِدَةً مِنْ ثَلَاثٍ - لَئِنْ كَانَ ابْنُ عَفَّانَ ظَالِماً كَمَا كَانَ يَزْعُمُ - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه

کی حفاظت بھی فائدہ نہیں دے سکتی ہے ۔اللہ ہم سب کے دل کو حق کے راستہ پر لگا دے اور سب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔

(۱۷۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(طلحہ بن عبید اللہ کے بارے میں جب آپ کو خبر دی گئی کہ طلحہ و زبیر جنگ کے لئے بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے ہیں )

مجھے کسی زمانہ میں بھی نہ جنگ سے مرعوب کیا جا سکا ہے اور نہ حرب و ضرب سے ڈرایا جا سکا ہے۔میں اپنے پروردگار کے وعدہ نصرت پرمطمئن ہوں اور خدا کی قسم اس شخص(۱) نے خون عثمان کے مطالبہ کے ساتھ تلوار کھینچنے میں صرف اس لئے جلد بازی سے کام لیا ہے کہ کہیں اسی سے اس خون کا مطالبہ نہ کردیا جائے کہ اس امر کا گمان غالب ہے اور قوم میں اس سے زیادہ عثمان کے خون کا پیاسا کوئی نہ تھا۔اب یہ اس فوج کشی کے ذریعہ لوگوں کو مغالطہ میں رکھنا چاہتا ہے اور مسئلہ کو مشتبہ اورمشکوک بنا دینا چاہتا ہے حالانکہ خدا گواہ ہے کہ عثمان کے معاملہ میں اس کا معاملہ تین حال سے خالی نہیں تھا۔اگرعثمان ظالم تھا جیسا کہ اس کا اپنا خیال تھا تواس کا

(۱)مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ عثمان کے آخر دورحیات میں ان کے قاتلوں کا اجتماع طلحہ کے گھرمیں ہوا کرتا تھا اور امیرالمومنین ہی نے اس راز کا انکشاف کیا تھا اس کے بعد طلحہ ہی نے جنازہ پر تیر برسائے تھے اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا تھا لیکن چار دن کے بعد یہی ظالم خون عثمان کا وارث بن گیا اور عثمان کے واقعی محسن کو ان کے خون کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کو سوچنے کا موقع مل جائے اور بنی امیہ طلحہ سے انتقام لینے کے لئے تیار ہو جائیں اور یہ طریقہ ہرشاطر سیاست کارکا ہوتا ہے کہ وہ مسائل کو اس طرح مشتبہ بنا دیناچاہتا ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ ہونے پائے ۔چاہے اس راہ میں اپنے سفارت کاروں ہی کو کیوں نہ قربان کرنا پڑے؟

۳۱۶

أَنْ يُوَازِرَ قَاتِلِيه - وأَنْ يُنَابِذَ نَاصِرِيه -. ولَئِنْ كَانَ مَظْلُوماً - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُنَهْنِهِينَ عَنْه - والْمُعَذِّرِينَ فِيه - ولَئِنْ كَانَ فِي شَكٍّ مِنَ الْخَصْلَتَيْنِ - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه أَنْ يَعْتَزِلَه - ويَرْكُدَ جَانِباً ويَدَعَ النَّاسَ مَعَه - فَمَا فَعَلَ وَاحِدَةً مِنَ الثَّلَاثِ - وجَاءَ بِأَمْرٍ لَمْ يُعْرَفْ بَابُه ولَمْ تَسْلَمْ مَعَاذِيرُه

(۱۷۵)

من خطبة لهعليه‌السلام

في الموعظة وبيان قرباه من رسول اللَّه

أَيُّهَا النَّاسُ غَيْرُ الْمَغْفُولِ عَنْهُمْ - والتَّارِكُونَ الْمَأْخُوذُ مِنْهُمْ - مَا لِي أَرَاكُمْ عَنِ اللَّه ذَاهِبِينَ وإِلَى غَيْرِه رَاغِبِينَ - كَأَنَّكُمْ نَعَمٌ أَرَاحَ بِهَا سَائِمٌ إِلَى مَرْعًى وَبِيٍّ ومَشْرَبٍ دَوِيٍّ - وإِنَّمَا هِيَ كَالْمَعْلُوفَةِ لِلْمُدَى لَا تَعْرِفُ مَا ذَا يُرَادُ بِهَا - إِذَا أُحْسِنَ إِلَيْهَا تَحْسَبُ يَوْمَهَا دَهْرَهَا وشِبَعَهَا أَمْرَهَا

فرض تھا کہ قاتلوں کی مدد کرتا اور عثمان کے مدد گاروں کو ٹھکرا دیتا اور اگروہ مظلوم تھا تو اس کا فرض تھا کہ اس کے قتل سے روکنے والوں اور اس کی طرف سے معذرت کرنے والوں میں شامل ہو جاتا اور اگر یہ دونوں باتیں مشکوک تھیں تو اس کے لئے مناسب تھاکہ اس معاملہ سے الگ ہوکرایک گوشہ میں بیٹھ جاتا اور انہیں قوم کے حوالہ کر دیتا لیکن اس نے ان تین میں سے کوئی بھی طریقہ اختیارنہیں کیا اور ایسا طریقہ اختیار کیا جس کی صحت کا کوئی جواز نہیں تھا اوراس کی معذرت کاکوئی راستہ نہیں تھا۔

(۱۷۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

( جس میں موعظت کے ساتھ رسول اکرم (ص) سے قرابت کا ذکر کیا گیا ہے)

ا ے وہ غافلو جن کی طرف سے غفلت نہیں برتی جا سکتی ہے اوراے چھوڑ دینے والو جن کو چھوڑا نہیں جاسکتا ہے۔مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں اللہ سے دور بھاگتے ہوئے اور غیر خدا کی رغبت کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔گویا تم وہ اونٹ ہو جن کا چرواہا ایک ہلاک کردینے والی چراگاہ اور تباہ کردینے والے گھاٹ پر لے آیا ہو یا وہ چوپایہ ہو جسے چھریوں کے لئے پالا گیا ہے کہ اسے نہیں معلوم ہے کہ اس کے ساتھ برتائو کا واقعی مقصد کیا ہے اورجب اچھا برتاو کیا جاتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ ایک دن ہی سارا زمانہ ہے اور یہ شکم سیری ہی کل کام ہے۔

۳۱۷

واللَّه لَوْ شِئْتُ أَنْ أُخْبِرَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْكُمْ - بِمَخْرَجِه ومَوْلِجِه وجَمِيعِ شَأْنِه لَفَعَلْتُ - ولَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَكْفُرُوا فِيَّ بِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

أَلَا وإِنِّي مُفْضِيه إِلَى الْخَاصَّةِ مِمَّنْ يُؤْمَنُ ذَلِكَ مِنْه - والَّذِي بَعَثَه بِالْحَقِّ واصْطَفَاه عَلَى الْخَلْقِ - مَا أَنْطِقُ إِلَّا صَادِقاً - وقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ بِذَلِكَ كُلِّه وبِمَهْلِكِ مَنْ يَهْلِكُ - ومَنْجَى مَنْ يَنْجُو ومَآلِ هَذَا الأَمْرِ - ومَا أَبْقَى شَيْئاً يَمُرُّ عَلَى رَأْسِي إِلَّا أَفْرَغَه فِي أُذُنَيَّ - وأَفْضَى بِه إِلَيَّ.

أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي واللَّه مَا أَحُثُّكُمْ عَلَى طَاعَةٍ - إِلَّا وأَسْبِقُكُمْ إِلَيْهَا - ولَا أَنْهَاكُمْ عَنْ مَعْصِيَةٍ إِلَّا وأَتَنَاهَى قَبْلَكُمْ عَنْهَا..

خدا کی قسم میں چاہوں تو ہر شخص کواس کے داخل اور خارج ہونے کی منزل سے آگاہ کر سکتا ہوں اور جملہ حالات کو بتا سکتا ہوں۔لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم مجھ میں گم ہو کر رسول اکرم (ص) کا انکار نہ کردو اور یاد رکھو کہ میں ان باتوں سے ان لوگوں کو بہر حال آگاہ کردوں گا جن سے گمراہی کاخطرہ نہیں ہے۔ قسم ہے اس ذات اقدس کی جس نے انہیں حق کے ساتھ بھیجا ہے اورمخلوقات میں منتخب قرار دیا ہے کہ میں سوائے سچ کے کوئی کلام نہیں کرتا ہو۔انہوں نے یہ ساری باتیں مجھے بتا دی ہیں اور ہر ہلاک ہونے والے کی ہلاکت اور نجات پانے والے کی نجات کا راستہ بھی بتا دیا ہے اور اس امر خلافت کے انجام سے بھی با خبر کردیا ہے اور کوئی ایسی شے نہیں ہے جو میرے سر سے گزرنے والی ہو اور اسے میرے کانوں میں نہ ڈال دیا ہو اور مجھ تک پہنچا نہ دیا ہو۔

لوگو!خا گواہ ہے کہ میں تمہیں کسی اطاعت پرآمادہ نہیں کرتا ہوں مگر پہلے خود سبقت کرتا ہوں اور کسی معصیت سے نہیں روکتا ہوں مگر یہ کہ پہلے خود اس سے باز رہتا ہوں۔

۳۱۸

(۱۷۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يعظ ويبين فضل القرآن وينهى عن البدعة

عظة الناس

انْتَفِعُوا بِبَيَانِ اللَّه واتَّعِظُوا بِمَوَاعِظِ اللَّه - واقْبَلُوا نَصِيحَةَ اللَّه - فَإِنَّ اللَّه قَدْ أَعْذَرَ إِلَيْكُمْ بِالْجَلِيَّةِ واتَّخَذَ عَلَيْكُمُ الْحُجَّةَ - وبَيَّنَ لَكُمْ مَحَابَّه مِنَ الأَعْمَالِ ومَكَارِهَه مِنْهَا - لِتَتَّبِعُوا هَذِه وتَجْتَنِبُوا هَذِه - فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَانَ يَقُولُ - إِنَّ الْجَنَّةَ حُفَّتْ بِالْمَكَارِه - وإِنَّ النَّارَ حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ.

واعْلَمُوا أَنَّه مَا مِنْ طَاعَةِ اللَّه شَيْءٌ إِلَّا يَأْتِي فِي كُرْه - ومَا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّه شَيْءٌ إِلَّا يَأْتِي فِي شَهْوَةٍ - فَرَحِمَ اللَّه امْرَأً نَزَعَ عَنْ شَهْوَتِه وقَمَعَ هَوَى نَفْسِه - فَإِنَّ هَذِه النَّفْسَ أَبْعَدُ شَيْءٍ مَنْزِعاً - وإِنَّهَا لَا تَزَالُ

(۱۷۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں موعظہ کے ساتھ قرآن کے فضائل اوربدعتوں سے مانعت کاتذکرہ کیا گیا ہے )

(قرآن حکیم)

دیکھو پروردگار کے بیان سے فائدہ اٹھائو اور اس کے مواعظ سے نصیحت حاصل کرو اور اس کی نصیحت کوقبول کرو کہ اس نے واضح بیانات کی ذریعہ تمہارے ہر عذرکوختم کردیاہے اورتم پرحجت تمام کردی ہے تمہارے لئے اپنے محبوب اورنا پسندیدہ تمام اعمال کی وضاحت کردی ہے تاکہ تم ایک قسم کا اتباع کرواوردوسری سے اجتناب کرو کہ رسول اکرم (ص) برابر یہ فرمایا کرتے تھے کہ جنت ناگواریوں(۱) میں گھیردی گئی ہے اورجہنم کو خواہشات کے گھیرے میں ڈال دیا گیا ہے۔

یاد رکھو کہ خدا کی کوئی اطاعت ایسی نہیں ہے جس میں ناگواری کی شکل نہ ہو اور اس کی کوئی معصیت ایسی نہیں ہے جس میں خواہش کا کوئی پہلو نہ ہو۔اللہ اس بندہ پر رحمت نازل کرے جوخواہشات سے الگ ہوجائے اورنفس کے ہوا و ہوس کو اکھاڑ کر پھینک دے کہ یہ نفس خواہشات میں بہت دور تک کھینچ جانے والا ہے اور یہ ہمیشہ

(۱)ان نا گواریوں اور دشواریوں سے مراد صرف عبادات نہیں ہیں کہ وہ صرف کاہل اوربے دین افراد کے لئے دشوار ہیں ورنہ سنجیدہ اوردیندار افراد ان میں لذت اور راحت ہی کا احساس کرتے ہیں۔درحقیقت ان دشواریوں سے مراد وہ جہاد ہے جس میں ہر راہ حیات میں ساری توانائیوں کو خرچ کرنا پڑتا ہے اور ہر طرح کی زحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیساکہ سورہ ٔ مبارکہ توبہ میں اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ نے صاحبان ایمان کے جان و مال کو خرید لیا ہے اورانہیں جنت دیدی ہے۔یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمن کو تہ تیغ کرنے کے ساتھ خودبھی شہیدہوجاتے ہیں۔

۳۱۹

تَنْزِعُ إِلَى مَعْصِيَةٍ فِي هَوًى.

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه أَنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يُصْبِحُ ولَا يُمْسِي - إِلَّا ونَفْسُه ظَنُونٌ عِنْدَه - فَلَا يَزَالُ زَارِياً عَلَيْهَا ومُسْتَزِيداً لَهَا - فَكُونُوا كَالسَّابِقِينَ قَبْلَكُمْ والْمَاضِينَ أَمَامَكُمْ - قَوَّضُوا مِنَ الدُّنْيَا تَقْوِيضَ الرَّاحِلِ وطَوَوْهَا طَيَّ الْمَنَازِلِ.

فضل القرآن

واعْلَمُوا أَنَّ هَذَا الْقُرْآنَ هُوَ النَّاصِحُ الَّذِي لَا يَغُشُّ - والْهَادِي الَّذِي لَا يُضِلُّ والْمُحَدِّثُ الَّذِي لَا يَكْذِبُ - ومَا جَالَسَ هَذَا الْقُرْآنَ أَحَدٌ إِلَّا قَامَ عَنْه بِزِيَادَةٍ أَوْ نُقْصَانٍ - زِيَادَةٍ فِي هُدًى أَوْ نُقْصَانٍ مِنْ عَمًى –

واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ عَلَى أَحَدٍ بَعْدَ الْقُرْآنِ مِنْ فَاقَةٍ - ولَا لأَحَدٍ قَبْلَ الْقُرْآنِ مِنْ غِنًى - فَاسْتَشْفُوه مِنْ أَدْوَائِكُمْ - واسْتَعِينُوا بِه عَلَى لأْوَائِكُمْ - فَإِنَّ فِيه شِفَاءً مِنْ أَكْبَرِ الدَّاءِ - وهُوَ الْكُفْرُ والنِّفَاقُ والْغَيُّ والضَّلَالُ - فَاسْأَلُوا اللَّه بِه وتَوَجَّهُوا إِلَيْه بِحُبِّه - ولَا تَسْأَلُوا بِه

گناہوں کی خواہش ہی کی طرف کھینچتا رہتا ہے ۔

بندگان خدا ! یاد رکھو کہ مردمومن ہمیشہ صبح و شام اپنے نفس سے بدگمان ہی رہتا ہے اوراس سے ناراض ہی رہتا ہے اور ناراضگی میں اضافہ ہی کرتا رہتا ہے لہٰذا تم بھی اپنے پہلے والوں کے مانند ہو جائو جو تمہارے آگے آگے جا رہے ہیں کہ انہوں نے دنیا سے اپنے خیمہ ڈیرہ کو اٹھا لیا ہے اورایک مسافر کی طرح دنیاکی منزلوں کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے ہیں۔

یاد رکھو کہ یہ قرآن وہ ناصح ہے جودھوکہ نہیں دیتاہے اور وہ ہادی ہے جوگمراہ نہیں کرتا ہے۔وہ بیان کرنے والا ہے جو غلط بیانی سے کام لینے والا نہیں ہے۔کوئی شخص اس کے پاس(۱) نہیں بیٹھتاہے مگر یہ کہ جب اٹھتا ہے توہدایت میں اضافہ کر لیتا ہے یا کم سے کم گمراہی میں کمی کر لیتا ہے۔

یاد رکھو! قرآن کے بعد کوئی کسی کا محتاج نہیں ہو سکتاہے اور قرآن سے پہلے کوئی بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے ۔اپنی بیماریوں میں اس سے شفا حاصل کرواور اپنی مصیبتوں میں اس سے مدد مانگو کہ اس میں بد ترین بیماری کفرو نفاق اورگمراہی و بے راہ روی کا علاج بھی موجود ہے۔اس کے ذریعہ اللہ سے سوال کرو اوراس کی محبت کے وسیلہ سے اس کی طرف رخ کرو اوراس کے ذریعہ

(۱)کتنی حسین ترین تعبیر ہے تلاوت قرآن اور فہم قرآن کی کہ انسان قرآن کے ساتھ اس طرح رہے جس طرح کوئی شخص اپنے ہم نشین کے ساتھ بیٹھتا ہے اور اس سے مانوس رہتا ہے اورجس کے نتیجہ میں جمال ہم نشین سے متاثر ہوتا ہے۔مسلمانوں کاتعلق صرف قرآن مجید کے الفاظ سے نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے معانی سے ہوتا ہے تاکہ اس کے مفاہیم سے آشنا ہو سکے اور اس کے تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکے۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863