نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 630114
ڈاؤنلوڈ: 15074

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 630114 / ڈاؤنلوڈ: 15074
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فَيَنْحَتُّ مِنْ قَصَبِه انْحِتَاتَ أَوْرَاقِ الأَغْصَانِ - ثُمَّ يَتَلَاحَقُ نَامِياً حَتَّى يَعُودَ كَهَيْئَتِه قَبْلَ سُقُوطِه - لَا يُخَالِفُ سَالِفَ أَلْوَانِه - ولَا يَقَعُ لَوْنٌ فِي غَيْرِ مَكَانِه - وإِذَا تَصَفَّحْتَ شَعْرَةً مِنْ شَعَرَاتِ قَصَبِه - أَرَتْكَ حُمْرَةً وَرْدِيَّةً وتَارَةً خُضْرَةً زَبَرْجَدِيَّةً - وأَحْيَاناً صُفْرَةً عَسْجَدِيَّةً - فَكَيْفَ تَصِلُ إِلَى صِفَةِ هَذَا عَمَائِقُ الْفِطَنِ - أَوْ تَبْلُغُه قَرَائِحُ الْعُقُولِ - أَوْ تَسْتَنْظِمُ وَصْفَه أَقْوَالُ الْوَاصِفِينَ!وأَقَلُّ أَجْزَائِه قَدْ أَعْجَزَ الأَوْهَامَ أَنْ تُدْرِكَه - والأَلْسِنَةَ أَنْ تَصِفَه - فَسُبْحَانَ الَّذِي بَهَرَ الْعُقُولَ عَنْ وَصْفِ خَلْقٍ جَلَّاه لِلْعُيُونِ - فَأَدْرَكَتْه مَحْدُوداً مُكَوَّناً ومُؤَلَّفاً مُلَوَّناً - وأَعْجَزَ الأَلْسُنَ عَنْ تَلْخِيصِ صِفَتِه - وقَعَدَ بِهَا عَنْ تَأْدِيَةِ نَعْتِه!

صغار المخلوقات

وسُبْحَانَ مَنْ أَدْمَجَ قَوَائِمَ الذَّرَّةِ - والْهَمَجَةِ إِلَى مَا فَوْقَهُمَا مِنْ خَلْقِ الْحِيتَانِ والْفِيَلَةِ - ووَأَى عَلَى نَفْسِه أَلَّا يَضْطَرِبَ شَبَحٌ مِمَّا أَوْلَجَ فِيه الرُّوحَ -

یہ بال و پر اس طرح گرتے ہیں جیسے درخت کی شاخوں سے پتے گرتے ہیں اور پھر دوبارہ یوں اگ آتے ہیںکہ بالکل پہلے جیسے ہو جاتے ہیں ۔نہ پرانے رنگوں سے کوئی مختلف رنگ ہوتا ہے اور نہ کسی رنگ کی جگہ تبدیل ہوتی ہے۔بلکہ اگر تم اس کے ریشوں میں کسی ایک ریشہ پر بھی غور کرو گے تو تمہیں کبھی گلاب کی سرخی نظر آئے گی اور کبھی زمرد کی سبزی اور پھر کبھی سونے کی زردی۔بھلا اس تخلیق کی توصیف تک فکروں کی گہرائیاں کس طرح پہنچ سکتی ہیں اور ان دقائق کو عقل کی جودت کس طرح پا سکتی ہے یا تو صیف کرنے والے اس کے اوصاف کو کس طرح مرتب کر سکتے ہیں۔

جب کہ اس کے چھوٹے سے ایک جزء نے اوہام کو وہاں تک رسائی سے عاجز کردیا ہے اور زبانوں کی اس کی توصیف سے درماندہ کردیا ہے۔

پاک و بے نیاز ہے وہ مالک جس نے عقلوں کو متحیر کردیا ہے اس ایک مخلوق کی توصیف سے جسے نگاہوں کے سامنے واضح کردیا ہے اور نگاہوں نے اسے محدود اور مرتب و مرکب و ملون شکل میں دیکھ لیا ہے اور پھر زبان کو بھی اس کی صفت کا خلاصہ بیان کرنے اوراس کی تعریف کا حق ادا کرنے سے عاجز کردیا۔

اور پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے چیونٹی اور مچھر سے لے کر ان سے بڑی مچھلیوں اور ہاتھیوں تک کے پیروں کو مضبوط و مستحکم بنایا ہے اور اپنے لئے لازم قرار دے لیا ہے کہ کوئی ذی روح ڈھانچہ حرکت نہیں کر ے گا

۳۰۱

إِلَّا وجَعَلَ الْحِمَامَ مَوْعِدَه والْفَنَاءَ غَايَتَه.

منها في صفة الجنة

فَلَوْ رَمَيْتَ بِبَصَرِ قَلْبِكَ نَحْوَ مَا يُوصَفُ لَكَ مِنْهَا - لَعَزَفَتْ نَفْسُكَ عَنْ بَدَائِعِ مَا أُخْرِجَ إِلَى الدُّنْيَا - مِنْ شَهَوَاتِهَا ولَذَّاتِهَا وزَخَارِفِ مَنَاظِرِهَا - ولَذَهِلَتْ بِالْفِكْرِ فِي اصْطِفَاقِ أَشْجَارٍ - غُيِّبَتْ عُرُوقُهَا فِي كُثْبَانِ الْمِسْكِ عَلَى سَوَاحِلِ أَنْهَارِهَا - وفِي تَعْلِيقِ كَبَائِسِ اللُّؤْلُؤِ الرَّطْبِ فِي عَسَالِيجِهَا وأَفْنَانِهَا - وطُلُوعِ تِلْكَ الثِّمَارِ مُخْتَلِفَةً فِي غُلُفِ أَكْمَامِهَا - تُجْنَى مِنْ غَيْرِ تَكَلُّفٍ فَتَأْتِي عَلَى مُنْيَةِ مُجْتَنِيهَا - ويُطَافُ عَلَى نُزَّالِهَا فِي أَفْنِيَةِ قُصُورِهَا - بِالأَعْسَالِ الْمُصَفَّقَةِ والْخُمُورِ الْمُرَوَّقَةِ - قَوْمٌ لَمْ تَزَلِ الْكَرَامَةُ تَتَمَادَى بِهِمْ - حَتَّى حَلُّوا دَارَ الْقَرَارِ وأَمِنُوا نُقْلَةَ الأَسْفَارِ - فَلَوْ شَغَلْتَ قَلْبَكَ أَيُّهَا الْمُسْتَمِعُ - بِالْوُصُولِ إِلَى مَا يَهْجُمُ عَلَيْكَ مِنْ تِلْكَ الْمَنَاظِرِ الْمُونِقَةِ - لَزَهِقَتْ نَفْسُكَ شَوْقاً إِلَيْهَا -

مگر یہ کہ اس کی اصلی وعدہ گاہ موت(۱) ہوگی اور اس کا انجام کا رفنا ہوگا۔

اب اگر تم ان بیانات پر دل کی نگاہوں سے نظر ڈالو گے تو تمہارا نفس دنیا کی تمام شہوتوں ۔لذتوں اور زینتوں سے بیزار ہو جائے گا اور تمہاری فکر ان درختوں کے پتوں کی کھڑ کھڑاہٹ میں گم ہو جائے گی جن کی جڑیں ساحل دریا پر مشک کے ٹیلوں میں ڈوبی ہوئی ہیں اور ان ترو تازہ موتیوں کے گچھوں کے لٹکنے اور سبز پتیوں کے غلافوں میں مختلف قسم کے پھلوں کے نکلنے کے نظاروں میں گم ہو جائے گی جنہیں بغیر کسی زحمت کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور وہاں وارد ہونے والوں کے گرد محلوں کے آنگنوں میں صاف و شفاف شہد اورپاک و پاکیزہ شراب کے دور چل رہے ہوں گے۔وہاں وہ قوم ہوگی جس کی کرامتوں نے اسے کھینچ کر ہمیشگی کی منزل تک پہنچا دیا ہے اور انہیں سفر کی مزید زحمت سے محفوظ کردیا ہے۔اسے میری گفتگو سننے والو! اگر تم لوگ اپنے دلوں کو مشغول کرلو اس منزل تک پہنچنے کے لئے جہاں یہ دلکش نظارے پائے جاتے ہیں تو تمہاری جان اشتیاق کے مارے از خود نکل جائے گی

(۱) کیا عبرت ناک ہے یہ زندگی ایک طرف راحتیں ،لذتیں ، آرائشیں، زیبائشیںہیں اور دوسری طرف موت کا بھیانک چہرہ! انسان ایک نظر اسآرائش وزیبائش کی طرف کتا ہے اور دوسری نظر اس کے انجام کارکی طرف۔بالکل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک طرف مور کے پر ہیں اور دوسری طرف پیر۔پروں کو دیکھ کر غرور پیدا ہوتا ہے اور پیروں کو دیکھ کر اوقات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

انسان اپنی زندگی کے حقائق پرنظر کرے تو اسے اندازہ ہوگا کہ اس کی پوری حیات ایک مور کی زندگی ہے جہاں ایک طرف راحت و آرام ، آرائش و زیبائش کا ہنگامہ ہے اور دوسری طرف موت کا بھیانک چہرہ۔

ظاہر ہے کہ جو انسان اس چہرہ کو دیکھ لے اسے کوئی چیز حسین اور دلکش محسوس نہ ہوگی اور وہ اس پر فریب دنیا سے جلد از جلد نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

۳۰۲

ولَتَحَمَّلْتَ مِنْ مَجْلِسِي هَذَا - إِلَى مُجَاوَرَةِ أَهْلِ الْقُبُورِ اسْتِعْجَالًا بِهَا - جَعَلَنَا اللَّه وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ يَسْعَى بِقَلْبِه - إِلَى مَنَازِلِ الأَبْرَارِ بِرَحْمَتِه.

تفسير بعض ما في هذه الخطبة من الغريب

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - قولهعليه‌السلام يؤر بملاقحه الأر كناية عن النكاح - يقال أر الرجل المرأة يؤرها إذا نكحها -. وقولهعليه‌السلام كأنه قلع داري عنجه نوتيه - القلع شراع السفينة - وداري منسوب إلى دارين - وهي بلدة على البحر يجلب منها الطيب - وعنجه أي عطفه - يقال عنجت الناقة كنصرت أعنجها عنجا إذا عطفتها - والنوتي الملاح -. وقولهعليه‌السلام ضفتي جفونه أراد جانبي جفونه - والضفتان الجانبان -. وقولهعليه‌السلام وفلذ الزبرجد - الفلذ جمع فلذة وهي القطعة -. وقولهعليه‌السلام كبائس اللؤلؤ الرطب - الكباسة العذق - والعساليج الغصون واحدها عسلوج

اور تم میری اس مجلس سے اٹھ کر قبروں میں رہنے والوں کی ہمسائیگی کے لئے آمادہ ہو جائو گے تاکہ جلد یہ نعمتیں حاصل ہوجائیں۔

اللہ ہمیں اور تمہیں دونوں کو اپنی رحمت کے طفیل ان لوگوں میں قراردے جو اپنے دل کی گہرائیوں سے نیک کردار بندوں کی منزلوں کے لئے سعی کر رہے ہیں۔

(بعض الفاظ کی وضاحت)

یور بملاقحہ۔ار نکاح کا کنایہ ہے کہ جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو کہا جاتا ہے ار الرجل۔

حضرت کا ارشاد''کانہ قلع داری عنجہ نوتیہ '' قلع کشتی کے بادبان کو کہا جاتا ہے اور داری مقام دارین کی طرف منسوب ہے جو ساحل بحر پرآباد ہے اور وہاں سے خوشبو وغیرہ وارد کی جاتی ہے۔

عنجہ یعنی موڑ دیا جس کا استعمال اس طرح ہوتا ہے کہ عنجت الناقة یعنی میں نے اونٹنی کے رخ کو موڑ دیا۔

نوتی ملاح کو کہاجاتا ہے۔ضفتی جفرنہ یعنی پلکوں کے کنارے ۔صفتان یعنی دونوں کنارے ۔

فلذ الزبرجد۔فلذ فلذة کی جمع ہے یعنی ٹکڑا۔

کبائس اللئو لوء الرطب ۔کباسہ کھجور کا خوشہ

عیالج جمع علوج ۔شاخیں

۳۰۳

(۱۶۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

الحث على التآلف

لِيَتَأَسَّ صَغِيرُكُمْ بِكَبِيرِكُمْ - ولْيَرْأَفْ كَبِيرُكُمْ بِصَغِيرِكُمْ - ولَا تَكُونُوا كَجُفَاةِ الْجَاهِلِيَّةِ - لَا فِي الدِّينِ يَتَفَقَّهُونَ ولَا عَنِ اللَّه يَعْقِلُونَ - كَقَيْضِ بَيْضٍ فِي أَدَاحٍ - يَكُونُ كَسْرُهَا وِزْراً ويُخْرِجُ حِضَانُهَا شَرّاً.

بنو أمية

ومنها - افْتَرَقُوا بَعْدَ أُلْفَتِهِمْ وتَشَتَّتُوا عَنْ أَصْلِهِمْ - فَمِنْهُمْ آخِذٌ بِغُصْنٍ أَيْنَمَا مَالَ مَالَ مَعَه - عَلَى أَنَّ اللَّه تَعَالَى سَيَجْمَعُهُمْ لِشَرِّ يَوْمٍ لِبَنِي أُمَيَّةَ - كَمَا تَجْتَمِعُ قَزَعُ الْخَرِيفِ - يُؤَلِّفُ اللَّه بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَجْمَعُهُمْ رُكَاماً كَرُكَامِ السَّحَابِ - ثُمَّ يَفْتَحُ لَهُمْ أَبْوَاباً - يَسِيلُونَ مِنْ مُسْتَثَارِهِمْ كَسَيْلِ الْجَنَّتَيْنِ - حَيْثُ لَمْ تَسْلَمْ عَلَيْه قَارَةٌ - ولَمْ تَثْبُتْ عَلَيْه أَكَمَةٌ - ولَمْ يَرُدَّ سَنَنَه رَصُّ طَوْدٍ ولَا حِدَابُ أَرْضٍ - يُذَعْذِعُهُمُ اللَّه فِي بُطُونِ أَوْدِيَتِه -

(۱۶۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

دعوت اتحاد و اتفاق

تمہارے چھوٹوں کوچاہیےکہ اپنے بڑوں کی پیروی کریں اوربڑوں کافرض ہےکہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں اورخبردار تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہو جانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اللہ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھےان کی مثال ان انڈوں کے چھلوں جیسی ہے جو شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہوںکہ ان کاتوڑنا تو جرم ہے لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا ہے۔

(ایک اور حصہ) یہ لوگ باہمی محبت کے بعد الگ الگ ہوگئے اور اپنی اصل سے جدا ہوگئے بعض لوگوں نے ایک شاخکو پکڑ لیا ہے اور اب اسی کے ساتھ جھکتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ انہیں بنی امیہ کے بد ترین دن کیلئے جمع کردے گا جس طرح کہ خریف میں بادل کے ٹکڑے جمع ہو جاتے ہیں ۔پھر ان کے درمیان محبت پیدا کرے گا پھر انہیں تہ بہ تہ ابرکے ٹکڑوں کی طرح ایک مضبوط گروہ بنادے گا۔پھر ان کے لئے ایسے دروازوں کو کھول دے گا کہ یہ اپنے ابھرنے کی جگہ سے شہر صبا کے دو باغوں کے اس سیلاب کی طرح بہ نکلیں گے جن سے نہ کوئی چٹان محفوظ رہی تھی اورنہ کوئی ٹیلہ ٹھہر سکا تھا۔ نہ پہاڑ کی چوٹی اس کے دھارے کو موڑ سکی تھی اورنہ زمین کی اونچائی۔اللہ انہیں گھاٹیوں کے نشیبوں میں متفرق

۳۰۴

ثُمَّ يَسْلُكُهُمْ يَنَابِيعَ فِي الأَرْضِ - يَأْخُذُ بِهِمْ مِنْ قَوْمٍ حُقُوقَ قَوْمٍ - ويُمَكِّنُ لِقَوْمٍ فِي دِيَارِ قَوْمٍ - وايْمُ اللَّه لَيَذُوبَنَّ مَا فِي أَيْدِيهِمْ بَعْدَ الْعُلُوِّ والتَّمْكِينِ - كَمَا تَذُوبُ الأَلْيَةُ عَلَى النَّارِ.

الناس آخر الزمان

أَيُّهَا النَّاسُ لَوْ لَمْ تَتَخَاذَلُوا عَنْ نَصْرِ الْحَقِّ - ولَمْ تَهِنُوا عَنْ تَوْهِينِ الْبَاطِلِ - لَمْ يَطْمَعْ فِيكُمْ مَنْ لَيْسَ مِثْلَكُمْ - ولَمْ يَقْوَ مَنْ قَوِيَ عَلَيْكُمْ - لَكِنَّكُمْ تِهْتُمْ مَتَاه بَنِي إِسْرَائِيلَ - ولَعَمْرِي لَيُضَعَّفَنَّ لَكُمُ التِّيه مِنْ بَعْدِي أَضْعَافاً - بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ - وقَطَعْتُمُ الأَدْنَى ووَصَلْتُمُ الأَبْعَدَ - واعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِنِ اتَّبَعْتُمُ الدَّاعِيَ لَكُمْ - سَلَكَ بِكُمْ مِنْهَاجَ الرَّسُولِ وكُفِيتُمْ مَئُونَةَ الِاعْتِسَافِ - ونَبَذْتُمُ الثِّقْلَ الْفَادِحَ عَنِ الأَعْنَاقِ.

(۱۶۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في أوائل خلافته

إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَنْزَلَ كِتَاباً هَادِياً

کردے گا اور پھر انہیں چشموں کے بہائو کی طرح زمین میں پھیلا دے گا۔ان کے ذریعہ ایک قوم کے حقوق دوسری قوم سےحاصل کرےگا اورایک جماعت کودوسری جماعت کے دیر میں اقتدار عطا کرےگا۔خدا کی قسم ان کے اتدار و اختیار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہوگا وہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح کہ آگ پر چربی پگھل جاتی ہے۔

(آخر زمانہ کے لوگ)

ایہا الناس! اگر تم حق کی مدد کرنے میں کوت ا ہی نہ کرتے اورباطل کو کمزور بنانے میں سستی کا مظاہرہ نہ کرتے تو تمہارے بارے میں وہ قوم طمع نہ کرتی جو تم جیسی نہیں ہے اور تم پر یہ لوگ قوی نہ ہو جاتے۔ لیکن افسوس کہ تم بنی اسرائیل کی طرح گمراہ ہوگئے اور میری جان کی قسم میرے بعد تمہاری یہ حیرانی اور سر گردانی دوچند ہو جائے گی کہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے۔قریب ترین سے قطع تعلق کرلیاہے اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔یادرکھو کہ اگر تم داعی حق کا اتباع کر لیتے تو وہ تمہیں رسول اکرم (ص) کے راستہ پر چلاتا اور تمہیں کجروی کی زحمتوں سے بچالیتا اور تم اس سنگین بوجھ کو اپنی گردنوں سے اتار پھینک دیتے۔

(۱۶۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(ابتدائے خلافت کے دورمیں)

پروردگار نے اس کتاب ہدایت کو نازل کیا

۳۰۵

بَيَّنَ فِيه الْخَيْرَ والشَّرَّ - فَخُذُوا نَهْجَ الْخَيْرِ تَهْتَدُوا - واصْدِفُوا عَنْ سَمْتِ الشَّرِّ تَقْصِدُوا.

الْفَرَائِضَ الْفَرَائِضَ أَدُّوهَا إِلَى اللَّه تُؤَدِّكُمْ إِلَى الْجَنَّةِ - إِنَّ اللَّه حَرَّمَ حَرَاماً غَيْرَ مَجْهُولٍ - وأَحَلَّ حَلَالًا غَيْرَ مَدْخُولٍ - وفَضَّلَ حُرْمَةَ الْمُسْلِمِ عَلَى الْحُرَمِ كُلِّهَا - وشَدَّ بِالإِخْلَاصِ والتَّوْحِيدِ حُقُوقَ الْمُسْلِمِينَ فِي مَعَاقِدِهَا - فَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِه ويَدِه إِلَّا بِالْحَقِّ - ولَا يَحِلُّ أَذَى الْمُسْلِمِ إِلَّا بِمَا يَجِبُ.

بَادِرُوا أَمْرَ الْعَامَّةِ وخَاصَّةَ أَحَدِكُمْ وهُوَ الْمَوْتُ - فَإِنَّ النَّاسَ أَمَامَكُمْ وإِنَّ السَّاعَةَ تَحْدُوكُمْ مِنْ خَلْفِكُمْ - تَخَفَّفُوا تَلْحَقُوا فَإِنَّمَا يُنْتَظَرُ بِأَوَّلِكُمْ آخِرُكُمْ.

اتَّقُوا اللَّه فِي عِبَادِه وبِلَادِه - فَإِنَّكُمْ

ہے جس میں خیرو شر کی وضاحت کردی ہے لہٰذا تم خیر کے راستہ کو اختیارکرو تاکہ ہدایت پاجائو اور شرکے رخ سے منہ موڑ لو تاکہ سیدھے راستہ پرآجائو۔

فرائض کا خیال رکھو اور انہیں ادا کرو تاکہ وہ تمہیں جنت تک پہنچا دیں۔اللہ نے جس حرام کوحرام قرار دیا ہے وہ مجہول نہیں ہے اور جس حلال کو حلال بنایا ہے وہ مشتبہ نہیں ہے۔اس نے مسلمانوں کی حرمت کو تمام محترم چیزوں سے افضل قرار دیا ہے اور مسلمانوں کے حقوق کو ان کی منزلوں میں اخلاص اور ریگانگت سے باندھ دیا ہے۔اب مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام مسلمان(۱) محفوظرہیں مگر یہ کہ کسی حق کی بنا پر ان پر ہاتھ ڈالا جائے اور کسی مسلمان کے لئے مسلمان کو تکلیف دینا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا واقعی سبب پیدا ہو جائے۔

اس امرکی طرف سبقت کرو جو ہر ایک کے لئے ہے اور تمہارے لئے بھی ہے اور وہ ہے موت۔لوگ تمہارے آگے جا چکے ہیں اور تمہارا وقت تمہیں ہنکا کرلے جا رہا ہے۔سامان ہلکا رکھو تاکہ اگلے لوگوں سے ملحق ہو جائو اس لئے کہ ان پہلے والوں کے ذریعہ تمہارا انتظار کیا جا رہا ہے۔

اللہ سے ڈرو اس کے بندوں کے بارے میں بھی اور شہروں کے بارے میں بھی ۔اس لئے کہ تم سے زمینوں

(۱) اس قانون میں مسلمانوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔مسلمان وہی ہوتا ہے جس کے ہاتھ یا اس کی زبان سے کسی فروبشر کو اذیت نہ ہو اور سب اس کے شر سے محفوظ رہیں۔لیکن یہ اسی وقت تک ہے جب کسی کے بارے میں زبان کھولنا یا ہاتھ اٹھانا شر شمار ہو ورنہ اگر انسان اس امر کا مستحق ہوگیا ہے کہ اس کے کردار پر تنقید نہ کرنا اسے قرار واقعی سزا نہ دینا دین خدا کی توہین ہے تو کوئی شخص بھی دین خدا سے زیادہمحترم نہیں ہے۔انسان کا احترام دین خداکے طفیل میں ہے اگر دین خدا ہی کا احترام نہ رہ گیا تو کسی شخص کے احترام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

۳۰۶

مَسْئُولُونَ حَتَّى عَنِ الْبِقَاعِ والْبَهَائِمِ - أَطِيعُوا اللَّه ولَا تَعْصُوه - وإِذَا رَأَيْتُمُ الْخَيْرَ فَخُذُوا بِه - وإِذَا رَأَيْتُمُ الشَّرَّ فَأَعْرِضُوا عَنْه.

(۱۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

بعد ما بويع له بالخلافة، وقد قال له قوم من الصحابة: لو عاقبتقوما ممن أجلب على عثمان فقالعليه‌السلام :

يَا إِخْوَتَاه إِنِّي لَسْتُ أَجْهَلُ مَا تَعْلَمُونَ - ولَكِنْ كَيْفَ لِي بِقُوَّةٍ والْقَوْمُ الْمُجْلِبُونَ - عَلَى حَدِّ شَوْكَتِهِمْ يَمْلِكُونَنَا ولَا نَمْلِكُهُمْ - وهَا هُمْ هَؤُلَاءِ قَدْ ثَارَتْ مَعَهُمْ عِبْدَانُكُمْ - والْتَفَّتْ إِلَيْهِمْ أَعْرَابُكُمْ - وهُمْ خِلَالَكُمْ يَسُومُونَكُمْ مَا شَاءُوا - وهَلْ تَرَوْنَ مَوْضِعاً لِقُدْرَةٍ عَلَى شَيْءٍ تُرِيدُونَه - إِنَّ هَذَا الأَمْرَ أَمْرُ جَاهِلِيَّةٍ - وإِنَّ لِهَؤُلَاءِ الْقَوْمِ مَادَّةً - إِنَّ النَّاسَ مِنْ هَذَا الأَمْرِ إِذَا حُرِّكَ عَلَى أُمُورٍ - فِرْقَةٌ تَرَى مَا تَرَوْنَ وفِرْقَةٌ تَرَى مَا لَا تَرَوْنَ - وفِرْقَةٌ لَا تَرَى هَذَا ولَا ذَاكَ - فَاصْبِرُوا حَتَّى يَهْدَأَ النَّاسُ

اور جانوروں کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔اللہ کی اطاعت کرو اورناف رمانی نہ کرو۔خیر کو دیکھو تو فوراً لے لو اور شریرنظر پڑ جائے تو کنارہ کش ہو جائو۔

(۱۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب بیعت خلافت کے بعد بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ کاش آپ عثمان پر زیادتی کرنے والوں کو سبزا دیتے )

بھائیو! جو تم جانتے ہو میں اس سے نا واقف نہیں ہوں لیکن میرے پاس اس کی طاقت کہاں ہے ؟ ابھی وہ قوم اپنی طاقت و قوت(۱) پر قائم ہے۔وہ ہمارا اختیار رکھتی ہے اور ہمارے پاس اس کا اختیارنہیں ہے اور پھر تمہارے غلام بھی ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور تمہارے دیہاتی بھی ان کے گرد جمع ہوگئے ہیں اور وہ تمہارے درمیان اس حالت میں ہیں کہ تمہیں جس طرح چاہیں اذیت پہنچا سکتے ہیں کیا تمہاری نظر میں جو کچھ تم چاہتے ہو اس کی کوئی گنجائش ہے۔بیشک یہ صرف جہالت اور نادانی کا مطالبہ ہے اور اس قوم کے پاس طاقت کا سرچشمہ موجود ہے۔اس معاملہ میں اگر لوگوں کو حرکت بھی دی جائے تو وہ چند فرقوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ایک فرقہ وہی سوچے گا جو تم سوچ رہے ہو اور دوسرا گروہ اس کے خلاف رائے کاحامل ہوگا۔تیسرا گروہ دونوں سے غیر جانبدار بن جائے گا لہٰذا مناسب یہی ہے کہ صبر کرو یہاں تک کہ لوگ ذرا

۳۰۷

وتَقَعَ الْقُلُوبُ مَوَاقِعَهَا - وتُؤْخَذَ الْحُقُوقُ مُسْمَحَةً - فَاهْدَءُوا عَنِّي وانْظُرُوا مَا ذَا يَأْتِيكُمْ بِه أَمْرِي - ولَا تَفْعَلُوا فَعْلَةً تُضَعْضِعُ قُوَّةً وتُسْقِطُ مُنَّةً - وتُورِثُ وَهْناً وذِلَّةً وسَأُمْسِكُ الأَمْرَ مَا اسْتَمْسَكَ - وإِذَا لَمْ أَجِدْ بُدّاً فَآخِرُ الدَّوَاءِ الْكَيُّ

(۱۶۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند مسير أصحاب الجمل إلى البصرة

الأمور الجامعة للمسلمين

إِنَّ اللَّه بَعَثَ رَسُولًا هَادِياً بِكِتَابٍ نَاطِقٍ وأَمْرٍ قَائِمٍ - لَا يَهْلِكُ عَنْه إِلَّا هَالِكٌ - وإِنَّ الْمُبْتَدَعَاتِ الْمُشَبَّهَاتِ هُنَّ الْمُهْلِكَاتُ - إِلَّا مَا حَفِظَ اللَّه مِنْهَا - وإِنَّ فِي سُلْطَانِ اللَّه عِصْمَةً لأَمْرِكُمْ - فَأَعْطُوه طَاعَتَكُمْ غَيْرَ مُلَوَّمَةٍ ولَا مُسْتَكْرَه بِهَا - واللَّه لَتَفْعَلُنَّ أَوْ

مطمئن ہو جائیں اور دل ٹھہر جائیں اور اس کے بعد دیکھو کہ میں کیاکرتا ہوں ۔خبر دار کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جو طاقت کو کمزور بنادے اور قوت کو پامال کردے اور کمزوری و ذلت کاب اعث ہو جائے۔میں جہاں تک ممکن ہو گا اس جنگ کو روکے رہوں گا۔اس کے بعد جب کوئی چارہ کارنہ رہ جائے گا توآخری علاج داغنا ہی ہوتا ہے۔

(۱۶۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب اصحاب جمل بصرہ کی طرف جا رہے تھے)

اللہ نے اپنے رسول ہادی کو بولتی کتاب اور مستحکم امر کے ساتھ بھیجا ہے اس کے ہوتے ہوئے وہی ہلاک ہو سکتا ہے جس کا مقدر ہی ہلاکت ہو اور نئی نئی بدعتیں اورنئے نئے شبہات ہی ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں مگر یہ کہ اللہ ہی کسی کو بچالے اور پروردگار کی طرف سے معین ہونے والا حاکم ہی تمہارے امور کی حفاظت کرسکتا ہے لہٰذا اسے ایسی مکمل اطاعت دے دو جونہ قابل ملامت ہو اورنہ بددلی کا نتیجہ ہو۔خدا کی قسم یا تو

(۱)عثمان کے خلاف قیام کرنے والے صرف مدینہ کے افراد ہوتے جب بھی مقابلہ آسان نہیں تھا۔چہ جائیکہ بقول طبری اس جماعت میں چھ سو مصری بھی شامل تھے اورایک ہزار کوفہ کے سپاہی بھی آگئے تھے اوردیگر علاقے کے مظلومین نے بھی مہم میں شرکت کرلی تھی۔ایسے حالات میں ایک شخص جمل و صفین کے معرکے بھی برداشت کرے اور ان تمام انقلابیوں کامحاسبہ بھی شروع کردے یہ ایک نا ممکن امر ہے اور پھرمحاسبہ کے عمل میں ام المومنین اور معاویہ کو بھی شامل کرنا پڑے گا کہ قتل عثمان کی مہم میں یہ افراد بھی برابر کے شریک تھے بلکہ ام المومنین نے توباقاعدہ لوگوں کو قتل پر آمادہ کیاتھا۔

ایسے حالات میں مسئلہ اس قدرآسان نہیں تھا جس قدر بعض سادہ لوح افراد تصور کر رہے تھے یا بعض فتنہ پرداز اسے ہوا دے رہے تھے۔

۳۰۸

لَيَنْقُلَنَّ اللَّه عَنْكُمْ سُلْطَانَ الإِسْلَامِ - ثُمَّ لَا يَنْقُلُه إِلَيْكُمْ أَبَداً - حَتَّى يَأْرِزَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِكُمْ.

التنفير من خصومه

إِنَّ هَؤُلَاءِ قَدْ تَمَالَئُوا عَلَى سَخْطَةِ إِمَارَتِي - وسَأَصْبِرُ مَا لَمْ أَخَفْ عَلَى جَمَاعَتِكُمْ - فَإِنَّهُمْ إِنْ تَمَّمُوا عَلَى فَيَالَةِ هَذَا الرَّأْيِ - انْقَطَعَ نِظَامُ الْمُسْلِمِينَ - وإِنَّمَا طَلَبُوا هَذِه الدُّنْيَا حَسَداً لِمَنْ أَفَاءَهَا اللَّه عَلَيْه - فَأَرَادُوا رَدَّ الأُمُورِ عَلَى أَدْبَارِهَا - ولَكُمْ عَلَيْنَا الْعَمَلُ بِكِتَابِ اللَّه تَعَالَى - وسِيرَةِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - والْقِيَامُ بِحَقِّه والنَّعْشُ لِسُنَّتِه.

(۱۷۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في وجوب اتباع الحق عند قيام الحجة كلَّم به بعض العرب

وقَدْ أَرْسَلَه قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ لَمَّا قَرُبَعليه‌السلام مِنْهَا - لِيَعْلَمَ لَهُمْ مِنْه حَقِيقَةَ حَالِه مَعَ أَصْحَابِ الْجَمَلِ - لِتَزُولَ الشُّبْهَةُ مِنْ نُفُوسِهِمْ - فَبَيَّنَ لَهعليه‌السلام مِنْ أَمْرِه مَعَهُمْ - مَا عَلِمَ بِه أَنَّه عَلَى الْحَقِّ - ثُمَّ قَالَ لَه بَايِعْ - فَقَالَ

تم ایسی اطاعت کروگے یا پھر تم سے اسلامی اقتدار چھن جائے گا اور پھر کبھی تمہاری طرف پلٹ کرنہ آئے گا یہاں تک کہ کسی غیرکے سایہ میں پناہ لے لے۔

دیکھو یہ لوگ میری حکومت سے ناراضگی پر متحد ہو چکے ہیں اوراب میں اس وقت تک صبر کروں گا جب تک تمہاری جماعت کے بارے میں کوئی اندیشہ نہ پیدا ہو جائے ۔اس لئے کہاگر وہ اپنی رائے کی کموری کے باوجود اس امر میں کامیاب ہوگئے تو مسلمانوں کا رشتہ نظم و نسق بالکل ٹوٹ کر رہ جائے گا۔ان لوگوں نے اس دنیا کو صرف ان لوگوں سے حسد کی بنا پر طلب کیا ہے جنہیں اللہ نے خلیفہ و حاکم بنایا ہے۔اب یہ چاہتے ہیں کہ معاملات کو الٹے پائوں جاہلیت کی طرف پلٹا دیں ۔تمہارے لئے میرے ذمہ یہی کام ہے کہ کتاب خدا اور سنت رسول (ص) پر عمل کروں ۔ان کے حق کو قائم کروں اور ان کی سنت کو بلند و بالا قرار دوں ۔

(۱۷۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(دلیل قائم ہو جانے کےبعدحق کے اتباع کےسلسلہ میں )

جب اہل بصرہ نے بعض افراد کواس غرض سے بھیجا کہ اہل جمل کے بارے میں حضرت کے موقف کو دریافت کریں تاکہ کسی طرح کا شبہ باقی نہ رہ جائے توآپ نے جملہ امور کی مکمل وضاحت فرمائی تاکہ واضح ہو جائے کہ آپ حق پر ہیں ۔اس کے بعد فرمایا کہ جب حق واضح ہوگیا تو میرے ہاتھ پر بیعت کرلو۔اس نے کہا کہ

۳۰۹

إِنِّي رَسُولُ قَوْمٍ - ولَا أُحْدِثُ حَدَثاً حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْهِمْ فَقَالَعليه‌السلام

أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ الَّذِينَ وَرَاءَكَ بَعَثُوكَ رَائِداً - تَبْتَغِي لَهُمْ مَسَاقِطَ الْغَيْثِ،فَرَجَعْتَ إِلَيْهِمْ وأَخْبَرْتَهُمْ عَنِ الْكَلإِ والْمَاءِ - فَخَالَفُوا إِلَى الْمَعَاطِشِ والْمَجَادِبِ مَا كُنْتَ صَانِعاً - قَالَ كُنْتُ تَارِكَهُمْ ومُخَالِفَهُمْ إِلَى الْكَلإِ والْمَاءِ - فَقَالَعليه‌السلام فَامْدُدْ إِذاً يَدَكَ - فَقَالَ الرَّجُلُ - فَوَاللَّه مَا اسْتَطَعْتُ أَنْ أَمْتَنِعَ عِنْدَ قِيَامِ الْحُجَّةِ عَلَيَّ - فَبَايَعْتُهعليه‌السلام

والرَّجُلُ يُعْرَفُ بِكُلَيْبٍ الْجَرْمِيِّ.

(۱۷۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما عزم على لقاء القوم بصفين

الدعاء

اللَّهُمَّ رَبَّ السَّقْفِ الْمَرْفُوعِ والْجَوِّ الْمَكْفُوفِ - الَّذِي جَعَلْتَه مَغِيضاً لِلَّيْلِ والنَّهَارِ

میں ایک قوم کا نمائندہ ہوں اور ان کی طرف رجوع کئے بغیر کوئی اقدام نہیں کر سکتا ہوں۔فرمایا کہ

تمہارا کیاخیال(۱) ہے اگر اس قوم نے تمہیں نمائندہ بنا کر بھیجا ہوتا کہ جائو تلاش کرو جہاں بارش ہوئی ہو اور پانی کی کوئی سبیل ہو اورتم واپس جا کر پانی اور سبزہ کی خبردیتے اوروہ لوگ تمہاری مخالفت کرکے ایسی جگہ کا انتخاب کرتے جہاں پانی کا قحط اورخشک سالی کا دوردورہ ہو تو اس وقت تمہارا اقدام کیا ہوتا ؟ اس نے کہاکہ میں انہیں چھوڑ کر آب و دانہ کی طرف چلا جاتا ۔فرمایا پھراب ہاتھ بڑھائو اور بیعت کر لو کہ چشمہ ہدایت تو مل گیا ہے۔اس نے کہاکہ اب حجت تمام ہوچکی ہے اورمیرے پاس انکار کا کوئی جواز نہیں رہ گیا ہے اور یہ کہہ کر حضرت کے دست حق پرست پر بیعت کرلی۔

(تاریخ میں اس شخص کو کلیب جرمی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے )

(۱۷۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب اصحاب معاویہ سےصفین میں مقابلہ کےلئے ارادہ فرمالیا)

اے پروردگار جو بلند ترین چھت اور ٹھہری ہوئی فضا کا مالک ہے۔جسنےاس فضاکوشب وروز کےسر چھپانے کی منزل

(۱) یہ استدلال اپنے حسن و جمال کے علاوہ اس معنویت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اسلام میں میری حیثیت ایک سر سبز و شاداب گلستان کی ہے جہاں اسلامی احکام و تعلیمات کی بہاریں خیمہ زن رہتی ہیں اور میرے علاوہ تمام افراد ایک ریگستان سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔کس قدر حیرت کی بات ہے کہ انسان سبزہ زار اور چشمہ آب حیات کو چھوڑ کر پھر ریگستانوں کی طرف پلٹ جائے اور تشنہ کامی کی زندگی گزارتا رہے۔جو تمام اہل شام کا مقدر بن چکا ہے۔

۳۱۰

ومَجْرًى لِلشَّمْسِ والْقَمَرِ ومُخْتَلَفاً لِلنُّجُومِ السَّيَّارَةِ - وجَعَلْتَ سُكَّانَه سِبْطاً مِنْ مَلَائِكَتِكَ - لَا يَسْأَمُونَ مِنْ عِبَادَتِكَ - ورَبَّ هَذِه الأَرْضِ الَّتِي جَعَلْتَهَا قَرَاراً لِلأَنَامِ - ومَدْرَجاً لِلْهَوَامِّ والأَنْعَامِ - ومَا لَا يُحْصَى مِمَّا يُرَى ومَا لَا يُرَى - ورَبَّ الْجِبَالِ الرَّوَاسِي الَّتِي جَعَلْتَهَا لِلأَرْضِ أَوْتَاداً - ولِلْخَلْقِ اعْتِمَاداً إِنْ أَظْهَرْتَنَا عَلَى عَدُوِّنَا - فَجَنِّبْنَا الْبَغْيَ وسَدِّدْنَا لِلْحَقِّ - وإِنْ أَظْهَرْتَهُمْ عَلَيْنَا فَارْزُقْنَا الشَّهَادَةَ - واعْصِمْنَا مِنَ الْفِتْنَةِ.

الدعوة للقتال

أَيْنَ الْمَانِعُ لِلذِّمَارِ - والْغَائِرُ عِنْدَ نُزُولِ الْحَقَائِقِ مِنْ أَهْلِ الْحِفَاظِ - الْعَارُ وَرَاءَكُمْ والْجَنَّةُ أَمَامَكُمْ!

(۱۷۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

حمد الله

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَا تُوَارِي عَنْه سَمَاءٌ سَمَاءً - ولَا أَرْضٌ أَرْضاً.

اورشمس و قمرکے سیر کا میدان اور ستاروں کی آمدورفت کی جولاں گاہ قرار دیا ہے۔اس کا ساکن ملائکہ کے اس گروہ کو قراردیا ہے جو تیری عبادت سے خستہ حال نہیں ہوتے ہیں۔توہی اس زمین کا بھی مالک ہے جسے لوگوں کا مستقر بنایا ہے اور جانوروں ' کپڑوں مکوڑوں اوربے شمار مرئی اور غیرمرئی مخلوقات کے چلنے پھرنے کی جگہ قرار دیا ہے۔تو ہی ان سربفلک پہاڑوں کامالک ہے جنہیں زمین کے ٹھہرائو کے لئے میخ کا درجہ دیا گیا ہے اورمخلوقات کاسہارا قرار دیا گیا ہے۔اگر تونے دشمن کے مقابلہ میں غلبہ عنایت فرمایا تو' ہمیں ظلم سے محفوظ رکھنا اورحق کے سیدھے راستہ پر قائم رکھنا اور اگر دشمن کو ہم پر غلبہ حاصل ہو جائے تو ہمیں شہادت کا شرف عطا فرمانا اور فتنہ سے محفوظ رکھنا۔

دعوت جہاد

کہاں ہیں وہ عزت وآبروکے پاسبان اورمصیبتوں کے نزول کے بعد ننگ ونام کی حفاظت کرنے والے صاحبان عزت و غیرت۔یاد رکھو ذلت و عار تمہارے پیچھے ہے اور جنت تمہارےآگے ۔

(۱۷۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(حمد خدا)

ساری تعریف اس اللہ کےلئے ہےجس کے سامنے ایک آسمان دوسرےآسمان کو اور ایک زمین دوسری زمین کوچھپا نہیں سکتی ہے۔

۳۱۱

يوم الشورى

منها - وقَدْ قَالَ قَائِلٌ إِنَّكَ عَلَى هَذَا الأَمْرِ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ لَحَرِيصٌ - فَقُلْتُ بَلْ أَنْتُمْ واللَّه لأَحْرَصُ وأَبْعَدُ وأَنَا أَخَصُّ وأَقْرَبُ - وإِنَّمَا طَلَبْتُ حَقّاً لِي وأَنْتُمْ تَحُولُونَ بَيْنِي وبَيْنَه - وتَضْرِبُونَ وَجْهِي دُونَه - فَلَمَّا قَرَّعْتُه بِالْحُجَّةِ فِي الْمَلإِ الْحَاضِرِينَ - هَبَّ كَأَنَّه بُهِتَ لَا يَدْرِي مَا يُجِيبُنِي بِه!

الاستنصار على قريش

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَعْدِيكَ عَلَى قُرَيْشٍ ومَنْ أَعَانَهُمْ - فَإِنَّهُمْ قَطَعُوا رَحِمِي وصَغَّرُوا عَظِيمَ مَنْزِلَتِيَ - وأَجْمَعُوا عَلَى مُنَازَعَتِي أَمْراً هُوَ لِي - ثُمَّ قَالُوا أَلَا إِنَّ فِي الْحَقِّ أَنْ تَأْخُذَه وفِي الْحَقِّ أَنْ تَتْرُكَه.

منها في ذكر أصحاب الجمل

فَخَرَجُوا يَجُرُّونَ حُرْمَةَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - كَمَا تُجَرُّ الأَمَةُ عِنْدَ شِرَائِهَا

(روز شوریٰ)

ایک شخص(۱) نے مجھ سے یہاں تک کہہ دیا کہ فرزند ابو طالب! آپ میں اس خلافت کی طمع پائی جاتی ہے؟ تو میں نے کہا کہ خدا کی قسم تم لوگ زیادہ حریص ہو حالانکہ تم دور والے ہو۔میں تو اس ا اہل بھی ہوں اور پیغمبر (ص) سے قریب تر بھی ہوں۔میں نے اس حق کا مطالبہ کیا ہے جس کا میں حقدار ہوں لیکن تم لوگ میرے اور اس کے درمیان حائل ہوگئے ہو اور میرے ہی رخ کو اس کی طرف سے موڑنا چاہتے ہو پھر جب میں نے بھری محفل میں دلائل کے ذریعہ سے کانوں کے پردوں کو کھٹکھٹایا تو ہوشیار ہوگیا اور ایسا مبہوت ہوگیا کہ کوئی جواب سمجھ نہیں آرہا تھا۔

(قریش کے خلاف فریاد)

خدایا! میں قریش اور ان کے انصار کے مقابلہ میں تجھ سے مدد چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے میری قرابت کا رشتہ توڑ دیا اورمیری عظیم منزلت کو حقیر بنادیا۔مجھ سے اس امرکے لئے جھگڑا کرنے پر تیار ہوگئے جس کامیں واقعاً حقدار تھا اور پھر یہ کہنے لگے کہ آپ اسے لے لیں توبھی صحیح ہے اور اس سے دستبردار ہو جائیں توبھی برحق ہے۔

(اصحاب جمل کے باے میں)

یہ ظالم اس شان سے برآمد ہوئے کہ حرم رسول (ص) کویوں کھینچ کر میدان میں لا رہے تھے جیسے کنیزیں خرید و

(۱)بعض حضرات کاخیال ہے کہ یہ بات شوریٰ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہی تھی اور بعض کاخیال ہے کہ سقیفہ کے موقع پر ابو عبیدہ بن الجراح نے کہی تھی اوردونوں ہی امکانات پائے جاتے ہیں کہ دونوں کی فطرت ایک جیسی تھی اوردونوں امیر المومنین کی مخالفت پر متحد تھے۔

۳۱۲

مُتَوَجِّهِينَ بِهَا إِلَى الْبَصْرَةِ - فَحَبَسَا نِسَاءَهُمَا فِي بُيُوتِهِمَا - وأَبْرَزَا حَبِيسَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لَهُمَا ولِغَيْرِهِمَا - فِي جَيْشٍ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وقَدْ أَعْطَانِي الطَّاعَةَ - وسَمَحَ لِي بِالْبَيْعَةِ طَائِعاً غَيْرَ مُكْرَه - فَقَدِمُوا عَلَى عَامِلِي بِهَا - وخُزَّانِ بَيْتِ مَالِ الْمُسْلِمِينَ وغَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِهَا - فَقَتَلُوا طَائِفَةً صَبْراً وطَائِفَةً غَدْراً - فَوَاللَّه لَوْ لَمْ يُصِيبُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - إِلَّا رَجُلًا وَاحِداً مُعْتَمِدِينَ لِقَتْلِه - بِلَا جُرْمٍ جَرَّه لَحَلَّ لِي قَتْلُ ذَلِكَ الْجَيْشِ كُلِّه - إِذْ حَضَرُوه فَلَمْ يُنْكِرُوا - ولَمْ يَدْفَعُوا عَنْه بِلِسَانٍ ولَا بِيَدٍ - دَعْ مَا أَنَّهُمْ قَدْ قَتَلُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - مِثْلَ الْعِدَّةِ الَّتِي دَخَلُوا بِهَا عَلَيْهِمْ!

(۱۷۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في رسول اللَّه،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ومن هو جدير بأن يكون للخلافة وفي هوان الدنيا

فروخت کے وقت لے جائی جاتی ہے۔ان کا رخ بصرہ کی طرف تھا۔ان دونوں(۱) نے اپنی عورتوں کو گھر میں بند کر رکھا تھا اور زوجہ رسول (ص) کو میدان میں لا رہے تھے۔جب کہ ان کے لشکر میں کوئی ایسا نہ تھا جو پہلے میری بیعت نہ کر چکا ہو اوربغیرکسی جبر و اکراہ کے میری اطاعت میں نہ رہ چکا ہو۔یہ لوگ پہلے میرے عامل(۲) بصرہ اورخازن بیت المال جیسے افراد پرحملہ آور ہوئے توایک جماعت کو گرفتار کرکے قتل کردیا اورایک کودھوکہ میں تلوار کے گھاٹ اتاردیا۔خدا کی قسم اگر یہ تمام مسلمانوں میں صرف ایک شخص کوبھی قصداً قتل کردیتے تو بھی میرے واسطے پورے لشکرسے جنگ کرنے جواز موجود تھا کہ دیگرافراد حاضر رہے اور انہوں نے نا پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا اور اپنی زبان(۳) یااپنے ہاتھ سے دفاع نہیں کیا اور پھرجب کہ مسلمانوں میں سے اتنے افراد کو قتل کردیا ہے جتنی ان کے پورے لشکر کی تعداد تھی۔

(۱۷۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(رسول اکرم (ص) کے بارے میں اوراس امر کی وضاحت کے سلسلہ میں کہ خلافت کاواقعی حقدار کون ہے ؟)

(۱)اس سے مراد طلحہ و زبری ہیں جنہوں نے زوجہ رسول (ص) کا اتنا بھی احترام نہیں کیا جتنا اپنے گھرکی عورتوں کا کیاکرتے تھے۔

(۲)جناب عثمان بن حنیف کا مثلہ کردیا اوران کے ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت کو تہ تیغ کردیا۔

(۳)فقہی اعتبارسے دفاع نہ کرنے والوں کا قتل جائز نہیں ہوتا ہے لیکن یہاں وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے امام برحق کے خلاف خروج کرکے فساد فی الارض کا ارتکاب کیاتھا اور یہجرم جواز قتل کے لئے کافی ہوتا ہے۔

۳۱۳

رسول الله أَمِينُ وَحْيِه وخَاتَمُ رُسُلِه - وبَشِيرُ رَحْمَتِه ونَذِيرُ نِقْمَتِه.

الجدير بالخلافة

أَيُّهَا النَّاسُ - إِنَّ أَحَقَّ النَّاسِ بِهَذَا الأَمْرِ أَقْوَاهُمْ عَلَيْه – وأَعْلَمُهُمْ بِأَمْرِ اللَّه فِيه - فَإِنْ شَغَبَ شَاغِبٌ اسْتُعْتِبَ فَإِنْ أَبَى قُوتِلَ - ولَعَمْرِي لَئِنْ كَانَتِ الإِمَامَةُ لَا تَنْعَقِدُ - حَتَّى يَحْضُرَهَا عَامَّةُ النَّاسِ فَمَا إِلَى ذَلِكَ سَبِيلٌ - ولَكِنْ أَهْلُهَا يَحْكُمُونَ عَلَى مَنْ غَابَ عَنْهَا - ثُمَّ لَيْسَ لِلشَّاهِدِ أَنْ يَرْجِعَ ولَا لِلْغَائِبِ أَنْ يَخْتَارَ - أَلَا وإِنِّي أُقَاتِلُ رَجُلَيْنِ - رَجُلًا ادَّعَى مَا لَيْسَ لَه وآخَرَ مَنَعَ الَّذِي عَلَيْه.

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - فَإِنَّهَا خَيْرُ مَا تَوَاصَى الْعِبَادُ بِه - وخَيْرُ عَوَاقِبِ الأُمُورِ عِنْدَ اللَّه - وقَدْ فُتِحَ بَابُ الْحَرْبِ بَيْنَكُمْ وبَيْنَ أَهْلِ الْقِبْلَةِ - ولَا يَحْمِلُ هَذَا الْعَلَمَ إِلَّا أَهْلُ الْبَصَرِ والصَّبْرِ - والْعِلْمِ بِمَوَاضِعِ الْحَقِّ - فَامْضُوا

پیغمبراسلام (ص) وحی الٰہی کے امانتدار اور خاتم المرسلین تھے۔رحمت الٰہی کی بشارت دینے والے اور عذاب الٰہی سے ڈرانے والے تھے ۔لوگو!یاد رکھو اس امرکا سب سے زیادہ حقدار وہی ہےجو سب سے زیادہ طاقتور اوردین الٰہی کاواقف کارہو اس کےبعداگر کوئی فتنہ پرداز فتنہ کھڑا کرے گاتو پہلے اسے توبہ کی دعوت دی جائے گی۔اس کے بعد اگرانکارکرے گا تو قتل کردیا جائے گا۔میری جان کی قسم اگر امامت کامسئلہ تمام افرادبشر کےاجتماع کے بغیر طے نہیں ہو سکتا ہے تواس اجتماع کاتو کوئی راستہ ہی نہیں ہے ہوتایہی ہے کہ حاضرین کا فیصلہ غائب افراد پرنافذ ہو جاتا ہے اور نہ حاضر کواپنی بیعت سے رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے اورنہ غائب کو دوسرا راستہ اختیار کرنے کا جواز ہوتا ہے۔ یاد رکھو میں دونوں طرح کے افراد سے جہاد کروں گا۔ان سے بھی جو غیر حق کے دعویدار ہوں گے اور ان سے بھی جوحقدار کو اس کا حق نہ دیں گے بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتاہوں کہ یہ بندوں کے درمیان بہترین وصیت ہے اور پیش پروردگار انجام کے اعتبارسے بہترین عمل ہے۔دیکھو !تمہارے اوراہل قبلہ مسلمانوں کے درمیان جنگ کا دروازہ کھولا جا چکا ہے۔اب اس علم(۱) کووہی اٹھائے گا جو صاحب بصیرت و صبرہوگا اورحق کےمراکزکا پہچاننے والا ہوگا۔تمہارا فرض ہے کہ میرے

(۱)علم لشکر قوم کی سر بلندی کی نشانی اور لشکرکے وقار و عزت کی علامت ہوتا ہے لہٰذا اس کواٹھانے والے کوبھی صاحب بصیرت و برداشت ہونا ضروری ہے ورنہ اگر پرچم سرنگوں ہوگیا تو نہ لشکر کاکوئی وقار رہ جائے گا اورنہمذہب کا کوئی اعتبار رہ جائے گا۔سرکار دو عالم (ص) نے انہیں خصوصیات کے پیش نظر خیبر کے موقع پر اعلان فرمایا تھاکہ کل میں اس کو علم دوں گا جو کرار' غیر فرار' محب خداو رسول (ص) محبوب خدا اور رسول (ص) اورمرد میدان ہوگا کہ اس کے علاوہ کوئی شخص علم برداری کا اہل نہیں ہو سکتا ہے۔

۳۱۴

لِمَا تُؤْمَرُونَ بِه وقِفُوا عِنْدَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْه - ولَا تَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ حَتَّى تَتَبَيَّنُوا - فَإِنَّ لَنَا مَعَ كُلِّ أَمْرٍ تُنْكِرُونَه غِيَراً

هوان الدنيا

أَلَا وإِنَّ هَذِه الدُّنْيَا الَّتِي أَصْبَحْتُمْ تَتَمَنَّوْنَهَا - وتَرْغَبُونَ فِيهَا وأَصْبَحَتْ تُغْضِبُكُمْ وتُرْضِيكُمْ - لَيْسَتْ بِدَارِكُمْ ولَا مَنْزِلِكُمُ الَّذِي خُلِقْتُمْ لَه - ولَا الَّذِي دُعِيتُمْ إِلَيْه - أَلَا وإِنَّهَا لَيْسَتْ بِبَاقِيَةٍ لَكُمْ ولَا تَبْقَوْنَ عَلَيْهَا - وهِيَ وإِنْ غَرَّتْكُمْ مِنْهَا فَقَدْ حَذَّرَتْكُمْ شَرَّهَا - فَدَعُوا غُرُورَهَا لِتَحْذِيرِهَا وأَطْمَاعَهَا لِتَخْوِيفِهَا - وسَابِقُوا فِيهَا إِلَى الدَّارِ الَّتِي دُعِيتُمْ إِلَيْهَا - وانْصَرِفُوا بِقُلُوبِكُمْ عَنْهَا - ولَا يَخِنَّنَّ أَحَدُكُمْ خَنِينَ الأَمَةِ عَلَى مَا زُوِيَ عَنْه مِنْهَا - واسْتَتِمُّوا نِعْمَةَ اللَّه عَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ عَلَى طَاعَةِ اللَّه

والْمُحَافَظَةِ عَلَى مَا اسْتَحْفَظَكُمْ مِنْ كِتَابِه - أَلَا وإِنَّه لَا يَضُرُّكُمْ تَضْيِيعُ شَيْءٍ مِنْ دُنْيَاكُمْ - بَعْدَ حِفْظِكُمْ قَائِمَةَ دِينِكُمْ - أَلَا وإِنَّه لَا يَنْفَعُكُمْ بَعْدَ تَضْيِيعِ دِينِكُمْ شَيْءٌ -

احکام کے مطابق قدم آگے بڑھائو اور میں جہاں روک دوں وہاںرک جائو۔اور خبردار کسی مسئلہ میں بھی تحقیق کے بغیر جلد بازی سے کام نہ لینا کہ مجھے جن باتوں کاتم انکار کرتے ہوان میں غیر معمولی انقلاب کا اندیشہ رہتا ہے ۔

یاد رکھو! یہ دنیا جس کی تم آرزو کر رہے ہو اور اورجس میں تم رغبت کا اظہار کر رہے ہو اور جو کبھی کبھی تم سے عداوت کرتی ہے اور کبھی تمہیں خوش کر دیتی ہے۔ یہ تمہاراواقعی گھر اور تمہاری واقعی منزل نہیں ہے جس کے لئے تمہیں خلق کیا گیا ہے اور جس کی طرف تمہیں دعوت دی گئی ہے اور پھر یہ باقی رہنے والی بھی نہیں ہے اور تم بھی اس میں باقی رہنے والے نہیں ہو۔یہ اگر کبھی دھوکہ دیتی ہے تو دوسرے وقت اپنے شر سے ہوشیار بھی کردیتی ہے۔لہٰذا اس کے دھوکہ سے بچواوراس کی تنبیہ پرعمل کرو۔اس کی لالچ کو نظر اندازکرو اور اس کی تخویف کاخیال رکھو۔اس میں رہ کر اس گھر کی طرف سبقت کرو' جس کی تمہیں دعوت دی گئی ہے۔اوراپنے دلوں کا رخ اس کی طرف سے موڑ لو اورخبر دار تم میںسے کوئی بھی شخص اس کی کسی نعمت سے محرومی کی بنا پرکنیزوں کی طرح رونے نہ بیٹھ جائے۔اللہ سے اس کی نعمتوں کی تکمیل کامطالبہ کرو اس کی اطاعت پر صبر کرنے اور اس کی کتاب کے احکام کی مخافظت کرنے کے ذریعہ۔

یاد رکھو اگر تم نے دین کی بنیادکو محفوظ کردیا تو دنیا کی کسی شے کی بربادی بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور اگر تم نے دین کو برباد کردیا تو دنیا میں کسی شے

۳۱۵

حَافَظْتُمْ عَلَيْه مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ - أَخَذَ اللَّه بِقُلُوبِنَا وقُلُوبِكُمْ إِلَى الْحَقِّ - وأَلْهَمَنَا وإِيَّاكُمُ الصَّبْرَ!

(۱۷۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معنى طلحة بن عبيد الله

وقد قاله حين بلغه خروج طلحة والزبير إلى البصرة لقتاله

قَدْ كُنْتُ ومَا أُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ - ولَا أُرَهَّبُ بِالضَّرْبِ - وأَنَا عَلَى مَا قَدْ وَعَدَنِي رَبِّي مِنَ النَّصْرِ - واللَّه مَا اسْتَعْجَلَ مُتَجَرِّداً لِلطَّلَبِ بِدَمِ عُثْمَانَ - إِلَّا خَوْفاً مِنْ أَنْ يُطَالَبَ بِدَمِه لأَنَّه مَظِنَّتُه - ولَمْ يَكُنْ فِي الْقَوْمِ أَحْرَصُ عَلَيْه مِنْه - فَأَرَادَ أَنْ يُغَالِطَ بِمَا أَجْلَبَ فِيه - لِيَلْتَبِسَ الأَمْرُ ويَقَعَ الشَّكُّ -. ووَ اللَّه مَا صَنَعَ فِي أَمْرِ عُثْمَانَ وَاحِدَةً مِنْ ثَلَاثٍ - لَئِنْ كَانَ ابْنُ عَفَّانَ ظَالِماً كَمَا كَانَ يَزْعُمُ - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه

کی حفاظت بھی فائدہ نہیں دے سکتی ہے ۔اللہ ہم سب کے دل کو حق کے راستہ پر لگا دے اور سب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔

(۱۷۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(طلحہ بن عبید اللہ کے بارے میں جب آپ کو خبر دی گئی کہ طلحہ و زبیر جنگ کے لئے بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے ہیں )

مجھے کسی زمانہ میں بھی نہ جنگ سے مرعوب کیا جا سکا ہے اور نہ حرب و ضرب سے ڈرایا جا سکا ہے۔میں اپنے پروردگار کے وعدہ نصرت پرمطمئن ہوں اور خدا کی قسم اس شخص(۱) نے خون عثمان کے مطالبہ کے ساتھ تلوار کھینچنے میں صرف اس لئے جلد بازی سے کام لیا ہے کہ کہیں اسی سے اس خون کا مطالبہ نہ کردیا جائے کہ اس امر کا گمان غالب ہے اور قوم میں اس سے زیادہ عثمان کے خون کا پیاسا کوئی نہ تھا۔اب یہ اس فوج کشی کے ذریعہ لوگوں کو مغالطہ میں رکھنا چاہتا ہے اور مسئلہ کو مشتبہ اورمشکوک بنا دینا چاہتا ہے حالانکہ خدا گواہ ہے کہ عثمان کے معاملہ میں اس کا معاملہ تین حال سے خالی نہیں تھا۔اگرعثمان ظالم تھا جیسا کہ اس کا اپنا خیال تھا تواس کا

(۱)مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ عثمان کے آخر دورحیات میں ان کے قاتلوں کا اجتماع طلحہ کے گھرمیں ہوا کرتا تھا اور امیرالمومنین ہی نے اس راز کا انکشاف کیا تھا اس کے بعد طلحہ ہی نے جنازہ پر تیر برسائے تھے اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا تھا لیکن چار دن کے بعد یہی ظالم خون عثمان کا وارث بن گیا اور عثمان کے واقعی محسن کو ان کے خون کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کو سوچنے کا موقع مل جائے اور بنی امیہ طلحہ سے انتقام لینے کے لئے تیار ہو جائیں اور یہ طریقہ ہرشاطر سیاست کارکا ہوتا ہے کہ وہ مسائل کو اس طرح مشتبہ بنا دیناچاہتا ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ ہونے پائے ۔چاہے اس راہ میں اپنے سفارت کاروں ہی کو کیوں نہ قربان کرنا پڑے؟

۳۱۶

أَنْ يُوَازِرَ قَاتِلِيه - وأَنْ يُنَابِذَ نَاصِرِيه -. ولَئِنْ كَانَ مَظْلُوماً - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُنَهْنِهِينَ عَنْه - والْمُعَذِّرِينَ فِيه - ولَئِنْ كَانَ فِي شَكٍّ مِنَ الْخَصْلَتَيْنِ - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه أَنْ يَعْتَزِلَه - ويَرْكُدَ جَانِباً ويَدَعَ النَّاسَ مَعَه - فَمَا فَعَلَ وَاحِدَةً مِنَ الثَّلَاثِ - وجَاءَ بِأَمْرٍ لَمْ يُعْرَفْ بَابُه ولَمْ تَسْلَمْ مَعَاذِيرُه

(۱۷۵)

من خطبة لهعليه‌السلام

في الموعظة وبيان قرباه من رسول اللَّه

أَيُّهَا النَّاسُ غَيْرُ الْمَغْفُولِ عَنْهُمْ - والتَّارِكُونَ الْمَأْخُوذُ مِنْهُمْ - مَا لِي أَرَاكُمْ عَنِ اللَّه ذَاهِبِينَ وإِلَى غَيْرِه رَاغِبِينَ - كَأَنَّكُمْ نَعَمٌ أَرَاحَ بِهَا سَائِمٌ إِلَى مَرْعًى وَبِيٍّ ومَشْرَبٍ دَوِيٍّ - وإِنَّمَا هِيَ كَالْمَعْلُوفَةِ لِلْمُدَى لَا تَعْرِفُ مَا ذَا يُرَادُ بِهَا - إِذَا أُحْسِنَ إِلَيْهَا تَحْسَبُ يَوْمَهَا دَهْرَهَا وشِبَعَهَا أَمْرَهَا

فرض تھا کہ قاتلوں کی مدد کرتا اور عثمان کے مدد گاروں کو ٹھکرا دیتا اور اگروہ مظلوم تھا تو اس کا فرض تھا کہ اس کے قتل سے روکنے والوں اور اس کی طرف سے معذرت کرنے والوں میں شامل ہو جاتا اور اگر یہ دونوں باتیں مشکوک تھیں تو اس کے لئے مناسب تھاکہ اس معاملہ سے الگ ہوکرایک گوشہ میں بیٹھ جاتا اور انہیں قوم کے حوالہ کر دیتا لیکن اس نے ان تین میں سے کوئی بھی طریقہ اختیارنہیں کیا اور ایسا طریقہ اختیار کیا جس کی صحت کا کوئی جواز نہیں تھا اوراس کی معذرت کاکوئی راستہ نہیں تھا۔

(۱۷۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

( جس میں موعظت کے ساتھ رسول اکرم (ص) سے قرابت کا ذکر کیا گیا ہے)

ا ے وہ غافلو جن کی طرف سے غفلت نہیں برتی جا سکتی ہے اوراے چھوڑ دینے والو جن کو چھوڑا نہیں جاسکتا ہے۔مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں اللہ سے دور بھاگتے ہوئے اور غیر خدا کی رغبت کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔گویا تم وہ اونٹ ہو جن کا چرواہا ایک ہلاک کردینے والی چراگاہ اور تباہ کردینے والے گھاٹ پر لے آیا ہو یا وہ چوپایہ ہو جسے چھریوں کے لئے پالا گیا ہے کہ اسے نہیں معلوم ہے کہ اس کے ساتھ برتائو کا واقعی مقصد کیا ہے اورجب اچھا برتاو کیا جاتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ ایک دن ہی سارا زمانہ ہے اور یہ شکم سیری ہی کل کام ہے۔

۳۱۷

واللَّه لَوْ شِئْتُ أَنْ أُخْبِرَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْكُمْ - بِمَخْرَجِه ومَوْلِجِه وجَمِيعِ شَأْنِه لَفَعَلْتُ - ولَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَكْفُرُوا فِيَّ بِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

أَلَا وإِنِّي مُفْضِيه إِلَى الْخَاصَّةِ مِمَّنْ يُؤْمَنُ ذَلِكَ مِنْه - والَّذِي بَعَثَه بِالْحَقِّ واصْطَفَاه عَلَى الْخَلْقِ - مَا أَنْطِقُ إِلَّا صَادِقاً - وقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ بِذَلِكَ كُلِّه وبِمَهْلِكِ مَنْ يَهْلِكُ - ومَنْجَى مَنْ يَنْجُو ومَآلِ هَذَا الأَمْرِ - ومَا أَبْقَى شَيْئاً يَمُرُّ عَلَى رَأْسِي إِلَّا أَفْرَغَه فِي أُذُنَيَّ - وأَفْضَى بِه إِلَيَّ.

أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي واللَّه مَا أَحُثُّكُمْ عَلَى طَاعَةٍ - إِلَّا وأَسْبِقُكُمْ إِلَيْهَا - ولَا أَنْهَاكُمْ عَنْ مَعْصِيَةٍ إِلَّا وأَتَنَاهَى قَبْلَكُمْ عَنْهَا..

خدا کی قسم میں چاہوں تو ہر شخص کواس کے داخل اور خارج ہونے کی منزل سے آگاہ کر سکتا ہوں اور جملہ حالات کو بتا سکتا ہوں۔لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم مجھ میں گم ہو کر رسول اکرم (ص) کا انکار نہ کردو اور یاد رکھو کہ میں ان باتوں سے ان لوگوں کو بہر حال آگاہ کردوں گا جن سے گمراہی کاخطرہ نہیں ہے۔ قسم ہے اس ذات اقدس کی جس نے انہیں حق کے ساتھ بھیجا ہے اورمخلوقات میں منتخب قرار دیا ہے کہ میں سوائے سچ کے کوئی کلام نہیں کرتا ہو۔انہوں نے یہ ساری باتیں مجھے بتا دی ہیں اور ہر ہلاک ہونے والے کی ہلاکت اور نجات پانے والے کی نجات کا راستہ بھی بتا دیا ہے اور اس امر خلافت کے انجام سے بھی با خبر کردیا ہے اور کوئی ایسی شے نہیں ہے جو میرے سر سے گزرنے والی ہو اور اسے میرے کانوں میں نہ ڈال دیا ہو اور مجھ تک پہنچا نہ دیا ہو۔

لوگو!خا گواہ ہے کہ میں تمہیں کسی اطاعت پرآمادہ نہیں کرتا ہوں مگر پہلے خود سبقت کرتا ہوں اور کسی معصیت سے نہیں روکتا ہوں مگر یہ کہ پہلے خود اس سے باز رہتا ہوں۔

۳۱۸

(۱۷۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يعظ ويبين فضل القرآن وينهى عن البدعة

عظة الناس

انْتَفِعُوا بِبَيَانِ اللَّه واتَّعِظُوا بِمَوَاعِظِ اللَّه - واقْبَلُوا نَصِيحَةَ اللَّه - فَإِنَّ اللَّه قَدْ أَعْذَرَ إِلَيْكُمْ بِالْجَلِيَّةِ واتَّخَذَ عَلَيْكُمُ الْحُجَّةَ - وبَيَّنَ لَكُمْ مَحَابَّه مِنَ الأَعْمَالِ ومَكَارِهَه مِنْهَا - لِتَتَّبِعُوا هَذِه وتَجْتَنِبُوا هَذِه - فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَانَ يَقُولُ - إِنَّ الْجَنَّةَ حُفَّتْ بِالْمَكَارِه - وإِنَّ النَّارَ حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ.

واعْلَمُوا أَنَّه مَا مِنْ طَاعَةِ اللَّه شَيْءٌ إِلَّا يَأْتِي فِي كُرْه - ومَا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّه شَيْءٌ إِلَّا يَأْتِي فِي شَهْوَةٍ - فَرَحِمَ اللَّه امْرَأً نَزَعَ عَنْ شَهْوَتِه وقَمَعَ هَوَى نَفْسِه - فَإِنَّ هَذِه النَّفْسَ أَبْعَدُ شَيْءٍ مَنْزِعاً - وإِنَّهَا لَا تَزَالُ

(۱۷۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں موعظہ کے ساتھ قرآن کے فضائل اوربدعتوں سے مانعت کاتذکرہ کیا گیا ہے )

(قرآن حکیم)

دیکھو پروردگار کے بیان سے فائدہ اٹھائو اور اس کے مواعظ سے نصیحت حاصل کرو اور اس کی نصیحت کوقبول کرو کہ اس نے واضح بیانات کی ذریعہ تمہارے ہر عذرکوختم کردیاہے اورتم پرحجت تمام کردی ہے تمہارے لئے اپنے محبوب اورنا پسندیدہ تمام اعمال کی وضاحت کردی ہے تاکہ تم ایک قسم کا اتباع کرواوردوسری سے اجتناب کرو کہ رسول اکرم (ص) برابر یہ فرمایا کرتے تھے کہ جنت ناگواریوں(۱) میں گھیردی گئی ہے اورجہنم کو خواہشات کے گھیرے میں ڈال دیا گیا ہے۔

یاد رکھو کہ خدا کی کوئی اطاعت ایسی نہیں ہے جس میں ناگواری کی شکل نہ ہو اور اس کی کوئی معصیت ایسی نہیں ہے جس میں خواہش کا کوئی پہلو نہ ہو۔اللہ اس بندہ پر رحمت نازل کرے جوخواہشات سے الگ ہوجائے اورنفس کے ہوا و ہوس کو اکھاڑ کر پھینک دے کہ یہ نفس خواہشات میں بہت دور تک کھینچ جانے والا ہے اور یہ ہمیشہ

(۱)ان نا گواریوں اور دشواریوں سے مراد صرف عبادات نہیں ہیں کہ وہ صرف کاہل اوربے دین افراد کے لئے دشوار ہیں ورنہ سنجیدہ اوردیندار افراد ان میں لذت اور راحت ہی کا احساس کرتے ہیں۔درحقیقت ان دشواریوں سے مراد وہ جہاد ہے جس میں ہر راہ حیات میں ساری توانائیوں کو خرچ کرنا پڑتا ہے اور ہر طرح کی زحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیساکہ سورہ ٔ مبارکہ توبہ میں اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ نے صاحبان ایمان کے جان و مال کو خرید لیا ہے اورانہیں جنت دیدی ہے۔یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمن کو تہ تیغ کرنے کے ساتھ خودبھی شہیدہوجاتے ہیں۔

۳۱۹

تَنْزِعُ إِلَى مَعْصِيَةٍ فِي هَوًى.

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه أَنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يُصْبِحُ ولَا يُمْسِي - إِلَّا ونَفْسُه ظَنُونٌ عِنْدَه - فَلَا يَزَالُ زَارِياً عَلَيْهَا ومُسْتَزِيداً لَهَا - فَكُونُوا كَالسَّابِقِينَ قَبْلَكُمْ والْمَاضِينَ أَمَامَكُمْ - قَوَّضُوا مِنَ الدُّنْيَا تَقْوِيضَ الرَّاحِلِ وطَوَوْهَا طَيَّ الْمَنَازِلِ.

فضل القرآن

واعْلَمُوا أَنَّ هَذَا الْقُرْآنَ هُوَ النَّاصِحُ الَّذِي لَا يَغُشُّ - والْهَادِي الَّذِي لَا يُضِلُّ والْمُحَدِّثُ الَّذِي لَا يَكْذِبُ - ومَا جَالَسَ هَذَا الْقُرْآنَ أَحَدٌ إِلَّا قَامَ عَنْه بِزِيَادَةٍ أَوْ نُقْصَانٍ - زِيَادَةٍ فِي هُدًى أَوْ نُقْصَانٍ مِنْ عَمًى –

واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ عَلَى أَحَدٍ بَعْدَ الْقُرْآنِ مِنْ فَاقَةٍ - ولَا لأَحَدٍ قَبْلَ الْقُرْآنِ مِنْ غِنًى - فَاسْتَشْفُوه مِنْ أَدْوَائِكُمْ - واسْتَعِينُوا بِه عَلَى لأْوَائِكُمْ - فَإِنَّ فِيه شِفَاءً مِنْ أَكْبَرِ الدَّاءِ - وهُوَ الْكُفْرُ والنِّفَاقُ والْغَيُّ والضَّلَالُ - فَاسْأَلُوا اللَّه بِه وتَوَجَّهُوا إِلَيْه بِحُبِّه - ولَا تَسْأَلُوا بِه

گناہوں کی خواہش ہی کی طرف کھینچتا رہتا ہے ۔

بندگان خدا ! یاد رکھو کہ مردمومن ہمیشہ صبح و شام اپنے نفس سے بدگمان ہی رہتا ہے اوراس سے ناراض ہی رہتا ہے اور ناراضگی میں اضافہ ہی کرتا رہتا ہے لہٰذا تم بھی اپنے پہلے والوں کے مانند ہو جائو جو تمہارے آگے آگے جا رہے ہیں کہ انہوں نے دنیا سے اپنے خیمہ ڈیرہ کو اٹھا لیا ہے اورایک مسافر کی طرح دنیاکی منزلوں کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے ہیں۔

یاد رکھو کہ یہ قرآن وہ ناصح ہے جودھوکہ نہیں دیتاہے اور وہ ہادی ہے جوگمراہ نہیں کرتا ہے۔وہ بیان کرنے والا ہے جو غلط بیانی سے کام لینے والا نہیں ہے۔کوئی شخص اس کے پاس(۱) نہیں بیٹھتاہے مگر یہ کہ جب اٹھتا ہے توہدایت میں اضافہ کر لیتا ہے یا کم سے کم گمراہی میں کمی کر لیتا ہے۔

یاد رکھو! قرآن کے بعد کوئی کسی کا محتاج نہیں ہو سکتاہے اور قرآن سے پہلے کوئی بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے ۔اپنی بیماریوں میں اس سے شفا حاصل کرواور اپنی مصیبتوں میں اس سے مدد مانگو کہ اس میں بد ترین بیماری کفرو نفاق اورگمراہی و بے راہ روی کا علاج بھی موجود ہے۔اس کے ذریعہ اللہ سے سوال کرو اوراس کی محبت کے وسیلہ سے اس کی طرف رخ کرو اوراس کے ذریعہ

(۱)کتنی حسین ترین تعبیر ہے تلاوت قرآن اور فہم قرآن کی کہ انسان قرآن کے ساتھ اس طرح رہے جس طرح کوئی شخص اپنے ہم نشین کے ساتھ بیٹھتا ہے اور اس سے مانوس رہتا ہے اورجس کے نتیجہ میں جمال ہم نشین سے متاثر ہوتا ہے۔مسلمانوں کاتعلق صرف قرآن مجید کے الفاظ سے نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے معانی سے ہوتا ہے تاکہ اس کے مفاہیم سے آشنا ہو سکے اور اس کے تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکے۔

۳۲۰