نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657063 / ڈاؤنلوڈ: 15926
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

فَيَنْحَتُّ مِنْ قَصَبِه انْحِتَاتَ أَوْرَاقِ الأَغْصَانِ - ثُمَّ يَتَلَاحَقُ نَامِياً حَتَّى يَعُودَ كَهَيْئَتِه قَبْلَ سُقُوطِه - لَا يُخَالِفُ سَالِفَ أَلْوَانِه - ولَا يَقَعُ لَوْنٌ فِي غَيْرِ مَكَانِه - وإِذَا تَصَفَّحْتَ شَعْرَةً مِنْ شَعَرَاتِ قَصَبِه - أَرَتْكَ حُمْرَةً وَرْدِيَّةً وتَارَةً خُضْرَةً زَبَرْجَدِيَّةً - وأَحْيَاناً صُفْرَةً عَسْجَدِيَّةً - فَكَيْفَ تَصِلُ إِلَى صِفَةِ هَذَا عَمَائِقُ الْفِطَنِ - أَوْ تَبْلُغُه قَرَائِحُ الْعُقُولِ - أَوْ تَسْتَنْظِمُ وَصْفَه أَقْوَالُ الْوَاصِفِينَ!وأَقَلُّ أَجْزَائِه قَدْ أَعْجَزَ الأَوْهَامَ أَنْ تُدْرِكَه - والأَلْسِنَةَ أَنْ تَصِفَه - فَسُبْحَانَ الَّذِي بَهَرَ الْعُقُولَ عَنْ وَصْفِ خَلْقٍ جَلَّاه لِلْعُيُونِ - فَأَدْرَكَتْه مَحْدُوداً مُكَوَّناً ومُؤَلَّفاً مُلَوَّناً - وأَعْجَزَ الأَلْسُنَ عَنْ تَلْخِيصِ صِفَتِه - وقَعَدَ بِهَا عَنْ تَأْدِيَةِ نَعْتِه!

صغار المخلوقات

وسُبْحَانَ مَنْ أَدْمَجَ قَوَائِمَ الذَّرَّةِ - والْهَمَجَةِ إِلَى مَا فَوْقَهُمَا مِنْ خَلْقِ الْحِيتَانِ والْفِيَلَةِ - ووَأَى عَلَى نَفْسِه أَلَّا يَضْطَرِبَ شَبَحٌ مِمَّا أَوْلَجَ فِيه الرُّوحَ -

یہ بال و پر اس طرح گرتے ہیں جیسے درخت کی شاخوں سے پتے گرتے ہیں اور پھر دوبارہ یوں اگ آتے ہیںکہ بالکل پہلے جیسے ہو جاتے ہیں ۔نہ پرانے رنگوں سے کوئی مختلف رنگ ہوتا ہے اور نہ کسی رنگ کی جگہ تبدیل ہوتی ہے۔بلکہ اگر تم اس کے ریشوں میں کسی ایک ریشہ پر بھی غور کرو گے تو تمہیں کبھی گلاب کی سرخی نظر آئے گی اور کبھی زمرد کی سبزی اور پھر کبھی سونے کی زردی۔بھلا اس تخلیق کی توصیف تک فکروں کی گہرائیاں کس طرح پہنچ سکتی ہیں اور ان دقائق کو عقل کی جودت کس طرح پا سکتی ہے یا تو صیف کرنے والے اس کے اوصاف کو کس طرح مرتب کر سکتے ہیں۔

جب کہ اس کے چھوٹے سے ایک جزء نے اوہام کو وہاں تک رسائی سے عاجز کردیا ہے اور زبانوں کی اس کی توصیف سے درماندہ کردیا ہے۔

پاک و بے نیاز ہے وہ مالک جس نے عقلوں کو متحیر کردیا ہے اس ایک مخلوق کی توصیف سے جسے نگاہوں کے سامنے واضح کردیا ہے اور نگاہوں نے اسے محدود اور مرتب و مرکب و ملون شکل میں دیکھ لیا ہے اور پھر زبان کو بھی اس کی صفت کا خلاصہ بیان کرنے اوراس کی تعریف کا حق ادا کرنے سے عاجز کردیا۔

اور پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے چیونٹی اور مچھر سے لے کر ان سے بڑی مچھلیوں اور ہاتھیوں تک کے پیروں کو مضبوط و مستحکم بنایا ہے اور اپنے لئے لازم قرار دے لیا ہے کہ کوئی ذی روح ڈھانچہ حرکت نہیں کر ے گا

۳۰۱

إِلَّا وجَعَلَ الْحِمَامَ مَوْعِدَه والْفَنَاءَ غَايَتَه.

منها في صفة الجنة

فَلَوْ رَمَيْتَ بِبَصَرِ قَلْبِكَ نَحْوَ مَا يُوصَفُ لَكَ مِنْهَا - لَعَزَفَتْ نَفْسُكَ عَنْ بَدَائِعِ مَا أُخْرِجَ إِلَى الدُّنْيَا - مِنْ شَهَوَاتِهَا ولَذَّاتِهَا وزَخَارِفِ مَنَاظِرِهَا - ولَذَهِلَتْ بِالْفِكْرِ فِي اصْطِفَاقِ أَشْجَارٍ - غُيِّبَتْ عُرُوقُهَا فِي كُثْبَانِ الْمِسْكِ عَلَى سَوَاحِلِ أَنْهَارِهَا - وفِي تَعْلِيقِ كَبَائِسِ اللُّؤْلُؤِ الرَّطْبِ فِي عَسَالِيجِهَا وأَفْنَانِهَا - وطُلُوعِ تِلْكَ الثِّمَارِ مُخْتَلِفَةً فِي غُلُفِ أَكْمَامِهَا - تُجْنَى مِنْ غَيْرِ تَكَلُّفٍ فَتَأْتِي عَلَى مُنْيَةِ مُجْتَنِيهَا - ويُطَافُ عَلَى نُزَّالِهَا فِي أَفْنِيَةِ قُصُورِهَا - بِالأَعْسَالِ الْمُصَفَّقَةِ والْخُمُورِ الْمُرَوَّقَةِ - قَوْمٌ لَمْ تَزَلِ الْكَرَامَةُ تَتَمَادَى بِهِمْ - حَتَّى حَلُّوا دَارَ الْقَرَارِ وأَمِنُوا نُقْلَةَ الأَسْفَارِ - فَلَوْ شَغَلْتَ قَلْبَكَ أَيُّهَا الْمُسْتَمِعُ - بِالْوُصُولِ إِلَى مَا يَهْجُمُ عَلَيْكَ مِنْ تِلْكَ الْمَنَاظِرِ الْمُونِقَةِ - لَزَهِقَتْ نَفْسُكَ شَوْقاً إِلَيْهَا -

مگر یہ کہ اس کی اصلی وعدہ گاہ موت(۱) ہوگی اور اس کا انجام کا رفنا ہوگا۔

اب اگر تم ان بیانات پر دل کی نگاہوں سے نظر ڈالو گے تو تمہارا نفس دنیا کی تمام شہوتوں ۔لذتوں اور زینتوں سے بیزار ہو جائے گا اور تمہاری فکر ان درختوں کے پتوں کی کھڑ کھڑاہٹ میں گم ہو جائے گی جن کی جڑیں ساحل دریا پر مشک کے ٹیلوں میں ڈوبی ہوئی ہیں اور ان ترو تازہ موتیوں کے گچھوں کے لٹکنے اور سبز پتیوں کے غلافوں میں مختلف قسم کے پھلوں کے نکلنے کے نظاروں میں گم ہو جائے گی جنہیں بغیر کسی زحمت کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور وہاں وارد ہونے والوں کے گرد محلوں کے آنگنوں میں صاف و شفاف شہد اورپاک و پاکیزہ شراب کے دور چل رہے ہوں گے۔وہاں وہ قوم ہوگی جس کی کرامتوں نے اسے کھینچ کر ہمیشگی کی منزل تک پہنچا دیا ہے اور انہیں سفر کی مزید زحمت سے محفوظ کردیا ہے۔اسے میری گفتگو سننے والو! اگر تم لوگ اپنے دلوں کو مشغول کرلو اس منزل تک پہنچنے کے لئے جہاں یہ دلکش نظارے پائے جاتے ہیں تو تمہاری جان اشتیاق کے مارے از خود نکل جائے گی

(۱) کیا عبرت ناک ہے یہ زندگی ایک طرف راحتیں ،لذتیں ، آرائشیں، زیبائشیںہیں اور دوسری طرف موت کا بھیانک چہرہ! انسان ایک نظر اسآرائش وزیبائش کی طرف کتا ہے اور دوسری نظر اس کے انجام کارکی طرف۔بالکل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک طرف مور کے پر ہیں اور دوسری طرف پیر۔پروں کو دیکھ کر غرور پیدا ہوتا ہے اور پیروں کو دیکھ کر اوقات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

انسان اپنی زندگی کے حقائق پرنظر کرے تو اسے اندازہ ہوگا کہ اس کی پوری حیات ایک مور کی زندگی ہے جہاں ایک طرف راحت و آرام ، آرائش و زیبائش کا ہنگامہ ہے اور دوسری طرف موت کا بھیانک چہرہ۔

ظاہر ہے کہ جو انسان اس چہرہ کو دیکھ لے اسے کوئی چیز حسین اور دلکش محسوس نہ ہوگی اور وہ اس پر فریب دنیا سے جلد از جلد نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

۳۰۲

ولَتَحَمَّلْتَ مِنْ مَجْلِسِي هَذَا - إِلَى مُجَاوَرَةِ أَهْلِ الْقُبُورِ اسْتِعْجَالًا بِهَا - جَعَلَنَا اللَّه وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ يَسْعَى بِقَلْبِه - إِلَى مَنَازِلِ الأَبْرَارِ بِرَحْمَتِه.

تفسير بعض ما في هذه الخطبة من الغريب

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - قولهعليه‌السلام يؤر بملاقحه الأر كناية عن النكاح - يقال أر الرجل المرأة يؤرها إذا نكحها -. وقولهعليه‌السلام كأنه قلع داري عنجه نوتيه - القلع شراع السفينة - وداري منسوب إلى دارين - وهي بلدة على البحر يجلب منها الطيب - وعنجه أي عطفه - يقال عنجت الناقة كنصرت أعنجها عنجا إذا عطفتها - والنوتي الملاح -. وقولهعليه‌السلام ضفتي جفونه أراد جانبي جفونه - والضفتان الجانبان -. وقولهعليه‌السلام وفلذ الزبرجد - الفلذ جمع فلذة وهي القطعة -. وقولهعليه‌السلام كبائس اللؤلؤ الرطب - الكباسة العذق - والعساليج الغصون واحدها عسلوج

اور تم میری اس مجلس سے اٹھ کر قبروں میں رہنے والوں کی ہمسائیگی کے لئے آمادہ ہو جائو گے تاکہ جلد یہ نعمتیں حاصل ہوجائیں۔

اللہ ہمیں اور تمہیں دونوں کو اپنی رحمت کے طفیل ان لوگوں میں قراردے جو اپنے دل کی گہرائیوں سے نیک کردار بندوں کی منزلوں کے لئے سعی کر رہے ہیں۔

(بعض الفاظ کی وضاحت)

یور بملاقحہ۔ار نکاح کا کنایہ ہے کہ جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو کہا جاتا ہے ار الرجل۔

حضرت کا ارشاد''کانہ قلع داری عنجہ نوتیہ '' قلع کشتی کے بادبان کو کہا جاتا ہے اور داری مقام دارین کی طرف منسوب ہے جو ساحل بحر پرآباد ہے اور وہاں سے خوشبو وغیرہ وارد کی جاتی ہے۔

عنجہ یعنی موڑ دیا جس کا استعمال اس طرح ہوتا ہے کہ عنجت الناقة یعنی میں نے اونٹنی کے رخ کو موڑ دیا۔

نوتی ملاح کو کہاجاتا ہے۔ضفتی جفرنہ یعنی پلکوں کے کنارے ۔صفتان یعنی دونوں کنارے ۔

فلذ الزبرجد۔فلذ فلذة کی جمع ہے یعنی ٹکڑا۔

کبائس اللئو لوء الرطب ۔کباسہ کھجور کا خوشہ

عیالج جمع علوج ۔شاخیں

۳۰۳

(۱۶۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

الحث على التآلف

لِيَتَأَسَّ صَغِيرُكُمْ بِكَبِيرِكُمْ - ولْيَرْأَفْ كَبِيرُكُمْ بِصَغِيرِكُمْ - ولَا تَكُونُوا كَجُفَاةِ الْجَاهِلِيَّةِ - لَا فِي الدِّينِ يَتَفَقَّهُونَ ولَا عَنِ اللَّه يَعْقِلُونَ - كَقَيْضِ بَيْضٍ فِي أَدَاحٍ - يَكُونُ كَسْرُهَا وِزْراً ويُخْرِجُ حِضَانُهَا شَرّاً.

بنو أمية

ومنها - افْتَرَقُوا بَعْدَ أُلْفَتِهِمْ وتَشَتَّتُوا عَنْ أَصْلِهِمْ - فَمِنْهُمْ آخِذٌ بِغُصْنٍ أَيْنَمَا مَالَ مَالَ مَعَه - عَلَى أَنَّ اللَّه تَعَالَى سَيَجْمَعُهُمْ لِشَرِّ يَوْمٍ لِبَنِي أُمَيَّةَ - كَمَا تَجْتَمِعُ قَزَعُ الْخَرِيفِ - يُؤَلِّفُ اللَّه بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَجْمَعُهُمْ رُكَاماً كَرُكَامِ السَّحَابِ - ثُمَّ يَفْتَحُ لَهُمْ أَبْوَاباً - يَسِيلُونَ مِنْ مُسْتَثَارِهِمْ كَسَيْلِ الْجَنَّتَيْنِ - حَيْثُ لَمْ تَسْلَمْ عَلَيْه قَارَةٌ - ولَمْ تَثْبُتْ عَلَيْه أَكَمَةٌ - ولَمْ يَرُدَّ سَنَنَه رَصُّ طَوْدٍ ولَا حِدَابُ أَرْضٍ - يُذَعْذِعُهُمُ اللَّه فِي بُطُونِ أَوْدِيَتِه -

(۱۶۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

دعوت اتحاد و اتفاق

تمہارے چھوٹوں کوچاہیےکہ اپنے بڑوں کی پیروی کریں اوربڑوں کافرض ہےکہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں اورخبردار تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہو جانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اللہ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھےان کی مثال ان انڈوں کے چھلوں جیسی ہے جو شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہوںکہ ان کاتوڑنا تو جرم ہے لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا ہے۔

(ایک اور حصہ) یہ لوگ باہمی محبت کے بعد الگ الگ ہوگئے اور اپنی اصل سے جدا ہوگئے بعض لوگوں نے ایک شاخکو پکڑ لیا ہے اور اب اسی کے ساتھ جھکتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ انہیں بنی امیہ کے بد ترین دن کیلئے جمع کردے گا جس طرح کہ خریف میں بادل کے ٹکڑے جمع ہو جاتے ہیں ۔پھر ان کے درمیان محبت پیدا کرے گا پھر انہیں تہ بہ تہ ابرکے ٹکڑوں کی طرح ایک مضبوط گروہ بنادے گا۔پھر ان کے لئے ایسے دروازوں کو کھول دے گا کہ یہ اپنے ابھرنے کی جگہ سے شہر صبا کے دو باغوں کے اس سیلاب کی طرح بہ نکلیں گے جن سے نہ کوئی چٹان محفوظ رہی تھی اورنہ کوئی ٹیلہ ٹھہر سکا تھا۔ نہ پہاڑ کی چوٹی اس کے دھارے کو موڑ سکی تھی اورنہ زمین کی اونچائی۔اللہ انہیں گھاٹیوں کے نشیبوں میں متفرق

۳۰۴

ثُمَّ يَسْلُكُهُمْ يَنَابِيعَ فِي الأَرْضِ - يَأْخُذُ بِهِمْ مِنْ قَوْمٍ حُقُوقَ قَوْمٍ - ويُمَكِّنُ لِقَوْمٍ فِي دِيَارِ قَوْمٍ - وايْمُ اللَّه لَيَذُوبَنَّ مَا فِي أَيْدِيهِمْ بَعْدَ الْعُلُوِّ والتَّمْكِينِ - كَمَا تَذُوبُ الأَلْيَةُ عَلَى النَّارِ.

الناس آخر الزمان

أَيُّهَا النَّاسُ لَوْ لَمْ تَتَخَاذَلُوا عَنْ نَصْرِ الْحَقِّ - ولَمْ تَهِنُوا عَنْ تَوْهِينِ الْبَاطِلِ - لَمْ يَطْمَعْ فِيكُمْ مَنْ لَيْسَ مِثْلَكُمْ - ولَمْ يَقْوَ مَنْ قَوِيَ عَلَيْكُمْ - لَكِنَّكُمْ تِهْتُمْ مَتَاه بَنِي إِسْرَائِيلَ - ولَعَمْرِي لَيُضَعَّفَنَّ لَكُمُ التِّيه مِنْ بَعْدِي أَضْعَافاً - بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ - وقَطَعْتُمُ الأَدْنَى ووَصَلْتُمُ الأَبْعَدَ - واعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِنِ اتَّبَعْتُمُ الدَّاعِيَ لَكُمْ - سَلَكَ بِكُمْ مِنْهَاجَ الرَّسُولِ وكُفِيتُمْ مَئُونَةَ الِاعْتِسَافِ - ونَبَذْتُمُ الثِّقْلَ الْفَادِحَ عَنِ الأَعْنَاقِ.

(۱۶۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في أوائل خلافته

إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَنْزَلَ كِتَاباً هَادِياً

کردے گا اور پھر انہیں چشموں کے بہائو کی طرح زمین میں پھیلا دے گا۔ان کے ذریعہ ایک قوم کے حقوق دوسری قوم سےحاصل کرےگا اورایک جماعت کودوسری جماعت کے دیر میں اقتدار عطا کرےگا۔خدا کی قسم ان کے اتدار و اختیار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہوگا وہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح کہ آگ پر چربی پگھل جاتی ہے۔

(آخر زمانہ کے لوگ)

ایہا الناس! اگر تم حق کی مدد کرنے میں کوت ا ہی نہ کرتے اورباطل کو کمزور بنانے میں سستی کا مظاہرہ نہ کرتے تو تمہارے بارے میں وہ قوم طمع نہ کرتی جو تم جیسی نہیں ہے اور تم پر یہ لوگ قوی نہ ہو جاتے۔ لیکن افسوس کہ تم بنی اسرائیل کی طرح گمراہ ہوگئے اور میری جان کی قسم میرے بعد تمہاری یہ حیرانی اور سر گردانی دوچند ہو جائے گی کہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے۔قریب ترین سے قطع تعلق کرلیاہے اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔یادرکھو کہ اگر تم داعی حق کا اتباع کر لیتے تو وہ تمہیں رسول اکرم (ص) کے راستہ پر چلاتا اور تمہیں کجروی کی زحمتوں سے بچالیتا اور تم اس سنگین بوجھ کو اپنی گردنوں سے اتار پھینک دیتے۔

(۱۶۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(ابتدائے خلافت کے دورمیں)

پروردگار نے اس کتاب ہدایت کو نازل کیا

۳۰۵

بَيَّنَ فِيه الْخَيْرَ والشَّرَّ - فَخُذُوا نَهْجَ الْخَيْرِ تَهْتَدُوا - واصْدِفُوا عَنْ سَمْتِ الشَّرِّ تَقْصِدُوا.

الْفَرَائِضَ الْفَرَائِضَ أَدُّوهَا إِلَى اللَّه تُؤَدِّكُمْ إِلَى الْجَنَّةِ - إِنَّ اللَّه حَرَّمَ حَرَاماً غَيْرَ مَجْهُولٍ - وأَحَلَّ حَلَالًا غَيْرَ مَدْخُولٍ - وفَضَّلَ حُرْمَةَ الْمُسْلِمِ عَلَى الْحُرَمِ كُلِّهَا - وشَدَّ بِالإِخْلَاصِ والتَّوْحِيدِ حُقُوقَ الْمُسْلِمِينَ فِي مَعَاقِدِهَا - فَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِه ويَدِه إِلَّا بِالْحَقِّ - ولَا يَحِلُّ أَذَى الْمُسْلِمِ إِلَّا بِمَا يَجِبُ.

بَادِرُوا أَمْرَ الْعَامَّةِ وخَاصَّةَ أَحَدِكُمْ وهُوَ الْمَوْتُ - فَإِنَّ النَّاسَ أَمَامَكُمْ وإِنَّ السَّاعَةَ تَحْدُوكُمْ مِنْ خَلْفِكُمْ - تَخَفَّفُوا تَلْحَقُوا فَإِنَّمَا يُنْتَظَرُ بِأَوَّلِكُمْ آخِرُكُمْ.

اتَّقُوا اللَّه فِي عِبَادِه وبِلَادِه - فَإِنَّكُمْ

ہے جس میں خیرو شر کی وضاحت کردی ہے لہٰذا تم خیر کے راستہ کو اختیارکرو تاکہ ہدایت پاجائو اور شرکے رخ سے منہ موڑ لو تاکہ سیدھے راستہ پرآجائو۔

فرائض کا خیال رکھو اور انہیں ادا کرو تاکہ وہ تمہیں جنت تک پہنچا دیں۔اللہ نے جس حرام کوحرام قرار دیا ہے وہ مجہول نہیں ہے اور جس حلال کو حلال بنایا ہے وہ مشتبہ نہیں ہے۔اس نے مسلمانوں کی حرمت کو تمام محترم چیزوں سے افضل قرار دیا ہے اور مسلمانوں کے حقوق کو ان کی منزلوں میں اخلاص اور ریگانگت سے باندھ دیا ہے۔اب مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام مسلمان(۱) محفوظرہیں مگر یہ کہ کسی حق کی بنا پر ان پر ہاتھ ڈالا جائے اور کسی مسلمان کے لئے مسلمان کو تکلیف دینا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا واقعی سبب پیدا ہو جائے۔

اس امرکی طرف سبقت کرو جو ہر ایک کے لئے ہے اور تمہارے لئے بھی ہے اور وہ ہے موت۔لوگ تمہارے آگے جا چکے ہیں اور تمہارا وقت تمہیں ہنکا کرلے جا رہا ہے۔سامان ہلکا رکھو تاکہ اگلے لوگوں سے ملحق ہو جائو اس لئے کہ ان پہلے والوں کے ذریعہ تمہارا انتظار کیا جا رہا ہے۔

اللہ سے ڈرو اس کے بندوں کے بارے میں بھی اور شہروں کے بارے میں بھی ۔اس لئے کہ تم سے زمینوں

(۱) اس قانون میں مسلمانوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔مسلمان وہی ہوتا ہے جس کے ہاتھ یا اس کی زبان سے کسی فروبشر کو اذیت نہ ہو اور سب اس کے شر سے محفوظ رہیں۔لیکن یہ اسی وقت تک ہے جب کسی کے بارے میں زبان کھولنا یا ہاتھ اٹھانا شر شمار ہو ورنہ اگر انسان اس امر کا مستحق ہوگیا ہے کہ اس کے کردار پر تنقید نہ کرنا اسے قرار واقعی سزا نہ دینا دین خدا کی توہین ہے تو کوئی شخص بھی دین خدا سے زیادہمحترم نہیں ہے۔انسان کا احترام دین خداکے طفیل میں ہے اگر دین خدا ہی کا احترام نہ رہ گیا تو کسی شخص کے احترام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

۳۰۶

مَسْئُولُونَ حَتَّى عَنِ الْبِقَاعِ والْبَهَائِمِ - أَطِيعُوا اللَّه ولَا تَعْصُوه - وإِذَا رَأَيْتُمُ الْخَيْرَ فَخُذُوا بِه - وإِذَا رَأَيْتُمُ الشَّرَّ فَأَعْرِضُوا عَنْه.

(۱۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

بعد ما بويع له بالخلافة، وقد قال له قوم من الصحابة: لو عاقبتقوما ممن أجلب على عثمان فقالعليه‌السلام :

يَا إِخْوَتَاه إِنِّي لَسْتُ أَجْهَلُ مَا تَعْلَمُونَ - ولَكِنْ كَيْفَ لِي بِقُوَّةٍ والْقَوْمُ الْمُجْلِبُونَ - عَلَى حَدِّ شَوْكَتِهِمْ يَمْلِكُونَنَا ولَا نَمْلِكُهُمْ - وهَا هُمْ هَؤُلَاءِ قَدْ ثَارَتْ مَعَهُمْ عِبْدَانُكُمْ - والْتَفَّتْ إِلَيْهِمْ أَعْرَابُكُمْ - وهُمْ خِلَالَكُمْ يَسُومُونَكُمْ مَا شَاءُوا - وهَلْ تَرَوْنَ مَوْضِعاً لِقُدْرَةٍ عَلَى شَيْءٍ تُرِيدُونَه - إِنَّ هَذَا الأَمْرَ أَمْرُ جَاهِلِيَّةٍ - وإِنَّ لِهَؤُلَاءِ الْقَوْمِ مَادَّةً - إِنَّ النَّاسَ مِنْ هَذَا الأَمْرِ إِذَا حُرِّكَ عَلَى أُمُورٍ - فِرْقَةٌ تَرَى مَا تَرَوْنَ وفِرْقَةٌ تَرَى مَا لَا تَرَوْنَ - وفِرْقَةٌ لَا تَرَى هَذَا ولَا ذَاكَ - فَاصْبِرُوا حَتَّى يَهْدَأَ النَّاسُ

اور جانوروں کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔اللہ کی اطاعت کرو اورناف رمانی نہ کرو۔خیر کو دیکھو تو فوراً لے لو اور شریرنظر پڑ جائے تو کنارہ کش ہو جائو۔

(۱۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب بیعت خلافت کے بعد بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ کاش آپ عثمان پر زیادتی کرنے والوں کو سبزا دیتے )

بھائیو! جو تم جانتے ہو میں اس سے نا واقف نہیں ہوں لیکن میرے پاس اس کی طاقت کہاں ہے ؟ ابھی وہ قوم اپنی طاقت و قوت(۱) پر قائم ہے۔وہ ہمارا اختیار رکھتی ہے اور ہمارے پاس اس کا اختیارنہیں ہے اور پھر تمہارے غلام بھی ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور تمہارے دیہاتی بھی ان کے گرد جمع ہوگئے ہیں اور وہ تمہارے درمیان اس حالت میں ہیں کہ تمہیں جس طرح چاہیں اذیت پہنچا سکتے ہیں کیا تمہاری نظر میں جو کچھ تم چاہتے ہو اس کی کوئی گنجائش ہے۔بیشک یہ صرف جہالت اور نادانی کا مطالبہ ہے اور اس قوم کے پاس طاقت کا سرچشمہ موجود ہے۔اس معاملہ میں اگر لوگوں کو حرکت بھی دی جائے تو وہ چند فرقوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ایک فرقہ وہی سوچے گا جو تم سوچ رہے ہو اور دوسرا گروہ اس کے خلاف رائے کاحامل ہوگا۔تیسرا گروہ دونوں سے غیر جانبدار بن جائے گا لہٰذا مناسب یہی ہے کہ صبر کرو یہاں تک کہ لوگ ذرا

۳۰۷

وتَقَعَ الْقُلُوبُ مَوَاقِعَهَا - وتُؤْخَذَ الْحُقُوقُ مُسْمَحَةً - فَاهْدَءُوا عَنِّي وانْظُرُوا مَا ذَا يَأْتِيكُمْ بِه أَمْرِي - ولَا تَفْعَلُوا فَعْلَةً تُضَعْضِعُ قُوَّةً وتُسْقِطُ مُنَّةً - وتُورِثُ وَهْناً وذِلَّةً وسَأُمْسِكُ الأَمْرَ مَا اسْتَمْسَكَ - وإِذَا لَمْ أَجِدْ بُدّاً فَآخِرُ الدَّوَاءِ الْكَيُّ

(۱۶۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند مسير أصحاب الجمل إلى البصرة

الأمور الجامعة للمسلمين

إِنَّ اللَّه بَعَثَ رَسُولًا هَادِياً بِكِتَابٍ نَاطِقٍ وأَمْرٍ قَائِمٍ - لَا يَهْلِكُ عَنْه إِلَّا هَالِكٌ - وإِنَّ الْمُبْتَدَعَاتِ الْمُشَبَّهَاتِ هُنَّ الْمُهْلِكَاتُ - إِلَّا مَا حَفِظَ اللَّه مِنْهَا - وإِنَّ فِي سُلْطَانِ اللَّه عِصْمَةً لأَمْرِكُمْ - فَأَعْطُوه طَاعَتَكُمْ غَيْرَ مُلَوَّمَةٍ ولَا مُسْتَكْرَه بِهَا - واللَّه لَتَفْعَلُنَّ أَوْ

مطمئن ہو جائیں اور دل ٹھہر جائیں اور اس کے بعد دیکھو کہ میں کیاکرتا ہوں ۔خبر دار کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جو طاقت کو کمزور بنادے اور قوت کو پامال کردے اور کمزوری و ذلت کاب اعث ہو جائے۔میں جہاں تک ممکن ہو گا اس جنگ کو روکے رہوں گا۔اس کے بعد جب کوئی چارہ کارنہ رہ جائے گا توآخری علاج داغنا ہی ہوتا ہے۔

(۱۶۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب اصحاب جمل بصرہ کی طرف جا رہے تھے)

اللہ نے اپنے رسول ہادی کو بولتی کتاب اور مستحکم امر کے ساتھ بھیجا ہے اس کے ہوتے ہوئے وہی ہلاک ہو سکتا ہے جس کا مقدر ہی ہلاکت ہو اور نئی نئی بدعتیں اورنئے نئے شبہات ہی ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں مگر یہ کہ اللہ ہی کسی کو بچالے اور پروردگار کی طرف سے معین ہونے والا حاکم ہی تمہارے امور کی حفاظت کرسکتا ہے لہٰذا اسے ایسی مکمل اطاعت دے دو جونہ قابل ملامت ہو اورنہ بددلی کا نتیجہ ہو۔خدا کی قسم یا تو

(۱)عثمان کے خلاف قیام کرنے والے صرف مدینہ کے افراد ہوتے جب بھی مقابلہ آسان نہیں تھا۔چہ جائیکہ بقول طبری اس جماعت میں چھ سو مصری بھی شامل تھے اورایک ہزار کوفہ کے سپاہی بھی آگئے تھے اوردیگر علاقے کے مظلومین نے بھی مہم میں شرکت کرلی تھی۔ایسے حالات میں ایک شخص جمل و صفین کے معرکے بھی برداشت کرے اور ان تمام انقلابیوں کامحاسبہ بھی شروع کردے یہ ایک نا ممکن امر ہے اور پھرمحاسبہ کے عمل میں ام المومنین اور معاویہ کو بھی شامل کرنا پڑے گا کہ قتل عثمان کی مہم میں یہ افراد بھی برابر کے شریک تھے بلکہ ام المومنین نے توباقاعدہ لوگوں کو قتل پر آمادہ کیاتھا۔

ایسے حالات میں مسئلہ اس قدرآسان نہیں تھا جس قدر بعض سادہ لوح افراد تصور کر رہے تھے یا بعض فتنہ پرداز اسے ہوا دے رہے تھے۔

۳۰۸

لَيَنْقُلَنَّ اللَّه عَنْكُمْ سُلْطَانَ الإِسْلَامِ - ثُمَّ لَا يَنْقُلُه إِلَيْكُمْ أَبَداً - حَتَّى يَأْرِزَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِكُمْ.

التنفير من خصومه

إِنَّ هَؤُلَاءِ قَدْ تَمَالَئُوا عَلَى سَخْطَةِ إِمَارَتِي - وسَأَصْبِرُ مَا لَمْ أَخَفْ عَلَى جَمَاعَتِكُمْ - فَإِنَّهُمْ إِنْ تَمَّمُوا عَلَى فَيَالَةِ هَذَا الرَّأْيِ - انْقَطَعَ نِظَامُ الْمُسْلِمِينَ - وإِنَّمَا طَلَبُوا هَذِه الدُّنْيَا حَسَداً لِمَنْ أَفَاءَهَا اللَّه عَلَيْه - فَأَرَادُوا رَدَّ الأُمُورِ عَلَى أَدْبَارِهَا - ولَكُمْ عَلَيْنَا الْعَمَلُ بِكِتَابِ اللَّه تَعَالَى - وسِيرَةِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - والْقِيَامُ بِحَقِّه والنَّعْشُ لِسُنَّتِه.

(۱۷۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في وجوب اتباع الحق عند قيام الحجة كلَّم به بعض العرب

وقَدْ أَرْسَلَه قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ لَمَّا قَرُبَعليه‌السلام مِنْهَا - لِيَعْلَمَ لَهُمْ مِنْه حَقِيقَةَ حَالِه مَعَ أَصْحَابِ الْجَمَلِ - لِتَزُولَ الشُّبْهَةُ مِنْ نُفُوسِهِمْ - فَبَيَّنَ لَهعليه‌السلام مِنْ أَمْرِه مَعَهُمْ - مَا عَلِمَ بِه أَنَّه عَلَى الْحَقِّ - ثُمَّ قَالَ لَه بَايِعْ - فَقَالَ

تم ایسی اطاعت کروگے یا پھر تم سے اسلامی اقتدار چھن جائے گا اور پھر کبھی تمہاری طرف پلٹ کرنہ آئے گا یہاں تک کہ کسی غیرکے سایہ میں پناہ لے لے۔

دیکھو یہ لوگ میری حکومت سے ناراضگی پر متحد ہو چکے ہیں اوراب میں اس وقت تک صبر کروں گا جب تک تمہاری جماعت کے بارے میں کوئی اندیشہ نہ پیدا ہو جائے ۔اس لئے کہاگر وہ اپنی رائے کی کموری کے باوجود اس امر میں کامیاب ہوگئے تو مسلمانوں کا رشتہ نظم و نسق بالکل ٹوٹ کر رہ جائے گا۔ان لوگوں نے اس دنیا کو صرف ان لوگوں سے حسد کی بنا پر طلب کیا ہے جنہیں اللہ نے خلیفہ و حاکم بنایا ہے۔اب یہ چاہتے ہیں کہ معاملات کو الٹے پائوں جاہلیت کی طرف پلٹا دیں ۔تمہارے لئے میرے ذمہ یہی کام ہے کہ کتاب خدا اور سنت رسول (ص) پر عمل کروں ۔ان کے حق کو قائم کروں اور ان کی سنت کو بلند و بالا قرار دوں ۔

(۱۷۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(دلیل قائم ہو جانے کےبعدحق کے اتباع کےسلسلہ میں )

جب اہل بصرہ نے بعض افراد کواس غرض سے بھیجا کہ اہل جمل کے بارے میں حضرت کے موقف کو دریافت کریں تاکہ کسی طرح کا شبہ باقی نہ رہ جائے توآپ نے جملہ امور کی مکمل وضاحت فرمائی تاکہ واضح ہو جائے کہ آپ حق پر ہیں ۔اس کے بعد فرمایا کہ جب حق واضح ہوگیا تو میرے ہاتھ پر بیعت کرلو۔اس نے کہا کہ

۳۰۹

إِنِّي رَسُولُ قَوْمٍ - ولَا أُحْدِثُ حَدَثاً حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْهِمْ فَقَالَعليه‌السلام

أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ الَّذِينَ وَرَاءَكَ بَعَثُوكَ رَائِداً - تَبْتَغِي لَهُمْ مَسَاقِطَ الْغَيْثِ،فَرَجَعْتَ إِلَيْهِمْ وأَخْبَرْتَهُمْ عَنِ الْكَلإِ والْمَاءِ - فَخَالَفُوا إِلَى الْمَعَاطِشِ والْمَجَادِبِ مَا كُنْتَ صَانِعاً - قَالَ كُنْتُ تَارِكَهُمْ ومُخَالِفَهُمْ إِلَى الْكَلإِ والْمَاءِ - فَقَالَعليه‌السلام فَامْدُدْ إِذاً يَدَكَ - فَقَالَ الرَّجُلُ - فَوَاللَّه مَا اسْتَطَعْتُ أَنْ أَمْتَنِعَ عِنْدَ قِيَامِ الْحُجَّةِ عَلَيَّ - فَبَايَعْتُهعليه‌السلام

والرَّجُلُ يُعْرَفُ بِكُلَيْبٍ الْجَرْمِيِّ.

(۱۷۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما عزم على لقاء القوم بصفين

الدعاء

اللَّهُمَّ رَبَّ السَّقْفِ الْمَرْفُوعِ والْجَوِّ الْمَكْفُوفِ - الَّذِي جَعَلْتَه مَغِيضاً لِلَّيْلِ والنَّهَارِ

میں ایک قوم کا نمائندہ ہوں اور ان کی طرف رجوع کئے بغیر کوئی اقدام نہیں کر سکتا ہوں۔فرمایا کہ

تمہارا کیاخیال(۱) ہے اگر اس قوم نے تمہیں نمائندہ بنا کر بھیجا ہوتا کہ جائو تلاش کرو جہاں بارش ہوئی ہو اور پانی کی کوئی سبیل ہو اورتم واپس جا کر پانی اور سبزہ کی خبردیتے اوروہ لوگ تمہاری مخالفت کرکے ایسی جگہ کا انتخاب کرتے جہاں پانی کا قحط اورخشک سالی کا دوردورہ ہو تو اس وقت تمہارا اقدام کیا ہوتا ؟ اس نے کہاکہ میں انہیں چھوڑ کر آب و دانہ کی طرف چلا جاتا ۔فرمایا پھراب ہاتھ بڑھائو اور بیعت کر لو کہ چشمہ ہدایت تو مل گیا ہے۔اس نے کہاکہ اب حجت تمام ہوچکی ہے اورمیرے پاس انکار کا کوئی جواز نہیں رہ گیا ہے اور یہ کہہ کر حضرت کے دست حق پرست پر بیعت کرلی۔

(تاریخ میں اس شخص کو کلیب جرمی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے )

(۱۷۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب اصحاب معاویہ سےصفین میں مقابلہ کےلئے ارادہ فرمالیا)

اے پروردگار جو بلند ترین چھت اور ٹھہری ہوئی فضا کا مالک ہے۔جسنےاس فضاکوشب وروز کےسر چھپانے کی منزل

(۱) یہ استدلال اپنے حسن و جمال کے علاوہ اس معنویت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اسلام میں میری حیثیت ایک سر سبز و شاداب گلستان کی ہے جہاں اسلامی احکام و تعلیمات کی بہاریں خیمہ زن رہتی ہیں اور میرے علاوہ تمام افراد ایک ریگستان سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔کس قدر حیرت کی بات ہے کہ انسان سبزہ زار اور چشمہ آب حیات کو چھوڑ کر پھر ریگستانوں کی طرف پلٹ جائے اور تشنہ کامی کی زندگی گزارتا رہے۔جو تمام اہل شام کا مقدر بن چکا ہے۔

۳۱۰

ومَجْرًى لِلشَّمْسِ والْقَمَرِ ومُخْتَلَفاً لِلنُّجُومِ السَّيَّارَةِ - وجَعَلْتَ سُكَّانَه سِبْطاً مِنْ مَلَائِكَتِكَ - لَا يَسْأَمُونَ مِنْ عِبَادَتِكَ - ورَبَّ هَذِه الأَرْضِ الَّتِي جَعَلْتَهَا قَرَاراً لِلأَنَامِ - ومَدْرَجاً لِلْهَوَامِّ والأَنْعَامِ - ومَا لَا يُحْصَى مِمَّا يُرَى ومَا لَا يُرَى - ورَبَّ الْجِبَالِ الرَّوَاسِي الَّتِي جَعَلْتَهَا لِلأَرْضِ أَوْتَاداً - ولِلْخَلْقِ اعْتِمَاداً إِنْ أَظْهَرْتَنَا عَلَى عَدُوِّنَا - فَجَنِّبْنَا الْبَغْيَ وسَدِّدْنَا لِلْحَقِّ - وإِنْ أَظْهَرْتَهُمْ عَلَيْنَا فَارْزُقْنَا الشَّهَادَةَ - واعْصِمْنَا مِنَ الْفِتْنَةِ.

الدعوة للقتال

أَيْنَ الْمَانِعُ لِلذِّمَارِ - والْغَائِرُ عِنْدَ نُزُولِ الْحَقَائِقِ مِنْ أَهْلِ الْحِفَاظِ - الْعَارُ وَرَاءَكُمْ والْجَنَّةُ أَمَامَكُمْ!

(۱۷۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

حمد الله

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَا تُوَارِي عَنْه سَمَاءٌ سَمَاءً - ولَا أَرْضٌ أَرْضاً.

اورشمس و قمرکے سیر کا میدان اور ستاروں کی آمدورفت کی جولاں گاہ قرار دیا ہے۔اس کا ساکن ملائکہ کے اس گروہ کو قراردیا ہے جو تیری عبادت سے خستہ حال نہیں ہوتے ہیں۔توہی اس زمین کا بھی مالک ہے جسے لوگوں کا مستقر بنایا ہے اور جانوروں ' کپڑوں مکوڑوں اوربے شمار مرئی اور غیرمرئی مخلوقات کے چلنے پھرنے کی جگہ قرار دیا ہے۔تو ہی ان سربفلک پہاڑوں کامالک ہے جنہیں زمین کے ٹھہرائو کے لئے میخ کا درجہ دیا گیا ہے اورمخلوقات کاسہارا قرار دیا گیا ہے۔اگر تونے دشمن کے مقابلہ میں غلبہ عنایت فرمایا تو' ہمیں ظلم سے محفوظ رکھنا اورحق کے سیدھے راستہ پر قائم رکھنا اور اگر دشمن کو ہم پر غلبہ حاصل ہو جائے تو ہمیں شہادت کا شرف عطا فرمانا اور فتنہ سے محفوظ رکھنا۔

دعوت جہاد

کہاں ہیں وہ عزت وآبروکے پاسبان اورمصیبتوں کے نزول کے بعد ننگ ونام کی حفاظت کرنے والے صاحبان عزت و غیرت۔یاد رکھو ذلت و عار تمہارے پیچھے ہے اور جنت تمہارےآگے ۔

(۱۷۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(حمد خدا)

ساری تعریف اس اللہ کےلئے ہےجس کے سامنے ایک آسمان دوسرےآسمان کو اور ایک زمین دوسری زمین کوچھپا نہیں سکتی ہے۔

۳۱۱

يوم الشورى

منها - وقَدْ قَالَ قَائِلٌ إِنَّكَ عَلَى هَذَا الأَمْرِ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ لَحَرِيصٌ - فَقُلْتُ بَلْ أَنْتُمْ واللَّه لأَحْرَصُ وأَبْعَدُ وأَنَا أَخَصُّ وأَقْرَبُ - وإِنَّمَا طَلَبْتُ حَقّاً لِي وأَنْتُمْ تَحُولُونَ بَيْنِي وبَيْنَه - وتَضْرِبُونَ وَجْهِي دُونَه - فَلَمَّا قَرَّعْتُه بِالْحُجَّةِ فِي الْمَلإِ الْحَاضِرِينَ - هَبَّ كَأَنَّه بُهِتَ لَا يَدْرِي مَا يُجِيبُنِي بِه!

الاستنصار على قريش

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَعْدِيكَ عَلَى قُرَيْشٍ ومَنْ أَعَانَهُمْ - فَإِنَّهُمْ قَطَعُوا رَحِمِي وصَغَّرُوا عَظِيمَ مَنْزِلَتِيَ - وأَجْمَعُوا عَلَى مُنَازَعَتِي أَمْراً هُوَ لِي - ثُمَّ قَالُوا أَلَا إِنَّ فِي الْحَقِّ أَنْ تَأْخُذَه وفِي الْحَقِّ أَنْ تَتْرُكَه.

منها في ذكر أصحاب الجمل

فَخَرَجُوا يَجُرُّونَ حُرْمَةَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - كَمَا تُجَرُّ الأَمَةُ عِنْدَ شِرَائِهَا

(روز شوریٰ)

ایک شخص(۱) نے مجھ سے یہاں تک کہہ دیا کہ فرزند ابو طالب! آپ میں اس خلافت کی طمع پائی جاتی ہے؟ تو میں نے کہا کہ خدا کی قسم تم لوگ زیادہ حریص ہو حالانکہ تم دور والے ہو۔میں تو اس ا اہل بھی ہوں اور پیغمبر (ص) سے قریب تر بھی ہوں۔میں نے اس حق کا مطالبہ کیا ہے جس کا میں حقدار ہوں لیکن تم لوگ میرے اور اس کے درمیان حائل ہوگئے ہو اور میرے ہی رخ کو اس کی طرف سے موڑنا چاہتے ہو پھر جب میں نے بھری محفل میں دلائل کے ذریعہ سے کانوں کے پردوں کو کھٹکھٹایا تو ہوشیار ہوگیا اور ایسا مبہوت ہوگیا کہ کوئی جواب سمجھ نہیں آرہا تھا۔

(قریش کے خلاف فریاد)

خدایا! میں قریش اور ان کے انصار کے مقابلہ میں تجھ سے مدد چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے میری قرابت کا رشتہ توڑ دیا اورمیری عظیم منزلت کو حقیر بنادیا۔مجھ سے اس امرکے لئے جھگڑا کرنے پر تیار ہوگئے جس کامیں واقعاً حقدار تھا اور پھر یہ کہنے لگے کہ آپ اسے لے لیں توبھی صحیح ہے اور اس سے دستبردار ہو جائیں توبھی برحق ہے۔

(اصحاب جمل کے باے میں)

یہ ظالم اس شان سے برآمد ہوئے کہ حرم رسول (ص) کویوں کھینچ کر میدان میں لا رہے تھے جیسے کنیزیں خرید و

(۱)بعض حضرات کاخیال ہے کہ یہ بات شوریٰ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہی تھی اور بعض کاخیال ہے کہ سقیفہ کے موقع پر ابو عبیدہ بن الجراح نے کہی تھی اوردونوں ہی امکانات پائے جاتے ہیں کہ دونوں کی فطرت ایک جیسی تھی اوردونوں امیر المومنین کی مخالفت پر متحد تھے۔

۳۱۲

مُتَوَجِّهِينَ بِهَا إِلَى الْبَصْرَةِ - فَحَبَسَا نِسَاءَهُمَا فِي بُيُوتِهِمَا - وأَبْرَزَا حَبِيسَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لَهُمَا ولِغَيْرِهِمَا - فِي جَيْشٍ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وقَدْ أَعْطَانِي الطَّاعَةَ - وسَمَحَ لِي بِالْبَيْعَةِ طَائِعاً غَيْرَ مُكْرَه - فَقَدِمُوا عَلَى عَامِلِي بِهَا - وخُزَّانِ بَيْتِ مَالِ الْمُسْلِمِينَ وغَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِهَا - فَقَتَلُوا طَائِفَةً صَبْراً وطَائِفَةً غَدْراً - فَوَاللَّه لَوْ لَمْ يُصِيبُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - إِلَّا رَجُلًا وَاحِداً مُعْتَمِدِينَ لِقَتْلِه - بِلَا جُرْمٍ جَرَّه لَحَلَّ لِي قَتْلُ ذَلِكَ الْجَيْشِ كُلِّه - إِذْ حَضَرُوه فَلَمْ يُنْكِرُوا - ولَمْ يَدْفَعُوا عَنْه بِلِسَانٍ ولَا بِيَدٍ - دَعْ مَا أَنَّهُمْ قَدْ قَتَلُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - مِثْلَ الْعِدَّةِ الَّتِي دَخَلُوا بِهَا عَلَيْهِمْ!

(۱۷۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في رسول اللَّه،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ومن هو جدير بأن يكون للخلافة وفي هوان الدنيا

فروخت کے وقت لے جائی جاتی ہے۔ان کا رخ بصرہ کی طرف تھا۔ان دونوں(۱) نے اپنی عورتوں کو گھر میں بند کر رکھا تھا اور زوجہ رسول (ص) کو میدان میں لا رہے تھے۔جب کہ ان کے لشکر میں کوئی ایسا نہ تھا جو پہلے میری بیعت نہ کر چکا ہو اوربغیرکسی جبر و اکراہ کے میری اطاعت میں نہ رہ چکا ہو۔یہ لوگ پہلے میرے عامل(۲) بصرہ اورخازن بیت المال جیسے افراد پرحملہ آور ہوئے توایک جماعت کو گرفتار کرکے قتل کردیا اورایک کودھوکہ میں تلوار کے گھاٹ اتاردیا۔خدا کی قسم اگر یہ تمام مسلمانوں میں صرف ایک شخص کوبھی قصداً قتل کردیتے تو بھی میرے واسطے پورے لشکرسے جنگ کرنے جواز موجود تھا کہ دیگرافراد حاضر رہے اور انہوں نے نا پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا اور اپنی زبان(۳) یااپنے ہاتھ سے دفاع نہیں کیا اور پھرجب کہ مسلمانوں میں سے اتنے افراد کو قتل کردیا ہے جتنی ان کے پورے لشکر کی تعداد تھی۔

(۱۷۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(رسول اکرم (ص) کے بارے میں اوراس امر کی وضاحت کے سلسلہ میں کہ خلافت کاواقعی حقدار کون ہے ؟)

(۱)اس سے مراد طلحہ و زبری ہیں جنہوں نے زوجہ رسول (ص) کا اتنا بھی احترام نہیں کیا جتنا اپنے گھرکی عورتوں کا کیاکرتے تھے۔

(۲)جناب عثمان بن حنیف کا مثلہ کردیا اوران کے ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت کو تہ تیغ کردیا۔

(۳)فقہی اعتبارسے دفاع نہ کرنے والوں کا قتل جائز نہیں ہوتا ہے لیکن یہاں وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے امام برحق کے خلاف خروج کرکے فساد فی الارض کا ارتکاب کیاتھا اور یہجرم جواز قتل کے لئے کافی ہوتا ہے۔

۳۱۳

رسول الله أَمِينُ وَحْيِه وخَاتَمُ رُسُلِه - وبَشِيرُ رَحْمَتِه ونَذِيرُ نِقْمَتِه.

الجدير بالخلافة

أَيُّهَا النَّاسُ - إِنَّ أَحَقَّ النَّاسِ بِهَذَا الأَمْرِ أَقْوَاهُمْ عَلَيْه – وأَعْلَمُهُمْ بِأَمْرِ اللَّه فِيه - فَإِنْ شَغَبَ شَاغِبٌ اسْتُعْتِبَ فَإِنْ أَبَى قُوتِلَ - ولَعَمْرِي لَئِنْ كَانَتِ الإِمَامَةُ لَا تَنْعَقِدُ - حَتَّى يَحْضُرَهَا عَامَّةُ النَّاسِ فَمَا إِلَى ذَلِكَ سَبِيلٌ - ولَكِنْ أَهْلُهَا يَحْكُمُونَ عَلَى مَنْ غَابَ عَنْهَا - ثُمَّ لَيْسَ لِلشَّاهِدِ أَنْ يَرْجِعَ ولَا لِلْغَائِبِ أَنْ يَخْتَارَ - أَلَا وإِنِّي أُقَاتِلُ رَجُلَيْنِ - رَجُلًا ادَّعَى مَا لَيْسَ لَه وآخَرَ مَنَعَ الَّذِي عَلَيْه.

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - فَإِنَّهَا خَيْرُ مَا تَوَاصَى الْعِبَادُ بِه - وخَيْرُ عَوَاقِبِ الأُمُورِ عِنْدَ اللَّه - وقَدْ فُتِحَ بَابُ الْحَرْبِ بَيْنَكُمْ وبَيْنَ أَهْلِ الْقِبْلَةِ - ولَا يَحْمِلُ هَذَا الْعَلَمَ إِلَّا أَهْلُ الْبَصَرِ والصَّبْرِ - والْعِلْمِ بِمَوَاضِعِ الْحَقِّ - فَامْضُوا

پیغمبراسلام (ص) وحی الٰہی کے امانتدار اور خاتم المرسلین تھے۔رحمت الٰہی کی بشارت دینے والے اور عذاب الٰہی سے ڈرانے والے تھے ۔لوگو!یاد رکھو اس امرکا سب سے زیادہ حقدار وہی ہےجو سب سے زیادہ طاقتور اوردین الٰہی کاواقف کارہو اس کےبعداگر کوئی فتنہ پرداز فتنہ کھڑا کرے گاتو پہلے اسے توبہ کی دعوت دی جائے گی۔اس کے بعد اگرانکارکرے گا تو قتل کردیا جائے گا۔میری جان کی قسم اگر امامت کامسئلہ تمام افرادبشر کےاجتماع کے بغیر طے نہیں ہو سکتا ہے تواس اجتماع کاتو کوئی راستہ ہی نہیں ہے ہوتایہی ہے کہ حاضرین کا فیصلہ غائب افراد پرنافذ ہو جاتا ہے اور نہ حاضر کواپنی بیعت سے رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے اورنہ غائب کو دوسرا راستہ اختیار کرنے کا جواز ہوتا ہے۔ یاد رکھو میں دونوں طرح کے افراد سے جہاد کروں گا۔ان سے بھی جو غیر حق کے دعویدار ہوں گے اور ان سے بھی جوحقدار کو اس کا حق نہ دیں گے بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتاہوں کہ یہ بندوں کے درمیان بہترین وصیت ہے اور پیش پروردگار انجام کے اعتبارسے بہترین عمل ہے۔دیکھو !تمہارے اوراہل قبلہ مسلمانوں کے درمیان جنگ کا دروازہ کھولا جا چکا ہے۔اب اس علم(۱) کووہی اٹھائے گا جو صاحب بصیرت و صبرہوگا اورحق کےمراکزکا پہچاننے والا ہوگا۔تمہارا فرض ہے کہ میرے

(۱)علم لشکر قوم کی سر بلندی کی نشانی اور لشکرکے وقار و عزت کی علامت ہوتا ہے لہٰذا اس کواٹھانے والے کوبھی صاحب بصیرت و برداشت ہونا ضروری ہے ورنہ اگر پرچم سرنگوں ہوگیا تو نہ لشکر کاکوئی وقار رہ جائے گا اورنہمذہب کا کوئی اعتبار رہ جائے گا۔سرکار دو عالم (ص) نے انہیں خصوصیات کے پیش نظر خیبر کے موقع پر اعلان فرمایا تھاکہ کل میں اس کو علم دوں گا جو کرار' غیر فرار' محب خداو رسول (ص) محبوب خدا اور رسول (ص) اورمرد میدان ہوگا کہ اس کے علاوہ کوئی شخص علم برداری کا اہل نہیں ہو سکتا ہے۔

۳۱۴

لِمَا تُؤْمَرُونَ بِه وقِفُوا عِنْدَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْه - ولَا تَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ حَتَّى تَتَبَيَّنُوا - فَإِنَّ لَنَا مَعَ كُلِّ أَمْرٍ تُنْكِرُونَه غِيَراً

هوان الدنيا

أَلَا وإِنَّ هَذِه الدُّنْيَا الَّتِي أَصْبَحْتُمْ تَتَمَنَّوْنَهَا - وتَرْغَبُونَ فِيهَا وأَصْبَحَتْ تُغْضِبُكُمْ وتُرْضِيكُمْ - لَيْسَتْ بِدَارِكُمْ ولَا مَنْزِلِكُمُ الَّذِي خُلِقْتُمْ لَه - ولَا الَّذِي دُعِيتُمْ إِلَيْه - أَلَا وإِنَّهَا لَيْسَتْ بِبَاقِيَةٍ لَكُمْ ولَا تَبْقَوْنَ عَلَيْهَا - وهِيَ وإِنْ غَرَّتْكُمْ مِنْهَا فَقَدْ حَذَّرَتْكُمْ شَرَّهَا - فَدَعُوا غُرُورَهَا لِتَحْذِيرِهَا وأَطْمَاعَهَا لِتَخْوِيفِهَا - وسَابِقُوا فِيهَا إِلَى الدَّارِ الَّتِي دُعِيتُمْ إِلَيْهَا - وانْصَرِفُوا بِقُلُوبِكُمْ عَنْهَا - ولَا يَخِنَّنَّ أَحَدُكُمْ خَنِينَ الأَمَةِ عَلَى مَا زُوِيَ عَنْه مِنْهَا - واسْتَتِمُّوا نِعْمَةَ اللَّه عَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ عَلَى طَاعَةِ اللَّه

والْمُحَافَظَةِ عَلَى مَا اسْتَحْفَظَكُمْ مِنْ كِتَابِه - أَلَا وإِنَّه لَا يَضُرُّكُمْ تَضْيِيعُ شَيْءٍ مِنْ دُنْيَاكُمْ - بَعْدَ حِفْظِكُمْ قَائِمَةَ دِينِكُمْ - أَلَا وإِنَّه لَا يَنْفَعُكُمْ بَعْدَ تَضْيِيعِ دِينِكُمْ شَيْءٌ -

احکام کے مطابق قدم آگے بڑھائو اور میں جہاں روک دوں وہاںرک جائو۔اور خبردار کسی مسئلہ میں بھی تحقیق کے بغیر جلد بازی سے کام نہ لینا کہ مجھے جن باتوں کاتم انکار کرتے ہوان میں غیر معمولی انقلاب کا اندیشہ رہتا ہے ۔

یاد رکھو! یہ دنیا جس کی تم آرزو کر رہے ہو اور اورجس میں تم رغبت کا اظہار کر رہے ہو اور جو کبھی کبھی تم سے عداوت کرتی ہے اور کبھی تمہیں خوش کر دیتی ہے۔ یہ تمہاراواقعی گھر اور تمہاری واقعی منزل نہیں ہے جس کے لئے تمہیں خلق کیا گیا ہے اور جس کی طرف تمہیں دعوت دی گئی ہے اور پھر یہ باقی رہنے والی بھی نہیں ہے اور تم بھی اس میں باقی رہنے والے نہیں ہو۔یہ اگر کبھی دھوکہ دیتی ہے تو دوسرے وقت اپنے شر سے ہوشیار بھی کردیتی ہے۔لہٰذا اس کے دھوکہ سے بچواوراس کی تنبیہ پرعمل کرو۔اس کی لالچ کو نظر اندازکرو اور اس کی تخویف کاخیال رکھو۔اس میں رہ کر اس گھر کی طرف سبقت کرو' جس کی تمہیں دعوت دی گئی ہے۔اوراپنے دلوں کا رخ اس کی طرف سے موڑ لو اورخبر دار تم میںسے کوئی بھی شخص اس کی کسی نعمت سے محرومی کی بنا پرکنیزوں کی طرح رونے نہ بیٹھ جائے۔اللہ سے اس کی نعمتوں کی تکمیل کامطالبہ کرو اس کی اطاعت پر صبر کرنے اور اس کی کتاب کے احکام کی مخافظت کرنے کے ذریعہ۔

یاد رکھو اگر تم نے دین کی بنیادکو محفوظ کردیا تو دنیا کی کسی شے کی بربادی بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور اگر تم نے دین کو برباد کردیا تو دنیا میں کسی شے

۳۱۵

حَافَظْتُمْ عَلَيْه مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ - أَخَذَ اللَّه بِقُلُوبِنَا وقُلُوبِكُمْ إِلَى الْحَقِّ - وأَلْهَمَنَا وإِيَّاكُمُ الصَّبْرَ!

(۱۷۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معنى طلحة بن عبيد الله

وقد قاله حين بلغه خروج طلحة والزبير إلى البصرة لقتاله

قَدْ كُنْتُ ومَا أُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ - ولَا أُرَهَّبُ بِالضَّرْبِ - وأَنَا عَلَى مَا قَدْ وَعَدَنِي رَبِّي مِنَ النَّصْرِ - واللَّه مَا اسْتَعْجَلَ مُتَجَرِّداً لِلطَّلَبِ بِدَمِ عُثْمَانَ - إِلَّا خَوْفاً مِنْ أَنْ يُطَالَبَ بِدَمِه لأَنَّه مَظِنَّتُه - ولَمْ يَكُنْ فِي الْقَوْمِ أَحْرَصُ عَلَيْه مِنْه - فَأَرَادَ أَنْ يُغَالِطَ بِمَا أَجْلَبَ فِيه - لِيَلْتَبِسَ الأَمْرُ ويَقَعَ الشَّكُّ -. ووَ اللَّه مَا صَنَعَ فِي أَمْرِ عُثْمَانَ وَاحِدَةً مِنْ ثَلَاثٍ - لَئِنْ كَانَ ابْنُ عَفَّانَ ظَالِماً كَمَا كَانَ يَزْعُمُ - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه

کی حفاظت بھی فائدہ نہیں دے سکتی ہے ۔اللہ ہم سب کے دل کو حق کے راستہ پر لگا دے اور سب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔

(۱۷۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(طلحہ بن عبید اللہ کے بارے میں جب آپ کو خبر دی گئی کہ طلحہ و زبیر جنگ کے لئے بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے ہیں )

مجھے کسی زمانہ میں بھی نہ جنگ سے مرعوب کیا جا سکا ہے اور نہ حرب و ضرب سے ڈرایا جا سکا ہے۔میں اپنے پروردگار کے وعدہ نصرت پرمطمئن ہوں اور خدا کی قسم اس شخص(۱) نے خون عثمان کے مطالبہ کے ساتھ تلوار کھینچنے میں صرف اس لئے جلد بازی سے کام لیا ہے کہ کہیں اسی سے اس خون کا مطالبہ نہ کردیا جائے کہ اس امر کا گمان غالب ہے اور قوم میں اس سے زیادہ عثمان کے خون کا پیاسا کوئی نہ تھا۔اب یہ اس فوج کشی کے ذریعہ لوگوں کو مغالطہ میں رکھنا چاہتا ہے اور مسئلہ کو مشتبہ اورمشکوک بنا دینا چاہتا ہے حالانکہ خدا گواہ ہے کہ عثمان کے معاملہ میں اس کا معاملہ تین حال سے خالی نہیں تھا۔اگرعثمان ظالم تھا جیسا کہ اس کا اپنا خیال تھا تواس کا

(۱)مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ عثمان کے آخر دورحیات میں ان کے قاتلوں کا اجتماع طلحہ کے گھرمیں ہوا کرتا تھا اور امیرالمومنین ہی نے اس راز کا انکشاف کیا تھا اس کے بعد طلحہ ہی نے جنازہ پر تیر برسائے تھے اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا تھا لیکن چار دن کے بعد یہی ظالم خون عثمان کا وارث بن گیا اور عثمان کے واقعی محسن کو ان کے خون کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کو سوچنے کا موقع مل جائے اور بنی امیہ طلحہ سے انتقام لینے کے لئے تیار ہو جائیں اور یہ طریقہ ہرشاطر سیاست کارکا ہوتا ہے کہ وہ مسائل کو اس طرح مشتبہ بنا دیناچاہتا ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ ہونے پائے ۔چاہے اس راہ میں اپنے سفارت کاروں ہی کو کیوں نہ قربان کرنا پڑے؟

۳۱۶

أَنْ يُوَازِرَ قَاتِلِيه - وأَنْ يُنَابِذَ نَاصِرِيه -. ولَئِنْ كَانَ مَظْلُوماً - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُنَهْنِهِينَ عَنْه - والْمُعَذِّرِينَ فِيه - ولَئِنْ كَانَ فِي شَكٍّ مِنَ الْخَصْلَتَيْنِ - لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَه أَنْ يَعْتَزِلَه - ويَرْكُدَ جَانِباً ويَدَعَ النَّاسَ مَعَه - فَمَا فَعَلَ وَاحِدَةً مِنَ الثَّلَاثِ - وجَاءَ بِأَمْرٍ لَمْ يُعْرَفْ بَابُه ولَمْ تَسْلَمْ مَعَاذِيرُه

(۱۷۵)

من خطبة لهعليه‌السلام

في الموعظة وبيان قرباه من رسول اللَّه

أَيُّهَا النَّاسُ غَيْرُ الْمَغْفُولِ عَنْهُمْ - والتَّارِكُونَ الْمَأْخُوذُ مِنْهُمْ - مَا لِي أَرَاكُمْ عَنِ اللَّه ذَاهِبِينَ وإِلَى غَيْرِه رَاغِبِينَ - كَأَنَّكُمْ نَعَمٌ أَرَاحَ بِهَا سَائِمٌ إِلَى مَرْعًى وَبِيٍّ ومَشْرَبٍ دَوِيٍّ - وإِنَّمَا هِيَ كَالْمَعْلُوفَةِ لِلْمُدَى لَا تَعْرِفُ مَا ذَا يُرَادُ بِهَا - إِذَا أُحْسِنَ إِلَيْهَا تَحْسَبُ يَوْمَهَا دَهْرَهَا وشِبَعَهَا أَمْرَهَا

فرض تھا کہ قاتلوں کی مدد کرتا اور عثمان کے مدد گاروں کو ٹھکرا دیتا اور اگروہ مظلوم تھا تو اس کا فرض تھا کہ اس کے قتل سے روکنے والوں اور اس کی طرف سے معذرت کرنے والوں میں شامل ہو جاتا اور اگر یہ دونوں باتیں مشکوک تھیں تو اس کے لئے مناسب تھاکہ اس معاملہ سے الگ ہوکرایک گوشہ میں بیٹھ جاتا اور انہیں قوم کے حوالہ کر دیتا لیکن اس نے ان تین میں سے کوئی بھی طریقہ اختیارنہیں کیا اور ایسا طریقہ اختیار کیا جس کی صحت کا کوئی جواز نہیں تھا اوراس کی معذرت کاکوئی راستہ نہیں تھا۔

(۱۷۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

( جس میں موعظت کے ساتھ رسول اکرم (ص) سے قرابت کا ذکر کیا گیا ہے)

ا ے وہ غافلو جن کی طرف سے غفلت نہیں برتی جا سکتی ہے اوراے چھوڑ دینے والو جن کو چھوڑا نہیں جاسکتا ہے۔مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں اللہ سے دور بھاگتے ہوئے اور غیر خدا کی رغبت کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔گویا تم وہ اونٹ ہو جن کا چرواہا ایک ہلاک کردینے والی چراگاہ اور تباہ کردینے والے گھاٹ پر لے آیا ہو یا وہ چوپایہ ہو جسے چھریوں کے لئے پالا گیا ہے کہ اسے نہیں معلوم ہے کہ اس کے ساتھ برتائو کا واقعی مقصد کیا ہے اورجب اچھا برتاو کیا جاتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ ایک دن ہی سارا زمانہ ہے اور یہ شکم سیری ہی کل کام ہے۔

۳۱۷

واللَّه لَوْ شِئْتُ أَنْ أُخْبِرَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْكُمْ - بِمَخْرَجِه ومَوْلِجِه وجَمِيعِ شَأْنِه لَفَعَلْتُ - ولَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَكْفُرُوا فِيَّ بِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

أَلَا وإِنِّي مُفْضِيه إِلَى الْخَاصَّةِ مِمَّنْ يُؤْمَنُ ذَلِكَ مِنْه - والَّذِي بَعَثَه بِالْحَقِّ واصْطَفَاه عَلَى الْخَلْقِ - مَا أَنْطِقُ إِلَّا صَادِقاً - وقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ بِذَلِكَ كُلِّه وبِمَهْلِكِ مَنْ يَهْلِكُ - ومَنْجَى مَنْ يَنْجُو ومَآلِ هَذَا الأَمْرِ - ومَا أَبْقَى شَيْئاً يَمُرُّ عَلَى رَأْسِي إِلَّا أَفْرَغَه فِي أُذُنَيَّ - وأَفْضَى بِه إِلَيَّ.

أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي واللَّه مَا أَحُثُّكُمْ عَلَى طَاعَةٍ - إِلَّا وأَسْبِقُكُمْ إِلَيْهَا - ولَا أَنْهَاكُمْ عَنْ مَعْصِيَةٍ إِلَّا وأَتَنَاهَى قَبْلَكُمْ عَنْهَا..

خدا کی قسم میں چاہوں تو ہر شخص کواس کے داخل اور خارج ہونے کی منزل سے آگاہ کر سکتا ہوں اور جملہ حالات کو بتا سکتا ہوں۔لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم مجھ میں گم ہو کر رسول اکرم (ص) کا انکار نہ کردو اور یاد رکھو کہ میں ان باتوں سے ان لوگوں کو بہر حال آگاہ کردوں گا جن سے گمراہی کاخطرہ نہیں ہے۔ قسم ہے اس ذات اقدس کی جس نے انہیں حق کے ساتھ بھیجا ہے اورمخلوقات میں منتخب قرار دیا ہے کہ میں سوائے سچ کے کوئی کلام نہیں کرتا ہو۔انہوں نے یہ ساری باتیں مجھے بتا دی ہیں اور ہر ہلاک ہونے والے کی ہلاکت اور نجات پانے والے کی نجات کا راستہ بھی بتا دیا ہے اور اس امر خلافت کے انجام سے بھی با خبر کردیا ہے اور کوئی ایسی شے نہیں ہے جو میرے سر سے گزرنے والی ہو اور اسے میرے کانوں میں نہ ڈال دیا ہو اور مجھ تک پہنچا نہ دیا ہو۔

لوگو!خا گواہ ہے کہ میں تمہیں کسی اطاعت پرآمادہ نہیں کرتا ہوں مگر پہلے خود سبقت کرتا ہوں اور کسی معصیت سے نہیں روکتا ہوں مگر یہ کہ پہلے خود اس سے باز رہتا ہوں۔

۳۱۸

(۱۷۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يعظ ويبين فضل القرآن وينهى عن البدعة

عظة الناس

انْتَفِعُوا بِبَيَانِ اللَّه واتَّعِظُوا بِمَوَاعِظِ اللَّه - واقْبَلُوا نَصِيحَةَ اللَّه - فَإِنَّ اللَّه قَدْ أَعْذَرَ إِلَيْكُمْ بِالْجَلِيَّةِ واتَّخَذَ عَلَيْكُمُ الْحُجَّةَ - وبَيَّنَ لَكُمْ مَحَابَّه مِنَ الأَعْمَالِ ومَكَارِهَه مِنْهَا - لِتَتَّبِعُوا هَذِه وتَجْتَنِبُوا هَذِه - فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَانَ يَقُولُ - إِنَّ الْجَنَّةَ حُفَّتْ بِالْمَكَارِه - وإِنَّ النَّارَ حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ.

واعْلَمُوا أَنَّه مَا مِنْ طَاعَةِ اللَّه شَيْءٌ إِلَّا يَأْتِي فِي كُرْه - ومَا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّه شَيْءٌ إِلَّا يَأْتِي فِي شَهْوَةٍ - فَرَحِمَ اللَّه امْرَأً نَزَعَ عَنْ شَهْوَتِه وقَمَعَ هَوَى نَفْسِه - فَإِنَّ هَذِه النَّفْسَ أَبْعَدُ شَيْءٍ مَنْزِعاً - وإِنَّهَا لَا تَزَالُ

(۱۷۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں موعظہ کے ساتھ قرآن کے فضائل اوربدعتوں سے مانعت کاتذکرہ کیا گیا ہے )

(قرآن حکیم)

دیکھو پروردگار کے بیان سے فائدہ اٹھائو اور اس کے مواعظ سے نصیحت حاصل کرو اور اس کی نصیحت کوقبول کرو کہ اس نے واضح بیانات کی ذریعہ تمہارے ہر عذرکوختم کردیاہے اورتم پرحجت تمام کردی ہے تمہارے لئے اپنے محبوب اورنا پسندیدہ تمام اعمال کی وضاحت کردی ہے تاکہ تم ایک قسم کا اتباع کرواوردوسری سے اجتناب کرو کہ رسول اکرم (ص) برابر یہ فرمایا کرتے تھے کہ جنت ناگواریوں(۱) میں گھیردی گئی ہے اورجہنم کو خواہشات کے گھیرے میں ڈال دیا گیا ہے۔

یاد رکھو کہ خدا کی کوئی اطاعت ایسی نہیں ہے جس میں ناگواری کی شکل نہ ہو اور اس کی کوئی معصیت ایسی نہیں ہے جس میں خواہش کا کوئی پہلو نہ ہو۔اللہ اس بندہ پر رحمت نازل کرے جوخواہشات سے الگ ہوجائے اورنفس کے ہوا و ہوس کو اکھاڑ کر پھینک دے کہ یہ نفس خواہشات میں بہت دور تک کھینچ جانے والا ہے اور یہ ہمیشہ

(۱)ان نا گواریوں اور دشواریوں سے مراد صرف عبادات نہیں ہیں کہ وہ صرف کاہل اوربے دین افراد کے لئے دشوار ہیں ورنہ سنجیدہ اوردیندار افراد ان میں لذت اور راحت ہی کا احساس کرتے ہیں۔درحقیقت ان دشواریوں سے مراد وہ جہاد ہے جس میں ہر راہ حیات میں ساری توانائیوں کو خرچ کرنا پڑتا ہے اور ہر طرح کی زحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیساکہ سورہ ٔ مبارکہ توبہ میں اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ نے صاحبان ایمان کے جان و مال کو خرید لیا ہے اورانہیں جنت دیدی ہے۔یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمن کو تہ تیغ کرنے کے ساتھ خودبھی شہیدہوجاتے ہیں۔

۳۱۹

تَنْزِعُ إِلَى مَعْصِيَةٍ فِي هَوًى.

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه أَنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يُصْبِحُ ولَا يُمْسِي - إِلَّا ونَفْسُه ظَنُونٌ عِنْدَه - فَلَا يَزَالُ زَارِياً عَلَيْهَا ومُسْتَزِيداً لَهَا - فَكُونُوا كَالسَّابِقِينَ قَبْلَكُمْ والْمَاضِينَ أَمَامَكُمْ - قَوَّضُوا مِنَ الدُّنْيَا تَقْوِيضَ الرَّاحِلِ وطَوَوْهَا طَيَّ الْمَنَازِلِ.

فضل القرآن

واعْلَمُوا أَنَّ هَذَا الْقُرْآنَ هُوَ النَّاصِحُ الَّذِي لَا يَغُشُّ - والْهَادِي الَّذِي لَا يُضِلُّ والْمُحَدِّثُ الَّذِي لَا يَكْذِبُ - ومَا جَالَسَ هَذَا الْقُرْآنَ أَحَدٌ إِلَّا قَامَ عَنْه بِزِيَادَةٍ أَوْ نُقْصَانٍ - زِيَادَةٍ فِي هُدًى أَوْ نُقْصَانٍ مِنْ عَمًى –

واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ عَلَى أَحَدٍ بَعْدَ الْقُرْآنِ مِنْ فَاقَةٍ - ولَا لأَحَدٍ قَبْلَ الْقُرْآنِ مِنْ غِنًى - فَاسْتَشْفُوه مِنْ أَدْوَائِكُمْ - واسْتَعِينُوا بِه عَلَى لأْوَائِكُمْ - فَإِنَّ فِيه شِفَاءً مِنْ أَكْبَرِ الدَّاءِ - وهُوَ الْكُفْرُ والنِّفَاقُ والْغَيُّ والضَّلَالُ - فَاسْأَلُوا اللَّه بِه وتَوَجَّهُوا إِلَيْه بِحُبِّه - ولَا تَسْأَلُوا بِه

گناہوں کی خواہش ہی کی طرف کھینچتا رہتا ہے ۔

بندگان خدا ! یاد رکھو کہ مردمومن ہمیشہ صبح و شام اپنے نفس سے بدگمان ہی رہتا ہے اوراس سے ناراض ہی رہتا ہے اور ناراضگی میں اضافہ ہی کرتا رہتا ہے لہٰذا تم بھی اپنے پہلے والوں کے مانند ہو جائو جو تمہارے آگے آگے جا رہے ہیں کہ انہوں نے دنیا سے اپنے خیمہ ڈیرہ کو اٹھا لیا ہے اورایک مسافر کی طرح دنیاکی منزلوں کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے ہیں۔

یاد رکھو کہ یہ قرآن وہ ناصح ہے جودھوکہ نہیں دیتاہے اور وہ ہادی ہے جوگمراہ نہیں کرتا ہے۔وہ بیان کرنے والا ہے جو غلط بیانی سے کام لینے والا نہیں ہے۔کوئی شخص اس کے پاس(۱) نہیں بیٹھتاہے مگر یہ کہ جب اٹھتا ہے توہدایت میں اضافہ کر لیتا ہے یا کم سے کم گمراہی میں کمی کر لیتا ہے۔

یاد رکھو! قرآن کے بعد کوئی کسی کا محتاج نہیں ہو سکتاہے اور قرآن سے پہلے کوئی بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے ۔اپنی بیماریوں میں اس سے شفا حاصل کرواور اپنی مصیبتوں میں اس سے مدد مانگو کہ اس میں بد ترین بیماری کفرو نفاق اورگمراہی و بے راہ روی کا علاج بھی موجود ہے۔اس کے ذریعہ اللہ سے سوال کرو اوراس کی محبت کے وسیلہ سے اس کی طرف رخ کرو اوراس کے ذریعہ

(۱)کتنی حسین ترین تعبیر ہے تلاوت قرآن اور فہم قرآن کی کہ انسان قرآن کے ساتھ اس طرح رہے جس طرح کوئی شخص اپنے ہم نشین کے ساتھ بیٹھتا ہے اور اس سے مانوس رہتا ہے اورجس کے نتیجہ میں جمال ہم نشین سے متاثر ہوتا ہے۔مسلمانوں کاتعلق صرف قرآن مجید کے الفاظ سے نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے معانی سے ہوتا ہے تاکہ اس کے مفاہیم سے آشنا ہو سکے اور اس کے تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکے۔

۳۲۰

خَلْقَه - إِنَّه مَا تَوَجَّه الْعِبَادُ إِلَى اللَّه تَعَالَى بِمِثْلِه - واعْلَمُوا أَنَّه شَافِعٌ مُشَفَّعٌ وقَائِلٌ مُصَدَّقٌ - وأَنَّه مَنْ شَفَعَ لَه الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُفِّعَ فِيه - ومَنْ مَحَلَ بِه الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صُدِّقَ عَلَيْه - فَإِنَّه يُنَادِي مُنَادٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - أَلَا إِنَّ كُلَّ حَارِثٍ مُبْتَلًى فِي حَرْثِه وعَاقِبَةِ عَمَلِه - غَيْرَ حَرَثَةِ الْقُرْآنِ - فَكُونُوا مِنْ حَرَثَتِه وأَتْبَاعِه - واسْتَدِلُّوه عَلَى رَبِّكُمْ واسْتَنْصِحُوه عَلَى أَنْفُسِكُمْ - واتَّهِمُوا عَلَيْه آرَاءَكُمْ واسْتَغِشُّوا فِيه أَهْوَاءَكُمْ.

الحث على العمل

الْعَمَلَ الْعَمَلَ ثُمَّ النِّهَايَةَ النِّهَايَةَ - والِاسْتِقَامَةَ الِاسْتِقَامَةَ ثُمَّ الصَّبْرَ الصَّبْرَ والْوَرَعَ الْوَرَعَ - إِنَّ لَكُمْ نِهَايَةً فَانْتَهُوا إِلَى نِهَايَتِكُمْ - وإِنَّ لَكُمْ عَلَماً فَاهْتَدُوا بِعَلَمِكُمْ - وإِنَّ لِلإِسْلَامِ غَايَةً فَانْتَهُوا إِلَى غَايَتِه - واخْرُجُوا إِلَى اللَّه بِمَا افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَقِّه - وبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ وَظَائِفِه - أَنَا شَاهِدٌ لَكُمْ وحَجِيجٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَنْكُمْ.

مخلوقات سے سوال نہ کرو۔اس لئے کہ مالک کی طرف متوجہ ہونے کا اس کا جیسا کوئی وسیلہ نہیں ہے اور یاد رکھو کہ وہ ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت مقبول ہے اور ایسا بولنے والا ے جس کی بات مصدقہ ہے۔جس کے لئے قرآن روز قیامت سفارش کردے اس کے حق میں شفاعت مقبول ہے اور ایسا بولنے والا ہے جس کی بات مصدقہ ہے۔جس کے لئے قرآن روز قیامت سفارش کردے اس کے حق میں شفاعت قبول ہے اور جس کے عیب کو وہ بیان کردے اس کا عیب تصدیق شدہ ہے۔روز قیامت ایک منادی آوازدے گا کہ ہر کھیتی کرنے والا اپنی کھیتی اور اپنے عمل کے انجام میں مبتلا ہے لیکن جو اپنے دل میں قرآن کا بیج بونے والے تھے وہ کامیاب ہیں لہٰذا تم لوگ انہیں لوگوں اور قرآن کی پیروی کرنے والوں میں شامل ہو جائو۔ اسے مالک کی بارگاہ میں رہنما بنائو اور اس سے اپنے نفس کے بارے میں نصیحت کرواور اپنے خیالات کو متہم قراردو اور اپنے خواہشات کو فریب خوردہ تصور کرو۔

عمل کرو عمل

انجام پر نگاہ رکھو انجام۔استقامت سے کام لو استقامت اور احتیاط کرو احتیاط تمہارے لئے ایک انتہا معین ہے اس کی طرف قدم آگے بڑھائو اور اللہ کی بارگاہ میں اس کے حقوق کی ادائیگی اور اس کے احکام کی پابندی کے ساتھ حاضری دو۔میں تمہارے اعمال کا گواہ بنوںگا اور روز قیامت تمہاری طرف سے وکالت کروں گا۔

۳۲۱

نصائح للناس

أَلَا وإِنَّ الْقَدَرَ السَّابِقَ قَدْ وَقَعَ - والْقَضَاءَ الْمَاضِيَ قَدْ تَوَرَّدَ - وإِنِّي مُتَكَلِّمٌ بِعِدَةِ اللَّه وحُجَّتِه - قَالَ اللَّه تَعَالَى -( إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا الله ثُمَّ اسْتَقامُوا - تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ولا تَحْزَنُوا - وأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ) - وقَدْ قُلْتُمْ رَبُّنَا اللَّه فَاسْتَقِيمُوا عَلَى كِتَابِه - وعَلَى مِنْهَاجِ أَمْرِه وعَلَى الطَّرِيقَةِ الصَّالِحَةِ مِنْ عِبَادَتِه - ثُمَّ لَا تَمْرُقُوا مِنْهَا ولَا تَبْتَدِعُوا فِيهَا - ولَا تُخَالِفُوا عَنْهَا - فَإِنَّ أَهْلَ الْمُرُوقِ مُنْقَطَعٌ بِهِمْ عِنْدَ اللَّه يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِيَّاكُمْ وتَهْزِيعَ الأَخْلَاقِ وتَصْرِيفَهَا - واجْعَلُوا اللِّسَانَ وَاحِداً ولْيَخْزُنِ الرَّجُلُ لِسَانَه - فَإِنَّ هَذَا اللِّسَانَ جَمُوحٌ بِصَاحِبِه - واللَّه مَا أَرَى عَبْداً يَتَّقِي تَقْوَى تَنْفَعُه حَتَّى يَخْزُنَ لِسَانَه - وإِنَّ لِسَانَ الْمُؤْمِنِ مِنْ وَرَاءِ قَلْبِه - وإِنَّ قَلْبَ الْمُنَافِقِ مِنْ وَرَاءِ لِسَانِه - لأَنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِكَلَامٍ تَدَبَّرَه فِي نَفْسِه - فَإِنْ كَانَ خَيْراً

(نصائح)

یاد رکھو کہ جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا اور جو فیصلہ خداوندی تھا وہ سامنے آچکا ۔میں خدائی وعدہ اور اس کی حجت کے سہارے کلام کر رہا ہوں '' بیشک جن لوگوں نے خدا کو خدا مانا اور اسی بات پر قائم رہ گئے۔ان پر ملائکہ اس بشارت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں کہ خبر دار ڈرو نہیں اور پریشان مت ہو۔تمہارے لئے اس جنت کی بشارت ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے '' اور تم لوگ تو خداکوخدا کہہ چکے ہو تو اب اس کی کتاب پر قائم رہو اور اس کے امر کے راستہ پر ثابت قدم رہو۔اس کی عبادت کے نیک راستہ پرجمے رہو اور اس سے خروج نہ کرو اور نہ کوئی بدعت ایجاد کرو اور نہ سنت سے اختلاف کرو۔اس لئے کہاطاعت الٰہی سے نکل جانے والے کا رشتہ پروردگار سے روز قیامت ٹوٹ جاتا ہے۔اس کے بعد ہوشیار ہوکر تمہارے اخلاق میں الٹ پھیرا دل بدل نہ ہونے پائے۔اپنی زبان کو ایک رکھو اور اسے محفوظ رکھو اس لئے کہ یہ زبان اپنے مالک سے بہت منہ زوری کرتی ہے۔خدا کی قسم میں نے کسی بندۂ مومن کو نہیں دیکھا جس نے اپنے تقویٰ سے فائدہ اٹھایا ہو مگر یہ کہ اپنی زبان کو روک کر رکھا ہے۔مومن کی زبان ہمیشہ اس کے دل کے پیچھے ہوتی ہے اور منافق کا دل ہمیشہ اس کی زبان کے پیچھے ہوتا ہے۔اس لئے کہ مومن جب بات کرنا چاہتا ہے تو پہلے دل میں غوروفکر کرتا ہے۔اس کے بعد حرف خیر ہوتا ہے تو اس کا

۳۲۲

أَبْدَاه وإِنْ كَانَ شَرّاً وَارَاه - وإِنَّ الْمُنَافِقَ يَتَكَلَّمُ بِمَا أَتَى عَلَى لِسَانِه - لَا يَدْرِي مَا ذَا لَه ومَا ذَا عَلَيْه - ولَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - لَا يَسْتَقِيمُ إِيمَانُ عَبْدٍ حَتَّى يَسْتَقِيمَ قَلْبُه - ولَا يَسْتَقِيمُ قَلْبُه حَتَّى يَسْتَقِيمَ لِسَانُه - فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى اللَّه تَعَالَى - وهُوَ نَقِيُّ الرَّاحَةِ مِنْ دِمَاءِ الْمُسْلِمِينَ وأَمْوَالِهِمْ - سَلِيمُ اللِّسَانِ مِنْ أَعْرَاضِهِمْ فَلْيَفْعَلْ.

تحريم البدع

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه أَنَّ الْمُؤْمِنَ يَسْتَحِلُّ الْعَامَ - مَا اسْتَحَلَّ عَاماً أَوَّلَ ويُحَرِّمُ الْعَامَ مَا حَرَّمَ عَاماً أَوَّلَ - وأَنَّ مَا أَحْدَثَ النَّاسُ لَا يُحِلُّ لَكُمْ شَيْئاً - مِمَّا حُرِّمَ عَلَيْكُمْ - ولَكِنَّ الْحَلَالَ مَا أَحَلَّ اللَّه والْحَرَامَ مَا حَرَّمَ اللَّه - فَقَدْ جَرَّبْتُمُ الأُمُورَ

اظہار کرتا ہے ورنہ اسے دل ہی میں چھپا رہنے دیتا ہے لیکن منافق جواس کے منہ میں آتاہے بک دیتاہے ۔اسے اس بات کی فکرنہیں ہوتی ہے کہ میرے موافق ہے یا مخالف اور پیغمبر (ص) اسلام نے فرمایا ہے کہ '' کسی شخص کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا ہے جب تک اس کا دل درست نہ ہو اور کسی شخص کا دل درست نہیں ہو سکتا ہے جب تک اس کی زبان درست نہ ہو۔اب جو شخص بھی اپنے پروردگار سے اس عالم میں ملاقات کر سکتا ہے کہ اس کا ہاتھ مسلمانوں کے خون اور ان کے مال سے پاک ہو اور اس کی زبان ان کی آبرو ریزی سے محفوظ ہو تو اسے بہر حال ایسا ضرور کرنا چاہیے۔

(بدعتوں کی ممانعت)

یاد رکھو کہ مرد مومن اس سال(۱) اسی چیز کو حلال کہتا ہے کہ جسے اگلے سال حلال کہہ چکا ہے اور اس سال اسی شے کو حرام قرار دیتا ہے جسے پچھلے سال حرام قرار دے چکا ہے۔اور لوگوں کی بدعتیں اور ان کی ایجادات حرام الٰہی کو حلال نہیں بنا سکتی ہیں۔ حلال و حرام وہی ہے جسے پروردگار نے حلال و حرام کہہ دیا ہے۔تم نے تمام امور کو

(۱)اسلام کے حلال و حرام دو قسم کے ہیں بعض امور وہ ہیں جنہیں مطلق طور پر حلال یا حرام قراردیا گیا ہے۔ان میں تغیر کا کوی امکان نہیں ہے اور انہیں بدلنے والا دین خدا میں دخل اندازی کرنے والا ہے جو خود ایک طرح کا کفر ہے۔اگرچہ بظاہر اس کا نام کفر یا شرک نہیں ہے۔

اور بعض امور وہ ہیں جن کی علیت یا حرمت حالات کے اعتبارسے رکھی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ ان کا حکم حالات کے بدلنے کے ساتھ خود ہی بدل جائے گا۔اس میں کسی کے بدلنے کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا ہے۔ایک مسلمان اور غیر مسلم یا ایک مومن اور غیر مومن کا فرق یہی ہے کہ مسلمان اور امر الہیہ کا مکمل اتباع کرتاہے اور کافر یا منافق ان احکام کو اپنے مصالح اور منافع کے مطابق بدل لیتا ہے اور اس کا نام مصلحت اسلام یا مصلحت مسلمین رکھ دیتا ہے ۔

۳۲۳

وضَرَّسْتُمُوهَا - ووُعِظْتُمْ بِمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ وضُرِبَتِ الأَمْثَالُ لَكُمْ - ودُعِيتُمْ إِلَى الأَمْرِ الْوَاضِحِ فَلَا يَصَمُّ عَنْ ذَلِكَ إِلَّا أَصَمُّ - ولَا يَعْمَى عَنْ ذَلِكَ إِلَّا أَعْمَى - ومَنْ لَمْ يَنْفَعْه اللَّه بِالْبَلَاءِ والتَّجَارِبِ - لَمْ يَنْتَفِعْ بِشَيْءٍ مِنَ الْعِظَةِ وأَتَاه التَّقْصِيرُ مِنْ أَمَامِه - حَتَّى يَعْرِفَ مَا أَنْكَرَ ويُنْكِرَ مَا عَرَفَ - وإِنَّمَا النَّاسُ رَجُلَانِ مُتَّبِعٌ شِرْعَةً ومُبْتَدِعٌ بِدْعَةً - لَيْسَ مَعَه مِنَ اللَّه سُبْحَانَه بُرْهَانُ سُنَّةٍ ولَا ضِيَاءُ حُجَّةٍ.

القرآن

وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَعِظْ أَحَداً بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ - فَإِنَّه حَبْلُ اللَّه الْمَتِينُ وسَبَبُه الأَمِينُ - وفِيه رَبِيعُ الْقَلْبِ ويَنَابِيعُ الْعِلْمِ - ومَا لِلْقَلْبِ جِلَاءٌ غَيْرُه مَعَ أَنَّه قَدْ ذَهَبَ الْمُتَذَكِّرُونَ - وبَقِيَ النَّاسُونَ أَوِ الْمُتَنَاسُونَ - فَإِذَا رَأَيْتُمْ خَيْراً فَأَعِينُوا عَلَيْه - وإِذَا رَأَيْتُمْ شَرّاً فَاذْهَبُوا عَنْه - فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَانَ يَقُولُ - يَا ابْنَ آدَمَ اعْمَلِ الْخَيْرَ ودَعِ الشَّرَّ - فَإِذَا أَنْتَ جَوَادٌ قَاصِدٌ ».

آزمالیا ہے اور سب کا باقاعدہ تجربہ کرلیا ہے اور تمہیں پہلے والوں کے حالات سے نصیحت بھی کی جا چکی ہے اور ان کی مثالیں بھی بیان کی جا چکی ہے اور ایک واضح امر کی دعوت بھی دی جا چکی ہے کہ اب اس معاملہ میں بہرہ پن اختیار نہیں کرے گا مگر وہی جو واقعاً بہرہ ہو اور انددھا نہیں بنے گا مگر وہی جو واقعاً اندھا ہو اور پھر جسے بلائیں اور تجربات فائدہ نہ دے سکیں اسے نصیحتیں کیا فائدہ دیں گی۔اس کے سامنے صرف کوتاہیاں ہی رہیں گی جن کے نتیجہ میں برائیوں کو اچھا اور اچھائیوں کو برا سمجھنے لگے گا۔لوگ دو ہی قسم کے ہوتے ہیں۔یا وہ جو شریعت کا اتباع کرتے ہیں یا وہ جو بدعتوں کی ایجاد کرتے ہیں اور ان کے پاس نہ سنت کی کوئی دلیل ہوتی ہے اور نہ حجت پروردگار کی کوئی روشنی ۔

(قرآن)

پروردگار نے کسی شخص کو قرآن سے بہتر کوئی نصیحت نہیں فرمائی ہے۔کہ یہی خدا کی مضبوط رسی اور اس کا امانت دار وسیلہ ہے اس میں دلوں کی بہار کا سامان اور علم کے سر چشمے ہیں اور دل کی جلاء اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اب اگرچہ نصیحت حاصل کرنے والے جا چکے ہیں اور صرف بھول جانے والے یا بھلا دینے والے باقی رہ گئے ہیں لیکن پھر بھی تم کوئی خیر دیکھو تو اس پر لوگوں کی مدد کرو اور کوئی شر دیکھو تو اس سے دور ہو جائو کہ رسول اکرم (ص) برابر فرمایا کرتے تھے '' فرزند آدم خیر پرعمل کر اور شر کونظراندازکردے تاکہ بہترین نیک کردار اورمیانہ رو ہو جائے ۔

۳۲۴

أنواع الظلم

أَلَا وإِنَّ الظُّلْمَ ثَلَاثَةٌ - فَظُلْمٌ لَا يُغْفَرُ وظُلْمٌ لَا يُتْرَكُ - وظُلْمٌ مَغْفُورٌ لَا يُطْلَبُ - فَأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي لَا يُغْفَرُ فَالشِّرْكُ بِاللَّه - قَالَ اللَّه تَعَالَى( إِنَّ الله لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِه ) - وأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي يُغْفَرُ - فَظُلْمُ الْعَبْدِ نَفْسَه عِنْدَ بَعْضِ الْهَنَاتِ - وأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي لَا يُتْرَكُ - فَظُلْمُ الْعِبَادِ بَعْضِهِمْ بَعْضاً - الْقِصَاصُ هُنَاكَ شَدِيدٌ لَيْسَ هُوَ جَرْحاً بِاْلمُدَى - ولَا ضَرْباً بِالسِّيَاطِ ولَكِنَّه مَا يُسْتَصْغَرُ ذَلِكَ مَعَه - فَإِيَّاكُمْ والتَّلَوُّنَ فِي دِينِ اللَّه - فَإِنَّ جَمَاعَةً فِيمَا تَكْرَهُونَ مِنَ الْحَقِّ - خَيْرٌ مِنْ فُرْقَةٍ فِيمَا تُحِبُّونَ مِنَ الْبَاطِلِ - وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يُعْطِ أَحَداً بِفُرْقَةٍ خَيْراً مِمَّنْ مَضَى - ولَا مِمَّنْ بَقِيَ.

لزوم الطاعة

يَا أَيُّهَا النَّاسُ - طُوبَى لِمَنْ شَغَلَه عَيْبُه عَنْ عُيُوبِ النَّاسِ - وطُوبَى لِمَنْ لَزِمَ بَيْتَه وأَكَلَ قُوتَه - واشْتَغَلَ بِطَاعَةِ رَبِّه وبَكَى عَلَى خَطِيئَتِه - فَكَانَ مِنْ نَفْسِه فِي شُغُلٍ والنَّاسُ مِنْه فِي رَاحَةٍ!

اقسام ظلم

یاد رکھو کہ ظلم کی تین قسمیں ہیں۔وہ ظلم جس کی بخشش نہیں ہے اور وہ ظلم جسے چھوڑا نہیں جا سکتا ہے۔اور وہ ظلم جس کی بخش ہوجاتی ہے اور اس کا مطالبہ نہیں ہوتا ہے۔ وہ ظلم جس کی بخشش نہیں ہے وہ اللہ کا شریک قرار دینا ہے کہ پروردگار نے خود اعلان کردیا ہے کہ اس کا شریک قراردینے والے کی مغفرت نہیں ہو سکتی ہے اوروہ ظلم جو معاف کردیا جاتا ہے وہ انسان کا اپنے نفس پر ظلم ہے معمولی گناہوں کے ذریعہ۔اور وہ ظلم جسے چھوڑا نہیں جا سکتا ہے۔وہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم ہے کہ یہاں قصاص بہت سخت ہے اور یہ صرف چھری کا زخم اور تازیانہ کی مار نہیں بلکہ ایسی سزا ہے جس کے سامنے یہ سب بہت معمولی ہیں لہٰذا خبردار دی خدا میں رنگ بدلنے کی روشن اختیار مت کرو کہ جس حق کو تم نا پسند کرتے ہو اس پرمتحد رہنا اس باطل پر چل کرمنتشر ہو جانے سے بہر حال بہتر ہے جسے تم پسند کرتے ہو۔پروردگار نے افتراق و انتشار میں کسی کو کوئی خیرنہیں دیا ہے نہ ان لوگوں میں جو چلے گئے اور نہ ان میں جوباقی رہ گئے ہیں۔

لوگو!خوش نصیب ہے وہ جسے اپنا عیب دوسروں کے عیب پر نظر کرنے سے مشغول کرلے اور قابل مبارکباد ہے وہ شخص جو اپنے گھرمیں بیٹھ رہے ۔اپنا رزق کھائے اور اپنے پروردگار کی اطاعت کرتا رہے اوراپنے گناہوں پر گریہ کرتا رہے۔وہ اپنے نفس میں مشغول رہے اور لوگ اس کی طرف سے مطمئن رہیں۔

۳۲۵

(۱۷۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معنى الحكمين

فَأَجْمَعَ رَأْيُ مَلَئِكُمْ عَلَى أَنِ اخْتَارُوا رَجُلَيْنِ - فَأَخَذْنَا عَلَيْهِمَا أَنْ يُجَعْجِعَا عِنْدَ الْقُرْآنِ ولَا يُجَاوِزَاه - وتَكُونُ أَلْسِنَتُهُمَا مَعَه وقُلُوبُهُمَا تَبَعَه فَتَاهَا عَنْه - وتَرَكَا الْحَقَّ وهُمَا يُبْصِرَانِه - وكَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا والِاعْوِجَاجُ رَأْيَهُمَا - وقَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَاؤُنَا عَلَيْهِمَا فِي الْحُكْمِ بِالْعَدْلِ - والْعَمَلِ بِالْحَقِّ سُوءَ رَأْيِهِمَا وجَوْرَ حُكْمِهِمَا - والثِّقَةُ فِي أَيْدِينَا لأَنْفُسِنَا حِينَ خَالَفَا سَبِيلَ الْحَقِّ - وأَتَيَا بِمَا لَا يُعْرَفُ مِنْ مَعْكُوسِ الْحُكْمِ

(۱۷۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(صفین کے بعد حکمین کے بارے میں )

تمہاری جماعت(۱) ہی نے دوآدمیوں کے انتخاب پر اتفاق کرلیا تھا۔میں نے تو ان دونوں سے شرط کرلی تھی کہ قرآن کی حدوں پر واقف کریں گے اور اس سے تجاوز نہیں کریں گے۔ان کی زبان اس کے ساتھ رہے گی اوروہ اسی کا اتباع کریں گے لیکن وہ دونوں بھٹک گئے اور حق کو دیکھ بھال کر نظر انداز کردیا۔ظلم ان کی آرزو تھا اور کج فہمی ان کی رائے جب کہ اس بد ترین رائے اوراس ظالمانہ فیصلہ سے پہلے ہی میں نے یہ شرط کردی تھی کہ عدالت کے ساتھ فیصلہ کریں گے اور حق کے مطابق عمل کریں گے لہٰذا اب میرے پاس اپنے حق میں حجت و دلیل موجود ہے کہ ان لوگوں نے راہ حق سے اختلاف کیا ہے اور طے شدہ قرار داد کے خلاف الٹا حکم کیا ہے۔

(۱) جب معاویہ نے صفین میں اپنے لشکر کو ہارتے ہوئے دیکھا تو نیزوں پر قرآن بلند کردیا کہ ہم قرآن سے فیصلہ چاہتے ہیں۔امیر المومنین نے فرمایا کہ یہ صرف مکاری اور غداری ہے ورنہ میں تو خود ہی قرآن ناطق ہو ں ۔مجھ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے لیکن شام کے نمک خوار اور ضمیر فروش سپاہیوں نے ہنگامہ کردیا اور حضرت کومجبور کردیا کہ دو افراد کو حکم بنا کر ان سے فیصلہ کرائیں ۔آپ نے اپنی طرف سے ابن عباس کو پیش کیا لیکن ظالموں نے اسے بھی نہ مانا۔بالآخر آپ نے فرمایا کہ کوئی بھی فیصلہ کرے لیکن قرآن کے حدود سے آگے نہ بڑھے کہ میں نے قرآن ہی کے نام پرجنگ کو موقوف کیا ہے مگر افسوس کہ یہ کچھ نہ ہو سکا اور عمرو عاص کی عیارینے آپ کے خلاف فیصلہ کرادیا اوراس طرح اسلام ایک عظیم فتنہ سے دوچار ہوگیا لیکن آپ کا عذر واضح رہا کہ میں نے فیصلہ میں قرآن کی شرط کی تھی اور یہ فیصلہ قرآن سے نہیں ہوا ہے لہٰذا مجھ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

۳۲۶

(۱۷۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الشهادة والتقوى. وقيل: إنه خطبها بعد مقتل عثمان في أول خلافته

اللَّه ورسوله

لَا يَشْغَلُه شَأْنٌ ولَا يُغَيِّرُه زَمَانٌ - ولَا يَحْوِيه مَكَانٌ ولَا يَصِفُه لِسَانٌ - لَا يَعْزُبُ عَنْه عَدَدُ قَطْرِ الْمَاءِ ولَا نُجُومِ السَّمَاءِ - ولَا سَوَافِي الرِّيحِ فِي الْهَوَاءِ - ولَا دَبِيبُ النَّمْلِ عَلَى الصَّفَا - ولَا مَقِيلُ الذَّرِّ فِي اللَّيْلَةِ الظَّلْمَاءِ - يَعْلَمُ مَسَاقِطَ الأَوْرَاقِ وخَفِيَّ طَرْفِ الأَحْدَاقِ - وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه غَيْرَ مَعْدُولٍ بِه - ولَا مَشْكُوكٍ فِيه ولَا مَكْفُورٍ دِينُه - ولَا مَجْحُودٍ تَكْوِينُه شَهَادَةَ مَنْ صَدَقَتْ نِيَّتُه - وصَفَتْ دِخْلَتُه وخَلَصَ يَقِينُه وثَقُلَتْ مَوَازِينُه - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه الَمْجُتْبَىَ مِنْ خَلَائِقِه - والْمُعْتَامُ لِشَرْحِ حَقَائِقِه والْمُخْتَصُّ بِعَقَائِلِ كَرَامَاتِه - والْمُصْطَفَى لِكَرَائِمِ رِسَالَاتِه - والْمُوَضَّحَةُ بِه أَشْرَاطُ الْهُدَى والْمَجْلُوُّ بِه غِرْبِيبُ الْعَمَى.

(۱۷۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(شہادت ایمان اور تقویٰ کے بارے میں )

نہ اس پر کوئی حالت طاری ہو سکتی ہے اور نہ اسے کوئی زمانہ بدل سکتا ہے اور نہ اس پر کوئی مکان حاوی ہو سکتا ہے اور نہ اس کی توصیف ہو سکتی ہے۔اس کے علم سے نہ بارش کے قطرے مخفی ہیں اور نہآسمان کے ستارے۔نہ فضائوں میں ہواکے جھکڑ مخفی ہیں اور نہ پتھروں پرچیونٹی کے چلنے کی آواز اور نہ اندھیری رات میں اس کی پناہ گاہ۔وہ پتوں کے گرنے کی جگہ بھی جانتا ہے اورآنکھ کے دز دیدہ اشارے بھی۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔نہ اس کا کوئی ہمسرو عدیل ہے اور نہ اس میں کسی طرح کا شک ے نہ اس کے دین کا انکار ہو سکتا ہے اور نہ اس کی تخلیق سے انکار کیا جا سکتا ہے۔یہ شہادت اس شخص کی ہے جس کی نیت سچی ہے اور باطن صاف ہے اس کا یقین خالص ہے اور میزان عمل گرانبار۔

اور پھر میں شہادت دیتا ہوں کہ حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور تمام مخلوقات میں منتخب رسول ہیں۔انہیں حقائق کی تشریح کے لئے چنا گیا ہے اور بہترین شرافتوں سے مخصوص کیا گیا ہے۔عظیم ترین پیغامات کے لئے ان کا انتخاب ہوا ہے اور ان کے ذریعہ ہدایت کی علامات کی وضاحت کی گئی ہے اور گمراہی کی تاریکیوں کو دور کیا گیا ہے۔

۳۲۷

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ الدُّنْيَا تَغُرُّ الْمُؤَمِّلَ لَهَا والْمُخْلِدَ إِلَيْهَا - ولَا تَنْفَسُ بِمَنْ نَافَسَ فِيهَا وتَغْلِبُ مَنْ غَلَبَ عَلَيْهَا - وايْمُ اللَّه مَا كَانَ قَوْمٌ قَطُّ فِي غَضِّ نِعْمَةٍ مِنْ عَيْشٍ - فَزَالَ عَنْهُمْ إِلَّا بِذُنُوبٍ اجْتَرَحُوهَا لـ( أَنَّ الله لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ) - ولَوْ أَنَّ النَّاسَ حِينَ تَنْزِلُ بِهِمُ النِّقَمُ وتَزُولُ عَنْهُمُ النِّعَمُ فَزِعُوا إِلَى رَبِّهِمْ بِصِدْقٍ مِنْ نِيَّاتِهِمْ ووَلَه مِنْ قُلُوبِهِمْ - لَرَدَّ عَلَيْهِمْ كُلَّ شَارِدٍ وأَصْلَحَ لَهُمْ كُلَّ فَاسِدٍ - وإِنِّي لأَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تَكُونُوا فِي فَتْرَةٍ - وقَدْ كَانَتْ أُمُورٌ مَضَتْ مِلْتُمْ فِيهَا مَيْلَةً - كُنْتُمْ فِيهَا عِنْدِي غَيْرَ مَحْمُودِينَ - ولَئِنْ رُدَّ عَلَيْكُمْ أَمْرُكُمْ إِنَّكُمْ لَسُعَدَاءُ - ومَا عَلَيَّ إِلَّا الْجُهْدُ - ولَوْ أَشَاءُ أَنْ أَقُولَ لَقُلْتُ( عَفَا الله عَمَّا سَلَفَ ) !

لوگو! یاد رکھو یہ دنیا اپنے سے لو گانے والے اور اپنی طرف کھینچ جانے والے کو ہمیشہ دھوکہ دیا کرتی ہے۔جو اس کا خواہش مند ہوتا ہے اس سے بخل نہیں کرتی ہے اورجواس پر غالب آجاتا ہے اس پرقابو پالیتی ہے ۔خدا کی قسم کوئی بھی قوم جو نعمتوں کی ترو تازہ اورشاداب زندگی میں تھی اور پھر اس کی وہ زندگی زائل ہوگئی ہے تو اس کا کوئی سبب سوائے ان گناہوں کے نہیں ہے جن کا ارتکاب(۱) اس قوم نے کیا ہے۔اس لئے کہ پروردگار اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ہے۔پھر بھی جن لوگوں پر عتاب نازل ہوتاہے اورنعمتیں زائل ہو جاتی ہیں اگرصدق نیت اورت وجہ قلب کے ساتھ پروردگار کی بارگاہ میں فریاد کریں تو وہ گئی ہوئی نعمتوں کو واپس کردے گا اور بگڑے کاموں کو بنادے گا۔میں تمہارے بارے میں اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ کہیں تم جہالت اورنادانی میں نہ پڑ جائو ۔کتنے ہی معاملات ایسے گزر چکے ہیں جن میں تمہارا جھکائو اس رخ کی طرف تھا جس میں تم قطعاً قابل تعریف نہیں تھے۔اب اگر تمہیں پہلے کی روشن کی طرف پلٹا دیا جائے تو پھرنیک بخت ہو سکتے ہو لیکن میری ذمہ داری صرف محنت کرنا ہے اور اگر میں کہنا چاہوں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ پرردگار گزشتہ معاملات سے درگزر فرمائے۔

(۱)بعض حضرات نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر ارفاد کا زوال صرف گناہوں کی بنیاد پرہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ دنیا میں بے شمار بد ترین قسم کے گناہ گار پائے جاتے ہیں لیکن ان کی زندگی میں راحت و آرام' تقدم اورترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گناہوں کا راحت و آرام یا رنج و الم میں کوئی دخل نہیں ہے اور ان مسائل کے اسباب کسی اورشے میں پائے جاتے ہیں۔لیکن اس کا واضح سا جواب یہ ہے کہ امیر المومنین نے افراد کاذکر نہیں کیا ہے ۔قوم کاذکر کیا ہے اور قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کا زوال ہمیشہ انفرادی یا اجتماعی گناہوں کی بنا پر ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس قوم نے شکر خدا نہیں ادا کیا وہ صفحہ ہستی سے نابود ہوگئی اور جس قوم نے نعمت کی فراوانی کے باوجود شکر خدا سے انحراف نہیں کیا اس کا ذکرآج تک زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا۔

۳۲۸

(۱۷۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد سأله ذعلب اليماني فقال - هل رأيت ربك يا أمير المؤمنين

فقالعليه‌السلام - أفأعبد ما لا أرى فقال وكيف تراه فقال

لَا تُدْرِكُه الْعُيُونُ بِمُشَاهَدَةِ الْعِيَانِ - ولَكِنْ تُدْرِكُه الْقُلُوبُ بِحَقَائِقِ الإِيمَانِ - قَرِيبٌ مِنَ الأَشْيَاءِ غَيْرَ مُلَابِسٍ بَعِيدٌ مِنْهَا غَيْرَ مُبَايِنٍ - مُتَكَلِّمٌ لَا بِرَوِيَّةٍ مُرِيدٌ لَا بِهِمَّةٍ صَانِعٌ لَا بِجَارِحَةٍ - لَطِيفٌ لَا يُوصَفُ بِالْخَفَاءِ كَبِيرٌ لَا يُوصَفُ بِالْجَفَاءِ - بَصِيرٌ لَا يُوصَفُ بِالْحَاسَّةِ رَحِيمٌ لَا يُوصَفُ بِالرِّقَّةِ - تَعْنُو الْوُجُوه لِعَظَمَتِه وتَجِبُ الْقُلُوبُ مِنْ مَخَافَتِه

(۱۸۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم العاصين من أصحابه

أَحْمَدُ اللَّه عَلَى مَا قَضَى مِنْ أَمْرٍ وقَدَّرَ مِنْ فِعْلٍ - وعَلَى ابْتِلَائِي بِكُمْ

(۱۷۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب دغلب یمانی نے دریافت کیا کہ یا امیر المومنین کیا آپ نے اپنے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا کیا میں ایسے خدا کی عبادت کر سکتا ہوں جسے دیکھا بھی نہ ہو۔عرض کی مولا ! اسے کس طرح دیکھا جا سکتا ہے ؟فرمایا)

ا س ے نگاہیں آنکھوں کے مشاہدہ سے نہیں دیکھ سکتی ہیں۔اس کا ادراک دلوں کو حقائق ایمان کے سہارے حاصل ہوتا ہے ۔وہ اشیاء سے قریب ہے لیکن جسمانی اتصال کی بناپ ر نہیں اور دوربھی ہے لیکن علیحدگی کی بنیاد پر نہیں۔وہ کلام کرتا ہے لیکن فکر کا متحاج نہیں اور وہ اراد ہ کرتا ہے لیکن سوچنے کی ضرورت نہیں رکھتا ۔ وہ بلا اعضاء و جوارح کے صانع ہے اور بلا پوشیدہ ہوئے لطیف ہے۔ایسا بڑا ہے جو چھوٹوں پرظلم نہیں کرتا ہے اور ایسا بصیر ہے جس کے پاس حواس نہیں ہیں اور اس کی رحمت میں دل کی نرمی شامل نہیں ہے۔تمام چہرے اس کی عظمت کے سامنے ذلیل و خوار ہیں اور تمام قلوب اس کے خوف سے لرز رہے ہیں۔

(۱۸۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

میں خدا کا شکرکرتا ہوں ان امور پر جو گزر گئے اوران افعال پر جو اس نے مقدر کردئیے اوراپنے تمہارے ساتھ مبتلا

۳۲۹

أَيَّتُهَا الْفِرْقَةُ الَّتِي إِذَا أَمَرْتُ لَمْ تُطِعْ - وإِذَا دَعَوْتُ لَمْ تُجِبْ - إِنْ أُمْهِلْتُمْ خُضْتُمْ وإِنْ حُورِبْتُمْ خُرْتُمْ - وإِنِ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَى إِمَامٍ طَعَنْتُمْ - وإِنْ أُجِئْتُمْ إِلَى مُشَاقَّةٍ نَكَصْتُمْ -. لَا أَبَا لِغَيْرِكُمْ مَا تَنْتَظِرُونَ بِنَصْرِكُمْ - والْجِهَادِ عَلَى حَقِّكُمْ - الْمَوْتَ أَوِ الذُّلَّ لَكُمْ - فَوَاللَّه لَئِنْ جَاءَ يَومِي ولَيَأْتِيَنِّي لَيُفَرِّقَنَّ بَيْنِي وبَيْنِكُمْ - وأَنَا لِصُحْبَتِكُمْ قَالٍ وبِكُمْ غَيْرُ كَثِيرٍ - لِلَّه أَنْتُمْ أَمَا دِينٌ يَجْمَعُكُمْ ولَا حَمِيَّةٌ تَشْحَذُكُمْ - أَولَيْسَ عَجَباً أَنَّ مُعَاوِيَةَ يَدْعُو الْجُفَاةَ الطَّغَامَ - فَيَتَّبِعُونَه عَلَى غَيْرِ مَعُونَةٍ ولَا عَطَاءٍ

ہونے پر بھی اے وہ گروہ جسے میں حکم دیتا ہوں تو اطاعت نہیں کرتا ہے اورآواز دیتا ہوں تو لبیک نہیں کہتا ہے۔تمہیں مہلت دے دی جاتی ہے تو خوب باتیں بناتے ہو اور جنگ میں شامل کردیا جاتا ہے تو بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہو۔لوگ کسی امام پر اجتماع کرتے ہیں تو اعتراضات کرتے ہو اور گھیر کر مقابلہ کی طرف لائے جاتے ہو تو فرار اختیار کرلیتے ہو۔

تمہارے دشمنوں کا برا ہو آخر تم میری نصرت اور اپنے حق کے لئے جہاد میں کس چیزکا انتظار کر رہے ہو؟ موت کا یا ذلت کا ؟ خدا کی قسم اگر میرادن آگیا جو بہر حا ل آنے والا ہے تو میرے تمہارے درمیان اس حال میں جدائی ہوگی کہ میں تمہاری صحبت سے دل برداشتہ ہوں گا اور تمہاری موجودگی سے کسی کثرت کا احساس نہ کروں گا۔

خدا تمہارا بھلا کرے ! کیا تمہارے پاس کوئی دین نہیں(۱) ہے۔جو تمہیں متحد کرسکے اورنہ کوئی غیرت جو تمہیں آمادہ کر سکے ؟ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ معاویہ اپنے ظالم اور بدکار ساتھیوں کو آواز دیتاہے تو کسی امداد اور عطا کے بغیر بھی اس کی اطاعت کر لیتے ہیں

(۱) انسان کے پاس دو ہی سرمایہ ہیں جو اسے شرافت کی دعوت دیتے ہیں۔دیندار کے پاس دین اورآزاد منش کے پاس غیرت مگر افسوس کہ امیرالمومنین کے اطراف جمع ہو جانے والے افراد کے پاس نہ دین تھا اور نہ قومی شرافت کا احساس۔اور ظاہر ہے کہ ایسی قوم سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ وہ کسی وفاداری کا اظہار کر سکتی ہے۔کس قدرافسوس ناک یہ بات ہے کہ عام اسلام میں معاویہ اور عمرو عاص کی بات سنی جائے اورنفس رسول (ص) کی بات کو ٹھکرا دیا جائے بلکہ اس سے جنگ کی جائے ۔کیا اس کے بعد بھی کسی غیرت دار انسان کو زندگی کی آرزو ہو سکتی ہے اور وہ اس زندگی سے دل لگا سکتا ہے۔امیرالمومنین کے اس فقرہ میں کہ '' قزت و رب الکعبة '' بے پناہ درد پایا جاتا ہے۔جس میں ایک طرف اپنی شہادت اور قربانی کے ذریعہ کا میابی کا اعلان ہے اوردوسری طرف اس بے غیرت قوم سے جدائی کی مسرت کااظہار بھی پایا جاتا ہے کہ انسان ایسی قوم سے نجات حاصل کرلے اور اس انداز سے حاصل کرلے کہ اس پر کوئی الزام نہ ہو بلکہ وہ معرکہ حیات میں کامیاب رہے۔

۳۳۰

وأَنَا أَدْعُوكُمْ وأَنْتُمْ تَرِيكَةُ الإِسْلَامِ - وبَقِيَّةُ النَّاسِ إِلَى الْمَعُونَةِ أَوْ طَائِفَةٍ مِنَ الْعَطَاءِ - فَتَفَرَّقُونَ عَنِّي وتَخْتَلِفُونَ عَلَيَّ - إِنَّه لَا يَخْرُجُ إِلَيْكُمْ مِنْ أَمْرِي رِضًى فَتَرْضَوْنَه - ولَا سُخْطٌ فَتَجْتَمِعُونَ عَلَيْه - وإِنَّ أَحَبَّ مَا أَنَا لَاقٍ إِلَيَّ الْمَوْتُ - قَدْ دَارَسْتُكُمُ الْكِتَابَ وفَاتَحْتُكُمُ الْحِجَاجَ - وعَرَّفْتُكُمْ مَا أَنْكَرْتُمْ وسَوَّغْتُكُمْ مَا مَجَجْتُمْ - لَوْ كَانَ الأَعْمَى يَلْحَظُ أَوِ النَّائِمُ يَسْتَيْقِظُ - وأَقْرِبْ بِقَوْمٍ مِنَ الْجَهْلِ بِاللَّه قَائِدُهُمْ مُعَاوِيَةُ - ومُؤَدِّبُهُمُ ابْنُ النَّابِغَةِ !

(۱۸۱)

ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

وقَدْ أَرْسَلَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِه - يَعْلَمُ لَه عِلْمَ أَحْوَالِ قَوْمٍ مِنْ جُنْدِ الْكُوفَةِ - قَدْ هَمُّوا بِاللِّحَاقِ بِالْخَوَارِجِ - وكَانُوا عَلَى خَوْفٍ مِنْهعليه‌السلام فَلَمَّا عَادَ إِلَيْه الرَّجُلُ - قَالَ لَه أَأَمِنُوا فَقَطَنُوا أَمْ جَبَنُوا فَظَعَنُوا - فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ ظَعَنُوا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - فَقَالَعليه‌السلام

اورمیں تم کو دعوت دیتا ہوں اورتم سے عطیہ کاوعدہ بھی کرتا ہوں تو تم مجھ سے الگ ہو جاتے ہو اورمیری مخالفت کرتے ہو۔حالانکہ اب تمہیں اسلام کا ترکہ اور اس کے باقی ماندہ افراد ہو۔افسوس کہ تمہاری طرف نہ میری رضا مندی کی کوئی بات ایسی آتی ہے جس سے تم راضی ہو جائو اور نہ میری ناراضگی کا کوئی مسئلہ ایسا آتا ہے جس سے تم بھی ناراض ہو جائو۔اب تو میرے لئے محبوب ترین شے جس سے میں ملنا چاہتا ہوں صرف موت ہی ہے میں نے تمہیں کتاب خدا کی تعلیم دی ۔تمہارے سامنے کھلے ہوئے دلائل پیش کئے ۔جسے تم نہیں پہچانتے تھے اسے پہچنوایا اورجسے تم تھوک دیاکرتے تھے اسے خوشگوار بنایا۔مگر یہ سب اس وقت کارآمد ہے جب اندھے کو کچھ دکھائی دے اورسوتا ہوا بیدار ہو جائے۔وہ قوم جہالت سے کس قدر قریب ہے۔جس کا قائد معاویہ ہو اور اس کا ادب سکھانے والا نابغہ کا بیٹا ہو۔

(۱۸۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے ایک شخص کو اس کی تحقیق کے لئے بھیجا۔جوخوارج سے ملنا چاہتی تھی اور حضرت سے خوف زدہ تھی اور وہ شخص پلٹ کر آیاتو آپ نے سوال کیا کہ کیا وہ لوگ مطمئن ہو کر ٹھہر گئے ہیں یا بزدلی کا مظاہرہ کرکے نکل پڑے ہیں۔اس نے کہا کہ وہ کوچ کر چکے ہیں۔تو آپ نے فرمایا)

۳۳۱

بُعْداً لَهُمْ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ - أَمَا لَوْ أُشْرِعَتِ الأَسِنَّةُ إِلَيْهِمْ - وصُبَّتِ السُّيُوفُ عَلَى هَامَاتِهِمْ - لَقَدْ نَدِمُوا عَلَى مَا كَانَ مِنْهُمْ - إِنَّ الشَّيْطَانَ الْيَوْمَ قَدِ اسْتَفَلَّهُمْ - وهُوَ غَداً مُتَبَرِّئٌ مِنْهُمْ ومُتَخَلٍّ عَنْهُمْ - فَحَسْبُهُمْ بِخُرُوجِهِمْ مِنَ الْهُدَى وارْتِكَاسِهِمْ فِي الضَّلَالِ والْعَمَى - وصَدِّهِمْ عَنِ الْحَقِّ وجِمَاحِهِمْ فِي التِّيه

(۱۸۲)

ومِنْ خُطْبَةٍ لَهعليه‌السلام :

رُوِيَ عَنْ نَوْفٍ الْبَكَالِيِّ - قَالَ خَطَبَنَا بِهَذِه الْخُطْبَةِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّعليه‌السلام بِالْكُوفَةِ - وهُوَ قَائِمٌ عَلَى حِجَارَةٍ - نَصَبَهَا لَه جَعْدَةُ بْنُ هُبَيْرَةَ الْمَخْزُومِيُّ - وعَلَيْه مِدْرَعَةٌ مِنْ صُوفٍ وحَمَائِلُ سَيْفِه لِيفٌ - وفِي رِجْلَيْه نَعْلَانِ مِنْ لِيفٍ - وكَأَنَّ جَبِينَه ثَفِنَةُ بَعِيرٍ فَقَالَعليه‌السلام

خدا انہیں(۱) قوم ثمودکی طرح غارت کردے۔یاد رکھو نیزوں کی انیاں ان کی طرف سیدھی کردی جائیں گی اورتلواریں ان کے سروں پر برسنے لگیں گی تو انہیں اپنے کئے پر شرمندگی کا احساس ہوگا۔آج شیطان نے انہیں منتشر کردیا ہے اور کل وہی ان سے الگ ہو کر پرائت و بیزاری کا اعلان کرے گا۔اب ان کے لئے ہدایت سے نکل جانا۔ضلالت اور گمراہی میں گر پڑنا۔ راہ حق سے روک دینا اور گمراہی میں منہ زوری کرنا ہی ان کے تباہ ہونے کے لئے کافی ہے۔

(۱۸۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

نوف بکالی سے روایت کی گئی ہے کہ امیر المومنین نے ایک دن کوفہ میں ایک پتھر پرکھڑے ہو کرخطبہ ارشاد فرمایا جسے جعدہ بن ہبیرہ مخزومی نے نصب کیا تھا اور اس وقت آپ اون کا ایک جبہ پہنے ہوئے تھے اور آپ کی تلوار کا پرتلہ بھی لیف خرما کا تھا اور پیروں میں لیف خرما ہی کی جوتیاں تھیں آپ کی پیشانی اقدس پر سجدوں کے گھٹے نمایاں تھے ۔فرمایا !

(۱) بنی ناجیہ کا ایک شخص جس کا نام خریت بن راشد تھا۔امیر المومنین کے ساتھ صفین میں شریک رہا اور اس کے بعد گمراہ ہوگیا۔حضرت سے کہنے لگا کہ میں نہ آپ کی اطاعت کروں گا اور نہ میں آپ کے پیچھے نماز پڑھوں گا۔ آپ نے سبب دریافت کیا ؟ اس نے کہا کل بتائوں گا۔اور پھرآنے کے بجائے تیس افراد کو لے کر صحرائوں میں نکل گیا اورل وٹ مار کاکام شروع کردیا۔ایک امیرالمومنین کے چاہنے والے مسافر کو صرف حب علی کی بنیاد پر کافر قراردے کر قتل کردیا اور ایک یہودی کو آزاد چھوڑ دیا۔حضرت نے اس کی روک تھام کے لئے زیاد بن ابی حفصہ کو ۱۳۰ افراد کے ساتھ بھیجا۔زیاد نے چند افراد کو تہ تیغ کردیا اور خریت فرار کرگیا اور کردوں کو بغاوت پرآمادہ کرنے لگا آپ نے معقل بن قیس ریاحی کو دو ہزار سپاہیوں کے ساتھ روانہ کیا۔انہوں نے زمین فارس تک اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ طرفین میں شدید جنگ ہوئی اورخریت نعمان بن صہیان کو اسیکے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اس فتنہ کاخاتمہ ہوگیا۔

۳۳۲

حمد اللَّه واستعانته

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي إِلَيْه مَصَائِرُ الْخَلْقِ - وعَوَاقِبُ الأَمْرِ نَحْمَدُه عَلَى عَظِيمِ إِحْسَانِه - ونَيِّرِ بُرْهَانِه ونَوَامِي فَضْلِه وامْتِنَانِه - حَمْداً يَكُونُ لِحَقِّه قَضَاءً ولِشُكْرِه أَدَاءً - وإِلَى ثَوَابِه مُقَرِّباً ولِحُسْنِ مَزِيدِه مُوجِباً - ونَسْتَعِينُ بِه اسْتِعَانَةَ رَاجٍ لِفَضْلِه مُؤَمِّلٍ لِنَفْعِه وَاثِقٍ بِدَفْعِه - مُعْتَرِفٍ لَه بِالطَّوْلِ مُذْعِنٍ لَه بِالْعَمَلِ والْقَوْلِ - ونُؤْمِنُ بِه إِيمَانَ مَنْ رَجَاه مُوقِناً - وأَنَابَ إِلَيْه مُؤْمِناً وخَنَعَ لَه مُذْعِناً - وأَخْلَصَ لَه مُوَحِّداً وعَظَّمَه مُمَجِّداً ولَاذَ بِه رَاغِباً مُجْتَهِداً.

اللَّه الواحد

( لَمْ يُولَد ْ) سُبْحَانَه فَيَكُونَ فِي الْعِزِّ مُشَارَكاً - و( لَمْ يَلِدْ ) فَيَكُونَ مَوْرُوثاً هَالِكاً - ولَمْ يَتَقَدَّمْه وَقْتٌ ولَا زَمَانٌ - ولَمْ يَتَعَاوَرْه زِيَادَةٌ ولَا نُقْصَانٌ - بَلْ ظَهَرَ لِلْعُقُولِ بِمَا أَرَانَا مِنْ عَلَامَاتِ التَّدْبِيرِ الْمُتْقَنِ - والْقَضَاءِ الْمُبْرَمِ  

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی طرف تمام مخلوقات کی بازگشت اورجملہ امور کی انتہاء ہے۔میں اس کی حمد کرتا ہوں اس کے عظیم احسان' واضح دلائل اور بڑھتے ہوئے فض و کرم پر۔وہ حمد جو اس کے حق کو پورا کر سکے اور اس کے شکر کوادا کرسکے۔اس کے عظیم احسان ' واضح دلائل اور بڑھتے ہوئے فضل و کرم پر۔وہ حمد جواس کے حق کو پورا کرا سکے اوراس کے شکر کوادا کرسکے۔اس کے ثواب سے قریب بنا سکے اورنعمتوں میں اضافہ کا سبب بن سکے۔میں اس سے مدد چاہتا ہوں اور اس بندہ کی طرح جو اس کے فضل کا امید وار ہو۔اس کے منافع کا طلب گار ہو۔اس کے دفع بلاء کا یقین رکھنے والا ہو اس کے کرم کا اعتراف کرنے والا ہو اور قول وعمل میں اس پر مکمل اعتماد کرنے والا ہو۔

میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اس بندہ کی طرح جو یقین کے ساتھ اس کا امید وار ہو اور ایمان کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو۔اذعان کے ساتھ اس کی بارگاہ میں سر بسجود ہو اور توحید کے ساتھ اس سے اخلاص رکھتا ہو۔تمجید کے ساتھ اس کی عظمت کا اقرار کرتا ہو اور رغبت و کوشش کے ساتھ اس کی پناہ میں آیا ہو۔

وہ پیدا نہیں کیا گیا ہے کہ کوئی اس کی عزت میں شریک بن جائے اور اس نے کسی بیٹے کوپیدا نہیں کیا ہے کہ خود ہلاک ہو جائے اور بیٹا وارث ہو جائے۔نہ اس سے پہلے کوئی زمان و مکان تھا اور نہ اس پر کوئی کمی یا زیادتی طاری ہوتی ہے۔اس نے اپنی محکم تدبیر اور اپنے حتمی فیصلہ

۳۳۳

فَمِنْ شَوَاهِدِ خَلْقِه خَلْقُ السَّمَاوَاتِ مُوَطَّدَاتٍ بِلَا عَمَدٍ - قَائِمَاتٍ بِلَا سَنَدٍ دَعَاهُنَّ فَأَجَبْنَ طَائِعَاتٍ مُذْعِنَاتٍ - غَيْرَ مُتَلَكِّئَاتٍ ولَا مُبْطِئَاتٍ - ولَوْ لَا إِقْرَارُهُنَّ لَه بِالرُّبُوبِيَّةِ - وإِذْعَانُهُنَّ بِالطَّوَاعِيَةِ - لَمَا جَعَلَهُنَّ مَوْضِعاً لِعَرْشِه ولَا مَسْكَناً لِمَلَائِكَتِه - ولَا مَصْعَداً لِلْكَلِمِ الطَّيِّبِ والْعَمَلِ الصَّالِحِ مِنْ خَلْقِه جَعَلَ نُجُومَهَا أَعْلَاماً يَسْتَدِلُّ بِهَا الْحَيْرَانُ - فِي مُخْتَلِفِ فِجَاجِ الأَقْطَارِ - لَمْ يَمْنَعْ ضَوْءَ نُورِهَا ادْلِهْمَامُ سُجُفِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ - ولَا اسْتَطَاعَتْ جَلَابِيبُ سَوَادِ الْحَنَادِسِ - أَنْ تَرُدَّ مَا شَاعَ فِي السَّمَاوَاتِ مِنْ تَلأْلُؤِ نُورِ الْقَمَرِ - فَسُبْحَانَ مَنْ لَا يَخْفَى عَلَيْه سَوَادُ غَسَقٍ دَاجٍ - ولَا لَيْلٍ سَاجٍ فِي بِقَاعِ الأَرَضِينَ الْمُتَطَأْطِئَاتِ - ولَا فِي يَفَاعِ السُّفْعِ الْمُتَجَاوِرَاتِ - ومَا يَتَجَلْجَلُ بِه الرَّعْدُ فِي أُفُقِ السَّمَاءِ -

کی بنا پر اپنے کو عقلوں کے سامنے بالکل واضح اورنمایاں کردیا ہے۔اس کی خلقت کے شواہد میں ان آسمانوں کی تخلیق بھی ہے جنہیں بغیر ستون کے روک رکھا ہے اور بغیر کسی سہارے کے قائم کردیا ہے۔اس نے انہیں پکارا تو سب لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوگئے۔اطاعت و ادغان کے ساتھ۔نہ کسی طرح کی تساہلی اور نہ کاہلی۔اور ظاہر ہے کہ اگر ان آسمانوں نے اس طرح اس کی ربوبیت کا اقرارنہ کیا ہوتا اور اس کے سامنے سرتسلیم خم نہ کردیا ہوتا تو وہ کبھی انہیں اپنے عرش کی منزل(۱) ملائکہ کا مسکن۔کلمہ طیب اور عمل صاحل کی بلندیوں کا مرکز نہ قرار دیتا۔اس نے ان کے ستاروں کومختلف راستوں میں حیران و سرگرداں مسافروں کے لئے نشان منزل بنادیاہے۔ان کے انوار کی تابش کو زمین تک پہنچنے سے نہ تاریک رات کی سیاہی روک سکی ہے اور نہ سواد شب کی چادر میں اتنا دم ہے کہ آسمانوں میں پھیلے ہوئے نور قمر کی روشنی کو روک سکے ۔

پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس پر نہ تاریک رات کی سیاہی مخفی ہے اور نہ ٹھہری ہوئی شب کی تاریکی۔نہ پست زمینوں کے قطعات میں اورنہ باہمی ملے ہوئے پہاڑوں کی چوٹیوں میں۔اس کے لئے نہ آسمان کی بلندی پر گرجتی ہوئی رعد پوشیدہ ہے اور نہ بادلوں کی چمکتی ہوئی

(۱) اس مقام پر حضرت نے غافل انسانوں کو بیدار کرنا چاہا ہے کہ مالک کائنات کی بارگاہ میں کوئی مرتبہ اطاعت کے بغیر نہیں مل سکتا ہے۔اس نے آسمانوں کوب ھی اگر یہ بلندی عطا کی ہے کہ انہیں ملائکہ کی منزل اور عرش کا مستقر بنادیاہے تو یہ بھی ان کی اطاعت کا نتیجہ ہے۔لہٰذا انسان بھی اگرملکوتی صفات کاحامل بننا چاہتا ہے اور اپنے قلب کو عرش الٰہی کا مرتبہ دینا چاہتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ مالک کے سامنے سراپا اطاعت بن جائے اور زندگی کا ہر لمحہ اس کی بندگی میں صرف کردے جس طرح ان اولیاء کرام نے کیا ہے جنہیں مالک نے اپنے کمالات کا نمونہ اور صفات کا آئینہ بنا دیا ہے۔

۳۳۴

ومَا تَلَاشَتْ عَنْه بُرُوقُ الْغَمَامِ - ومَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ تُزِيلُهَا عَنْ مَسْقَطِهَا عَوَاصِفُ الأَنْوَاءِ - وانْهِطَالُ السَّمَاءِ - ويَعْلَمُ مَسْقَطَ الْقَطْرَةِ ومَقَرَّهَا ومَسْحَبَ الذَّرَّةِ ومَجَرَّهَا - ومَا يَكْفِي الْبَعُوضَةَ مِنْ قُوتِهَا ومَا تَحْمِلُ الأُنْثَى فِي بَطْنِهَا.

عود إلى الحمد

والْحَمْدُ لِلَّه الْكَائِنِ قَبْلَ أَنْ يَكُونَ كُرْسِيٌّ أَوْ عَرْشٌ - أَوْ سَمَاءٌ أَوْ أَرْضٌ أَوْ جَانٌّ أَوْ إِنْسٌ - لَا يُدْرَكُ بِوَهْمٍ ولَا يُقَدَّرُ بِفَهْمٍ - ولَا يَشْغَلُه سَائِلٌ ولَا يَنْقُصُه نَائِلٌ - ولَا يَنْظُرُ بِعَيْنٍ ولَا يُحَدُّ بِأَيْنٍ ولَا يُوصَفُ بِالأَزْوَاجِ - ولَا يُخْلَقُ بِعِلَاجٍ ولَا يُدْرَكُ بِالْحَوَاسِّ ولَا يُقَاسُ بِالنَّاسِ - الَّذِي كَلَّمَ مُوسَى تَكْلِيماً وأَرَاه مِنْ آيَاتِه عَظِيماً - بِلَا جَوَارِحَ ولَا أَدَوَاتٍ ولَا نُطْقٍ ولَا لَهَوَاتٍ - بَلْ إِنْ كُنْتَ صَادِقاً أَيُّهَا الْمُتَكَلِّفُ لِوَصْفِ رَبِّكَ - فَصِفْ جِبْرِيلَ ومِيكَائِيلَ وجُنُودَ الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ فِي حُجُرَاتِ الْقُدُسِ مُرْجَحِنِّينَ

بجلیاں اور نہ درختوں سے گرتے ہوئے پتے جنہیں بالدوں کے ساتھ چلتی ہوئی تیز ہوائیں یاموسلا دھار بارش کا زور گرادیتا ے۔وہ ہر قطرہ کے گرنے کی جگہ بھی جانتا ہے اور ٹھہرنے کی جگہ بھی۔ہر چیونٹی کے چلنے کی جگہ سے بھی با خبر ہے اور کھینچ کر پہنچنے کی منزل سے بھی۔وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ایک مچھرکے لئے کتنی غذا کافی ہوتی ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ ایک مادہ اپنے شکم میں کیا لئے ہوئے ہے۔ساری تعریف اس خدا کے لئے ہے جو اس وقت بھی تھا جب نہ کرسی تھی اور نہ عرش ۔نہ آسمان تھا اور نہ زمین ۔نہ جنات تھے ننہ انسان نہ وہم سے اس کا ادراک ہوتا ہے اور نہ فہم سے اس کا اندازہ ۔نہ کوئی سائل اسے مشغول کر سکتا ے اور نہ کسی عطا سے اس کے خزانہ میں کوئی کمی آسکتی ہے ۔وہ نہ آنکھو سے دیکھتا ہے اور نہ کسی مکان میں محدود ہوتا ہے۔نہ ساتھیوں کے ساتھ اس کی توصیف ہو سکتی ہے اور نہ اعضاء و جوارح کی حرکت سے کسی چیز کوخلق کرتا ہے جو اس اس کا ادراک نہیں کر سکتے ہیں اور انسانوں پر اس کا قیاس نہیں کیا جا سکتاے۔اس نے موسیٰ کو کلیم بنایا تو انہیں عظیم نشانیاں بھی دکھلادیں حالانکہ نہ جوارح کو استعال کیا اورنہ آلات کو۔نہ کوئی نطق درمیان میں تھا اور نہ گلے کے کوے کی حرکت

اے توصیف پروردگار میں بلا سبب زحمت کرنے والو! اگرتمہارے خیال میں صداقت پائی جاتی ہے تو پہلے جبرائیل و میکائیل اوراس کے دوسرے مقرب ملائکہ کی توصیف بیان کرو جو پاکیزگی کے حجرات میں سر جھکا

۳۳۵

مُتَوَلِّهَةً عُقُولُهُمْ أَنْ يَحُدُّوا أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ - فَإِنَّمَا يُدْرَكُ بِالصِّفَاتِ ذَوُو الْهَيْئَاتِ والأَدَوَاتِ - ومَنْ يَنْقَضِي إِذَا بَلَغَ أَمَدَ حَدِّه بِالْفَنَاءِ - فَلَا إِلَه إِلَّا هُوَ أَضَاءَ بِنُورِه كُلَّ ظَلَامٍ - وأَظْلَمَ بِظُلْمَتِه كُلَّ نُورٍ.

الوصية بالتقوى

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - الَّذِي أَلْبَسَكُمُ الرِّيَاشَ وأَسْبَغَ عَلَيْكُمُ الْمَعَاشَ - فَلَوْ أَنَّ أَحَداً يَجِدُ إِلَى الْبَقَاءِ سُلَّماً أَوْ لِدَفْعِ الْمَوْتِ سَبِيلًا - لَكَانَ ذَلِكَ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَعليه‌السلام الَّذِي سُخِّرَ لَه مُلْكُ الْجِنِّ والإِنْسِ - مَعَ النُّبُوَّةِ وعَظِيمِ الزُّلْفَةِ - فَلَمَّا اسْتَوْفَى طُعْمَتَه واسْتَكْمَلَ مُدَّتَه - رَمَتْه قِسِيُّ الْفَنَاءِ بِنِبَالِ الْمَوْتِ - وأَصْبَحَتِ الدِّيَارُ مِنْه خَالِيَةً - والْمَسَاكِنُ مُعَطَّلَةً ووَرِثَهَا قَوْمٌ آخَرُونَ - وإِنَّ لَكُمْ فِي الْقُرُونِ السَّالِفَةِ لَعِبْرَةً!

أَيْنَ الْعَمَالِقَةُ وأَبْنَاءُ الْعَمَالِقَةِ - أَيْنَ الْفَرَاعِنَةُ وأَبْنَاءُ الْفَرَاعِنَةِ -

ئے ہوئے پڑے ہیں اور ان کی عقلیں حیران ہیں کہ احسن الخالقین کی توصیف کس طرح بیان کریں ۔

یاد رکھو صفات کے ذریعہ اس کا ادراک ہوتا ہے جس کی شکل و صورت ہوتی ہے اور جس کے اعضاء و جوارح ہوتے ہیں اور جو اپنی آخری حد پر پہنچ کر فنا ہو جاتا ہے۔پس اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے جس نے اپنے نور وجود سے ہر تاریکی کو منور بنادیا ہے اور پھر عدم کی ظلمت سے ہر نورانی شے کو تاریک بنادیا ہے۔

بندگان خدا! میں تمہیں اس خدا سے ڈرنے کی دعوت دیتا ہوں جس نے تمہیں بہترین لباس پہنائے ہیں اور تمہاری مکمل معیشت کا انتظام کیا ہے۔یاد رکھو اگر کوئی شخص ایسا ہوتا جسے بقا کی زینہ مل جاتا اور وہ موت کو ٹالنے کا راستہ تلاش کر لیتا تو وہ سلیمان بن دائود ہوتے جن کے لئے جن و انس دونوں کو مسخر کردیا گیا تھا اور پھر نبوت اور تقرب الٰہی کا شرف بھی حاصل تھا لیکن جب انہوں نے اپنے حصہ کی غذا استعمال کرلی اور اپنی مدت بقا کو پورا کرلیا تو فنا کی کمانوں نے موت کے تیر چلا دئیے اور سارے دیار ان سے خالی ہو گئے اور سارے قصر معطل ہو کر رہ گئے اور دوسری قومیں ان کی وارث ہوگئیں '' اور تمہارے لئے انہیں گذشتہ قوموں میں عبرت کا سامان فراہم کیا گیا ہے ''۔

کہاں ہیں ( شام و حجاز کے ) عمالقہ اور ان کی اولاد؟ کہاں ہیں ( مصر کے ) فراعنہ اور ان کی اولاد ؟ کہاں

۳۳۶

أَيْنَ أَصْحَابُ مَدَائِنِ الرَّسِّ الَّذِينَ قَتَلُوا النَّبِيِّينَ - وأَطْفَئُوا سُنَنَ الْمُرْسَلِينَ وأَحْيَوْا سُنَنَ الْجَبَّارِينَ - أَيْنَ الَّذِينَ سَارُوا بِالْجُيُوشِ وهَزَمُوا بِالأُلُوفِ - وعَسْكَرُوا الْعَسَاكِرَ ومَدَّنُوا الْمَدَائِنَ!

ومِنْهَا - قَدْ لَبِسَ لِلْحِكْمَةِ جُنَّتَهَا - وأَخَذَهَا بِجَمِيعِ أَدَبِهَا مِنَ الإِقْبَالِ عَلَيْهَا - والْمَعْرِفَةِ بِهَا والتَّفَرُّغِ لَهَا - فَهِيَ عِنْدَ نَفْسِه ضَالَّتُه الَّتِي يَطْلُبُهَا - وحَاجَتُه الَّتِي يَسْأَلُ عَنْهَا - فَهُوَ مُغْتَرِبٌ إِذَا اغْتَرَبَ الإِسْلَامُ - وضَرَبَ بِعَسِيبِ ذَنَبِه - وأَلْصَقَ الأَرْضَ بِجِرَانِه بَقِيَّةٌ مِنْ بَقَايَا حُجَّتِه - خَلِيفَةٌ مِنْ خَلَائِفِ أَنْبِيَائِه.

ثم قالعليه‌السلام :

أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ بَثَثْتُ لَكُمُ الْمَوَاعِظَ - الَّتِي وَعَظَ الأَنْبِيَاءُ بِهَا أُمَمَهُمْ - وأَدَّيْتُ إِلَيْكُمْ مَا أَدَّتِ الأَوْصِيَاءُ إِلَى

ہیں (آذربائیجان کے ) اصحاب الرس؟ جنہوں نے انبیاء کو قتل کیا مرسلین کی سنتوں کوخاموش کیا اور جباروں کی سنتوں کو زندہ کردیا تھا۔کہاں ہیں وہ لوگ جو لشکر لے کر بڑھے اور ہزار ہا ہزار کو شکست دے دی۔لشکرکے لشکر تیار کئے اور شہروں کے شہر آباد کردئیے۔

(اسی خطبہ کا ایک حصہ)

وہ حکمت کی سپر زیب تن کئے ہوگا۔اور اسے پورے آداب کے ساتھ اختیار کئے ہوگا کہاس کی طرف متوجہ ہوگا۔اس کی معرفت رکھتا ہوگا اوراس کے لئے مکمل طور پر فارغ ہوگا۔یہ حکمت اس کی نگاہ میں اس کی گم شدہ دولت ہوگی جس کو تلاش کر رہا ہوگا اور ایسی ضرورت ہوگی جس کے بارے میں دریافت کر رہا ہوگا۔وہاسلام کی غربت کے ساتھ غریب الوطن ہوگا اور اس اونٹ کی طرح ہوگا جو تھکن سے زمین پر دم پٹک رہا ہو اورسینہ زمین پر ٹیک ہوئے ہو۔اللہ کی حجتوں میں سے آخری حجت اوراس کے انبیاء کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ۔

لوگو! میں نے تمہارے لئے وہ تمام نصیحتیں پیش کردی ہیں جو انبیاء(۱) نے اپنی امتوں کے سامنے پیش کی تھیں اورتم تک ان تمام ہدایتوں کو پہنچا دیاہے جو اولیاء نے

(۱)بیشک امیر المومنین وارث انبیاء تھے اورانہوں نے ان تمام نصیحتوں کو استعمال کیا جنہیں انبیاء کرام استعمال کرچکے تھے لیکن ان کے نصائح کا انجام بھی وہی ہوا جو انبیاء کرام کی نصیحتوں کا ہوا تھا کہ جناب نوح کو پتھروں میں دبا دیا گیا۔جناب ابراہیم کوآگمیں ڈال دیا گیا۔جناب موسیٰ کو ملک سے نکال باہرکیا گیا جناب عیسیٰ کو سولی پرچڑھانے کامنصوبہ بنایا گیا ۔سرکار دوعالم (ص) کے قتل کامکمل انتظام کیا گیا اور کوئی دو ر ایسا نہ آیا جب قوم کی اکثریت نصیحتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتی اور اللہ والوں کے مقدس وجود اور ان کے پاکیزہ تعلیمات سے فائدہ اٹھاتی۔امیرالمومنین نے توان نصیحتوں پر تازیانہ اور تنبیہ کابھی اضافہ کردیا لیکن اس کے باوجود کوئی فائدہ نہ ہوا اور قوم مادیت کی دنیا سے نکل کر روحانیت کی فضا میں قدم رکھنے کے لئے تیار نہ ہوئی اور اس کے اثرات آجت ک باقی ہیں کہ کلام خدا اور رسول (ص) اور ارشادات معصومین کی صبح و شام تلاوت ہو رہی ہے لیکن کردار کا وہی عالم ہے جو اس سے پہلے دیکھا جا چکا ہے ۔

۳۳۷

مَنْ بَعْدَهُمْ وأَدَّبْتُكُمْ بِسَوْطِي فَلَمْ تَسْتَقِيمُوا - وحَدَوْتُكُمْ بِالزَّوَاجِرِ فَلَمْ تَسْتَوْسِقُوا - لِلَّه أَنْتُمْ - أَتَتَوَقَّعُونَ إِمَاماً غَيْرِي يَطَأُ بِكُمُ الطَّرِيقَ - ويُرْشِدُكُمُ السَّبِيلَ؟ أَلَا إِنَّه قَدْ أَدْبَرَ مِنَ الدُّنْيَا مَا كَانَ مُقْبِلًا - وأَقْبَلَ مِنْهَا مَا كَانَ مُدْبِراً، وأَزْمَعَ التَّرْحَالَ عِبَادُ اللَّه الأَخْيَارُ - وبَاعُوا قَلِيلًا مِنَ الدُّنْيَا لَا يَبْقَى - بِكَثِيرٍ مِنَ الآخِرَةِ لَا يَفْنَى - مَا ضَرَّ إِخْوَانَنَا الَّذِينَ سُفِكَتْ دِمَاؤُهُمْ وهُمْ بِصِفِّينَ - أَلَّا يَكُونُوا الْيَوْمَ أَحْيَاءً يُسِيغُونَ الْغُصَصَ - ويَشْرَبُونَ الرَّنْقَ قَدْ واللَّه لَقُوا اللَّه فَوَفَّاهُمْ أُجُورَهُمْ - وأَحَلَّهُمْ دَارَ الأَمْنِ بَعْدَ خَوْفِهِمْ.

أَيْنَ إِخْوَانِيَ الَّذِينَ رَكِبُوا الطَّرِيقَ - ومَضَوْا عَلَى الْحَقِّ أَيْنَ عَمَّارٌ وأَيْنَ ابْنُ التَّيِّهَانِ - وأَيْنَ ذُو الشَّهَادَتَيْنِ - وأَيْنَ نُظَرَاؤُهُمْ مِنْ إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ تَعَاقَدُوا عَلَى الْمَنِيَّةِ - وأُبْرِدَ بِرُءُوسِهِمْ إِلَى الْفَجَرَةِ.

قَالَ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِه عَلَى لِحْيَتِه الشَّرِيفَةِ الْكَرِيمَةِ - فَأَطَالَ الْبُكَاءَ ثُمَّ قَالَعليه‌السلام

أَوِّه عَلَى إِخْوَانِيَ الَّذِينَ تَلَوُا الْقُرْآنَ

بعدوالوں کےحوالہ کی تھیں۔میں نے اپنے تازیانہ سے تمہاری تنبیہ کی لیکن تم سیدھے نہ ہوئے اور تم کو زجرو تو بیخ سے ہنکانا چاہا لیکن تم متحد نہ ہوئے۔اللہ ہی تمہیں سمجھے کیا میرے بعد کسی اور امام کاانتظار کر رہے ہو جو تمہیں سیدھے راستہ پر چلائے گا اور راہ حق کی ہدایت دے گا۔

یاد رکھو جو چیزیں دنیا کی طرف رخ کئے ہوئے تھیں انہوں نے منہ پھیرا لیا ہے اور جومنہ پھیرائے ہوئے تھیں انہوں نے رخ کرلیا ہے اللہ کے نیک بندوں نے یہاں سے کوچ کرنے کا عزم کرلیا ہے اور دنیا کا وہ قلیل سرمایہ جو باقی رہنے والا نہیں ہے اسے بیچ ڈالا ہے ۔اس آخرت کے اجر کثیر کے مقابلہ میں جو فنا ہونے والا نہیں ہے۔ہمارے وہ ایمانی بھائی جن کا خون صفین کے میدان میں بہادیا گیا ان کا کیا نقصان ہوا ہے اگر وہ آج زندہ نہیں ہیں کہ دنیا کے مصائب کے گھونٹ پئیں اور گندے پانی پر گزارا کریں۔وہ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور انہیں ان کامکمل اجر مل گیا۔مالک نے انہیں خوف کے بعد امن کی منزل میں وارد کردیا ہے۔کہا ہیں میرے وہ بھائی جو سیدھے راستہ پر چلے اور حق کی راہ پر لگے رہے۔کہاں ہیں عمار ؟ کہاں ہیں ابن التیہان ؟۔کہاں ہیں ذوالشہادتین؟ کہاں ہیں ان کے جیسے ایمانی بھائی جنہوں نے موت کا عہدو پیمان باندھ لیا تھا اور جن کے سر فاجروں کے پاس بھیج دئیے گئے۔

(یہ کہہ کر آپ نے محاسن شریف پر ہاتھ رکھا اورتادیر گریہ فرماتے رہے اس کے بعد فرمایا :)

آہ ! میرے ان بھائیوں پر جنہوں نے قرآن کی

۳۳۸

فَأَحْكَمُوه - وتَدَبَّرُوا الْفَرْضَ فَأَقَامُوه - أَحْيَوُا السُّنَّةَ وأَمَاتُوا الْبِدْعَةَ - دُعُوا لِلْجِهَادِ فَأَجَابُوا ووَثِقُوا بِالْقَائِدِ فَاتَّبَعُوه.

ثُمَّ نَادَى بِأَعْلَى صَوْتِه

الْجِهَادَ الْجِهَادَ عِبَادَ اللَّه - أَلَا وإِنِّي مُعَسْكِرٌ فِي يَومِي هَذَا - فَمَنْ أَرَادَ الرَّوَاحَ إِلَى اللَّه فَلْيَخْرُجْ

قَالَ نَوْفٌ وعَقَدَ لِلْحُسَيْنِعليه‌السلام فِي عَشَرَةِ آلَافٍ - ولِقَيْسِ بْنِ سَعْدٍ رحمهالله فِي عَشَرَةِ آلَافٍ - ولأَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ فِي عَشَرَةِ آلَافٍ - ولِغَيْرِهِمْ عَلَى أَعْدَادٍ أُخَرَ - وهُوَ يُرِيدُ الرَّجْعَةَ إِلَى صِفِّينَ - فَمَا دَارَتِ الْجُمُعَةُ حَتَّى ضَرَبَه الْمَلْعُونُ ابْنُ مُلْجَمٍ لَعَنَه اللَّه - فَتَرَاجَعَتِ الْعَسَاكِرُ فَكُنَّا كَأَغْنَامٍ فَقَدَتْ رَاعِيهَا - تَخْتَطِفُهَا الذِّئَابُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ!

(۱۸۳)

من خطبة لهعليه‌السلام

في قدرة اللَّه وفي فضل القرآن وفي الوصية بالتقوى الله تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الْمَعْرُوفِ مِنْ غَيْرِ رُؤْيَةٍ - والْخَالِقِ مِنْ غَيْرِ مَنْصَبَةٍ

تلاوت کی تو اسے مستحکم کیا اور فرائض پر غورو فکر کیا تو انہیں قائم کیا ۔سنتوں کو زندہ کیا اور بدعتوں کو مردہ بنایا۔ انہیں جہاد کے لئے بلایا گیا تو لبیک کہی اور اپنے قائد پر اعتماد کیا تواس کا اتباع بھی کیا۔

(اس کے بعد بلند آوازسے پکار کر فرمایا)

جہاد ،جہاد ، اے بندگان خدا! آگاہ ہو جائو کہ میں آج اپنی فوج تیار کر رہا ہوں اگر کوئی خدا کی بارگاہ کی طرف جانا چاہتا ہے تو نکلنے کے لئے تیار ہو جائے ۔

نوف کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضرت نے دس ہزار کا لشکر امام حسین کے ساتھ ۔دس ہزار قیس بن سعد کے ساتھ۔دس ہزار ابو ایوب انصاری کے ساتھ اوراسی طرح مختلف تعداد میں مختلف افراد کے ساتھ تیار کیا اور آپ کا مقصد دوبارہ صفین کی طرف کوچ کرنے کا تھا کہ آئندہ جمعہ آنے سے پہلے ہی آپ کو ابن ملجم نے زخمی کردیا اور اس طرح سارا لشکر پلٹ گیا اور ہم سب ان چوپایوں کے مانند ہوگئے جن کا رکھوالا گم ہو جائے اور انہیں چاروں طرف سے بھیڑئیے اچک لینے کی فکرمیں ہو۔

(۱۸۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(قدرت خدا فضیلت قرآن اور وصیت تقویٰ کے بارے میں )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو بغیر دیکھے بھی پہچانا ہوا ہے اور بغیر کسی تکان کے بھی خلق کرنے والا

۳۳۹

خَلَقَ الْخَلَائِقَ بِقُدْرَتِه - واسْتَعْبَدَ الأَرْبَابَ بِعِزَّتِه وسَادَ الْعُظَمَاءَ بِجُودِه - وهُوَ الَّذِي أَسْكَنَ الدُّنْيَا خَلْقَه - وبَعَثَ إِلَى الْجِنِّ والإِنْسِ رُسُلَه - لِيَكْشِفُوا لَهُمْ عَنْ غِطَائِهَا ولِيُحَذِّرُوهُمْ مِنْ ضَرَّائِهَا - ولِيَضْرِبُوا لَهُمْ أَمْثَالَهَا ولِيُبَصِّرُوهُمْ عُيُوبَهَا - ولِيَهْجُمُوا عَلَيْهِمْ بِمُعْتَبَرٍ مِنْ تَصَرُّفِ مَصَاحِّهَا وأَسْقَامِهَا - وحَلَالِهَا وحَرَامِهَا - ومَا أَعَدَّ اللَّه لِلْمُطِيعِينَ مِنْهُمْ والْعُصَاةِ - مِنْ جَنَّةٍ ونَارٍ وكَرَامَةٍ وهَوَانٍ - أَحْمَدُه إِلَى نَفْسِه كَمَا اسْتَحْمَدَ إِلَى خَلْقِه - وجَعَلَ( لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً ) - ولِكُلِّ قَدْرٍ أَجَلًا ولِكُلِّ أَجَلٍ كِتَاباً.

فضل القرآن

منها: فَالْقُرْآنُ آمِرٌ زَاجِرٌ وصَامِتٌ نَاطِقٌ - حُجَّةُ اللَّه عَلَى خَلْقِه أَخَذَ عَلَيْه مِيثَاقَهُمْ - وارْتَهَنَ عَلَيْهِمْ أَنْفُسَهُمْ أَتَمَّ نُورَه - وأَكْمَلَ بِه دِينَه وقَبَضَ نَبِيَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وقَدْ فَرَغَ إِلَى الْخَلْقِ مِنْ أَحْكَامِ الْهُدَى بِه - فَعَظِّمُوا مِنْه سُبْحَانَه مَا عَظَّمَ مِنْ نَفْسِه – فَإِنَّه لَمْ يُخْفِ عَنْكُمْ شَيْئاً مِنْ دِينِه - ولَمْ يَتْرُكْ شَيْئاً رَضِيَه أَوْ كَرِهَه إِلَّا وجَعَلَ لَه عَلَماً بَادِياً -

ہے۔اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا اور اپن یعزت کی بناپ ر ان سے مطالبہ عبدیت کیا۔وہ اپنے جودو کرم میں تمام عظماء عالم سے بالا تر ہے۔اسی نے اس دنیا میں اپنی مخلوقات کو آباد کیا ہے اور جن و انس کی طرف اپنے رسول بھیجے ہیں تاکہ وہ نگاہوں سے عبرت دلانے کا سامان کریں اور حلال و حرام اور اطاعت کرنے والوں کے لئے مہیا شدہ اجر اور نا فرمانوں کے لئے عذاب سے آگاہ کردیں۔میں اس کی ذات اقدس کی اسی طرح حمد کرتا ہوں جس طرح اس نے بندوں سے مطالبہ کیا ہے اور ہر شے کی ایک مقدار معین ہے اور ہر قدر کی ایک مہلت رکھی ہے اور ہرتحریری کی ایک معیاد معین کی ہے۔

دیکھو قرآن امر کرنے والا بھی ہے اور روکنے والا بھی۔وہ خاموش بھی ہے اور گویا بھی۔وہ مخلوقات پر پروردگار کی حجت ہے۔جس کا لوگوں سے عہد لیا گیا ہے اور ان کے نفسوں کو اس کا پابند بنا دیا گیا ہے۔مالک نے اس کے نور کو تمام بنایا ہے اور اس کے ذریعہ دین کو کامل قرار دیا ہے۔اپنے پیغمبر کو اس وقت اپنے پاس بلایا ہے جب وہ اس کے احکام کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے چکے تھے لہٰذا پروردگار کی عظمت کا اعتراف اس طرح کرو جس طرح اس نے اپنی عظمت کا اعلان کیا ہے کہ اس نے دین کی کسی بات کو مخفی نہیں رکھا ہے اور کوئی ایسی پسندیدہ یا نا پسندیدہ بات نہیں چھوڑی ہے جس کے لئے واضح نشان ہدایت نہ بنا دیا

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863