نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656967 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

(۴۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند المسير إلى الشام قيل إنه خطب بها وهو بالنخيلة خارجا من الكوفة إلى صفين

الْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا وَقَبَ لَيْلٌ وغَسَقَ والْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا لَاحَ نَجْمٌ وخَفَقَ والْحَمْدُ لِلَّه غَيْرَ مَفْقُودِ الإِنْعَامِ ولَا مُكَافَإِ الإِفْضَالِ.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَعَثْتُ مُقَدِّمَتِي وأَمَرْتُهُمْ بِلُزُومِ هَذَا الْمِلْطَاطِ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرِي - وقَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَقْطَعَ هَذِه النُّطْفَةَ إِلَى شِرْذِمَةٍ مِنْكُمْ - مُوَطِّنِينَ أَكْنَافَ دِجْلَةَ - فَأُنْهِضَهُمْ مَعَكُمْ إِلَى عَدُوِّكُمْ - وأَجْعَلَهُمْ مِنْ أَمْدَادِ الْقُوَّةِ لَكُمْ.

قال السيد الشريف أقول يعنيعليه‌السلام بالملطاط هاهنا السمت الذي أمرهم بلزومه وهو شاطئ الفرات ويقال ذلك أيضا لشاطئ البحر وأصله ما استوى من الأرض ويعني بالنطفة ماء الفرات وهو من غريب العبارات وعجيبها.

(۴۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو صفین کے لئے کوفہ سے نکلتے ہوئے مقام نخیلہ پر ارشاد فرمایا تھا)

پروردگار کی حمد ہے جب بھی رات آئے اورتاریکی چھائے یا ستارہ چمکے اورڈوب جائے۔پروردگار کی حمدوثنا ہے کہ اس کی نعمتیں ختم نہیں ہوتی ہیں اور اس کے احسانات کا بدلہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔

امابعد! میں نے اپنے لشکر کا ہر اول دستہ روانہ کردیا ہے اور انہیں حکم دے دیا ہے کہ اس نہر کے کنارے ٹھہر کر میرے حکم کا انتظار کریں۔میں چاہتا ہوں کہ اس دریائے دجلہ کو عبور کرکے تمہاری(۱) ایک مختصرجماعت تک پہنچ جائوں جو اطراف دجلہ میں مقیم ہیں تاکہ انہیں تمہارے ساتھ جہاد کے لئے آمادہ کر سکوں اور ان کے ذریعہ تمہاری قوت میں اضافہ کر سکوں۔

سید رضی : ملطاط سے مراد دریا کا کنار ہ ہے اور اصل میں یہ لفظ ہموار زمین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نطفہ سے مراد فرات کا پانی ہے اور یہ عجیب و غریب تعبیرات میں ہے۔

(۱)اس جماعت سے مراد اہل مدائن ہیں جنہیں حضرت اس جہاد میں شامل کرنا چاہتے تھے اور ان کے ذریعہ لشکر کی قوت میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔خطبہ کے آغاز میں رات اور ستاروں کاذکر اسامر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ لشکراسلام کو رات کی تاریکی اورستارہ کے غروب و زوال سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔نور مطلق اور ضیاء مکمل ساتھ ہے تو تاریکی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور ستاروں کا کیا بھروسہ ہے۔ستارے تو ڈوب بھی جاتے ہیں لیکن جو پروردگار قابل حمدو ثناء ہے اس کے لئے زوال و غروب نہیں ہے اور وہ ہمیشہ بندۂ مومن کے ساتھ رہتا ہے۔!

۸۱

(۴۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه جملة من صفات الربوبية والعلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي بَطَنَ خَفِيَّاتِ الأَمُوُرِ - ودَلَّتْ عَلَيْه أَعْلَامُ الظُّهُورِ - وامْتَنَعَ عَلَى عَيْنِ الْبَصِيرِ - فَلَا عَيْنُ مَنْ لَمْ يَرَه تُنْكِرُه - ولَا قَلْبُ مَنْ أَثْبَتَه يُبْصِرُه - سَبَقَ فِي الْعُلُوِّ فَلَا شَيْءَ أَعْلَى مِنْه - وقَرُبَ فِي الدُّنُوِّ فَلَا شَيْءَ أَقْرَبُ مِنْه - فَلَا اسْتِعْلَاؤُه بَاعَدَه عَنْ شَيْءٍ مِنْ خَلْقِه - ولَا قُرْبُه سَاوَاهُمْ فِي الْمَكَانِ بِه - لَمْ يُطْلِعِ الْعُقُولَ عَلَى تَحْدِيدِ صِفَتِه - ولَمْ يَحْجُبْهَا عَنْ وَاجِبِ مَعْرِفَتِه - فَهُوَ الَّذِي تَشْهَدُ لَه أَعْلَامُ الْوُجُودِ - عَلَى إِقْرَارِ قَلْبِ ذِي الْجُحُودِ - تَعَالَى اللَّه عَمَّا يَقُولُه الْمُشَبِّهُونَ بِه - والْجَاحِدُونَ لَه عُلُوّاً كَبِيراً!

(۴۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں پروردگار کے مختلف صفات اور اس کے علم کا تذکرہ کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس خداکے لئے ہے جو مخفی امور کی گہرائیوں سے با خبر ہے اوراس کے وجود کی رہنمائی ظہور کی تمام نشانیاں کر رہی ہیں۔وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں آنے والا نہیں ہے لیکن نہ کسی نہ دیکھنے والے کی آنکھ اس کا انکار کر سکتی ہے۔اورنہ کسی اثبات کرنے والے کا دل اس کی حقیقت کو دیکھ سکتا ہے۔وہ بلندیوں میں اتنا آگے ہے کہ کوئی شے اس سے بلند تر نہیں ہے اور قربت میں اتنا قریب ہے کہ کوئی شے اس سے قریب تر نہیں ہے۔نہ اس کی بلندی اسے مخلوقات سے دور بنا سکتی ہے اور نہ اس کی قربت برابر کی جگہ پر لا سکتی ہے۔اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حدوں سے باخبر نہیں کیاہے اوربقدر واجب معرفت سے محروم بھی نہیں رکھا ہے۔وہ ایسی ہستی ہے کہ اس کے انکار کرن والے کے دل پر اس کے وجود کی نشانیاں شہادت دے رہی ہیں۔وہ مخلوقات سے تشبیہ دینے والے اور انکار کرنے والے دونوں کی باتوں سے بلند وبالاتر ہے۔

۸۲

(۵۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه بيان لما يخرب العالم به من الفتن وبيان هذه الفتن

إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وأَحْكَامٌ تُبْتَدَعُ - يُخَالَفُ فِيهَا كِتَابُ اللَّه - ويَتَوَلَّى عَلَيْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَيْرِ دِينِ اللَّه - فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ - لَمْ يَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِينَ ولَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ - انْقَطَعَتْ عَنْه أَلْسُنُ الْمُعَانِدِينَ - ولَكِنْ يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ ومِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَيُمْزَجَانِ - فَهُنَالِكَ يَسْتَوْلِي الشَّيْطَانُ عَلَى أَوْلِيَائِه - ويَنْجُو( الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ ) مِنَ اللَّه( الْحُسْنى ).

(۵۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس میں ان فتنوں کا تذکرہ ہے جو لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ان کے اثرات کا بھی تذکرہ ہے)

فتنوں) ۱) کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جن کا اتباع کیا جاتا ہے اور ان جدید ترین احکام سے ہوتی ہے جوگڑھ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سے الگ ہو جاتے ہیں کہ اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلب گاروں پرمخفی نہ ہو سکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں۔لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے ' اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے اورایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اورصرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہی جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔

(۱)اس ارشاد گرامی کا آغاز لفظ انما سے ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا کا ہرفتنہ خواہشات کی پیروی اور بدعتوں کی ایجاد سے شروع ہوتا ہے اور یہی تاریخی حقیقت ہے کہ اگر امت اسلامیہ نے روز اول کتاب خدا کے خلاف میراث کے احکام وضع نہ کئے ہوتے اور اگرمنصب و اقتدار کی خواہش میں ''من کنت مولاہ '' کا انکار نہ کیا ہوتااور کچھ لوگ کچھ لوگوں کے ہمدرد نہ ہوگئے ہوتے اور نص پیغمبر (ص) کے ساتھ سن و سال اورصحابیت و قرابت کے جھگڑے نہ شامل کردئیے ہوتے تو آج اسلام بالکل خالص اورصریح ہوتا اور امت میں کسی طرح کا فتنہ وفساد نہ ہوتا۔لیکن افسوس کہ یہ سب کچھ ہوگیا اور امت ایک دائمی فتنہ میں مبتلا ہوگئی جس کا سلسلہ چودہ صدیوں سے جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے گا۔

۸۳

(۵۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما غلب أصحاب معاوية أصحابهعليه‌السلام على شريعة الفرات بصفين ومنعوهم الماء

قَدِ اسْتَطْعَمُوكُمُ الْقِتَالَ فَأَقِرُّوا عَلَى مَذَلَّةٍ وتَأْخِيرِ مَحَلَّةٍ - أَوْ رَوُّوا السُّيُوفَ مِنَ الدِّمَاءِ تَرْوَوْا مِنَ الْمَاءِ فَالْمَوْتُ فِي حَيَاتِكُمْ مَقْهُورِينَ،والْحَيَاةُ فِي مَوْتِكُمْ قَاهِرِينَ - أَلَا وإِنَّ مُعَاوِيَةَ قَادَ لُمَةً مِنَ الْغُوَاةِ - وعَمَّسَ عَلَيْهِمُ الْخَبَرَ - حَتَّى جَعَلُوا نُحُورَهُمْ أَغْرَاضَ الْمَنِيَّةِ.

(۵۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في التزهيد في الدنيا وثواب الله للزاهد ونعم الله على الخالق

التزهيد في الدنيا

أَلَا وإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ تَصَرَّمَتْ وآذَنَتْ بِانْقِضَاءٍ - وتَنَكَّرَ مَعْرُوفُهَا وأَدْبَرَتْ حَذَّاءَ فَهِيَ تَحْفِزُ بِالْفَنَاءِ سُكَّانَهَا - وتَحْدُو بِالْمَوْتِ جِيرَانَهَا

(۵۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھیوں کو ہٹا کر صفین کے قریب فرات پرغلبہ حاصل کرلیا اور پانی بند کردیا)

دیکھو دشمنوں نے تم سے غذائے جنگ کا مطالبہ کردیا ہے اب یا تو تم ذلت اوراپنے مقام کی پستی پر قائم رہ جائو'یااپنی تلواروں کو خون سے سیراب کر دو اورخود پانی سے سیراب ہو جائو۔در حقیقت موت ذلت کی زندگی میں ہے اور زندگی عزت کی موت میں ہے۔آگاہ ہو جائو کہ معاویہ گمراہوں کی ایک جماعت کی قیادت کر رہا ہے جس پر تمام حقائق پوشیدہ ہیں اور انہوں نے جہالت کی بناپ ر اپنی گردنوں کو تیر اجل کا نشانہ بنادیا ہے۔

(۵۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا میں زہد کی ترغیب اور پیش پروردگاراس کے ثواب اور مخلوقات پر خالق کی نعمتوں کاتذکرہ کیا گیا ہے )

آگاہ ہو جائو دنیا جا رہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اس کی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں۔وہ تیزی سے منہ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف سے جا رہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔

۸۴

وقَدْ أَمَرَّ فِيهَا مَا كَانَ حُلْواً وكَدِرَ مِنْهَا مَا كَانَ صَفْواً - فَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا سَمَلَةٌ كَسَمَلَةِ الإِدَاوَةِ أَوْ جُرْعَةٌ كَجُرْعَةِ الْمَقْلَةِ لَوْ تَمَزَّزَهَا الصَّدْيَانُ لَمْ يَنْقَعْ فَأَزْمِعُوا عِبَادَ اللَّه - الرَّحِيلَ عَنْ هَذِه الدَّارِ الْمَقْدُورِ عَلَى أَهْلِهَا الزَّوَالُ - ولَا يَغْلِبَنَّكُمْ فِيهَا الأَمَلُ - ولَا يَطُولَنَّ عَلَيْكُمْ فِيهَا الأَمَدُ.

ثواب الزهاد

فَوَاللَّه لَوْ حَنَنْتُمْ حَنِينَ الْوُلَّه الْعِجَالِودَعَوْتُمْ بِهَدِيلِ الْحَمَامِ وجَأَرْتُمْ جُؤَارَ مُتَبَتِّلِي الرُّهْبَانِ - وخَرَجْتُمْ إِلَى اللَّه مِنَ الأَمْوَالِ والأَوْلَادِ - الْتِمَاسَ الْقُرْبَةِ إِلَيْه فِي ارْتِفَاعِ دَرَجَةٍ عِنْدَه - أَوْ غُفْرَانِ سَيِّئَةٍ أَحْصَتْهَا كُتُبُه - وحَفِظَتْهَا رُسُلُه لَكَانَ قَلِيلًا فِيمَا أَرْجُو لَكُمْ مِنْ ثَوَابِه - وأَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ عِقَابِه.

اس کی شیرینی تلخ ہو چکی ہے اور اس کی صفائی مکدر ہو چکی ہے۔اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو تہہ میں بچا ہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیا سا پی بھی لے تو اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے۔لہٰذا بندگان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جس کے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبر دار! تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا۔

خدا کی قسم اگر تم ان اونٹنیوں کی طرح بھی فریاد کرو جن کا بچہ گم ہوگیا ہو اور ان کبوتروں کی طرح نالہ و فغاں کرو جو اپنے جھنڈ سے الگ ہوگئے ہوں اور ان راہبوں کی طرح بھی گریہ و فریاد کرو جو اپنے گھر بار کو چھوڑ چکے ہیں اور مال و اولاد کو چھوڑ کر قربت خدا کی تلاش میں نکل پڑو تاکہ اس کی بارگاہ میں درجات بلند ہو جائیں یا وہ گناہ معاف ہو جائیں جو اس کے دفتر میں ثبت ہوگئے ہیں اور فرشتوں نے انہیں محفوظ کرلیا ہے تو بھی یہ سب اس ثواب سے کم ہوگا(۱) جس کی میں تمہارے بارے میں امید رکھتا ہوں یا جس عذاب کا تمہارے بارے میں خوف رکھتا ہوں۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ '' فکر ہر کس بقدر ہمت اوست'' دنیا کا انسان کتنا ہی بلند نظر اور عالی ہمت کیوں نہ ہو جائے مولائے کائنات کی بلندی فکر کو نہیں پا سکتا ہے اور اس درجہ علم پرفائز نہیں ہو سکتا ہے جس پر مالک کائنات نے باب مدینتہ العلم کوفائز کیا ہے۔آپ فرمانا چاہتے ہیں کہ تم لوگ میری اطاعت کرو اور میرے احکام پر عمل کرو۔اس کا اجروثواب تمہارے افکار کی رسائی کی حدوں سے بالاتر ہے۔میں تمہارے لئے بہترین ثواب کی امید رکھتا ہوں اور تمہیں بد ترین عذاب سے بچانا چاہتا ہوں لیکن اس راہ میں میرے احکام کی اطاعت کرنا ہوگی اور میرے راستہ پر چلنا ہوگا جو در حقیقت شہادت اورقربانی کا راستہ ہے اور انسان اسی راستہ پر قدم آگے بڑھانے سے گھبراتا ہے اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک دنیا دار انسان جس کی ساری فکر مال دنیا اورثروت دنیا ہے وہ بھی کسی ہلاکت کے خطرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنے کو ہلاکت سے بچانے کے لئے سارا مال و متاع قربان کردیتا ہے تو پھرآخر دیندار انسان میں یہ جذبہ کیوں نہیں پایا جاتا ہے؟ وہ جنت النعیم کو حاصل کرنے اور عذاب جہنم سے بچنے کے لئے اپنی دنیا کو قربان کیوں نہیں کرتا ہے؟ اس کا تو عقیدہ یہی ہے کہ دنیا چند روزہ اور فانی ہے اور آخرت ابدی اور دائمی ہے تو پھر فانی کوباقی کی راہ میں کیوں قربان نہیں کردیتا ؟''اف هذا الشی عجاب''

۸۵

نعم الله

وتَاللَّه لَوِ انْمَاثَتْ قُلُوبُكُمُ انْمِيَاثاً وسَالَتْ عُيُونُكُمْ مِنْ رَغْبَةٍ إِلَيْه أَوْ رَهْبَةٍ مِنْه دَماً - ثُمَّ عُمِّرْتُمْ فِي الدُّنْيَا مَا الدُّنْيَا بَاقِيَةٌ مَا جَزَتْ أَعْمَالُكُمْ عَنْكُمْ - ولَوْ لَمْ تُبْقُوا شَيْئاً مِنْ جُهْدِكُمْ - أَنْعُمَه عَلَيْكُمُ الْعِظَامَ وهُدَاه إِيَّاكُمْ لِلإِيمَانِ.

(۵۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكرى يوم النحر وصفة الأضحية

ومِنْ تَمَامِ الأُضْحِيَّةِ اسْتِشْرَافُ أُذُنِهَا وسَلَامَةُ عَيْنِهَا - فَإِذَا سَلِمَتِ الأُذُنُ والْعَيْنُ سَلِمَتِ الأُضْحِيَّةُ وتَمَّتْ - ولَوْ كَانَتْ عَضْبَاءَ الْقَرْنِ تَجُرُّ رِجْلَهَا إِلَى الْمَنْسَكِ

قال السيد الشريف والمنسك هاهنا المذبح.

(۵۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف أصحابه بصفين حين طال منعهم له من قتال أهل الشام

خدا کی قسم اگر تمہارے دل بالکل پگھل جائیں اور تمہاری آنکھوں سے آنسوئوں کے بجائے رغبت ثواب یا خوف عذاب میں خون جاری ہوجائے اور تمہیں دنیا میں آخر تک باقی رہنے کا موقع دے دیا جائے تو بھی تمہارے اعمال اس کی عظیم ترین نعمتوں اور ہدایت ایمان کا بدلہ نہیں ہو سکتے ہیں چاہے ان کی راہ میں تم کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھو۔

(۵۳)

(جس میں روز عید الضحیٰ کا تذکرہ ہے اورقربانی کے صفات کاذکر کیا گیا ہے)

قربانی کے جانور کا کمال یہ ہے کہ اس کے کان بلند ہوں اور آنکھیں سلامت ہوں کہ اگر کان اور آنکھ سلامت ہیں توگویا قربانی سالم اورمکمل ہے چاہے اس کی سینگ ٹوٹی ہوئی ہو اور وہ پیروں کو گھسیٹ کر اپنے کوقربان گاہ تک لے جائے۔

سید رضی : اس مقام پر منسلک سے مراد مذبح اورقربان گاہ ہے۔

(۵۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آپ نے اپنی بیعت کا تذکرہ کیا ہے)

۸۶

فَتَدَاكُّوا عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ يَوْمَ وِرْدِهَا وقَدْ أَرْسَلَهَا

رَاعِيهَا وخُلِعَتْ مَثَانِيهَا حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُمْ قَاتِلِيَّ أَوْ بَعْضُهُمْ قَاتِلُ بَعْضٍ لَدَيَّ - وقَدْ قَلَّبْتُ هَذَا الأَمْرَ بَطْنَه وظَهْرَه حَتَّى مَنَعَنِي النَّوْمَ - فَمَا وَجَدْتُنِي يَسَعُنِي إِلَّا قِتَالُهُمْ - أَوِ الْجُحُودُ بِمَا جَاءَ بِه مُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَكَانَتْ مُعَالَجَةُ الْقِتَالِ أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مُعَالَجَةِ الْعِقَابِ - ومَوْتَاتُ الدُّنْيَا أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مَوْتَاتِ الآخِرَةِ.

(۵۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد استبطأ أصحابه إذنه لهم في القتال بصفين

لوگ مجھ) ۱ ( پر یوں ٹوٹ پڑے جیسے وہ پیاسے اونٹ پانی پر ٹوٹ پڑتے ہیں جن کے نگرانوں نے انہیں آزاد چھوڑ دیا ہو اور ان کے پیروں کی رسیاں کھول دی ہوں یہاں تک کہ مجھے یہ احساس پیدا ہوگیا کہ یہ مجھے مار ہی ڈالیں گے یا ایک دوسرے کوقتل کردیں گے۔میں نے اس امرخلافت کو یوں الٹ پلٹ کردیکھاہے کہ میری نیند تک اڑ گئی ہے اور اب یہ محسوس کیا ہے کہ یا ان سے جہاد کرنا ہوگا یا پیغمبر (ص) کے احکام کا انکار کر دینا ہوگا۔ظاہر ہے کہ میرے لئے جنگ کی سختیوں کا برداشت کرنا عذاب کی سختی برداشت کرنے سے آسان تر ہے اور دنیا کی موت آخرت کی موت اورتباہی سے سبک تر ہے۔

(۵۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کے اصحاب نے یہ اظہار کیا کہ اہل صفین سے جہاد کی اجازت میں تاخیر سے کام لے رہے ہیں)

(۱)سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس اسلام میں روز اول سے بزور شمشیر بیعت لی جا رہی تھی اور انکار بیعت کرنے پر گھروں میں آگ لگائی جا رہی تھی یا لوگوں کو خنجر و شمشیر اورتازیانہ و درہ کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔اس میں یکبارگی یہ انقلاب کیسے آگیا کہ لوگ ایک انسان کی بیعت کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے اوریہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔کیا اس کا راز یہ تھا کہ لوگ اس ایک شخص کے علم و فضل ' زہد و تقویٰ اور شجاعت و کرم سے متاثر ہوگئے تھے۔ایسا ہوت تو یہ صورت حال بہت پہلے پیدا ہو جاتی اور لوگ اس شخص پر قربان ہو جاتے۔حالانکہ ایسا نہیں ہو سکا جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم نے شخصیت سے زیادہ حالات کو سمجھ لیا تھا۔اوریہ اندازہ کرلیا تھا کہ وہ شخص جو امت کے درمیان واقعی انصاف کر سکتا ہے اور جس کی زندگی ایک عام انسان کی زندگی کی طرح سادگی رکھتی ہے اور اس میں کسی طرح کی حرص و طمع کا گزر نہیں ہے وہ اس مرد مومن اور کل ایمان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی بیعت میں سبقت کرنا ایک انسانی اور ایمان فریضہ ہے اور در حقیقت مولائے کائنات نے اس پوری صورت حال کو ایک لفظ میں واضح کردیا ہے کہ یہ دن در حقیقت پیاسوں کے سیراب ہونے کادن تھا اور لوگ مدتوں سے تشنہ اورتشنہ کام تھے لہٰذا ان کاٹوٹ پڑنا حق بجانب تھا اس ایک تشبیہ سے ماضی اورحال دونوں کا مکمل اندازہ کیا جا سکتا ہے۔!

۸۷

أَمَّا قَوْلُكُمْ أَكُلَّ ذَلِكَ كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ - فَوَاللَّه مَا أُبَالِي - دَخَلْتُ إِلَى الْمَوْتِ أَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ إِلَيَّ - وأَمَّا قَوْلُكُمْ شَكَّاً فِي أَهْلِ الشَّامِ - فَوَاللَّه مَا دَفَعْتُ الْحَرْبَ يَوْماً - إِلَّا وأَنَا أَطْمَعُ أَنْ تَلْحَقَ بِي طَائِفَةٌ فَتَهْتَدِيَ بِي - وتَعْشُوَ إِلَى ضَوْئِي - وذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقْتُلَهَا عَلَى ضَلَالِهَا - وإِنْ كَانَتْ تَبُوءُ بِآثَامِهَا.

(۵۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يصف أصحاب رسول الله وذلك يوم صفين حين أمر الناس بالصلح

ولَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - نَقْتُلُ آبَاءَنَا وأَبْنَاءَنَا وإِخْوَانَنَا وأَعْمَامَنَا - مَا يَزِيدُنَا ذَلِكَ إِلَّا إِيمَاناً وتَسْلِيماً -

تمہارا یہ سوال کہ کیا یہ تاخیر موت کی ناگواری سے ہے تو خدا کی قسم مجھے موت کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں اس کے پاس وارد ہو جائوں یا وہ میری طرف نکل کر آجائے۔اور تمہارا یہ خیال کہ مجھے اہل شام کے باطل کے بارے میں کوئی شک ہے۔تو خدا گواہ ہے کہ میں نے ایک دن بھی جنگ کو نہیں ٹالا ہے مگر اس خیال سے کہ شائد کوئی گروہ مجھ سے ملحق ہو جائے اور ہدایت پاجائے اورمیری روشنی میں اپنی کمزور آنکھوں کا علاج کرلے کہ یہ بات میرے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں اس کی گمراہی کی بنا پر اسے قتل کردوں اگرچہ اس قتل کا گناہ اسی کے ذمہ ہوگا۔

(۵۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اصحاب رسول (ص) کویاد کیا گیا ہے اس وقت جب صفین کے موقع پر آپنے لوگوں کو صلح کا حکم دیا تھا)

ہم(۱) رسول اکرم (ص) کے ساتھ اپنے خاندان کے بزرگ' بچے 'بھائی اور چچائوں کو بھی قتل کردیا کرتے تھے اوراس سے ہمارے ایمان اور جذبہ تسلیم میں اضافہ ہی ہوتا

(۱)حضرت محمد بن ابی بکر شہادت کے بعد معاویہ نے عبداللہ بن عامر حضرمی کو بصرہ میں دوبارہ فساد پھیلانے کے لئے بھیج دیا۔وہاں حضرت کے والی ابن عباس تھے اور وہ محمد کی تعریف کے لئے کوفہ آگئے تھے۔زیاد بن عبید ان کے نائب تھے۔انہوں نے حضرت کو اطلاع دی۔آپ نے بصرہ کے بنی تمیم کا عثمانی رجحان دیکھ کر کوفہ کے بنی تمیم کو مقابلہ پر بھیجنا چاہا لیکن ان لوگوں نے برادری سے جنگ کرنے سے انکار کردیا تو حضرت نے اپنے دور قدیم کا حوالہ دیا کہ اگر رسول اکرم (ص) کے ساتھ ہم لوگ بھی قبائلی تعصب کا شکار ہوگئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔اسلام حق و صداقت کا مذہب ہے اس میں قومی اورقبائلی رجحانات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

۸۸

ومُضِيّاً عَلَى

اللَّقَمِ وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الأَلَمِ وجِدّاً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ - ولَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا والآخَرُ مِنْ عَدُوِّنَا - يَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَيْنِ يَتَخَالَسَانِ أَنْفُسَهُمَا أَيُّهُمَا يَسْقِي صَاحِبَه كَأْسَ الْمَنُونِ - فَمَرَّةً لَنَا مِنْ عَدُوِّنَا ومَرَّةً لِعَدُوِّنَا مِنَّا - فَلَمَّا رَأَى اللَّه صِدْقَنَا أَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْكَبْتَ وأَنْزَلَ عَلَيْنَا النَّصْرَ - حَتَّى اسْتَقَرَّ الإِسْلَامُ مُلْقِياً جِرَانَه ومُتَبَوِّئاً أَوْطَانَه - ولَعَمْرِي لَوْ كُنَّا نَأْتِي مَا أَتَيْتُمْ - مَا قَامَ لِلدِّينِ عَمُودٌ ولَا اخْضَرَّ لِلإِيمَانِ عُودٌ - وايْمُ اللَّه لَتَحْتَلِبُنَّهَا دَماً ولَتُتْبِعُنَّهَا نَدَماً!

(۵۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفة رجل مذموم ثم في فضله هوعليه‌السلام

أَمَّا إِنَّه سَيَظْهَرُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي رَجُلٌ رَحْبُ الْبُلْعُومِ مُنْدَحِقُ الْبَطْنِ يَأْكُلُ مَا يَجِدُ

تھا اور ہم برابر سیدھے راستہ پر بڑھتے ہی جا رہے تھے اور مصیبتوں کی سختیوں پر صبر ہی کرتے جا رہے تھے اور دشمن سے جہاد میں کوششیں ہی کرتے جا رہے تھے۔ہمارا سپاہی دشمن کے سپاہی سے اس طرح مقابلہ کرتا تھا جس طرح مردوں کا مقابلہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں۔اور ہر ایک کو یہی فکر ہو کہ دوسرے کو موت کا جام پلادیں۔پھر کبھی ہم دشمن کو مار لیتے تھے اور کبھی دشمن کو ہم پر غلبہ ہوجاتا تھا۔اس کے بعد جب خدا نے ہماری صداقت(۱) کوآزما لیا تو ہمارے دشمن پر ذلت نازل کردی اورہماری اوپر نصرت کا نزول فرمادیا یہاں تک کہ اسلام سینہ ٹیک کر اپنی جگہ جم گیا اور اپنی منزل پر قائم ہوگیا۔ میری جان کی قسم اگر ہمارا کرداربھی تمہیں جیسا ہوتا تو نہ دین کا کوئی ستون قائم ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی شاخ ہری ہوتی۔خدا کی قسم تم اپنے کرتوت سے دودھ کے بدلے خون دوھوگے اور آخرمیں پچھتائو گے۔

(۵۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایک قابل مذمت شخص کے بارے میں)

آگاہ ہو جائو کہ عنقریب تم پر ایک شخص مسلط ہو گا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا۔جو پاجائے گا کھا جائے گا

(۱)ایک عظیم حقیقت کا اعلان ہےکہ پروردگار اپنے بندوں کی بہر حال مدد کرتا ہے۔اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ'' کان حقا علینا نصر المومنین '' (مومنین کی مدد ہماری ذمہ دری ہے )'' ان الله مع الصابرین '' ( اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) لیکن اس سلسلہ میں اس حقیقت کو بہرحال سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نصرت ایمان کے اظہار کے بعد اوریہ معیت صبر کیے بعد سامنے آتی ہے جب تک انسان اپنے ایمان و صبر کا ثبوت نہیں دیدیتا ہے خدائی امداد کا نزول نہیں ہوتا ہے۔'' ان تصنرو الله ینصر کم '' (اگرتم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔نصرت الٰہی تحفہ نہیں ہے مجاہدات کا انعام ہے۔پہلے مجاہدہ نفس اس کے بعد انعام۔!

۸۹

ويَطْلُبُ مَا لَا يَجِدُ - فَاقْتُلُوه ولَنْ تَقْتُلُوه - أَلَا وإِنَّه سَيَأْمُرُكُمْ بِسَبِّي والْبَرَاءَةِ مِنِّي - فَأَمَّا السَّبُّ فَسُبُّونِي فَإِنَّه لِي زَكَاةٌ ولَكُمْ نَجَاةٌ - وأَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي - فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وسَبَقْتُ إِلَى الإِيمَانِ والْهِجْرَةِ.

(۵۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به الخوارج حين اعتزلوا الحكومة وتنادوا أن لا حكم إلا لله أَصَابَكُمْ حَاصِبٌ ولَا بَقِيَ مِنْكُمْ آثِرٌ أَبَعْدَ إِيمَانِي بِاللَّه،

وجِهَادِي مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - أَشْهَدُ عَلَى نَفْسِي بِالْكُفْرِ - لَالْكُفْرِ( قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وما أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ) - فَأُوبُوا شَرَّ مَآبٍ وارْجِعُوا عَلَى أَثَرِ الأَعْقَابِ أَمَا إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي ذُلاًّ شَامِلًا وسَيْفاً قَاطِعاً - وأَثَرَةً

اور جونہ پائے گا اس کی جستجو میں رہے گا۔تمہاری ذمہ داری ہوگی کہ اسے قتل کردو مگر تم ہر گز قتل نہ کرو گے۔ خیروہ عنقریب تمہیں' مجھے گالیاں دینے اور مجھ سے بیزاری کرنے کا بھی حکم دے گا۔تو اگر گالیوں کی بات ہو تو مجھے برا بھلا کہہ لینا کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سامان ہے اورتمہارے لئے دشمن سے نجات کا۔لیکن خبردار مجھ سے برائت نہ کرنا کہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور میں نے ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی ہے۔

(۵۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کا مخاطب ان خوارج کو بنایا گیا ہے جو تحکیم سے کنارہ کش ہوگئے اور '' لاحکم الا اللہ '' کا نعرہ لگانے لگے)

خدا کرے۔تم پرسخت آندھیاں آئیں اور کوئی تمہارے حال کا اصلاح کرنے والا نہ رہ جائے۔کیا میں پروردگار پر ایمان لانے اور رسول اکرم (ص) کے ساتھ جہاد کرنے کے بعد اپنے بارے میں کفر کا اعلان کردوں۔ایسا کروں گا تو میں گمراہ ہو جائوں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہ جائوں گا۔جائو پلٹ جائو اپنی بدترین منزل کی طرف اور واپس چلے جائو اپنے نشانات قدم پر۔مگرآگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہمہ گیر ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہوگا اور اس طریقۂ کار کا مقابلہ کرنا ہوگا

۹۰

يَتَّخِذُهَا الظَّالِمُونَ فِيكُمْ سُنَّةً.

قال الشريف قولهعليه‌السلام ولا بقي منكم آبر يروى على ثلاثة أوجه:

أحدها أن يكون كما ذكرناه آبر بالراء - من قولهم للذي يأبر النخل أي يصلحه -. ويروى آثر وهو الذي يأثر الحديث ويرويه - أي يحكيه وهو أصح الوجوه عندي - كأنهعليه‌السلام قال لا بقي منكم مخبر -. ويروى آبز بالزاي المعجمة وهو الواثب - والهالك أيضا يقال له آبز

(۵۹)

وقالعليه‌السلام

لما عزم على حرب الخوارج - وقيل له:

إن القوم عبروا جسر النهروان!

مَصَارِعُهُمْ دُونَ النُّطْفَةِ - واللَّه لَا يُفْلِتُ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ ولَا يَهْلِكُ مِنْكُمْ عَشَرَةٌ.

جسے ظالم تمہارے بارے میں اپنی سنت بنالیں گے یعنی ہر چیز کو اپنے لئے مخصوص کرلینا۔

سید رضی : حضرت کا ارشاد 'لا بقی منکم آبر'' تین طریقوں سے نقل کیا گیا ہے:

آبر: وہ شخص جو درخت خرمہ کو کانٹ چھانٹ کر اس کی اصلاح کرتا ہے۔

آثر: روایت کرنے والا۔یعنی تمہاری خبر دینے والا بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔اوریہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

آبر: کودنے والا یا ہلاک ہونے والا کہ مزید ہلاکت کے لئے بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔

(۵۹)

آپ نے اس وقت ارشاد فرمایا

جب آپ نے خوارج سے جنگ کا عزم کرلیا اور نہر وان کے پل کو پار کرلیا

یادرکھو(۱) !دشمنوں کی قتل گاہ دریا کے اس طرف ہے۔خدا کی قسم نہ ان میں کے دس باقی بچیں گے اور نہ تمہارے دس ہلاک ہو سکیں گے ۔

(۱)جب امیر المومنین کو یہ خبردی گئی کہ خوارج نے سارے ملک میں فساد پھیلانا شروع کردیا ہے ۔جناب عبداللہ بن خباب بن الارت کو ان کے گھر کی عورتوں سمیت قتل کردیا ہے اور لوگوں میں مسلسل دہشت پھیلا رہے ہیں تو آپ نے ایک شخص کو سمجھانے کے لئے بھیجا۔ان ظالموں نے اسے بھی قتل کردیا۔اس کے بعد جب حضرت عبداللہ بن خباب کے قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو صاف کہہ دیا کہ ہم سب قاتل ہیں۔اس کے بعد حضرت نے بنفس نفیس توبہ کی دعوت دی لیکن ان لوگوں نے اسے بھی ٹھکرادیا۔آخر ایک دن وہ آگیا جب لوگ ایک لاش کو لے کرآئے اور سوال کیا کہ سرکار اب فرمائیں اب کیا حکم ہے؟ تو آپ نے نعرہ تکبیر بلندکرکے جہاد کا حکم دے دیا اور پروردگار کے دئیے ہوئے علم غیب کی بناپر انجام کار سے بھی با خبر کردیا جو بقول ابن الحدید صد فیصد صحیح ثابت ہوا اور خوارج کے صرف نو افراد بچے اور حضرت کے ساتھیوں میں صرف آٹھ افراد شہید ہوئے۔

۹۱

قال الشريف يعني بالنطفة ماء النهر - وهي أفصح كناية عن الماء وإن كان كثيرا جما - وقد أشرنا إلى ذلك فيما تقدم عند مضي ما أشبهه.

(۶۰)

وقالعليه‌السلام

لما قتل الخوارج فقيل له يا أمير المؤمنين هلك القوم بأجمعهم

كَلَّا واللَّه إِنَّهُمْ نُطَفٌ فِي أَصْلَابِ الرِّجَالِ وقَرَارَاتِ النِّسَاءِ،كُلَّمَا نَجَمَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ - حَتَّى يَكُونَ آخِرُهُمْ لُصُوصاً سَلَّابِينَ.

(۶۱)

وقالعليه‌السلام

لَا تُقَاتِلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِي - فَلَيْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَأَخْطَأَه - كَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَأَدْرَكَه.

قال الشريف - يعني معاوية وأصحابه.

(۶۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما خوف من الغيلة

وإِنَّ عَلَيَّ مِنَ اللَّه جُنَّةً حَصِينَةً -.

سید رضی : نطفہ سے مراد نہر کا شفاف پانی ہے۔جو بہترین کنایہ ہے پانی کے بارے میں چاہے اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو

(۶۰)

آپ نے فرمایا

(اس وقت جب خوارج کے قتل کے بعد لوگوں نے کہا کہ اب تو قوم کاخاتمہ ہوچکا ہے)

ہرگز نہیں۔خدا گواہ ہے کہ یہ ابھی مردوں کے صلب اورعورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں کوئی سر نکالے گا اسے کاٹ دیا جائے گا۔یہاں تک کہ آخرمیں صرف لٹیرے اورچور ہو کر رہ جائیں گے۔

(۶۱)

آپ نے فرمایا

خبر دار میرے بعد خروج کرنے والوں سے جنگ نہ کرنا کہ حق کی طلب میں نکل کر بہک جانے والا اس کا جیسا نہیں ہوتا ہے جو باطل کی تلاش میں نکلے اورحاصل بھی کرلے۔

سید شریف رضی نے فرمایا : یعنی معاویہ اور اس کے پیروکار

(۶۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو اچانک قتل سے ڈرایا گیا )

یاد رکھو میرے لئے خداکی طرف سے ایک مضبوط و مستحکم سپر ہے

۹۲

فَإِذَا جَاءَ يَوْمِي انْفَرَجَتْ عَنِّي وأَسْلَمَتْنِي - فَحِينَئِذٍ لَا يَطِيشُ السَّهْمُ ولَا يَبْرَأُ الْكَلْمُ

(۶۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحذر من فتنة الدنيا

أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا دَارٌ لَا يُسْلَمُ مِنْهَا إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنْجَى بِشَيْءٍ كَانَ لَهَا - ابْتُلِيَ النَّاسُ بِهَا فِتْنَةً - فَمَا أَخَذُوه مِنْهَا لَهَا أُخْرِجُوا مِنْه وحُوسِبُوا عَلَيْه - ومَا أَخَذُوه مِنْهَا لِغَيْرِهَا قَدِمُوا عَلَيْه وأَقَامُوا فِيه - فَإِنَّهَا عِنْدَ ذَوِي الْعُقُولِ كَفَيْءِ الظِّلِّ - بَيْنَا تَرَاه سَابِغاً حَتَّى قَلَصَ وزَائِداً حَتَّى نَقَصَ.

(۶۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في المبادرة إلى صالح الأعمال

فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه وبَادِرُوا آجَالَكُمْ بِأَعْمَالِكُمْ وابْتَاعُوا

اس کے بعد جب میرا دن آجائے گا تو یہ سپر مجھ سے الگ ہوجائےگااور مجھے موت کے حوالے کردے گا۔اس وقت نہ تیر خطاکرےگا اورنہ زخم مندمل ہو سکے گا

(۶۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا کے فتنوں سے ڈرایا گیا ہے)

آگاہ ہوجائو کہ یہ دنیا ایساگھر ہےجس سےسلامتی کاسامان اسی کےاندرسےکیاجاسکتا ہےاورکوئی ایسی شےوسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہےجو دنیا ہی کےلئے ہولوگ اس دنیاکے ذریعہ آزمائےجاتے ہیں جولوگ دنیاکاسامان دنیا ہی کےلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسےچھوڑکرچلےجاتےہیں اورپھرحساب بھی دینا ہوتا ہےاورجولوگ یہاں سےوہاں کےلئےحاصل کرتےہیں وہ وہاں جاکرپالیتےہیں اوراسی میں مقیم ہو جاتے ہیں۔یہ دنیا درحقیقت صاحبان عقل کی نظرمیں ایک سایہ جیسی ہے جودیکھتے دیکھتےسمٹ جاتا ہے اورپھیلتے پھیلتے کم ہو جاتا ہے۔

(۶۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(نیک اعمال کی طرف سبقت کے بارے میں )

بندگان خدا! اللہ سے ڈرو اور اعمال کے ساتھ اجل(۱) کی طرف سبقت کرو۔اس دنیا کے فانی مال کے

(۱)انسان کے قدم موت کی طرف بلا اختیاربڑھتے جا رہے ہیں اور اسے اس امر کا احساس ا بھی نہیں ہوتا ہے نتیجہ یہ ہتا ہے کہ ایک دن موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور دائمی خسارہ اورعذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے لہٰذا تقاضائے عقل و دانش یہی ہے کہ اعمال کو ساتھ لے کر آگے بڑھے گاتا کہ جب موت کا سامانا ہوتواعمال کا سہارا رہے اورعذاب الیم سے نجات حاصل کرنے کا وسیلہ ہاتھ میں رہے۔

۹۳

مَا يَبْقَى لَكُمْ بِمَا يَزُولُ عَنْكُمْ وتَرَحَّلُوا فَقَدْ جُدَّ بِكُمْ واسْتَعِدُّوا لِلْمَوْتِ فَقَدْ أَظَلَّكُمْ وكُونُوا قَوْماً صِيحَ بِهِمْ فَانْتَبَهُوا - وعَلِمُوا أَنَّ الدُّنْيَا لَيْسَتْ لَهُمْ بِدَارٍ فَاسْتَبْدَلُوا - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يَتْرُكْكُمْ سُدًى ومَا بَيْنَ أَحَدِكُمْ وبَيْنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ - إِلَّا الْمَوْتُ أَنْ يَنْزِلَ بِه - وإِنَّ غَايَةً تَنْقُصُهَا اللَّحْظَةُ وتَهْدِمُهَا السَّاعَةُ - لَجَدِيرَةٌ بِقِصَرِ الْمُدَّةِ - وإِنَّ غَائِباً يَحْدُوه الْجَدِيدَانِ - اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَحَرِيٌّ بِسُرْعَةِ الأَوْبَةِ وإِنَّ قَادِماً يَقْدُمُ بِالْفَوْزِ أَوِ الشِّقْوَةِ - لَمُسْتَحِقٌّ لأَفْضَلِ الْعُدَّةِ - فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا - مَا تَحْرُزُونَ بِه أَنْفُسَكُمْ غَداً فَاتَّقَى عَبْدٌ رَبَّه نَصَحَ نَفْسَه وقَدَّمَ تَوْبَتَه وغَلَبَ شَهْوَتَه - فَإِنَّ أَجَلَه مَسْتُورٌ عَنْه وأَمَلَه خَادِعٌ لَه - والشَّيْطَانُ مُوَكَّلٌ بِه يُزَيِّنُ لَه الْمَعْصِيَةَ لِيَرْكَبَهَا - ويُمَنِّيه التَّوْبَةَ لِيُسَوِّفَهَا

ذریعہ باقی رہنے والی آخرت کو خرید لو اور یہاں سے کوچ کر جائو کہ تمہیں تیزی سے لیجا یا جا رہا ہے اور موت کے لئے آمادہ ہوجائو کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے اس قوم جیسے ہو جائو جیسے پکارا گیا تو فورا ہوشیار ہوگئی۔اوراس نے جان لیا کہ دنیا اس کی منزل نہیں ہے تو اسے آخرت سے بدل لیا۔اس لئے کہ پروردگار نے تمہیں بیکارنہیں پیداکیا اور نہ مہمل چھوڑ دیا ہے اور یاد رکھو کہ تمہارے اور جنت و جہنم کے درمیان اتنا ہی وقفہ ہے کہ موت نازل ہو جائے اور انجام سامنے آجائے اور وہ مدت حیات جیسے ہر لحظہ کم کر رہا ہو اور ہر ساعت اس کی عمارت کو منہدم کر رہی ہو وہ قصیر المدة ہی سمجھنے کا لائق ہے اور وہ موت جسے دن و رات ڈھکیل کر آگے لا رہے ہوں اسے بہت جلد آنے والا ہی خیال کرنا چاہیے اور وہ شخص جس کے سامنے کامیابی یا ناکامی اوربد بختی آنے والی ہے اسے بہترین سامان مہیا ہی کرنا چاہیے۔لہٰذا تم دنیا میں رہ کر دنیا سے زاد راہ حاصل کر لو جس سے کل اپنے نفس کاتحفظ کرس کو۔اس کا راستہ یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے ڈرے۔اپنے نفس سے اخلاص رکھتے ' توبہ کو مقدم کرے۔خواہشات پر غلبہ حاصل کرے اس لئے کہ اس کی اجل اس سے پوشیدہ ہے اور اس کی خواہش اسے مسلسل دھوکہ دینے والی ہے اور شیطان اس کے سر پر سوار ہے جو معصیتوں کو آراستہ کر رہا ہے تاکہ انسان مرتکب ہو جائے اور توبہ کی امیدیں دلاتا ہے تاکہ اس میں تاخیر کرے یہاں تک کہ غفلت اور بے خبری کے عالم میں موت اس پر

۹۴

إِذَا هَجَمَتْ مَنِيَّتُه عَلَيْه أَغْفَلَ مَا يَكُونُ عَنْهَا - فَيَا لَهَا حَسْرَةً عَلَى كُلِّ ذِي غَفْلَةٍ أَنْ يَكُونَ عُمُرُه عَلَيْه حُجَّةً - وأَنْ تُؤَدِّيَه أَيَّامُه إِلَى الشِّقْوَةِ - نَسْأَلُ اللَّه سُبْحَانَه - أَنْ يَجْعَلَنَا وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ لَا تُبْطِرُه نِعْمَةٌ ولَا تُقَصِّرُ بِه عَنْ طَاعَةِ رَبِّه غَايَةٌ - ولَا تَحُلُّ بِه بَعْدَ الْمَوْتِ نَدَامَةٌ ولَا كَآبَةٌ.

(۶۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها مباحث لطيفة من العلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ تَسْبِقْ لَه حَالٌ حَالًا - فَيَكُونَ أَوَّلًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ آخِراً - ويَكُونَ ظَاهِراً قَبْلَ أَنْ يَكُونَ بَاطِناً - كُلُّ مُسَمًّى بِالْوَحْدَةِ غَيْرَه قَلِيلٌ - وكُلُّ عَزِيزٍ غَيْرَه ذَلِيلٌ وكُلُّ قَوِيٍّ غَيْرَه ضَعِيفٌ - وكُلُّ مَالِكٍ غَيْرَه مَمْلُوكٌ وكُلُّ عَالِمٍ غَيْرَه مُتَعَلِّمٌ - وكُلُّ قَادِرٍ غَيْرَه يَقْدِرُ ويَعْجَزُ - وكُلُّ سَمِيعٍ غَيْرَه يَصَمُّ

حملہ آور ہوجاتی ہے۔ ہائے کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ انسان کی عمر ہی اس کے خلاف حجت بن جائے اور اس کا روز گار ہی اسے بدبختی تک پہنچادے۔پروردگار سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں قرار دے جنہیں نعمتیں مغرور نہیں بناتی ہیں اور کوئی مقصد اطاعت خدا میں کوتاہی پرآمادہ نہیں کرتا ہے اور موت کے بعد ان پر ندامت اور رنج و غم کا نزول نہیں ہوتا ہے۔

(۶۵)

(جس میں علم الٰہی کے لطیف ترین مباحث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)

تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس کے صفات میں تقدم(۱) و تاخرنہیں ہوتا ہے کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اول رہا ہو اور باطن بننے سے پہلے ظاہر رہا ہو۔اس کے علاوہ جسے بھی واحد کہا جاتا ہے اس کی وحدت قلت ہے اور جسے بھی عزیز سمجھا جاتا ہے ہے اس کی عزت ذلت ہے۔اس کے سامنے ہر قوی ضعیف ہے اور ہر مالک مملوک ہے' ہر عالم متعلم ہے اور ہر قادر عاجز ہے' ہر سننے والا لطیف آوازوں کے لئے بہرہ ہے اور اونچی آوازیں بھی اسے بہرہ بنا دیتی ہیں

(۱)یہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار کے صفات کمال عین ذات ہیں اور ذات سے الگ کوئی شے نہیں ہیں۔وہ علم کی وجہ سے عالم نہیں ہے۔بلکہ عین حقیقت علم ہے اور قدرت کے ذریعہ قادر نہیں ہے بلکہ عین قدرت کاملہ ہے اور جب یہ سارے صفات عین ذات ہیں تو ان میں تقدم و تاخر کا کوئی سوال ہی نہیں ہے وہ جس لحظہ اول ہے اسی لحظہ آخر بھی ہے اور جس اندازسے ظاہر ہے اسی اندازسے باطن بھی ہے۔اس کی ذات اقدس میں کسی طرح کا تغیر قابل تصور نہیں ہے حدیہ ہے کہ اس کی سماعت و بصارت بھی مخلوقات کی سماعت و بصارت سے بالکل الگ ہے۔دنیا کا ہر سمیع و بصیر کسی شے کو دیکھتا اور سنتا ہے اور کسی شے کے دیکھنے اورسننے سے قاصر رہتا ہے لیکن پروردگار کی ذات اقدس ایسی نہیں ہے وہ مخفی ترین مناظر ک دیکھ رہا ہے اور لطیف ترین آوازوں کو سن رہا ہے ۔وہ ایسا ظاہر ہے جو باطن نہیں ہے اور ایسا باطن ہے جو کسی عقل و فہم پرظاہر نہیں ہو سکتا ہے۔!

۹۵

عَنْ لَطِيفِ الأَصْوَاتِ - ويُصِمُّه كَبِيرُهَا ويَذْهَبُ عَنْه مَا بَعُدَ مِنْهَا - وكُلُّ بَصِيرٍ غَيْرَه يَعْمَى عَنْ خَفِيِّ الأَلْوَانِ ولَطِيفِ الأَجْسَامِ - وكُلُّ ظَاهِرٍ غَيْرَه بَاطِنٌ وكُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَه غَيْرُ ظَاهِرٍ - لَمْ يَخْلُقْ مَا خَلَقَه لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ - ولَا تَخَوُّفٍ مِنْ عَوَاقِبِ زَمَانٍ - ولَا اسْتِعَانَةٍ عَلَى نِدٍّ مُثَاوِرٍ ولَا شَرِيكٍ مُكَاثِرٍ ولَا ضِدٍّ مُنَافِرٍ ولَكِنْ خَلَائِقُ مَرْبُوبُونَ وعِبَادٌ دَاخِرُونَلَمْ يَحْلُلْ فِي الأَشْيَاءِ فَيُقَالَ هُوَ كَائِنٌ - ولَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ لَمْ يَؤُدْه خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ - ولَا تَدْبِيرُ مَا ذَرَأَ ولَا وَقَفَ بِه عَجْزٌ عَمَّا خَلَقَ - ولَا وَلَجَتْ عَلَيْه شُبْهَةٌ فِيمَا قَضَى وقَدَّرَ - بَلْ قَضَاءٌ مُتْقَنٌ وعِلْمٌ مُحْكَمٌ - وأَمْرٌ مُبْرَمٌ الْمَأْمُولُ مَعَ النِّقَمِ - الْمَرْهُوبُ مَعَ النِّعَمِ!

اور دور کی آوازیں بھی اس کی حد سے باہر نکل جاتی ہیں اور اس طرح اس کے علاوہ ہر دیکھنے والا مخفی رنگ اور لطیف جسم کو نہیں دیکھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہر ظاہر غیر باطن ہے اور ہر باطن غیر ظاہر ۔اس نے مخلوقات کو اپنی حکومت کے استحکام یا زمانہ کے نتائج کے خوف سے نہیں پیدا کیا ہے۔نہ اسے کسی برابر والے حملہ آور یا صاحب کثرت شریک یا ٹکرانیوالے مد مقابل کے مقابلہ میں مدد لینا تھی۔ یہ ساری مخلوق اسی کی پیدا کی ہوئی اورپالی ہوئی ہے اور یہ سارے بندے اسی کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔اس نے اشیاء میں حلول نہیں کیا ہے کہ اسے کسی کے اندر سمایا ہوا کہا جائے اور نہ اتنا دور ہوگیا ہے کہ الگ تھلگ خیال کیا جائے۔مخلوقات کی خلقت اورمصنوعات کی تدبیر اسے تھکا نہیں سکتی ہے اور نہ کوئی تخلیق اسے عاجز بنا سکتی ہے اور نہ کسی قضاو قدر میں اسے کوئی شبہ پیدا ہو سکتا ہے۔اس کا ہر فیصلہ محکم اوراس کا ہر علم متقن اور اس کا ہر حکم مستحکم ہے۔ناراضگی میں بھی اس سے امید وابستہ کی جاتی ہے اورنعمتوں میں بھی اس کا خوف لاحق رہتا ہے۔

۹۶

(۶۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في تعليم الحرب والمقاتلة

والمشهور أنه قاله لأصحابه ليلة الهرير أو أول اللقاء بصفين

مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ اسْتَشْعِرُوا الْخَشْيَةَ وتَجَلْبَبُوا السَّكِينَةَ وعَضُّوا عَلَى النَّوَاجِذِ فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ وأَكْمِلُوا اللأْمَةَ وقَلْقِلُوا السُّيُوفَ فِي أَغْمَادِهَا قَبْلَ سَلِّهَا - والْحَظُوا الْخَزْرَ واطْعُنُوا الشَّزْرَ ونَافِحُوا بِالظُّبَى وصِلُوا السُّيُوفَ بِالْخُطَا واعْلَمُوا أَنَّكُمْ بِعَيْنِ اللَّه ومَعَ ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللَّه - فَعَاوِدُوا الْكَرَّ واسْتَحْيُوا مِنَ الْفَرِّ فَإِنَّه عَارٌ فِي الأَعْقَابِ ونَارٌ يَوْمَ الْحِسَابِ - وطِيبُوا عَنْ أَنْفُسِكُمْ نَفْساً - وامْشُوا إِلَى الْمَوْتِ مَشْياً سُجُحاً وعَلَيْكُمْ بِهَذَا السَّوَادِ الأَعْظَمِ والرِّوَاقِ الْمُطَنَّبِ فَاضْرِبُوا ثَبَجَه فَإِنَّ الشَّيْطَانَ كَامِنٌ فِي كِسْرِه

(۶۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(تعلیم جنگ کے بارے میں )

مسلمانو!خوف(۱) خداکو اپنا شعار بنائو۔سکون و وقار کی چادر اوڑھ لو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سروں سے اچٹ جاتی ہیں۔زرہ پوشی کو مکمل کرلو۔تلواروں کو نیام سے نکالنے سے پہلے نیام کے اندرحرکت دے لو۔دشمن کو ترچھی نظر سے دیکھتے رہو اور نیزوں سے دونوں طرف وار کرتے رہو۔اسے اپنی تلواروں کی باڑھ پر رکھو اور تلواروں کے حملے قدم آگے بڑھا کرکرو اوریہ یاد رکھو کہ تم پروردگار کی نگا ہ میں اور رسول اکرم (ص) کے ابن عم کے ساتھ ہو ۔دشمن پر مسلسل حملے کرتے رہو اور فرار سے شرم کرو کہ اس کا عار نسلوں میں رہ جاتا ہے اوراس کا انجام جہنم ہوتا ہے۔اپنے نفس کو ہنسی خوشی خدا کے حوالے کردو اور موت کی طرف نہایت درجہ سکون و اطمینان سے قدم آگے بڑھائو۔تمہارا نشانہ ایک دشمن کا عظیم لشکراورطناب دار خیمہ ہونا چاہیے کہ اسی کے وسط پرحملہ کرو کہ شیطان اسی کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا

(۱)ان تعلیمات پرسنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ایک مرد مسلم کے جہاد کا انداز کیا ہونا چاہیے اوراسے دشمن کے مقابلہ میں کس طرح جنگ آزما ہونا چاہیے۔ان تعلیمات کا مختصرخلاصہ یہ ہے:۔ ۱۔دل کے اندر خوف خدا ہو'۲۔باہر سکون و اطمینان کا مظاہر ہو' ۳۔دانتوں کو بھینچ لیا جائے'۴۔آلات جنگ کو مکمل طورپر ساتھ رکھا جائے' ۵۔تلوار کو نیام کے اندرحرکت دے لی جائے کہ بر وقت نکالنے میں زحمت نہ ہو'۶۔دشمن پر غیط آلود نگاہ کی جائے ' ۷۔نیزوں کے حملے ہر طرف ہوں'۸۔تلوار دشمن کے سامنے رہے '۹۔تلوار دشمن تک نہ پہنچے توقدم بڑھاکرحملہ کرے' ۱۰۔فرار کا ارادہ نہ کرے ' ۱۱۔موت کی طرف سکون کے ساتھ قدم بڑھائے'۱۲۔جان جان آفریں کے حوالے کردے' ۱۳۔ہدف اورنشانہ پرنگاہ رکھے '۱۴۔یہ اطمینان رکھے کہ خدا ہمارے اعمال کودیکھ رہا ہے اور پیغمبر (ص) کا بھائی ہماری نگاہ کے سامنے ہے۔

ظاہر ہے کہ ان آداب میں بعض آداب ' تقویٰ ' ایمان وغیرہ دائمی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض کا تعلق نیزہ و شمشیر کے دور سے ہے لیکن اسے بھی ہردور کے آلات حرب و ضرب پرمنطبق کیاجاسکتا ہے اور اس سے فادئہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

۹۷

وقَدْ قَدَّمَ لِلْوَثْبَةِ يَداً وأَخَّرَ لِلنُّكُوصِ رِجْلًا - فَصَمْداً صَمْداً حَتَّى يَنْجَلِيَ لَكُمْ عَمُودُ الْحَقِّ –( وأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ والله مَعَكُمْ ولَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ )

(۶۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قالوا لما انتهت إلى أمير المؤمنينعليه‌السلام أنباء السقيفة بعد وفاة رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالعليه‌السلام :ما قالت الأنصار قالوا قالت منا أمير ومنكم أمير قالعليه‌السلام :

فَهَلَّا احْتَجَجْتُمْ عَلَيْهِمْ - بِأَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَصَّى بِأَنْ يُحْسَنَ إِلَى مُحْسِنِهِمْ - ويُتَجَاوَزَ عَنْ مُسِيئِهِمْ؟

قَالُوا ومَا فِي هَذَا مِنَ الْحُجَّةِ عَلَيْهِمْ؟

ہے۔اس کا حال یہ ہے کہ اس نے ایک قدم حملہ کے لئے آگے بڑھا رکھا ہے۔اور ایک بھاگنے کے لئے پیچھے کر رکھا ہے لہٰذا تم مضبوطی سے اپنے ارادہ پرجمے رہو یہاں تک کہ حق صبح کے اجالے کی طرح واضح ہو جائے اور مطمئن ہو کر بلندی تمہارا حصہ ہے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کر سکتا ہے۔

(۶۷)

آپ کا ارشاد گرامی

جب رسول اکرم (ص)کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ(۱) کی خبریں پہنچیں اور آپ نے پوچھا کہ انصار نے کیا احتجاج کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہمارا ہوگا اور ایک تمہارا۔تو آپ نے فرمایا:۔

تم لوگوں نے ان کے خلاف یہ استدلال کیوں نہیں کیا کہ رسول اکرم (ص) نے تمہارے نیک کرداروں کے ساتھ حسن سلوک اور خطا کاروں سے در گزر کرنے کی وصیت فرمائی ہے ؟

لوگوں نے کہا کہ اس میں کیا استد لال ہے؟

(۱)استاد احمد حسن یعقوب نے کتاب نظریہ عدالت صحابہ میں ایک مفصل بحث کی ہے کہ سقیفہ میں کوئی قانونی اجتماع انتخاب خلیفہ کے لئے نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی اس کا ایجنڈہ تھا اورنہ سوا لاکھ صحابہ کی بستی میں سے دس بیس ہزار افراد جمع ہوئے تھے بلکہ سعد بن عبادہ کی بیماری کی بناپر انصارعیادت کے لئے جمع ہوئے تھے اوربعض مہاجرین نے اس اجتماع کودیکھ کر یہ محسوس کیا کہ کہیں خلافت کا فیصلہ نہ ہوجائے' تو بر وقت پہنچ کر اس قدر ہنگامہ کیا کہ انصار میں پھوٹ پڑ گئی اور فی الفور حضرت ابو بکر کی خلافت کا اعلان کردیا اور ساری کاروائی لمحوں میں یوں مکمل ہوگئی کہ سعد بن عبادہ کو پامال کردیا گیا اور حضرت ابو بکر ''تاج خلافت ''سر پر رکھے ہوئے سقیفہ سے برآمد ہوگئے۔اس شان سے کہ اس عظیم مہم کی بنا پرجنازۂ رسول میں شرکت سے بھی محروم ہوگئے اورخلافت کا پہلا اثر سامنے آگیا۔

۹۸

فَقَالَعليه‌السلام :

لَوْ كَانَ الإِمَامَةُ فِيهِمْ لَمْ تَكُنِ الْوَصِيَّةُ بِهِمْ.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام :

فَمَا ذَا قَالَتْ قُرَيْشٌ - قَالُوا احْتَجَّتْ بِأَنَّهَا شَجَرَةُ الرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَقَالَعليه‌السلام احْتَجُّوا بِالشَّجَرَةِ وأَضَاعُوا الثَّمَرَةَ.

(۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما قلد محمد بن أبي بكر مصر فملكت عليه وقتل

وقَدْ أَرَدْتُ تَوْلِيَةَ مِصْرَ هَاشِمَ بْنَ عُتْبَةَ - ولَوْ وَلَّيْتُه إِيَّاهَا لَمَّا خَلَّى لَهُمُ الْعَرْصَةَولَا أَنْهَزَهُمُ الْفُرْصَةَ بِلَا ذَمٍّ لِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ - فَلَقَدْ كَانَ إِلَيَّ حَبِيباً وكَانَ لِي رَبِيباً.

فرمایاکہ اگر امارت ان کا حصہ ہوتی تو ان سے وصیت کی جاتی نہ کہ ان کے بارے میں وصیت کی جاتی ۔اس کے بعد آپ نے سوال کیا کہ قریش کی دلیل کیا تھی؟ لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے کو رسول اکرم (ص) کے شجرہ میں ثابت کر رہے تھے۔فرمایا کہ افسوس شجرہ سے استدلال کیا اورثمرہ کو ضائع کردیا

(۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے محمدبن ابی بکر کو مصر کی ذمہ داری حوالہ کی اور انہیں قتل کردیا گیا)

میرا ارادہ تھا کہ مصر کاحاکم ہاشم بن(۱) عتبہ کو بنائوں اور اگر انہیں بنا دیتا تو ہرگزمیدان کو مخالفین کے لئے خالی نہ چھوڑتے اور انہیں موقع سے فائدہ نہ اٹھانے دیتے ( لیکن حالات نے ایسا نہ کرنے دیا)

اس بیان کا مقصد محمد بن ابی بکر کی مذمت نہیں ہے اس لئے کہ وہ مجھے عزیز تھا اور میرا ہی پروردہ(۲) تھا۔

(۱)ہاشم بن عتبہ صفین میں عملدارلشکر امیر المومنین تھے۔مرقال ان کا لقب تھا کہ نہایت تیز رفتاری اورچابکدستی سے حملہ کرتے تھے۔

(۲)محمد بن ابی بکر اسما بنت عمیس کے بطن سے تھے۔جو پہلے جناب جعفر طیارکی زوجہ تھیں اور ان سے عبداللہ بن جعفر پیدا ہوئے تھے اس کے بعد ان کی شہادت کے بعد ابو بکر کی زوجیت میں آگئیں جن سے محمد پیدا ہوئے اور ان کی وفات کے بعد مولائے کائنات کی زوجیت میں آئیں اور محمد نے آپ کے زیر اثر تربیت پائی یہ اوربات ہے کہ جب عمرو عاص نے چار ہزار کے لشکرکے ساتھ مصر پرحملہ کیا تو اپنے آبائی اصول جنگ کی بنا پرمیدان سے فرار اختیار کیا اور بالآخر قتل ہوگئے اورلاش کو گدھے کی کھال میں رکھ کرجلا دیا گیا یا بروایتے زندہ ہی جلادئیے گئے اور معاویہ نے اس خبرکوسن کر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ (مروج الذہب)

امیر المومنین نے اس موقع پر ہاشم کو اسی لئے یاد کیاتھا کہ وہ میدان سے فرار نہ کر سکتے تھے اور کسی گھر کے اندر پناہ لینے کا ارادہ بھی نہیں کر سکتے تھے ۔

۹۹

(۶۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في توبيخ بعض أصحابه

كَمْ أُدَارِيكُمْ كَمَا تُدَارَى الْبِكَارُ الْعَمِدَةُ والثِّيَابُ الْمُتَدَاعِيَةُ !كُلَّمَا حِيصَتْ مِنْ جَانِبٍ تَهَتَّكَتْ مِنْ آخَرَ - كُلَّمَا أَطَلَّ عَلَيْكُمْ مَنْسِرٌ مِنْ مَنَاسِرِ أَهْلِ الشَّامِ - أَغْلَقَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بَابَه - وانْجَحَرَ انْجِحَارَ الضَّبَّةِ فِي جُحْرِهَا والضَّبُعِ فِي وِجَارِهَا الذَّلِيلُ واللَّه مَنْ نَصَرْتُمُوه - ومَنْ رُمِيَ بِكُمْ فَقَدْ رُمِيَ بِأَفْوَقَ نَاصِلٍ إِنَّكُمْ واللَّه لَكَثِيرٌ فِي الْبَاحَاتِ قَلِيلٌ تَحْتَ الرَّايَاتِ - وإِنِّي لَعَالِمٌ بِمَا يُصْلِحُكُمْ ويُقِيمُ أَوَدَكُمْ ولَكِنِّي لَا أَرَى إِصْلَاحَكُمْ بِإِفْسَادِ نَفْسِي - أَضْرَعَ اللَّه خُدُودَكُمْ وأَتْعَسَ جُدُودَكُمْ لَا تَعْرِفُونَ الْحَقَّ كَمَعْرِفَتِكُمُ الْبَاطِلَ - ولَا تُبْطِلُونَ الْبَاطِلَ كَإِبْطَالِكُمُ الْحَقَّ!

(۶۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو سر زنش کرتے ہوئے)

کب تک میں تمہارے ساتھ وہ نرمی کا برتائو کروں جو بیمار اونٹ کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کا کوہان اندر سے کھوکھلا ہوگیا ہو یا اس بوسیدہ کپڑے کے ساتھ کیا جاتا ہے جسے ایک طرف سے سیا جائے تو دوسری طرف سے پھٹ جاتا ہے۔ جب بھی شام کا کوئی دستہ تمہارے کسی دستہ کے سامنے آتا ہے تو تم میں س ے ہر شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیتاہے اور اس طرح چھپ جاتا ہے جیسے سوراخ میں گوہ یا بھٹ میں بجو۔ خدا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مدد گار ہوں گے اور جو تمہارے ذریعہ تیر اندازی کرے گا گویا وہ سو فار شکستہ اورپیکان نداشتہ تیرے نشانہ لگائے گا۔خدا کی قسم تم صحن خانہ میں بہت دکھائی دیتے ہواور پرچم لشکرکے زیر سایہ بہت کم نظرآتے ہو۔میں تمہاری اصلاح کا طریقہ جانتا ہوں اور تمہیں سیدھا کر سکتا ہوں لیکن کیا کروں اپنے دین کو برباد کرکے تمہاری اصلاح نہیں کرنا چاہتا ہوں۔خدا تمہارے چہروں کو ذلیل کرے اور تمہارے نصیب کو بد نصیب کرے۔تم حق کو اس طرح نہیں پہچانتے ہو جس طرح باطل کی معرفت رکھتے ہو اور باطل کو اس طرح باطل نہیں قراردیتے ہو جس طرح حق کو غلط ٹھہراتے ہو۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

وآيَةً مُحْكَمَةً تَزْجُرُ عَنْه أَوْ تَدْعُو إِلَيْه - فَرِضَاه فِيمَا بَقِيَ وَاحِدٌ وسَخَطُه فِيمَا بَقِيَ وَاحِدٌ - واعْلَمُوا أَنَّه لَنْ يَرْضَى عَنْكُمْ بِشَيْءٍ سَخِطَه - عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - ولَنْ يَسْخَطَ عَلَيْكُمْ بِشَيْءٍ رَضِيَه مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - وإِنَّمَا تَسِيرُونَ فِي أَثَرٍ بَيِّنٍ - وتَتَكَلَّمُونَ بِرَجْعِ قَوْلٍ قَدْ قَالَه الرِّجَالُ مِنْ قَبْلِكُمْ - قَدْ كَفَاكُمْ مَئُونَةَ دُنْيَاكُمْ وحَثَّكُمْ عَلَى الشُّكْرِ - وافْتَرَضَ مِنْ أَلْسِنَتِكُمُ الذِّكْرَ.

الوصية بالتقوى

وأَوْصَاكُمْ بِالتَّقْوَى - وجَعَلَهَا مُنْتَهَى رِضَاه وحَاجَتَه مِنْ خَلْقِه - فَاتَّقُوا اللَّه الَّذِي أَنْتُمْ بِعَيْنِه ونَوَاصِيكُمْ بِيَدِه - وتَقَلُّبُكُمْ فِي قَبْضَتِه - إِنْ أَسْرَرْتُمْ عَلِمَه وإِنْ أَعْلَنْتُمْ كَتَبَه - قَدْ وَكَّلَ بِذَلِكَ حَفَظَةً كِرَاماً لَا يُسْقِطُونَ حَقّاً ولَا يُثْبِتُونَ بَاطِلًا - واعْلَمُوا أَنَّه( مَنْ يَتَّقِ الله يَجْعَلْ لَه مَخْرَجاً ) مِنَ الْفِتَنِ - ونُوراً مِنَ الظُّلَمِ ويُخَلِّدْه فِيمَا اشْتَهَتْ نَفْسُه - ويُنْزِلْه مَنْزِلَ الْكَرَامَةِ

ہو یا کوئی محکم آیت نہ نازل کردی ہو جس کے ذریعہ روکا جائے یا دعوت دی جائے۔اس کی رضا اورناراضگی مستقبل میں بھی ویسی ہی رہے گی جس طرح وقت نزول تھی ۔اور یہ یاد رکھو کہ وہ تم سے کسی ایسی بات پر راضی نہ ہوگا جس پر پہلے والوں سے ناراض ہو چکا ہے اور نہ کسی ایسی بات سے ناراض ہو گا جس پر پہلے والوں سے راضی رہ چکا ہے تم بالکل واضح نشان قدم پر چل رہے ہو اور انہیں باتوں کو دہرا رہے ہو جو پہلے والے کہہ چکے ہیں۔اس نے تمہیں دنیا کی زحمتوں سے بچا لیا ہے اور تمہیں شکر پرآمادہ کیا ہے اور تمہاری زبانوں سے ذکر کامطالبہ کیا ہے۔

تمہیں تقویٰ کی نصیحت کی ہے اور اسے اپنی مرضی کی حد آخر قراردیا ہے اور یہی مخلوقات سے اس کا مطالبہ ہے لہٰذا اس سے ڈرو جس کی نگاہ کے سامنے ہو اور جس کے ہاتھوں میں تمہاری پیشانی ہے اور جس کے قبضہ قدرت میں کروٹیں بدل رہے ہو کہ اگر کسی بات پر پردہ ڈالنا چاہو تو وہ جانتا ہے اور اگر اعلان کرنا چاہو تو وہ لکھ لیتا ہے اورتمہارے اوپر محترم کاتب اعمال مقرر کردئیے ہیں جو کسی حق کو ساقط نہیں کر سکتے ہیں اور کسی باطل کوثبت نہیں کر سکتے ہیں اوری ادرکھو کہ جو شخص بھی تقویٰ الٰہی اخیار کرتا ہے پروردگار اس کے لئے فتنوں سے باہر نکل جانے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے تاریکیوں میں نور عطا کر دیتا ہے اسے نفس کے تمام مطالبات کے درمیان دائمی زندگی عطا کر تا ہے اور کرامت کی منزل میں نازل کرتا

۳۴۱

عِنْدَه فِي دَارٍ اصْطَنَعَهَا لِنَفْسِه - ظِلُّهَا عَرْشُه ونُورُهَا بَهْجَتُه - وزُوَّارُهَا مَلَائِكَتُه ورُفَقَاؤُهَا رُسُلُه - فَبَادِرُوا الْمَعَادَ وسَابِقُوا الآجَالَ - فَإِنَّ النَّاسَ يُوشِكُ أَنْ يَنْقَطِعَ بِهِمُ الأَمَلُ ويَرْهَقَهُمُ الأَجَلُ - ويُسَدَّ عَنْهُمْ بَابُ التَّوْبَةِ - فَقَدْ أَصْبَحْتُمْ فِي مِثْلِ مَا سَأَلَ إِلَيْه الرَّجْعَةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - وأَنْتُمْ بَنُو سَبِيلٍ عَلَى سَفَرٍ مِنْ دَارٍ لَيْسَتْ بِدَارِكُمْ - وقَدْ أُوذِنْتُمْ مِنْهَا بِالِارْتِحَالِ وأُمِرْتُمْ فِيهَا بِالزَّادِ واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ لِهَذَا الْجِلْدِ الرَّقِيقِ صَبْرٌ عَلَى النَّارِ - فَارْحَمُوا نُفُوسَكُمْ - فَإِنَّكُمْ قَدْ جَرَّبْتُمُوهَا فِي مَصَائِبِ الدُّنْيَا.

أَفَرَأَيْتُمْ جَزَعَ أَحَدِكُمْ مِنَ الشَّوْكَةِ تُصِيبُه - والْعَثْرَةِ تُدْمِيه والرَّمْضَاءِ تُحْرِقُه - فَكَيْفَ إِذَا كَانَ بَيْنَ طَابَقَيْنِ مِنْ نَارٍ - ضَجِيعَ حَجَرٍ وقَرِينَ شَيْطَانٍ - أَعَلِمْتُمْ أَنَّ مَالِكاً إِذَا غَضِبَ عَلَى النَّارِ - حَطَمَ بَعْضُهَا بَعْضاً لِغَضَبِه - وإِذَا زَجَرَهَا تَوَثَّبَتْ بَيْنَ أَبْوَابِهَا جَزَعاً مِنْ زَجْرَتِه!

أَيُّهَا الْيَفَنُ الْكَبِيرُ الَّذِي قَدْ لَهَزَه الْقَتِيرُ - كَيْفَ أَنْتَ إِذَا الْتَحَمَتْ أَطْوَاقُ النَّارِ بِعِظَامِ الأَعْنَاقِ

ہے۔اس گھرمیں جس کو اپنے لئے پسند فرماتا ہے جس کا سایہ اس کاعرش ہے اورجس کا نور اس کی ضیا ہے۔ اس کے زائرین ملائکہ ہیں اور اس کے رفقاء مرسلین۔اب اپنی باز گشت کی طرف سبقت کرو اور موت سے پہلے سامان مہیا کرلو کہ عنقریب لوگوں کی امیدیں منقطع ہو جانے والی ہیں اور موت کا پھندہ گلے میں پڑ جانے والا ہے جب توبہ کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا۔ابھی تم اس منزل میں ہو جس کی طرف پہلے والے لوٹ کرآنے کی آرزو کر رہے ہیں اور تم مسافر ہو اور اس گھر سے سفر کرنے والے ہو جو تمہارا واقعی گھر نہیں ہے۔تمہیں کوچ کی اطلاع دی جا چکی ہے اور زاد راہ اکٹھا کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے اور یہ یاد رکھو کہ یہ نرم و نازک جلد آتش جہنم کو برداشت نہیں کر سکتی ہے۔لہٰذا خدارا اپنے نفسوں پر رحم کرو کہ تم اسے دنیا کے مصائب میں آزما چکے ہو۔کیا تم نے نہیں دیکھا ہے کہ تمہارا کیا عالم ہوتا ہے جب ایک کانٹا چبھ جاتا ہے یا ایک ٹھوکر لگنے سے خون نکل آتا ہے یا کوئی ریت تپنے لگتی ہے۔تو پھراس وقت کیا ہوگا جب تم جہنم کے دو طبقوں کے درمیان ہوگے۔دہکتے ہوئے پتھروں کے پہلو میں اور شیاطین کے ہمسایہ میں۔کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ مالک (داروغہ جہنم ) جبآگ پرغضب ناک ہوتا ہے تو اس کے اجزاء ایک دوسرے سے ٹکرانے لگتے ہیں اور جب اسے جھڑکتا ہے تو وہ گھبرا کر دروازوں کے درمیان اچھلنے لگتی ہے۔

اے پیر کہن سال جس پر بڑھا پا چھا چکا ہے۔اس وقت تیرا کیا عالم ہوگا جب جہنم کے طوق گردن کی ہڈیوں

۳۴۲

ونَشِبَتِ الْجَوَامِعُ حَتَّى أَكَلَتْ لُحُومَ السَّوَاعِدِ –

فَاللَّه اللَّه مَعْشَرَ الْعِبَادِ - وأَنْتُمْ سَالِمُونَ فِي الصِّحَّةِ قَبْلَ السُّقْمِ - وفِي الْفُسْحَةِ قَبْلَ الضِّيقِ - فَاسْعَوْا فِي فَكَاكِ رِقَابِكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُغْلَقَ رَهَائِنُهَا - أَسْهِرُوا عُيُونَكُمْ وأَضْمِرُوا بُطُونَكُمْ - واسْتَعْمِلُوا أَقْدَامَكُمْ وأَنْفِقُوا أَمْوَالَكُمْ - وخُذُوا مِنْ أَجْسَادِكُمْ فَجُودُوا بِهَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ - ولَا تَبْخَلُوا بِهَا عَنْهَا فَقَدْ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( إِنْ تَنْصُرُوا الله يَنْصُرْكُمْ ويُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ ) - وقَالَ تَعَالَى( مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ الله قَرْضاً حَسَناً - فَيُضاعِفَه لَه ولَه أَجْرٌ كَرِيمٌ ) - فَلَمْ يَسْتَنْصِرْكُمْ مِنْ ذُلٍّ - ولَمْ يَسْتَقْرِضْكُمْ مِنْ قُلٍّ - اسْتَنْصَرَكُمْ ولَه جُنُودُ السَّمَاوَاتِ والأَرْضِ وهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - واسْتَقْرَضَكُمْ ولَه خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ والأَرْضِ - وهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ - وإِنَّمَا أَرَادَ أَنْ يَبْلُوَكُمْ( أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) - فَبَادِرُوا بِأَعْمَالِكُمْ تَكُونُوا مَعَ جِيرَانِ اللَّه فِي دَارِه -

میں پیوست ہو جائیں گے اور ہتھکڑیاں ہاتھوں میں گڑ کر کلائیوں کا گوشت تک کھا جائیں گی۔

اللہ کے بندو! اللہ کو یاد کرو اس وقت جب کہ تم صحت کے عالم میں ہو قبل اسکے کہ بیمار ہو جائو اور وسعت کے عالم میں قبل اس کے کہ تنگی کا شکار ہو جائو اپنی گردنوں کوآتش جہنم سے آزاد کرانے کی فکر کرو قبل اس کے کہ وہ اس طرح گردی ہوجائیں کہ پھر چڑھائی نہ جا سکیں ۔اپنی آنکھوں کو بیدار رکھو اپنے شکم کو لاغر بنائو اور اپنے پیروں کو راہ عمل میں استعمال کرو۔اپنے مال کو خرچ کرو اور اپنے جسم کو اپنی روح پر قربان کردو۔ خبردار اس راہ میں بخل نہ کرنا کہ پروردگار نے صاف صاف فرمادیا ہے کہ '' اگر تم اللہ کی نصرت کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عنایت فرمائے گا '' اس نے یہ بھی فرمادیا ہے کہ '' کون ہے جو پروردگار کو بہترین قرض دے تاکہ وہ اسے دنیا میں چوگنا بنادے اور اس کے لئے بہترین جزا ہے '' تواس نے تم سے کمزوری کی بنا پرنصرت کا مطالبہ نہیں کیا ہے اورنہ غربت کی بنا پر قرض مانگا ہے۔اس نے مطالبۂ نصرت کیا ہے جب کہ زمین و آسمان کے سارے لشکر اسی کے ہیں اور وہ عزیز و حکیم ہے اور اس نے قرض مانگا ہے جب کہ زمین و آسمان کے سارے خزانے اسی کی ملکیت ہیں اور وہ غنی حمید ہے '' وہ چاہتا ہے کہ تمہارا امتحان لے کہ تم میں حسن عمل کے اعتبارسے سب سے بہتر کون ہے۔اب اپنے اعمال کے ساتھ سبقت کرو تاکہ اللہ کے گھر میں اس کے ہمسایہ کے

۳۴۳

رَافَقَ بِهِمْ رُسُلَه وأَزَارَهُمْ مَلَائِكَتَه - وأَكْرَمَ أَسْمَاعَهُمْ أَنْ تَسْمَعَ حَسِيسَ نَارٍ أَبَداً - وصَانَ أَجْسَادَهُمْ أَنْ تَلْقَى لُغُوباً ونَصَباً -( ذلِكَ فَضْلُ الله يُؤْتِيه مَنْ يَشاءُ والله ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ) .

أَقُولُ مَا تَسْمَعُونَ( والله الْمُسْتَعانُ ) عَلَى نَفْسِي وأَنْفُسِكُمْ - وهُوَ( حَسْبُنَا ) ( ونِعْمَ الْوَكِيلُ ) !

(۱۸۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله للبرج بن مسهر الطائي وقد قال له بحيث يسمعه «لا حكم إلا للَّه»، وكان من الخوارج

اسْكُتْ قَبَحَكَ اللَّه يَا أَثْرَمُ - فَوَاللَّه لَقَدْ ظَهَرَ الْحَقُّ فَكُنْتَ فِيه ضَئِيلًا شَخْصُكَ - خَفِيّاً صَوْتُكَ حَتَّى إِذَا نَعَرَ الْبَاطِلُ نَجَمْتَ نُجُومَ قَرْنِ الْمَاعِزِ.

ساتھ زندگی گزارو۔جہاں مرسلین کی رفاقت ہوگی اورملائکہ زیارت کریں گے اورکان جہنم کیآواز سننے سے بھی محفوظ رہیں گے ا ور بدن کسی طرح کی تکان اورتعب سے بھی دو چار نہ ہوں گے '' یہی وہ فضل خدا ہے کہ جس کو چاہتا ہے عنایت کردیتا ہے اور اللہ بہترین فضل کرنے والا ہے ۔''میں وہ کہہ رہا ہوں جو تم سن رہے ہو۔اس کے بعد اللہ یہ مدد گار ہے میرا بھی اور تمہارابھی اور ویہ ہمارے لئے کافی ہے اوروہی بہترین کار ساز ہے۔

(۱۸۴)

آپ کاارشاد گرامی

(جو آپ نے برج بن مسہر(۱) طائی خارجی سے فرمایا جب یہ سنا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ خدا کے علاوہ کسی کو فیصلہ کا حق نہیں ہے )

خاموش ہو جا۔خدا تیرا برا کرے اے ٹوٹے ہوئے دانتوں والے۔خدا شاہد ہے کہ جب حق کا ظہور ہوا تھا تواس وقت تیری شخصیت کمزوراور تیری آواز بیجان تھی۔لیکن جب باطل کی آواز بلند ہوئی تو تو بکری کی سینگ کی طرح ابھر کرمنظر عام پر آگیا۔

(۱)یہ ایک خارجی شاعر تھا جس نے مولائے کائنات کے خلاف یہ آواز بلند کی کہ آپ نے تحکیم کو قبول کرکے غیر خدا کو حکم بنادیا ہے اور اسلام میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت کا کوئی تصورنہیں ہے۔

حضرت امام عالی مقام نے اس فتنہ کے دورمیں اثرات کا لحاظ کرکے سخت ترین لہجہ میں جواب دیا اور قائل کی اوقات کا اعلان کردیا کہ شخص باطل پرست اورحق بیزار ہے۔ورنہ اسے اس امر کا اندازہ ہوتا کہ کتاب خدا سے فیصلہ کرانا خدا کی حاکمیت کا اقرار ہے انکارنہیں ہے۔حاکمیت خداکے منکرعمرو عاص جیسے افراد ہیں جنہوں نے کتاب خدا کو نظر انداز کرکے سیاہی چالوں سے فیصلہ کردیا اور دین خدا کو یکسر نا قابل توجہ قراردے دیا۔

۳۴۴

(۱۸۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحمد اللَّه فيها ويثني على رسوله ويصف خلقا من الحيوان

حمد اللَّه تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَا تُدْرِكُه الشَّوَاهِدُ - ولَا تَحْوِيه الْمَشَاهِدُ - ولَا تَرَاه النَّوَاظِرُ - ولَا تَحْجُبُه السَّوَاتِرُ - الدَّالِّ عَلَى قِدَمِه بِحُدُوثِ خَلْقِه - وبِحُدُوثِ خَلْقِه عَلَى وُجُودِه - وبِاشْتِبَاهِهِمْ عَلَى أَنْ لَا شَبَه لَه - الَّذِي صَدَقَ فِي مِيعَادِه - وارْتَفَعَ عَنْ ظُلْمِ عِبَادِه - وقَامَ بِالْقِسْطِ فِي خَلْقِه - وعَدَلَ عَلَيْهِمْ فِي حُكْمِه - مُسْتَشْهِدٌ بِحُدُوثِ الأَشْيَاءِ عَلَى أَزَلِيَّتِه - وبِمَا وَسَمَهَا بِه مِنَ الْعَجْزِ عَلَى قُدْرَتِه - وبِمَا اضْطَرَّهَا إِلَيْه مِنَ الْفَنَاءِ عَلَى دَوَامِه - وَاحِدٌ لَا بِعَدَدٍ ودَائِمٌ لَا بِأَمَدٍ وقَائِمٌ لَا بِعَمَدٍ - تَتَلَقَّاه الأَذْهَانُ لَا بِمُشَاعَرَةٍ - وتَشْهَدُ لَه الْمَرَائِي لَا بِمُحَاضَرَةٍ - لَمْ تُحِطْ بِه الأَوْهَامُ بَلْ تَجَلَّى لَهَا بِهَا - وبِهَا امْتَنَعَ مِنْهَا وإِلَيْهَا حَاكَمَهَا

(۱۸۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں حمد خدا ' ثنائے رسول (ص) اوربعض مخلوقات کاتذکرہ ہے )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جسے نہ حواس پا سکتے ہیں اورنہ مکان گھیر سکتے ہیں ۔نہ آنکھیں اسے دیکھ سکتی ہیں اور نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔اس نے اپنے قدیم ہونے کی طرف مخلوقات کے حادثات ہونے سے رہنمائی کی ہے اور ان کی وجود بعد از عدم کو اپنے وجود ازلی کا ثبوت بنادیا ہے اور ان کی باہمی مشابہت سیاپنے بے مثال ہونے کا اظہار کیا ہے۔وہ اپنے وعدہ میں سچا ہے اور اپنے بندوں پر ظلم کرنے سے اجل و ارفع ہے۔اس نے لوگوں میں عدل کا قیام کیا ہے اور فیصلوں پر مکمل انصاف سے کام لیا ہے۔اشیاء کے حدوث سے اپنی ازلیت پراستدلال کیا ہے اور ان پر عاجزی کا نشان لگا کر اپنی قدرت کاملہ کا اثبات کیا ہے۔اشیاء کے جبری فناو عدم سے اپنے دوام کا پتہ دیا ہے۔وہ ایک ہے لیکنعدد کے اعتبار سے نہیں۔دائمی ہے لیکن مدت کے اعتبارسے نہیں اور قائم ہے لیکن کسی کے سہارے نہیں۔ذہن اسے قبول کرتے ہیں لیکن حواس کی بنا پر نہیں اور مشاہدات اس کی گواہی دیتے ہیں لیکن اس کی بارگاہ میں پہنچنے کے بعد نہیں۔اوہام اس کا احاطہ نہیں کر سکتے ہیں بلکہ وہ ان کے لئے انہیں کے ذریعہ روشن ہوا ہے اور انہیں کی ذریعہ ان کے قبضہ میں آنے سے

۳۴۵

لَيْسَ بِذِي كِبَرٍ امْتَدَّتْ بِه النِّهَايَاتُ فَكَبَّرَتْه تَجْسِيماً - ولَا بِذِي عِظَمٍ تَنَاهَتْ بِه الْغَايَاتُ فَعَظَّمَتْه تَجْسِيداً - بَلْ كَبُرَ شَأْناً وعَظُمَ سُلْطَاناً.

الرسول الأعظم

وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه الصَّفِيُّ - وأَمِينُه الرَّضِيُّ – صلى الله عليه وآله - أَرْسَلَه بِوُجُوبِ الْحُجَجِ وظُهُورِ الْفَلَجِ وإِيضَاحِ الْمَنْهَجِ - فَبَلَّغَ الرِّسَالَةَ صَادِعاً بِهَا - وحَمَلَ عَلَى الْمَحَجَّةِ دَالاًّ عَلَيْهَا - وأَقَامَ أَعْلَامَ الِاهْتِدَاءِ ومَنَارَ الضِّيَاءِ - وجَعَلَ أَمْرَاسَ الإِسْلَامِ مَتِينَةً - وعُرَى الإِيمَانِ وَثِيقَةً.

منها في صفة خلق أصناف من الحيوان

ولَوْ فَكَّرُوا فِي عَظِيمِ الْقُدْرَةِ وجَسِيمِ النِّعْمَةِ - لَرَجَعُوا إِلَى الطَّرِيقِ وخَافُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ - ولَكِنِ الْقُلُوبُ عَلِيلَةٌ والْبَصَائِرُ مَدْخُولَةٌ - أَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى صَغِيرِ مَا خَلَقَ كَيْفَ أَحْكَمَ خَلْقَه - وأَتْقَنَ تَرْكِيبَه وفَلَقَ لَه السَّمْعَ والْبَصَرَ - وسَوَّى لَه الْعَظْمَ والْبَشَرَ

انکار کردیا ہے اور ان کا حکم بھی انہیں کو ٹھہرایا ہے ۔وہ اس اعتبار سے بڑا نہیں ہے کہ اس کے اطراف نے پھیل کر اس کے جسم کو بڑا بنادیا ہے اور نہ ایسا عظیم ہے کہ اس کی جسامت زیادہ ہو اور اس نے اس کے جسد کو عظیم بنادیا ہو ۔وہ اپنی شان میں کبیر اور اپنی سلطنت میں عظیم ہے۔

اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد اس کے بندہ اورمخلص رسول اور پسندیدہ امین ہیں۔اللہ ان پر رحمت نازل کرے۔اس نے انہیں نا قابل انکاردلائل۔واضح کامیابی اورنمایاں راستہ کے ساتھ بھیجا ہے۔اور انہوں نے اس کے پیغام کو واشگاف انداز میں پیش کردیا ہے اور لوگوں کو سیدھے راستہ کی رہنمائی کردی ہے ۔ہدایت کے نشان قائم کردئیے ہیں اور روشنی کے منارہ استوار کردئیے ہیں۔اسلام کی رسیوں کومضبوط بنادیا ہے اور ایمان کے بندھنوں کو مستحکم کردیاہے۔

اگر یہ لوگ اس کی عظیم قدرت اور وسیع نعمت میں غورو فکر کرتے تو راستہ کی طرف واپس آجاتے اورجہنم کے عذاب سے خوف زدہ ہو جاتے لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کے دل مریض ہیں اور ان کی آنکھیں کمزور ہیں۔کیا یہ ایک چھوٹی سی مخلوق کو بھی نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اس نے کس طرح اس کی تخلیق کو مستحکم اور اس کی ترکیب کو مضبوط بنایا ہے۔اس چھوٹے سے جسم میں کان اورآنکھیں سب بنادی ہیں اور اسی میں ہڈیاں اور کھال بھی درست کردی ہے۔

۳۴۶

انْظُرُوا إِلَى النَّمْلَةِ فِي صِغَرِ جُثَّتِهَا ولَطَافَةِ هَيْئَتِهَا - لَا تَكَادُ تُنَالُ بِلَحْظِ الْبَصَرِ ولَا بِمُسْتَدْرَكِ الْفِكَرِ - كَيْفَ دَبَّتْ عَلَى أَرْضِهَا وصُبَّتْ عَلَى رِزْقِهَا - تَنْقُلُ الْحَبَّةَ إِلَى جُحْرِهَا وتُعِدُّهَا فِي مُسْتَقَرِّهَا - تَجْمَعُ فِي حَرِّهَا لِبَرْدِهَا وفِي وِرْدِهَا لِصَدَرِهَا - مَكْفُولٌ بِرِزْقِهَا مَرْزُوقَةٌ بِوِفْقِهَا - لَا يُغْفِلُهَا الْمَنَّانُ ولَا يَحْرِمُهَا الدَّيَّانُ - ولَوْ فِي الصَّفَا الْيَابِسِ والْحَجَرِ الْجَامِسِ - ولَوْ فَكَّرْتَ فِي مَجَارِي أَكْلِهَا - فِي عُلْوِهَا وسُفْلِهَا - ومَا فِي الْجَوْفِ مِنْ شَرَاسِيفِ بَطْنِهَا - ومَا فِي الرَّأْسِ مِنْ عَيْنِهَا وأُذُنِهَا - لَقَضَيْتَ مِنْ خَلْقِهَا عَجَباً ولَقِيتَ مِنْ وَصْفِهَا تَعَباً - فَتَعَالَى الَّذِي أَقَامَهَا عَلَى قَوَائِمِهَا - وبَنَاهَا عَلَى دَعَائِمِهَا - لَمْ يَشْرَكْه فِي فِطْرَتِهَا فَاطِرٌ،

ذرا اس چیونٹی کے چھوٹے سے جسم اور اس کی لطیف ہئیت کی طرف نظرکرو جس کا گوشہ چشم سے دیکھنابھی مشکل ہے اور فکروں کی گرفت میں آنابھی دشوار ہے۔کس طرح زمین پر رینگتی ہے اور کس طرح اپنے رزق کی طرف لپکتی ہے۔دانہ کو اپنے سوراخ کی طرف لے جاتی ہے اور پھر وہاں مرکز پرمحفوظ کر دیتی ہے گرمی(۱) میں سردی کا انتظام کرت یہے اور توانائی کے دورمیں کمزوری کے زمانہ کا بندوبست کرتی ہے اس کے رزق کی کفالت کی جا چکی ہے اوراسی کے مطابق اسے برابر رزق مل رہا ہے۔نہ احسان کرنے والا خدا اسے نظر اندازکرتا ہے اور نہ صاحب جزا و عطا اسے محروم رکھتا ہے چاہے وہ خشک پتھر کے اندر ہو یا جمے ہوئے سنگ خارا کے اندر۔اگر تم اس کی غذا کو پست و بلند نالیوں اور اس کے جسم کے اندر شکم کی طرف جھکے ہوئے پسلیوں کے کناروں اور سر میں جگہ پانے والے آنکھ اور کان کو دیکھو گے تو تمہیں واقعاً اس کی تخلیق پرتعجب ہوگا اور اس کی توصیف سے عاجز ہو جائوگے۔بلند و برتر ہے وہ خدا جس نے اس جسم کو اس کے پیروں پر قائم کیا ہے اور اس کی تعمیر انہیں ستونوں پرکھڑی کی ہے۔ نہ اس کی فطرت میں کسی خالق نے حصہ لیا ہے

(۱) ایک چھوٹی سی مخلوق چیونٹی میں یہ دور اندیشی اور اس قدر تنظیم و ترتیب اور ایک اشرف المخلوقات میں اس قدرغفلت اورتغافل کس قدرحیرت انگیز امر ہے اور اس سے زیادہ حیرت انگیز قصہ جناب سلیمان ہے جہاں چیونٹی نے لشکر سلیمان کو دیکھ کرآوازدی کہ فوراً اپنے اپنے سوراخوں میں داخل ہوجائو کہیں لشکر سلیمان تمہیں پامال نہ کردے اور اسے احساس بھی نہ ہو۔گویا کہ ایک چیونٹی کے دل میں قوم کا اس قدر درد ہے اوراسے سردار قوم ہونے کے اعتبارسے اس قدر ذمہ داری کا احساسا ہے کہ قوم تباہ نہ ہونے پائے اور آج عالم اسلام و انسانیت اس قدر تغافل کا شکار ہوگیا ہے کہ کسی کے دل میں قوم کا درد نہیں ہے بلکہ حکام قوم کے کاندھوں پر اپنے جنازے اٹھا رہے ہیں اور ان کی قبروں پر اپنے تاج محل تعمیر کر رہے ہیں۔

۳۴۷

ولَمْ يُعِنْه عَلَى خَلْقِهَا قَادِرٌ - ولَوْ ضَرَبْتَ فِي مَذَاهِبِ فِكْرِكَ لِتَبْلُغَ غَايَاتِه - مَا دَلَّتْكَ الدَّلَالَةُ إِلَّا عَلَى أَنَّ فَاطِرَ النَّمْلَةِ - هُوَ فَاطِرُ النَّخْلَةِ - لِدَقِيقِ تَفْصِيلِ كُلِّ شَيْءٍ - وغَامِضِ اخْتِلَافِ كُلِّ حَيٍّ - ومَا الْجَلِيلُ واللَّطِيفُ والثَّقِيلُ والْخَفِيفُ - والْقَوِيُّ والضَّعِيفُ فِي خَلْقِه إِلَّا سَوَاءٌ.

خلقة السماء والكون

وكَذَلِكَ السَّمَاءُ والْهَوَاءُ والرِّيَاحُ والْمَاءُ - فَانْظُرْ إِلَى الشَّمْسِ والْقَمَرِ والنَّبَاتِ والشَّجَرِ - والْمَاءِ والْحَجَرِ واخْتِلَافِ هَذَا اللَّيْلِ والنَّهَارِ - وتَفَجُّرِ هَذِه الْبِحَارِ وكَثْرَةِ هَذِه الْجِبَالِ - وطُولِ هَذِه الْقِلَالِ وتَفَرُّقِ هَذِه اللُّغَاتِ - والأَلْسُنِ الْمُخْتَلِفَاتِ - فَالْوَيْلُ لِمَنْ أَنْكَرَ الْمُقَدِّرَ وجَحَدَ الْمُدَبِّرَ - زَعَمُوا أَنَّهُمْ كَالنَّبَاتِ مَا لَهُمْ زَارِعٌ - ولَا لِاخْتِلَافِ صُوَرِهِمْ صَانِعٌ -

اور نہ اس کی تخلیق میں کسی قادرنے کئی مدد کی ہے۔اور ار تم فکرکے تمام راستوں کو طے کرکے اس کی انتہا تک پہنچنا چاہو گے تو ایک ہی نتیجہ حاصل ہوگا کہ جو چیونٹی کا خالق ہے وہی درخت خرما کابھی پروردگار ہے۔اس لئے کہ ہر ایک تخلیق میں یہی باریکی ہے اور ہر جاندار کا دوسرے سے نہایت درجہ باریک ہی اختلاف ہے۔اس کی بارگاہ میں عظیم و لطیف ' ثقیل و خفیف ' قوی و ضعیف سب ایک ہی جیسے ہیں ۔

یہی حال آسمان اور فضا۔اور ہوا اور پانی کا ہے ۔ کہ چاہو شمس و قمر کو دیکھو یا نباتات وشجر کو۔پانی اور پتھر پر نگاہ کرو یا شب و روز کی آمد رفت پر' دریائوں کے بہائو کو دیکھو یا پہاڑوں کی کثرت اور چوٹیوں کے طول و ارتفاع کو۔لغات کے اختلاف کو دیکھو یا زبانوںکے افتراق کو۔سب اس کی قدرت کاملہ کے بہترین دلائل ہیں۔ حیف ہے ان لوگوں پر جنہوں نے تقدیر ساز کا انکار کیا ہے اور تدبیر کرنے والے سے مکرگئے ۔ان کا خیال ہے کہ سب گھاس پھوس(۱) کی طرح ہیں کہ بغیر کھیتی کرنے والے کے اگ آئے ہیں اور بغیر صانع کے مختلف شکلیں اختیار کرلی ہیں

(۱) درحقیقت گھاس پھوس کے بارے میں بھی یہ تصور خلاف عقل ہے کہ اس کی تخلیق بغیر کسی خالق کے ہوگئی ہے لیکن یہ تصور صرف اس لئے پیدا کر لیتا ہے کہ اس کی حکمت اور مصلحت سے با خبر نہیں ہے اوریہ خیال کرتا ہے کہ اسے برسات نے پانی کے بغیر کسی ترتیب و تنظیم کے اگادیا ہے اور اس کے بعد اسی تخلیق پر ساری کائنات کا قیاس کرنے لگتا ہے۔حالانکہ اسے کائنات کی حکمت و مصلحت کودیکھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ تخلیق کائنات کے بعض اسرار تو واضح بھی ہوئے ہیں لیکن تخلق نباتات کا تو کوئیراز واضح نہیں ہو سکا ہے اوریہ انسان کی انتہائی جہالت ہے کہ وہ اس قدرحقیر اور معمولی مخلوقات کی حکمت و مصلحت سے بھی با خبرنہیں ہے اور حوصلہ اس قدر بلند ہے کہ مالک کائنات سے ٹکر لینا چاہتا ہے اور ایک لفظ میں اس کے وجود کا خاتمہ کر دیناچاہتا ہے۔

۳۴۸

ولَمْ يَلْجَئُوا إِلَى حُجَّةٍ فِيمَا ادَّعَوْا - ولَا تَحْقِيقٍ لِمَا - أَوْعَوْا وهَلْ يَكُونُ بِنَاءٌ مِنْ غَيْرِ بَانٍ أَوْ جِنَايَةٌ مِنْ غَيْرِ جَانٍ!

خلقة الجرادة

وإِنْ شِئْتَ قُلْتَ فِي الْجَرَادَةِ - إِذْ خَلَقَ لَهَا عَيْنَيْنِ حَمْرَاوَيْنِ - وأَسْرَجَ لَهَا حَدَقَتَيْنِ قَمْرَاوَيْنِ - وجَعَلَ لَهَا السَّمْعَ الْخَفِيَّ وفَتَحَ لَهَا الْفَمَ السَّوِيَّ - وجَعَلَ لَهَا الْحِسَّ الْقَوِيَّ ونَابَيْنِ بِهِمَا تَقْرِضُ - ومِنْجَلَيْنِ بِهِمَا تَقْبِضُ - يَرْهَبُهَا الزُّرَّاعُ فِي زَرْعِهِمْ - ولَا يَسْتَطِيعُونَ ذَبَّهَا ،ولَوْ أَجْلَبُوا بِجَمْعِهِمْ - حَتَّى تَرِدَ الْحَرْثَ فِي نَزَوَاتِهَا وتَقْضِيَ مِنْه شَهَوَاتِهَا - وخَلْقُهَا كُلُّه لَا يُكَوِّنُ إِصْبَعاً مُسْتَدِقَّةً.

فَتَبَارَكَ اللَّه الَّذِي يَسْجُدُ لَه( مَنْ فِي السَّماواتِ والأَرْضِ - طَوْعاً وكَرْهاً ) ويُعَفِّرُ لَه خَدّاً ووَجْهاً - ويُلْقِي إِلَيْه بِالطَّاعَةِ سِلْماً وضَعْفاً - ويُعْطِي لَه الْقِيَادَ رَهْبَةً وخَوْفاً - فَالطَّيْرُ مُسَخَّرَةٌ لأَمْرِه - أَحْصَى عَدَدَ الرِّيشِ مِنْهَا

۔حالانکہ انہوں نے اس دعویٰ میں نہ کسی دلیل کاسہارا لیا ہے اور نہ اپنے عقائد کی کوئی تحقیق کی ہے۔ورنہ یہ سمجھ لیتے کہ نہ بغیر بانی کے عمارت ہو سکتی ہے اور نہ بغیر مجرم کے جرم ہو سکتا ہے۔

اور اگر تم چاہو تو یہی باتیں ٹڈی کے بارے میں کہی جا سکتی ہیں کہ اس کے اندر دوسرخ سرخ آنکھیں پیدا کی ہیں اور چاند جیسے دو حلقوں میں آنکھوں کے چراغ روشن کردئیے ہیں۔چھوٹے چھوٹے کان بنا دئیے ہیں اور مناسب سادہانہ کھول دیا ہے۔لیکن احساس کو قوی بنادیا ہے۔اس کے دو تیز دانت ہیں جن سے تپیوں کو کاٹتی ہے اور دو پیر دندانہ دار ہیں جن سے گھاس وغیرہ کو پکڑتی ہے۔کاشتکار اپنی کاشت کے لئے ان سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن انہیں ہنکا نہیں سکتے ہیں چاہے کسی قدر طاقت کیوں نہ جمع کرلیں۔یہاں تک کہ وہ کھیتوں پرجست وخیز کرتے ہوئے حملہ آور ہو جاتی ہیں اور اپنی خواہش پوری کر لیتی ہیں ۔جب کہ اس کا کال و جود ایک باریک انگلی سے زیادہ نہیں ہے۔

پس با برکت ہے وہ ذات اقدس جس کے سامنے زمین و آسمان کی تمام مخلوقات بر غبت یا بجزز و اکراہ سر بسجود رہتی ہے۔اور اس کے لئے چہرہ اور رخسار کو خاک پر رکھے ہوئے ہیں اورعجزو انکسار کے ساتھ اس کی بارگاہ میں سراپا اطاعت ہیں اورخوف و دہشت سے اپنی زمام اختیار اس کے حوالہ کئے ہوئے ہیں۔پرندہ اس کے امر کے تابع ہیں کہوہ ان کے پروں

۳۴۹

والنَّفَسِ - وأَرْسَى قَوَائِمَهَا عَلَى النَّدَى والْيَبَسِ - وقَدَّرَ أَقْوَاتَهَا وأَحْصَى أَجْنَاسَهَا - فَهَذَا غُرَابٌ وهَذَا عُقَابٌ - وهَذَا حَمَامٌ وهَذَا نَعَامٌ - دَعَا كُلَّ طَائِرٍ بِاسْمِه وكَفَلَ لَه بِرِزْقِه - وأَنْشَأَ السَّحَابَ الثِّقَالَ فَأَهْطَلَ دِيَمَهَا - وعَدَّدَ قِسَمَهَا فَبَلَّ الأَرْضَ بَعْدَ جُفُوفِهَا - وأَخْرَجَ نَبْتَهَا بَعْدَ جُدُوبِهَا

(۱۸۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في التوحيد وتجمع هذه الخطبة من أصول العلم ما لا تجمعه خطبة

مَا وَحَّدَه مَنْ كَيَّفَه ولَا حَقِيقَتَه أَصَابَ مَنْ مَثَّلَه - ولَا إِيَّاه عَنَى مَنْ شَبَّهَه - ولَا صَمَدَه مَنْ أَشَارَ إِلَيْه وتَوَهَّمَه - كُلُّ مَعْرُوفٍ بِنَفْسِه مَصْنُوعٌ وكُلُّ قَائِمٍ فِي سِوَاه مَعْلُولٌ - فَاعِلٌ لَا بِاضْطِرَابِ آلَةٍ مُقَدِّرٌ لَا بِجَوْلِ فِكْرَةٍ

اور سانسوں کاشمار رکھتا ہے اور ان کے پروں کو تری یا خشکی میں جمادیا ہے۔انکاقوت مقدر کردیا ہے اوران کی جنس کا احصارکرلیا ہے کہ یہ کو ا ہے۔وہ عقاب ہے ۔یہ کبوتر ہے۔وہ شترمرغ ہے۔ہر پرندہ کواس کے نام سے عالم وجود میں دعوت دی ہے اور ہر ایک کی روزی کی کفالت کی ہے ۔سنگین قسم کے بادل پیداکئے توان سے موسلا دھار پانی برسا دیا اور اس کے تقسیمات کاحساب بھی رکھا۔زمین کو خشکی کے بعد تر کردیا اور اس کے نباتات کو بنجر ہوجانے کے بعد دوبارہ اگا دیا۔

(۱۸۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(توحید کے بارے میں اور اس میں وہ تمام علمی مطالب پائے جاتے ہیں جو کسی دوسرے خطبہ میں نہیں ہیں)

وہ اس کی توحید کا قائل نہیں ہے جسنے اس کے لئے کیفیات کا تصور پیدا کرلیا اوروہ اس کی حقیقت سے نا آشنا ہے جس نے اس کی تمثیل قراردے دی۔اس نے اس کا قصد ہی نہیں کیا جس نے اس کی شبیہ بنادی اور وہاس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوا جس نے اس کی طرف اشارہ کردیا یا اسے تصور کا پابند بنادینا چاہا۔جو اپنی ذات سے پہچانا جائے وہ مخلوق ہے اور جودسورے کے سہارے قائم ہو وہ اس علت کا متحا ج ہے۔پروردگار غافل ہے لیکن اعضاء کیحرکات سے نہیں اور انداز ے مقرر کرنے والا ہے لیکن فکر کی جولانیوں

۳۵۰

غَنِيٌّ لَا بِاسْتِفَادَةٍ - لَا تَصْحَبُه الأَوْقَاتُ ولَاتَرْفِدُه الأَدَوَاتُ - سَبَقَ الأَوْقَاتَ كَوْنُه - والْعَدَمَ وُجُودُه والِابْتِدَاءَ أَزَلُه بِتَشْعِيرِه الْمَشَاعِرَ عُرِفَ أَنْ لَا مَشْعَرَ لَه - وبِمُضَادَّتِه بَيْنَ الأُمُورِ عُرِفَ أَنْ لَا ضِدَّ لَه - وبِمُقَارَنَتِه بَيْنَ الأَشْيَاءِ عُرِفَ أَنْ لَا قَرِينَ لَه - ضَادَّ النُّورَ بِالظُّلْمَةِ والْوُضُوحَ بِالْبُهْمَةِ - والْجُمُودَ بِالْبَلَلِ والْحَرُورَ بِالصَّرَدِ - مُؤَلِّفٌ بَيْنَ مُتَعَادِيَاتِهَا مُقَارِنٌ بَيْنَ مُتَبَايِنَاتِهَا - مُقَرِّبٌ بَيْنَ مُتَبَاعِدَاتِهَا مُفَرِّقٌ بَيْنَ مُتَدَانِيَاتِهَا - لَا يُشْمَلُ بِحَدٍّ ولَا يُحْسَبُ بِعَدٍّ - وإِنَّمَا تَحُدُّ الأَدَوَاتُ أَنْفُسَهَا - وتُشِيرُ الآلَاتُ إِلَى نَظَائِرِهَا مَنَعَتْهَا مُنْذُ الْقِدْمَةَ وحَمَتْهَا قَدُ الأَزَلِيَّةَ - وجَنَّبَتْهَا لَوْلَا التَّكْمِلَةَ

سے نہیں وہ غنی ہے لیکن کسی سے کچھ لے کرنہیں۔زمانہ اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا اورآلات اسے سہارا نہیں دے سکتے۔اس کا وجودزمانہ سے پہلے ہے اور اس کا وجودعدم سے بھی سابق اور اس کی ازلیت ابتدا سے بھی مقدم ہے۔اس کے حواس(۱) کوایجاد کرنے سے اندازہ ہوا کہ وہ حواس سے بے نیاز ہے اور اس کے اشیاء کے درمیان ضدیت قراردینے سے معلوم ہوا کہ اس کی کوئی ضد نہیں ہے اوراس کے اشیاء میں مقارنت قرار دینے سے ثابت ہواکہ اس کا کوئی قرین اور ساتھی نہیں ہے۔اس نے نور کی ظلمت کی۔وضاحت کو ابہام کی خشکی کو تری کی اور گرمی کو سردی کی ضد قرار دیاہے۔وہ ایک دوسرے کی دشمن اشیاء کو جمع کرنے والا۔ایک دوسرے سے جدا گانہاشیاء کا ساتھ کردینے والا۔باہمی دوری رکھنے والوں کو قریب بنادینے والا اورباہمی قربت کے حامل امور کا جدا کردینے والا ہے۔وہ نہ کسی حد کے اندر آتا ہے اور نہ کسی حساب و شمارمیں آسکتا ہے کہ جسمانی قوتیں اپنی جیسی اشیاء ہی کو محدود کر سکتی ہیں اور آلات اپنے امثال ہی کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔ان اشیاء کو لفظ منذ ( کب ) نے قدیم ہونے سے روک دیا ہے اورحرف قد (ہوگیا) نے ازلیت سے الگ کردیا ہے اور لولا نے انہیں تکمیل سے جداکردیا ہے۔انہیں اشیاء

(۱)مالک کائنات نے تخلیق کائنات میں ایسے خصوصیات کو ودیعت کردیاہے جن کے ذریعہ اس کی عظمت کاب خوب اندازہ کیا جا سکتا ہے۔صرف اس نکتہ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جوش ے بھی کسی کی ایجاد کردہہوتی ہے اس کا اطلاق موجد کی ذات پرنہیں ہو سکتا ہے لہٰذا اگر اس نے حواس کو پیداکیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی ذات حواس سے بالا تر ہے اوراگر اس نے بعض اشیاء میں ہمرنگی اوربعض میں اخلاف پیدا کیا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کی ذات اقدس نہ کسی ہمرنگ ہے اورنہ کسی سے ضدیت کی حامل ہے ۔یہ ساری باتیں مخلوقات کے مقدرمیں لکھی گئی ہیں اور خالق کی ذات ان تمام باتوں سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے۔

۳۵۱

بِهَا تَجَلَّى صَانِعُهَا لِلْعُقُولِ - وبِهَا امْتَنَعَ عَنْ نَظَرِ الْعُيُونِ - ولَا يَجْرِي عَلَيْه السُّكُونُ والْحَرَكَةُ - وكَيْفَ يَجْرِي عَلَيْه مَا هُوَ أَجْرَاه - ويَعُودُ فِيه مَا هُوَ أَبْدَاه ويَحْدُثُ فِيه مَا هُوَ أَحْدَثَه - إِذاً لَتَفَاوَتَتْ ذَاتُه ولَتَجَزَّأَ كُنْهُه - ولَامْتَنَعَ مِنَ الأَزَلِ مَعْنَاه - ولَكَانَ لَه وَرَاءٌ إِذْ وُجِدَ لَه أَمَامٌ - ولَالْتَمَسَ التَّمَامَ إِذْ لَزِمَه النُّقْصَانُ - وإِذاً لَقَامَتْ آيَةُ الْمَصْنُوعِ فِيه - ولَتَحَوَّلَ دَلِيلًا بَعْدَ أَنْ كَانَ مَدْلُولًا عَلَيْه - وخَرَجَ بِسُلْطَانِ الِامْتِنَاعِ - مِنْ أَنْ يُؤَثِّرَ فِيه مَا يُؤَثِّرُ فِي غَيْرِه الَّذِي لَا يَحُولُ ولَا يَزُولُ ولَا يَجُوزُ عَلَيْه الأُفُولُ - لَمْ يَلِدْ فَيَكُونَ مَوْلُوداً ولَمْ يُولَدْ فَيَصِيرَ مَحْدُوداً - جَلَّ عَنِ اتِّخَاذِ الأَبْنَاءِ، وطَهُرَ عَنْ مُلَامَسَةِ النِّسَاءِ - لَا تَنَالُه الأَوْهَامُ فَتُقَدِّرَه ولَا تَتَوَهَّمُه الْفِطَنُ فَتُصَوِّرَه - ولَا تُدْرِكُه الْحَوَاسُّ فَتُحِسَّه

کے ذریعہ بنانے والا عقلوں کے سامنے جلوہ گر ہوا ہے اور انہیں کے ذریعہ آنکھوں کی دید سے بری ہوگیا ہے۔اس پرحرکت و سکون کا قانون جاری نہیں ہوتا ہے کہ اس نے خود حرکت و سکون کے نظام کو جاری کیا ہے اورجس چیزکی ابتدا اس نے کی ہے وہ اس کی طرف کس طرح عائد ہو سکتی ہے یا جس کو اس نے ایجاد کیا ہے وہ اس کی ذات میں کس طرح شامل ہو سکتی ہے۔ایسا ہو جاتا تواس کی ذات بھی تغیر پذیر ہو جاتی اور اس کی حقیقت بھی قابل تجزیہ ہو جاتی اوراس کی معنویت بھی ازلیت سے الگ ہو جاتی اور اس کے یہاں بھی اگر سامنے کی جہت ہوتی تو پیچھے کی سمت بھی ہوتی اوروہ بھی کمال کا طلب گار ہوتا اگر اس میں نقص پیداہوجاتا۔اس میں مصنوعات کی علامت پیدا ہو جاتی اور وہ مدلول ہونے کے بعد خود بھی دوسرے کی طرف رہنمائی کرنے والا ہو جاتا۔وہ اپنے امتناع و تحفظ کی طاقت کی بناپ ر اس حد سے باہر نکل گیا ہے کہ کوئی ایسی شے اس پر اثر کرے جو دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس کے یہاں نہ تغیر ہے اور نہ زوال اورنہ اس کے آفتاب وجود کےلئے کوئی غروب ہے۔وہ نہ کسی کا باپ ہے کہ اس کا کوئی فرزند ہو اورنہ کسی کاف رزند ہے کہ محدود ہو کر رہ جائے ۔وہ اولاد بنانے سے بھی بے نیاز اور عورتوں کو ہاتھ لگانے سے بھی بلند و بالا ہے۔ادہام اسے پانہیں سکتے ہیں کہ اس کا اندازہ مقرر کریں اورہوش مندیاں اس کا تصور نہیں کر سکتی ہیں کہ اس کی تصویر بناسکیں ۔جو اس کا ادراک نہیں کر سکتے ہیں کہ اسے محسوس کر سکیں

۳۵۲

ولَا تَلْمِسُه الأَيْدِي فَتَمَسَّه - ولَا يَتَغَيَّرُ بِحَالٍ ولَا يَتَبَدَّلُ فِي الأَحْوَالِ - ولَا تُبْلِيه اللَّيَالِي والأَيَّامُ ولَا يُغَيِّرُه الضِّيَاءُ والظَّلَامُ ولَا يُوصَفُ بِشَيْءٍ مِنَ الأَجْزَاءِ - ولَا بِالْجَوَارِحِ والأَعْضَاءِ ولَا بِعَرَضٍ مِنَ الأَعْرَاضِ - ولَا بِالْغَيْرِيَّةِ والأَبْعَاضِ - ولَا يُقَالُ لَه حَدٌّ ولَا نِهَايَةٌ ولَا انْقِطَاعٌ ولَا غَايَةٌ - ولَا أَنَّ الأَشْيَاءَ تَحْوِيه فَتُقِلَّه أَوْ تُهْوِيَه - أَوْ أَنَّ شَيْئاً يَحْمِلُه فَيُمِيلَه أَوْ يُعَدِّلَه - لَيْسَ فِي الأَشْيَاءِ بِوَالِجٍ ولَا عَنْهَا بِخَارِجٍ - يُخْبِرُ لَا بِلِسَانٍ ولَهَوَاتٍ - ويَسْمَعُ لَا بِخُرُوقٍ وأَدَوَاتٍ يَقُولُ ولَا يَلْفِظُ - ويَحْفَظُ ولَا يَتَحَفَّظُ ويُرِيدُ ولَا يُضْمِرُ - يُحِبُّ ويَرْضَى مِنْ غَيْرِ رِقَّةٍ - ويُبْغِضُ ويَغْضَبُ مِنْ غَيْرِ مَشَقَّةٍ - يَقُولُ لِمَنْ أَرَادَ كَوْنَه كُنْ فَيَكُونُ - لَا بِصَوْتٍ يَقْرَعُ ولَا بِنِدَاءٍ يُسْمَعُ - وإِنَّمَا كَلَامُه سُبْحَانَه فِعْلٌ مِنْه أَنْشَأَه ومَثَّلَه - لَمْ يَكُنْ مِنْ قَبْلِ ذَلِكَ كَائِناً - ولَوْ كَانَ قَدِيماً لَكَانَ إِلَهاً ثَانِياً.

اور ہاتھ اسے چھو نہیں سکتے ہیں کہ مس کرلیں۔ وہ کسی حال میں متغیر نہیں ہوتا ہے اور مختلف حالات میں بدلتا بھی نہیں ہے۔شب و روز اسے پرانا نہیں کر سکتے ہیں اورتاریکی و روشنی اس میں تغیر نہیں پیدا کر سکتی ہے۔وہ نہ اجزاء سے موصوف ہوتا ہے اورنہ جوارح و اعضاء سے ۔نہ کسی عرض سے متصف ہوتا ے اور نہ غیریت اور جزئیت سے۔اس کے لئے نہحداور انتہا کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور نہ اختتام اور زوال کا۔نہ اشیاء اس پر حاوی ہیں کہ جب چاہیں پست کردیں یا بلند کردیں اور نہ کوئی چیز اسے اٹھائے ہوئے ہے کہ جب چاہے سیدھا کردے یا موڑ دے۔وہ نہ اشیا کے اندرداخل ہے اور نہان سے خارج ہے۔وہ کلام کرتا ہے مگر زبان اورتالو کے سہارے نہیں اور سنتاہے لیکن کان کے سوراخ اور آلات کے ذریعہ نہیں۔بولتا ہے لیکن تلفظ سے نہیں اور ہر چیز کو یاد رکھتا ہے لیکن حافظہ کے سہارے نہیں۔ارادہ کرتا ہے لیکن دل سے نہیں۔اور محبت و رضا رکھتا ہے لیکن نرمی قلب کے وسیلہ سے نہیں۔اور بغض و غضب بھی رکھتا ہے لیکن غم و غصہ کی تکلیف سے نہیں ۔ جس چیز کوایجاد کرنا چاہتا ہے اس سے کن کہہ دیتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے۔نہ کوئی آواز کانوں سے ٹکراتی ہے اور نہ کوئی ندا سنائی دیتی ہے۔اس کا کلام درحقیقت اس کا فعل ہے جس کو اس نے ایجاد کیا ہے اور اس کے پہلیسے ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے ورنہ وہ بھی قدیم اوردوسرا خدا ہو جاتا ۔

۳۵۳

لَا يُقَالُ كَانَ بَعْدَ أَنْ لَمْ يَكُنْ - فَتَجْرِيَ عَلَيْه الصِّفَاتُ الْمُحْدَثَاتُ - ولَا يَكُونُ بَيْنَهَا وبَيْنَه فَصْلٌ - ولَا لَه عَلَيْهَا فَضْلٌ فَيَسْتَوِيَ الصَّانِعُ والْمَصْنُوعُ - ويَتَكَافَأَ الْمُبْتَدَعُ والْبَدِيعُ - خَلَقَ الْخَلَائِقَ عَلَى غَيْرِ مِثَالٍ خَلَا مِنْ غَيْرِه - ولَمْ يَسْتَعِنْ عَلَى خَلْقِهَا بِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِه - وأَنْشَأَ الأَرْضَ فَأَمْسَكَهَا مِنْ غَيْرِ اشْتِغَالٍ - وأَرْسَاهَا عَلَى غَيْرِ قَرَارٍ وأَقَامَهَا بِغَيْرِ قَوَائِمَ، ورَفَعَهَا بِغَيْرِ دَعَائِمَ - وحَصَّنَهَا مِنَ الأَوَدِ والِاعْوِجَاجِ - ومَنَعَهَا مِنَ التَّهَافُتِ والِانْفِرَاجِ - أَرْسَى أَوْتَادَهَا وضَرَبَ أَسْدَادَهَا - واسْتَفَاضَ عُيُونَهَا وخَدَّ أَوْدِيَتَهَا - فَلَمْ يَهِنْ مَا بَنَاه ولَا ضَعُفَ مَا قَوَّاه هُوَ الظَّاهِرُ عَلَيْهَا بِسُلْطَانِه وعَظَمَتِه - وهُوَ الْبَاطِنُ لَهَا بِعِلْمِه ومَعْرِفَتِه - والْعَالِي عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مِنْهَا بِجَلَالِه وعِزَّتِه - لَا يُعْجِزُه شَيْءٌ مِنْهَا طَلَبَه - ولَا يَمْتَنِعُ عَلَيْه فَيَغْلِبَه

اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ عدم سے وجود میں آیا ہے کہ اس پر حادث(۱) صفات کا اطلاق ہو جائے اور دونوں میں نہ کوئی فاصلہ رہ جائے اور نہ اس کا حوادث پر کوئی فضل رہ جائے اور پھر صانع و مصنوع دونوں برابر ہو جائیں اورمصنوع صنعت کے مثل ہو جائے۔اس نے مخلوقات کو بغیر کسی دوسرے کے چھوڑ دے ہوئے نمونہ کے بنایا ہے اور اس تخلیق میں کسی سے مدد بھی نہیں لی ہے۔زمین کو ایجاد کیا اور اس میں الجھے بغیر اسے روک کر رکھا اورپھربغیرکسی سہارے کے گاڑ دیا اور بغیر کسی ستون کے قائم کردیا اوربغیرکھمبوں کے بلند بھی کردیا۔اسے ہر طرح کی کجی اور ٹیڑھے پن سے محفوظ رکھا اورہر قسم کے شگاف اورانتشار سے بچائے رکھا۔اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اورچٹانوں کو مضبوطی سے نصب کردیا۔چشمے جاری کردئیے اور پانی کی گزر گاہوں کو شگافتہ کردیا۔اس کی کوئی صنعت کمزور نہیں ہے اور اس نے جس کو قوت دے دی ہے وہ ضعیف نہیں ہے۔وہ ہر شے پراپنی عظمت و سلطنت کی بناپرغالب ہے۔اور اپنے علم و عرفان کی بنا پر اندر تک کی خبر رکھتا ہے ۔جلال و عزت کی بنا پر ہر شے سے بلند و بالا ہے اور اگر کسی شے کو طلب کرنا چاہے تو کوئی شے اسے عاجز نہیں کر سکتی ہے اور اس سے انکارنہیں کر سکتی ہے اوراس سے انکار نہیں کرسکتی ہے کہ اس پر غالب آجائے ۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پروردگار کا عرفان اس کے صفات و کمالات ہی سے ہوتا ہے اور اسکی ذات اقدس بھی مختلف صفات سے متصف ہے لیکن بات صرف یہ ہے کہ اس کے صفات حادث نہیں ہیں۔بلکہ عین ذات ہیں اور ایک ذات اقدس ہے جس سے اس کے تمام صفات کا اندازہ ہوتا ہے اور اس میں کسی طرح کے تعدد کا کوئی امکان نہیں ہے۔

۳۵۴

ولَا يَفُوتُه السَّرِيعُ مِنْهَا فَيَسْبِقَه - ولَا يَحْتَاجُ إِلَى ذِي مَالٍ فَيَرْزُقَه - خَضَعَتِ الأَشْيَاءُ لَه وذَلَّتْ مُسْتَكِينَةً لِعَظَمَتِه - لَا تَسْتَطِيعُ الْهَرَبَ مِنْ سُلْطَانِه إِلَى غَيْرِه - فَتَمْتَنِعَ مِنْ نَفْعِه وضَرِّه - ولَا كُفْءَ لَه فَيُكَافِئَه - ولَا نَظِيرَ لَه فَيُسَاوِيَه - هُوَ الْمُفْنِي لَهَا بَعْدَ وُجُودِهَا - حَتَّى يَصِيرَ مَوْجُودُهَا كَمَفْقُودِهَا.

ولَيْسَ فَنَاءُ الدُّنْيَا بَعْدَ ابْتِدَاعِهَا - بِأَعْجَبَ مِنْ إِنْشَائِهَا واخْتِرَاعِهَا - وكَيْفَ ولَوِ اجْتَمَعَ جَمِيعُ حَيَوَانِهَا مِنْ طَيْرِهَا وبَهَائِمِهَا - ومَا كَانَ مِنْ مُرَاحِهَا وسَائِمِهَا - وأَصْنَافِ أَسْنَاخِهَا وأَجْنَاسِهَا - ومُتَبَلِّدَةِ أُمَمِهَا وأَكْيَاسِهَا - عَلَى إِحْدَاثِ بَعُوضَةٍ مَا قَدَرَتْ عَلَى إِحْدَاثِهَا - ولَا عَرَفَتْ كَيْفَ السَّبِيلُ إِلَى إِيجَادِهَا - ولَتَحَيَّرَتْ عُقُولُهَا فِي عِلْمِ ذَلِكَ وتَاهَتْ - وعَجَزَتْ قُوَاهَا وتَنَاهَتْ - ورَجَعَتْ خَاسِئَةً حَسِيرَةً - عَارِفَةً بِأَنَّهَا مَقْهُورَةٌ مُقِرَّةً بِالْعَجْزِ عَنْ إِنْشَائِهَا - مُذْعِنَةً بِالضَّعْفِ عَنْ إِفْنَائِهَا!

وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَعُودُ بَعْدَ فَنَاءِ الدُّنْيَا وَحْدَه لَا شَيْءَ مَعَه -

تیزی دکھلانے والے اس سے بچ کر آگے نہیں جا سکتے ہیں اوروہ کسی صاحب ثروت کی روزی کا محتاج نہیں ہے۔تمام اشیاء اس کی بارگاہ میں خضوع کرنے والی اور اس کی عظمت کے سامنے ذلیل ہیں۔کوئی چیز اس کی سلطنت سے فرار کرکے دوسرے کی طرف ہیں جا سکتی ہے کہ اس کے نفع و نقصان سے محفوظ ہو جائے نہ اس کا کوئی کفو ہے کہ ہمسری کرے اور نہ کوئی مثل ہے کہ برابر ہوجائے۔وہ ہر شے کو وجود کے بعد فناکرنے والا ہے کہ ایک دن پھرمفقود ہو جائے اور اس کے لئے دنیا کا فنا کردینا اس سے زیادہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ جب اس نے اس کی اختراع و ایجادکی تھی اور بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ صورت حال یہ ہے کہ اگر تم حیوانات پرندہ اورچرندہ۔رات کو منزل پر واپس آنے والے اور چراگاہوں میں رہ جانے والے۔طرح طرح کے انواع و اقسام والے اور تمام انسان غبی اورہوشمند سب ملکرایک مچھر کو ایجاد کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے ہیں اور نہ انہیں یہ اندازہ ہو گا کہ اس کی ایجاد کا طریقہ اور راستہ کیا ہے بلکہ ان کی عقلیں اسی راہ میں گم ہو جائیں گی اور ان کی طاقتیں جواب دے جائیں گی اور عاجز و درماندہ ہو کر میدان عمل سے واپس آجائیں گی اور انہیں محسوس ہو جائے گا کہ ان پر کسی غلبہ ہے اور انہیں اپنی عاجزی کا قرار بھی ہوگا اور انہیں فنا کردینے کے بارے میں بھی کمزوری کا اعتراف ہوگا۔

وہ خدائے پاک و پاکیزہ ہی ہے جو دنیا کے فنا ہو جانے کے بعد بھی رہنے والا ہے اور اس کے ساتھ رہنے والا کوئی

۳۵۵

كَمَا كَانَ قَبْلَ ابْتِدَائِهَا كَذَلِكَ يَكُونُ بَعْدَ فَنَائِهَا - بِلَا وَقْتٍ ولَا مَكَانٍ ولَا حِينٍ ولَا زَمَانٍ - عُدِمَتْ عِنْدَ ذَلِكَ الآجَالُ والأَوْقَاتُ - وزَالَتِ السِّنُونَ والسَّاعَاتُ - فَلَا شَيْءَ( إِلَّا الله الْواحِدُ الْقَهَّارُ ) - الَّذِي إِلَيْه مَصِيرُ جَمِيعِ الأُمُورِ - بِلَا قُدْرَةٍ مِنْهَا كَانَ ابْتِدَاءُ خَلْقِهَا - وبِغَيْرِ امْتِنَاعٍ مِنْهَا كَانَ فَنَاؤُهَا - ولَوْ قَدَرَتْ عَلَى الِامْتِنَاعِ لَدَامَ بَقَاؤُهَا - لَمْ يَتَكَاءَدْه صُنْعُ شَيْءٍ مِنْهَا إِذْ صَنَعَه - ولَمْ يَؤُدْه مِنْهَا خَلْقُ مَا خَلَقَه وبَرَأَه - ولَمْ يُكَوِّنْهَا لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ - ولَا لِخَوْفٍ مِنْ زَوَالٍ ونُقْصَانٍ - ولَا لِلِاسْتِعَانَةِ بِهَا عَلَى نِدٍّ مُكَاثِرٍ - ولَا لِلِاحْتِرَازِ بِهَا مِنْ ضِدٍّ مُثَاوِرٍ - ولَا لِلِازْدِيَادِ بِهَا فِي مُلْكِه - ولَا لِمُكَاثَرَةِ شَرِيكٍ فِي شِرْكِه - ولَا لِوَحْشَةٍ كَانَتْ مِنْه - فَأَرَادَ أَنْ يَسْتَأْنِسَ إِلَيْهَا.

ثُمَّ هُوَ يُفْنِيهَا بَعْدَ تَكْوِينِهَا - لَا لِسَأَمٍ دَخَلَ عَلَيْه فِي تَصْرِيفِهَا وتَدْبِيرِهَا - ولَا لِرَاحَةٍ وَاصِلَةٍ إِلَيْه - ولَا لِثِقَلِ شَيْءٍ مِنْهَا عَلَيْه

نہیں ہے جیسا کہ ابتدا میں بھی ایسا ہی تھا اور انتہاء میں بھی ایسا ہی ہونے والا ہے۔اس کے لئے نہ وقت ہے نہ مکان۔نہ ساعت ہے نہ زمان، اس وقت مدت اور وقت سب فناہو جائیں گے اور ساعت و سال سب کاخاتمہ ہو جائے گا۔اس خداء واحد و قہار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔اسی کی طرف تمام امور کی باز گشت ہے اور کسی شے کو بھی اپنی ایجاد سے پہلے اپنی تخلیق کا یارانہ تھا اور نہفنا ہوتے وقت انکار کرنے کا دم ہوگا۔اگراتنی ہی طاقت ہوتی تو ہمیشہ نہ رہ جاتے۔اس مالک کو کسی شے کے بنانے میں کسی زحمتکا سامنا نہیں کرنا پڑا اور اسے کسی شے کی تخلیق و ایجاد تھکا بھی نہیں سکی۔اس نے اس کائات کو نہاپنی حکومت کے استحکام(۱) کے لئے بنایا ہے اور نہ کسی زوال اور نقصان کے خوف سے بچنے کے لئے۔نہ اسے کسی مد مقابل کے مقابلہ میں مدد کی ضرورت تھی اور نہ وہ کسی حملہ آور دشمن سے بچنا چاہتا تھا۔اس کا مقصد اپنے ملک میں کوئی اضافہ تھا اور نہ کسی شریک کے سامنے اپنی کثرت کا اظہارتھا اور نہ تنہائی کی وحشت سے انس حاصل کرنا تھا۔

اس کے بعد وہ اس کائنات کو فنا کردے گا۔نہ اس لئے کہ اس کی تدبیر اور اس کے تصرفات سے عاجز آگیا ہے اور نہ اس لئے کہ اب آرام کرناچاہتا ہے یا اس پر کسی خاص چیز کا بوجھ پڑ رہا ہے۔

(۱)چونکہ دنیا میں ایجادات اورحکومات کا فلسفہ یہی ہوتا ہے کہ کوئی ایجادات کے ذریعہ حکومت کا استحکام چاہتا ہے اور کوئی حکومت کے ریعہ خطرات کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔اس لئے بہت ممکن تھاکہ بعض جاہل افراد مالک کائنات کی تخلیق اور اس کی حکومت کے بارے میں بھی اسی طرح کا خیال قائم کر لیتے ۔

حضرت نے یہ چاہا کہ اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا جائے اور اس حقیقت کو بے نقاب کردیا جائے کہ خالق و مخلوق میں بے پناہ فرق ہے اور کسی بھی مخلوق کا قایس خالق پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔مخلوق کا مزاج احتیاج ہے اورخالق کا کمال بے نیازی ہے لہٰذا دنوں کے بارے میں ایک طرح کے تصورات نہیں قائم کئے جا سکتے ہیں۔

۳۵۶

لَا يُمِلُّه طُولُ بَقَائِهَا فَيَدْعُوَه إِلَى سُرْعَةِ إِفْنَائِهَا - ولَكِنَّه سُبْحَانَه دَبَّرَهَا بِلُطْفِه - وأَمْسَكَهَا بِأَمْرِه وأَتْقَنَهَا بِقُدْرَتِه - ثُمَّ يُعِيدُهَا بَعْدَ الْفَنَاءِ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ مِنْه إِلَيْهَا - ولَا اسْتِعَانَةٍ بِشَيْءٍ مِنْهَا عَلَيْهَا - ولَا لِانْصِرَافٍ مِنْ حَالِ وَحْشَةٍ إِلَى حَالِ اسْتِئْنَاسٍ - ولَا مِنْ حَالِ جَهْلٍ وعَمًى إِلَى حَالِ عِلْمٍ والْتِمَاسٍ - ولَا مِنْ فَقْرٍ وحَاجَةٍ إِلَى غِنًى وكَثْرَةٍ - ولَا مِنْ ذُلٍّ وضَعَةٍ إِلَى عِزٍّ وقُدْرَةٍ.

(۱۸۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في ذكر الملاحم

أَلَا بِأَبِي وأُمِّي هُمْ مِنْ عِدَّةٍ - أَسْمَاؤُهُمْ فِي السَّمَاءِ مَعْرُوفَةٌ وفِي الأَرْضِ مَجْهُولَةٌ - أَلَا فَتَوَقَّعُوا مَا يَكُونُ مِنْ إِدْبَارِ أُمُورِكُمْ - وانْقِطَاعِ وُصَلِكُمْ واسْتِعْمَالِ صِغَارِكُمْ - ذَاكَ حَيْثُ تَكُونُ ضَرْبَةُ السَّيْفِ عَلَى الْمُؤْمِنِ - أَهْوَنَ مِنَ الدِّرْهَمِ مِنْ حِلِّه - ذَاكَ حَيْثُ يَكُونُ الْمُعْطَى أَعْظَمَ أَجْراً مِنَ الْمُعْطِي - ذَاكَ حَيْثُ تَسْكَرُونَ مِنْ غَيْرِ شَرَابٍ - بَلْ مِنَ النِّعْمَةِ والنَّعِيمِ - وتَحْلِفُونَ مِنْ غَيْرِ اضْطِرَارٍ - وتَكْذِبُونَ مِنْ غَيْرِ إِحْرَاجٍ - ذَاكَ إِذَا عَضَّكُمُ الْبَلَاءُ كَمَا يَعَضُّ الْقَتَبُ غَارِبَ الْبَعِيرِ

یا طول بقائے کائنات نے اسے تھکا دیا ہے تو اب اسے مٹا دینا چاہتا ہے۔ایسا کچھ نہیں ہے۔اس نے اپنے لطف سے اس کی تدبیر کی ہے اور اپنے امر سے اسے روک رکھا ہے۔اپنی قدرت سے اسے مستحکم بنایا ہے اور پھر فنا کرنے کے بعد دوبارہ ایجاد کردے گا حالانکہ اس وقت بھی نہ اسے کسی شے کی ضرورت ہے اور نہ کسی سے مدد لینا ہوگی۔نہ وحشت سے انس کی طرف منتقل ہونا ہوگا اور نہ جہالت اورتاریکی سے علم اورتجریہ کی طرف آنا ہوگا نہ فقرو احتیاج سے مالداری اور کثرت کی تلاش ہوگی اور نہ ذلت و کمزوری سے عزت اور قدرت کی جستجو ہوگی۔

(۱۸۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں حوادث روز گار کا ذکر کیا گیا ہے )

میرے ماں باپ ان چند افراد پر قربان ہو جائیں جن کے نام آسمان میں معروف ہیں اور زمین میں مجہول ۔آگاہ ہو جائو اور اس وقت کا انتظار کرو جب تمہارے امور الٹ جائیں گے اور تعلقات ٹوٹ جائیں گے اوربچوں کے ہاتھ میں اقتدار آجائے گا یہ وہ وقت ہوگا جب ایک درہم کے حلالا کے ذریعہ حاصل کرنے سے آسان تر تلوار کا زخم ہوگا اور لینے والے فقیر کا اجر دینے والے مالدار سے زیادہ ہوگا۔

تم بغیر کسی شراب کے نعمتوں کے نشہ میں سر مست ہو گے اور بغیر کسی مجبوری کے قسم کھائو گے اور بغیر کسی ضرورت کے جھوٹ بولو گے اوریہی وہ وقت ہوگا جب بلائیں تمہیں اس طرح کاٹ کھائیں گی جس طرح اونٹ کی

۳۵۷

مَا أَطْوَلَ هَذَا الْعَنَاءَ وأَبْعَدَ هَذَا الرَّجَاءَ.

أَيُّهَا النَّاسُ أَلْقُوا هَذِه الأَزِمَّةَ - الَّتِي تَحْمِلُ ظُهُورُهَا الأَثْقَالَ مِنْ أَيْدِيكُمْ - ولَا تَصَدَّعُوا عَلَى سُلْطَانِكُمْ فَتَذُمُّوا غِبَّ فِعَالِكُمْ - ولَا تَقْتَحِمُوا مَا اسْتَقْبَلْتُمْ مِنْ فَوْرِ نَارِ الْفِتْنَةِ - وأَمِيطُوا عَنْ سَنَنِهَا وخَلُّوا قَصْدَ السَّبِيلِ لَهَا - فَقَدْ لَعَمْرِي يَهْلِكُ فِي لَهَبِهَا الْمُؤْمِنُ - ويَسْلَمُ فِيهَا غَيْرُ الْمُسْلِمِ.إِنَّمَا مَثَلِي بَيْنَكُمْ كَمَثَلِ السِّرَاجِ فِي الظُّلْمَةِ - يَسْتَضِيءُ بِه مَنْ وَلَجَهَا - فَاسْمَعُوا أَيُّهَا النَّاسُ - وعُوا وأَحْضِرُوا آذَانَ قُلُوبِكُمْ تَفْهَمُوا.

(۱۸۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الوصية بأمور

التقوى

أُوصِيكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ بِتَقْوَى اللَّه - وكَثْرَةِ حَمْدِه عَلَى آلَائِه إِلَيْكُمْ - ونَعْمَائِه عَلَيْكُمْ وبَلَائِه لَدَيْكُمْ - فَكَمْ خَصَّكُمْ بِنِعْمَةٍ وتَدَارَكَكُمْ بِرَحْمَةٍ

پیٹھ کو پالان۔ہائے یہ رنج والم کس قدر طویل ہوگا اور اس سے نجات کی امید کس قدردور تر ہوگی۔ لوگو! ان سواریوں کی باگ ڈور اتار کر پھینک دو جن کی پشت پر تمہارے ہی ہاتھوں گناہوں کا بوجھ ہے اور اپنے حاکم سے اختلاف نہ کرو کہ بعد میں اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔وہ آگ کے شعلے جو تمہارے سامنے ہیں ان میں کود نہ پڑو۔انکی راہسے الگ ہو کرچلو اور راستہ کو ان کے لئے خالی کردو کہ میری جان کی قسم اس فتنہ کی آگ میں مومن ہلاک ہو جائے گا اورغیر مسلم محفوظ رہے گا۔

میری مثال تمہارے درمیان اندھیرے میں چراغ(۱) جیسی ہے کہ جواس میں داخل ہو جائے گا وہ روشنی حاصل کرلے گا۔لہٰذا خدارا میری بات سنو اور سمجھو۔اپنے دلوں کے کانوں کو میری طرف مصروف کرو تاکہ بات سمجھ سکو۔

(۱۸۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(مختلف امور کی وصیت کرتے ہوئے )

ایہا الناس ! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں تقویٰ الٰہی اورنعمتوں ' احسانات اور فضل و کرم پر شکر خدا ادا کرنے کی دیکھو کتنی نعمتیں ہیں جو اس نے تمہیں عنایت کی ہیں اور کتنی برائیوں کی مکافات سے اپنی رحمت کے

(۱) جس طرح مالک نے رسول اکرم (ص) کو جاہلیت کے اندھیرے میں سراج منیر بناکربھیجا تھا اسی طرح فتنوں کے اندھیروں میں مولائے کائنات کی ذات ایکروشن چراغ کی ہے کہ اگر انسان اس چراغ کی روشنی میں زندگی گزارے تو کوئی فتنہ اس پر اثر اناز نہیں ہوسکتا ہے اور کسی اندھیر ے میں اس کے بھٹکنے کا امکان نہیں ہے۔لیکن شرط یہی ہے کہ اس چراغ کی روشنی میں قدم آگے بڑھائے ورنہ اگر اس نے آنکھیں بند کرلیں اوراندھے پن کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا رہا تو چراغ روشن رہے گا اور انسان گمراہ ہو جائے گا جس کی طرف ان کلمات کے ذریعہ اشارہ کیا گیا ہے کہ خدارا میری بات سنو اور سمجھو کہ اس کے بغیر ہدایت کا کوئی امکان نہیں ہے اور گمراہی کا خطرہ ہرگز نہیں ٹل سکتا ہے۔

۳۵۸

أَعْوَرْتُمْ لَه فَسَتَرَكُمْ وتَعَرَّضْتُمْ لأَخْذِه فَأَمْهَلَكُمْ!

الموت

وأُوصِيكُمْ بِذِكْرِ الْمَوْتِ وإِقْلَالِ الْغَفْلَةِ عَنْه - وكَيْفَ غَفْلَتُكُمْ عَمَّا لَيْسَ يُغْفِلُكُمْ - وطَمَعُكُمْ فِيمَنْ لَيْسَ يُمْهِلُكُمْ - فَكَفَى وَاعِظاً بِمَوْتَى عَايَنْتُمُوهُمْ - حُمِلُوا إِلَى قُبُورِهِمْ غَيْرَ رَاكِبينَ - وأُنْزِلُوا فِيهَا غَيْرَ نَازِلِينَ - فَكَأَنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا لِلدُّنْيَا عُمَّاراً - وكَأَنَّ الآخِرَةَ لَمْ تَزَلْ لَهُمْ دَاراً - أَوْحَشُوا مَا كَانُوا يُوطِنُونَ - وأَوْطَنُوا مَا كَانُوا يُوحِشُونَ - واشْتَغَلُوا بِمَا فَارَقُوا - وأَضَاعُوا مَا إِلَيْه انْتَقَلُوا – لَا عَنْ قَبِيحٍ يَسْتَطِيعُونَ انْتِقَالًا - ولَا فِي حَسَنٍ يَسْتَطِيعُونَ ازْدِيَاداً - أَنِسُوا بِالدُّنْيَا فَغَرَّتْهُمْ - ووَثِقُوا بِهَا فَصَرَعَتْهُمْ.

سرعة النفاد

فَسَابِقُوا رَحِمَكُمُ اللَّه إِلَى مَنَازِلِكُمُ - الَّتِي أُمِرْتُمْ أَنْ تَعْمُرُوهَا - والَّتِي رَغِبْتُمْ فِيهَا ودُعِيتُمْ إِلَيْهَا - واسْتَتِمُّوا نِعَمَ اللَّه عَلَيْكُمْ

ذریعہ بچالیا ہے۔تم نے کھل کر گناہ کے اور اس نے پردہ پوشی کی تم نے قابل مواخذہ اعمال انجام دئیے اور اس نے تمہیں مہلت دے دی۔

میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ موت کو یاد رکھو اور اس سے غفلت نہ برتو۔آخر اس سے کیسے غفلت کر رہے ہو جو تم سے غفلت کرنے والی نہیں ہے اور اس فرشتہ موت سے کیسے امید لگائے ہو جو ہرگز مہلت دینے والا نہیں ہے۔تمہاری نصیحت کے لئے وہمردے ہی کافی ہیں جنہیں تم دیکھ چکے ہو کہ کس طرح اپنی قبروں کی طرف بغیر سواری کے لے جائے گئے اور کس طرح قبر میں اتار دئیے گئے کہ خود سے اترنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی اس دنیا کو بسایا ہی نہیں تھا اورگویا کہ آخرت ہی ان کا ہمیشگی کا مکان ہے۔وہ جہاں آباد تھے اسے وحشت کدہ بنا گئے اور جس سے وحشت کھاتے تھے وہاں جا کر آباد ہوگئے۔یہ اس میں مشغول رہے تھے کو چھوڑنا پڑا اور اسے برباد کرتے رہے تھے جدھر جانا پڑ۔اب نہ کسی برائی سے بچ کر کہیں جا سکتے ہیں اورنہ کسی نیکی میں کوئی اضافہ کرسکتے ہیں۔دنیا سے انس پیدا کیا تو اس نے دھوکہ دے دیا اور اس پر اعتبارکرلیا تو اس نے تباہ و برباد کردیا۔

خداتم پر رحمت نازل کرے۔اب سے سبقت کرو ان منازل کی طرف جن کو آباد کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جن کی طرف سفرکرنے کی رغبت دلائی گئی ہے اور دعوت دی گئی ہے۔اللہ کی نعمتوں کی تکمیل کا انتظام کرو

۳۵۹

بِالصَّبْرِ عَلَى طَاعَتِه - والْمُجَانَبَةِ لِمَعْصِيَتِه - فَإِنَّ غَداً مِنَ الْيَوْمِ قَرِيبٌ - مَا أَسْرَعَ السَّاعَاتِ فِي الْيَوْمِ - وأَسْرَعَ الأَيَّامَ فِي الشَّهْرِ - وأَسْرَعَ الشُّهُورَ فِي السَّنَةِ - وأَسْرَعَ السِّنِينَ فِي الْعُمُرِ!

(۱۸۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الإيمان ووجوب الهجرة

أقسام الإيمان

فَمِنَ الإِيمَانِ مَا يَكُونُ ثَابِتاً مُسْتَقِرّاً فِي الْقُلُوبِ - ومِنْه مَا يَكُونُ عَوَارِيَّ بَيْنَ الْقُلُوبِ والصُّدُورِ - إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ - فَإِذَا كَانَتْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ مِنْ أَحَدٍ فَقِفُوه - حَتَّى يَحْضُرَه الْمَوْتُ - فَعِنْدَ ذَلِكَ يَقَعُ حَدُّ الْبَرَاءَةِ.

وجوب الهجرة

والْهِجْرَةُ قَائِمَةٌ عَلَى حَدِّهَا الأَوَّلِ - مَا كَانَ لِلَّه فِي أَهْلِ الأَرْضِ حَاجَةٌ مِنْ مُسْتَسِرِّ

اس کی اطاعت کے انجام دینے اور معصیتوں سے پرہیز کرنے پر صبر کے ذریعہ۔اس لئے کہ کل کا دن آج کے دن سے دور نہیں ہے۔دیکھو دن کی ساعتیں 'مہینہ کے دن ' سال کے مہینے اور زندگی کے سال کس تیزی سے گزر جاتے ہیں۔

(۱۸۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایمان اور وجوب ہجرت کے بارے میں )

ایمان(۱) کا ایک وہ حصہ ہے جودلوں میں ثابت اورمستحکم ہوتا ہے اور ایک وہ حصہ ہے جو دل اور سینے کے درمیان عارضی طور پر رہتا ہے لہٰذا اگر کسی سے برائت اور بیزاری بھی کرنا ہو تو اتنی دیر انتظار کرو کہ اسے موت آجائے کہ اس وقت بیزاری برمحل ہوگی۔

ہجرت(۲) کا قانون آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔اللہ کسی قوم کی متحاج نہیں ہے چاہے جو خفیہ طور پر

(۱)ایمان وہ عقیدہ ہے جو انسان کے دل کی گہرائیوں میں پایا جاتا ہے اورجس کا واقعی اظہار انسان کے عملاور کردار سے ہوتا ہے کہ عمل اور کردارکے بغیر ایمان صرف ایک دعویٰ رہتا ہے جسکی کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔

لیکن یہ ایمان بھی دو طرح کا ہوتا ہے۔کبھی انسانکے دل کی گہرائیوں میں یوں پیوست ہو جاتا ہے کہ زمانہ کے جھکڑ بھی اسے ہلاک نہیں سکتے ہیں اور کبھی حالات کی بنا پر تزتزل کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔حضرت نے اس دوسری قسم کے پیش نظر ارشاد فرمایا ہے کہ کسی انسان کی بد کرداری کی بنا پر برائت کرنا ہے تو اتنا انتظر کرلو کہ اسے موت آجائے تاکہ یہ یقین ہو جائے کہ ایمان اس کے دل کی گہرائیوں میں ثابت نہیں تھا ورنہ تو بہ و استغفار کرکے راہ راست پرآجاتا ۔

(۲)ہجرت کا واقعی مقصد جان کا بچانا نہیں بلکہ ایمان کا بچانا ہوتا ہے لہٰذا جب تک ایمان کے تحفظ کا انتظام نہ ہو جائے اس وقت تک ہجرت کاکوئی مفہوم نہیں ہے اور جب معرفت حجت کے ذریعہ ایمان کے تحفظ کا انتظام ہو جائے تو سمجھو کہ انسان مہاجر ہوگیا ' چاہے اس کا قیام کسی منزل پر کیوں نہ رہے۔

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863