نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 629960
ڈاؤنلوڈ: 15074

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 629960 / ڈاؤنلوڈ: 15074
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

وآيَةً مُحْكَمَةً تَزْجُرُ عَنْه أَوْ تَدْعُو إِلَيْه - فَرِضَاه فِيمَا بَقِيَ وَاحِدٌ وسَخَطُه فِيمَا بَقِيَ وَاحِدٌ - واعْلَمُوا أَنَّه لَنْ يَرْضَى عَنْكُمْ بِشَيْءٍ سَخِطَه - عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - ولَنْ يَسْخَطَ عَلَيْكُمْ بِشَيْءٍ رَضِيَه مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - وإِنَّمَا تَسِيرُونَ فِي أَثَرٍ بَيِّنٍ - وتَتَكَلَّمُونَ بِرَجْعِ قَوْلٍ قَدْ قَالَه الرِّجَالُ مِنْ قَبْلِكُمْ - قَدْ كَفَاكُمْ مَئُونَةَ دُنْيَاكُمْ وحَثَّكُمْ عَلَى الشُّكْرِ - وافْتَرَضَ مِنْ أَلْسِنَتِكُمُ الذِّكْرَ.

الوصية بالتقوى

وأَوْصَاكُمْ بِالتَّقْوَى - وجَعَلَهَا مُنْتَهَى رِضَاه وحَاجَتَه مِنْ خَلْقِه - فَاتَّقُوا اللَّه الَّذِي أَنْتُمْ بِعَيْنِه ونَوَاصِيكُمْ بِيَدِه - وتَقَلُّبُكُمْ فِي قَبْضَتِه - إِنْ أَسْرَرْتُمْ عَلِمَه وإِنْ أَعْلَنْتُمْ كَتَبَه - قَدْ وَكَّلَ بِذَلِكَ حَفَظَةً كِرَاماً لَا يُسْقِطُونَ حَقّاً ولَا يُثْبِتُونَ بَاطِلًا - واعْلَمُوا أَنَّه( مَنْ يَتَّقِ الله يَجْعَلْ لَه مَخْرَجاً ) مِنَ الْفِتَنِ - ونُوراً مِنَ الظُّلَمِ ويُخَلِّدْه فِيمَا اشْتَهَتْ نَفْسُه - ويُنْزِلْه مَنْزِلَ الْكَرَامَةِ

ہو یا کوئی محکم آیت نہ نازل کردی ہو جس کے ذریعہ روکا جائے یا دعوت دی جائے۔اس کی رضا اورناراضگی مستقبل میں بھی ویسی ہی رہے گی جس طرح وقت نزول تھی ۔اور یہ یاد رکھو کہ وہ تم سے کسی ایسی بات پر راضی نہ ہوگا جس پر پہلے والوں سے ناراض ہو چکا ہے اور نہ کسی ایسی بات سے ناراض ہو گا جس پر پہلے والوں سے راضی رہ چکا ہے تم بالکل واضح نشان قدم پر چل رہے ہو اور انہیں باتوں کو دہرا رہے ہو جو پہلے والے کہہ چکے ہیں۔اس نے تمہیں دنیا کی زحمتوں سے بچا لیا ہے اور تمہیں شکر پرآمادہ کیا ہے اور تمہاری زبانوں سے ذکر کامطالبہ کیا ہے۔

تمہیں تقویٰ کی نصیحت کی ہے اور اسے اپنی مرضی کی حد آخر قراردیا ہے اور یہی مخلوقات سے اس کا مطالبہ ہے لہٰذا اس سے ڈرو جس کی نگاہ کے سامنے ہو اور جس کے ہاتھوں میں تمہاری پیشانی ہے اور جس کے قبضہ قدرت میں کروٹیں بدل رہے ہو کہ اگر کسی بات پر پردہ ڈالنا چاہو تو وہ جانتا ہے اور اگر اعلان کرنا چاہو تو وہ لکھ لیتا ہے اورتمہارے اوپر محترم کاتب اعمال مقرر کردئیے ہیں جو کسی حق کو ساقط نہیں کر سکتے ہیں اور کسی باطل کوثبت نہیں کر سکتے ہیں اوری ادرکھو کہ جو شخص بھی تقویٰ الٰہی اخیار کرتا ہے پروردگار اس کے لئے فتنوں سے باہر نکل جانے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے تاریکیوں میں نور عطا کر دیتا ہے اسے نفس کے تمام مطالبات کے درمیان دائمی زندگی عطا کر تا ہے اور کرامت کی منزل میں نازل کرتا

۳۴۱

عِنْدَه فِي دَارٍ اصْطَنَعَهَا لِنَفْسِه - ظِلُّهَا عَرْشُه ونُورُهَا بَهْجَتُه - وزُوَّارُهَا مَلَائِكَتُه ورُفَقَاؤُهَا رُسُلُه - فَبَادِرُوا الْمَعَادَ وسَابِقُوا الآجَالَ - فَإِنَّ النَّاسَ يُوشِكُ أَنْ يَنْقَطِعَ بِهِمُ الأَمَلُ ويَرْهَقَهُمُ الأَجَلُ - ويُسَدَّ عَنْهُمْ بَابُ التَّوْبَةِ - فَقَدْ أَصْبَحْتُمْ فِي مِثْلِ مَا سَأَلَ إِلَيْه الرَّجْعَةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - وأَنْتُمْ بَنُو سَبِيلٍ عَلَى سَفَرٍ مِنْ دَارٍ لَيْسَتْ بِدَارِكُمْ - وقَدْ أُوذِنْتُمْ مِنْهَا بِالِارْتِحَالِ وأُمِرْتُمْ فِيهَا بِالزَّادِ واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ لِهَذَا الْجِلْدِ الرَّقِيقِ صَبْرٌ عَلَى النَّارِ - فَارْحَمُوا نُفُوسَكُمْ - فَإِنَّكُمْ قَدْ جَرَّبْتُمُوهَا فِي مَصَائِبِ الدُّنْيَا.

أَفَرَأَيْتُمْ جَزَعَ أَحَدِكُمْ مِنَ الشَّوْكَةِ تُصِيبُه - والْعَثْرَةِ تُدْمِيه والرَّمْضَاءِ تُحْرِقُه - فَكَيْفَ إِذَا كَانَ بَيْنَ طَابَقَيْنِ مِنْ نَارٍ - ضَجِيعَ حَجَرٍ وقَرِينَ شَيْطَانٍ - أَعَلِمْتُمْ أَنَّ مَالِكاً إِذَا غَضِبَ عَلَى النَّارِ - حَطَمَ بَعْضُهَا بَعْضاً لِغَضَبِه - وإِذَا زَجَرَهَا تَوَثَّبَتْ بَيْنَ أَبْوَابِهَا جَزَعاً مِنْ زَجْرَتِه!

أَيُّهَا الْيَفَنُ الْكَبِيرُ الَّذِي قَدْ لَهَزَه الْقَتِيرُ - كَيْفَ أَنْتَ إِذَا الْتَحَمَتْ أَطْوَاقُ النَّارِ بِعِظَامِ الأَعْنَاقِ

ہے۔اس گھرمیں جس کو اپنے لئے پسند فرماتا ہے جس کا سایہ اس کاعرش ہے اورجس کا نور اس کی ضیا ہے۔ اس کے زائرین ملائکہ ہیں اور اس کے رفقاء مرسلین۔اب اپنی باز گشت کی طرف سبقت کرو اور موت سے پہلے سامان مہیا کرلو کہ عنقریب لوگوں کی امیدیں منقطع ہو جانے والی ہیں اور موت کا پھندہ گلے میں پڑ جانے والا ہے جب توبہ کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا۔ابھی تم اس منزل میں ہو جس کی طرف پہلے والے لوٹ کرآنے کی آرزو کر رہے ہیں اور تم مسافر ہو اور اس گھر سے سفر کرنے والے ہو جو تمہارا واقعی گھر نہیں ہے۔تمہیں کوچ کی اطلاع دی جا چکی ہے اور زاد راہ اکٹھا کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے اور یہ یاد رکھو کہ یہ نرم و نازک جلد آتش جہنم کو برداشت نہیں کر سکتی ہے۔لہٰذا خدارا اپنے نفسوں پر رحم کرو کہ تم اسے دنیا کے مصائب میں آزما چکے ہو۔کیا تم نے نہیں دیکھا ہے کہ تمہارا کیا عالم ہوتا ہے جب ایک کانٹا چبھ جاتا ہے یا ایک ٹھوکر لگنے سے خون نکل آتا ہے یا کوئی ریت تپنے لگتی ہے۔تو پھراس وقت کیا ہوگا جب تم جہنم کے دو طبقوں کے درمیان ہوگے۔دہکتے ہوئے پتھروں کے پہلو میں اور شیاطین کے ہمسایہ میں۔کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ مالک (داروغہ جہنم ) جبآگ پرغضب ناک ہوتا ہے تو اس کے اجزاء ایک دوسرے سے ٹکرانے لگتے ہیں اور جب اسے جھڑکتا ہے تو وہ گھبرا کر دروازوں کے درمیان اچھلنے لگتی ہے۔

اے پیر کہن سال جس پر بڑھا پا چھا چکا ہے۔اس وقت تیرا کیا عالم ہوگا جب جہنم کے طوق گردن کی ہڈیوں

۳۴۲

ونَشِبَتِ الْجَوَامِعُ حَتَّى أَكَلَتْ لُحُومَ السَّوَاعِدِ –

فَاللَّه اللَّه مَعْشَرَ الْعِبَادِ - وأَنْتُمْ سَالِمُونَ فِي الصِّحَّةِ قَبْلَ السُّقْمِ - وفِي الْفُسْحَةِ قَبْلَ الضِّيقِ - فَاسْعَوْا فِي فَكَاكِ رِقَابِكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُغْلَقَ رَهَائِنُهَا - أَسْهِرُوا عُيُونَكُمْ وأَضْمِرُوا بُطُونَكُمْ - واسْتَعْمِلُوا أَقْدَامَكُمْ وأَنْفِقُوا أَمْوَالَكُمْ - وخُذُوا مِنْ أَجْسَادِكُمْ فَجُودُوا بِهَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ - ولَا تَبْخَلُوا بِهَا عَنْهَا فَقَدْ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( إِنْ تَنْصُرُوا الله يَنْصُرْكُمْ ويُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ ) - وقَالَ تَعَالَى( مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ الله قَرْضاً حَسَناً - فَيُضاعِفَه لَه ولَه أَجْرٌ كَرِيمٌ ) - فَلَمْ يَسْتَنْصِرْكُمْ مِنْ ذُلٍّ - ولَمْ يَسْتَقْرِضْكُمْ مِنْ قُلٍّ - اسْتَنْصَرَكُمْ ولَه جُنُودُ السَّمَاوَاتِ والأَرْضِ وهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - واسْتَقْرَضَكُمْ ولَه خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ والأَرْضِ - وهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ - وإِنَّمَا أَرَادَ أَنْ يَبْلُوَكُمْ( أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) - فَبَادِرُوا بِأَعْمَالِكُمْ تَكُونُوا مَعَ جِيرَانِ اللَّه فِي دَارِه -

میں پیوست ہو جائیں گے اور ہتھکڑیاں ہاتھوں میں گڑ کر کلائیوں کا گوشت تک کھا جائیں گی۔

اللہ کے بندو! اللہ کو یاد کرو اس وقت جب کہ تم صحت کے عالم میں ہو قبل اسکے کہ بیمار ہو جائو اور وسعت کے عالم میں قبل اس کے کہ تنگی کا شکار ہو جائو اپنی گردنوں کوآتش جہنم سے آزاد کرانے کی فکر کرو قبل اس کے کہ وہ اس طرح گردی ہوجائیں کہ پھر چڑھائی نہ جا سکیں ۔اپنی آنکھوں کو بیدار رکھو اپنے شکم کو لاغر بنائو اور اپنے پیروں کو راہ عمل میں استعمال کرو۔اپنے مال کو خرچ کرو اور اپنے جسم کو اپنی روح پر قربان کردو۔ خبردار اس راہ میں بخل نہ کرنا کہ پروردگار نے صاف صاف فرمادیا ہے کہ '' اگر تم اللہ کی نصرت کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عنایت فرمائے گا '' اس نے یہ بھی فرمادیا ہے کہ '' کون ہے جو پروردگار کو بہترین قرض دے تاکہ وہ اسے دنیا میں چوگنا بنادے اور اس کے لئے بہترین جزا ہے '' تواس نے تم سے کمزوری کی بنا پرنصرت کا مطالبہ نہیں کیا ہے اورنہ غربت کی بنا پر قرض مانگا ہے۔اس نے مطالبۂ نصرت کیا ہے جب کہ زمین و آسمان کے سارے لشکر اسی کے ہیں اور وہ عزیز و حکیم ہے اور اس نے قرض مانگا ہے جب کہ زمین و آسمان کے سارے خزانے اسی کی ملکیت ہیں اور وہ غنی حمید ہے '' وہ چاہتا ہے کہ تمہارا امتحان لے کہ تم میں حسن عمل کے اعتبارسے سب سے بہتر کون ہے۔اب اپنے اعمال کے ساتھ سبقت کرو تاکہ اللہ کے گھر میں اس کے ہمسایہ کے

۳۴۳

رَافَقَ بِهِمْ رُسُلَه وأَزَارَهُمْ مَلَائِكَتَه - وأَكْرَمَ أَسْمَاعَهُمْ أَنْ تَسْمَعَ حَسِيسَ نَارٍ أَبَداً - وصَانَ أَجْسَادَهُمْ أَنْ تَلْقَى لُغُوباً ونَصَباً -( ذلِكَ فَضْلُ الله يُؤْتِيه مَنْ يَشاءُ والله ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ) .

أَقُولُ مَا تَسْمَعُونَ( والله الْمُسْتَعانُ ) عَلَى نَفْسِي وأَنْفُسِكُمْ - وهُوَ( حَسْبُنَا ) ( ونِعْمَ الْوَكِيلُ ) !

(۱۸۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله للبرج بن مسهر الطائي وقد قال له بحيث يسمعه «لا حكم إلا للَّه»، وكان من الخوارج

اسْكُتْ قَبَحَكَ اللَّه يَا أَثْرَمُ - فَوَاللَّه لَقَدْ ظَهَرَ الْحَقُّ فَكُنْتَ فِيه ضَئِيلًا شَخْصُكَ - خَفِيّاً صَوْتُكَ حَتَّى إِذَا نَعَرَ الْبَاطِلُ نَجَمْتَ نُجُومَ قَرْنِ الْمَاعِزِ.

ساتھ زندگی گزارو۔جہاں مرسلین کی رفاقت ہوگی اورملائکہ زیارت کریں گے اورکان جہنم کیآواز سننے سے بھی محفوظ رہیں گے ا ور بدن کسی طرح کی تکان اورتعب سے بھی دو چار نہ ہوں گے '' یہی وہ فضل خدا ہے کہ جس کو چاہتا ہے عنایت کردیتا ہے اور اللہ بہترین فضل کرنے والا ہے ۔''میں وہ کہہ رہا ہوں جو تم سن رہے ہو۔اس کے بعد اللہ یہ مدد گار ہے میرا بھی اور تمہارابھی اور ویہ ہمارے لئے کافی ہے اوروہی بہترین کار ساز ہے۔

(۱۸۴)

آپ کاارشاد گرامی

(جو آپ نے برج بن مسہر(۱) طائی خارجی سے فرمایا جب یہ سنا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ خدا کے علاوہ کسی کو فیصلہ کا حق نہیں ہے )

خاموش ہو جا۔خدا تیرا برا کرے اے ٹوٹے ہوئے دانتوں والے۔خدا شاہد ہے کہ جب حق کا ظہور ہوا تھا تواس وقت تیری شخصیت کمزوراور تیری آواز بیجان تھی۔لیکن جب باطل کی آواز بلند ہوئی تو تو بکری کی سینگ کی طرح ابھر کرمنظر عام پر آگیا۔

(۱)یہ ایک خارجی شاعر تھا جس نے مولائے کائنات کے خلاف یہ آواز بلند کی کہ آپ نے تحکیم کو قبول کرکے غیر خدا کو حکم بنادیا ہے اور اسلام میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت کا کوئی تصورنہیں ہے۔

حضرت امام عالی مقام نے اس فتنہ کے دورمیں اثرات کا لحاظ کرکے سخت ترین لہجہ میں جواب دیا اور قائل کی اوقات کا اعلان کردیا کہ شخص باطل پرست اورحق بیزار ہے۔ورنہ اسے اس امر کا اندازہ ہوتا کہ کتاب خدا سے فیصلہ کرانا خدا کی حاکمیت کا اقرار ہے انکارنہیں ہے۔حاکمیت خداکے منکرعمرو عاص جیسے افراد ہیں جنہوں نے کتاب خدا کو نظر انداز کرکے سیاہی چالوں سے فیصلہ کردیا اور دین خدا کو یکسر نا قابل توجہ قراردے دیا۔

۳۴۴

(۱۸۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحمد اللَّه فيها ويثني على رسوله ويصف خلقا من الحيوان

حمد اللَّه تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَا تُدْرِكُه الشَّوَاهِدُ - ولَا تَحْوِيه الْمَشَاهِدُ - ولَا تَرَاه النَّوَاظِرُ - ولَا تَحْجُبُه السَّوَاتِرُ - الدَّالِّ عَلَى قِدَمِه بِحُدُوثِ خَلْقِه - وبِحُدُوثِ خَلْقِه عَلَى وُجُودِه - وبِاشْتِبَاهِهِمْ عَلَى أَنْ لَا شَبَه لَه - الَّذِي صَدَقَ فِي مِيعَادِه - وارْتَفَعَ عَنْ ظُلْمِ عِبَادِه - وقَامَ بِالْقِسْطِ فِي خَلْقِه - وعَدَلَ عَلَيْهِمْ فِي حُكْمِه - مُسْتَشْهِدٌ بِحُدُوثِ الأَشْيَاءِ عَلَى أَزَلِيَّتِه - وبِمَا وَسَمَهَا بِه مِنَ الْعَجْزِ عَلَى قُدْرَتِه - وبِمَا اضْطَرَّهَا إِلَيْه مِنَ الْفَنَاءِ عَلَى دَوَامِه - وَاحِدٌ لَا بِعَدَدٍ ودَائِمٌ لَا بِأَمَدٍ وقَائِمٌ لَا بِعَمَدٍ - تَتَلَقَّاه الأَذْهَانُ لَا بِمُشَاعَرَةٍ - وتَشْهَدُ لَه الْمَرَائِي لَا بِمُحَاضَرَةٍ - لَمْ تُحِطْ بِه الأَوْهَامُ بَلْ تَجَلَّى لَهَا بِهَا - وبِهَا امْتَنَعَ مِنْهَا وإِلَيْهَا حَاكَمَهَا

(۱۸۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں حمد خدا ' ثنائے رسول (ص) اوربعض مخلوقات کاتذکرہ ہے )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جسے نہ حواس پا سکتے ہیں اورنہ مکان گھیر سکتے ہیں ۔نہ آنکھیں اسے دیکھ سکتی ہیں اور نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔اس نے اپنے قدیم ہونے کی طرف مخلوقات کے حادثات ہونے سے رہنمائی کی ہے اور ان کی وجود بعد از عدم کو اپنے وجود ازلی کا ثبوت بنادیا ہے اور ان کی باہمی مشابہت سیاپنے بے مثال ہونے کا اظہار کیا ہے۔وہ اپنے وعدہ میں سچا ہے اور اپنے بندوں پر ظلم کرنے سے اجل و ارفع ہے۔اس نے لوگوں میں عدل کا قیام کیا ہے اور فیصلوں پر مکمل انصاف سے کام لیا ہے۔اشیاء کے حدوث سے اپنی ازلیت پراستدلال کیا ہے اور ان پر عاجزی کا نشان لگا کر اپنی قدرت کاملہ کا اثبات کیا ہے۔اشیاء کے جبری فناو عدم سے اپنے دوام کا پتہ دیا ہے۔وہ ایک ہے لیکنعدد کے اعتبار سے نہیں۔دائمی ہے لیکن مدت کے اعتبارسے نہیں اور قائم ہے لیکن کسی کے سہارے نہیں۔ذہن اسے قبول کرتے ہیں لیکن حواس کی بنا پر نہیں اور مشاہدات اس کی گواہی دیتے ہیں لیکن اس کی بارگاہ میں پہنچنے کے بعد نہیں۔اوہام اس کا احاطہ نہیں کر سکتے ہیں بلکہ وہ ان کے لئے انہیں کے ذریعہ روشن ہوا ہے اور انہیں کی ذریعہ ان کے قبضہ میں آنے سے

۳۴۵

لَيْسَ بِذِي كِبَرٍ امْتَدَّتْ بِه النِّهَايَاتُ فَكَبَّرَتْه تَجْسِيماً - ولَا بِذِي عِظَمٍ تَنَاهَتْ بِه الْغَايَاتُ فَعَظَّمَتْه تَجْسِيداً - بَلْ كَبُرَ شَأْناً وعَظُمَ سُلْطَاناً.

الرسول الأعظم

وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه الصَّفِيُّ - وأَمِينُه الرَّضِيُّ – صلى الله عليه وآله - أَرْسَلَه بِوُجُوبِ الْحُجَجِ وظُهُورِ الْفَلَجِ وإِيضَاحِ الْمَنْهَجِ - فَبَلَّغَ الرِّسَالَةَ صَادِعاً بِهَا - وحَمَلَ عَلَى الْمَحَجَّةِ دَالاًّ عَلَيْهَا - وأَقَامَ أَعْلَامَ الِاهْتِدَاءِ ومَنَارَ الضِّيَاءِ - وجَعَلَ أَمْرَاسَ الإِسْلَامِ مَتِينَةً - وعُرَى الإِيمَانِ وَثِيقَةً.

منها في صفة خلق أصناف من الحيوان

ولَوْ فَكَّرُوا فِي عَظِيمِ الْقُدْرَةِ وجَسِيمِ النِّعْمَةِ - لَرَجَعُوا إِلَى الطَّرِيقِ وخَافُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ - ولَكِنِ الْقُلُوبُ عَلِيلَةٌ والْبَصَائِرُ مَدْخُولَةٌ - أَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى صَغِيرِ مَا خَلَقَ كَيْفَ أَحْكَمَ خَلْقَه - وأَتْقَنَ تَرْكِيبَه وفَلَقَ لَه السَّمْعَ والْبَصَرَ - وسَوَّى لَه الْعَظْمَ والْبَشَرَ

انکار کردیا ہے اور ان کا حکم بھی انہیں کو ٹھہرایا ہے ۔وہ اس اعتبار سے بڑا نہیں ہے کہ اس کے اطراف نے پھیل کر اس کے جسم کو بڑا بنادیا ہے اور نہ ایسا عظیم ہے کہ اس کی جسامت زیادہ ہو اور اس نے اس کے جسد کو عظیم بنادیا ہو ۔وہ اپنی شان میں کبیر اور اپنی سلطنت میں عظیم ہے۔

اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد اس کے بندہ اورمخلص رسول اور پسندیدہ امین ہیں۔اللہ ان پر رحمت نازل کرے۔اس نے انہیں نا قابل انکاردلائل۔واضح کامیابی اورنمایاں راستہ کے ساتھ بھیجا ہے۔اور انہوں نے اس کے پیغام کو واشگاف انداز میں پیش کردیا ہے اور لوگوں کو سیدھے راستہ کی رہنمائی کردی ہے ۔ہدایت کے نشان قائم کردئیے ہیں اور روشنی کے منارہ استوار کردئیے ہیں۔اسلام کی رسیوں کومضبوط بنادیا ہے اور ایمان کے بندھنوں کو مستحکم کردیاہے۔

اگر یہ لوگ اس کی عظیم قدرت اور وسیع نعمت میں غورو فکر کرتے تو راستہ کی طرف واپس آجاتے اورجہنم کے عذاب سے خوف زدہ ہو جاتے لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کے دل مریض ہیں اور ان کی آنکھیں کمزور ہیں۔کیا یہ ایک چھوٹی سی مخلوق کو بھی نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اس نے کس طرح اس کی تخلیق کو مستحکم اور اس کی ترکیب کو مضبوط بنایا ہے۔اس چھوٹے سے جسم میں کان اورآنکھیں سب بنادی ہیں اور اسی میں ہڈیاں اور کھال بھی درست کردی ہے۔

۳۴۶

انْظُرُوا إِلَى النَّمْلَةِ فِي صِغَرِ جُثَّتِهَا ولَطَافَةِ هَيْئَتِهَا - لَا تَكَادُ تُنَالُ بِلَحْظِ الْبَصَرِ ولَا بِمُسْتَدْرَكِ الْفِكَرِ - كَيْفَ دَبَّتْ عَلَى أَرْضِهَا وصُبَّتْ عَلَى رِزْقِهَا - تَنْقُلُ الْحَبَّةَ إِلَى جُحْرِهَا وتُعِدُّهَا فِي مُسْتَقَرِّهَا - تَجْمَعُ فِي حَرِّهَا لِبَرْدِهَا وفِي وِرْدِهَا لِصَدَرِهَا - مَكْفُولٌ بِرِزْقِهَا مَرْزُوقَةٌ بِوِفْقِهَا - لَا يُغْفِلُهَا الْمَنَّانُ ولَا يَحْرِمُهَا الدَّيَّانُ - ولَوْ فِي الصَّفَا الْيَابِسِ والْحَجَرِ الْجَامِسِ - ولَوْ فَكَّرْتَ فِي مَجَارِي أَكْلِهَا - فِي عُلْوِهَا وسُفْلِهَا - ومَا فِي الْجَوْفِ مِنْ شَرَاسِيفِ بَطْنِهَا - ومَا فِي الرَّأْسِ مِنْ عَيْنِهَا وأُذُنِهَا - لَقَضَيْتَ مِنْ خَلْقِهَا عَجَباً ولَقِيتَ مِنْ وَصْفِهَا تَعَباً - فَتَعَالَى الَّذِي أَقَامَهَا عَلَى قَوَائِمِهَا - وبَنَاهَا عَلَى دَعَائِمِهَا - لَمْ يَشْرَكْه فِي فِطْرَتِهَا فَاطِرٌ،

ذرا اس چیونٹی کے چھوٹے سے جسم اور اس کی لطیف ہئیت کی طرف نظرکرو جس کا گوشہ چشم سے دیکھنابھی مشکل ہے اور فکروں کی گرفت میں آنابھی دشوار ہے۔کس طرح زمین پر رینگتی ہے اور کس طرح اپنے رزق کی طرف لپکتی ہے۔دانہ کو اپنے سوراخ کی طرف لے جاتی ہے اور پھر وہاں مرکز پرمحفوظ کر دیتی ہے گرمی(۱) میں سردی کا انتظام کرت یہے اور توانائی کے دورمیں کمزوری کے زمانہ کا بندوبست کرتی ہے اس کے رزق کی کفالت کی جا چکی ہے اوراسی کے مطابق اسے برابر رزق مل رہا ہے۔نہ احسان کرنے والا خدا اسے نظر اندازکرتا ہے اور نہ صاحب جزا و عطا اسے محروم رکھتا ہے چاہے وہ خشک پتھر کے اندر ہو یا جمے ہوئے سنگ خارا کے اندر۔اگر تم اس کی غذا کو پست و بلند نالیوں اور اس کے جسم کے اندر شکم کی طرف جھکے ہوئے پسلیوں کے کناروں اور سر میں جگہ پانے والے آنکھ اور کان کو دیکھو گے تو تمہیں واقعاً اس کی تخلیق پرتعجب ہوگا اور اس کی توصیف سے عاجز ہو جائوگے۔بلند و برتر ہے وہ خدا جس نے اس جسم کو اس کے پیروں پر قائم کیا ہے اور اس کی تعمیر انہیں ستونوں پرکھڑی کی ہے۔ نہ اس کی فطرت میں کسی خالق نے حصہ لیا ہے

(۱) ایک چھوٹی سی مخلوق چیونٹی میں یہ دور اندیشی اور اس قدر تنظیم و ترتیب اور ایک اشرف المخلوقات میں اس قدرغفلت اورتغافل کس قدرحیرت انگیز امر ہے اور اس سے زیادہ حیرت انگیز قصہ جناب سلیمان ہے جہاں چیونٹی نے لشکر سلیمان کو دیکھ کرآوازدی کہ فوراً اپنے اپنے سوراخوں میں داخل ہوجائو کہیں لشکر سلیمان تمہیں پامال نہ کردے اور اسے احساس بھی نہ ہو۔گویا کہ ایک چیونٹی کے دل میں قوم کا اس قدر درد ہے اوراسے سردار قوم ہونے کے اعتبارسے اس قدر ذمہ داری کا احساسا ہے کہ قوم تباہ نہ ہونے پائے اور آج عالم اسلام و انسانیت اس قدر تغافل کا شکار ہوگیا ہے کہ کسی کے دل میں قوم کا درد نہیں ہے بلکہ حکام قوم کے کاندھوں پر اپنے جنازے اٹھا رہے ہیں اور ان کی قبروں پر اپنے تاج محل تعمیر کر رہے ہیں۔

۳۴۷

ولَمْ يُعِنْه عَلَى خَلْقِهَا قَادِرٌ - ولَوْ ضَرَبْتَ فِي مَذَاهِبِ فِكْرِكَ لِتَبْلُغَ غَايَاتِه - مَا دَلَّتْكَ الدَّلَالَةُ إِلَّا عَلَى أَنَّ فَاطِرَ النَّمْلَةِ - هُوَ فَاطِرُ النَّخْلَةِ - لِدَقِيقِ تَفْصِيلِ كُلِّ شَيْءٍ - وغَامِضِ اخْتِلَافِ كُلِّ حَيٍّ - ومَا الْجَلِيلُ واللَّطِيفُ والثَّقِيلُ والْخَفِيفُ - والْقَوِيُّ والضَّعِيفُ فِي خَلْقِه إِلَّا سَوَاءٌ.

خلقة السماء والكون

وكَذَلِكَ السَّمَاءُ والْهَوَاءُ والرِّيَاحُ والْمَاءُ - فَانْظُرْ إِلَى الشَّمْسِ والْقَمَرِ والنَّبَاتِ والشَّجَرِ - والْمَاءِ والْحَجَرِ واخْتِلَافِ هَذَا اللَّيْلِ والنَّهَارِ - وتَفَجُّرِ هَذِه الْبِحَارِ وكَثْرَةِ هَذِه الْجِبَالِ - وطُولِ هَذِه الْقِلَالِ وتَفَرُّقِ هَذِه اللُّغَاتِ - والأَلْسُنِ الْمُخْتَلِفَاتِ - فَالْوَيْلُ لِمَنْ أَنْكَرَ الْمُقَدِّرَ وجَحَدَ الْمُدَبِّرَ - زَعَمُوا أَنَّهُمْ كَالنَّبَاتِ مَا لَهُمْ زَارِعٌ - ولَا لِاخْتِلَافِ صُوَرِهِمْ صَانِعٌ -

اور نہ اس کی تخلیق میں کسی قادرنے کئی مدد کی ہے۔اور ار تم فکرکے تمام راستوں کو طے کرکے اس کی انتہا تک پہنچنا چاہو گے تو ایک ہی نتیجہ حاصل ہوگا کہ جو چیونٹی کا خالق ہے وہی درخت خرما کابھی پروردگار ہے۔اس لئے کہ ہر ایک تخلیق میں یہی باریکی ہے اور ہر جاندار کا دوسرے سے نہایت درجہ باریک ہی اختلاف ہے۔اس کی بارگاہ میں عظیم و لطیف ' ثقیل و خفیف ' قوی و ضعیف سب ایک ہی جیسے ہیں ۔

یہی حال آسمان اور فضا۔اور ہوا اور پانی کا ہے ۔ کہ چاہو شمس و قمر کو دیکھو یا نباتات وشجر کو۔پانی اور پتھر پر نگاہ کرو یا شب و روز کی آمد رفت پر' دریائوں کے بہائو کو دیکھو یا پہاڑوں کی کثرت اور چوٹیوں کے طول و ارتفاع کو۔لغات کے اختلاف کو دیکھو یا زبانوںکے افتراق کو۔سب اس کی قدرت کاملہ کے بہترین دلائل ہیں۔ حیف ہے ان لوگوں پر جنہوں نے تقدیر ساز کا انکار کیا ہے اور تدبیر کرنے والے سے مکرگئے ۔ان کا خیال ہے کہ سب گھاس پھوس(۱) کی طرح ہیں کہ بغیر کھیتی کرنے والے کے اگ آئے ہیں اور بغیر صانع کے مختلف شکلیں اختیار کرلی ہیں

(۱) درحقیقت گھاس پھوس کے بارے میں بھی یہ تصور خلاف عقل ہے کہ اس کی تخلیق بغیر کسی خالق کے ہوگئی ہے لیکن یہ تصور صرف اس لئے پیدا کر لیتا ہے کہ اس کی حکمت اور مصلحت سے با خبر نہیں ہے اوریہ خیال کرتا ہے کہ اسے برسات نے پانی کے بغیر کسی ترتیب و تنظیم کے اگادیا ہے اور اس کے بعد اسی تخلیق پر ساری کائنات کا قیاس کرنے لگتا ہے۔حالانکہ اسے کائنات کی حکمت و مصلحت کودیکھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ تخلیق کائنات کے بعض اسرار تو واضح بھی ہوئے ہیں لیکن تخلق نباتات کا تو کوئیراز واضح نہیں ہو سکا ہے اوریہ انسان کی انتہائی جہالت ہے کہ وہ اس قدرحقیر اور معمولی مخلوقات کی حکمت و مصلحت سے بھی با خبرنہیں ہے اور حوصلہ اس قدر بلند ہے کہ مالک کائنات سے ٹکر لینا چاہتا ہے اور ایک لفظ میں اس کے وجود کا خاتمہ کر دیناچاہتا ہے۔

۳۴۸

ولَمْ يَلْجَئُوا إِلَى حُجَّةٍ فِيمَا ادَّعَوْا - ولَا تَحْقِيقٍ لِمَا - أَوْعَوْا وهَلْ يَكُونُ بِنَاءٌ مِنْ غَيْرِ بَانٍ أَوْ جِنَايَةٌ مِنْ غَيْرِ جَانٍ!

خلقة الجرادة

وإِنْ شِئْتَ قُلْتَ فِي الْجَرَادَةِ - إِذْ خَلَقَ لَهَا عَيْنَيْنِ حَمْرَاوَيْنِ - وأَسْرَجَ لَهَا حَدَقَتَيْنِ قَمْرَاوَيْنِ - وجَعَلَ لَهَا السَّمْعَ الْخَفِيَّ وفَتَحَ لَهَا الْفَمَ السَّوِيَّ - وجَعَلَ لَهَا الْحِسَّ الْقَوِيَّ ونَابَيْنِ بِهِمَا تَقْرِضُ - ومِنْجَلَيْنِ بِهِمَا تَقْبِضُ - يَرْهَبُهَا الزُّرَّاعُ فِي زَرْعِهِمْ - ولَا يَسْتَطِيعُونَ ذَبَّهَا ،ولَوْ أَجْلَبُوا بِجَمْعِهِمْ - حَتَّى تَرِدَ الْحَرْثَ فِي نَزَوَاتِهَا وتَقْضِيَ مِنْه شَهَوَاتِهَا - وخَلْقُهَا كُلُّه لَا يُكَوِّنُ إِصْبَعاً مُسْتَدِقَّةً.

فَتَبَارَكَ اللَّه الَّذِي يَسْجُدُ لَه( مَنْ فِي السَّماواتِ والأَرْضِ - طَوْعاً وكَرْهاً ) ويُعَفِّرُ لَه خَدّاً ووَجْهاً - ويُلْقِي إِلَيْه بِالطَّاعَةِ سِلْماً وضَعْفاً - ويُعْطِي لَه الْقِيَادَ رَهْبَةً وخَوْفاً - فَالطَّيْرُ مُسَخَّرَةٌ لأَمْرِه - أَحْصَى عَدَدَ الرِّيشِ مِنْهَا

۔حالانکہ انہوں نے اس دعویٰ میں نہ کسی دلیل کاسہارا لیا ہے اور نہ اپنے عقائد کی کوئی تحقیق کی ہے۔ورنہ یہ سمجھ لیتے کہ نہ بغیر بانی کے عمارت ہو سکتی ہے اور نہ بغیر مجرم کے جرم ہو سکتا ہے۔

اور اگر تم چاہو تو یہی باتیں ٹڈی کے بارے میں کہی جا سکتی ہیں کہ اس کے اندر دوسرخ سرخ آنکھیں پیدا کی ہیں اور چاند جیسے دو حلقوں میں آنکھوں کے چراغ روشن کردئیے ہیں۔چھوٹے چھوٹے کان بنا دئیے ہیں اور مناسب سادہانہ کھول دیا ہے۔لیکن احساس کو قوی بنادیا ہے۔اس کے دو تیز دانت ہیں جن سے تپیوں کو کاٹتی ہے اور دو پیر دندانہ دار ہیں جن سے گھاس وغیرہ کو پکڑتی ہے۔کاشتکار اپنی کاشت کے لئے ان سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن انہیں ہنکا نہیں سکتے ہیں چاہے کسی قدر طاقت کیوں نہ جمع کرلیں۔یہاں تک کہ وہ کھیتوں پرجست وخیز کرتے ہوئے حملہ آور ہو جاتی ہیں اور اپنی خواہش پوری کر لیتی ہیں ۔جب کہ اس کا کال و جود ایک باریک انگلی سے زیادہ نہیں ہے۔

پس با برکت ہے وہ ذات اقدس جس کے سامنے زمین و آسمان کی تمام مخلوقات بر غبت یا بجزز و اکراہ سر بسجود رہتی ہے۔اور اس کے لئے چہرہ اور رخسار کو خاک پر رکھے ہوئے ہیں اورعجزو انکسار کے ساتھ اس کی بارگاہ میں سراپا اطاعت ہیں اورخوف و دہشت سے اپنی زمام اختیار اس کے حوالہ کئے ہوئے ہیں۔پرندہ اس کے امر کے تابع ہیں کہوہ ان کے پروں

۳۴۹

والنَّفَسِ - وأَرْسَى قَوَائِمَهَا عَلَى النَّدَى والْيَبَسِ - وقَدَّرَ أَقْوَاتَهَا وأَحْصَى أَجْنَاسَهَا - فَهَذَا غُرَابٌ وهَذَا عُقَابٌ - وهَذَا حَمَامٌ وهَذَا نَعَامٌ - دَعَا كُلَّ طَائِرٍ بِاسْمِه وكَفَلَ لَه بِرِزْقِه - وأَنْشَأَ السَّحَابَ الثِّقَالَ فَأَهْطَلَ دِيَمَهَا - وعَدَّدَ قِسَمَهَا فَبَلَّ الأَرْضَ بَعْدَ جُفُوفِهَا - وأَخْرَجَ نَبْتَهَا بَعْدَ جُدُوبِهَا

(۱۸۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في التوحيد وتجمع هذه الخطبة من أصول العلم ما لا تجمعه خطبة

مَا وَحَّدَه مَنْ كَيَّفَه ولَا حَقِيقَتَه أَصَابَ مَنْ مَثَّلَه - ولَا إِيَّاه عَنَى مَنْ شَبَّهَه - ولَا صَمَدَه مَنْ أَشَارَ إِلَيْه وتَوَهَّمَه - كُلُّ مَعْرُوفٍ بِنَفْسِه مَصْنُوعٌ وكُلُّ قَائِمٍ فِي سِوَاه مَعْلُولٌ - فَاعِلٌ لَا بِاضْطِرَابِ آلَةٍ مُقَدِّرٌ لَا بِجَوْلِ فِكْرَةٍ

اور سانسوں کاشمار رکھتا ہے اور ان کے پروں کو تری یا خشکی میں جمادیا ہے۔انکاقوت مقدر کردیا ہے اوران کی جنس کا احصارکرلیا ہے کہ یہ کو ا ہے۔وہ عقاب ہے ۔یہ کبوتر ہے۔وہ شترمرغ ہے۔ہر پرندہ کواس کے نام سے عالم وجود میں دعوت دی ہے اور ہر ایک کی روزی کی کفالت کی ہے ۔سنگین قسم کے بادل پیداکئے توان سے موسلا دھار پانی برسا دیا اور اس کے تقسیمات کاحساب بھی رکھا۔زمین کو خشکی کے بعد تر کردیا اور اس کے نباتات کو بنجر ہوجانے کے بعد دوبارہ اگا دیا۔

(۱۸۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(توحید کے بارے میں اور اس میں وہ تمام علمی مطالب پائے جاتے ہیں جو کسی دوسرے خطبہ میں نہیں ہیں)

وہ اس کی توحید کا قائل نہیں ہے جسنے اس کے لئے کیفیات کا تصور پیدا کرلیا اوروہ اس کی حقیقت سے نا آشنا ہے جس نے اس کی تمثیل قراردے دی۔اس نے اس کا قصد ہی نہیں کیا جس نے اس کی شبیہ بنادی اور وہاس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوا جس نے اس کی طرف اشارہ کردیا یا اسے تصور کا پابند بنادینا چاہا۔جو اپنی ذات سے پہچانا جائے وہ مخلوق ہے اور جودسورے کے سہارے قائم ہو وہ اس علت کا متحا ج ہے۔پروردگار غافل ہے لیکن اعضاء کیحرکات سے نہیں اور انداز ے مقرر کرنے والا ہے لیکن فکر کی جولانیوں

۳۵۰

غَنِيٌّ لَا بِاسْتِفَادَةٍ - لَا تَصْحَبُه الأَوْقَاتُ ولَاتَرْفِدُه الأَدَوَاتُ - سَبَقَ الأَوْقَاتَ كَوْنُه - والْعَدَمَ وُجُودُه والِابْتِدَاءَ أَزَلُه بِتَشْعِيرِه الْمَشَاعِرَ عُرِفَ أَنْ لَا مَشْعَرَ لَه - وبِمُضَادَّتِه بَيْنَ الأُمُورِ عُرِفَ أَنْ لَا ضِدَّ لَه - وبِمُقَارَنَتِه بَيْنَ الأَشْيَاءِ عُرِفَ أَنْ لَا قَرِينَ لَه - ضَادَّ النُّورَ بِالظُّلْمَةِ والْوُضُوحَ بِالْبُهْمَةِ - والْجُمُودَ بِالْبَلَلِ والْحَرُورَ بِالصَّرَدِ - مُؤَلِّفٌ بَيْنَ مُتَعَادِيَاتِهَا مُقَارِنٌ بَيْنَ مُتَبَايِنَاتِهَا - مُقَرِّبٌ بَيْنَ مُتَبَاعِدَاتِهَا مُفَرِّقٌ بَيْنَ مُتَدَانِيَاتِهَا - لَا يُشْمَلُ بِحَدٍّ ولَا يُحْسَبُ بِعَدٍّ - وإِنَّمَا تَحُدُّ الأَدَوَاتُ أَنْفُسَهَا - وتُشِيرُ الآلَاتُ إِلَى نَظَائِرِهَا مَنَعَتْهَا مُنْذُ الْقِدْمَةَ وحَمَتْهَا قَدُ الأَزَلِيَّةَ - وجَنَّبَتْهَا لَوْلَا التَّكْمِلَةَ

سے نہیں وہ غنی ہے لیکن کسی سے کچھ لے کرنہیں۔زمانہ اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا اورآلات اسے سہارا نہیں دے سکتے۔اس کا وجودزمانہ سے پہلے ہے اور اس کا وجودعدم سے بھی سابق اور اس کی ازلیت ابتدا سے بھی مقدم ہے۔اس کے حواس(۱) کوایجاد کرنے سے اندازہ ہوا کہ وہ حواس سے بے نیاز ہے اور اس کے اشیاء کے درمیان ضدیت قراردینے سے معلوم ہوا کہ اس کی کوئی ضد نہیں ہے اوراس کے اشیاء میں مقارنت قرار دینے سے ثابت ہواکہ اس کا کوئی قرین اور ساتھی نہیں ہے۔اس نے نور کی ظلمت کی۔وضاحت کو ابہام کی خشکی کو تری کی اور گرمی کو سردی کی ضد قرار دیاہے۔وہ ایک دوسرے کی دشمن اشیاء کو جمع کرنے والا۔ایک دوسرے سے جدا گانہاشیاء کا ساتھ کردینے والا۔باہمی دوری رکھنے والوں کو قریب بنادینے والا اورباہمی قربت کے حامل امور کا جدا کردینے والا ہے۔وہ نہ کسی حد کے اندر آتا ہے اور نہ کسی حساب و شمارمیں آسکتا ہے کہ جسمانی قوتیں اپنی جیسی اشیاء ہی کو محدود کر سکتی ہیں اور آلات اپنے امثال ہی کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔ان اشیاء کو لفظ منذ ( کب ) نے قدیم ہونے سے روک دیا ہے اورحرف قد (ہوگیا) نے ازلیت سے الگ کردیا ہے اور لولا نے انہیں تکمیل سے جداکردیا ہے۔انہیں اشیاء

(۱)مالک کائنات نے تخلیق کائنات میں ایسے خصوصیات کو ودیعت کردیاہے جن کے ذریعہ اس کی عظمت کاب خوب اندازہ کیا جا سکتا ہے۔صرف اس نکتہ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جوش ے بھی کسی کی ایجاد کردہہوتی ہے اس کا اطلاق موجد کی ذات پرنہیں ہو سکتا ہے لہٰذا اگر اس نے حواس کو پیداکیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی ذات حواس سے بالا تر ہے اوراگر اس نے بعض اشیاء میں ہمرنگی اوربعض میں اخلاف پیدا کیا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کی ذات اقدس نہ کسی ہمرنگ ہے اورنہ کسی سے ضدیت کی حامل ہے ۔یہ ساری باتیں مخلوقات کے مقدرمیں لکھی گئی ہیں اور خالق کی ذات ان تمام باتوں سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے۔

۳۵۱

بِهَا تَجَلَّى صَانِعُهَا لِلْعُقُولِ - وبِهَا امْتَنَعَ عَنْ نَظَرِ الْعُيُونِ - ولَا يَجْرِي عَلَيْه السُّكُونُ والْحَرَكَةُ - وكَيْفَ يَجْرِي عَلَيْه مَا هُوَ أَجْرَاه - ويَعُودُ فِيه مَا هُوَ أَبْدَاه ويَحْدُثُ فِيه مَا هُوَ أَحْدَثَه - إِذاً لَتَفَاوَتَتْ ذَاتُه ولَتَجَزَّأَ كُنْهُه - ولَامْتَنَعَ مِنَ الأَزَلِ مَعْنَاه - ولَكَانَ لَه وَرَاءٌ إِذْ وُجِدَ لَه أَمَامٌ - ولَالْتَمَسَ التَّمَامَ إِذْ لَزِمَه النُّقْصَانُ - وإِذاً لَقَامَتْ آيَةُ الْمَصْنُوعِ فِيه - ولَتَحَوَّلَ دَلِيلًا بَعْدَ أَنْ كَانَ مَدْلُولًا عَلَيْه - وخَرَجَ بِسُلْطَانِ الِامْتِنَاعِ - مِنْ أَنْ يُؤَثِّرَ فِيه مَا يُؤَثِّرُ فِي غَيْرِه الَّذِي لَا يَحُولُ ولَا يَزُولُ ولَا يَجُوزُ عَلَيْه الأُفُولُ - لَمْ يَلِدْ فَيَكُونَ مَوْلُوداً ولَمْ يُولَدْ فَيَصِيرَ مَحْدُوداً - جَلَّ عَنِ اتِّخَاذِ الأَبْنَاءِ، وطَهُرَ عَنْ مُلَامَسَةِ النِّسَاءِ - لَا تَنَالُه الأَوْهَامُ فَتُقَدِّرَه ولَا تَتَوَهَّمُه الْفِطَنُ فَتُصَوِّرَه - ولَا تُدْرِكُه الْحَوَاسُّ فَتُحِسَّه

کے ذریعہ بنانے والا عقلوں کے سامنے جلوہ گر ہوا ہے اور انہیں کے ذریعہ آنکھوں کی دید سے بری ہوگیا ہے۔اس پرحرکت و سکون کا قانون جاری نہیں ہوتا ہے کہ اس نے خود حرکت و سکون کے نظام کو جاری کیا ہے اورجس چیزکی ابتدا اس نے کی ہے وہ اس کی طرف کس طرح عائد ہو سکتی ہے یا جس کو اس نے ایجاد کیا ہے وہ اس کی ذات میں کس طرح شامل ہو سکتی ہے۔ایسا ہو جاتا تواس کی ذات بھی تغیر پذیر ہو جاتی اور اس کی حقیقت بھی قابل تجزیہ ہو جاتی اوراس کی معنویت بھی ازلیت سے الگ ہو جاتی اور اس کے یہاں بھی اگر سامنے کی جہت ہوتی تو پیچھے کی سمت بھی ہوتی اوروہ بھی کمال کا طلب گار ہوتا اگر اس میں نقص پیداہوجاتا۔اس میں مصنوعات کی علامت پیدا ہو جاتی اور وہ مدلول ہونے کے بعد خود بھی دوسرے کی طرف رہنمائی کرنے والا ہو جاتا۔وہ اپنے امتناع و تحفظ کی طاقت کی بناپ ر اس حد سے باہر نکل گیا ہے کہ کوئی ایسی شے اس پر اثر کرے جو دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس کے یہاں نہ تغیر ہے اور نہ زوال اورنہ اس کے آفتاب وجود کےلئے کوئی غروب ہے۔وہ نہ کسی کا باپ ہے کہ اس کا کوئی فرزند ہو اورنہ کسی کاف رزند ہے کہ محدود ہو کر رہ جائے ۔وہ اولاد بنانے سے بھی بے نیاز اور عورتوں کو ہاتھ لگانے سے بھی بلند و بالا ہے۔ادہام اسے پانہیں سکتے ہیں کہ اس کا اندازہ مقرر کریں اورہوش مندیاں اس کا تصور نہیں کر سکتی ہیں کہ اس کی تصویر بناسکیں ۔جو اس کا ادراک نہیں کر سکتے ہیں کہ اسے محسوس کر سکیں

۳۵۲

ولَا تَلْمِسُه الأَيْدِي فَتَمَسَّه - ولَا يَتَغَيَّرُ بِحَالٍ ولَا يَتَبَدَّلُ فِي الأَحْوَالِ - ولَا تُبْلِيه اللَّيَالِي والأَيَّامُ ولَا يُغَيِّرُه الضِّيَاءُ والظَّلَامُ ولَا يُوصَفُ بِشَيْءٍ مِنَ الأَجْزَاءِ - ولَا بِالْجَوَارِحِ والأَعْضَاءِ ولَا بِعَرَضٍ مِنَ الأَعْرَاضِ - ولَا بِالْغَيْرِيَّةِ والأَبْعَاضِ - ولَا يُقَالُ لَه حَدٌّ ولَا نِهَايَةٌ ولَا انْقِطَاعٌ ولَا غَايَةٌ - ولَا أَنَّ الأَشْيَاءَ تَحْوِيه فَتُقِلَّه أَوْ تُهْوِيَه - أَوْ أَنَّ شَيْئاً يَحْمِلُه فَيُمِيلَه أَوْ يُعَدِّلَه - لَيْسَ فِي الأَشْيَاءِ بِوَالِجٍ ولَا عَنْهَا بِخَارِجٍ - يُخْبِرُ لَا بِلِسَانٍ ولَهَوَاتٍ - ويَسْمَعُ لَا بِخُرُوقٍ وأَدَوَاتٍ يَقُولُ ولَا يَلْفِظُ - ويَحْفَظُ ولَا يَتَحَفَّظُ ويُرِيدُ ولَا يُضْمِرُ - يُحِبُّ ويَرْضَى مِنْ غَيْرِ رِقَّةٍ - ويُبْغِضُ ويَغْضَبُ مِنْ غَيْرِ مَشَقَّةٍ - يَقُولُ لِمَنْ أَرَادَ كَوْنَه كُنْ فَيَكُونُ - لَا بِصَوْتٍ يَقْرَعُ ولَا بِنِدَاءٍ يُسْمَعُ - وإِنَّمَا كَلَامُه سُبْحَانَه فِعْلٌ مِنْه أَنْشَأَه ومَثَّلَه - لَمْ يَكُنْ مِنْ قَبْلِ ذَلِكَ كَائِناً - ولَوْ كَانَ قَدِيماً لَكَانَ إِلَهاً ثَانِياً.

اور ہاتھ اسے چھو نہیں سکتے ہیں کہ مس کرلیں۔ وہ کسی حال میں متغیر نہیں ہوتا ہے اور مختلف حالات میں بدلتا بھی نہیں ہے۔شب و روز اسے پرانا نہیں کر سکتے ہیں اورتاریکی و روشنی اس میں تغیر نہیں پیدا کر سکتی ہے۔وہ نہ اجزاء سے موصوف ہوتا ہے اورنہ جوارح و اعضاء سے ۔نہ کسی عرض سے متصف ہوتا ے اور نہ غیریت اور جزئیت سے۔اس کے لئے نہحداور انتہا کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور نہ اختتام اور زوال کا۔نہ اشیاء اس پر حاوی ہیں کہ جب چاہیں پست کردیں یا بلند کردیں اور نہ کوئی چیز اسے اٹھائے ہوئے ہے کہ جب چاہے سیدھا کردے یا موڑ دے۔وہ نہ اشیا کے اندرداخل ہے اور نہان سے خارج ہے۔وہ کلام کرتا ہے مگر زبان اورتالو کے سہارے نہیں اور سنتاہے لیکن کان کے سوراخ اور آلات کے ذریعہ نہیں۔بولتا ہے لیکن تلفظ سے نہیں اور ہر چیز کو یاد رکھتا ہے لیکن حافظہ کے سہارے نہیں۔ارادہ کرتا ہے لیکن دل سے نہیں۔اور محبت و رضا رکھتا ہے لیکن نرمی قلب کے وسیلہ سے نہیں۔اور بغض و غضب بھی رکھتا ہے لیکن غم و غصہ کی تکلیف سے نہیں ۔ جس چیز کوایجاد کرنا چاہتا ہے اس سے کن کہہ دیتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے۔نہ کوئی آواز کانوں سے ٹکراتی ہے اور نہ کوئی ندا سنائی دیتی ہے۔اس کا کلام درحقیقت اس کا فعل ہے جس کو اس نے ایجاد کیا ہے اور اس کے پہلیسے ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے ورنہ وہ بھی قدیم اوردوسرا خدا ہو جاتا ۔

۳۵۳

لَا يُقَالُ كَانَ بَعْدَ أَنْ لَمْ يَكُنْ - فَتَجْرِيَ عَلَيْه الصِّفَاتُ الْمُحْدَثَاتُ - ولَا يَكُونُ بَيْنَهَا وبَيْنَه فَصْلٌ - ولَا لَه عَلَيْهَا فَضْلٌ فَيَسْتَوِيَ الصَّانِعُ والْمَصْنُوعُ - ويَتَكَافَأَ الْمُبْتَدَعُ والْبَدِيعُ - خَلَقَ الْخَلَائِقَ عَلَى غَيْرِ مِثَالٍ خَلَا مِنْ غَيْرِه - ولَمْ يَسْتَعِنْ عَلَى خَلْقِهَا بِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِه - وأَنْشَأَ الأَرْضَ فَأَمْسَكَهَا مِنْ غَيْرِ اشْتِغَالٍ - وأَرْسَاهَا عَلَى غَيْرِ قَرَارٍ وأَقَامَهَا بِغَيْرِ قَوَائِمَ، ورَفَعَهَا بِغَيْرِ دَعَائِمَ - وحَصَّنَهَا مِنَ الأَوَدِ والِاعْوِجَاجِ - ومَنَعَهَا مِنَ التَّهَافُتِ والِانْفِرَاجِ - أَرْسَى أَوْتَادَهَا وضَرَبَ أَسْدَادَهَا - واسْتَفَاضَ عُيُونَهَا وخَدَّ أَوْدِيَتَهَا - فَلَمْ يَهِنْ مَا بَنَاه ولَا ضَعُفَ مَا قَوَّاه هُوَ الظَّاهِرُ عَلَيْهَا بِسُلْطَانِه وعَظَمَتِه - وهُوَ الْبَاطِنُ لَهَا بِعِلْمِه ومَعْرِفَتِه - والْعَالِي عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مِنْهَا بِجَلَالِه وعِزَّتِه - لَا يُعْجِزُه شَيْءٌ مِنْهَا طَلَبَه - ولَا يَمْتَنِعُ عَلَيْه فَيَغْلِبَه

اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ عدم سے وجود میں آیا ہے کہ اس پر حادث(۱) صفات کا اطلاق ہو جائے اور دونوں میں نہ کوئی فاصلہ رہ جائے اور نہ اس کا حوادث پر کوئی فضل رہ جائے اور پھر صانع و مصنوع دونوں برابر ہو جائیں اورمصنوع صنعت کے مثل ہو جائے۔اس نے مخلوقات کو بغیر کسی دوسرے کے چھوڑ دے ہوئے نمونہ کے بنایا ہے اور اس تخلیق میں کسی سے مدد بھی نہیں لی ہے۔زمین کو ایجاد کیا اور اس میں الجھے بغیر اسے روک کر رکھا اورپھربغیرکسی سہارے کے گاڑ دیا اور بغیر کسی ستون کے قائم کردیا اوربغیرکھمبوں کے بلند بھی کردیا۔اسے ہر طرح کی کجی اور ٹیڑھے پن سے محفوظ رکھا اورہر قسم کے شگاف اورانتشار سے بچائے رکھا۔اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اورچٹانوں کو مضبوطی سے نصب کردیا۔چشمے جاری کردئیے اور پانی کی گزر گاہوں کو شگافتہ کردیا۔اس کی کوئی صنعت کمزور نہیں ہے اور اس نے جس کو قوت دے دی ہے وہ ضعیف نہیں ہے۔وہ ہر شے پراپنی عظمت و سلطنت کی بناپرغالب ہے۔اور اپنے علم و عرفان کی بنا پر اندر تک کی خبر رکھتا ہے ۔جلال و عزت کی بنا پر ہر شے سے بلند و بالا ہے اور اگر کسی شے کو طلب کرنا چاہے تو کوئی شے اسے عاجز نہیں کر سکتی ہے اور اس سے انکارنہیں کر سکتی ہے اوراس سے انکار نہیں کرسکتی ہے کہ اس پر غالب آجائے ۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پروردگار کا عرفان اس کے صفات و کمالات ہی سے ہوتا ہے اور اسکی ذات اقدس بھی مختلف صفات سے متصف ہے لیکن بات صرف یہ ہے کہ اس کے صفات حادث نہیں ہیں۔بلکہ عین ذات ہیں اور ایک ذات اقدس ہے جس سے اس کے تمام صفات کا اندازہ ہوتا ہے اور اس میں کسی طرح کے تعدد کا کوئی امکان نہیں ہے۔

۳۵۴

ولَا يَفُوتُه السَّرِيعُ مِنْهَا فَيَسْبِقَه - ولَا يَحْتَاجُ إِلَى ذِي مَالٍ فَيَرْزُقَه - خَضَعَتِ الأَشْيَاءُ لَه وذَلَّتْ مُسْتَكِينَةً لِعَظَمَتِه - لَا تَسْتَطِيعُ الْهَرَبَ مِنْ سُلْطَانِه إِلَى غَيْرِه - فَتَمْتَنِعَ مِنْ نَفْعِه وضَرِّه - ولَا كُفْءَ لَه فَيُكَافِئَه - ولَا نَظِيرَ لَه فَيُسَاوِيَه - هُوَ الْمُفْنِي لَهَا بَعْدَ وُجُودِهَا - حَتَّى يَصِيرَ مَوْجُودُهَا كَمَفْقُودِهَا.

ولَيْسَ فَنَاءُ الدُّنْيَا بَعْدَ ابْتِدَاعِهَا - بِأَعْجَبَ مِنْ إِنْشَائِهَا واخْتِرَاعِهَا - وكَيْفَ ولَوِ اجْتَمَعَ جَمِيعُ حَيَوَانِهَا مِنْ طَيْرِهَا وبَهَائِمِهَا - ومَا كَانَ مِنْ مُرَاحِهَا وسَائِمِهَا - وأَصْنَافِ أَسْنَاخِهَا وأَجْنَاسِهَا - ومُتَبَلِّدَةِ أُمَمِهَا وأَكْيَاسِهَا - عَلَى إِحْدَاثِ بَعُوضَةٍ مَا قَدَرَتْ عَلَى إِحْدَاثِهَا - ولَا عَرَفَتْ كَيْفَ السَّبِيلُ إِلَى إِيجَادِهَا - ولَتَحَيَّرَتْ عُقُولُهَا فِي عِلْمِ ذَلِكَ وتَاهَتْ - وعَجَزَتْ قُوَاهَا وتَنَاهَتْ - ورَجَعَتْ خَاسِئَةً حَسِيرَةً - عَارِفَةً بِأَنَّهَا مَقْهُورَةٌ مُقِرَّةً بِالْعَجْزِ عَنْ إِنْشَائِهَا - مُذْعِنَةً بِالضَّعْفِ عَنْ إِفْنَائِهَا!

وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَعُودُ بَعْدَ فَنَاءِ الدُّنْيَا وَحْدَه لَا شَيْءَ مَعَه -

تیزی دکھلانے والے اس سے بچ کر آگے نہیں جا سکتے ہیں اوروہ کسی صاحب ثروت کی روزی کا محتاج نہیں ہے۔تمام اشیاء اس کی بارگاہ میں خضوع کرنے والی اور اس کی عظمت کے سامنے ذلیل ہیں۔کوئی چیز اس کی سلطنت سے فرار کرکے دوسرے کی طرف ہیں جا سکتی ہے کہ اس کے نفع و نقصان سے محفوظ ہو جائے نہ اس کا کوئی کفو ہے کہ ہمسری کرے اور نہ کوئی مثل ہے کہ برابر ہوجائے۔وہ ہر شے کو وجود کے بعد فناکرنے والا ہے کہ ایک دن پھرمفقود ہو جائے اور اس کے لئے دنیا کا فنا کردینا اس سے زیادہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ جب اس نے اس کی اختراع و ایجادکی تھی اور بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ صورت حال یہ ہے کہ اگر تم حیوانات پرندہ اورچرندہ۔رات کو منزل پر واپس آنے والے اور چراگاہوں میں رہ جانے والے۔طرح طرح کے انواع و اقسام والے اور تمام انسان غبی اورہوشمند سب ملکرایک مچھر کو ایجاد کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے ہیں اور نہ انہیں یہ اندازہ ہو گا کہ اس کی ایجاد کا طریقہ اور راستہ کیا ہے بلکہ ان کی عقلیں اسی راہ میں گم ہو جائیں گی اور ان کی طاقتیں جواب دے جائیں گی اور عاجز و درماندہ ہو کر میدان عمل سے واپس آجائیں گی اور انہیں محسوس ہو جائے گا کہ ان پر کسی غلبہ ہے اور انہیں اپنی عاجزی کا قرار بھی ہوگا اور انہیں فنا کردینے کے بارے میں بھی کمزوری کا اعتراف ہوگا۔

وہ خدائے پاک و پاکیزہ ہی ہے جو دنیا کے فنا ہو جانے کے بعد بھی رہنے والا ہے اور اس کے ساتھ رہنے والا کوئی

۳۵۵

كَمَا كَانَ قَبْلَ ابْتِدَائِهَا كَذَلِكَ يَكُونُ بَعْدَ فَنَائِهَا - بِلَا وَقْتٍ ولَا مَكَانٍ ولَا حِينٍ ولَا زَمَانٍ - عُدِمَتْ عِنْدَ ذَلِكَ الآجَالُ والأَوْقَاتُ - وزَالَتِ السِّنُونَ والسَّاعَاتُ - فَلَا شَيْءَ( إِلَّا الله الْواحِدُ الْقَهَّارُ ) - الَّذِي إِلَيْه مَصِيرُ جَمِيعِ الأُمُورِ - بِلَا قُدْرَةٍ مِنْهَا كَانَ ابْتِدَاءُ خَلْقِهَا - وبِغَيْرِ امْتِنَاعٍ مِنْهَا كَانَ فَنَاؤُهَا - ولَوْ قَدَرَتْ عَلَى الِامْتِنَاعِ لَدَامَ بَقَاؤُهَا - لَمْ يَتَكَاءَدْه صُنْعُ شَيْءٍ مِنْهَا إِذْ صَنَعَه - ولَمْ يَؤُدْه مِنْهَا خَلْقُ مَا خَلَقَه وبَرَأَه - ولَمْ يُكَوِّنْهَا لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ - ولَا لِخَوْفٍ مِنْ زَوَالٍ ونُقْصَانٍ - ولَا لِلِاسْتِعَانَةِ بِهَا عَلَى نِدٍّ مُكَاثِرٍ - ولَا لِلِاحْتِرَازِ بِهَا مِنْ ضِدٍّ مُثَاوِرٍ - ولَا لِلِازْدِيَادِ بِهَا فِي مُلْكِه - ولَا لِمُكَاثَرَةِ شَرِيكٍ فِي شِرْكِه - ولَا لِوَحْشَةٍ كَانَتْ مِنْه - فَأَرَادَ أَنْ يَسْتَأْنِسَ إِلَيْهَا.

ثُمَّ هُوَ يُفْنِيهَا بَعْدَ تَكْوِينِهَا - لَا لِسَأَمٍ دَخَلَ عَلَيْه فِي تَصْرِيفِهَا وتَدْبِيرِهَا - ولَا لِرَاحَةٍ وَاصِلَةٍ إِلَيْه - ولَا لِثِقَلِ شَيْءٍ مِنْهَا عَلَيْه

نہیں ہے جیسا کہ ابتدا میں بھی ایسا ہی تھا اور انتہاء میں بھی ایسا ہی ہونے والا ہے۔اس کے لئے نہ وقت ہے نہ مکان۔نہ ساعت ہے نہ زمان، اس وقت مدت اور وقت سب فناہو جائیں گے اور ساعت و سال سب کاخاتمہ ہو جائے گا۔اس خداء واحد و قہار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔اسی کی طرف تمام امور کی باز گشت ہے اور کسی شے کو بھی اپنی ایجاد سے پہلے اپنی تخلیق کا یارانہ تھا اور نہفنا ہوتے وقت انکار کرنے کا دم ہوگا۔اگراتنی ہی طاقت ہوتی تو ہمیشہ نہ رہ جاتے۔اس مالک کو کسی شے کے بنانے میں کسی زحمتکا سامنا نہیں کرنا پڑا اور اسے کسی شے کی تخلیق و ایجاد تھکا بھی نہیں سکی۔اس نے اس کائات کو نہاپنی حکومت کے استحکام(۱) کے لئے بنایا ہے اور نہ کسی زوال اور نقصان کے خوف سے بچنے کے لئے۔نہ اسے کسی مد مقابل کے مقابلہ میں مدد کی ضرورت تھی اور نہ وہ کسی حملہ آور دشمن سے بچنا چاہتا تھا۔اس کا مقصد اپنے ملک میں کوئی اضافہ تھا اور نہ کسی شریک کے سامنے اپنی کثرت کا اظہارتھا اور نہ تنہائی کی وحشت سے انس حاصل کرنا تھا۔

اس کے بعد وہ اس کائنات کو فنا کردے گا۔نہ اس لئے کہ اس کی تدبیر اور اس کے تصرفات سے عاجز آگیا ہے اور نہ اس لئے کہ اب آرام کرناچاہتا ہے یا اس پر کسی خاص چیز کا بوجھ پڑ رہا ہے۔

(۱)چونکہ دنیا میں ایجادات اورحکومات کا فلسفہ یہی ہوتا ہے کہ کوئی ایجادات کے ذریعہ حکومت کا استحکام چاہتا ہے اور کوئی حکومت کے ریعہ خطرات کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔اس لئے بہت ممکن تھاکہ بعض جاہل افراد مالک کائنات کی تخلیق اور اس کی حکومت کے بارے میں بھی اسی طرح کا خیال قائم کر لیتے ۔

حضرت نے یہ چاہا کہ اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا جائے اور اس حقیقت کو بے نقاب کردیا جائے کہ خالق و مخلوق میں بے پناہ فرق ہے اور کسی بھی مخلوق کا قایس خالق پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔مخلوق کا مزاج احتیاج ہے اورخالق کا کمال بے نیازی ہے لہٰذا دنوں کے بارے میں ایک طرح کے تصورات نہیں قائم کئے جا سکتے ہیں۔

۳۵۶

لَا يُمِلُّه طُولُ بَقَائِهَا فَيَدْعُوَه إِلَى سُرْعَةِ إِفْنَائِهَا - ولَكِنَّه سُبْحَانَه دَبَّرَهَا بِلُطْفِه - وأَمْسَكَهَا بِأَمْرِه وأَتْقَنَهَا بِقُدْرَتِه - ثُمَّ يُعِيدُهَا بَعْدَ الْفَنَاءِ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ مِنْه إِلَيْهَا - ولَا اسْتِعَانَةٍ بِشَيْءٍ مِنْهَا عَلَيْهَا - ولَا لِانْصِرَافٍ مِنْ حَالِ وَحْشَةٍ إِلَى حَالِ اسْتِئْنَاسٍ - ولَا مِنْ حَالِ جَهْلٍ وعَمًى إِلَى حَالِ عِلْمٍ والْتِمَاسٍ - ولَا مِنْ فَقْرٍ وحَاجَةٍ إِلَى غِنًى وكَثْرَةٍ - ولَا مِنْ ذُلٍّ وضَعَةٍ إِلَى عِزٍّ وقُدْرَةٍ.

(۱۸۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في ذكر الملاحم

أَلَا بِأَبِي وأُمِّي هُمْ مِنْ عِدَّةٍ - أَسْمَاؤُهُمْ فِي السَّمَاءِ مَعْرُوفَةٌ وفِي الأَرْضِ مَجْهُولَةٌ - أَلَا فَتَوَقَّعُوا مَا يَكُونُ مِنْ إِدْبَارِ أُمُورِكُمْ - وانْقِطَاعِ وُصَلِكُمْ واسْتِعْمَالِ صِغَارِكُمْ - ذَاكَ حَيْثُ تَكُونُ ضَرْبَةُ السَّيْفِ عَلَى الْمُؤْمِنِ - أَهْوَنَ مِنَ الدِّرْهَمِ مِنْ حِلِّه - ذَاكَ حَيْثُ يَكُونُ الْمُعْطَى أَعْظَمَ أَجْراً مِنَ الْمُعْطِي - ذَاكَ حَيْثُ تَسْكَرُونَ مِنْ غَيْرِ شَرَابٍ - بَلْ مِنَ النِّعْمَةِ والنَّعِيمِ - وتَحْلِفُونَ مِنْ غَيْرِ اضْطِرَارٍ - وتَكْذِبُونَ مِنْ غَيْرِ إِحْرَاجٍ - ذَاكَ إِذَا عَضَّكُمُ الْبَلَاءُ كَمَا يَعَضُّ الْقَتَبُ غَارِبَ الْبَعِيرِ

یا طول بقائے کائنات نے اسے تھکا دیا ہے تو اب اسے مٹا دینا چاہتا ہے۔ایسا کچھ نہیں ہے۔اس نے اپنے لطف سے اس کی تدبیر کی ہے اور اپنے امر سے اسے روک رکھا ہے۔اپنی قدرت سے اسے مستحکم بنایا ہے اور پھر فنا کرنے کے بعد دوبارہ ایجاد کردے گا حالانکہ اس وقت بھی نہ اسے کسی شے کی ضرورت ہے اور نہ کسی سے مدد لینا ہوگی۔نہ وحشت سے انس کی طرف منتقل ہونا ہوگا اور نہ جہالت اورتاریکی سے علم اورتجریہ کی طرف آنا ہوگا نہ فقرو احتیاج سے مالداری اور کثرت کی تلاش ہوگی اور نہ ذلت و کمزوری سے عزت اور قدرت کی جستجو ہوگی۔

(۱۸۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں حوادث روز گار کا ذکر کیا گیا ہے )

میرے ماں باپ ان چند افراد پر قربان ہو جائیں جن کے نام آسمان میں معروف ہیں اور زمین میں مجہول ۔آگاہ ہو جائو اور اس وقت کا انتظار کرو جب تمہارے امور الٹ جائیں گے اور تعلقات ٹوٹ جائیں گے اوربچوں کے ہاتھ میں اقتدار آجائے گا یہ وہ وقت ہوگا جب ایک درہم کے حلالا کے ذریعہ حاصل کرنے سے آسان تر تلوار کا زخم ہوگا اور لینے والے فقیر کا اجر دینے والے مالدار سے زیادہ ہوگا۔

تم بغیر کسی شراب کے نعمتوں کے نشہ میں سر مست ہو گے اور بغیر کسی مجبوری کے قسم کھائو گے اور بغیر کسی ضرورت کے جھوٹ بولو گے اوریہی وہ وقت ہوگا جب بلائیں تمہیں اس طرح کاٹ کھائیں گی جس طرح اونٹ کی

۳۵۷

مَا أَطْوَلَ هَذَا الْعَنَاءَ وأَبْعَدَ هَذَا الرَّجَاءَ.

أَيُّهَا النَّاسُ أَلْقُوا هَذِه الأَزِمَّةَ - الَّتِي تَحْمِلُ ظُهُورُهَا الأَثْقَالَ مِنْ أَيْدِيكُمْ - ولَا تَصَدَّعُوا عَلَى سُلْطَانِكُمْ فَتَذُمُّوا غِبَّ فِعَالِكُمْ - ولَا تَقْتَحِمُوا مَا اسْتَقْبَلْتُمْ مِنْ فَوْرِ نَارِ الْفِتْنَةِ - وأَمِيطُوا عَنْ سَنَنِهَا وخَلُّوا قَصْدَ السَّبِيلِ لَهَا - فَقَدْ لَعَمْرِي يَهْلِكُ فِي لَهَبِهَا الْمُؤْمِنُ - ويَسْلَمُ فِيهَا غَيْرُ الْمُسْلِمِ.إِنَّمَا مَثَلِي بَيْنَكُمْ كَمَثَلِ السِّرَاجِ فِي الظُّلْمَةِ - يَسْتَضِيءُ بِه مَنْ وَلَجَهَا - فَاسْمَعُوا أَيُّهَا النَّاسُ - وعُوا وأَحْضِرُوا آذَانَ قُلُوبِكُمْ تَفْهَمُوا.

(۱۸۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الوصية بأمور

التقوى

أُوصِيكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ بِتَقْوَى اللَّه - وكَثْرَةِ حَمْدِه عَلَى آلَائِه إِلَيْكُمْ - ونَعْمَائِه عَلَيْكُمْ وبَلَائِه لَدَيْكُمْ - فَكَمْ خَصَّكُمْ بِنِعْمَةٍ وتَدَارَكَكُمْ بِرَحْمَةٍ

پیٹھ کو پالان۔ہائے یہ رنج والم کس قدر طویل ہوگا اور اس سے نجات کی امید کس قدردور تر ہوگی۔ لوگو! ان سواریوں کی باگ ڈور اتار کر پھینک دو جن کی پشت پر تمہارے ہی ہاتھوں گناہوں کا بوجھ ہے اور اپنے حاکم سے اختلاف نہ کرو کہ بعد میں اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔وہ آگ کے شعلے جو تمہارے سامنے ہیں ان میں کود نہ پڑو۔انکی راہسے الگ ہو کرچلو اور راستہ کو ان کے لئے خالی کردو کہ میری جان کی قسم اس فتنہ کی آگ میں مومن ہلاک ہو جائے گا اورغیر مسلم محفوظ رہے گا۔

میری مثال تمہارے درمیان اندھیرے میں چراغ(۱) جیسی ہے کہ جواس میں داخل ہو جائے گا وہ روشنی حاصل کرلے گا۔لہٰذا خدارا میری بات سنو اور سمجھو۔اپنے دلوں کے کانوں کو میری طرف مصروف کرو تاکہ بات سمجھ سکو۔

(۱۸۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(مختلف امور کی وصیت کرتے ہوئے )

ایہا الناس ! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں تقویٰ الٰہی اورنعمتوں ' احسانات اور فضل و کرم پر شکر خدا ادا کرنے کی دیکھو کتنی نعمتیں ہیں جو اس نے تمہیں عنایت کی ہیں اور کتنی برائیوں کی مکافات سے اپنی رحمت کے

(۱) جس طرح مالک نے رسول اکرم (ص) کو جاہلیت کے اندھیرے میں سراج منیر بناکربھیجا تھا اسی طرح فتنوں کے اندھیروں میں مولائے کائنات کی ذات ایکروشن چراغ کی ہے کہ اگر انسان اس چراغ کی روشنی میں زندگی گزارے تو کوئی فتنہ اس پر اثر اناز نہیں ہوسکتا ہے اور کسی اندھیر ے میں اس کے بھٹکنے کا امکان نہیں ہے۔لیکن شرط یہی ہے کہ اس چراغ کی روشنی میں قدم آگے بڑھائے ورنہ اگر اس نے آنکھیں بند کرلیں اوراندھے پن کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا رہا تو چراغ روشن رہے گا اور انسان گمراہ ہو جائے گا جس کی طرف ان کلمات کے ذریعہ اشارہ کیا گیا ہے کہ خدارا میری بات سنو اور سمجھو کہ اس کے بغیر ہدایت کا کوئی امکان نہیں ہے اور گمراہی کا خطرہ ہرگز نہیں ٹل سکتا ہے۔

۳۵۸

أَعْوَرْتُمْ لَه فَسَتَرَكُمْ وتَعَرَّضْتُمْ لأَخْذِه فَأَمْهَلَكُمْ!

الموت

وأُوصِيكُمْ بِذِكْرِ الْمَوْتِ وإِقْلَالِ الْغَفْلَةِ عَنْه - وكَيْفَ غَفْلَتُكُمْ عَمَّا لَيْسَ يُغْفِلُكُمْ - وطَمَعُكُمْ فِيمَنْ لَيْسَ يُمْهِلُكُمْ - فَكَفَى وَاعِظاً بِمَوْتَى عَايَنْتُمُوهُمْ - حُمِلُوا إِلَى قُبُورِهِمْ غَيْرَ رَاكِبينَ - وأُنْزِلُوا فِيهَا غَيْرَ نَازِلِينَ - فَكَأَنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا لِلدُّنْيَا عُمَّاراً - وكَأَنَّ الآخِرَةَ لَمْ تَزَلْ لَهُمْ دَاراً - أَوْحَشُوا مَا كَانُوا يُوطِنُونَ - وأَوْطَنُوا مَا كَانُوا يُوحِشُونَ - واشْتَغَلُوا بِمَا فَارَقُوا - وأَضَاعُوا مَا إِلَيْه انْتَقَلُوا – لَا عَنْ قَبِيحٍ يَسْتَطِيعُونَ انْتِقَالًا - ولَا فِي حَسَنٍ يَسْتَطِيعُونَ ازْدِيَاداً - أَنِسُوا بِالدُّنْيَا فَغَرَّتْهُمْ - ووَثِقُوا بِهَا فَصَرَعَتْهُمْ.

سرعة النفاد

فَسَابِقُوا رَحِمَكُمُ اللَّه إِلَى مَنَازِلِكُمُ - الَّتِي أُمِرْتُمْ أَنْ تَعْمُرُوهَا - والَّتِي رَغِبْتُمْ فِيهَا ودُعِيتُمْ إِلَيْهَا - واسْتَتِمُّوا نِعَمَ اللَّه عَلَيْكُمْ

ذریعہ بچالیا ہے۔تم نے کھل کر گناہ کے اور اس نے پردہ پوشی کی تم نے قابل مواخذہ اعمال انجام دئیے اور اس نے تمہیں مہلت دے دی۔

میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ موت کو یاد رکھو اور اس سے غفلت نہ برتو۔آخر اس سے کیسے غفلت کر رہے ہو جو تم سے غفلت کرنے والی نہیں ہے اور اس فرشتہ موت سے کیسے امید لگائے ہو جو ہرگز مہلت دینے والا نہیں ہے۔تمہاری نصیحت کے لئے وہمردے ہی کافی ہیں جنہیں تم دیکھ چکے ہو کہ کس طرح اپنی قبروں کی طرف بغیر سواری کے لے جائے گئے اور کس طرح قبر میں اتار دئیے گئے کہ خود سے اترنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی اس دنیا کو بسایا ہی نہیں تھا اورگویا کہ آخرت ہی ان کا ہمیشگی کا مکان ہے۔وہ جہاں آباد تھے اسے وحشت کدہ بنا گئے اور جس سے وحشت کھاتے تھے وہاں جا کر آباد ہوگئے۔یہ اس میں مشغول رہے تھے کو چھوڑنا پڑا اور اسے برباد کرتے رہے تھے جدھر جانا پڑ۔اب نہ کسی برائی سے بچ کر کہیں جا سکتے ہیں اورنہ کسی نیکی میں کوئی اضافہ کرسکتے ہیں۔دنیا سے انس پیدا کیا تو اس نے دھوکہ دے دیا اور اس پر اعتبارکرلیا تو اس نے تباہ و برباد کردیا۔

خداتم پر رحمت نازل کرے۔اب سے سبقت کرو ان منازل کی طرف جن کو آباد کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جن کی طرف سفرکرنے کی رغبت دلائی گئی ہے اور دعوت دی گئی ہے۔اللہ کی نعمتوں کی تکمیل کا انتظام کرو

۳۵۹

بِالصَّبْرِ عَلَى طَاعَتِه - والْمُجَانَبَةِ لِمَعْصِيَتِه - فَإِنَّ غَداً مِنَ الْيَوْمِ قَرِيبٌ - مَا أَسْرَعَ السَّاعَاتِ فِي الْيَوْمِ - وأَسْرَعَ الأَيَّامَ فِي الشَّهْرِ - وأَسْرَعَ الشُّهُورَ فِي السَّنَةِ - وأَسْرَعَ السِّنِينَ فِي الْعُمُرِ!

(۱۸۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الإيمان ووجوب الهجرة

أقسام الإيمان

فَمِنَ الإِيمَانِ مَا يَكُونُ ثَابِتاً مُسْتَقِرّاً فِي الْقُلُوبِ - ومِنْه مَا يَكُونُ عَوَارِيَّ بَيْنَ الْقُلُوبِ والصُّدُورِ - إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ - فَإِذَا كَانَتْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ مِنْ أَحَدٍ فَقِفُوه - حَتَّى يَحْضُرَه الْمَوْتُ - فَعِنْدَ ذَلِكَ يَقَعُ حَدُّ الْبَرَاءَةِ.

وجوب الهجرة

والْهِجْرَةُ قَائِمَةٌ عَلَى حَدِّهَا الأَوَّلِ - مَا كَانَ لِلَّه فِي أَهْلِ الأَرْضِ حَاجَةٌ مِنْ مُسْتَسِرِّ

اس کی اطاعت کے انجام دینے اور معصیتوں سے پرہیز کرنے پر صبر کے ذریعہ۔اس لئے کہ کل کا دن آج کے دن سے دور نہیں ہے۔دیکھو دن کی ساعتیں 'مہینہ کے دن ' سال کے مہینے اور زندگی کے سال کس تیزی سے گزر جاتے ہیں۔

(۱۸۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایمان اور وجوب ہجرت کے بارے میں )

ایمان(۱) کا ایک وہ حصہ ہے جودلوں میں ثابت اورمستحکم ہوتا ہے اور ایک وہ حصہ ہے جو دل اور سینے کے درمیان عارضی طور پر رہتا ہے لہٰذا اگر کسی سے برائت اور بیزاری بھی کرنا ہو تو اتنی دیر انتظار کرو کہ اسے موت آجائے کہ اس وقت بیزاری برمحل ہوگی۔

ہجرت(۲) کا قانون آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔اللہ کسی قوم کی متحاج نہیں ہے چاہے جو خفیہ طور پر

(۱)ایمان وہ عقیدہ ہے جو انسان کے دل کی گہرائیوں میں پایا جاتا ہے اورجس کا واقعی اظہار انسان کے عملاور کردار سے ہوتا ہے کہ عمل اور کردارکے بغیر ایمان صرف ایک دعویٰ رہتا ہے جسکی کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔

لیکن یہ ایمان بھی دو طرح کا ہوتا ہے۔کبھی انسانکے دل کی گہرائیوں میں یوں پیوست ہو جاتا ہے کہ زمانہ کے جھکڑ بھی اسے ہلاک نہیں سکتے ہیں اور کبھی حالات کی بنا پر تزتزل کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔حضرت نے اس دوسری قسم کے پیش نظر ارشاد فرمایا ہے کہ کسی انسان کی بد کرداری کی بنا پر برائت کرنا ہے تو اتنا انتظر کرلو کہ اسے موت آجائے تاکہ یہ یقین ہو جائے کہ ایمان اس کے دل کی گہرائیوں میں ثابت نہیں تھا ورنہ تو بہ و استغفار کرکے راہ راست پرآجاتا ۔

(۲)ہجرت کا واقعی مقصد جان کا بچانا نہیں بلکہ ایمان کا بچانا ہوتا ہے لہٰذا جب تک ایمان کے تحفظ کا انتظام نہ ہو جائے اس وقت تک ہجرت کاکوئی مفہوم نہیں ہے اور جب معرفت حجت کے ذریعہ ایمان کے تحفظ کا انتظام ہو جائے تو سمجھو کہ انسان مہاجر ہوگیا ' چاہے اس کا قیام کسی منزل پر کیوں نہ رہے۔

۳۶۰